Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

53۔ 1 یعنی اپنے گمان سے کہتے رہے کہ قیامت اور حساب کتاب نہیں۔ یا قرآن کے بارے میں کہتے رہے کہ یہ جادو، گھڑا ہوا جھوٹ اور پہلوں کی کہانیاں ہیں یا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں کہتے رہے کہ یہ جادوگر ہے، کاہن ہے، شاعر ہے مجنون ہے۔ جب کہ کسی بات کی بھی کوئی دلیل ان کے پاس نہیں تھی۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[ ٧٨] یعنی جب دنیا میں ان سے عالم آخرت کی بات کی جاتی تھی تو اس پر غور کرنے کے بجائے اسے دیوانگی پر محمول کرتے تھے۔ کبھی داعی حق کو مفتری علی اللہ کے لقب سے نوازتے تھے۔ کبھی کہتے تھے کہ اسے کوئی عجمی سکھلا جاتا ہے۔ کبھی اسے ساحر، کاہن اور شاعر کے طعنے دیتے تھے۔ ان دل کے اندھوں کو بصالت کے اندھیروں میں بہت دور کی سوجھتی تھی۔ لیکن نیک نیتی کے ساتھ غور و فکر کرنے کا نام تک نہ لیتے تھے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَّقَدْ كَفَرُوْا بِهٖ مِنْ قَبْلُ : یعنی اس سے پہلے جب ایمان لانے کا وقت تھا تو اس کے ساتھ کفر کرتے رہے۔- وَيَقْذِفُوْنَ بالْغَيْبِ مِنْ مَّكَانٍۢ بَعِيْدٍ : غیب سے مراد بِن دیکھے ہے۔ دور سے پتھر یا تیر پھینکا جائے، پھر ایسے نشانے پر پھینکا جائے جسے دیکھا ہی نہ ہو تو وہ پتھر یا تیر نشانے پر کیسے پہنچ سکتا ہے۔ یعنی یہ لوگ دنیا میں اللہ تعالیٰ کی توحید، اس کے رسول اور آخرت کے انکار پر اڑے رہے اور ان کے متعلق کچھ بھی جانے بغیر طرح طرح کی باتیں کرتے رہے، کبھی رسول کا مذاق اڑاتے، اسے مجنون، ساحر، کذّاب کہتے، کبھی اہل ایمان پر پھبتیاں کستے، کبھی موت کے بعد زندگی کو ناممکن قرار دیتے رہے۔ الغرض جو منہ میں آیا بےباکی اور بےخوفی سے بکتے رہتے اور انھیں اقرار بھی تھا کہ ہم جو کچھ کہہ رہے ہیں گمان کی بنا پر کہہ رہے ہیں، جیسا کہ فرمایا : (اِنْ نَّظُنُّ اِلَّا ظَنًّا وَّمَا نَحْنُ بِمُسْتَيْقِنِيْنَ ) [ الجاثیۃ : ٣٢ ] ” ہم تو محض معمولی سا گمان کرتے ہیں اور ہم ہرگز پورا یقین کرنے والے نہیں۔ “ حقیقت بھی یہی ہے کہ شرک، دہریت اور انکار آخرت کے عقائد کوئی شخص بھی یقین کی بنا پر اختیار نہیں کرتا اور نہ کرسکتا ہے۔ کفر کی پوری عمارت محض قیاس و گمان کی بنیاد پر ہے، علم و یقین پر نہیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

(آیت) وقد کفروا بہ من قبل ویقذنون بالغیب من مکان بعید، قذف کے معنی کوئی چیز پھینک کر مارنے کے آتے ہیں۔ عرب کا محاورہ ہے کہ جو شخص بلا دلیل محض اپنے خیال سے باتیں کرتا ہے اس کو رجم بالغیب اور قذف بالغیب کے الفاظ سے تعبیر کرتے ہیں، کہ یہ اندھیرے میں تیر چلاتے ہیں جس کا کوئی نشانہ نہیں ہوتا، اور یہاں من مکان بعید کے الفاظ سے مراد یہ ہے کہ وہ جو کچھ کہتے ہیں ان کے دلوں سے دور ہوتا ہے دل میں اس کا عقیدہ نہیں رکھتے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَّقَدْ كَفَرُوْا بِہٖ مِنْ قَبْلُ۝ ٠ ۚ وَيَقْذِفُوْنَ بِالْغَيْبِ مِنْ مَّكَانٍؚبَعِيْدٍ۝ ٥٣- كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔- قذف - الْقَذْفُ : الرّمي البعید، ولاعتبار البعد فيه قيل : منزل قَذَفٌ وقَذِيفٌ ، وبلدة قَذُوفٌ: بعیدة، وقوله : فَاقْذِفِيهِ فِي الْيَمِ [ طه 39] ، أي : اطرحيه فيه، وقال : وَقَذَفَ فِي قُلُوبِهِمُ الرُّعْبَ [ الأحزاب 26] ، بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَى الْباطِلِ [ الأنبیاء 18] ، يَقْذِفُ بِالْحَقِو عَلَّامُ الْغُيُوبِ [ سبأ 48] ، وَيُقْذَفُونَ مِنْ كُلِّ جانِبٍ دُحُوراً [ الصافات 8- 9] ، واستعیر القَذْفُ للشّتم والعیب کما استعیر الرّمي .- ( ق ذ ف ) القذف ( ض ) کے معنی دور پھیکنا کے ہیں پھر معنی بعد کے اعتبار سے دور دراز منزل کو منزل قذف وقذیف کہاجاتا ہے اسی طرح دور در ازشہر کو بلدۃ قذیفۃ بول لیتے ہیں ۔۔۔ اور آیت کریمہ : فَاقْذِفِيهِ فِي الْيَمِ [ طه 39] پھر اس ( صندوق ) کو دریا میں ڈال دو ۔ کے معنی دریا میں پھینک دینے کے ہیں ۔ نیز فرمایا : وَقَذَفَ فِي قُلُوبِهِمُ الرُّعْبَ [ الأحزاب 26] اور ان کے دلوں میں دہشت ڈال دی ۔ بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَى الْباطِلِ [ الأنبیاء 18] بلک ہم سچ کو جھوٹ پر کھینچ مارتے ہیں ۔ يَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَّامُ الْغُيُوبِ [ سبأ 48] وہ اپنے اوپر حق اتارتا ہے اور وہ غیب کی باتوں کا جاننے والا ہے ۔ وَيُقْذَفُونَ مِنْ كُلِّ جانِبٍ دُحُوراً [ الصافات 8- 9] اور ہر طرف سے ( ان پر انگارے ) پھینکے جاتے ہیں ( یعنی ) وہاں سے نکال دینے کو ۔ اور رمی کی طرح قذف کا لفظ بھی بطور استعارہ گالی دینے اور عیب لگانے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے - غيب - الغَيْبُ : مصدر غَابَتِ الشّمسُ وغیرها : إذا استترت عن العین، يقال : غَابَ عنّي كذا . قال تعالی: أَمْ كانَ مِنَ الْغائِبِينَ [ النمل 20]- ( غ ی ب ) الغیب ( ض )- غابت الشمس وغیر ھا کا مصدر ہے جس کے معنی کسی چیز کے نگاہوں سے اوجھل ہوجانے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے ۔ غاب عنی کذا فلاں چیز میری نگاہ سے اوجھل ہوئی ۔ قرآن میں ہے : أَمْ كانَ مِنَ الْغائِبِينَ [ النمل 20] کیا کہیں غائب ہوگیا ہے ۔ اور ہر وہ چیز جو انسان کے علم اور جو اس سے پودشیدہ ہو اس پر غیب کا لفظ بولا جاتا ہے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

حالانکہ دنیا میں بےتحقیق باتیں ہانک رہے تھے کہ جنت و دوزخ کچھ نہیں اور اب مرنے کے بعد پھر بلا تحقیق دنیا کی طرف واپسی کی درخواست کر رہے ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٥٣ وَّقَدْ کَفَرُوْا بِہٖ مِنْ قَبْلُ وَیَقْذِفُوْنَ بِالْغَیْبِ مِنْ مَّکَانٍ بَعِیْدٍ ” اور پہلے تو انہوں نے اس کا کفر کیا تھا ‘ اور وہ (اٹکل کے) تیر ُ تکے ّچلاتے رہے بن دیکھے دور کی جگہ سے۔ “- اپنی دنیا کی زندگی میں تو وہ اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارتے رہے۔ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں کبھی کہتے کہ یہ جھوٹ بول رہے ہیں ‘ کبھی کہتے ہیں کہ یہ شاعر ہیں اور یہ ان کا اپنا کلام ہے ‘ کبھی کہتے کہ انہوں نے گھر میں کوئی آدمی چھپا رکھا ہے جو انہیں یہ سب کچھ سکھاتا ہے۔ کبھی کہتے کہ ان پر ِجن آگیا ہے۔ بہر حال جب ان کے سوچنے اور ایمان لانے کا موقع تھا اس وقت تو وہ قرآن اور اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا انکار کرتے رہے اور ان کے بارے میں بغیر کسی علمی اور عقلی دلیل کے یا وہ گوئی کرتے رہے۔ اب جبکہ حساب کی گھڑی آن پہنچی ہے تو اب ان کے ایمان لانے کا کیا فائدہ ؟

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة سَبـَا حاشیہ نمبر :75 یعنی رسُول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اور تعلیمات رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اور اہل ایمان پر طرح طرح کے الزامات لگاتے ، آوازے کستے اور فقرے چست کرتے تھے ۔ کبھی کہتے یہ شخص ساحر ہے ۔ کبھی کہتے مجنون ہے ۔ کبھی توحید کا مذاق اڑاتے اور کبھی آخرت کے تخیل پر باتیں چھانٹتے ۔ کبھی یہ افسانہ تراشتے کہ رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو کوئی اور سکھاتا پڑھاتا ہے اور کبھی ایمان لانے والوں کے متعلق کہتے کہ یہ محض اپنی نادانی کی وجہ سے رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے پیچھے لگ گئے ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani