Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

54۔ 1 یعنی آخرت میں وہ چاہیں گے کہ ان کا ایمان قبول کرلیا جائے، عذاب سے ان کی نجات ہوجائے، لیکن ان کے درمیان اور ان کی اس خواہش کے درمیاں پردہ حائل کردیا گیا یعنی اس خواہش کو رد کردیا گیا۔ 54۔ 2 یعنی پچھلی امتوں کا ایمان بھی اس وقت قبول نہیں کیا گیا جب وہ عذاب کے آنے کے بعد ایمان لائیں۔ 54۔ 1 اس لیے اب معائنہ عذاب کے بعد ان کا ایمان بھی کسی طرح قبول ہوسکتا ہے ؟ حضرت قتادہ فرماتے ہیں ریب وشک سے بچو، جو شک کی حالت میں فوت ہوگا اسی حالت میں اٹھے گا اور جو یقین پر مرے گا، قیامت والے دن یقین پر ہی اٹھے گا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[ ٧٩] اس وقت ان کی خواہشات کیا ہوں گی۔ یہی کہ ہم ایمان لے آئیں یا ہمیں دوبارہ دنیا میں بھیج دیا جائے یا کوئی ایسی صورت بن جائے کہ ہم عذاب سے بچ سکیں یا ہمارے لئے کوئی سفارش کرنے والا یا ہمارا کوئی مددگار ہی اٹھ کھڑا ہو۔ اس دن ان کی اس قسم کی تمام خواہشات کو یوں ختم کرکے انہیں مایوس کردیا جائے گا جیسے ان کی خواہشات کے آگے بند باندھ کر انہیں ان سے یکسر اوجھل کردیا گیا ہے۔ پھر انہیں سوا عذاب بھگتنے کے کوئی دوسرا خیال بھی نہ آسکے گا۔- [ ٨٠] أشیاع شیعہ کی جمع ہے اور شیعہ کے معنی پارٹی یا سیاسی فرقہ ہے۔ جس کی بنیاد عقیدہ کا اختلاف ہو اور شیعہ کی جمع شیعا بھی آتی ہے۔ اور اشیاعجس اس کی جمع اشیاع آئے تو اس کے معنی ایک ہی جیسی عادات واطوار رکھنے والے لوگ ہوتے ہیں خواہ وہ پہلے گزر چکے ہوں یا موجود ہوں۔ اور قریش مکہ کی بنیادی گمراہیاں دو تھیں ایک بت پرستی اور اللہ سے شرک۔ اور اپنے بتوں کو اختیار و تصرف میں اللہ کا شریک سمجھنا دوسرے انکار آخرت۔ اب جو لوگ بھی ان دو قسم کی گمراہیوں میں قریش کے ہمنوا ہوں گے وہ سب قریش کے اشیاع ہیں۔ خواہ وہ قریش سے پہلے گزر چکے ہوں یا بعد میں آئیں۔ اللہ تعالیٰ یہ فرما رہے ہیں کہ اس قسم کے لوگوں کے ان عقائد کی بنیاد علم پر نہیں ہوتی۔ بلکہ محض شکوک و ظنون پر ہوتی ہے۔ وہ یہ کبھی بدلائل ثابت نہیں کرسکتے کہ ان کے معبود فی الواجہ اللہ کے اختیارات میں شریک ہیں نہ ہی وہ یہ ثابت کرسکتے ہیں کہ وہ دوبارہ پیدا نہیں کئے جاسکتے یا قیامت نہیں آسکتی۔ وہ خود بھی اس بارے میں ہمیشہ مشکوک ہی رہتے ہیں۔ اور شک بھی ایسا جو انہیں بےچین کئے رکھتا ہے۔ مگر وہ محض اپنے بعض مفادات کی خاطر اپنے ان شکوک کا برملا اظہار نہیں کرتے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَحِيْلَ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ مَا يَشْتَهُوْنَ ۔۔ : ” أَشْیَاعٌ“ ” شِیْعَۃٌ“ کی جمع ہے، ایک جیسے لوگوں کی جماعت۔ ” مَا يَشْتَهُوْنَ “ (جس کی وہ خواہش کریں گے) سے مراد توبہ اور ایمان لانا ہے۔ یعنی وہ آخرت میں چاہیں گے کہ ان کا ایمان قبول ہوجائے اور عذاب سے ان کی نجات ہوجائے، مگر ان کے درمیان اور ان کی خواہش کے درمیان رکاوٹ ڈال دی جائے گی۔ جیسا کہ ان سے پہلے توحید و رسالت اور آخرت کے منکرین کے ساتھ کیا گیا کہ عذاب دیکھنے کے بعد کسی کی توبہ قبول ہوئی نہ ایمان لانا معتبر ہوا، جیسا کہ فرمایا : (فَلَمْ يَكُ يَنْفَعُهُمْ اِيْمَانُهُمْ لَمَّا رَاَوْا بَاْسَـنَا ۭ سُنَّتَ اللّٰهِ الَّتِيْ قَدْ خَلَتْ فِيْ عِبَادِهٖ ۚ وَخَسِرَ هُنَالِكَ الْكٰفِرُوْنَ ) [ المؤمن : ٨٥ ] ” پھر یہ نہ تھا کہ ان کا ایمان انھیں فائدہ دیتا، جب انھوں نے ہمارا عذاب دیکھ لیا۔ یہ اللہ کا طریقہ ہے جو اس کے بندوں میں گزر چکا اور اس موقع پر کافر خسارے میں رہے۔ “ - اِنَّهُمْ كَانُوْا فِيْ شَكٍّ مُّرِيْبٍ : ” مُّرِيْبٍ “ ” أَرَابَ یُرِیْبُ إِرَابَۃً “ (افعال) سے اسم فاعل ہے، بےچین رکھنے والا۔ یعنی اللہ تعالیٰ کے وجود، اس کی توحید، اس کے پیغمبروں کی رسالت اور آخرت سے انکار کرنے والوں کے عقائد کی بنیاد علم پر نہیں ہوتی، بلکہ محض وہم و گمان پر ہوتی ہے۔ وہ کبھی دلیل کے ساتھ ثابت نہیں کرسکتے کہ اتنی عظیم کائنات کسی بنانے والے کے بغیر خود بخود بن گئی، یا ان کے بنائے ہوئے معبود فی الواقع اللہ تعالیٰ کے اختیارات میں شریک ہیں، نہ ہی وہ یہ ثابت کرسکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کسی بشر کو اپنا پیغمبر نہیں بنا سکتا، نہ یہ کہ وہ دوبارہ پیدا نہیں ہوسکتے یا قیامت نہیں آسکتی، وہ خود بھی اس کے متعلق شک میں مبتلا رہتے ہیں اور شک بھی ایسا جو انھیں بےچین رکھتا ہے۔ اگرچہ وہ اپنے بعض مفادات کی بنا پر اپنے شک کا اظہار نہیں کرتے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

(آیت) وحیل بینہم وبین ما یشتھون، یعنی ان لوگوں کو جو چیز محبوب اور مقصود تھی ان کے اور اس چیز کے درمیان پردہ حائل کر کے ان کو محروم کردیا گیا۔ یہ مضمون قیامت کے حال پر بھی صادق ہے کہ قیامت میں یہ لوگ نجات اور جنت کے طالب ہوں گے وہاں تک نہ پہنچ سکیں گے اور دنیا میں وقت موت پر بھی صادق ہے کہ دنیا میں ان کو یہاں کی دولت و سامان مقصود تھا موت نے ان کے اس مطلوب کے درمیان حائل ہو کر ان کو اس سے جدا کردیا۔- کما فعل باشیاء عہم، اشیاع شیعہ کی جمع ہے، کسی شخص کے تابع اور ہم خیال کو اس کا شیعہ کہا جاتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جو عذاب ان کو دیا گیا کہ اپنے مطلوب و محبوب سے محروم کردیئے گئے۔ یہی عذاب اس سے پہلے انہی جیسے اعمال کفر کرنے والوں کو دیا جا چکا ہے۔ کیونکہ یہ سب لوگ شک میں پڑے ہوئے تھے، یعنی رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت اور قرآن کے کلام آلہی ہونے پر ان کو یقین و ایمان نہیں تھا۔ واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم۔- تمت سورة سبا بحمد اللہ - لاخریوم من المحرم الحرام 1392 ھ

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَحِيْلَ بَيْنَہُمْ وَبَيْنَ مَا يَشْتَہُوْنَ كَـمَا فُعِلَ بِاَشْـيَاعِہِمْ مِّنْ قَبْلُ۝ ٠ ۭ اِنَّہُمْ كَانُوْا فِيْ شَكٍّ مُّرِيْبٍ۝ ٥٤ۧ- حول - أصل الحَوْل تغيّر الشیء وانفصاله عن غيره، وباعتبار التّغيّر قيل : حَالَ الشیء يَحُولُ حُؤُولًا، واستحال : تهيّأ لأن يحول، وباعتبار الانفصال قيل : حَالَ بيني وبینک کذا، وقوله تعالی:- وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ [ الأنفال 24] - ( ح ول ) الحوال - ( ن ) دراصل اس کے معنی کسی چیز کے متغیر ہونے اور دوسری چیزوں سے الگ ہونا کے ہیں ۔ معنی تغییر کے اعتبار سے حال الشئی یحول حوولا کا محاورہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی کی شے کے متغیر ہونیکے ہیں ۔ اور استحال کے معنی تغیر پذیر ہونے کے لئے مستعد ہونے کے اور معنی انفصال کے اعتبار سے حال بینی وبینک کذا کا محاورہ استعمال ہوتا ہے ۔ یعنی میرے اور اس کے درمیان فلاں چیز حائل ہوگئی ۔ اور آیت کریمہ :۔ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ [ الأنفال 24] اور جان رکھو کہ خدا آدمی اسکے دل کے درمیان حائل ہوجاتا ہے ۔- بين - بَيْن موضوع للخلالة بين الشيئين ووسطهما . قال تعالی: وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف 32] ، يقال : بَانَ كذا أي : انفصل وظهر ما کان مستترا منه، ولمّا اعتبر فيه معنی الانفصال والظهور استعمل في كلّ واحد منفردا، فقیل للبئر البعیدة القعر : بَيُون، لبعد ما بين الشفیر والقعر لانفصال حبلها من يد صاحبها .- ( ب ی ن ) البین - کے معنی دو چیزوں کا درمیان اور وسط کے ہیں : ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف 32] اور ان کے درمیان کھیتی پیدا کردی تھی ۔ محاورہ ہے بان کذا کسی چیز کا الگ ہوجانا اور جو کچھ اس کے تحت پوشیدہ ہو ، اس کا ظاہر ہوجانا ۔ چونکہ اس میں ظہور اور انفصال کے معنی ملحوظ ہیں اس لئے یہ کبھی ظہور اور کبھی انفصال کے معنی میں استعمال ہوتا ہے - شها - أصل الشَّهْوَةِ : نزوع النّفس إلى ما تریده، وذلک في الدّنيا ضربان : صادقة، وکاذبة، فالصّادقة : ما يختلّ البدن من دونه كشهوة الطّعام عند الجوع، والکاذبة : ما لا يختلّ من - دونه، وقد يسمّى الْمُشْتَهَى شهوة، وقد يقال للقوّة التي تَشْتَهِي الشیء : شهوة، وقوله تعالی:- زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَواتِ [ آل عمران 14] ، يحتمل الشّهوتین، وقوله : اتَّبَعُوا الشَّهَواتِ [ مریم 59] ، فهذا من الشّهوات الکاذبة، ومن الْمُشْتَهِيَاتِ المستغنی عنها، وقوله في صفة الجنّة : وَلَكُمْ فِيها ما تَشْتَهِي أَنْفُسُكُمْ [ فصلت 31] ، وقوله : فِي مَا اشْتَهَتْ أَنْفُسُهُمْ- [ الأنبیاء 102] ، وقیل : رجل شَهْوَانٌ ، وشَهَوَانِيٌّ ، وشیء شَهِيٌّ.- ( ش ھ و ) الشھوہ - کے معنی ہیں نفس کا اس چیز کی طرف کھینچ جاتا جسے وہ چاہتا ہے و خواہشات دنیوی دوقسم پر ہیں صادقہ اور کاذبہ سچی خواہش وہ ہے جس کے حصول کے بغیر بدن کا نظام مختل ہوجاتا ہے جیسے بھوک کے وقت کھانے کی اشتہا اور جھوٹی خواہش وہ ہے جس کے عدم حصول سے بدن میں کوئی خرابی پیدا نہیں ہوتی ۔ پھر شھوۃ کا لفظ کبھی اس چیز پر بولاجاتا ہے ۔ جس کی طرف طبیعت کا میلان ہو اور کبھی خود اس قوت شہویہ پر اور آیت کریمہ ؛زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَواتِ [ آل عمران 14] لوگوں کو ان کی خواہشوں کی چیزیں ( بڑی ) زینت دار معلوم وہوتی ہیں۔ میں شہو ات سے دونوں قسم کی خواہشات مراد ہیں ۔ اور آیت کریمہ : اتَّبَعُوا الشَّهَواتِ [ مریم 59] اور خواہشات نفسانی کے پیچھے لگ گئے ۔ میں جھوٹی خواہشات مراد ہیں یعنی ان چیزوں کی خواہش جن سے استغناء ہوسکتا ہو ۔ اور جنت کے متعلق فرمایا : وَلَكُمْ فِيها ما تَشْتَهِي أَنْفُسُكُمْ [ فصلت 31] اور وہاں جس ( نعمت کو تمہارا جی چاہے گا تم کو ملے گا ۔ فِي مَا اشْتَهَتْ أَنْفُسُهُمْ [ الأنبیاء 102] اور جو کچھ ان جی چاہے گا اس میں ۔۔۔ رجل شھوان وشھوانی خواہش کا بندہ شمئ لذیز چیز ۔ مرغوب شے ۔ - فعل - الفِعْلُ : التأثير من جهة مؤثّر، وهو عامّ لما کان بإجادة أو غير إجادة، ولما کان بعلم أو غير علم، وقصد أو غير قصد، ولما کان من الإنسان والحیوان والجمادات، والعمل مثله، - ( ف ع ل ) الفعل - کے معنی کسی اثر انداز کی طرف سے اثر اندازی کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ تاثیر عمدگی کے ساتھ ہو یا بغیر عمدگی کے ہو اور علم سے ہو یا بغیر علم کے قصدا کی جائے یا بغیر قصد کے پھر وہ تاثیر انسان کی طرف سے ہو یا دو سے حیوانات اور جمادات کی طرف سے ہو یہی معنی لفظ عمل کے ہیں ۔ - شيع - الشِّيَاعُ : الانتشار والتّقوية . يقال : شاع الخبر، أي : كثر وقوي، وشَاعَ القوم : انتشروا وکثروا، وشَيَّعْتُ النّار بالحطب : قوّيتها، والشِّيعَةُ : من يتقوّى بهم الإنسان وينتشرون عنه، ومنه قيل للشّجاع : مَشِيعٌ ، يقال : شِيعَةٌ وشِيَعٌ وأَشْيَاعٌ ، قال تعالی: وَإِنَّ مِنْ شِيعَتِهِ لَإِبْراهِيمَ- [ الصافات 83] ، هذا مِنْ شِيعَتِهِ وَهذا مِنْ عَدُوِّهِ [ القصص 15] ، وَجَعَلَ أَهْلَها شِيَعاً [ القصص 4] ، فِي شِيَعِ الْأَوَّلِينَ [ الحجر 10] ، وقال تعالی: وَلَقَدْ أَهْلَكْنا أَشْياعَكُمْ [ القمر 51] .- ( ش ی ع ) الشیاع - کے معنی منتشر ہونے اور تقویت دینا کے ہیں کہا جاتا ہے شاع الخبر خبر پھیل گئی اور قوت پکڑ گئی ۔ شاع القوم : قوم منتشر اور زیادہ ہوگئی شیعت النار بالحطب : ایندھن ڈال کر آگ تیز کرنا الشیعۃ وہ لوگ جن سے انسان قوت حاصل کرتا ہے اور وہ اس کے ارد گرد پھیلے رہتے ہیں اسی سے بہادر کو مشیع کہا جاتا ہے ۔ شیعۃ کی جمع شیع واشیاع آتی ہے قرآن میں ہے وَإِنَّ مِنْ شِيعَتِهِ لَإِبْراهِيمَ [ الصافات 83] اور ان ہی یعنی نوح (علیہ السلام) کے پیرؤں میں ابراہیم تھے هذا مِنْ شِيعَتِهِ وَهذا مِنْ عَدُوِّهِ [ القصص 15] ایک تو موسیٰ کی قوم کا ہے اور دوسرا اس کے دشمنوں میں سے تھا وَجَعَلَ أَهْلَها شِيَعاً [ القصص 4] وہاں کے باشندوں کو گروہ در گروہ کر رکھا تھا ۔ فِي شِيَعِ الْأَوَّلِينَ [ الحجر 10] پہلے لوگوں میں ( بھی ) وَلَقَدْ أَهْلَكْنا أَشْياعَكُمْ [ القمر 51] اور ہم تمہارے ہم مذہبوں کو ہلاک کرچکے ہیں ۔- شكك - الشَّكُّ : اعتدال النّقيضين عند الإنسان وتساويهما،- والشَّكُّ :- ضرب من الجهل، وهو أخصّ منه، لأنّ الجهل قد يكون عدم العلم بالنّقيضين رأسا، فكلّ شَكٍّ جهل، ولیس کلّ جهل شكّا، قال اللہ تعالی: وَإِنَّهُمْ لَفِي شَكٍّ مِنْهُ مُرِيبٍ [هود 110] - ( ش ک ک ) الشک - کے معنی دونقیضوں کے ذہن میں برابر اور مساوی ہونے کے ہیں ۔- الشک :- شک جہالت ہی کی ایک قسم ہے لیکن اس سے اخص ہے کیونکہ جہل میں کبھی سرے سے نقیضیں کا علم ہی نہیں ہوتا ۔ پس ہر شک جھل ہے مگر ہر جہل شک نہیں ہے ۔ قرآن میں ہے : وَإِنَّهُمْ لَفِي شَكٍّ مِنْهُ مُرِيبٍ [هود 110] وہ تو اس سے قوی شبہ میں پڑے ہوئے ہیں ۔ - ريب - فَالرَّيْبُ : أن تتوهّم بالشیء أمرا مّا، فينكشف عمّا تتوهّمه، قال اللہ تعالی: يا أَيُّهَا النَّاسُ إِنْ كُنْتُمْ فِي رَيْبٍ مِنَ الْبَعْثِ [ الحج 5] ،- ( ر ی ب )- اور ریب کی حقیقت یہ ہے کہ کسی چیز کے متعلق کسی طرح کا وہم ہو مگر بعد میں اس تو ہم کا ازالہ ہوجائے ۔ قرآن میں ہے :- وَإِنْ كُنْتُمْ فِي رَيْبٍ مِمَّا نَزَّلْنا عَلى عَبْدِنا [ البقرة 23] اگر تم کو ( قیامت کے دن ) پھر جی اٹھنے میں کسی طرح کا شک ہوا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

اس لیے ان میں اور ان کی پھر دنیا کی طرف واپسی کی درخواست میں ایک آڑ کردی گئی۔ جیسا کہ ان کے ہم مشربوں کے ساتھ بھی یہی برتاؤ کیا جاچکا جو ان سے پہلے کفر کرچکے تھے۔- یہ سب آسمانوں اور زمین کے خالق کے بارے میں بڑے شک میں تھے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٥٤ وَحِیْلَ بَیْنَہُمْ وَبَیْنَ مَا یَشْتَہُوْنَ ” اور آڑ کردی جائے گی ان کے اور ان کی من پسند چیزوں کے مابین “- مَا یَشْتَہُوْنَ سے مرادجنت اور جنت کی نعمتیں ہیں۔ سورة قٓ‘ آیت ٣٥ میں اہل جنت کے لیے ان نعمتوں کا ذکر یوں آیا ہے : لَہُمْ مَّا یَشَآئُ وْنَ فِیْہَا ” ان کے لیے اس میں ہوگا جو وہ چاہیں گے “۔ یعنی جو جو چیزیں انسان کو مرغوب ہوتی ہیں وہ اہل جنت کو جنت میں فراہم کی جائیں گی۔ جیسا کہ سورة حٰمٓ السجدۃ کی آیت ٣١ میں فرمایا گیا : وَلَـکُمْ فِیْہَا مَا تَشْتَہِیْٓ اَنْفُسُکُمْ ” اور تمہارے لیے اس میں وہ کچھ ہوگا جس کی خواہش تمہارے جی کریں گے “۔ جبکہ مجرموں کو اس دن ان نعمتوں سے محروم کردیا جائے گا۔- کَمَا فُعِلَ بِاَشْیَاعِہِمْ مِّنْ قَبْلُ ” جیسا کہ اس سے پہلے ان جیساطرز عمل اختیار کرنے والے لوگوں کے ساتھ کیا گیا تھا۔ “- اِنَّہُمْ کَانُوْا فِیْ شَکٍّ مُّرِیْبٍ ” وہ لوگ بھی (ایسے ہی) اضطراب والے شک میں پڑے رہے تھے۔ “- ان لوگوں کے دلوں اور دماغوں میں شکوک و شبہات جنم لیتے رہے اور اسی طرح انہیں بھی حق کی تصدیق کرنے کی توفیق نہ ہوئی۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة سَبـَا حاشیہ نمبر :76 درحقیقت شرک اور دہریت اور انکار آخرت کے عقائد کوئی شخص بھی یقین کی بنا پر اختیار نہیں کرتا اور نہیں کر سکتا ۔ اس لیے کہ یقین صرف علم سے حاصل ہوتا ہے ، اور کسی شخص کو بھی یہ علم حاصل نہیں ہے کہ خدا نہیں ہے ، یا بہت سے خدا ہیں یا خدائی کے اختیارات میں بہت سی ہستیوں کو دخل حاصل ہے ، یا آخرت نہیں ہونی چاہیے ۔ پس جس نے بھی دنیا میں یہ عقائد اختیار کیے ہیں اس نے محض قیاس و گمان پر ایک عمارت کھڑی کر لی ہے جس کی اصل بنیاد شک کے سوا اور کچھ نہیں ہے ۔ اور یہ شک انہیں سخت گمراہی کی طرف لے گیا ہے ۔ انہیں خدا کے وجود میں شک ہوا ۔ انہیں توحید کی صداقت میں شک ہوا ۔ انہیں آخرت کے آنے میں شک ہوا ۔ حتّیٰ کہ اس شک کو انہوں نے یقین کی طرح دلوں میں بٹھا کر انبیاء کی کوئی بات نہ مانی اور اپنی زندگی کی پوری مہلت عمل ایک غلط راستے میں کھپا دی ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani