Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

22۔ 1 احیاء سے مومن اور اموات سے کافر یا علماء اور جاہل یا عقلمند اور غیر عقلمند مراد ہیں۔ 22۔ 2 یعنی جسے اللہ ہدایت سے نواز نے والا ہوتا ہے اور جنت اس کی مقدر ہوتی ہے، اسے حجت یا دلیل سننے اور پھر اسے قبول کرنے کی تو فیق دے دیتا ہے۔ 22۔ 3 یعنی جس طرح قبروں میں مردہ اشخاص کی کوئی بات نہیں سنائی جاسکتی اسی طرح جن لوگوں کے دلوں کو کفر نے موت سے ہمکنار کیا اے پیغمبر تو انہیں حق کی بات نہیں سنا سکتا مطلب یہ ہوا کہ جس طرح مرنے اور قبر میں دفن ہونے کے بعد مردہ کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکتا، اسی طرح کافر و مشرک جن کی قسمت میں بدبختی لکھی ہے دعوت و تبلیغ سے انہیں فائدہ نہیں ہوتا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[ ٢٨] یہاں زندہ سے مراد وہ لوگ ہیں جن کے دل اور ضمیر زندہ ہیں۔ جو بدی کو بدی ہی سمجھتے ہیں اور نیکی کی راہ کی تلاش میں رہتے ہیں۔ پھر اس پر عمل پیرا بھی ہوتے ہیں۔ اور مردہ سے مردہ دل لوگ یا کافر ہیں۔ ان کے ضمیر اور ان کے دل اس قدر مرچکے ہیں کہ ہدایت کی بات ان کے دل تک پہنچتی ہی نہیں۔ نہ وہ اسے سننا گوارا کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ آپ کا ایسے لوگوں کو نصیحت کرنا بےسود ہے۔- [ ٢٩] سماع موتی کا رد :۔ ربط مضمون کے لحاظ سے یہ مطلب بھی لیا جاسکتا ہے کہ قبروں میں پڑے لوگوں سے مراد یہی مردہ دل کافر لوگ ہیں مگر الفاظ کے ظاہری معنوں کا اعتبار کرنا زیادہ صحیح ہوگا۔ یعنی جو لوگ قبروں میں جاچکے ہیں انہیں اللہ تو سنا سکتا ہے آپ نہیں سنا سکتے۔ کیونکہ قبروں میں پڑے ہوئے لوگ عالم برزخ میں جا پہنچے ہیں۔ عالم دنیا میں نہیں ہیں۔ اس کی مثال یوں سمجھئے کہ ایک سویا ہوا شخص اپنے پاس بیٹھے ہوئے لوگوں کی گفتگو نہیں سن سکتا۔ اس لیے عالم خواب الگ عالم ہے۔ اور عالم بیداری الگ عالم ہے۔ حالانکہ یہ دونوں عالم، عالم دنیا سے ہی متعلق ہیں مگر عالم برزخ دنیا سے متعلق نہیں بالکل الگ عالم ہے۔ لہذا قبروں میں پڑے ہوئے لوگ بدرجہ اولیٰ دنیا والوں کی بات سن نہیں سکتے۔ یہ آیت سماع موتی کا کلیتاً رد ثابت کرتی ہے۔ رہا قلیب بدر کا واقعہ جو احادیث صحیحہ میں مذکور ہے۔ کہ جنگ بدر میں ستر مقتول کافروں کی لاشیں بدر کے کنوئیں میں پھینک دی گئیں۔ تو تیسرے دن رسول اللہ نے اس کنوئیں کے کنارے کھڑے ہو کر فرمایا : تمہارے مالک نے جو سچا وعدہ تم سے کیا تھا وہ تم نے پالیا ؟ لوگوں نے عرض کیا : یارسول اللہ کیا آپ مردوں کو سناتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا : تم کچھ ان سے زیادہ نہیں سنتے، البتہ وہ جواب نہیں دے سکتے (بخاری۔ کتاب المغازی۔ باب قتل ابی جھل۔۔ بخاری کتاب الجنائز۔ باب ماجاء فی عذاب القبر) اور سیدنا قتادہ نے اس حدیث کی تفسیر میں کہا کہ اللہ نے اس وقت ان مردوں کو جلا دیا تھا ان کی زجز و توبیخ، ذلیل کرنے، بدلہ لینے اور شرمندہ کرنے کے لیے (بخاری۔ کتاب المغازی۔ باب قتل ابی جھل) گویا یہ ایک معجزہ تھا اور فی الحقیقت سنانے والا اللہ تعالیٰ ہی تھا۔ اور یہ اس آیت کا مفہوم ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَمَا يَسْتَوِي الْاَحْيَاۗءُ وَلَا الْاَمْوَاتُ ۭ : یہ ایمان لانے والوں کی اور ایمان نہ لانے والوں کی مثال ہے کہ ایمان لانے والے زندوں کی طرح ہیں اور ایمان نہ لانے والے مردوں کی طرح۔ ابن کثیر (رض) نے فرمایا، جس طرح یہ باہم متضاد اور مختلف چیزیں برابر نہیں ہیں کہ اندھا اور دیکھنے والا برابر نہیں، بلکہ دونوں کے درمیان بہت سا فرق اور بعد ہے اور جس طرح اندھیرے اور روشنی برابر نہیں اور سایہ اور لو برابر نہیں، اسی طرح زندہ اور مردے برابر نہیں۔ یہ مثال ہے جو اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کے لیے بیان فرمائی ہے کہ وہ زندہ ہیں اور کافروں کے لیے کہ وہ مردہ ہیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ( اَوَمَنْ كَانَ مَيْتًا فَاَحْيَيْنٰهُ وَجَعَلْنَا لَهٗ نُوْرًا يَّمْشِيْ بِهٖ فِي النَّاسِ كَمَنْ مَّثَلُهٗ فِي الظُّلُمٰتِ لَيْسَ بِخَارِجٍ مِّنْهَا ۭ ) [ الأنعام : ١٢٢ ] ” اور کیا وہ شخص جو مردہ تھا، پھر ہم نے اسے زندہ کیا اور اس کے لیے ایسی روشنی بنادی جس کی مدد سے وہ لوگوں میں چلتا پھرتا ہے، اس شخص کی طرح ہے جس کا حال یہ ہے کہ وہ اندھیروں میں ہے، ان سے کسی صورت نکلنے والا نہیں۔ “ اور فرمایا : (مَثَلُ الْفَرِيْقَيْنِ كَالْاَعْمٰى وَالْاَصَمِّ وَالْبَصِيْرِ وَالسَّمِيْعِ ۭ هَلْ يَسْتَوِيٰنِ ) [ ھود : ٢٤ ] ” دونوں گروہوں کی مثال اندھے اور بہرے اور دیکھنے والے اور سننے والے کی طرح ہے، کیا یہ دونوں مثال میں برابر ہیں ؟ “ چناچہ مومن سننے اور دیکھنے والا ہے، دنیا اور آخرت کے اندر روشنی میں صراط مستقیم پر چلتا ہے، یہاں تک کہ یہ سفر اسے سایوں اور چشموں والی جنتوں کے ٹھکانے میں پہنچا دیتا ہے اور کافر اندھا اور بہرا ہے، اندھیروں میں چلتا ہے، ان سے کسی طرح نہیں نکلتا۔ دنیا اور آخرت میں اپنی سرکشی اور گمراہی میں بھٹکتا پھرتا ہے، یہاں تک کہ یہ سفر اسے جہنم کی لو اور گرم پانی تک پہنچا دیتا ہے، جیسا کہ فرمایا : (وَّظِلٍّ مِّنْ يَّحْمُوْمٍ لَّا بَارِدٍ وَّلَا كَرِيْمٍ ) [ الواقعۃ : ٤٣، ٤٤ ] ” اور سیاہ دھوئیں کے سائے میں ہوں گے۔ جو نہ ٹھنڈا ہے اور نہ باعزت۔ “- اِنَّ اللّٰهَ يُسْمِعُ مَنْ يَّشَاۗءُ ۚ : سنانے کا مطلب سوچنے، سمجھنے اور قبول کرنے کی توفیق کے ساتھ سنانا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی مشیّت اور چاہنے کی تو بات ہی دوسری ہے، وہ جسے چاہے سنا دے، چاہے تو بےجان پتھروں کو سنا دے، کسی اور میں یہ قدرت نہیں، نہ یہ رسول کے بس کا کام ہے کہ جن لوگوں کے دل مردہ ہوچکے ہوں ان کے دلوں میں اپنی بات اتار سکے اور جو بات سننا ہی نہ چاہتے ہوں ان کے بہرے کانوں کو حق کی آواز سنا سکے، وہ تو انھی کو سنا سکتا ہے جو معقول بات سننے اور اس پر غور کے لیے آمادہ ہوں۔ - وَمَآ اَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَّنْ فِي الْقُبُوْرِ : یہ مشرکین کی مثال ہے کہ وہ مردوں کی طرح ہیں جو سنتے نہیں، یعنی جس طرح تیرے بس میں یہ بات نہیں کہ تو قبروں میں دفن مردوں کو اپنی بات سنا سکے اسی طرح جن لوگوں کے دل مردہ ہوچکے ہیں تو انھیں بھی اللہ کی آیات نہیں سنا سکتا، نہ انھیں راہ راست پر لاسکتا ہے۔- یہ آیت مردوں کے نہ سننے کی بھی واضح دلیل ہے۔ دیکھیے سورة نمل (٨٠، ٨١) ۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

(آیت) وما انت بمسمع من فی القبور، اس آیت کے شروع میں کفار کی مثال مردوں سے اور مومنین کی زندوں سے دی گئی ہے۔ اسی کی مناسبت سے یہاں من فی القبور سے مراد کفار ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ جس طرح آپ مردوں کو نہیں سنا سکتے ان زندہ کافروں کو بھی نہیں سنا سکتے۔- اس آیت نے خود یہ بات واضح کردی کہ یہاں سنانے سے مراد وہ سنانا ہے جو مفید وموثر اور نافع ہو، ورنہ مطلق سنانا تو کفار کو ہمیشہ ہوتا ہی رہا، اور مشاہدہ میں آتا رہا ہے کہ ان کو تبلیغ کرتے اور وہ سنتے تھے۔ اس لئے مراد اس آیت کی یہ ہے کہ جس طرح آپ مردوں کو کلام حق سنا کر راہ حق پر نہیں لا سکتے کیونکہ وہ دنیا کے دارالعمل سے آخرت کے دار الجزاء میں منتقل ہوچکے ہیں، وہاں اگر وہ ایمان کا اقرار بھی کرلیں تو معتبر نہیں، اسی طرح کفار کا حال ہے اس سے ثابت ہوا کہ مردوں کے سنانے کی جو نفی اس آیت میں کی گئی ہے اس سے مراد خاص اسماع نافع ہے جس کی وجہ سے سننے والا باطل کو چھوڑ کر حق پر آجائے۔ اس تقریر سے واضح ہوگیا کہ مسئلہ سماع مولیٰ سے اس آیت کا کوئی تعلق نہیں، یہ مسئلہ اپنی جگہ مستقل ہے کہ مردے زندوں کا کلام سنتے ہیں یا نہیں۔ اس کی مفصل تحقیق سورة روم میں اور سورة نمل میں گزر چکی ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَمَا يَسْتَوِي الْاَحْيَاۗءُ وَلَا الْاَمْوَاتُ۝ ٠ ۭ اِنَّ اللہَ يُسْمِعُ مَنْ يَّشَاۗءُ۝ ٠ ۚ وَمَآ اَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَّنْ فِي الْقُبُوْرِ۝ ٢٢- استوا - أن يقال لاعتدال الشیء في ذاته، نحو : ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى[ النجم 6]- ( س و ی ) المسا واۃ - کسی چیز کے اپنی ذات کے اعتبار سے حالت اعتدال پر ہونے کے لئے بولا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى[ النجم 6] یعنی جبرائیل ) طاقتور نے پھر وہ پورے نظر آئے - حيى- الحیاة تستعمل علی أوجه :- الأوّل : للقوّة النّامية الموجودة في النّبات والحیوان، ومنه قيل : نبات حَيٌّ ، قال عزّ وجلّ : اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید 17] ، - الثانية : للقوّة الحسّاسة، وبه سمّي الحیوان حيوانا،- قال عزّ وجلّ : وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر 22] ،- الثالثة : للقوّة العاملة العاقلة، کقوله تعالی:- أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] - والرابعة : عبارة عن ارتفاع الغمّ ،- وعلی هذا قوله عزّ وجلّ : وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] ، أي : هم متلذّذون، لما روي في الأخبار الکثيرة في أرواح الشّهداء - والخامسة : الحیاة الأخرويّة الأبديّة،- وذلک يتوصّل إليه بالحیاة التي هي العقل والعلم، قال اللہ تعالی: اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال 24] - والسادسة : الحیاة التي يوصف بها الباري،- فإنه إذا قيل فيه تعالی: هو حيّ ، فمعناه : لا يصحّ عليه الموت، ولیس ذلک إلّا لله عزّ وجلّ.- ( ح ی ی ) الحیاۃ )- زندگی ، جینا یہ اصل میں - حیی ( س ) یحییٰ کا مصدر ہے ) کا استعمال مختلف وجوہ پر ہوتا ہے ۔- ( 1) قوت نامیہ جو حیوانات اور نباتات دونوں میں پائی جاتی ہے - ۔ اسی معنی کے لحاظ سے نوبت کو حیہ یعنی زندہ کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید 17] جان رکھو کہ خدا ہی زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ - ۔ ( 2 ) دوم حیاۃ کے معنی قوت احساس کے آتے ہیں - اور اسی قوت کی بناء پر حیوان کو حیوان کہا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر 22] اور زندے اور مردے برابر ہوسکتے ہیں ۔ - ( 3 ) قوت عاملہ کا عطا کرنا مراد ہوتا ہے - چنانچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔- ( 4 ) غم کا دور ہونا مراد ہوتا ہے - ۔ اس معنی میں شاعر نے کہا ہے ( خفیف ) جو شخص مرکر راحت کی نیند سوگیا وہ درحقیقت مردہ نہیں ہے حقیقتا مردے بنے ہوئے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] جو لوگ خدا کی راہ میں مارے گئے ان کو مرے ہوئے نہ سمجھنا وہ مرے ہوئے نہیں ہیں بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہیں ۔ میں شہداء کو اسی معنی میں احیاء یعنی زندے کہا ہے کیونکہ وہ لذت و راحت میں ہیں جیسا کہ ارواح شہداء کے متعلق بہت سی احادیث مروی ہیں ۔ - ( 5 ) حیات سے آخرت کی دائمی زندگی مراد ہوتی ہے - ۔ جو کہ علم کی زندگی کے ذریعے حاصل ہوسکتی ہے : قرآن میں ہے : ۔ اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال 24] خدا اور اس کے رسول کا حکم قبول کرو جب کہ رسول خدا تمہیں ایسے کام کے لئے بلاتے ہیں جو تم کو زندگی ( جادواں ) بخشتا ہے۔- ( 6 ) وہ حیات جس سے صرف ذات باری تعالیٰ متصف ہوتی ہے - ۔ چناچہ جب اللہ تعالیٰ کی صفت میں حی کہا جاتا ہے تو اس سے مراد وہ ذات اقدس ہوئی ہے جس کے متعلق موت کا تصور بھی نہیں ہوسکتا ۔ پھر دنیا اور آخرت کے لحاظ بھی زندگی دو قسم پر ہے یعنی حیات دنیا اور حیات آخرت چناچہ فرمایا : ۔ فَأَمَّا مَنْ طَغى وَآثَرَ الْحَياةَ الدُّنْيا [ النازعات 38] تو جس نے سرکشی کی اور دنیا کی زندگی کو مقدم سمجھنا ۔- موت - أنواع الموت بحسب أنواع الحیاة :- فالأوّل : ما هو بإزاء القوَّة النامية الموجودة في الإنسان والحیوانات والنّبات - . نحو قوله تعالی:- يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم 19] ، وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق 11] .- الثاني : زوال القوّة الحاسَّة . قال : يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا - [ مریم 23] ، أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم 66] .- الثالث : زوال القوَّة العاقلة، وهي الجهالة .- نحو : أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] ، وإيّاه قصد بقوله : إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل 80] .- الرابع : الحزن المکدِّر للحیاة،- وإيّاه قصد بقوله : وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَ- بِمَيِّتٍ [إبراهيم 17] .- الخامس : المنامُ ،- فقیل : النّوم مَوْتٌ خفیف، والموت نوم ثقیل، وعلی هذا النحو سمّاهما اللہ تعالیٰ توفِّيا . فقال : وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام 60] - ( م و ت ) الموت - یہ حیات کی ضد ہے - لہذا حیات کی طرح موت کی بھی کئی قسمیں ہیں - ۔ اول قوت نامیہ - ( جو کہ انسان حیوانات اور نباتات ( سب میں پائی جاتی ہے ) کے زوال کو موت کہتے ہیں جیسے فرمایا : ۔ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم 19] زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق 11] اور اس پانی سے ہم نے شہر مردہ یعنی زمین افتادہ کو زندہ کیا ۔- دوم حس و شعور کے زائل ہوجانے کو موت کہتے ہیں - ۔ چناچہ فرمایا ۔ يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا[ مریم 23] کاش میں اس سے پہلے مر چکتی ۔ أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم 66] کہ جب میں مرجاؤں گا تو کیا زندہ کر کے نکالا جاؤں گا ۔ - سوم ۔ قوت عاقلہ کا زائل ہوجانا اور اسی کا نام جہالت ہے - چناچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل 80] کچھ شک نہیں کہ تم مردوں کو بات نہیں سنا سکتے ۔- چہارم ۔ غم جو زندگی کے چشمہ صافی کو مکدر کردیتا ہے - چنانچہ آیت کریمہ : ۔ وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَبِمَيِّتٍ [إبراهيم 17] اور ہر طرف سے اسے موت آرہی ہوگی ۔ مگر وہ مرنے میں نہیں آئے گا ۔ میں موت سے یہی معنی مراد ہیں ۔- پنجم ۔ موت بمعنی نیند ہوتا ہے - اسی لئے کسی نے کہا ہے کہ النوم موت خفیف والموت نوم ثقیل کہ نیند کا نام ہے اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو توفی سے تعبیر فرمایا ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام 60] اور وہی تو ہے جو ارت کو تمہاری روحیں قبض کرلیتا ہے - سمع - السَّمْعُ : قوّة في الأذن به يدرک الأصوات، وفعله يقال له السَّمْعُ أيضا، وقد سمع سمعا .- ويعبّر تارة بالسمّع عن الأذن نحو : خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ- [ البقرة 7] ، وتارة عن فعله كَالسَّمَاعِ نحو : إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء 212] ، وقال تعالی: أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق 37] ، وتارة عن الفهم، وتارة عن الطاعة، تقول : اسْمَعْ ما أقول لك، ولم تسمع ما قلت، وتعني لم تفهم، قال تعالی: وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال 31] ، - ( س م ع ) السمع ۔ قوت سامعہ - ۔ کا ن میں ایک حاسہ کا نام ہے جس کے ذریعہ آوازوں کا اور اک ہوتا ہے اداس کے معنی سننا ( مصدر ) بھی آتے ہیں اور کبھی اس سے خود کان مراد لیا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ [ البقرة 7] خدا نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا رکھی ہے ۔ اور کبھی لفظ سماع کی طرح اس سے مصدر ی معنی مراد ہوتے ہیں ( یعنی سننا ) چناچہ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء 212] وہ ( آسمائی باتوں کے ) سننے ( کے مقامات ) سے الگ کردیئے گئے ہیں ۔ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق 37] یا دل سے متوجہ ہو کر سنتا ہے ۔ اور کبھی سمع کے معنی فہم و تدبر اور کبھی طاعت بھی آجاتے ہیں مثلا تم کہو ۔ اسمع ما اقول لک میری بات کو سمجھنے کی کوشش کرو لم تسمع ماقلت لک تم نے میری بات سمجھی نہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال 31] اور جب ان کو ہماری آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو کہتے ہیں ( یہ کلام ) ہم نے سن لیا ہے اگر چاہیں تو اسی طرح کا ( کلام ) ہم بھی کہدیں ۔ - قبر - القَبْرُ : مقرّ الميّت، ومصدر قَبَرْتُهُ : جعلته في القَبْرِ ، وأَقْبَرْتُهُ : جعلت له مکانا يُقْبَرُ فيه . نحو : أسقیته : جعلت له ما يسقی منه . قال تعالی: ثُمَّ أَماتَهُ فَأَقْبَرَهُ [ عبس 21] ، قيل : معناه ألهم كيف يدفن، والْمَقْبَرَةُ والْمِقْبَرَةُ موضع الْقُبُورِ ، وجمعها : مَقَابِرُ. قال : حَتَّى زُرْتُمُ الْمَقابِرَ [ التکاثر 2] ، كناية عن الموت . وقوله : إِذا بُعْثِرَ ما فِي الْقُبُورِ [ العادیات 9] ، إشارة إلى حال البعث . وقیل : إشارة إلى حين كشف السّرائر، فإنّ أحوال الإنسان ما دام في الدّنيا مستورة كأنّها مَقْبُورَةٌ ، فتکون القبور علی طریق الاستعارة، وقیل : معناه إذا زالت الجهالة بالموت، فكأنّ الکافر والجاهل ما دام في الدّنيا فهو مَقْبُورٌ ، فإذا مات فقد أنشر وأخرج من قبره . أي : من جهالته، وذلک حسبما روي : ( الإنسان نائم فإذا مات انتبه) «2» وإلى هذا المعنی أشار بقوله : وَما أَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَنْ فِي الْقُبُورِ- [ فاطر 22] ، أي : الذین هم في حکم الأموات .- ( ق ب ر ) القبر کے معنی میت کو دفن کرنے جگہ کے ہیں اگر یہ قبرتہ ( ضرب ونصر ) کا مصدر ہو تو اس کے میت کو قبر میں دفن کر نیکے ہوتے ہیں ۔ اوراقبرتہ کے معنی کیس کیلئے قبر مہیا کرنے کے ہیں تاکہ اسے دفن کیا جائے جیسے اسقینہ کے معنی پینے کے لئے پانی مہیا کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ ثُمَّ أَماتَهُ فَأَقْبَرَهُ [ عبس 21] پھر اس کو موت دی ۔ پھر قبر میں دفن کرایا ۔ بعض نے اقبرہ کے معنی یہ کئے ہیں کہ اسے الہام کردیا کہ کس طرح میت کو دفن کیا جائے ۔ المقبرۃ والمقبرۃ ( قبر ستان ) جمع مقابر قرآن میں سے : ۔ حَتَّى زُرْتُمُ الْمَقابِرَ [ التکاثر 2] یہاں تک کہ تم نے قبریں جا دیکھیں ۔ یہ موت سے کنایہ ہے اور آیت کریمہ : ۔ إِذا بُعْثِرَ ما فِي الْقُبُورِ [ العادیات 9] کہ جو مردے قبروں میں ہیں وہ باہر نکال لئے جائیں گے ۔ میں حیات بعد الممات یعنی موت کے بعد زندہ ہونے کی طرف اشارہ ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ دلوں کے اسرار ظاہر کردینے کی طرف اشارہ ہے کیونکہ جب تک انسان دنیا میں رہتا ہے اس کے بھید مستور رہتے ہیں گویا قبر میں مدفون ہیں تو یہاں قبور سے مجازا دل مراد ہیں بعض نے اس کے معنی یہ کئے ہیں کہ جب موت کی وجہ سے جہالت کا پردہ اٹھ جائے گا گو یا کا فر اور جاہل جب تک دنیا میں رہتے ہیں جہالت کی قبروں میں مدفون رہتے ہیں چونکہ مرنے کے بعد وہ جہالت دور ہوجاتی ہے ۔ تو گویا وہ قبر جہالت سے دوبارہ زندہ کر کے نکالے گئے ہیں ۔ جیسا کہ مروی ہے الانسان نائم اذا مات کہ انسان دنیامیں سویا رہتا ہے جب موت آکر دستک دیتی ہے تو اس کی آنکھیں کھلتی ہیں اور اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : ۔ وَما أَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَنْ فِي الْقُبُورِ [ فاطر 22] اور تم ان کو جو قبروں میں مدفون ہیں نہیں سنا سکتے ۔ یعنی جو لوگ جہالت کے گڑھے میں گرنے کی وجہ سے مردوں کے حکم میں ہیں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢٢ وَمَا یَسْتَوِی الْاَحْیَآئُ وَلَا الْاَمْوَاتُ ” اور نہ برابر ہوسکتے ہیں زندہ اور مردہ لوگ۔ “- یہاں مردوں سے مراد وہ مردے نہیں جو قبروں میں دفن ہیں ‘ بلکہ یہ ان جیتے جاگتے انسانوں کا تذکرہ ہے جن کی روحیں مردہ ہوچکی ہیں۔ اگرچہ جسمانی اعتبار سے تو ایسے لوگ زندوں میں شمار ہوتے ہیں لیکن حقیقت میں وہ چلتے پھرتے مقبرے اور تعزیے ہیں ‘ کیونکہ ان کی انسانیت مر کر ان کے جسموں کے اندر دفن ہوچکی ہے۔ اسی طرح یہاں زندوں سے وہ لوگ مراد ہیں جن کی روحیں اور جن کے دل زندہ ہیں۔ زندگی کے اس فلسفے کو میر در ؔد نے اس طرح بیان کیا ہے : ؎- مجھے یہ ڈر ہے دل زندہ تو نہ مرجائے کہ زندگانی عبارت ہے تیرے جینے سے - اگر کسی شخص کا دل مرگیا یا دوسرے لفظوں میں یوں کہیں کہ اس کی روح دم توڑ گئی تو انسانی سطح پر اس شخص کی موت واقع ہوگئی۔ اب اگر وہ زندہ ہے تو حیوانی سطح پر زندہ ہے۔ جس طرح حیوان کھاتے پیتے ہیں اور زندگی کی دوسری ضروریات و خواہشات پوری کرتے ہوئے زندگی بسر کرتے ہیں اسی طرح اب وہ بھی زندگی بسر کر رہا ہے ‘ مگر یہ زندگی ایک انسان کی زندگی ہرگز نہیں ہے۔ مثلاً ابو جہل بظاہر اچھی بھلی زندگی بسر کر رہا تھا مگر اس کے اندر کا انسان چونکہ زندہ نہیں تھا اس لیے نہ تو وہ آفتابِ نبوت کو دیکھ سکا ‘ نہ اس کی تمازت محسوس کرسکا اور نہ ہی اس کی روشنی سے مستفیض ہوسکا۔- اِنَّ اللّٰہَ یُسْمِعُ مَنْ یَّشَآئُط وَمَآ اَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَّنْ فِی الْْقُبُوْرِ ” یقینا اللہ سناتا ہے جس کو چاہتا ہے ‘ اور (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) آپ نہیں سنا سکتے انہیں جو قبروں کے اندر ہیں۔ “- قبروں میں مدفون سے مراد یہاں وہی لوگ ہیں جن کے جسم اپنی ُ مردہ روحوں کے چلتے پھرتے مقبرے بن چکے ہیں۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة فَاطِر حاشیہ نمبر :42 ان تمثیلات میں مومن اور کافر کے حال اور مستقبل کا فرق بتایا گیا ہے ۔ ایک وہ شخص ہے جو حقائق سے آنکھیں بند کیے ہوئے ہے اور کچھ نہیں دیکھتا کہ کائنات کا سارا نظام اور خود اس کا اپنا وجود صداقت کی طرف اشارے کر رہا ہے ۔ دوسرا وہ شخص ہے جس کی آنکھیں کھلی ہیں اور وہ صاف دیکھ رہا ہے کہ اس کے باہر اور اندر کی ہر چیز خدا کی توحید اور اس کے حضور انسان کی جوابدہی پر گواہی دے رہی ہے ۔ ایک وہ شخص ہے جو جاہلانہ اوہام اور مفروضات و قیاسات کی تاریکیوں میں بھٹک رہا ہے اور پیغمبر کی روشن کی ہوئی شمع کے قریب بھی پھٹکنے کے لیے تیار نہیں ۔ دوسرا وہ شخص ہے جس کی آنکھیں کھلی ہیں اور پیغمبر کی پھیلائی ہوئی روشنی سامنے آتے ہی اس پر یہ بات بالکل عیاں ہو گئی ہے کہ مشرکین اور کفار اور دہریے جن راہوں پر چل رہے ہیں وہ سب تباہی کی طرف جاتی ہیں اور فلاح کی راہ صرف وہ ہے جو خدا کے رسول نے دکھائی ہے ۔ اب آخر یہ کیونکر ممکن ہے کہ دنیا میں ان دونوں کا رویہ یکساں ہو اور دونوں ایک ساتھ ایک ہی راہ پر چل سکیں؟ اور آخر یہ بھی کیسے ممکن ہے کہ دونوں کا انجام یکساں ہو اور دونوں ہی مر کر فنا ہو جائیں ، نہ ایک کو بد راہی کی سزا ملے ، نہ دوسرا راست روی کا کوئی انعام پائے؟ ٹھنڈی چھاؤں اور دھوپ کی تپش ایک جیسی نہیں ہے کا اشارہ اسی انجام کی طرف ہے کہ ایک اللہ کے سایہ رحمت میں جگہ پانے والا ہے اور دوسرا جہنم کی تپش میں جھلسنے والا ہے ۔ تم کس خیال خام میں مبتلا ہو کہ آخر کار دونوں ایک ہی انجام سے دوچار ہوں گے ۔ آخر میں مومن کو زندہ سے اور ہٹ دھرم کافروں کو مردہ سے تشبیہ دی گئی ہے ۔ یعنی مومن وہ ہے جس کے اندر احساس و ادراک اور فہم و شعور موجود ہے اور اس کا ضمیر اسے بھلے اور برے کی تمیز سے ہر وقت آگاہ کر رہا ہے ۔ اور اس کے بر عکس جو شخص کفر کے تعصب میں پوری طرح غرق ہو چکا ہے اس کا حل اس اندھے سے بھی بدتر ہے جو تاریکی میں بھٹک رہا ہو ، اس کی حالت تو اس مردے کی سی ہے جس میں کوئی حس باقی نہ رہی ہو ۔ سورة فَاطِر حاشیہ نمبر :43 یعنی اللہ کی مشیت کی تو بات ہی دوسری ہے ، وہ چاہے تو پتھروں کو سماعت بخش دے ، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جس کا یہ کام نہیں ہے کہ جن لوگوں کے سینے ضمیر کے مدفن بن چکے ہوں ان کے دلوں میں اپنی بات اتار سکے اور جو بات سننا ہی نہ چاہتے ہوں ان کے بہرے کانوں کو صدائے حق سنا سکے ۔ وہ تو انہی لوگوں کو سنا سکتا ہے جو معقول بات پر کان دھرنے کے لیے تیار ہوں ۔ سورة فَاطِر حاشیہ نمبر :44 یعنی تمہارا کام لوگوں کو خبردار کر دینے سے زائد کچھ نہیں ہے ۔ اس کے بعد اگر کوئی ہوش میں نہیں آتا اور اپنی گمرا ہیوں ہی میں بھٹکتا رہتا ہے تو اس کی کوئی ذمہ داری تم پر نہیں ہے ۔ اندھوں کو دکھانے اور بہروں کو سنانے کی خدمت تمہارے سپرد نہیں کی گئی ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

7: جن لوگوں نے ضد اور ہٹ دھرمی سے حق بات ماننے کے تمام دروازے اپنے اوپر بند کرلئے ہیں، ان کو پہلے اندھوں سے تشبیہ دی گئی ہے، اور ان کے کفر کو اندھیروں سے، اور اس کی سزا میں انہیں دوزخ کے جس عذاب کا سامنا کرنا پڑے گا اس کو دھوپ سے۔ اس کے مقابلے میں حق پرستوں کو دیکھنے والوں سے، ان کے دین کو روشنی سے، اور جنت کی جو نعمتیں انہیں حاصل ہوں گی، ان کو سائے سے تعبیر کیا گیا ہے۔ پھر فرمایا گیا ہے کہ جن لوگوں نے حق کو قبول کرنے کی صلاحیت ہی ختم کرلی ہے، وہ تو مردوں جیسے ہیں، اور مردوں کو آپ اپنی مرضی سے کچھ سنا نہیں سکتے۔ اس طرح آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی جا رہی ہے کہ اگر یہ لوگ حق کو قبول نہیں کر رہے تو آپ زیادہ رنجیدہ نہ ہوں اور آپ پر اس کی کوئی ذمہ داری بھی عائد نہیں ہوتی۔