Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

12۔ 1 یعنی قیامت والے دن یہاں احیائے موتی کے ذکر سے یہ اشارہ کرنا بھی مقصود ہے کہ اللہ تعالیٰ کافروں میں سے جس کا دل چاہتا ہے، زندہ کردیتا ہے جو کفر و ضلالت کی وجہ سے مردہ ہوچکے ہوتے ہیں۔ پس وہ ہدایت اور ایمان کو اپنا لیتے ہیں۔ 12۔ 2 اس سے مراد لوح محفوظ ہے اور بعض نے صحائف اعمال مراد لیے ہیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[ ١٢] اس کا ایک مفہوم تو واضح ہے اور یہی مفہوم دنیا میں بھی ہر آن مشاہدہ میں آرہا ہے۔ اور یہی مفہوم عقیدہ آخرت کی بنیاد ہے اور دوسرا مفہوم یہ ہے کہ قرآن نے بعض مقامات پر موتی سے مراد مردہ دل کافر بھی لئے ہیں۔ اس لحاظ سے اس جملہ کا یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ عرب قوم جس کی اخلاقی اور روحانی قوتیں بالکل مرچکی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کو یہ قدرت حاصل ہے کہ پھر ان میں زندگی کی روح پھونک دے کہ وہ دنیا میں بڑے بڑے کارہائے نمایاں سرانجام دے اور بعد میں آنے والی نسلوں کے لئے اپنے عظیم آثار چھوڑ جائے۔- خ اثر کا لغوی مفہوم :۔ اثر کا معنی دراصل قدموں کے نشان ہیں۔ جو کسی انسان کے چلنے کے بعد زمین پر پڑجاتے ہیں۔ پھر اس لفظ کا اطلاق زمین پر پڑے ہوئے قدموں پر بھی ہوتا ہے جیسا کہ سیدنا انس بن مالک (رض) فرماتے ہیں کہ قبیلہ بنی سلمہ کے لوگوں نے (جن کے مکان مسجد نبوی سے دور تھے) ارادہ کیا کہ وہ اپنے مکان چھوڑ دیں اور رسول اللہ کے قریب آکر رہائش پذیر ہوں۔ (تاکہ آسانی سے نماز باجماعت میں شامل ہوسکیں۔ ) آپ کو مدینہ کی سرحدوں کا اجڑنا برا معلوم ہوا تو آپ نے انہیں فرمایا : کیا تم اپنے قدموں کا ثواب نہیں چاہتے۔ مجاہد کہتے ہیں کہ اٰثَارَھُمسے مراد زمین پر چلنے سے پاؤں کے نشانات مراد ہیں۔ (بخاری۔ کتاب الاذان۔ باب احتساب الآثار)- [ ١٣] زندگی کے بعد اعمال نامہ میں درج ہونے والے اعمال :۔ ہر انسان کے اعمال نامہ میں تین طرح کے اندراجات ہوتے ہیں۔ ایک وہ اعمال و اقوال جو اس نے اپنی زندگی کے دوران سرانجام دیئے تھے۔ دوسرے اعمال کے اثرات جو عمل کرنے سے انسان کے اپنے جسم، اس کے اعضاء وجوارح، زمین یا فضا میں مرتسم ہوتے رہتے ہیں۔ اور تیسرے وہ اعمال جن کے اچھے یا برے اثرات اس کی زندگی کے بعد بھی باقی رہ گئے۔ مثلاً کسی شخص نے کوئی مفید کتاب تصنیف کی یا لوگوں کو علم دین سکھایا اور یہ سلسلہ آگے چلتا رہا یا کوئی چیز اللہ کی راہ میں وقف کر گیا۔ یہ سب کچھ اس کے عمل کے اثرات ہیں اور ان کا ثواب اس کے اعمال نامہ میں اس زندگی کے بعد بھی درج ہوتا رہے گا۔ اسی طرح اگر کسی نے کوئی شرکیہ عقیدہ یا بدعت یا کوئی بدرسم نکالی تو جو شخص ان باتوں کو اپنائیں گے حصہ رسدی ان کا گناہ اس کے ایجاد کرنے والے کے اعمال نامہ میں بھی درج ہوتا رہتا ہے۔- [ ١٤] لوح محفوظ کے نام اور صفات :۔ کتاب مبین سے مراد لوح محفوظ ہے۔ جس کے مزید نام ام الکتاب اور کتاب مکنون بھی قرآن کریم میں مذکور ہیں۔ اس امام مبین کا مکمل ادراک تو انسان کے احاطہ سے باہر ہے تاہم روایات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک ایسی تختی یا کتاب ہے جس میں کائنات کی تقدیر کے متعلق تمام امور پہلے سے لکھ دیئے گئے ہیں۔ اور ان میں رد و بدل نہیں ہوتا اور یہ تمام احکام و فرامین اور کلمات الٰہی کا مصدر ہے اور مکنون اس لحاظ سے ہے کہ اس کے مندرجات کی اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو خبر نہیں۔ گویا لوگوں کے جو اعمال نامے تیار ہو رہے ہیں جو اعمال و آثار کے وقوع کے بعد لکھے جاتے ہیں۔ عین اللہ کے اس علم کے مطابق ہوتے ہیں جس کے مطابق اس نے ہر چیز پہلے سے ہی امام مبین میں درج کر رکھی ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اِنَّا نَحْنُ نُـحْيِ الْمَوْتٰى : یعنی ہم ان سب کو مرنے کے بعد زندہ کریں گے، ان کو بھی جو آپ کے ڈرانے کے باوجود کفر پر اڑے رہے اور انھیں بھی جنھوں نے آپ کی نصیحت سن کر اس کی پیروی کی، تاکہ انھیں ان کے اعمال کی جزا دیں۔ بعض مفسرین نے مردوں کو زندہ کرنے سے مشرکین کو شرک سے نکال کر ایمان میں لانا مراد لیا ہے، مگر سیاق کے لحاظ سے پہلا معنی زیادہ ظاہر ہے۔ - وَنَكْتُبُ مَا قَدَّمُوْا : اور اچھے یا برے جو عمل بھی انھوں نے کیے ہیں، ہم سب لکھ رہے ہیں۔ مراد اس سے وہ اعمال ہیں جو انھوں نے اپنی زندگی میں خود کیے۔ - وَاٰثَارَهُمْ : ” اٰثَارَ “ ” أَثَرٌ“ کی جمع ہے۔ اس کی تفسیر میں دو قول ہیں، ایک یہ کہ اس سے مراد ان کی زندگی میں یا ان کی موت کے بعد دوسرے لوگوں کے وہ اچھے یا برے اعمال ہیں جن کا سبب یہ بنے اور ان کے کسی قول یا فعل یا ان کی کسی حالت کی وجہ سے دوسرے لوگوں نے وہ اعمال اختیار کیے۔ چناچہ لوگوں نے ان کی دعوت، نصیحت، امر بالمعروف، نہی عن المنکر یا جہاد فی سبیل اللہ کی وجہ سے یا ان کے پڑھانے یا تصنیف کی وجہ سے ان کی زندگی میں یا موت کے بعد جو نیک عمل کیے، یا انھوں نے کوئی مسجد، مدرسہ یا لوگوں کے فائدے کی کوئی چیز بنادی، جس سے ان کی موت کے بعد بھی لوگ فائدہ اٹھاتے رہے، سب ان کے نامہ اعمال میں لکھے جائیں گے۔ یہی حال ان برے اعمال کا ہے جو ان کی وجہ سے ان کی زندگی میں یا موت کے بعد لوگوں نے کیے، وہ بھی ان کے نامہ اعمال میں درج ہوں گے۔ جریر بن عبد اللہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( مَنْ سَنَّ فِي الْإِسْلَامِ سُنَّۃً حَسَنَۃً فَلَہُ أَجْرُہَا وَ أَجْرُ مَنْ عَمِلَ بِہَا بَعْدَہُ مِنْ غَیْرِ أَنْ یَّنْقُصَ مِنْ أُجُوْرِہِمْ شَيْءٌ وَمَنْ سَنَّ فِي الْإِسْلَامِ سُنَّۃً سَیِّءَۃً کَانَ عَلَیْہِ وِزْرُہَا وَ وِزْرُ مَنْ عَمِلَ بِہَا مِنْ بَعْدِہِ مِنْ غَیْرِ أَنْ یَنْقُصَ مِنْ أَوْزَارِہِمْ شَيْءٌ ) [ مسلم، الزکاۃ، باب الحث علی الصدقۃ۔۔ : ١٠١٧ ] ” جو شخص اسلام میں کوئی اچھا طریقہ (یعنی کتاب و سنت کی کوئی بات) جاری کرے اس کے لیے اس کے اپنے عمل کا اجر ہے اور ان لوگوں کے عمل کا بھی جو اس کے بعد کریں، بغیر اس کے کہ ان کے اجر میں سے کچھ کم ہو اور جو شخص اسلام میں کوئی برا طریقہ (یعنی کتاب و سنت کے خلاف یا کوئی بدعت) جاری کرے اس پر اپنے گناہ کا بوجھ ہوگا اور ان کے گناہ کا بھی جو اس کے بعد کریں گے، بغیر اس کے کہ ان کے بوجھ میں سے کچھ کم ہو۔ “ ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( إِذَا مَاتَ الإِْنْسَانُ انْقَطَعَ عَنْہُ عَمَلُہُ إِلَّا مِنْ ثَلَاثَۃٍ إِلَّا مِنْ صَدَقَۃٍ جَارِیَۃٍ أَوْ عِلْمٍ یُنْتَفَعُ بِہِ أَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ یَدْعُوْ لَہُ ) [ مسلم، الوصیۃ، باب ما یلحق الإنسان ۔۔ : ١٦٣١ ] ” جب انسان فوت ہوجاتا ہے، تو اس کا عمل اس سے منقطع ہوجاتا ہے، سوائے تین چیزوں کے، صدقہ جاریہ سے، یا اس علم سے جس سے لوگ فائدہ اٹھائیں، یا نیک اولاد سے جو اس کے لیے دعا کرے۔ “ اس آیت اور ان احادیث سے دعوت و تعلیم اور جہاد فی سبیل اللہ کے عمل کی عظمت اور فضیلت معلوم ہوتی ہے۔ - ” اٰثَارَهُمْ “ کی تفسیر میں دوسرا قول یہ ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ نیکی یا بدی کی طرف چل کر جانے والے قدموں کے نشانوں کو بھی اللہ تعالیٰ لکھ لیتے ہیں۔ چناچہ جابر بن عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ مسجد نبوی کے ارد گرد زمین کے کچھ قطعے خالی ہوگئے تو بنو سلمہ نے ارادہ کیا کہ مسجد کے قریب منتقل ہوجائیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس کی اطلاع ملی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” مجھے اطلاع ملی ہے کہ تم مسجد کے قریب منتقل ہونے کا ارادہ رکھتے ہو ؟ “ انھوں نے کہا : ” ہاں، یا رسول اللہ ہم نے یہ ارادہ کیا ہے۔ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( یَا بَنِيْ سَلِمَۃَ دِیَارَکُمْ تُکْتَبْ آثَارُکُمْ دِیَارَکُمْ تُکْتَبْ آثَارُکُمْ ) [ مسلم، المساجد، باب فضل کثرۃ الخطا إلی المساجد : ٦٦٥ ] ” اے بنو سلمہ اپنے گھروں ہی میں رہو، تمہارے قدموں کے نشانات لکھے جائیں گے، (اے بنو سلمہ ) اپنے گھروں ہی میں رہو، تمہارے قدموں کے نشانات لکھے جائیں گے۔ “ ابن کثیر نے فرمایا، اس قول اور پہلے قول میں کوئی تضاد نہیں، بلکہ اس قول کی رو سے ” اٰثَارَهُمْ “ سے کسی کی پیروی کی وجہ سے کیے جانے والے اعمال مراد لینا بدرجہ اولیٰ ثابت ہوتا ہے، کیونکہ جب قدموں کے نشان تک لکھے جاتے ہیں تو اچھے یا برے جن اعمال میں کوئی شخص نمونہ بنا، وہ تو بدرجہ اولیٰ لکھے جاتے ہیں۔ - وَكُلَّ شَيْءٍ اَحْصَيْنٰهُ فِيْٓ اِمَامٍ مُّبِيْنٍ : ” اِمَامٍ مُّبِيْنٍ “ سے مراد لوح محفوظ ہے، جس میں اللہ تعالیٰ نے ہونے والا ہر کام پہلے ہی درج فرما دیا ہے، یا ہر شخص کا اعمال نامہ ہے جس میں اس کا چھوٹا یا بڑا ہر عمل پورے ضبط کے ساتھ درج ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (يَوْمَ نَدْعُوْا كُلَّ اُنَاسٍۢ بِاِمَامِهِمْ ) [ بني إسرائیل : ٧١ ] ” جس دن ہم سب لوگوں کو ان کے امام کے ساتھ بلائیں گے۔ “ یہاں امام سے مراد ان کے اعمال کی کتاب ہے۔ اس واضح کتاب کا ذکر قرآن مجید میں کئی مقامات پر ہے۔ دیکھیے سورة زمر (٦٩) اور کہف (٤٩) یہاں ” اِمَامٍ مُّبِيْنٍ “ سے مراد اعمال نامہ لینا زیادہ مناسب ہے، اگرچہ اس میں وجود میں آنے کے بعد وہی کچھ درج ہوگا جو اس سے پہلے لوح محفوظ میں درج ہوچکا ہے ۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

(آیت) ونکتب ما قدموا و آثارہم، ” یعنی ہم لکھیں گے ان اعمال کو جو انہوں نے آگے بھیجے ہیں “ عمل کرنے کو آگے بھیجنے سے تعبیر کر کے یہ بتلا دیا کہ جو اعمال اچھے یا برے اس دنیا میں کئے ہیں وہ یہیں ختم نہیں ہوگئے، بلکہ وہ تمہارا سامان بن کر آگے پہنچ گئے ہیں جن سے اگلی زندگی میں سابقہ پڑنا ہے، اچھے اعمال ہیں تو جنت کی باغ و بہار بنیں گے، برے ہیں تو جہنم کے انگارے۔ اور ان اعمال کو لکھنے سے اصل مقصود ان کو محفوظ رکھنا ہے، لکھنا بھی اس کا ایک ذریعہ ہے کہ خطاء و نسیان اور زیارت و نقصان کا احتمال نہ رہے۔- اعمال کی طرح اعمال کے اثرات بھی لکھے جاتے ہیں :- وآثارہم، یعنی جس طرح ان کے کئے ہوئے اعمال لکھے جاتے ہیں اسی طرح ان کے آثار بھی لکھے جاتے ہیں۔ آثار سے مراد اعمال کے وہ ثمرات و نتائج ہیں جو بعد میں ظاہر ہوتے اور باقی رہتے ہیں، مثلاً کسی نے لوگوں کو دین کی تعلیم دی، دینی احکام بتلائے یا اس کے لئے کوئی کتاب تصنیف کی جس سے لوگوں نے دین کا نفع اٹھایا یا کوئی وقف کردیا، جس سے لوگوں کو اس کے بعد نفع پہنچا، یا اور کوئی ایسا کام کیا جس سے مسلمانوں کو فائدہ پہنچا، تو جہاں تک اس کے اس عمل خیر کے آثار پہنچیں گے اور جب تک پہنچتے رہیں گے وہ سب اس کے اعمال نامہ میں لکھے جاتے رہیں گے۔ اسی طرح برے اعمال جن کے برے ثمرات وآثار دنیا میں باقی رہے، مثلاً ظالمانہ قوانین جاری کردیئے، ایسے ادارے قائم کردیئے جو انسانوں کے اعمال و اخلاق کو خراب کردیتے ہیں، یا لوگوں کو کسی غلط اور برے راستہ پر ڈال دیا۔ تو جہاں تک اور جب تک اس کے عمل کے برے نتائج اور مفاسد وجود میں آتے رہیں گے، اس کے نامہ اعمال میں لکھے جاتے رہیں گے، جیسا کہ اس آیت کی تفسیر میں خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے۔ حضرت جریر بن عبداللہ بجلی سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے :- ” جس شخص نے کوئی اچھا طریقہ جاری کیا تو اس کو اس کا بھی ثواب ملے گا اور جنتی آدمی اس طریقہ پر عمل کریں گے ان کا بھی ثواب اس کو ملے گا بغیر اس کے کہ ان عمل کرنے والوں کے ثواب میں کوئی کمی آوے۔ اور جس نے کوئی برا طریقہ جاری کیا تو اس کو اس کا بھی گناہ ہوگا اور جتنے آدمی جب تک اس برے طریقہ پر عمل کرتے رہیں گے ان کا گناہ بھی اس کو ہوتا رہے گا بغیر اس کے کہ عمل کرنے والوں کے گناہوں میں کمی آوے “- آثار کے ایک معنی نشان قدم کے بھی آتے ہیں۔ حدیث میں ہے کہ انسان جب نماز کے لئے مسجد کی طرف چلتا ہے تو اس کے ہر قدم پر نیکی لکھی جاتی ہے۔ بعض روایات حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اس آیت میں آثار سے مراد یہی نشان قدم ہیں، جس طرح نماز کا ثواب بھی لکھا جاتا ہے اسی طرح نماز کے لئے جانے میں جتنے قدم پڑتے ہیں ہر قدم پر ایک نیکی لکھی جاتی ہے۔ ابن کثیر نے ان روایات کو اس جگہ جمع کردیا ہے جن میں یہ مذکور ہے کہ مدینہ طیبہ میں جن لوگوں کے مکانات مسجد نبوی سے دور تھے انہوں نے ارادہ کیا کہ مسجد کے قریب مکان بنالیں، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے منع فرمایا کہ جہاں رہتے ہو وہیں رہو، دور سے چل کر آؤ گے تو یہ وقت بھی ضائع نہ سمجھو، جتنے قدم زیادہ ہوں گے اتنا ہی تمہارا ثواب بڑھے گا۔- اس پر جو یہ شبہ ہوسکتا ہے کہ یہ سورة مکی ہے، اور جو واقعہ ان احادیث میں مذکور ہے وہ مدینہ طیبہ کا ہے۔ اس کا جواب یہ ہوسکتا ہے کہ آیت تو اپنے عام معنی میں ہے کہ اعمال کے اثرات بھی لکھے جاتے ہیں اور یہ آیت مکہ ہی میں نازل ہوئی ہو، پھر مدینہ طیبہ میں جب یہ واقعہ پیش آیا تو آپ نے بطو راستدلال کے اس آیت کا ذکر فرمایا۔ اور نشان قدم کو بھی ان آثار باقیہ میں شمار فرمایا ہے جن کے لکھے جانے کا ذکر قرآن کریم کی اس آیت میں ہے۔ اس طرح ان دونوں تفسیروں کا ظاہری تضاد بھی رفع ہوجاتا ہے (کما صرح بہ ابن کثیر واختارہ)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اِنَّا نَحْنُ نُـحْيِ الْمَوْتٰى وَنَكْتُبُ مَا قَدَّمُوْا وَاٰثَارَہُمْ۝ ٠ ۭوَكُلَّ شَيْءٍ اَحْصَيْنٰہُ فِيْٓ اِمَامٍ مُّبِيْنٍ۝ ١٢ ۧ- حيى- الحیاة تستعمل علی أوجه :- الأوّل : للقوّة النّامية الموجودة في النّبات والحیوان، ومنه قيل : نبات حَيٌّ ، قال عزّ وجلّ : اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید 17] ، - الثانية : للقوّة الحسّاسة، وبه سمّي الحیوان حيوانا،- قال عزّ وجلّ : وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر 22] ،- الثالثة : للقوّة العاملة العاقلة، کقوله تعالی:- أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] - والرابعة : عبارة عن ارتفاع الغمّ ،- وعلی هذا قوله عزّ وجلّ : وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] ، أي : هم متلذّذون، لما روي في الأخبار الکثيرة في أرواح الشّهداء - والخامسة : الحیاة الأخرويّة الأبديّة،- وذلک يتوصّل إليه بالحیاة التي هي العقل والعلم، قال اللہ تعالی: اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال 24] - والسادسة : الحیاة التي يوصف بها الباري،- فإنه إذا قيل فيه تعالی: هو حيّ ، فمعناه : لا يصحّ عليه الموت، ولیس ذلک إلّا لله عزّ وجلّ.- ( ح ی ی ) الحیاۃ )- زندگی ، جینا یہ اصل میں - حیی ( س ) یحییٰ کا مصدر ہے ) کا استعمال مختلف وجوہ پر ہوتا ہے ۔- ( 1) قوت نامیہ جو حیوانات اور نباتات دونوں میں پائی جاتی ہے - ۔ اسی معنی کے لحاظ سے نوبت کو حیہ یعنی زندہ کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید 17] جان رکھو کہ خدا ہی زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ - ۔ ( 2 ) دوم حیاۃ کے معنی قوت احساس کے آتے ہیں - اور اسی قوت کی بناء پر حیوان کو حیوان کہا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر 22] اور زندے اور مردے برابر ہوسکتے ہیں ۔ - ( 3 ) قوت عاملہ کا عطا کرنا مراد ہوتا ہے - چنانچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔- ( 4 ) غم کا دور ہونا مراد ہوتا ہے - ۔ اس معنی میں شاعر نے کہا ہے ( خفیف ) جو شخص مرکر راحت کی نیند سوگیا وہ درحقیقت مردہ نہیں ہے حقیقتا مردے بنے ہوئے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] جو لوگ خدا کی راہ میں مارے گئے ان کو مرے ہوئے نہ سمجھنا وہ مرے ہوئے نہیں ہیں بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہیں ۔ میں شہداء کو اسی معنی میں احیاء یعنی زندے کہا ہے کیونکہ وہ لذت و راحت میں ہیں جیسا کہ ارواح شہداء کے متعلق بہت سی احادیث مروی ہیں ۔ - ( 5 ) حیات سے آخرت کی دائمی زندگی مراد ہوتی ہے - ۔ جو کہ علم کی زندگی کے ذریعے حاصل ہوسکتی ہے : قرآن میں ہے : ۔ اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال 24] خدا اور اس کے رسول کا حکم قبول کرو جب کہ رسول خدا تمہیں ایسے کام کے لئے بلاتے ہیں جو تم کو زندگی ( جادواں ) بخشتا ہے۔- ( 6 ) وہ حیات جس سے صرف ذات باری تعالیٰ متصف ہوتی ہے - ۔ چناچہ جب اللہ تعالیٰ کی صفت میں حی کہا جاتا ہے تو اس سے مراد وہ ذات اقدس ہوئی ہے جس کے متعلق موت کا تصور بھی نہیں ہوسکتا ۔ پھر دنیا اور آخرت کے لحاظ بھی زندگی دو قسم پر ہے یعنی حیات دنیا اور حیات آخرت چناچہ فرمایا : ۔ فَأَمَّا مَنْ طَغى وَآثَرَ الْحَياةَ الدُّنْيا [ النازعات 38] تو جس نے سرکشی کی اور دنیا کی زندگی کو مقدم سمجھنا ۔- موت - أنواع الموت بحسب أنواع الحیاة :- فالأوّل : ما هو بإزاء القوَّة النامية الموجودة في الإنسان والحیوانات والنّبات - . نحو قوله تعالی:- يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم 19] ، وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق 11] .- الثاني : زوال القوّة الحاسَّة . قال : يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا - [ مریم 23] ، أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم 66] .- الثالث : زوال القوَّة العاقلة، وهي الجهالة .- نحو : أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] ، وإيّاه قصد بقوله : إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل 80] .- الرابع : الحزن المکدِّر للحیاة،- وإيّاه قصد بقوله : وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَ- بِمَيِّتٍ [إبراهيم 17] .- الخامس : المنامُ ،- فقیل : النّوم مَوْتٌ خفیف، والموت نوم ثقیل، وعلی هذا النحو سمّاهما اللہ تعالیٰ توفِّيا . فقال : وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام 60] - ( م و ت ) الموت - یہ حیات کی ضد ہے - لہذا حیات کی طرح موت کی بھی کئی قسمیں ہیں - ۔ اول قوت نامیہ - ( جو کہ انسان حیوانات اور نباتات ( سب میں پائی جاتی ہے ) کے زوال کو موت کہتے ہیں جیسے فرمایا : ۔ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم 19] زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق 11] اور اس پانی سے ہم نے شہر مردہ یعنی زمین افتادہ کو زندہ کیا ۔- دوم حس و شعور کے زائل ہوجانے کو موت کہتے ہیں - ۔ چناچہ فرمایا ۔ يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا[ مریم 23] کاش میں اس سے پہلے مر چکتی ۔ أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم 66] کہ جب میں مرجاؤں گا تو کیا زندہ کر کے نکالا جاؤں گا ۔ - سوم ۔ قوت عاقلہ کا زائل ہوجانا اور اسی کا نام جہالت ہے - چناچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل 80] کچھ شک نہیں کہ تم مردوں کو بات نہیں سنا سکتے ۔- چہارم ۔ غم جو زندگی کے چشمہ صافی کو مکدر کردیتا ہے - چنانچہ آیت کریمہ : ۔ وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَبِمَيِّتٍ [إبراهيم 17] اور ہر طرف سے اسے موت آرہی ہوگی ۔ مگر وہ مرنے میں نہیں آئے گا ۔ میں موت سے یہی معنی مراد ہیں ۔- پنجم ۔ موت بمعنی نیند ہوتا ہے - اسی لئے کسی نے کہا ہے کہ النوم موت خفیف والموت نوم ثقیل کہ نیند کا نام ہے اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو توفی سے تعبیر فرمایا ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام 60] اور وہی تو ہے جو ارت کو تمہاری روحیں قبض کرلیتا ہے - كتب ( لکھنا)- الْكَتْبُ : ضمّ أديم إلى أديم بالخیاطة، يقال : كَتَبْتُ السّقاء، وكَتَبْتُ البغلة : جمعت بين شفريها بحلقة، وفي التّعارف ضمّ الحروف بعضها إلى بعض بالخطّ ، وقد يقال ذلک للمضموم بعضها إلى بعض باللّفظ، فالأصل في الْكِتَابَةِ : النّظم بالخطّ لکن يستعار کلّ واحد للآخر، ولهذا سمّي کلام الله۔ وإن لم يُكْتَبْ- كِتَاباً کقوله : الم ذلِكَ الْكِتابُ- [ البقرة 1- 2] ، وقوله : قالَ إِنِّي عَبْدُ اللَّهِ آتانِيَ الْكِتابَ [ مریم 30] .- ( ک ت ب ) الکتب ۔ کے اصل معنی کھال کے دو ٹکڑوں کو ملاکر سی دینے کے ہیں چناچہ کہاجاتا ہے کتبت السقاء ، ، میں نے مشکیزہ کو سی دیا کتبت البغلۃ میں نے خچری کی شرمگاہ کے دونوں کنارے بند کرکے ان پر ( لوہے ) کا حلقہ چڑھا دیا ، ، عرف میں اس کے معنی حروف کو تحریر کے ذریعہ باہم ملا دینے کے ہیں مگر کبھی ان حروف کو تلفظ کے ذریعہ باہم ملادینے پر بھی بولاجاتا ہے الغرض کتابۃ کے اصل معنی تو تحریر کے ذریعہ حروف کو باہم ملادینے کے ہیں مگر بطور استعارہ کبھی بمعنی تحریر اور کبھی بمعنی تلفظ استعمال ہوتا ہے اور بناپر کلام الہی کو کتاب کہا گیا ہے گو ( اس وقت ) قید تحریر میں نہیں لائی گئی تھی ۔ قرآن پاک میں ہے : الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة 1- 2] یہ کتاب ( قرآن مجید ) اس میں کچھ شک نہیں ۔ قالَ إِنِّي عَبْدُ اللَّهِ آتانِيَ الْكِتابَ [ مریم 30] میں خدا کا بندہ ہوں اس نے مجھے کتاب دی ہے ۔- أثر - أَثَرُ الشیء : حصول ما يدلّ علی وجوده، يقال : أثر وأثّر، والجمع : الآثار . قال اللہ تعالی: ثُمَّ قَفَّيْنا عَلى آثارِهِمْ بِرُسُلِنا «1» [ الحدید 27] ، وَآثاراً فِي الْأَرْضِ [ غافر 21] ، وقوله : فَانْظُرْ إِلى آثارِ رَحْمَتِ اللَّهِ [ الروم 50] . ومن هذا يقال للطریق المستدل به علی من تقدّم : آثار، نحو قوله تعالی: فَهُمْ عَلى آثارِهِمْ يُهْرَعُونَ [ الصافات 70] ، وقوله : هُمْ أُولاءِ عَلى أَثَرِي [ طه 84] . ومنه : سمنت الإبل علی أثارةٍأي : علی أثر من شحم، وأَثَرْتُ البعیر : جعلت علی خفّه أُثْرَةً ، أي : علامة تؤثّر في الأرض ليستدل بها علی أثره، وتسمّى الحدیدة التي يعمل بها ذلک المئثرة . وأَثْرُ السیف : جو هره وأثر جودته، وهو الفرند، وسیف مأثور . وأَثَرْتُ العلم : رویته «3» ، آثُرُهُ أَثْراً وأَثَارَةً وأُثْرَةً ، وأصله : تتبعت أثره . أَوْ أَثارَةٍ مِنْ عِلْمٍ [ الأحقاف 4] ، وقرئ : (أثرة) «4» وهو ما يروی أو يكتب فيبقی له أثر .- والمآثر : ما يروی من مکارم الإنسان، ويستعار الأثر للفضل - ( ا ث ر ) اثرالشیئ ۔ ( بقیہ علامت ) کسی شی کا حاصل ہونا جو اصل شیئ کے وجود پر دال ہوا اس سے فعل اثر ( ض) واثر ( تفعیل ) ہے اثر کی جمع آثار آتی ہے قرآن میں ہے :۔ ثُمَّ قَفَّيْنَا عَلَى آثَارِهِمْ بِرُسُلِنَا [ الحدید : 27] پھر ہم نے ان کے پیھچے اور پیغمبر بھیجے وَآثَارًا فِي الْأَرْضِ [ غافر : 21] اور زمین میں نشانات بنانے کے لحاظ سے فَانْظُرْ إِلَى آثَارِ رَحْمَتِ اللَّهِ [ الروم : 50] تم رحمت الہی کے نشانات پر غور کرو اسی سے ان طریق کو آثار کہا جاتا ہے جس سے گذشتہ لوگوں ( کے اطوار وخصائل ) پر استدلال ہوسکے جیسے فرمایا فَهُمْ عَلَى آثَارِهِمْ يُهْرَعُونَ [ الصافات : 70] سو وہ انہیں کے نقش قدم پر دوڑتے چلے جاتے ہیں ۔ هُمْ أُولَاءِ عَلَى أَثَرِي [ طه : 84] وہ میرے طریقہ پر کار بند ہیں ۔ اسی سے مشہور محاورہ ہے سمنت الابل علی آثارۃ اثرمن شحم فربہ شدند شتراں پر بقیہ پیہ کہ پیش ازیں بود اثرت البعیر ۔ میں نے اونٹ کے تلوے پر نشان لگایا تاکہ ( گم ہوجانے کی صورت میں ) اس کا کھوج لگایا جا سکے ۔ اور جس لوہے سے اس قسم کا نشان بنایا جاتا ہے اسے المئثرۃ کہتے ہیں ۔ اثرالسیف ۔ تلوار کا جوہر اسکی عمدگی کا کا نشان ہوتا ہے ۔ سیف ماثور ۔ جوہر دار تلوار ۔ اثرت ( ن ) العلم آثرہ اثرا واثارۃ اثرۃ ۔ کے معنی ہیں علم کو روایت کرنا ۔ در اصل اس کے معنی نشانات علم تلاش کرنا ہوتے ہیں ۔ اور آیت ۔ أَثَارَةٍ مِنْ عِلْمٍ ( سورة الأَحقاف 4) میں اثارۃ سے مراد وہ علم ہے جس کے آثار ( تاحال ) روایت یا تحریر کی وجہ سے باقی ہوں ایک قراۃ میں اثرۃ سے یعنی اپنے مخصوص علم سے المآثر انسانی مکارم جو نسلا بعد نسل روایت ہوتے چلے آتے ہیں ۔ اسی سے بطور استعارہ اثر بمعنی فضیلت بھی آجاتا ہے ۔- حصا - الإحصاء : التحصیل بالعدد، يقال : قد أحصیت کذا، وذلک من لفظ الحصا، واستعمال ذلک فيه من حيث إنهم کانوا يعتمدونه بالعدّ کا عتمادنا فيه علی الأصابع، قال اللہ تعالی:- وَأَحْصى كُلَّ شَيْءٍ عَدَداً [ الجن 28] ، أي : حصّله وأحاط به . وقال صلّى اللہ عليه وسلم : «من أحصاها دخل الجنّة» «2» وقال : «نفس تنجيها خير لک من إمارة لا تحصيها»- ( ح ص ی ) الا حصاء - ( افعال ) کے معنی عدد کو حاصل کرنا کہا جاتا ہے احصیت کذا میں نے اسے شمار کیا ۔ اصل میں یہ لفظ حصی ( کنکر یاں ) سے مشتق ہے اور اس سے گننے کا معنی اس لئے لیا گیا ہے کہ عرب لوگ گنتی میں کنکریوں پر اس طرح اعتماد کرتے تھے جس طرح ہم انگلیوں پر کرتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَحْصى كُلَّ شَيْءٍ عَدَداً [ الجن 28] یعنی اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کو گن رکھا ہے ۔ اور اس کا احاطہ کئے ہوئے ہے ۔ ایک حدیث میں ہے کہ«من أحصاها دخل الجنّة» «2» وقال : «نفس تنجيها خير لک من إمارة لا تحصيها» جو شخص ان ( اسمائے حسنٰی ) کا احصا لرلیگا ( یعنی یاد کرلے گا ) ( وہ جنت میں داخل ہوگا نیز آنحضرت نے فرمایا کہ ایک جان کو ہلاکت سے بچالینا اس امارت سے بہتر ہے جسے تم نباہ سکو - إِمام :- المؤتمّ به، إنسانا كأن يقتدی بقوله أو فعله، أو کتابا، أو غير ذلک محقّا کان أو مبطلا، وجمعه : أئمة . وقوله تعالی: يَوْمَ نَدْعُوا كُلَّ أُناسٍ بِإِمامِهِمْ [ الإسراء 71] أي : بالذي يقتدون به، - الامام - وہ ہے جس کی اقتداء کی جائے خواہ وہ انسان ہو یا اس کے قول وفعل کی اقتداء کی جائے یا کتاب وغیرہ ہو اور خواہ وہ شخص جس کی پیروی کی جائے حق پر ہو یا باطل پر ہو اس کی جمع ائمۃ افعلۃ ) ہے اور آیت :۔ يَوْمَ نَدْعُوا كُلَّ أُنَاسٍ بِإِمَامِهِمْ ( سورة الإسراء 71) جس دن ہم سب لوگوں کو ان کے پیشواؤں کے ساتھ بلائیں گے ۔ میں امام سے وہ شخص مراد ہے جس کی وہ اقتداء کرتے تھے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

اور ہم ایک روز مردوں کو زندہ کریں گے اور ہم ان کے وہ اعمال بھی لکھتے جاتے ہیں جنہیں وہ آگے بھیجتے جاتے ہیں اور ان کے چھوڑے ہوئے وہ اچھے اور برے طریقے جن پر ان چھوڑنے والوں کے مرنے کے بعد عمل کیا جاتا ہے اور ہم نے ان کے سب اعمال کو لوح محفوظ میں ضبط کردیا تھا۔- شان نزول : اِنَّا نَحْنُ نُـحْيِ الْمَوْتٰى وَنَكْتُبُ (الخ)- امام ترمذی نے تحسین کے ساتھ اور امام حاکم نے تصحیح کے ساتھ حضرت ابو سعید خدری سے روایت نقل کی ہے کہ بنی سلمہ مدینہ منورہ کے کنارے پر رہتے تھے انہوں نے مسجد میں منتقل ہونا چاہا اس پر یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی یعنی ہم ایک دن مردوں کو زندہ کریں گے اور ہم لکھتے جاتے ہیں وہ اعمال بھی الخ۔ اس پر رسول اکرم نے فرمایا کہ تمہارے نشانات قدم لکھے جاتے ہیں اس لیے تم لوگ منتقل نہ ہو۔ امام طبرانی نے حضرت ابن عباس سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٢ اِنَّا نَحْنُ نُحْیِ الْمَوْتٰی وَنَکْتُبُ مَا قَدَّمُوْا وَاٰثَارَہُمْ ” یقینا ہم ہی زندہ کریں گے ُ مردوں کو ‘ اور ہم لکھ رہے ہیں جو کچھ انہوں نے آگے بھیجا اور جو اثرات وہ اپنے پیچھے چھوڑ گئے ہیں۔ “- انسان مرنے سے پہلے اپنی زندگی میں جو اچھے برے اعمال آگے بھیجتا ہے وہ ساتھ ہی ساتھ اس کے اعمال نامے میں درج ہوتے رہتے ہیں۔ لیکن انسان کے کچھ اعمال و افعال ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے اثرات اس کی موت کے بعد بھی اس دنیا میں رہتے ہیں۔ چناچہ یہاں پر ” آثار “ سے مراد انسان کے ایسے ہی کام ہیں۔ بہر حال انسان کو آخرت میں ان ” آثار “ کا بدلہ بھی دیا جائے گا۔ مثلاً اگر کسی شخص نے اپنی زندگی میں کسی ایسے نیک عمل کی بنیاد ڈالی جس کے اثرات دیر پا ہوں تو جب تک اس نیک کام کا تسلسل اس دنیا میں رہے گا ‘ اس کا اجر وثواب اس شخص کے حساب میں لکھا جاتا رہے گا۔ اسی طرح اگر کسی نے گناہ اور بےحیائی کے کسی کام کی بنیاد رکھی تو جب تک اس کام یا منصوبے کے منفی اثرات اس دنیا میں رہیں گے ‘ اس میں سے متعلقہ شخص کے حصے کے گناہوں کا اندراج اس کے اعمال نامے میں مسلسل ہوتا رہے گا۔- وَکُلَّ شَیْئٍ اَحْصَیْنٰہُ فِیْٓ اِمَامٍ مُّبِیْنٍ ” اور ہرچیز کا احاطہ ہم نے ایک واضح کتاب میں کررکھا ہے۔ “- ” اِمَامٍ مُّبِیْنٍ “ سے مراد اللہ تعالیٰ کا علم قدیم ہے جسے سورة الرعد کی آیت ٣٩ اور سورة الزخرف کی آیت ٤ میں ” اُمّ الْکِتٰب “ کے نام سے بھی موسوم کیا گیا ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة یٰسٓ حاشیہ نمبر :9 اس سے معلوم ہوا کہ انسان کا نامۂ اعمال تین قوم کے اندراجات پر مشتمل ہے ۔ ایک یہ کہ ہر شخص جو کچھ بھی اچھا یا برا عمل کرتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے دفتر میں لکھ لیا جاتا ہے ۔ دوسرے ، اپنے گرد و پیش کی اشیاء اور خود اپنے جسم کے اعضاء پر جو نقوش ( ) بھی انسان مرتسم کرتا ہے وہ سب کے سب ثبت ہو جاتے ہیں ، اور یہ سارے نقوش ایک وقت اس طرح ابھر آئیں گے کہ اس کی اپنی آواز سنی جائے گی ، اس کے اپنے خیالات اور نیتوں اور ارادوں کی پوری داستان اس کی لوح ذہن پر لکھی نظر آئے گی ، اور اس کے ایک ایک اچھے اور برے فعل اور اس کی تمام حرکات و سکنات کی تصویریں سامنے آجائیں گی ۔ تیسرے اپنے مرنے کے بعد اپنی آئندہ نسل پر ، اپنے معاشرے پر ، اور پوری انسانیت پر اپنے اچھے اور برے اعمال کے جو اثرات وہ چھوڑ گیا ہے وہ جس وقت تک اور جہاں جہاں تک کار فرما رہیں گے وہ سب اس کے حساب میں لکھے جاتے رہیں گے ۔ اپنی اولاد کو جو بھی اچھی یا بری تربیت اس نے دی ہے ، اپنے معاشرے میں جو بھلائیاں یا برائیاں بھی اس نے پھیلائی ہیں اور انسانیت کے حق میں جو پھول یا کانٹے بھی وہ بو گیا ہے ان سب کا پورا ریکارڈ اس وقت تک تیار کیا جاتا رہے گا جب تک اس کی لگائی ہوئی یہ فصل دنیا میں اپنے اچھے یا برے پھل لاتی رہے گی ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

4: یعنی ان لوگوں کی ساری بدعملیاں بھی لکھی جارہی ہیں اور ان بد عملیوں کے جو برے اثرات ان کے مرنے کے بعد بھی باقی رہ جاتے ہیں وہ بھی لکھے جارہے ہیں۔