Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

ایک قصہ پارینہ ۔ اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم فرما رہا ہے کہ آپ اپنی قوم کے ساتھ ان سابقہ لوگوں کا قصہ بیان فرمایئے جنہوں نے ان سے پہلے اپنے رسولوں کو ان کی طرح جھٹلایا تھا ۔ یہ واقعہ شہر انطاکیہ کا ہے ۔ وہاں کے بادشاہ کا نام انطیخش تھا اس کے باپ اور دادا کا نام بھی یہی تھا یہ سب راجہ پرجابت پرست تھے ۔ ان کے پاس اللہ کے تین رسول آئے ۔ صادق ، صدوق اور شلوم ۔ اللہ کے درود و سلام ان پر نازل ہوں ۔ لیکن ان بدنصیبوں نے سب کو جھٹلایا ۔ عنقریب یہ بیان بھی آ رہا ہے کہ بعض بزرگوں نے اسے نہیں مانا کہ یہ واقعہ انطاکیہ کا ہو ، پہلے تو اس کے پاس دو رسول آئے انہوں نے انہیں نہیں مانا ان دو کی تائید میں پھر تیسرے نبی آئے ، پہلے دو رسولوں کا نام شمعون اور یوحنا تھا اور تیسرے رسول کا نام بولص تھا ۔ ان سب نے کہا کہ ہم اللہ کے بھیجے ہوئے ہیں ۔ جس نے تمہیں پیدا کیا ہے اس نے ہماری معرفت تمہیں حکم بھیجا ہے کہ تم اس کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرو ۔ حضرت قتادہ بن و عامہ کا خیال ہے کہ یہ تینوں بزرگ جناب مسیح علیہ السلام کے بھیجے ہوئے تھے ، بستی کے ان لوگوں نے جواب دیا کہ تم تو ہم جیسے ہی انسان ہو پھر کیا وجہ؟ کہ تمہاری طرف اللہ کی وحی آئے اور ہماری طرف نہ آئے؟ ہاں اگر تم رسول ہوتے تو چاہئے تھا کہ تم فرشتے ہوتے ۔ اکثر کفار نے یہی شبہ اپنے اپنے زمانے کے پیغمبروں کے سامنے پیش کیا تھا ۔ جیسے اللہ عزوجل کا ارشاد ہے ( ذٰلِكَ بِاَنَّهٗ كَانَتْ تَّاْتِيْهِمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّنٰتِ فَقَالُوْٓا اَبَشَرٌ يَّهْدُوْنَنَا ۡ فَكَفَرُوْا وَتَوَلَّوْا وَّاسْتَغْنَى اللّٰهُ ۭ وَاللّٰهُ غَنِيٌّ حَمِيْدٌ Č۝ ) 64- التغابن:6 ) یعنی لوگوں کے پاس رسول آئے اور انہوں نے جواب دیا کہ کیا انسان ہمارے ہادی بن کر آ گئے؟ اور آیت میں ہے الخ ، یعنی تم تو ہم جیسے انسان ہی ہو تم صرف یہ چاہتے ہو کہ ہمیں اپنے باپ دادوں کے معبودوں سے روک دو ۔ جاؤ کوئی کھلا غلبہ لے کر آؤ ۔ اور جگہ قرآن پاک میں ہے یعنی کافروں نے کہا کہ اگر تم نے اپنے جیسے انسانوں کی تابعداری کی تو یقیناً تم بڑے ہی گھاٹے میں پڑ گئے ۔ اس سے بھی زیادہ وضاحت کے ساتھ آیت ( وَمَا مَنَعَ النَّاسَ اَنْ يُّؤْمِنُوْٓا اِذْ جَاۗءَهُمُ الْهُدٰٓى اِلَّآ اَنْ قَالُوْٓا اَبَعَثَ اللّٰهُ بَشَرًا رَّسُوْلًا 94؀ ) 17- الإسراء:94 ) میں اس کا بیان ہے ۔ یہی ان لوگوں نے بھی ان تینوں نبیوں سے کہا کہ تم تو ہم جیسے انسان ہی ہو اور حقیقت میں اللہ نے تو کچھ بھی نازل نہیں فرمایا تم یونہی غلط ملط کہہ رہے ہو ، پیغمبروں نے جواب دیا کہ اللہ خوب جانتا ہے کہ ہم اس کے سچے رسول ہیں ۔ اگر ہم جھوٹے ہوتے تو اللہ پر جھوٹ باندھنے کی سزا ہمیں اللہ تعالیٰ دے دیتا لیکن تم دیکھو گے کہ وہ ہماری مدد کرے گا اور ہمیں عزت عطا فرمائے گا ۔ اس وقت تمہیں خود روشن ہو جائے گا کہ کون شخص بہ اعتبار انجام کے اچھا رہا ؟ جیسے اور جگہ ارشاد ہے ( قُلْ كَفٰي بِاللّٰهِ بَيْنِيْ وَبَيْنَكُمْ شَهِيْدًا ۚ يَعْلَمُ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِالْبَاطِلِ وَكَفَرُوْا بِاللّٰهِ ۙ اُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْخٰسِرُوْنَ 52؀ ) 29- العنكبوت:52 ) ، میرے تمہارے درمیان اللہ کی شہادت کافی ہے ۔ وہ تو آسمان و زمین کے غیب جانتا ہے ۔ باطل پر ایمان رکھنے والے اور اللہ سے کفر کرنے والے ہی نقصان یافتہ ہیں ، سنو ہمارے ذمے تو صرف تبلیغ ہے مانو گے تمہارا بھلا ہے نہ مانو گے تو پچھتاؤ گے ہمارا کچھ نہیں بگاڑو گے کل اپنے کئے کا خمیازہ بھگتو گے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

13۔ 1 تاکہ اہل مکہ یہ سمجھ لیں کہ آپ کوئی انوکھے رسول نہیں ہیں، بلکہ رسالت و نبوت کا یہ سلسلہ قدیم سے چلا آرہا ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[ ١٥] اصحاب القریہ اور مرد حق گو :۔ یہ بستی کون سی تھی ؟ اس کے متعلق قرآن و حدیث میں کوئی صراحت نہیں۔ مفسرین کہتے ہیں کہ اس سے مراد روم میں واقع انطاکیہ شہر ہے۔ پھر اس بات میں بھی اختلاف ہے کہ یہ رسول بلاواسطہ رسول تھے یا بالواسطہ رسول یا مبلغ تھے۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ مبلغ سیدنا عیسیٰ نے ہی بھیجے تھے۔ اور بعض کہتے ہیں کہ یہ سیدنا عیسیٰ کے حواریوں میں سے تھے۔ قرآن کے بیان سے سرسری طور پر یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ بلاواسطہ اللہ کے رسول تھے۔ اور اگر یہی بات ہو تو ان کا زمانہ سیدنا عیسیٰ سے پہلے کا زمانہ ہونا چاہئے کیونکہ سیدنا عیسیٰ کے بعد رسول اللہ کی بعثت تک کوئی نبی یا رسول مبعوث نہیں ہوا۔ اور بستی کے نام کی تعیین یارسول کے بلاواسطہ یا بالواسطہ ہونے کی تعیین کوئی مقصود بالذات چیز بھی نہیں کہ اس کی تحقیق ضروری ہو۔ مقصود بالذات چیز تو کفار مکہ کو سمجھانا ہے کیونکہ کفار مکہ اور ان بستی والوں کے حالات میں بہت سی باتوں میں مماثلت پائی جاتی تھی۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَاضْرِبْ لَهُمْ مَّثَلًا اَصْحٰبَ الْقَرْيَةِ : یعنی جن لوگوں کو ڈرانے کے لیے آپ کو یہ قرآن حکیم دے کر مبعوث کیا گیا ہے اور جن کے اکثر لوگ کفر پر اصرار کی وجہ سے عذاب کے مستحق بن چکے ہیں، انھیں اس بستی کے لوگوں کا حال بطور مثال سنائیں، جن کی طرف ہمارے بھیجے ہوئے رسول آئے۔ انھوں نے بھی اپنے رسولوں کو انھی کی طرح جھٹلایا تھا، سو ان کا انجام یہ لو گ بھی پیش نظر رکھیں۔ اس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے تسلی بھی ہے کہ آپ پہلے رسول نہیں جسے اس کی قوم نے جھٹلایا ہو۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - اور آپ ان (کفار) کے سامنے (اس غرض سے کہ رسالت کی تائید اور ان کو انکار توحید و رسالت پر تہدید ہو) ایک قصہ یعنی ایک بستی والوں کا قصہ اس وقت کا بیان کیجئے جبکہ اس بستی میں کئی رسول آئے یعنی جبکہ ہم نے ان کے پاس (اول) دو کو بھیجا سو ان لوگوں نے اول دونوں کو جھوٹا بتلایا پھر تیسرے (رسول) سے (ان دونوں کی) تائید کی (یعنی تائید کے لئے پھر تیسرے کو وہاں جانے کا حکم دیا) سو ان تینوں نے (ان بستی والوں سے) کہا کہ ہم تمہارے پاس (خدا کی طرف سے) بھیجے گئے ہیں (تا کہ تم کو ہدایت کریں کہ توحید اختیار کرو بت پرستی چھوڑو کیونکہ وہ لوگ بت پرست تھے، کما یدل علیہ قولہ تعالیٰ (آیت) ومالی لا اعبد الذی فطرنی وقولہ اتخذ من دونہ الہة الخ) ان لوگوں نے (یعنی بستی والوں نے) کہا کہ تم تو ہماری طرح (محض) معمولی آدمی ہو (تم کو رسول ہونے کا امتیاز حاصل نہیں) اور (تمہاری کیا تخصیص ہے، مسئلہ رسالت ہی خود بےاصل ہے اور) خدائے رحمٰن نے (تو) کوئی چیز (کتاب و احکام کی قسم سے کبھی) نازل (ہی) نہیں کی، تم نرا جھوٹ بولتے ہو ان رسولوں نے کہا کہ ہمارا پروردگار علیم ہے کہ بیشک ہم تمہارے پاس (بطور رسول کے) بھیجے گئے ہیں اور (اس قسم سے یہ مقصود نہیں کہ اسی سے اثبات رسالت کرتے ہیں بلکہ بعد اقامت دلائل کے بھی جب انہوں نے نہ مانا تب آخری جواب کے طور پر مجبور ہو کر قسم کھائی جیسا آگے خود ان کے ارشاد سے معلوم ہوتا ہے) کہ ہمارے ذمہ تو صرف واضح طور پر (حکم کا) پہنچا دینا تھا (چونکہ واضح ہونا اس پر موقوف ہے کہ دلائل واضحہ سے دعوے کو ثابت کردیا جائے، اس سے معلوم ہوا کہ اول دلائل قائم کرچکے تھے، آخر میں قسم کھائی۔ غرض یہ کہ ہم اپنا کام کرچکے تم نہ مانو تو ہم مجبور ہیں) وہ لوگ کہنے لگے کہ ہم تو تم کو منحوس سمجھتے ہیں (یا تو اس لئے کہا کہ ان پر قحط پڑا تھا (کما فی العالم) اور یا اس لئے کہا کہ جب کوئی نئی بات سنی جاتی ہے، گو لوگ اس کو قبول نہ کریں مگر اس کا چرچا ضرور ہوتا ہے، اور اکثر عام لوگوں میں اس کی وجہ سے گفتگو اور اس گفتگو میں اختلاف اور کبھی نزاع ونااتفاقی کی نوبت پہنچ ہی جاتی ہے۔ پس مطلب یہ ہوگا کہ تمام لوگوں میں ایک فتنہ جھگڑا ڈال دیا جس سے مضرتیں پہنچ رہی ہیں، یہ نحوست ہے۔ اور اس نحوست کے سبب تم ہو) اور اگر تم (اس دعوت اور دعوے) سے باز نہ آئے تو (یاد رکھو) ہم پتھروں سے تمہارا کام تمام کر دینگے اور (سنگساری سے پہلے بھی) تم کو ہماری طرف سے سخت تکلیف پہنچے گی (یعنی اور طرح طرح سے ستاویں گے) نہیں مانو گے تو اخیر میں سنگسار کردیں گے) ان رسولوں نے کہا کہ تمہاری نحوست تو تمہارے ساتھ ہی لگی ہوئی ہے (یعنی جس کو تم مضرت و مصیبت کہتے ہو اس کا سبب تو حق کا قبول نہ کرنا ہے، اگر حق قبول کرنے پر متفق ہوجاتے نہ یہ جھگڑے اور فتنے ہوتے، نہ قح کے عذاب میں مبتلا ہوتے۔ رہا پہلا اتفاق بت پرستی پر تو ایسا اتفاق جو باطل پر ہو خود فساد و وبال ہے جس کو چھوڑنا لازم ہے اور اس زمانے میں قحط نہ ہونا وہ بطور استدراج کے اللہ کی طرف سے ڈھیل دی ہوئی تھی یا اس وجہ سے تھا کہ اس وقت تک ان لوگوں پر حق واضح نہیں ہوا تھا۔ اور اللہ کا قانون ہے کہ حق کو واضح کرنے سے پہلے کسی کو عذاب نہیں دیتے، جیسا کہ ارشاد ہے کہ (آیت) حتی یبین لہم ما یتقون، اور یہ ڈھیل یا حق کا نہ ہونا بھی تمہاری ہی غفلت، جہالت اور شامت اعمال تھی، اس سے معلوم ہوا کہ ہر حال میں اس نحوست کا سبب خود تمہارا فعل تھا) کیا تم اس کو نحوست سمجھتے ہو کہ تم کو نصیحت کی جاوے (جو بنیاد سعادت ہے یہ تو واقع میں نحوست نہیں) بلکہ تم (خود) حد (عقل و شرع) سے نکل جانے والے لوگ ہو (پس مخالفت شرع سے تم پر یہ نحوست آئی اور مخالفت عقل سے تم نے اس کا سبب غلط سمجھا) اور (اس گفتگو کی خبر جو شائع ہوئی تو) ایک شخص (جو مسلمان تھا) اس شہر کے کسی دور مقام سے (جو یہاں سے دور تھا یہ خبر سن کر اپنی قوم کی خیر خواہی کے لئے کہ ان رسولوں کا وجود قوم کی فلاح تھا، یا رسولوں کی خیر خواہی کے لئے کہ کہیں یہ لوگ ان کو قتل نہ کردیں) دوڑتا ہوا (یہاں) آیا (اور ان لوگوں سے) کہنے لگا کہ اے میری قوم ان رسولوں کی راہ پر چلو (ضرور) ایسے لوگوں کی راہ پر چلو جو تم سے کوئی معاوضہ نہیں مانگتے، اور وہ خود راہ راست پر بھی ہیں (یعنی خود غرضی جو مانع اتباع ہے وہ بھی نہیں اور راہ راست پر ہونا جو مقتضی اتباع ہے وہ موجود ہے پھر اتباع کیوں نہ کیا جاوے) اور میرے پاس کون سا عذر ہے کہ میں اس (معبود) کی عبادت نہ کروں جس نے مجھ کو پیدا کیا (جو کہ منجملہ دلائل استحقاق عبادت کے ہے) اور (اپنے اوپر رکھ کر اس لئے کہا کہ مخاطب کو اشتعال نہ ہو جو کہ مانع تدبر ہوجاتا ہے اور اصل مطلب یہی ہے کہ تم کو ایک اللہ کی عبادت کرنے میں کون سا عذر ہے) تم سب کو اسی کے پاس لوٹ کر جانا ہے (اس لئے دانش مندی کا تقاضا یہ ہے کہ اس کے رسولوں کا اتباع کرو۔ یہاں تک تو معبود حق کے استحقاق عبادت کا بیان کیا، آگے معبودات باطلہ کے عدم استحقاق عبادت کا مضمون ہے یعنی) کیا میں خدا کو چھوڑ کر اور ایسے ایسے معبود قرار دے لوں (جن کی کیفیت بےبسی کی یہ ہے) کہ اگر خدائے رحمن مجھ کو تکلیف پہنچانا چاہے تو نہ ان معبودوں کی سفارش میرے کام آوے گی اور نہ وہ مجھ کو (خود اپنی قدرو زور کے ذریعہ اس تکلیف سے) چھڑا سکیں (یعنی نہ وہ خود قادر ہیں نہ قادر تک واسطہ سفارش بن سکتے ہیں، کیونکہ اول تو جمادات میں شفاعت کی اہلییت ہی نہیں، دوسرے شفاعت وہی کرسکتے ہیں جن کو اللہ کی طرف سے اجازت ہو اور) اگر میں ایسا کروں تو صریح گمراہی میں جا پڑا (یہ بھی اپنے اوپر رکھ کر ان لوگوں کو سنانا ہے) میں تو تمہارے پروردگار پر ایمان لا چکا سو تم (بھی) میری بات سن لو (اور ایمان لے آؤ، مگر ان لوگوں پر کچھ اثر نہ ہوا بلکہ اس کو پتھروں سے یا آگ میں ڈال کر یا گلا گھونٹ کر (کما فی الدر المنشور) شہید کر ڈالا، شہید ہوتے ہی اس کو خدا کی طرف سے) ارشاد ہوا کہ جا جنت میں داخل ہوجا (اس وقت بھی اس کو اپنی قوم کی فکر ہوئی) کہنے لگا کہ کاش میری قوم کو یہ بات معلوم ہوجاتی کہ میرے پروردگار نے (ایمان اور اتباع رسل کی برکت سے) مجھ کو بخش دیا اور مجھ کو عزت داروں میں شامل کردیا (تو اس حال کو معلوم کر کے وہ بھی ایمان لے آتے اور اسی طرح وہ بھی مغفور اور مکرم ہوجاتے) اور (جب ان بستی والوں نے رسل اور متبع رسل کے ساتھ یہ معاملہ کیا تو ہم نے ان سے انتقام لیا اور انتقام لینے کے لئے) ہم نے اس (شخص شہید) کی قوم پر اس (کی شہادت) کے بعد کوئی لشکر (فرشتوں کا) آسمان سے نہیں اتارا اور نہ ہم کو اتارنے کی ضرورت تھی، (کیونکہ ان کا ہلاک کرنا اس پر موقوف نہ تھا کہ اس کے لئے کوئی بڑی جمعیت لائی جاتی (کذا فسرہ، ابن مسعود فیما نقل ابن کثیر عن ابن اسحاق حیث قال ما کا ثرنا ہم بالجموع فان الامر کان ایسر علینا من ذلک بلکہ) وہ سزا ایک آواز سخت تھی (جو جبرئیل (علیہ السلام) نے کردی، کذا فی المعالم یا اور کسی فرشتہ نے کردی ہو۔ یا صیحہ سے مطلق عذاب مراد ہو جس کی تعیین نہیں کی گئی، جیسا کہ سورة مومنون کی آیت فاخذثہم الصیحة کی تفسیر میں گزر چکا ہے) اور وہ سب اسی دم (اس سے) بجھ کر (یعنی مر کر) رہ گئے (آگے قصہ کا انجام بتلانے کے لئے مکذبین کی مذمت فرماتے ہیں کہ) افسوس (ایسے) بندوں کے حال پر کہ کبھی ان کے پاس کوئی رسول نہیں آیا جس کی انہوں نے ہنسی نہ اڑائی ہو کیا ان لوگوں نے اس پر نظر نہیں کی کہ ہم ان سے پہلے بہت سی امتیں (اسی تکذیب و استہزاء کے سبب) غارت کرچکے کہ وہ (پھر) ان کی طرف (دنیا میں) لوٹ کر نہیں آتے، (اگر اس میں غور کرتے تو تکذیب و استہزا سے باز آجاتے اور یہ سزا تو مکذبین کو دنیا میں دی گئی) اور (پھر آخرت میں) ان سب میں کوئی ایسا نہیں جو مجتمع طور پر ہمارے رو برو حاضر نہ کیا جاوے (وہاں پھر سزا ہوگی اور وہ سزا دائمی ہوگی) ۔- معارف ومسائل - (آیت) واضرب لہم مثلاً اصحب القریة، ضرب مثل کسی معاملے کو ثابت کرنے کے لئے اسی جیسے واقعہ کی مثال بیان کرنے کو کہتے ہیں۔ اوپر جن منکرین نبوت و رسالت کفار کا ذکر آیا ہے، اس کو متنبہ کرنے کے لئے قرآن کریم بطور مثال کے پہلے زمانے کا ایک قصہ بیان کرتا ہے جو ایک بستی میں پیش آیا تھا۔- وہ کونسی بستی ہے جس کا ذکر اس قصہ میں آیا ہے ؟- قرآن کریم نے اس بستی کا نام نہیں بتلایا، تاریخی روایات میں محمد بن اسحاق نے حضرت ابن عباس اور کعب احبار، وہب بن منبہ سے نقل کیا ہے کہ یہ بستی انطاکیہ تھی۔ اور جمہور مفسرین نے اسی کو اختیار کیا ہے۔ ابوحیان اور ابن کثیر نے فرمایا کہ مفسرین میں اس کے خلاف کوئی قول منقول نہیں۔ معجم البلدان کی تصریح کے مطابق انطاکیہ ملک شام کا مشہور عظیم الشان شہر ہے، جو اپنی شادابی اور استحکام میں معروف ہے، اس کا قلعہ اور شہر پناہ کی دیوار ایک مثالی چیز سمجھی جاتی ہے۔ اس شہر میں نصاری کے عبادت خانے کینسا بیشمار اور بڑے شاندار سونے چاندی کے کام سے مزین ہیں، ساحلی شہر ہے، زمانہ اسلام میں اس کو فاتح شام حضرت امین الامة ابو عبیدہ بن جراح نے فتح کیا ہے۔ معجم البلدان میں یاقوت حموی نے یہ بھی لکھا ہے کہ حبیب بخار (جس کا قصہ اس آیت میں آگے آ رہا ہے) اس کی قبر بھی انطاکیہ میں معروف ہے، دور دور سے لوگ اس کی زیارت کے لئے آتے ہیں۔ ان کی تصریح سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ جس قریہ کا ذکر اس آیت میں آیا ہے وہ یہی شہر انطاکیہ ہے۔- ابن کثیر نے لکھا ہے کہ انتظاکیہ ان چار مشہور شہروں میں سے ہے جو دین عیسوی اور نصرانیت کے مرکز سمجھے گئے ہیں، یعنی قدس، رومیہ، اسکندریہ اور انطاکیہ۔ اور فرمایا کہ انطاکیہ سب سے پہلا شہر ہے، جس نے دین مسیح (علیہ السلام) کو قبول کیا۔ اسی بنا پر ابن کثیر کو اس میں تردد ہے کہ جس قریہ کا ذکر اس آیت میں ہے وہ مشہور شہر انطاکیہ ہو، کیونکہ قرآن کریم کی تصریح کے مطابق یہ قریہ منکرین رسالت و نبوت کی بستی تھی، اور تاریخی روایات کے مطابق وہ بت پرست مشرکین تھے تو انطاکیہ جو دین مسیح اور نصرانیت کے قبول کرنے میں سب سے اولیت رکھتا ہے، وہ کیسے اس کا مصداق ہوسکتا ہے۔- نیز قرآن کریم کی مذکورہ آیات ہی سے یہ بھی ثابت ہے کہ اس واقعہ میں اس پوری بستی پر ایسا عذاب آیا کہ ان میں کوئی زندہ نہیں بچا۔ شہر انطاکیہ کے متعلق تاریخ میں اس کا ایسا کوئی واقعہ منقول نہیں کہ کسی وقت اس کے سارے باشندے بیک وقت مر گئے ہوں۔ اس لئے ابن کثیر کی رائے میں یا تو اس آیت میں جس قریہ کا ذکر ہے وہ انطاکیہ کے علاوہ کوئی اور بستی ہے یا پھر انطاکیہ نام ہی کی کوئی دوسری بستی ہے جو مشہور شہر انطاکیہ نہیں ہے۔- صاحب فتح المنان نے ابن کثیر کے ان اشکالات کے جوابات بھی دیئے ہیں، مگر سہل اور بےغبار بات وہی ہے جس کو سیدی حضرت حکیم الامت نے بیان القرآن میں اختیار فرمایا ہے۔ کہ آیات قرآن کا مضمون سمجھنے کے لئے اس بستی کی تعیین ضروری نہیں، اور قرآن کریم نے اس کو مبہم رکھا ہے، تو ضرورت ہی کیا ہے کہ اس کی تعیین پر اتنا زور خرچ کیا جائے۔ سلف صالحین کا یہ ارشاد کہ ابھموا ما ابھمہ اللہ، یعنی جس چیز کو اللہ نے مبہم رکھا ہے تم بھی اسے مبہم ہی رہنے دو ، اس کا مقتضیٰ بھی یہی ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَاضْرِبْ لَہُمْ مَّثَلًا اَصْحٰبَ الْقَرْيَۃِ۝ ٠ ۘ اِذْ جَاۗءَہَا الْمُرْسَلُوْنَ۝ ١٣ۚ- ضَرْبُ المَثلِ- هو من ضَرْبِ الدّراهمِ ، وهو ذکر شيء أثره يظهر في غيره . قال تعالی: ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا [ الزمر 29] ، وَاضْرِبْ لَهُمْ مَثَلًا[ الكهف 32] ، ضَرَبَ لَكُمْ مَثَلًا مِنْ أَنْفُسِكُمْ- [ الروم 28] ، وَلَقَدْ ضَرَبْنا لِلنَّاسِ [ الروم 58] ، - ضرب اللبن الدراھم سے ماخوذ ہے اور اس کے معنی ہیں کسی بات کو اس طرح بیان کرنے کہ اس سے دوسری بات کی وضاحت ہو ۔ قرآن میں ہے ۔ ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا [ الزمر 29] خدا ایک مثال بیان فرماتا ہے ۔ وَاضْرِبْ لَهُمْ مَثَلًا[ الكهف 32] اور ان سے قصہ بیان کرو ۔ ضَرَبَ لَكُمْ مَثَلًا مِنْ أَنْفُسِكُمْ [ الروم 28] وہ تمہارے لئے تمہارے ہی حال کی ایک مثال بیان فرماتا ہے ۔ وَلَقَدْ ضَرَبْنا لِلنَّاسِ [ الروم 58] اور ہم نے ہر طرح مثال بیان کردی ہے ۔ - صحب - الصَّاحِبُ : الملازم إنسانا کان أو حيوانا، أو مکانا، أو زمانا . ولا فرق بين أن تکون مُصَاحَبَتُهُ بالبدن۔ وهو الأصل والأكثر۔ ، أو بالعناية والهمّة، - ويقال للمالک للشیء : هو صاحبه، وکذلک لمن يملک التّصرّف فيه . قال تعالی: إِذْ يَقُولُ لِصاحِبِهِ لا تَحْزَنْ [ التوبة 40]- ( ص ح ب ) الصاحب - ۔ کے معنی ہیں ہمیشہ ساتھ رہنے والا ۔ خواہ وہ کسی انسان یا حیوان کے ساتھ رہے یا مکان یا زمان کے اور عام اس سے کہ وہ مصاحبت بدنی ہو جو کہ اصل اور اکثر ہے یا بذریعہ عنایت اور ہمت کے ہو جس کے متعلق کہ شاعر نے کہا ہے ( الطوایل ) ( اگر تو میری نظروں سے غائب ہے تو دل سے تو غائب نہیں ہے ) اور حزف میں صاحب صرف اسی کو کہا جاتا ہے جو عام طور پر ساتھ رہے اور کبھی کسی چیز کے مالک کو بھی ھو صاحبہ کہہ دیا جاتا ہے اسی طرح اس کو بھی جو کسی چیز میں تصرف کا مالک ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِذْ يَقُولُ لِصاحِبِهِ لا تَحْزَنْ [ التوبة 40] اس وقت پیغمبر اپنے رفیق کو تسلی دیتے تھے کہ غم نہ کرو ۔ - قرية- الْقَرْيَةُ : اسم للموضع الذي يجتمع فيه الناس، وللناس جمیعا، ويستعمل في كلّ واحد منهما . قال تعالی: وَسْئَلِ الْقَرْيَةَ [يوسف 82] قال کثير من المفسّرين معناه : أهل القرية .- ( ق ر ی ) القریۃ - وہ جگہ جہاں لوگ جمع ہو کر آباد ہوجائیں تو بحیثیت مجموعی ان دونوں کو قریہ کہتے ہیں اور جمع ہونے والے لوگوں اور جگہ انفراد بھی قریہ بولا جاتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَسْئَلِ الْقَرْيَةَ [يوسف 82] بستی سے دریافت کرلیجئے ۔ میں اکثر مفسرین نے اہل کا لفظ محزوف مان کر قریہ سے وہاں کے با شندے مرے لئے ہیں - جاء - جاء يجيء ومَجِيئا، والمجیء کالإتيان، لکن المجیء أعمّ ، لأنّ الإتيان مجیء بسهولة، والإتيان قد يقال باعتبار القصد وإن لم يكن منه الحصول، والمجیء يقال اعتبارا بالحصول، ويقال «1» : جاء في الأعيان والمعاني، ولما يكون مجيئه بذاته وبأمره، ولمن قصد مکانا أو عملا أو زمانا، قال اللہ عزّ وجلّ : وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس 20] ، - ( ج ی ء ) جاء ( ض )- جاء يجيء و مجيئا والمجیء کالاتیانکے ہم معنی ہے جس کے معنی آنا کے ہیں لیکن مجی کا لفظ اتیان سے زیادہ عام ہے کیونکہ اتیان کا لفط خاص کر کسی چیز کے بسہولت آنے پر بولا جاتا ہے نیز اتبان کے معنی کسی کام مقصد اور ارادہ کرنا بھی آجاتے ہیں گو اس کا حصول نہ ہو ۔ لیکن مجییء کا لفظ اس وقت بولا جائیگا جب وہ کام واقعہ میں حاصل بھی ہوچکا ہو نیز جاء کے معنی مطلق کسی چیز کی آمد کے ہوتے ہیں ۔ خواہ وہ آمد بالذات ہو یا بلا مر اور پھر یہ لفظ اعیان واعراض دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور اس شخص کے لئے بھی بولا جاتا ہے جو کسی جگہ یا کام یا وقت کا قصد کرے قرآن میں ہے :َ وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس 20] اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آپہنچا ۔- رسل - وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ، - ( ر س ل ) الرسل - اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٣۔ ١٤) اور آپ ان مکہ والوں سے انطاکیہ والوں کا ایک واقعہ بیان کردیجیئے کہ ہم نے ان کو کس طرح ہلاک کیا جبکہ ان کے پاس حضرت عیسیٰ کے بھیجے ہوئے رسول شمعون الصفار آئے ان لوگوں نے ان کو جھٹلایا اور ان پر ایمان نہیں لائے اور اس سے پہلے ہم نے ان کے پاس دو رسولوں یعنی سمعان اور ثومان کو بھیجا تو اس بستی والوں نے ان دونوں جو جھٹلایا تو پھر ہم نے ان کے پاس شمعون کو بھیجا کہ انہوں نے پہلے دونوں رسولوں کی تبلیغ رسالت کی تصدیق کی۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٣ وَاضْرِبْ لَہُمْ مَّثَلاً اَصْحٰبَ الْقَرْیَۃِ ٧ اِذْ جَآئَ ہَا الْمُرْسَلُوْنَ ” ان کے لیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس بستی والوں کی مثال بیان کیجیے ‘ جب کہ ان کے پاس رسول آئے۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة یٰسٓ حاشیہ نمبر :10 قدیم مفسرین بالعموم اس طرف گئے ہیں کہ اس بستی سے مراد شام کا شہر انطاکیہ ہے اور جن رسولوں کا ذکر یہاں کیا گیا ہے انہیں حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے تبلیغ کے لیے بھیجا تھا ۔ اس سلسلے میں قصے کی جو تفصیلات بیان کی گئی ہیں ان میں سے ایک بات یہ بھی ہے کہ اس زمانہ میں انطیخش اس علاقے کا بادشاہ تھا لیکن یہ سارا قصہ ابن عباس ، قتادہ ، عِکرِمہ ، کَعب اَحْبار اور وہب بن مُنَبِہ وغیرہ بزرگوں نے عیسائیوں کی غیر مستند روایات سے اخذ کیا ہے اور تاریخی حیثیت سے بالکل بے بنیاد ہے ۔ انطاکیہ میں سلوتی خاندان ( ) کے 13 بادشاہ انتیوکس ( ) کے نام سے گزرے ہیں اور اس نام کے آخری فرمانروا کی حکومت ، بلکہ خود اس خاندان کی حکومت بھی 65 قبل مسیح میں ختم ہو گئی تھی ۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں انطاکیہ سمیت شام فلسطین کا پورا علاقہ رومیوں کے زیر نگیں تھا ۔ پھر عیسائیوں کی کسی مستند روایت سے اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ملتا کہ خود حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنے حواریوں میں سے کسی کو تبلیغ کے لیے انطاکیہ بھیجا ہو ۔ اس کے برعکس بائیبل کی کتاب اعمال سے معلوم ہوتا ہے کہ واقعۂ صلیب کے چند سال بعد عیسائی مبلغین پہلی مرتبہ وہاں پہنچے تھے ۔ اب یہ ظاہر ہے کہ جن لوگوں کو نہ اللہ نے رسول بنا کر بھیجا ہو ، نہ اللہ کے رسول نے معمور کیا ہو ، وہ اگر بطور خود تبلیغ کے لیے نکلے ہوں تو کسی تاویل کی رو سے بھی وہ اللہ کے رسول قرار نہیں پا سکتے ۔ علاوہ بریں بائیبل کے بیان کی رو سے انطاکیہ پہلا شہر ہے جہاں کثرت سے غیر اسرائیلیوں نے دین مسیح کو قبول کیا اور مسیحی کلیسا کو غیر معمولی کامیابی نصیب ہوئی ۔ حالانکہ قرآن جس بستی کا ذکر یہاں کر رہا ہے وہ کوئی ایسی بستی تھی جس نے رسولوں کی دعوت کو رد کر دیا اور بالآخر عذاب الہٰی کی شکار ہوئی ۔ تاریخ میں اس امر کا بھی کوئی ثبوت نہیں ملتا کہ انطاکیہ پر ایسی کوئی تباہی نازل ہوئی جسے انکار رسالت کی بنا پر عذاب قرار دیا جا سکتا ہو ۔ ان وجوہ سے یہ بات ناقابل قبول ہے کہ اس بستی سے مراد انطاکیہ ہے ۔ بستی کا تعین نہ قرآن میں کیا گیا ہے ، نہ کسی صحیح حدیث میں ، بلکہ یہ بات بھی کسی مستند ذریعہ سے معلوم نہیں ہوتی کہ یہ رسول کون تھے اور کس زمانے میں بھیجے گئے تھے ۔ قرآن مجید جس غرض کے لیے یہ قصہ یہاں بیان کر رہا ہے اسے سمجھنے کے لیے بستی کا نام اور رسولوں کے نام معلوم ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔ قصے کے بیان کرنے کی غرض قریش کے لوگوں کو یہ بتانا ہے کہ تم ہٹ دھرمی ، تعصُّب اور انکار حق کی اسی روش پر چل رہے ہو جس پر اس بستی کے لوگ چلے تھے ، اور اسی انجام سے دوچار ہونے کی تیاری کر رہے ہو جس سے وہ دوچار ہوئے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

5: قرآن کریم نے نہ اس بستی کا نام ذکر فرمایا ہے، اور نہ ان رسولوں کا جو اس بستی میں بھیجے گئے تھے، بعض روایات میں کہا گیا ہے کہ یہ بستی شام کا مشہور شہر انطاکیہ تھی ؛ لیکن نہ تو یہ روایتیں مضبوط ہیں اور نہ تاریخی قرائن سے اس کی تصدیق ہوتی ہے، دوسری طرف رسول کا لفظ عربی زبان میں ہراس شخص کے لئے بولا جاتا ہے جو کسی کا پیغام لے کر دوسرے کے پاس جائے ؛ لیکن قرآن کریم میں زیادہ تر یہ لفظ اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے پیغمبروں کے لئے استعمال ہوا ہے، اس لئے ظاہر یہی ہے کہ یہ حضرات انبیا کرام تھے، اور بعض روایات میں ان کے نام بھی صادق، صدوق اور شلوم یا شمعون بتائے گئے ہیں ؛ لیکن یہ روایات بھی زیادہ مضبوط نہیں ہیں، اور بعض مفسرین کا خیال یہ ہے کہ یہ حضرات انبیا نہیں تھے ؛ بلکہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے شاگرد تھے جنہیں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے اس بستی میں تبلیغ کے لئے بھیجا تھا، اور مرسلون کا لفظ اپنے لغوی معنی میں استعمال ہوا ہے ؛ لیکن چونکہ یہاں اللہ تعالیٰ نے انہیں بھیجنے کی نسبت اپنی طرف فرمائی ہے، اس لئے ظاہر یہی ہے کہ یہ انبیاء کرام تھے، شروع میں دو نبی بھیجے گئے تھے، پھر ایک تیسرے پیغمبر بھی بھیجے گئے، بہر حال عبرت کا جو سبق قرآن کریم دینا چاہتا ہے وہ نہ بستی کے تعین پر موقوف ہے اور نہ پیغام لے جانے والوں کی شناخت پر، اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ان کے نام نہیں بتائے، لہذا ہمیں بھی اس کی کھوج میں پڑنے کی ضرورت نہیں ہے۔