14۔ 1 یہ تین رسول کون تھے ؟ مفسرین نے ان کے مختلف نام بیان کئے ہیں، لیکن نام مستند ذریعے سے ثابت نہیں ہیں۔ بعض مفسرین کا خیال ہے کہ یہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بھیجے ہوئے تھے، جو انہوں نے اللہ کے حکم سے ایک بستی میں تبلیغ و دعوت کے لئے بھیجے تھے۔ بستی کا نام انطاکیہ تھا۔
[ ١٦] قریش بھی رسول اللہ کو یہی کچھ کہتے تھے کہ تم بھی ہمارے ہی جیسے بشر ہو آخر تم میں ہم سے بڑھ کر وہ کون سی خوبی ہے جو اللہ نے تمہیں ہی نبوت کے لئے منتخب کیا اور یہ ایسا اعتراض ہے جو ہر نبی کے منکر اپنے اپنے نبی کے متعلق کرتے آئے تھے۔ گویا نبوت کے متعلق جاہلی تصور یہ ہے کہ جو بشر ہو وہ رسول نہیں ہوسکتا اور اس کے عین برعکس دوسرا جاہلی تصور یہ ہے کہ جو رسول ہو وہ بشر نہیں ہوسکتا۔ حالانکہ قرآن سب انبیاء کو بشر بھی ثابت کرتا ہے اور رسول بھی۔
اِذْ اَرْسَلْنَآ اِلَيْهِمُ اثْــنَيْنِ فَكَذَّبُوْهُمَا : یعنی ہم نے ان لوگوں کی طرف دو رسول بھیجے تو انھوں نے دونوں کو جھٹلا دیا، تو ہم نے انھیں تیسرے پیغمبر کے ساتھ قوت دی، تو ان سب نے حرف تاکید ”إِنَّ “ کے ساتھ انھیں کہا کہ یقیناً ہم تمہاری طرف بھیجے ہوئے ہیں۔- مفسر عبد الرحمن کیلانی (رض) لکھتے ہیں : ” یہ بستی کون سی تھی ؟ اس کے متعلق قرآن و حدیث میں کوئی صراحت نہیں۔ (بعض) مفسرین کہتے ہیں کہ اس سے مراد روم میں واقع شہر انطاکیہ ہے۔ پھر اس بات میں بھی اختلاف ہے کہ یہ رسول بلاواسطہ رسول تھے یا بالواسطہ رسول یا مبلغ تھے۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ مبلغ سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) ہی نے بھیجے تھے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کے حواریوں میں سے تھے۔ قرآن کے بیان سے سرسری طور پر یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ بلاواسطہ اللہ کے رسول تھے اور اگر یہی بات ہو تو ان کا زمانہ سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) سے پہلے کا زمانہ ہونا چاہیے، کیونکہ سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت تک کوئی نبی یا رسول مبعوث نہیں ہوا، اور بستی کے نام کی تعیین یا رسول کے بلاواسطہ یا بالواسطہ ہونے کی تعیین کوئی مقصود بالذات چیز بھی نہیں کہ اس کی تحقیق ضروری ہو، مقصود بالذات چیز تو کفار مکہ کو سمجھانا ہے۔ کیونکہ کفار مکہ اور ان بستی والوں کے حالات میں بہت سی باتوں میں مماثلت پائی جاتی تھی۔ “ یہ رسول عیسیٰ (علیہ السلام) کی طرف سے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے بھیجے ہوئے تھے۔ اس کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ ان پر وہی اعتراض کیا گیا جو اللہ کے دوسرے رسولوں پر کیا گیا کہ تم ہمارے جیسے بشر ہو۔ عیسیٰ (علیہ السلام) کے حواریوں پر اس اعتراض کے بجائے وہ کوئی اور اعتراض کرتے۔
(آیت) اذ جاءھا المرسلون۔ اذ ارسلنا الیہم اثنین فکذبوھہما فعززنا بثالث فقالوا انا الیکم مرسلون۔ مذکورہ بستی میں تین رسول بھیجے گئے تھے، پہلے ان کا بیان اجمالی اذجاء انا الیکم مرسلون میں فرمایا۔ اس کے بعد اس کی یہ تفصیل دی گئی کہ پہلے دو رسول بھیجے گئے تھے، بستی والوں نے ان کو جھٹلایا اور ان کی بات نہ مانی تو اللہ تعالیٰ نے ان کی تائید وتقویت کے لئے ایک تیسرا رسول بھیج دیا۔ پھر ان تینوں رسولوں نے بستی والوں کو خطاب کیا انا الیکم مرسلون، یعنی ہم تمہاری ہدایت کے لئے بھیجے گئے ہیں۔- اس بستی میں جو رسول بھیجے گئے ان سے کیا مراد ہے اور وہ کون حضرات تھے :- لفظ رسول اور مرسل قرآن کریم میں عام طور پر اللہ کے نبی پیغمبر کے لئے بولا جاتا ہے۔ اس آیت میں ان کے بھیجنے کو حق تعالیٰ نے اپنی طرف منسوب کیا ہے، یہ بھی علامت اس کی ہے کہ اس سے مراد انبیاء مرسلین ہیں۔ ابن اسحاق نے حضرت ابن عباس کعب احبار اور وہب بن منبہ کی روایت یہی نقل کی ہے کہ یہ تینوں بزرگ جن کا اس قریہ میں بھیجنے کا ذکر ہے۔ اللہ تعالیٰ کے پیغمبر تھے ان کے نام اس روایت میں صادق، صدوق اور شلوم مذکور ہیں، اور ایک روایت میں تیسرے کا نام شمعون آیا ہے۔ (ابن کثیر)- اور حضرت قتادہ سے یہ منقول ہے کہ یہاں لفظ مرسلون اپنے اصلاحی معنی میں نہیں بلکہ قاصد کے معنی میں ہے اور یہ تین بزرگ جو اس قریہ کی طرف بھیجے گئے خود پیغمبر نہیں تھے، بلکہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے حواریین میں سے تھے۔ انہی کے حکم سے یہ اس قریہ کی ہدایت کے لئے بھیجے گئے تھے (ابن کثیر) اور چونکہ ان کے بھیجنے والے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اللہ کے رسول تھے، ان کا بھیجنا بھی بالواسطہ اللہ تعالیٰ ہی کا بھیجنا تھا اس لئے آیت میں ان کے ارسال کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کیا گیا ہے۔ مفسرین میں سے ابن کثیر نے پہلے قول کو اور قرطبی وغیرہ نے دوسرے کو اختیار کیا ہے، ظاہر قرآن سے بھی یہی سمجھا جاتا ہے کہ یہ حضرات اللہ کے نبی اور پیغمبر تھے۔ واللہ اعلم۔
اِذْ اَرْسَلْنَآ اِلَيْہِمُ اثْــنَيْنِ فَكَذَّبُوْہُمَا فَعَزَّزْنَا بِثَالِثٍ فَقَالُـوْٓا اِنَّآ اِلَيْكُمْ مُّرْسَلُوْنَ ١٤- ثنی( مثني)- الثَّنْي والاثنان أصل لمتصرفات هذه الکلمة، ويقال ذلک باعتبار العدد، أو باعتبار التکرير الموجود فيه أو باعتبارهما معا، قال اللہ تعالی: ثانِيَ اثْنَيْنِ [ التوبة 40] ، اثْنَتا عَشْرَةَ عَيْناً [ البقرة 60] ، وقال : مَثْنى وَثُلاثَ وَرُباعَ [ النساء 3] فيقال : ثَنَّيْتُهُ تَثْنِيَة : كنت له ثانیا، أو أخذت نصف ماله، أو ضممت إليه ما صار به اثنین . والثِّنَى: ما يعاد مرتین، قال عليه السلام :«لا ثِنى في الصّدقة» أي : لا تؤخذ في السنة مرتین . قال الشاعر :- لقد کانت ملامتها ثنی وامرأة ثِنْيٌ: ولدت اثنین، والولد يقال له :- ثِنْيٌ ، وحلف يمينا فيها ثُنْيَا وثَنْوَى وثَنِيَّة ومَثْنَوِيَّة ويقال للاوي الشیء : قد ثَناه، نحو قوله تعالی: أَلا إِنَّهُمْ يَثْنُونَ صُدُورَهُمْ [هود 5] ، وقراءة ابن عباس : (يَثْنَوْنَى صدورهم) من : اثْنَوْنَيْتُ ، وقوله عزّ وجلّ : ثانِيَ عِطْفِهِ [ الحج 9] ، وذلک عبارة عن التّنكّر والإعراض، نحو : لوی شدقه، وَنَأى بِجانِبِهِ [ الإسراء 83] .- ( ث ن ی ) الثنی والاثنان ۔ یہ دونوں ان تمام کلمات کی اصل ہیں جو اس مادہ سے بنتے ہیں یہ کبھی معنی عدد کے اعتبار سے استعمال ہوتے ہیں اور کبھی تکرار معنی کے لحاظ سے جو ان کے اصل مادہ میں پایا جاتا ہے اور کبھی ان میں عدد و تکرار دونوں ملحوظ ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ ثانِيَ اثْنَيْنِ [ التوبة 40] دو میں دوسرا ۔ اثْنَتا عَشْرَةَ عَيْناً [ البقرة 60] بارہ چشمے ۔ مَثْنى وَثُلاثَ وَرُباعَ [ النساء 3] دو دو یا تین تین یا چار چار ۔ کہا جاتا ہے ثنیتہ تثنیۃ میں دوسرا تھا میں نے اسکا نصف مال لے گیا ایک چیز کے ساتھ دوسری چیز کو ملا کر دو کردینا ۔ الثنی ۔ جس کا دو مرتبہ اعارہ ہو حدیث میں ہے ۔ (56) ۔ لاثنی فی الصدقہ ۔۔ یعنی صدقہ سال میں دو مرتبہ نہ لیا جائے ۔ شاعر نے کہا ہے ( طویل ) (82) لقد کان ملا متھا ثنی ، ، بیشک اس نے بار بار ملامت کی ۔ امرٰۃ ثنی جس عورت نے دو بچے جنے ہوں اس دوسرے بچہ کو ثنی کہا جاتا ہے ۔ حلف یمینا فیھا ثنی و ثنویٰ وثنیۃ ومثنویۃ اس نے استثناء کے ساتھ قسم اٹھائی ۔ ثنا ( ض) ثنیا ۔ الشئی کسی چیز کو موڑنا دوسرا کرنا لپیٹنا قرآن میں ہے :۔ أَلا إِنَّهُمْ يَثْنُونَ صُدُورَهُمْ [هود 5] دیکھو یہ اپنے سینوں کو دوہرا کرتے ہیں ۔ حضرت ابن عباس کی قرآت یثنونیٰ صدورھم ہے ۔ جو اثنونیت کا مضارع ہے اور آیت کریمہ :۔ ثانی عطفہ ثانِيَ عِطْفِهِ [ الحج 9] اور تکبر سے ) گردن موڑ لیتا ہے ۔ میں گردن موڑنے سے مراد اعراض کرنا ہے جیسا کہ لوٰی شدقہ ونای بجانبہ کا محاورہ ہے ۔- كذب - وأنه يقال في المقال والفعال، قال تعالی:- إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل 105] ،- ( ک ذ ب ) الکذب - قول اور فعل دونوں کے متعلق اس کا استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے ۔ إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل 105] جھوٹ اور افتراء تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے - عز - العِزَّةُ : حالةٌ مانعة للإنسان من أن يغلب . من قولهم : أرضٌ عَزَازٌ. أي : صُلْبةٌ. قال تعالی: أَيَبْتَغُونَ عِنْدَهُمُ الْعِزَّةَ فَإِنَّ الْعِزَّةَ لِلَّهِ جَمِيعاً [ النساء 139] - ( ع ز ز ) العزۃ - اس حالت کو کہتے ہیں جو انسان کو مغلوب ہونے سے محفوظ رکھے یہ ارض عزاز سے ماخوذ ہے جس کے معنی سخت زمین کے ہیں۔ قرآن میں ہے : ۔ أَيَبْتَغُونَ عِنْدَهُمُ الْعِزَّةَ فَإِنَّ الْعِزَّةَ لِلَّهِ جَمِيعاً [ النساء 139] کیا یہ ان کے ہاں عزت حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔ عزت تو سب خدا ہی کی ہے ۔- ثلث - الثَّلَاثَة والثَّلَاثُون، والثَّلَاث والثَّلَاثُمِائَة، وثَلَاثَة آلاف، والثُّلُثُ والثُّلُثَان .- قال عزّ وجلّ : فَلِأُمِّهِ الثُّلُثُ [ النساء 11] ، أي : أحد أجزائه الثلاثة، والجمع أَثْلَاث، قال تعالی: وَواعَدْنا مُوسی ثَلاثِينَ لَيْلَةً [ الأعراف 142] ، وقال عزّ وجل : ما يَكُونُ مِنْ نَجْوى ثَلاثَةٍ إِلَّا هُوَ رابِعُهُمْ [ المجادلة 7] ، وقال تعالی: ثَلاثُ عَوْراتٍ لَكُمْ [ النور 58] ، أي : ثلاثة أوقات العورة، وقال عزّ وجلّ : وَلَبِثُوا فِي كَهْفِهِمْ ثَلاثَ مِائَةٍ سِنِينَ [ الكهف 25] ، وقال تعالی: بِثَلاثَةِ آلافٍ مِنَ الْمَلائِكَةِ مُنْزَلِينَ [ آل عمران 124]- ث ل ث ) الثلاثۃ ۔ تین ) مؤنث ) ثلاثون تیس ( مذکر ومؤنث) الثلثمائۃ تین سو ( مذکر ومؤنث ) ثلاثۃ الاف تین ہزار ) مذکر و مؤنث ) الثلث تہائی ) تثغیہ ثلثان اور جمع اثلاث قرآن میں ہے ؛۔ فَلِأُمِّهِ الثُّلُثُ [ النساء 11] توا یک تہائی مال کا حصہ وواعدْنا مُوسی ثَلاثِينَ لَيْلَةً [ الأعراف 142] اور ہم نے موسیٰ سے تیس رات کو میعاد مقرر کی ۔ ما يَكُونُ مِنْ نَجْوى ثَلاثَةٍ إِلَّا هُوَ رابِعُهُمْ [ المجادلة 7] کسی جگہ ) تین ( شخصوں ) کا مجمع ) سر گوشی نہیں کرتا مگر وہ ان میں چوتھا ہے ۔ اور آیت کریمہ :۔ ثَلاثُ عَوْراتٍ لَكُمْ [ النور 58]( یہ ) تین ( وقت ) تمہارے پردے ( کے ) ہیں ۔ کے معنی یہ ہیں کہ یہ تین اوقات ستر کے ہیں ۔ وَلَبِثُوا فِي كَهْفِهِمْ ثَلاثَ مِائَةٍ سِنِينَ [ الكهف 25] اور اصحاب کہف اپنے غار میں ( نواوپر ) تین سو سال رہے ۔ بِثَلاثَةِ آلافٍ مِنَ الْمَلائِكَةِ مُنْزَلِينَ [ آل عمران 124] تین ہزار فرشتے نازل کرکے تمہیں مدد دے ۔ إِنَّ رَبَّكَ يَعْلَمُ أَنَّكَ تَقُومُ أَدْنى مِنْ ثُلُثَيِ اللَّيْلِ وَنِصْفَهُ [ المزمل 20] تمہارا پروردگار
آیت ١٤ اِذْ اَرْسَلْنَآ اِلَیْہِمُ اثْنَیْنِ ” جب ہم نے بھیجے ان کی طرف دو رسول “- اس بارے میں مفسرین کی عام رائے یہ ہے کہ وہ دو حضرات ” رسول من جانب اللہ “ نہیں تھے بلکہ کسی ” رسول کے رسول “ تھے۔ یعنی ممکن ہے کہ اللہ کی طرف سے وقت کے رسول کسی دوسرے مقام پر موجود ہوں اور انہوں نے اپنے دو شاگردوں کو کسی خاص بستی کی طرف دعوت کے لیے بھیجا ہو۔ اس بارے میں غالب رائے یہ ہے کہ وہ حضرات حضرت مسیح (علیہ السلام) کے حواری تھے جو آپ ( علیہ السلام) کے حکم سے ترکی اور شام کی سرحد پر واقع شہر انطاکیہ میں تبلیغ کے لیے آئے تھے۔- ” رسول کے رسول “ کی اصطلاح ہمیں احادیث میں بھی ملتی ہے۔ مثلاً حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ُ حدیبیہ کے مقام پر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے بیعت لی تو مدینہ واپسی پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خواتین سے بھی بیعت لینے کا ارادہ ظاہر فرمایا اور اس کے لیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عمر (علیہ السلام) کو خواتین کے پاس بھیجا۔ چناچہ حضرت عمر (علیہ السلام) نے خواتین کے مجمع میں آکر فرمایا : اَنَا رَسُولُ رَسُولِ اللّٰہِ (میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا رسول ہوں) ۔ اسی طرح روایات میں آتا ہے کہ حضرت سعد بن ابی وقاص (علیہ السلام) نے ایرانیوں کے سامنے اپنا تعارف ان الفاظ میں کروایا تھا ” اِنَّا قَدْ اُرْسِلْنَا…“ یعنی ہمیں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنا نمائندہ بنا کر تمہارے پاس بھیجا ہے۔ بہر حال یہاں یہ دونوں امکان موجود ہیں۔ یعنی یہ بھی ممکن ہے کہ کسی بستی میں اللہ نے ایک ساتھ دو رسول مبعوث فرمائے ہوں۔ جیسے حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اکٹھے مبعوث فرمایا گیا تھا اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ دو اصحاب کسی رسول کے نمائندے بن کر متعلقہ بستی میں گئے ہوں۔- فَکَذَّبُوْہُمَا فَعَزَّزْنَا بِثَالِثٍ ” پس انہوں نے ان دونوں کو جھٹلادیا ‘ تو ہم نے (ان کو) تقویت دی ایک تیسرے کے ساتھ “- اس قوم کی طرف سے ان دونوں رسولوں کی تکذیب کے بعد ہم نے ان کی مدد کے لیے ایک تیسرا رسول بھی بھیجا۔- فَقَالُوْٓا اِنَّآ اِلَیْکُمْ مُّرْسَلُوْنَ ” تو انہوں نے کہا کہ ہم تمہاری طرف بھیجے گئے ہیں۔ “