Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[ ١٧] قریش مکہ بھی آپ کو یہ الزام دیتے تھے کہ جو کلام یہ پیش کرتا ہے خود ہی تصنیف کرکے اللہ کے نام سے منسوب کردیتا ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

قَالُوْا مَآ اَنْتُمْ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُنَا : کفار مکہ نے بھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہی بات کہی۔ دیکھیے سورة انعام (٩١) بلکہ ہر قوم نے اپنے رسول کو یہی کہا کہ تم ہمارے جیسے بشر ہو، آخر تم میں ہم سے بڑھ کر وہ کون سی خوبی ہے جو اللہ نے تمہیں ہی نبوت کے لیے منتخب کیا ؟ دیکھیے سورة ابراہیم (١٠) ، بنی اسرائیل (٩٤) ، مومنون (٣٤) اور تغابن (٦) گویا نبوت کے متعلق ہمیشہ سے جاہلی تصور یہ ہے کہ جو بشر ہو وہ رسول نہیں ہوسکتا۔ دوسرے الفاظ میں یہی تصور بعض جاہلوں میں اس طرح پایا جاتا ہے کہ جو رسول ہو وہ بشر نہیں ہوسکتا، حالانکہ قرآن تمام انبیاء کو بشر بھی ثابت کرتا ہے اور رسول بھی۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

قَالُوْا مَآ اَنْتُمْ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُنَا۝ ٠ ۙ وَمَآ اَنْزَلَ الرَّحْمٰنُ مِنْ شَيْءٍ۝ ٠ ۙ اِنْ اَنْتُمْ اِلَّا تَكْذِبُوْنَ۝ ١٥- بشر - وخصّ في القرآن کلّ موضع اعتبر من الإنسان جثته وظاهره بلفظ البشر، نحو : وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ مِنَ الْماءِ بَشَراً [ الفرقان 54] ،- ( ب ش ر ) البشر - اور قرآن میں جہاں کہیں انسان کی جسمانی بناوٹ اور ظاہری جسم کا لحاظ کیا ہے تو ایسے موقع پر خاص کر اسے بشر کہا گیا ہے جیسے فرمایا : وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ مِنَ الْماءِ بَشَراً [ الفرقان 54] اور وہی تو ہے جس نے پانی سے آدمی پیدا کیا ۔ إِنِّي خالِقٌ بَشَراً مِنْ طِينٍ [ ص 71] کہ میں مٹی سے انسان بنانے والا ہوں ۔ - مثل - والمَثَلُ عبارة عن قول في شيء يشبه قولا في شيء آخر بينهما مشابهة، ليبيّن أحدهما الآخر ويصوّره . فقال : وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر 21] ، وفي أخری: وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت 43] .- ( م ث ل ) مثل ( ک )- المثل کے معنی ہیں ایسی بات کے جو کسی دوسری بات سے ملتی جلتی ہو ۔ اور ان میں سے کسی ایک کے ذریعہ دوسری کا مطلب واضح ہوجاتا ہو ۔ اور معاملہ کی شکل سامنے آجاتی ہو ۔ مثلا عین ضرورت پر کسی چیز کو کھودینے کے لئے الصیف ضیعت اللبن کا محاورہ وہ ضرب المثل ہے ۔ چناچہ قرآن میں امثال بیان کرنے کی غرض بیان کرتے ہوئے فرمایا : ۔ وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر 21] اور یہ مثالیں ہم لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں تاکہ وہ فکر نہ کریں ۔- نزل - النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ.- يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] - ( ن ز ل ) النزول ( ض )- اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا - رحم - والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین .- ( ر ح م ) الرحم ۔- الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، - اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] لوگو تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے )- كذب - وأنه يقال في المقال والفعال، قال تعالی:- إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل 105] ،- ( ک ذ ب ) الکذب - قول اور فعل دونوں کے متعلق اس کا استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے ۔ إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل 105] جھوٹ اور افتراء تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

وہ کہنے لگے کہ تم تو ہماری طرح عام آدمی ہو اور اللہ نے نہ کتاب نازل کی ہے اور نہ کوئی رسول بھیجا ہے تم بالکل جھوٹ بولتے ہو۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٥ قَالُوْا مَآ اَنْتُمْ اِلاَّ بَشَرٌ مِّثْلُنَالا ” انہوں نے کہا کہ تم نہیں ہو مگر ہم جیسے انسان “- وَمَآ اَنْزَلَ الرَّحْمٰنُ مِنْ شَیْئٍلا اِنْ اَنْتُمْ اِلاَّ تَکْذِبُوْنَ ” اور رحمٰن نے کوئی چیز نازل نہیں کی ‘ تم محض جھوٹ بول رہے ہو۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة یٰسٓ حاشیہ نمبر :11 دوسرے الفاظ میں ان کا کہنا یہ تھا کہ تم چونکہ انسان ہو اس لیے خدا کے بھیجے ہوئے رسول نہیں ہو سکتے ۔ یہی خیال کفار مکہ کا بھی تھا ۔ وہ یہ کہتے تھے کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) رسول نہیں ہیں کیونکہ وہ انسان ہیں : وَقَالُوْا مَالِ ھٰذَا الرَّسُوْلِ یَاْکُلُ الطَّعَامَ وَیَمْشِیْ فِی الْاَسْوَاقِ ۔ ( الفرقان:7 ) وہ کہتے ہیں کہ یہ کیسا رسول ہے جو کھانا کھاتا ہے اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے ۔ وَاَسَرُّوا النَّجْوَی الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا ھَلْ ھٰذَٓا اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ اَفَتَاْتُوْنَ السِّحْرَ وَ اَنْتُمْ تُبْصِرُوْنَ ( الانبیاء ۔ 3 ) اور یہ ظالم لوگ آپس میں سرگوشیاں کرتے ہیں کہ یہ شخص ( یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) تم جیسے ایک بشر کے سوا آخر اور کیا ہے ، پھر کیا تم آنکھوں دیکھتے اس جادو کے شکار ہو جاؤ گے ؟ قرآن مجید کفار مکہ کے اس جاہلانہ خیال کی تردید کرتے ہوئے بتاتا ہے کہ یہ کوئی نئی جہالت نہیں ہے جو آج پہلی مرتبہ ان لوگوں سے ظاہر ہو رہی ہو ، بلکہ قدیم ترین زمانے سے تمام جہلاء اسی غلط فہمی میں مبتلا رہے ہیں کہ جو بشر ہے وہ رسول نہیں ہو سکتا اور جو رسول ہے وہ بشر نہیں ہو سکتا ۔ قوم نوح کے سرداروں نے جب حضرت نوح کی رسالت کا انکار کیا تھا تو یہی کہا تھا: مَا ھٰذَآ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ یُرِیْدُ اَنْ یَّتَفَضَّلَ عَلَیْکُمْ وَلَوْ شَآءَ اللہُ لَاَنْزَلَ مَلٰئِکَۃً مَا سَمِعْنَا بھِٰذَا فِیْ اٰبَآئِنَا الْاَوَّلِیْنَ ۔ ( المومنون : 24 ) ۔ یہ شخص اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ ایک بشر ہے تم ہی جیسا ، اور چاہتا ہے کہ تم پر اپنی فضیلت جمائے ۔ حالانکہ اگر اللہ چاہتا تو فرشتے نازل کرتا ۔ ہم نے تو یہ بات کبھی اپنے باپ دادا سے نہیں سنی ( کہ انسان رسول بن کر آئے ) ۔ قوم عاد نے یہی بات حضرت ہود علیہ السلام کے متعلق کہی تھی: مَا ھٰذَآ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ یَاْکُلُ مِمَّا تَاْکُلُوْنَ مِنْہُ وَیَشْرَبُ مِمَّا تَشْرَبُوْنَ وَلَئِنْ اَطَعْتُمْ بَشَرًا مِثْلَکُمْ اِنَّکُمْ اِذًا لَّخٰسِرُوْنَ ۔ ( المومنون :33 ۔ 34 ) ۔ یہ شخص کچھ نہیں ہے مگر ایک بشر ہی جیسا ۔ کھاتا ہے وہی کچھ جو تم کھاتے ہو اور پیتا ہے وہی کچھ جو تم پیتے ہو ۔ اب اگر تم نے اپنے ہی جیسے ایک بشر کی اطاعت کر لی تو تم بڑے گھاٹے میں رہے ۔ قوم ثمود نے حضرت صالح علیہ السلام کے متعلق بھی یہی کہا تھا کہ: اَبَشَراً مِّنَّا وَاحِداً نَّتَّبِعُہ ( القمر:24 ) کیا ہم اپنے میں سے ایک بشر کی پیروی اختیار کرلیں ۔ اور یہی معاملہ قریب قریب تمام انبیاء کے ساتھ پیش آیا کہ کفار نے کہا ، اِنْ اَنْتُمْ اِلَّا بَشَرٌ مِثْلُنَا ، تم کچھ نہیں ہو مگر ہم جیسے بشر ۔ ’‘ اور انبیاء نے ان کو جواب دیا کہ ، اِنْ نَحْنُ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ وَ لٰکِنَّ اللہَ یَمُنُّ عَلٰی مَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِہٖ ۔ واقعی ہم تمہاری طرح بشر کے سوا کچھ نہیں ہیں ، مگر اللہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے عنایت فرماتا ہے ( ابراہیم:10 ۔ 11 ) اس کے بعد قرآن مجید کہتا ہے کہ یہی جاہلانہ خیال ہر زمانے میں لوگوں کو ہدایت قبول کرنے سے باز رکھتا رہا ہے اور اسی بنا پر قوموں کی شامت آئی ہے : اَلَمْ یَاْتِکُمْ نَبَؤُا الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ قَبْلُ فَذَاقُوْا وَبَالَ اَمْرِھِمْ وَلَھُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ ذٰلِکَ بِاَنَّہ کَانَتْ تَـاْتِیْہِمْ رُسُلُھُمْ بِالْبَیِّنٰتِ فَقَالُوْا اَبَشَرٌ یَّھْدُوْنَنَا فَکَفَرُا وَتَوَلَّوْا ۔ ( التغابن: 6 ) کیا انہیں ان لوگوں کی خبر نہیں پہنچی جنہوں نے اس سے پہلے کفر کیا تھا اور پھر اپنے کیے کا مزا چکھ لیا اور آگے ان کے لیے درد ناک عذاب ہے ؟ یہ سب کچھ اس لیے ہوا کہ ان کے پاس ان کے رسول کھلی کھلی دلیلیں لے کر آتے رہے مگر انہوں نے کہا کیا اب انسان ہماری رہنمائی کریں گے ؟ اسی بنا پر انہوں نے کفر کیا اور منہ پھیر گئے ۔ وَمَا مَنَعَ النَّاسَ اَنْ یُّؤْمِنُوْا اِذْ جَآءَھُمُ الْھُدیٰ اِلَّٓا اَنْ قَالُوْا اَبَعَثَ اللہُ بَشَراً رَّسُوْلاً ۔ ( بنی اسرائیل : 94 ) ۔ لوگوں کے پاس جب ہدایت آئی تو کوئی چیز انہیں ایمان لانے سے روکنے والی اس کے سوا نہ تھی کہ انہوں نے کہا کیا اللہ نے بشر کو رسول بنا کر بھیج دیا ؟ پھر قرآن مجید پوری صراحت کے ساتھ کہتا ہے کہ اللہ نے ہمیشہ انسانوں ہی کو رسول بنا کر بھیجا ہے اور انسان کی ہدایت کے لیے انسان ہی رسول ہو سکتا ہے نہ کوئی فرشتہ ، یا بشریت سے بالا تر کوئی ہستی : وَمَآ اَرْسَلْنَا قَبْلَکَ اِلَّا رِجَالاً نُوْحِیْ اِلَیْھِمْ فَسْئَلُوْآ اَھْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ ه وَمَا جَعَلْنٰھُمْ جَسَداً لاَّ یَاْکُلُوْنَ الطَّعَامَ وَمَا کَانُوْا خٰلِدِیْنَ ( الانبیاء : 7 ۔ 8 ) ہم نے تم سے پہلے انسانوں ہی کو رسول بنا کر بھیجا ہے جن پر ہم وحی کرتے تھے ۔ اگر تم نہیں جانتے تو اہل علم سے پوچھ لو ۔ اور ہم نے ان کو ایسے جسم نہیں بنایا تھا کہ وہ کھانا نہ کھائیں اور نہ وہ ہمیشہ جینے والے تھے ۔ وَمَٓا اَرْسَلْنَا قَبْلَکَ مِنَ الْمُرْسَلِیْنَ اِلَّٓا اَنَّھُمْ لَیَاْکُلُوْنَ الطَّعَامَ وَیَمْشُوْنَ فِی الْاَسْوَقِ ( الفرقان:20 ) ۔ ہم نے تم سے پہلے جو رسول بھی بھیجے تھے وہ سب کھانا کھاتے تھے اور بازاروں میں چلتے پھرتے تھے ۔ قُلْ لَّوْ کَانَ فِی الْاَرْضِ مَلٰٓئِکَۃٌ یَّمْشُوْنَ مُطْمَئِنِّیْنَ لَنَزَّلْنَا عَلَیْھِمْ مِّنَ السَّمَآءِ مَلَکًا رَّسُوْلًا ( بنی اسرائیل:95 ) اے نبی ، ان سے کہو کہ اگر زمین میں فرشتے اطمینان سے چل پھر رہے ہوتے تو ہم ان پر فرشتے ہی کو رسول بنا کر نازل کرتے ۔ سورة یٰسٓ حاشیہ نمبر :12 یہ ایک اور جہالت ہے جس میں کفار مکہ بھی مبتلا تھے ، آج کے نام نہاد عقلیت پسند لوگ بھی مبتلا ہیں ، اور قدیم ترین زمانے سے ہر زمانے کے منکرین وحی و رسالت اس میں مبتلا رہے ہیں ۔ ان سب لوگوں کا ہمیشہ سے یہ خیال رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ سرے سے انسانی ہدایت کے لیے کوئی وحی نازل نہیں کرتا ۔ اس کو صرف عالم بالا کے معاملات سے دلچسپی ہے ۔ انسانوں کا معاملہ اس نے خود انسانوں ہی پر چھوڑ رکھا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani