Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

انبیاء و رسل سے کافروں کا رویہ ٭ ان کافروں نے ان رسولوں سے کا کہ تمہارے آنے سے ہمیں کوئی برکت و خیریت تو ملی نہیں ۔ بلکہ اور برائی اور بدی پہنچی ۔ تم ہو ہی بدشگون اور تم جہاں جاؤ گے بلائیں برسیں گی ۔ سنو اگر تم اپنے اس طریقے سے باز نہ آئے اور یہی کہتے رہے تو ہم تمہیں سنگسار کر دیں گے ۔ اور سخت المناک سزائیں دیں گے رسولوں نے جواب دیا کہ تم خود بدفطرت ہو ۔ تمہارے اعمال ہی برے ہیں اور اسی وجہ سے تم پر مصیبتیں آتی ہیں ۔ جیسا کرو گے ویسا بھرو گے ۔ یہی بات فرعونیوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم کے مومنوں سے کہی تھی ۔ جب انہیں کوئی راحت ملتی توکہتے ہم تو اس کے مستحق ہی تھے ۔ اور اگر کوئی رنج پہنچتا تو حضرت موسی اور مومنوں کی بدشگونی پر اسے محمول کرتے ۔ جس کے جواب میں جناب باری نے فرمایا یعنی ان کی مصیبتوں کی وجہ ان کے بد اعمال ہیں جن کا وبال ہماری جانب سے انہیں پہنچ رہا ہے ۔ قوم صالح نے بھی اپنے نبی سے یہی کہا تھا اور یہی جواب پایا تھا ۔ خود جناب پیغمبر آخر الزمان حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی یہی کہا گیا ہے جیسا کہ اللہ عزوجل کا ارشاد ہے یعنی اگر ان کافروں کو کوئی نفع ہوتا ہے تو کہتے ہیں یہ اللہ کی طرف سے ہے اور اگر کوئی نقصان ہوتا ہے تو کہتے ہیں یہ تیری طرف سے ہے تہ کہدیجیے کہ سب کچھ اللہ کی جانب سے ہے ۔ انہیں کیا ہو گیا ہے کہ ان سے یہ بات بھی نہیں سمجھی جاتی؟ پھر فرماتا ہے کہ صرف اس وجہ سے کہ ہم نے تمہیں نصیحت کی ، تمہاری خیر خواہی کی ، تمہیں بھلی راہ سمجھائی ۔ تمہیں اللہ کی توحید کی طرف رہنمائی کی تمہیں اخلاص و عبادت کے طریقے سکھائے تم ہمیں منحوس سمجھنے لگے؟ اور ہمیں اس طرح ڈرانے دھمکانے لگے؟ اور خوفزدہ کرنے لگے؟ اور مقابلہ پر اتر آئے؟ حقیقت یہ ہے کہ تم فضول خرچ لوگ ہو ۔ حدود الہیہ سے تجاوز کر جاتے ہو ۔ ہمیں دیکھو کہ ہم تمہاری بھلائی چاہیں ۔ تمہیں دیکھو کہ تم ہم سے برائی سمجھو ۔ بتاؤ تو بھلا یہ کوئی انصاف کی بات ہے؟ افسوس تم انصاف کے دائرے سے نکل گئے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

18۔ 1 ممکن ہے کچھ لوگ ایمان لے آئے ہوں اور ان کی وجہ سے قوم دو گروہوں میں بٹ گئی ہو، جس کو انہوں نے رسولوں کی نَعْوذ باللّٰہِ نحوست قرار دیا۔ یا بارش کا سلسلہ موقوف رہا ہو تو وہ سمجھے ہوں کہ یہ ان رسولوں کی نحوست ہے۔ نَعْوذ باللّٰہِ مِنْ ذٰلِکَ ، جیسے آج کل بھی بد نہاد اور دین و شریعت سے بےبہرہ لوگ، اہل ایمان وتقوی کو ہی، منحوس، سمجھتے ہیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[ ١٨] انبیاء کی دعوت پر کافروں کو کیا مصیبت پڑتی ہے ؟ منکرین حق کو جھنجھوڑنے کے لئے ان پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے کچھ چھوٹے موٹے عذاب یا سختیاں بطور تنبیہ نازل ہوا کرتی ہیں۔ اور اگر ایسا کوئی عذاب نہ بھی آئے تو بھی ایک بات کا وقوع پذیر ہونا یقینی ہے۔ نبی جب دعوت دیتا ہے تو کچھ اس کی دعوت پر لبیک کہتے ہیں اور کچھ اس کی مخالفت پر اتر آتے ہیں۔ اس طرح دو فریق بن جاتے ہیں جن کی آپس میں ٹھن جاتی ہے۔ ایک آدمی اگر ایماندار ہے تو اس کے رشتہ دار کافر ہوتے ہیں۔ منکرین حق کے لئے یہ ایک الگ مصیبت بن جاتی ہے۔ بہرحال عذاب کی صورت ہو یا ایسی تفریق کی، منکرین حق اس کا الزام رسولوں پر دھرتے اور کہتے تھے کہ جب سے تم آئے ہو ہمیں یہ مصیبت پڑگئی ہے اور یہ تمہاری ہی نحوست کا نتیجہ ہے۔ ورنہ پہلے سب مل جل کر اچھے خاصے آرام کی زندگی بسر کر رہے تھے۔- [ ١٩] کافر قوم کی دھمکی :۔ ان لوگوں نے اپنے رسولوں کو محض ایسی دھمکی ہی دی تھی جب کہ کفار مکہ نے کئی بار آپ کو انفرادی طور پر بھی اور اجتماعی طور پر بھی جان سے مار ڈالنے کی کوششیں اور سازشیں کی تھیں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

قَالُوْٓا اِنَّا تَــطَيَّرْنَا بِكُمْ : جب بستی والے دلیل کے ساتھ جواب نہ دے سکے تو دھمکی پر اتر آئے، جیسا کہ فرعون اور دوسرے متکبروں کا شیوہ رہا ہے۔ کہنے لگے، اگر تم اپنی دعوت سے باز نہ آئے تو ہم تمہیں سنگسار کردیں گے اور تمہیں ہمارے ہاتھوں درد ناک سزا سے دو چار ہونا پڑے گا۔ ” تَــطَيَّرْنَا “ کی تفسیر کے لیے دیکھیے سورة نمل (٤٧) اور سورة اعراف (١٣١) ۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

(آیت) قالوا انا تطیرنا بکم، تطیر کے معنی بدفالی لینے اور کسی کو منحوس سمجھنے کے ہیں۔ مراد یہ ہے کہ اس شہر کے لوگوں نے اللہ کے ان فرستادوں کی بات نہ مانی اور یہ کہنے لگے کہ تم لوگ منحوس ہو۔ بعض روایات میں ہے کہ ان کی نافرمانی اور رسولوں کی بات نہ ماننے کے سبب اس بستی میں قحط پڑگیا تھا، اس لئے بستی والوں نے ان کو منحوس کہا، یا اور کوئی تکلیف پہنچی ہوگی تو جیسے کفار کی عام عادت یہی ہے کہ کوئی مصیبت آئے تو اس کو ہدایت کرنے والے انبیاء و صلحاء کی طرف منسوب کیا کرتے ہیں، اس کو بھی ان حضرات کی طرف منسوب کردیا جیسا کہ قوم موسیٰ (علیہ السلام) کے متعلق قرآن میں ہے : فاذا جاءتہم الحسنة قالوا لنا ھذہ وان تصبہم سیۃ یطیروا بموسیٰ ومن معہ، اسی طرح قوم صالح (علیہ السلام) نے ان کو کہا (آیت) تطیرنا بک وبمن معک۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

قَالُوْٓا اِنَّا تَطَيَّرْنَا بِكُمْ۝ ٠ ۚ لَىِٕنْ لَّمْ تَنْتَہُوْا لَنَرْجُمَنَّكُمْ وَلَيَمَسَّـنَّكُمْ مِّنَّا عَذَابٌ اَلِــيْمٌ۝ ١٨- طير ( فال)- ، وتَطيَّرَ فلانٌ ، واطَّيَّرَ أصله التّفاؤل بالطَّيْرِ ثمّ يستعمل في كلّ ما يتفاء ل به ويتشاءم، قالُوا : إِنَّا تَطَيَّرْنا بِكُمْ [يس 18] ، ولذلک قيل : «لا طَيْرَ إلا طَيْرُكَ «1» » ، وقال تعالی: إِنْ تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ يَطَّيَّرُوا[ الأعراف 131] ، أي : يتشاء موا به، أَلا إِنَّما طائِرُهُمْ عِنْدَ اللَّهِ- [ الأعراف 131] ، أي : شؤمهم : ما قد أعدّ اللہ لهم بسوء أعمالهم . وعلی ذلک قوله : قالُوا اطَّيَّرْنا بِكَ وَبِمَنْ مَعَكَ قالَ طائِرُكُمْ عِنْدَ اللَّهِ [ النمل 47] ، قالُوا طائِرُكُمْ مَعَكُمْ [يس 19] ، وَكُلَّ إِنسانٍ أَلْزَمْناهُ طائِرَهُ فِي عُنُقِهِ [ الإسراء 13] ، أي : عمله الذي طَارَ عنه من خيرٍ وشرٍّ ، ويقال : تَطَايَرُوا : إذا أسرعوا، ويقال :إذا تفرّقوا «2» ، قال الشاعر :- 303 ۔ طَارُوا إليه زَرَافَاتٍ ووُحْدَاناً وفجرٌ مُسْتَطِيرٌ ، أي : فاشٍ. قال تعالی:- وَيَخافُونَ يَوْماً كانَ شَرُّهُ مُسْتَطِيراً [ الإنسان 7] ، وغبارٌ مُسْتَطَارٌ ، خولف بين بنائهما فتصوّر الفجر بصورة الفاعل، فقیل : مُسْتَطِيرٌ ، والغبارُ بصورة المفعول، فقیل : مُسْتَطَارٌ وفرسٌ مُطَارٌ للسّريع، ولحدید الفؤاد، وخذ ما طَارَ من شَعْر رأسك، أي : ما انتشر حتی كأنه طَارَ.- تطیر فلان واطیر اس کے اصل معنی تو کسی پرندہ سے شگون لینے کے ہیں پھر یہ ہر اس چیز کے متعلق استعمال ہونے لگا ہے ۔ جس سے برا شگون لیا جائے اور اسے منحوس سمجھا جائے قرآن میں ہے : ۔ إِنَّا تَطَيَّرْنا بِكُمْ [يس 18] ہم تم کو منحوس سمجھتے ہیں ۔ اسی لئے کہا گیا ہے لا طیر الا طیرک کہ نہیں ہے نحوست مگر تیری طرف سے ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنْ تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ يَطَّيَّرُوا[ الأعراف 131] اگر سختی پہنچتی ہے تو بد شگونی لیتے ہیں ۔ یعنی موسٰی (علیہ السلام) کو باعث نحوست سمجھتے ہیں چناچہ ان کے جواب میں فرمایا أَلا إِنَّما طائِرُهُمْ عِنْدَ اللَّهِ [ الأعراف 131] یعنی یہ ان کی بد اعمالیوں کی سزا ہے جو اللہ کے ہاں سے مل رہی ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : ۔ قالُوا اطَّيَّرْنا بِكَ وَبِمَنْ مَعَكَ قالَ طائِرُكُمْ عِنْدَ اللَّهِ [ النمل 47] وہ کہنے لگے کہ تم اور تمہارے ساتھیوں کو ہم بد شگون خیال کرتے ہیں ( صالح (علیہ السلام) نے ) کہا کہ تمہاری بد شگوفی خدا کی طرف سے ہے ۔ قالُوا طائِرُكُمْ مَعَكُمْ [يس 19] انہوں نے کہا ہے کہ تمہاری نحوست تمہارے ساتھ ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَكُلَّ إِنسانٍ أَلْزَمْناهُ طائِرَهُ فِي عُنُقِهِ [ الإسراء 13] اور ہم نے ہر انسان کے اعمال کو اس کے گلے میں لٹکا دیا ہے ۔ میں انسان اعمال کو طائر کہا گیا ہے ( کیونکہ عمل کے سر زد ہوجانے کے بعد انسان کو یہ اختیار نہیں رہتا کہ اسے واپس لے گویا وہ ( اس کے ہاتھوں سے اڑجا تا ہے تطائر وا وہ نہایت تیزی سی گئے منتشر ہوگئے ہیں ۔ شاعر نے کہا ہے طاردو الیہ ذرافات ووحدانا تو جماعتیں بن کر اور اکیلے اکیلے اس کی طرف اڑتے چلے جاتے ہیں ۔ فجر مستطیر منتشر ہونے والی صبح قرآن میں ہے : ۔ وَيَخافُونَ يَوْماً كانَ شَرُّهُ مُسْتَطِيراً [ الإنسان 7] اور اس دن سے جس کی سختی پھیل رہی ہوگی خوف رکھتے ہیں ۔ غبار مستطار بلند اور منتشر ہونے والا غبار فجر کو فاعل تصور کر کے اس کے متعلق مستطیر اسم فاعل کا صیغہ استعمال کرتے ہیں اور غبار کو مفعول تصور کر کے مستطار کہتے ہیں ۔ فرس مطار ہوشیار اور تیزرو گھوڑا ۔ خذ ماطا ر من شعر راسک یعنی اپنے سر کے پرا گندہ اور لمبے بال کاٹ ڈالو ۔- نهى- النهي : الزّجر عن الشیء . قال تعالی: أَرَأَيْتَ الَّذِي يَنْهى عَبْداً إِذا صَلَّى[ العلق 9- 10]- ( ن ھ ی ) النهي - کسی چیز سے منع کردینا ۔ قرآن میں ہے : أَرَأَيْتَ الَّذِي يَنْهى عَبْداً إِذا صَلَّى[ العلق 9- 10] بھلاتم نے اس شخص کو دیکھا جو منع کرتا ہے ( یعنی ) ایک بندے کو جب وہ نماز پڑھنے لگتا ہے ۔- رجم - الرِّجَامُ : الحجارة، والرَّجْمُ : الرّمي بالرِّجَامِ. يقال : رُجِمَ فهو مَرْجُومٌ ، قال تعالی: لَئِنْ لَمْ تَنْتَهِ يا نُوحُ لَتَكُونَنَّ مِنَ الْمَرْجُومِينَ [ الشعراء 116] ، أي : المقتولین أقبح قتلة، وقال :- وَلَوْلا رَهْطُكَ لَرَجَمْناكَ [هود 91] ، إِنَّهُمْ إِنْ يَظْهَرُوا عَلَيْكُمْ يَرْجُمُوكُمْ [ الكهف 20] ، ويستعار الرّجم للرّمي بالظّنّ ، والتّوهّم، وللشّتم والطّرد، نحو قوله تعالی: رَجْماً بِالْغَيْبِ وما هو عنها بالحدیث المرجّم - «7» وقوله تعالی: لَأَرْجُمَنَّكَ وَاهْجُرْنِي مَلِيًّا - [ مریم 46] ، أي : لأقولنّ فيك ما تكره والشّيطان الرَّجِيمُ : المطرود عن الخیرات، وعن منازل الملإ الأعلی. قال تعالی: فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطانِ الرَّجِيمِ [ النحل 98] ، وقال تعالی: فَاخْرُجْ مِنْها فَإِنَّكَ رَجِيمٌ [ الحجر 34] ، وقال في الشّهب : رُجُوماً لِلشَّياطِينِ- [ الملک 5] - ( ر ج م ) الرجام - ۔ پتھر اسی سے الرجیم ہے جس کے معنی سنگسار کرنا کے ہیں ۔ کہا جاتا ہے رجمۃ ۔ اسے سنگسار کیا اور جسے سنگسار کیا گیا ہوا سے مرجوم کہتے ہیں ۔ قرآن میں ہے ؛ لَئِنْ لَمْ تَنْتَهِ يا نُوحُ لَتَكُونَنَّ مِنَ الْمَرْجُومِينَ [ الشعراء 116] کہ تم ضرور سنگسار کردیئے جاؤ گے ۔ إِنَّهُمْ إِنْ يَظْهَرُوا عَلَيْكُمْ يَرْجُمُوكُمْ [ الكهف 20] کیونکہ تمہاری قوم کے لوگ تمہاری خبر پائیں گے تو تمہیں سنگسار کردیں گے ۔ پھر استعارہ کے طور پر رجم کا لفظ جھوٹے گمان تو ہم ، سب وشتم اور کسی کو دھتکار دینے کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے رَجْماً بِالْغَيْب یہ سب غیب کی باتوں میں اٹکل کے تکے چلاتے ہیں ۔ (176) ، ، وماھو عنھا بالحدیث المرکم ، ، اور لڑائی کے متعلق یہ بات محض انداز سے نہیں ہے ۔ اور شیطان کو رجیم اس لئے کہاجاتا ہے کہ وہ خیرات اور ملائم اعلیٰ کے مراتب سے راندہ ہوا ہے قرآن میں ہے :۔ فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطانِ الرَّجِيمِ [ النحل 98] تو شیطان مردود کے وسواس سے خدا کی پناہ مانگ لیاکرو ۔ فَاخْرُجْ مِنْها فَإِنَّكَ رَجِيمٌ [ الحجر 34] تو بہشت سے نکل جا کہ راندہ درگاہ ہے ۔ اور شھب ( ستاروں ) کو رجوم کہا گیا ہے قرآن میں ہے :۔ رُجُوماً لِلشَّياطِينِ [ الملک 5] ان کی شیاطین کے لئے ایک طرح کا زوبنایا ہے ۔ رجمۃ ورجمۃ ۔ قبر کا پتھر جو بطور نشان اس پر نصب کیا جاتا ہے ۔ - مسس - المسّ کاللّمس لکن اللّمس قد يقال لطلب الشیء وإن لم يوجد - والمسّ يقال في كلّ ما ينال الإنسان من أذى. نحو قوله : وَقالُوا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّاماً مَعْدُودَةً [ البقرة 80] ،- ( م س س ) المس کے - معنی چھونا کے ہیں اور لمس کے ہم معنی ہیں لیکن گاہے لمس کیس چیز کی تلاش - کرنے کو بھی کہتے ہیں اور اس میں یہ ضروری نہیں کہ وہ چیز مل جل بھی جائے ۔- اور مس کا لفظ ہر اس تکلیف کے لئے بول دیا جاتا ہے جو انسان تو پہنچے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَقالُوا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّاماً مَعْدُودَةً [ البقرة 80] اور کہتے ہیں کہ دوزخ کی آگ ہمیں ۔۔ چھوہی نہیں سکے گی - عذب - والعَذَابُ : هو الإيجاع الشّديد، وقد عَذَّبَهُ تَعْذِيباً : أكثر حبسه في - العَذَابِ. قال : لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل 21]- واختلف في أصله، فقال بعضهم : هو من قولهم : عَذَبَ الرّجلُ : إذا ترک المأكل والنّوم فهو عَاذِبٌ وعَذُوبٌ ، فَالتَّعْذِيبُ في الأصل هو حمل الإنسان أن يُعَذَّبَ ، أي : يجوع ويسهر،- ( ع ذ ب )- العذاب - سخت تکلیف دینا عذبہ تعذیبا اسے عرصہ دراز تک عذاب میں مبتلا رکھا ۔ قرآن میں ہے ۔ لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل 21] میں اسے سخت عذاب دوں گا ۔ - لفظ عذاب کی اصل میں اختلاف پا یا جاتا ہے - ۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ عذب ( ض ) الرجل کے محاورہ سے مشتق ہے یعنی اس نے ( پیاس کی شدت کی وجہ سے ) کھانا اور نیند چھوڑدی اور جو شخص اس طرح کھانا اور سونا چھوڑ دیتا ہے اسے عاذب وعذوب کہا جاتا ہے لہذا تعذیب کے اصل معنی ہیں کسی کو بھوکا اور بیدار رہنے پر اکسانا - ألم - الأَلَمُ الوجع الشدید، يقال : أَلَمَ يَأْلَمُ أَلَماً فهو آلِمٌ. قال تعالی: فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَما تَأْلَمُونَ [ النساء 104] ، وقد آلمت فلانا، و عذاب أليم، أي : مؤلم . وقوله : لَمْ يَأْتِكُمْ [ الأنعام 130] فهو ألف الاستفهام، وقد دخل علی «لم» .- ( ا ل م ) الالم - کے معنی سخت درد کے ہیں کہا جاتا ہے الم یالم ( س) أَلَمَ يَأْلَمُ أَلَماً فهو آلِمٌ. قرآن میں ہے :۔ فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَمَا تَأْلَمُونَ ( سورة النساء 104) تو جس طرح تم شدید درد پاتے ہو اسی طرح وہ بھی شدید درد پاتے ہیں ۔ اٰلمت فلانا میں نے فلاں کو سخت تکلیف پہنچائی ۔ اور آیت کریمہ :۔ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ( سورة البقرة 10 - 174) میں الیم بمعنی مؤلم ہے یعنی دردناک ۔ دکھ دینے والا ۔ اور آیت :۔ اَلَم یَاتِکُم (64 ۔ 5) کیا تم کو ۔۔ نہیں پہنچی ۔ میں الف استفہام کا ہے جو لم پر داخل ہوا ہے ( یعنی اس مادہ سے نہیں ہے )

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

وہ لوگ رسولوں سے کہنے لگے کہ ہم تمہیں منحوس سمجھتے ہیں اگر تم اپنی تبلیغ سے باز نہ آئے تو ہم تمہیں قتل کردیں گے اور تمہیں ہماری طرف سے قتل کی سخت تکلیف پہنچے گی۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٨ قَالُوْٓا اِنَّا تَطَیَّرْنَا بِکُمْ ” انہوں نے کہا کہ ہمیں تم سے نحوست کا اندیشہ ہے۔ “- یعنی ہم تمہیں اپنے لیے فالِ بد سمجھتے ہیں۔ تم نے آکر ہمارے معبودوں کے خلاف جو باتیں کرنی شروع کردی ہیں ان کی وجہ سے ہمیں اندیشہ ہے کہ اس کی نحوست کہیں ہم پر نہ پڑجائے اور اس کی پاداش میں کہیں ہم خدا کی گرفت میں نہ آجائیں۔- لَئِنْ لَّمْ تَنْتَہُوْا لَنَرْجُمَنَّکُمْ ” اگر تم باز نہ آئے تو ہم ضرور تمہیں سنگسار کردیں گے “- وَلَیَمَسَّنَّکُمْ مِّنَّا عَذَابٌ اَلِیْمٌ ” اور تمہیں ضرور پہنچے گی ہماری طرف سے دردناک سزا۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة یٰسٓ حاشیہ نمبر :14 اس سے ان لوگوں کا مطلب یہ تھا کہ تم ہمارے لیے منحوس ہو ، تم نے آ کر ہمارے معبودوں کے خلاف جو باتیں کرنی شروع کی ہیں ان کی وجہ سے دیوتا ہم سے ناراض ہو گئے ہیں ، اور اب جو آفت بھی ہم پر نازل ہو رہی ہے وہ تمہاری بدولت ہی ہو رہی ہے ۔ ٹھیک یہی باتیں عرب کے کفار و منافقین نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کہا کرتے تھے ۔ وَاِنْ تُصِبْہُمْ سَیِّئَۃٌ یَقُوْلُوْا ھٰذِہٖ مِنْ عِنْدِکَ ، اگر انہیں کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو کہتے ہیں کہ یہ تمہاری بدولت ہے ( النساء:77 ) ۔ اسی لیے قرآن مجید میں متعدد مقامات پر ان لوگوں کو بتایا گیا ہے کہ ایسی ہی جاہلانہ باتیں قدیم زمانے کے لوگ بھی اپنے انبیاء کے متعلق کہتے رہے ہیں ۔ قوم ثمود اپنے نبی سے کہتی تھی اِطَّیَّرْنَا بِکَ وَ بِمَنْ مَّعَکَ ، ہم نے تم کو اور تمہارے ساتھیوں کو منحوس پایا ہے ۔ ( النمل : 47 ) اور یہی رویہ فرعون کی قوم کا بھی تھا کہ فَاِذَا جَآءَتْھُمُ الْحَسَنَۃُ قَالُوْا لَنَا ھٰذِہٖ وَاِنْ تُصِبْہُمْ سَیِّئَۃٌ یَطَّیَّرُوْا بِمُوسٰی وَمَنْ مَّعَہٗ ۔ جب ان پر اچھی حالت آتی تو کہتے کہ یہ ہماری خوش نصیبی ہے ، اور اگر کوئی مصیبت ان پر آ پڑتی تو اسے موسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کی نحوست قرار دیتے ( الا عراف: 130 )

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

6: بعض روایات میں ہے کہ ان حضرات کے بستی میں تشریف لانے اور دین حق کی دعوت دینے کے بعد جب بستی کے لوگوں نے نافرمانی پر کمر باندھے رکھی تو ان پر تنبیہ کے طور پر قحط مسلط کردیا گیا تھا۔ انہوں نے اسے ایک تازیانہ سمجھنے کے بجائے الٹا اسے ان حضرات کی نحوست قرار دیا۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ ان حضرات کی دعوت کے نتیجے میں جو بحث مباحثہ شروع ہوا ہو، اسی کو انہوں نے نحوست سے تعبیر کیا ہو۔