15۔ 1 یعنی صور پھونکنے کا جس سے قیامت برپا ہوجائے گی۔ 15۔ 2 صور پھونکنے کی دیر ہوگی کہ قیامت کا زلزلہ برپا ہوجائے گا۔
[١٧] فواق کا لغوی معنی :۔ فواق دراصل دودھ دوہتے وقت گائے کا ایک دفعہ تھن نچوڑنے اور دوسری دفعہ وہی تھن نچوڑنے کے درمیان کے وقفہ کو کہتے ہیں۔ اور اس سے مراد انتہائی قلیل مدت لی جاتی ہے۔ اس لحاظ سے اس آیت کے دو مطلب ہوسکتے ہیں۔ ایک یہ کہ جب یہ دھماکہ یا کڑکا ہوگا تو یہ اس وقت تک مسلسل ہوتا رہے گا جب تک سارے مجرم ڈھیر نہ ہوجائیں اور اس میں معمولی سا وقفہ بھی نہ ہوگا۔ اور دوسرا مطلب یہ کہ انہیں ہلاک کرنے کے لئے ایک کڑکا ہی کافی ہوگا دوسرے کی نوبت یا حاجت ہی پیش نہ آئے گی۔
وَمَا يَنْظُرُ هٰٓؤُلَاۗءِ اِلَّا صَيْحَةً وَّاحِدَةً :” يَنْظُرُ “ یہاں ” یَنْتَظِرُ “ کے معنی میں ہے۔ ” صَيْحَةً وَّاحِدَةً “ (ایک سخت چیخ) سے مراد دوسری دفعہ صور کے نفخہ سے پیدا ہونے والی آواز ہے، کیونکہ پہلے نفخہ کے وقت تک زندہ و موجود رہنے کا انتظار تو کوئی بھی نہیں کرتا۔ ” فَوَاقٍ “ مَا بَیْنَ الْحَلْبَتَیْنِ مِنَ الْوَقْتِ أَوْ مَا بَیْنَ فَتْحِ یَدِکَ وَ قَبْضِھَا عَلَی الضَّرْعِ “ (قاموس) ” دو دفعہ دودھ دوہنے کے درمیان کا وقفہ یا دودھ دوہتے وقت تھن کو پکڑنے اور چھوڑنے کا درمیانی وقفہ۔ “ مراد تھوڑا سا وقفہ ہے۔ مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جھٹلانے والے یہ لوگ ایک سخت چیخ کے انتظار میں ہیں، جو شروع ہوگی تو اس میں اس وقت تک کوئی وقفہ نہیں ہوگا جب تک تمام لوگ زندہ ہو کر اللہ کے حضور پیش نہیں ہوجائیں گے، فرمایا : (اِنْ كَانَتْ اِلَّا صَيْحَةً وَّاحِدَةً فَاِذَا هُمْ جَمِيْعٌ لَّدَيْنَا مُحْضَرُوْنَ ) [ یٰسٓ : ٥٣ ] ” نہیں ہوگی وہ مگر ایک ہی چیخ، تو اچانک وہ سب ہمارے پاس حاضر کیے ہوئے ہوں گے۔ “ اس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی ہے۔
(آیت) مَّا لَهَا مِنْ فَوَاقٍ ۔ فواق کے عربی میں کئی معنی آتے ہیں۔ ایک تو ” فواق “ اس درمیانی وقفہ کو کہتے ہیں جس میں ایک مرتبہ دودھ دوہنے کے بعد دوبارہ اس کے تھنوں میں دودھ آجائے۔ نیز اس کے معنی ” راحت و آرام “ کے بھی ہیں۔ بہرصورت، مطلب یہ ہے کہ حضرت اسرافیل (علیہ السلام) کا پھونکا ہوا صور اس قدر مسلسل ہوگا کہ اس میں کوئی وقفہ نہ ہوگا۔ (قرطبی)
وَمَا يَنْظُرُ ہٰٓؤُلَاۗءِ اِلَّا صَيْحَۃً وَّاحِدَۃً مَّا لَہَا مِنْ فَوَاقٍ ١٥- نظر - النَّظَرُ : تَقْلِيبُ البَصَرِ والبصیرةِ لإدرَاكِ الشیءِ ورؤيَتِهِ ، وقد يُرادُ به التَّأَمُّلُ والفَحْصُ ، وقد يراد به المعرفةُ الحاصلةُ بعد الفَحْصِ ، وهو الرَّوِيَّةُ. يقال : نَظَرْتَ فلم تَنْظُرْ. أي : لم تَتَأَمَّلْ ولم تَتَرَوَّ ، وقوله تعالی: قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس 101] أي : تَأَمَّلُوا . والنَّظَرُ : الانْتِظَارُ. يقال : نَظَرْتُهُ وانْتَظَرْتُهُ وأَنْظَرْتُهُ. أي : أَخَّرْتُهُ. قال تعالی: وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود 122] ، وقال : إِلى طَعامٍ غَيْرَ ناظِرِينَ إِناهُ [ الأحزاب 53] أي :- منتظرین،- ( ن ظ ر ) النظر - کے معنی کسی چیز کو دیکھنے یا اس کا ادراک کرنے کے لئے آنکھ یا فکر کو جو لانی دینے کے ہیں ۔ پھر کبھی اس سے محض غو ر وفکر کرنے کا معنی مراد لیا جاتا ہے اور کبھی اس معرفت کو کہتے ہیں جو غور وفکر کے بعد حاصل ہوتی ہے ۔ چناچہ محاور ہ ہے ۔ نظرت فلم تنظر۔ تونے دیکھا لیکن غور نہیں کیا ۔ چناچہ آیت کریمہ : قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس 101] ان کفار سے کہو کہ دیکھو تو آسمانوں اور زمین میں کیا کیا کچھ ہے ۔- اور النظر بمعنی انتظار بھی آجاتا ہے ۔ چناچہ نظرتہ وانتظرتہ دونوں کے معنی انتظار کرنے کے ہیں ۔ جیسے فرمایا : وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود 122] اور نتیجہ اعمال کا ) تم بھی انتظار کرو ۔ ہم بھی انتظار کرتے ہیں - صاح - الصَّيْحَةُ : رفع الصّوت . قال تعالی: إِنْ كانَتْ إِلَّا صَيْحَةً واحِدَةً [يس 29]- ( ص ی ح ) الصیحۃ - کے معنی آواز بلندکرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنْ كانَتْ إِلَّا صَيْحَةً واحِدَةً [يس 29] وہ تو صرف ایک چنگھاڑ تھی ( آتشین ۔- فُوَاقُ- والْفُوَاقُ : ما بين الحلبتین . وقوله : ما لَها مِنْ فَواقٍ [ ص 15] ، أي : من راحة ترجع إليها، وقیل : ما لها من رجوع إلى الدّنيا .- قال أبو عبیدة : ( من قرأ : مِنْ فَواقٍ بالضمّ فهو من فُوَاقِ الناقة . أي : ما بين الحلبتین، وقیل : هما واحد نحو : جمام وجمام) وقیل : اسْتَفِقْ ناقتَكَ ، أي : اترکها حتی يَفُوقَ لبنها، وفَوِّقْ فصیلَكَ ، أي : اسقه ساعة بعد ساعة، وظلّ يَتَفَوَّقُ المخض، قال الشاعر :- حتی إذا فيقة في ضرعها اجتمعت - الافاقتہ ( افعال ) کے معنی نشہ یاغش کے بعد ہوش میں آنے یا مرض کے بعد ہوش میں آنے یاز مرض کے بعد کمزور سے قوت کی طرف لوٹ آنے کے ہیں نیز افاقتہ کے معنی دودھ دوہنے کے بعد دودھ کا پھر تھنوں میں ض لوٹ آبھی آتے ہیں اور جو دودھ تھنوں میں لوٹتا ہے اسے فوقتہ کہا جاتا ہے اور ایک دفعہ کہا جاتا ہے اور آیت کریمہ : ما لَها مِنْ فَواقٍ [ ص 15] جس میں شروع ہوئے پیچھے ) کچھ وقفہ نہین ہوگا ۔ جس کے معنی راحت کے ہیں اور بعض نے اس کے معنی یہ کئے ہیں کہ دوبارہ دنیا کی طرف لوٹنا نہین ہے ابو عبیدہ نے کہا ہے کہ اگر فواق بضم الفاء پڑھا جائے تو یہ فواق لناقۃ کے محاورہ سے مشتق ہوگا اور بعض نے کہا ہے کہ فتحہ اور ضمہ فاء دونوں کے یاک ہی معنی ہیں جیسے جمام وجمام اور بعض نے کہا ہے کہ استفق ناقتک کے معنی یہ ہیں کہ اپنی اونٹنی کو چھوڑ دو تاکہ اس کے تھنوں میں دودھ اتر آئے اور فوق فصیلک کے معنی ہیں کہ اونٹ کے بچہ کو کچھ وقفہ کے بعد دودھ پلاؤ ظل یتعوق المحض وہ دن دن بھر وقفوں کے ساتھ دودھ بلوتا رہا ۔ شاعر نے کہا ہے ( 347 ) حتیا فیقۃ فی ضر عھا اجتمعت حتی کہ جب اس کے تھنوں میں دودھ دوبارہ جمع ہوگیا ۔
آیت ١٥ وَمَا یَنْظُرُ ہٰٓؤُلَآئِ اِلَّا صَیْحَۃً وَّاحِدَۃً مَّا لَہَا مِنْ فَوَاقٍ ” اور یہ لوگ بھی اب منتظر نہیں ہیں مگر صرف ایک چنگھاڑ کے جس میں کوئی وقفہ نہیں ہوگا۔ “- ماضی کی کئی اقوام پر اللہ کا عذاب ایک مسلسل تیز آواز اور چنگھاڑ کی صورت میں بھی آیا تھا۔ چناچہ اگر مشرکین ِمکہ ّاپنی ہٹ دھرمی پر اسی طرح قائم رہے تو ایسا ہی کوئی عذاب ان پر بھی آسکتا ہے۔ آج کی سائنس بھی تصدیق کرتی ہے کہ صوتی لہریں ( ) چونکہ انرجی ہی کی ایک قسم ہے ‘ اس لیے ایک انتہائی زور دار آواز کسی بھی مادی نظام کو درہم برہم کرنے اور ماحول میں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے کا باعث بن سکتی ہے۔ چناچہ اللہ تعالیٰ اگر کسی قوم کو ہلاک کرنا چاہے تو یہ کام وہ صرف ایک زور دار آواز سے ہی کرسکتا ہے۔
سورة صٓ حاشیہ نمبر :14 یعنی عذاب کا ایک ہی کڑکا انہیں ختم کر دینے کے لیے کافی ہو گا ۔ کسی دوسرے کڑکے کی حاجت پیش نہ آئے گی ۔ دوسرا مفہوم اس فقرے کا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس کے بعد پھر انہیں کوئی افاقہ نصیب نہ ہو گا ، اتنی دیر کی بھی مہلت نہ ملے گی جتنی دیر اونٹنی کا دودھ نچوڑتے وقت ایک دفعہ سونتے ہوئے تھن میں دوبارہ سونتنے تک دودھ اترنے میں لگتی ہے ۔
7: اس سے مراد صور پھونکنے کی آواز ہے جس کے ساتھ ہی قیامت پر آجائے گی۔