Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

16۔ 1 یعنی ہمارے نامہ اعمال کے مطابق ہمارے حصے میں اچھی یا بری سزا جو بھی ہے، یوم حساب آنے سے پہلے ہی دنیا میں دے دے۔ یہ و قوع قیامت کو ناممکن سمجھتے ہوئے انہوں نے تمسخر کے طور پر کہا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٨] کفار کا مطالبہ ہمارا اعمال نامہ ابھی دیا جائے :۔ چونکہ کفار مکہ بعث بعد الموت، روز آخرت، اعمال نامہ اور حساب کتاب سب باتوں کے منکر تھے۔ اس لئے از راہ مذاق جس طرح یہ کہتے تھے کہ جس عذاب کی تم دھمکی دیتے ہو وہ لے کیوں نہیں آتے ؟ اسی طرح یہ بھی کہتے تھے کہ ہمارا اعمال نامہ جو ہمیں قیامت کے دن ملنا ہے ابھی ہمارے حوالے کردیں اور ہمارے حصے جو شامت لکھی ہوئی ہے وہ اس دنیا میں ہی ہم سے حساب لے لے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَقَالُوْا رَبَّنَا عَجِّلْ لَّنَا قِطَّنَا :” قَطَّ یَقُطُّ قَطًّا “ (ن) قلم وغیرہ کا سرا کاٹنا۔ ” قِطٌّ“ حصے کو کہتے ہیں، کیونکہ ہر ایک کو اس کا حصہ کاٹ کردیا جاتا ہے۔ انعام کے لیے کاغذ کا جو ٹکڑا لکھ کردیا جاتا ہے اسے بھی ” قِطٌّ“ کہتے ہیں۔ مراد عذاب میں سے ان کا حصہ ہے، بعض نے اعمال نامہ مراد لیا ہے۔ یعنی کفار قیامت کو ناممکن سمجھ کر اس کا انکار کرتے ہوئے اور اس کا مذاق اڑاتے ہوئے جرأت کی اس حد تک پہنچ گئے کہ اللہ تعالیٰ سے اس کی ربوبیت کے واسطے سے دعا کرتے ہوئے کہنے لگے، اے ہمارے رب عذاب میں سے ہمارا جو حصہ ہے وہ ہمیں یوم حساب سے پہلے ابھی جلدی دے دے، جیسا کہ ابوجہل وغیرہ نے نہایت دیدہ دلیری سے کہا تھا : (اللّٰهُمَّ اِنْ كَانَ هٰذَا هُوَ الْحَقَّ مِنْ عِنْدِكَ فَاَمْطِرْ عَلَيْنَا حِجَارَةً مِّنَ السَّمَاۗءِ اَوِ ائْتِنَا بِعَذَابٍ اَلِيْمٍ ) [ الأنفال : ٣٢ ] ” اے اللہ اگر صرف یہی تیری طرف سے حق ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا، یا ہم پر کوئی دردناک عذاب لے آ۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

عَجِّلْ لَّنَا قِطَّنَا۔ ” قط “ اصل میں اس دستاویز کو کہتے ہیں جس کے ذریعہ کسی کو انعام دینے کا وعدہ کیا گیا ہو۔ پھر یہ لفظ مطلق ” حصہ “ کے معنی میں بھی استعمال ہونے لگا۔ یہاں یہی معنیٰ مراد ہیں کہ ” آخرت کی جزا وسزا سے جو کچھ ہمیں حصہ ملنا ہے وہ یہاں دلوا دیجئے۔ “

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَقَالُوْا رَبَّنَا عَجِّلْ لَّنَا قِطَّنَا قَبْلَ يَوْمِ الْحِسَابِ۝ ١٦- قول - القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] ،- ( ق و ل ) القول - القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔- رب - الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] - ( ر ب ب ) الرب ( ن )- کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔- عجل - العَجَلَةُ : طلب الشیء وتحرّيه قبل أوانه، وهو من مقتضی الشّهوة، فلذلک صارت مذمومة في عامّة القرآن حتی قيل : «العَجَلَةُ من الشّيطان» «2» . قال تعالی: سَأُرِيكُمْ آياتِي فَلا تَسْتَعْجِلُونِ [ الأنبیاء 37] ،- ( ع ج ل ) العجلۃ - کسی چیز کو اس کے وقت سے پہلے ہی حاصل کرنے کی کوشش کرنا اس کا تعلق چونکہ خواہش نفسانی سے ہوتا ہے اس لئے عام طور پر قرآن میں اس کی مذمت کی گئی ہے حتی کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا العجلۃ من الشیطان ( کہ جلد بازی شیطان سے ہے قرآن میں ہے : سَأُرِيكُمْ آياتِي فَلا تَسْتَعْجِلُونِ [ الأنبیاء 37] میں تم لوگوں کو عنقریب اپنی نشانیاں دکھاؤ نگا لہذا اس کے لئے جلدی نہ کرو ۔ - قط - قال تعالی: وَقالُوا رَبَّنا عَجِّلْ لَنا قِطَّنا قَبْلَ يَوْمِ الْحِسابِ [ ص 16] الْقِطُّ : الصّحيفة، وهو اسم للمکتوب والمکتوب فيه، ثم قد يسمّى المکتوب بذلک کما يسمّى الکلام کتابا وإن لم يكن مکتوبا، وأصل الْقِطِّ : الشیء المقطوع عرضا، كما أنّ القدّ هو المقطوع طولا، والْقِطُّ :- النّصيب المفروز كأنّه قُطَّ ، أي : أفرز، وقد فسّر ابن عباس رضي اللہ عنه الآية به وقَطَّ السّعر أي : علا، وما رأيته قَطْ ، عبارة عن مدّة الزمان المقطوع به . وقَطْنِي : حسبي .- ق ط ط ) القط حصہ حساب کا رجسٹر قرآن میں ہے : ۔ وَقالُوا رَبَّنا عَجِّلْ لَنا قِطَّنا قَبْلَ يَوْمِ الْحِسابِ [ ص 16] اور کہتے ہیں کہ ہمارے پروردگار ہم کو ہمارا حصہ حساب کے دن سے پہلے ہی دے دے القط اصل میں صحیفہ کو کہتے ہیں پھر کو چیز یعنی حکم وغیرہ لکھا گیا ہو اور جس چیز میں لکھا گیا ہو دونوں کو قط کہنے لگے ہیں اور کبھی صرف اس ( فیصلہ وغیرہ کو قط کہا جاتا ہے جو کسی چیز پر لکھا گیا ہو جیسا کہ کلام کو کتاب کہا جاتا ہے اگر چہ وہ لکھی ہوئی نہ ہو اصل میں قط اس چیز کو کہا جاتا ہے جو عرض میں قطع کی گئی ہو جیسا کہ اس کے بالمقابل ) قد اس چیز کو کہا جاتا ہے جو طول میں قطع کی گئی ہو ۔ پھر ( محاورہ میں ) اس معین حصہ کو ( بھی ) قط کہا جاتا ہے جو کاٹ کر الگ کرلیا ہو چناچہ حضرت ابن عباس نے آیت مذکور ہ میں یہی معنی مراد لئے ہیں ۔ مارایت قط میں نے اسے کبھی نہیں دیکھا تو قط سے خاص زمانہ مراد ہے ۔ قطنی ) اسم فعل ) مجھے کافی ہے ۔- يوم - اليَوْمُ يعبّر به عن وقت طلوع الشمس إلى غروبها . وقد يعبّر به عن مدّة من الزمان أيّ مدّة کانت، قال تعالی: إِنَّ الَّذِينَ تَوَلَّوْا مِنْكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ [ آل عمران 155] ، - ( ی و م ) الیوم - ( ن ) ی طلوع آفتاب سے غروب آفتاب تک کی مدت اور وقت پر بولا جاتا ہے اور عربی زبان میں مطلقا وقت اور زمانہ کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ خواہ وہ زمانہ ( ایک دن کا ہو یا ایک سال اور صدی کا یا ہزار سال کا ہو ) کتنا ہی دراز کیوں نہ ہو ۔ قرآن میں ہے :إِنَّ الَّذِينَ تَوَلَّوْا مِنْكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ [ آل عمران 155] جو لوگ تم سے ( احد کے دن ) جب کہہ دوجماعتیں ایک دوسرے سے گتھ ہوگئیں ( جنگ سے بھاگ گئے ۔ - حسب - الحساب : استعمال العدد، يقال : حَسَبْتُ «5» أَحْسُبُ حِسَاباً وحُسْبَاناً ، قال تعالی: لِتَعْلَمُوا عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسابَ [يونس 5] ، وقال تعالی: وَجَعَلَ اللَّيْلَ سَكَناً وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ حُسْباناً [ الأنعام 96] - ( ح س ب ) الحساب - کے معنی گنتے اور شمار کرنے کے ہیں ۔ کہا جاتا ہے ۔ حسبت ( ض ) قرآن میں ہے : ۔ لِتَعْلَمُوا عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسابَ [يونس 5] اور برسوں کا شمار اور حساب جان لو ۔ وَجَعَلَ اللَّيْلَ سَكَناً وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ حُسْباناً [ الأنعام 96] اور اسی نے رات کو ( موجب ) آرام ( ٹھہرایا ) اور سورج اور چانا ۔ کو ( ذرائع ) شمار بنایا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

اور اللہ تعالیٰ نے جب اپنی کتاب میں اصحاب الیمین اور اصحاب الشمال کا تذکرہ کیا تو کفار مکہ کہنے لگے اے ہمارے رب ہمارا نامہ اعمال روز حساب سے پہلے ہی ہمیں دے دے تاکہ ہمیں معلوم ہوجائے کہ اس میں کیا ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٦ وَقَالُوْا رَبَّنَا عَجِّلْ لَّنَا قِطَّنَا قَبْلَ یَوْمِ الْحِسَابِ ” اور وہ کہتے ہیں : اے ہمارے رب ہمارا حصہ ُ تو ہمیں جلدی دے دے ‘ یومِ حساب سے پہلے۔ “- یعنی تو ہمارا حساب روز حساب سے پہلے ہی چکا دے قِطّ کے معنی حصہ بھی ہیں اور یہ حساب کے رجسٹر (چٹھا) کے لیے بھی بولاجاتا ہے ‘ جس میں کسی کاروبار کی آمدن اور خرچ کا سالانہ حساب کتاب لکھا جاتا ہے اور اس سے اس کاروبار کی سالانہ بچت یا نقصان کا پتا چلتا ہے۔ - یہ بات مشرکین مکہ استہزائیہ انداز میں کہا کرتے تھے کہ یہ جو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمیں ڈراتے رہتے ہیں کہ ہمیں مرنے کے بعد اٹھایا جائے گا ‘ پھر ہمارے ایک ایک عمل کا حساب ہوگا اور اس کے بعد ہمیں سزا دی جائے گی ‘ تو اے ہمارے پروردگار اس کے لیے یوم حساب ہی کا انتظار کیوں ؟ یہ کام ابھی کیوں نہ ہوجائے اس لیے بہتر ہوگا کہ تو ہمارا حساب کتاب ابھی کرلے اور ہمارا چٹھا ( ) ابھی اسی زندگی میں ہی ہمارے ہاتھ میں تھما دے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة صٓ حاشیہ نمبر :15 یعنی اللہ کے عذاب کا حال تو ہے وہ جو ابھی بیان کیا گیا ، اور ان نادانوں کا حال یہ ہے کہ یہ نبی سے مذاق کے طور پر کہتے ہیں کہ جس یوم الحساب سے تم ہمیں ڈراتے ہو اس کے آنے تک ہمارے معاملے کو نہ ٹالو بلکہ ہمارا حساب ابھی چکوا دو ، جو کچھ بھی ہمارے حصے کی شامت لکھی ہے وہ فوراً ہی آ جائے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

8: یہ کافروں کا وہی مطالبہ ہے جس کا زکر پہلے بار بار گذرا ہے کہ اگر ہم پر عذاب آنا ہے تو ابھی فوراً کیوں نہیں آتا؟