17۔ 1 قوت و شدت۔ اسی سے تائید بمعنی تقویت ہے۔ اس قوت سے مراد دینی قوت و صلاحیت ہے، جس طرح حدیث میں آتا ہے کہ اللہ کو سب سے زیادہ محبوب نماز، داؤد (علیہ السلام) کی نماز اور سب سے زیادہ محبوب روزے، داؤد (علیہ السلام) کے روزے ہیں، وہ نصف رات سوتے، پھر اٹھ کر رات کا تہائی حصہ قیام کرتے اور پھر اس کے چھٹے حصے میں سو جاتے۔ ایک دن روزہ رکھتے اور ایک دن ناغہ کرتے اور جنگ میں فرار نہ ہوتے (صحیح بخاری)
[١٩] وَاذْکُرْکا دوسرا معنی یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس کا قصہ دوسروں سے بیان کیجئے۔- [٢٠] ید اور ذوالاید کا لغوی مفہوم :۔ ذَالاَیْدِ کا لفظی معنی ہاتھوں والا ہے اور تقریباً ہر زبان میں ایسے لفظ بول کر قوت اور طاقت مراد لی جاتی ہے۔ صاحب قوت سے مراد جسمانی قوت بھی ہوسکتی ہے۔ چناچہ آپ سے متعلق منقول ہے کہ بچپن میں جب آپ بکریوں کا ریوڑ چرایا کرتے تھے تو جب کوئی درندہ ان پر حملہ آور ہوتا آپ اس کے ایک جبڑے کو پکڑ کر دوسرے کو اس زور سے کھینچتے تھے کہ اسے چیر دیتے تھے پھر یہ بھی آپ کی جسمانی قوت ہی تھی کہ آپ نے میدان کارزار میں جالوت کو مار ڈالا تھا۔ اور فوجی اور سیاسی قوت بھی مراد ہوسکتی ہے کہ آپ نے گردوپیش کی مشرک قوموں کو شکست دے کر ایک مضبوط اسلامی سلطنت قائم کردی تھی۔- [٢١] آپ کے اعلیٰ درجہ کے اوصاف :۔ ان کے رجوع الی اللہ اور عبادت گزاری کا یہ حال تھا کہ آپ نے بادشاہی پر ہمیشہ فقیری کو ترجیح دی۔ آپ کی تعریف میں بہت سی صحیح احادیث وارد ہیں۔ آپ نے اپنے ذاتی اخراجات کا بار بیت المال پر نہیں ڈالا تھا بلکہ اپنے ہاتھ کی کمائی سے اپنا خرچ چلاتے تھے۔ آپ ایک دن روزہ رکھتے، دوسرے دن روزہ نہ رکھتے زندگی بھر یہی دستور رہا۔ رات کا تہائی حصہ عبادت میں گزارتے تھے۔ آپ نے دن رات کے چوبیس گھنٹوں کو اپنے اور اپنے بال بچوں میں کچھ اس طرح تقسیم کر رکھا تھا کہ کوئی وقت ایسا نہ گزرے جبکہ آل داود میں سے کوئی شخص اللہ کی عبادت میں مصروف و مشغول نہ ہو۔ آپ نے یہ التزام بھی کر رکھا تھا کہ ہر تین دنوں میں ایک دن اللہ کی عبادت کے لئے تھا۔ ایک دن لوگوں کے مقدمات کے فیصلہ کے لئے اور ایک دن امور سلطنت کے انتظام و انصرام میں صرف کرتے تھے۔
اِصْبِرْ عَلٰي مَا يَقُوْلُوْنَ : اس سورت میں یہاں تک کفار کی جو باتیں ذکر ہوئی ہیں، مثلاً آپ کو ساحر و کذّاب کہنا اور ان کا یہ اعتراض کہ کیا ہم سب میں سے رسول بنانے کے لیے یہی ایک شخص رہ گیا تھا ؟ اور یہ کہ اس دعوت کے پیچھے کوئی سوچی سمجھی سازش ہے اور قیامت کا مذاق اڑاتے ہوئے انھوں نے جو کچھ کہا، اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان سب باتوں پر صبر کا حکم دیا اور تسلی کے لیے داؤد (علیہ السلام) اور چند دوسرے پیغمبروں کو یاد کرنے کا حکم دیا۔ - وَاذْكُرْ عَبْدَنَا دَاوٗدَ ذَا الْاَيْدِ : ” الْاَيْدِ “ کا معنی قوت ہے۔ ” آد الرَّجُلُ یَءِیْدُ أَیْدًا “ (ض) جب کوئی آدمی قوی ہوجائے تو کہتے ہیں : ” فَھُوَ أَیِّدٌ“ جیسے فرمایا : (وَاَيَّدْنٰهُ بِرُوْحِ الْقُدُسِ ) [ البقرۃ : ٨٧ ] ” اور ہم نے اسے روح القدس کے ساتھ قوت بخشی۔ “ داؤد (علیہ السلام) بڑی قوت والے تھے، اللہ تعالیٰ نے انھیں کئی قوتوں سے نوازا تھا، مثلاً جسمانی قوت جس کے ساتھ انھوں نے جالوت کو قتل کیا، قلبی شجاعت و قوت جس کی وجہ سے وہ کبھی دشمن کے مقابلے میں پیٹھ نہیں دکھاتے تھے، عبادت کی قوت جس کا اظہار روزانہ تہائی رات کی نماز اور ہمیشہ ایک دن کے ناغے کے ساتھ روزے سے ہوتا ہے، فرماں روائی کی قوت جس کے ساتھ انھوں نے گرد و پیش کی تمام مشرک قوتوں کو زیر کرکے ایک مضبوط سلطنت قائم کی۔ صحیح فیصلے کی قوت (حکم) ، فیصلہ کن خطاب کی قوت، حُسن صوت کی نعمت جس کی وجہ سے پہاڑ اور پرندے بھی ان کے ساتھ تسبیح و تلاوت میں شریک ہوجاتے تھے، لوہے کو موم کرنے اور زرہیں بنانے کی قوت جس کے ذریعے سے وہ صرف اپنے ہاتھ کی کمائی کھاتے تھے۔ مزید تفصیل سورة بقرہ (٢٥١) ، انبیاء (٧٨، ٧٩) ، نمل (١٥، ١٦) اور سورة سبا (١٠ تا ١٣) میں ملاحظہ فرمائیں۔- اِنَّهٗٓ اَوَّابٌ : یعنی وہ اپنے تمام معاملات میں اللہ تعالیٰ کی طرف بہت رجوع کرنے والے تھے، کوئی قدم اپنی مرضی سے نہیں اٹھاتے تھے۔ ہر وقت نماز، دعا، امید و خوف، ذکر و تلاوت اور جہاد کے ساتھ اسی کی طرف توجہ رکھتے، کبھی کوئی کمی ہوجاتی تو فوراً توبہ و استغفار کے ساتھ اس کی طرف رجوع کرتے تھے۔
خلاصہ تفسیر - آپ ان لوگوں کے اقوال پر صبر کیجئے اور ہمارے بندہ داؤد کو یاد کیجئے جو (عبادت میں جس میں صبر بھی داخل ہے) بڑی قوت (اور ہمت) والے تھے (اور) وہ (خدا کی طرف) بہت رجوع ہونے والے تھے (اور ہم نے ان کو یہ نعمتیں عطا فرمائی تھیں :۔ ایک یہ کہ) ہم نے پہاڑوں کو حکم کر رکھا تھا کہ ان کے ساتھ (شریک ہو کر) شام اور صبح (کہ حضرت داؤد (علیہ السلام) کی تسبیح کے یہی اوقات تھے) تسبیح کیا کریں اور (اسی طرح) پرندوں کو بھی (یہی حکم دے رکھا تھا) جو کہ (تسبیح کے وقت ان کے پاس) جمع ہوجاتے تھے (اور یہ پہاڑ اور پرندے وغیرہ) سب ان کی (تسبیح کی) وجہ سے مشغول ذکر رہتے اور (دوسری نعمت یہ کہ) ہم نے ان کی سلطنت کو نہایت قوت دی تھی اور (تیسری نعمت یہ کہ) ہم نے ان کو حکمت (یعنی نبوت) اور فیصلہ کردینے والی تقریر (جو نہایت واضح اور جامع ہو) عطا فرمائی تھی۔- معارف ومسائل - کفار کی تکذیب و استہزاء سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جو صدمہ ہوتا تھا، اسے دور کر کے تسلی دینے کے لئے عموماً اللہ تعالیٰ نے پچھلے انبیاء (علیہم السلام) کے واقعات سنائے ہیں۔ چناچہ یہاں بھی آپ کو صبر کی تلقین فرما کر بعض انبیاء (علیہم السلام) کے واقعات ذکر کئے گئے ہیں جن میں سے پہلا واقعہ حضرت داؤد (علیہ السلام) کا ہے۔- (آیت) وَاذْكُرْ عَبْدَنَا دَاوٗدَ ذَا الْاَيْدِ ۔ (اور یاد کیجئے ہمارے بندے داؤد کو جو قوت والے تھے) تقریباً تمام مفسرین نے اس کا مطلب یہ بیان فرمایا ہے کہ وہ عبادت میں بڑی قوت وہمت کا ثبوت دیتے تھے اسی لئے اس کے بعد یہ جملہ ہے کہ اِنَّهٗٓ اَوَّابٌ (بلاشبہ وہ اللہ کی طرف بہت رجوع کرنے والے تھے) چناچہ صحیحین کی ایک حدیث میں آنحضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ نماز داؤد (علیہ السلام) کی ہے، اور سب سے زیادہ پسندیدہ روزے داؤد (علیہ السلام) کے ہیں وہ آدھی رات سوتے، ایک تہائی رات عبادت کرتے اور پھر رات کے چھٹے حصہ میں سو جاتے تھے، اور ایک دن روزہ رکھتے اور ایک دن افطار فرماتے تھے، اور جب دشمن سے ان کا مقابلہ ہوجاتا تو فرار اختیار نہ فرماتے تھے۔ اور بلاشبہ وہ اللہ کی طرف بہت رجوع کرنے والے تھے۔ “ (تفسیر ابن کثیر)- عبادت کے اس طریقہ کو سب سے زیادہ پسندیدہ اس لئے قرار دیا گیا کہ ایک تو اس میں مشقت زیادہ ہے، ساری عمر روزہ رکھنے سے آدمی روزے کا عادی ہوجاتا ہے اور کچھ عرصہ کے بعد اس میں زیادہ مشقت نہیں رہتی، لیکن ایک دن چھوڑ کر روزہ رکھنے میں مسلسل تکلیف رہتی ہے، دوسرے اس طریقہ سے انسان عبادت کے ساتھ ساتھ اپنے نفس، اہل و عیال اور متعلقین کے حقوق بھی پوری طرح ادا کرسکتا ہے۔
اِصْبِرْ عَلٰي مَا يَقُوْلُوْنَ وَاذْكُرْ عَبْدَنَا دَاوٗدَ ذَا الْاَيْدِ ٠ ۚ اِنَّہٗٓ اَوَّابٌ ١٧- صبر - الصَّبْرُ : الإمساک في ضيق، والصَّبْرُ : حبس النّفس علی ما يقتضيه العقل والشرع، أو عمّا يقتضیان حبسها عنه، وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب 35] ، وسمّي الصّوم صبرا لکونه کالنّوع له، وقال عليه السلام :«صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر»- ( ص ب ر ) الصبر - کے معنی ہیں کسی کو تنگی کی حالت میں روک رکھنا ۔ لہذا الصبر کے معنی ہوئے عقل و شریعت دونوں یا ان میں سے کسی ایک کے تقاضا کے مطابق اپنے آپ کو روک رکھنا ۔ وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب 35] صبر کرنے والے مرو اور صبر کرنے والی عورتیں اور روزہ کو صبر کہا گیا ہے کیونکہ یہ بھی ضبط نفس کی ایک قسم ہے چناچہ آنحضرت نے فرمایا «صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر»- ماه رمضان اور ہر ماہ میں تین روزے سینہ سے بغض کو نکال ڈالتے ہیں - عبد - والعَبْدُ يقال علی أربعة أضرب :- الأوّل : عَبْدٌ بحکم الشّرع، وهو الإنسان الذي يصحّ بيعه وابتیاعه، نحو : الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ- [ البقرة 178] ، وعَبْداً مَمْلُوكاً لا يَقْدِرُ عَلى شَيْءٍ [ النحل 75] .- الثاني : عَبْدٌ بالإيجاد، وذلک ليس إلّا لله، وإيّاه قصد بقوله : إِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمنِ عَبْداً [ مریم 93] .- والثالث : عَبْدٌ بالعِبَادَةِ والخدمة،- والناس في هذا ضربان :- عبد لله مخلص، وهو المقصود بقوله : وَاذْكُرْ عَبْدَنا أَيُّوبَ [ ص 41] ، إِنَّهُ كانَ عَبْداً شَكُوراً [ الإسراء 3] ، نَزَّلَ الْفُرْقانَ عَلى عَبْدِهِ [ الفرقان 1] ، عَلى عَبْدِهِ الْكِتابَ [ الكهف 1] ، إِنَّ عِبادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطانٌ [ الحجر 42] ، كُونُوا عِباداً لِي[ آل عمران 79] ، إِلَّا عِبادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ [ الحجر 40] ، وَعَدَ الرَّحْمنُ عِبادَهُ بِالْغَيْبِ [ مریم 61] ، وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان 63] ، فَأَسْرِ بِعِبادِي لَيْلًا[ الدخان 23] ، فَوَجَدا عَبْداً مِنْ عِبادِنا[ الكهف 65] . وعَبْدٌ للدّنيا وأعراضها، وهو المعتکف علی خدمتها ومراعاتها، وإيّاه قصد النّبي عليه الصلاة والسلام بقوله : «تعس عَبْدُ الدّرهمِ ، تعس عَبْدُ الدّينار» وعلی هذا النحو يصحّ أن يقال : ليس كلّ إنسان عَبْداً لله، فإنّ العَبْدَ علی هذا بمعنی العَابِدِ ، لکن العَبْدَ أبلغ من العابِدِ ، والناس کلّهم عِبَادُ اللہ بل الأشياء کلّها كذلك، لکن بعضها بالتّسخیر وبعضها بالاختیار، وجمع العَبْدِ الذي هو مُسترَقٌّ: عَبِيدٌ ، وقیل : عِبِدَّى وجمع العَبْدِ الذي هو العَابِدُ عِبَادٌ ، فالعَبِيدُ إذا أضيف إلى اللہ أعمّ من العِبَادِ. ولهذا قال : وَما أَنَا بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ [ ق 29] ، فنبّه أنه لا يظلم من يختصّ بِعِبَادَتِهِ ومن انتسب إلى غيره من الّذين تسمّوا بِعَبْدِ الشمس وعَبْدِ اللّات ونحو ذلك . ويقال : طریق مُعَبَّدٌ ، أي : مذلّل بالوطء، وبعیر مُعَبَّدٌ: مذلّل بالقطران، وعَبَّدتُ فلاناً : إذا ذلّلته، وإذا اتّخذته عَبْداً. قال تعالی: أَنْ عَبَّدْتَ بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء 22] .- العبد بمعنی غلام کا لفظ چار معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔- ( 1 ) العبد بمعنی غلام یعنی وہ انسان جس کی خریدنا اور فروخت کرنا شرعا جائز ہو چناچہ آیات کریمہ : ۔ الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ [ البقرة 178] اور غلام کے بدلے غلام عَبْداً مَمْلُوكاً لا يَقْدِرُ عَلى شَيْءٍ [ النحل 75] ایک غلام ہے جو بالکل دوسرے کے اختیار میں ہے ۔ میں عبد کا لفظ اس معنی میں استعمال ہوا ہے - ( 2 ) العبد بالایجاد یعنی وہ بندے جسے اللہ نے پیدا کیا ہے اس معنی میں عبودیۃ اللہ کے ساتھ مختص ہے کسی دوسرے کی طرف نسبت کرنا جائز نہیں ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ إِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمنِ عَبْداً [ مریم 93] تمام شخص جو آسمان اور زمین میں ہیں خدا کے روبرو بندے ہوکر آئیں گے ۔ میں اسی معنی کی طرح اشارہ ہے ۔ - ( 3 ) عبد وہ ہے جو عبارت اور خدمت کی بدولت عبودیت کا درجہ حاصل کرلیتا ہے اس لحاظ سے جن پر عبد کا لفظ بولا گیا ہے - وہ دوقسم پر ہیں - ایک وہ جو اللہ تعالیٰ کے مخلص بندے بن جاتے ہیں چناچہ ایسے لوگوں کے متعلق فرمایا : ۔ وَاذْكُرْ عَبْدَنا أَيُّوبَ [ ص 41] اور ہمارے بندے ایوب کو یاد کرو ۔ إِنَّهُ كانَ عَبْداً شَكُوراً [ الإسراء 3] بیشک نوح (علیہ السلام) ہمارے شکر گزار بندے تھے نَزَّلَ الْفُرْقانَ عَلى عَبْدِهِ [ الفرقان 1] جس نے اپنے بندے پر قرآن پاک میں نازل فرمایا : ۔ عَلى عَبْدِهِ الْكِتابَ [ الكهف 1] جس نے اپنی بندے ( محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) پر یہ کتاب نازل کی ۔ إِنَّ عِبادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطانٌ [ الحجر 42] جو میرے مخلص بندے ہیں ان پر تیرا کچھ زور نہیں ۔ كُونُوا عِباداً لِي[ آل عمران 79] کہ میری بندے ہوجاؤ ۔ إِلَّا عِبادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ [ الحجر 40] ہاں ان میں جو تیرے مخلص بندے ہیں ۔ وَعَدَ الرَّحْمنُ عِبادَهُ بِالْغَيْبِ [ مریم 61] جس کا خدا نے اپنے بندوں سے وعدہ کیا ہے ۔ وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان 63] اور خدا کے بندے تو وہ ہیں جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں فَأَسْرِ بِعِبادِي لَيْلًا[ الدخان 23] ہمارے بندوں کو راتوں رات نکال لے جاؤ ۔ فَوَجَدا عَبْداً مِنْ عِبادِنا[ الكهف 65]( وہاں ) انہوں نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندہ دیکھا ۔- ( 2 ) دوسرے اس کی پر ستش میں لگے رہتے ہیں ۔ اور اسی کی طرف مائل رہتے ہیں چناچہ ایسے لوگوں کے متعلق ہی آنحضرت نے فرمایا ہے تعس عبد الدرھم تعس عبد الدینا ر ) درہم دینار کا بندہ ہلاک ہو ) عبد کے ان معانی کے پیش نظر یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ہر انسان اللہ کا بندہ نہیں ہے یعنی بندہ مخلص نہیں ہے لہذا یہاں عبد کے معنی عابد یعنی عبادت گزار کے ہیں لیکن عبد عابد سے زیادہ بلیغ ہے اور یہ بھی کہہ سکتے ہیں : ۔ کہ تمام لوگ اللہ کے ہیں یعنی اللہ ہی نے سب کو پیدا کیا ہے بلکہ تمام اشیاء کا یہی حکم ہے ۔ بعض بعض عبد بالتسخیر ہیں اور بعض عبد بالا اختیار اور جب عبد کا لفظ غلام کے معنی میں استعمال ہو تو اس کی جمع عبید یا عبد آتی ہے اور جب عبد بمعنی عابد یعنی عبادت گزار کے ہو تو اس کی جمع عباد آئے گی لہذا جب عبید کی اضافت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو یہ عباد سے زیادہ عام ہوگا یہی وجہ ہے کہ آیت : وَما أَنَا بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ [ ق 29] اور ہم بندوں پر ظلم نہیں کیا کرتے میں عبید سے ظلم کی نفی کر کے تنبیہ کی ہے وہ کسی بندے پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتا خواہ وہ خدا کی پرستش کرتا ہو اور خواہ عبدالشمس یا عبد اللات ہونے کا مدعی ہو ۔ ہموار راستہ ہموار راستہ جس پر لوگ آسانی سے چل سکیں ۔ بعیر معبد جس پر تار کول مل کر اسے خوب بد صورت کردیا گیا ہو عبدت فلان میں نے اسے مطیع کرلیا محکوم بنالیا قرآن میں ہے : ۔ أَنْ عَبَّدْتَ بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء 22] کہ تم نے بنی اسرائیل کو محکوم بنا رکھا ہے ۔- داود - داود اسم أعجميّ.- ( د و د ) داؤد ) (علیہ السلام) یہ عجمی نام ہے اور عجمہ وعلمیت کی بنا پر غیر منصرف ہے )- ذو - ذو علی وجهين : أحدهما : يتوصّل به إلى الوصف بأسماء الأجناس والأنواع، ويضاف إلى الظاهر دون المضمر، ويثنّى ويجمع، ويقال في المؤنّث : ذات، وفي التثنية : ذواتا، وفي الجمع : ذوات، ولا يستعمل شيء منها إلّا مضافا، قال : وَلكِنَّ اللَّهَ ذُو فَضْلٍ [ البقرة 251] ، وقال : ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى [ النجم 6] ، وَذِي الْقُرْبى [ البقرة 83] ، وَيُؤْتِ كُلَّ ذِي فَضْلٍ فَضْلَهُ [هود 3] ، ذَوِي الْقُرْبى وَالْيَتامی [ البقرة 177] ، إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذاتِ الصُّدُورِ- [ الأنفال 43] ، وَنُقَلِّبُهُمْ ذاتَ الْيَمِينِ وَذاتَ الشِّمالِ [ الكهف 18] ، وَتَوَدُّونَ أَنَّ غَيْرَ ذاتِ الشَّوْكَةِ تَكُونُ لَكُمْ [ الأنفال 7] ، وقال : ذَواتا أَفْنانٍ [ الرحمن 48] ، وقد استعار أصحاب المعاني الذّات، فجعلوها عبارة عن عين الشیء، جو هرا کان أو عرضا، واستعملوها مفردة ومضافة إلى المضمر بالألف واللام، وأجروها مجری النّفس والخاصّة، فقالوا : ذاته، ونفسه وخاصّته، ولیس ذلک من کلام العرب . - والثاني في لفظ ذو :- لغة لطيّئ، يستعملونه استعمال الذي، ويجعل في الرفع، والنصب والجرّ ، والجمع، والتأنيث علی لفظ واحد نحو : وبئري ذو حفرت وذو طویت - ( ذ و ) ذو ( والا ۔ صاحب )- یہ دو طرح پر استعمال ہوتا ہے - ( 1) اول یہ کہ اسماء اجناس وانوع کے ساتھ توصیف کے لئے اسے ذریعہ بنایا جاتا ہے ۔ اس صورت میں اسم ضمیر کیطرف مضاف نہیں ہوتا بلکہ ہمیشہ اسم ظاہر کی طرف مضاف ہوتا ہے اور اس کا تنثیہ جمع بھی آتا ہے ۔ اور مونث کے لئے ذات کا صیغہ استعمال ہوتا ہے اس کا تثنیہ ذواتا اور جمع ذوات آتی ہے ۔ اور یہ تمام الفاظ مضاف ہوکر استعمال ہوتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَلكِنَّ اللَّهَ ذُو فَضْلٍ [ البقرة 251] لیکن خدا اہل عالم پر بڑا مہرابان ہے ۔ ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى [ النجم 6] ( یعنی جبرئیل ) طاقتور نے پھر وہ پورے نظر آئے ۔ وَذِي الْقُرْبى [ البقرة 83] اور رشتہ داروں ۔ وَيُؤْتِ كُلَّ ذِي فَضْلٍ فَضْلَهُ [هود 3] اور ہر ساحب فضل کو اسکی بزرگی ( کی داو ) دیگا ۔ ذَوِي الْقُرْبى وَالْيَتامی [ البقرة 177] رشتہ داروں اور یتیموں ۔ إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذاتِ الصُّدُورِ [ الأنفال 43] تو دلوں تک کی باتوں سے آگاہ ہے ۔ وَنُقَلِّبُهُمْ ذاتَ الْيَمِينِ وَذاتَ الشِّمالِ [ الكهف 18] اور ہم ان کو دائیں اور بائیں کروٹ بدلاتے ہیں ۔ وَتَوَدُّونَ أَنَّ غَيْرَ ذاتِ الشَّوْكَةِ تَكُونُ لَكُمْ [ الأنفال 7] اور تم چاہتے تھے کہ جو قافلہ بےشان و شوکت ( یعنی بےہتھیار ) ہے وہ تمہارے ہاتھ آجائے ۔ ذَواتا أَفْنانٍ [ الرحمن 48] ان دونوں میں بہت سے شاخیں یعنی قسم قسم کے میووں کے درخت ہیں ۔ علمائے معانی ( منطق وفلسفہ ) ذات کے لفظ کو بطور استعارہ عین شے کے معنی میں استعمال کرتے ہیں اور یہ جو ہر اور عرض دونوں پر بولاجاتا ہے اور پھر کبھی یہ مفرد یعنی بدون اضافت کت استعمال ہوتا ہے ۔ اور کبھی اسم ضمیر کی طرف مضاف ہو کر اور کبھی معرف بلالم ہوکر ۔ اور یہ لفظ بمنزلہ نفس اور خاصہ کے بولا جاتا ہے ۔ اور نفسہ وخاصتہ کی طرح ذاتہ بھی کہاجاتا ہے ۔ مگر یہ عربی زبان کے محاورات سے نہیں ہے - ( 2 ) دوم بنی طیی ذوبمعنی الذی استعمال کرتے ہیں اور یہ رفعی نصبی جری جمع اور تانیث کی صورت میں ایک ہی حالت پر رہتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ع ( الوافر ) یعنی کنواں جسے میں نے کھودا اور صاف کیا ہے ۔- أوَّاب - کالتوّاب، وهو الراجع إلى اللہ تعالیٰ بترک المعاصي وفعل الطاعات، قال تعالی: أَوَّابٍ حَفِيظٍ [ ق 32] ، وقال : إِنَّهُ أَوَّابٌ [ ص 30] ومنه قيل للتوبة : أَوْبَة، والتأويب يقال في سير النهار وقیل : آبت يد الرّامي إلى السهم وذلک فعل الرامي في الحقیقة وإن کان منسوبا إلى الید، ولا ينقض ما قدّمناه من أنّ ذلک رجوع بإرادة واختیار، وکذا ناقة أَؤُوب : سریعة رجع الیدین .- الاواب - ۔ یہ تواب کی ( صیغہ مبالغہ ) ہے یعنی وہ شخص جو معاصی کے ترک اور فعل طاعت سے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنے والا ہو ۔ قرآن میں ہے ۔ لِكُلِّ أَوَّابٍ حَفِيظٍ ( سورة ق 32) ۔ یعنی ہر رجوع لانے اور حفاظت کرنے والے کے لئے (50 ۔ 320) ( سورة ص 17 - 44) بیشک وہ رجوع کرنے والے تھے ۔ اسی سے اوبۃ بمعنی توبہ بولا جاتا ہے
محمد آپ ان لوگوں کی تکذیب پر صبر کیجیے اور ان کے سامنے ہمارے بندہ داؤد کا ذکر کیجیے جو عبادت میں بڑی قوت والے تھے اور اللہ کی اطاعت و فرمانبرداری کی طرف بڑے رجوع کرنے والے تھے۔
آیت ١٧ اِصْبِرْ عَلٰی مَا یَقُوْلُوْنَ ” (اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) آپ صبرکیجیے اس پر جو کچھ یہ لوگ کہہ رہے ہیں “- وَاذْکُرْ عَبْدَنَا دَاوٗدَ ذَا الْاَیْدِج اِنَّہٗٓ اَوَّابٌ ” اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تذکرہ کیجیے ہمارے بندے دائود کا جو بہت قوت والا تھا ‘ بیشک وہ (اللہ کی طرف) بہت رجوع کرنے والا تھا۔ “
سورة صٓ حاشیہ نمبر :16 اشارہ ہے کفار مکہ کی ان باتوں کی طرف جن کا ذکر اوپر گزر چکا ہے ، یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق ان کی یہ بکواس کہ یہ شخص ساحر اور کذاب ہے ، اور ان کا یہ اعتراض کہ اللہ میاں کے پاس رسول بنانے کے لیے کیا بس یہی ایک شخص رہ گیا تھا ۔ اور یہ الزام کہ اس دعوت توحید سے اس شخص کا مقصد کوئی مذہبی تبلیغ نہیں ہے بلکہ اس کی نیت کچھ اور ہی ہے ۔ سورة صٓ حاشیہ نمبر :17 اس فقرے کا دوسرا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ہمارے بندے داؤد کو یاد کرو ۔ پہلے ترجمے کے لحاظ سے مطلب یہ ہے کہ اس قصے میں ان لوگوں کے لیے ایک سبق ہے ۔ اور دوسرے ترجمے کے لحاظ سے مراد یہ ہے کہ اس قصے کی یاد خود تمہیں صبر کرنے میں مدد دے گی ۔ چونکہ یہ قصہ بیان کرنے سے دونوں ہی باتیں مقصود ہیں ، اس لیے الفاظ ایسے استعمال کیے گئے ہیں جو دونوں مفہوموں پر دلالت کرتے ہیں ( حضرت داؤد کے قصے کی تفصیلات اس سے پہلے حسب ذیل مقامات پر گزر چکی ہیں : تفہیم القرآن جلد اول ، صفحہ 191 ۔ جلد دوم ، صفحات 597 و 624 ۔ جلد سوم ، صفحات 173 تا 176 و 560 ۔ 561 ۔ جلد چہارم ، حواشی سورہ صفحہ نمبر 14 تا 16 ) سورة صٓ حاشیہ نمبر :18 اصل الفاظ ہیں ذَالْاَیْد ، ہاتھوں والا ۔ ہاتھ کا لفظ صرف عربی زبان ہی میں نہیں ، دوسری زبانوں میں بھی وقت و قدرت کے لیے استعارے کے طور پر استعمال ہوتا ہے ۔ حضرت داؤد کے لیے جب ان کی صفت کے طور پر یہ فرمایا گیا کہ وہ ہاتھوں والے تھے تو اس کا مطلب لازماً یہی ہو گا کہ وہ بڑی قوتوں کے مالک تھے ۔ ان قوتوں سے بہت سی قوتیں مراد ہوسکتی ہیں ۔ مثلاً جسمانی طاقت ، جس کا مظاہرہ انہوں نے جالوت سے جنگ کے موقع پر کیا تھا ۔ فوجی اور سیاسی طاقت ، جس سے انہوں نے گرد و پیش کی مشرک قوموں کو شکست دے کر ایک مضبوط اسلامی سلطنت قائم کر دی تھی ۔ اخلاقی طاقت ، جس کی بدولت انہوں نے بادشاہی میں فقیری کی اور ہمیشہ اللہ سے ڈرتے اور اس کے حدود کی پابندی کرتے رہے ۔ اور عبادت کی طاقت ، جس کا حال یہ تھا کہ حکومت و فرمانروائی اور جہاد فی سبیل اللہ کی مصروفیتوں کے باوجود ، صحیحین کی روایت کے مطابق ، وہ ہمیشہ ایک دن بیچ روزہ رکھتے تھے اور روزانہ ایک تہائی رات نماز میں گزارتے تھے ۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی تاریخ میں حضرت ابوالدّرداء کے حوالہ سے نقل کیا ہے کہ جب حضرت داؤد کا ذکر آتا تھا تو نبی صلی اللہ علیہ و سلم فرمایا کرتے تھے کَانَ اَعْبَدَ الْبَشَرِ ، وہ سب سے زیادہ عبادت گزار آدمی تھے ۔
9: سورت کے شروع میں کافروں کی وہ باتیں ذکر کر کے ان پر تردید فرمائی گئی تھی جن سے حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو رنج ہوا کرتا تھا۔ اب یہاں سے یہ فرمایا جا رہا ہے کہ ان کی بے ہودہ باتوں پر صبر کر کے آپ اپنے کام میں لگے رہئے، اور اسی سلسلے میں کچھ پچھلے انبیائے کرام کے واقعات بیان فرمائے جا رہے ہیں جن سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی ہو۔ ان میں سے پہلا تذکرہ حضرت داود (علیہ السلام) کا ہے۔