Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اِنَّا سَخَّرْنَا الْجِبَالَ مَعَهٗ يُسَبِّحْنَ بالْعَشِيِّ وَالْاِشْرَاقِ : اللہ تعالیٰ نے داؤد (علیہ السلام) کو نہایت خوب صورت آواز عطا کر رکھی تھی اور پہاڑوں اور پرندوں کو ان کے ساتھ پابند کردیا تھا کہ جب وہ ترنم کے ساتھ تسبیح کرتے تو پہاڑ بھی ان کے ساتھ تسبیح کرتے اور اڑتے ہوئے پرندے سن کر آگے جانے کے بجائے ان کے گرد جمع ہو کر ان کے ساتھ تسبیح میں مشغول ہوجاتے۔ مزید دیکھیے سورة انبیاء (٧٩) اور سورة سبا (١٠) ۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

اِنَّا سَخَّرْنَا الْجِبَالَ مَعَهٗ الخ۔ اس آیت میں پہاڑوں اور پرندوں کے حضرت داؤد (علیہ السلام) کے ساتھ شریک تسبیح ہونے کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ اس کی تشریح سورة انبیاء اور سورة سباء میں گزر چکی ہے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ پہاڑوں اور پرندوں کی تسبیح کو باری تعالیٰ نے یہاں اس طرح ذکر فرمایا ہے کہ یہ حضرت داؤد (علیہ السلام) پر ایک خاص انعام تھا۔ سوال یہ ہے کہ یہ حضرت داؤد (علیہ السلام) کے لئے نعمت کیسے ہوئی ؟ پہاڑوں اور پرندوں کی تسبیح سے کیا خاص فائدہ پہنچا ؟- اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ اس سے حضرت داؤد (علیہ السلام) کا ایک معجزہ ظاہر ہوا، اور ظاہر ہے کہ یہ ایک بڑا انعام ہے۔ اس کے علاوہ حضرت تھانوی نے ایک لطیف توجیہہ فرمائی ہے کہ پہاڑوں اور پرندوں کی تسبیح سے ذکر و شغل کا ایک خاص کیف پیدا ہوگیا تھا جس سے عبادت میں نشاط اور تازگی وہمت پیدا ہوتی ہے۔ اجتماعی ذکر کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ ذکر کی برکتوں کا ایک دوسرے پر انعکاس ہوتا رہتا ہے۔ صوفیائے کرام کے یہاں ذکر وشغل کا ایک خاص طریقہ معروف ہے جس میں ذکر کرتے ہوئے یہ تصور کیا جاتا ہے کہ پوری کائنات ذکر کر رہی ہے، اصلاح باطن اور شوق عبادت میں اس طریقہ کی عجیب تاثیر ہے۔ اس آیت سے اس طریقہ ذکر کی بنیاد بھی مستنبط ہوتی ہے۔ (مسائل السلوک)- صلوٰة الضحیٰ :- (آیت) بِالْعَشِيِّ وَالْاِشْرَاقِ ۔ عشی کے معنی ہیں ظہر کے بعد سے اگلے دن صبح تک کا وقت اور اشراق کے معنی صبح کا وہ وقت جس میں دھوپ زمین پر پھیل گئی ہو۔ اس آیت سے حضرت عبداللہ بن عباس نے صلوٰة الضحیٰ کے شروع ہونے پر استدلال فرمایا ہے۔ صلوٰة الضحیٰ کو صلوٰة الاوابین اور بعض حضرات صلوٰة الاشراق بھی کہتے ہیں۔ اگرچہ بعد میں صلوٰة الاوابین کا نام مغرب کے بعد کی چھ نفلوں کے لئے اور صلوٰة الاشراق طلوع آفتاب کے متصل والی دو چار نفلوں کے لئے زیادہ مشہور ہوگیا۔- صلوٰة الضحیٰ میں سے دو سے لے کر بارہ تک جتنی رکعتیں چاہیں پڑھی جاسکتی ہیں۔ حدیث میں اس کے بہت سے فوائد وارد ہوئے ہیں۔ جامع ترمذی میں حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا، ” جو شخص صلوٰة الضحیٰ کی دو رکعتوں کی پابندی کرلے اس کے گناہ بخش دیئے جاتے ہیں، خواہ وہ سمندری جھاگ جتنے ہوں “ اور حضرت انس سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا :۔ ” جو شخص صلوٰة الضحیٰ کی بارہ رکعتیں پڑھے، اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت میں سونے کا محل بنا دے گا۔ “ (قرطبی)- علماء نے فرمایا ہے کہ یوں تو دو سے لے کر بارہ تک جتنی رکعتیں پڑھی جاسکیں وہ ٹھیک ہیں، لیکن تعداد کے لئے کوئی خاص معمول بنا لیا جائے تو بہتر ہے، اور یہ معمول کم از کم چار رکعت ہو تو زیادہ اچھا ہے کیونکہ آپ کا عام معمول چار رکعتیں ہی پڑھنے کا تھا۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اِنَّا سَخَّرْنَا الْجِبَالَ مَعَہٗ يُسَبِّحْنَ بِالْعَشِيِّ وَالْاِشْرَاقِ۝ ١٨ۙ- سخر - التَّسْخِيرُ : سياقة إلى الغرض المختصّ قهرا، قال تعالی: وَسَخَّرَ لَكُمْ ما فِي السَّماواتِ وَما فِي الْأَرْضِ [ الجاثية 13] - ( س خ ر ) التسخیر - ( تفعیل ) کے معنی کسی کو کسی خاص مقصد کی طرف زبر دستی لیجانا کے ہیں قرآن میں ہے وَسَخَّرَ لَكُمْ ما فِي السَّماواتِ وَما فِي الْأَرْضِ [ الجاثية 13] اور جو کچھ آسمان میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے اس نے ( اپنے کرم سے ) ان سب کو تمہارے کام میں لگا رکھا ہے ۔- جبل - الجَبَل جمعه : أَجْبَال وجِبَال، وقال عزّ وجل :- أَلَمْ نَجْعَلِ الْأَرْضَ مِهاداً وَالْجِبالَ أَوْتاداً [ النبأ 6- 7] - ( ج ب ل )- قرآن میں ہے : ۔ أَلَمْ نَجْعَلِ الْأَرْضَ مِهاداً وَالْجِبالَ أَوْتاداً [ النبأ 6- 7] کیا ہم نے زمین کو بچھونا نہیں بنایا " ۔ اور پہاڑوں کو ( اس کی میخیں ) نہیں ٹھہرایا ؟- سبح - السَّبْحُ : المرّ السّريع في الماء، وفي الهواء، يقال : سَبَحَ سَبْحاً وسِبَاحَةً ، واستعیر لمرّ النجوم في الفلک نحو : وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ [ الأنبیاء 33] ، ولجري الفرس نحو : وَالسَّابِحاتِ سَبْحاً [ النازعات 3] ، ولسرعة الذّهاب في العمل نحو : إِنَّ لَكَ فِي النَّهارِ سَبْحاً طَوِيلًا[ المزمل 7] ، والتَّسْبِيحُ : تنزيه اللہ تعالی. وأصله : المرّ السّريع في عبادة اللہ تعالی، وجعل ذلک في فعل الخیر کما جعل الإبعاد في الشّرّ ، فقیل : أبعده الله، وجعل التَّسْبِيحُ عامّا في العبادات قولا کان، أو فعلا، أو نيّة، قال : فَلَوْلا أَنَّهُ كانَ مِنَ الْمُسَبِّحِينَ- [ الصافات 143] ،- ( س ب ح ) السبح - اس کے اصل منعی پانی یا ہوا میں تیز رفتار ری سے گزر جانے کے ہیں سبح ( ف ) سبحا وسباحۃ وہ تیز رفتاری سے چلا پھر استعارہ یہ لفظ فلک میں نجوم کی گردش اور تیز رفتاری کے لئے استعمال ہونے لگا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ [ الأنبیاء 33] سب ( اپنے اپنے ) فلک یعنی دوائر میں تیز ی کے ساتھ چل رہے ہیں ۔ اور گھوڑے کی تیز رفتار پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ وَالسَّابِحاتِ سَبْحاً [ النازعات 3] اور فرشتوں کی قسم جو آسمان و زمین کے درمیان ) تیر تے پھرتے ہیں ۔ اور کسی کام کو سرعت کے ساتھ کر گزرنے پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ إِنَّ لَكَ فِي النَّهارِ سَبْحاً طَوِيلًا[ المزمل 7] اور دن کے وقت کو تم بہت مشغول کا رہے ہو ۔ التسبیح کے معنی تنزیہ الہیٰ بیان کرنے کے ہیں اصل میں اس کے معنی عبادت الہی میں تیزی کرنا کے ہیں ۔۔۔۔۔۔ پھر اس کا استعمال ہر فعل خیر پر - ہونے لگا ہے جیسا کہ ابعاد کا لفظ شر پر بولا جاتا ہے کہا جاتا ہے ابعد اللہ خدا سے ہلاک کرے پس تسبیح کا لفظ قولی ۔ فعلی اور قلبی ہر قسم کی عبادت پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَلَوْلا أَنَّهُ كانَ مِنَ الْمُسَبِّحِينَ [ الصافات 143] قو اگر یونس (علیہ السلام) اس وقت ( خدا کی تسبیح ( و تقدیس کرنے والوں میں نہ ہوتے ۔ یہاں بعض نے مستحین کے معنی مصلین کئے ہیں لیکن انسب یہ ہے کہ اسے تینوں قسم کی عبادت پر محمول کیا جائے - عشا - العَشِيُّ من زوال الشمس إلى الصّباح . قال تعالی: إِلَّا عَشِيَّةً أَوْ ضُحاها[ النازعات 46] ، والعِشَاءُ : من صلاة المغرب إلى العتمة، والعِشَاءَانِ : المغرب والعتمة «1» ، والعَشَا : ظلمةٌ تعترض في العین، - ( ع ش ی ) العشی - زوال آفتاب سے لے کر طلوع فجر تک کا وقت قرآن میں ہے : ۔ إِلَّا عَشِيَّةً أَوْضُحاها[ النازعات 46] گویا ( دنیا میں صرف ایک شام یا صبح رہے تھے ۔- العشاء - ( ممدود ) مغرب سے عشا کے وقت تک اور مغرب اور عشا کی نمازوں کو العشاء ن کہا جاتا ہے اور العشا ( توندی تاریکی جو آنکھوں کے سامنے آجاتی ہے رجل اعثی جسے رتوندی کی بیمار ی ہو اس کی مؤنث عشراء آتی ہے ۔- شرق - شَرَقَتِ الشمس شُرُوقاً : طلعت، وقیل : لا أفعل ذلک ما ذرّ شَارِقٌ «1» ، وأَشْرَقَتْ : أضاءت . قال اللہ : بِالْعَشِيِّ وَالْإِشْراقِ [ ص 18] أي : وقت الإشراق .- والْمَشْرِقُ والمغرب إذا قيلا بالإفراد فإشارة إلى ناحیتي الشَّرْقِ والغرب، وإذا قيلا بلفظ التّثنية فإشارة إلى مطلعي ومغربي الشتاء والصّيف، وإذا قيلا بلفظ الجمع فاعتبار بمطلع کلّ يوم ومغربه، أو بمطلع کلّ فصل ومغربه، قال تعالی: رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ [ الشعراء 28] ، رَبُّ الْمَشْرِقَيْنِ وَرَبُّ الْمَغْرِبَيْنِ [ الرحمن 17] ، بِرَبِّ الْمَشارِقِ وَالْمَغارِبِ [ المعارج 40] ، وقوله تعالی: مَکاناً شَرْقِيًّا[ مریم 16] ، أي : من ناحية الشّرق . والْمِشْرَقَةُ «2» : المکان الذي يظهر للشّرق، وشَرَّقْتُ اللّحم : ألقیته في الْمِشْرَقَةِ ، والْمُشَرَّقُ : مصلّى العید لقیام الصلاة فيه عند شُرُوقِ الشمس، وشَرَقَتِ الشمس : اصفرّت للغروب، ومنه : أحمر شَارِقٌ: شدید الحمرة، وأَشْرَقَ الثّوب بالصّبغ، ولحم شَرَقٌ: أحمر لا دسم فيه .- ( ش ر ق )- شرقت ( ن ) شروقا ۔ الشمس آفتاب طلوع ہوا ۔ مثل مشہور ہے ( مثل ) الاافعل ذالک ماذر شارق واشرقت جب تک آفتاب طلوع ہوتا رہیگا میں یہ کام نہیں کروں گا ۔ یعنی کبھی بھی نہیں کروں گا ۔ قرآن میں ہے : بِالْعَشِيِّ وَالْإِشْراقِ [ ص 18] صبح اور شام یہاں اشراق سے مراد وقت اشراق ہے ۔ والْمَشْرِقُ والمغربجب مفرد ہوں تو ان سے شرقی اور غربی جہت مراد ہوتی ہے اور جب تثنیہ ہوں تو موسم سرما اور گرما کے دو مشرق اور دو مغرب مراد ہوتے ہیں اور جمع کا صیغہ ہو تو ہر روز کا مشرق اور مغرب مراد ہوتا ہے یا ہر موسم کا قرآن میں ہے : رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ [ الشعراء 28] وہی مشرق اور مغرب کا مالک ( ہے ) رَبُّ الْمَشْرِقَيْنِ وَرَبُّ الْمَغْرِبَيْنِ [ الرحمن 17] وہی دونوں مشرقوں اور دونوں مغربوں کا مالک ہے ۔ بِرَبِّ الْمَشارِقِ وَالْمَغارِبِ [ المعارج 40] اور مشرقوں کا رب ہے ۔ مَکاناً شَرْقِيًّا[ مریم 16] مشر ق کی طرف چلی گئی ِ ۔ المشرقۃ جاڑے کے زمانہ میں دھوپ میں بیٹھنے کی جگہ جہاں سورج طلوع ہونے کے ساتھ ہی دھوپ پڑتی ہو ۔ شرقت اللحم ۔ گوشت کے ٹکڑے کر کے دھوپ میں خشک کرنا ۔ المشرق عید گاہ کو کہتے ہیں کیونکہ وہاں طلوع شمس کے بعد نماز اد کی جاتی ہے ۔ شرقت الشمس آفتاب کا غروب کے وقت زردی مائل ہونا اسی سے احمر شارق کا محاورہ ہے جس کے معنی نہایت سرخ کے ہیں ۔ اشرق الثوب کپڑے کو خالص گہرے رنگ کے ساتھ رنگنا ۔ لحم شرق سرخ گوشت جس میں بالکل چربی نہ ہو ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

پہاڑوں کی تسبیح - قول باری ہے (انا سخرنا الجبال معہ۔ ہم نے پہاڑوں کو ان کا تابع فرمان بنادیا تھا) ایک قول کے مطابق اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں کو حضرت دائود (علیہ السلام) کے تابع فرمان اس طرح بنادیا تھا کہ یہ پہاڑ ان کے ساتھ چلتے تھے۔- پہاڑوں کے اس چلنے کو اللہ تعالیٰ نے ان کی تسبیح قرار دیا تھا کیونکہ اللہ کی تسبیح کا مفہوم یہ ہے کہ اس کی ذات کو ان تمام باتوں سے پاک رکھا جائے جو اس کے شایان شان نہیں ہیں۔ جب پہاڑوں کے چلنے کو اس بات کی نشانی قرار دیا گیا کہ وہ اللہ کی تنزیہ کرتے ہیں تو اسے اللہ کے لئے ان کی تسبیح کہا گیا۔- چاشت (اشراق) کی نمازحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کبھی پڑھی کبھی نہیں پڑھی - قول باری ہے (یسبحن بالعشی والاشراق (پہاڑ) صبح وشام تسبیح کیا کرتے تھے) معمر نے عطاء خرسانی سے روایت کی ہے اور انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے ان کا یہ قول نقل کیا ہے کہ ” میرے دل میں چاشت کی نماز کے متعلق ہمیشہ خلجان رہتا تھا یہاں تک کہ میں نے قول باری (انا سخرنا الجبال معہ یسبحن بالعشی والاشراق) کی تلاوت کی، اس آیت کی وجہ سے میرے دل کا خلجان دور ہوگیا۔- قاسم نے حضرت زید بن ارقم (رض) سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک مرتبہ اہل قبا کے پاس تشریف لے گئے۔ اس وقت وہ چاشت کی نماز میں مشغول تھے۔ آپ نے فرمایا (ان صلوۃ الاوابین اذارمضت الفصال من الضحیٰ ۔ اللہ کی طرف رجوع کرنے والوں کی نماز اس وقت ہوتی ہے جب اونٹنی یا گائے کے بچوں کے قدم چاشت کی گرمی کی بنا پر جل اٹھیں) ۔- شریک نے زید بن ابی زیاد سے، انہوں نے مجاہد سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے۔ انہوں نے کہا ” مجھے میری جگری دوست ( حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) نے تین باتوں کی وصیت فرمائی ہے، چاشت کی نماز کی، سونے سے پہلے وتر پڑھنے کی اور ہر ماہ تین روزے رکھنے کی۔ مجھے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نماز میں مرغے کی طرح ٹھونگیں مارنے اور لومڑی کی طرح دائیں بائیں دیکھنے اور کتے کی طرح بیٹھنے سے منع فرمایا ہے۔ “- عطیہ نے حضرت ابوسعید خدری (رض) سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسلسل چاشت کی نماز پڑھتے رہتے یہاں تک کہ یہ خیال ہوتا کہ شاید اب آپ یہ نماز نہیں چھوڑیں گے، پھر آپ اسے چھوڑ دیتے یہاں تک کہ یہ خیال پیدا ہوجاتا کہ شاید اب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ نماز کبھی نہیں پڑھیں گے۔- حضرت عائشہ (رض) اور حضرت ام ہانی (رض) سے روایت ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چاشت کی نماز پڑھی تھی۔ حضرت ابن عمر (رض) سے مروی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ نماز نہیں پڑھی تھی۔ حضرت ابن عمر (رض) کا قول ہے ” لوگوں نے جو جو نئی باتیں پیدا کی ہیں ان میں چاشت کی نماز میرے نزدیک سے سے زیادہ پسندیدہ ہے۔ “- ابن ابی ملیکہ نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ ان سے چاشت کی نماز کے متعلق جب پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ یہ نماز تو کتاب اللہ میں موجود ہے لیکن اس نماز تک صرف کسی غواص (غوطہ خور یعنی کتاب اللہ کے بحرز خار میں غوطہ لگانے والے) کو ہی رسائی ہوسکتی ہے۔ پھر انہوں نے آیت (فی بیوت آذن اللہ ان ترفع ویذکر فیھا اسمہ یسبح لہ فیھا بالغدو والا صال) کی تلاوت فرمائی۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٨۔ ١٩) ہم نے پہاڑوں کو حکم کر رکھا تھا کہ ان کے ساتھ صبح و شام تسبیح کریں اور اسی طرح پرندوں کو بھی حکم کر رکھا تھا جو کہ ان کے پاس جمع ہوجاتے تھے اور پہاڑوں اور پرندوں میں سے ہر ایک ذکر خداوندی میں مصروف رہتا تھا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٨ اِنَّاسَخَّرْنَا الْجِبَالَ مَعَہٗ یُسَبِّحْنَ بِالْعَشِیِّ وَالْاِشْرَاقِ ” ہم نے تو اس کے ساتھ پہاڑوں کو مسخر کردیا تھا ‘ جو اس کے ساتھ تسبیح کرتے تھے شام کو بھی اور صبح کے وقت بھی۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani