Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

صبح وشام کے بعض وظائف ۔ مشرکین کو جو نفرت توحید سے ہے اور جو محبت شرک سے ہے اسے بیان فرما کر اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اللہ تعالیٰ وحدہ لاشریک لہ فرماتا ہے کہ تو صرف اللہ تعالیٰ واحد کو ہی پکار جو آسمان و زمین کا خالق ہے اور اس وقت اس نے انہیں پیدا کیا ہے جبکہ نہ یہ کچھ تھے نہ ان کا کوئی نمونہ تھا ۔ وہ ظاہر و باطن چھپے کھلے کا عالم ہے ۔ یہ لوگ جو جو اختلافات اپنے آپس میں کرتے تھے سب کا فیصلہ اس دن ہو گا جب یہ قبروں سے نکلیں اور میدان قیامت میں آئیں گے ۔ حضرت ابو سلمہ بن عبدالرحمٰن رحمتہ اللہ علیہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے دریافت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تہجد کی نماز کو کس دعا سے شروع کرتے تھے؟ آپ فرماتے ہیں اس دعا سے ( ترجمہ ) یعنی اللہ اے جبرائیل ، میکائیل اور اسرافیل کے رب اے آسمان و زمین کو بےنمونے کے پیدا کرنے والے اسے حاضر و غائب کئے جانے والے تو ہی اپنے بندوں کے اختلاف کا فیصلہ کرنے والا ہے جس جس چیز میں اختلاف کیا گیا ہے تو مجھے ان سب میں اپنے فضل سے حق راہ دکھا تو جسے چاہے سیدھی راہ کی رہنمائی کرتا ہے ( مسلم ) حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جو بندہ اس دعا کو پڑھے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اپنے فرشتوں سے فرمائے گا کہ میرے اس بندے نے مجھ سے عہد لیا ہے اس عہد کو پورا کرو ۔ چنانچہ اسے جنت میں پہنچا دیا جائے گا ۔ وہ دعا یہ ہے ( ترجمہ ) یعنی اے اللہ اے آسمان و زمین کو بےنمونے کے پیدا کرنے والے اے غائب و حاضر کے جاننے والے میں اس دنیا میں تجھ سے عہد کرتا ہوں کہ میری گواہی ہے کہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں تو اکیلا ہے تیرا کوئی شریک نہیں اور میری یہ بھی شہادت ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم تیرے بندے اور تیرے رسول ہیں ۔ تو اگر مجھے میری ہی طرف سونپ دے گا تو میں برائی سے قریب اور بھلائی سے دور پڑ جاؤں گا ۔ اللہ مجھے صرف تیری رحمت ہی کا سہارا اور بھروسہ ہے پس تو بھی مجھ سے عہد کر جسے تو قیامت کے دن پورا کرے یقینا تو عہد شکن نہیں ۔ اس حدیث کے راوی سہیل فرماتے ہیں کہ میں نے قاسم بن عبدالرحمٰن سے جب کہا کہ عون اس طرح یہ حدیث بیان کرتے ہیں تو آپ نے فرمایا سبحان اللہ ہماری تو پردہ نشین بچیوں کو بھی یہ حدیث یاد ہے ( مسند احمد ) حضرت عبداللہ بن عمرو نے ایک کاغذ نکالا اور فرمایا کہ یہ دعا ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھائی ہے ( ترجمہ ) یعنی اے اللہ اے آسمان و زمین کو بےنمونہ پیدا کرنے والے چھپی کھلی کے جاننے والے تو ہر چیز کا رب ہے اور ہر چیز کا معبود ہے ۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں تو اکیلا ہے تیرا کوئی شریک نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم تیرے بندے اور تیرے رسول ہیں اور فرشتے بھی یہی گواہی دیتے ہیں ۔ میں شیطان سے اور اس کے شرک سے تیری پناہ میں آتا ہوں ۔ میں تجھ سے پناہ طلب کرتا ہوں کہ میں اپنی جان پر کوئی گناہ کروں یا کسی اور مسلمان کی طرف کسی گناہ کو لے جاؤں ۔ حضرت ابو عبدالرحمٰن رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں اس دعا کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن عمرو کو سکھایا تھا اسے سونے کے وقت پڑھا کرتے تھے ۔ ( مسند امام احمد ) اور روایت میں ہے کہ ابو راشد حبرانی نے کوئی حدیث سننے کی خواہش حضرت عبداللہ بن عمرو سے کی تو حضرت عبداللہ نے ایک کتاب نکال کر ان کے سامنے رکھ دی اور فرمایا یہ ہے جو مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لکھوائی ہے میں نے دیکھا تو اس میں لکھا ہوا تھا کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں صبح و شام کیا پڑھوں؟ آپ نے فرمایا یہ پڑھو ۔ ( اللھم فاطرالسموات والارض عالم الغیب والشھادۃ لا الہ الاانت رب کل شئی وملیکہ اعوذبک من شرنفسی وشرالشیطان وشرکہ او افترف علی نفسی سوء اور اجرہ الی مسلم ) ( ترمذی وغیرہ ) مسند احمد کی حدیث میں ہے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں مجھے اس دعا کے پڑھنے کا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح شام اور سوتے وقت حکم دیا ہے ، دوسری آیت میں ظالموں سے مراد مشرکین ہیں ۔ فرماتا ہے کہ اگر ان کے پاس روئے زمین کے خزانے اتنے ہی اور ہوں تو بھی یہ قیامت کے بدترین عذاب کے بدلے انہیں اپنے فدیئے میں اور اپنی جان کے بدلے میں دینے کے لئے تیار ہو جائیں گے ۔ لیکن اس دن کوئی فدیہ اور بدلہ قبول نہ کیا جائے گا گو زمین بھر کر سونا دیں جیسے کہ اور آیت میں بیان فرما دیا ہے ۔ آج اللہ کے وہ عذاب ان کے سامنے آئیں گے کہ کبھی انہیں ان کا خیال بھی نہ گذرا تھا جو جو حرام کاریاں بدکاریاں گناہ اور برائیاں انہوں نے دنیا میں کی تھیں اب سب کی سب اپنے آگے موجود پائیں گے دنیا میں جس سزا کا ذکر سن کر مذاق کرتے تھے آج وہ انہیں چاروں طرف سے گھیر لے گی ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

46۔ 1 حدیث میں آتا ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رات کو تہجد کی نماز کے آغاز میں یہ پڑھا کرتے تھے اللھم رب چبریل ومیکائیل واسرفیل فاطر السموات والارض عالم الغیب والشھادۃ انت تحکم بین عبادک فیما کانوا فیہ یختلفون اھدنی لما اختلف فیہ من الحق باذنک انک تھدی من تشاء الی صراط مستقیم۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٦٢] مشرکوں کو سمجھانے کے بعد دعا : یعنی جب اتنی موٹی موٹی باتوں میں بھی اختلاف اور جھگڑے ہونے لگیں۔ اللہ کے وقار اور اس کی عظمت کا احساس تک نہ رہے۔ اور ساری وفاداریاں اور نیاز مندیاں اللہ کے بجائے اللہ کے پیاروں کے لئے ہی وقف ہو کر رہ جائیں۔ تو اے اللہ اب تجھ سے فریاد ہے اور تیرا ہی حوصلہ ہے جو یہ سب کچھ برداشت کئے جاتا ہے۔ ایسے لوگوں کو مہلت دیئے جاتا ہے۔ اور ان کا فیصلہ قیامت کے دن پر ٹال رکھا ہے۔ جب کوئی شخص حق بات سننے کو تیار نہ ہو اور ناحق جھگڑا کرتا ہو تو ہر شخص کو یہ دعا پڑھنی چاہئے۔ جو اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر کو سکھائی ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

قُلِ اللّٰهُمَّ فَاطِرَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۔ : کفار کو توحید کی دعوت دیتے ہوئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو مشقتیں اٹھائیں اور ان کی ضد، عناد اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے آپ کو جو تکلیفیں پہنچیں اور توحید کے واضح دلائل کے سامنے لاجواب ہو کر بھی وہ جس طرح شرک پر ڈٹے رہے، اس پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دینے کے لیے حکم دیا گیا کہ آپ اللہ تعالیٰ سے دعا کریں اور سارا معاملہ اس کے سپرد کریں، کیونکہ وہی آسمان و زمین کو پیدا کرنے والا ہے، ہر چیز پر قادر ہے اور مخلوق کے تمام حاضر و غائب احوال کو جاننے والا ہے۔ اس لیے ان اسماء وصفات کے وسیلے سے اس سے دعا کریں کہ جب تیری توحید جیسی روشن اور واضح بات میں بھی جھگڑے ہونے لگے اور زمین و آسمان کو پیدا کرنے والے اور حاضر و غائب کو جاننے والے کا وقار بھی دلوں میں نہ رہا تو اب تجھی سے فریاد ہے، تو ہی ان جھگڑوں کا فیصلہ فرمائے گا۔ - 3 ابو سلمہ بن عبد الرحمن بیان کرتے ہیں کہ میں نے عائشہ (رض) سے پوچھا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رات قیام کرتے تو اپنی نماز کا افتتاح کس چیز سے کرتے تھے ؟ انھوں نے فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رات اٹھتے تو اپنی نماز کا افتتاح اس دعا سے کرتے : ( اَللّٰہُمَّ رَبَّ جِبْرَاءِیْلَ وَ مِیْکَاءِیْلَ وَ إِسْرَافِیْلَ فَاطِرَ السَّمَاوَاتِ وَ الْأَرْضِ عَالِمَ الْغَیْبِ وَ الشَّہَادَۃِ أَنْتَ تَحْکُمُ بَیْنَ عِبَادِکَ فِیْمَا کَانُوْا فِیْہِ یَخْتَلِفُوْنَ اہْدِنِيْ لِمَا اخْتُلِفَ فِیْہِ مِنَ الْحَقِّ بِإِذْنِکَ إِنَّکَ تَہْدِيْ مَنْ تَشَاءُ إِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ ) [ مسلم، صلاۃ المسافرین، باب صلاۃ النبي (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) و دعاۂ باللیل : ٧٧٠ ] ” اے اللہ اے جبرائیل، میکائیل اور اسرافیل کے رب اے آسمان و زمین کو پیدا کرنے والے اے حاضر و غائب کو جاننے والے تو ہی اپنے بندوں کے درمیان اس چیز کا فیصلہ کرے گا جس میں وہ اختلاف کیا کرتے تھے، مجھے حق کی ان تمام باتوں میں اپنے اذن سے سیدھی راہ پر لگا جن میں اختلاف کیا گیا ہے، کیونکہ تو ہی سیدھے راستے پر لگاتا ہے جسے چاہتا ہے۔ “- ابوراشد حبرانی کہتے ہیں، میں نے عبداللہ بن عمرو (رض) سے کہا کہ آپ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جو کچھ سنا ہے اس میں سے کچھ ہمیں بیان کریں تو انھوں نے میرے سامنے ایک کتاب نکال کر کہا، یہ ہے وہ کتاب جو مجھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لکھوائی ہے۔ میں نے دیکھا تو اس میں لکھا تھا کہ ابوبکر (رض) نے کہا : ” یا رسول اللہ آپ مجھے سکھائیں کہ میں صبح اور شام کو کیا پڑھوں ؟ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اے ابوبکر یہ پڑھو : ( اَللّٰہُمَّ فَاطِرَ السَّمٰوَاتِ وَ الْأَرْضِ عَالِمَ الْغَیْبِ وَ الشَّہَادَۃِ لَا إِلٰہَ إِلَّا أَنْتَ رَبَّ کُلِّ شَيْءٍ وَ مَلِیْکَہُ أَعُوْذُ بِکَ مِنْ شَرِّ نَفْسِيْ وَ مِنْ شَرِّ الشَّیْطَانِ وَ شِرْکِہِ وَ أَنْ أَقْتَرِفَ عَلٰی نَفْسِيْ سُوْءً ا أَوْ أَجُرَّہُ إِلٰی مُسْلِمٍ ) [ ترمذي، الدعوات، باب دعاء علمہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أبا بکر۔۔ : ٣٥٢٩، و قال الألباني صحیح ] ” اے اللہ اے آسمان و زمین کو پیدا کرنے والے، غائب و حاضر کو جاننے والے تیرے سوا کوئی معبود برحق نہیں، اے ہر چیز کے رب اور اس کے بادشاہ میں تجھ سے اپنے نفس کے شر سے اور شیطان کے شر اور اس کے شرک سے تیری پناہ مانگتا ہوں اور اس بات سے پناہ مانگتا ہوں کہ میں اپنے نفس پر کسی برائی کا ارتکاب کروں یا کسی مسلم کا برا کروں۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - آپ (ان کی شدت عناد سے محزون نہ ہو جئے اور اللہ سے دعا میں یہ) کہئے کہ اے اللہ آسمان اور زمین کے پیدا کرنے والے باطن اور ظاہر کے جاننے والے آپ ہی (قیامت کے روز) اپنے بندوں کے درمیان ان امور میں فیصلہ فرما دیں گے جن میں باہم وہ اختلاف کرتے تھے۔ (یعنی آپ ان معاندین کی فکر میں نہ پڑیئے، بلکہ ان کا معاملہ اللہ کے سپرد کیجئے وہ خود عملی فیصلہ کردیں گے) اور (اس فیصلہ کے وقت یہ حالت ہوگی) کہ اگر ظلم (یعنی شرک وکفر) کرنے والوں کے پاس دنیا بھر کی تمام چیزیں ہوں اور ان چیزوں کے ساتھ اتنی چیزیں اور بھی ہوں تو وہ لوگ قیامت کے دن سخت عذاب سے چھوٹ جانے کے لئے (بےتامل) ان کو دینے لگیں (گو مقبول نہ ہو کما فی المائدة (آیت) ماتقبل منھم) اور خدا کی طرف سے ان کو وہ معاملہ پیش آوے گا جس کا ان کو گمان بھی نہ تھا (کیونکہ اول تو آخرت کے منکر تھے پھر اس میں بھی اس کے مدعی تھے کہ وہاں بھی ان کو عزت و دولت ملے گی) اور (اس وقت) ان کو تمام اپنے برے اعمال ظاہر ہوجاویں گے اور جس (عذاب) کے ساتھ وہ استہزاء کیا کرتے تھے وہ ان کو آ گھیرے گا (یوں تو مشرک غیر اللہ کے ذکر سے مسرور اور صرف اللہ کے ذکر سے نفور رہتا ہے) پھر جس وقت (اس مشرک) آدمی کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو (جن کے ذکر سے مسرور ہوا کرتا تھا ان سب کو چھوڑ کر صرف) ہم کو پکارتا ہے (جس سے پہلے نفور تھا) پھر جب ہم اس کو اپنی طرف سے کوئی نعمت عطا فرما دیتے ہیں تو (اس توحید پر جس کا حق ہونا خود اس کے اقرار سے ثابت ہوچکا تھا قائم نہیں رہتا چناچہ اس نعمت کو حق تعالیٰ کی طرف منسوب نہیں کرتا بلکہ یوں) کہتا ہے کہ یہ تو مجھ کو (میری) تدبیر سے ملی ہے (اور چونکہ نسبت حق تعالیٰ کی طرف نہیں کرتا بلکہ اپنی تدبیر کا نتیجہ سمجھتا ہے اس لئے توحید پر قائم نہیں رہتا بلکہ اپنے قدیم طریقہ شرک کی طرف عود کر کے غیر اللہ کی عبادت میں لگ جاتا ہے۔ آگے حق تعالیٰ اس کے قول انما اوتیتہ کو رد فرماتے ہیں کہ نعمت اس کی تدبیر کا نتیجہ نہیں ہے) بلکہ وہ (نعمت خدا کی دی ہوئی اور اس کی طرف سے انسان کی) ایک آزمائش ہے (کہ دیکھیں اس کے ملنے پر ہم کو بھول جاتا ہے اور کفر کرتا ہے یا یاد رکھتا ہے اور شکر کرتا ہے اور اسی آزمائش کے لئے بعض نعمتوں میں اسباب و کسب کا واسطہ بھی رکھ دیا ہے۔ اس سے اور زیادہ آزمائش ہوگئی کہ دیکھیں اس ظاہری سبب پر نظر کرتا ہے یا علت حقیقیہ پر) لیکن اکثر لوگ (اس بات کو) سمجھتے نہیں (اس لئے اس کو اپنی تدبیر کا نتیجہ بتلاتے ہیں اور مبتلائے شرک رہتے ہیں آگے تفریح ہے کہ) یہ بات (بعض) ان لوگوں نے بھی کہی تھی جو ان سے پہلے ہو گزرے ہیں، جیسے قارون نے کہا تھا (آیت) انما اوتیتہ علیٰ علیم عندی یا جو لوگ منکر صانع کے ہو گزرے ہیں جیسے نمرود و فرعون۔ ظاہر ہے کہ وہ بھی کسی نعمت کی نسبت خدا کی طرف نہ کرتے تھے بلکہ غیر مکتسب اور غیر اختیاری میں بخت و اتفاق کی طرف اور مکتسب و اختیاری میں ہنر اور تدبیر کی طرف نسبت کرتے تھے) سو ان کی کارروائی ان کے کچھ کام نہ آئی (اور مانع عن العذاب نہ ہوئی) پھر (مانع نہ ہو سکنے کے بعد واقع للعذاب بھی نہ ہوئی بلکہ) ان کی تمام بد اعمالیاں ان پر آپڑیں (اور سزا یاب ہوئے) اور (زمانہ حال کے لوگ یہ خیال نہ کریں کہ کچھ ہونا تھا اگلوں کے ساتھ ہوچکا بلکہ) ان میں بھی جو ظالم ہیں ان پر بھی ان کی بد اعمالیاں ابھی پڑنے والی ہیں اور یہ (خدا تعالیٰ کو) ہرا نہیں سکتے (چنانچہ بدر میں خوب سزا ہوئی، آگے اس کی دلیل بیان فرمائی کہ بعضے احمق جو نعمت و رزق کو اپنی تدبیر کی طرف منسوب کرتے ہیں تو) کیا ان لوگوں کو (احوال میں غور کرنے سے) یہ معلوم نہیں ہوا کہ اللہ ہی جس کو چاہتا ہے زیادہ رزق دیتا ہے اور وہی (جس کے لئے چاہتا ہے) تنگی بھی کردیتا ہے (اس بسط و قدر) میں (غور کرنے سے) ایمان والوں کے واسطے (کہ اہل فہم ہوتے ہیں اس بات پر) نشانیاں (یعنی دلائل قائم) ہیں (کہ باسط و قابض وہی ہے تدبیر و سوء تدبیر اس میں علت حقیقیہ نہیں، پس ان دلائل کو جو شخص سمجھ لے گا وہ اپنی تدبیر کی طرف نسبت نہ کرے گا بلکہ خدا کے منعم ہونے سے ذہول نہ کرے گا جو سبب ہوگیا تھا ابتلا بالشرک کا بلکہ وہ موحد رہے گا اور مصیبت و راحت میں اس کا حال و قال متناقص و متعارض نہ ہوگا۔- معارف و مسائل - (آیت) قُلِ اللّٰهُمَّ فَاطِرَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ الایة۔ صحیح مسلم میں حضرت عبداللہ بن عوف سے روایت ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ میں نے صدیقہ عائشہ سے دریافت کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رات کی نماز (یعنی تہجد) کو کس چیز سے شروع فرماتے تھے تو انہوں نے فرمایا کہ آپ جب تہجد کی نماز کو اٹھتے تھے تو یہ دعا پڑھتے تھے۔- اللھم رب جبریل ومیکائیل واسرافیل، فاطرالسموات والارض علم الغیب والشھادۃ انت تحکم بین عبادک فیما کانوا فیہ یختلفون، اھدنی لما اختلف فیہ من الحق باذنک انک تھدی من تشاء الی صراط مستقیم۔- قبولیت دعا :- حضرت سعید بن جبیر فرماتے ہیں کہ مجھے قرآن کریم کی ایک ایسی آیت معلوم ہے کہ اس کو پڑھ کر آدمی جو دعا کرتا ہے قبول ہوتی ہے۔ پھر یہی آیت بتلائی :۔- (آیت) اللّٰهُمَّ فَاطِرَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ الآیة۔ (قرطبی)- مشاجرات صحابہ کے متعلق ایک اہم ہدایت :- حضرت ربیع ابن خیثم سے کسی نے حضرت حسین (رض) کی شہادت کے متعلق سوال کیا تو انہوں نے ایک آہ بھری اور اس آیت کی تلاوت فرمائی۔ (آیت) قُلِ اللّٰهُمَّ فَاطِرَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ عٰلِمَ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ اَنْتَ تَحْكُمُ بَيْنَ عِبَادِكَ آلایة۔ اور فرمایا کہ صحابہ کرام کے باہمی اختلافات کے متعلق جب تمہارے دل میں کوئی کھٹک پیدا ہو تو یہ آیت پڑھ لیا کرو۔ روح المعانی میں اس کو نقل کر کے فرمایا ہے کہ یہ عظیم الشان تعلیم ادب ہے جس کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

قُلِ اللّٰہُمَّ فَاطِرَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ عٰلِمَ الْغَيْبِ وَالشَّہَادَۃِ اَنْتَ تَحْكُمُ بَيْنَ عِبَادِكَ فِيْ مَا كَانُوْا فِيْہِ يَخْتَلِفُوْنَ۝ ٤٦- «اللهم»- قيل : معناه : يا الله، فأبدل من الیاء في أوله المیمان في آخره وخصّ بدعاء الله، وقیل : تقدیره : يا اللہ أمّنا بخیر مركّب تركيب حيّهلا .- فطر - أصل الفَطْرِ : الشّقُّ طولا،- وفِطْرَةُ اللہ : هي ما رکز فيه من قوّته علی معرفة الإيمان، وهو المشار إليه بقوله : وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ مَنْ خَلَقَهُمْ لَيَقُولُنَّ اللَّهُ [ الزخرف 87] ، وقال : الْحَمْدُ لِلَّهِ فاطِرِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ فاطر 1] - ( ف ط ر ) الفطر - ( ن ض ) اس کے اصل معنی کسی چیز کو ( پہلی مرتبہ ) طول میں پھاڑنے کے ہیں ۔ اسی سے فطرت ہے جس کے معنی تخلیق کے ہیں اور فطر اللہ الخلق کے معنی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کی تخلیق اسطرح کی ہے کہ اس میں کچھ کرنے کی استعداد موجود ہے پس آیت کریمہ ۔ الْحَمْدُ لِلَّهِ فاطِرِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ فاطر 1] سب تعریف خدا ہی کو سزا وار ہے جو آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے ۔ الَّذِي فَطَرَهُنَّ [ الأنبیاء 56] جس نے ان کو پیدا کیا - علم - العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته،- ( ع ل م ) العلم - کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا - غيب - الغَيْبُ : مصدر غَابَتِ الشّمسُ وغیرها : إذا استترت عن العین، يقال : غَابَ عنّي كذا . قال تعالی: أَمْ كانَ مِنَ الْغائِبِينَ [ النمل 20]- ( غ ی ب ) الغیب ( ض )- غابت الشمس وغیر ھا کا مصدر ہے جس کے معنی کسی چیز کے نگاہوں سے اوجھل ہوجانے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے ۔ غاب عنی کذا فلاں چیز میری نگاہ سے اوجھل ہوئی ۔ قرآن میں ہے : أَمْ كانَ مِنَ الْغائِبِينَ [ النمل 20] کیا کہیں غائب ہوگیا ہے ۔ اور ہر وہ چیز جو انسان کے علم اور جو اس سے پودشیدہ ہو اس پر غیب کا لفظ بولا جاتا ہے - شَّهَادَةُ- : قول صادر عن علم حصل بمشاهدة بصیرة أو بصر . وقوله : أَشَهِدُوا خَلْقَهُمْ [ الزخرف 19] ، يعني مُشَاهَدَةِ البصر ثم قال : سَتُكْتَبُ شَهادَتُهُمْ [ الزخرف 19] ، تنبيها أنّ الشّهادة تکون عن شُهُودٍ ، وقوله : لِمَ تَكْفُرُونَ بِآياتِ اللَّهِ وَأَنْتُمْ تَشْهَدُونَ [ آل عمران 70] ، أي : تعلمون، وقوله : ما أَشْهَدْتُهُمْ خَلْقَ السَّماواتِ [ الكهف 51] ، أي : ما جعلتهم ممّن اطّلعوا ببصیرتهم علی خلقها، وقوله : عالِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهادَةِ [ السجدة 6] ، أي : ما يغيب عن حواسّ الناس وبصائرهم وما يشهدونه بهما - الشھادۃ ۔ ( 1 ) وہ بات جو کامل علم ویقین سے کہی جائے خواہ وہ علم مشاہدہ بصر سے حاصل ہوا ہو یا بصیرت سے ۔ اور آیت کریمہ : أَشَهِدُوا خَلْقَهُمْ [ الزخرف 19] کیا یہ ان کی پیدائش کے وقت حاضر تھے ۔ میں مشاہدہ بصر مراد ہے اور پھر ستکتب شھادتھم ( عنقریب ان کی شھادت لکھ لی جائے گی ) سے اس بات پر تنبیہ کی ہے کہ شہادت میں حاضر ہونا ضروری ہوتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَأَنْتُمْ تَشْهَدُونَ [ آل عمران 70] اور تم اس بات پر گواہ ہو ۔ میں تشھدون کے معنی تعلمون کے ہیں یعنی تم اس بات کو یقین کے ساتھ جانتے ہو ۔ اور آیت کریمہ ۔ ما أَشْهَدْتُهُمْ خَلْقَ السَّماواتِ [ الكهف 51] میں نے نہ تو ان کو آسمان کے پیدا کرنے کے وقت بلایا تھا ۔ میں تنبیہ کی ہے کہ یہ اس لائق نہیں ہیں کہ اپنی بصیرت سے خلق آسمان پر مطع ہوجائیں اور آیت کریمہ : عالِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهادَةِ [ السجدة 6] پوشیدہ اور ظاہر کا جاننے والا ہے ۔ میں غالب سے وہ چیزیں مراد ہیں جن کا ادراک نہ تو ظاہری حواس سے ہوسکتا ہو اور نہ بصیرت سے اور شہادت سے مراد وہ اشیا ہیں جنہیں لوگ ظاہری آنکھوں سے دیکھتے ہیں ۔ - حكم - والحُكْم بالشیء : أن تقضي بأنّه كذا، أو ليس بکذا، سواء ألزمت ذلک غيره أو لم تلزمه، قال تعالی: وَإِذا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ [ النساء 58]- ( ح ک م ) حکم - الحکم کسی چیز کے متعلق فیصلہ کرنے کا نام حکم ہے یعنی وہ اس طرح ہے یا اس طرح نہیں ہے خواہ وہ فیصلہ دوسرے پر لازم کردیا جائے یا لازم نہ کیا جائے ۔ قرآں میں ہے :۔ وَإِذا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ [ النساء 58] اور جب لوگوں میں فیصلہ کرنے لگو تو انصاف سے فیصلہ کیا کرو ۔- بين - بَيْن موضوع للخلالة بين الشيئين ووسطهما . قال تعالی: وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف 32] ، يقال : بَانَ كذا أي : انفصل وظهر ما کان مستترا منه، ولمّا اعتبر فيه معنی الانفصال والظهور استعمل في كلّ واحد منفردا، فقیل للبئر البعیدة القعر : بَيُون، لبعد ما بين الشفیر والقعر لانفصال حبلها من يد صاحبها .- ( ب ی ن ) البین - کے معنی دو چیزوں کا درمیان اور وسط کے ہیں : ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف 32] اور ان کے درمیان کھیتی پیدا کردی تھی ۔ محاورہ ہے بان کذا کسی چیز کا الگ ہوجانا اور جو کچھ اس کے تحت پوشیدہ ہو ، اس کا ظاہر ہوجانا ۔ چونکہ اس میں ظہور اور انفصال کے معنی ملحوظ ہیں اس لئے یہ کبھی ظہور اور کبھی انفصال کے معنی میں استعمال ہوتا ہے - عبد - والعَبْدُ يقال علی أربعة أضرب :- الأوّل : عَبْدٌ بحکم الشّرع، وهو الإنسان الذي يصحّ بيعه وابتیاعه، نحو : الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ- [ البقرة 178] ، وعَبْداً مَمْلُوكاً لا يَقْدِرُ عَلى شَيْءٍ [ النحل 75] .- الثاني : عَبْدٌ بالإيجاد، وذلک ليس إلّا لله، وإيّاه قصد بقوله : إِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمنِ عَبْداً [ مریم 93] .- والثالث : عَبْدٌ بالعِبَادَةِ والخدمة،- والناس في هذا ضربان :- عبد لله مخلص، وهو المقصود بقوله : وَاذْكُرْ عَبْدَنا أَيُّوبَ [ ص 41] ، إِنَّهُ كانَ عَبْداً شَكُوراً [ الإسراء 3] ، نَزَّلَ الْفُرْقانَ عَلى عَبْدِهِ [ الفرقان 1] ، عَلى عَبْدِهِ الْكِتابَ [ الكهف 1] ، إِنَّ عِبادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطانٌ [ الحجر 42] ، كُونُوا عِباداً لِي[ آل عمران 79] ، إِلَّا عِبادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ [ الحجر 40] ، وَعَدَ الرَّحْمنُ عِبادَهُ بِالْغَيْبِ [ مریم 61] ، وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان 63] ، فَأَسْرِ بِعِبادِي لَيْلًا[ الدخان 23] ، فَوَجَدا عَبْداً مِنْ عِبادِنا[ الكهف 65] . وعَبْدٌ للدّنيا وأعراضها، وهو المعتکف علی خدمتها ومراعاتها، وإيّاه قصد النّبي عليه الصلاة والسلام بقوله : «تعس عَبْدُ الدّرهمِ ، تعس عَبْدُ الدّينار» وعلی هذا النحو يصحّ أن يقال : ليس كلّ إنسان عَبْداً لله، فإنّ العَبْدَ علی هذا بمعنی العَابِدِ ، لکن العَبْدَ أبلغ من العابِدِ ، والناس کلّهم عِبَادُ اللہ بل الأشياء کلّها كذلك، لکن بعضها بالتّسخیر وبعضها بالاختیار، وجمع العَبْدِ الذي هو مُسترَقٌّ: عَبِيدٌ ، وقیل : عِبِدَّى وجمع العَبْدِ الذي هو العَابِدُ عِبَادٌ ، فالعَبِيدُ إذا أضيف إلى اللہ أعمّ من العِبَادِ. ولهذا قال : وَما أَنَا بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ [ ق 29] ، فنبّه أنه لا يظلم من يختصّ بِعِبَادَتِهِ ومن انتسب إلى غيره من الّذين تسمّوا بِعَبْدِ الشمس وعَبْدِ اللّات ونحو ذلك . ويقال : طریق مُعَبَّدٌ ، أي : مذلّل بالوطء، وبعیر مُعَبَّدٌ: مذلّل بالقطران، وعَبَّدتُ فلاناً : إذا ذلّلته، وإذا اتّخذته عَبْداً. قال تعالی: أَنْ عَبَّدْتَ بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء 22] .- العبد بمعنی غلام کا لفظ چار معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔- ( 1 ) العبد بمعنی غلام یعنی وہ انسان جس کی خریدنا اور فروخت کرنا شرعا جائز ہو چناچہ آیات کریمہ : ۔ الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ [ البقرة 178] اور غلام کے بدلے غلام عَبْداً مَمْلُوكاً لا يَقْدِرُ عَلى شَيْءٍ [ النحل 75] ایک غلام ہے جو بالکل دوسرے کے اختیار میں ہے ۔ میں عبد کا لفظ اس معنی میں استعمال ہوا ہے - ( 2 ) العبد بالایجاد یعنی وہ بندے جسے اللہ نے پیدا کیا ہے اس معنی میں عبودیۃ اللہ کے ساتھ مختص ہے کسی دوسرے کی طرف نسبت کرنا جائز نہیں ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ إِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمنِ عَبْداً [ مریم 93] تمام شخص جو آسمان اور زمین میں ہیں خدا کے روبرو بندے ہوکر آئیں گے ۔ میں اسی معنی کی طرح اشارہ ہے ۔ - ( 3 ) عبد وہ ہے جو عبارت اور خدمت کی بدولت عبودیت کا درجہ حاصل کرلیتا ہے اس لحاظ سے جن پر عبد کا لفظ بولا گیا ہے - وہ دوقسم پر ہیں - ایک وہ جو اللہ تعالیٰ کے مخلص بندے بن جاتے ہیں چناچہ ایسے لوگوں کے متعلق فرمایا : ۔ وَاذْكُرْ عَبْدَنا أَيُّوبَ [ ص 41] اور ہمارے بندے ایوب کو یاد کرو ۔ إِنَّهُ كانَ عَبْداً شَكُوراً [ الإسراء 3] بیشک نوح (علیہ السلام) ہمارے شکر گزار بندے تھے نَزَّلَ الْفُرْقانَ عَلى عَبْدِهِ [ الفرقان 1] جس نے اپنے بندے پر قرآن پاک میں نازل فرمایا : ۔ عَلى عَبْدِهِ الْكِتابَ [ الكهف 1] جس نے اپنی بندے ( محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) پر یہ کتاب نازل کی ۔ إِنَّ عِبادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطانٌ [ الحجر 42] جو میرے مخلص بندے ہیں ان پر تیرا کچھ زور نہیں ۔ كُونُوا عِباداً لِي[ آل عمران 79] کہ میری بندے ہوجاؤ ۔ إِلَّا عِبادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ [ الحجر 40] ہاں ان میں جو تیرے مخلص بندے ہیں ۔ وَعَدَ الرَّحْمنُ عِبادَهُ بِالْغَيْبِ [ مریم 61] جس کا خدا نے اپنے بندوں سے وعدہ کیا ہے ۔ وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان 63] اور خدا کے بندے تو وہ ہیں جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں فَأَسْرِ بِعِبادِي لَيْلًا[ الدخان 23] ہمارے بندوں کو راتوں رات نکال لے جاؤ ۔ فَوَجَدا عَبْداً مِنْ عِبادِنا[ الكهف 65]( وہاں ) انہوں نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندہ دیکھا ۔- ( 2 ) دوسرے اس کی پر ستش میں لگے رہتے ہیں ۔ اور اسی کی طرف مائل رہتے ہیں چناچہ ایسے لوگوں کے متعلق ہی آنحضرت نے فرمایا ہے تعس عبد الدرھم تعس عبد الدینا ر ) درہم دینار کا بندہ ہلاک ہو ) عبد کے ان معانی کے پیش نظر یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ہر انسان اللہ کا بندہ نہیں ہے یعنی بندہ مخلص نہیں ہے لہذا یہاں عبد کے معنی عابد یعنی عبادت گزار کے ہیں لیکن عبد عابد سے زیادہ بلیغ ہے اور یہ بھی کہہ سکتے ہیں : ۔ کہ تمام لوگ اللہ کے ہیں یعنی اللہ ہی نے سب کو پیدا کیا ہے بلکہ تمام اشیاء کا یہی حکم ہے ۔ بعض بعض عبد بالتسخیر ہیں اور بعض عبد بالا اختیار اور جب عبد کا لفظ غلام کے معنی میں استعمال ہو تو اس کی جمع عبید یا عبد آتی ہے اور جب عبد بمعنی عابد یعنی عبادت گزار کے ہو تو اس کی جمع عباد آئے گی لہذا جب عبید کی اضافت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو یہ عباد سے زیادہ عام ہوگا یہی وجہ ہے کہ آیت : وَما أَنَا بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ [ ق 29] اور ہم بندوں پر ظلم نہیں کیا کرتے میں عبید سے ظلم کی نفی کر کے تنبیہ کی ہے وہ کسی بندے پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتا خواہ وہ خدا کی پرستش کرتا ہو اور خواہ عبدالشمس یا عبد اللات ہونے کا مدعی ہو ۔ ہموار راستہ ہموار راستہ جس پر لوگ آسانی سے چل سکیں ۔ بعیر معبد جس پر تار کول مل کر اسے خوب بد صورت کردیا گیا ہو عبدت فلان میں نے اسے مطیع کرلیا محکوم بنالیا قرآن میں ہے : ۔ أَنْ عَبَّدْتَ بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء 22] کہ تم نے بنی اسرائیل کو محکوم بنا رکھا ہے ۔- الاختلافُ والمخالفة- والاختلافُ والمخالفة : أن يأخذ کلّ واحد طریقا غير طریق الآخر في حاله أو قوله، والخِلَاف أعمّ من الضّدّ ، لأنّ كلّ ضدّين مختلفان، ولیس کلّ مختلفین ضدّين، ولمّا کان الاختلاف بين النّاس في القول قد يقتضي التّنازع استعیر ذلک للمنازعة والمجادلة، قال :- فَاخْتَلَفَ الْأَحْزابُ [ مریم 37] - ( خ ل ف ) الاختلاف والمخالفۃ - الاختلاف والمخالفۃ کے معنی کسی حالت یا قول میں ایک دوسرے کے خلاف کا لفظ ان دونوں سے اعم ہے کیونکہ ضدین کا مختلف ہونا تو ضروری ہوتا ہے مگر مختلفین کا ضدین ہونا ضروری نہیں ہوتا ۔ پھر لوگوں کا باہم کسی بات میں اختلاف کرنا عموما نزاع کا سبب بنتا ہے ۔ اس لئے استعارۃ اختلاف کا لفظ نزاع اور جدال کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَاخْتَلَفَ الْأَحْزابُ [ مریم 37] پھر کتنے فرقے پھٹ گئے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

آپ اس طرح دعا فرمایے اے اللہ ہمارے ساتھ بھلائی فرمایئے اے آسمان و زمین کے پیدا کرنے والے اے ظاہر و باطن کے جاننے والے تو ہی قیامت کے دن اپنے بندوں کے درمیان دین کی ان باتوں کا فیصلہ فرمائے گا جن میں وہ باہم اختلاف کرتے تھے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٤٦ قُلِ اللّٰہُمَّ فَاطِرَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ عٰلِمَ الْغَیْبِ وَالشَّہَادَۃِ ” آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہیے : اے اللہ آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے والے غائب اور حاضر کے جاننے والے “- اَنْتَ تَحْکُمُ بَیْنَ عِبَادِکَ فِیْ مَا کَانُوْا فِیْہِ یَخْتَلِفُوْنَ ” یقینا تو ُ فیصلہ کرے گا اپنے بندوں کے مابین ان تمام چیزوں میں جن میں وہ اختلاف کرتے رہے ہیں۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani