47۔ 1 لیکن پھر بھی وہ قبول نہیں ہوگا جیسا کہ دوسرے مقام پر وضاحت ہے (فَلَنْ يُّقْبَلَ مِنْهُ ۚ وَھُوَ فِي الْاٰخِرَةِ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ ) 3 ۔ ال عمران :85) وہ زمین بھر سونا بھی بدلے میں دے دیں، تو وہ قبول نہیں کیا جائے گا۔ اس لیے کہ ولا یوخذ منہا عدل وہاں معاوضہ قبول نہیں کیا جائے گا۔ 47۔ 1 یعنی عذاب کی شدت اور اس کی ہولناکیاں اور اس کی انواع واقسام ایسی ہوں گی کہ کبھی ان کے گمان میں نہ آئی ہوں گی۔
[٦٣] شرک کا فدیہ : اس آیت میں ظالموں سے مرادیہی مشرک ہیں۔ جو اللہ تعالیٰ کی صفات دوسروں میں بانٹتے پھرتے ہیں۔ پھر ایسی من گھڑت باتوں کا خوب پروپیگنڈا کرتے ہیں۔ اللہ اکیلے کی توحید بیان کی جائے تو سمجھتے ہیں کہ یہ درپردہ ہمارے اولیاء کی توہین کی جارہی ہے ایسے لوگوں کا قیامت کے دن یہ حشر ہوگا کہ اگر زمین و آسمان کے سب خزانے ان کے قبضہ میں ہوں تو وہ بھی چاہیں گے کر یہ سب کچھ دے دلا کر اس عذاب سے چھٹکارا حاصل کرلیں جو ان کے ان گناہوں کے سلسلہ میں ان کو لاحق ہوگا۔ لیکن یہ صورت بھی ناممکن ہوگی اور انہیں اپنے گناہوں کی سزا بھگتنا ہی پڑے گی۔
وَلَوْ اَنَّ لِلَّذِيْنَ ظَلَمُوْا ۔۔ : ظلم کرنے والوں سے مراد مشرک ہیں، انھی کا ذکر مسلسل آ رہا ہے۔ مشرکین کے اقوال و احوال کا ذکر اور ان کا رد کرنے کے بعد ان کا انجام بیان فرمایا کہ آخرت کے دن اگر ان کے پاس وہ سب کچھ ہو جو زمین میں ہے اور اس کے ساتھ اتنا اور بھی ہو تو قیامت کے دن کے برے عذاب سے بچنے کے لیے اسے ضرور ہی فدیے میں دے دیں گے اور ان کی خواہش ہوگی کہ یہ سب کچھ دے کر ان کی جان عذاب سے بچ جائے۔ (دیکھیے یونس : ٥٤) مگر ان کی یہ خواہش کبھی پوری نہیں ہوگی۔ دیکھیے سورة بقرہ (٤٨ اور ١٢٣) ، آل عمران (٩١) ، مائدہ (٣٦، ٣٧) ، انعام (٧٠) ، رعد (١٨) اور سورة حدید (١٥) ۔- وَبَدَا لَهُمْ مِّنَ اللّٰهِ ۔۔ : یعنی جس طرح جنت والوں کو وہ نعمتیں ملیں گی جو نہ کسی آنکھ نے دیکھیں، نہ کسی کان نے سنیں اور نہ کسی آدمی کے دل میں ان کا خیال آیا (دیکھیے سجدہ : ١٧) ایسے ہی کفار کے سامنے اللہ کی طرف سے ایسے ایسے عذاب آئیں گے جن کا وہ گمان بھی نہ کرتے تھے۔ ایک تفسیر یہ بھی ہے کہ وہ قیامت کے دن اپنے متعلق جو جھوٹی امیدیں رکھے ہوئے تھے اور اپنے حاجت رواؤں اور مشکل کشاؤں کی دستگیری کے متعلق ان کے جو گمان تھے اس دن ان کے سامنے اللہ کی طرف سے اس کے برعکس وہ کچھ پیش آئے گا جس کا وہ گمان بھی نہیں کرتے تھے اور جن اعمال کو وہ نیکیاں سمجھتے تھے وہ برائیوں کی صورت میں ان کے سامنے ظاہر ہوں گے۔ سفیان ثوری سے مروی ہے کہ انھوں نے یہ آیت پڑھی اور فرمایا : ” وَیْلٌ لِأَھْلِ الرِّیَاءِ ، وَیْلٌ لِأَھْلِ الرِّیَاءِ “ ” دکھاوے والوں کے لیے ہلاکت ہے، دکھاوے والوں کے لیے ہلاکت ہے۔ “ (الوسیط) کیونکہ قیامت کے دن انھیں امید کے برعکس معاملہ پیش آئے گا، جیسا کہ ریا کار عالم، شہید اور سخی والی حدیث میں مذکور ہے۔
(آیت) وَبَدَا لَهُمْ مِّنَ اللّٰهِ مَا لَمْ يَكُوْنُوْا يَحْتَسِبُوْنَ ۔ حضرت سفیان ثوری نے اس آیت کو پڑھ کر فرمایا کہ ہلاکت ہے ریاکاروں کے لئے، ہلاکت ہے ریاکاروں کے لئے۔ یہ آیت انہیں سے متعلق ہے جو دنیا میں نیک کام لوگوں کو دکھانے کے لئے کرتے تھے۔ اور لوگ بھی ان کو نیک سمجھتے تھے وہ خود بھی اس دھوکہ میں تھے کہ یہ اعمال ان کے لئے نجات آخرت کا ذریعہ بنیں گے۔ مگر چونکہ ان میں اخلاص نہیں تھا اس لئے اللہ کے نزدیک ایسے نیک اعمال کا کوئی اجر وثواب نہیں، اس لئے وہاں اچانک ان کے گمان کے خلاف عذاب و عتاب ہونے لگے گا۔ (قرطبی)
وَلَوْ اَنَّ لِلَّذِيْنَ ظَلَمُوْا مَا فِي الْاَرْضِ جَمِيْعًا وَّمِثْلَہٗ مَعَہٗ لَافْتَدَوْا بِہٖ مِنْ سُوْۗءِ الْعَذَابِ يَوْمَ الْقِيٰمَۃِ ٠ ۭ وَبَدَا لَہُمْ مِّنَ اللہِ مَالَمْ يَكُوْنُوْا يَحْتَسِبُوْنَ ٤٧- لو - لَوْ : قيل : هو لامتناع الشیء لامتناع غيره، ويتضمّن معنی الشرط نحو : قوله تعالی: قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ [ الإسراء 100] .- ( لو ) لو ( حرف ) بعض نے کہا ہے کہ یہ امتناع الشئی لا متناع غیر ہ کے لئے آتا ہے ( یعنی ایک چیز کا دوسری کے امتناع کے سبب ناممکن ہونا اور معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ [ الإسراء 100] کہہ دو کہ اگر میرے پروردگار کی رحمت کے خزانے تمہارے ہاتھ میں ہوتے ۔ - ظلم - وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه،- قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ:- الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی،- وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] - والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس،- وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری 42] - والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه،- وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] ،- ( ظ ل م ) ۔- الظلم - اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر - بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے - (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی کسب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا - :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ - (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے - ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔- ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے - ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں - أرض - الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن «4» ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . - ( ا رض ) الارض - ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ - مثل - والمَثَلُ عبارة عن قول في شيء يشبه قولا في شيء آخر بينهما مشابهة، ليبيّن أحدهما الآخر ويصوّره . فقال : وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر 21] ، وفي أخری: وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت 43] .- ( م ث ل ) مثل ( ک )- المثل کے معنی ہیں ایسی بات کے جو کسی دوسری بات سے ملتی جلتی ہو ۔ اور ان میں سے کسی ایک کے ذریعہ دوسری کا مطلب واضح ہوجاتا ہو ۔ اور معاملہ کی شکل سامنے آجاتی ہو ۔ مثلا عین ضرورت پر کسی چیز کو کھودینے کے لئے الصیف ضیعت اللبن کا محاورہ وہ ضرب المثل ہے ۔ چناچہ قرآن میں امثال بیان کرنے کی غرض بیان کرتے ہوئے فرمایا : ۔ وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر 21] اور یہ مثالیں ہم لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں تاکہ وہ فکر نہ کریں ۔- فدی - الفِدَى والفِدَاءُ : حفظ الإنسان عن النّائبة بما يبذله عنه، قال تعالی: فَإِمَّا مَنًّا بَعْدُ وَإِمَّا فِداءً- [ محمد 4] ، يقال : فَدَيْتُهُ بمال، وفدیته بنفسي، وفَادَيْتُهُ بکذا، قال تعالی: إِنْ يَأْتُوكُمْ أُساری تُفادُوهُمْ [ البقرة 85] ، وتَفَادَى فلان من فلان، أي : تحامی من شيء بذله . وقال :- وَفَدَيْناهُ بِذِبْحٍ عَظِيمٍ [ الصافات 107] ، وافْتَدى: إذا بذل ذلک عن نفسه، قال تعالی:- فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ [ البقرة 229] ، وَإِنْ يَأْتُوكُمْ أُساری تُفادُوهُمْ [ البقرة 85] ، والمُفَادَاةُ : هو أن يردّ أسر العدی ويسترجع منهم من في أيديهم، قال : وَمِثْلَهُ مَعَهُ لَافْتَدَوْا بِهِ [ الرعد 18] ، لَافْتَدَتْ بِهِ [يونس 54] ، ولِيَفْتَدُوا بِهِ [ المائدة 36] ، وَلَوِ افْتَدى بِهِ [ آل عمران 91] ، لَوْ يَفْتَدِي مِنْ عَذابِ يَوْمِئِذٍ بِبَنِيهِ [ المعارج 11] ، وما يقي به الإنسان نفسه من مال يبذله في عبادة قصّر فيها يقال له : فِدْيَةٌ ، ككفّارة الیمین، وكفّارة الصّوم .- نحو قوله : فَفِدْيَةٌ مِنْ صِيامٍ أَوْ صَدَقَةٍ [ البقرة 196] ، فِدْيَةٌ طَعامُ مِسْكِينٍ [ البقرة 184]- ( ف د ی ) الفدٰی والفداء - کے معنی کسی کی جانب سے کچھ دیگر اسے مصیبت سے بچالینا کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ فَإِمَّا مَنًّا بَعْدُ وَإِمَّا فِداءً [ محمد 4] پھر اس کے بعد یا تو احسان رکھ کر چھوڑ دینا چاہئے ۔ یا کچھ مال لے لر ۔ چناچہ محاورہ فدیتہ بمال میں نے کچھ خرچ کر کے اسے مسیبت سے بچالیا فدیتہ منفسی میں نے اپنی جان کے عوض اسے چھڑالیا فاواہُ بکذا ۔ اس نے کچھ دے کت اسے چھڑا لیا قرآن میں ہے ۔ إِنْ يَأْتُوكُمْ أُساری تُفادُوهُمْ [ البقرة 85] اور اگر وہ تمہارے پاس قید ہوکر آئیں تو بدلہ دے کر انہیں چھڑا بھی لیتے ہو ۔ تفادیٰ فلان من فلان کسی کا فدیہ دے کر اس کو چھڑالینا ۔ وَفَدَيْناهُ بِذِبْحٍ عَظِيمٍ [ الصافات 107] اور ہم نے ایک بڑی قربانی کو ان کا فدیہ دیا ۔ افتدیٰ کے معنی خواہ اپنے کو مال کے عوض چھڑانے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ [ البقرة 229] رہائی پانے کے بدلے میں وَمِثْلَهُ مَعَهُ لَافْتَدَوْا بِهِ [ الرعد 18]( تو وہ سب کے سب ) اور ان کے ساتھ ہی اتنے اور ( نجات کے ) بدلے میں صرف کر ڈالیں ۔ لَافْتَدَتْ بِهِ [يونس 54] تو ( عذاب سے بچنے کے لئے ( سب ) دے ڈالے ۔ ولِيَفْتَدُوا بِهِ [ المائدة 36] تاکہ بدلہ دیں۔ وَلَوِ افْتَدى بِهِ [ آل عمران 91] اگر بدلے میں دیں لَوْ يَفْتَدِي مِنْ عَذابِ يَوْمِئِذٍ بِبَنِيهِ [ المعارج 11] کہ کسی طرح اس دن کے عذاب کے بدلے میں ( سب کچھادے ڈالے یعنی بیٹے اور جو مال کسی عبادت میں کوتاہی کرنے کی وجہ سے - خرچ کر کے انسان خود اپنے کو گناہ سے بچاتا ہے اسے بھی فدیتہ کہا جاتا ہے جیسا کہ کفار یمین اور صوم کے متعلق فرمایا ۔ فَفِدْيَةٌ مِنْ صِيامٍ أَوْ صَدَقَةٍ [ البقرة 196] تو اس کے بدلے روزے رکھے یا صدقے دے یا قربانی کرے ۔ فِدْيَةٌ طَعامُ مِسْكِينٍ [ البقرة 184] روزے کے بدلے محتاج کو کھانا کھلادیں ۔- ساء - ويقال : سَاءَنِي كذا، وسُؤْتَنِي، وأَسَأْتَ إلى فلان، قال : سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک 27] ، وقال : لِيَسُوؤُا وُجُوهَكُمْ [ الإسراء 7] ، مَنْ يَعْمَلْ سُوءاً يُجْزَ بِهِ [ النساء 123] ، أي : قبیحا، وکذا قوله : زُيِّنَ لَهُمْ سُوءُ أَعْمالِهِمْ [ التوبة 37] ، عَلَيْهِمْ دائِرَةُ السَّوْءِ [ الفتح 6] ، أي : ما يسوء هم في العاقبة، وکذا قوله : وَساءَتْ مَصِيراً [ النساء 97] ، وساءَتْ مُسْتَقَرًّا [ الفرقان 66] ، وأما قوله تعالی: فَإِذا نَزَلَ بِساحَتِهِمْ فَساءَ صَباحُ الْمُنْذَرِينَ [ الصافات 177] ، وساءَ ما يَعْمَلُونَ [ المائدة 66] ، ساءَ مَثَلًا[ الأعراف 177] ، فساء هاهنا تجري مجری بئس، وقال : وَيَبْسُطُوا إِلَيْكُمْ أَيْدِيَهُمْ وَأَلْسِنَتَهُمْ بِالسُّوءِ [ الممتحنة 2] ، وقوله : سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک 27] ، نسب ذلک إلى الوجه من حيث إنه يبدو في الوجه أثر السّرور والغمّ ، وقال :- سِيءَ بِهِمْ وَضاقَ بِهِمْ ذَرْعاً [هود 77] : حلّ بهم ما يسوء هم، وقال : سُوءُ الْحِسابِ [ الرعد 21] ، وَلَهُمْ سُوءُ الدَّارِ [ الرعد 25] ، وكنّي عن الْفَرْجِ بِالسَّوْأَةِ «1» . قال : كَيْفَ يُوارِي سَوْأَةَ أَخِيهِ [ المائدة 31] ، فَأُوارِيَ سَوْأَةَ أَخِي [ المائدة 31] ، يُوارِي سَوْآتِكُمْ [ الأعراف 26] ، بَدَتْ لَهُما سَوْآتُهُما [ الأعراف 22] ، لِيُبْدِيَ لَهُما ما وُورِيَ عَنْهُما مِنْ سَوْآتِهِما - [ الأعراف 20] .- ساء - اور ساءنی کذا وسؤتنی کہاجاتا ہے ۔ اور اسات الی ٰ فلان ( بصلہ الی ٰ ) بولتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک 27] تو کافروں کے منہ برے ہوجائیں گے ۔ لِيَسُوؤُا وُجُوهَكُمْ [ الإسراء 7] تاکہ تمہارے چہروں کو بگاڑیں ۔ اور آیت :، مَنْ يَعْمَلْ سُوءاً يُجْزَ بِهِ [ النساء 123] جو شخص برے عمل کرے گا اسے اسی ( طرح ) کا بدلہ دیا جائیگا ۔ میں سوء سے اعمال قبیحہ مراد ہیں ۔ اسی طرح آیت : زُيِّنَ لَهُمْ سُوءُ أَعْمالِهِمْ [ التوبة 37] ان کے برے اعمال ان کو بھلے دکھائی دیتے ہیں ۔ میں بھی یہی معنی مراد ہیں اور آیت : عَلَيْهِمْ دائِرَةُ السَّوْءِ [ الفتح 6] انہیں پر بری مصیبت ( واقع ) ہو ۔ میں دائرۃ السوء سے مراد ہر وہ چیز ہوسکتی ہے ۔ جو انجام کا رغم کا موجب ہو اور آیت : وَساءَتْ مَصِيراً [ النساء 97] اور وہ بری جگہ ہے ۔ وساءَتْ مُسْتَقَرًّا [ الفرقان 66]( دوزخ ) ٹھہرنے کی بری جگہ ہے ۔ میں بھی یہی معنی مراد ہے ۔ اور کبھی ساء بئس کے قائم مقام ہوتا ہے ۔ یعنی معنی ذم کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : فَإِذا نَزَلَ بِساحَتِهِمْ فَساءَ صَباحُ الْمُنْذَرِينَ [ الصافات 177] مگر جب وہ ان کے مکان میں اتریگا تو جن کو ڈرسنایا گیا تھا ان کے لئے برادن ہوگا ۔ وساءَ ما يَعْمَلُونَ [ المائدة 66] ان کے عمل برے ہیں ۔ ساءَ مَثَلًا[ الأعراف 177] مثال بری ہے ۔ اور آیت :۔ سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک 27] ( تو) کافروں کے منہ برے ہوجائیں گے ۔ میں سیئت کی نسبت وجوہ کی طرف کی گئی ہے کیونکہ حزن و سرور کا اثر ہمیشہ چہرے پر ظاہر ہوتا ہے اور آیت : سِيءَ بِهِمْ وَضاقَ بِهِمْ ذَرْعاً [هود 77] تو وہ ( ان کے آنے سے ) غم ناک اور تنگدل ہوئے ۔ یعنی ان مہمانوں کو وہ حالات پیش آئے جن کی وجہ سے اسے صدمہ لاحق ہوا ۔ اور فرمایا : سُوءُ الْحِسابِ [ الرعد 21] ایسے لوگوں کا حساب بھی برا ہوگا ۔ وَلَهُمْ سُوءُ الدَّارِ [ الرعد 25] اور ان کیلئے گھر بھی برا ہے ۔ اور کنایہ کے طور پر سوء کا لفظ عورت یا مرد کی شرمگاہ پر بھی بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : كَيْفَ يُوارِي سَوْأَةَ أَخِيهِ [ المائدة 31] اپنے بھائی کی لاش کو کیونکہ چھپائے ۔ فَأُوارِيَ سَوْأَةَ أَخِي [ المائدة 31] کہ اپنے بھائی کی لاش چھپا دیتا ۔ يُوارِي سَوْآتِكُمْ [ الأعراف 26] کہ تمہار ستر ڈھانکے ، بَدَتْ لَهُما سَوْآتُهُما [ الأعراف 22] تو ان کے ستر کی چیزیں کھل گئیں ۔ لِيُبْدِيَ لَهُما ما وُورِيَ عَنْهُما مِنْ سَوْآتِهِما[ الأعراف 20] تاکہ ان کے ستر کی چیزیں جو ان سے پوشیدہ تھیں ۔ کھول دے ۔ - عذب - والعَذَابُ : هو الإيجاع الشّديد، وقد عَذَّبَهُ تَعْذِيباً : أكثر حبسه في - العَذَابِ. قال : لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل 21]- واختلف في أصله، فقال بعضهم : هو من قولهم : عَذَبَ الرّجلُ : إذا ترک المأكل والنّوم فهو عَاذِبٌ وعَذُوبٌ ، فَالتَّعْذِيبُ في الأصل هو حمل الإنسان أن يُعَذَّبَ ، أي : يجوع ويسهر،- ( ع ذ ب )- العذاب - سخت تکلیف دینا عذبہ تعذیبا اسے عرصہ دراز تک عذاب میں مبتلا رکھا ۔ قرآن میں ہے ۔ لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل 21] میں اسے سخت عذاب دوں گا ۔ - لفظ عذاب کی اصل میں اختلاف پا یا جاتا ہے - ۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ عذب ( ض ) الرجل کے محاورہ سے مشتق ہے یعنی اس نے ( پیاس کی شدت کی وجہ سے ) کھانا اور نیند چھوڑدی اور جو شخص اس طرح کھانا اور سونا چھوڑ دیتا ہے اسے عاذب وعذوب کہا جاتا ہے لہذا تعذیب کے اصل معنی ہیں کسی کو بھوکا اور بیدار رہنے پر اکسانا - قِيامَةُ- والقِيامَةُ : عبارة عن قيام الساعة المذکور في قوله : وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ- [ الروم 12] ، يَوْمَ يَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ المطففین 6] ، وَما أَظُنُّ السَّاعَةَ قائِمَةً [ الكهف 36] ، والْقِيَامَةُ أصلها ما يكون من الإنسان من القیام دُفْعَةً واحدة، أدخل فيها الهاء تنبيها علی وقوعها دُفْعَة، والمَقامُ يكون مصدرا، واسم مکان القیام، وزمانه . نحو : إِنْ كانَ كَبُرَ عَلَيْكُمْ مَقامِي وَتَذْكِيرِي [يونس 71] ،- القیامتہ - سے مراد وہ ساعت ( گھڑی ) ہے جس کا ذکر کہ وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ [ الروم 12] اور جس روز قیامت برپا ہوگی ۔ يَوْمَ يَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ المطففین 6] جس دن لوگ رب العلمین کے سامنے کھڑے ہوں گے ۔ وَما أَظُنُّ السَّاعَةَ قائِمَةً [ الكهف 36] اور نہ خیال کرتا ہوں کہ قیامت برپا ہو۔ وغیرہ آیات میں پایاجاتا ہے ۔ اصل میں قیامتہ کے معنی انسان یکبارگی قیام یعنی کھڑا ہونے کے ہیں اور قیامت کے یکبارگی وقوع پذیر ہونے پر تنبیہ کرنے کے لئے لفظ قیام کے آخر میں ھاء ( ۃ ) کا اضافہ کیا گیا ہے ۔ المقام یہ قیام سے کبھی بطور مصدر میمی اور کبھی بطور ظرف مکان اور ظرف زمان کے استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ كانَ كَبُرَ عَلَيْكُمْ مَقامِي وَتَذْكِيرِي [يونس 71] اگر تم کو میرا رہنا اور ۔ نصیحت کرنا ناگوار ہو ۔- بدا - بَدَا الشیء بُدُوّاً وبَدَاءً أي : ظهر ظهورا بيّنا، قال اللہ تعالی: وَبَدا لَهُمْ مِنَ اللَّهِ ما لَمْ يَكُونُوا يَحْتَسِبُونَ [ الزمر 47] - ( ب د و ) بدا - ( ن ) الشئ یدوا وبداء کے معنی نمایاں طور پر ظاہر ہوجانا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ وَبَدا لَهُمْ مِنَ اللَّهِ ما لَمْ يَكُونُوا يَحْتَسِبُونَ [ الزمر 47] اور ان کیطرف سے وہ امر ظاہر ہوجائے گا جس کا ان کو خیال بھی نہ تھا ۔ - حسب ( گمان)- والحِسبةُ : فعل ما يحتسب به عند اللہ تعالی. الم أَحَسِبَ النَّاسُ [ العنکبوت 1- 2] ، أَمْ حَسِبَ الَّذِينَ يَعْمَلُونَ السَّيِّئاتِ [ العنکبوت 4] ، وَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ غافِلًا عَمَّا يَعْمَلُ الظَّالِمُونَ [إبراهيم 42] ، فَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ مُخْلِفَ وَعْدِهِ رُسُلَهُ [إبراهيم 47] ، أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ [ البقرة 214] - ( ح س ب ) الحساب - اور الحسبة جس کا معنی ہے گمان یا خیال کرنا اور آیات : ۔ الم أَحَسِبَ النَّاسُ [ العنکبوت 1- 2] کیا لوگ یہ خیال کئے ہوئے ہیں ۔ کیا وہ لوگ جو بڑے کام کرتے ہیں یہ سمجھے ہوئے ہیں : وَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ غافِلًا عَمَّا يَعْمَلُ الظَّالِمُونَ [إبراهيم 42] اور ( مومنو ) مت خیال کرنا کہ یہ ظالم جو عمل کررہے ہیں خدا ان سے بیخبر ہے ۔ فَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ مُخْلِفَ وَعْدِهِ رُسُلَهُ [إبراهيم 47] تو ایسا خیال نہ کرنا کہ خدا نے جو اپنے پیغمبروں سے وعدہ کیا ہے اس کے خلاف کرے گا : أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ [ البقرة 214] کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ ( یوں ہی ) جنت میں داخل ہوجاؤ گے ۔
اور اگر مشرکین کے پاس دنیا بھر کی تمام چیزیں ہوں اور ان چیزوں جتنی چیزیں اور بھی ہوں تو وہ لوگ قیامت کے دن سخت عذاب سے خود کو چھڑانے کے لیے اس کو فدیہ میں بلا تامل دینے لگیں اور ان کے سامنے عذاب الہی ایسا ظاہر ہوگا جس کا ان کو گمان بھی نہ تھا۔
آیت ٤٧ وَلَوْ اَنَّ لِلَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مَا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا وَّمِثْلَہٗ مَعَہٗ لَافْتَدَوْا بِہٖ مِنْ سُوْٓئِ الْعَذَابِ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ ” اور اگر ان ظالموں کے پاس وہ سب کچھ ہوتا جو بھی زمین میں ہے اور اس کے ساتھ اتنا اور بھی ہوتا تو وہ قیامت کے دن ُ برے عذاب سے بچنے کے لیے وہ سب فدیہ میں دے دیتے۔ “- روزِ محشر اگر ان کے پاس تمام روئے زمین کی دولت ہو بلکہ اتنی اور بھی ہو تو وہ چاہیں گے کہ وہ سب کچھ دے دیں اور انہیں کسی طرح جہنم کے عذاب سے بچالیا جائے۔ انسان کی اس کیفیت کا مشاہدہ تو یہاں دنیا میں بھی کیا جاسکتا ہے۔ جب کبھی انسان کی جان پر بن جاتی ہے تو وہ ایک گھونٹ پانی کے لیے اپنا سب کچھ دینے کو تیار ہوجاتا ہے۔ بہر حال یہاں یہ اسلوب صرف انسانوں کے سمجھانے کے لیے آیا ہے ‘ ورنہ اس دن نہ تو کسی کے پاس کچھ دینے کو ہوگا اور نہ ہی کوئی کسی کو کچھ دے سکے گا۔- وَبَدَا لَہُمْ مِّنَ اللّٰہِ مَا لَمْ یَکُوْنُوْا یَحْتَسِبُوْنَ ” اور (اُس روز ) ان کے سامنے اللہ کی طرف سے وہ کچھ آجائے گا جس کا انہیں گمان بھی نہیں تھا۔ “- آج وہ سمجھتے ہیں کہ جہنم اور اس کے عذابوں کی حقیقت کچھ بھی نہیں ‘ بلکہ ان کا خیال ہے کہ جس طرح بچوں کو کوئی بات منوانے کے لیے فرضی چیزوں سے ڈرایا جاتا ہے اسی طرح ہمیں بھی خالی ڈراوے دیے جا رہے ہیں اور جہنم کا ’ ہوا ‘ دکھایا جا رہا ہے۔ لیکن اس دن جہنم کو اس کے تمام تر عذابوں اور سختیوں کے ساتھ ان کے سامنے لایا جائے گا اور پھر ان سے پوچھا جائے گا : اَلَیْسَ ہٰذَا بِالْحَقِّط قَالُوْا بَلٰی وَرَبِّنَاط ( الانعام : ٣٠) کہ جو کچھ اب تم اپنے سامنے دیکھ رہے ہو کیا یہ حقیقت نہیں ؟ تو اس وقت وہ تسلیم کریں گے کہ ہاں کیوں نہیں ‘ ہمارے پروردگار کی قسم واقعی یہ تو ایک حقیقت ہے۔