Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

صلوۃ خوف کے مسائل نماز خوف کی کئی قسمیں مختلف صورتیں اور حالتیں ہیں ، کبھی تو ایسا ہوتا ہے کہ دشمن قبلہ کی طرف کبھی دشمن دوسری جانب ہوتا ہے ، نماز بھی کبھی چار رکعت ہوتی ہے کبھی تین رکعت جیسے مغرب اور فجر کی دو صلوۃ سفر ، کبھی جماعت سے ادا کرنی ممکن کرتی ہے کبھی لشکر اس طرح باہم گتھے ہوئے ہوتے ہیں کہ نماز با جماعت ممکن ہی نہیں ہوتی بلکہ الگ الگ قبلہ کی طرف اور غیر قبلہ کی طرف پیدل اور سوار جس طرح ممکن ہو پڑھی جاتی ہے بلکہ ایسا بھی ہوتا ہے جو جائز بھی ہے کہ دشمنوں کے حملوں سے بچتے بھی جائیں ان پر برابر حملے بھی کرتے جائیں اور نماز بھی ادا کرتے جائیں ، ایسی حالت میں صرف ایک رکعت ہی نماز پڑھی جاتی ہے جس کے جواز میں علماء کا فتویٰ ہے اور دلیل حضرت عبداللہ بن عباس کی حدیث ہے جو اس سے اگلی آیت کی تفسیر میں بیان ہو چکی ہے عطا ، جابر ، حسن ، مجاہد ، حکم ، قتادہ ، حماد ، طاؤس ، ضحاک ، محمد بن نصر ، مروزی ، ابن حزم اجمعین کا یہی فتویٰ ہے ، صبح کی نماز میں ایک ہی رکعت اس حالت میں رہ جاتی ہے ، اسحق راہویہ فرماتے ہیں ایسی دوڑ دھوپ کے وقت ایک ہی رکعت کافی ہے ۔ ارشاد ہے ادا کر لے اگر اس قدر پر بھی قادریہ ہو تو سجدہ کرلے یہ بھی ذکر اللہ ہے ، اور لوگ کہتے ہیں صرف ایک تکبیر ہی کافی ہے لیکن یہ ہو سکتا ہے کہ ایک سجدہ اور ایک تکبیر سے مراد بھی ایک رکعت ہو ۔ جیسے کہ حضرت امام احمد بن حنبل اور ان کے اصحاب کا فتویٰ ہے اور یہی قول ہے جابر بن عبداللہ ، عبداللہ بن عمر کعب وغیرہ صحابہ کا رضی اللہ عنہم اجمعین ، سدی بھی فرماتے ہیں لیکن جن لوگوں کا قول صرف ایک تکبیر کا ہی بیان ہوا ہے اس کا بیان کرنے والے اسے پوری رکعت پر محمول نہیں کرتے بلکہ صرف تکبیر ہی جو ظاہر ہے مراد لیتے ہیں جیسے کہ اسحاق بن راہویہ کا مذہب ہے ، امیر عبدالوہاب بن بخت مکی بھی اسی طرف گئے ہیں وہ یہاں تک کہتے ہیں کہ اگر اس پر بھی قدرت نہ ہو تو اسے اپنے نفس میں بھی نہ چھوڑے یعنی نیت ہی کر لے واللہ اعلم ۔ ( لیکن صرف نیت کے کر لینے یا صرف اللہ اکبر کہہ لینے پر اکتفا کرنے یا صرف ایک ہی سجدہ کر لینے کی کوئی دلیل قرآن حدیث سے نظر سے نہیں گذری ۔ واللہ اعلم مترجم ) بعض علماء نے ایسے خاص اوقات میں نماز کو تاخیر کرکے پڑھنے کی رخصت بھی دی ہے ان کی دلیل یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ خندق میں سورج ڈوب جانے کے بعد ظہر عصر کی نماز پڑھی تھی پھر مغرب عشاء ، پھر اس کے بعد بنو قریظہ کی جنگ کے دن ان کی طرف جنہیں بھیجا تھا انہیں تاکید کر دی تھی کہ تم میں سے کوئی بھی بنو قریظہ تک پہنچنے سے پہلے عصر کی نماز نہ پڑھے یہ جماعت ابھی راستے میں ہی تھی تو عصر کا وقت آگیا بعض نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد اس فرمان سے صرف یہی تھا کہ ہم جلدی بنو قریظہ پہنچ کر نماز پڑھی جبکہ سورج غروب ہو چکا تھا ۔ جب اس بات کا ذکر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوا تو آپ نے دونوں جماعتوں میں سے کسی ایک کو بھی ڈانٹ ڈپٹ نہیں کی ہم نے اس پر تفصیلی بحث اپنی کتاب السیرۃ میں کی ہے اور اسے ثابت کیا ہے کہ صحیح بات کے قریب وہ جماعت تھی جنہوں نے وقت پر نماز ادا کر لی گو دوسری جماعت بھی معذور تھی ، مقصود یہ ہے کہ اس جماعت نے جہاد کے موقعہ پر دشمنوں پر تاخت کرتے ہوئے ان کے قلعے کی طرف یورش جاری رکھتے ہوئے نماز کو موخر کر دیا ، دشمنوں کا یہ گروہ ملعون یہودیوں کا تھا جنہوں نے عہذ توڑ دیا تھا اور صلح کے خلاف کیا تھا ۔ لیکن جمہور کہتے ہیں صلوۃ خوف کے نازل ہونے سے یہ سب منسوخ ہو گیا یہ واقعات اس آیت کے نازل ہونے سے پہلے کے ہیں صلوۃ خوف کے حکم کے بعد اب جہاد کے وقت نماز کو وقت سے ٹالنا جائز نہیں رہا ، ابو سعید کی روایت سے بھی یہی ظاہر ہے جسے شافعی نے مروی کی ہے ، لیکن صحیح بخاری کے ( باب الصلوۃ عند منا ھضتہ الحصون الخ ، ) میں ہے کہ اوزاعی فرماتے ہیں اگر فتح کی تیاری ہو اور نماز با جماعت کا امکان نہ ہو تو ہر شخص الگ الگ اپنی اپنی نماز اشارے سے ادا کر لے اگر یہ بھی نہ ہو سکتا ہو تو نماز میں تاخیر کرلیں یہاں تک کہ جنگ ختم ہو یا امن ہو جائے اس وقت دو رکعتیں پڑھ لیں اور اگر امن نہ ملے تو ایک رکعت ادا کرلیں صرف تکبیر کا کہہ لینا کافی نہیں ۔ ایسا ہو تو نماز کو دیر کرکے پڑھیں جبکہ اطمینان نصیب ہو جائے حضرت مکحول کا فرمان بھی یہی ہے حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں کہ ستر کے قلعہ کے محاصرے میں میں موجود تھا صبح صادق کے وقت دست بدست جنگ شروع ہوئی اور سخت گھمسان کا رن پڑا ہم لوگ نماز نہ پڑھ سکے اور برابر جہاد میں مشغول رہے جب اللہ تعالیٰ نے ہمیں قلعہ پر قابض کر دیا اس وقت ہم نے دن چڑھے نماز پڑھی اس جنگ میں ہمارے امام حضرت ابو موسیٰ تھے حضرت انس فرماتے ہیں اس نماز کے متبادل ساری دنیا کی تمام چیزیں بھی مجھے خوش نہیں کر سکتیں امام بخاری اس کے بعد جنگ خندق میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا نمازوں کو تاخیر کرنے کا ذکر کرتے ہیں پھر بنو قریظہ والا واقعہ اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان کہ تم بنو قریظہ پہنچنے سے پہلے عصر کی نماز نہ پڑھنا وارد کرتے ہیں گویا امام ہمام حضرت امام بخاری اسی سے اتفاق کرتے ہیں کہ ایسی اشد لڑائی اور پورے خطرے اور قرب فتح کے موقع پر اگر نماز موخر ہو جائے تو کوئی حرج نہیں حضرت ابو موسیٰ نے اس پر اعتراض کیا ہو اور یہ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ خندق کے موقع پر بھی صلوۃ خوف کی آیتیں موجود تھیں اس لئے کہ یہ آیتیں غزوہ ذات الرقاع میں نازل ہوئی ہیں اور یہ غزوہ غزوہ خندق سے پہلے کا ہے اور اس پر جمہور علماء سیر و مغازی کا اتفاق ہے ، محمد بن اسحق ، موسیٰ بن عقبہ واقدی ، محمد بن سعد ، کاتب واقدی اور خطیفہ بن خیاط وغیرہ بھی اسی کے قائل ہیں ، ہاں امام بخاری وغیرہ کا قول ہے کہ غزوہ ذات الرقاع خندق کے بعد ہوا تھا بہ سبب بحوالہ حدیث ابو موسیٰ کے اور یہ خود خیبر میں ہی آئے تھے واللہ اعلم ، لیکن سب سے زیادہ تعجب تو اس امر پر ہے کہ قاضی ابو یوسف مزنی ابراہیم بن اسمٰعیل بن علیہ کہتے ہیں کہ صلوۃ خوف منسوخ ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوہ خندق میں میں دیر کرکے نماز پڑھنے سے ۔ یہ قول بالکل ہی غریب ہے اس لئے کہ غزوہ خندق کے بعد کے صلوۃ کے بعد کی صلوۃ خوف کی حدیثیں ثابت ہیں ، اس دن کی نماز کی تاخیر کو مکحول اور اوزاعی کے قول پر ہی محمول کرنا زیادہ قوی اور زیادہ درست ہے یعنی ان کا وہ قول جو بحوالہ بخاری بیان ہوا کہ قرب فتح اور عدم امکان صلوۃ خوف کے باوجود تاخیر جائز ہے واللہ اعلم ۔ آیت میں حکم ہوتا ہے کہ جب تو انہیں باجماعت نماز پڑھائے ۔ یہ حالت پہلی کے سوا ہے اس وقت یعنی انتہائی خوف کے وقت تو ایک ہی رکعت جائز ہے اور وہ بھی الگ ، الگ ، پیدل سوار قبلہ کی طرف منہ کرکے یا نہ کرکے ، جس طرح ممکن ہو ، جیسے کہ حدیث گذر چکی ہے ۔ یہ امامت اور جماعت کا حال بیان ہو رہا ہے جماعت کے واجب ہونے پر یہ آیت بہترین اور مضبوط دلیل ہے کہ جماعت کی وجہ سے بہت کمی کر دی گئی ۔ اگر جماعت واجب نہ ہوتی تو صرف ایک رکعت جائز نہ کی جاتی ۔ بعض نے اس سے ایک اور استدلال بھی کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ اس میں چونکہ یہ لفظ ہیں کہ جب تو ان میں ہو اور یہ خطاب نبی کریم علیہ افضل الصلوٰۃ والتسلیم سے ہے تو معلوم ہوا کہ صلوۃ خوف کا حکم آپ کے بعد منسوخ ہے ، یہ استدلال بالکل ضعیف ہے ، یہ استدلال تو ایسا ہی ہے جیسا استدلال ان لوگوں کا تھا جو زکوٰۃ کو خلفائے راشدین سے روک بیٹھے تھے اور کہتے تھے کہ قرآن میں ہے ( آیت خذ من اموالھم صدقتہ الخ ، ) یعنی تو ان کے مالوں سے زکوٰۃ لے جس سے تو انہیں پاک صاف کر اور تو ان کے لئے رحمت کی دعا کر تیری دعا ان کے لئے باعث تسکین ہے ۔ تو ہم آپ کے بعد کسی کو زکوٰۃ نہ دیں گے بلکہ ہم آپ اپنے ہاتھ سے خود جسے چاہیں دیں گے اور صرف اسی کو دیں گے جس کو دعا ہمارے لئے سبب سکون بنے ۔ لیکن یہ استدلال ان کا بےمعنی تھا اسی لئے کہ صحابہ نے اسے رد کر دیا اور انہیں مجبور کیا کہ یہ زکوٰۃ ادا کریں بلکہ ان میں سے جن لوگوں نے اسے روک لیا تھا ان سے جنگ کی ۔ آئیے ہم آیت کی صفت بیان کرنے سے پہلے اس کا شان نزول بیان کر دیں ابن جریر میں ہے کہ بنو نجار کی ایک قوم نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ ہم برابر اِدھر اُدھر آمد و رفت کیا کرتے ہیں ، ہم نماز کس طرح پڑھیں تو اللہ عزوجل نے اپنا یہ قول نازل فرمایا ( آیت واذا ضربتم فی الارض فلیس علیکم جناح ان تقصروا من الصلوۃ ) اس کے بعد سال بھر تک کوئی حکم نہ آیا پھر جبکہ آپ ایک غزوے میں ظہر کی نماز کے لئے کھڑے ہوئے تو مشرکین کہنے لگے افسوس کیا ہی اچھا موقعہ ہاتھ سے جاتا رہا کاش کہ نماز کی حالت میں ہم یکبارگی ان پر حملہ کر دیتے ، اس پر بعض مشرکین نے کہا یہ موقعہ تو تمہیں پھر بھی ملے گا اس کے تھوڑی دیر بعد ہی یہ دوسری نماز ( یعنی نماز عصر ) کے لئے کھڑے ہوں گے ، لیکن اللہ تعالیٰ نے عصر کی نماز سے پہلے اور ظہر کی نماز کے بعد ( آیت ان خفتم ) والی پوری دو آیتوں تک نازل فرما دیں اور کافر ناکام رہے خود اللہ تعالیٰ و قدوس نے صلوۃ خوف کی تعلیم دی ۔ گویہ سیاق نہایت ہی غریب ہے لیکن اسے مضبوط کرنے والی اور روایتیں بھی ہیں ، حضرت ابو عیاش زرقی فرماتے ہیں عسفان میں ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے خالد بن ولید اس وقت اسلام نہیں لائے تھے اور مشرکین کے لشکر کے سردار تھے یہ لوگ ہمارے سامنے پڑاؤ ڈالے تھے تب ہم نے قبلہ رخ ، ظہر کی نماز جب ہم نے ادا کی تو مشرکوں کے منہ میں پانی بھر آیا اور وہ کہنے لگے افسوس ہم نے موقعہ ہاتھ سے کھو دیا وقت تھا کہ یہ نماز میں مشغول تھے اِدھر ہم ان پر دفعتہ دھاوا بول دیتے پھر ان میں کے بعض جاننے والوں نے کہا خیر کوئی بات نہیں اس کے بعد ان کی ایک اور نماز کا وقت آرہا ہے اور وہ نماز تو انہیں اپنے بال بچوں سے بلکہ اپنی جانوں سے بھی زیاہ عزیز ہے اس وقت سہی ۔ پس ظہر عصر کے درمیان اللہ عزوجل نے حضرت جبرائیل علیہ السلام کو نازل فرمایا اور ( آیت اذا کنت فیھم ) اتاری چنانچہ عصر کی نماز کے وقت ہمیں رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہم نے ہتھیار سجا لئے اور اپنی دو صفوں میں سے پہلی صف آپ کے ساتھ سجدے میں گئی اور دوسری صف کھڑی کی کھڑی ان کی نگہبانی کرتی رہی جب سجدوں سے فارغ ہو کر یہ لوگ کھڑے ہوگئے تو اب دوسری صف والے سجدے میں گئے جب یہ دونوں سجدے کر چلے تو اب پہلی صف والے دوسری صف کی جگہ چلے گئے اور دوسری صف والے پہلی صف والوں کی جگہ آگئے ، پھر قیام رکوع اور قومہ سب نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہی ساتھ ادا کیا اور جب آپ سجدے میں گئے تو صف اوّل آپ کے ساتھ سجدے میں گئی اور دوسری صف والے کھڑے ہوئے پہرہ دیتے رہے جب یہ سجدوں سے فارغ ہوگئے اور التحیات میں بیٹھے تب دوسری صف کے لوگوں نے سجدے کئے اور التحیات میں سب کے سب ساتھ مل گئے اور سلام بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سب نے ایک ساتھ پھیرا ۔ صلوٰۃ خوف ایک بار تو آپ نے یہاں عسفان میں پڑھی اور دوسری مرتبہ بنو سلیم کی زمین میں ۔ یہ حدیث مسند احمد ابو داؤد اور نسائی میں بھی ہے اس کی اسناد صحیح ہے اور شاہد بھی بکثرت ہیں بخاری میں بھی یہ روایت اختصار کے ساتھ ہے اور اس میں ہے باوجود یکہ سب لوگ نماز میں تھے لیکن ایک دوسرے کی چوکیداری کر رہے تھے ۔ ابن جریر میں ہے کہ سلیمان بن قیس یشکری نے حضرت جابر بن عبداللہ سے پوچھا نماز کے قصر کرنے کا حکم کب نازل ہوا ؟ تو آپ نے فرمایا قریشیوں کا ایک قافلہ شام سے آرہا تھا ہم اس کی طرف چلے ۔ وادی نخل میں پہنچے تو ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہچ گیا اور کہنے لگا کیا آپ مجھ سے ڈرتے نہیں؟ آپ نے فرمایا نہیں اس نے کہا آپ کو مجھ سے اس وقت کون بچا سکتا ہے؟ آپ نے فرمایا اللہ مجھے تجھ سے بچا لے گا پھر تلوار کھینچ لی اور ڈرایا دھمکایا ، پھر کوچ کی منادی ہوئی اور آپ ہتھیار سجا کر چلے ۔ پھر اذان ہوئی اور صحابہ دو حصوں میں تقسیم ہوگئے ایک حصہ آپ کے ساتھ نماز ادا کر رہا تھا اور دوسرا حصہ پہرہ دے رہا تھا جو آپ کے متصل تھے وہ دو رکعت آپ کے ساتھ پڑھ کر پیچھے والوں کی جگہ چلے گئے اور پیچھے والے اب آگے بڑھ آئے اور ان اگلوں کی جگہ کھڑے ہوگئے انہیں بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعت پڑھائیں پھر اسلام پھیر دیا پس حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی چار رکعت ہوئیں اور سب کی دو دو ہوئیں اور اللہ تعالیٰ نے نماز کی کمی کا اور ہتھیار لئے رہنے کا حکم نازل فرمایا ۔ مسند احمد میں ہے کہ جو شخص تلوار تانے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ آور ہوا تھا یہ دشمن کے قبیلے میں سے تھا اس کا نام غورث بن حارث تھا جب آپ نے اللہ کا نام لیا تو اس کے ہاتھ سے تلوار چھوٹ گئی آپ نے تلوار اپنے ہاتھ میں لے لی اور اس سے کہا اب تو بتا کہ تجھے کون بچائے گا تو وہ معافی مانگنے لگا کہ مجھ پر آپ رحم کیجئے آپ نے فرمایا کیا تو اللہ کے ایک ہونے کی اور میرے رسول ہونے کی شہادت دیتا ہے؟ اس نے کہا یہ تو نہیں ہاں میں اقرار کرتا ہوں کہ آپ سے لڑوں گا نہیں اور ان لوگوں کا ساتھ نہ دوں گا جو آپ سے برسر پیکار ہوں آپ نے اسے معافی دی ۔ جب یہ اپنے قبیلے والوں میں آیا تو کہنے لگا روئے زمین پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بہتر کوئی شخص نہیں ۔ اور روایت میں ہے کہ یزید فقیر نے حضرت جابر سے پوچھا کہ سفر میں جو دو رکعت ہیں کیا یہ قصر کہلاتی ہیں؟ آپ نے فرمایا یہ پوری نماز ہے قصر تو بوقت جہاد ایک رکعت ہے پھر صلوۃ خوف کا اسی طرح ذکر کیا اس میں یہ بھی ہے کہ آپ کے سلام کے ساتھ آپ کے پیچھے والوں نے اور ان لوگوں نے سلام پھیرا اور اس میں دونوں حصہ فوج کے ساتھ ایک ایک رکعت پڑھنے کا بیان ہے پس سب کی ایک ایک رکعت ہے پھر صلوۃ خوف کا اسی طرح ذکر کیا اس میں یہ بھی ہے کہ آپ کے سلام کے ساتھ آپ کے پیچھے والوں نے ان لوگوں نے سلام پھیرا اور اس میں دونوں حصہ فوج کے ساتھ ایک ایک رکعت پڑھنے کا بیان ہے پس سب کی ایک ایک رکعت ہوئی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دو رکعتیں ۔ اور روایت میں ہے کہ ایک جماعت آپ کے پیچھے صف بستہ نماز میں تھی اور ایک جماعت دشمن کے مقابل تھی پھر ایک رکعت کے بعد آپ کے پیچھے والے اگلوں کی جگہ آگئے اور پہ پیچھے آگئے ۔ یہ حدیث بہت سی کتابوں میں بہت سی سندوں کے ساتھ حضرت جابر سے مروی ہے ۔ ایک اور حدیث جو بروایت سالم عن ابیہ مروی ہے اس میں یہ بھی ہے کہ پھر کھڑے ہو کر صحابہ نے ایک ایک رکعت اپنی اپنی ادا کر لی ۔ اس حدیث کی بھی بہت سی سندیں اور بہت سے الفاظ ہیں حافظ ابو بکر بن مردویہ نے ان سب کو جمع کر دیا ، اور اسی طرح ابن جریر نے بھی ، ہم اسے کتاب احکام کبیر میں لکھنا چاہتے ہیں انشاء اللہ ۔ خوف کی نماز میں ہتھیار لئے رہنے کا حکم بعض کے نزدیک توبطور وجوب کے ہے کیونکہ آیت کے ظاہری الفاظ ہیں امام شافعی کا بھی یہی قول ہے اور اسی کی تائید اس آیت کے پچھلے فقرے سے بھی ہوتی ہے کہ بارش یا بیماری کی وجہ سے ہتھیار اتار رکھنے میں تم پر گناہ نہیں اپنا بچاؤ ساتھ لئے رہو ، یعنی ایسے تیار رہو کہ وقت آتے ہی بےتکلف وبے تکلیف ہتھیار سے آراستہ ہو جاؤ ۔ اللہ نے کافروں کے لئے اہانت والا عذاب تیار کر رکھا ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

102۔ 1 اس آیت میں صلوٰۃ الخوف کی اجازت بلکہ حکم دیا جا رہا ہے۔ صلوٰۃ الخوف کے معنی، خوف کی نماز یہ اس وقت مشروع ہے جب مسلمان اور کافروں کی فوجیں ایک دوسرے کے مقابل جنگ کے لئے تیار کھڑی ہوں تو ایک لمحے کی غفلت مسلمانوں کے لئے خطرناک ثابت ہوسکتی ہے ایسے حالات میں اگر نماز کا وقت ہوجائے تو صلوٰۃ الخوف پڑھنے کا حکم ہے، جس کی مختلف صورتیں حدیث میں بیان کی گئی ہیں۔ مثلاً فوج دو حصوں میں تقسیم ہوگئی ایک حصہ دشمن کے بالمقابل کھڑا رہا تاکہ کافروں کو حملہ کرنے کی جسارت نہ ہو اور ایک حصے نے آکر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیچھے نماز پڑھی، جب یہ حصہ نماز سے فارغ ہوگیا تو یہ پہلے کی جگہ مورچہ زن ہوگیا اور مورچہ زن پہلے والا نماز کے لئے آگیا۔ بعض روایت میں آتا ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دونوں حصوں کو ایک ایک رکعت پڑھائی، اس طرح آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دو رکعت اور باقی فوجیوں کی ایک ایک رکعت ہوئی۔ بعض میں آتا ہے کہ دو دو رکعات پڑھائیں اس طرح آپ کی چار رکعت اور فوجیوں کی دو دو رکعت ہوئیں اور بعض میں آتا ہے کہ ایک رکعت پڑھ کر التحیات کی طرح بیٹھے رہے فوجیوں نے کھڑے ہو کر اپنے طور پر ایک رکعت اور پڑھ کردو رکعات پوری کیں اور دشمن کے سامنے جا کر ڈٹ گئے۔ دوسرے حصے نے آکر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیچھے نماز پڑھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں بھی ایک رکعت پڑھائی اور التحیات میں بیٹھ گئے اور اس وقت تک بیٹھے رہے جب تک فوجیوں نے دوسری رکعت پوری نہیں کرلی۔ پھر ان کے ساتھ آپ نے سلام پھیر دیا اس طرح آپ کی بھی دو رکعت اور فوج کے دونوں حصوں کی بھی دو رکعات ہوئیں۔ (دیکھئے کتب حدیث) 

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٣٩] اس آیت میں نماز خوف کا طریقہ بیان کیا گیا ہے۔ نماز خوف کی کئی صورتیں ممکن ہیں۔ اور احادیث میں ایسی چھ سات صورتیں مذکور بھی ہیں۔- وہ صورتیں اس طرح بنتی ہیں کہ مقتدی جس نے ایک رکعت امام کے ساتھ ادا کی ہے تو آیا وہ دوسری رکعت خود موقع ملنے پر ادا کرے گا یا نہیں ؟ یا اگر کرے گا تو کیسے کرے گا اور نماز مغرب جس کی قصر بھی تین رکعت ہے اس کی صورت کیا ہوگی ؟ اور غالباً یہ طریقہ صرف اس ہنگامی حالت کے لیے ہے جبکہ معرکہ کار زار گرم نہ ہوا ہو۔ کیونکہ معرکہ گرم ہونے کی صورت میں تو جماعت کا موقع ہی نہیں آتا۔ جیسا کہ جنگ خندق میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سمیت اکثر مسلمانوں کی نماز عصر قضا ہوگئی جو آپ نے اور مجاہدین نے سورج غروب ہونے کے بعد قضا کے طور پر ادا کی۔ پھر اس کے بعد نماز مغرب ادا کی۔ (بخاری، کتاب مواقیت الصلٰوۃ۔ باب من صلی بالناس جماعۃً بعد ذھاب الوقت) دراصل نماز خوف کے طریق کار کا انحصار بہت حد تک جنگی حالات پر ہے۔ اگر جماعت کا موقع ہی میسر نہ آئے تو انسان اکیلا بھی پڑھ سکتا ہے۔ سواری پر بھی پڑھ سکتا ہے اور اشارے سے بھی پڑھ سکتا ہے۔ بس دو باتوں کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔ ایک یہ کہ موجودہ جنگی حالات میں کونسا طریقہ بہتر ہے پھر اسے اختیار کیا جائے اور دوسرے یہ کہ ایسے حالات میں اللہ کی یاد کو بھلانا نہیں چاہیے۔ اب اس ضمن میں درج ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیے :- ١۔ سیدنا ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ اللہ نے تمہارے نبی کی زبان سے حضر میں چار، سفر میں دو اور خوف میں ایک رکعت نماز فرض کی ہے۔ (مسلم، کتاب الصلوۃ، باب صلٰوۃ المسافرین وقصرھا)- ٢۔ نماز خوف کی مختلف صورتیں :۔ سیدنا ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ نبی اکرم نے ضجنان اور عسفان کے درمیان پڑاؤ کیا۔ مشرکوں نے کہا : ان مسلمانوں کی ایک نماز ہے جسے وہ اپنے باپ اور بیٹوں سے زیادہ محبوب رکھتے ہیں اور وہ عصر کی نماز ہے لہذا تم اپنے اسباب جمع کرو اور اس وقت یکبارگی ان پر حملہ کردو۔ اتنے میں جبریل نازل ہوئے اور نبی اکرم کو حکم دیا کہ وہ اپنے اصحاب (رض) کے دو حصے کریں۔ ایک حصے کو نماز پڑھائیں اور دوسرا حصہ دشمن کے مقابل ان کے پیچھے کھڑا رہے اور اپنی ڈھالیں اور اپنے ہتھیار پہنے رہیں۔ پھر دوسرا حصہ آئے اور آپ کے ساتھ نماز پڑھے اور پہلے حصے والے اپنی ڈھالیں اور ہتھیار پہن لیں۔ اس طرح ہر گروہ کی ایک ایک رکعت، اور نبی اکرم کی دو رکعتیں ہوں گی۔ (ترمذی، ابو اب التفسیر)- ٣۔ سیدنا عبداللہ بن عمر (رض) سے جب کوئی پوچھتا کہ ہم نماز خوف کیسے پڑھیں ؟ تو وہ کہتے کہ امام آگے بڑھے کچھ لوگ اس کے ساتھ نماز ادا کریں۔ امام انہیں ایک رکعت پڑھائے۔ باقی لوگ ان کے اور دشمنوں کے درمیان کھڑے رہیں۔ نماز نہ پڑھیں۔ جب یہ لوگ امام کے ساتھ ایک رکعت پڑھ چکیں تو سرک کر پیچھے چلے جائیں اور جنہوں نے نماز نہیں پڑھی اب وہ لوگ آجائیں اور امام کے ساتھ ایک رکعت پڑھیں۔ امام تو اپنی نماز (دو رکعت) سے فارغ ہوگیا۔ اب یہ دونوں گروہ باری باری ایک ایک رکعت پوری کرلیں تو ان کی بھی دو دو رکعت ہوجائیں گی اور اگر خوف اس سے زیادہ ہو تو پاؤں پر کھڑے کھڑے، پیدل یا سواری پر رہ کر نماز ادا کرلیں۔ منہ قبلہ رخ ہو یا نہ ہو۔ امام مالک کہتے ہیں کہ نافع نے کہا کہ عبداللہ بن عمر (رض) نے یہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کیا ہے۔ (بخاری، کتاب التفسیر)- [١٤٠] آیت مذکورہ میں صرف دو صورتوں میں ہتھیار اتارنے کی اجازت ہے۔ پہلی یہ کہ بارش ہو رہی ہو کپڑے اور ہتھیار بھیگ رہے ہوں۔ دوسری یہ کہ کوئی شخص بیماری کی وجہ سے ہتھیار بند رہنے کا متحمل نہ ہو۔ ان صورتوں کے علاوہ ہتھیار اتارنے کی اجازت نہیں۔ اس لیے آخر میں تاکیدی طور پر دوبارہ سہ بارہ اس حکم کو دہرایا۔- خُذُوْا حِذْرَکُمْ کے الفاظ بڑے وسیع مفہوم میں استعمال ہوتے ہیں، اس کے معنی ہوشیار اور چوکنا رہنا مسلح رہنا اور اپنے بچاؤ کے تمام ذرائع اختیار کیے رکھنا ہے۔ مثلاً مورچوں کی حفاظت کرنا اور ان میں پناہ پکڑنا، لڑائی سے پہلے سامان جنگ تیار رکھنا۔ دشمن کی نقل و حرکت سے باخبر رہنا، اس کا مداوا سوچنا بیخبر ی میں دشمن کے حملے کے لیے تیار رہنا سب کچھ (خُذُوْا حِذْرَکُمْ ) 4 النساء "102) کے مفہوم میں سما جاتا ہے۔ دور نبوی میں اسلحہ جنگ ہر مجاہد کی انفرادی ملکیت ہوتا تھا مگر آج اسلحہ جنگ مہیا کرنا حکومتوں کی ذمہ داری ہے لہذا اسلحہ جنگ کے تیار کرنے والے کارخانوں، اسلحہ کے ذخائر اور دشمن سے ان کا بچاؤ بھی (خُذٌوْا حِذْرَکُمْ ) 4 ۔ النساء "102) میں شامل ہے۔ غرض قوم و ملک کا تحفظ، افراد فوج کے تحفظ کی تدابیر، آلات جنگ کا تحفظ، لڑائی کے منصوبوں کو صیغہ راز میں رکھنا سب کچھ اس حکم میں داخل ہے۔ آج دشمن سب سے پہلے اسلحہ کے محفوظ ذخائر کو یا اسلحہ ساز فیکٹریوں کو اچانک حملے کے ذریعے تباہ کردیتا ہے۔ ان سب امور کی طرف مسلمانوں کو اس آیت میں متوجہ کیا گیا ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَاِذَا كُنْتَ فِيْهِمْ ۔۔ : اس آیت میں صلاۃ الخوف کی اجازت بلکہ حکم دیا جا رہا ہے۔ یہ خوف کی نماز کا وہ موقع ہے کہ جب دشمن موجود ہو اور اس کے حملے کا خطرہ ہو، عملاً جنگ نہ ہو رہی ہو، لیکن ذرا سی غفلت بڑے نقصان کا باعث بن سکتی ہو، ایسے حالات میں اگر نماز کا وقت ہوجائے تو صلاۃ الخوف پڑھنے کا حکم ہے، جس کی مختلف صورتیں حدیث میں بیان کی گئی ہیں، مثلاً فوج دو حصوں میں تقسیم ہوگئی، ایک حصہ (گروہ) دشمن کے بالمقابل کھڑا رہا، تاکہ کافروں کو حملہ کرنے کی جسارت نہ ہو اور ایک حصے نے آ کر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیچھے نماز پڑھی، جب یہ حصہ نماز سے فارغ ہوگیا تو یہ پہلے کی جگہ مورچہ زن ہوگیا اور مورچہ زن حصہ نماز کے لیے آگیا۔ بعض روایات میں آتا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دونوں حصوں کو ایک ایک رکعت پڑھائی، اس طرح آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دو رکعت اور باقی فوجیوں کی ایک ایک رکعت ہوئی۔ بعض روایات میں آتا ہے کہ دو ، دو رکعات پڑھائیں، اس طرح آپ کی چار رکعت اور فوجیوں کی دو ، دو رکعت ہوئیں۔ نیز بعض میں آتا ہے کہ ایک رکعت پڑھ کر التحیات کی طرح بیٹھے رہے، فوجیوں نے کھڑے ہو کر اپنے طور پر ایک رکعت اور پڑھ کر دو رکعات پوری کیں اور دشمن کے سامنے ڈٹ گئے، دوسرے حصے (گروہ) نے آ کر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیچھے نماز پڑھی، آپ نے انھیں بھی ایک رکعت پڑھائی اور التحیات میں بیٹھ گئے اور اس وقت تک بیٹھے رہے جب تک فوجیوں نے دوسری رکعت پوری نہیں کرلی، پھر ان کے ساتھ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سلام پھیر دیا، اس طرح آپ کی بھی دو رکعت اور فوج کے دونوں حصوں کی بھی دو رکعات ہوئیں۔ - 2 ابن العربی (رض) لکھتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چودہ مرتبہ صلاۃ الخوف پڑھی ہے اور امام احمد ابن حنبل (رح) فرماتے ہیں کہ پس صلاۃ الخوف میں تمام احادیث صحیح اور ثابت ہیں، لہٰذا جس صورت میں نماز ادا کرلی جائے جائز ہے۔ حافظ ابن القیم (رض) فرماتے ہیں کہ سب احادیث کا مرجع چھ سات صورتوں کی طرف ہے، جن میں سے ہر صورت پر حسب موقع عمل کیا جاسکتا ہے۔ ( زاد المعاد : ١؍٥١٢) امام ابو داؤد (رح) نے صلاۃ الخوف کی صورتیں صحیح سندوں کے ساتھ بہت تفصیل سے ذکر فرمائی ہیں۔ یہ تمام صورتیں اس وقت ہیں کہ جب جماعت ممکن ہو، اگر ممکن نہ ہو تو اکیلا پڑھ لے، پیادہ یا سوار یا اشارے سے، جس طرح ہو سکے (فَاِنْ خِفْتُمْ فَرِجَالًا اَوْ رُكْبَانًا ) [ البقرۃ : ٢٣٩ ] ” پھر اگر تم ڈرو تو پیدل پڑھ لو یا سوار۔ “ اگر جنگ جاری ہو اور اشارے سے بھی نہ پڑھ سکے تو بعد میں قضا کر کے پڑھ لے۔ صحیح بخاری میں ہے، انس (رض) فرماتے ہیں کہ میں تستر قلعے کی فتح کے وقت موجود تھا، جب فجر روشن ہو رہی تھی اور لڑائی شدید بھڑک اٹھی تھی تو نماز پڑھ ہی نہیں سکے، چناچہ دن بلند ہونے کے بعد ہی نماز پڑھی۔ ہم نے وہ نماز ابو موسیٰ (رض) کے ساتھ پڑھی، اللہ تعالیٰ نے فتح عطا فرمائی۔ انس (رض) نے فرمایا کہ مجھے دنیا ومافیہا مل جائے تب بھی اتنی خوشی نہ ہو، جتنی اس نماز سے ہوئی۔ “ [ بخاری، صلاۃ الخوف، باب الصلاۃ عند مناھضۃ الحصون ولقاء العدو، قبل ح : ٩٤٥ ]

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

سفر اور قصر کے احکام :- مسئلہ :۔ جو سفر تین منزل سے کم ہو اس سفر میں نماز پوری پڑھی جاتی ہے۔- مسئلہ :۔ اور جب سفر ختم کر کے منزل پر جا پہنچے تو اگر وہاں پندرہ روز سے کم ٹھہرنے کا ارادہ ہو تب تو وہ حکم سفر میں ہے، فرض نماز چارگانہ آدھی پڑھی جائے گی اور اس کو قصر کہتے ہیں اور اگر پندرہ روز یا زیادہ کا رہنے کا ایک ہی بستی میں ارادہ ہو، تو وہ وطن اقامت ہوجائے گا وہاں بھی وطن اصلی کی طرح قصر نہیں ہوگا، بلکہ نماز پوری پڑھی جائے گی۔- مسئلہ :۔ قصر صرف تین وقت کے فرائض میں ہے اور مغرب اور فجر میں اور سنن و وتر میں نہیں ہے۔- مسئلہ :۔ سفر میں خوف نہ ہو تو بھی قصر نماز پڑھی جائے گی۔- مسئلہ :۔ بعض لوگوں کو پوری نماز کی جگہ قصر پڑھنے میں دل میں گناہ کا وسوسہ پیدا ہوتا ہے، یہ صحیح نہیں ہے، اس لئے کہ قصر بھی شریعت کا حکم ہے، جس کی تعمیل پر گناہ نہیں ہوتا بلکہ ثواب ملتا ہے۔- مسئلہ :۔ آیت میں ہے واذا کنت فیھم فاقمت لھم الصلوة (یعنی جب آپ ان میں تشریف رکھتے ہوں) اس سے یہ نہ سمجھا جائے کہ اب صلوة خوف کا حکم باقی نہیں رہا، کیونکہ آپ کی ذات بابرکات اب ہم میں موجود نہیں، اس لئے کہ یہ شرط اس وقت کے اعتبار سے بیان کی گئی ہے، کیونکہ نبی کے ہوتے ہوئے کوئی دوسرا آدمی بلا عذر کے امام نہیں بن سکتا، آپ کے بعد اب جو امام ہو وہی آپ کے قائم مقام ہے اور وہی صلوة خوف پڑھائے گا تمام ائمہ کے نزدیک صلوة خوف کا کام آپ کے بعد بھی جاری ہے منسوخ نہیں ہوا۔- مسئلہ :۔ جیسے آدمی سے خوف کے وقت صلوة خوف پڑھنا جائز ہے، ایسے ہی اگر کسی شیر یا اژدھا وغیرہ کا خوف ہو اور نماز کا وقت تنگ ہو اس وقت بھی جائز ہے۔- مسئلہ :۔ آیت میں دونوں گروہ کے ایک ایک رکعت پڑھنے کا تو ذکر فرمایا دوسری رکعت کا طریقہ حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب دو رکعت پر سلام پھیر دیا تو دونوں گروہ نے اپنی ایک ایک رکعت بطور خود پڑھ لی، مزید تفصیل احادیث میں ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَاِذَا كُنْتَ فِيْہِمْ فَاَقَمْتَ لَھُمُ الصَّلٰوۃَ فَلْتَقُمْ طَاۗىِٕفَۃٌ مِّنْھُمْ مَّعَكَ وَلْيَاْخُذُوْٓا اَسْلِحَتَھُمْ۝ ٠ۣ فَاِذَا سَجَدُوْا فَلْيَكُوْنُوْا مِنْ وَّرَاۗىِٕكُمْ۝ ٠۠ وَلْتَاْتِ طَاۗىِٕفَۃٌ اُخْرٰى لَمْ يُصَلُّوْا فَلْيُصَلُّوْا مَعَكَ وَلْيَاْخُذُوْا حِذْرَھُمْ وَاَسْلِحَتَھُمْ۝ ٠ۚ وَدَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَوْ تَغْفُلُوْنَ عَنْ اَسْلِحَتِكُمْ وَاَمْتِعَتِكُمْ فَيَمِيْلُوْنَ عَلَيْكُمْ مَّيْلَۃً وَّاحِدَۃً۝ ٠ۭ وَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ اِنْ كَانَ بِكُمْ اَذًى مِّنْ مَّطَرٍ اَوْ كُنْتُمْ مَّرْضٰٓى اَنْ تَضَعُوْٓا اَسْلِحَتَكُمْ۝ ٠ۚ وَخُذُوْا حِذْرَكُمْ۝ ٠ۭ اِنَّ اللہَ اَعَدَّ لِلْكٰفِرِيْنَ عَذَابًا مُّہِيْنًا۝ ١٠٢- اقامت - والْإِقَامَةُ في المکان : الثبات . وإِقَامَةُ الشیء : توفية حقّه، وقال : قُلْ يا أَهْلَ الْكِتابِ لَسْتُمْ عَلى شَيْءٍ حَتَّى تُقِيمُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة 68] أي : توفّون حقوقهما بالعلم والعمل، وکذلک قوله : وَلَوْ أَنَّهُمْ أَقامُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة 66] ولم يأمر تعالیٰ بالصلاة حيثما أمر، ولا مدح بها حيثما مدح إلّا بلفظ الإقامة، تنبيها أنّ المقصود منها توفية شرائطها لا الإتيان بهيئاتها، نحو : أَقِيمُوا الصَّلاةَ [ البقرة 43]- الاقامتہ - ( افعال ) فی المکان کے معنی کسی جگہ پر ٹھہرنے اور قیام کرنے کے ہیں اوراقامتہ الشیی ( کسی چیز کی اقامت ) کے معنی اس کا پورا پورا حق ادا کرنے کے ہوتے ہیں چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ قُلْ يا أَهْلَ الْكِتابِ لَسْتُمْ عَلى شَيْءٍ حَتَّى تُقِيمُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة 68] کہو کہ اے اہل کتاب جب تک تم توراۃ اور انجیل ۔۔۔۔۔ کو قائم نہ رکھو گے کچھ بھی راہ پر نہیں ہوسکتے یعنی جب تک کہ علم وعمل سے ان کے پورے حقوق ادا نہ کرو ۔ اسی طرح فرمایا : ۔ وَلَوْ أَنَّهُمْ أَقامُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة 66] اور اگر وہ توراۃ اور انجیل کو ۔۔۔۔۔ قائم کہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ قرآن پاک میں جہاں کہیں نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے یا نماز یوں کی تعریف کی گئی ہے ۔ وہاں اقامتہ کا صیغۃ استعمال کیا گیا ہے ۔ جس میں اس بات پر تنبیہ کرنا ہے کہ نماز سے مقصود محض اس کی ظاہری ہیبت کا ادا کرنا ہی نہیں ہے بلکہ اسے جملہ شرائط کے ساتھ ادا کرنا ہے - طَّائِفَةُ- وَالطَّائِفَةُ من الناس : جماعة منهم، ومن الشیء : القطعة منه، وقوله تعالی:- فَلَوْلا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طائِفَةٌ لِيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ [ التوبة 122] ، قال بعضهم : قد يقع ذلک علی واحد فصاعدا وعلی ذلک قوله : وَإِنْ طائِفَتانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ [ الحجرات 9] ، إِذْ هَمَّتْ طائِفَتانِ مِنْكُمْ [ آل عمران 122] ، والطَّائِفَةُ إذا أريد بها الجمع فجمع طَائِفٍ ، وإذا أريد بها الواحد فيصحّ أن يكون جمعا، ويكنى به عن الواحد، ويصحّ أن يجعل کراوية وعلامة ونحو ذلك .- الطائفۃ (1) لوگوں کی ایک جماعت (2) کسی چیز کا ایک ٹکڑہ ۔ اور آیت کریمہ : فَلَوْلا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طائِفَةٌ لِيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ [ التوبة 122] تویوں کیوں نہیں کیا کہ ہر ایک جماعت میں چند اشخاص نکل جاتے تاکہ دین کا علم سیکھتے ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ کبھی طائفۃ کا لفظ ایک فرد پر بھی بولا جاتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَإِنْ طائِفَتانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ [ الحجرات 9] ، اور اگر مومنوں میں سے کوئی دوفریق ۔۔۔ اور آیت کریمہ :إِذْ هَمَّتْ طائِفَتانِ مِنْكُمْ [ آل عمران 122] اس وقت تم میں سے دو جماعتوں نے چھوڑ دینا چاہا ۔ طائفۃ سے ایک فرد بھی مراد ہوسکتا ہے مگر جب طائفۃ سے جماعت مراد لی جائے تو یہ طائف کی جمع ہوگا ۔ اور جب اس سے واحد مراد ہو تو اس صورت میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جمع بول کر مفر د سے کنایہ کیا ہو اور یہ بھی کہ راویۃ وعلامۃ کی طرح مفرد ہو اور اس میں تا برائے مبالغہ ہو )- أخذ - الأَخْذُ : حوز الشیء وتحصیله، وذلک تارةً بالتناول نحو : مَعاذَ اللَّهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنا مَتاعَنا عِنْدَهُ [يوسف 79] ، وتارةً بالقهر نحو قوله تعالی: لا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلا نَوْمٌ [ البقرة 255] - ( اخ ذ) الاخذ - ۔ کے معنی ہیں کسی چیز کو حاصل کرلینا جمع کرلینا اور احاطہ میں لے لینا اور یہ حصول کبھی کسی چیز کو پکڑلینے کی صورت میں ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ مَعَاذَ اللهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنَا مَتَاعَنَا عِنْدَهُ ( سورة يوسف 79) خدا پناہ میں رکھے کہ جس شخص کے پاس ہم نے اپنی چیز پائی ہے اس کے سو اہم کسی اور پکڑ لیں اور کبھی غلبہ اور قہر کی صورت میں جیسے فرمایا :۔ لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ ( سورة البقرة 255) نہ اس پر اونگھ غالب آسکتی اور نہ ہ نیند ۔ محاورہ ہے ۔- سلح - السِّلَاحُ : كلّ ما يقاتل به، وجمعه أَسْلِحَةٌ ، قال تعالی: وَلْيَأْخُذُوا حِذْرَهُمْ وَأَسْلِحَتَهُمْ [ النساء 102] ، أي : أمتعتهم، والْإِسْلِيحُ : نبت إذا أكلته الإبل غزرت وسمنت، وكأنّما سمّي بذلک لأنها إذا أكلته أخذت السّلاح، أي : منعت أن تنحر، إشارة إلى ما قال الشاعر :- أزمان لم تأخذ عليّ سلاحها ... إبلي بجلّتها ولا أبكارها - «2» والسُّلَاحُ : ما يقذف به البعیر من أكل الْإِسْلِيحِ ، وجعل کناية عن کلّ عذرة حتی قيل في الحباری: سلاحه سلاحه - ( س ل ح ) السلاح ( ساز جنگ ) یعنی ہر اس چیز کو کہتے ہیں جس کے ساتھ لڑائی کی جائے جیسے تلوار کمان نیزہ چوب دستی وغیرہ اس کی جمع اسلحۃ آتی ہے قرآن میں ہے : وَلْيَأْخُذُوا حِذْرَهُمْ وَأَسْلِحَتَهُمْ [ النساء 102] اور ہوشیار اور مسلح ہو کر ( تمہارے ساتھ نماز ادا کریں ) الاسلیح ۔ ایک قسم کی گھاس ہے جس کے کھانے سے اونٹ موٹے ہوجاتے ہیں ۔ مادہ اونٹنی کھالے تو اس کا دودھ بڑھ جاتا ہے گویا وہ موٹے ہوکر مسلح ہوگئے اور ذبح ہونے سے بچ گئے ۔ جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ( الکامل ) ( 234 ) أزمان لم تأخذ عليّ سلاحها ... إبلي بجلّتها ولا أبكارها اس زمانہ میں جب کہ میرے بڑے اور جوان اونٹوں نے ہتھیار نہیں پہنے تھے یعنی موٹے نہیں ہوئے تھے ۔ السلاح : اصل میں اونٹ کے اس گوبر کو کہتے ہیں جو اسلیح گھاس کھانے کے بعد کرتا ہے پھر بطور کنایہ ہر فضلہ پر بولا جاتا ہے حتٰی کہ حباری جانور کے متعلق مشہور محاورہ ہے ۔ سلاحہ سلاحہ کہ اسکا فضلہ ہی اسکا ہتھیار ہے - سجد - السُّجُودُ أصله : التّطامن «3» والتّذلّل، وجعل ذلک عبارة عن التّذلّل لله وعبادته، وهو عامّ في الإنسان، والحیوانات، والجمادات،- وذلک ضربان : سجود باختیار،- ولیس ذلک إلا للإنسان، وبه يستحقّ الثواب، نحو قوله : فَاسْجُدُوا لِلَّهِ وَاعْبُدُوا[ النجم 62] ، أي : تذللوا له، - وسجود تسخیر،- وهو للإنسان، والحیوانات، والنّبات، وعلی ذلک قوله : وَلِلَّهِ يَسْجُدُ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً وَظِلالُهُمْ بِالْغُدُوِّ وَالْآصالِ [ الرعد 15] - ( س ج د ) السجود - ( ن ) اسکے اصل معنی فرو تنی اور عاجزی کرنے کے ہیں اور اللہ کے سامنے عاجزی اور اس کی عبادت کرنے کو سجود کہا جاتا ہے اور یہ انسان حیوانات اور جمادات سب کے حق میں عام ہے ( کیونکہ )- سجود کی دو قسمیں ہیں ۔ سجود اختیاری - جو انسان کے ساتھ خاص ہے اور اسی سے وہ ثواب الہی کا مستحق ہوتا ہے جیسے فرمایا :- ۔ فَاسْجُدُوا لِلَّهِ وَاعْبُدُوا[ النجم 62] سو اللہ کے لئے سجدہ کرو اور اسی کی ) عبادت کرو ۔- سجود تسخیر ی - جو انسان حیوانات اور جمادات سب کے حق میں عام ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ : وَلِلَّهِ يَسْجُدُ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً وَظِلالُهُمْ بِالْغُدُوِّ وَالْآصالِ [ الرعد 15]- اور فرشتے ) جو آسمانوں میں ہیں اور جو ( انسان ) زمین میں ہیں ۔ چار ونا چار اللہ ہی کو سجدہ کرتے ہیں اور صبح وشام ان کے سایے ( بھی اسی کو سجدہ کرتے ہیں اور صبح وشام ان کے سایے ( بھی اسی کو سجدہ کرتے ہیں )- وراء - ( وَرَاءُ ) إذا قيل : وَرَاءُ زيدٍ كذا، فإنه يقال لمن خلفه . نحو قوله تعالی:- وَمِنْ وَراءِ إِسْحاقَ يَعْقُوبَ [هود 71] ،- ( و ر ی ) واریت - الورآء کے معنی خلف یعنی پچھلی جانب کے ہیں مثلا جو زہد کے پیچھے یا بعد میں آئے اس کے متعلق ورآء زید کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَمِنْ وَراءِ إِسْحاقَ يَعْقُوبَ [هود 71] اور اسحاق کے بعد یعقوب کی خوش خبری دی ۔ - أتى- الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه : أَتِيّ وأَتَاوِيّ وبه شبّه الغریب فقیل : أتاويّ والإتيان يقال للمجیء بالذات وبالأمر وبالتدبیر، ويقال في الخیر وفي الشر وفي الأعيان والأعراض، نحو قوله تعالی: إِنْ أَتاكُمْ عَذابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام 40]- ( ا ت ی ) الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے اور اس سے بطور تشبیہ مسافر کو اتاوی کہہ دیتے ہیں ۔ الغرض اتیان کے معنی " آنا " ہیں خواہ کوئی بذاتہ آئے یا اس کا حکم پہنچے یا اس کا نظم ونسق وہاں جاری ہو یہ لفظ خیرو شر اور اعیان و اعراض سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام : 40] اگر تم پر خدا کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو۔- حذر - الحَذَر : احتراز من مخیف، يقال : حَذِرَ حَذَراً ، وحذرته، قال عزّ وجل : يَحْذَرُ الْآخِرَةَ [ الزمر 9] ، وقرئ : وإنّا لجمیع حَذِرُون، وحاذِرُونَ 3» ، وقال تعالی: وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ- [ آل عمران 28] ، وقال عزّ وجل : خُذُوا حِذْرَكُمْ [ النساء 71] ، أي : ما فيه الحذر من السلاح وغیره، وقوله تعالی: هُمُ الْعَدُوُّ فَاحْذَرْهُمْ [ المنافقون 4] ، وقال تعالی:- إِنَّ مِنْ أَزْواجِكُمْ وَأَوْلادِكُمْ عَدُوًّا لَكُمْ فَاحْذَرُوهُمْ [ التغابن 14] ، وحَذَارِ ، أي : احذر، نحو :- مناع، أي : امنع .- ( ح ذ ر) الحذر ( س) خوف زدہ کرنے والی چیز سے دور رہنا کہا جاتا ہے حذر حذرا وحذرتہ میں اس سے دور رہا ۔ قرآن میں ہے :۔ يَحْذَرُ الْآخِرَةَ [ الزمر 9] آخرت سے ڈرتا ہو ۔ وإنّا لجمیع حَذِرُون، وحاذِرُونَاور ہم سب باسازو سامان ہیں ۔ ایک قرآت میں حذرون ہے هُمُ الْعَدُوُّ فَاحْذَرْهُمْ [ المنافقون 4] یہ تمہاری دشمن میں ان سے محتاط رہنا ۔ إِنَّ مِنْ أَزْواجِكُمْ وَأَوْلادِكُمْ عَدُوًّا لَكُمْ فَاحْذَرُوهُمْ [ التغابن 14] تمہاری عورتوں اور اولاد میں سے بعض تمہارے دشمن ( بھی ) ہیں سو ان سے بچتے رہو۔ حذر ۔ کسی امر سے محتاط رہنے کے لئے کہنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران 28] اور خدا تم کو اپنے ( غضب ) سے محتاط رہنے کی تلقین کرنا ہے الحذر بچاؤ ۔ اور آیت کریمہ :۔ خُذُوا حِذْرَكُمْ [ النساء 71] جہاد کے لئے ) ہتھیار لے لیا کرو ۔ میں حذر سے مراد اسلحۃ جنگ وغیرہ ہیں جن کے ذریعہ دشمن سے بچاؤ حاصل ہوتا ہے حذار ( اسم فعل بمعنی امر ) بچو جیسے مناع بمعنی امنع - خوف - الخَوْف : توقّع مکروه عن أمارة مظنونة، أو معلومة، كما أنّ الرّجاء والطمع توقّع محبوب عن أمارة مظنونة، أو معلومة، ويضادّ الخوف الأمن، ويستعمل ذلک في الأمور الدنیوية والأخروية . قال تعالی: وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء 57] - ( خ و ف ) الخوف ( س )- کے معنی ہیں قرآن دشواہد سے کسی آنے والے کا خطرہ کا اندیشہ کرنا ۔ جیسا کہ کا لفظ قرائن دشواہد کی بنا پر کسی فائدہ کی توقع پر بولا جاتا ہے ۔ خوف کی ضد امن آتی ہے ۔ اور یہ امور دنیوی اور آخروی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے : قرآن میں ہے : ۔ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء 57] اور اس کی رحمت کے امید وار رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے خوف رکھتے ہیں ۔ - ودد - الودّ : محبّة الشیء، وتمنّي كونه، ويستعمل في كلّ واحد من المعنيين علی أن التّمنّي يتضمّن معنی الودّ ، لأنّ التّمنّي هو تشهّي حصول ما تَوَدُّهُ ، وقوله تعالی: وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَوَدَّةً وَرَحْمَةً [ الروم 21]- ( و د د ) الود ۔- کے معنی کسی چیز سے محبت اور اس کے ہونے کی تمنا کرنا کے ہیں یہ لفظ ان دونوں معنوں میں الگ الگ بھی استعمال ہوتا ہے ۔ اس لئے کہ کسی چیز کی تمنا اس کی محبت کے معنی کو متضمعن ہوتی ہے ۔ کیونکہ تمنا کے معنی کسی محبوب چیز کی آرزو کرنا کے ہوتے ہیں ۔ اور آیت : ۔ وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَوَدَّةً وَرَحْمَةً [ الروم 21] اور تم میں محبت اور مہربانی پیدا کردی ۔- لو - لَوْ : قيل : هو لامتناع الشیء لامتناع غيره، ويتضمّن معنی الشرط نحو : قوله تعالی: قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ [ الإسراء 100] .- ( لو ) لو ( حرف ) بعض نے کہا ہے کہ یہ امتناع الشئی لا متناع غیر ہ کے لئے آتا ہے ( یعنی ایک چیز کا دوسری کے امتناع کے سبب ناممکن ہونا اور معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ [ الإسراء 100] کہہ دو کہ اگر میرے پروردگار کی رحمت کے خزانے تمہارے ہاتھ میں ہوتے ۔ - غفل - الغَفْلَةُ : سهو يعتري الإنسان من قلّة التّحفّظ والتّيقّظ، قال تعالی: لَقَدْ كُنْتَ فِي غَفْلَةٍ مِنْ هذا[ ق 22] - ( غ ف ل ) الغفلتہ - ۔ اس سہو کو کہتے ہیں جو قلت تحفظ اور احتیاط کی بنا پر انسان کو عارض ہوجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ لَقَدْ كُنْتَ فِي غَفْلَةٍ مِنْ هذا[ ق 22] بیشک تو اس سے غافل ہو رہا تھا - ميل - المَيْلُ : العدول عن الوسط إلى أَحَد الجانبین، والمَالُ سُمِّي بذلک لکونه مائِلًا أبدا وزَائلا،- ( م ی ل ) المیل - اس کے معنی وسط سے ایک جانب مائل ہوجانے کے ہیں اور المال کو مال اس لئے کہا جاتا ہے ۔ کہ وہ ہمیشہ مائل اور زائل ہوتا رہتا ہے ۔ - جناح - وسمي الإثم المائل بالإنسان عن الحق جناحا ثم سمّي كلّ إثم جُنَاحاً ، نحو قوله تعالی: لا جُناحَ عَلَيْكُمْ في غير موضع، وجوانح الصدر :- الأضلاع المتصلة رؤوسها في وسط الزور، الواحدة : جَانِحَة، وذلک لما فيها من المیل - اسی لئے ہر وہ گناہ جو انسان کو حق سے مائل کردے اسے جناح کہا جاتا ہے ۔ پھر عام گناہ کے معنی میں یہ لفظ استعمال ہونے لگا ہے ۔ قرآن میں متعدد مواضع پر آیا ہے پسلیاں جن کے سرے سینے کے وسط میں باہم متصل ہوتے ہیں اس کا واحد جانحۃ ہے اور ان پسلیوں کو جو انح اسی لئے کہا جاتا ہے کہ ان میں میلان یعنی خم ہوتا ہے ۔- أذي - الأذى: ما يصل إلى الحیوان من الضرر إمّا في نفسه أو جسمه أو تبعاته دنیویاً کان أو أخرویاً ، قال تعالی: لا تُبْطِلُوا صَدَقاتِكُمْ بِالْمَنِّ وَالْأَذى [ البقرة 264] - ( ا ذ ی ) الاذیٰ ۔- ہرا س ضرر کو کہتے ہیں جو کسی جاندار کو پہنچتا ہے وہ ضرر جسمانی ہو یا نفسانی یا اس کے متعلقات سے ہو اور پھر وہ ضرر دینوی ہو یا اخروی چناچہ قرآن میں ہے : ۔ لَا تُبْطِلُوا صَدَقَاتِكُمْ بِالْمَنِّ وَالْأَذَى ( سورة البقرة 264) اپنے صدقات ( و خیرات ) کو احسان جتا کر اور ایذا دے کر برباد نہ کرو ۔ - مطر - المَطَر : الماء المنسکب، ويومٌ مَطِيرٌ وماطرٌ ، ومُمْطِرٌ ، ووادٍ مَطِيرٌ. أي : مَمْطُورٌ ، يقال : مَطَرَتْنَا السماءُ وأَمْطَرَتْنَا، وما مطرت منه بخیر، وقیل : إنّ «مطر» يقال في الخیر، و «أمطر» في العذاب، قال تعالی: وَأَمْطَرْنا عَلَيْهِمْ مَطَراً فَساءَ مَطَرُ الْمُنْذَرِينَ [ الشعراء 173] - ( م ط ر ) المطر - کے معنی بارش کے ہیں اور جس دن بارش بر سی ہوا سے ويومٌ مَطِيرٌ وماطرٌ ، ومُمْطِرٌ ، ووادٍ مَطِيرٌ. کہتے ہیں واد مطیر باراں رسیدہ وادی کے معنی بارش بر سنا کے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ مطر اچھی اور خوشگوار بارش کے لئے بولتے ہیں اور امطر عذاب کی بارش کیلئے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَأَمْطَرْنا عَلَيْهِمْ مَطَراً فَساءَ مَطَرُ الْمُنْذَرِينَ [ الشعراء 173] اور ان پر ایک بارش بر سائی سو جو بارش ان ( لوگوں ) پر برسی جو ڈرائے گئے تھے بری تھی ۔- مرض - الْمَرَضُ : الخروج عن الاعتدال الخاصّ بالإنسان، وذلک ضربان :- الأوّل : مَرَضٌ جسميٌّ ، وهو المذکور في قوله تعالی: وَلا عَلَى الْمَرِيضِ حَرَجٌ- [ النور 61] ، وَلا عَلَى الْمَرْضى[ التوبة 91] .- والثاني : عبارة عن الرّذائل کالجهل، والجبن، والبخل، والنّفاق، وغیرها من الرّذائل الخلقيّة .- نحو قوله : فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزادَهُمُ اللَّهُ مَرَضاً [ البقرة 10] ، أَفِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ أَمِ ارْتابُوا [ النور 50] ، وَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزادَتْهُمْ رِجْساً إِلَى رِجْسِهِمْ [ التوبة 125]- ( م ر ض ) المرض کے معنی ہیں انسان کے مزاج خصوصی کا اعتدال اور توازن کی حد سے نکل جانا اور یہ دوقسم پر ہے ۔ مرض جسمانی جیسے فرمایا : وَلا عَلَى الْمَرِيضِ حَرَجٌ [ النور 61] اور نہ بیمار پر کچھ گناہ ہے ۔ وَلا عَلَى الْمَرْضى[ التوبة 91] اور نہ بیماروں پر ۔- دوم مرض کا لفظ اخلاق کے بگڑنے پر بولا جاتا ہے اور اس سے جہالت بزدلی ۔ بخل ، نفاق وغیرہ جیسے اخلاق رزیلہ مراد ہوتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزادَهُمُ اللَّهُ مَرَضاً [ البقرة 10] ان کے دلوں میں کفر کا مرض تھا ۔ خدا نے ان کا مرض اور زیادہ کردیا ۔ أَفِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ أَمِ ارْتابُوا [ النور 50] گناہ ان کے دلوں میں بیماری ہے یا یہ شک میں ہیں ۔ وَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزادَتْهُمْ رِجْساً إِلَى رِجْسِهِمْ [ التوبة 125] اور جن کے دلوں میں مرض ہے ۔ ان کے حق میں خبث پر خبث زیادہ کیا ۔ - عد ( اعداد)- والإِعْدادُ مِنَ العَدِّ كالإسقاء من السَّقْيِ ، فإذا قيل : أَعْدَدْتُ هذا لك، أي : جعلته بحیث تَعُدُّهُ وتتناوله بحسب حاجتک إليه . قال تعالی:- وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ [ الأنفال 60] ، وقوله : أُولئِكَ أَعْتَدْنا لَهُمْ عَذاباً أَلِيماً [ النساء 18] ، وَأَعْتَدْنا لِمَنْ كَذَّبَ [ الفرقان 11] ، وقوله : وَأَعْتَدَتْ لَهُنَّ مُتَّكَأً [يوسف 31] ، قيل : هو منه، وقوله : فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ [ البقرة 184] ، أي : عدد ما قد فاته، وقوله : وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ [ البقرة 185] ، أي : عِدَّةَ الشّهر، وقوله : أَيَّاماً مَعْدُوداتٍ- [ البقرة 184] ، فإشارة إلى شهر رمضان . وقوله : وَاذْكُرُوا اللَّهَ فِي أَيَّامٍ مَعْدُوداتٍ [ البقرة 203] ، فهي ثلاثة أيّام بعد النّحر، والمعلومات عشر ذي الحجّة . وعند بعض الفقهاء : المَعْدُودَاتُ يومُ النّحر ويومان بعده فعلی هذا يوم النّحر يكون من المَعْدُودَاتِ والمعلومات، والعِدَادُ : الوقت الذي يُعَدُّ لمعاودة الوجع، وقال عليه الصلاة والسلام :«ما زالت أكلة خيبر تُعَادُّنِي» وعِدَّانُ الشیءِ : عهده وزمانه .- ( ع د د ) العدد - الاعداد تیار کرنا مہیا کرنا یہ عد سے ہے جیسے سقی سے اسقاء اور اعددت ھذا لک کے منعی ہیں کہ یہ چیز میں نے تمہارے لئے تیار کردی ہے کہ تم اسے شمار کرسکتے ہو اور جس قدر چاہو اس سے حسب ضرورت لے سکتے ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ [ الأنفال 60] اور جہاں تک ہوسکے ( فوج کی جمیعت سے ) ان کے ( مقابلے کے لئے مستعد رہو ۔ اور جو ) کافروں کے لئے تیار کی گئی ہے ۔ اور اس نے ان کے لئے باغات تیار کئے ہیں ۔ أُولئِكَ أَعْتَدْنا لَهُمْ عَذاباً أَلِيماً [ النساء 18] ایسے لوگوں کے لئے ہم نے عذاب الیم تیار کر رکھا ہے وَأَعْتَدْنا لِمَنْ كَذَّبَ [ الفرقان 11] اور ہم نے جھٹلا نے والوں کے لئے دوزخ تیار کر رکھی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَأَعْتَدَتْ لَهُنَّ مُتَّكَأً [يوسف 31] اور ان کے لئے ایک محفل مرتب کی ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ اعتدت بھی اسی ( عد ) سے ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ [ البقرة 185] تم روزوں کا شمار پورا کرلو ۔ کے معنی یہ ہیں کہ تم ماہ رمضان کی گنتی پوری کرلو ۔ أَيَّاماً مَعْدُوداتٍ [ البقرة 184] گنتی کے چند روز میں ماہ رمضان کی طرف اشارہ ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَاذْكُرُوا اللَّهَ فِي أَيَّامٍ مَعْدُوداتٍ [ البقرة 203] اور گنتی کے دنوں میں خدا کو یاد کرو ۔ میں سے عید قربان کے بعد کے تین دن مراد ہیں اور معلومات سے ذوالحجہ کے دس دن بعض فقہاء نے کہا ہے کہ ایام معدودۃ سے یوم النحر اور اس کے بعد کے دو دن مراد ہیں اس صورت میں یوم النحر بھی ان تین دنوں میں شامل ہوگا ۔ العداد اس مقرر وقت کو کہتے ہیں جس میں بیماری کا دورہ پڑتا ہو ۔ آنحضرت نے فرمایا مازالت امۃ خیبر تعادنی کہ خیبر کے دن جو مسموم کھانا میں نے کھایا تھا اس کی زہر بار بار عود کرتی رہی ہے عد ان الشئی کے معنی کسی چیز کے موسم یا زمانہ کے ہیں - كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔- عذب - والعَذَابُ : هو الإيجاع الشّديد، وقد عَذَّبَهُ تَعْذِيباً : أكثر حبسه في - العَذَابِ. قال : لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل 21]- واختلف في أصله، فقال بعضهم : هو من قولهم : عَذَبَ الرّجلُ : إذا ترک المأكل والنّوم فهو عَاذِبٌ وعَذُوبٌ ، فَالتَّعْذِيبُ في الأصل هو حمل الإنسان أن يُعَذَّبَ ، أي : يجوع ويسهر،- ( ع ذ ب )- العذاب - سخت تکلیف دینا عذبہ تعذیبا اسے عرصہ دراز تک عذاب میں مبتلا رکھا ۔ قرآن میں ہے ۔ لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل 21] میں اسے سخت عذاب دوں گا ۔ - لفظ عذاب کی اصل میں اختلاف پا یا جاتا ہے - ۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ عذب ( ض ) الرجل کے محاورہ سے مشتق ہے یعنی اس نے ( پیاس کی شدت کی وجہ سے ) کھانا اور نیند چھوڑدی اور جو شخص اس طرح کھانا اور سونا چھوڑ دیتا ہے اسے عاذب وعذوب کہا جاتا ہے لہذا تعذیب کے اصل معنی ہیں کسی کو بھوکا اور بیدار رہنے پر اکسانا - هان - الْهَوَانُ علی وجهين :- أحدهما : تذلّل الإنسان في نفسه لما لا يلحق به غضاضة، فيمدح به نحو قوله : وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان 63] ونحو ما روي عن النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم :«المؤمن هَيِّنٌ ليّن»- الثاني : أن يكون من جهة متسلّط مستخفّ به - فيذمّ به . وعلی الثاني قوله تعالی: الْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذابَ الْهُونِ [ الأنعام 93] ، فَأَخَذَتْهُمْ صاعِقَةُ الْعَذابِ الْهُونِ [ فصلت 17] ، وَلِلْكافِرِينَ عَذابٌ مُهِينٌ [ البقرة 90] ، وَلَهُمْ عَذابٌ مُهِينٌ [ آل عمران 178] ، فَأُولئِكَ لَهُمْ عَذابٌ مُهِينٌ [ الحج 57] ، وَمَنْ يُهِنِ اللَّهُ فَما لَهُ مِنْ مُكْرِمٍ [ الحج 18] ويقال : هانَ الأمْرُ علی فلان : سهل . قال اللہ تعالی: هُوَ عَلَيَّ هَيِّنٌ [ مریم 21] ، وَهُوَ أَهْوَنُ عَلَيْهِ [ الروم 27] ، وَتَحْسَبُونَهُ هَيِّناً [ النور 15] والْهَاوُونَ : فاعول من الهون، ولا يقال هارون، لأنه ليس في کلامهم فاعل .- ( ھ و ن ) الھوان - اس کا استعمال دو طرح پر ہوتا ہے انسان کا کسی ایسے موقعہ پر نر می کا اظہار کرتا جس میں اس کی سبکی نہ ہو قابل ستائش ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان 63] اور خدا کے بندے تو وہ ہیں جو زمین پر متواضع ہوکر چلتے ہیں ۔ اور آنحضرت سے مروی ہے کہ مومن متواضع اور نرم مزاج ہوتا ہے - دوم ھان بمعنی ذلت - اور رسوائی کے آتا ہے یعنی دوسرا انسان اس پر متسلط ہو کت اسے سبکسار کرے تو یہ قابل مذمت ہے چناچہ اس معنی میں فرمایا : ۔ الْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذابَ الْهُونِ [ الأنعام 93] سو آج تم کو ذلت کا عذاب ہے ۔ فَأَخَذَتْهُمْ صاعِقَةُ الْعَذابِ الْهُونِ [ فصلت 17] تو کڑک نے ان کو آپکڑا اور وہ ذلت کا عذاب تھا وَلِلْكافِرِينَ عَذابٌ مُهِينٌ [ البقرة 90] اور کافروں کے لئے ذلیل کرنے والا عذاب ہے ۔ وَلَهُمْ عَذابٌ مُهِينٌ [ آل عمران 178] اور آخر کار ان کو ذلیل کرنے والا عذاب ہوگا ۔ فَأُولئِكَ لَهُمْ عَذابٌ مُهِينٌ [ الحج 57] انکے لئے ذلیل کرنے والا عذاب ہوگا ۔ وَمَنْ يُهِنِ اللَّهُ فَما لَهُ مِنْ مُكْرِمٍ [ الحج 18] اور جس کو خدا ذلیل کرے اس کو کوئی عزت دینے والا نہیں ۔ علی کے ساتھ کے معنی کسی معاملہ کے آسان ہو نیکے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ هُوَ عَلَيَّ هَيِّنٌ [ مریم 21] کہ بی مجھے آسان ہے ۔ وَهُوَ أَهْوَنُ عَلَيْهِ [ الروم 27] اور یہ اس پر بہت آسان ہے ۔ وَتَحْسَبُونَهُ هَيِّناً [ النور 15] اور تم اسے ایک ہل کہ بات سمجھتے ہو ۔ ھاودن کمزور یہ ھون سے ہے اور چونکہ فاعل کا وزن کلام عرب میں نہیں پایا اسلئے ھاون کی بجائے ہارون بروزن فا عول کہا جاتا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

صلوٰۃ الخوف کا بیان - قول باری ہے ( واذا کنت فیھم فاقمت لھم الصلوٰۃ فلتقم طائفۃ منھم معک۔ اور اے نبی جب تم مسلمانوں کے درمیان ہو اور ( حالت جنگ میں) انہیں نماز پڑھانے کے لیے کھڑے ہو تو چاہیے کہ ان میں سے ایک گروہ تمہارے ساتھ کھڑا ہو) تا آخر آیت۔ ابوبکر جصاص کہتےیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے صلوٰۃ الخوف مختلف صورتوں میں منقول ہے۔ اس لیے فقہاء امصار کا اس بارے میں اختلاف رائے ہوگیا ہے۔ امام اوب حنیفہ اور امام محمد کا قول ہے کہ ایک گروہ امام کے ساتھ کھڑا ہوگا اور دوسرا گروہ دشمن کے سامنے کھڑا ہوگا۔ امام پہلے گروہ کو ایک رکعت دو سجدوں کے ساتھ پڑھائے گا اور اس کے بعد یہ لوگ اپنے دوسرے ساتھیوں کی جگہ چلے جائیں گے پھر دشمن کے سامنے کھڑا ہونے والا دوسرا گروہ آئے گا۔ امام اسے ایک رکعت دو سجوں کے ساتھ پڑھائے گا، امام تو سلام پھیر دے گا اور مقتدی واپس اپنی جگہ چلے جائیں گے۔ پھر دشمن کے مقابلے پر کھڑا ہونے والا گروہ آئے گا اور آ کر ایک رکعت قرأت کے بغیر ادا کرے گا اور تشہد کے بعد سلام پھیر دے گا۔ یہ گروہ پھر دشمن کے سامنے چلا جائے گا اور دوسرا آ کر قرأت اور دو سجدوں کے ساتھ ادا کرے گا۔- قاضی ابن ابی لیلیٰ کا قول ہے کہ اگر دشمن مسلمانوں کی صفوں اور قبلہ کے درمیان صف آرا ہو تو امام تمام لوگوں کو دو گروہوں میں تقسیم کر دے گا۔ تمام لوگ امام کے ساتھ تکبیر کہیں گے اور رکوع کریں گے لیکن سجدہ کرتے وقت پہلی صف امام کے ساتھ سجدے میں جائے گی اور دوسری صف دشمن کے سامنے کھڑی رہے گی جب یہ لوگ سجدہ کر کے اٹھ کھڑے ہوں گے تو دوسری صف والے سکدے میں جائیں گے۔ جب یہ لوگ سجدے سے فارغ ہوجائیں گے تو سیدھے کھڑے ہوجائیں گے پھر اگلی صف والے پیچھے آ جائیں گے اور پچھلی صف والے آگے چلے جائیں گے۔ اس کے بعد امام سب کو دوسری رکعت اس طرح پڑھائے گا جس طرح پہلی رکعت پڑھائی تھی۔ اگر دشمن قبلے کی پچھلی طرف ہو تو امام کے ساتھ ایک صف ہوگی جس کا منہ قبلے کی طرف ہوگا دوسری صف کا رخ دشمن کی طرف ہوگا۔- امام کے ساتھ سب تکبیر کہیں گے اور رکوع کریں گے۔ پھر امام کے ساتھ والی صف دو سجدے کرے گی اور اس کے بعد یہ لوگ واپس جا کر دشمن کی طرف رخ کر کے کھڑے ہوجائیں گے پھر دوسری صف والے آ کر دو سجدے کریں گے اس کے بعد امام سب کو دوسری رکعت پڑھائے گا۔ سب کے سب امام کے ساتھ رکوع میں جائیں گے اور امام کے ساتھ والی صف کے لوگ سجدہ کریں گے پھر یہ لوگ دشمن کے سامنے جا کھڑے ہوں گے اور دسورے لوگ آ کر امام کے ساتھ سجدہ کریں گے اور سجدے سے فارغ ہوجائیں گے پھر امام سب کے ساتھ سلام پھیر دے گا۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ امام ابو یوسف سے صلوۃ الخوف کے بارے تین روایتیں منقول ہیں ایک روایت تو امام ابوحنیفہ اور امام محمد کے قول کی مطابقت میں ہے۔ دوسری روایت ابن ابی لیلیٰ کے قول کے مطابق ہے جب دشمن قبلے کی سمت موجود ہو۔ اگر دشمن غیر قبلہ کی سمت میں موجود ہو تو اس صورت میں روایت کے مطابق امام ابوحنیفہ کے قول کے ساتھ ہے۔- امام ابو یوسف سے تیسری روایت ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد ایک امام صلوٰۃ الخوف نہیں پڑھائے گا بلکہ یہ نماز دوسری نمازوں کی طرح پڑھی جائے گی اور اسے دو امام پڑھائیں گے۔ سفیان ثوری سے امام ابوحنیفہ کے قول کی مطابقت میں روایت منقول ہے۔ ان سے ابن ابی لیلیٰ کے قول کی مطابقت میں بھی روایت منقول ہے، ثوری نے کہا ہے کہ اگر تم اس طرح بھی پڑھ لو تو جائز ہے۔ امام مالک کا قول ہے کہ امام ایک گروہ کی امامت کرے گا اور دوسرا گروہ دشمن کے مقابلے میں کھڑا رہے گا۔- امام پہلے گروہ کو دو سجدوں کے ساتھ ایک رکعت پڑھائے گا اس کے بعد امام کھڑا رہے گا اور اس کے ساتھ والا گروہ خود دوسری رکعت ادا کرے گا اور تشہد کے بعد سلام پھیر لے گا۔ پھر یہ لوگ دشمن کے سامنے چلے جائیں گے اور دوسرے گروہ کی جگہ کھڑے ہوجائیں گے۔ اس کے بعد دوسرا گروہ آ جائے گا امام انہیں دو سجدوں کے ساتھ ایک رکعت پڑھائے گا اس کے بعد یہ لوگ تشہد پڑھیں گے اور پھر امام سلام پھیر دے گا۔ یہ لوگ کھڑے ہو کر خود باقیماندہ دوسری رکعت پوری کرلیں گے۔ ابن قاسم کہتے ہیں کہ امام مالک کا قول ہے کہ امام اس وقت تک سلام نہیں پھیرے گا جب تک دوسرا گروہ اپنی رکعت پوری نہیں کرلے گا اس کے بعد امام ان کے ساتھ سلام پھیرے گا۔ امام مالک کا یہ قول یزید بن رومان کی روایت کی بنا پر تھا۔ پھر امام مالک نے قاسم بن محمد کی روایت کی طرف رجوع کرلیا۔- اس روایت کے مطابق امام سلام پھیرے گا پھر دوسرا گروہ قیام کرے گا اور اپنی رکعت پوری کرلے گا۔ امام شافعی نے امام مالک کی طرح قول کیا ہے البتہ انہوں نے یہ کا ہے کہ امام اس وقت تک سلام نہیں پھیرے گا جب تک دوسرا گروہ اپنی رکعت خود مکمل نہیں کرلے گا۔ اس کے بعد امام سب کے ساتھ سلام پھیرے گا۔ حسن بن صالح کا قول امام ابوحنیفہ کے قول کی طرح ہے البتہ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ دوسرا گروہ جب امام کے ساتھ ایک رکعت پڑھ لے گا اور اس کے بعد امام سلام پھیر لے گا تو یہ گروہ وہ خود اس رکعت کی ادائیگی کرے گا جو اس نے امام کے ساتھ نہیں پڑھا تھا اس کے بعد یہ گروہ واپس چلا جائے گا اور پہلا گروہ آ کر اپنی باقی ماندہ نماز کی ادائیگی کرے گا۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں صلوٰۃ الخوف کی کیفیت کے متعلق درج بالا تمام اقوال میں ظاہر قرآن کی موافقت کے لحاظ سے سب سے بڑھ کر اگر کوئی قول ہے تو وہ امام ابوحنیفہ اور امام محمد قول ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ قول باری ہے ( واذا کنت فیھم فاقمت لھم الصلوٰۃ فلتقم طائفۃ منھم معک۔ اس ضمن میں یہ بات موجود ہے کہ دوسرا گروہ دشمن کے سامنے موجود رہے گا اس لیے کہ ارشاد ہے اولیاء خذوا اسلحتھم اور انہیں اپنا اسلحہ اپنے ہاتھوں میں رکھنا چاہیے) اس حکم سے وہ گروہ مراد لینا بھی درست ہے جو دشمن کے سامنے موجود رہتا ہے اور وہ گروہ بھی مراد ہوسکتا ہے جو نماز میں مصرف ہے۔ لیکن اولیٰ اور مناسب بات یہ ہ کہ اس سے مراد دشمن کے سامنے موجود گروہ مراد لیا جائے اس لیے کہ یہ گروہ تمام پڑھنے والے گروہ کی حفاظت پر مامور ہوتا ہے۔ - اس سے یہ بات بھی سمجھ میں آتی ہے کہ تمام لوگ امام کے ساتھ نماز میں شامل نہیں ہوں گے اگر سب کے سب امام کے ساتھ ہوتے تو پھر قرآن کے بیان کے مطابق صرف ایک گروہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ نہ ہوتا بلکہ کے تمام لوگ آپ کے ساتھ نماز میں شریک ہوتے۔ یہ بات آیت کے خلاف ہے۔ پھر ارشاد ہوا ( فاذا سجدو فکیکونوا من ورائکم، جب یہ سجدہ کرلیں تو تمہارے پیچھے پہنچ جائیں۔ امام مالک کے مسلک کے مطاق پہلے اپنی نماز پوری کریں گے اور نماز پوری کرنے کے بعد دوسروں کے پیچھے چلے جائیں گے جبکہ آیت میں اللہ کا حکم یہ ہے کہ سجدہ کرنے کے بعد ہی وہ دوسروں کے پیچھے پہنچ جائیں یہ بات ہمارے قول کے موافق ہے۔ پھر ارشاد ہوا ( ولتات طآئفۃ اخری لم یصلو فلیصلوا معک ۔ پھر دوسرا گروہ آ جائے جس نے نماز نہیں پڑھی تھی وہ آ کر تمہارے ساتھ نماز پڑھ لے) یہ بات دو معنوں پر دلالت کرتی ہے اول یہ کہ امام بنیادی طور پر تمام مسلمانوں کے دو گروہ بنائے گا۔ ایک گروہ تو اس کے ساتھ رہے گا اور ایک گروہ دشمن کے مقابلے میں کھڑا ہوگا جس طرح امام ابوحنیفہ کا قول ہے۔- اس لیے کہ قول باری ہے ( ولتاب طآئفہ اخری) ہمارے مخالف کے مسلک کے مطابق یہ گروہ تو امام کے ساتھ ہوگا اس کے پاس نہیں آئے گا۔ دوسری وجہ یہ قول باری ہے ( کم یصلو فلیصلوا معک) یہ قول نماز کے ہر جز کی نفی کرتا ہے جب کہ ہمارے مخالف کا کہنا ہے کہ سب کے سب امام کے ساتھ نماز شروع کریں گے اس صورت میں وہ نماز کے کسی نہ کسی حصے کی ادائیگی کرلیں گے۔ جب کہ یہ بات آیت کے خلاف ہے۔ ہم نے آیت کے معنی کے یہ وجوہ جو ذکر کیے ہیں وہ امام ابوحنیفہ اور امام محمد کے مسلک کے موافق ہیں۔ ہمارا یہ مسلک حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ثابت سنت کے موافق بھی ہے۔- نیز اصول کے بھی مطابق ہے۔ وہ اس طرح کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے ( انما جعل الامام لیوتم بہ فاذا رکع فارکعوا واذا سجد فاسجدوا، امام اس لیے بنایا گیا ہے کہ اس کی اقتدا کی جائے اس لیے کہ جب وہ رکوع میں جائے تو تم بھی رکوع میں جائو اور جب وہ سجدے میں جائے تو تم بھی سجدے میں جائو) نیز فرمایا ( انی امرئوقد بدنت فلا تبادرونی یا لرکوع ولا بالسجود۔ میں ایسا شخص ہوں جن کا جسم فربہی کی بنا پر بھاری ہوچکا ہے اس لیے رکوع اور سجدے میں مجھے سے سبقت کرنے کی کوشش نہ کرو) ہمارے مخالف کا مسلک یہ ہے کہ پہلا گروہ اپنی نماز پوری کر کے امام سے پہلے ہی نماز سے باہر ہوجائے گا جبکہ اصول کے لحاظ سے بات یہ ہے کہ مقتدی امام کی متابعت پر مامور ہے اس کے لیے امام سے پہلے نماز سے خروج درست نہیں ہے۔ نیز ممکن ہے کہ امام کو سہو لاحق ہوجائے جس کی بنا پر مقتدی کو بھی سہو لازم ہوجائے۔ اب جو لوگ امام سے پہلے نماز سے نکل چکے ہوں گے ان کے لیے سجدہ سہو کرنا ممکن نہیں ہوگا۔- یہ قول ایک اور جہت سے اصول کی مخالفت کر رہا ہے وہ یہ کہ مقتدی تو اپنی نماز کی ادائیگی میں مشغول رہے گا اور امام افعال صلوٰۃ چھوڑ کر قیام یا جلوس کی شکل میں ساکن رہے گا اور اس طرح افعال صلوٰۃ میں مقتدی امام کی مخالفت کا مرتکب ہوگا اور امام مقتدی کی خاطر افعال صلوٰۃ کو ترک کرنے کا مرتکب قرار پائے گا۔ یہ بات امامت اوراقتدا دونوں کے مفعہوم کی منافی ہے، امام کو مقتدی کی خاطر افعال صلوٰۃ سے باز رہنا پڑے گا۔ یہ دونوں وجوہ بھی خارج عن الاصول ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ صلوٰۃ الخوف میں جس طرح مشی یعنی چلنے کا جواز ہے اسی طرح امام سے قبل پہلے گروہ کی نماز سے فراغت بھی جائز ہوسکتی ہے اور ممکن ہے کہ نازک حالات کے پیش نظر صلوٰۃ الخفو کی یہ خصوصیت ہو۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ نماز کے اندر مشی کی نظیر اصول میں موجود ہے وہ یہ کہ شکست کھا کر بھاگنے والا سوار بالاتفاق چلتے چلتے نماز پڑھ سکتا ہے۔ اس طرح ہماری اس بات کی اصل اور بنیاد ہے جس پر سب کا اتفاق ہے۔ اس لیے مشی کی بنا پر صلوٰۃ الخوف کے فاسد نہ ہونے کا جواز نکل آیا۔ نیز ہمارے نزدیک یہ بات ثابت شدہ ہے کہ جس شخص کو نماز کے اندرحدوث لاحق ہوجائے، وہ نماز سے ہٹ کر وضو کرے گا اور نماز کے جس حصے میں اسے حدث لاحق ہوگیا وہیں سے اگلا حصہ ادا کرے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ان کی روایت آئی ہے حضرت ابن عباس (رض) اور حضرت عائشہ (رض) نے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ (من قاء اور عف فی صلوتہ فلینصرف ولیتوضاء ولیبن علی ما مضی من صلوتہ جس شخص کو نماز کے اندر قے آ جائے یا اس کی نکسیر پھوٹ جائے تو وہ نماز سے ہٹ کر وضو کرے اور اپنی نماز کا جس قدر حصہ مکمل کرچکا ہے اس سے آگے شروع کر دے۔ اسی طرح ایک انسان رکوع کرتا ہے اور پھر پائوں سے چلتے ہوئے صف میں داخل ہوجاتا ہے اس صورت میں اس کی نماز فاسد نہیں ہوتی۔- ایک دفعہ ایسا ہوا کہ جماعت شروع ہوگئی، حضرت ابوبکر (رض) مسجد نبوی میں داخل ہوئے، اس وقت لوگ رکوع میں تھے آپ نے فوراً رکوع کیا اور چلتے ہوئے صف میں شامل ہوگئے۔ جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز پڑھا کر فارغ ہوئے تو آپ نے حضرت ابوبکر (رض) سے مخالف ہو کر فرمایا۔ ( رادک اللہ حرصاً ولا تعد اللہ تعالیٰ نماز کے لیے تمہارے شوق اور حرص کو زیادہ بڑھا دے ، تمہیں دوبارہ ایسا کرنے کی ضرورت نہیں ہے) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں نئے سرے سے نماز پڑھنے کا حکم نہیں دیا، اس طرح اصول میں نماز کے اندر چلنے کے نظائر موجود ہیں لیکن امام سے پہلے نماز سے نکل آنے کی کوئی نظیر موجود نہیں ہے اس لیے یہ جائز نہیں ہوگا۔- نیز نماز میں چلنے پر ہمارے اور امام مالک نیز امام شافعی کے مابین اتفاق ہے اور جب مشی فی الصلوٰۃ پر دلالت قائم ہوگئی تو ہم نے اسے تسلیم کرلیا۔ اس کے علاوہ دوسری بات کو اصول کی موافقت پر اس وقت تک محمول کرنا واجب ہے جب تک امام سے پہلے مقتدی کے خروج عن الصلوٰۃ کے جواز پر دلالت قائم نہ ہوجائے۔ ہماری بیان کردہ بات پر سنت کی جہت سے بھی دلالت ہو رہی ہے۔ ہمیں محمد بن بکر نے روایت بیان کی ہے، انہیں ابودائود نے، انہیں مسددد نے، انہیں یزید بن ذریع نے معمر سے ، انہوں نے زہری سے، انہوں نے سالم سے، انہوں نے اپنے والد سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک گروہ کو ایک رکعت نماز پڑھائی اور دوسرا گروہ دشمن کے سامنے کھڑا رہا۔ پھر پہلے گروہ کے لوگ پلٹ کر دوسرے گروہ کی جگہ آ گئے اور دشمن کے سامنے کھڑے ہوگئے۔ - دوسرا گروہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیچھے پہنچ گیا اور آپ نے اسے دوسری رکعت پڑھائی پھر آپ نے سلام پھیر دیا، پھر یہ لوگ کھڑے ہوگئے اور نماز پوری کرلی۔ پھر پہلے گرو نے اپنی نماز پوری کرلی۔ ابودائود نے کہا ہے کہ نافع اور خالد بن معدان نے بھی حضرت ابن عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اور انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کی روایت کی ہے۔ ابودائود نے مزید کہا ہے کہ مسروق اور یوسف بن مہران نے حضرت ابن عباس (رض) سے یہ قول نقل کیا ہے۔ اسی طرح یونس نے حسن سے اور انہوں نے حضرت ابو موسیٰ (رض) سے روایت کی ہے کہ انہوں نے اسی طرح نماز ادا کی تھی۔ حضرت ابن عمر (رض) کا یہ قول کہ ان لوگوں نے ایک رکعت ادا کی اور ان لوگوں نے ایک رکعت ادا کی۔ یہ اس پر محمول ہے کہ انہوں نے اس طریقے پر ایک ایک رکعت ادا کی جس طرح پر ادا کرنا جائز تھا وہ اس طرح کہ دوسرا گروہ پہلے گروہ کی جگہ پر لوٹ آیا۔ پھر پہلا گروہ آیا اور اس نے ایک رکعت پڑھ لی اور سلام پھیرنے کے بعد واپس چلا گیا، پھر دوسرا گروہ آیا اور ایک رکعت ادا کر کے سلام پھیرلیا۔ اس بات کو خصیف کی روایت میں بیان کیا گیا ہے جو انہوں نے ابوعبیدہ سے نقل کی ہے، انہوں نے حضرت عبداللہ سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بنو سلیم کی سیاہ پتھروں والی زمین میں صلوٰۃ الخوف ادا کی تھی، آپ قبلہ رخ کھڑے ہوگئے۔ دشمن کا رخ قبلے کی دوسری سمت تھا۔ آپ کے ساتھ ایک صف کھڑی ہوگئی۔ دوسری صف ہتھیار لے کر دشمن کے رخ کھڑی ہوگئی۔ آپ نے تکبیر کہی اور آپ کے ساتھ موجود صف والوں نے بھی تحریمہ باندھ لیا۔ پھر آپ رکوع میں گئے اور آپ کے ساتھ ان لوگوں نے بھی رکوع کیا، پھر یہ لوگ واپس ہوئے اور ہتھیار ہاتھوں میں لے کر دشمن کے سامنے کھڑے ہوگئے۔ دوسری صف والے اپنی جگہ سے چل کر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ آ کر قیام میں شامل ہوگئے۔ آپ نے ان کے ساتھ رکوع و سجود کیا اس کے بعد آپ نے سلام پھیر دیا۔ آپ کے ساتھ دوسری رکعت پڑھنے والے چلے گئے اور پہلی صف والے واپس آ گئے انہوں نے ایک رکعت پڑھ کر ہتھیار اٹھا لیے پھر دسورے گروہ کے لوگوں نے آ کر ایک رکعت پڑھ لی، اس طرح حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دو رکعتیں ہوئیں اور دونوں گروہوں کی ایک ایک رکعت ہوئی۔ - اس روایت میں یہ بیان ہوا کہ دوسرا گروہ پہلی رکعت ادا کرنے سے پہلے واپس چلا گیا تھا یعنی دوسرے گروہ نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ دوسری رکعت ادا کی تھی اور پہلی رکعت ادا کرنے سے پہلے واپس محاذ پر چلا گیا تھا، یہ اس صورت میں وضاحت ہے جسے حضرت ابن عمر (رض) نے اپنی روایت میں اجمالاً بیان کیا تھا۔ حضرت عبداللہ بن مسعود کی روایت ہے جسے ابن فضیل نے خصیف سے ، انہوں نے ابو عبیدہ سے اور انہوں نے عبداللہ بن مسعود سے نقل کی اے یہ مذکور ہے کہ دوسرے گروہ نے پہلے گروہ کی طرف سے باقیماندہ ایک رکعت کی ادائیگی سے پہلے ہی خود ایک رکعت ادا کرلی تھی۔ لیکن درست بات وہی ہے جس کا ہم نے پہلے ذکر کیا ہے اس لیے کہ پہلے گروہ کو ابتدا ہی سے نماز باجماعت مل گئی تھی اور دوسرے گروہ کو نہیں ملی تھی اس لیے دوسرے گروہ کے لیے پہلے گروہ سے قبل نماز سے خروج جائز نہیں ہوا۔ نیز پہلے گروہ کے لیے جب یہ حکم تھا کہ وہ نماز دو جگہوں پر ادا کرے تو دوسرے گروہ کے لیے بھی یہی حکم ہوگا کہ وہ دو مقامات پر اپنی نماز مکمل کرے ایک مقام پر نہیں۔ - اس لیے کہ صلوٰۃ الخوف کی صورت یہی ہوتی ہے کہ وہ دو گروہوں پر مساوی طور پر منقسم ہوتی ہے۔ امام مالک نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے جو انہوں نے یزید بن رومان سے روایت کی ہے، انہوں نے اس کی روایت صالح بن خوات سے کی ہے اور صالح نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسے ارسال کی صورت میں تقل کیا ہے۔ یعنی درمیان میں صحابی کا واسطہ موجود نہیں ہے۔ اس میں مذکور ہے کہ دوسرے گروہ نے دوسری رکعت حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے ہی پڑھ لی تھی۔ اس بات کی روایت یزید بن رومان کے سوا اور کسی نے نہیں کی ہے۔ یزید کی اس روایت کے خلاف شعبہ نے عبدالرحمن بن القاسم سے، انہوں نے اپنے والد سے، انہوں نے صالح بن خوات سے اور انہوں نے حضرت سہل بن ابی خثمہ (رض) سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں صلوٰۃ الخوف پڑھائی تھی، ایک صف آپ کے پیچھے کھڑی ہوگئی اور ایک صف دشمن کے سامنے کھڑی ہوگئی۔- آپ نے انہیں ایک رکعت پڑھائی پھر یہ لوگ چلے گئے اور دسورے لوگ آ گئے آپ نے انہیں ایک رکعت پڑھائی پھر لوگوں نے کھڑے ہو کر ایک ایک رکعت پڑھ لی۔ اس حدیث میں یہ مذکور ہے کہ پہلے گروہ نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خروج عن الصلوٰۃ کے بعد دوسری رکعت ادا کی۔ یہ روایت اس بنا پر اولیٰ ہے کہ ہم نے گزشتہ سطور میں ان دلائل کا ذکر کیا ہے جن کا تعلق اصول سے ہے اور جو اس روایت کے حق میں جاتے ہیں۔ یحییٰ بن سعید نے قاسم سے انہوں نے صالح سے یزید بن رومان کی نقل کردہ روایت بھی بیان کی ہے۔ امام مالک کی روایت میں جو انہوں نے یزید بن روامان سے نقل کی ہے یہ بھی مذکور ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ صلوٰۃ الخوف غزوہ ذات الرقاع کے موقعہ پر پڑھائی تھی۔ یحییٰ بن کثیر نے ابو سلمہ سے اور انہوں نے حضرت جابر (رض) سے روایت کی ہے جس میں حضرت جائر (رض) نے یہ فرمایا کہ ہم غزوہ ذات الرقاع میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہمراہ تھے۔ آپ نے ان میں سے ایک گروہ کو دو رکعتیں پڑھائیں پھر یہ لوگ چلے گئے اور دوسرے لوگ آ گئے آپ نے انہیں بھی دو رکعتیں پڑھائیں۔ اس طرح حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چار رکعتیں پڑھیں اور ہر گروہ نے دو رکعتں پڑھیں۔ - یہ بات یزید بن رومان کی روایت کے اضطراب کی نشاندہی کرتی ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صلوٰۃ الخوف کی کئی اور صورتیں بھی نقل ہوئی ہیں۔ حضرت ابن مسعود (رض) حضرت ابن عباس (رض) ، حضرت ابن عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ ، حضرت جابررضی اللہ تعالیٰ عنہ ، حضرت حذیفہ (رح) اور حضرت زید بن ثابت کا اس پر اتفاق ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک گروہ کو ایک رکعت پڑھائی اس دوران دوسرا گروہ دشمن کی طرف رخ کیے کھڑا رہا پھر آپ نے دوسرے گروہ کو ایک رکعت پڑھائی۔ ان میں سے کسی نے بھی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی فراغت سے پہلے اپنی بقیہ نماز ادا نہیں کی۔ صالح بن خوات نے اس سلسلے میں جو روایت کی ہے اس کا ہم نے پہلے ذکر کردیا ہے، ان سے آگے روایت کرنے والوں کے الفاظ میں اختلاف ہے۔- ابو عیاش زرقی نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے صلوٰۃ الخوف کے سلسلے میں جو روایت کی ہے وہ اس مسلک کی عکاسی کرتی ہے جس کی ہم نے قاضی ابن ابی لیلیٰ اور امام ابو یوسف سے حکایت کی ہے اس کا تعلق اس صورت سے ہے جبکہ دشمن کا قیام قبلے کی طرف ہو۔ ایوب اور ہشام نے ابو الزبیر سے، انہوں نے حضرت جابر (رض) سے اور انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی مفہوم کی روایت کی ہے۔ اس طرح کی روایت دائود بن حصین نے عکرمہ سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے بھی کی ہے۔ اسی طرح عبدالمالک نے عطاء سے اور انہوں نے حضرت جابر (رض) سے روایت کی ہے۔ قتادہ نے حسن سے ، انہوں نے خطان سے انہوں نے حضرت ابو موسیٰ (رض) سے روایت کی ہے کہ انہوں نے اسی طرح صلوٰۃ الخوف ادا کی تھی۔ عکرمہ بن خالد نے مجاہد سے انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہی روایت کی ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) اور حضرت جابر (رض) سے اس سلسلے میں ایک روایت کا ہم نے پہلے ذکر کیا ہے تا ہم اس بارے میں ان دونوں حضرات سے مختلف روایتیں منقول ہیں۔- اس بارے میں ایک اور نوعیت کی روایت بھی منقول ہے۔ ہمیں محمد ابن بکر نے یہ روایت سنائی ہے۔ انہیں ابودائود نے ، انہیں حسن علی نے ، انہیں ابوعبدالرحمن المقری نے ، انہیں حیوہ بن شریح اور ابن ابی لہمیعہ نے، انہیں ابوالاسود نے ، انہوں نے عروہ بن الزبیر کو مروان بن الحکم سے یہ روایت بیان کرتے ہوئے سنا تھا کہ کہ مروان نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے یہ پوچھا تھا کہ آیا انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ کبھی صلوٰۃ الخوف ادا کی تھی۔ حضرت ابوہریرہ (رض) نے اثبات میں اس کا جواب دیا تھا۔ پھر مروان کے پوچھنے پر کہ کب ادا کی تھی۔ آپ نے فرمایا تھا ” غزوہ نجد کے سال “ ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عصر کی نماز کے لیے کھڑے ہوئے۔ ایک اروہ آپ کے ساتھ کھڑا ہوگیا اور دوسرا گروہ دشمن کے سامنے کی طرف پشت کر کے کھڑا ہوگیا۔ جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تکبیر تحریمہ کہی تو دونوں گروہوں نے آپ کے ساتھ ہی تحریمہ باندھ لیا۔ پھر آپ نے ایک دفعہ رکوع کیا اور آپ کے ساتھ گروہ نے بھی رکوع کیا پھر آپ سجدے میں گئے آپ کے ساتھ والے لوگ بھی سجدے میں چلے گئے اور دوسرے گروہ میں شالم لوگ دشمن کے سامنے قیام کی حالت میں رہے پھر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قیام کیا اور آپ کے ساتھ والے لوگ کھڑے ہوگئے اور دشمن کے بالمقابل جا کر صف آراء ہوگئے۔ جو گروہ دشمن کے سامنے تھا وہ آگیا اور اس نے رکوع و سجدہ کیا۔- اس دوران حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قیام کی حالت میں رہے، جب یہ لوگ سجدے سے فارغ ہو کر قیام کی حالت میں آ گئے تو آپ نے دوسری دفعہ رکوع کیا۔ یہ لوگ بھی آپ کے ساتھ رکوع میں چلے گئے، پھر آپ سجدے میں گئے اور یہ لوگ بھی آپ کے ساتھ ہی سجدے میں گئے۔ اس کے بعد دشمن کے مقابلے میں صف آرا لوگ آ گئے انہوں نے رکوع اور سجدہ کیا اسی دوران حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قعدہ میں بیٹھے رہے ، جب یہ لوگ قعدہ کی حالت میں آ گئے تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سلام پھیرا اور آپ کے ساتھ تمام لوگوں نے سلام پھیرلیا۔ اس طرح حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دو رکعتیں پڑھییں اور ہر ایک گروہ نے ایک ایک رکعت پڑھی۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے صلوٰۃ الخوف کی ایک اور صورت بھی مروی ہے۔- ہمیں محمد بن بکر نے اس کی روایت کی ہے، انہیں ابودائود نے، انہیں عبید الرحمن بن معاذ نے، انہیں ان کے والد نے، انہیں الاشعث نے حسن سے، انہوں نے حضرت ابوبکرہ (رض) سے انہوں نے فرمایا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ظہر کی نماز صلوٰۃ الخوف کی صورت میں پڑھائی۔ بعض لوگوں نے آپ کے پیچھے صف باندھ لی اور بعض نے دشمن کے بالمقابل صف سیدھی کرلی۔ آپ نے دو رکعتیں پڑھائیں اور سلام پھیرلیا۔ پھر یہ لوگ دشمن کے بالمقابل جا کر کھڑے ہوگئے اور دسورے لوگ آپ کے پیچھے پہنچ گئے ، آپ نے انہیں دو رکعتیں پڑھائیں اور سلام پھیر دیا۔ اس طرح آپ کی چار رکعتیں ہوئیں اور آپ کے اصحاب کی دو دو رکعتیں جن صلوٰۃ الخوف کی اسی صورت کا فتویٰ دیا کرتے تھے۔ ابودائود کہتے ہیں کہ یحییٰ بن کثیر نے ابو سلمہ سے ، انہوں نے حضرت جابر (رض) بن عبداللہ سے، اور انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔ سلیمان الیشکری نے بھی حضرت جابر بن عبداللہ سے اور انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔ ابوبکر جصا ص کہتے ہیں ک ہ ہم نے اس سے پہلے یہ بیان کردیا ہے کہ حضرت ابن عباس (رض) اور حضرت جابر (رض) نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ آپ نے ہر گروہ کو ایک ایک رکعت پڑھائی تھی اور اس طرح آپ کی دو رکعتیں ہوئی تھیں اور ہر گروہ کی ایک ایک رکعت ہوئی تھی۔ - ہمارے نزدیک یہ صورت اس پر محمول ہے کہ جماعت کی شکل میں ایک رکعت پڑھی گئی تھی اور اس کی ادائیگی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اقتدا میں ہوئی تھی۔ قاضی ابن ابی لیلیٰ اور امام ابو یوسف نے، جبکہ دشمن قبلے کی طرف ہو، ابو عیاش زرقی کی روایت کو اختیار کیا جن کا ہم نے پہلے تذکرہ کیا ہے۔ اس بات کی گنجائش موجود ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صلوٰۃ الخوف مختلف طریقوں سے پڑھائی ہو جن کا ذکر مذکورہ بالا روایات میں موجود ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک نماز تو تھی نہیں کہ اس کے بارے میں روایات کے اندر تضاد بیانی اور منافات پیدا ہوجائے بلکہ مختلف مقامات پر صلوٰۃ الخوف کی صورت میں کئی نمازیں پڑھی گئی تھیں۔ ابوعیاش کی روایت میں عسفان کے مقام پر اور حضرت جابر (رض) کی روایت میں بطن النخل کے مقام پر اور حضرت ابوہریرہ (رض) کی روایت میں غزوہ نجد کے موقعہ پر ان نمازوں کی ادائیگی ہوئی تھی ۔ اس روایت میں بھی ہے کہ غزوہ ذات الرقاع کے موقعہ پر یہ نماز ادا کی گئی تھی۔ بنو سلیم کی سیاہ پتھروں والی زمین میں اس کی ادائیگی کا ذکر آیا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان میں سے بعض مقامات پر کئی نمازیں پڑھی گئیں۔ اس لیے کہ حضرت جابررضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منقول روایات میں بعض کے اندر ان کا بیان ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہر گروہ کو دو دو رکعتیں پڑھائی تھیں اس میں یہ بھی مذکور ہے کہ یہ نماز آپ نے غزوہ ذات الرقاع میں پڑھائی تھی۔ - ادھر صاحل بن خوات کی روایت میں بھی مذکور ہے کہ آپ نے اسی غزوہ کے موقعہ پر نماز پڑھائی تھی۔ یہ دونوں روایتیں اگرچہ ایک ہی مقام کا ذکر کرتی ہیں لیکن دونوں میں اس لحاظ سے اختلاف ہے کہ ایک میں نماز کی جس کیفیت کا ذکر ہے وہ دوسری روایت میں بیان کردہ کیفیت سے بالکل جدا ہے۔ اسی طرح ابو عیاش زرقی کی روایت میں ذکر ہے کہ آپ نے عسفان کے مقام پر یہ نماز پڑھائی تھی۔ دوسری طرف حضرت ابن عباس (رض) نے بھی عسفان ہی کے مقام پر اس نماز کا ذکر کیا ہے لیکن نماز کی کیفیت کا ذکر کبھی اس طرح کرتی ہیں جو ابو عیاش کی روایت میں مذکور ہے اور کبھی اس سے متخلف کیفیت کا تذکرہ کرتے ہیں۔ - ان آثار و روایات میں موجود اختلاف اس پر دلالت کرتا ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان نمازوں کو مختلف طریقوں سے ادا کیا ہے جیسا کہ روایات کے اندر مذکور ہے آپ نے ان کی ادائیگی میں وقت کے تقاضے ، احتیاط اور دشمن کے مکرو فریب سے بچائوں کے پہلوئوں کو مد نظر رکھا ہے اور وہ طریقہ اختیار فرمایا ہے جو چوکنا اور خبردار رہنے سے قریب تر تھا جسے بروئے کار لانے کا اللہ نے اس آیت میں حکم دیا ہے۔ ( ولیاخذوا حذرھم واسلحتھم۔ ودالذین کفروا لو تفقلون عن اسلحتکم و امتعتکم فیملون علیکم میلۃ واحدۃ۔ اور وہ بھی چوکنا رہے اور اپنا اسلحہ لیے رہے کیونکہ کفار اس تاک میں ہیں کہ تم اپنے ہتھیاروں اور اپنے سامان کی طرف سے ذرا غافل ہو تو وہ تم پر یکبارگی ٹوٹ پڑیں) اس بنا پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے منقول ان روایات کے اندر فقہاء کے مختلف اقوال کے لیے اجتہاد کی گنجائش پیدا ہوگئی ہے تا ہم ہمارے نزدیک اولیٰ روایت وہ ہے جس میں ظاہر کتاب اللہ اور اصول کی موافقت پائی جاتی ہے ۔ یہ کہنا بھی درست ہے کہ ان تمام صورتوں میں ایک صورت کا حکم باقی اور ثابت ہے اور بقیہ تمام صورتیں منسوخ ہیں اور یہ بھی کہا جاسکتا ہے تمام صورتیں ثابت اور غیر منسوخ ہیں تا کہ ان کا دائرہ وسیع ہوجائے ان میں آسانی پیدا ہوجائے اور اگر کوئی شخص ان میں سے کسی صورت کو بطور مسلک اختیار کرلے تو اس کے لیے کوئی تنگی نہ ہو۔ اس میں گفتگو کا دائرہ صرف افضل صورت تک محدود رہ جائے گا۔ - اس کی مثال روایات کا وہ اختلاف ہے جو اذان میں ترجیع، اقامت اور تثنیہ، تکبیرات عیدین اور تکبیرات تشریق اور اسی قسم کے دوسرے امور کے اندر ہے۔ ان امور میں فقہا کی گفتگو اور بحث کا دائرہ صرف افضل صورت تک محدود ہوتا ہے اس لیے جو فقیہ بھی ان میں سے کوئی صورت بطور مسلک اختیار کرلیتا ہے اس کے خلاف سخت رویہ اپنایا نہیں جاسکتا۔ البتہ ہمارے نزدیک اولیٰ صورت وہ ہوتی ہے جو ظاہر کتاب اللہ اور اصول کے موافق ہو۔ حضرت جابر (رض) اور حضرت ابوبکرہ (رض) کی روایت میں ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہر گروہ کو دو رکعتیں پڑھائی تھیں، اس کی یہ تاویل ہوسکتی ہے کہ آپ اس وقت مسافر نہیں تھے بلکہ مقیم تھے۔ اسی طرح ان دونوں حضرات کا یہ قول کہ آپ نے دو رکعتوں کے درمیان سلام پھیر دیا تھا اس سے یہ مراد لی جاسکتی ہے کہ تشہد کا سلام تھا قعدہ اخیرہ کا سلام نہیں تھا۔ اس لیے ظاہر روایت اس صورت کی جس طور پر مقتضی ہے ظاہر کتاب اللہ اس کی نفی کرتا ہے کیونکہ ارشاد باری ہے ( فلتقم طا ئفۃ منھم معک ولیاخذوا اسلحتھم فاذا سجدوا فلیکونوا من ورائکم۔ ان میں سے ایک گروہ تمہارے ساتھ کھڑا ہو اور اسلحہ لیے رہے ۔ پھر جب وہ سجدہ کرلے تو پیچھے چلا جائے جب کی ظاہر حدیث اس کا موجب ہے کہ یہ لوگ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ سجدے کے بعد اسی حالت میں نماز پڑھیں جس حالت میں وہ سجدے سے پہلے تھے۔- اگر یہ کہا جائے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صحرا میں کس طرح مقیم ہوسکتے تھے، یہ ذات الرقاع کا مقام تھا، یہاں اقامت کی کوئی صورت نہیں تھی اور نہ ہی یہ جگہ مدینہ منورہ سے قریب تھی۔ اس کے جواب میں یہ کہا جائے گا کہ ممکن ہے آپ جب مدینہ منورہ سے نکلے ہوں تو آپ نے تین دنوں کے سفر کا ارادہ نہ کیا ہو اور آپ جہاں بھی پہنچے ہوں وہاں ایک یا دو دنوں کے سفر ہی کا ارادہ کرتے ہوں۔ اس طرح ہمارے نزدیک آپ کی حیثیت مقیم کی ہے کیونکہ آپ نے تین دنوں کے سفر کا ارادہ نہیں کیا تھا اگرچہ آپ صحرا میں تھے۔ اس میں یہ احتمال بھی ہے کہ یہ اس وقت کی بات تھی جب فرض نماز دہرائی جاسکتی تھی اور ہمارے نزدیک اب یہ منسوخ ہے۔ - علاوہ ازیں اگر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے روایت کے مطابق چار رکعتیں پڑھی ہوگی تو یہ صلوۃ الخوف نہیں ہوگی بلکہ یہ نماز بھی تمام دوسری نمازوں کی طرح ہوگی اور اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ صلوٰۃ الخوف حالت امن میں پڑھی جانے والی تمام نمازوں سے مختلف ہوتی ہے۔ امام ابو یوسف کا قول کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد اب صلوٰۃ الخوف نہیں پڑھی جائے گی اور اگر کوئی ایسی صورت پیش آ جائے تو پھر ایک امام نہیں پڑھائے گا بلکہ دو امام پڑھائیں گے، تو دراصل ان کا ذہن ظاہر قول باری ( واذا کنت فیھم فاقمت لھم الصلوٰۃ ) کی طرف گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس نماز کو اس صورت کے ساتھ مخصوص کردیا ہے جب کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے درمیان موجود ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے اس طریقے پر نماز کی ادائیگی کی اباحت اس لیے کردی تا کہ لوگوں کو آپ کی اقتدار میں نماز پڑھنے کی وہ سعادت اور فضیلت حاصل ہوجائے جو کسی اور کے پیچھے پڑھ کر کبھی حاصل نہیں ہوسکتی۔ اس لیے آپ کے بعد اب دو اماموں کے ذریعے یہ نماز پڑھی جاسکتی ہے کیونکہ فضیلت کے اعتبار سے دوسرے امام کے پیچھے پڑھی ہوئی نماز کا جو درجہ ہوگا پہلے امام کے پیچھے پڑھی گئی نماز کا بھی وہی درجہ ہوگا اس لیے ایک امام کے پیچھے پڑھنے کے لیے آنے جانے، قدموں سے چلنے اور قبلے کی طرف پیٹھ کرنے کی ضرورت نہیں رہے گی کیونکہ یہ تمام افعال نماز کے منافی ہیں۔- ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ قول باری ( واذا کنت فیھم) میں خطاب کی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تخصیص اس بات کی موجب نہیں ہے کہ اس کا دائرہ صرف آپ کی ذات تک محدود ہے اور دسورے لوگ اس سے خارج ہیں اس لیے کہ جس ذات نے ( واذا کنت فیھم فاقمت لھم الصلوٰۃ) فرمایا اسی ذات کا یہ بھی ارشاد ہے۔ (فاتبعوہ، رسول کی اتباع کرو) اس لیے جب ہم نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایک عمل کرتے ہوئے دیکھا تو اب ہم پر اس عمل میں آپ کی اتباع لازم ہوگئی اور اتباع بھی اسی طریقے کے مطابق جس طرقے پر آپ نے وہ عمل سرانجام دیا تھا۔ آپ نہیں دیکھتے کہ قول باری ( خذ من اموالھم صدقۃ تطھر ھم) آپ ان کے اموال میں سے صدقہ یعین زکوٰۃ وصول کریں کہ اس کے ذریعے آپ انہیں پاک کردیں) نے یہ واجب نہیں کیا کہ زکوٰۃ کی وصولی کا حکم صرف آپ کی ذات کے ساتھ مخصوص ہے اور آپ کے بعد آنے والے آئمۃ المسلمین اس کی وصولی نہیں کرسکتے۔ اس طرح قول باری ہے ( مواذ جاء ک المومنات یبا یعنک جب ایمان لانے والی عورتیں آپ کے پاس بیعت کرنے کی غرض سے آئی) اسی طرح ( وان احکم بینھم بما انزل اللہ) اور پ ان کے درمیان اس کتاب کے مطابق فیصلہ کریں جو اللہ نے آپ پر نازل فرمائی ہے) اسی طرح ( فان جائو ک فاحکم بینھم ، اگر یہ تمہارے پاس آئیں تو ان کے درمیان فیصلہ کردیں) ان آیات میں خطاب کی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات کے ساتھ تخصیص ہے لیکن آپ کے بعد آنے والے آئمۃ المسلمین اور خلفاء بھی آپ کے ساتھ اس حکم میں مراد ہیں۔ - رہ گئی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیچھے نماز کی فضیلت کے حصول کی بات تو یہ نماز میں چلنے پھرنے ، قبلے کی طرف سے رخ موڑنے اور نماز کے بعض فرض افعال کو ترک کرنے کی اباحت کی علت نہیں بن سکتی ہے۔ اس لیے کہ جب یہ بات معلوم تھی کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیچھے نماز کی ادائیگی فرض نہیں ہے۔ تو پھر یہ کہنا درست نہیں ہوسکتا کہ لوگوں کو فضیلت کے حصول کی خاطر ترک فرض کا حکم دیا گیا تھا جب بات اس طرح ہے تو پھر ادراک فضیلت کو اس حکم کی علت بنانا درست نہیں ہے اور جس طرح حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ صلوٰۃ الخوف کی ادائیگی جائز تھی اسی طرح آپ کے بعد بھی آپ سے منقول طریقوں کے مطابق اس کی ادائیگی کا جواز درست ہے۔ صحابہ کی ایک جماعت سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد صلوٰۃ الخوف کی ادائیگی کا جواز منقول ہے۔- ان میں حضرت ابن عباس (رض) ، حضرت ابن مسعود (رض) ، حضرت زید بن ثابت (رض) ، حضرت ابو موسیٰ (رض) ، حضرت حذیفہ (رض) ، حضرت سعید بن العاص (رض) ، حضرت عبدالرحمن بن سمرہ (رض) اور دوسرے حضرات شامل ہیں۔ دوسری طرف کسی صحابی سے کوئی ایسی روایت مروی نہیں ہے جو اس مسلک کے خلاف جاتی ہو، اس جیسی صورت حال کے تحت اجماع کا انعقاد ہوجاتا ہے جس سے اختلاف کی کسی کو گنجائش نہیں ہوتی۔ واللہ اعلم۔ - مغرب کی نماز کے متعلق اختلاف رائے کا بیان - امام ابو حنیفہ، امام ابو یوسف، امام محمد، امام مالک، حسن بن صالح، اوزاعی اور امام شافعی کا قول ہے کہ اگر مغرب کی نماز صلوٰۃ الخوف کی صورت میں پڑھی جائے تو امام پہلے گروہ کو دو رکعتیں اور دوسرے گروہ کو ایک رکعت پڑھائے گا۔ البتہ امام مالک اور امام شافعی کا مسلک یہ ہے کہ دو رکعتیں پڑھا کر امام قیام کی صورت میں ٹھہرا رہے گا یہاں تک کہ لوگ تیسری رکعت پڑھ کر اپنی نماز مکمل کرلیں گے پھر جب دوسرا گروہ آ جائے گا تو امام انہیں تیسری رکعت پڑھا کر سلام پھیردے گا اور اس کے ساتھ ایک رکعت پڑھنے والے کھڑے ہو کر باقی ماندہ دو رکعتیں پڑھ لیں گے۔ امام شافعی کا قول ہے کہ اگر امام چاہیے تو قعدہ کی صورت میں بیٹھا رہے یہاں تک کہ پہلا گروہ وہ اپنی نماز مکمل کرلے اور اگر چاہے تو قیام کی حالت میں ٹھہرا رہے ۔ امام دوسرے گروہ کے اختتام صلوٰۃ پر ہی سلام پھیرے گا۔ - سفیان ثوری کا قول ہے کہ ایک گروہ امام کے پیچھے صرف باندھ کر کھڑا ہوجائے گا اور دوسرا گروہ دشمن کے بالمقابل صف آرا رہے گا۔ امام انہیں ایک رکعت پڑھائے گا یہ لوگ محاذ پر چلے جائیں گے اور دسورے لوگ آ جائیں گے اور امام انہیں ایک رکعت پڑھائے گا۔ یہ لوگ قعدہ کریں گے۔ جب امام قیام کی حالت میں آ جائے گا تو یہ لوگ پہلے لوگوں کی جگہ مورچوں پر پہنچ جائیں گے۔ جو واپس آ کر رکوع اور سجدہ کریں گے اس دوران امام قیام کی حالت میں رہے گا اس لیے کہ امام کی قرأت ان کی قرأت ہوگی۔ پھر یہ لوگ قعدہ کریں گے پھر قیام کی حالت میں آ کر امام کے ساتھ تیسری رکعت پڑھیں گے جب قعدہ کرلیں اور امام سلام پھیرلے گا تو یہ لوگ مورچوں پر واپس پہنچ جائیں گے اور وہاں موجود لوگ واپس آ کر دو رکعتیں پڑھیں گے۔ اس مسلک کو اختیار کرتے ہوئے سفیان ثوری کا ذہن اس طرف گیا ہے کہ امام پر دو گروہوں کے درمیان نماز میں تعدیل یعنی مساوات قائم رکھنا ضروری ہے اس طرح امام ہر گروہ کو ا کی رکعت پڑھائے گا لیکن ثوری کے ذہن سے یہ بات اس وقت نکل گئی۔ جب انہوں نے پہلے گروہ کے لیے یہ گنجائش پیدا کردی کہ وہ امام کے ساتھ پہلی تیسری رکعت ادا کے گا جبکہ دوسرا گروہ امام کے ساتھ صرف دوسری رکعت ادا کرے گا۔- سفیان ثوری کا یہ بھی قول ہے کہ اگر امام مقیم ہو اور وہ ظہر کی نماز صلوۃ الخوف کی صورت میں پڑھائے تو اس صورت میں پہلے گروہ کو دو رکعتیں اور دسورے گروہ کو دو رکعتیں پڑھائے گا۔ انہوں نے نماز کو لوگوں میں اس طریقے سے تقسیم نہیں کیا کہ ہر گروہ کے بالمقابل امام کے ساتھ ایک ایک رکعت آ جائے۔ سفیان ثوری کا یہ مسلک ایک اور وجہ سے بھی اصول کے خلاف ہے وہ یہ کہ اس میں امام کے قیام کی صورت میں کھڑا رہنے کا حکم ہے تاوقتیکہ پہلا گروہ دوسری رکعت سے فارغ نہ ہوجائے۔ یہ باب اصول کے خلاف ہے جیسا کہ ہم نے سابقہ سطور میں امام مالک اور امام شافعی کے مسلک پر بحث کرتے ہوئے بیان کیا ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔ - معرکہ کارزار گرم ہونے کے دوران نماز کی ادائیگی کے متعلق - فقہا کے درمیان اختلاف رائے کا بیان - امام ابوحنیفہ، امام ابو یوسف اور امام محمد نیز زفر کا قول ہے کہ جب معرکہ کارزار گزم ہو تو اس دوران نماز نہیں پڑھی جائے گی۔ اگر نماز پڑھتے ہوئے نمازی نے قتال بھی شروع کردیا تو اس کی نماز فاسد ہوجائے گی۔ امام مالک اور سفیان ثوری کا قول ہے کہ قتال کے دوران اگر رکوع اور سجود کی قدرت نہیں ہوگی تو اشارے سے نماز ادا کرے گا۔ حسن بن صالح کا قول ہے کہ اگر قتال کی وجہ سے رکوع کی قدرت نہیں ہوگی تو اس صورت میں ہر رکعت کے بدلے ایک تکبیر کہے گا۔ امام شافعی کا قول ہے کہ نماز کے دوران اگر تلوار سے ضرب یانیزے سے وار کرے گا تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن اگر مسلسل شمشیر زنی یا نیزہ بازی کرے گا یا کوئی طویل عمل کرے گا تو اس کی نماز باطل ہوجائے گی۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں قتال کی وجہ سے نماز کے باطل ہوجانے کی دلیل یہ ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے متخلف مواقع پر صلوٰۃ الخوف ادا کی ہے جس کا ہم نے پہلے ذکر کیا ہے۔ - لیکن آپ نے غزوہ خندق کے موعق پر چار نمازیں نہیں پڑھیں یہاں تک کہ رات کافی گزر گئی۔ پھر آپ نے یہ فرمایا ( ملا اللہ بیوتھم و قبوراھم نارا کما شغلوناعن الصلوٰۃ الوسطیٰ ۔ اللہ تعالیٰ ان کے گھروں اور قبروں کو آگے سے اس طرح بھر دے جس طرح انوں نے ہمیں صلوٰۃ الوسطیٰ سے مشغول رکھا) پھر آپ نے ان نمازوں کی اسی ترتیب سے قضا دی جس ترتیب سے یہ قضا ہوئی تھیں۔ آپ نے یہ بتایا کہ قتال نے آپ کو نماز کی ادائیگی سے مشغول رکھا۔ اگر قتال کے دوران نماز کی اجازت ہوتی تو آپ انہیں ہرگز ترک نہ کرتے جس طرح آپ نے قتال نہ ہونے کی صورت میں خوف کی حالت کے اندر انہیں ترک نہیں کیا، غزوہ خندق سے پہلے ہی خوف کی حالت میں نماز فرض تھی کیونکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غزوہ ذات الرقاع میں صلوٰۃ الخوف پڑھی تھی۔ محمد ابن اسحٰق اور واقدی دونوں نے بیان کیا ہے غزوہ ذات الرقاع غزوہ خندق سے پہلے ہوئی تھی۔ اس لیے یہ بات ثابت ہوگئی کہ قتال نماز کے منافی ہے اور قتال کے ساتھ نماز درست نہیں ہوتی۔ نیز جب قتال ایسا فعل ہے جس کی وجہ سے خوف نہ ہونے کی حالت میں نماز درست نہیں ہوتی تو خوف کے اندر بھی اس کا حکم وہی ہونا چاہیے جو خوف نہ ہونے کی حالت میں ہے۔ - جس طرح حدث ، گفتگو اور اکل و شرب اور نماز کے منافی دوسرے افعال کا حکم ہے خوف کی حالت میں نماز کے اندر قدموں سے چلنے کو صرف اس لیے مباح کردیا گیا ہے کہ نماز کے اندر چلنا کسی بھی حالت میں نماز کے منافی نہیں ہے جیسا کہ ہم نے اس پر سابقہ سطور میں روشنی ڈالی ہے۔ اس لیی نماز کے اندر چلنے کو جبکہ خوف کی حالت ہو، اس کے اصل پر محمول کیا جائے گا۔ قول باری ہے ( فلتقم طائفۃ منھم معک ولیا خذوا اسلحتھم) اس میں یہ احتمال ہے کہ اسلحہ اٹھانے کا حکم ان لوگوں کو دیا جا رہا ہے جو امام کے ساتھ نماز میں شریک ہوں اور یہ بھی احتمال ہے کہ یہ حکم ان لوگوں کے لیے ہے جو دشمن کے بالمقابل صف آرا ہوں۔ اس لیے کہ آیت میں دشمن کے بالمقابل صف آرا ہونے والے گروہ کے لیے ضمیر موجود ہے اور آیت کے تسلسل میں اس کے لیے مذکورہ ضمیر قول باری ( طائفۃ اخری لم یصلوا فلیصلوا معک) میں ظاہر ہوگیا ہے۔ ہماری اس بات پر ایک اور وجہ سے بھی دلالت ہو رہی ہے وہ یہ کہ اللہ نے امام کے ساتھ نماز پڑھنے والے گروہ کو ہتھیار رکھنے کا حکم دیا ہے اور یہ نہیں فرمایا کہ یہ لوگ چوکنا رہیں اس لیے کہ دشمن کے بالمقابل ایک گروہ موجود ہے جو ان کی حفاظت کر رہا ہے اور اسی کا ہی چوکنا رہنا کافی ہے۔ - پھر فرمایا ( ولتات طآئفۃ اخری لم یصلوا فلیصلوا معک ولیا خذوا خذرھم و اسلحتھم ) اس میں دو طرح سے اس بات کی دلیل موجود ہے کہ قول باری ( فلاتقم طآئفۃ منھم معک ولیاخذوا اسلحتھم) میں وہ گروہ مراد ہے جو امام کے ساتھ نماز میں مشغول ہو۔ ایک تو یہ کہ جب اللہ تعالیٰ نے دوسرے گروہ کا ذکر کیا تو فرمایا ( ولیاخذوا حذرھم واسلحتھم) اگر یہ لوگ اسلحہ رکھنے پر شروع ہی سے مامور ہوتے تو ان کے لیے شروع ہی میں اس کے ذکر پر اکتفا کرلیا جاتا۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ ارشاد باری ہے ( ولیاخذوا حذرھم و اسلحتھم) اللہ تعالیٰ نے دوسرے گروہ کے لیے چوکنا رہنے اور اسلحہ اٹھائے رکھنے کے دونوں حکموں کو یکجا کردیا کیونکہ پہلا گروہ دشمن کے سامنے پنچ چکا تھا اور ابھی نماز کی حالت میں تھا۔ یہ صورت دشمن کو ان کے خلاف کارروئی کرنے کی ترغیب دینے کے لیے بہت موزوں تھی اس لیے کہ دونوں گروہ نماز کی حالت میں تھے۔ اس لیے یہ پوری صورت حالت اس پر دلالت کرتی ہے کہ قول باری ( ولیاخذوا اسلحتھم) میں پہلا گروہ مراد ہے۔- یہ بات اس پر بھی دلالت کرتی ہے کہ جو گروہ شروع سے دشمن کے سامنے صف آرا تھا وہ ابھی نماز میں داخل نہیں ہوا تھا۔ نماز میں اس کا دخول دوسری رکعت میں آ کر شامل ہون کے بعد ہوتا اسی لیے انہیں چوکنا رہنے اور اسلحہ اٹھائے رکھنے کے دونوں احکامات دئیے گئے۔ اب جو گروہ دشمن کے سامنے تھا وہ نماز کی حالت میں تھا اس لیے دشمن کے دل میں ان پر حملہ کرنے کی خواہش کا شدت اختیار کر جانا ایک قدرتی امر تھا کیونکہ دشمن کے علم میں یہ بات تھی کہ یہ لوگ نماز کے اندر ہیں۔ آپ نہیں دیکھتے کہ جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عسفان کے مقام پر ظہر کی نماز سے فارغ ہوئے تو خالد بن الولید نے جو اس وقت مشرکوں کے سالار تھے اپنے آدمیوں سے کہا کہ ” ان مسلمانوں کو ابھی ان کی حالت پر چھوڑ دو کیونکہ اس کے بعد ایسی نماز آنے والی ہے، یعنی عصر کی نماز جو انہیں اپنی اولاد سے بھی زیادہ پیار ہے۔ جس یہ لوگ اس نماز میں مصروف ہوجائیں گے تو ہم ان پر حملہ کردیں گے “۔ اسی بنا پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عصر کی نماز صلوٰۃ الخوف کی صورت میں پڑھی تھی اور یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں چوکنا رہنے اور ہتھیار اٹھائے رکھنے کے دونوں احکامات دیے تھے۔ واللہ اعلم ۔ - جب نماز میں ہتھیار اٹھائے رکھنے کا جواز ہوگیا اور یہ نماز کی حالت میں گو نہ عمل اور کام کی صورت تھی تو اس سے یہ دلالت حاصل ہوئی کہ نماز میں عمل قلیل قابل گرفت نہیں ہے۔ قول باری ہے ( ودالذین کفروا تو تغفلون عن اسلحتکم و امتعتکم فیمیلون علیکم میلۃ واحدۃ ، کافر تو اس تاک میں ہیں کہ تم ذرا اپنے ہتھیاروں اور سامان کی طرف سے غافل ہو جائو اور پھر وہ یکبارگی تم پر ٹوٹ پڑیں) ۔ اس میں اطلاع دی گئی ہے کہ مشرکین کس بات کا عزم کیے بیٹھے تھے یعنی وہ اسی موقعہ کی تاک میں تھے کہ مسلمان نماز میں مشغول ہوجائیں تو ان پر یکبارگی حملہ کردیا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مشریکن کی اس نیت سے آگاہ کردیا اور مسلمانوں کو ہشیار اور چوکنا رہنے کی ہدایت کردی۔ قول باری ہے ( ولا جناح علیکم ان کان بکم اذیً من مطر او کنتم مرضیٰ ان تضعوا اسلحتکم وخذو حذرکم۔ البتہ اگر تم بارش کی وجہ سے تکلیف محسوس کرو یا بیمار ہو تو اسلحہ رکھ دینے میں مضائقہ نہیں مگر پھر بھی چوکنے رہو۔- آیت میں اسلحہ رکھ دینے کی اباحت ہے کیونکہ بیماری کی حالت میں نیز کیچڑ اور گارے کی صورت میں اسلحہ اٹھائے رکھنے میں بڑی مشقت اور دقت ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بارش کی وجہ سے تکلیف اور بیماری دونوں کو یکساں درجے پر رکھا ہے اور ان دونوں صورتوں میں اسلحہ رکھ دینے کی اجازت دے دی ہے۔ یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ جو شخص کیچڑ اور گارے کے درمیان ہو اور نماز کا وقت آ جائے اس کے لیے اشارے سے نماز ادا کرنا جائز ہے۔ جس طرح بیماری کی حالت میں اس کی اجازت ہے جبکہ اس کے لیے رکوع و سجود ممن نہ رہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس صورت میں جس کا ہم نے ذکر کیا ہے بارش کی وجہ سے تکلیف اور بیماری دونوں کو یکساں درجے پر رکھا ہے لیکن اس کے باوجود دشمن سے چوکنا رہنے کی ہدایت بھی فرمائی ہے۔ نیز یہ کہ وہ اپنے ہتھیاروں سے غافل نہ ہوجائیں اس لیے ان کے ہتھیار ان کے قریب ہی ہونے چاہئیں کہ اگر دشمن حملہ کر دے تو وہ اپنے ہتھیار اٹھا سکیں۔ ( فاذا قضیتم الصلوٰۃ فاذکروا اللہ قیاماً و قعوداً وعلی جنوبکم۔ جب تم نماز سے فارغ ہو جائو تو کھڑے اور بیٹھے اور لیٹے ہر حال میں اللہ کو یاد کرتے رہو۔ - ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ایک دوسرے مقام پر مطلقاً ذکر کے الفاف بیان فرمائے ہیں اور اس سے نماز مراد لی ہے۔ ارشاد ہے ( الذین یذکرون اللہ قیاماً و قعوداً وعلی جنوبھم ۔ جو لوگ اللہ کو کھڑے اور بیٹھے اور لیٹے یاد کرتے ہیں) حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) سے منقول ہے کہ انہوں نے لوگوں کو مسجد کے اندر اونچی آواز میں ذکر کرتے ہوئے دیکھا، تو فرمایا : یہ ناپسندیدہ حرکت کیسی ہے۔ “ لوگوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ ( الذین یذکرون اللہ قیامات و قعوداً و علی جنوبھم) یہ سب کر حضرت ابن مسعود (رض) نے فرمایا : بھلے لوگو اس سے مراد فرض نماز ہے۔ اگر تم فرض نماز کھڑے ہو کر پڑھ نہیں سکتے، تو بیٹھ کر پڑھ لو، اگر بیٹھ کر بھی نہیں پڑھ سکتے تو لیٹ کر پڑھ لو) اس آیت کے متعلق حسن سے منقول ہے کہ اس میں مریض کے لیے رخصت ہے کہ وہ بیٹھ کر نماز پڑھ لے اگر بیٹھ کر نہیں پڑھ سکتا تو اپنے پہلوں پر یعنی لیٹ کر پڑھ لے۔ اس لیے اس ذکر سے نفس نماز مراد ہے اس لیے کہ نماز بھی تو ذکر اللہ ہے اور نماز میں اذکار مسنونہ اور مفروضہ دونوں موجود ہیں۔ لیکن قول باری ( فاذا قضیتم الصلوٰۃ) میں جس ذکر کا بیان ہے اس سے نماز مراد نہیں ہے۔ اس ذکر کی دو میں سے ایک صورت ہے یا تو ذکر بالقلب ہے یعنی اللہ کی عظمت، اس کے جلال اور اس کی قدرت پر غورو فکر کرنا۔ نیز اس کی مخلوقات و مصنوعات میں اس کی ذات و صفات اور کمال و جمال صنعت کی نشاندہی کرنے والے دلائل کا بغور جائزہ لینا اور یا ذکر باللسان ہے۔ یعنی اس کی تسبیح و تقدیس اور تعظیم کے الفاظ اپنی زبان سے ادا کرنا۔ - حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ ترک ذکر کے سلسلے میں کی کی معذرت قبول نہیں کی جائے گی۔ البتہ جس شخص کی عقل ماری گئی ہو وہ اس سے مستثنیٰ ہے۔ ذکر کی ان دونوں صورتوں میں سے پہلی صورت اعلیٰ و اشرف ہے۔ اس ذکر سے نماز مراد نہیں ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نماز سے فراغت کے بعد اس ذکر کا حکم دیا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے ( فاذا قضیتم الصلوٰۃ فاذکرواللہ قیاماً و قعودًا و علی جنوبکم)

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٠٢) لہٰذا جب آپ تشریف فرما ہوں تو پھر آپ ہی ان کی امامت فرمائیں اور نماز شروع کرنے کے لیے تکبیر فرمائیں اور یہ آپ کے ساتھ تکبیر کہیں گے، لہٰذا اس وقت ایک جماعت تو آپ کے ساتھ ایک رکعت پڑھ لے اور دوسرا گروہ دشمن کی نگرانی کے لیے کھڑا ہوجائے اور اب یہ جماعت نگرانی کے لیے چلی جائے اور جو جماعت دشمن کے مقابلہ پر کھڑی ہے جس نے آپ کے ساتھ پہلی رکعت نہیں پڑھی، وہ اب آکر دوسری رکعت پڑھ لے اور دشمن سے بچاؤ کے لیے اپنے ہتھیار بھی رکھیں۔- بنی انمار تو یہ چاہتے ہیں کہ ذرا تم اپنے ہتھیار وغیرہ سے غافل ہو تو تم پر نماز کی حالت میں ایک دم حملہ کردیں اور اگر تم بارش کی شدت اور زخموں وغیرہ کی حالت میں ہتھیار اتار کر رکھنا چاہا تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں، باقی اپنے دشمن سے اپنی اچھی طرح حفاظت کرو اور بنی انمار جیسے مخالفین اسلام کے لیے سخت ترین عذاب ہے۔- شان نزول : (آیت) ” واذا کنت فیہم “ (الخ)- اور امام احمد اور حاکم نے صحت کے ساتھ اور بیہقی نے دلائل میں ابن عیاش زرقی سے روایت کیا ہے کہ ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ عسفان میں تھے۔ سامنے سے مشرک آئے جن کے خالد بن ولید امیر تھے اور جو مشرک ہمارے اور قبلہ کے درمیان تھے، رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں ظہر کی نماز پڑھائی تو مشرک کہنے لگے کہ اس وقت یہ ایسی حالت پر ہیں کہ ہم ان پر حملہ کرکے ان سب کو ختم کرسکتے ہیں، پھر وہ خود بولے کہ اب ان کی ایسی نماز کا وقت آئے گا جو انھیں اپنی جانوں اور اپنی اولاد سے بھی زیادہ عزیز ہے، چناچہ جبریل (علیہ السلام) ظہر اور عصر کے درمیان یہ آیتیں لے کر نازل ہوگئے اور امام ترمذی نے بھی اسی طرح ابوہریرہ (رض) سے اور ابن جریر (رض) نے بھی اسی طرح جابر بن عبداللہ اور ابن عباس (رض) سے روایت نقل کی ہے اور امام بخاری (رح) نے ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ آیت کریمہ ”۔ ان کان بکم اذی “۔ (الخ) عبدالرحمن بن عوف کے بارے میں نازل ہوئی ہے جب یہ زخمی تھے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٠٢ (وَاِذَا کُنْتَ فِیْہِمْ فَاَقَمْتَ لَہُمُ الصَّلٰوۃَ ) (فَلْتَقُمْ طَآءِفَۃٌ مِّنْہُمْ مَّعَکَ وَلْیَاْخُذُوْآ اَسْلِحَتَہُمْ قف) (فَاِذَا سَجَدُوْا فَلْیَکُوْنُوْا مِنْ وَّرَآءِکُمْص) (وَلْتَاْتِ طَآءِفَۃٌ اُخْرٰی لَمْ یُصَلُّوْا فَلْیُصَلُّوْا مَعَکَ ) - یہ حکم صلوٰۃ الخوف کے بارے میں ہے۔ اس کی عملی صورت یہ تھی کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک رکعت نماز پڑھا دی اور اس کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیٹھے رہے ‘ دوسری رکعت کے لیے کھڑے نہیں ہوئے ‘ جبکہ مقتدیوں نے دوسری رکعت خود ادا کرلی۔ دو رکعتیں پوری کر کے وہ محاذ پر واپس چلے گئے تو دوسرے گروہ کے لوگ جو اب تک نماز میں شریک نہیں ہوئے تھے ‘ نماز کے لیے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیچھے آکر کھڑے ہوگئے۔ اب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دوسری رکعت اس گروہ کے لوگوں کی موجودگی میں پڑھائی۔ اس کے بعد حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سلام پھیر دیا ‘ لیکن مقتدیوں نے اپنی دوسری رکعت انفرادی طور پر ادا کرلی۔ اس طریقے سے لشکر میں سے کوئی شخص بھی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ‘ کی امامت کے شرف اور سعادت سے محروم نہ رہا۔- (وَلْیَاْخُذُوْا حِذْرَہُمْ وَاَسْلِحَتَہُمْ ج) (وَدَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَوْ تَغْفُلُوْنَ عَنْ اَسْلِحَتِکُمْ وَاَمْتِعَتِکُمْ فَیَمِیْلُوْنَ عَلَیْکُمْ مَّیْلَۃً وَّاحِدَۃً ط) (وَلاَ جُنَاحَ عَلَیْکُمْ اِنْ کَانَ بِکُمْ اَذًی مِّنْ مَّطَرٍ اَوْ کُنْتُمْ مَّرْضٰٓی اَنْ تَضَعُوْٓا اَسْلِحَتَکُمْ ج ) (وَخُذُوْا حِذْرَکُمْ ط) - اگر تلوار ‘ نیزہ وغیرہ جسم سے بندھے ہوئے ہوں اور اس حالت میں نماز پڑھنا مشکل ہو تو یہ اسلحہ وغیرہ کھول کر علیحدہ رکھ دینے میں کوئی حرج نہیں ‘ بشر طی کہ جنگ کے حالات اجازت دیتے ہوں ‘ لیکن ڈھال وغیرہ اپنے پاس ضرور موجود رہے تاکہ اچانک کوئی حملہ ہو تو انسان اپنے آپ کو اس فوری حملے سے بچا سکے اور اپنے ہتھیار سنبھال سکے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :134 امام ابو یوسف اور حسن بن زیاد نے ان الفاظ سے یہ گمان کیا ہے کہ صلوٰۃِ خوف صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کے لیے مخصوص تھی ۔ لیکن قرآن میں اس کی مثالیں بکثرت موجود ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے ایک حکم دیا گیا ہے اور وہی حکم آپ کے بعد آپ کے جانشینوں کے لیے بھی ہے ۔ اس لیے صلوٰۃِ خوف کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مخصوص کرنے کی کوئی وجہ نہیں ۔ پھر بکثرت جلیل القدر صحابہ سے ثابت ہے کہ انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی صلوٰۃ خوف پڑھی ہے اور اس باب میں کسی صحابی کا اختلاف مروی نہیں ہے ۔ سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :135 صلوٰۃ خوف کا یہ حکم اس صورت کے لیے ہے جب کہ دشمن کے حملہ کا خطرہ تو ہو مگر عملاً معرکہ قتال گرم نہ ہو ۔ رہی یہ صورت کہ عملاً جنگ ہو رہی ہو تو اس صورت میں حنفیہ کے نزدیک نماز مؤخر کر دی جائے گی ۔ امام مالک رحمہ اللہ اور امام ثَوری کے نزدیک اگر رکوع و سجود ممکن نہ ہو تو اشاروں سے پڑھ لی جائے ۔ امام شافعی کے نزدیک نماز ہی کی حالت میں تھوڑی سی زد و خورد بھی کی جا سکتی ہے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل سے ثابت ہے کہ آپ نے غزوہ خندق کے موقع پر چار نمازیں نہیں پڑھیں اور پھر موقع پا کر علی الترتیب انہیں ادا کیا ، حالانکہ غزوہ خندق سے پہلے صلوٰۃ خوف کا حکم آچکا تھا ۔ سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :136 صلوٰۃِ خوف کی ترکیب کا انحصار بڑی حد تک جنگی حالات پر ہے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف حالات میں مختلف طریقوں سے نماز پڑھائی ہے اور امام وقت مجاز ہے کہ ان طریقوں میں سے جس طریقہ کی اجازت جنگی صورت حال دے اسی کو اختیار کرے ۔ ایک طریقہ یہ ہے کہ فوج کا ایک حصہ امام کے ساتھ نماز پڑھے اور دوسرا حصہ دشمن کے مقابلہ پر رہے ۔ پھر جب ایک رکعت پوری ہو جائے تو پہلا حصہ سلام پھیر کر چلا جائے اور دوسرا حصہ آکر دوسری رکعت امام کے ساتھ پوری کرے ۔ اس طرح امام کی دو رکعتیں ہوں گی اور فوج کی ایک ایک رکعت ۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ ایک حصہ امام کے ساتھ ایک رکعت پڑھ کر چلا جائے ، پھر دوسرا حصہ آکر ایک رکعت امام کے پیچھے پڑھے ، پھر دونوں حصے باری باری سے آکر اپنی چھوٹی ہوئی ایک ایک رکعت بطور خود ادا کرلیں ۔ اس طرح دونوں حصوں کی ایک ایک رکعت امام کے پیچھے ادا ہو گی ، اور ایک رکعت انفرادی طور پر ۔ تیسرا طریقہ یہ ہے کہ امام کے پیچھے فوج کا ایک حصہ دو رکعتیں ادا کرے اور تشہد کے بعد سلام پھیر کر چلا جائے ۔ پھر دوسرا حصہ تیسری رکعت میں آکر شریک ہو اور امام کے ساتھ سلام پھیرے ۔ اس طرح امام کی چار اور فوج کی دو دو رکعتیں ہوں گی ۔ چوتھا طریقہ یہ ہے کہ فوج کا ایک حصہ امام کے ساتھ ایک رکعت پڑھے اور جب امام دوسری رکعت کے لیے کھڑا ہو تو مقتدی بطور خود ایک رکعت مع تشہد پڑھ کر سلام پھیر دیں ۔ پھر دوسرا حصہ آکر اس حال میں امام کے پیچھے کھڑا ہو کہ ابھی امام دوسری ہی رکعت میں ہو اور یہ لوگ بقیہ نماز امام کے ساتھ ادا کرنے کے بعد ایک رکعت خود اٹھ کر پڑھ لیں ۔ اس صورت میں امام کو دوسری رکعت میں طویل قیام کرنا ہو گا ۔ پہلی صورت کو ابن عباس ، جابر بن عبداللہ اور مجاھد نے روایت کیا ہے ۔ دوسرے طریقہ کو عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے اور حنفیہ اسی کو ترجیح دیتے ہیں ۔ تیسرے طریقہ کو حسن بصری نے ابوبکرہ سے روایت کیا ہے ۔ اور چوتھے طریقہ کو امام شافعی اور مالک نے تھوڑے اختلاف کے ساتھ ترجیح دی ہے اور اس کا ماخذ سہل بن ابی حَثْمَہ کی روایت ہے ۔ ان کے علاوہ صلوٰۃِ خوف کے اور بھی طریقے ہیں جن کی تفصیل مبسوطات میں مل سکتی ہے ۔ سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :137 یعنی یہ احتیاط جس کا حکم تمہیں دیا جا رہا ہے ، محض دنیوی تدابیر کے لحاظ سے ہے ، ورنہ دراصل فتح و شکست کا مدار تمہاری تدابیر پر نہیں بلکہ اللہ کے فیصلہ پر ہے ۔ اس لیے ان احتیاطی تدبیروں پر عمل کرتے ہوئے تمہیں اس امر کا یقین رکھنا چاہیے کہ جو لوگ اللہ کے نور کو اپنی پھونکوں سے بجھانے کی کوشش کررہے ہیں ، اللہ انہیں رسوا کرے گا ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani