صلوۃ نصر؟ فرمان الٰہی ہے کہ تم کہیں سفر میں جا رہے ہو ۔ یہی الفاظ سفر کے لئے سورہ مزمل میں بھی آئے ہیں ۔ تو تم پر نماز کی تخفیف کرنے میں کوئی گناہ نہیں ، یہ کمی یا تو کمیت میں یعنی بجائے چار رکعت کے دو رکعت ہے جیسے کہ جمہور نے اس آیت سے سمجھا ہے گو پھر ان میں بعض مسائل میں اختلاف ہوا ہے بعض تو کہتے ہیں یہ شرط ہے کہ سفر اطاعت کا ہو مثلاً جہاد کے لئے یا حج و عمرے کے لئے یا طلب و زیارت کے لئے وغیرہ ۔ ابن عمر عطاء یحییٰ اور ایک روایت کی رو سے امام مالک کا یہی قول ہے ، کیونکہ اس سے آگے فرمان ہے اگر تمہیں کفار کی ایذار سانی کا خوف ہو ، بعض کہتے ہیں اس قید کی کوئی ضرورت نہیں کہ سفر قربت الہیہ کا ہو بلکہ نماز کی کمی ہر مباح سفر کے لئے ہے جیسے اضطرار اور بےبسی کی صورت میں مردار کھانے کی اجازت ہے ، ہاں یہ شرط ہے کہ سفر معصیت کا نہ ہو ، امام شافعی وغیرہ ائمہ کا یہی قول ہے ، ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ میں تجارت کے سلسلے میں دریائی سفر کرتا ہوں تو آپ نے اسے دو رکعتیں پڑھنے کا حکم دیا ، یہ حدیث مرسل ہے ، بعض لوگوں کا مذہب ہے کہ ہر سفر میں نماز کو قصر کرنا جائز ہے سفر خواہ مباح ہو خواہ ممنوع ہو یہاں تک کہ اگر کوئی ڈاکہ ڈالنے کے لئے اور مسافروں کو ستانے کے لئے نکلا ہوا ہے اسے بھی نماز قصر کرنے کی اجازت ہے ، ابو حنیفہ ثوری اور داؤد کا یہی قول ہے کہ آیت عام ہے ، لیکن یہ قول جمہور کے قول کے خلاف ہے ۔ کفار سے ڈر کی جو شرط لگائی ہے یہ باعتبار اکثریت کے ہے آیت کے نازل ہونے کے وقت چونکہ عموماً یہی حال تھا اس لئے آیت میں بھی اسے بیان کر دیا گیا ، ہجرت کے بعد سفر مسلمانوں کے سب کے سب خوف والے ہی ہوتے تھے قدم قدم پر دشمن کا خطرہ رہتا تھا بلکہ مسلمان سفر کے لئے نکل ہی نہ سکتے تھے بجز اس کے کہ یا تو جہاد کو جائیں یا کسی خاص لشکر کے ساتھ جائیں اور یہ قاعدہ ہے کہ جب منطوق بہ اعتبار غالب کے آئے تو اس کا مفہوم معتبر نہیں ہوتا ۔ جیسے اور آیت میں ہے اپنی لونڈیوں کو بدکاری کے لئے مجبور نہ کرو اگر وہ پاکدامنی کرنا چاہیں اور جیسے فرمایا ان کی بیٹیاں جو تمہاری پرورش میں ہیں جن عورتوں سے تم نے محبت کی ہے ۔ پس جیسے کہ ان دونوں آیتوں میں قید کا بیان ہے لیکن اس کے ہونے پر ہی حکم کا دارومدار نہیں بلکہ بغیر اس کے بھی حکم وہی ہے یعنی لونڈیوں کو بدکاری کے لئے مجبور کرنا حرام ہے چاہے وہ پاکدامنی میں ہو یا نہ ہو ، حالانکہ دونوں جگہ قرآن میں یہ قید موجود ہے ، پس جس طرح ان دونوں موقعوں میں بغیر ان قیود کے بھی حکم یہی ہے اسی طرح یہاں بھی گوخوف نہ ہو تو بھی محض سفر کی وجہ سے نماز کو قصر کرنا جائز ہے ، مسند احمد میں ہے کہ حضرت یعلیٰ بن امیہ نے حضرت عمر فاروق سے پوچھا کہ نماز کی تخفیف کا حکم تو خوف کی حالت میں ہے اور اب تو امن ہے؟ حضرت عمر نے جواب دیا کہ یہی خیال مجھے ہوا تھا اور یہی سوال میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تھا تو آپ نے فرمایا یہ اللہ تعالیٰ کا صدقہ ہے جو اس نے تمہیں دیا ہے تم اس کے صدقے کو قبول کرو ۔ مسلم اور سنن وغیرہ میں بھی یہ حدیث ہے بالکل صحیح روایت ہے ۔ ابو حنظلہ حذاء نے حضرت عمر سے سفر کی نماز کا پوچھا تو آپ نے فرمایا دو رکعت ہیں انہوں نے کہا قرآن میں تو خوف کے وقت دو رکعت ہیں اور اس وقت تو پوری طرح امن و امان ہے تو آپ نے فرمایا یہی سنت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ( ابن ابی شیبہ ) ایک اور شخص کے سوال پر حضرت عمر نے فرمایا تھا آسمان سے تو یہ رخصت اتر چکی ہے اب اگر تم چاہو تو اسے لوٹا دو ، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں مکہ اور مدینہ کے درمیان ہم نے باوجود امن کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دو رکعت پڑھیں ( نسائی وغیرہ ) اور حدیث میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ سے مکے کی طرف چلے تو اللہ کے سوا کسی سے خوف نہ تھا اور آپ برابر دو رکعت ہی ادا فرماتے رہے ۔ بخاری کی حدیث میں ہے کہ واپسی میں بھی یہی دو رکعت آپ پڑھتے رہے اور مکے میں اس سفر میں آپ نے دس روز قیام کیا تھا ۔ مسند احمد میں حضرت حارثہ سے روایت ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ منی میں ظہر کی اور عصر کی نماز دو دو رکعت پڑھی ہیں حالانکہ اس وقت ہم بکثرت تھے اور نہایت ہی پر امن تھے ، صحیح بخاری میں ہے حضرت عبداللہ کے ساتھ ( سفر میں ) دو رکعت پڑھی ہیں ، لیکن حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی چار رکعات کا ذکر آیا تو آپ نے اناللہ الخ ، پڑھ کر فرمایا میں نے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بھی منی میں دو رکعت پڑھی ہیں اور صدیق اکبر کے ساتھ بھی اور عمر فاروق کے ساتھ بھی کاش کہ بجائے ان چار رکعات کے میرے حصے میں دو ہی مقبول رکعات آئیں ، پس یہ حدیثیں کھلم کھلا دلیل ہیں اس بات کی کہ سفر کی دو رکعات کے لئے خوف کا ہونا شرط نہیں بلکہ نہایت امن و اطمینان کے سفر میں بھی دو گانہ ادا کر سکتا ہے ، اسی لئے علماء کرام نے فرمایا ہے کہ یہاں کیفیت میں یعنی قرآت قومہ رکوع سجود وغیرہ میں قصر اور کمی مراد ہے نہ کہ کمیت میں یعنی تعداد رکعات میں تخفیف کرنا ، ضحاک ، مجاہد اور سدی کا یہی قول ہے جیسے کہ آرہا ہے ، اس کی ایک دلیل امام مالک کی روایت کردہ یہ حدیث بھی ہے کہ حضرت عائشہ فرماتی ہیں نماز دو دو رکعتیں ہی سفر حضر میں فرض کی گئی تھی پھر سفر میں تو وہی دو رکعتیں رہیں اور اقامت کی حالت میں دو اور بڑھا دی گئیں ، پس علماء کی یہ جماعت کہتی ہے کہ اصل نماز دو رکعتیں تھی تو پھر اس آیت میں قصر سے مراد کمیت یعنی رکعتوں کی تعداد میں کمی کیسے ہو سکتی ہے؟ اس قول کی بہت بڑی تائید صراحتاً اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جو مسند احمد میں حضرت عمر کی روایت سے ہے کہ بہ زبان نبی صلی اللہ علیہ وسلم سفر کی دو رکعتیں ہیں اور ضحی کی نماز بھی دو رکعت ہے اور عیدالفطر کی نماز بھی دو رکعت ہے اور جمعہ کی نماز بھی دو رکعت ہے یہ یہی پوری نماز ہے قصر والی نہیں ، یہ حدیث نسانی ، ابن ماجہ اور صحیح ابن حبان میں بھی ہے اس کی سند بشرط مسلم ہے ۔ اس کے راوی ابن ابی لیلیٰ کا حضرت عمر سے سننا ثابت ہے جیسے کہ امام مسلم نے اپنی صحیح کے مقدمہ میں لکھا ہے اور خود اس روایت اور اس کے علاوہ بھی صراحتاً موجود ہے اور یہی ٹھیک بھی ہے انشاء اللہ ۔ گو بعض محدثین سننے پر فیصلہ دینے کے قائل نہیں ، لیکن اسے مانتے ہوئے بھی اس سند میں کمی واقع نہیں ہوتی کیونکہ بعض طرق میں ابن ابی لیلیٰ کا ایک ثقہ سے اور ان کا حضرت عمر سے سننا مروی ہے ، اور ابن ماجہ میں ان کا کعب بن عجرہ سے روایت کرنا اور ان کا حضرت عمر سے روایت کرنا بھی مروی ہے فاللہ اعلم ۔ مسلم وغیرہ میں حضرت عبداللہ بن عباس سے مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی نماز کو اقامت کی حالت میں چار رکعت فرض کی ہے اور سفر میں دو رکعت اور خوف میں ایک رکعت ۔ پس جیسے کہ قیام میں اس سے پہلے اور اس کے پیچھے نماز پڑھتے تھے یا پڑھی جاتی تھی اسی طرح سفر میں بھی اور اس روایت میں اور حضرت عائشہ والی روایت میں جو اوپر گذری کہ حضر میں اللہ تعالیٰ نے دو رکعتیں ہی فرض کی تھیں گویا مسافات سے مشروط ہیں اس لئے کہ اصل دو ہی تھیں بعد میں دو اور بڑھا دی گئیں پھر حضر کی چار رکعت ہوگئیں تو اب کہہ سکتے ہیں کہ اقامت کی حالت میں فرض چار رکعتیں ہیں ۔ جیسے کہ ابن عباس کی اس روایت میں ہے واللہ اعلم ۔ الغرض یہ دونوں روایتیں اسے ثابت کرتی ہیں کہ سفر میں دو رکعت نماز ہی پوری نماز ہے کم نہیں اور یہی حضرت عمر کی روایت سے بھی ثابت ہو چکا ہے ۔ مراد اس میں قصر کمیت ہے جیسے کہ صلوۃ خوف میں ہے اسی لئے فرمایا ہے اگر تم ڈرو اس بات سے کہ کافر تمہیں فتنے میں ڈال دیں گے اور اس کے بعد فرمایا جب وقت ان میں ہو اور نماز پڑھو تو بھی ۔ پھر قصر کا مقصود صفت اور کیفیت بھی بیان فرما دی امام المحدثین حضرت بخاری نے کتاب صلوۃ خوف کو اسی ( وَاِذَا ضَرَبْتُمْ فِي الْاَرْضِ فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَقْصُرُوْا مِنَ الصَّلٰوةِ ڰ اِنْ خِفْتُمْ اَنْ يَّفْتِنَكُمُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا ۭ اِنَّ الْكٰفِرِيْنَ كَانُوْا لَكُمْ عَدُوًّا مُّبِيْنًا ) 4 ۔ النسآء:101 ) تک لکھ کر شروع کیا ہے ، ضحاک اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ یہ لڑائی کے وقت ہے انسان اپنی سواری پر نماز دو تکبیریں پڑھ لے اس کا منہ جس طرف بھی ہو اسی طرف صحیح ہے ۔ سدی فرماتے ہیں کہ سفر میں جب تو نے دو رکعت پڑھیں تو وہ قصر کی پوری مقدار ہے ہاں جب کافروں کی فتنہ انگیزی کا خوف ہو تو ایک ہی رکعت قصر ہے البتہ یہ کسی سنین خوف کے بغیر جائز نہیں ۔ مجاہد فرماتے ہیں اس آیت سے مراد وہ دن ہے جبکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام صحابہ کے ساتھ حسب معمول چار رکعتیں پوری ادا کیں پھر مشرکین نے سامان و اسباب کو لوٹ لینے کر ارادہ کیا ، ابن جریر اسے مجاہد اور سدی اور جابر اور ابن عمر سے روایت کرتے ہیں اور اسی کو اختیار کرتے ہیں اور اسی کو کہتے ہیں کہ یہی ٹھیک ہے ۔ حضرت خالد بن اسید حضرت عبداللہ بن عمر سے کہتے ہیں صلوۃ خوف کے قصر کا حکم تو ہم کتاب اللہ میں پاتے ہیں لیکن صلوۃ مسافر کے قصر کا حکم کتاب اللہ میں نہیں ملتا تو حضرت ابن عمر جواب دیتے ہیں ہم نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سفر میں نماز کو قصر کرتے ہوئے پایا اور ہم نے بھی اس پر عمل کیا ۔ خیال فرمائیے کہ اس میں قصر کا اطلاق صلوۃ خوف پر کیا اور آیت سے مراد بھی صلوۃ خوف لی اور صلوۃ مسافر کو اس میں شامل نہیں کیا اور حضرت ابن عمر نے بھی اس کا اقرار کیا ۔ اس آیت سے مسافرت کی نماز کا قصر بیان نہیں فرمایا بلکہ اس کے لئے فعل رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو سند بتایا ۔ اس سے زیادہ صراحت والی روایت ابن جریر کی ہے کہ حضرت سماک آپ سے صلوۃ پوچھتے ہیں آپ فرماتے ہیں سفر کی نماز دو رکعت ہے اور یہی دو رکعت سفر کی پوری نماز ہے قصر نہیں ، قصر تو صلوۃ خوف میں ہے کہ امام ایک جماعت کو ایک رکعت پڑھاتا ہے دوسری جماعت دشمن کے سامنے ہے پھر یہ چلے گئے وہ آگئے ایک رکعت امام نے انہیں پڑھائی تو امام کی دو رکعت ہوئیں اور ان دونوں جماعتوں کی ایک ایک رکعت ہوئی ۔
101۔ 1 اس حالت میں سفر میں نماز قصر کرنے (دوگانہ ادا کرنے) کی اجازت دی جا رہی ہے، ان خفتم۔ " اگر تمہیں ڈر ہو۔ " غالب احوال کے اعتبار سے ہے۔ کیونکہ اس وقت پورا عرب دارالحرب بنا ہوا تھا۔ کسی طرف بھی خطرات سے خالی نہیں تھا۔ یعنی یہ شرط نہیں ہے کہ سفر میں خوف ہو تو قصر کی اجازت ہے جیسے قرآن مجید میں اور بھی مقامات پر اس قسم کی قیدیں بیان کی گئی ہیں جو اتفاقی یعنی غالب احوال کے اعتبار سے ( يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْ كُلُوا الرِّبٰٓوا اَضْعَافًا مُّضٰعَفَةً ) 003:130 (وَلَا تُكْرِهُوْا فَتَيٰتِكُمْ عَلَي الْبِغَاۗءِ اِنْ اَرَدْنَ تَحَصُّنًا لِّتَبْتَغُوْا عَرَضَ الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا) 024:033 تم اپنی لونڈیوں کو بدکاری پر مجبور نہ کرو اگر وہ اس سے بچنا چاہیں۔ " چونکہ بچنا چاہتی تھیں، اس لئے اللہ نے اسے بیان فرما دیا۔ یہ نہیں کہ اگر وہ بدکاری پر آمادہ ہوں تو پھر تمہارے لئے یہ جائز ہے کہ تم ان سے بدکاری کروا لیا کرو ( وَرَبَاۗىِٕبُكُمُ الّٰتِيْ فِيْ حُجُوْرِكُمْ مِّنْ نِّسَاۗىِٕكُمُ ) 004:023 بعض صحابہ رضوان اللہ علیہم کے ذہن میں بھی یہ اشکال آیا کہ اب تو امن ہے ہمیں سفر میں نماز قصر نہیں کرنی چاہئے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا " یہ اللہ کی طرف سے تمہارے لئے صدقہ ہے اس کے صدقے کو قبول کرو۔ " (مسند أحمد جلد 1، ص 25، 36 وصحیح مسلم، کتاب المسافرین اور دیگر کتب حدیث)
[١٣٨] اس آیت میں اگرچہ سفر کے ساتھ دشمن کے اندیشہ کا بھی ذکر ہے تاہم سنت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ثابت ہے کہ ہر طرح کے سفر میں نماز قصر کی جاسکتی ہے۔ نیز یہ بھی ضروری نہیں کہ یہ سفر فی سبیل اللہ ہی ہو بلکہ ہر سفر میں قصر کی جاسکتی ہے رہی یہ بات کہ کتنے فاصلہ کو سفر کہہ سکتے ہیں اس میں بھی اگرچہ اختلافات موجود ہیں۔ تاہم ہمارے لیے یہ امر کافی اطمینان کا باعث ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ کوئی عورت ایک رات بھی محرم کے بغیر سفر نہ کرے۔ (بخاری، کتاب العمرۃ، باب حج النسائ) گویا اتنی مسافت جہاں سے ایک انسان پیدل رات کو اپنے گھر واپس نہ پہنچ سکتا ہو، وہ سفر ہے اور سیدنا عمر (رض) نے اسے اپنے دور خلافت میں ایک عورت کے سفر پر محمول کرتے ہوئے اس دور کے ٩ میل کی مسافت کو سفر قرار دیا تھا جو آج کل کے پیمانہ کے لحاظ سے ٢٥ کلومیٹر بنتا ہے۔ یعنی ایک کمزور انسان پیدل ایک دن میں ٢٥ کلومیٹر جانے کا اور اتنا ہی آنے کا کل ٥٠ کلومیٹر مسافت طے نہیں کرسکتا۔ لہذا اتنی مسافت پر سفر کا اطلاق ہوگا۔ سفر میں اگر قصر نہ کی جائے تو بھی کوئی مضائقہ نہیں۔ تاہم قصر کرنا ہی افضل ہے۔ پھر سفر میں دو نمازیں اکٹھی کر کے پڑھنے کا موقع آجاتا ہے۔ ایسی تفصیلات کے لیے درج ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیے :- ١۔ سفر میں قصر جمع اور سفر کی تعیین :۔ سیدہ عائشہ (رض) فرماتی ہیں ابتداء سفر و حضر میں نماز دو رکعت فرض کی گئی تھی۔ پھر سفر کی نماز تو اتنی ہی برقرار رکھی گئی اور حضر کی نماز میں اضافہ کیا گیا۔ (منیٰ میں ) (بخاری، ابو اب تقصیرالصلٰوۃ، باب یقصر اذا خرج من موضعہ۔۔ (مسلم، کتاب الصلٰوۃ، باب صلٰوۃ المسافرین)- ٢۔ حارث بن وہب فرماتے ہیں کہ منیٰ میں ہمیں نبی اکرم نے دو رکعت (نماز قصر) پڑھائی۔ حالانکہ آپ بالکل امن میں تھے۔ (بخاری، ابو اب تقصیر الصلٰوۃ، باب الصلٰوۃ بمنیٰ )- ٣۔ یعلٰی بن امیہ کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا عمر (رض) سے کہا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تمہیں (کافروں کا) خوف ہو تو نماز میں قصر کرو اور اب تو ہم امن میں ہیں۔ سیدنا عمر (رض) نے جواب دیا اسی بات پر میں نے بھی تعجب کیا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ذکر کیا تو آپ نے فرمایا یہ ایک صدقہ ہے جو اللہ نے آپ پر کیا لہذا اس کا صدقہ قبول کرو۔ (ترمذی، ابو اب القصر)- ٤۔ سیدنا عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھا کہ جب آپ کو سفر میں جلدی ہوتی تو مغرب کو مؤخر کر کے تین رکعت پڑھتے پھر سلام پھیرتے۔ پھر تھوڑی دیر بعد عشاء کی اقامت ہوتی تو آپ دو رکعت پڑھتے پھر سلام پھیرتے۔ (بخاری، ابو اب تقصیرالصلٰوۃ، باب یصلی المغرب ثلاثا فی السفر) - ٥۔ عبداللہ بن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ آپ نے مدینہ میں رہ کر (یعنی بلاسفر) سات رکعتیں مغرب اور عشاء کی اور آٹھ رکعتیں ظہر اور عصر کی (ملا کر) پڑھیں۔ ایوب سختیانی نے جابر بن زید سے کہا شاید بارش کی رات میں ایسا کیا ہو ؟ انہوں نے کہا شاید (بخاری، کتاب مواقیت الصلٰوۃ، باب تاخیر الظہر الی العصر)
وَاِذَا ضَرَبْتُمْ فِي الْاَرْضِ ۔۔ : قصر کا معنی کمی ہے، یہ کمی رکعات کی تعداد میں بھی مسنون ہے اور اگر خوف زیادہ ہو تو نماز کی ہیئت و شکل میں بھی کمی ہوسکتی ہے، مثلاً پیدل جاتے جاتے نماز پڑھ لینا۔ ظاہر ہے اس میں سجدہ اور رکوع تو پوری طرح ممکن نہیں، یا سواری پر اشارے سے نماز پڑھ لینا۔ (دیکھیے سورة بقرہ (٢٣٩) ۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عبداللہ بن انیس (رض) کو خالد بن سفیان کے قتل کے لیے بھیجا تو عصر کا وقت قریب تھا، انھوں نے جاتے جاتے ہی نماز پڑھ لی۔ [ أبو داوٗد، صلاۃ السفر، باب صلاۃ الطالب : ١٢٤٩ ] حافظ ابن حجر (رض) نے فتح الباری میں اس کی سند کو حسن اور ابن کثیر نے جید کہا ہے۔ [ ہدایۃ المستنیر ] عبداللہ بن عباس (رض) نے فرمایا : ” اللہ تعالیٰ نے تمہارے نبی کی زبان سے حضر میں چار، سفر میں دو اور خوف میں ایک رکعت فرض کی ہے۔ “ [ مسلم، صلاۃ المسافرین، باب صلاۃ المسافرین و قصرھا : ٦٨٧ ]- عام سفر میں مغرب اور صبح کی نماز کے علاوہ دوسری نمازوں میں چار کے بجائے دو رکعت پڑھنا قصر ہے۔ ” تم پر کچھ گناہ نہیں “ کے الفاظ سے ثابت ہوتا ہے کہ حالت سفر میں قصر واجب نہیں، اس کی صرف اجازت ہے اور یہی اکثر علمائے سلف کا مسلک ہے، مگر چونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیشہ سفر میں قصر پڑھی ہے، لہٰذا آپ کی سنت کو دیکھتے ہوئے امام شافعی، امام احمد ابن حنبل اور اکثر محدثین (رح) کے نزدیک قصر افضل ہے۔ - 2 سفر سے مراد بظاہر تو عام سفر ہے، جسے عرف میں سفر کہا جاتا ہو، اب رہی میلوں یا دنوں کی مقدار کی تعیین تو نہ قرآن کی کسی آیت میں اس کا صاف ذکر ہے اور نہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی کسی صریح حدیث میں۔ اس بنا پر جن ائمہ اور علماء نے کسی مقدار کی تعیین کی ہے، انھوں نے عموماً نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سفروں کو دیکھتے ہوئے اپنے اجتہاد سے کی ہے، تاہم سب سے قوی دلیل سفر کی مقدار کی تعیین میں صحیح مسلم (٦٩١) میں مروی حدیث انس ہے، جس کی رو سے تین فرسخ ( ٩ کوس) تقریباً اکیس کلو میٹر سفر کرنا ہو تو شہر سے نکل کر قصر کرسکتے ہیں۔- 3 کسی صحیح حدیث میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ ثابت نہیں کہ آپ نے کسی سفر میں فرض نماز سے پہلے یا بعد میں سنتیں ادا کی ہوں، ہاں رات کے وتر اور صبح کی سنتیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہر سفر میں پڑھا کرتے تھے اور کبھی نہیں چھوڑتے تھے۔ (زاد المعاد : ١؍٤٥٦) صحابہ میں سے ابو بکر، عمر اور ابن عمر (رض) کا اسی پر عمل تھا۔ [ بخاری،- التقصیر، باب من لم یتطوع فی السفر دبر الصلاۃ : ١١٠١ ]- 4 مسافر اگر مقیم کے پیچھے نماز پڑھے گا تو قصر نہیں کرے گا۔ موسیٰ بن سلمہ فرماتے ہیں کہ ہم ابن عباس کے ساتھ مکہ میں تھے تو میں نے کہا جب ہم آپ کے ساتھ ہوتے ہیں تو چار رکعت پڑھتے ہیں جب اپنی رہائش کی جگہوں میں جاتے ہیں تو دو رکعت پڑھتے ہیں تو انھوں نے فرمایا یہ ابوالقاسم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت ہے۔ [ أحمد ٢١٦؍١، ح : ١٨٦٧ ] اس کی ہم معنی روایت صحیح ابی عوانہ (٣٤٠؍٢) میں ہے۔ ارواء الغلیل تحت حدیث (٥٧١)- اِنْ خِفْتُمْ اَنْ يَّفْتِنَكُمُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا ۭ ۔۔ : یہ آیت چونکہ جہاد کے سلسلے میں نازل ہوئی ہے، اس لیے اس میں نماز قصر کی اجازت کے ساتھ ” اگر تمہیں ڈر ہو کہ کافر تمہیں فتنے میں ڈال دیں گے “ کے الفاظ بھی استعمال ہوئے ہیں۔ باقی رہا عام سفر، جس میں دشمن کا خوف نہ ہو تو اس میں قصر کے حکم کے بارے میں یہ آیت خاموش ہے، اسے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے قول و فعل سے واضح فرمایا ہے۔ عمر (رض) سے ایک شخص نے سوال کیا : ” کیا وجہ ہے کہ لوگ ہر سفر میں قصر کر رہے ہیں، حالانکہ قرآن مجید میں یہ حکم خوف کے ساتھ مقید ہے ؟ “ تو عمر (رض) نے فرمایا : ” خود مجھے بھی اس سے تعجب ہوا تھا اور میں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کا ذکر کیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” یہ ایک صدقہ ہے، جو اللہ نے تم پر کیا ہے، لہٰذا تم اس کا صدقہ قبول کرو۔ “ [ مسلم، صلاۃ المسافرین، باب صلاۃ المسافرین و قصرھا : ٦٨٦ ] ابن عباس (رض) فرماتے ہیں : ” نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ سے مکہ تشریف لے گئے اور اس وقت رب العالمین کے سوا کسی کا خوف نہ تھا مگر آپ نے دو ہی رکعت نماز پڑھی۔ “ [ تقصیر الصلاۃ فی السفر، بابٌ : ١٤٣٦ ]- انس (رض) بیان کرتے ہیں : ” ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ مدینہ سے مکہ روانہ ہوئے تو آپ نماز کی دو دو رکعتیں ادا فرماتے رہے، حتیٰ کہ ہم مدینہ واپس آگئے۔ “ حدیث کے راوی کہتے ہیں کہ میں نے پوچھا : ” آپ لوگوں نے مکہ میں کتنی دیر قیام کیا تھا انھوں نے جواب دیا : ” ہم نے دس دن قیام کیا تھا۔ “ [ بخاری، التقصیر، باب ما جاء فی التقصیر : ١٠٨١ ] - ایک مرتبہ آپ نے مکہ میں انیس (١٩) دن بھی قیام کیا تھا۔ [ بخاری، المغازی، باب مقام النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بمکۃ زمن الفتح : ٤٢٩٨ ] جابر (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ مدت صراحت کے ساتھ نہیں آئی کہ کتنے دن کسی جگہ ٹھہرنے کا ارادہ ہو تو قصر کرسکتا ہے۔ علماء کے اجتہادات مختلف ہیں بعض نے فرمایا انیس دن ٹھہرنے کا ارادہ ہو تو پوری بڑھے اس سے کم ہو تو قصر کرے بعض نے وہ مدت پنرہ دن بیان فرمائی بعض نے چار دن۔ مگر راجح بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ جب تک کسی جگہ اقامت کا ارادہ نہ کرے قصر کرسکتا ہے۔ ثمامہ بن شراحیل فرماتے ہیں کہ میں ابن عمر (رض) کے پاس گیا تو ہم نے عرض کیا : مسافر کی نماز کیسے ہے انھوں نے فرما ای دو دو رکعتیں سوائے مغرب کے کہ وہ تین رکعتیں ہے۔ میں نے کہا یہ باتئیں اگر ہم ذوالمجاز میں ہوں ؟ انھوں نے فرمایا : ذوالمجاز کیا ہے میں نے کہا ایک جگہ ہے جس میں ہم جمع ہوتے ہیں اور خریدو فروخت کرتے ہیں اور بیس راتیں یا پندرہ راتیں ٹھہرتے ہیں تو انھوں نے فرمایا یا ایھا الرجل (اے آدمی) میں آذر بیجان میں رہا، میں نہیں جانتا کہ انھوں نے چار مہینے کہا یا دو ماہ، تو میں نے انھیں دیکھا کہ وہ دو ، دو رکعت پڑھتے تھے اور میں نے اپنی آنکھوں کے سامنے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دو ، دو رکعت پڑھتے دیکھا۔ پھر انھوں نے یہ آیت پڑھی ( لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۂ حسنہ ) (مسند احمد : ٥٥٥٢) وحسنہ محققوہ فی طبع الرسالۃ
خلاصہ تفسیر - اور جب تم زمین میں سفر کرو (جس کی مقدار تین منزل ہو) سو تم کو اس میں کوئی گناہ نہ ہوگا (بلکہ ضروری ہے) کہ تم (ظہر اور عصر اور عشاء کے فرض) نماز ( کی رکعات) کو کم کردو (یعنی چار کی جگہ دو پڑھا کرو) اگر تم کو یہ اندیشہ ہو کہ تم کو کافر لوگ پریشان کریں گے (اور اس اندیشہ کی وجہ سے ایک جگہ زیادہ دیر تک ٹھہرنا خلاف مصلحت سمجھا جاوے، کیونکہ) بلاشبہ کافر لوگ تمہارے صریح دشمن ہیں اور جب آپ ان میں تشریف رکھتے ہوں (اور اسی طرح آپ کے بعد اور جو امام ہو) پھر آپ ان کو نماز پڑھانا چاہیں (اور اندیشہ ہو کہ اگر سب نماز میں لگ جائیں گے تو کوئی دشمن موقع پا کر حملہ کر بیٹھے گا) تو (ایسی حالت میں) یوں چاہئے کہ (جماعت کے دو گروہ ہوجائیں پھر) ان میں سے ایک گروہ تو آپ کے ساتھ (نماز میں) کھڑے ہوجائیں (اور دوسرا گروہ نگہبانی کے لئے دشمن کے مقابل کھڑا رہے تاکہ دشمن کو دیکھتا رہے) اور وہ لوگ (جو آپ کے ساتھ نماز میں شامل ہیں وہ بھی مختصر مختصر) ہتھیار لینے میں دیر نہ لگے، فوراً قتال کرنے لگیں، گو نماز قتال سے ٹوٹ جائے گی، لیکن گناہ نہیں) پھر جب یہ لوگ (آپ کے ساتھ) سجدہ کر چکیں (یعنی ایک رکعت پوری کرلیں) تو یہ لوگ (نگہبانی کے لئے) تمہارے پیچھے ہوجاویں (یعنی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اور دوسرے گروہ کے جو کہ اب نماز میں شامل ہوں گے جن کا بیان آگے آتا ہے، یہ پہلا گروہ ان سب کے پیچھے ہوجائے) اور دوسرا گروہ جنہوں نے ابھی نماز نہیں پڑھی (یعنی شروع بھی نہیں کی) وہ اس پہلے گروہ کی جگہ امام کے قریب) آجائے اور آپ کے ساتھ نماز (کی ایک رکعت جو باقی رہی ہے اس کو) پڑھ لیں اور یہ لوگ بھی اپنے بچاؤ کا سامان اور اپنے ہتھیار لیلیں (اور سامان اور ہتھیار ہمراہ لینے کا اس لئے سب کو حکم کیا ہے کہ) کافر لوگ یوں چاہتے ہیں کہ اگر تم اپنے ہتھیاروں اور سامانوں سے (ذرا) غافل ہو جاؤ تو تم پر ایک بارگی حملہ کر بیٹھیں، (سو ایسی حالت میں احتیاط ضروری ہے) اور اگر تم کو بارش (وغیرہ) کی وجہ سے (ہتھیار لے کر چلنے میں) تکلیف ہو یا تم بیمار ہو ( اور اس وجہ سے ہتھیار باندھ نہیں سکتے، تو تم کو اس میں (بھی) کچھ گناہ نہیں کہ ہتھیار اتار رکھ اور (پھر بھی) اپنا بچاؤ (ضرور) لے لو، (اور یہ خیال نہ کرو کہ کفار کی دشمنی کا صرف دنیا ہی میں علاج کیا گیا ہے بلکہ آخرت میں اس سے بڑھ کر ان کا علاج ہوگا کیونکہ) بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے کافروں کے لئے سزائے اہانت آمیز مہیا کر رکھی ہے، پھر جب تم نماز (خوف) کو ادا کر چکو تو (بدستور) اللہ تعالیٰ کی یاد میں لگ جاؤ کھڑے بھی اور بیٹھے بھی اور لیٹے بھی (یعنی ہر حالت میں حتی کہ عین لڑائی کے وقت بھی اللہ کا ذکر جاری رکھو دل سے بھی اور احکام شرعی کے اتباع سے بھی کہ وہ بھی ذکر میں داخل ہے، لڑائی میں خلاف شرع کوئی کارروائی کرنے سے پرہیز کرو، غرض نماز تو ختم ہوئی ذکر ختم نہیں ہوتا، سفر یا خوف کی وجہ سے نماز میں تو تخفیف ہوگئی تھی لیکن ذکر اپنی حالت پر ہی ہے) پھر جب تم مطمئن ہوجاؤ (یعنی سفر ختم کر کے مقیم ہوجاؤ اور اسی طرح خوف کے ختم ہونے کے بعد بےخوف ہوجاؤ) تو نماز کو (اصلی) قاعدہ کے موافق پڑھنے لگو (یعنی قصر اور نماز میں مشی وغیرہ چھوڑ دو ، کیونکہ وہ بوجہ عارض کے جائز رکھا گیا تھا) یقیناً نماز مسلمانوں پر فرض ہے اور وقت کے ساتھ محدود ہے (پس فرض ہونے کی وجہ سے ادا کرنا ضرور اور وقت کے ساتھ خاص ہونے کی وجہ سے وقت ہی میں ادا کرنا ضرور ہوا، اس لئے کچھ کچھ اس کی شکل و صورت میں تبدیلی کردی گئی، ورنہ نماز کی صورت مقصودہ وہی اصلی صورت ہے، پس سبب کے ختم ہونے کے بعد نماز کی اصلی صورت کی حفاظت لازم ہوگئی) اور ہمت مت ہارو اس مخالف قوم کے تعاقب کرنے میں (جبکہ اس کی ضرورت ہے) اگر تم (زخموں سے) تکلیف میں مبتلا ہو تو (کیا ہوا) وہ بھی تو درد میں مبتلا ہیں جیسے تم درد میں مبتلا ہو (تو وہ تم سے زیادہ قوت نہیں رکھتے پھر کا ہے کو ڈرتے ہو) اور (تم میں ایک زیادتی ان سے یہ ہے کہ) تم اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسی چیزوں کی امید رکھتے ہو کہ وہ لوگ (ان کی) امید نہیں رکھتے (یعنی ثواب، تو دل کی قوت میں تم زیادہ ہوئے اور ضعف بدن میں ایک جیسے تو تم کو زیادہ چست رہنا چاہئے اللہ تعالیٰ بڑے علم والے ہیں (ان کو کفار کا کمزور دل اور کمزور بدن معلوم ہے) بڑے حکمت والے ہیں (تمہاری قوت برداشت سے زیادہ حکم نہیں فرمایا) ۔- معارف ومسائل - ربط آیات :۔ اوپر جہاد اور ہجرت کا ذکر تھا چونکہ اب احوال میں جہاد اور ہجرت کے لئے سفر کرنا پڑتا ہے اور ایسے سفر میں مخالف کی طرف اندیشہ بھی اکثر ہوتا ہے اس لئے سفر اور خوف کی رعایت سے جو نماز میں بعض خاص سہولتیں اور تحفیفیں کی گئی ہیں آگے ان کا ذکر فرماتے ہیں۔
وَاِذَا ضَرَبْتُمْ فِي الْاَرْضِ فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَقْصُرُوْا مِنَ الصَّلٰوۃِ ٠ۤۖ اِنْ خِفْتُمْ اَنْ يَّفْتِنَكُمُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا ٠ۭ اِنَّ الْكٰفِرِيْنَ كَانُوْا لَكُمْ عَدُوًّا مُّبِيْنًا ١٠١- إذا - إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو :إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له - ( اذ ا ) اذ ا - ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔- اذا کی مختلف صورتیں ہیں :۔- (1) یہ ظرف زمان ہے۔ ( زجاج، ریاشی)- (2) یہ ظرف مکان ہے۔ ( مبرد، سیبوبہ)- (3) اکثر و بیشتر اذا شرط ہوتا ہے۔- مفسرین نے تینوں معنوں میں اس کا استعمال کیا ہے۔- (1) ظرف زمان : اور جب تو وہاں ( کی نعمتیں) دیکھے گا۔ تو تجھ کو وہاں بڑی نعمت اور شاہی سازو سامان نظر آئے گا۔ ( تفسیر حقانی) - (2) ظرف مکان : اور جدھر بھی تم وہاں دیکھو گے تمہیں نعمتیں ہی نعمتیں اور وسیع مملکت نظر آئے گی۔ ( تفسیر ضیاء القرآن)- (3) اذا شرطیہ۔ اور اگر تو اس جگہ کو دیکھے توتجھے بڑی نعمت اور بڑی سلطنت دکھائی دے۔ ( تفسیر ماجدی)- ضَّرْبُ ( چلنا)- والضَّرْبُ في الأَرْضِ : الذّهاب فيها وضَرْبُهَا بالأرجلِ. قال تعالی: وَإِذا ضَرَبْتُمْ فِي الْأَرْضِ [ النساء 101] ، وَقالُوا لِإِخْوانِهِمْ إِذا ضَرَبُوا فِي الْأَرْضِ [ آل عمران 156] ، وقال : لا يَسْتَطِيعُونَ ضَرْباً فِي الْأَرْضِ [ البقرة 273]- ضرب فی الارض کے معنی سفر کرنے کے ہیں ۔ کیونکہ انسان پیدل چلتے وقت زمین پر پاؤں رکھتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَإِذا ضَرَبْتُمْ فِي الْأَرْضِ [ النساء 101] اور جب سفر کو جاؤ ۔ وَقالُوا لِإِخْوانِهِمْ إِذا ضَرَبُوا فِي الْأَرْضِ [ آل عمران 156] اور ان کے مسلمان بھائی جب خدا کی راہ میں سفر کریں ۔۔۔۔ تو ان کی نسبت کہتے ہیں ۔ لا يَسْتَطِيعُونَ ضَرْباً فِي الْأَرْضِ [ البقرة 273] اور ملک میں کسی طرف جانے کی طاقت نہیں رکھتے ۔ اور یہی معنی آیت : فَاضْرِبْ لَهُمْ طَرِيقاً فِي الْبَحْرِ [ طه 77] کے ہیں یعنی انہیں سمندر میں ( خشک راستے سے لے جاؤ ۔- جناح - وسمي الإثم المائل بالإنسان عن الحق جناحا ثم سمّي كلّ إثم جُنَاحاً ، نحو قوله تعالی: لا جُناحَ عَلَيْكُمْ في غير موضع، وجوانح الصدر :- الأضلاع المتصلة رؤوسها في وسط الزور، الواحدة : جَانِحَة، وذلک لما فيها من المیل - اسی لئے ہر وہ گناہ جو انسان کو حق سے مائل کردے اسے جناح کہا جاتا ہے ۔ پھر عام گناہ کے معنی میں یہ لفظ استعمال ہونے لگا ہے ۔ قرآن میں متعدد مواضع پر آیا ہے پسلیاں جن کے سرے سینے کے وسط میں باہم متصل ہوتے ہیں اس کا واحد جانحۃ ہے اور ان پسلیوں کو جو انح اسی لئے کہا جاتا ہے کہ ان میں میلان یعنی خم ہوتا ہے ۔- قصر - القِصَرُ : خلاف الطّول، وهما من الأسماء المتضایفة التي تعتبر بغیرها، وقَصَرْتُ كذا :- جعلته قَصِيراً ، والتَّقْصِيرُ : اسم للتّضجیع، وقَصَرْتُ كذا : ضممت بعضه إلى بعض، ومنه سمّي الْقَصْرُ ، وجمعه : قُصُورٌ. قال تعالی: وَقَصْرٍ مَشِيدٍ [ الحج 45] ، وَيَجْعَلْ لَكَ قُصُوراً [ الفرقان 10] ، إِنَّها تَرْمِي بِشَرَرٍ كَالْقَصْرِ [ المرسلات 32] ، وقیل : الْقَصْرُ أصول الشّجر، الواحدة قَصْرَةٌ ، مثل : جمرة وجمر، وتشبيهها بالقصر کتشبيه ذلک في قوله : كأنّه جمالات صفر [ المرسلات 33] ، وقَصَرْتُه جعلته : في قصر، ومنه قوله تعالی:- حُورٌ مَقْصُوراتٌ فِي الْخِيامِ [ الرحمن 72] ، وقَصَرَ الصلاةَ : جعلها قَصِيرَةً بترک بعض أركانها ترخیصا . قال : فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُناحٌ أَنْ تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلاةِ [ النساء 101] وقَصَرْتُ اللّقحة علی فرسي : حبست درّها عليه، وقَصَرَ السّهمِ عن الهدف، أي : لم يبلغه، وامرأة قاصِرَةُ الطَّرْفِ : لا تمدّ طرفها إلى ما لا يجوز . قال تعالی: فِيهِنَّ قاصِراتُ الطَّرْفِ [ الرحمن 56] . وقَصَّرَ شعره : جزّ بعضه، قال : مُحَلِّقِينَ رُؤُسَكُمْ وَمُقَصِّرِينَ [ الفتح 27] ، وقَصَّرَ في كذا، أي : توانی، وقَصَّرَ عنه لم : ينله، وأَقْصَرَ عنه : كفّ مع القدرة عليه، واقْتَصَرَ علی كذا : اکتفی بالشیء الْقَصِيرِ منه، أي : القلیل، وأَقْصَرَتِ الشاة : أسنّت حتی قَصَرَ أطراف أسنانها، وأَقْصَرَتِ المرأة : ولدت أولادا قِصَاراً ، والتِّقْصَارُ : قلادة قَصِيرَةٌ ، والْقَوْصَرَةُ معروفة «1» .- ( ق ص ر ) القصر یہ طول کی ضد ہے اور یہ دونوں اسمائے نسبتی سے ہیں جو ایک دوسرے پر قیاس کے ذریعہ سمجھے جاتے ہیں ۔ قصرت کذا کے معنی کسی چیز کو کوتاہ کرنے کے ۔ ہیں اور تقصیر کے معنی اور سستی کے ہیں اور قصرت کذا کے معنی سکیٹر نے اور کسی چیز کے بعض اجزاء کو بعض کے ساتھ ملانا کے بھی آتے ہیں ۔ اسی سے قصر بمعنی محل ہے اس کی جمع قصور آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَقَصْرٍ مَشِيدٍ [ الحج 45] اور بہت سے محل : ۔ وَيَجْعَلْ لَكَ قُصُوراً [ الفرقان 10] نیز تمہارے لئے محل بنادے گا ۔ إِنَّها تَرْمِي بِشَرَرٍ كَالْقَصْرِ [ المرسلات 32] اس سے آگ کی اتنی ( بڑی بڑی ) چنگاریاں اٹھتی ہیں ۔ جیسے محل ۔ بعض نے کہا ہے کہ قصر جمع ہے اور اس کے معنی درخت کی جڑوں کے ہیں ۔ اس کا واحد قصرۃ ہے جیسے جمرۃ وجمر اور ان شراروں کو قصر کے ساتھ تشبیہ دینا ایسے ہی ہے جیسا کہ دوسری آیت میں ان کا ۔ كأنّه جمالات صفر [ المرسلات 33] گویا زور درنگ کے اونٹ ہیں ۔ کہا ہے کہ اور قصرتہ کے معنی محل میں داخل کرنے کے ہیں اور اسی سے ارشاد الہٰی ہے ۔ حُورٌ مَقْصُوراتٌ فِي الْخِيامِ [ الرحمن 72] وہ حوریں ہیں جو خیموں میں ستور ہیں ۔- قصرالصلٰوۃ - بموجب رخصت شرعی کے نماز کے بعض ارکان کو ترک کرکے اسے کم کرکے پڑھنا ۔ قرآن پاک میں ہے : فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُناحٌ أَنْ تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلاةِ [ النساء 101] تو تم پر کچھ گناہ نہیں کہ نماز کو کم کر کے پڑھو ۔ قصرت اللقحتہ علٰی فرسی اونٹنی کا دودھ اپنی گھوڑی کے لئے مخصوص کردیا قصرالسھم عن الھدف ۔ تیر کا نشانے تک نہ پہنچنا ۔ امراءۃ قاصرۃ الطرف وہ عورت ناجائز نظر اٹھا کے نہ دیکھے ۔ قرآن پاک میں ہے : فِيهِنَّ قاصِراتُ الطَّرْفِ [ الرحمن 56] ان میں نیچی نگاہ والی عورتیں ۔ قصری شعرہ بال کتروانا قرآن پاک میں ہے : مُحَلِّقِينَ رُؤُسَكُمْ وَمُقَصِّرِينَ [ الفتح 27] اپنے سر منڈاوا کر اور بال کتروا کر ۔ قصرفی کذا : کسی کام میں سستی کرنا قصر عنہ کسی کام کے کرنے سے عاجز ہونا ۔ اقصرت عنہ ۔ باوجود قدرت کے کسی کام کرنے سے باز رہنا ۔ اقتصر علیٰ کذا تھوڑی چپز پر صبر کرنا ۔ اقتصرت الشاۃ بوڑھا ہونے کی وجہ سے بکری کے دانتوں کا کوتاہ ہوجانا ۔ اقصرت المرءۃ چھوٹی قد اولاد جننا تقصار چھوٹا سا رہا ۔ القوصرہ کھجور ڈالنے زنبیل جو کھجور پتوں یا نرکل کی بنئی ہوئی ہوتی ہے ۔- صلا - أصل الصَّلْيُ الإيقادُ بالنار، ويقال : صَلِيَ بالنار وبکذا، أي : بلي بها، واصْطَلَى بها، وصَلَيْتُ الشاةَ : شویتها، وهي مَصْلِيَّةٌ. قال تعالی: اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس 64] - والصَّلاةُ ،- قال کثير من أهل اللّغة : هي الدّعاء، والتّبريك والتّمجید يقال : صَلَّيْتُ عليه، أي : دعوت له وزكّيت، وقال عليه السلام : «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة 103] - وصَلَاةُ اللهِ للمسلمین هو في التّحقیق :- تزكيته إيّاهم . وقال : أُولئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَواتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ [ البقرة 157] ، - ومن الملائكة هي الدّعاء والاستغفار،- كما هي من النّاس «3» . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب 56] والصَّلَاةُ التي هي العبادة المخصوصة،- أصلها : الدّعاء، وسمّيت هذه العبادة بها کتسمية الشیء باسم بعض ما يتضمّنه، والصَّلَاةُ من العبادات التي لم تنفکّ شریعة منها، وإن اختلفت صورها بحسب شرع فشرع . ولذلک قال : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء 103]- ( ص ل ی ) الصلیٰ- ( س) کے اصل معنی آگ جلانے ہے ہیں صلی بالنار اس نے آگ کی تکلیف برداشت کی یا وہ آگ میں جلا صلی بکذا اسے فلاں چیز سے پالا پڑا ۔ صلیت الشاۃ میں نے بکری کو آگ پر بھون لیا اور بھونی ہوئی بکری کو مصلیۃ کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس 64] آج اس میں داخل ہوجاؤ ۔ - الصلوۃ - بہت سے اہل لغت کا خیال ہے کہ صلاۃ کے معنی دعا دینے ۔ تحسین وتبریک اور تعظیم کرنے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے صلیت علیہ میں نے اسے دعادی نشوونمادی اور بڑھایا اور حدیث میں ہے (2) کہ «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، - جب کسی کو کھانے پر بلا یا جائے تو اسے چاہیے کہ قبول کرلے اگر روزہ دار ہے تو وہ انکے لئے دعاکرکے واپس چلا آئے اور قرآن میں ہے وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة 103] اور ان کے حق میں دعائے خیر کرو کہ تمہاری دعا ان کے لئے موجب تسکین ہے ۔- اور انسانوں کی طرح فرشتوں کی طرف سے بھی صلاۃ کے معنی دعا اور استغفار ہی آتے ہیں - چناچہ فرمایا : إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب 56] بیشک خدا اور اس کے فرشتے پیغمبر پر درود بھیجتے ہیں ۔ اور الصلوۃ جو کہ ایک عبادت مخصوصہ کا نام ہے اس کی اصل بھی دعاہی ہے اور نماز چونکہ دعا پر مشتمل ہوتی ہے اسلئے اسے صلوۃ کہاجاتا ہے ۔ اور یہ تسمیۃ الشئی باسم الجزء کے قبیل سے ہے یعنی کسی چیز کو اس کے ضمنی مفہوم کے نام سے موسوم کرنا اور صلاۃ ( نماز) ان عبادت سے ہے جن کا وجود شریعت میں ملتا ہے گو اس کی صورتیں مختلف رہی ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء 103] بیشک نماز مومنوں مقرر اوقات میں ادا کرنا فرض ہے ۔- خوف - الخَوْف : توقّع مکروه عن أمارة مظنونة، أو معلومة، كما أنّ الرّجاء والطمع توقّع محبوب عن أمارة مظنونة، أو معلومة، ويضادّ الخوف الأمن، ويستعمل ذلک في الأمور الدنیوية والأخروية . قال تعالی: وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء 57] - ( خ و ف ) الخوف ( س )- کے معنی ہیں قرآن دشواہد سے کسی آنے والے کا خطرہ کا اندیشہ کرنا ۔ جیسا کہ کا لفظ قرائن دشواہد کی بنا پر کسی فائدہ کی توقع پر بولا جاتا ہے ۔ خوف کی ضد امن آتی ہے ۔ اور یہ امور دنیوی اور آخروی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے : قرآن میں ہے : ۔ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء 57] اور اس کی رحمت کے امید وار رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے خوف رکھتے ہیں ۔ - فتن - أصل الفَتْنِ : إدخال الذّهب النار لتظهر جو دته من رداء ته، واستعمل في إدخال الإنسان النار . قال تعالی: يَوْمَ هُمْ عَلَى النَّارِ يُفْتَنُونَ [ الذاریات 13] - ( ف ت ن ) الفتن - دراصل فتن کے معنی سونے کو آگ میں گلانے کے ہیں تاکہ اس کا کھرا کھوٹا ہونا ہوجائے اس لحاظ سے کسی انسان کو آگ میں ڈالنے کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے قرآن میں ہے : ۔ يَوْمَ هُمْ عَلَى النَّارِ يُفْتَنُونَ [ الذاریات 13] جب ان کو آگ میں عذاب دیا جائے گا ۔ - كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔- عدو - العَدُوُّ : التّجاوز ومنافاة الالتئام، فتارة يعتبر بالقلب، فيقال له : العَدَاوَةُ والمُعَادَاةُ ، وتارة بالمشي، فيقال له : العَدْوُ ، وتارة في الإخلال بالعدالة في المعاملة، فيقال له : العُدْوَانُ والعَدْوُ. قال تعالی: فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْواً بِغَيْرِ عِلْمٍ [ الأنعام 108] ، وتارة بأجزاء المقرّ ، فيقال له : العَدْوَاءُ. يقال : مکان ذو عَدْوَاءَ أي : غير متلائم الأجزاء . فمن المُعَادَاةِ يقال :- رجلٌ عَدُوٌّ ، وقومٌ عَدُوٌّ. قال تعالی: بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ طه 123]- ( ع د و ) العدو - کے معنی حد سے بڑھنے اور باہم ہم آہنگی نہ ہونا ہیں اگر اس کا تعلق دل کی کیفیت سے ہو تو یہ عداوۃ اور معاداۃ کہلاتی ہے اور اگر رفتار سے ہو تو اسے عدو کہا جاتا ہے اور اگر عدل و انصاف میں خلل اندازی کی صورت میں ہو تو اسے عدوان اور عدو کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْواً بِغَيْرِ عِلْمٍ [ الأنعام 108] کہ یہ بھی کہیں خدا کو بےادبی سے بےسمجھے برا نہ کہہ بیٹھیں ۔ اور اگر اس کا تعلق کسی جگہ کے اجزاء کے ساتھ ہو تو اسے عدواء کہہ دیتے ہیں جیسے مکان ذوعدوء ناہموار مقام چناچہ معاداۃ سے اشتقاق کے ساتھ کہا جاتا ہے رجل عدو وقوم عدو اور یہ واحد جمع دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ طه 123] اب سے تم ایک دوسرے کے دشمن ہو ۔
سفر میں نماز کا حکم - ارشاد باری ہے (واذا ضربتم فی الارض فلیس علیکم جناح ان تقصدوا من الصلوٰۃ ان خفتم ان یفتنکم الذین کفروا۔ اور جب تم لوگ سفر کے لیے نکلو تو کوئی مضائقہ نہیں اگر تمام میں اختصار کر دو ( خصوصاً ) جبکہ تمہیں اندیشہ ہو کہ کافر تمہیں ستائیں گے) اللہ تعالیٰ نے آیت میں مذکور قصر کو دو باتوں کی بنا پر مباح کردیا ہے۔ ایک تو سفر یعنی زمین میں قدم مارنے ( سفر کرنے ) کی بنا پر اور دوسری خوف کی بنا پر۔ آیت میں مذکور قصر کے مفہوم کے متعلق سلف میں اختلاف رائے ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضر کی نماز چار رکعتیں اور سفر کی نماز دو رکعتیں اور خوف کی نماز ایک رکعت تمہارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان سے فرض کی ہے۔ - یزید الفقیر نے حضرت جابر (رض) سے روایت کی ہے کہ صلوۃ الخوف ایک ایک رکعت ہے مجاہد سے مروی ہے کہ چار کی تعداد قصر کر کے دو کردی گئی ہے۔ ابن جریج نے طائوس سے، اور انہوں نے اپنے والد سے روایت کی ہے کہ نماز میں قصر خوف اور قتال کی صورت میں ہوتی ہے نماز ہر حالت میں پڑھے گا خواہ سوار ہو پیدل۔ رہ گئی یہ بات کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور لوگوں یعنی صحابہ کرام نے سفر میں جو دو رکعتیں پڑھی ہیں تو وہ قصر نہیں ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) سے ایک اور روایت کے مطابق جو اس روایت کے علاوہ ہے جس کا ذکر ہم نے قصر کے سلسلے میں کیا ہے، قصر صرف حدود یعنی صفت صلوۃ میں ہے نیز یہ کہ تم تکبیر کہتے ہوئے اپنا سر ذرا جھکا لو گے اور اشارہ سے کام لو گے۔- ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ ظاہر آیت کی رو سے سب سے اولیٰ اور مناسب تاویل وہ ہے جو حضرت ابن عباس (رض) اور طائوس سے مروی ہے کہ قصر نماز کی صفت یعنی ادائیگی کے طریقے کے اندر ہوتی ہے یعنی رکوع اور سجود ترک کر کے اشارے سے کام لیا جاتا ہے اور قیام ترک کر کے سواری پر سوار ہو کر نماز ادا کی جاتی ہے۔ نماز ک اندر پائوں سے چلنے کو بھی قصر کا نام دینا درست ہے۔ کیونکہ جب خوف کی حالت نہ ہو اس صورت میں نماز کے اندر پائوں سے چلنے کی بنا پر نماز فاسد ہوجاتی ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) عنہ اور حضرت جابر (رض) سے صلوٰۃ الخوف کے متعلق ایک رکعت کی جو روایت ہے وہ اس پر محمول ہے کہ مقتدی امام کے ساتھ صرف ایک رکعت پڑھے گا کیونکہ امام لوگوں کے دو گروہ بنائے گا جو گروہ امام کے ساتھ ہوگا وہ ایک رکعت پڑھ کر دشمن کے سامنے چلا جائے گا پھر دوسرا گروہ آ کر امام کے ساتھ ایک رکعت پڑھ لے گا۔ اور امام سلام پھیر دے گا اس طرح ہر گروہ امام کے ساتھ ایک ایک رکعت پڑھے گا اور پھر ایک رکعت خود ادا کرے گا۔ - اس طرح حضرت ابن عباس (رض) کی یہ روایت کہ نماز کی صفت میں قصر ہوتی ہے اس روایت کی مخالف نہیں ہوگی کہ صلوٰۃ الخوف ایک رکعت ہوتی ہے کیونکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے تواتر کے ساتھ روایتیں ہیں جو صلوۃ الخوف میں آپ کے طریق کار کو بیان کرتی ہے اگرچہ ان روایات میں بیان کردہ صورتوں میں بڑا اختلاف ہے۔ تا ہم یہ تمام رواتیں دو رکعتوں کی موجب ضرور ہیں۔ ان میں سے کوئی روایت ایسی نہیں ہے جس میں یہ بیان ہو کہ آپ نے صلوۃ الخوف ایک رکعت پڑھی ہے۔ البتہ ان روایات میں یہ بات ضرور بیان کی گئی ہے کہ ہر گروہ کے لیے امام کے ساتھ ایک رکعت ہے اور صرف اس ایک رکعت پر انحصار کیے بغیر دوسری رکعت کو خود ادا کرنا ہوتا ہے۔ اگر صلوٰۃ الخوف صرف ایک رکعت ہوتی تو اس کے متعلق حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کی اقتداء میں نماز ادا کرنے والوں کی نماز کی کیفیتوں میں اختلاف نہ ہوتا۔ - جب حضرت ابن عباس (رض) عنہ اور دیگر صحابہ نے یہ نقل کیا ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دو رکعیتیں ادا کی ہیں تو اس سے ہمیں یہ معلوم ہوگیا کہ خائف کی نماز کا فرض بھی غیر خائف کی نماز کے فرض کی طرح ہے نیز یہ کہ لوگوں کے لیے ایک ایک رکعت کی روایت اس معنی پر محمول ہے کہ انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ایک ایک رکعت پڑھی تھی اور ایک ایک رکعت خود ادا کی تھی جیسا کہ تمام روایات میں بیان کیا گیا ہے۔ آیت میں جس قصر کا ذکر کیا گیا ہے اس سے مراد نماز کی صفت یعنی ادائیگی کے طریقے میں قصر ہے یا اس سے مراد پائوں سے چلنا اور دشمن کے مقابلہ میں اس طریقے پر آگے پیچھے ہونا جس کا ہم نے ذکر کیا ہے، نماز کی رکعتوں میں قصر نہیں ہے، نیز قصر کے سلسلے میں حضرت ابن عباس (رض) کے مسلک کا مفہوم وہ ہے جو ہم نے بیان کیا ہے۔ اس سے رکعتوں کی تعداد کی کمی مراد نہیں ہے۔ - ان تمام باتوں کی دلیل وہ روایت ہے جس کے راوی مجاہد ہیں کہ ایک شخص نے حضرت ابن عباس (رض) عرض کیا کہ میں اپنے ایک رفیق کے ہمراہ سفر پر نکلا تھا، سفر کی دوران میں تو نماز پوری پڑھتا تھا لیکن میرا رفیق قصر کرتا تھا۔ حضرت ابن عباس (رض) نے یہ سن کر فرمایا کہ ” دراصل قصر تم کرتے تھے اور تمہارا رفیق پوری نماز پڑھتا تھا “۔ گویا حضرت ابن عباس (رض) نے اسے یہ بتایا کہ رکعتوں کی تعداد میں قصر نہیں ہوتی نیز سفر کے اندر دو رکعتیں قصر نہیں ہیں۔ اس پر وہ روایت بھی دلالت کرتی ہے جسے سفیان نے زبیر الیامی سے نقل کیا ہے، انہوں نے عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ سے اور انہوں نے حضرت عمر (رض) سے کہ آپ نے فرمایا ” سفر کی نماز کی دو رکعتیں ہیں، عید الفطر اور عیدالاضحیٰ کی نماز کی بھی دو دو رکعتیں ہیں ، تمہارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان مبارک سے نکلے ہوئے الفاظ کے مطابق نمازوں کی یہ صورتیں قصر نہیں ہیں بلکہ یہ پوری نمازیں ہیں۔ اس میں سفر کے اندر صلوٰۃ الخوف بھی داخل ہے کیونکہ حضرت عمر (رض) نے نماز کی ان صورتوں کا ذکر کر کے یہ بتادیا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد کے مطابق یہ قصر نمازیں نہیں ہیں بلکہ پوری نمازیں ہیں۔ - اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ زیر بحث آیت میں مذکور قصر کا مفہوم وہ ہے جو ہم نے بیان کیا ہے ۔ نماز کی رکعتوں کی تعداد میں کمی مراد نہیں ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ حضرت یعلیٰ بن امیہ (رض) سے مروی ہے کہ انوہں نے حضرت عمر (رض) سے دریافت کیا تھا کہ اب نماز میں قصر کیسے ہوسکتی ہے جبکہ دشمن کے خوف سے اب ہمیں امن نصیب ہوگیا ہے اور دوسری طرف ارشاد باری ہے ( فلیس علیکم جناح ان تقصروا من الصلوٰۃ ان خفتم ان یفتنکم الذین کفروا۔ ) حضرت عمر (رض) نے یہ سن کر فرمایا تھا کہ جس بات سے تمہیں تعجب ہوا ہے مجھے بھی ہوا تھا پھر میں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کے متعلق دریافت کیا تھا جس پر آپ نے فرمایا تھا ( صدقۃ تصدق اللہ بھا علیکم فاقبلوا اصدقۃ) یہ ایک صدقہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے تم پر کیا ہے اس لیے اس کا صدقہ قبول کرلو) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد اس پر دلالت کرتا ہے کہ آیت میں مذکور قصر سے مراد رکعتوں کی تعداد میں قصر ہے اور صحابہ کرام نے آیت سے یہی مفہوم اخذ کیا تھا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ لفظ میں دونوں معنوں کا احتمال ہے یعنی نماز کی رکعتوں کی تعداد میں قصر اور نماز کی صفت یعنی ادائیگی کے طریقے میں قصر جیسا کہ گزشتہ سطور میں ہم نے بیان کیا ہے، اس لیے اس میں کوئی امتناع نہیں ہے کہ حضرت عمر (رض) اور حضرت یعلیٰ (رض) کے خیال میں وہ بات گزری ہو جس کا انہوں نے ذکر کیا ہے اور حضرت عمر (رض) نے حالت امن میں قصر کے حکم کے متعلق حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا ہو، نہ یہ کہ انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ کہا ہو کہ آیت میں مذکور قصر تعداد کے اندر ہے اور پھر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں وہ جواب دیا ہو جس کا انہوں نے ذکر کیا ہے۔- بلکہ اس کی گنجائش ہے کہ حضرت عمر (رض) نے آیت کا مفہوم کا حوالہ دیے بغیر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا ہو کہ اب ہم کیسے قصر کرسکتے ہیں جبکہ ہمیں امن نصیب ہوچکا ہے۔ ہماری اس توضیح کی وجہ یہ ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمام غزوات کے دوران قصر کرتے رہے پھر آپ نے حج کے سفر میں قصر کیا تھا جب کہ وہ امن کا زمانہ تھا اور مشرکین سے قتال اختتام کو پہنچ گیا تھا۔ پھر آپ نے فرمایا تھا ( صدقۃ تصدق اللہ بھا علیکم فاقبلوا صدقتہ) اس سے آپ کی مراد یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ نے خوف اور امن دونوں حالتوں میں سفر کے اندر دو رکعتوں کی فرضیت ساقت کردی ہے اور اب صرف دو رکعتوں کی فرضیت باقی رہ گئی ہے۔- حضرت عمر (رض) نے بھی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سفر کی نماز کے متعلق روایت کی ہے کہ یہ پوری نماز ہوتی ہے، قصر نماز نہیں ہوتی۔ اس لیے یہ ممکن ہے کہ حضرت عمر (رض) نے ابتدا میں یہ خیال کیا ہو کہ خوف کی بنا پر قصر رکعتوں کی تعداد میں ہوتی ہے لیکن جب آپ نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ ( صلوۃ السفر رکعتان تمام غیر قصر) تو آپ کو اس کا علم ہوگیا کہ آیت میں مذکور قصر سے مراد نماز کی ادائیگی کے طریقہ میں قصر ہے۔ رکعتوں کی تعداد میں قصر نہیں ہے۔ جب ہماری مذکورہ بالا توضیح کی روشنی میں یہ بات درست ہوگئی کہ قصر سے مراد وہ مفہوم ہے جس کا ہم نے ذکر کیا ہے تو اس کے بعد آیت میں مسافر کے فرض پر کوئی دلالت موجود نہیں ہوگئی اور نہی اس بات کی دلالت پائی جائے گی کہ مسافر کو پوری نماز پڑھنے اور قصر کرنے کے درمیان اختیار ہے کیونکہ آیت میں سرے سے ان کا ذکر ہی نہیں ہے۔ - مسافر کے فرض نماز کے متعلق فقہاء میں اختالف رائے ہے۔ امام ابو حنیفہ، امام ابو یوسف ، امام محمد کا قول ہے کہ مسافر کے لیے صرف دو رکعتیں فرض ہیں۔ البتہ مغرب کی تین رکعتیں فرض ہیں۔ اگر مسافر نے چار رکعتیں پڑھ لیں اور دو رکعتوں کے بعد قعدہ نہیں کیا تو اس کی نماز فاسد ہوجائے ۔ اگر ان نے تشہد کی قعدہ اولیٰ کرلیا تو اس کی نماز مکمل ہوجائے گی جس طرح اس شخص کی نماز مکمل ہوجاتی ہے جس نے فجر کی نماز ایک سلام کے ساتھ جا رکعتیں پڑھ لی ہوں۔ سفیان ثوری کا بھی یہی قول ہے۔ حماد بن ابی سلیمان کا قول ہے کہ اگر مسافر نے چار رکعتیں پڑھ لیں تو وہ نماز کا اعادہ کرے گا، حسن بن صالح کا قول ہے کہ اگر اس نے عمداً چار رکعتیں پڑھ لی ہوں تو سفر مختصر ہونے کی صورت میں نماز لوٹائے گا لیکن اگر سفر طول کھینچ لے تو چار رکعتیں پڑھ لینے کی صورت میں اعادہ نہیں کرے گا۔ ان کا قول ہے کہ اگر چار رکعتیں پڑھنے کی نیت سے نماز شروع کرے گا تو اسے نئے سرے سے نماز کی ابتدا کرنی ہوگی جس میں وہ دو رکعتوں کی نیت کرے گا۔ اگر دو رکعتیں پڑھنے کے بعد تشہد پڑھے گا اور اس کے دل میں چار رکعتیں پوری کرنے کا خیال آنے پر چار رکعتیں پڑھ لے گا تو اس صورت میں وہ نماز کا اعادہ کرے گا، اگر مسافر نے دو رکعتوں کی بنیاد پر نماز شروع کرلی ہو پھر چار پڑھنے کی نیت کرلے اور دو رکعتوں کے بعد اس کی نیت بدل جائے اور وہ سلام پھیر لے تو اس کی نماز درست ہوجائے گی۔ - امام مالک کا قول ہے کہ اگر مسافر نے چار رکعتیں پڑھ لی ہوں تو جب تک اس نماز کا وقت باقی ہے اسے اعادہ کرنا ہوگا۔ لیکن اگر وقت نکل جائے تو اعادہ نہیں کرے گا۔ ان کا قول ہے کہ اگر مسافر چار کی نیت کے ساتھ فرض نماز شروع کرلے پھر دو رکعتیں پڑھنے کے بعد اس کی نیت بدل جائے اور وہ سلام پھیر لے تو اس کی یہ نماز درست نہیں ہوگی۔ اگر ایک مسافر مسافروں کی امامت کر رہا ہو اور دو رکعتوں کے بعد وہ تیسری رکعت کے لیے اٹھ کھڑا ہوا اور مقتدیوں کی طرف سے سبحان اللہ کہہ کر اسے قعدہ میں واپس آنے کے اشارے کے باوجود وہ نہ بیٹھے تو مقتدی بیٹھ کر تشہد پڑھیں گے اور اس کی پیروی نہیں کریں گے۔ اوزاعی کا قول ہے کہ مسافر دو رکعتیں پڑھے گا۔ اگر وہ تیسری رکعت کے لیے اٹھ کھڑا ہوگا اور اسے پورا کرلے گا تو و اس تیسری رکعت کو کالعدم قرار دے کر سجدہ سہو کرے گا۔- امام شافعی کا قول ہے کہ مسافر کے لیے دو رکعتیں پڑھنے کی گنجائش نہیں ہے الا یہ کہ وہ احرام کے ساتھ قصر کی نیت بھی کرلے۔ اگر احرام کے ساتھ قصر کی نیت نہیں کرے گا تو وہ اصل فرض کے مطابق چار رکعتیں پڑھے گا۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں ہم نے سابقہ سطور میں یہ بات واضح کردی ہے کہ آیت کے اندر رکعتوں کی تعداد میں قصر کرنے کا کوئی حکم موجود نہیں ہے۔ دوسری طرف لوگوں کے مابین اس بارے میں کوئی اختلاف رائے نہیں ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے امن اور خوف کی دونوں حالتوں کے اندر اپنے تمام سفروں کے دوران قصر کیا تھا۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ مسافر پر دو ہی رکعتیں فرض ہیں کیونکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا عمل یہی ہے اور اس کے ذریعے آپ نے آیت میں اللہ کی مراد کی وضاحت فرما دی تھی۔ حضرت عمر (رض) کا قول ہے کہ میں نے امن کی حالت میں قصر کرنے کے متعلق حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مسئلہ دریافت کیا تھا۔ جواب میں آپ نے یہ فرمایا تھا تھا ( صدقۃ تصدق اللہ بھا علیکم فاقبلوا صدقتہ) ہم پر اللہ کا صدقہ نماز کی دو رکعتوں کی اسقاط کی صورت میں ہوا ہے اور یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ دو رکعتیں ہی فرض ہیں۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد ہے ( فاقبلوا صدقتہ) اس بات کو واجت کردیتا ہے۔ کیونکہ امر وجوب کے لیے ہوتا ہے جب ہمیں قصر کرنے کا امر ہے تو اتمام یعنی پوری نماز پڑھنے کی ممانعت ہوگئی۔ حضرت عمر (رض) کا قول ہے کہ مسافر کی نماز دو رکعتیں ہیں یہی اس کی مکمل نماز ہے۔ یہ قصر نہیں ہے۔ یہ بات تمہارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان مبارک سے کہلوائی گئی ہے۔- حضرت عمر (رض) نے یہ بتادیا کہ دو رکعتیں فرض ہیں اور یہ قصر نہیں ہے بلکہ یہ مکمل نماز ہے جس طرح آپ نے فجر ، جمعہ، عید الفطر اور عید الاضحی کی نمازوں کے متعلق دو دو رکعتیں کا ذکر کیا اور اس بات کی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف نسبت کردی۔ اس نسبت کی بنا پر حضرت عمر (رض) کے قول کی حیثیت حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قول جیسی ہوگئی کہ سفر کی نماز دو رکعت ہے۔ یہ مکمل نماز ہے، قصر نہیں ہغ۔ یہ چیز قضر اور اتمام کے درمیان اختیار کی نفی کرتی ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب سفر پر نکلتے تو واپسی تک دو رکعتیں پڑھتے رہتے۔ علی بن زید نے ابو نضرہ سے اور انہوں نے عمران بن حصین (رض) سے روایت کی ہے کہ انہوں نے فرمایا : میں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی معیت میں حج ادا کیا تھا آپ مدینہ واپسی تک دو رکعتیں پڑھتے رہے۔ مکہ مکرمہ میں اٹھارہ دن آپ کا قیام رہا آپ وہاں بھی دو رکعتیں پڑھتے تھے، آپ نے اہل مکہ کو چار رکعتیں پڑھنے کا حکم دیا تھا اور فرمایا تھا کہ ہم مسافر لوگ ہیں “۔ حضرت ابن عمر (رض) نے فرمایا۔ ” میں سفر کے اندر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہمراہ رہا۔ آپ نے دو رکعتیں سے زائد نہیں پڑھی، میں حضرت ابوبکر (رض) ، حضرت عمر (رض) اور حضرت عثمان (رض) کے ہمراہ بھی رہا۔- ان حضرات نے بھی دو سے زائد نہیں پڑھی حتیٰ کہ انہیں اللہ نے اپنے پاس بلا لیا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ( لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنتہ) اللہ کے رسول کی ذات میں تمہارے لیے بہترین نمونو موجود ہے۔ “ بقیہ بن الولید نے روایت بیان کی ہے ، انہیں ابان بن عبداللہ نے خالد بن عثمان سے، انہوں نے حضرت انس بن مالک (رض) سے، انہوں نے حضرت عمر (رض) سے اور انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہ آپ نے فرمایا ( صلوۃ المسافر رکعتان حتیٰ یئوب الی اھلہ اور یموت) مسافر کی نماز دو رکعت ہے یہاں تک کہ وہ گھر لوٹ آئے یا اس کی وفات ہوجائے) ۔ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) نے فرمایا : ” میں نے منیٰ کے مقام پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ دو رکعتیں پڑھی ہیں حضرت ابوبکر (رض) اور حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ بھی دو رکعتیں ہی پڑھی ہیں “۔ - موروق العجلی کا قول ہے کہ حضرت ابن عمر (رض) سے سفر کی نماز کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا :” دو دو رکعتیں ، اور جو شخص اس بارے میں سنت کی مخلفت کرے گا وہ کافر ہوگا۔ سفر کے اندر دو رکعتوں کی ادائیگی اور اس سے زائد کی نفی کے سلسلے میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام سے یہ متواتر روایتیں ہیں۔ ان میں دو طرح سے اس بات پر دلالت موجود ہے کہ یہی دو رکعتی مسافر پر فرض ہوتی ہیں ایک تو یہ کہ کتاب اللہ میں نماز کا فرض مجمل ہے جسیے تفصیل اور بیان کی ضرورت ہے اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا عمل جب بیان کے طورپر وارد ہو تو وہ آپ کے قولی بیان کی طرح ہوتا ہے اور ایجاب کا مقتضی ہوتا ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا سفر کے اندر دو رکعت پڑھنا آپ کی طرف سے اس بات کا بیان ہے کہ اللہ کی مراد بھی یہی ہے۔ - جس طرح نماز فجر، نماز جمعہ اور باقی ماندہ تمام نمازوں کی ادائیگی کے متعلق آپ کا عمل بیان کی حیثیت رکھتا ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ اگر اللہ کی مراد یہ ہوتی کہ مسافر کو پوری نماز پڑھنے اور قصر کرنے کے مابین اختیار ہے کہ وہ جس طرح چاہے کرلے تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے یہ درست نہ ہوتا کہ آپ اپنے بیان کو صرف ایک پہلو یعنی قصر تک محدود رکھتے اور دسورے پہلو یعنی اتمام کا ذکر نہ کرتے اور اتمام کے سلسلے میں آپ کا بیان قصر کے سلسلے میں آپ کے بیان کے ہم وزن ہوتا۔ جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے ہماکے لیے قصر کا بیان آگیا، اتمام کا نہ آیا تو اس سے ہمیں یہ دلالت حاصل کہ کہ قصر ہی اللہ کی مراد ہے، اتمام مراد نہیں ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ جب مسافر کے لیے روزہ چھوڑنے کی رخصت کے سلسلے میں اللہ کی مراد دو باتوں میں سے ایک تھی یعنی یا تو روزہ چھوڑ دے یا روزہ رکھ لے تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے اس کا بیان کبھی روزہ رکھنے کی صورت میں وارد ہوا اور کبھی افطار یعنی روزہ چھوڑنے کی صورت میں۔ نیز حضرت عثمان (رض) نے جب منیٰ میں چار رکعتیں پڑھیں تو صحابہ کرام نے اسے ناپسند کیا اور اس پر تنقید کی۔ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) نے فرمایا : میں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)، حضرت ابوبکر (رض) اور حضرت عمر (رض) کے ساتھ دو رکعتیں پڑھی ہیں پھر تمہاری راہیں مختلف ہوگئیں، میری تمنا ہے کہ ان چار رکعتوں میں سے میرے حصے میں دو رکعتیں آ جائیں جو اللہ کے ہاں قبول ہونے والی ہوں۔- ” حضرت ابن عمر (رض) نے فرمایا : سفر کی نماز دو رکعت ہے جو شخص سنت کی مخالفت کرے گا وہ کافر ہوگا “۔ حضرت عثمان کا قول ہے : ” میں پوری نماز اس لیے پڑھتا ہوں کہ میں نے اس شہر یعنی مکہ مکرمہ میں اپنا گھر بسا لیا ہے اور میں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان مبارک سے یہ سنا ہے کہ (من تاھل ببلد فھو من الہ جو شخص کسی شہر میں اپنا گھر بسا لیتا ہے وہ اس شہر کا باشندہ ہوجاتا ہے۔ حضرت عثمان نے اتمام کی ممانعت میں صحابہ کرام کی مخالفت نہیں کی۔ بلکہ آپ نے یہ عذر پیش کیا کہ میں مکہ معظمہ میں گھر آباد کرچکا ہوں اس لیے میں اب اس شہر کے باشندوں میں سے ہوں۔ اہل مکہ کے متعلق ہمارا بھی یہی قول ہے کہ وہ قصر نہیں کریں۔ حضرت ابن عباس (رض) کا قول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سفر میں دو رکعتیں فرض کی ہیں اور حضر میں چار رکعتیں۔ حضرت عائشہ (رض) کا قول ہے کہ سب سے پہلے نماز کی فرضیت دو دو رکعتوں کی صورت میں ہوئی۔ - پھر حضر یعنی اقامت کی حالت کی نماز میں اضافہ کردیا گیا اور سفر کی حالت کی نماز کو بحالہ باقی رہنے دیا گیا۔ حضت عائشہ (رض) نے یہ بیان کردیا کہ مسافر پر دراصل دو رکعتیں فرض ہیں اور مقیم پر چار رکعتیں فرض ہیں جس طرح فجر اور ظہر کی نمازوں کی فرضیت ہے اس لیے مسافر کی نماز میں اسی طرح اضافہ جائز نہیں جس طرح دوسری نمازوں میں اس کا جواز نہیں ہے۔ عقلی طور پر یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ سب کا اس پر اتفاق ہے کہ مسافر کے لیے آخری دو رکعتیں کے ترک کا جواز ہے اور ان دونوں رکعتوں کا کوئی بدل نہیں ہے۔ اگر مسافر ان دونوں کی بھی ادائیگی کرلیتا ہے تو وہ گویا نئے سرے سے ابتداء کر کے ان کی ادائیگی کرتا ہے۔ یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ یہ دونوں رکعتیں نفل ہوتی ہیں۔ اس لیے کہ اس کے نماز کی یہ صورت تفصل نماز کی صورت ہے۔ وہ یہ کہ نمازی کو نفل نماز کی ادائیگی اور اس کے ترک کے درمیان اختیار ہوتا ہے اور ترک کی صورت میں اس کا کوئی بدل نہیں ہوتا۔ - جن حضرات نے مسافر کے لیے قصر اور اتمام کے مابین اختیار ہونے کا قول کیا ہے انہوں نے اس روایت سے استدلال کیا ہے جس کی راوی حضرت عائشہ ہیں۔ ان کا قول ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قصر بھی کیا ہے اور اتمام بھی۔ یہ روایت درست ہے اور اس کا مفہوم یہ ہے کہ آپ نے ادائیگی میں قصر کیا ہے اور حکم میں اتمام کیا ہے جس طرح حضرت عمر (رض) کا قول ہے کہ ” سفر کی نماز دو رکعت ہے، یہ مکمل نماز ہے ، قصر نہیں ہے، یہ بات تمہارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان مبارک سے کہلوائی گئی ہے “۔ اس حضرات کا استدلال یہ بھی ہے کہ اگر مسافر مقیم کے پیچھے نماز پڑھے گا تو اس پر اتمام لازم ہوگا یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ اصل کے اعتبار سے اسے اختیار ہوتا ہے لیکن یہ استدلال فاسد ہے۔ اس لیے امام کی نماز میں دخول فرض کو بدل دیتا ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ جمعہ کے روز عورت اور غلام پر چار رکعتوں کی فرضیت ہوتی ہے لیکن اگر یہ دونوں جمعہ کی نماز کی جماعت میں شامل ہوجائیں گے تو دو رکعتیں پڑھیں گے۔ یہ چیز اس پر دلالت نہیں کرتی کہ نماز جمعہ میں داخل ہونے سے پہلے ان دونوں کو چار اور دو کے درمیان اختیار تھا۔ ہم نے اپنی تصنیفات میں اس مسئلے پر متعدد مقامات میں سیر حاصل بحث کی ہے ایک مسافر مقیم امام کی نماز با جکاعت میں اگر شامل ہوجائے تو اس کا کیا حکم ہوگا اس بارے میں فقہا کے درمیان اختلاف رائے ہے۔ ہمارے اصحاب، امام شافعی اور اوزاعی کا قول ہے کہ وہ مقیم کی نماز ادا کرے گا خواہ تشہد کے اندر وہ امام کے ساتھ آ کر شامل کیوں نہ ہوا ہو، سفیان ثوری کا بھی یہی قول ہے۔ امام مالک کا قول ہے کہ اگر امام کے ساتھ اسے ایک پوری رکعت نہ ملے تو وہ دو رکعتیں پڑھے گا۔ پہلے قول پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد دلالت کرتا ہے کہ ( ماادرکتم فصلوا وما فاتکم ذاتموا، نماز کا جتنا حصہ تمہیں باجماعت مل جائے وہ پڑھ لو اور جو رہ جائے اسے پورا کرلو) بعض روایات میں یہ الفاظ ہیں ( وما فتکم فاقضوا اور جو رہ جائے اسے کی قضا کرلو) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے امام کے ساتھ رہ جانے والے نماز کے حصے کو قضا کرنے کا حکم دیا اس لیے جس شخص کی چاروں رکعتیں رہ گئی ہوں وہ بھی ان کی قضا کرے گا۔ - نیز امام کی نماز کے آخری حصے میں اس کی شمولیت درست ہوتی ہے۔ اور اگر امام کو سہو لاحق ہوگیا ہو تو اس پر بھی سجدہ سہو لازم ہوتا ہے اور اگر خود اسے سہو لاحق ہوجائے تو امام کی وجہ سے اس پر سجدہ سہو لازم نہیں ہوتا۔ اس لیے اتمام کے لحاظ سے بھی اس پر امام کی نماز کا حکم لازم ہوگا۔ نیز اگر مسافر اس حالت میں اقامت کی نیت کرے گا تو اس پر اتمام صلوٰۃ لازم ہوجائے گا۔ اسی طرح امام کی نماز میں اس کے دخول کے ساتھ اس پر اس کا اتمام لازم ہوگا۔ تشہد میں امام کی نماز می اس کی شمولیت کی وہی حیثیت ہے جو نماز کی ابتدا میں اس کی شمولیت کی ہے جس طرح تشہد میں اقامت کی نیت کا وہی حکم ہے جو نماز کی ابتداء میں اقامت کی نیت کا ہے۔ واللہ اعلم۔ - فصل - ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ مسافر کے لیے نماز کی قصر کے سلسلے میں جن دلائل پر ہم پچھلی سطور میں سحث کر آئے ہیں وہ اس پر دلالت کرتے ہیں کہ ہر قسم کے مسافر کی نماز دو رکعت ہے خواہ کسی بھی مقصد کے تحت کوئی سفر کیوں نہ کر رہا ہو یعنی یہ تجارتی نوعت کا سفر ہو یا کوئی اور سفر۔ اس لیے کہ اس سلسلے میں مروی آثار میں سفر کی کسی صورت میں کوئی فرق نہیں رکھا گیا ہے۔ اعمش نے ابراہیم سے روایت کی ہے کہ ایک شخص بحرین کی طرف تجارت کی غرض سے سفر کیا کرتا تھا اس نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا کہ میں کتنی رکعت پڑھا کروں۔ آپ نے جواب میں فرمایا تھا کہ دو رکعتیں پڑھا کرو۔ - حضرت ابن عباس (رض) اور حضرت ابن عمر (رض) سے مروی ہے کہ یہ دونوں حضرات طائف کی طرف جب گئے تھے تو قصر پڑھتے تھے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) سے مروی ہے کہ صرف حج یا جہاد کے سفر میں قصر کرو۔ عطاء سے مروی ہے کہ میرے خیال میں صرف وہی شخص قصر کرے جو اللہ کے راستے میں سفر کر رہا ہو۔ اگر یہ کہ جائے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صرف حج یا جہاد کے سفر میں قصر کیا تھا تو اس کے جواب میں کہاجائے گا کہ در اصل حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حج یا جہاد کے سوا اور کسی مقصد کے لیے کبھی سفر نہیں کیا تھا لیکن یہ اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ قصر صرف حج یا جہاد کے سفر تک محدود ہے۔ حضرت عمر (رض) کا یہ قول ہے کہ ” تمہارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان مبارک سے سفر کی نماز دو رکعت ہے “۔ - اس میں سفر کی تمام صورتوں کے لیے عموم ہے۔ اسی طرح حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ( صدقۃ تصدق اللہ بھا علیکم فاقبلوا صدقتہ) بھی سفر کی تمام صورتوں کے لیے عام ہے۔ اسی طرح آپ کا اہل مکہ سے یہ فرمانا کہ ” تم اپنی نماز پوری کرلو ہم مسافر لوگ ہیں “ اور یہ نہ فرمایا کہ ہم لوگ حج کے سفر میں ہیں “۔ - اس بات کی دلیل ہے کہ قصر کا حکم تمام مسافروں کے لیے عام ہے۔ چونکہ اس حکم کا تعلق سفر کے ساتھ ہے اس لیے ضروری ہے کہ سفر کی تمام صورتوں کے لحاظ سے اس حکم میں کوئی فرق نہ کیا جائے جس طرح موزوں پر تین دنوں تک مسح کرنے کا حکم ہے۔ جو لوگ قول باری ( واذا ضربتم فی الارض فلیس علیکم جناح ان تقصدوا من الصلوٰۃ) کی تاویل میں کہتے ہیں کہ اس سے مراد رکعتوں کی تعداد میں قصر ہے وہ بھی سفر کی تمام صورتوں میں قصر کے لیے اس کے عموم سے استدلال کرتے ہیں جبکہ مسافر کو دشمن کا خوف لاحق ہو۔ پھر جب یہ بات صلوۃ الخوف میں اس صورت کے اندر ثابت ہے جب اس کا سفر تقرب الٰہی کے سوا کسی اور کام کے لیے ہو تو سفر کی تمام صورتوں مییں اس بات کا ثابت ہونا واجب ہے اس لیے کہ کسی نے بھی ان دونوں میں فرق نہیں کیا ہ اور ہم نے یہ بیان کردیا ہے قصر رکعتوں کی تعداد کے اندر نہیں ہوتی۔ ہم نے سفر کی تمام صورتوں میں قصر کے حکم کا جو ذکر کیا ہے بشرطیکہ سفر تین دنوں کا ہو، وہ ہمارے اصحاب ، سفیان ثوری اور اوزاعی کا قول ہے ۔ امام مالک کا قول ہے کہ اگر کوئی شخص شکار کے لیے سفر کررہا ہے جبکہ شکار ہی اس کا ذریعہ معاش ہو تو وہ قصر کرے گا لیکن اگر شوق پورا کرنے کی غرض سے گھر سے نکلا ہو تو مجھے اس کا قصر کرنا پسند نہیں ہے۔ - امام شافعی کا قول ہے کہ اگر کسی گناہ کی خاطر سفر کرے گا تو قصر نہیں کرے گا اور نہ ہی موزوں پر مسافروں کی طرح تین دنوں تک مسح کرے گا۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ ہم نے سورة بقرہ میں بیان کردیا تھا کہ یہ بات مضطر یعنی وہ شخص جس پر اضطراری کیفیت طاری ہو اس کے بارے میں ہے۔ - ڈرائیور کیسے قصرکریں - کشتی کے ملاح کے متعلق اختلاف رائے ہے کہ آیا وہ کشتی کے اندر قصر پڑھے گا یا نہیں۔ ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ جب وہ کشتی میں سفر پر ہوگا تو قصر پڑھتا رہے گا یہاں تک کہ وہ اپنے گائوں کے قریب پہنچ جائے پھر وہ پوری نماز پڑھے گا۔ امام مالک اور امام شافعی کا بھی یہی قول ہے ۔ اوزاعی کا قول ہے کہ اگر کشتی کے اندر ہی اس کا بسیرا ہو اور بال بچوں کے ساتھ اس میں رہتا ہو تو کشتی کرائے پر دینے کی صورت میں وہ قصر پڑھے گا اور اس مقام پر واپس پہنچ کر پوری نماز پڑھے گا جہاں سے اس نے کشتی کرائے پر دی تھی۔ حسن بن صالح کا قول ہے کہ اگر کشتی سا کا ٹھانہ اور گھر ہو اور اس کے سوا اس کا کوئی ٹھکانہ نہ ہو تو وہ اس کشتی میں مقیم کی حیثیت کا حامل ہوگا اس لیے کشتی میں رہتے ہوئے اتمام کرے گا۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ ملاح کا مالک سفینہ ہونا اسے سفر کے حکم سے خارج نہیں کرتا۔- جس طرح اونٹوں کا مالک اونٹوں کے ساتھ ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتا رہتا ہے اس کی یہ حالت اسے سفر کے حکم سے خارج نہیں کرتی۔ ہم نے سورة بقرہ میں روزے کے احکام بیان کرتے وقت سفر کی مدت کے بارے میں سیر حاصل بحث کی ہے۔ ہمارے اصحاب نے سفر میں قصر کے لیے تین دن تین راتوں کی مدت کی شرط مقرر کی ہے سفیان ثوری اور حسن بن صالح کا بھی یہی قول ہے۔ امام مالک نے اس کے لیے اڑتالیس میل کی طرح رکھی ہے۔ اگر میلوں کا حساب نہ ہو سکے تو پھر ایک دن ایک رات کی مسافت کی شرط ہے جو قافلے والے طے کرتے ہیں۔ لیث بن سعد کا بھی یہی قول ہے۔ اوزاعی کے نزدیک ایک پوریدن کی شرط ہے۔ امام شافعی کے نزدیک چھیالیس ہاشمی میلوں کی شرط ہے۔ حضرت ابن عمر (رض) سے تین دنوں کی روایت منقول ہے اور حضرت ابن عباس (رض) سے ایک دن ایک رات کی روایت منقول ہے۔- اس مدت کے بارے میں فقہا میں اختلاف رائے ہے جس میں وہ اتمام کرے گا۔ ہمارے اصحاب اور ثوری کا قول ہے کہ مسافر اگر پندرہ دنوں کی اقامت کی نیت کرے گا تو اتمام صلوٰۃ کرے گا۔ اگر اس سے کم دنوں کی نیت ہو تو قصر کرے گا۔ امام مالک اور شافعی کا قول ہے کہ جب چار دنوں کے لیے اقامت کی نیت کرے گا تو نماز پوری پڑھے گا۔ اوزاعی کا قول ہے کہ اگر تیرہ دنوں کی نیت کرے گا تو اتمام کرے گا اور اگر اس سے کم کی نیت ہو تو قصر کرے گا۔ حسن بن صالح کا قول ہے کہ اگر مسافر کا گزر اس شہر سے ہو جس میں اس کے اہل و عیال رہتے ہوں اور وہ اپنا سفرجاری رکھے تو جب تک وہ وہاں دس دنوں تک قیام نہیں کرے گا، قصر کرتا رہے گا ۔ اگر وہ وہاں دس دن یا اس سے زائد قیام کرے گا تو نماز پوری پڑھے گا۔ - ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ حضرت ابن عباس (رض) اور حضرت جابر (رض) نے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وسلم ذی الحجہ کی چار تاریخ کی صبح کو مکہ معظمہ پہنچے تھے اس طرح وہاں سے نکلنے تک آپ کا قیام چار دنوں سے زیادہ رہا اور آپ قصر پڑھتے رہے، یہ چیز چار دنوں کی مدت کے اعتبار کے سقوط پر دلالت کرتی ہے۔ نیز امام ابوحنیفہ نے عمر بن زر سے رایت کی ہے، انہوں نے مجاہد سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) اور حضرت ابن عمر (رض) سے کہ ان دونوں حضرات نے فرمایا : جب تم کسی شہر میں مسافر بن کر پہنچو اور تمہارے دل میں وہاں پندرہ دنوں کے قیام کی نیت ہو تو پوری نماز ادا کرو اور اگر تمہیں پتہ نہ ہو کہ کب کوچ کرو گے تو قصر پڑھو “۔ سلف میں سے کسی سے بھی اس روایت کے خلاف کوئی روایت منقول نہیں ہے۔ - اس لیی اس کی حجیت ثابت ہوگئی۔ اگر یہ کہا جائے کہ عطاء خراسانی نے سعید بن المسیب سے ان کا یو قول نقل کیا ہے کہ جو شخص سفر کی حالت میں کسی جگہ چار دن قیام کا ارادہ کرلے تو وہ پوری نماز ادا کرے گا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ہسیم نے دائود بن ابی ہند کے واسطے سے سعید بن المسیب سیروایت کی ہے کہ مسافر جب پندرہ دن یا رات کی اقامت کرلے گا تو وہ پوری نماز پڑھے گا اور اس سیکم کی صورت میں قصر کرے گا۔ اگر ہم سعید بن المسیب کی ان دونوں روایتوں کو ایک دوسرے کی متعارض قرار دیں تو یہ دونوں روایتیں ساقط ہوجائیں گی اور یوں سمجھ لیا جائے گا کہ ان سے اس سلسلے میں کوئی روایت نہیں ہے اور اگر تعارض کے بغیر ان سے روایت کا ثبوت ہوجائے تو اس کا حضرت ابن عباس (رض) اور حضرت ابن عمر (رض) کی روایت کے خلاف ہونا درست نہیں ہوگا۔ نیز اقامت اور سفر کی مدتوں کا تعین قیاس کے ذریعے نہیں ہوسکتا۔ اس کا تعین یا تو توقیف کے ذریعے ہوسکتا ہے یا اتفاق امت کے ذریعے۔ پندرہ دنوں کی مدت پر امت کا اتفاق موجود ہے اور اس سے کم کی مدت مختلف فیہ ہے اس لیے یہ بات ثابت ہوجائے گی کہ پندرہ دنوں کا قیام اقامت صحیحہ ہے اور اس سے کم کی مدت ثابت نہیں ہو سکے گی۔ اسی طرح سلف کا اس پر اتفاق ہے کہ تین دنوں کا سفر درست سفر ہے جس کے ساتھ قصر کا حکم متعلق ہوتا ہے اور اس کے ساتھ روزہ چھوڑنے کا حکم بھی متعلق ہوتا ہے ۔ اس سے کم کی مدت مختلف فیہ ہے اس لیے وہ ثابت نہیں ہوگی۔ واللہ اعلم۔
(١٠١) سفر کی حالت میں رباعی (چار رکعتوں والی) نماز میں قصر کردینے میں کوئی گناہ نہ سمجھو اور اگر تمہیں یہ خوف ہو کہ نماز کی حالت میں کفار تمہیں قتل کردیں گے کیوں کہ وہ کھلے دشمن ہیں تو اس طرح نماز خوف ادا کرو، جس طرح کہ اللہ نے بتلائی ہے۔- شان نزول : (آیت) ” واذا ضربتم فی الارض فلیس علیکم “۔ (الخ)- ابن جریر (رح) نے حضرت علی (رض) سے روایت کیا ہے کہ بنی نجار نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم سفر میں کس طرح نماز پڑھیں، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ حکم نازل فرمایا یعنی جب تم سفر کرو سو تمہیں اس میں کوئی گناہ نہیں ہوگا کہ تم نماز کو کم کردو۔- اس کے بعد وحی بند ہوگئی پھر جب ایک سال کے بعد رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جہاد کیا اور ظہر کی نماز پڑھی تو مشرکین نے کہا کہ اس وقت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کے ساتھیوں پر پیچھے کی جانب سے حملہ کرنے کا یہ مناسب موقع ہے تو پھر کیوں نہ زبردست قسم کا حملہ کردیں تو ان میں سے کسی نے کہا ان لوگوں کے مجاہدین کی اتنی جماعت ان کی حفاظت میں بھی کھڑی ہے۔- اس پر دونوں نمازوں کے درمیان اللہ تعالیٰ نے (آیت) ” ان خفتم “۔ سے لے کر ” عذابا مھینا “۔ تک یہ آیات نازل فرمائیں، چناچہ اس وقت نماز خوف کا حکم نازل ہوگیا۔
اس رکوع میں پھر شریعت کے کچھ احکام اور عبادات کی کچھ تفاصیل ہیں۔ گویا خطاب کا رخ اب پھر اہل ایمان کی طرف ہے ۔- آیت ١٠١ (وَاِذَا ضَرَبْتُمْ فِی الْاَرْضِ فَلَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَقْصُرُوْا مِنَ الصَّلٰوۃِق) (اِنْ خِفْتُمْ اَنْ یَّفْتِنَکُمُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا ط) (اِنَّ الْکٰفِرِیْنَ کَانُوْا لَکُمْ عَدُوًّا مُّبِیْنًا ) - یہ تو ہے حالت سفر میں قصر صلوٰۃکاحکم۔ لیکن جنگ کی حالت میں قصر یعنی صلوٰۃ الخوف کا طریقہ اگلی آیت میں مذکور ہے۔ حالت جنگ میں جب پورے لشکر کا ایک ساتھ نماز پڑھنا ممکن نہ رہے تو گروہوں کی شکل میں نماز ادا کرنے کی اجازت ہے۔ لیکن ایسی صورت میں جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خود بھی لشکر میں موجود ہوتے تو کوئی ایک گروہ ہی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ نماز پڑھ سکتا تھا ‘ جبکہ دوسرے گروہ کے لوگوں کو لازماً محرومی کا احساس ہوتا۔ لہٰذا اس مسئلے کے حل کے لیے صلوٰۃ الخوف ادا کرنے کی بہت عمدہ تدبیر بتائی گئی ۔
سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :132 زمانہ امن کے سفر میں قصر یہ ہے کہ جن اوقات کی نماز میں چار رکعتیں فرض ہیں ان میں دو رکعتیں پڑھی جائیں ۔ اور حالت جنگ میں قصر کے لیے کوئی حد مقرر نہیں ہے ۔ جنگی حالات جس طرح بھی اجازت دیں ، نماز پڑھی جائے ۔ جماعت کا موقع ہو تو جماعت سے پڑھو ورنہ فرداً فرداً ہی سہی ۔ قبلہ رخ نہ ہو سکتے ہو تو جدھر بھی رخ ہو ۔ سواری پر بیٹھے ہوئے اور چلتے ہوئے بھی پڑھ سکتے ہو ۔ رکوع و سجدہ ممکن نہ ہو تو اشارہ ہی سے سہی ۔ ضرورت پڑے تو نماز ہی کی حالت میں چل بھی سکتے ہو ۔ کپڑوں کو خون لگا ہوا ہو تب بھی مضائقہ نہیں ۔ ان سب آسانیوں کے باوجود اگر ایسی پر خطر حالت ہو کہ کسی طرح نماز نہ پڑھی جا سکے تو مجبوراً موخر کی جائے جیسے جنگ خندق کے موقع پر ہوا ۔ اس امر میں اختلاف ہے کہ سفر میں صرف فرض پڑھے جائیں یا سنتیں بھی ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے جو کچھ ثابت ہے وہ یہ ہے کہ آپ سفر میں فجر کی سنتوں اور عشاء کے وتر کا تو التزام فرماتے تھے مگر باقی اوقات میں صرف فرض پڑھتے تھے ، سنتیں پڑھنے کا التزام آپ سے ثابت نہیں ہے ۔ البتہ نفل نمازوں کا جب موقع ملتا تھا پڑھ لیا کرتے تھے ، حتٰی کہ سواری پر بیٹھے ہوئے بھی پڑھتے رہتے تھے ۔ اسی بنا پر حضرت عبداللہ بن عمر نے لوگوں کو سفر میں فجر کے سوا دوسرے اوقات کی سنتیں پڑھنے سے منع کیا ہے ۔ مگر اکثر علماء ترک اور فعل دونوں کو جائز قرار دیتے ہیں اور اسے بندے کے اختیار پر چھوڑ دیتے ہیں ۔ حنفیہ کا مختار مذہب یہ ہے کہ مسافر جب راستہ طے کر رہا ہو تو سنتیں نہ پڑھنا افضل ہے اور جب کسی مقام پر منزل کرے اور اطمینان حاصل ہو تو پڑھنا افضل ہے ۔ جس سفر میں قصر کیا جا سکتا ہے اس کے لیے بعض ائمہ نے یہ شرط لگائی ہے کہ وہ فی سبیل اللہ ہونا چاہیے ، جیسے جہاد ، حج ، عمرہ ، طلب علم وغیرہ ۔ ابن عمر ، ابن مسعود رضی اللہ عنہما اور عطا کا یہی فتویٰ ہے ۔ امام شافعی رحمہ اللہ اور امام احمد رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ سفر کسی ایسے مقصد کے لیے ہونا چاہیے جو شرعاً جائز ہو ، حرام و ناجائز اغراض کے لیے جو سفر کیا جائے اس میں قصر کی اجازت سے فائدہ اٹھانے کا کسی کو حق نہیں ہے ۔ حنفیہ کہتے ہیں کہ قصر ہر سفر میں کیا جا سکتا ہے ، رہی سفر کی نوعیت ، تو وہ بجائے خود ثواب یا عتاب کی مستحق ہو سکتی ہے ، مگر قصر کی اجازت پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑتا ۔ بعض ائمہ نے ”مضائقہ نہیں“ ( فَلَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ ) کا مفہوم یہ سمجھا ہے کہ سفر میں قصر کرنا ضروری نہیں ہے بلکہ محض اس کی اجازت ہے ۔ آدمی چاہے تو اس سے فائدہ اٹھائے ورنہ پوری نماز پڑھے ۔ یہی رائے امام شافعی رحمہ اللہ نے اختیار کی ہے ، اگرچہ وہ قصر کرنے کو افضل اور ترک قصر کو ترک اولیٰ قرار دیتے ہیں ۔ امام احمد رحمہ اللہ کے نزدیک قصر کرنا واجب تو نہیں ہے مگر نہ کرنا مکروہ ہے ۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک قصر کرنا واجب ہے اور یہی رائے ایک روایت میں امام مالک رحمہ اللہ سے بھی منقول ہے ۔ حدیث سے ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ سفر میں قصر کیا ہے اور کسی معتبر روایت میں یہ منقول نہیں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی سفر میں چار رکعتیں پڑھی ہوں ۔ ابن عمر فرماتے ہیں کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ابو بکر اور عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کے ساتھ سفروں میں رہا ہوں اور کبھی نہیں دیکھا کہ انہوں نے قصر نہ کیا ہو ۔ اسی کی تائید میں ابن عباس رضی اللہ عنہ اور دوسرے متعدد صحابہ سے بھی مستند روایات منقول ہیں ۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے جب حج کے موقع پر منیٰ میں چار رکعتیں پڑھائیں تو صحابہ نے اس پر اعتراض کیا اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے یہ جواب دے کر لوگوں کو مطمئن کیا کہ میں نے مکہ میں شادی کر لی ہے ، اور چونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے میں نے سنا ہے کہ جو شخص کسی شہر میں متأَ مِّل ہوا ہو وہ گویا اس شہر کا باشندہ ہے ، اس لیے میں نے یہاں قصر نہیں کیا ۔ ان کثیر روایات کے خلاف دو روایتیں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ قصر اور اتمام دونوں درست ہیں ، لیکن یہ روایتیں سند کے اعتبار سے ضعیف ہونے کےعلاوہ خود حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ہی کے ثابت شدہ مسلک کے خلاف ہیں ۔ البتہ یہ صحیح ہے کہ ایک حالت بین السفر والحضر بھی ہوتی ہے جس میں ایک ہی عارضی فرودگاہ پر حسب موقع کبھی قصر اور کبھی اتمام دونوں کیے جا سکتے ہیں ، اور غالباً حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اسی حالت کے متعلق فرمایا ہوگا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر میں قصر بھی کیا ہے اور اتمام بھی ۔ رہے قرآن کے یہ الفاظ کہ”مضائقہ نہیں اگر قصر کرو“ تو ان کی نظیر سورہ بقرہ رکوع ۱۹ میں گزر چکی ہے جہاں صفا اور مروہ کے درمیان سعی کے متعلق بھی یہی الفاظ فرمائے گئے ہیں ، حالانکہ یہ سعی مناسک حج میں سے ہے اور واجب ہے ۔ دراصل دونوں جگہ یہ کہنے کا مقصود لوگوں کے اس اندیشہ کو دور کرنا ہے کہ ایسا کرنے سے کہیں کوئی گناہ تو لازم نہیں آئے گا یا ثواب میں کمی تو نہ ہوگی ۔ مقدار سفر جس میں قصر کیا جاسکتا ہے ، ظاہریہ کے نزدیک کچھ نہیں ہے ، ہر سفر میں قصر کیا جا سکتا ہے خواہ کم ہو یا زیادہ ۔ امام مالک رحمہ اللہ کے نزدیک ٤۸ میل یا ایک دن رات سے کم کے سفر میں قصر نہیں ہے ۔ یہی رائے امام احمد رحمہ اللہ کی ہے ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ کا بھی یہی مسلک ہے اور امام شافعی رحمہ اللہ سے بھی ایک قول اس کی تائید میں مروی ہے ۔ حضرت اَنَس ۱۵ میل کے سفر میں قصر کرنا جائز سمجھتے ہیں ۔ امام اَوزاعی اور امام زُہری حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی اس رائے کو لیتے ہیں کہ ایک دن کا سفر قصر کے لیے کافی ہے ۔ حَسن بصری دو دن ، اور امام ابو یوسف دو دن سے زیادہ کی مسافت میں قصر جائز سمجھتے ہیں ۔ امام ابوحنیفہ کے نزدیک جس سفر میں پیدل یا اونٹ کی سواری سے تین دن صرف ہوں ( یعنی تقریباً ۱۸ فرسنگ یا ۵٤ میل ) اس میں قصر کیا جا سکتا ہے ۔ یہی رائے ابن عمر ، ابن مسعود اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہم کی ہے ۔ اثنائے سفر میں دوران قیام جس میں قصر کیا جا سکتا ہے مختلف ائمہ کے نزدیک مختلف ہے ۔ امام احمد کے نزدیک جہاں آدمی نے چار دن ٹھہرنے کا ارادہ کر لیا ہو وہاں پوری نماز پڑھنی ہوگی ۔ امام مالک اور امام شافعی کے نزدیک جہاں چار دن سے زیادہ قیام کا ارادہ ہو وہاں قصر جائز نہیں ۔ امام اوزاعی ۱۳ دن اور امام ابو حنیفہ ۱۵ دن یا اس سے زیادہ کی نیت قیام پر پوری نماز ادا کرنے کا حکم دیتے ہیں ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس باب میں کوئی صریح حکم مروی نہیں ہے ۔ اور اگر کسی جگہ آدمی مجبوراً رکا ہوا ہو اور ہر وقت یہ خیال ہو کہ مجبوری دور ہوتے ہی وطن واپس ہو جائے گا تو تمام علماء کا اتفاق ہے کہ ایسی جگہ بلا تعین مدت قصر کیا جاتا رہے گا ۔ صحابہ کرام سے بکثرت مثالیں ایسی منقول ہیں کہ انہوں نے ایسے حالات میں دو دو سال مسلسل قصر کیا ہے ۔ امام احمد بن حنبل اسی پر قیاس کر کے قیدی کو بھی اس کے پورے زمانہ قید میں قصر کی اجازت دیتے ہیں ۔ سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :133 ظاہریوں اور خارجیوں نے اس فقرے کا یہ مطلب لیا ہے کہ قصر صرف حالت جنگ کے لیے ہے اور حالت امن کے سفر میں قصر کرنا قرآن کے خلاف ہے ۔ لیکن حدیث میں مستند روایت سے ثابت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جب یہی شبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کیا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا صدقہ تصدق اللہ بھا علیکم فاقبلوا صدقتہ ۔ ”یہ قصر کی اجازت ایک انعام ہے جو اللہ نے تمہیں بخشا ہے ، لہٰذا اس کے انعام کو قبول کرو ۔ “ یہ بات قریب قریب تواتر سے ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے امن اور خوف دونوں حالتوں کے سفر میں قصر فرمایا ہے ۔ ابن عباس تصریح کرتے ہیں کہ ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم خرج من المدینۃ الیٰ مکۃ لا یخاف الا ربّ العٰلمین فصلی رکعتین ۔ ” نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ سے مکہ تشریف لے گئے اور اس وقت ربّ العالمین کے سوا کسی کا خوف نہ تھا ، مگر آپ نے دو ہی رکعتیں پڑھیں “ ۔ اسی بنا پر میں نے ترجمہ میں خصوصاً کا لفظ قوسین میں بڑھا دیا ہے ۔
63: اللہ تعالیٰ نے سفر کی حالت میں ظہر، عصر اور عشاء کی نماز آدھی کردی ہے۔ اسے قصر کہا جاتا ہے۔ عام سفروں میں قصر ہر حالت میں واجب ہے، چاہے دشمن کا خوف ہو یا نہ ہو لیکن یہاں ایک خاص قسم کے قصر کا ذکر مقصود ہے جو دشمن کے مقابلے کے وقت ہی ہوسکتا ہے، اس میں یہ چھوٹ بھی ہوتی ہے کہ مسلمانوں کا لشکر دو حصوں میں تقسیم ہو کر ایک ہی امام کے پیچھے باری باری ایک ایک رکعت پڑھے، اور دوسری رکعت بعد میں تنہا پوری کرے جس کا طریقہ اگلی آیت میں بیان کیا گیا ہے۔ چونکہ یہ خاص قسم کا قصر جسے صلاۃ الخوف کہتے ہیں دشمن کے مقابلے کی حالت ہی میں ہوسکتا ہے، اس لیے یہاں قصر کے ساتھ یہ شرط لگائی گئی ہے کہ اگر تمہیں اس بات کا خوف ہو کہ کافر لوگ تمہیں پریشان کریں گے۔ (ابن جریر) آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غزوہ ذات الرقاع کے موقع پر صلاۃ الخوف پڑھی ہے۔ اس کا مفصل طریقہ احادیث اور فقہ کی کتابوں میں موجود ہے۔