100۔ 1 اس میں ہجرت کی ترغیب اور مشرکین سے دوری اختیار کرنے کی تلقین ہے مُرَاغَمَا کے معنی جگہ، جائے قیام یا جائے پناہ اور سَعَۃَ سے رزق یا جگہوں اور ملکوں کی کشادگی و فراخی ہے۔ 100۔ 2 اس میں نیت کے مطابق اجر وثواب ملنے کی یقین دہانی ہے چاہے موت کی وجہ سے وہ اس عمل کے مکمل کرنے سے قاصر رہا ہو۔ جیسا کہ گزشتہ آیتوں میں سے ایک سو افراد کے قاتل کا واقعہ حدیث میں بیان کیا گیا ہے۔ جو توبہ کے لئے نیکوں کی ایک بستی میں جا رہا تھا کہ راستے میں موت آگئی۔ اور اللہ تعالیٰ نے نیکوں کی بستی کو نسبت دوسری بستی کے قریب تر کردیا جس کی وجہ سے اسے ملائکہ رحمت اپنے ساتھ لے گئے، اسی طرح جو شخص ہجرت کی نیت سے گھر سے نکلے لیکن راستے میں اسے موت آجائے تو اسے اللہ کی طرف سے ہجرت کا ثواب ملے گا، گو ابھی وہ ہجرت کے عمل کو پایہ تکمیل تک بھی نہ پہنچ سکا ہو جیسے حدیث میں بھی آیا ہے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (انما الاعمال بالنیات) عملوں کا دارومدار نیتوں پر ہے " وانمالکل امریء مانویٰ ) آدمی کے لئے وہی ہے جس کی اس نے نیت کی " جس نے اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے ہجرت کی پس، اس کی ہجرت ان ہی کے لئے ہے اور جس نے دنیا حاصل کرنے یا کسی عورت سے شادی کرنے کی نیت سے ہجرت کی پس اس کی ہجرت اسی کے لئے ہے جس نیت سے اس نے ہجرت کی " (صحیح بخاری، باب بدء الوحی ومسلم، کتاب الامارۃ) یہ حکم عام ہے جو دین کے ہر کام کو شامل ہے۔ یعنی اس کو کرتے وقت اللہ کی رضا پیش نظر ہوگی تو وہ مقبول، ورنہ مردود ہوگا)
[١٣٦] ہجرت کے مقاصد اور ضرورت :۔ ہجرت اس لیے فرض کی گئی تھی کہ ایک تو مسلمان کفار کے تشدد سے آزاد ہو کر اپنے اسلامی شعائر آزادی کے ساتھ بجا لاسکیں۔ اور دوسرے اس لیے کہ مدینہ کی طرف ہجرت کر کے مسلمانوں کی اجتماعی قوت کے لیے مددگار ثابت ہوں۔ پھر جب مکہ فتح ہوگیا اور پورے خطہ عرب میں اسلام کا بول بالا ہوگیا تو پھر ہجرت کی ضرورت نہ رہی۔ جیسا کہ کئی احادیث صحیحہ سے ثابت ہے لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ اب تاقیامت ہجرت فرض نہیں۔ بلکہ جب بھی دوبارہ ایسا موقع پیدا ہوجائے کہ کسی علاقہ میں مسلمانوں کو اپنے شعائر اسلام کو بجا لانا بھی مشکل ہو رہا ہو تو مسلمانوں کو کوئی ایسا خطہ تلاش کرنا چاہیے جہاں انہیں آزادی سے شعائر اسلام بجا لانے کی سہولت میسر ہو اور اپنے میں سے کوئی امیر منتخب کر کے اس طرف ہجرت کرنا اور اپنی اجتماعی قوت کو مرکوز کرنا اور پھر جہاد کرنا سب کچھ فرض ہوجائے گا۔ بلکہ اگر بنظر غائر دیکھا جائے تو ہجرت بھی جہاد کا ہی ایک حصہ ہوتی ہے۔ پھر جب اس علاقہ میں اسلام کا غلبہ ہوجائے تو وہاں بھی ہجرت کی ضرورت باقی نہ رہے گی۔- دارالکفر میں رہنے کی رخصت کی شرائط :۔ ان آیات سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ مسلمانوں کا دارالکفر میں رہنے کا جواز صرف دو صورتوں میں ہے ایک یہ کہ کوئی شخص اس خطہ میں اسلام کو غالب کرنے اور نظام کفر کو نظام اسلام میں تبدیل کرنے کی جدوجہد میں لگا رہے۔ جیسا کہ انبیاء (علیہم السلام) اور ان کے ابتدائی پیرو کرتے رہے ہیں اور دوسرے یہ کہ وہ فی الواقع وہاں سے نکلنے کی کوئی راہ نہ پاتا ہو۔ اور بیزاری اور نفرت سے مجبوراً وہاں رہ رہا ہو۔ ان صورتوں کے علاوہ دارالکفر میں رہنا مستقل معصیت ہے۔- [١٣٧] اللہ کا غفور الرحیم ہونا :۔ اس آیت میں صرف ہجرت کے سفر کا ذکر ہے۔ جبکہ کئی احادیث صحیحہ سے ثابت ہے کہ اللہ کی راہ میں کوئی سفر کیا جائے خواہ یہ ہجرت کا سفر ہو یا جہاد کا سفر ہو یا حج وعمرہ کا سفر ہو یا دینی علوم کے حصول کے لیے سفر ہو، اور دوران سفر حصول مقصد سے بعد یا پہلے موت واقع ہوجائے تو اللہ تعالیٰ اس کا پورا پورا اجر عطا کردیتا ہے جیسا کہ درج ذیل حدیث سے معلوم ہوتا ہے :- سیدنا ابو سعید (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بنی اسرائیل میں سے ایک شخص نے ننانوے قتل کیے تھے۔ پھر وہ اپنے متعلق مسئلہ پوچھنے لگا۔ وہ ایک راہب کے ہاں گیا اور اسے پوچھا : کیا میرے لیے (توبہ کی) گنجائش ہے ؟ اس نے کہا نہیں تو اس نے راہب کو بھی مار ڈالا (اور سو پورے کردیے) پھر لوگوں سے یہی مسئلہ پوچھتا رہا۔ کسی آدمی نے اسے کہا کہ فلاں فلاں بستی میں (توبہ کے لیے) چلے جاؤ۔ راستہ ہی میں اسے موت نے آلیا۔ اس نے اپنا سینہ بستی کی طرف جھکا دیا۔ ابرحمت کے اور عذاب کے فرشتے آپس میں جھگڑنے لگے۔ جس بستی کی طرف وہ جا رہا تھا اللہ نے زمین کو حکم دیا کہ نزدیک ہوجا اور جس بستی سے جا رہا تھا اسے حکم دیا کہ دور ہوجا۔ اور فرشتوں سے فرمایا کہ فاصلہ ناپ لو۔ چناچہ جہاں اسے جانا تھا وہ بستی ایک بالشت بھر قریب نکلی تو اسے بخش دیا گیا۔ (بخاری، کتاب الانبیاء باب ماذکر عن بنی اسرائیل)
مُرٰغَمًا : یہ ام ظرف ہے، یعنی مَوْضِعَ رَغْمِ الْاَعْدَاء دشمنوں کی ناک خاک آلود ہونے کی جگہ، جس سے دشمن ذلیل ہوں۔ ” مراغم “ کے معنی جگہ، جائے قیام اور جائے پناہ بھی آتے ہیں۔ ہجرت کر کے نکلنے کے بعد حاصل ہونے والی جائے قیام کو ” مراغمًا “ اس لیے فرمایا کہ وہ تمام دشمنوں کی ناک کو خاک آلود کردیتی ہے۔ (قرطبی) اس آیت میں اگرچہ ان لوگوں کو مدینہ کی طرف ہجرت کرنے کی ترغیب دی گئی ہے جو مکہ اور دوسرے مقامات پر دارالکفر میں زندگی بسر کر رہے تھے اور ہجرت نہیں کر رہے تھے، لیکن یہ آیت عام ہے اور متعدد احادیث میں ہجرت کی ترغیب دی گئی ہے اور وعدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ دشمنوں کو ذلیل و خوار کرے گا اور اس کی طرف سے بڑی وسعت بھی ملے گی۔ - وَمَنْ يَّخْرُجْ مِنْۢ بَيْتِهٖ ۔۔ : اس میں وہ تمام لوگ شامل ہیں جو خلوص نیت سے ہجرت کرتے ہیں مگر راستے میں ان کا وقت آخر آجاتا ہے تو ان کا اجر اللہ پر ثابت ہوجاتا ہے، کیونکہ اصل مدار نیت پر ہے، جیسا کہ مشہور حدیث ہے : ( اِنَّمَا الْاَعْمَال بالنِّیَّاتِ ) [ بخاری، بدء الوحی، باب کیف کان بدء الوحی ۔۔ : ١] ” تمام اعمال کا دارو مدار نیتوں پر ہے۔ “ چناچہ خالد بن حزام (رض) حبشہ کی طرف ہجرت کر کے نکلے، انھیں ایک سانپ نے ڈس لیا تو ان کے بارے میں یہ آیت اتری : ( و من یخرج من بیتہ ) [ ابن أبی حاتم : ٣؍٣٢٨، ح : ٥٨٨٨، حسن ] سو آدمیوں کو قتل کر کے ہجرت کرنے والے شخص کا قصہ بھی اس کی دلیل ہے۔ - 3 ہجرت کے معنی ہیں دارالحرب سے دار السلام کی طرف منتقل ہونا، یہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی میں فرض تھی اور اس کی فرضیت تا قیامت باقی ہے جس ہجرت کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ” لاَ ھِجْرَۃَ بَعْدَ الْفَتْحِ “ (فتح کے بعد ہجرت نہیں) فرما کر منسوخ فرمایا ہے، وہ مکہ یا کسی بھی جگہ سے مدینہ کی طرف ہجرت تھی۔ اسی طرح اہل بدعت کی آبادی سے بھی ہجرت کرنی چاہیے، امام مالک (رض) فرماتے ہیں : ” کسی شخص کے لیے ایسے مقام پر رہنا جائز نہیں جہاں سلف کو گالیاں دی جاتی ہوں۔ “ علی ہذا القیاس جس علاقے میں حلال روزی نہ ملتی ہو، یا دین میں فتنے کا خوف ہو وہاں سے بھی ہجرت کرنی چاہیے۔ (قرطبی) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( اَنَا بَرِئٌ مِنْ کُلِّ مُسْلِمٍ یُقِیْمُ بَیْنَ أَظْھُرِ الْمُشْرِکِیْنَ ) ” میں ہر اس مسلمان سے بری ہوں جو مشرکین کے درمیان مقیم ہو۔ “ [ أبو داوٗد، الجہاد، باب النھی عن قتل من اعتصم بالسجود : ٢٦٤٥ ]
معارف ومسائل - ہجرت کی تعریف :۔ ان چار آیتوں میں ہجرت کے فضائل، برکات اور احکام کا بیان ہے لغت میں ہجرت، ہجران اور ہجر کے معنی ہیں کسی چیز سے بیزار ہو کر اس کو چھوڑ دینا اور محاورات عامہ میں ہجرت کا لفظ ترک وطن کرنے کے لئے بولا جاتا ہے، اصطلاح شرع میں دارالکفر کو چھوڑ کر دار الاسلام میں چلے جانے کو ہجرت کہتے ہیں (روح المعانی)- اور ملا علی قاری نے شرح مشکوة میں فرمایا کہ کسی وطن کو دینی وجوہ کی بناء پر چھوڑ دینا بھی ہجرت میں داخل ہے (مرقاة صفحہ ٩٣ جلد ١)- سور حشر کی آیت الذین اخرجوا من دیارھم واموالھم جو مہاجرین صحابہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے اس سے معلوم ہوا کہ اگر کسی ملک کے کافر مسلمانوں کو ان کے مسلمان ہونے کی وجہ سے زبردستی نکال دیں تو یہ بھی ہجرت میں داخل ہے۔- اس تعریف سے معلوم ہوا کہ ہندوستان سے پاکستان کی طرف منتقل ہونے والے مسلمان جو دارالکفر سے بیزاری کے سبب باختیار خود اس طرف آئے ہیں یا جن کو غیر مسلموں نے محض ان کے مسلمان ہونے کی وجہ سے زبردستی نکال دیا ہے، یہ سب لوگ شرعی معنی کے اعتبار سے مہاجر ہیں، البتہ جو تجارتی ترقی یا ملازمت کی سہولتوں کی نیت سے منتقل ہوئے وہ شرعاً مہاجر کہلانے کے مستحق نہیں۔- اور صحیح بخاری اور مسلم کی ایک حدیث میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے :- ” یعنی مہاجر وہ ہے جو ان تمام چیزوں کو چھوڑ دے جن سے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے منع فرمایا ہے۔ “- سو اس کا مطلب اسی حدیث کے پہلے جملے سے ظاہر ہوجاتا ہے جس میں یہ ارشاد ہے :- ” یعنی مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ کی تکلیف سے سب مسلمان محفوظ اور سلامت رہتے ہوں “- مراد اس کی ظاہر ہے کہ سچا اور پکا مسلمان وہی ہے جو دوسروں کو ایذاء نہ پہونچائے، اسی طرح سچا اور کامیاب مہاجر وہی ہے جو صرف ترک وطن کر کے فارغ نہ ہوجائے، بلکہ جتنی چیزیں شریعت نے حرام و ناجائز قرار دی ہیں ان سب کو بھی چھوڑ دے۔- اپنے دل کو بھی بدل جامہ احرام کے ساتھ - ہجرت کے فضائل :۔- قرآن کریم میں جس طرح جہاد کے متعلق آیات پورے قرآن میں پھیلی ہوئی ہیں اسی طرح ہجرت کا ذکر بھی قرآن کریم کی اکثر سورتوں میں متعدد مرتبہ ہے، سب آیات کو جمع کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہا آیت ہجرت میں تین قسم کے مضامین ہیں، اول ہجرت کے فضائل، دوسرے اس کے دنیاوی اور اخروی برکات، تیسرے باوجود قدرت کے دارالکفر سے ہجرت نہ کرنے پر وعیدیں۔- پہلے مضمون یعنی ہجرت کے فضائل کی ایک آیت سورة بقرہ میں ہے :- ” یعنی وہ جوا یمان لائے اور جنہوں نے اللہ کی راہ میں ہجرت اور جہاد کیا وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے امیدوار ہیں اور اللہ تعالیٰ کی رحمت کے امیدوار ہیں اور اللہ تعالیٰ بڑا غفور رحیم ہے۔ “- ” یعنی جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے اللہ کی راہ میں ہجرت اور جہاد اختیار کیا وہ اللہ تعالیٰ کے پاس بڑے درجہ میں ہیں اور یہی لوگ کامیاب بامراد ہیں۔ “- ” یعنی جو شخص اللہ اور رسول کے لئے اپنے گھر سے بہ نیت ہجرت نکل کھڑا ہوا پھر اس کو راستہ ہی میں موت آگئی تو اس کا ثواب اللہ کے ذمہ ہوگیا۔ “- یہ آیت بعض روایات کے مطابق حضرت خالد بن حزام کے بارے میں ہجرت حبشہ کے زمانہ میں نازل ہوئی، یہ مکہ سے حبشہ کی طرف ہجرت کی نیت پر نکلے تھے، راستہ میں ان کو سانپ نے کاٹ لیا، جس سے ان کی موت واقع ہوگئی، بہرحال ان تینوں آیتوں میں دارالکفر سے ہجرت کی ترغیب اور اس کے بڑے فضائل کا بیان واضح طور پر آ گیا۔- ایک حدیث میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے : الھجرة تھدم ماکان قبلھا ” یعنی ہجرت ان سب گناہوں کو ختم کردیتی ہے جو ہجرت سے پہلے کئے ہوں۔ “- ہجرت کی برکات :۔ - برکات کے متعلق سورة نحل کی ایک آیت میں ارشاد ہے :- ” یعنی جن لوگوں نے اللہ کے لئے ہجرت کے بعد اس کے کہ ان پر ظلم کیا گیا ہم ان کو دنیا میں اچھا ٹھکانا دیں گے، اور آخرت کا ثواب تو بہت بڑا ہے، کاش یہ لوگ سمجھ لیتے۔ “- سورة نساء کی چار آیتیں جو اوپر لکھی گئی ہیں ان میں سے چوتھی آیت کا بھی تقریباً یہی مضمون ہے جس میں ارشاد ہے :- ” یعنی جو شخص اللہ کی راہ میں ہجرت کرے گا وہ پائے گا زمین میں جگہ بہت اور کشائش “- آیت کا لفظ مراغم مصدر ہے جس کے معنی ہیں ایک زمین سے دوسری زمین کی طرف منتقل ہونا اور منتقل ہونے کی جگہ کو بھی مراغم کہہ دیا جاتا ہے۔- ان دونوں آیتوں میں ہجرت کی برکات ظاہرہ وہ باطنہ کا بیان ہے، جس میں اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ کہ جو شخص اللہ اور رسول کے لئے ہجرت کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے لئے دنیا میں راہیں کھول دیتے ہیں اور اس کو دنیا میں بھی اچھا ٹھکانا دیتے ہیں اور آخرت کے ثواب درجات تو وہم و گمان سے بالاتر ہیں۔- اچھے ٹھکانے کی تفسیر مجاہد نے رزق حلال سے اور حسن بصری نے عمدہ مکان سے اور بعض دوسرے مفسرین نے مخالفین پر غلبہ اور عزت و شرف سے کی ہے اور حقیقت یہ ہے کہ آیت کے مفہوم میں یہ سب چیزیں داخل ہیں، چناچہ تاریخ عالم شاہد ہے کہ جب کسی نے اللہ کے لئے وطن چھوڑا ہے تو اللہ تعالیٰ نے اس کو وطن کے مکان سے بہتر مکان وطن کی عزت و شرف سے زیادہ عزت، وطن کے آرام سے زیادہ آرام عطا کیا ہے، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے عراقی وطن کو چھڑ کر شام کی طرف ہجرت فرمائی تو اللہ تعالیٰ نے یہ سب چیزیں ان کو نصیب فرمائیں، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے ساتھ بنی اسرائیل نے اللہ کے لئے اپنے وطن مصر کو چھوڑا، تو اللہ تعالیٰ نے ان کو اس سے بہتر وطن ملک شام کا عطا فرمایا اور پھر مصر بھی ان کو مل گا، ہمارے آقا حضرت خاتم النبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے صحابہ نے اللہ و رسول کے لئے مکہ کو چھوڑا تو مہاجرین کو مکہ سے بہترین ٹھکانا مدینہ میں نصیب ہوا، ہر طرح کی عزت و غلبہ اور راحت و ثروت عطا ہوئی، ہجرت کے ابتدائی دور میں چند روزہ تکلیف و مشقت کا اعتبار نہیں، اس عبوری دور کے بعد جو نعمتیں حق تعالیٰ کی ان حضرات کو عطا ہوئیں اور ان کی کئی نسلوں میں جاری رہیں اسی کا اعتبار ہوگا۔- صحابہ کرام کے فقر و فاقہ کے جو واقعات تاریخ میں مشہور ہیں وہ عموماً ہجرت کے ابتدائی دور کے ہیں یا وہ فقہ اختیاری کے ہیں کہ انہوں نے دنیا و مال و دولت کو پسند ہی نہیں کیا اور جو حاصل ہوا اس کو اللہ کی راہ میں خرچ کردیا، جیسا کہ خود آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اپنا حال یہی تھا کہ آپ کا فقر و فاقہ محض اختیاری تھا، آپ نے غناء و مال داری کو اختیار نہیں فرمایا اور اس کے باوجود ہجرت کے چھٹے سال میں فتح خیبر کے بعد آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سب اہل و عیال کے گذارہ کافی انتظام ہوگیا تھا، اسی طرح خلفائے راشدین میں سب کا یہی حال تھا کہ مدینہ پہنچنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان کو سب کچھ دیا تھا لیکن اسلامی ضرورت پیش آنے پر حضرت صدیق اکبر نے اپنے گھر کا پورا مال لا کر پیش کردیا، ام المومنین حضرت زینب کو جو کچھ وظیفہ ملتا وہ سب فقراء و مساکین میں تقسیم کر کے خود فقیرانہ زندگی گذارتی تھیں اسی وجہ سے ان کا لقب ام المساکین ہوگیا تھا اور اس کے باوجود اغنیاء صحابہ جنہوں نے بڑی مقدار میں مال و جائیداد چھوڑی ان کی مقدار بھی صحابہ کرام میں کم نہیں، بہت سے حضرات صحابہ ایسے بھی تھے جو اپنے وطن مکہ مکرمہ میں مفلس و نادار تھے، ہجرت کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان کو مال و دلت اور ہر طرح کی رفاہیت عطا فرمائی، حضرت ابوہریرہ (رض) جب ایک صوبہ کے والی بنا دیئے گئے تو بڑے لطف سے اپنی سابقہ زندگی کا نقشہ اتارا کرتے تھے اور اپنے نفس کو خطاب کر کے فرمایا کرتے تھے کہ ابوہریرہ تو وہی ہے کہ فلاں قبیلہ کا نوکر تھا اور تیری تنخواہ صرف پیٹ بھرائی روٹی تھی اور تیری ڈیوٹی یہ تھی کہ جب وہ لوگ سفر میں جائیں تو پیدل ان کے ساتھ چلے اور جب وہ کسی منزل پر اتریں تو تو ان کے لئے جلانے کی لکڑیاں چن کر لائے، آج اسلام کی بدولت تو کہاں سے کہاں پہنچا، تجھ کو امام اور امیر المومنین کہا جاتا ہے۔- خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو وعدہ مہاجرین کے لئے قرآن میں فرمایا اس کو دنیا نے پورا ہوتے ہوئے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے، البتہ اسی آیت میں شرط یہ ہے کہ ہاجروا لفی اللہ کے مصداق ہوں، دنیا کے مال و دولت یا حکومت و سلطنت یا عزت وجاہ کی طلب میں ہجرت نہ کی ہو ورنہ صحیح بخاری کی حدیث میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد یہ بھی ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی نیت سے ہجرت کرتا ہے تو ان کی ہجرت اللہ اور رسول ہی کے لئے ہے یعنی یہ صحیح ہجرت ہے جس کے فضائل و برکات قرآن میں مذکور ہیں اور جس شخص نے کسی مال کی طلب یا کسی عورت کے نکاح کے خیال سے ہجرت کی ہو تو اس کی ہجرت کا معاوضہ وہی چیز ہے جس کی طرف اس نے ہجرت کی۔- آج جو بعض مہاجرین پریشان حال ہیں یا تو ابھی وہ اس عبوری دور میں ہیں جس میں ابتدائی ہجرت کے وقت پریشانی پیش آیا کرتی ہے، یا پھر وہ صحیح معنی میں مہاجر نہیں ان کو اپنی نیت اور حال کی اصلاح کی طرف توجہ کرنی چاہئے، نیت اور عمل کی اصلاح کے بعد وہ اللہ تعالیٰ کے وعدہ کی سچائی اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کریں گے۔
وَمَنْ يُّھَاجِرْ فِيْ سَبِيْلِ اللہِ يَجِدْ فِي الْاَرْضِ مُرٰغَمًا كَثِيْرًا وَّسَعَۃً ٠ۭ وَمَنْ يَّخْرُجْ مِنْۢ بَيْتِہٖ مُھَاجِرًا اِلَى اللہِ وَرَسُوْلِہٖ ثُمَّ يُدْرِكْہُ الْمَوْتُ فَقَدْ وَقَعَ اَجْرُہٗ عَلَي اللہِ ٠ۭ وَكَانَ اللہُ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا ١٠٠ۧ- هجر - والمُهاجرَةُ في الأصل :- مصارمة الغیر ومتارکته، من قوله عزّ وجلّ : وَالَّذِينَ آمَنُوا وَهاجَرُوا وَجاهَدُوا[ الأنفال 74] ، وقوله : لِلْفُقَراءِ الْمُهاجِرِينَ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيارِهِمْ وَأَمْوالِهِمْ [ الحشر 8] ، وقوله :- وَمَنْ يَخْرُجْ مِنْ بَيْتِهِ مُهاجِراً إِلَى اللَّهِ [ النساء 100] ، فَلا تَتَّخِذُوا مِنْهُمْ أَوْلِياءَ حَتَّى يُهاجِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ النساء 89] فالظاهر منه الخروج من دار الکفر إلى دار الإيمان کمن هاجر من مكّة إلى المدینة، وقیل : مقتضی ذلك هجران الشّهوات والأخلاق الذّميمة والخطایا وترکها ورفضها، وقوله : إِنِّي مُهاجِرٌ إِلى رَبِّي [ العنکبوت 26] أي : تارک لقومي وذاهب إليه . - ( ھ ج ر ) الھجر - المھاجر ۃ کے اصل معی) تو ایک دوسرے سے کٹ جانے اور چھوڑ دینے کے ہیں جیسے فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَهاجَرُوا وَجاهَدُوا[ الأنفال 74] خدا کے لئے وطن چھوڑ گئے اور ۃ کفار سے ) جنگ کرتے رہے ۔ اور آیات قرآنیہ : ۔ لِلْفُقَراءِ الْمُهاجِرِينَ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيارِهِمْ وَأَمْوالِهِمْ [ الحشر 8] فے کے مال میں محتاج مہاجرین کا ( بھی ) حق ہے ۔ جو کافروں کے ظلم سے اپنے گھر اور مال سے بید خل کردیئے گئے ۔ وَمَنْ يَخْرُجْ مِنْ بَيْتِهِ مُهاجِراً إِلَى اللَّهِ [ النساء 100] اور جو شخص خدا اور اس کے رسول کی طرف ہجرت کر کے گھر سے نکل جائے ۔ فَلا تَتَّخِذُوا مِنْهُمْ أَوْلِياءَ حَتَّى يُهاجِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ النساء 89] تو جب تک یہ لوگ خدا کی راہ میں ( یعنی خدا کے لئے ) ہجرت نہ کر آئیں ان میں سے کسی کو بھی اپنا دوست نہ بنانا ۔ میں مہاجرت کے ظاہر معنی تو دار الکفر سے نکل کر وادلاسلام کی طرف چلے آنے کے ہیں جیسا کہ صحابہ کرام نے مکہ سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی تھی لیکن بعض نے کہا ہے کہ ہجرت کا حقیقی اقتضاء یہ ہے کہ انسان شہوات نفسانی اخلاق ذمیمہ اور دیگر گناہوں کو کلیۃ تر ک کردے اور آیت : ۔ إِنِّي مُهاجِرٌ إِلى رَبِّي [ العنکبوت 26] اور ابراہیم نے کہا کہ میں تو دیس چھوڑ کر اپنے پروردگاع کی طرف ( جہاں کہیں اس کو منظور ہوگا نکل جاؤ نگا ۔ کے معنی یہ ہیں کہ میں اپنی قوم کو خیر باد کہ کر اللہ تعالیٰ کی طرف چلا جاؤں گا ۔ - وجد - الوجود أضرب : وجود بإحدی الحواسّ الخمس . نحو : وَجَدْتُ زيدا، ووَجَدْتُ طعمه . ووجدت صوته، ووجدت خشونته . ووجود بقوّة الشّهوة نحو : وَجَدْتُ الشّبع . ووجود بقوّة الغضب کو جود الحزن والسّخط . ووجود بالعقل، أو بواسطة العقل کمعرفة اللہ تعالی، ومعرفة النّبوّة، وما ينسب إلى اللہ تعالیٰ من الوجود فبمعنی العلم المجرّد، إذ کان اللہ منزّها عن الوصف بالجوارح والآلات . نحو : وَما وَجَدْنا لِأَكْثَرِهِمْ مِنْ عَهْدٍ وَإِنْ وَجَدْنا أَكْثَرَهُمْ لَفاسِقِينَ [ الأعراف 102] . - ( و ج د ) الو جود - ( ض) کے معنی کسی چیز کو پالینا کے ہیں اور یہ کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے حواس خمسہ میں سے کسی ایک حاسہ کے ساتھ اور اک کرنا جیسے وجدت طعمہ ( حاسہ ذوق ) وجدت سمعہ ( حاسہ سمع ) وجدت خثومتہ حاسہ لمس ) قوی باطنہ کے ساتھ کسی چیز کا ادراک کرنا ۔ جیسے وجدت الشبع ( میں نے سیری کو پایا کہ اس کا تعلق قوت شہو یہ کے ساتھ ہے ۔ وجدت الحزن وا لسخط میں نے غصہ یا غم کو پایا اس کا تعلق قوت غضبہ کے ساتھ ہے ۔ اور بذریعہ عقل کے کسی چیز کو پالیتا جیسے اللہ تعالیٰ یا نبوت کی معرفت کہ اسے بھی وجدان کہا جاتا ہے ۔ جب وجود پالینا ) کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کی جائے تو اس کے معنی محض کسی چیز کا علم حاصل کرلینا کے ہوتے ہیں کیونکہ ذات باری تعالیٰ جوارح اور آلات کے ذریعہ کسی چیز کو حاصل کرنے سے منزہ اور پاک ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَما وَجَدْنا لِأَكْثَرِهِمْ مِنْ عَهْدٍ وَإِنْ وَجَدْنا أَكْثَرَهُمْ لَفاسِقِينَ [ الأعراف 102] اور ہم نے ان میں سے اکثروں میں عہد کا نباہ نہیں دیکھا اور ان میں اکثروں کو ( دیکھا تو ) بد عہد دیکھا ۔- رغم - ( مراغما) ، اسم مکان من راغم الرباعي فهو علی وزن اسم المفعول وزنه مفاعل بضم المیم وفتح العین .- الرَّغَامُ : التّراب الدّقيق، ورَغِمَ أنفُ فلانٍ رَغْماً : وقع في الرّغام، وأَرْغَمَهُ غيره، ويعبّر بذلک عن السّخط، کقول الشاعر :إذا رَغِمَتْ تلک الأنوف لم أرضها ... ولم أطلب العتبی ولکن أزيده فمقابلته بالإرضاء ممّا ينبّه دلالته علی الإسخاط . وعلی هذا قيل : أَرْغَمَ اللہ أنفه، وأَرْغَمَهُ : أسخطه، ورَاغَمَهُ : ساخطه، وتجاهدا علی أن يُرْغِمَ أحدهما الآخر، ثمّ تستعار الْمُرَاغَمَةُ للمنازعة . قال اللہ تعالی: يَجِدْ فِي الْأَرْضِ مُراغَماً كَثِيراً [ النساء 100] ، أي :- مذهبا يذهب إليه إذا رأى منکرا يلزمه أن يغضب منه، کقولک : غضبت إلى فلان من کذا، ورَغَمْتُ إليه .- ( ر غ م ) الرغام اصل میں خاک کو کہتے ہیں اور رغم انف فلان کے معنی ہیں اس کی ناک خاک آلود ہو یعنی وہ ذلیل ہو اور ارغمہ کسی کو ذلت کے ساتھ خاک میں ملا دینا ۔ مجازا رغمہ انف فلان کے معنی ناراض ہونا بھی آتے ہیں جیسا کہ شاعر نے کہا ہے إذا رَغِمَتْ تلک الأنوف لم أرضها ... ولم أطلب العتبی ولکن أزيدها اگر وہ ناراض ہوں گے تو میں ان کے راضی کرنے کی کوشش نہیں کرونگا بلکہ اس کی ناراضگی کو اور بڑھاونگا ۔ یہاں پر رغم کو ارضاء کے بالمقابل لانا اس بات کی دلیل ہے کہ اس کے معنی سخط یعنی غصے اور ناراض ہونے کے ہیں ۔ اسی بنا پر کہا جاتا ہے ۔ ارغم اللہ انف فلاں او ارغمہ یعنی اللہ اسے ذلیل کرے اور راغمہ ( باب مفاعلہ ) کے معنی باہم ناراض ہونے اور ایک دوسرے کو ذلیل کرنے کی کوشش کے ہیں بعد ازاں مراغمہ کا لفظ منازعت کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ اور آیت :۔ يَجِدْ فِي الْأَرْضِ مُراغَماً كَثِيراً [ النساء 100] تو روئے زمین میں اس کو رہنے سہنے کی وافر جگہ اور ہر طرح کی کشائش ملے گی ۔ میں مراغما سے مراد پناہ گاہ ہے یعنی برائی کو دیکھ کر اسے روکنے کی کوشش کرے اگر اس سلسلہ میں اسے وطن بھی ترک کرنا پڑے تو ہراساں نہ ہو ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ اسے کوئی اچھی پناہ گاہ دے گا ۔ جہاں اسے وسعت اور فراخی نصیب ہوگی اور یہ رغمت الیہ سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں کسی کے پاس چلا جانا ۔ جیسے غضبت الی فلان من کذا یعنی ناراض ہو کر فلاں کے پاس چلا گیا ۔- بيت - أصل البیت : مأوى الإنسان باللیل، قال عزّ وجلّ : فَتِلْكَ بُيُوتُهُمْ خاوِيَةً بِما ظَلَمُوا [ النمل 52] ، - ( ب ی ت ) البیت - اصل میں بیت کے معنی انسان کے رات کے ٹھکانہ کے ہیں ۔ کیونکہ بات کا لفظ رات کو کسی جگہ اقامت کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ فَتِلْكَ بُيُوتُهُمْ خاوِيَةً بِما ظَلَمُوا [ النمل 52] یہ ان کے گھر ان کے ظلم کے سبب خالی پڑے ہیں ۔ - درك - الدَّرْكُ کالدّرج، لکن الدّرج يقال اعتبارا بالصّعود، والدّرک اعتبارا بالحدور، ولهذا قيل : درجات الجنّة، ودَرَكَات النار، ولتصوّر الحدور في النار سمّيت هاوية، وقال تعالی: إِنَّ الْمُنافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ [ النساء 145] ، والدّرك أقصی قعر البحر . ويقال للحبل الذي يوصل به حبل آخر ليدرک الماء دَرَكٌ ، ولما يلحق الإنسان من تبعة دَرَكٌ کالدّرک في البیع قال تعالی: لا تخافُ دَرَكاً وَلا تَخْشى [ طه 77] ، أي :- تبعة . وأَدْرَكَ : بلغ أقصی الشیء، وأَدْرَكَ الصّبيّ : بلغ غاية الصّبا، وذلک حين البلوغ، قال : حَتَّى إِذا أَدْرَكَهُ الْغَرَقُ [يونس 90] ، وقوله : لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام 103] ، فمنهم من حمل ذلک علی البصر الذي هو الجارحة، ومنهم من حمله علی البصیرة، وذکر أنه قد نبّه به علی ما روي عن أبي بکر رضي اللہ عنه في قوله : (يا من غاية معرفته القصور عن معرفته) إذ کان غاية معرفته تعالیٰ أن تعرف الأشياء فتعلم أنه ليس بشیء منها، ولا بمثلها بل هو موجد کلّ ما أدركته . والتَّدَارُكُ في الإغاثة والنّعمة أكثر، نحو قوله تعالی: لَوْلا أَنْ تَدارَكَهُ نِعْمَةٌ مِنْ رَبِّهِ [ القلم 49] ، وقوله : حَتَّى إِذَا ادَّارَكُوا فِيها جَمِيعاً [ الأعراف 38] ، أي : لحق کلّ بالآخر . وقال : بَلِ ادَّارَكَ عِلْمُهُمْ فِي الْآخِرَةِ [ النمل 66] ، أي : تدارک، فأدغمت التاء في الدال، وتوصّل إلى السکون بألف الوصل، وعلی ذلک قوله تعالی: حَتَّى إِذَا ادَّارَكُوا فِيها [ الأعراف 38] ، ونحوه : اثَّاقَلْتُمْ إِلَى الْأَرْضِ [ التوبة 38] ، واطَّيَّرْنا بِكَ [ النمل 47] ، وقرئ : بل أدرک علمهم في الآخرة وقال الحسن : معناه جهلوا أمر الآخرة وحقیقته انتهى علمهم في لحوق الآخرة فجهلوها . وقیل معناه : بل يدرک علمهم ذلک في الآخرة، أي : إذا حصلوا في الآخرة، لأنّ ما يكون ظنونا في الدّنيا، فهو في الآخرة يقين .- ( درک ) الدرک اور درج کا لفظ اوپر چڑھنے کے اعتبار سے بولا جاتا ہے اور الدرک کا لفظ نیچے اترنے کے لحاظ سے اس لئے درجات الجنۃ اور درکات النار کا محاورہ استعمال ہوتا ہے جیسا کہ پستی کے اعتبار سے دوذخ کو ھاویۃ کہا جاتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنَّ الْمُنافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ [ النساء 145] کچھ شک نہیں کہ منافق لوگ دوزخ کے سب سے نیچے کے طبقہ میں ہوں گے ۔ اور سمندر کی گہرائی کی تہہ اور اس رسی کو جس کے ساتھ پانی تک پہنچنے کے لئے دوسری رسی ملائی جاتی ہے بھی درک کہا جاتا ہے اور درک بمعنی تاوان بھی آتا ہے مثلا خرید وفروخت میں بیضانہ کو درک کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ لا تخافُ دَرَكاً وَلا تَخْشى [ طه 77] پھر تم کو نہ تو ( فرعون کے ) آپکڑے نے کا خوف ہوگا اور نہ غرق ہونے کا ( ڈر ۔ ادرک ۔ کسی چیز کی غایت کو پہچنا ، پالنا جیسے ادرک الصبی لڑکا بچپن کی آخری حد کو پہنچ گیا یعنی بالغ ہوگیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ حَتَّى إِذا أَدْرَكَهُ الْغَرَقُ [يونس 90] یہاں تک کہ اس کو غرق ( کے عذاب ) نے آپکڑا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام 103] وہ ایسا ہے کہ ( نگا ہیں اس کا اور اک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا اور اک کرسکتا ہے ۔ کو بعض نے ادارک بصری کی نفی پر حمل کیا ہے اور بعض نے ادارک کی نفی ملحاظ بصیرت مراد دلی ہے اور کہا ہے کہ اس آیت سے اس معنی پر تنبیہ کی ہے جو کہ حضرت ابوبکر کے قول اے وہ ذات جس کی غایت معرفت بھی اس کی معرفت سے کوتاہی کا نام ہے ) میں پایا جاتا ہے ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کی معرفت کی غایت یہ ہے کہ انسان کو تمام اشیاء کا کماحقہ علم حاصل ہونے کے بعد یہ یقین ہوجائے کہ ذات باری تعالیٰ نہ کسی کی جنس ہے اور نہ ہی کسی چیز کی مثل ہے بلکہ وہ ان تمام چیزو ن کی موجد ہی ۔ - التدارک ۔- ( پالینا ) یہ زیادہ تر نعمت اور رسی کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ لَوْلا أَنْ تَدارَكَهُ نِعْمَةٌ مِنْ رَبِّهِ [ القلم 49] اگر تمہارے پروردگار کی مہر بانی ان کی یاوری نہ کرتی ۔ اور آیت کریمہ : ۔ حَتَّى إِذَا ادَّارَكُوا فِيها جَمِيعاً [ الأعراف 38] یہاں تک کہ جب سب اس میں داخل ہوجائیں گے کے معنی یہ ہیں کہ جب سب کے سب اس میں ایک دوسرے کو آملیں گے ۔ پس اصل میں تدارکوا ہے ۔ اسی طرح آیت کریمہ : ۔ بَلِ ادَّارَكَ عِلْمُهُمْ فِي الْآخِرَةِ [ النمل 66] بلکہ آخرت کے بارے میں انکا علم منتہی ہوچکا ہے ۔ میں ادراک اصل میں تدارک ہے تاء کو دال میں ادغام کرنے کے بعد ابتدائے سکون کی وجہ سے ہمزہ وصلی لایا گیا ہے جس طرح کہ آیات : ۔ اثَّاقَلْتُمْ إِلَى الْأَرْضِ [ التوبة 38] میں ہے ایک قراءت میں ہے ۔ حسن (رح) نے اس کے یہ معنی کئے ہیں کہ وہ امور آخرت سے سراسر فاعل ہیں مگر اس کے اصل معنی یہ ہیں کہ آخرت کو پالینے سے انکا علم بنتی ہوچکا ہے اس بنا پر وہ اس سے جاہل اور بیخبر ہیں ۔ بعض نے اس کے یہ معنی کئے کہ انہیں آخرت میں ان چیزوں کی حقیقت معلوم ہو جائیگی کیونکہ دنیا میں جو چیزوں معلوم ہو جائیگی کیونکہ دنیا میں جو چیزیں محض ظنون نظر آتی ہیں آخرت میں ان کے متعلق یقین حاصل ہوجائے گا ۔- موت - أنواع الموت بحسب أنواع الحیاة :- فالأوّل : ما هو بإزاء القوَّة النامية الموجودة في الإنسان والحیوانات والنّبات - . نحو قوله تعالی:- يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم 19] ، وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق 11] .- الثاني : زوال القوّة الحاسَّة . قال : يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا - [ مریم 23] ، أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم 66] .- الثالث : زوال القوَّة العاقلة، وهي الجهالة .- نحو : أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] ، وإيّاه قصد بقوله : إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل 80] .- الرابع : الحزن المکدِّر للحیاة،- وإيّاه قصد بقوله : وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَ- بِمَيِّتٍ [إبراهيم 17] .- الخامس : المنامُ ،- فقیل : النّوم مَوْتٌ خفیف، والموت نوم ثقیل، وعلی هذا النحو سمّاهما اللہ تعالیٰ توفِّيا . فقال : وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام 60] - ( م و ت ) الموت - یہ حیات کی ضد ہے - لہذا حیات کی طرح موت کی بھی کئی قسمیں ہیں - ۔ اول قوت نامیہ - ( جو کہ انسان حیوانات اور نباتات ( سب میں پائی جاتی ہے ) کے زوال کو موت کہتے ہیں جیسے فرمایا : ۔ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم 19] زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق 11] اور اس پانی سے ہم نے شہر مردہ یعنی زمین افتادہ کو زندہ کیا ۔- دوم حس و شعور کے زائل ہوجانے کو موت کہتے ہیں - ۔ چناچہ فرمایا ۔ يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا[ مریم 23] کاش میں اس سے پہلے مر چکتی ۔ أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم 66] کہ جب میں مرجاؤں گا تو کیا زندہ کر کے نکالا جاؤں گا ۔ - سوم ۔ قوت عاقلہ کا زائل ہوجانا اور اسی کا نام جہالت ہے - چناچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل 80] کچھ شک نہیں کہ تم مردوں کو بات نہیں سنا سکتے ۔- چہارم ۔ غم جو زندگی کے چشمہ صافی کو مکدر کردیتا ہے - چنانچہ آیت کریمہ : ۔ وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَبِمَيِّتٍ [إبراهيم 17] اور ہر طرف سے اسے موت آرہی ہوگی ۔ مگر وہ مرنے میں نہیں آئے گا ۔ میں موت سے یہی مینک مراد ہیں ۔- پنجم ۔ موت بمعنی نیند ہوتا ہے - اسی لئے کسی نے کہا ہے کہ النوم موت خفیف والموت نوم ثقیل کہ نیند کا نام ہے اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو توفی سے تعبیر فرمایا ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام 60] اور وہی تو ہے جو ارت کو تمہاری روحیں قبض کرلیتا ہے - وقع - الوُقُوعُ : ثبوتُ الشیءِ وسقوطُهُ. يقال : وَقَعَ الطائرُ وُقُوعاً ، والوَاقِعَةُ لا تقال إلّا في الشّدّة والمکروه، وأكثر ما جاء في القرآن من لفظ «وَقَعَ» جاء في العذاب والشّدائد نحو : إِذا وَقَعَتِ الْواقِعَةُ لَيْسَ لِوَقْعَتِها كاذِبَةٌ [ الواقعة 1- 2] ،- ( و ق ع ) الوقوع - کے معنی کیس چیز کے ثابت ہونے اور نیچے گر نے کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ وقع الطیر وقوعا پر ندا نیچے گر پڑا ۔ الواقعۃ اس واقعہ کو کہتے ہیں جس میں سختی ہو اور قرآن پاک میں اس مادہ سے جس قدر مشتقات استعمال ہوئے ہیں وہ زیادہ تر عذاب اور شدائد کے واقع ہونے کے متعلق استعمال ہوئے ہیں چناچہ فرمایا ۔- إِذا وَقَعَتِ الْواقِعَةُ لَيْسَ لِوَقْعَتِها كاذِبَةٌ [ الواقعة 1- 2] جب واقع ہونے والی واقع ہوجائے اس کے واقع ہونے میں کچھ جھوٹ نہیں ۔ - أجر - الأجر والأجرة : ما يعود من ثواب العمل دنیویاً کان أو أخرویاً ، نحو قوله تعالی: إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ [يونس 72] ، وَآتَيْناهُ أَجْرَهُ فِي الدُّنْيا وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ [ العنکبوت 27] ، وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ آمَنُوا [يوسف 57] .- والأُجرة في الثواب الدنیوي، وجمع الأجر أجور، وقوله تعالی: وَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ [ النساء 25] كناية عن المهور، والأجر والأجرة يقال فيما کان عن عقد وما يجري مجری العقد، ولا يقال إلا في النفع دون الضر، نحو قوله تعالی: لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 199] ، وقوله تعالی: فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ [ الشوری 40] . والجزاء يقال فيما کان عن عقدٍ وغیر عقد، ويقال في النافع والضار، نحو قوله تعالی: وَجَزاهُمْ بِما صَبَرُوا جَنَّةً وَحَرِيراً [ الإنسان 12] ، وقوله تعالی: فَجَزاؤُهُ جَهَنَّمُ [ النساء 93] .- يقال : أَجَر زيد عمراً يأجره أجراً : أعطاه الشیء بأجرة، وآجَرَ عمرو زيداً : أعطاه الأجرة، قال تعالی: عَلى أَنْ تَأْجُرَنِي ثَمانِيَ حِجَجٍ [ القصص 27] ، وآجر کذلک، والفرق بينهما أنّ أجرته يقال إذا اعتبر فعل أحدهما، وآجرته يقال إذا اعتبر فعلاهما «1» ، وکلاهما يرجعان إلى معنی واحدٍ ، ويقال : آجره اللہ وأجره اللہ .- والأجير : فعیل بمعنی فاعل أو مفاعل، والاستئجارُ : طلب الشیء بالأجرة، ثم يعبّر به عن تناوله بالأجرة، نحو : الاستیجاب في استعارته الإيجاب، وعلی هذا قوله تعالی:- اسْتَأْجِرْهُ إِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْأَمِينُ [ القصص 26] .- ( ا ج ر ) الاجر والاجرۃ کے معنی جزائے عمل کے ہیں خواہ وہ بدلہ دنیوی ہو یا اخروی ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ [هود : 29] میرا اجر تو خدا کے ذمے ہے ۔ وَآتَيْنَاهُ أَجْرَهُ فِي الدُّنْيَا وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ [ العنکبوت : 27] اور ان کو دنیا میں بھی ان کا صلہ عنایت کیا اور وہ آخرت میں بھی نیک لوگوں میں سے ہوں گے ۔ وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ آمَنُوا [يوسف : 57] اور جو لوگ ایمان لائے ۔ ۔۔۔ ان کے لئے آخرت کا اجر بہت بہتر ہے ۔ الاجرۃ ( مزدوری ) یہ لفظ خاص کر دنیوی بدلہ پر بولا جاتا ہے اجر کی جمع اجور ہے اور آیت کریمہ : وَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ [ النساء : 25] اور ان کے مہر بھی انہیں ادا کردو میں کنایہ عورتوں کے مہر کو اجور کہا گیا ہے پھر اجر اور اجرۃ کا لفظ ہر اس بدلہ پر بولاجاتا ہے جو کسی عہد و پیمان یا تقریبا اسی قسم کے عقد کی وجہ سے دیا جائے ۔ اور یہ ہمیشہ نفع مند بدلہ پر بولا جاتا ہے ۔ ضرر رساں اور نقصان دہ بدلہ کو اجر نہیں کہتے جیسے فرمایا لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ البقرة : 277] ان کو ان کے کاموں کا صلہ خدا کے ہاں ملے گا ۔ فَأَجْرُهُ عَلَى اللهِ ( سورة الشوری 40) تو اس کا بدلہ خدا کے ذمے ہے الجزاء ہر بدلہ کو کہتے ہیں خواہ وہ کسی عہد کی وجہ سے ہو یا بغیر عہد کے اچھا ہو یا برا دونوں پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ فرمایا ۔ وَجَزَاهُمْ بِمَا صَبَرُوا جَنَّةً وَحَرِيرًا [ الإنسان : 12] اور ان کے صبر کے بدلے ان کو بہشت کے باغات اور ریشم ( کے ملبوسات) عطا کریں گے ۔ فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ ( سورة النساء 93) اس کی سزا دوزخ ہے ۔ محاورہ میں ہے اجر ( ن ) زید عمرا یا جرہ اجرا کے معنی میں زید نے عمر کو اجرت پر کوئی چیز دی اور اجر عمر زیدا کے معنی ہوں گے عمرو نے زید کو اجرت دی قرآن میں ہے :۔ عَلَى أَنْ تَأْجُرَنِي ثَمَانِيَ حِجَجٍ [ القصص : 27] کہ تم اس کے عوض آٹھ برس میری خدمت کرو ۔ اور یہی معنی اجر ( مفاعلہ ) کے ہیں لیکن اس میں معنی مشارکت کا اعتبار ہوتا ہے اور مجرد ( اجرتہ ) میں مشارکت کے معنی ملحوظ نہیں ہوتے ہاں مال کے لحاظ سے دونوں ایک ہی ہیں ۔ محاورہ ہی ۔ اجرہ اللہ واجرہ دونوں طرح بولا جاتا ہے یعنی خدا اسے بدلہ دے ۔ الاجیرہ بروزن فعیل بمعنی فاعل یا مفاعل ہے یعنی معاوضہ یا اجرت کا پر کام کرنے والا ۔ الاستیجار کے اصل معنی کسی چیز کو اجرت پر طلب کرنا پھر یہ اجرت پر رکھ لینے کے معنی میں بولا جاتا ہے جس طرح کہ استیجاب ( استفعال ) بمعنی اجاب آجاتا ہے چناچہ آیت کریمہ : اسْتَأْجِرْهُ إِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْأَمِينُ [ القصص : 26] اسے اجرت پر ملازم رکھ لیجئے کیونکہ بہتر ملازم جو آپ رکھیں وہ ہے جو توانا اور امانت دار ہو میں ( استئجار کا لفظ ) ملازم رکھنے کے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔- رحم - والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین .- ( ر ح م ) الرحم ۔- الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، - اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] لوگو تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے )
ہجرت کی فضیلت - قول باری ہے (ومن یھاجر فی سبیل اللہ یجد فی الارض مراغما کثیرا واسعۃ، جو کوئی اللہ کی راہ میں ہجرت کرے گا، وہ زمین میں پناہ لینے کے لیے بہت جگہ اور بسراوقات کے لیے بڑی گنجائش پائے گا۔- ایک قول ہے کہ مراغم سے اللہ نے ہجرت کے لیے کافی گنجائش اور بہت جگہ مراد لی ہے اس لیے کہ رغم کے اصل معنی ذلت اور عاجزی کے ہیں، آپ کہتے ہیں ، فعلت ذالک علی الرغم من فلاں، یعنی میں نے یہ کام فلاں شخس سے عاجز اور مجبور ہونے کی بنا پر کیا ہے دغام مٹی کو کہتے ہیں کیونکہ مٹی ہراس شخص کو میسر ہوتی ہے جوا سے حاصل کرنے کا ارادہ کرتا ہے خواہ وہ کتنا ہی حقیر کیوں نہ ہو، محاورہ ہے ارغم اللہ انقہ، یعنی اللہ اسے ذلیل کرنے کے طور پر اس کی ناک خاک آلود کردے۔- ارشاد باری ہے (ومن یھاجر فی سبیل اللہ یجد فی الارض مراغما کثیر ا وسعۃ) یعنی وہ زمین میں بڑی کشادگی اور سہولت پائے گا جیسا کہ ایک دوسرے مقام پر ارشاد ہے (ھوالذی جعل لکم الارض ذلولا فامشوا فی مناکبھا وکلوا من رزقہ والیہ النشور۔- اللہ کی ذات وہ ہے جس نے زمین کو تمہارے لیے مسخر کردیاسوتم اس کے راستوں پرچلو پھرو اور اللہ کی دی ہوئی روزی میں سے کھاؤ پیو اور اسی کے پاس زندہ ہوکرجانا ہے مراغم اور رذول دونوں الفاظ متقارب المعنی ہیں مراغم کے بارے میں ایک قول یہ بھی ہے کہ اس سے مراد وہ اقدام ہے جس کے ذریعے کوئی شخص ہجرت کے راستے میں رکاوٹ بننے والے شخص کو مغلوب کرلے۔- قول باری (سعۃ ) کے متعلق حضرت ابن عباس ، ربیع بن انس، اور ضحاک کا قول ہے کہ اس سے رزق میں کشائش مراد ہے قتادہ سے مروی ہے کہ اس سے مراد دین کے اظہار میں کشادگی اور گنجائش ہے اس لیے مشرکین کی طرف سے مسلمانوں کے دین کے معاملے میں اس قدر تنگی پیدا کردی گئی تھی کہ انہوں نے مسلمانوں کو کھلم کھلا اس کے اظہار سے بھی روک دیا تھا۔- قول باری ہے (ومن یخرج من بیتہ مھاجرا الی اللہ ورسولہ ثم یدرکۃ الموت فقد واقع اجرہ علی اللہ ۔ اور جو اپنے گھر سے اللہ اور رسول کی طرف ہجرت کے لیے نکلے اور پھر راستے ہی میں اسے موت آجائے اس کا اجر اللہ کے ذمے واجب ہوگیا، آیت میں اس شخص کے لیے اجر کے واجب ہوجانے کی خبر دی گئی ہے جو اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہجرت کے لیے نکلے خواہ اس کی ہجرت مکمل نہ بھی ہوسکے۔- یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ جو شخص کسی عبادت اور تقرب الٰہی کے کام کی نیت سے نکلے گا تو خواہ وہ یہ کام سرانجام دینے سے بچھڑ ہی کیوں نہ جائے اللہ تعالیٰ اسے اس کی نیت کوشش کے مطابق ضرور بدلہ دیں گے جس طرح اللہ تعالیٰ نے ہجرت کے ارادے سے نکلنے والے شخص کے لیے اجر واجب کردیاخواہ س کی ہجرت کی تکمیل نہ بھی ہوسکی ہو۔- اس میں امام ابویوسف اور امام محمد کے قول کی صحت پر دلالت موجود ہے کہ اگر ایک شخص حج کے ارادے سے گھر سے نکل پڑے اور راستے میں اس کی وفات ہوجائے اور اس نے مرنے سے پہلے کسی کو اس کی طرف سے حج کرنے کی وصیت کی ہو تو وہ شخص اس جگہ سے حج کا سفر شروع کرے گا جہاں اس وصیت کرنے والے کی موت واقع ہوئی تھی۔- اسی طرح میت کی طرف سے یا اس شخص کی طرف سے جس پر خود حج کرنا فرض نہ ہو حج کرنے والا اسی جگہ سے حج کا عمل شروع کرے گا جہاں حج کا ارادہ کرنے والے کی موت واقع ہوئی ہوگی، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے مرنے والے کے لیے اس کے سفر اور اخراجات کی مقدار جو فرض کردیا۔- اب چونکہ اس اجر کا حساب مرنے والے کے نامہ اعمال میں لکھاجائے گا اس لیے صرف یہ بات ضروری ہوگی کہ اس کے حج کا باقی ماندہ حصہ اس کی طرف سے ادا کردیاجائے گا، اس میں یہ بھی دلالت موجود ہے کہ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ میں اگر نماز یا حج کے سوا کسی اور کام کے لیے گھر سے نکلوں تومیراغلام آزاد ہے۔- پھروہ نماز یا حج کے ارادے سے گھر سے نکلے لیکن نہ نماز پڑھے اور نہ ہی حج کرے بلکہ کسی اور کام کی طرف متوجہ ہوجائے تو اس صورت میں وہ اپنی قسم سے حانث نہیں ہوگا، یعنی اس کی قسم نہیں ٹوٹے گی ، کیونکہ ابتداء میں اس کا گھر سے نکلنا نماز یا حج کے لیے تھا جو اس کی نیت کے ساتھ مقرون تھا۔- جس طرح وہ شخص جو رضائے الہی کی خاطر ہجرت کی نیت سے گھر سے نکلا ہوا، اور پھر دارالحجرت تک پہنچنے سے پہلے موت اس کے آڑے آگئی ہو اس سے اس کے گھر سے نکلنے کا وہ حکم باطل نہیں ہوگاجوابتداء ہی میں اس کے اس خروج کو لاحق ہوگیا تھا، یعنی دارالہجرت تک پہنچ نہ پاسکنے کے باوجود بھی وہ مہاجر ہی شمار ہوگا۔- اسی بنا پر حضور نے فرمایا، (الاعمال بالنیات ولکل امری، فمن کانت ھجرتہ الی اللہ ورسولہ فھرجتہ الی اللہ ورسولہ ، ومن کانت ھجرتہ الی دنیا یصیبھا وامرۃ یتزوجھا فھجرتہ الی ماھاجرالیہ۔- تمام اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے اور ہر انسان کو وہی کچھ ملے گا جس کی اس نے نیت کی ہوگی ، اس لیے جس شخص کی اللہ اورا سکے رسول کی طرف ہجرت کی نیت کی ہوگی، اس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہوگی، اور جس شخص کی ہجرت دنیا حاصل کرنے یا کسی عورت سے شادی کرنے کے لیے ہوگی اس کی ہجرت اس چیز کے لیے ہوگی، جس کی خاطر اس نے ہجرت کی ہوگی۔- حضور نے یہ واضح فرمادیا کہ احکام کے اعمال نیتوں سے متعلق ہوتے ہیں اس لیے ہجرت کی نیت سے جو شخص گھر سے نکلے گا وہ مہاجر شمار ہوگا اور اگر غزوہ یعنی جہاد کی نیت سے نکلے توغازی کہلائے گا۔- بعض لوگوں نے اس سے یہ استدلال کیا ہے کہ غازی کی اگر راستے میں وفات ہوجائے تو مال غنیمت میں اس کا حصہ واجب ہوگاجو اس کے ورثاء کو مل جائے گا، لیکن اس آیت کی اس قول پر دلالت نہیں ہورہی ہے اس لیے کہ کسی مال کا کسی کے لیے غنیمت بننے کے حکم کا تعلق اس بات پر موقوف ہے کہ وہ شخص دشمن کے اس مال کو اپنے قبضے میں کرلے، قبضے میں آنے سے وہ مال مال غنیمت نہیں ہوتا۔- ارشاد باری ہے (واعلموا انماغنمتم من شئی فان للہ خمسہ۔ جان لو کہ جو چیز بھی تم غنیمہ کے طور پر حاصل کرو گے اس میں اللہ کے لیے پانچواں حصہ ہوگا۔ اس لیے جو شخص مال غنیمت حاصل کرنے سے پہلے وفات پاجائے گا اسے گویا کوئی مال غنیمت حاصل نہیں ہوگا، اس لیے مال غنیمت میں اس کا کوئی حصہ نہیں ہوگا۔- اورقول باری (فقد وقع اجرہ علی اللہ) کہ اس کے حصے کے وجوب پر کوئی دلالت نہیں ہے اس لیے کہ اس مسئلے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ جو شخص جہاد کی نیت سے اپنے گھر سے نکلے اور دارالحرب تک پہنچے سے قبل ہی دارالاسلام میں اس کی وفات ہوجائے اسے مال غنیمت میں کوئی حصہ نہیں ملے گا، البتہ اللہ کے ذمے اس کا اجر واجب ہوجائے گا، جس طرح اس شخص کا اجر اللہ کے ذمے واجب ہوجاتا ہے جو ہجرت کی نیت سے گھر سے نکلا ہو لیکن دارالہجرت پہنچے سے قبل اس کی وفات ہوگئی ہو۔ واللہ اعلم
(١٠٠) اطاعت خداوندی میں ہجرت کرنے پر مدینہ منورہ کی زمین میں اظہار دین اور معیشت کے لیے بہت گنجائش ملے گی، یہ آیت کریمہ اکثم بن صیفی کے بارے میں نازل ہوئی، جندع بن ضمرہ (رض) بہت بوڑھے تھے، یہ مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کے لیے روانہ ہوئے راستہ میں مقام تنعیم پر انتقال فرماگئے، ان کو ثواب مہاجرین کے برابر ملا اور ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔- جو مکہ مکرمہ سے اطاعت خداوندی میں مدینہ منورہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف ہجرت کرتا ہے اور راستے میں موت آجاتی ہے، انھیں ہجرت کا ثواب ہوگیا، ان سے زمانہ شرک میں جو گناہ سرزد ہوئے اور زمانہ اسلام میں جن امور کی تکمیل نہیں ہوئی، اللہ تعالیٰ غفور رحیم ہے۔- شان نزول : (آیت) ” ومن یخرج من بیتہ “۔ (الخ)- ابن ابی حاتم (رح) اور ابویعلی (رح) نے عمدہ سند کے ساتھ حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ سمرۃ بن جندب (رض) اپنے گھر سے ہجرت کے ارادہ سے روانہ ہوئے اور اپنے گھروالوں سے کہا کہ مجھے سوار کرا دو اور مشرکین کی زمین سے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف روانہ کردو مگر رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس پہنچنے سے پیشتر ہی راستہ میں انتقال فرماگئے ان کی شان میں بذریعہ وحی آپ پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی کہ جو اپنے گھر سے اس نیت سے نکل کھڑا ہو کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی طرف ہجرت کروں گا۔ الخ۔- نیز ابن ابی حاتم (رح) نے بواسطہ سعید بن جبیر (رض) ابن ضمرۃ زرقی سے روایت کیا ہے کہ وہ مکہ مکرمہ میں تھے جب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی لیکن جو مرد اور عورتیں اور بچے قادر نہ ہوں کہ نہ کوئی تدبیر کرسکتے ہوں اور نہ راستہ سے واقف ہوں الخ تو ابن ضمرۃ فرماتے ہیں کہ مالدار بھی تھا اور صاحب تدبیر بھی، چناچہ ابن ضمرۃ نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف ہجرت کی تیاری کی مگر مقام تنعیم میں انتقال کرگیا ان کے بارے میں یہ آیت کریمہ نازل ہوئی۔- اور ابن جریر (رح) نے یہ روایت اسی طرح سعید بن جبیر (رض) عکرمہ (رح) ، قتادہ (رض) اور سدی سے روایت کی ہے۔ بعض روایتوں میں ان کا نام ضمرۃ بن العیص یا عیص ابن ضمرہ اور بعض میں جندب بن ضمرہ الجدعی اور بعض میں ضمری اور بعض میں بنی ضمرہ کے ایک شخص اور بعض میں بنی خزاعہ کے ایک اور بعض میں بنی لیث کے ایک شخص اور بعض روایتوں میں بنی بکر کے ایک شخص نے بیان کیا ہے۔- اور ابن سعد نے طبقات میں یزید بن عبداللہ بن قسط (رض) سے روایت کیا ہے کہ جندع بن ضمرہ ضمری مکہ مکرمہ میں تھے، اچانک بیمار ہوئے تو اپنی سے فرمایا کہ مجھے مکہ مکرمہ سے نکال دو ، مجھے اس چیز کے غم نے ہلاک کردیا ہے، اولاد نے پوچھا کہ کس مقام پر جانا چاہتے ہیں، حضرت جندع بن ضمرہ نے اپنے ہاتھ سے ہجرت کے ارادہ سے مدینہ منورہ کی جانب اشارہ کیا، چناچہ ان کی اولاد ان کو لے کر روانہ ہوئی، جب بنی غفار کے پڑاؤ کے پاس پہنچے تو انتقال فرماگئے، اللہ تعالیٰ نے ان کی فضیلت میں یہ آیت مبارکہ نازل فرمائی۔- نیز ابن ابی حاتم (رح) ، ابن مندہ (رح) اور دیگر نے صحابہ کرام (رض) کے بیان میں ہشام بن مروہ بواسطہ والد روایت نقل کی ہے۔ کہ زبیر بن عوام (رض) نے فرمایا کہ خالد بن حرام نے سرزمین حبشہ کی طرف ہجرت کی، ان کو راستے میں اچانک ایک سانپ نے ڈس لیا، جس کی وجہ سے وہ انتقال فرما گئے ان کے بارے میں یہ آیت کریمہ نازل ہوئی۔
آیت ١٠٠ (وَمَنْ یُّہَاجِرْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ) (یَجِدْ فِی الْاَرْضِ مُرٰغَمًا کَثِیْرًا وَّسَعَۃً ط) - جیسے سورة العنکبوت میں فرمایا : (یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِنَّ اَرْضِیْ وَاسِعَۃٌ فَاِیَّایَ فَاعْبُدُوْنِ ) اے میرے وہ بندو جو ایمان لائے ہو ‘ میری زمین بہت کشادہ ہے ‘ پس تم لوگ میری ہی بندگی کرو “۔ اگر یہاں اپنے وطن میں اللہ کی بندگی نہیں کرسکتے ہو تو کہیں اور چلے جاؤ۔- (وَمَنْ یَّخْرُجْ مِنْم بَیْتِہٖ مُہَاجِرًا اِلَی اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ ثُمَّ یُدْرِکْہُ الْمَوْتُ ) (فَقَدْ وَقَعَ اَجْرُہٗ عَلَی اللّٰہِ ط) - یعنی جس کسی نے بھی ہجرت کی ‘ فی سبیل اللہ ‘ دولت کے لیے یا حصول دنیا کے لیے نہیں ‘ بلکہ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رضا جوئی کے لیے ‘ وہ اصل ہجرت ہے۔ حدیث میں اس کی مزید وضاحت ملتی ہے :- (اِنَّمَا الْاَعْمَال بالنِّیَّاتِ وَاِنَّمَا لِکُلِّ امْرِیئ مَا نَوٰی ‘ فَمَنْ کَانَتْ ھِجْرَتُہٗ اِلَی اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ فَھِجْرَتُہٗ اِلَی اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ ‘ وَمَنْ کَانَتْ ھِجْرَتُہٗ لِدُنْیَا یُصِیْبُھَا اَوِامْرَاَۃٍ یَنْکِحُھَا فَھِجْرَتُہٗ اِلٰی مَا ھَاجَرَ اِلَیْہِ ) (١)- اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہی ہے اور بلاشبہ ہر انسان کے لیے وہی کچھ ہے جس کی اس نے نیت کی۔ پس جس نے ہجرت کی اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف تو واقعی اس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف ہے ‘ اور جس نے ہجرت کی دنیا کمانے کے لیے یا کسی عورت سے شادی رچانے کے لیے تو اس کی ہجرت اسی چیز کی طرف شمار ہوگی جس کا اس نے قصد کیا۔ “- چنانچہ جس نے اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہجرت کی ‘ خلوصِ نیّت کے ساتھ گھر سے نکل کھڑا ہوا اور راستے ہی میں فوت ہوگیا ‘ مدینہ منورہ نہیں پہنچ سکا ‘ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قدموں تک اس کی رسائی نہیں ہوسکی ‘ وہ اپنا مقصود حاصل نہیں کرسکا ‘ تو پھر بھی وہ کامیاب و کامران ہے۔ اللہ ‘ تعالیٰ اس کی نیت کے مطابق اسے ہجرت کا اجر ضرور عطا فرمائے گا۔
سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :131 یہاں یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ جو شخص اللہ کے دین پر ایمان لایا ہو اس کے لیے نظام کفر کے تحت زندگی بسر کرنا صرف دو ہی صورتوں میں جائز ہو سکتا ہے ۔ ایک یہ کہ وہ اسلام کو اس سرزمین میں غالب کرنے اور نظام کفر کو نظام اسلام میں تبدیل کرنے کی جدوجہد کرتا رہے جس طرح انبیاء علیہم السلام اور ان کے ابتدائی پیرو کرتے رہے ہیں ۔ دوسرے یہ کہ وہ درحقیقت وہاں سے نکلنے کی کوئی راہ نہ پاتا ہو اور سخت نفرت و بیزاری کے ساتھ وہاں مجبورانہ قیام رکھتا ہو ۔ اس دو صورتوں کے سوا ہر صورت میں دارالکفر کا قیام ایک مستقل معصیت ہے اور اس معصیت کے لیے یہ عذر کوئی بہت وزنی عذر نہیں ہے کہ ہم دنیا میں کوئی ایسا دارالاسلام پاتے ہی نہیں ہیں جہاں ہم ہجرت کر کے جا سکیں ۔ اگر کوئی دارالاسلام موجود نہیں ہے تو کیا خدا کی زمین میں کوئی پہاڑ یا کوئی جنگل بھی ایسا نہیں ہے جہاں آدمی درختوں کے پتے کھا کر اور بکریوں کا دودھ پی کر گزر کر سکتا ہو اور احکام کفر کی اطاعت سے بچا رہے؟ بعض لوگوں کو ایک حدیث سے غلط فہمی ہوئی ہے جس میں ارشاد ہوا ہے کہ لا ھجرۃ بعد الفتح ، یعنی فتح مکہ کے بعد اب ہجرت نہیں ہے ۔ حالانکہ دراصل یہ حدیث کوئی دائمی حکم نہیں ہے بلکہ صرف اس وقت کے حالات میں اہل عرب سے ایسا فرمایا گیا تھا ۔ جب تک عرب کا بیشتر حصہ دارالکفر و دارالحرب تھا اور صرف مدینہ و اطراف مدینہ میں اسلامی احکام جاری ہو رہے تھے ، مسلمانوں کے لیے تاکیدی حکم تھا کہ ہر طرف سے سمٹ کر دارالاسلام میں آجائیں ۔ مگر جب فتح مکہ کے بعد عرب میں کفر کا زور ٹوٹ گیا اور قریب قریب پورا ملک اسلام کے زیر نگیں آگیا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اب ہجرت کی حاجت باقی نہیں رہی ہے ۔ اس سے یہ مراد ہرگز نہ تھی کہ تمام دنیا کے مسلمانوں کے لیے تمام حالات میں قیامت تک کے لیے ہجرت کی فرضیت منسوخ ہو گئی ہے ۔