فَاُولٰۗىِٕكَ عَسَى اللّٰهُ اَنْ يَّعْفُوَ عَنْھُمْ ۭ : اللہ تعالیٰ کے لیے ” عسیٰ “ کا لفظ یقین کے لیے ہوتا ہے، اس لیے اگر کوئی شخص واقعی ہجرت نہیں کرسکتا، وہ کفار کی قید میں ہے، یا اسے راستے کا علم نہیں، یا اس کے پاس زاد راہ نہیں، غرض کوئی بھی صحیح عذر ہے تو یقیناً اللہ تعالیٰ اسے معاف فرمائے گا مگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے امید کے انداز ہو بات کرنے میں حکمت بھی ہے کہ بندے بےخوف نہ ہوجائیں۔
فَاُولٰۗىِٕكَ عَسَى اللہُ اَنْ يَّعْفُوَعَنْھُمْ ٠ۭ وَكَانَ اللہُ عَفُوًّا غَفُوْرًا ٩٩- عسی - عَسَى طَمِعَ وترجّى، وكثير من المفسّرين فسّروا «لعلّ» و «عَسَى» في القرآن باللّازم، وقالوا : إنّ الطّمع والرّجاء لا يصحّ من الله، وفي هذا منهم قصورُ نظرٍ ، وذاک أن اللہ تعالیٰ إذا ذکر ذلک يذكره ليكون الإنسان منه راجیا لا لأن يكون هو تعالیٰ يرجو، فقوله : عَسى رَبُّكُمْ أَنْ يُهْلِكَ عَدُوَّكُمْ [ الأعراف 129] ، أي : کونوا راجین - ( ع س ی ) عسیٰ- کے معنی توقع اور امید ظاہر کرنا کے ہیں ۔ اکثر مفسرین نے قرآن پاک میں اس کی تفسیر لازم منعی یعنی یقین سے کی ہے وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے حق میں طمع اور جا کا استعمال صحیح نہیں ہے مگر یہ ان کی تاہ نظری ہے کیونکہ جہاں کہیں قرآن میں عسی کا لفظ آیا ہے وہاں اس کا تعلق انسان کے ساتھ ہے نہ کہ اللہ تعالیٰ کیساتھ لہذا آیت کریمہ : ۔ عَسى رَبُّكُمْ أَنْ يُهْلِكَ عَدُوَّكُمْ [ الأعراف 129] کے معنی یہ ہیں کہ تم اللہ تعالیٰ سے امید رکھو کہ تمہارے دشمن کو ہلاک کردے - عفو - فالعَفْوُ : هو التّجافي عن الذّنب . قال تعالی: فَمَنْ عَفا وَأَصْلَحَ [ الشوری 40] وَأَنْ تَعْفُوا أَقْرَبُ لِلتَّقْوى [ البقرة 237]- ( ع ف و ) عفوت عنہ کے معنی ہیں میں نے اس سے درگزر کرتے ہوئے اس کا گناہ متادینے کا قصد کیا ز لہذا یہاں اصل میں اس کا مفعول ترک کردیا گیا ہے اور عن کا متعلق مخذوف ہی یا قصدت ازالتہ ذنبہ سار فا عنہ پس عفو کے معنی گناہ سے درگزر کرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ فَمَنْ عَفا وَأَصْلَحَ [ الشوری 40] مگر جو درگزر کرے اور معاملہ کو درست کرلے وَأَنْ تَعْفُوا أَقْرَبُ لِلتَّقْوى [ البقرة 237] اور اگر تم ہی اپنا حق چھوڑ دو تو یہ پرہیز گاری کی بات ہے ۔ - غفر - الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، ومنه قيل : اغْفِرْ ثوبک في الوعاء، واصبغ ثوبک فإنّه أَغْفَرُ للوسخ «1» ، والغُفْرَانُ والْمَغْفِرَةُ من اللہ هو أن يصون العبد من أن يمسّه العذاب . قال تعالی: غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة 285]- ( غ ف ر ) الغفر - ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اسی سے محاورہ ہے اغفر ثوبک فی ولوعاء اپنے کپڑوں کو صندوق وغیرہ میں ڈال کر چھپادو ۔ اصبغ ثوبک فانہ اغفر لو سخ کپڑے کو رنگ لو کیونکہ وہ میل کچیل کو زیادہ چھپانے والا ہے اللہ کی طرف سے مغفرۃ یا غفران کے معنی ہوتے ہیں بندے کو عذاب سے بچالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة 285] اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں ۔
آیت ٩٩ (فَاُولٰٓءِکَ عَسَی اللّٰہُ اَنْ یَّعْفُوَ عَنْہُمْ ط وَکَان اللّٰہُ عَفُوًّا غَفُوْرًا ) - ایسے بےبس اور لاچار مردوں ‘ بچوں اور عورتوں کے لیے اسی سورة (آیت ٧٥) میں حکم ہوا تھا کہ ان کے لیے قتال فی سبیل اللہ کرو اور انہیں جا کر چھڑاؤ۔ لیکن جو لوگ ہجرت کے اس واضح حکم کے بعد بھی بغیر عذر کے بیٹھے رہے ہیں ان کے بارے میں مسلمانوں کو بتایا گیا کہ وہ منافق ہیں ‘ ان سے تمہارا کوئی تعلق نہیں ‘ جب تک کہ وہ ہجرت نہ کریں۔ بلکہ قتال کے معاملے میں وہ بالکل کفار کے برابر ہیں۔