98۔ 1 یہ ان مردوں، عورتوں اور بچوں کو ہجرت سے مستثنیٰ کرنے کا حکم ہے جو اس کے وسائل سے محروم اور راست سے بھی بیخبر تھے۔ بچے اگرچہ شرعی حکام کے مکلف نہیں ہوتے لیکن یہاں ان کا ذکر ہجرت کی اہمیت کو واضح کرنے کے لئے کہا گیا ہے بچے تک بھی ہجرت کریں یا پھر یہاں بچوں سے مراد قریب البلوغت بچے ہونگے۔
[١٣٥] ہجرت نہ کرسکنے والے :۔ جو مسلمان فی الواقع کمزور تھے اور ہجرت کرنے کی کوئی راہ انہیں نظر نہیں آرہی تھی۔ مستضعفین یا کمزور سے مراد وہ لوگ ہیں جو فی الحقیقت معذور ہوں جیسے بیمار، بچے، بوڑھے، عورتیں اور کافروں کی قید میں پڑے ہوئے مسلمان۔ اور وسائل محدود ہونے سے یہ مراد ہے کہ ان کے پاس نہ تو کوئی سواری کا بندوبست ہو اور نہ وہ پیدل سفر کی مشقت اٹھانے کے قابل ہوں۔ انہیں اللہ تعالیٰ نے مندرجہ بالا گروہ سے مستثنیٰ قرار دیا، اور ان کے ہجرت نہ کرنے کے قصور کی معافی کا وعدہ فرمایا۔ چناچہ سیدنا ابن عباس (رض) فرمایا کرتے تھے کہ میں اور میری ماں ایسے ہی لوگوں میں سے تھے جنہیں اللہ نے معذور رکھا۔ (بخاری، کتاب التفسیر) نیز ولید بن ولید، سلمہ بن ہشام، عیاش بن ابی ربیعہ اور کئی دوسرے ناتواں مسلمان بھی تھے جن کی نجات کے لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز میں رکوع کے بعد دعا فرمایا کرتے (بخاری، کتاب الادب، باب تسمیۃ الولید)
اِلَّا الْمُسْتَضْعَفِيْنَ ۔۔ : اس آیت میں ان لوگوں کو مستثنیٰ قرار دیا ہے جو واقعی بےبس اور معذور تھے اور ہجرت نہیں کرسکتے تھے۔ ابن عباس (رض) فرماتے ہیں : ” میں اور میری والدہ ان لوگوں میں سے تھے جنھیں اللہ تعالیٰ نے معذور قرار دیا۔ “ [ بخاری، التفسیر : ٤٥٨٨ ] ان لوگوں میں عیاش بن ابی ربیعہ اور سلمہ بن ہشام وغیرہ بھی شامل ہیں جن کے حق میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کفار کے پنجے سے نجات کے لیے دعا کیا کرتے تھے۔ [ بخاری، التفسیر : ٤٥٩٨ ] - 2 ابن عباس (رض) کی والدہ ام الفضل بنت الحارث (رض) ہیں اور ان کا نام لبابہ ہے، جو ام المومنین میمونہ بنت الحارث کی بہن تھیں۔ ” بنات حارث “ نو بہنیں تھیں، ان میں ایک اسماء بنت عمیس، خثعمیہ تھیں جو ماں کی طرف سے میمونہ کی بہن تھیں اور جعفر بن ابی طالب (رض) کی بیوی۔ جعفر (رض) کے بعد ابوبکر صدیق (رض) نے ان سے نکاح کرلیا اور ابوبکر (رض) کے بعد علی (رض) کے نکاح میں آگئیں۔ (قرطبی)
اِلَّا الْمُسْتَضْعَفِيْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاۗءِ وَالْوِلْدَانِ لَا يَسْتَطِيْعُوْنَ حِيْلَۃً وَّلَا يَہْتَدُوْنَ سَبِيْلًا ٩٨ۙ- رجل - الرَّجُلُ : مختصّ بالذّكر من الناس، ولذلک قال تعالی: وَلَوْ جَعَلْناهُ مَلَكاً لَجَعَلْناهُ رَجُلًا - [ الأنعام 9] - ( ر ج ل ) الرجل - کے معنی مرد کے ہیں اس بنا پر قرآن میں ہے : ۔ وَلَوْ جَعَلْناهُ مَلَكاً لَجَعَلْناهُ رَجُلًا[ الأنعام 9] اگر ہم رسول کا مدد گار ) کوئی فرشتہ بناتے تو اس کو بھی آدمی ہی بناتے ۔ - نِّسَاءُ- والنِّسْوَان والنِّسْوَة جمعُ المرأةِ من غير لفظها، کالقومِ في جمعِ المَرْءِ ، قال تعالی: لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ إلى قوله : وَلا نِساءٌ مِنْ نِساءٍ [ الحجرات 11] ما بال النِّسْوَةِ اللَّاتِي قَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ [يوسف 50]- النساء - والنسوان والنسوۃ یہ تینوں امراءۃ کی جمع من غیر لفظہ ہیں ۔ جیسے مرء کی جمع قوم آجاتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ إلى قوله : وَلا نِساءٌ مِنْ نِساءٍ [ الحجرات 11] اور نہ عورتیں عورتوں سے تمسخر کریں ما بال النِّسْوَةِ اللَّاتِي قَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ [يوسف 50] کہ ان عورتوں کا کیا حال ہے جنہوں نے اپنے ہاتھ کا ٹ لئے تھے ۔- الاستطاعۃ - . وَالاسْتِطَاعَةُ : استفالة من الطَّوْعِ ، وذلک وجود ما يصير به الفعل متأتّيا، الاسْتِطَاعَةُ أخصّ من القدرة . قال تعالی: لا يَسْتَطِيعُونَ نَصْرَ أَنْفُسِهِمْ [ الأنبیاء 43] - ( ط و ع ) الطوع - الاستطاعۃ ( استفعال )- یہ طوع سے استفعال کے وزن پر ہے اور اس کے معنی ہیں کسی کام کو سر انجام دینے کے لئے جن اسباب کی ضرورت ہوتی ہے ان سب کا موجہ ہونا ۔ اور استطاعت قدرت سے اخص ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ لا يَسْتَطِيعُونَ نَصْرَ أَنْفُسِهِمْ [ الأنبیاء 43] وہ نہ تو آپ اپنی مدد کرسکتے ہیں ۔ - ( حيلة)- مصدر سماعي لفعل حال يحول بمعنی احتال، وزنه فعلة بکسر فسکون، وفيه إعلال بالقلب أصله حولة، جاءت الواو ساکنة بعد کسر قلبت ياء .- اهْتِدَاءُ- يختصّ بما يتحرّاه الإنسان علی طریق الاختیار، إمّا في الأمور الدّنيويّة، أو الأخرويّة قال تعالی: وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ النُّجُومَ لِتَهْتَدُوا بِها [ الأنعام 97] ، وقال : إِلَّا الْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجالِ وَالنِّساءِ وَالْوِلْدانِ لا يَسْتَطِيعُونَ حِيلَةً وَلا يَهْتَدُونَ سَبِيلًا[ النساء 98] ويقال ذلک لطلب الهداية نحو : وَإِذْ آتَيْنا مُوسَى الْكِتابَ وَالْفُرْقانَ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ [ البقرة 53] ، - الاھتداء ( ہدایت پانا ) کا لفظ خاص کر اس ہدایت پر بولا جاتا ہے جو دینوی یا اخروی کے متعلق انسان اپنے اختیار سے حاصل کرتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ النُّجُومَ لِتَهْتَدُوا بِها [ الأنعام 97] اور وہی تو ہے جس نے تمہارے لئے ستارے بنائے تاکہ جنگلوں اور در یاؤ کے اندھیروں میں ان سے رستہ معلوم کرو
(٩٨۔ ٩٩) البتہ کمزور بچے، بوڑھے اور عورتیں جو کہ ہجرت کرنے پر قادر نہ ہوں کوئی تدبیر کرسکتے ہوں اور نہ راستہ ہی سے واقف ہوں، امید ہے کہ اللہ تعالیٰ جو ان سے غلطی ہوئی اور اس پر انہوں نے توبہ کی تو اپنے کرم سے اس کو معاف فرما دیں۔
آیت ٩٨ (اِلاَّ الْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَآء والْوِلْدَانِِ ) - جن لوگوں کو کمزور سمجھ کر دبالیا گیا ہو ‘ واقعتا زنجیروں میں جکڑ کر گھروں میں بند کردیا گیا ہو ‘ ان کا معاملہ اور ہے۔ یا پھر کوئی عورت ہے جس کے لیے تنہا سفر کرنا ممکن نہیں۔ ویسے تو ایسی عورتیں بھی تھیں جنہوں نے تنہا ہجرتیں کیں ‘ لیکن ہر ایک کے لیے تو ایسا ممکن نہیں تھا۔