بے معنی عذر مسترد ہوں گے ہجرت اور نیت محمد بن عبدالرحمن ابو الا سود فرماتے ہیں اہل مدینہ سے جنگ کرنے کے لئے جو لشکر تیار کیا گیا اس میں میرا نام بھی تھا ۔ میں حضرت ابن عباس کے مولیٰ حضرت عکرمہ سے ملا اور اس بات کا ذکر کیا تو انہوں نے مجھے اس میں شمولیت کرنے سے بہت سختی سے روکا ۔ اور کہا سنو حضرت ابن عباس سے میں نے سنا ہے کہ بعض مسلمان لوگ جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مشرکوں کے ساتھ تھے اور ان کی تعداد بڑھاتے تھے بسا اوقات ایسا بھی ہوتا کہ ان میں سے کوئی تیر سے ہلاک کر دیا جاتا یا مسلمانوں کی تلواروں سے قتل کر دیا جاتا ، انہی کے بارے میں یہ آیت اتری ہے یعنی موت کے وقت ان کا اپنی بےطاقتی کا حیلہ اللہ تعالیٰ کے ہاں قبول نہیں ہوتا اور روایت میں ہے کہ ایسے لوگ جو اپنے ایمان کو مخفی رکھتے تھے جب وہ بدر کی لڑائی میں کافروں کے ساتھ آگئے تو مسلمانوں کے ہاتھوں ان میں سے بھی بعض مارے گئے جس پر مسلمان غمگین ہوئے کہ افسوس یہ تو ہمارے ہی بھائی تھے ، اور ہمارے ہی ہاتھوں مارے گئے ان کے لئے استغفار کرنے لگے اس پر یہ آیت اتری ۔ پس باقی ماندہ مسلمانوں کی طرف یہ آیت لکھی کہ ان کا کوئی عذر نہ تھا کہا یہ نکلے اور ان سے مشرکین ملے اور انہوں نے تقیہ کیا پس یہ آیت اتری ( وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّقُوْلُ اٰمَنَّا بِاللّٰهِ وَبِالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَمَا ھُمْ بِمُؤْمِنِيْنَ ) 2 ۔ البقرۃ:8 ) حضرت عکرمہ فرماتے ہیں یہ آیت ان لوگوں کے بارے میں اتری ہے جو اسلام کا کلمہ پڑھتے تھے اور تھے مکے میں ہی ان میں علی ابن امیہ بن خلف اور ابو قیس بن ولید بن مغیرہ اور ابو منصور بن حجاج اور حارث بن زمعہ تھے ضحاک کہتے ہیں یہ ان منافقوں کے بارے میں اتری ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کے بعد مکے میں رہ گئے پھر بدر کی لڑائی میں مشرکوں کے ساتھ آئے ان میں سے بعض میدان جنگ میں کام بھی آگئے ۔ مقصد یہ ہے کہ آیت کا حکم عام ہے ہر اس شخص کا جو ہجرت پر قادر ہو پھر بھی مشرکوں میں پڑا رہے اور دین پر مضبوط نہ رہے اوہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ظالم ہے اور اس آیت کی رو سے اور مسلمانوں کے اجماع سے وہ حرام کام کا مرتکب ہے اس آیت میں ہجرت سے گریز کرنے کو ظلم کہا گیا ہے ، ایسے لوگوں سے ان کے نزع کے عالم میں فرشتے کہتے ہیں کہ تم یہاں کیوں ٹھہرے رہے؟ کیوں ہجرت نہ کی؟ یہ جواب دیتے ہیں کہ ہم اپنے شہر سے دوسرے شہر کہیں نہیں جاسکتے تھے ، جس کے جواب میں فرشتے کہتے ہیں کیا اللہ تعالیٰ کی زمین میں کشادگی نہ تھی؟ ابو داؤد میں ہے جو شخص مشرکین میں ملا جلا رہے انہی کے ساتھ رہے سہے وہ بھی انہی جیسا ہے ۔ سدی فرماتے ہیں جبکہ حضرت عباس عقیل اور نوفل گرفتار کئے گئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عباس تم اپنا فدیہ بھی دو اور اپنے بھتیجے کا بھی ، حضرت عباس نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا ہم آپ کے قبلے کی طرف نمازیں نہیں پڑھتے تھے؟ کیا ہم کلمہ شہادت ادا نہیں کرتے تھے؟ آپ نے فرمایا عباس تم نے بحث تو چھیڑی لیکن اس میں تم ہار جاؤ گے سنو اللہ جل شانہ فرماتا ہے پھر آپ نے یہی تلاوت فرمائی یعنی تم نے ہجرت کیوں نہ کی؟ پھر جن لوگوں کو ہجرت کے چھوڑ دینے پر ملامت نہ ہو گی ان کا ذکر فرماتا ہے کہ جو لوگ مشرکین کے ہاتھوں سے نہ چھوٹ سکیں اور اگر کبھی چھوٹ بھی جائیں تو راستے کا علم انہیں نہیں ان سے اللہ تعالیٰ درگذر فرمائے گا ، عسی کلمہ اللہ کے کلام میں وجوب اور یقین کے لئے ہوتا ہے ۔ اللہ درگذر کرنے والا اور بہت ہی معافی دینے والا ہے ۔ حضرت ابو ہریرہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عشاء کی نماز میں سمع اللہ لمن حمدہ کہنے کے بعد سجدے میں جانے سے پہلے یہ دعا مانگی اے اللہ عیاش ابو ربیعہ کو سلمہ بن ہشام کو ولید بن ولید کو اور تمام بےبس ناطاقت مسلمانوں کو کفار کے پنجے سے رہائی دے اے اللہ اپنا سخت عذاب قبیلہ مضر پر ڈال اے اللہ ان پر ایسی قحط سالی نازل فرما جیسی حضرت یوسف کے زمانے میں آئی تھی ۔ ابن ابی حاتم میں حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرنے کے بعد قبلے کی طرف منہ کئے ہوئے ہاتھ اٹھا کر دعا مانگی اے اللہ ولید بن ولید کو عیاش بن ابو ربیعہ کو سلمہ بن ہشام کو اور تمام ناتواں بےطاقت مسلمانوں کو اور جو بےحیلے کی طاقت رکھتے ہیں نہ راہ پانے کی کافروں کے ہاتھوں سے نجات دے ۔ ابن جریر میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم ظہر کی نماز کے بعد یہ دعا مانگا کرتے تھے ۔ اس حدیث کے شواہد صحیح میں بھی اس سند کے سوا اور سندوں میں بھی ہیں کہ جیسے کہ پہلے گذرا ۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں میں اور میری والدہ ان ضعیف عورتوں اور بچوں میں تھے جن کا ذکر اس آیت میں ہے ۔ ہمیں اللہ نے معذور رکھا ۔ ہجرت کی ترغیب دیتے ہوئے اور مشرکوں سے الگ ہونے کی ہدایات کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ اللہ کی راہ میں ہجرت کرنے والا ہراساں نہ ہو وہ جہاں جائے گا اللہ تعالیٰ اس کے لئے اسباب پناہ تیار کر دے گا اور وہ بہ آرام وہاں اقامت کر سکے گا مراغم کے ایک معنی ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کے بھی ہیں ، مجاہد فرماتے ہیں وہ اپنے دکھ سے بچاؤ کی بہت سی صورتیں پالے گا ، امن کے بہت سے اسباب اسے مل جائیں گے ، دشمنوں کے شر سے بچ جائے گا اور وہ روزی بھی پائے گا گمراہی کی جگہ ہدایت اسے ملے گی اس کی فقیری تونگری سے بدل جائے ارشاد ہوتا ہے جو شخص بہ نیت ہجرت اپنے گھر سے نکلا پھر ہجرت گاہ پہنچنے سے پہلے ہی راستے میں اسے موت آگئی اسے بھی ہجرت کا کامل ثواب مل گیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ہر عمل کا دارومدار نیت پر ہے اور ہر شخص کے لئے وہ ہے جو اس نے نیت کی پس جس کی ہجرت اللہ کی طرف اور اس کے رسول کی طرف ہو اس کی ہجرت اللہ کی رضامندی اور رسول کی خوشنودی کا باعث ہوگی اور جس کی ہجرت دنیا حاصل کرنے کے لئے ہو یا کسی عورت سے نکاح کرنے کے لئے ہو تو اسے اصل ہجرت کا ثواب نہ ملے گا بلکہ اس کی ہجرت اس کے بارے میں ہے جس نے ننانوے قتل کئے تھے پھر ایک عابد کو قتل کرکے سو پورے کئے پھر ایک عالم سے پوچھا کہ کیا اس کی توبہ قبول ہو سکتی ہے؟ اس نے کہا تیری توبہ کے اور تیرے درمیان کوئی چیز حائل نہیں تو اپنی بستی سے ہجرت کرکے فلاں شہر چلا جا جہاں اللہ کے عابد بندے رہتے ہیں چنانچہ یہ ہجرت کرکے اس طرف چلا راستہ میں ہی تھا جو موت آگئی ۔ رحمت اور عذاب کے فرشتوں میں اس کے بارے میں اختلاف ہوا بحث یہ تھی کہ یہ شخص توبہ کرکے ہجرت کرکے مگر چلا تو سہی یہ وہاں پہنچا تو نہیں پھر انہیں حکم کیا گیا کہ وہ اس طرف کی اور اس طرف کی زمین ناپیں جس بستی سے یہ شخص قریب ہو اس کے رہنے والوں میں اسے ملا دیا جائے پھر زمین کو اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ بری بستی کی جانب سے دور ہو جا اور نیک بستی والوں کی طرف قریب ہو جا ، جب زمین ناپی گئی تو توحید والوں کی بستی سے ایک بالشت برابر قریب نکلی اور اسے رحمت کے فرشتے لے گئے ۔ ایک روایت میں ہے کہ موت کے وقت یہ اپنے سینے کے بل نیک لوگوں کی بستی کی طرف گھسیٹتا ہوا گیا ۔ مسند احمد کی حدیث میں ہے جو شخص اپنے گھر سے اللہ کی راہ میں ہجرت کی نیت سے نکلا پھر آپ نے اپنی تینوں انگلیوں یعنی کلمہ کی انگلی بیچ کی انگلی اور انگھوٹھے کو ملا کر کہا ۔ پھر فرمایا کہاں ہیں مجاہد؟ پھر وہ اپنی سواری پر سے گر پڑا یا اسے کسی جانور نے کاٹ لیا یا اپنی موت مر گیا تو اس کا ہجرت کا ثواب اللہ کے ذمے ثابت ہو گیا ( راوی کہتے ہیں اپنی موت مرنے کے لئے جو کلمہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے استعمال کیا ) واللہ میں نے اس کلمہ کو آپ سے پہلے کسی عربی کی زبانی نہیں سنا اور جو شخص غضب کی حالت میں قتل کیا گیا وہ جگہ کا مستحق ہو گیا ، حضرت خالد بن خرام ہجرت کرکے حبشہ کی طرف چلے لیکن راہ میں ہی انہیں ایک سانب نے ڈس لیا اور اسی میں ان کی روح قبض ہوگئی ان کے بارے میں یہ آیت اتری ۔ حضرت زبیر فرماتے ہیں میں چونکہ ہجرت کرکے حبشہ پہنچ گیا اور مجھے ان کی خبر مل گئی تھی کہ یہ بھی ہجرت کرکے آرہے ہیں اور میں جانتا تھا کہ قبیلہ بنو اسد سے ان کے سوا اور کوئی ہجرت کرکے آنے کا نہیں اور کم وبیش جتنے مہاجر تھے ان کے ساتھ رشتے کنبے کے لوگ تھے لیکن میرے ساتھ کوئی نہ تھا میں ان کا یعنی حضرت خالد کا بےچینی سے انتظار کر رہا تھا جو مجھے ان کی اس طرح کی اچانک شہادت کی خبر ملی تو مجھے بہت ہی رنج ہوا ۔ یہ اثر بہت ہی غریب ہے ، یہ بھی وجہ ہے کہ یہ قصہ مکے کا ہے اور آیت مدینے میں اتری ہے ۔ لیکن بہت ممکن ہے کہ راوی کا مقصود یہ ہو کہ آیت کا حکم عام ہے گوشان نزول یہ نہ ہو واللہ اعلم ۔ اور روایت میں ہے کہ حضرت صمرہ بن جندب ہجرت کرکے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف چلے لیکن آپ کے پاس پہنچنے سے پہلے ہی راستے میں انتقال کر گئے ان کے بارے میں یہ آیت شریفہ نازل ہوئی اور روایت میں ہے کہ حضرت سعد بن ابی ضمرہ جن کو آنکھوں سے دکھائی نہ دیتا تھا جب وہ ( اِلَّا الْمُسْتَضْعَفِيْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاۗءِ وَالْوِلْدَانِ لَا يَسْتَطِيْعُوْنَ حِيْلَةً وَّلَا يَهْتَدُوْنَ سَبِيْلًا ) 4 ۔ النسآء:98 ) سنتے ہیں تو کہتے ہیں میں مالدار ہوں اور چارہ کار بھی رکھتا ہوں مجھے ہجرت کرنی چاہئے چنانچہ سامان سفر تیار کر لیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف چل کھڑے ہوئے لیکن ابھی تنعیم میں ہی تھے جو موت آگئی ان کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی ۔ طبرانی میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جو شخض میری راہ میں غزوہ کرنے کے لئے نکلا صرف میرے وعدوں کو سچا جان کر اور میرے رسولوں پر ایمان رکھ کر بس وہ اللہ کی ضمانت میں ہے یا تو وہ لشکر کے ساتھ فوت ہو کر جنت میں پہنچے گا یا اللہ کی ضمانت میں واپس لوٹے گا اجر و غنیمت اور فضل رب لے کر ۔ اگر وہ اپنی موت مر جائے یا مار ڈالا جائے یا گھوڑے سے گر جائے یا اونٹ پر سے گر پڑے یا کوئی زہریلا جانور کاٹ لے یا اپنے بستر پر کسی طرح فوت ہو جائے وہ شہید ہے ۔ ابو داؤد میں اتنی زیادتی بھی ہے کہ وہ جتنی ہے بعض الفاظ ابو داؤد میں نہیں ہیں ۔ ابو یعلیٰ میں ہے جو شخص حج کے لئے نکلا پھر مر گیا قیامت تک اس کے لئے حج کا ثواب لکھا جاتا ہے ، جو عمرے کے لئے نکلا اور راستے میں فوت ہو گیا اس کے لئے قیامت تک عمرے کا اجر لکھا جاتا ہے ۔ جو جہاد کے لئے نکلا اور فوت ہو گیا اس کے لئے قیامت تک کا ثواب لکھا جاتا ہے ۔ یہ حدیث بھی غریب ہے ۔
97۔ 1 یہ آیت ان لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو مکہ اور اس کے قرب و جوار میں مسلمان تو ہوچکے تھے لیکن انہوں نے اپنے آبائی علاقے اور خاندان چھوڑ کر ہجرت کرنے سے گریز کیا۔ جب کہ مسلمانوں کی قوت کو ایک جگہ مجتمع کرنے کے لئے ہجرت کا نہایت تاکیدی حکم مسلمانوں کو دیا جا چکا تھا اس لئے جن لوگوں نے ہجرت کے حکم پر عمل نہیں کیا۔ ان کو یہاں ظالم قرار دیا گیا ہے۔ اور ان کا ٹھکانا جہنم بتلایا گیا جس سے ایک تو یہ معلوم ہوا کہ حالات و ظروف کے اعتبار سے اسلام کے بعض احکام کفر یا اسلام کے مترادف بن جاتے ہیں جیسے اس موقع پر ہجرت اسلام اور اس سے گریز کفر کے مترادف قرار پایا۔ دوسرے یہ معلوم ہوا کہ ایسے دارالکفر سے ہجرت کرنا فرض ہے جہاں اسلام کی تعلیمات پر عمل کرنا مشکل اور وہاں رہنا کفر اور اہل کفر کی حوصلہ افزائی کا باعث ہو۔ 97۔ 2 یہاں ارض (جگہ) سے مراد شان نزول کے اعتبار سے مکہ اور اس کا قرب و جوار ہے اور آگے ارض اللہ سے مراد مدینہ ہے لیکن حکم کے اعتبار سے عام ہے یعنی پہلی جگہ سے مراد ارض کفار ہوگی۔ جہاں اسلام پر عمل مشکل ہو اور ارض اللہ سے مراد ہر وہ جگہ ہوگی جہاں انسان اللہ کے دین پر عمل کرنے کی غرض سے ہجرت کرکے جائے۔
[١٣٤] جنت میں داخلہ کے لئے جہاد شرط نہیں : یہ آیت ایسے مسلمانوں سے متعلق ہے جنہوں نے ہجرت پر قادر ہونے کے باوجود ہجرت نہیں کی اور اپنا گھر بار چھوڑ کر دارالہجرت (مدینہ) جانے میں پس و پیش کرتے رہے۔ اور یہی ان کا اپنی جانوں پر ظلم تھا۔ اور مسلمانوں پر ظلم یہ تھا کہ جنگ کے موقعہ پر انہیں مشرکوں کا ساتھ دینا پڑتا تھا اور مشرک یہ چال چلتے تھے کہ ایسے مسلمانوں کو اپنی صفوں کے آگے کردیتے تھے کہ وہ ان کے لیے ڈھال اور دفاع کا کام دیں۔ اب یہ مسلمانوں کے لشکر کے لیے بڑی الجھن بن جاتی تھی کہ اگر لڑائی لڑیں، تیر برسائیں، تلوار چلائیں تو ان کے مسلمان بھائی ہی مرتے تھے اور اگر ہاتھ روکے رکھیں تو خود انہیں نقصان پہنچ جاتا تھا۔ چناچہ سیدنا ابن عباس (رض) اس آیت کے شان نزول کے بارے میں فرماتے ہیں کہ (مکہ میں) مسلمانوں میں سے کچھ ایسے لوگ تھے جو مشرکوں کا ساتھ دیتے اور مقابلہ کے وقت ان کی جمعیت بڑھاتے پھر (مسلمانوں کی طرف سے) کوئی تیر ان کو بھی لگ جاتا یا کسی کو تلوار لگتی تو وہ زخمی ہوتا یا مرجاتا، ایسے ہی لوگوں کے بارے میں اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ (بخاری، کتاب التفسیر)- خ ہجرت نہ کرنے کا نقصان :۔ ایسے مسلمانوں کے لیے اس آیت میں جو وعید آئی ہے اس سے ضمناً یہ بھی معلوم ہوجاتا ہے کہ ایسا کمزور ایمان اللہ کے ہاں مقبول نہیں۔ لہذا اگر مشرکین انہیں ڈھال کے طور پر استعمال کریں تو مسلمانوں کے اجتماعی مفاد کی خاطر انہیں بےدریغ قتل کردینا چاہیے اور ایسے لوگوں کے کمزور ہونے کے عذر کو اللہ نے قبول نہیں فرمایا کیونکہ یہ کمزوری نہیں بلکہ گھر بار کی محبت اور مال و دولت کی ہوس تھی جس کی وجہ سے وہ ہجرت نہیں کرتے تھے یا پھر اسے بزدلی پر محمول کیا جائے گا۔
اِنَّ الَّذِيْنَ تَوَفّٰىھُمُ الْمَلٰۗىِٕكَةُ ظَالِمِيْٓ اَنْفُسِهِمْ : یہ آیت ان لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو مکہ اور اس کے قرب و جوار میں مسلمان تو ہوچکے تھے لیکن انھوں نے اپنے آبائی علاقے اور خاندان کو چھوڑ کر ہجرت کرنے سے گریز کیا، (حالانکہ انھیں ہجرت میں کوئی رکاوٹ بھی نہ تھی) جب کہ مسلمانوں کی قوت کو ایک جگہ مجتمع کرنے کے لیے ہجرت کا نہایت تاکیدی حکم دیا جا چکا تھا، اس لیے جن لوگوں نے ہجرت کے حکم پر عمل نہیں کیا ان کو یہاں ظالم قرار دیا گیا ہے اور ان کا ٹھکانا جہنم بتلایا گیا ہے، جس سے ایک تو یہ معلوم ہوا کہ حالات اور موقع کے لحاظ سے اسلام کے بعض احکام کفر یا اسلام کے مترادف بن جاتے ہیں۔ جیسے اس موقع پر ہجرت کو اسلام اور اس سے گریز کو کفر کے مترادف قرار پایا۔ دوسرے یہ معلوم ہوا کہ ایسے دارالکفر سے ہجرت کرنا فرض ہے جہاں اسلام کی تعلیمات پر عمل مشکل اور وہاں رہنا کفر اور اہل کفر کی حوصلہ افزائی کا باعث ہو۔ - قَالُوْا فِيْمَ كُنْتُمْ ۭ۔۔ : یعنی فرشتے ڈانٹ ڈپٹ کے انداز میں ان سے پوچھتے ہیں کہ تم مسلمان تھے یا کافر ؟ یا دارالکفر میں پڑے کیا کرتے رہے اور مدینہ کی طرف ہجرت کیوں نہیں کی ؟ اس سے معلوم ہوا کہ ایسے لوگ مسلمان ہونے کے باوجود بلا عذر ترک ہجرت کی بنا پر ظالم کی موت مرتے ہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( مَنْ جَامِعَ الْمُشْرِکَ وَ سَکَنَ مَعَہُ فَإِنَّہُ مِثْلُہُ ) [ أبو داوٗد، الجھاد، باب فی الإقامۃ بأرض الشرک : ٢٧٨٧، عن سمرۃ بن جندب ] ” جو شخص مشرک کے ساتھ اکٹھا رہے اور اس کے ساتھ سکونت رکھے تو یقیناً وہ اسی جیسا ہے۔ “
خلاصہ تفسیر - بیشک جب ایسے لوگوں کی جان فرشتے قبض کرتے ہیں جنہوں نے (باوجود قدرت ہجرت کے پھر ہجرت کے تارک ہو کر) اپنے کو گناہ گار کر رکھا تھا تو (اس وقت) وہ (فرشتے) ان سے کہتے ہیں کہ تم (دین کے) کس (کس) کام میں تھے (یعنی دین کے کیا کیا ضروری کام کیا کرتے تھے) وہ (جواب میں) کہتے ہیں کہ ہم (اپنی بود و باش کی) سر زمین میں محض مغلوب تھے (اسلئے بہت سی ضروریات دین پر عمل نہ کرسکتے تھے، یعنی ان فرائض کے ترک میں معذور تھے) وہ (فرشتے) کہتے ہیں (اگر اس جگہ نہ کرسکتے تھے تو) کیا اللہ تعالیٰ کی زمین وسیع نہ تھی تم کو ترک وطن کر کے اس (سے کسی دوسرے حصہ) میں چلا جانا چاہئے تھا ( اور وہاں جا کر فرائض کو ادا کرسکتے تھے، اس سے وہ لاجواب ہوجائیں گے اور جرم ان کا ثابت ہوجائے گا) سو ان لوگوں کا ٹھکانا جہنم ہے اور جانے کے لئے وہ بری جگہ ہے لیکن جو مرد اور عورتیں اور بچے (واقع میں ہجرت پر بھی) قادر نہ ہوں کہ نہ کوئی تدبیر کرسکتے ہیں نہ راستہ سے واقف ہیں سو ان کے لئے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ معاف کردیں اور اللہ تعالیٰ بڑے معاف کرنے والے بڑے مغفرت کرنے والے ہیں اور (جن لوگوں کے لئے ہجرت مشروع ہے ان میں سے) جو شخص اللہ تعالیٰ کی راہ میں (یعنی دین کے لئے) ہجرت کرے گا تو اس کو روئے زمین پر جانے کی بہت جگہ ملے گی اور (اظہار دین کی) بہت گنجائش (ملے گی، پس اگر ایسی جگہ پہنچ گیا تو دنیا میں بھی اس سفر اور اظہار سے کامیابی ظاہر ہے) اور (اگر اتفاق سے یہ مذکور کا میابی نہ ہوئی تب بھی آخرت کی کامیابی میں تو کوئی تردد نہیں، کیونکہ ہمارا قانون ہے کہ) جو شخص اپنے گھر سے اس نیت سے نکل کھڑا ہو کہ اللہ و رسول (کے دین کے ظاہر کرسکنے کے موقع) کی طرف ہجرت کروں گا پھر (مقصد کے حاصل کرنے سے پہلے) اس کو موت آپکڑے، تب بھی اس کا ثواب (جس کا وعدہ ہجرت کرنے پر ہے) ثابت ہوگیا ( جو وعدہ کی وجہ سے ایسا ہے جیسے) اللہ کے ذمہ (گو ابھی اس سفر کو ہجرت نہیں کہہ سکتے، لیکن صرف اچھی نیت سے اس کے شروع کردینے پر پورا صلہ عطا ہوگیا) اور اللہ تعالیٰ بڑے مغفرت کرنے والے ہیں (اس ہجرت کی برکت سے گو وہ ناتمام رہے بہت سے گناہ معاف فرما دیں گے جیسا حدیث میں ہجرت کی فضلت آئی ہے کہ ہجرت سے سابقہ گناہ معاف ہوجاتے ہیں) اور) بڑے رحمت والے ہیں ( کہ عمل کو اچھی نیت سے شروع کرنے ہی سے عمل کے پورا ہونے کے برابرثواب عنایت فرماتے ہیں۔ )
اِنَّ الَّذِيْنَ تَوَفّٰىھُمُ الْمَلٰۗىِٕكَۃُ ظَالِمِيْٓ اَنْفُسِہِمْ قَالُوْا فِيْمَ كُنْتُمْ ٠ۭ قَالُوْا كُنَّا مُسْتَضْعَفِيْنَ فِي الْاَرْضِ ٠ۭ قَالُوْٓا اَلَمْ تَكُنْ اَرْضُ اللہِ وَاسِعَۃً فَتُھَاجِرُوْا فِيْھَا ٠ۭ فَاُولٰۗىِٕكَ مَاْوٰىھُمْ جَہَنَّمُ ٠ۭ وَسَاۗءَتْ مَصِيْرًا ٩٧ۙ- وفی ( موت)- وتَوْفِيَةُ الشیءِ : بذله وَافِياً ، وقد عبّر عن الموت والنوم بالتَّوَفِّي، قال تعالی: اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ حِينَ مَوْتِها[ الزمر 42] ، وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام 60] يا عِيسى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرافِعُكَ إِلَيَ [ آل عمران 55] ، وقدقیل : تَوَفِّيَ رفعةٍ واختصاص لا تَوَفِّيَ موتٍ. قال ابن عباس : تَوَفِّي موتٍ ، لأنّه أماته ثمّ أحياه - اور توفیتہ الشیئ کے معنی بلا کسی قسم کی کمی پورا پورادینے کے ہیں اور کبھی توفی کے معنی موت اور نیند کے بھی آتے ہیں ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ حِينَ مَوْتِها[ الزمر 42] خدا لوگوں کی مرنے کے وقت ان کی روحیں قبض کرلیتا ہے ۔ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام 60] اور وہی تو ہے جو رات کو ( سونے کی حالت میں ) تمہاری روح قبض کرلیتا ہے ۔ اور آیت : ۔ يا عِيسى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرافِعُكَ إِلَيَ [ آل عمران 55] عیسٰی (علیہ السلام) میں تمہاری دنیا میں رہنے کی مدت پوری کرکے تم کو اپنی طرف اٹھا لوں گا ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ توفی بمعنی موت نہیں ہے ۔ بلکہ اس سے مدراج کو بلند کرنا مراد ہے ۔ مگر حضرت ابن عباس رضہ نے توفی کے معنی موت کئے ہیں چناچہ ان کا قول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسٰی (علیہ السلام) کو فوت کر کے پھر زندہ کردیا تھا ۔- ملك ( فرشته)- وأما المَلَكُ فالنحویون جعلوه من لفظ الملائكة، وجعل المیم فيه زائدة . وقال بعض المحقّقين : هو من المِلك، قال : والمتولّي من الملائكة شيئا من السّياسات يقال له : ملک بالفتح، ومن البشر يقال له : ملک بالکسر، فكلّ مَلَكٍ ملائكة ولیس کلّ ملائكة ملکاقال : وَالْمَلَكُ عَلى أَرْجائِها [ الحاقة 17] ، عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبابِلَ [ البقرة 102] - ( م ل ک ) الملک - الملک علمائے نحو اس لفظ کو ملا ئکۃ سے ماخوذ مانتے ہیں اور اس کی میم کو زائد بناتے ہیں لیکن بعض محقیقن نے اسے ملک سے مشتق مانا ہے اور کہا ہے کہ جو فرشتہ کائنات کا انتظام کرتا ہے اسے فتحہ لام کے ساتھ ملک کہا جاتا ہے اور انسان کو ملک ہیں معلوم ہوا کہ ملک تو ملا ئکۃ میں ہے لیکن کل ملا ئکۃ ملک نہیں ہو بلکہ ملک کا لفظ فرشتوں پر بولا جاتا ہے کی طرف کہ آیات ۔ وَالْمَلَكُ عَلى أَرْجائِها [ الحاقة 17] اور فرشتے اس کے کناروں پر اتر آئیں گے ۔ عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبابِلَ [ البقرة 102] اور ان باتوں کے بھی پیچھے لگ گئے جو دو فرشتوں پر اتری تھیں ۔- ظلم - وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه،- قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ:- الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی،- وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] - والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس،- وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری 42] - والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه،- وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] ،- ( ظ ل م ) ۔- الظلم - اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر - بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے - (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی سب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا - :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ - (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے - ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔- ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے - ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں - اسْتَضْعَفْ- واسْتَضْعَفْتُهُ : وجدتُهُ ضَعِيفاً ، قال وَالْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجالِ وَالنِّساءِ وَالْوِلْدانِ- [ النساء 75] ، قالُوا فِيمَ كُنْتُمْ قالُوا كُنَّا مُسْتَضْعَفِينَ فِي الْأَرْضِ [ النساء 97] ، إِنَّ الْقَوْمَ اسْتَضْعَفُونِي[ الأعراف 150] ، وقوبل بالاستکبار في قوله : قالَ الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا لِلَّذِينَ اسْتَكْبَرُوا[ سبأ 33]- استضعفتہ ۔ میں نے اسے کمزور سمجھا حقیر جانا ۔ قران میں ہے : ۔ وَنُرِيدُ أَنْ نَمُنَّ عَلَى الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا[ القصص 5] اور ہم چاہتے تھے کہ جنہیں ملک میں کمزور سمجھا گیا ہے ان پر احسان کریں : وَالْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجالِ وَالنِّساءِ وَالْوِلْدانِ [ النساء 75] اور ان بےبس مردوں عورتوں اور بچوں قالوا فِيمَ كُنْتُمْ قالُوا كُنَّا مُسْتَضْعَفِينَ فِي الْأَرْضِ [ النساء 97] تو ان سے پوچھتے ہیں کہ تم کس حال میں تھے تو وہ کہتے ہیں کہ ہم ملک میں عاجز اور ناتوان تھے ۔ إِنَّ الْقَوْمَ اسْتَضْعَفُونِي[ الأعراف 150] کہ لوگ تو مجھے کمزور سمجھتے تھے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ قالَ الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا لِلَّذِينَ اسْتَكْبَرُوا[ سبأ 33] اور کمزور لوگ برے لوگوں سے کہیں گے ۔ میں استضاف استکبار کے مقابلہ میں استعمال ہوا ہے - أرض - الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . - ( ا رض ) الارض - ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ - وسع - السَّعَةُ تقال في الأمكنة، وفي الحال، وفي الفعل کالقدرة والجود ونحو ذلك . ففي المکان نحو قوله : إِنَّ أَرْضِي واسِعَةٌ [ العنکبوت 56]- ( و س ع )- اسعۃ کے معنی کشادگی کے ہیں اور یہ امکنہ حالت اور فعل جیسے قدرت جو وغیرہ کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ وسعت مکانی کے متعلق فرمایا : ۔ إِنَّ أَرْضِي واسِعَةٌ [ العنکبوت 56] میری زمین فراخ ہے ۔- أوى- المَأْوَى مصدر أَوَى يَأْوِي أَوِيّاً ومَأْوًى، تقول : أوى إلى كذا : انضمّ إليه يأوي أويّا ومأوى، وآوَاهُ غيره يُؤْوِيهِ إِيوَاءً. قال عزّ وجلّ : إِذْ أَوَى الْفِتْيَةُ إِلَى الْكَهْفِ [ الكهف 10] ، وقال : سَآوِي إِلى جَبَلٍ [هود 43] - ( ا و ی ) الماویٰ ۔- ( یہ اوی ٰ ( ض) اویا و ماوی کا مصدر ہے ( جس کے معنی کسی جگہ پر نزول کرنے یا پناہ حاصل کرنا کے ہیں اور اویٰ الیٰ کذا ۔ کے معنی ہیں کسی کے ساتھ مل جانا اور منضم ہوجانا اور آواہ ( افعال ) ایواء کے معنی ہیں کسی کو جگہ دینا قرآن میں ہے إِذْ أَوَى الْفِتْيَةُ إِلَى الْكَهْفِ ( سورة الكهف 10) جب وہ اس غار میں جار ہے قَالَ سَآوِي إِلَى جَبَلٍ ( سورة هود 43) اس نے کہا کہ میں ( ابھی ) پہاڑ سے جا لگوں گا ۔ - صير - الصِّيرُ : الشِّقُّ ، وهو المصدرُ ، ومنه قرئ : فَصُرْهُنَّ وصَارَ إلى كذا : انتهى إليه، ومنه : صِيرُ البابِ لِمَصِيرِهِ الذي ينتهي إليه في تنقّله وتحرّكه، قال : وَإِلَيْهِ الْمَصِيرُ [ الشوری 15] .- و «صَارَ» عبارةٌ عن التّنقل من حال إلى حال .- ( ص ی ر ) الصیر - کے معنی ایک جانب یا طرف کے ہیں دراصل یہ صار ( ض) کا مصدر ہے ۔ اور اسی سے آیت فصوھن ہیں ایک قرآت فصرھن ہے ۔ صار الی کذا کے معنی کسی خاص مقام تک پہنچ جانا کے ہیں اسی سے صیر الباب ہے جس کے معنی درداڑہ میں شگاف اور جھروکا کے ہیں اور اسے صیر اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ نقل و حرکت کا منتہی ہوتا ہے اور صار کا لفظ ایک حالت سے دوسری حالت میں منتقل ہونے پر بولا جاتا ہے ۔ اسی سے المصیر اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں کوئی چیز نقل نہ حرکت کے بعد پہنچ کر ختم ہوجاتی ہے ۔ قرآن میں ہے : وَإِلَيْهِ الْمَصِيرُ [ الشوری 15] یعنی اللہ تعالیٰ ہی لوٹنے کی جگہ ہے ۔
اپنے اوپر ظلم کرنے والے - قول باری ہے (ان الذین توفاھم الملائکۃ ظالمی انفسھم قالوافیم کنتم، جو لوگ اپنے نفس پر ظلم کررہے تھے ان کی روحیں جب فرشتوں نے قبض کیں تو ان سے پوچھا کہ یہ تم کس حال میں مبتلا تھے) تاآخر آیت۔- ایک قول کے مطابق مفہوم ہے ، ہم موت کے وقت ان کی روحیں قبض کرلیں گے ، حسن کا قول ہے ہم انہیں جہنم کی طرف اٹھائیں گے ایک قول اس آیت کا نزول منافقین کے ایک گروہ کے بارے میں ہوا جو ڈر کی بنا پر مسلمانوں کے سامنے ایمان کا اظہار کرتا تھا، اور جب اپنی قوم میں پہنچ جاتا تو کفر کا اظہار کرتا، یہ گروہ مدینہ ہجرت کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا تھا، اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں بیان فرمادیا کہ یہ لوگ اپنے نفاق ، کفر اور مدینہ کی طرف ہجرت کرکے اپنے اوپرظلم کررہے ہیں۔- یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ اس زمانے میں ہجرت فرض تھی، اگر یہ بات نہ ہوتوترک ہجرت پر ان کی مذمت نہ کی جاتی ، نیز اس سے یہ بھی حاصل ہوتی ہے کہ اہل کفر بھی شرائع اسلام کے مکلف ہیں اور ان کے ترک پر انہیں سزا ملے گی، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے ہجرت نہ کرنے پر ان منافقین کی مذمت کی ہے۔- یہ اس قول باری کی نظیر ہے (ومن یشاقق الرسول من بعد ماتبین لہ الھدی، ویتبع غیرسبیل المومنین نولہ ماتولی ونصلہ جہنم، مگر جو شخص رسول کی مخالفت پر کمربستہ ہو اوراہل ایمان کی روش کے سوا کسی اور روش پر چلے درآنحالیکہ اس پر راہ راست واضح ہوچکی ہو تو اس کو ہم اسی طرف چلائیں گے جدھر وہ خود پھر گیا، اور اسے جہنم میں جھونکیں گے ) اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کی روش کو ترک کرنے پر ان کی اس طرح مذمت کی جس طرح تک ایما ن پر۔- اس کے ذریعے اجماع کے حجت ہونے کی صحت پر بھی دلالت ہوگئی۔ اس لیے کہ اگر یہ بات لازم نہ ہوتی تو اللہ تعایل اس کے ترک پر ان کی مذمت نہ کرتا، اور اس چیز کو حضور کی مخالفت پر کمربستگی کے ساتھ مقرون نہ کرتا۔ یہ بات مشرکین کے درمیان قیام کرنے کی نہی پر بھی دلالت کرتی ہے کہ کیونکہ قول باری ہے (الم تکن ارض اللہ واسعۃ فتھاجروافیھا، کیا اللہ کی زمین کشادہ نہیں تھی کہ تم اس میں ہجرت کرجاتے ، یہ بات مشرکین کی سرزمین سے کسی بھی اسلامی سرزمین کی طرف ہجرت کرجانے پر دلالت کرتی ہے۔- حضرت ابن عباس ، قتادہ، ضحاک، اور سدی سے مروی ہے کہ اس آیت کا نزول مکہ کے ایک گروہ کے بارے میں ہوا تھا، جو ہجرت کرنے سے پیچھے رہ گئے تھے اور انہوں نے مشرکین سے اپنی محبت اور لگاؤ کا اظہار کیا تھا، ان میں سے ایک گروہ ظاہرا ارتداد کی بنا پر بدر کے مقام پر قتل ہوگیا تھا۔- پھر اللہ تعالیٰ نے ان میں سے ان لوگوں کو مستثنی کردیاجوکمزوری اور ضعف کی بنا پر ہجرت نہ کرسکے تھے ، اور مکہ ہی میں بیٹھ رہے تھے، چناچہ ارشاد ہوا، الاالمستضعفین من الرجال والنساء والولدان لایستطیعون حیلۃ۔۔۔ تا۔۔۔۔ عنھم۔ ہاں جو مرد عورتیں اور بچے واقعی بےبس ہیں اور نکلنے کا کوئی راستہ اور ذریعہ نہیں پاتے بعید نہیں کہ اللہ انہیں معاف کردے۔ یعنی انہیں دارل ہجرت مدینے کی طرف نکلنے کا کوئی راستہ اور ذریعہ نہیں ملتا۔- حسن کا قول ہے کہ اللہ کی طرف سے عسی کا مفہوم اس پر دلالت کرتا ہے یہ امرواجب ہے ایک قول ہے کہ عسی کے تحت جو بات کہی جاتی ہے اس کی حیثیت وعدے کی ہوتی ہے کیونکہ شک کی بنیاد پر اس امر کی اللہ تعالیٰ خبر نہیں دیتا۔ ایک قول یہ ہے کہ اس امر میں شک بندوں کی طرف سے ہوتا ہے اس لیے اس کا مفہوم یہ ہوگا کہ بندو تم اللہ کی ذات سے امیدوار اس کی رحمت کی طمع کرتے رہو۔
(٩٧) پچاس آدمی مکہ مکرمہ میں اسلام لانے کے بعد مرتد ہوگئے تھے، وہ غزوہ بدر میں کفار کے ساتھ ان کے حلیف بن کر آئے اور سب کے سب مارے گئے، ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ایسے لوگوں کی بدر کے دن جب فرشتے جان قبض کرتے ہیں، تو فرشتے اس قبض کے وقت ان سے کہتے ہیں کہ تم مکہ مکرمہ کیا کرتے تھے وہ جوابا کہتے ہیں کہ ہم مکہ مکرمہ میں کفار کے ہاتھوں ذلیل اور پریشان تھے فرشتے ان سے کہتے ہیں تو کیا مدینہ منورہ کی سرزمین امن والی نہیں تھی کہ تم اس سرزمین میں ہجرت کرکے چلے جاتے، ان لوگوں کا ٹھکانا دوزخ ہے۔- شان نزول : (آیت) ” ان الذین توفہم “۔ ( الخ)- امام بخاری (رح) نے ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ کچھ منافق لوگ مسلمانوں کے روب میں مشرکین کے ساتھ مل کر رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مقابلے میں مشرکین کی جماعت بڑھاتے تھے۔- چناچہ (غزوہ بدر میں) جب ان بدترین لوگوں میں سے کوئی تیر مارتا تو وہ بطور مسلمانوں کی تائید الہی کے سبب ان ہی کے لگ جاتا، جس کی وجہ سے وہ مرجاتا یا اور کوئی تیر لگ جاتا جس کی بنا پر وہ ختم ہوجاتا تھا، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی، بیشک جب ایسے مرتد لوگوں کی جان فرشتے قبض کرتے ہیں الخ اور ابن مردویہ نے اپنی روایت میں ان لوگوں کے نام بھی روایت کیے ہیں کہ یہ لوگ قیس بن ولید بن مغیرہ، ابوقیس بن فاکہہ، ولید بن عتبہ، عمروبن امیہ، علی بن امیہ تھے اور ان لوگوں کے متعلق یہ روایت کیا ہے کہ جب یہ لوگ غزوہ بدر کی طرف روانہ ہوئے اور مسلمانوں کی کمی کو دیکھا تو ان کے دلوں میں شک پیدا ہوگیا اور کہنے لگے کہ ان لوگوں کو اپنے دین کے بارے میں (نعوذ باللہ) دھوکہ ہوگیا ہے، چناچہ یہ سب بدر کے دن مارے گئے۔- اور ابن ابی حاتم (رح) نے حارث بن زمعہ (رح) اور عاص بن منبہ (رح) کا نام روایت کیا ہے اور طبرانی (رح) نے ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ مکہ کے کچھ لوگ اسلام لے آئے تھے، جب رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت فرمائی تو ان لوگوں کو ہجرت کرنا شاق ہوئی اور یہ لوگ ڈرے، ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور ابن منذر اور ابن جریر (رح) نے ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ مکہ والوں میں سے کچھ لوگ اسلام لے آئے تھے مگر وہ اسلام کو آسان سمجھتے تھے، غزوہ بدر میں مشرکین ان کو اپنے ساتھ لے آئے۔ (ان میں سے اکثر مومنین مخلصین نہ تھے بلکہ ان کی حالت کچھ اس طرح سے تھی جیسا کہ قرآن کریم میں ہے (آیت) ” قالت الاعراب امنا، قل لم تؤمنوا ولکن قولوا اسلمنا ولما یدخل الایمان فی قلوبکم “۔ (یہ چند دیہاتی یعنی غیر سنجیدہ لوگ کہتے ہیں ہم ایمان لے اے نبی مکرم آپ ان سے کہہ دیں تم حقیقتا ایمان نہیں لائے، بلکہ تم نے (کسی وجہ سے) محض ظاہرا اسلام قبول کیا ہے اور ایمان کی حقیقت ابھی تمہارے دلوں میں اتری ہی نہیں وگرنہ مومنین مخلصین کے ” ایمان “ لانے کے بعد واپس کفر کی طرف پلٹنے کی مثالیں انتہائی کم ہیں اور الشاذ کلمعدوم کے درجے میں ہیں (اتنی کم کہ گویا ہیں ہی نہیں) (مترجم)- چناچہ ان لوگوں میں سے بعض مارے گئے صحابہ کرام (رض) نے دیکھ کر کہا یہ لوگ تو مسلمان تھے اور ان کو ایک گرانی ہوئی، چناچہ صحابہ کرام (رض) نے ان کے لیے دعائے مغفرت کی، اس پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی مکہ مکرمہ میں ایسے لوگوں میں سے جو باقی رہ گئے تھے ان کے پاس یہ آیت لکھ کر روانہ کردی گئی ،- اور یہ کہ اب ان کا کوئی عذر قابل قبول نہیں، چناچہ یہ لوگ وہاں سے نکلے، پھر ان کو مشرکین نے پکڑ لیا اور ان کو فتنہ میں ڈال دیا، یہ پھر لوٹ گئے، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ (آیت) ” ومن الناس من یقول امنا باللہ فاذا اوذی فی اللہ جعل فتنۃ الناس کعذاب اللہ “۔- مسلمانوں نے یہ آیت بھی ان کے پاس لکھ کر روانہ کردی جس سے وہ غمگین ہوئے اس کے بعد (آیت) ” ثم ان ربک للذین ھاجرو من بعد مافتنو “۔ (الخ) یہ آیت نازل ہوئی، یہ بھی مسلمانوں نے ان کے پاس لکھ کر روانہ کردی، چناچہ وہ مکہ سے نکلے، پھر انکو پکڑ لیا تو جو بچا اس نے نجات حاصل کی اور جس کو قتل ہونا تھا وہ قتل ہوگیا، ابن جریر (رح) نے بہت سے طریقوں سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔ (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح )
آیت ٩٧ (اِنَّ الَّذِیْنَ تَوَفّٰٹہُمُ الْمَلآءِکَۃُ ظَالِمِیْٓ اَنْفُسِہِمْ ) - یعنی انہوں نے ہجرت نہیں کی تھی ‘ اس سلسلے میں رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم کی اطاعت نہیں کی تھی۔ آخر موت تو آنی ہے ‘ لہٰذا فرشتے جب ان کی روحیں قبض کریں گے تو ان کے ساتھ اس طرح مکالمہ کریں گے : - (قَالُوْا فِیْمَ کُنْتُمْ ط) - تم نے ایمان کا دعویٰ تو کیا تھا ‘ لیکن جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہجرت کا حکم دیا تو ہجرت کیوں نہیں کی ؟ تمہیں کیا ہوگیا تھا ؟
سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :129 مراد وہ لوگ ہیں جو اسلام قبول کرنے کے بعد بھی ابھی تک بلا کسی مجبوری و معذوری کے اپنی کافر قوم ہی کے درمیان مقیم تھے اور نیم مسلمانہ اور نیم کافرانہ زندگی بسر کرنے پر راضی تھے ، درآنحالیکہ ایک دارالاسلام مہیا ہو چکا تھا جس کی طرف ہجرت کر کے اپنے دین و اعتقاد کے مطابق پوری اسلامی زندگی بسر کرنا ان کے لیے ممکن ہو گیا تھا ۔ یہی ان کا اپنے نفس پر ظلم تھا کیونکہ ان کو پوری اسلامی زندگی کے مقابلہ میں اس نیم کفر و نیم اسلام پر جس چیز نے قانع و مطمئن کر رکھا تھا وہ کوئی واقعی مجبوری نہ تھی ، بلکہ محض اپنے نفس کے عیش اور اپنے خاندان ، اپنی جائیداد و املاک اور اپنے دنیوی مفاد کی محبت تھی جسے انہوں نے اپنے دین پر ترجیح دی ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو حاشیہ نمبر ۱۱٦ ) سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :130 یعنی جب ایک جگہ خدا کے باغیوں کا غلبہ تھا اور خدا کے قانون شرعی پر عمل کرنا ممکن نہ تھا تو وہاں رہنا کیا ضرور تھا ؟ کیوں نہ اس جگہ کو چھوڑ کر کسی اسی سر زمین کی طرف منتقل ہوگئے جہاں قانون الہٰی کی پیروی ممکن ہوتی؟
62: اپنی جان پر ظلم کرنا قرآنِ کریم کی ایک اصطلاح ہے جس کا مطلب کسی گناہ کا ارتکاب کرنا ہوتا ہے، کیونکہ گناہ کرکے اِنسان اپنی جان ہی کو نقصان پہنچاتا ہے، اس آیت میں اپنی جانوں پر ظلم کرنے والوں سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے قدرت کے باوجود مکہ مکرَّمہ سے مدینہ منوَّرہ کی طرف ہجرت نہیں کی تھی۔ جب مسلمانوں کے لئے ہجرت کا حکم آگیا تھا تو مکہ میں رہنے والے ہر مسلمان پر شرعا فرض تھا کہ وہ مدینہ منوَّرہ کی طرف ہجرت کرے۔ بلکہ اس کو ایمان کا لازمی تقاضا قرار دیا گیا تھا، اور اگر کوئی شخص قدرت کے باجود ہجرت نہ کرتا تو اسے مسلمان قرار نہیں دیاجاتا تھا۔ اس آیت میں ایسے ہی بعض لوگوں کا ذکر ہے کہ جب فرشتے ان کے پاس ان کی روح قبض کرنے آئے توان کے ساتھ کیا مکالمہ ہوا، چونکہ یہ لوگ ہجرت کے حکم کی نافرمانی کرنے کی وجہ سے مسلمان نہیں رہے تھے، اس لئے ان کے بارے میں دوزخی ہونے کا اعلان کیا گیا ہے، البتہ جو لوگ کسی مجبوری کی بنا پر ہجرت سے قاصر رہے تھے ساتھ ہی ان کا استثناء بھی کردیا گیا ہے کہ معذوری کی وجہ سے وہ قابلِ معافی ہیں۔