Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

مزید مسائل میراث جن کا ہر مسلمان کو جاننا فرض ہے یہ آیت کریمہ اور اس کے بعد کی آیت اور اس سورت کے خاتمہ کی آیت علم فرائض کی آیتیں ہیں ، یہ پورا علم ان آیتوں اور میراث کی احادیث سے استنباط کیا گیا ہے ، جو حدیثیں ان آیتوں کی گویا تفسیر اور توضیح ہیں ، یہاں ہم اس آیت کی تفسیر لکھتے ہیں باقی جو میراث کے مسائل کی پوری تقریر ہے اور اس میں جن دلائل کی سمجھ میں جو کچھ اختلاف ہوا ہے اس کے بیان کرنے کی مناسب جگہ احکام کی کتابیں ہیں نہ کہ تفسیر ، اللہ تعالیٰ ہماری مدد فرمائے ، علم فرائض سیکھنے کی رغبت میں بہت سی حدیثیں آئی ہیں ، ان آیتوں میں جن فرائض کا بیان ہے یہ سب سے زیادہ اہم ہیں ، ابو داؤد اور ابن ماجہ میں ہے علم دراصل تین ہیں اور اس کے ماسوا فضول بھرتی ہے ، آیات قرآنیہ جو مضبوط ہیں اور جن کے احکام باقی ہیں ، سنت قائمہ یعنی جو احادیث ثابت شدہ ہیں اور فریضہ عادلہ یعنی مسائل میراث جو ان دو سے ثابت ہیں ۔ ابن ماجہ کی دوسری ضعیف سند والی حدیث میں ہے کہ فرائض سیکھو اور دوسروں کو سکھاؤ ۔ یہ نصف علم ہے اور یہ بھول بھول جاتے ہیں اور یہی پہلی وہ چیز ہے جو میری امت سے چھن جائے گی ، حضرت ابن عینیہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں اسے آدھا علم اس لئے کہا گیا ہے کہ تمام لوگوں کو عموماً یہ پیش آتے ہیں ، صحیح بخاری شریف میں اس آیت کی تفسیر میں حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے کہ میں بیمار تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ میری بیمار پرسی کے لئے بنو سلمہ کے محلے میں پیادہ پا تشریف لائے میں اس وقت بیہوش تھا آپ نے پانی منگوا کر وضو کیا پھر وضو کے پانی کا چھینٹا مجھے دیا جس سے مجھے ہوش آیا ، تو میں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم میں اپنے مال کی تقسیم کس طرح کروں؟ اس پر آیت شریفہ نازل ہوئی ، صحیح مسلم شریف نسائی شریف وغیرہ میں بھی یہ حدیث موجود ہے ، ابو داؤد ترمذی ابن ماجہ مسند امام احمد بن حنبل وغیرہ میں مروی حے کہ حضرت سعد بن ربیع رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیوی صاحبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دونوں حضرت سعد کی لڑکیاں ہیں ، ان کے والد آپ کے ساتھ جنگ احد میں شریک تھے اور وہیں شہید ہوئے ان کے چچا نے ان کا کل مال لے لیا ہے ان کے لئے کچھ نہیں چھوڑا اور یہ ظاہر ہے کہ ان کے نکاح بغیر مال کے نہیں ہو سکتے ، آپ نے فرمایا اس کا فیصلہ خود اللہ کرے گا چنانچہ آیت میراث نازل ہوئی ، آپ نے ان کے چچا کے پاس آدمی بھیج کر حکم بھیجا کہ دو تہائیاں تو ان دونوں لڑکیوں کو دو اور آٹھواں حصہ ان کی ماں کو دو اور باقی مال تمہارا ہے ، بہ ظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حضرت جابر کے سوال پر اس سورت کی آخری آیت اتری ہوگی جیسے عنقریب آ رہا ہے انشاء اللہ تعالیٰ اس لئے کہ ان کی وارث صرف ان کی بہنیں ہی تھیں لڑکیاں تھیں ہی نہیں وہ تو کلالہ تھے اور یہ آیت اسی بارے میں یعنی حضرت سعد بن ربیع کے ورثے کے بارے میں نازل ہوئی ہے اور اس کے راوی بھی خود حضرت جابر ہیں ہاں حضرت امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے اس حدیث کو اسی آیت کی تفسیر میں وارد کیا ہے اس لئے ہم نے بھی ان کی تابعداری کی ، واللہ اعلم مطلب آیت کا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں تمہاری اولاد کے بارے میں عدل سکھاتا ہے ، اہل جاہلیت تمام مال لڑکوں کو دیتے تھے اور لڑکیاں خالی ہاتھ رہ جاتی تھیں تو اللہ تعالیٰ نے ان کا حصہ بھی مقرر کردیا ہاں دونوں کے حصوں میں فرق رکھا ، اس لئے کہ مردوں کے ذمہ جو ضروریات ہیں وہ عورتوں کے ذمہ نہیں مثلاً اپنے متعلقین کے کھانے پینے اور خرچ اخراجات کی کفالت تجارت اور کسب اور اسی طرح کی اور مشقتیں تو انہیں ان کی حاجت کے مطابق عورتوں سے دوگنا دلوایا ، بعض دانا بزرگوں نے یہاں ایک نہایت باریک نکتہ بیان کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر بہ نسبت ماں باپ کے بھی زیادہ مہربان ہے ، ماں باپ کو ان کی اولادوں کے بارے میں وصیت کر رہا ہے ، پس معلوم ہوا کہ ماں باپ اپنی اولاد پر اتنے مہربان نہیں جتنا مہربان ہمارا خالق اپنی مخلوق پر ہے ۔ چنانچہ ایک صحیح حدیث میں ہے کہ قیدیوں میں سے ایک عورت کا بچہ اس سے چھوٹ گیا وہ پاگلوں کی طرح اسے ڈھونڈتی پھرتی تھی اور جیسے ہی ملا اپنے سینے سے لگا کر اسے دودھ پلانے لگی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دیکھ کر اپنے اصحاب سے فرمایا بھلا بتاؤ تو کیا یہ عورت باوجود اپنے اختیار کے اپنے بچے کو آگ میں ڈال دے گی؟ لوگوں نے کہا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہرگز نہیں آپ نے فرمایا اللہ کی قسم اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر اس سے بھی زیادہ مہربان ہے ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ پہلے حصہ دار مال کا صرف لڑکا تھا ، ماں باپ کو بظور وصیت کے کچھ مل جاتا تھا اللہ تعالیٰ نے اسے منسوخ کیا اور لڑکے کو لڑکی سے دوگنا دلوایا اور ماں باپ کو چھٹا چھٹا حصہ دلوایا اور تیسرا حصہ بھی اور بیوی کو آٹھواں حصہ اور چوتھا حصہ اور خاوند کو آدھا اور پاؤ ۔ فرماتے ہیں میراث کے احکام اترنے پر بعض لوگوں نے کہا یہ اچھی بات ہے کہ عورت کو چوتھا اور آٹھواں حصہ دلوایا جا رہا ہے اور لڑکی کو آدھوں آدھ دلوایا جا رہا ہے اور ننھے ننھے بچوں کا حصہ مقرر کیا جا رہا ہے حالانکہ ان میں سے کوئی بھی نہ لڑائی میں نکل سکتا ہے ، نہ مال غنیمت لا سکتا ہے اچھا تم اس حدیث سے خاموشی برتو شاید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بھول جائے ہمارے کہنے کی وجہ سے آپ ان احکام کو بدل دیں ، پھر انہوں نے آپ سے کہا کہ آپ لڑکی کو اس کے باپ کا آدھا مال دلوا رہے ہیں حالانکہ نہ وہ گھوڑے پر بیٹھنے کے لائق نہ دشمن سے لڑنے کے قابل ، آپ بچے کو ورثہ دلا رہے ہیں بھلا وہ کیا فائدہ پہنچا سکتا ہے؟ یہ لوگ جاہلیت کے زمانہ میں ایسا ہی کرتے تھے کہ میراث صرف اسے دیتے تھے جو لڑنے مرنے کے قابل ہو سب سے بڑے لڑکے کو وارث قرار دیتے تھے ( اگر مرنے والے کے لڑکے لڑکیاں دونوں ہو تو تو فرما دیا کہ لڑکی کو جتنا آئے اس سے دوگنا لڑکے کو دیا جائے یعنی ایک لڑکی ایک لڑکا ہے تو کل مال کے تین حصے کر کے دو حصے لڑکے کو اور ایک حصہ لڑکی کو دے دیا جائے اور اگر صرف لڑکی کو دے دیا جائے اب بیان فرماتا ہے کہ اگر صرف لڑکیاں ہوں تو انہیں کیا ملے گا ؟ مترجم ) لفظ فوق کو بعض لوگ زائد بتاتے ہیں جیسے آیت ( فَاضْرِبُوْا فَوْقَ الْاَعْنَاقِ وَاضْرِبُوْا مِنْهُمْ كُلَّ بَنَانٍ ) 8 ۔ الانفال:12 ) آیت میں لفظ فوق زائد ہے لیکن ہم یہ نہیں مانتے نہ اس آیت میں نہ اس آیت میں ، کیونکہ قرآن میں کوئی ایسی زائد چیز نہیں ہے جو محض بےفائدہ ہو اللہ کے کلام میں ایسا ہونا محال ہے ، پھر یہ بھی خیال فرمائیے کہ اگر ایسا ہی ہوتا تو اس کے بعد آیت ( فلہن ) نہ آتا بلکہ ( فلہما ) آتا ۔ ہاں اسے ہم جانتے ہیں کہ اگر لڑکیاں دو سے زیادہ نہ ہوں یعنی صرف دو ہوں تو بھی یہی حکم ہے یعنی انہیں بھی دو ثلث ملے گا کیونکہ دوسری آیت میں دو بہنوں کو دو ثلث دلوایا گیا ہے اور جبکہ دو بہنیں دو ثلث پاتی ہیں تو دو لڑکیوں کو دو ثلث کیوں نہ ملے گا ؟ ان کے لئے تو دو تہائی بطور اولی ہونا چاہئے ، اور حدیث میں آچکا ہے دو لڑکیوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو تہائی مال ترکہ کا دلوایا جیسا کہ اس آیت کی شان نزول کے بیان میں حضرت سعد کی لڑکیوں کے ذکر میں اس سے پہلے بیان ہو چکا ہے پس کتاب و سنت سے یہ ثابت ہو گیا اسی طرح اس کی دلیل یہ بھی ہے کہ ایک لڑکی اگر ہو یعنی لڑکا نہ ہونے کی صورت میں تو اسے آدھوں آدھ دلوایا گیا ہے پس اگر دو کو بھی آدھا ہی دینے کا حکم کرنا مقصود ہوتا تو یہیں بیان ہو جاتا جب ایک کو الگ کر دیا تو معلوم ہوا کہ دو کا حکم وہی ہے جو دو سے زائد کا ہے واللہ اعلم ۔ پھر ماں باپ کا حصہ بیان ہو رہا ہے ان کے ورثے کی مختلف صورتیں ہیں ، ایک تو یہ کہ مرنے والے کی اولاد ایک لڑکی سے زیادہ ہو اور ماں باپ بھی ہوں تو تو انہیں چھٹا چھٹا حصہ ملے گا یعنی چھٹا حصہ ماں کو اور چھٹا حصہ باپ کو ، اگر مرنے والے کی صرف ایک لڑکی ہی ہے تو آدھا مال تو وہ لڑکی لے لے گی اور چھٹا حصہ ماں لے لے گی چھٹا حصہ باپ کو ملے گا اور چھٹا حصہ جو باقی رہا وہ بھی بطور عصبہ باپ کو مل جائے گا پس اس حالت میں باپ فرض اور تنصیب دونوں کو جمع کر لے گا یعنی مقررہ چھٹا حصہ اور بطور عصبہ بچت کا مال دوسری صورت یہ ہے کہ صرف ماں باپ ہی وارث ہوں تو ماں کو تیسرا حصہ مل جائے گا اور باقی کا کل ماں باپ کو بطور عصبہ کے مل جائے گا تو گویا دو ثلث مال اس کے ہاتھ لگے گا یعنی بہ نسبت مال کے دگنا باپ کو مل جائے گا اب اگر مرنے والی عورت کا خاوند بھی ہے مرنے والے مرد کی بیوی ہے یعنی اولاد نہیں صرف ماں باپ ہیں اور خاوند سے یا بیوی تو اس پر تو اتفاق ہے کہ خاوند کو آدھا اور بیوی کو پاؤ ملے گا ، پھر علماء کا اس میں اختلاف ہے کہ ماں کو اس صورت میں اس کے بعد کیا ملے گا ؟ تین قول ہیں ایک تو یہ کہ جو مال باقی رہا اس میں سے تیسرا حصہ ملے گا دونوں صورتوں میں یعنی خواہ عورت خاوند چھوڑ کر مری ہو خواہ مرد عورت چھوڑ کر مرا ہو اس لئے کہ باقی کا مال ان کی نسبت سے گویا کل مال ہے اور ماں کا حصہ باپ سے آدھا ہے تو اس باقی کے مال سے تیسرا حصہ یہ لے لے اور وہ تیسرے حصے جو باقی رہے وہ باپ لے لے گا حضرت عمر حضرت عثمان اور بہ اعتبار زیادہ صحیح روایت حضرت علی رضی اللہ عنہم کا یہی فیصلہ ہے ، حضرت ابن مسعود اور حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہما کا یہی قول ہے ، ساتوں فقہاء اور چاروں اماموں اور جمہور علماء کا بھی فتویٰ ہے دوسرا قول یہ ہے کہ ان دونوں صورتوں میں بھی ماں کو کل مال کا ثلث مل جائے گا ، اس لئے کہ آیت عام ہے خاوند بیوی کے ساتھ ہو تو اور نہ ہو تو عام طور پر میت کی اولاد نہ ہونے کی صورت میں ماں کو ثلث دلوایا گیا ہے ، حضرت ابن عباس کا یہی قول ہے ، حضرت علی اور حضرت معاذ بن جبل سے بھی اسی طرح مروی ہے ۔ حضرت شریح اور حضرت داؤد ظاہری بھی یہی فرماتے ہیں ، حضرت ابو الحسین بن لبان بصری بھی اپنی کتاب ایجاز میں جو علم فرائض کے بارے میں ہے اسی قول کو پسند کرتے ہیں ، لیکن اس قول میں نظر ہے بلکہ یہ قول ضعیف ہے کیونکہ آیت نے اس کا یہ حصہ اس وقت مقرر فرمایا ہے جبکہ کل مال کی وراثت صرف ماں باپ کو ہی پہنچتی ہو ، اور جبکہ زوج یا زوجہ سے اور وہ اپنے مقررہ حصے کے مستحق ہیں تو پھر جو باقی رہ جائے گا بیشک وہ ان دونوں ہی کا حصہ ہے تو اس میں ثلث ملے گا ، کیونکہ اس عورت کو کل مال کی چوتھائی ملے گی اگر کل مال کے بارہ حصے کئے جائیں تو تین حصے تو یہ لے گی اور چار حصے ماں کو ملے گا باقی بچے پانچ حصے وہ باپ لے لے گا لیکن اگر عورت مری ہے اور اس کا خاوند موجود ہے تو ماں کو باقی مال کا تیسرا حصہ ملے گا اگر کل مال کا تیسرا حصہ اس صورت میں بھی ماں کو دلوایا جائے تو اسے باپ سے بھی زیادہ پہنچ جاتا ہے مثلاً میت کے مال کے چھ حصے کئے تین تو خاوند لے گیا دو ماں لے گئی تو باپ کے پلے ایک ہی پڑے گا جو ماں سے بھی تھوڑا ہے ، اس لئے اس صورت میں چھ میں سے تین تو خاوند کو دئے جائیں گے ایک ماں کو اور دو باپ کو ، حضرت امام ابن سیرین رحمتہ اللہ علیہ کا یہی قول ہے ، یوں سمجھنا چاہئے کہ یہ قول دو قولوں سے مرکب ہے ، ضعیف یہ بھی ہے اور صحیح قول پہلا ہی ہے واللہ اعلم ، ماں باپ کے احوال میں سے تیسرا حال یہ ہے کہ وہ بھائیوں کے ساتھ ہوں خواہ وہ سگے بھائی ہوں یا صرف باپ کی طرف سے یا صرف ماں کی طرف سے تو وہ باپ کے ہوتے ہوئے اپنے بھائی کے ورثے میں کچھ پائیں گے نہیں لیکن ہاں ماں کو تہائی سے ہٹا کر چھٹا حصہ دلوائیں گے اور اگر کوئی اور وارث ہی نہ ہو اور صرف ماں کے ساتھ باپ ہی ہو تو باقی مال کل کا کل باپ لے لے گا اور بھائی بھی شریعت میں بہت سے بھائیوں کے مترادف ہیں جمہور کا یہی قول ہے ، ہاں حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ آپ نے ایک مرتبہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا کہ دو بھائی ماں کو ثلث سے ہٹا کر سدس تک نہیں لے جاتے قرآن میں اخوۃ جمع کا لفظ ہے دو بھائی اگر مراد ہوتے اخوان کہا جاتا خلیفہ ثالث نے جواب دیا کہ پہلے ہی سے یہ چلا آتا ہے اور چاروں طرف یہ مسئلہ اسی طرح پہنچا ہوا ہے تمام لوگ اس کے عامل ہیں میں اسے نہیں بدل سکتا ، اولاً تو یہ اثر ثابت ہی نہیں اس کے راوی حضرت شعبہ کے بارے میں حضرت امام مالک کی جرح موجود ہے پھر یہ قول ابن عباس کا نہ ہونے کی دوسری دلیل یہ ہے کہ خود حضرت ابن عباس کے خاص اصحاب اور اعلی شاگرد بھی اس کے خلاف ہیں حضرت زید فرماتے ہیں دو کو بھی اخوۃ کہا جاتا ہے ، الحمد للہ میں نے اس مسئلہ کو پوری طرح ایک علیحدہ رسالے میں لکھا ہے حضرت سعید بن قتادہ سے بھی اسی طرح مروی ہے ، ہاں میت کا اگر ایک ہی بھائی ہو تو ماں کو تیسرے حصے سے ہٹا نہیں سکتا ، علماء کرام کا فرمان ہے کہ اس میں حکمت یہ ہے کہ میت کے بھائیوں کی شادیوں کا اور کھانے پینے وغیرہ کا کل خرچ باپ کے ذمہ ہے نہ کہ ماں کے ذمے اس لئے متقضائے حکمت یہی تھا کہ باپ کو زیادہ دیا جائے ، یہ توجیہ بہت ہی عمدہ ہے ، لیکن حضرت ابن عباس سے بہ سند صحیح مروی ہے کہ یہ چھٹا حصہ جو ماں کا کم ہو گیا انہیں دیدیا جائے گا یہ قول شاذ ہے امام ابن جریر فرماتے ہیں حضرت عبداللہ کا یہ قول تمام امت کے خلاف ہے ، ابن عباس کا قول ہے کہ کلالہ اسے کہتے ہیں جس کا بیٹا اور باپ نہ ہو ۔ پھر فرمایا وصیت اور قرض کے بعد تقسیم میراث ہو گی ، تمام سلف خلف کا اجماع ہے کہ قرض وصیت پر مقدم ہے اور فحوائے آیت کو بھی اگر بغور دیکھا جائے تو یہی معلوم ہوتا ہے ، ترمذی وغیرہ میں ہے حضرت علی بن ابو طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں تم قرآن میں وصیت کا حکم پہلے پڑھتے ہو اور قرض کا بعد میں لیکن یاد رکھنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرض پہلے ادا کرایا ہے ، پھر وصیت جاری کی ہے ، ایک ماں زاد بھائی آپس میں وارث ہوں گے بغیر علاتی بھائیوں کے ، آدمی اپنے سگے بھائی کا وارث ہوگا نہ اس کا جس کی ماں دوسری ہو ، یہ حدیث صرف حضرت حارث سے مروی ہے اور ان پر بعض محدثین نے جرح کی ہے ، لیکن یہ حافظ فرائض تھے اس علم میں آپ کو خاص دلچسپی اور دسترس تھی اور حساب کے بڑے ماہر تھے واللہ اعلم ۔ پھر فرمایا کہ ہم نے باپ بیٹوں کو اصل میراث میں اپنا اپنا مقررہ حصہ لینے والا بنایا اور جاہلیت کی رسم ہٹا دی بلکہ اسلام میں بھی پہلے بھی ایسا ہی حکم تھا کہ مال اولاد کو مل جاتا ماں باپ کو صرف بطور وصیت کے ملتا تھا جیسے حضرت ابن عباس سے پہلے بیان ہو چکا یہ منسوخ کر کے اب یہ حکم ہوا تمہیں یہ نہیں معلوم کہ تمہیں باپ سے زیادہ نفع پہنچے گا یا اولاد نفع دے گی امید دونوں سے نفع کی ہے یقین کسی پر بھی ایک سے زیادہ نہیں ، ممکن ہے باپ سے زیادہ بیٹا کام آئے اور نفع پہنچائے اور ممکن ہے بیٹے سے زیادہ باپ سے نفع پہنچے اور وہ کام آئے ، پھر فرماتا ہے یہ مقررہ حصے اور میراث کے یہ احکام اللہ کی طرف سے فرض ہیں اس میں کسی کمی پیشی کی کسی امید یا کسی خوف سے گنجائش نہیں نہ کسی کو محروم کر دینا لائق سے نہ کسی کو زیادہ دلوا دینا ، اللہ تعالیٰ علیم و حکیم ہے جو جس کا مستحق ہے اسے اتنا دلواتا ہے ہر چیز کی جگہ کو وہ بخوبی جانتا ہے تمہارے نفع نقصان کا اسے پورا علم ہے اس کا کوئی کام اور کوئی حکم حکمت سے خالی نہیں تمہیں چاہئے کہ اس کے احکام اس کے فرمان مانتے چلے جاؤ ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

11۔ 1 ورثا میں لڑکی اور لڑکے دونوں ہوں تو پھر اس اصول کے مطابق تقسیم ہوگی۔ لڑکے چھوٹے ہوں یا بڑے اسی طرح لڑکیاں چھوٹی ہوں یا بڑی سب وارث ہونگی۔ حتٰی کہ (ماں کے پیٹ میں زیر پرورش بچہ) بھی وارث ہوگا۔ البتہ کافر کی اولاد وارث نہ ہوگی۔ 11۔ 2 یعنی بیٹا کوئی نہ ہو تو مال کا دو تہائی دو سے زائد لڑکیوں کو دیئے جائیں گے اور اگر صرف دو ہی لڑکیاں ہوں، تب بھی انہیں دو تہائی حصہ ہی دیا جائے گا۔ جیسا کہ حدیث میں آتا ہے۔ کہ سعد بن ربیع (رض) احد میں شہید ہوگئے اور ان کی 2 لڑکیاں تھیں۔ مگر سعد کے سارے مال پر ان کے بھائی نے قبضہ کرلیا تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان دونوں لڑکیوں کو ان کے چچا سے دو تہائی مال دلوایا (ترمذی، ابو داؤد ابن ماجہ، کتاب الفرائض) علاوہ ازیں سورة نساء کے آخر میں بتلایا گیا ہے کہ اگر کسی مرنے والے کی وارث صرف دو بہنیں ہوں تو ان کے لیے بھی دو تہائی حصہ ہے لہذا جب دو بہنیں دو تہائی مال کی وارث ہوں گی تو دو بیٹیاں بطریق اولیٰ دو تہائی مال کی وارث ہوں گی جس طرح دو بہنوں سے زیادہ ہونے کی صورت میں انہیں دو سے زیادہ بیٹیوں کے حکم میں رکھا گیا ہے (فتح القدیر) خلاصہ مطلب یہ ہوا کہ دویا دو سے زائد لڑکیاں ہوں تو دونوں صورتوں میں مال متروکہ سے دو تہائی لڑکیوں کا حصہ ہوگا۔ باقی مال عصبہ میں تقسیم ہوگا۔ 11۔ 3 ماں باپ کے حصے کی تین صورتیں بیان کی گئی ہیں۔ پہلی صورت کہ مرنے والے کی اولاد بھی ہو تو مرنے والے کے ماں باپ میں سے ہر ایک کو چھٹا حصہ ملے گا اور باقی دو تہائی مال اولاد پر تقسیم ہوجائے گا مرنے والے کی اگر صرف ایک بیٹی ہو تو نصف مال (یعنی چھ حصوں میں سے تین حصے بیٹی کے ہونگے اور ایک چھٹا حصہ ماں کو اور ایک چھٹا حصہ باپ کو دینے کے بعد مذید ایک چھٹا حصہ باقی بچ جائے گا اس لئے بچنے والا یہ چھٹا حصہ بطور سربراہ باپ کے حصہ میں جائے گا۔ یعنی اس صورت میں باپ کو دو چھٹے حصے ملیں گے۔ ایک باپ کی حیثیت سے اور دوسرے، سربراہ ہونے کی حیثیت سے۔ 11۔ 4 یہ دوسری صورت ہے کہ مرنے والے کی اولاد نہیں ہے (یاد رہے کہ پوتا پوتی بھی اولاد میں شامل ہیں) اس صورت میں ماں کے لئے تیسرا حصہ اور باقی دو حصے (جو ماں کے حصے میں دو گنا ہیں) باپ کو بطور عصبہ ملیں گے اور اگر ماں باپ کے ساتھ مرنے والے مرد کی بیوی یا مرنے والی عورت کا شوہر بھی زندہ ہے تو راجح قول کے مطابق بیوی یا شوہر کا حصہ (جس کی تفصیل آرہی ہے) نکال کر باقی ماندہ مال میں سے ماں کے لئے تیسرا حصہ اور باقی باپ کے لئے ہوگا۔ 11۔ 5 تیسری صورت یہ ہے کہ ماں باپ کے ساتھ مرنے والے کے بھائی بہن زندہ ہیں۔ وہ بھائی چاہے سگے یعنی ایک ہی ماں باپ کی اولاد ہوں اور اگر اولاد بیٹا یا بیٹی اگر الگ باپ سے ہوں تو وراثت کے حقدار نہیں ہونگے۔ لیکن ماں کے لئے حجب (نقصان کا سبب) بن جائیں گے یعنی جب ایک سے زیادہ ہونگے تو مال کے (تیسرے حصے) کو چھ حصوں میں تبدیل کردیں گے۔ باقی سارا مال (5 6) باپ کے حصے میں چلا جائے گا بشرطیکہ کوئی اور وارث نہ ہو۔ حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ جمہور کے نزدیک دو بھائیوں کا بھی وہی حکم ہے جو دو سے زیادہ بھائیوں کا مذکور ہوا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر ایک بھائی یا بہن ہو تو اس صورت میں مال میں ماں کا حصہ ثلث برقرار رہے گا وہ سدس میں تبدہل نہیں ہوگا۔ (تفسی ابن کثیر) 11۔ 6 اس لئے تم اپنی سمجھ کے مطابق وراثت تقسیم مت کرو، بلکہ اللہ کے حکم کے مظابق جس کا جتنا حصہ مقرر کردیا گیا ہے، وہ ان کو دے دو ۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٧] اس سورة کی آیت نمبر ١١، اور ١٢ میں میراث، وصیت اور قرضہ کے جو احکام بیان ہوئے ہیں۔ انہیں ہم سہولت کی خاطر نئی ترتیب سے پیش کرتے ہیں اور احادیث کے حوالوں کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔- خ علم میراث یا علم الفرائض کی اہمیت - ١۔ آپ نے فرمایا (علم) الفرائض اور قرآن خود سیکھو اور لوگوں کو سکھلاؤ اس لیے کہ میں وفات پانے والا ہوں (ترمذی : ابو اب الفرائض، باب فی تعلیم الفرائض)- ٢۔ وصیت اور وراثت کے احکام :۔ آپ نے فرمایا علم تین ہیں اور ان کے سوا جو کچھ ہے وہ فضل ہے۔ آیات محکمات کا علم، سنت قائمہ اور انصاف کے ساتھ ورثہ کی تقسیم۔ (دار قطنی، ابن ماجہ، حاشیہ حدیث ترمذی مذکورہ بالا)- قرضہ کی ادائیگی : قرضہ کی ادائیگی کا ذکر اگرچہ وصیت کے بعد مذکور ہے تاہم میت پر قرضہ کے بوجھ کے متعلق احادیث صحیحہ میں جو وعید آئی ہے اس کی بنا پر امت کا اجماع ہے کہ تقسیم میراث کے وقت سب سے پہلے قرضہ کی ادائیگی ضروری ہے۔ اگر بیوی کا حق مہر ادا نہ ہوا ہو تو وہ بھی قرضہ ہے اگر میت پر حج فرض ہوچکا ہو مگر کسی وجہ سے کر نہ پایا ہو۔ یا اس نے منت مانی ہو تو اس قسم کے اخراجات تقسیم میراث اور وصیت پر عمل سے پہلے نکالے جائیں گے۔- خ وصیت کے احکام۔۔ وصیت کی تحریر - ٣۔ آپ نے فرمایا اگر کوئی شخص وصیت کرنا چاہتا ہو تو اسے دو راتیں بھی اس حال میں نہ گزارنا چاہئیں کہ وصیت اس کے پاس لکھی ہوئی موجود نہ ہو۔ (مسلم۔ کتاب الوصیۃ)- ٤۔ وصیت کی آخری حد ایک تہائی مال تک :۔ وارث کے حق میں وصیت جائز نہیں۔ آپ نے خطبہ حجۃ الوداع کے دوران فرمایا۔ اللہ عزوجل نے ہر صاحب حق کا حق مقرر کردیا لہذا اب وارث کے حق میں وصیت جائز نہیں (ترمذی، ابو اب الوصایا باب لا وصیہ لوارث) اسی طرح وصیت کی آخری حد ایک تہائی مال سے زیادہ نہیں ہے۔- ٥۔ سیدنا سعد بن ابی وقاص (رض) فرماتے ہیں کہ میں مکہ میں بیمار ہوا اور مرنے کے قریب ہوگیا۔ نبی اکرم میری عیادت کو تشریف لائے۔ میں نے کہا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے پاس مال بہت ہے اور ایک بیٹی کے سوا میرا کوئی وارث نہیں۔ کیا میں اپنا مال (اللہ کی راہ میں) دے دوں ؟ آپ نے فرمایا نہیں پھر میں نے کہا دو تہائی دے دوں ؟ آپ نے فرمایا نہیں پھر میں نے کہا نصف دے دوں ؟ فرمایا نہیں۔ پھر میں نے پوچھا تہائی دے دوں ؟ فرمایا تہائی دے سکتے ہو اور یہ بھی بہت ہے۔ پھر فرمایا گر تم اپنی اولاد کو مالدار چھوڑ جاؤ تو یہ اس سے بہتر ہے کہ تم انہیں محتاج چھوڑ جاؤ اور وہ لوگوں سے مانگتے پھریں۔ بیشک جو مال تم اللہ کی راہ میں خرچ کرو گے تمہیں اس کا اجر ملے گا۔ حتیٰ کہ اس نوالہ پر بھی جو تم اپنی بیوی کے منہ میں دو گے۔ (بخاری، کتاب الفرائض، باب میراث البنات۔ نیز مسلم : کتاب الوصیۃ، باب وصیۃ بالثلث)- ٦۔ سیدنا عبداللہ بن عباس (رض) فرماتے ہیں۔ کاش لوگ تہائی سے کم کر کے چوتھائی کی وصیت کریں۔ کیونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ تہائی بھی بہت ہے۔ اور وکیع کی روایت میں کثیر اور کبیر کے الفاظ ہیں۔ (مسلم، کتاب الوصیہ)- ٧۔ قاتل مقتول کا وارث نہیں ہوتا۔ آپ نے فرمایا : قاتل مقتول کا وارث نہیں ہوسکتا۔ (ترمذی، ابو اب الفرائض باب فی ابطال میراث القاتل)- ٨۔ کافر مسلمان کا اور مسلمان کافر کا وارث نہیں ہوتا۔ آپ نے فرمایا : کافر یا مرتد مسلمان کا اور مسلمان کافر کا وارث نہیں ہوسکتا۔ (بخاری، کتاب الفرائض۔ باب لایرث المسلم الکافر۔۔ مسلم، کتاب الفرائض)- میراث کی تقسیم سے متعلقہ احکام نازل ہونے سے پہلے مسلمانوں پر وصیت فرض کی گئی تھی کہ وہ اپنی موت سے پہلے اپنے والدین اور دوسرے اقرباء کے متعلق وصیت کر جائیں کہ انہیں میت کی جائیداد سے کتنا کتنا حصہ دیا جائے۔ پھر میت کی وصیت میں اگر کوئی شخص گڑ بڑ کرنے کی کوشش کرے گا تو اس کا بار گناہ انہی لوگوں پر ہوگا جو اس کی وصیت میں تبدیلی کریں گے۔ ہاں اگر کسی قریبی کو یہ خطرہ لاحق ہوجائے کہ وصیت کرنے والے نے جانبداری سے کام لیا ہے یا حصوں کی تقسیم کے متعلق انصاف کے ساتھ وصیت نہیں کی۔ اور ایسے غلط وصیت کردہ حصوں میں اصلاح کر دے (یعنی تبدیلی کرنے - والے کی نیت بخیر ہو اور خودغرضی پر منحصر نہ ہو) تو اسے ایسی تبدیلی کرنے پر کچھ گناہ نہ ہوگا ( سورة بقرہ کی - آیات نمبر ١٨٠ تا ١٨٢ کا ترجمہ)- پھر جب اللہ تعالیٰ نے سورة نساء میں خود ہی والدین اوراقرباء کے حصے مقرر فرما دیئے (جسے علم الفرائض یا علم میراث کی اصطلاح میں ذوی الفروض یا ذوی الفرائض کہتے ہیں) تو ان آیات میراث کی رو سے وصیت کی فرضیت ختم ہوگئی۔ بالفاظ دیگر وصیت کی فرضیت کا حکم منسوخ ہوگیا۔ اور اب وصیت کی حیثیت فرض کے بجائے محض اختیاری رہ گئی۔ یعنی اگر کوئی شخص وصیت کرنا چاہے تو کرسکتا ہے اور اگر نہ کرے یا کر ہی نہ سکے تو بھی کوئی حرج نہیں۔ البتہ اس وصیت پر سنت نبویہ کی رو سے دو پابندیاں لگا دی گئیں۔ ایک یہ کہ کوئی شخص اپنے تہائی مال سے زیادہ کی وصیت نہیں کرسکتا اور دوسرے یہ کہ وصیت ذوی الفروض کے حق میں نہیں کی جاسکتی جیسا کہ مندرجہ بالا احادیث میں ان دونوں باتوں کی وضاحت آگئی ہے۔ اور ان دونوں پابندیوں کی غرض وغایت یہ ہے کہ اس طرح اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ حصوں میں گڑبڑ اور بےانصافی ہوجاتی ہے۔- گویا آپ کو پہلی شکایت یہ ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تہائی مال کی پابندی کیوں لگائی ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ بات تو قرآن سے ثابت ہے کہ وراثت کے اصل حقدار والدین اوراقربین ہیں اور ان کے حصے اللہ نے خود مقرر کردیئے جو غیر متبدل ہیں۔ پھر کوئی شخص سارے مال کی وصیت کیسے کرسکتا ہے ؟ سوچنے کی بات ہے کہ وصیت میں اصلاح کا حق اگر کسی دوسرے شخص کو دیا جاسکتا ہے جیسا کہ سورة بقرہ کی مذکورہ بالا آیت ١٨٢ سے ثابت ہے تو آخر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کیوں نہیں دیا جاسکتا۔- اور وارثوں کے حق میں وصیت کی نفی بھی قرآن سے ثابت ہے کیونکہ یہ دوسرے حقداروں کے حق پر اثرانداز ہوتی ہے اور یہی وہ جانبداری یا ناانصافی کی بات ہے جس کا ذکر سورة بقرہ کی مندرجہ بالا آیات میں آیا ہے۔- پھر فرماتے ہیں کہ : آپ اس کا خیال بھی کرسکتے ہیں کہ قرآن کریم وصیت کو فرض قرار دے اور بلا مشروط یعنی پورے مال میں وصیت کا حق دے اور رسول اللہ یہ فرمائیں کہ نہیں وصیت ایک تہائی مال میں ہوسکتی ہے اور وہ بھی غیر وارثین کے لیے۔ خدا کے حکم میں ایسا رد و بدل یقینا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شان کے خلاف ہے جن کا ایک ایک سانس قرآن کی اتباع میں گزرا (قرآنی فیصلے (رض) ١١١)- اب دیکھئے پرویز صاحب کو کبھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شان کا خیال آتا ہے اور کبھی مسلمانوں کی روایت پرستی کا۔ مگر انہیں یہ خیال کبھی بھولے سے بھی نہیں آتا کہ کہیں میری قرآنی بصیرت ہی کسی ٹیڑھے راستے پر تو نہیں چل نکلی ؟ اور اس قرآنی بصیرت کا نتیجہ یہ نکلا کہ آپ نے وصیت اور ترکہ کے الگ الگ احکام کو یوں گڈ مڈ کردیا کہ دونوں کا جنازہ نکال دیا۔ اور ان کا اپنا موقف یہ ہے کہ میت کو اپنی جائیداد و اموال کی تقسیم میں پورا پورا اختیار ہے کہ وہ اپنے مصالح و مقتضیات کے مطابق جسے جی چاہے اور جتنا جی چاہے دے۔ ہاں اگر پھر بھی وصیت اور قرضہ کی ادائیگی کے بعد کچھ بچ جائے تو وہ تقسیم ہوگا اور اگر نہیں بچتا تو نہ سہی (ایضاً ص ١٠٩) لہذا اب ہم ایک دوسرے انداز سے قرآن ہی سے یہ ثابت کریں گے کہ پرویز صاحب کا یہ موقف قرآن کے صریحاً خلاف ہے۔ نیز یہ کہ محولہ بالا دونوں احادیث قرآن کے عین مطابق ہیں آپ کے موقف کا پہلا حصہ یہ ہے کہ میت جسے چاہے دے دے۔ اس جسے چاہے میں سے والدین اوراقربین کو بہرحال خارج کرنا پڑے گا۔ یعنی جسے چاہے کا اطلاق غیر وارثوں پر ہی ہوسکتا ہے۔ اس لیے کہ والدین اوراقربین کے حصے تو اللہ نے خود مقرر کردیئے ہیں۔ لہذا وارثوں کے حق میں وصیت کی ضرورت ختم ہوگئی۔ اور اگر کوئی شخص وارثوں کے مقررہ حصوں کے بعد کسی وارث کے حق میں وصیت کرے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ اللہ کے مقررہ کردہ حصوں سے مطمئن نہیں، نہ ہی اسے اللہ کے علم و حکمت پر کچھ اعتماد ہے۔ ایسا شخص اگر کسی وارث کے حق میں وصیت کر کے اللہ کے مقرر کردہ حق میں اضافہ کرتا ہے تو اس کا لامحالہ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ دوسرے وارثوں کے حصوں میں اسی نسبت سے کمی واقع ہوگی اور اگر کسی کے حصہ میں کمی کرتا ہے یا اس کا حصہ ختم کرتا ہے تو ایسی وصیت باطل قرار پائے گی۔ کیونکہ ایسی وصیت سورة بقرہ کی آیت نمبر ١٨١ کی رو سے (جَنَفًا اَوْ اِثْمًـا ١٨٢؁ۧ) 2 ۔ البقرة :182) کے ضمن میں آتی ہے جس کی اصلاح کردینا ازروئے قرآن نہایت ضروری ہے۔- علاوہ ازیں جو شخص وارثوں کے حق میں کچھ وصیت کرتا ہے تو یہ وصیت خواہ کمی کی ہو یا بیشی کی یا تو آبائی جانب یعنی والدین کے متعلق ہوگی یا ابنائی جانب یعنی اولاد کے متعلق ہوگی اور ان دونوں کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :- (لَا تَدْرُوْنَ اَيُّھُمْ اَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعًا ۭ فَرِيْضَةً مِّنَ اللّٰهِ ۭاِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِيْمًا حَكِـيْمًا 11 ؀) 4 ۔ النسآء :11)- تم نہیں جانتے کہ فائدہ کے لحاظ سے تمہارے باپ داداؤں اور بیٹوں پوتوں میں سے کون تم سے نفع کے لحاظ سے زیادہ قریب ہے۔ یہ حصے اللہ کے مقرر کردہ ہیں اور اللہ سب کچھ جاننے والا اور حکمت والا ہے۔- اگر کوئی شخص وارثوں کے حق میں اللہ کے مقرر کردہ حصوں کے علی الرغم وصیت کرتا ہے تو وہ صرف اس آیت کی خلاف ورزی ہی نہیں کرتا بلکہ اللہ کے علم و حکمت کو بھی چیلنج بھی کرتا ہے۔ اور (لَا تَدْرُوْنَ اَيُّھُمْ اَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعًا ۭ فَرِيْضَةً مِّنَ اللّٰهِ ۭاِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِيْمًا حَكِـيْمًا 11 ؀) 4 ۔ النسآء :11) کو بھی۔- ان قرآنی دلائل سے واضح طور پر یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ وارثوں کے حق میں وصیت کرنا قرآن کے منشا کے خلاف ہے نیز پرویز صاحب کا یہ نظریہ کہ جتنا چاہے دے دے کے زمرہ سے وارثوں کو بہرحال خارج کرنا ہی پڑے گا۔- اب پرویز صاحب کے موقف کے دوسرے حصہ جتنا چاہے دے دے کی طرف آئیے۔ سورة بقرہ کی آیت ١٨٠ کی رو سے والدین اوراقربون کے لیے وصیت فرض قرار دی گئی اور سورة نساء کی آیت نمبر ١١ کی رو سے اللہ تعالیٰ نے خود ہی والدین اوراقربوں کا حصہ مقرر فرما دیا۔ جس سے واضح ہوتا ہے کہ تقسیم ورثہ کے وقت والدین اوراقربون کو کسی صورت میں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ان دونوں کے نتائج کو ملانے سے نتیجہ یہ نکلا کہ کوئی شخص اپنا سارا مال غیر وارثین کے لیے وصیت نہیں کرسکتا۔ وہ جتنا جی چاہے مال نہیں دے سکتا۔ بلکہ مال کا کچھ حصہ ہی وصیت کے ذریعہ دے سکتا ہے اور وہ بھی صرف غیر وارثوں کو دے سکتا ہے وارثوں کو نہیں۔- اب رہی یہ بات کہ میت اپنے مال کا کچھ حصہ جو وصیت کرسکتا ہے وہ کیا ہونا چاہیے تو قرآن کے دونوں مقامات کے مطالعہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ متروکہ مال کے اصل حقدار والدین اوراقربون ہی ہیں۔ لہذا مال کا زیادہ تر حصہ انہیں ہی ملنا چاہیے اور کم تر حصہ ایسا ہونا چاہیے جو میت اپنے اختیار سے کسی غیر وارث کو بذریعہ وصیت دے سکتا ہے۔- اب اس کم تر حصہ کی تحدید فی الواقع قرآن میں مذکور نہیں بلکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بتلایا کہ یہ کم تر حصہ زیادہ سے زیادہ ایک تہائی مال تک ہے اس سے زیادہ حصہ کی وصیت کی جائے گی تو یہ (جَنَفًا اَوْ اِثْمًـا ١٨٢؁ۧ) 2 ۔ البقرة :182) کے ضمن میں آئے گی جس میں رد و بدل اور ترمیم کی جاسکتی ہے اور اس اصلاح کا حق اللہ تعالیٰ نے ہر مصلح کو دیا ہے۔ اور پرویز صاحب یہ حق میت کی موجودگی میں جماعت کو اور میت کی موت کے بعد اسلامی عدالت کو دیتے ہیں (قرآنی فیصلے ص ١١٠) اور یہ بات تو شاید طلوع اسلام بھی تسلیم کرے گا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی امت کے سب سے بڑے مصلح، ہمدرد اور خیر خواہ بھی تھے اور اسلامی عدالت بھی۔ پھر اگر آپ کی یہ تحدید با اعتماد ذرائع سے درست ثابت ہوجائے اور یہ تحدید قرآن کے خلاف بھی نہ ہو بلکہ اس قاعدہ کے مطابق ہو کہ آپ کو قرآن کے مجمل احکام کی تفسیر و تعیین کا حق بھی قرآن ہی نے دیا ہو تو پھر معلوم نہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ایسی متعین کی ہوئی حد کو تسلیم کرنے میں طلوع اسلام کو کیا اعتراض ہوسکتا ہے ؟ اور وہ اس بات کا واویلا کرنے میں کیسے حق بجانب سمجھا جاسکتا ہے کہ یہ احادیث قرض کے صریحاً خلاف ہیں۔- واضح رہے کہ مسلمانوں کی اکثریت، جو سنت رسول کو حجت تسلیم کرتی ہے، کے عقیدہ کے مطابق رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ تحدید وحی خفی کے ذریعہ فرمائی تھی جو (بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ 90۝) 2 ۔ البقرة :90) میں شامل ہوتی ہے۔- [١٨] قرآن میں مذکور وراثت کے حصے :۔ سب سے پہلے اولاد کے حصوں کا ذکر کیا گیا اور اس میں یہ کلیہ بیان کیا گیا کہ ہر لڑکے کا حصہ لڑکی سے دگنا ہوگا۔ یہ اس لیے کہ اسلام نے معاشی ذمہ داریوں کا بوجھ مرد پر ڈالا اور عورت کو اس سے سبکدوش کردیا ہے اور جب مرد کمانے کے قابل نہیں رہتا مثلاً باپ، دادا وغیرہ تو اس کا حصہ عورت یعنی ماں، دادی وغیرہ کے برابر ہوتا ہے۔- [١٩] اگر اولاد میں صرف لڑکیاں ہی ہوں تو اگر ایک لڑکی ہو تو اسے آدھا ترکہ ملے گا۔ دو یا دو سے زیادہ ہوں تو دو تہائی۔ اور یہ عورتوں کے حصہ کی آخری حد ہے۔- شیعہ حضرات کی طرف سے سیدنا ابوبکر (رض) اور سیدنا عمر (رض) کو مطعون کرنے کے سلسلہ میں ایک یہ اعتراض بھی کیا جاتا ہے کہ سیدہ فاطمہ (رض) نے سیدنا ابوبکر (رض) سے اپنے باپ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ترکہ سے وراثت کا حصہ مانگا تو سیدنا ابوبکر (رض) نے انہیں بموجب حکم قرآن نصف حصہ ترکہ کا دینے سے انکار کردیا۔ اسی طرح سیدنا عمر (رض) کے دور خلافت میں سیدنا علی (رض) نے سیدہ فاطمہ کی طرف سے یہی حصہ مانگا تو انہوں نے بھی انکار کردیا لہذا یہ دونوں غاصب ہیں۔ جس طرح انہوں نے سیدنا علی (رض) سے حق خلافت غصب کیا تھا اسی طرح سیدہ فاطمہ کا حق وراثت غصب کیا تھا۔- اس اعتراض میں حق خلافت کے غصب کا جواب تو ہم آگے چل کر اسی سورة کی آیت نمبر ٥٤ کے حاشیہ میں دیں گے اور حق وراثت کا جواب دے رہے ہیں۔- آپ کی وراثت :۔ واضح رہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حیثیتیں دو تھیں : ایک شخصی یا ذاتی اور دوسری بحیثیت رسول اور فرمانروائے ریاست اسلامی۔ لہذا ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ ان دو حیثیتوں کے لحاظ سے آپ کا ترکہ کیا تھا اور ان سے متعلق آپ نے کیا احکام صادر فرمائے تھے۔ ذاتی حیثیت سے ترکہ اور اس کے احکام سے متعلق درج ذیل احادیث ملاحظہ فرمایئے :- ١۔ عمرو بن حارث کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کوئی دینار (بطور ترکہ) چھوڑا اور نہ درہم۔ نہ کوئی غلام اور نہ لونڈی۔ صرف ایک سفید خچر چھوڑا جس پر آپ سواری کرتے تھے یا کچھ جنگی ہتھیار تھے اور جو زمین تھی وہ آپ مسافروں کے لیے صدقہ کر گئے تھے۔ (بخاری، کتاب الفرائض، باب قول النبی لا نورث ماترکنا صدقۃ)- ٢۔ سیدہ عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات ہوئی تو آپ کی زرہ (ابو الشحم) یہودی کے پاس تیس صاع جو کے عوض گروی رکھی ہوئی تھی۔ (بخاری، کتاب الجہاد والسیر، باب ما قیل فی درع النبی )- ٣۔ سیدنا انس (رض) کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس جو کی روٹی اور کچھ باسی چربی لے گیا اس وقت آپ کی یہ حالت تھی کہ آپ نے اپنی زرہ مدینہ کے ایک یہودی کے پاس گروی رکھی ہوئی تھی اور اس سے اپنی بیویوں کے لیے جو لیے تھے۔ اور میں نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا آپ فرماتے تھے کہ محمد کے گھر والوں کے پاس کبھی شام کو ایک صاع گیہوں یا غلہ جمع نہیں رہا۔ حالانکہ اس وقت آپ کے پاس نو بیویاں تھیں۔ (بخاری، کتاب البیوع، باب شری النبی النسیئۃ) - آپ کی وراثت کے تین مدعی ان احادیث سے معلوم ہوگیا کہ آپ کا ذاتی ترکہ کچھ بھی نہ تھا۔ باقی اموال فے ہی رہ جاتے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ اختیار دیا تھا کہ آپ اپنی صوابدید کے مطابق ان اموال کو جیسے چاہیں اور جہاں چاہیں صرف کریں۔ ان اموال میں ایک تو فدک کا باغ تھا، دوسرے کچھ خیبر کی زمین اور کچھ زمین مدینہ کی بھی تھی۔ جس کا کوئی مالک نہ تھا اور وہ سرکاری تحویل میں تھی۔ ان اموال میں سے ایک تو آپ اپنی بیویوں کا سالانہ خرچہ رکھ لیتے تھے۔ وہ بھی بڑی کفایت شعاری کے ساتھ۔ کچھ اپنے نادار اقربا میں تقسیم کرتے تھے۔ کچھ جہاد کے اخراجات اور رفاہ عامہ کے کاموں میں خرچ فرماتے۔ گویا یہ بیت المال کی ملکیت ہوتی تھی۔ یہی وہ اموال تھے جن کے متعلق ورثاء نے سیدنا ابوبکر (رض) اور پھر سیدنا عمر (رض) کے ہاں دعویٰ کیا تھا اور مدعی تین فریق تھے۔ ایک سیدہ فاطمہ جن کا آیت میراث کی رو سے ٢ ١ حصہ بنتا تھا۔ دوسرے آپ کی بیویاں، جن کا ٨ ١ حصہ بنتا تھا اور تیسرے آپ کے چچا سیدنا عباس (رض) جن کا بطور عصبہ باقی یعنی ٨ ٣ حصہ بنتا تھا۔ اب ان سے متعلق درج ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیے :- ١۔ سیدہ عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ آپ کی وفات کے بعد سیدہ فاطمہ نے سیدنا ابوبکر صدیق (رض) سے اس ترکے سے حصہ مانگا جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو بطور فے عطا فرمائے تھے۔ ابوبکر صدیق (رض) نے جواب دیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ ہم پیغمبروں کا کوئی وارث نہیں ہوتا۔ جو کچھ ہم چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے۔ اس بات پر سیدہ فاطمہ ناراض ہو کر چلی گئیں۔ پھر سیدہ فاطمہ نے اپنی وفات تک ابوبکر (رض) سے ملاقات نہ کی اور آپ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد چھ ماہ زندہ رہیں۔ آپ باغ فدک، خیبر اور مدینہ کی زمینوں سے اپنا حصہ مانگتی تھیں تو سیدنا ابوبکر (رض) نے یہ جواب دیا کہ میں کوئی بات چھوڑنے والا نہیں جو آپ کیا کرتے تھے۔ ان اموال کی تقسیم جیسے آپ کیا کرتے تھے۔ میں ویسے ہی کرتا رہوں گا اور میں اس بات سے ڈرتا ہوں کہ آپ کی کوئی بات چھوڑ کر گمراہ نہ ہوجاؤں۔ (بخاری، کتاب الجہاد، باب فرض الخمس)- ٢۔ اور ایک دوسری حدیث کے مطابق جو سیدہ عائشہ (رض) ہی سے مروی ہے۔ سیدہ فاطمہ اور سیدنا عباس (رض) دونوں نے سیدنا ابوبکر (رض) سے اموال فے کے ترکہ میں حصہ کا مطالبہ کیا اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہ الگ الگ مواقع ہوں۔ اور سیدنا ابوبکر (رض) نے ان دونوں کو وہی جواب دیا جو مندرجہ بالا حدیث میں مذکور ہے۔ (بخاری، کتاب المغازی۔ باب حدیث بنی نضیر و مخرج رسول اللہ الیھم)- ٣۔ سیدہ عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیویوں نے سیدنا عثمان (رض) کو سیدنا ابوبکر صدیق (رض) کے پاس بھیجا اور وہ اموال فے میں سے اپنا آٹھواں حصہ مانگتی تھیں۔ میں نے انہیں منع کیا اور کہا تمہیں اللہ کا خوف نہیں۔ کیا تم یہ نہیں جانتیں کہ آپ فرمایا کرتے تھے کہ ہم پیغمبروں کا کوئی وارث نہیں ہوتا ہم جو کچھ چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے۔ چناچہ آپ کی بیویاں ترکہ مانگنے سے باز آگئیں۔ (بخاری کتاب المغازی۔ باب حدیث بنی نضیر و مخرج رسول اللہ الیھم)- مندرجہ بالا تین احادیث تو دور صدیقی سے متعلق ہیں۔ اور دور فاروقی میں مدعی صرف دو تھے۔ ایک سیدنا علی (رض) اپنی زوجہ سیدہ فاطمہ کی طرف سے اور دوسرے سیدنا عباس (رض) عصبہ کی حیثیت سے۔ ان دونوں نے اموال فے سے ترکہ کا مطالبہ کیا تو سیدنا عمر (رض) نے دلائل دینے کے بعد کہا کہ میں یہ اموال صرف اس شرط پر آپ کے حوالہ کرسکتا ہوں کہ تم ان کے متولی بن کر رہو اور اسی طرح تقسیم کرو جس طرح رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تقسیم فرمایا کرتے تھے۔ یہ بات ان دونوں نے تسلیم نہ کی۔ پھر دوسری بار گئے تو بھی سیدنا عمر (رض) نے وہی جواب دیا تو ان دونوں حضرات نے اس مرتبہ تولیت کی شرط قبول کرلی اور سیدنا عمر (رض) نے یہ اموال ان کی تحویل میں دے دیئے اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ اگر تم نے یہ شرط پوری نہ کی تو میں پھر یہ اموال اپنی تحویل میں لے لوں گا۔- پھر عملاً یہ ہوا کہ سیدنا علی (رض) ہی بطور متولی ان اموال پر قابض ہوگئے اور سیدنا عباس (رض) کو نزدیک نہ آنے دیا۔ پھر سیدنا علی (رض) کے بعد یہ امام حسن (رض) کے، پھر ان کے بعد امام حسین (رض) کے، پھر ان کے بعد امام زین العابدین علی بن حسین اور پھر حسن بن حسن (حسن مثنیٰ ) دونوں کے قبضے میں رہے اور وہ باری باری اس کا انتظام کرتے رہے۔ پھر زید بن حسن بن علی (ان کے بھائی) کے پاس رہے اور ہر شخص کے پاس اسی طریق سے رہا کہ یہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا صدقہ ہے (یعنی یہ حضرات متولی بن کر رہے۔ مالک بن کر نہیں رہے) اب ہم ایک طویل حدیث سے اقتباس پیش کرتے ہیں جو ان جملہ امور پر روشنی ڈالتی ہے :- فی الحقیقت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا صدقہ ہی تھا :۔ مالک بن اوس بن حدثان کہتے ہیں کہ مجھے سیدنا عمر (رض) نے بلا بھیجا۔ میں وہاں پہنچا ہی تھا کہ سیدنا عمر (رض) کا غلام یرفا آ کر کہنے لگا کہ حضرات عثمان (رض) ، عبدالرحمن بن عوف (رض) ، زبیر (رض) اور سعد بن ابی وقاص (رض) آئے ہیں۔ اور آپ سے ملنے کی اجازت چاہتے ہیں۔ سیدنا عمر (رض) نے اجازت دے دی۔ وہ آ کر بیٹھے ہی تھے کہ یرفا پھر آیا اور کہنے لگا کہ عباس (رض) اور علی (رض) آئے ہیں۔ سیدنا عمر (رض) نے انہیں بھی بلا لیا۔ چناچہ سیدنا عباس (رض) نے سیدنا عمر (رض) سے کہا : امیر المومنین میرا اور اس شخص کا فیصلہ کر دیجئے۔ یہ دونوں حضرات بنو نضیر کے اموال فے کے بارے میں جھگڑ رہے تھے اور آپس میں گالی گلوچ پر اتر آئے تھے۔ سیدنا عثمان (رض) اور ان کے ساتھی کہنے لگے : امیر المومنین ان کا فیصلہ کر کے انہیں ایک دوسرے سے نجات دلائیے۔ سیدنا عمر (رض) نے ان دونوں سے کہا کہ میں آپ سے اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا آپ نے یہ نہیں فرمایا تھا کہ ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا۔ ہم جو کچھ چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے ؟ ان دونوں نے کہا بیشک پھر سیدنا عمر (رض) نے فے سے متعلق سورة حشر کی آیات پڑھ کر فرمایا، اللہ کی قسم نبی اکرم نے ان اموال کو اپنی ذات کے لیے جوڑ نہیں رکھا۔ بلکہ تم لوگوں کو دیا اور بانٹا۔ اسی مال سے آپ اپنی بیویوں کا سال بھر کا خرچ نکالتے اور جو مال بچ جاتا اسے تازیست سامان جنگ اور رفاہ عامہ کے کاموں میں خرچ کرتے رہے۔ پھر سیدنا ابوبکر (رض) جو نبی کریم کے قائم مقام تھے اسی طرح کرتے رہے۔ حالانکہ تم دونوں اس وقت بھی یہ کہتے تھے کہ ابوبکر (رض) کی یہ کاروائی ٹھیک نہیں ہے۔ اور اللہ خوب جانتا ہے کہ ابوبکر (رض) سچے، راست باز، ٹھیک راستے پر چلنے والے اور حق کے تابع تھے۔ پھر ان کے بعد اب میں ان دونوں کا جانشین ہوں۔ پھر تم دونوں (عباس اور علی) میرے پاس آئے۔ اس وقت تم دونوں کی بات ایک اور معاملہ ایک تھا۔ پھر اے عباس (رض) ئتم اکیلے بھی میرے پاس آئے اور میں نے یہی کہا کہ انبیاء کا مال صدقہ ہوتا ہے۔ پھر میں نے تم دونوں سے کہا کہ میں تمہیں یہ اموال صرف اس شرط پر دیتا ہوں کہ تم اس کی تقسیم ویسے ہی کرو جیسے خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ابوبکر (رض) اور میں کرتے رہے۔ اگر یہ شرط منظور ہے تو ٹھیک ورنہ مجھ سے گفتگو نہ کرو۔ تم نے یہ شرط مان لی تو میں نے یہ اموال تمہارے حوالے کردیے۔ اب تم اور کیا چاہتے ہو ؟ اب اگر تم اس مال کے بارے میں جھگڑا کرتے ہو اور تم سے اس مال کا بندوبست نہیں ہوسکتا تو پھر یہ کام میرے سپرد کردو۔ میں ہی یہ کام سر انجام دیا کروں گا۔ مگر وہ اٹھ کر چلے گئے اور انہوں نے اموال کو واپس سیدنا عمر (رض) کی تحویل میں دینا گوارا نہ کیا اور عملاً ان اموال پر سیدنا علی (رض) قابض ہوگئے۔ چناچہ عروہ بن زبیر (رض) کہتے ہیں کہ یہ مال سیدنا علی (رض) کے قبضہ میں رہا۔ انہوں نے سیدنا عباس (رض) کو اس پر قبضہ نہ کرنے دیا۔ پھر اس کے بعد حسن بن علی (رض) کے قبضہ میں آیا، پھر حسین بن علی (رض) کے قبضہ میں، پھر علی بن حسین اور حسن بن حسن دونوں کے قبضہ میں، جو باری باری اس کا انتظام کرتے تھے۔ پھر زید بن حسن کے قبضہ میں رہا۔ اور یہ اموال فی الحقیقت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا صدقہ ہی رہے۔ (بخاری، کتاب المغازی، باب حدیث بنی نضیر و مخرج رسول اللہ الیھم)

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

يُوْصِيْكُمُ اللّٰهُ ۔ : اب یہاں سے وارثوں کے تفصیلی حصوں کا بیان شروع ہو رہا ہے۔ حافظ ابن کثیر (رض) لکھتے ہیں کہ ” یہ دونوں آیات اور اس سورت کی آخری آیت علم وراثت میں اصول کی حیثیت رکھتی ہیں۔ وراثت کے تفصیلی حصے ان تین آیات سے مستنبط ہیں اور وراثت کے حصوں سے متعلقہ احادیث بھی ان آیات ہی کی تفسیر ہیں۔ ( ابن کثیر) ایک حدیث میں ہے کہ جب جابر بن عبداللہ (رض) بیمار ہوئے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ابوبکر (رض) ان کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے۔ جابر (رض) نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اپنے مال کے بارے میں دریافت کیا اس پر یہ آیت نازل ہوئی : ( یوصیکم اللہ فی اولادکم ) [ بخاری، التفسیر، باب : ( یوصیکم اللہ فی أولادکم ) : ٤٥٧٧ ] ایک حدیث میں ہے کہ سعد بن ربیع (رض) وفات پا گئے اور ان کی بیٹیوں کے چچا نے سارا ورثہ سنبھال لیا۔ سعد (رض) کی دو لڑکیاں تھیں۔ ان کی بیوی نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ورثے کا سوال کیا تو یہ آیت نازل ہوئی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لڑکیوں کے چچا کو پیغام بھیجا کہ سعد کی دو بیٹیوں کو دو تہائی اور ان کی ماں کو آٹھواں حصہ دے دو اور جو بچ جائے وہ تمہارے لیے ہے۔ [ أبو داوٗد، عن جابر بن عبد اللہ الفرائض، - باب ما جاء فی میراث الصلب : ٢٨٩١، الترمذی : ٢٠٩٢۔ و أحمد : ٣؍٣٥٢، ح : ١٤٨١٠ ]- لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَيَيْنِ ۚ : مطلب یہ ہے کہ جب اولاد میں لڑکے اور لڑکیاں دونوں موجود ہوں تو لڑکے کو لڑکی سے دگنا ملے گا، اسے دو حصے دینے کی وجہ یہ ہے کہ مرد پر عورت کی نسبت معاشی ذمہ داریاں بہت زیادہ ہوتی ہیں۔ (مہر ہی کو لے لیجیے کہ مرد دیتا ہے، عورت لیتی ہے، اسی طرح عورت کا نان و نفقہ بھی خاوند کے ذمے ہوتا ہے) اس بنا پر مرد کے لیے عورت سے دگنا حصہ دینا عین قرین انصاف ہے۔ (قرطبی و ابن کثیر) - فَاِنْ كُنَّ نِسَاۗءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ ۔۔ : دو سے زیادہ ہی کا نہیں دو عورتوں کا بھی یہی حکم ہے، جیسا کہ اس آیت کے پہلے فائدے میں سعد بن ربیع (رض) کی دو بیٹیوں کو دو تہائی دینے کا ذکر ہوا ہے، پھر اس سورت کی آخری آیت میں جب دو بہنوں کو دو تہائی حصہ دیا گیا ہے تو دو بیٹیوں کو بدرجہ اولیٰ دیا جانا چاہیے۔ کیونکہ بیٹی، بہن کے مقابلہ میں آدمی کے زیادہ قریب ہے لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ دو لڑکیوں کا دو تہائی حصہ قرآن و حدیث دونوں سے ثابت ہے۔ (ابن کثیر) - 4 اس حکم سے چند صورتیں مستثنیٰ ہیں : 1 رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( لَا نُوْرَثَ مَا تَرَکْنَا صَدَقَۃٌ ) [ بخاری، فرض الخمس، باب لا ہجرۃ بعد الفتح : ٣٠٩٣ ] ” ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا ہم جو چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے۔ “ لہٰذا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی میراث تقسیم نہیں ہوئی۔ (دیکھیے مریم : ٦) 2 جان بوجھ کر قتل کرنے والا اپنے مقتول کا وارث نہیں ہوگا۔ یہ حکم سنت سے ثابت ہے اور اس پر اجماع ہے۔ [ ابن ماجہ، الفرائض، باب میراث القاتل : ٢٧٣٥ ] 3 اسامہ بن زید (رض) راوی ہیں، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” کافر مسلمان کا وارث نہیں ہوتا اور نہ مسلمان کافر کا وارث ہوتا ہے۔ “ [ بخاری، الفرائض، باب لا یرث المسلم۔۔ : ٦٧٦٤] صرف باپ یا اولاد نہیں، کوئی بھی کافر اور مسلمان کسی بھی مسلمان اور کافر کا وارث نہیں ہوگا وراثت کے ضمن میں بات عام کرنے کی بھی ضرورت ہے۔- وَاِنْ كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَھَا النِّصْفُ ۭ : اس سے بھی معلوم ہوا کہ جب ایک بیٹی کا نصف ہے تو دو یا دو سے زیادہ بیٹیوں کا دو تہائی ہونا چاہیے۔ - وَلِاَبَوَيْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ ۔۔ : یعنی میت کی اولاد ہونے کی صورت میں ماں باپ دونوں میں سے ہر ایک کو کل ترکے کا چھٹا حصہ ملے گا، مثلا میت کی ایک بیٹی اور ماں باپ ہیں تو ترکہ کے چھ مساوی حصے کرلیے جائیں۔ بیٹی کو تین حصے (نصف) ماں کو ایک حصہ (سدس) باپ کو ایک حصہ (سدس) مقررشدہ اور ایک حصہ (سدس) عصبہ ہونے کی وجہ سے ملے گا۔ اور اگر میت کی دو یا زیادہ بیٹیاں ہیں تو ترکہ کے چھ حصوں میں چار حصے (دو ثلث) بیٹیوں کے اور ایک ایک حصہ (سدس) ماں باپ کا ہوگا اور اگر ماں باپ کے ساتھ لڑکے لڑکیاں دونوں ہیں تو ماں باپ میں سے ہر ایک کو چھٹا حصہ دینے کے بعد جو باقی بچے اس میں سے لڑکے کے دو حصے اور لڑکی کا ایک حصہ ہوگا۔ - فَاِنْ لَّمْ يَكُنْ لَّهٗ وَلَدٌ ۔۔ : یہ ماں باپ کی دوسری حالت ہے، یعنی اگر میت کی کوئی اولاد نہ ہو اور اس کے ماں باپ زندہ ہوں تو ماں کو ایک تہائی ملے گا اور بقیہ دو تہائی حصہ باپ کو مل جائے گا اور اگر ماں باپ کے ساتھ میت کے مرد ہونے کی صورت میں بیوی اور عورت ہونے کی صورت میں اس کا شوہر بھی زندہ ہو تو شوہر یا بیوی کا حصہ، جس کا ذکر آگے آ رہا ہے، پہلے نکالنے کے بعد باقی ماندہ سے ماں کو ایک تہائی اور باپ کو دو تہائی ملے گا۔ والدین کی مذکورہ دونوں صورتیں قرآن مجید سے ہی واضح ہو رہی ہیں کیونکہ پہلی صورت میں ساتھ یہ ہے ” وَّوَرِثَهٗٓ اَبَوٰهُ “ یعنی اس کے وارث صرف ماں باپ ہوں۔ بیوی یا خاوند موجود ہونے کی صورت دوسری ہے۔ اس میں والدہ کو باقی کا ثلث اس لیے دیا جائے گا کہ عورت (ماں) کا حصہ، مرد (باپ) کے نصف سے زیادہ نہ ہوجائے۔ ابن کثیر (رض) لکھتے ہیں کہ ” یہی قول فقہائے سبعہ، ائمہ اربعہ اور جمہور اہل علم کا ہے۔- فَاِنْ كَانَ لَهٗٓ اِخْوَةٌ ۔۔ : یہ ماں باپ کی تیسری حالت کا بیان ہے، یعنی اگر میت کی کوئی اولاد نہ ہو، ماں باپ کے علاوہ بھائی بھی ہوں ( خواہ ماں باپ دونوں سے یا صرف ماں سے یا صرف باپ سے) تو باپ کی موجودگی میں انھیں حصہ تو نہیں ملے گا، البتہ وہ ماں کا حصہ تہائی سے چھٹا کردیں گے اور اگر ماں کے ساتھ سوائے باپ کے کوئی دوسرا وارث نہ ہو تو بقیہ سارا ٦؍٥ حصہ باپ کو مل جائے گا یاد رہے کہ ” اخوۃ “ کا لفظ جمع ہے اور یہ جمہور علماء کے نزدیک دو کو بھی شامل ہے، لہٰذا اگر صرف ایک بھائی ہو تو وہ ماں کا تہائی سے چھٹا حصہ نہیں کرسکتا۔ ( ابن کثیر)- مِنْۢ بَعْدِ وَصِيَّةٍ ۔۔ : میت کے مال میں سے اول کفن دفن پر صرف کیا جائے، پھر باقی ماندہ سے حسب مراتب قرض ادا کیا جائے، سب سے زیادہ ادا کرنے کا حق دار اللہ تعالیٰ کا قرض ہے مثلا اگر زکاۃ یا حج اس کے ذمے ہے تو وہ ادا کیا جائے پھر دوسرے قرض اد اکیے جائیں۔ پھر مال کے تہائی حصے سے وصیت پوری کی جائے، اس کے بعد وارثوں کے درمیان باقی ترکے کے حصے کیے جائیں۔ (قرطبی) قرآن میں گو قرض کا ذکر وصیت کے بعد ہے، مگر سلف و خلف کا اس پر اجماع ہے کہ ادائے قرض وصیت پر مقدم ہے، لہٰذا پہلے قرض ادا کیا جائے، پھر وصیت کا نفاذ ہونا چاہیے، غور سے دیکھیں تو آیت کے معنی و مفہوم سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے۔ آیت میں وصیت کو قرض سے پہلے ذکر کرنے کی اہل علم نے کئی حکمتیں بیان فرمائی ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ عام طور پر وصیت پر عمل میں کوتاہی کی جاتی ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے تاکید کے لیے اسے پہلے ذکر فرمایا۔ - اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِيْمًا حَكِـيْمًا : یعنی اللہ تعالیٰ ہمیشہ سے علیم و حکیم ہے، اس نے خود میراث کا یہ قانون اس لیے مقرر فرمایا کہ تم اپنے نفع و نقصان کو نہیں سمجھتے، اگر تم اپنے اجتہاد سے ورثہ تقسیم کرتے تو حصوں کا ضبط میں لانا مشکل تھا۔ (قرطبی۔ ابن کثیر) شاہ عبد القادر (رض) لکھتے ہیں : ” یعنی ان حصوں میں عقل کا دخل نہیں، اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمائے ہیں، وہ سب سے دانا ہے۔ “ (موضح)

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

ربط آیات :- پچھلے رکوع میں للرجال نصیب مماترک الوالدن الخ میں میراث کا استحقاق رکھنے والے لوگوں کا اجمالاً ذکر تھا، اس رکوع میں انہی مستحقین میراث کی بعض اقسام کی تفصیل مذکور ہے اور ان کے مختلف حالات کے اعتبار سے ان کے حصص بیان کئے گئے ہیں، اس سلسلہ کی کچھ تفصیل سورت کے آخر میں آ رہی ہے اور باقی ماندہ حصوں کو احادیث کے اندر بیان کیا گیا ہے، فقہاء نے نصوص شرعیہ سے اس کی تمام تفصیلات اخذ کر کے مستقل فن ” فرائض “ کی شکل میں مدون کردیئے ہیں۔- مندرجہ آیت میں اولاد اور والدین کے حصص بیان کئے گئے ہیں اور اس کے ساتھ میراث کے کچھ اور مسائل بھی مذکور ہیں۔- خلاصہ تفسیر - اللہ تعالیٰ تم کو حکم دیتا ہے تمہاری اولاد کے (میراث پانے) کے باب میں (وہ یہ کہ) لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر (یعنی لڑکا لڑکی ایک ایک یا کئی کئی مل جلی ہوں تو ان کے حصوں میں باہم یہ نسبت ہوگی کہ ہر لڑکے کو دوہرا اور ہر لڑکی کو اکہرا) اور اگر (اولاد میں) صرف لڑکیاں ہی ہوں، گو دو سے زیادہ ہوں تو ان لڑکیوں کو دو تہائی ملے گا اس مال کا جو کہ مورث چھوڑ مرا ہے (اور اگر دو لڑکیاں ہوں تب تو دو تہائی ملنا بہت ہی ظاہر ہے، کیونکہ اگر ان میں ایک لڑکی کی جگہ لڑکا ہوتا تو اس لڑکی کا حصہ باوجودیکہ بھائی سے کم ہے ایک تہائی سے نہ گھٹتا، پس جب دوسری بھی لڑکی ہے، تب تو تہائی سے کسی طرح گھٹ نہیں سکتا اور دونوں لڑکیاں یکساں حالت میں ہیں، پس اس کا بھی ایک تہائی ہوگا، دونوں کا مل کردو تہائی ہوا، البتہ تین لڑکیوں میں شبہ تھا کہ شاید ان کو تین تہائی یعنی کل مل جاوے، اس لئے فرمایا کہ گو لڑکیاں دو سے زیادہ ہوں گی مگر دو تہائی سے نہ بڑھے گا) اور اگر ایک ہی لڑکی ہو تو اس کو (کل ترکہ کا) نصف ملے گا ( اور پہلی صورت میں ایک ثلث بچا ہوا اور دوسری صورت کا ایک نصف بچا ہوا دوسرے خاص خاص اقارب کا حق ہے، یا اگر کوئی نہ ہو تو پھر اسی کو دے دیاجاوے گا، جیسا کہ کتب فرائض میں مذکور ہے) اور ماں باپ (کو میراث ملنے میں تین صورتیں ہیں، ایک صورت تو ان) کے لئے یعنی دونوں میں سے ہر ایک کے لئے میت کے ترکہ میں سے چھٹا چھٹا حصہ (مقرر) ہے، اگر میت کے کچھ اولاد ہو (خواہ مذکر یا مونث خواہ ایک یا زیادہ اور بقیہ میراث اولاد اور دوسرے خاص خاص ورثہ کو ملے گی اور پھر بھی بچ جاوے تو پھر سب کو دی جاوے گی) اور اگر اس میت کے کچھ اولاد نہ ہو اور (صرف) اس کے ماں باپ ہی اس کے وارث ہوں (یہ دوسری صورت ہے اور ” صرف “ اس لئے کہا کہ بھائی بہن بھی نہ ہو، جیسا آگے آتا ہے) تو (اس صورت میں) اس کی ماں کا ایک تہائی ہے (اور باقی دو تہائی باپ کا اور چونکہ صورت مفروضہ میں یہ ظاہر تھا، اس لئے تصریح کی حاجت نہیں ہوئی) اور اگر میت کے ایک سے زیادہ بھائی یا بہن (کسی قسم کے) ہوں (خواہ ماں باپ دونوں میں شریک جس کو عینی کہتے ہیں، خواہ صرف باپ ایک ماں الگ الگ جس کو علاقی کہتے ہیں خواہ صرف ماں ایک باپ الگ الگ جس کو اخیافی کہتے ہیں، غرضیکہ کسی طرح کے بھائی بہن ایک سے زیادہ ہوں اور اولاد نہ ہو اور ماں باپ ہوں اور یہ تیسری صورت ہے) تو (اس صورت میں) اس کماں کو (ترکہ کا) چھٹا حصہ ملے گا (اور باقی باپ کو ملے گا ........ یہ سب حصے) وصیت (کے قدر مال) نکال لینے کے بعد کہ میت اس کی وصیت کر جاوے یا دین (اگر ہو تو اس کو بھی نکال لینے) کے بعد (تقسیم ہوں گے) تمہارے اصول و فروع جو ہیں تم (ان کے متعلق) پورے طور پر یہ نہیں جان سکتے ہو کہ ان میں کا کونسا شخص تم کو (دنیوی یا اخروی) نفع پہنچانے میں (باعتبار توقع کے) نزدیک تر ہے (یعنی اگر تمہاری رائے پر یہ قصہ رکھا جاتا تو بغالب احوال تم لوگ تقسیم میں مدار ترجیح و تفصیل کا اس شخص کے نفع رسانی پر رکھتے اور اس مدار کے تیقن کا خود کوئی طریقہ کسی کے پاس نہیں ہے تو اس کا مدار تجیز ٹھہرانا ہی صحیح نہ تھا پس جب نفع میں مدار بننے کی قابلیت نہ تھی اس لئے دوسرے مصالح اور اسرار کو گو وہ تمہارے ذہن میں نہ آویں اس حکم کا منبی اور مدار ٹھہرا کر) یہ حکم منجانب اللہ مقرر کردیا گیا (اور یہ امر) بالیقین (مسلم ہے کہ) اللہ تعالیٰ بڑے علم والے اور حکمت والے ہیں (پس جو حکمتیں انہوں نے اپنے علم سے اس میں مرعی رکھی ہیں وہی قابل اعتبار ہیں، اس لئے تمہاری رائے پر نہیں رکھا۔ )- معارف ومسائل - حقوق متقدمہ علی المیراث :۔- شریعت کا اصول یہ ہے کہ مرنے والے کے مال سے پہلے شریعت کے مطابق اس کے کفن دفن کے اخراجات پورے کئے جائیں، جن میں نہ فضول خرچی ہو نہ کنجوسی ہو، اس کے بعد اس کے قرضے ادا کئے جائیں، اگر قرضے اتنے ہی ہوں جتنا اس کا مال ہے یا اس سے بھی زیادہ تو نہ کسی کو میراث ملے گی نہ کوئی وصیت نافذ ہوگی اور اگر قرضوں کے بعد مال بچ جائے یا قرضے بالکل ہی نہ ہوں تو اگر اس نے کوئی وصیت کی ہو اور وہ کسی گناہ کی وصیت نہ ہو، تو اب جو مال موجود ہے اس کے ایک تہائی میں سے اس کی وصیت نافذ ہوجائے گی، اگر کوئی شخص پورے مال کی وصیت کر دے تب بھی تہائی مال ہی میں وصیت معتبر ہوگی ........ تہائی مال سے زیادہ کی وصیت کرنا مناسب بھی نہیں ہے اور وارثوں کو محروم کرنے کی نیت سے وصیت کرنا گناہ بھی ہے۔- اداء دین کے بعد ایک تہائی میں وصیت نافذ کر کے شرعی وارثوں میں تقسیم کردیا جائے جس کی تفصیلات فرائض کی کتابوں میں موجود ہیں، اگر وصیت نہ کی ہو تو اداء دین کے بعد پورا مال میراث میں تقسیم ہوگا۔- اولاد کا حصہ :۔ - جیسا کہ گزشتہ رکوع میں گزر چکا ہے کہ میراث کی تقسیم الاقرب فالاقرب کے اصول پر ہوگی، مرنے والے کی اولاد اور اس کے والدین چونکہ اقرب ترین ہیں، اس لئے ان کو ہر حال میں میراث ملتی ہے، یہ دونوں رشتے انسان کے قریب ترین اور بلاواسطہ رشتے ہیں، دوسرے رشتے بالواسطہ ہوتے ہیں، قرآن شریف میں پہلے انہی کے حصے بیان فرمائے اور اولاد کے حصہ سے شروع فرمایا، چناچہ ارشاد ہے۔- یوصیکم اللہ فی اولادکم للذکرمثل حظ الانثین، یہ ایک ایسا قاعدہ کلیہ ہے جس نے لڑکوں اور لڑکیوں دونوں کو میراث کا مستحق بھی بنادیا اور ہر ایک کا حصہ بھی مقرر کردیا اور یہ اصول معلوم ہوگیا کہ جب مرنے والے کی اولاد میں لڑکے اور لڑکیاں دونوں ہوں تو ان کے حصہ میں جو مال آئے گا اس طرح تقسیم ہوگا کہ ہر لڑکے کو لڑکی کے مقابلہ میں دوگنا مل جائے، مثلاً کسی نے ایک لڑکا دو لڑکیاں چھوڑے تو مال کے چار حصے کر کے ٤ ٢ لڑکے کو اور ٤ ١ ہر لڑکی کو دے دیا جائے گا۔- لڑکیوں کو حصہ دینے کی اہمیت :۔- قرآن مجید نے لڑکیوں کو حصہ دلانے کا اس قدر اہتمام کیا ہے کہ لڑکیوں کے حصہ کو اصل قرار دے کر اس کے اعتبار سے لڑکوں کا حصہ بتلایا اور بجائے لانثین مثل حظ الذکر (دو لڑکیوں کو ایک لڑکے کے حصہ کے بقدر) فرمانے کے للذکر مثل حظ الانثیین (لڑکے کو دو لڑکیوں کے حصہ کے بقدر) کے الفاظ سے تعبیر فرمایا ........ جو لوگ بہنوں کو حصہ نہیں دیتے، اور وہ یہ سمجھ کر بادل ناخواستہ شرما شرمی معاف کردیتی ہیں کہ ملنے والا تو ہے ہی نہیں تو یوں بھائیوں سے برائی لیں، ایسی معافی شرعاً معافی نہیں ہوتی، ان کا حق بھائیوں کے ذمہ واجب رہتا ہے، یہ میراث دبانے والے سخت گنہگار ہیں، ان میں بعض بچیاں نابالغ بھی ہوتی ہیں، ان کو حصہ نہ دینا دوہرا گناہ ہے ایک گناہ وارث شرعی کے حصہ کو دبانے کا اور دوسرا یتیم کے مال کو کھانے کا۔- اس کے بعد مزید تشریح فرماتے ہوئے لڑکیوں کا حصہ یوں بیان فرمایا :- فان کن نسآء فوق اثنتین فلھن ثلثا ماترک یعنی اگر نرینہ اولاد نہ ہوں اور صرف لڑکیاں ہوں اور ایک سے زائد ہوں تو ان کو مال موروث سے دو تہائی مال ملے گا، جس میں سب لڑکیاں برابر کی شریک ہوں گی اور باقی ایک تہائی دوسرے ورثاء مثلاً میت کے والدین، بیوی یا شوہر وغیرہ میراث کے حق داروں کو ملے گا، دو لڑکیاں اور دو سے زائد سب دو تہائی میں شریک ہوں گی۔- دو لڑکیوں سے زائد کا حکم تو قرآن کی آیت میں صراحتہ مذکور ہے، جیسا کہ فوق اثنین کے الفاظ اس پر دلالت کر رہے ہیں، اور لڑکیاں دو ہوں تو اس کا حکم بھی وہی ہے جو دو سے زیادہ کا حکم ہے، اس کا ثبوت حدیث شریف میں مذکور ہے :- ترجمہ :۔ ” جابر (رض) سے روایت ہے، فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ ہم آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہمراہ باہر نکلے، اتنے میں ہمارا گذارا سواف میں ایک انصاری عورت پر ہوا، وہ عورت اپنی دو لڑکیوں کو لے کر آئی اور کہنے لگی کہ اے اللہ کے رسول یہ دونوں لڑکیاں ثابت بن قیس (میرے شوہر) کی ہیں، جو آپ کے ساتھ غزوہ احد میں شہید ہوگئے ہیں، ان لڑکیوں کا چچا ان کے پورے مال اور ان کی پوری میراث پر خود قابض ہوگیا ہے اور ان کے واسطے کچھ باقی نہیں رکھا، اس معاملہ میں آپ کیا فرماتے ہیں، خدا کی قسم اگر ان لڑکیوں کے پاس مال نہ ہوگا تو کوئی شخص ان کو نکاح میں رکھنے کے لئے بھی تیار نہ ہوگا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ سن کر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تیرے حق میں فیصلہ فرما دے گا، حضرت جابر فرماتے ہیں کہ پھر جب سورة نساء کی یہ آیت ” یوصیکم اللہ فی اولادکم “ نازل ہوئی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اس عورت اور اس کے دیور کو (لڑکیوں کا وہ چچا جس نے سارے مال پر قبضہ کرلیا تھا) بلایا آپ نے لڑکیوں کے چچا سے فرمایا کہ لڑکیوں کو کل مال کا دو تہائی حصہ دو ، ان کی ماں کو آٹھواں حصہ اور جو بچے وہ تم خود رکھ لو۔ “- اس حدیث میں جس مسئلہ کا ذکر ہے اس میں آپ نے دو لڑکیوں کو بھی دو تہائی حصہ لے دیا۔ جس طرح دو سے زیادہ کا یہی حکم خود قرآن کریم کی مذکورہ آیت میں منصوص ہے۔- اس کے بعد ارشاد فرمایا : وان کانت واحدة فلھا النصف ” یعنی اگر مرنے والے نے اپنی اولاد میں صرف ایک لڑکی چھوڑی اور اولاد نرینہ بالکل نہ ہو، تو اس کو اس کے والد یا والدہ کے چھوڑے ہوئے مال موروث کا آدھا حصہ ملے گا، باقی دوسرے ورثاء لے لیں گے۔ “- والدین کا حصہ :۔ - اس کے بعد خداوند قدوس نے مرنے والے کے ماں باپ کا حصہ بتایا اور تین حالتیں ذکر فرمائیں۔- اول یہ کہ والدین دونوں زندہ چھوڑے ہوں اور اولاد بھی چھوڑی، خواہ ایک ہی لڑکا یا لڑکی ہو اس صورت میں ماں باپ کو چھٹا چھٹا حصہ ملے گا، دیگر ورثہ اولاد اور بیوی یا شوہر لے لیں گے اور بعض حالات میں کچھ بچا ہوا پھر والد کو پہنچ جاتا ہے جو اس کے لئے مقرر چھٹے حصہ کے علاوہ ہوتا ہے علم فرائض کی اصطلاح میں اس طرح کے استحقاق کو استحقاق تعصیب کہتے ہیں۔- دوسری حالت یہ بتائی کہ مرنے والے کی اولاد اور بھائی بہن نہ ہوں اور ماں باپ موجود ہوں اس صورت میں مال موروث کا تہائی ٣ ١ ماں کو اور باقی دو تہائی والد کو مل جائیں گے، یہ اس صورت کا حکم ہے جب کہ مرنے والے کے ورثہ میں اس کا شوہر یا اس کی بیوی بھی موجود نہ ہو، اگر شوہر یا بیوی موجود ہے تو سب سے پہلے ان کا حصہ الگ کیا جاوے گا اور باقی میں ٣ ١ والدہ کو اور ٣ ٢ والد کو مل جائے گا۔- تیسری حالت یہ ہے کہ مرنے والے کی اولاد تو نہ ہوں لیکن بھائی بہن ہوں جن کی تعداد دو ہو، خواہ دو بھائی ہوں، خواہ دو بہنیں ہوں، یا دو سے زیادہ ہوں، اس صورت میں ماں کو چھٹا حصہ ملے گا اور اگر اور کوئی وارث نہیں تو بقیہ ٦ ٥ حصہ باپ کو مل جائیں گے، بھائیوں اور بہنوں کی موجودگی سے ماں کا حصہ کم ہوگیا، لیکن بھائی بہن کو بھی کچھ نہ ملے گا کیونکہ باپ بہ نسبت بھائی بہن کے اقرب ہے، جو بچے گا باپ کو مل جائے گا، اس صورت میں ماں کا حصہ ٣ ١ کے بجائے ٦ ١ ہوگیا، ” فرائض “ کی اصطلاح میں اس کو حجب نقصان کہتے ہیں اور یہ بہن بھائی جن کی وجہ سے والدین کا حصہ کٹ رہا ہے، خواہ حقیقی ہوں خواہ باپ شریک ہوں، خواہ ماں شریک ہوں، ہر صورت میں ان کے وجود سے ماں کا حصہ گھٹ جائے گا، بشرطیکہ ایک سے زیادہ ہوں۔- حصص مقررہ بیان کرنے کے بعد فرمایا : اباؤ کم وابنآؤ کم لاتدرون ایھم اقرب لکم نفعا فریضة من اللہ ان اللہ کان علیما حکیماً ” یعنی اولاد اور ماں باپ کے یہ حصے خداوند عالم نے اپنے طور پر مقرر کردیئے ہیں اور اللہ کو سب کچھ معلوم ہے اور وہ حکیم ہے جو حصے مقرر کئے گئے ہیں ان میں بڑی حکمتیں ہیں، اگر تمہاری رائے پر تقسیم میراث کا قصہ رکھا جاتا تو مدار تقسیم تم لوگ نفع رساں ہونے کو بناتے، لیکن نفع رساں کون ہوگا ؟ اور سب سے زیادہ نفع کس سے پہنچ سکتا ہے ؟ اس کا یقینی علم حاصل کرنا تمہارے لئے مشکل تھا، اس لئے بجائے نافع ہونے کے اقربیت کو مدار حکم بنایا۔ “- قرآن کریم کی اس آیت نے بتلا دیا کہ میراث کے جو حصے اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمائے ہیں وہ اس کا طے شدہ حکم ہے، اس میں کسی کو رائے زنی یا کمی بیشی کا کوئی حق نہیں اور تمہیں پورے اطمینان قلب کے ساتھ اسے قبول کرنا چاہئے تمہارے خالق ومالک کا یہ حکم بہترین حکمت و مصلحت پر مبنی ہے، تمہارے نفع کا کوئی پہلو اس کے احاطہ علم سے باہر نہیں ہے اور جو کچھ حکم وہ کرتا ہے کسی حکمت سے خالی نہیں ہوتا، تمہیں خود اپنے نفع و نقصان کی حقیقی پہچان نہیں ہو سکتی، اگر تقسیم میراث کا مسئلہ خود تمہاری رائے پر چھوڑ دیا جاتا تو تم ضرور اپنی کم فہمی کی وجہ سے صحیح فیصلہ نہ کر پاتے اور میراث کی تقسیم میں بےاعتدالی ہوجاتی، اللہ جل شانہ نے یہ فریضہ اپنے ذمہ لے لیا، تاکہ مال کی تقسیم میں عدل و انصاف کی پوری پوری رعایت ہو اور میت کا سرمایہ منصفانہ طریقہ سے مختلف مستحقین کے ہاتھوں میں گردش کرے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

يُوْصِيْكُمُ اللہُ فِيْٓ اَوْلَادِكُمْ۝ ٠ ۤ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَيَيْنِ۝ ٠ ۚ فَاِنْ كُنَّ نِسَاۗءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَھُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ۝ ٠ ۚ وَاِنْ كَانَتْ وَاحِدَۃً فَلَھَا النِّصْفُ۝ ٠ ۭ وَلِاَبَوَيْہِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْہُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ اِنْ كَانَ لَہٗ وَلَدٌ۝ ٠ ۚ فَاِنْ لَّمْ يَكُنْ لَّہٗ وَلَدٌ وَّوَرِثَہٗٓ اَبَوٰہُ فَلِاُمِّہِ الثُّلُثُ۝ ٠ ۚ فَاِنْ كَانَ لَہٗٓ اِخْوَۃٌ فَلِاُمِّہِ السُّدُسُ مِنْۢ بَعْدِ وَصِيَّۃٍ يُوْصِيْ بِھَآ اَوْ دَيْنٍ۝ ٠ ۭ اٰبَاۗؤُكُمْ وَاَبْنَاۗؤُكُمْ لَا تَدْرُوْنَ اَيُّھُمْ اَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعًا۝ ٠ ۭ فَرِيْضَۃً مِّنَ اللہِ۝ ٠ ۭ اِنَّ اللہَ كَانَ عَلِيْمًا حَكِـيْمًا۝ ١١- وصی - الوَصِيَّةُ : التّقدّمُ إلى الغیر بما يعمل به مقترنا بوعظ من قولهم : أرض وَاصِيَةٌ: متّصلة النّبات، ويقال : أَوْصَاهُ ووَصَّاهُ. قال تعالی: وَوَصَّى بِها إِبْراهِيمُ بَنِيهِ وَيَعْقُوبُ [ البقرة 132] وقرئ :- وأَوْصَى - ( و ص ی ) الوصیۃ - : واقعہ پیش آنے سے قبل کسی کو ناصحانہ انداز میں ہدایت کرنے کے ہیں اور یہ ارض واصیۃ کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی پیوستہ گیا ہ یعنی باہم گھتی ہوئی گھاس والی زمین کے ہیں اور اوصاہ ووصا کے معنی کسی کو وصیت کرنے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَوَصَّى بِها إِبْراهِيمُ بَنِيهِ وَيَعْقُوبُ [ البقرة 132] اور ابراہیم نے اپنے بیٹوں کو اس بات کی وصیت کی اور یعقوب نے بھی ۔ ایک قرات میں اوصی ہے ۔ - الله - الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم 65] . - ( ا ل ہ ) اللہ - (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ - - ولد - الوَلَدُ : المَوْلُودُ. يقال للواحد والجمع والصّغير والکبير . قال اللہ تعالی: فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ [ النساء 11] ،- ( و ل د ) الولد - ۔ جو جنا گیا ہو یہ لفظ واحد جمع مذکر مونث چھوٹے بڑے سب پر بولاجاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ [ النساء 11] اور اگر اولاد نہ ہو ۔ - ذَّكَرُ ( مذکر)- والذَّكَرُ : ضدّ الأنثی، قال تعالی: وَلَيْسَ الذَّكَرُ كَالْأُنْثى [ آل عمران 36] ، وقال : آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ [ الأنعام 144] ، وجمعه : ذُكُور وذُكْرَان، قال تعالی: ذُكْراناً وَإِناثاً [ الشوری 50] ، وجعل الذَّكَر كناية عن العضو المخصوص . والمُذْكِرُ : المرأة التي ولدت ذکرا، والمِذْكَار : التي عادتها أن تذكر، وناقة مُذَكَّرَة : تشبه الذّكر في عظم خلقها، وسیف ذو ذُكْرٍ ، ومُذَكَّر : صارم، تشبيها بالذّكر، وذُكُورُ البقل : ما غلظ منه - الذکر ۔ تو یہ انثی ( مادہ ) کی ضد ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَلَيْسَ الذَّكَرُ كَالْأُنْثى [ آل عمران 36] اور ( نذر کے لئے ) لڑکا ( موزون تھا کہ وہ ) لڑکی کی طرح ( ناتواں ) نہیں ہوتا آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ [ الأنعام 144] کہ ( خدا نے ) دونوں ( کے ) نروں کو حرام کیا ہے یا دونوں ( کی ) مادینوں کو ۔ ذکر کی جمع ذکور و ذکران آتی ہے ۔ چناچہ فرمایا :۔ ذُكْراناً وَإِناثاً [ الشوری 50] بیٹے اور بیٹیاں ۔ اور ذکر کا لفظ بطور کنایہ عضو تناسل پر بھی بولاجاتا ہے ۔ اور عورت نرینہ بچہ دے اسے مذکر کہاجاتا ہے مگر المذکار وہ ہے ۔ جس کی عادت نرینہ اولاد کی جنم دینا ہو ۔ ناقۃ مذکرۃ ۔ وہ اونٹنی جو عظمت جثہ میں اونٹ کے مشابہ ہو ۔ سیف ذوذکر ومذکر ۔ آبدار اور تیر تلوار ، صارم ذکور البقل ۔ وہ ترکاریاں جو لمبی اور سخت دلدار ہوں ۔- حظَّ- الحَظُّ : النصیب المقدّر، وقد حَظِظْتُ وحُظِظْتُ فأنا مَحْظُوظ، وقیل في جمعه : أَحَاظّ وأُحُظّ ، قال اللہ تعالی: فَنَسُوا حَظًّا مِمَّا ذُكِّرُوا بِهِ [ المائدة 14] ، وقال تعالی: لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ [ النساء 11] .- ( ح ظ ظ ) الحظ کے معنی معین حصہ کے ہیں ۔ کہا جاتا ہے ۔ حظظ واحظ فھو محظوظ ۔ حط کی جمع احاظ و احظ آتی ہے قرآن میں ہے ۔ فَنَسُوا حَظًّا مِمَّا ذُكِّرُوا بِهِ [ المائدة 14] مگر انہوں نے بھی اس نصیحت کا جوان کو کی گئی تھی ایک حصہ فراموش کردیا (5 ۔ 14) لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ [ النساء 11] کہ ایک لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر ہے ۔- أنث - الأنثی: خلاف الذکر، ويقالان في الأصل اعتبارا بالفرجین، قال عزّ وجلّ : وَمَنْ يَعْمَلْ مِنَ الصَّالِحاتِ مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثى [ النساء 124] - ( ان ث) الانثی ( مادہ ) بہ ذکر یعنی نر کی ضد ہے اصل میں انثیٰ و ذکر عورت اور مرد کی شرمگاہوں کے نام ہیں پھر اس معنی کے لحاظ سے ( مجازا) یہ دونوں نر اور مادہ پر بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ وَمَنْ يَعْمَلْ مِنَ الصَّالِحَاتِ مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَى ( سورة النساء 124) ۔ جو نیک کام کریگا مرد یا عورت (4 ۔ 124) - - نِّسَاءُ- والنِّسْوَان والنِّسْوَة جمعُ المرأةِ من غير لفظها، کالقومِ في جمعِ المَرْءِ ، قال تعالی: لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ إلى قوله : وَلا نِساءٌ مِنْ نِساءٍ [ الحجرات 11] ما بال النِّسْوَةِ اللَّاتِي قَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ [يوسف 50]- النساء - والنسوان والنسوۃ یہ تینوں امراءۃ کی جمع من غیر لفظہ ہیں ۔ جیسے مرء کی جمع قوم آجاتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ إلى قوله : وَلا نِساءٌ مِنْ نِساءٍ [ الحجرات 11] اور نہ عورتیں عورتوں سے تمسخر کریں ما بال النِّسْوَةِ اللَّاتِي قَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ [يوسف 50] کہ ان عورتوں کا کیا حال ہے جنہوں نے اپنے ہاتھ کا ٹ لئے تھے ۔- فوق - فَوْقُ يستعمل في المکان، والزمان، والجسم، والعدد، والمنزلة،- وذلک أضرب :- الأول : باعتبار العلوّ.- نحو : وَرَفَعْنا فَوْقَكُمُ الطُّورَ [ البقرة 63] ، مِنْ فَوْقِهِمْ ظُلَلٌ مِنَ النَّارِ [ الزمر 16] ، وَجَعَلَ فِيها رَواسِيَ مِنْ فَوْقِها [ فصلت 10] ، ويقابله تحت . قال : قُلْ هُوَ الْقادِرُ عَلى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذاباً مِنْ فَوْقِكُمْ أَوْ مِنْ تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ [ الأنعام 65] - الثاني : باعتبار الصّعود والحدور - . نحو قوله :إِذْ جاؤُكُمْ مِنْ فَوْقِكُمْ وَمِنْ أَسْفَلَ مِنْكُمْ [ الأحزاب 10] .- الثالث : يقال في العدد .- نحو قوله : فَإِنْ كُنَّ نِساءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ [ النساء 11] .- الرابع : في الکبر والصّغر - مَثَلًا ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة 26] .- الخامس : باعتبار الفضیلة الدّنيويّة .- نحو : وَرَفَعْنا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجاتٍ [ الزخرف 32] ، أو الأخرويّة : وَالَّذِينَ اتَّقَوْا فَوْقَهُمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ البقرة 212] ، فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا [ آل عمران 55] .- السادس : باعتبار القهر والغلبة .- نحو قوله : وَهُوَ الْقاهِرُ فَوْقَ عِبادِهِ [ الأنعام 18] ، وقوله عن فرعون : وَإِنَّا فَوْقَهُمْ قاهِرُونَ [ الأعراف 127] - ( ف و ق ) فوق - یہ مکان ازمان جسم عدد اور مرتبہ کے متعلق استعمال ہوتا ہے - اور کئی معنوں میں بولا جاتا ہے - اوپر جیسے فرمایا ۔ وَرَفَعْنا فَوْقَكُمُ الطُّورَ [ البقرة 63] اور کوہ طور کو تم پر اٹھا کھڑا کیا ۔ مِنْ فَوْقِهِمْ ظُلَلٌ مِنَ النَّارِ [ الزمر 16] کے اوپر تو آگ کے سائبان ہوں گے ۔ وَجَعَلَ فِيها رَواسِيَ مِنْ فَوْقِها [ فصلت 10] اور اسی نے زمین میں اس کے پہاڑ بنائے ۔ اس کی ضد تحت ہے جس کے معنی نیچے کے ہیں چناچہ فرمایا ۔ قُلْ هُوَ الْقادِرُ عَلى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذاباً مِنْ فَوْقِكُمْ أَوْ مِنْ تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ [ الأنعام 65] کہ وہ اس پر بھی قدرت رکھتا ہے کہ تم پر اوپر کی طرف سے یا تمہارے پاؤں کے نیچے سے عذاب بھیجے - ۔ 2 صعود یعنی بلند ی کی جانب کے معنی میں - اس کی ضدا سفل ہے جس کے معنی پستی کی جانب کے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ إِذْ جاؤُكُمْ مِنْ فَوْقِكُمْ وَمِنْ أَسْفَلَ مِنْكُمْ [ الأحزاب 10] جب وہ تمہارے اوپر اور نیچے کی جانب سے تم پر چڑھ آئے - ۔ 3 کسی عدد پر زیادتی کے معنی - ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے جیسے فرمایا : ۔ فَإِنْ كُنَّ نِساءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ [ النساء 11] اگر اولاد صرف لڑکیاں ہی ہوں ( یعنی دو یا ) دو سے زیادہ - ۔ 4 جسمانیت کے لحاظ سے بڑا یا چھوٹا ہونے کے معنی - دیتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : مَثَلًا ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة 26] مچھر یا اس سے بڑھ کر کسی چیز مثلا مکھی ۔ مکڑی کی مثال بیان فرمائے ۔- 5 بلحاظ فضیلت دنیوی کے استعمال ہوتا ہے - جیسے فرمایا ۔ وَرَفَعْنا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجاتٍ [ الزخرف 32] اور ایک دوسرے پر درجے بلند کئے ۔ اور کبھی فضلیت اخروی کے لحاظ سے آتا ہے جیسے فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اتَّقَوْا فَوْقَهُمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ البقرة 212] لیکن جو پرہیز گار ہیں وہ قیامت کے دن ان پر پر فائق ہوں گے ۔ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا [ آل عمران 55] کافروں پر فائق ۔- 6 فوقیت معنی غلبہ اور تسلط - کے جیسے فرمایا : ۔ وَهُوَ الْقاهِرُ فَوْقَ عِبادِهِ [ الأنعام 18] اور وہ اپنے بندوں پر غالب ہے ۔ وَإِنَّا فَوْقَهُمْ قاهِرُونَ [ الأعراف 127] فرعون سے اور بےشبہ ہم ان پر غالب ہیں ۔ - ترك - تَرْكُ الشیء : رفضه قصدا واختیارا، أو قهرا واضطرارا، فمن الأول : وَتَرَكْنا بَعْضَهُمْ يَوْمَئِذٍ يَمُوجُ فِي بَعْضٍ [ الكهف 99] ، وقوله : وَاتْرُكِ الْبَحْرَ رَهْواً [ الدخان 24] ، ومن الثاني : كَمْ تَرَكُوا مِنْ جَنَّاتٍ [ الدخان 25] - ( ت ر ک) ترک - الشیئء کے معنی کسی چیز کو چھوڑ دینا کے ہیں خواہ وہ چھوڑنا ارادہ اختیار سے ہو اور خواہ مجبورا چناچہ ارادۃ اور اختیار کے ساتھ چھوڑنے کے متعلق فرمایا : ۔ وَتَرَكْنا بَعْضَهُمْ يَوْمَئِذٍ يَمُوجُ فِي بَعْضٍ [ الكهف 99] اس روز ہم ان کو چھوڑ دیں گے کہ ور وئے زمین پر پھل کر ( ایک دوسری میں گھسن جائیں وَاتْرُكِ الْبَحْرَ رَهْواً [ الدخان 24] اور دریا سے ( کہ ) خشک ( ہورہا ہوگا ) پاور ہوجاؤ ۔ اور بحالت مجبوری چھوڑ نے کے متعلق فرمایا : كَمْ تَرَكُوا مِنْ جَنَّاتٍ [ الدخان 25] وہ لوگ بہت سے جب باغ چھوڑ گئے ۔- نصف - نِصْفُ الشیءِ : شطْرُه . قال تعالی: وَلَكُمْ نِصْفُ ما تَرَكَ أَزْواجُكُمْ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُنَّ وَلَدٌ [ النساء 12] ، وَإِنْ كانَتْ واحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ [ النساء 11] ، فَلَها نِصْفُ ما تَرَكَ [ النساء 176] ، وإِنَاءٌ نَصْفَانُ : بلغ ما فيه نِصْفَهُ ، ونَصَفَ النهارُ وانْتَصَفَ : بلغ نصْفَهُ ، ونَصَفَ الإزارُ ساقَهُ ، والنَّصِيفُ : مِكْيالٌ ، كأنه نِصْفُ المکيالِ الأكبرِ ، ومِقْنَعَةُ النِّساء كأنها نِصْفٌ من المِقْنَعَةِ الكبيرةِ ، قال الشاعر : سَقَطَ النَّصِيفُ وَلَمْ تُرِدْ إِسْقَاطَهُ ... فَتَنَاوَلَتْهُ وَاتَّقَتْنَا بِالْيَدِوبلغْنا مَنْصَفَ الطریقِ. والنَّصَفُ : المرأةُ التي بيْنَ الصغیرةِ والکبيرةِ ، والمُنَصَّفُ من الشراب : ما طُبِخَ فذهب منه نِصْفُهُ ، والإِنْصَافُ في المُعامَلة : العدالةُ ، وذلک أن لا يأخُذَ من صاحبه من المنافع إِلَّا مثْلَ ما يعطيه، ولا يُنِيلُهُ من المضارِّ إلَّا مثْلَ ما يَنالُهُ منه، واستُعْمِل النَّصَفَةُ في الخدمة، فقیل للخادم : نَاصِفٌ ، وجمعه : نُصُفٌ ، وهو أن يعطي صاحبَه ما عليه بإِزاء ما يأخذ من النَّفع . والانْتِصَافُ والاسْتِنْصَافُ : طَلَبُ النَّصَفَةِ.- ( ن ص ف ) نصف الشئیء کے منعی حصہ کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَلَكُمْ نِصْفُ ما تَرَكَ أَزْواجُكُمْ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُنَّ وَلَدٌ [ النساء 12] اور جو مال تمہاری عورتیں چھوڑ مریں اگر ان کے اولاد نہ ہو تو اس میں نصف حصہ تمہارا ہے وَإِنْ كانَتْ واحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ [ النساء 11] اور اگر صرف ایک لڑکی ہو تو اس کا حصہ نصف فَلَها نِصْفُ ما تَرَكَ [ النساء 176] تو اس کو بھائی کے تر کہ میں سے آدھا حصہ ملے گا ۔ اناء نصفان آدھا بھرا ہو بر تن نصف النھار وانتصف دن کا نصف ہوجانا دو پہر کا وقت نصف الا زار ساقۃ ازار کا نصف پنڈلی تک ہونا ۔ نصیف غلہ ناپنے کے ایک پیمانے کا نما ہے گویا وہ مکیال اکبر ( بڑا پیمانہ ) کا نصف ہے اور اس کے معنی عورتوں کی اوڑ ھنی یا دو پٹہ بھی آتے ہیں ۔ چناچہ شاعر نے کہا ہے ( 469 ) سقط النصیب ولم تردا سقاطہ فتنا ولتہ واتقتنا بالید اوڑھنی سر سے گر می اور اس نے عمدا نہیں گرائی تھی پھر اس نے بد حواسی میں ) اسے سنبھالا اور ہاتھ کے ذریعے ہم سے پر دہ کیا ۔ بلغنا منصب الطریق ہم نے آدھا سفر طے کرلیا لنصف متوسط عمر کی عورت ادھیڑ عمر المنصف شراب جو آگ پر پکانے کے بعد آدھا رہ گیا ہو ۔ الانصاب کے معنی کسی معاملہ عدل سے کام لینے کے ہیں یعنی دوسرے سے صرف اسی قدر فائدے حاصل کرے جتنا کہ اسے پہنچا ہے ۔ اور نصفۃ کے معنی خدمت بھی آتے ہیں ۔ اور خادم کو ناصف کہا جاتا ہے اس کی جمع نصف آتی ہے اس نام میں اشارہ ہے کہ خدام کو حق خدمت پورا پورا ملنا چاہیئے ۔ الا نتصاف والا ستنصاب طلب خد مت کرنا - سدس - السُّدُسُ : جزء من ستّة، قال تعالی: فَلِأُمِّهِ السُّدُسُ [ النساء 11] ، والسِّدُسُ في الإظماء، وسِتٌّ أصله سِدْسٌ ، وسَدَسْتُ القومَ : صرت سادسهم، وأخذت سُدُسَ أموالهم، وجاء سَادِساً ، وسَاتّاً وَلا خَمْسَةٍ إِلَّا هُوَ سادِسُهُمْ [ المجادلة 7] ، وقال تعالی: وَيَقُولُونَ خَمْسَةٌ سادِسُهُمْ [ الكهف 22] ، ويقال : لا أفعل کذا سَدِيسَ عجیس، أي : أبدا «1» ، والسُّدُوسُ : الطّيلسان، والسّندس : الرّقيق من الدّيباج، والإستبرق : الغلیظ منه .- ( س د س ) السدس ( اسم عدد چھٹا حصہ کو کہتے ہیں ) قرآن میں ہے : ۔ فَلِأُمِّهِ السُّدُسُ [ النساء 11] تو ماں کا چھٹا حصہ ہے السدس پیاسے اونٹوں کو چھٹے روز پانی پلانے کی باری اور ست بھی اصل میں سدس ہی ہے ۔ سدست القوم کے معنی قوم میں چھٹا آدمی ہونے یا ان کے اموال سے چھٹا حصہ وصول کرنے کے ہیں اور جاء سادسا وساتا وسادیا کے ایک ہی معنی ہیں یعنی وہ چھٹے درجہ پر آیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَلا خَمْسَةٍ إِلَّا هُوَ سادِسُهُمْ [ المجادلة 7] اور نہ کہیں پانچ کا ( مجمع ہوتا ہے ) مگر وہ ان میں چھٹا ہوتا ہے ۔ وَيَقُولُونَ خَمْسَةٌ سادِسُهُمْ [ الكهف 22] اور بعض کہیں گے کہ وہ پانچ تھے اور چھٹا ان کا کتا تھا ۔ محاورہ مشہور ہے : ۔ لا أفعل کذا سَدِيسَ عجیس : میں کبھی بھی یہ کام نہیں کرونگا ۔ السدوس : طیسان کو کہتے ہیں السندس باریک اور اس کے مقابل استبرق موٹے ریشم کو کہتے ہیں ۔- ورث - الوِرَاثَةُ والإِرْثُ : انتقال قنية إليك عن غيرک من غير عقد، ولا ما يجري مجری العقد، وسمّي بذلک المنتقل عن الميّت فيقال للقنيةِ المَوْرُوثَةِ : مِيرَاثٌ وإِرْثٌ. وتُرَاثٌ أصله وُرَاثٌ ، فقلبت الواو ألفا وتاء، قال تعالی: وَتَأْكُلُونَ التُّراثَ [ الفجر 19] وقال عليه الصلاة والسلام : «اثبتوا علی مشاعرکم فإنّكم علی إِرْثِ أبيكم» أي : أصله وبقيّته - ( ور ث ) الوارثۃ - والا رث کے معنی عقد شرعی یا جو عقد کے قائم مقام ہے جو کے بغیر کسی چیز کے ایک عقد کے قائم مقام ہے کے بغیر کسی چیز کے ایک شخص کی ملکیت سے نکل کر دسرے کی ملکیت میں چلے جانا کئے ہیں اسی سے میت کی جانب سے جو مال ورثاء کی طرف منتقل ہوتا ہے اسے تراث اور کیراث کہا جاتا ہے اور تراث اصل میں وراث ہے واؤ مضموم کے شروع میں آنے کی وجہ سے اسے تا سے تبدیل کرلو اسے چناچہ قرآن میں سے ۔ وَتَأْكُلُونَ التُّراثَ [ الفجر 19] اور حج کے موقعہ پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ۔«اثبتوا علی مشاعرکم فإنّكم علی إِرْثِ أبيكم» کہ اپنے مشاعر ( مواضع نسکہ ) پر ٹھہرے رہو تم اپنے باپ ( ابراہیم کے ورثہ پر ہو ۔ تو یہاں ارث کے معنی اصل اور بقیہ نشان کے ہیں ۔- أخ - أخ الأصل أخو، وهو : المشارک آخر في الولادة من الطرفین، أو من أحدهما أو من الرضاع . ويستعار في كل مشارک لغیره في القبیلة، أو في الدّين، أو في صنعة، أو في معاملة أو في مودّة، وفي غير ذلک من المناسبات . قوله تعالی: لا تَكُونُوا كَالَّذِينَ كَفَرُوا وَقالُوا لِإِخْوانِهِمْ [ آل عمران 156] ، أي : لمشارکيهم في الکفروقوله تعالی: أَخا عادٍ [ الأحقاف 21] ، سمّاه أخاً تنبيهاً علی إشفاقه عليهم شفقة الأخ علی أخيه، وعلی هذا قوله تعالی: وَإِلى ثَمُودَ أَخاهُمْ [ الأعراف 73] وَإِلى عادٍ أَخاهُمْ [ الأعراف 65] ، وَإِلى مَدْيَنَ أَخاهُمْ [ الأعراف 85] ، - ( اخ و ) اخ - ( بھائی ) اصل میں اخو ہے اور ہر وہ شخص جو کسی دوسرے شخص کا ولادت میں ماں باپ دونوں یا ان میں سے ایک کی طرف سے یا رضاعت میں شریک ہو وہ اس کا اخ کہلاتا ہے لیکن بطور استعارہ اس کا استعمال عام ہے اور ہر اس شخص کو جو قبیلہ دین و مذہب صنعت وحرفت دوستی یا کسی دیگر معاملہ میں دوسرے کا شریک ہو اسے اخ کہا جاتا ہے چناچہ آیت کریمہ :۔ لَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ كَفَرُوا وَقَالُوا لِإِخْوَانِهِمْ ( سورة آل عمران 156) ان لوگوں جیسے نہ ہونا جو کفر کرتے ہیں اور اپنے مسلمان بھائیوں کی نسبت کہتے ہیں ۔ میں اخوان سے ان کے ہم مشرب لوگ مراد ہیں اور آیت کریمہ :۔ أَخَا عَادٍ ( سورة الأَحقاف 21) میں ہود (علیہ السلام) کو قوم عاد کا بھائی کہنے سے اس بات پر تنبیہ کرنا مقصود ہے کہ وہ ان پر بھائیوں کی طرح شفقت فرماتے تھے اسی معنی کے اعتبار سے فرمایا : ۔ وَإِلَى ثَمُودَ أَخَاهُمْ صَالِحًا ( سورة هود 61) اور ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو بھیجا ۔ وَإِلَى عَادٍ أَخَاهُمْ ( سورة هود 50) اور ہم نے عاد کی طرف ان کے بھائی ( ہود ) کو بھیجا ۔ وَإِلَى مَدْيَنَ أَخَاهُمْ شُعَيْبًا ( سورة هود 84) اور مدین کی طرف ان کے بھائی ( شعیب ) کو بھیجا ۔- أمّ- الأُمُّ بإزاء الأب، وهي الوالدة القریبة التي ولدته، والبعیدة التي ولدت من ولدته .- ولهذا قيل لحوّاء : هي أمنا، وإن کان بيننا وبینها وسائط . ويقال لکل ما کان أصلا لوجود شيء أو تربیته أو إصلاحه أو مبدئه أمّ ، قال الخلیل : كلّ شيء ضمّ إليه سائر ما يليه يسمّى أمّا قال تعالی: وَإِنَّهُ فِي أُمِّ الْكِتابِ [ الزخرف 4] أي : اللوح المحفوظ وذلک لکون العلوم کلها منسوبة إليه ومتولّدة منه . وقیل لمكة أم القری، وذلک لما روي : (أنّ الدنیا دحیت من تحتها) وقال تعالی: لِتُنْذِرَ أُمَّ الْقُرى وَمَنْ حَوْلَها [ الأنعام 92] ، وأمّ النجوم : المجرّة . قال : 23 ۔ بحیث اهتدت أمّ النجوم الشوابک وقیل : أم الأضياف وأم المساکين کقولهم : أبو الأضياف ويقال للرئيس : أمّ الجیش کقول الشاعر : وأمّ عيال قد شهدت نفوسهم وقیل لفاتحة الکتاب : أمّ الکتاب لکونها مبدأ الکتاب، وقوله تعالی: فَأُمُّهُ هاوِيَةٌ- [ القارعة 9] أي : مثواه النار فجعلها أمّا له، قال : وهو نحو مَأْواكُمُ النَّارُ [ الحدید 15] ، وسمّى اللہ تعالیٰ أزواج النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم أمهات المؤمنین فقال : وَأَزْواجُهُ أُمَّهاتُهُمْ [ الأحزاب 6] لما تقدّم في الأب، وقال : ابْنَ أُمَ [ طه 94] ولم يقل : ابن أب، ولا أمّ له يقال علی سبیل الذم، وعلی سبیل المدح، وکذا قوله : ويل أمّه وکذا : هوت أمّه والأمّ قيل : أصله : أمّهة، لقولهم جمعا : أمهات، وفي التصغیر : أميهة . وقیل : أصله من المضاعف لقولهم : أمّات وأميمة . قال بعضهم : أكثر ما يقال أمّات في البهائم ونحوها، وأمهات في الإنسان .- ( ا م م ) الام یہ اب کا بالمقابل ہے اور ماں قریبی حقیقی ماں اور بعیدہ یعنی نانی پر نانی وغیرہ سب کو ام کہاجاتا ہے یہی وجہ ہے کہ حضرت حواء کو امنا کہا گیا ہے اگرچہ ہمارا ان سے بہت دور کا تعلق ہے ۔ پھر ہر اس چیز کو ام کہا جاتا ہے ۔ جو کسی دوسری چیز کے وجود میں آنے یا اس کی اصلاح وتربیت کا سبب ہو یا اس کے آغاز کا مبداء بنے ۔ خلیل قول ہے کہ ہر وہ چیز جس کے اندر اس کے جملہ متعلقات منضم ہوجائیں یا سما جائیں ۔۔ وہ ان کی ام کہلاتی ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ وَإِنَّهُ فِي أُمِّ الْكِتَابِ ( سورة الزخرف 4) اور یہ اصل نوشتہ ( یعنی لوح محفوظ ) میں ہے ۔ میں ام الکتاب سے مراد لوح محفوظ ہے کیونکہ وہ وہ تمام علوم کا منبع ہے اور اسی کی طرف تمام علوم منسوب ہوتے ہیں اور مکہ مکرمہ کو ام القریٰ کہا گیا ہے ( کیونکہ وہ خطبہ عرب کا مرکز تھا ) اور بموجب روایت تمام روئے زمین اس کے نیچے سے بچھائی گئی ہے ( اور یہ ساری دنیا کا دینی مرکز ہے ) قرآن میں ہے :۔ لِتُنْذِرَ أُمَّ الْقُرَى وَمَنْ حَوْلَهَا ( سورة الشوری 7) تاکہ تو مکہ کے رہنے والوں کے انجام سے ڈرائے ۔ ام النجوم ۔ کہکشاں ۔ شاعر نے کہا ہے ( طویل ) (23) بحیث اھتدت ام النجوم الشو ایک یعنی جہان کہ کہکشاں راہ پاتی ہے ام الاضیاف ۔ مہمان نواز ۔ ام المساکین ۔ مسکین نواز ۔ مسکینوں کا سہارا ۔ ایسے ہی جیسے بہت زیادہ مہمان نواز کو ، ، ابوالاضیاف کہا جاتا ہے اور رئیس جیش کو ام الجیش ۔ شاعر نے کہا ہے ( طویل ) (24) وام عیال قدشھدت تقوتھم ، ، اور وہ اپنی قوم کے لئے بمنزلہ ام عیال ہے جو ان کو رزق دیتا ہے ۔ ام الکتاب ۔ سورة فاتحہ کا نام ہے ۔ کیونکہ وہ قرآن کے لئے بمنزلہ اور مقدمہ ہے ۔ اور آیت کریمہ :۔ فَأُمُّهُ هَاوِيَةٌ ( سورة القارعة 9) مثویٰ یعنی رہنے کی جگہ کے ہیں ۔ جیسے دوسری جگہ دوزخ کے متعلق وَمَأْوَاكُمُ النَّارُ ( سورة العنْکبوت 25) فرمایا ہے ( اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ امہ ھاویۃ ایک محاورہ ہو ) جس طرح کہ ویل امہ وھوت امہ ہے یعنی اس کیلئے ہلاکت ہو ۔ اور اللہ تعالیٰ نے آیت کریمہ :۔ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ ( سورة الأحزاب 6) میں ازواج مطہرات کو امہات المومنین قرار دیا ہے ۔ جس کی وجہ بحث اب میں گزرچکی ہے ۔ نیز فرمایا ۔ يَا ابْنَ أُمَّ ( سورة طه 94) کہ بھائی ۔ ام ۔ ( کی اصل میں اختلاف پایا جاتا ہے ) بعض نے کہا ہے کہ ام اصل میں امھۃ ہے کیونکہ اس کی جمع امھات اور تصغیر امیھۃ ہے اور بعض نے کہا ہے کہ اصل میں مضاعف ہی ہے کیونکہ اس کی جمع امات اور تصغیر امیمۃ آتی ہے ۔ بعض کا قول ہے کہ عام طور پر حیونات وغیرہ کے لئے امات اور انسان کے لئے امھات کا لفظ بولا جاتا ہے ۔- دين ( قرض)- والتَّدَايُنُ والمداینة : دفع الدَّيْن، قال تعالی:إِذا تَدايَنْتُمْ بِدَيْنٍ إِلى أَجَلٍ مُسَمًّى [ البقرة 282] التداین والمداینۃ ۔ قرض کا معاملہ کرنا قرآن میں ہے : ۔ إِذا تَدايَنْتُمْ بِدَيْنٍ إِلى أَجَلٍ مُسَمًّى [ البقرة 282] جب تم آپس میں کیسی میعاد معین کے لئے قرض کا معاملہ کرنے لگو ۔- أب - الأب : الوالد، ويسمّى كلّ من کان سببا في إيجاد شيءٍ أو صلاحه أو ظهوره أبا، ولذلک يسمّى النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم أبا المؤمنین، قال اللہ تعالی: النَّبِيُّ أَوْلى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَأَزْواجُهُ أُمَّهاتُهُمْ [ الأحزاب 6]- ( اب و ) الاب - ۔ اس کے اصل معنی تو والد کے ہیں ( مجازا) ہر اس شخص کو جو کسی شے کی ایجاد ، ظہور یا اصلاح کا سبب ہوا سے ابوہ کہہ دیا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ آیت کریمہ ۔ النَّبِيُّ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ [ الأحزاب : 6] میں آنحضرت کو مومنین کا باپ قرار دیا گیا ہے ۔- دری - الدّراية : المعرفة المدرکة بضرب من الحیل، يقال : دَرَيْتُهُ ، ودَرَيْتُ به، دِرْيَةً ، نحو : فطنة، وشعرة، وادَّرَيْتُ قال الشاعر : وماذا يدّري الشّعراء منّي ... وقد جاوزت رأس الأربعین والدَّرِيَّة : لما يتعلّم عليه الطّعن، وللناقة التي ينصبها الصائد ليأنس بها الصّيد، فيستتر من ورائها فيرميه، والمِدْرَى: لقرن الشاة، لکونها دافعة به عن نفسها، وعنه استعیر المُدْرَى لما - يصلح به الشّعر، قال تعالی: لا تَدْرِي لَعَلَّ اللَّهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذلِكَ أَمْراً [ الطلاق 1] ، وقال : وَإِنْ أَدْرِي لَعَلَّهُ فِتْنَةٌ لَكُمْ [ الأنبیاء 111] ، وقال : ما كُنْتَ تَدْرِي مَا الْكِتابُ [ الشوری 52] ، وكلّ موضع ذکر في القرآن وما أَدْراكَ ، فقد عقّب ببیانه نحو وما أَدْراكَ ما هِيَهْ نارٌ حامِيَةٌ [ القارعة 10- 11] ، وَما أَدْراكَ ما لَيْلَةُ الْقَدْرِ لَيْلَةُ الْقَدْرِ [ القدر 2- 3] ، وَما أَدْراكَ مَا الْحَاقَّةُ [ الحاقة 3] ، ثُمَّ ما أَدْراكَ ما يَوْمُ الدِّينِ [ الانفطار 18] ، وقوله : قُلْ لَوْ شاءَ اللَّهُ ما تَلَوْتُهُ عَلَيْكُمْ وَلا أَدْراكُمْ بِهِ [يونس 16] ، من قولهم : دریت، ولو کان من درأت لقیل : ولا أدرأتكموه . وكلّ موضع ذکر فيه : وَما يُدْرِيكَ لم يعقّبه بذلک، نحو : وَما يُدْرِيكَ لَعَلَّهُ يَزَّكَّى [ عبس 30] ، وَما يُدْرِيكَ لَعَلَّ السَّاعَةَ قَرِيبٌ [ الشوری 17] ، والدّراية لا تستعمل في اللہ تعالی، وقول الشاعر : لا همّ لا أدري وأنت الدّاري فمن تعجرف أجلاف العرب - ( د ر ی ) الدرایۃ اس معرفت کو کہتے ہیں جو کسی قسم کے حیلہ یا تدبیر سے حاصل کی جائے اور یہ دریتہ ودریت بہ دریۃ دونوں طرح استعمال ہوتا ہے ( یعنی اس کا تعدیہ باء کے ساتھ بھی ہوتا ہے ۔ اور باء کے بغیر بھی جیسا کہ فطنت وشعرت ہے اور ادریت بمعنی دریت آتا ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ع اور شعراء مجھے کیسے ہو کہ دے سکتے ہیں جب کہ میں چالیس سے تجاوز کرچکاہوں قرآن میں ہے ۔ لا تَدْرِي لَعَلَّ اللَّهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذلِكَ أَمْراً [ الطلاق 1] تجھے کیا معلوم شاید خدا اس کے کے بعد کوئی ( رجعت کی سبیلی پیدا کردے ۔ وَإِنْ أَدْرِي لَعَلَّهُ فِتْنَةٌ لَكُمْ [ الأنبیاء 111] اور میں نہیں جانتا شاید وہ تمہارے لئے آزمائش ہو ۔ ما كُنْتَ تَدْرِي مَا الْكِتابُ [ الشوری 52] تم نہ تو کتاب کو جانتے تھے ۔ اور قرآن پاک میں جہاں کہیں وما ادراک آیا ہے وہاں بعد میں اس کا بیان بھی لایا گیا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَما أَدْراكَ ما هِيَهْ نارٌ حامِيَةٌ [ القارعة 10- 11] اور تم کیا سمجھتے کہ ہاویہ ) کیا ہے ؟ ( وہ ) دھکتی ہوئی آگ ہے ۔ وَما أَدْراكَ ما لَيْلَةُ الْقَدْرِ لَيْلَةُ الْقَدْرِ [ القدر 2- 3] اور تمہیں کیا معلوم کہ شب قدر کیا ہے ؟ شب قدر ۔ وَما أَدْراكَ مَا الْحَاقَّةُ [ الحاقة 3] اور تم کو کیا معلوم ہے کہ سچ مچ ہونے والی کیا چیز ہے ؟ ثُمَّ ما أَدْراكَ ما يَوْمُ الدِّينِ [ الانفطار 18] اور تمہیں کیا معلوم کہ جزا کا دن کیسا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ قُلْ لَوْ شاءَ اللَّهُ ما تَلَوْتُهُ عَلَيْكُمْ وَلا أَدْراكُمْ بِهِ [يونس 16] یہ بھی ) کہہ و کہ اگر خدا چاہتا تو ( نہ تو ) میں ہی یہ کتاب ) تم کو پڑھکر سناتا اور نہ وہی تمہیں اس سے واقف کرتا ۔ میں سے ہے کیونکہ اگر درآت سے ہوتا تو کہا جاتا ۔ اور جہاں کہیں قران میں وما يُدْرِيكَآیا ہے اس کے بعد اس بیان مذکور نہیں ہے ( جیسے فرمایا ) وَما يُدْرِيكَ لَعَلَّهُ يَزَّكَّى [ عبس 30] اور تم کو کیا خبر شاید وہ پاکیزگی حاصل کرتا ہے ۔ وَما يُدْرِيكَ لَعَلَّ السَّاعَةَ قَرِيبٌ [ الشوری 17] اور تم کیا خبر شاید قیامت قریب ہی آپہنچی ہو یہی وجہ ہے کہ درایۃ کا لفظ اللہ تعالیٰ کے متعلق استعمال نہیں ہوتا اور شاعر کا قول ع اے اللہ ہی نہیں جانتا اور تو خوب جانتا ہے میں جو اللہ تعالیٰ کے متعلق استعمال ہوا ہے بےسمجھ اور اجڈ بدر دکا قول ہے ( لہذا حجت نہیں ہوسکتا ) - الدریۃ - ( 1 ) ایک قسم کا حلقہ جس پر نشانہ بازی کی مشق کی جاتی ہے ۔ ( 2 ) وہ اونٹنی جسے شکار کو مانوس کرنے کے لئے کھڑا کردیا جاتا ہے ۔ اور شکار اسکی اوٹ میں بیٹھ جاتا ہے تاکہ شکا کرسکے ۔ المدوی ( 1 ) بکری کا سینگ کیونکہ وہ اس کے ذریعہ مدافعت کرتی ہے اسی سے استعارہ کنگھی یا بار یک سینگ کو مدری کہا جاتا ہے جس سے عورتیں اپنے بال درست کرتی ہیں ۔ مطعن کی طرح مد سر کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے جس کے معنی بہت بڑے نیزہ باز کے ہیں ۔ ایک روایت میں ہے کہ عنبر میں زکوۃ نہیں ہے وہ ایک چیز ہے جسے سمندر کنارے پر پھینک دیتا ہے ۔- أيا - أَيُّ في الاستخبار موضوع للبحث عن بعض الجنس والنوع وعن تعيينه، ويستعمل ذلک في الخبر والجزاء، نحو : أَيًّا ما تَدْعُوا فَلَهُ الْأَسْماءُ الْحُسْنى [ الإسراء 110] ، وأَيَّمَا الْأَجَلَيْنِ قَضَيْتُ فَلا عُدْوانَ عَلَيَّ [ القصص 28]- ( ا ی ی ) ای ۔- جب استفہام کیلئے ہو تو جنس یا نوع کی تعیین اور تحقیق کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اور یہ خبر اور جزا کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے چناچہ فرمایا :۔ أَيًّا مَا تَدْعُوا فَلَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى ( سورة الإسراء 110) جس نام سے اسے پکارا اس کے سب نام اچھے ہیں أَيَّمَا الْأَجَلَيْنِ قَضَيْتُ فَلَا عُدْوَانَ عَلَيَّ ( سورة القصص 28) کہ میں جونسی مدت ( چاہو ) پوری کردوں پھر مجھ پر کوئی زیادتی نہ ہو ۔- قرب - الْقُرْبُ والبعد يتقابلان . يقال : قَرُبْتُ منه أَقْرُبُ وقَرَّبْتُهُ أُقَرِّبُهُ قُرْباً وقُرْبَاناً ، ويستعمل ذلک في المکان، وفي الزمان، وفي النّسبة، وفي الحظوة، والرّعاية، والقدرة . فمن الأوّل نحو : وَلا تَقْرَبا هذِهِ الشَّجَرَةَ [ البقرة 35] ، - ( ق ر ب ) القرب - القرب والبعد یہ دونوں ایک دوسرے کے مقابلہ میں استعمال ہوتے ہیں ۔ محاورہ ہے : قربت منہ اقرب وقربتہ اقربہ قربا قربانا کسی کے قریب جانا اور مکان زمان ، نسبی تعلق مرتبہ حفاظت اور قدرت سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے جنانچہ فرب مکانی کے متعلق فرمایا : وَلا تَقْرَبا هذِهِ الشَّجَرَةَ [ البقرة 35] لیکن اس درخت کے پاس نہ جانا نہیں تو ظالموں میں داخل ہوجاؤ گے ۔ - نفع - النَّفْعُ : ما يُسْتَعَانُ به في الوُصُولِ إلى الخَيْرَاتِ ، وما يُتَوَصَّلُ به إلى الخَيْرِ فهو خَيْرٌ ، فَالنَّفْعُ خَيْرٌ ، وضِدُّهُ الضُّرُّ. قال تعالی: وَلا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَلا نَفْعاً [ الفرقان 3] - ( ن ف ع ) النفع - ہر اس چیز کو کہتے ہیں جس سے خیرات تک رسائی کے لئے استعانت حاصل کی جائے یا وسیلہ بنایا جائے پس نفع خیر کا نام ہے اور اس کی ضد ضر ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَلا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَلا نَفْعاً [ الفرقان 3] اور نہ اپنے نقصان اور نفع کا کچھ اختیار رکھتے ہیں ۔- فرض - الفَرْضُ : قطع الشیء الصّلب والتأثير فيه، کفرض الحدید، وفرض الزّند والقوس، والمِفْرَاضُ والمِفْرَضُ : ما يقطع به الحدید، وفُرْضَةُ الماء : مقسمه . قال تعالی: لَأَتَّخِذَنَّ مِنْ عِبادِكَ نَصِيباً مَفْرُوضاً [ النساء 118] ، أي : معلوما، فَرْضٌ. وكلّ موضع ورد ( فرض اللہ عليه) ففي الإيجاب الذي أدخله اللہ فيه، وما ورد من : ( فرض اللہ له) فهو في أن لا يحظره علی نفسه . نحو . ما کان عَلَى النَّبِيِّ مِنْ حَرَجٍ فِيما فَرَضَ اللَّهُ لَهُ [ الأحزاب 38]- ( ف ر ض ) الفرض ( ض ) کے معنی سخت چیز کو کاٹنے اور اس میں نشان ڈالنے کے ہیں مثلا فرض الحدید لوہے کو کاٹنا فرض القوس کمان کا چلہ فرض الزند چقماق کا ٹکڑا اور فر ضۃ الماء کے معنی در یا کا دہانہ کے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ لَأَتَّخِذَنَّ مِنْ عِبادِكَ نَصِيباً مَفْرُوضاً [ النساء 118] میں تیرے بندوں سے ( غیر خدا کی نذر ( لو ا کر مال کا یاک مقرر حصہ لے لیا کروں گا ۔ ۔ اور فرض بمعنی ایجاب ( واجب کرنا ) آتا ہے مگر واجب کے معنی کسی چیز کے لحاظ وقوع اور ثبات کے ۔ اور ہر وہ مقام جہاں قرآن میں فرض علٰی ( علی ) کے ساتھ ) آیا ہے ۔ اس کے معنی کسی چیز کے واجب اور ضروری قرا ردینے کے ہیں اور جہاں ۔ فرض اللہ لہ لام کے ساتھ ) آیا ہے تو اس کے معنی کسی چیز سے بندش کود ور کرنے اور اسے مباح کردینے کے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ ما کان عَلَى النَّبِيِّ مِنْ حَرَجٍ فِيما فَرَضَ اللَّهُ لَهُ [ الأحزاب 38] پیغمبر پر اس کام میں کچھ تنگی نہیں جو خدا نے ان کے لئے مقرر کردیا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

اسلام میں کسی حقیقی وارث کو نظرانداز نہیں کیا جاتا - قول باری (یوصیکم اللہ فی اولادکم) میں اس مقررومتعین حصے کا بیان ہے جو قول باری (للرجال نصیب) تاقول باری (نصیبامفروضا) میں مذکور ہے۔ نصیب مفروض، وہ حصہ ہے جس کی مقدارقول باری (یوصیکم اللہ فی اولادکم) میں بیان ہوئی۔ حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ آپ نے آیت (کتب علیکم اذا حضراحدکم الموت ان ترک خیرن الوصیۃ للوالدین والاقربین، تم پر والدین اوراقرباء کے لیے وصیت کرنا فرض کردیا گیا جب تم میں سے کسی کی موت کا وقت قریب آجائے اگر وہ مال چھوڑکرجارہاہو) تلاوت کی اور فرمایا کہ اس حکم کو قول باری (للرجال نصیب مماترک الوالدان والاقربون) مجاہد کا قول ہے کہ میراث ولد کو ملتی تھی اور والدین اوراقرباء کے لیے وصیت ہوتی تھی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس میں جو چاہا منسوخ کردیا اور بیٹے کے لیے دو بیٹیوں کے حصوں کے برابر حصہ مقرر کردیا۔ اور بیٹا بیٹی کی موجودگی میں والدین میں سے ہر ایک کا چھٹاحصہ مقرر کردیا۔ حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ دستوریہ تھا کہ جب کوئی شخص وفات پاجاتا تو اس کی بیوہ اسی گھر میں پورے ایک سال مدت گذارتی اس دوران اسے مرحوم شوہر کے ترکے میں سے نان ونفقہ دیاجاتا۔ قول باری (والذین یتوفون منکم ویذرون ازواجا وصیۃ لازواجھم عا الی الحول غیراخراج، تم میں سے جو لوگ وفات پاجائیں اور ان کے پیچھے ان کی بیویاں رہ جائیں تو وہ اپنی بیویوں کے لیے ایک سال تک فائدہ اٹھانے کی وصیت کرجائیں اور انہیں وہاں سے نکالانہ جائے) کا یہی مفہوم ہے۔ پھر بیویوں کے لیے ترکہ میں چوتھا یا آٹھواں حصہ مقررکرکے یہ حکم منسوخ کردیا گیا اوقول باری (واولوالارحام بعضھم اولی ببعض) کے ذریعے دوستی کے معاہدے، منہ بولا بیٹا بنانے اور ہجرت کرنے کی بناپر ایک دوسرے لے وارث ہونے کا حکم منسوخ ہوگیا جس کا ہم پہلے ذکرکر آئے ہیں۔ اس طرح قول باری (یوصیکم اللہ فی اولادکم) غیہ منسوخ محکم آیت ہے۔ یہ آیت میراث کے درج بالا اسباب کے حکم کے نسخ کی موجب ہے۔ اس لیے کہ اس نے میراث کا حق داران اقرباء کو قراردیا۔ جن کا ذکر اس میں آیا ہے۔ اس کے بعدان اسباب کی وجہ سے وارث قرارپانے والوں کے لیے کچھ نہیں بچا اور یہی بات ان کے حقوق کو ساقط کرنے کی موجب ہے۔- محمد بن عبداللہ بن عقیل نے حضرت جابربن عبداللہ (رض) سے روایت کی ہے کہ ایک انصاری عورت اپنی دوبیٹیاں لے کر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آئی اور عرض کیا یہ ثابت بن قیس کی بیٹیاں ہیں جو آپ کی ہمراہی میں معرکہ احد میں شہید ہوگئے تھے۔ ان کے چچانے ان کے لیے کوئی مال رہنے نہیں دیا اور سب کچھ اپنے قبضے میں کرلیا۔ حضور، اب آپ ان کے متعلق کیا فرماتے ہیں ؟ ان دونوں کے ہاتھ پیلے اس وقت ہوسکیں گے جب کہ ان کے پاس مال ہوگا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ سن کر فرمایا، اللہ ان کے بارے میں فیصلہ کرے گا۔ اللہ تعالیٰ نے سورة نساء نازل فرمائی جس کا ایک جز (یوصیکم اللہ فی اولادکم للذکرمثل حظا الانثیین) کی آیت ہے۔ آپ نے اس عورت اور اس کے ویورکوبلانے کا حکم دیا۔ آپ نے بچیوں کے چچاکوحکم دیا کہ اپنے مرحوم بھائی کے نز کہ میں سے دوتہائی بچیوں کو اورآٹھواں حصہ ان کی ماں کودے دے اور باقی ماندہ مال خودرکھ لے۔- ابوبکرجصاص کہتے ہیں کہ یہ روایت کئی معانی پر مشتمل ہے۔ ایک یہ کہ زمانہ جاہلیت کے دستور کے مطابق چچا میراث کا مستحق ہوگیا تھا اور بیٹیاں محروم رہ گئی تھیں، کیونکہ اہل جاہلیت جنگ کرنے کے قابل، مردوں کو وراثت کا مستحق سمجھتے تھے۔ عورتوں اور بچوں کو اس کا اہل قرار نہیں دیتے تھے۔ عورت نے جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا تو آپ نے اس طریق کارپرنکیر نہیں کی بلکہ اسے بحالہ باقی رکھتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اس بارے میں فیصلہ فرمائے گا۔ پھر جب آیت کا نزول ہوگیا تو آپ نے چچاکوحکم دیا کہ وہ بچیوں اور ان کی ماں کو ان کا حصہ دے دے یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہ کہ چچانے شروع میں میراث اپنے قبضے میں شریعت کی رہنمائی کی روشنی میں نہیں تھی بلکہ اہل ہلیت کے دستور کے مطابق اس نے یہ اقدام کیا تھا۔ اس لیے کہ اگر صورت حال یہ ہوتی تو پھر آیت کے نزدل کے بعد نئے سرے سی کوئی قدم اٹھایاجاتا اور نزول سے پہلے منصوص حکم پر حملدرآمدہوچکا تھا اس پر نسخ کے سلسلے میں اس آیت کا کوئی اثر نہیں پڑتا۔ یہ چیز اس پر دلالت کوتی ہے کہ اس نے یہ قدم اہل جاہلیت کے اس دستور کی روشنی میں اٹھایا تھا جس سے اس وقت تک شرعی حکم کی طرف منتقلی عمل میں نہیں آئی تھی۔- سفیان بن عیینہ سے محمد بن المنکدر سے انہوں نے حضرت جابربن عبداللہ سے روایت کی ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ میں بیمارپڑگیا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میری عیادت کے لیے تشریف لائے اس وقت مجھ پر بےہوشی کی کیفیت طاری تھی۔ آپ نے وضو فرمایا اور اپنے وضوکاپانی مجھ پرچھڑکاجس سے مجھے ہوش آگیا۔ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ، میرے مال کے بارے میں آپ کیا فیصلہ دیتے ہیں آپ یہ سن کر خاموش رہے اور کوئی جواب نہیں دیاحتی کہ آیت میراث (یوصیکم اللہ) نازل ہوئی۔- ابوبکرجصاص کہتے ہیں کہ پہلی حدیث میں عورت اور اس کی دو بیٹیوں کا واقعہ بیان ہوا۔ اور اس حدیث میں یہ ذکرہوا کہ حضرت جابر (رض) نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس بارے میں سوال کیا یہاں اس بات کی گنجائش ہے کہ دونوں صورتیں پیش آئی ہوں عورت نے آپ سے پوچھاہو اور آپ نے وحی کے انتظار میں اسے کوئی جواب نہ دیا ہوپھرحضرت جابر (رض) نے اپنی بیماری کی حالت میں یہی سوال کیا ہو اور پھر آیت نازل ہوئی ہو۔ اب اس آیت کے تحت دیئے جانے والے احکامات غیر منسوخ ہیں اور قول باری (للرجال نصیب مماترک الوالدان والاقربون) میں بیان شدہ نصیب یعنی حصے کی بات کو اورپختہ کرتے ہیں۔- اہل علم کا اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ قول باری (یوصیکم اللہ فی اولاد کم) میں صلبی اولاد مراد ہیں۔ نیزصلبی اولاد کے ساتھ کی اولاد اس حکم میں داخل نہیں ہے اور اگر صلبی اولاد موجودنہ ہو تو آیت سے بیٹیوں کی اولادمراد ہوگی۔ بیٹیوں کی نہیں۔ اس لیے لفظ (اولادکم) صلبی اولاد اور ان کی عدم موجودگی میں بیٹیوں کی اولاد کو شامل ہے۔ یہ بات ہمارے اصحاب کے قول کی صحت پر دلالت کرتی ہے کہ اگر کوئی شخص کسی شخص کے ولد یعنی بیٹا بیٹی کے لیے وصیت کرجائے فو اس کی وصیت اس شخص کی صلبی اولاد کے لیے ہوگی اور اگر صلبی اولادنہ ہو تو پھر اس کے بیٹے کی اولاد کے لیے ہوگی۔- قول باری (للذکرمثل حظ الانثیین) یہ بتارہا ہے کہ اگر ایک مذکر اور ایک مونث ہوتومذکرکودوحصے ملیں گے اور مونث کو ایک حصہ۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اگر ان کی تعدادزیادہ ہو تو ہر مذکرکودوحصے اور ہر مونث کو ایک حصہ ملے گا۔ نیز اس کا بھی پتہ چلاکر کہ اگر اولاد کے ساتھ ذویالفروض مثلا والدین، شوہریابیوی وغیرہ ہوں توذوی الفروض کو ان کا حصہ دینے کے بعد جو بچ رہے گا وہ الادکودرج بالانسبت سے دے دیاجائے گا۔ اس لیے کہ قول باری (للذکرمثل حظ الثیین) اسم جنس ہے جوان کو قلیل اور کثیرتعدادسب کو شامل ہے۔ اس لیے جب ذوالفروض اپنے اپنے حصے حاصل کرلیں گے تو باقی ماندہ ترکہ ان کے درمیان اسی استحقاق کی بناپر تقسیم ہوجائے گاجوا نہیں ذوی الفروض کی عدم موجود گی میں حاصل ہوتا۔- قول باری ہے (فان کن نساء فوق الثنتین فلھن ثلثاترک وان کانت واحدۃ ثلھا النصف، اگر یہ سب عورتیں ہوں جن کی تعداددو سے زائد ہوتوان کے لیے ترکے کا دو تہائی ہے اور اگر ایک ہو تو اس کے لیے نصف ترکہ ہے) اللہ تعالیٰ نے دو سے زائد اور ایک کے حصوں کو منصوص طریقے پر بیان کردیا لیکن دو کے حصوں کو بیان نہیں کیا اس لیے کہ آیت کے ضمن میں دو کے حصوں پر دلالت موجود ہے وہ اس طرح کہ ایک بیٹی کے لیے تہائی حصہ مقررکردیاجب کہ ساتھ ایک بیٹا بھی ہو۔ اب جب وہ مذکر یعنی بیٹے کے ساتھ ایک تہائی لیتی ہے تو پھر ایک بیٹی کے ساتھ تہائی حصہ لینا اولی اوراقرب ہے۔ اس کے بعدہ میں دو سے زائد کے حکم کے لیے نص کی ضرورت تھی اس لیے دو سے زائد کا حکم منصوص طریقے پر بیان فرمادیا۔ نیز جب اللہ تعالیٰ نے (للذکرمثل حظ الانثیین) فرمادیا، تومرنے والے کے ایک بیٹے اور ایک بیٹی کو ترکے کادوتہائی ملتا جو دو بیٹیوں کے حصوں کا مجموعہ ہے یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ دو بیٹیوں کا حصہ دوتہائی ہے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے بیٹے کا حصہ دو بیٹیوں کے حصے کے برابرقراردیا ہے۔ دو بیٹیوں کے لیے دوتہائی حصے پر یہ بات بھی دلالت کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بھائیوں اور بہنوں کا معاملہ کی بیٹیوں کی طرح رکھا ہے اور ایک بہن کا معاملہ ایک بیٹی کی طرح رکھا ہے۔ چناچہ ارشادباری ہے (ان امرؤھلک لیس لہ ولدو لہ اخت فلھا۔ نصف ماترک، اگر کوئی شخص وفات یا جائے اور اس کی کوئی اولاد نہ ہو، اس کی ایک بہن ہو۔ توا سے نز کے کا نصف ملے گا) پھر فرمایا (وان کانتا اثنتین فلھماالثلثان مماترک وان کانواخوۃ ورجالاؤنساء فللذکرمثل حظ الانثین، اگر دو بہنیں ہوں تو ان کے لیے ترکے کا و وتہائی ہے اور اگر بھائی بہنیں ہوں تو مرد کے لیے ددعورتوں کے برابرحصہ ہے) اللہ تعالیٰ نے دو بہنوں کا حصہ دو سے زائد کی طرح مقرر کیا یعنی دوتہائی جس طرح کہ ایک بہن کے لیے ایک بیٹی جتناحصہ مقرر کیا اور بھائیوں بہنوں کی صورت میں مرد کا حصہ دوعورتوں کے حصوں کے برابر واجب کردیا۔ اس سے یہ چیزضروری ہوگئی کہ دوتہائی کے استحقاق میں دوبیٹیاں دو بہنوں کی طرح ہوجائیں، اس لیے کہ ایک مرد کے لیے دوعورتوں کے برابرحصے کے اصول میں ان کے درمیان مال کی تقسیم واجب کرنے کے لحاظ سے دو بیٹیوں اور دو بہنوں کی حیثیت یکساں ہے۔ بشرطیکہ ان کے ساتھ اور کوئی وارث موجونہ ہو جس طرح کہ کسی اور وارث کی عدم موجودگی کی صورت میں نصف ترکہ کے استحقاق میں ایک بیٹی اور ایک بہن کی حیثیت یکساں ہے۔ نیز دوبیٹیاں دو بہنوں کی بہ نسبت دوتہائی ترکہ کی زیادہ حقدار ہیں کیونکہ بیٹیاں بہنوں کی بہ نسبت میت سے زیادہ قریب ہیں۔ اور جب ایک بہن ایک بیٹی کی طرح ہے تو دوتہائی کے استحقاق میں دوبیٹیاں بھی ایسی ہی ہوں گی۔- اس پر حضرت جابر (رض) کی وہ حدیث بھی دلالت کرتی ہے جس میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دو بیٹیوں کو دوتہائی حصہ دیا تھا۔ بیوی کو آٹھواں اور باقی ماندہ ترکہ چچاکودیا تھا۔ اس سلسلے کوئی اختلاف مروی نہیں ۔ صرف حضرت ابن عباس (رض) سے ایک روایت ہے کہ انہوں نے دو بیٹیوں کو بھی ایک بیٹی کی طرح نصف ترکہ دیا تھا۔ ان کا استدلال اس قول باری سے ہے (فان کن نساء فوق اثنتین فلھن ثلثاماترک، اگر دو سے زائد بیٹیاں ہوں توا نہیں ترکہ کا دو تہائی ملے گا) لیکن اس میں یہ دلیل نہیں ہے کہ دو بیٹیوں کو نصف ملے گا۔ اس میں جو منصوصبات ہے وہ یہ ہے کہ دو سے زائد کے لیے دوتہائی ہے۔ اگر دو بیٹیوں کے لیے دوتہائی کا قائل آیت کی مخالفت کا مرتکب ہے تو اللہ تعالیٰ نے ایک بیٹی کے لیے نصف مقرر کیا ہے جبکہ معترض دو بیٹیوں کے لیے نصف مقررکررہا ہے۔ اور یہ بات آیت کے خلاف ہے کہ اگر دو بیٹیوں کے لیے نصف ترکہ مقرر کرنے پر آیت کی مخالفت نہیں ہوتی جبکہ اللہ تعالیٰ نے ایک بیٹی کے لیے یہ حصہ مقرر کیا ہے تو دو بیٹیوں کے لیے دوتہائی مقررکرکے بھی آیت کی مخالفت لازم نہیں آتی۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے قول (فان کن نساء فوق اثنتین فلھن ثلثاماترک) میں اس کی نفی نہیں کی کہ دو بیٹیوں کو دوتہائی حصہ دے دیاجائے۔ بلکہ صرف دو سے زائدکاحکم نص کے طورپربیان فرمایا ہے۔ آیت کے ضمن میں دو کے حکم پر بھی دلالت ہوگئی ہے۔ جیسا کہ ہم پہلے بیان کر آئے ہیں۔ نیز ہماری وضاحت کے مطابق دو بیٹیوں کے حکم پر دو بہنوں کا حکم بھی دلالت کررہا ہے۔- ایک قول یہ بھی ہے کہ قول باری (فان کن نساء فوق اثنتین) میں لفظ فوق اسی طرح صلہ کلام واقع ہوا ہے جس طرح کہ قول باری (فاضربوافوق الاعناق، گردنوں کے اوپر ضرب لگاؤ) میں صلہ واقع ہوا ہے۔- قول باری ہے (ولابویہ لکل واحدمنھماالسدس ان کان لہ ولد، اگر میت صاحب اولاد ہو تو اس کے والدین میں سے ہر ایک کو ترکے کا چھٹاحصہ ملے گا) آیت کا ظاہراس بات کو واجب قراردیتا ہے کہ ولد کے ساتھ ماں باپ میں سے ہر ایک کو چھٹاحصہ ملے گا خواہ ولدبیٹاہویابیٹی ہو تو وہ نصف سے زائد کی مستحق نہیں ہوگی اس لیے کہ قول باری ہے (وان کانت واحدۃ خلھا النصف) اس سے یہ ضروری ہوگیا کہ حکم نص کے مطابق بیٹی کو نصف حصہ دیاجائے اور والدین میں سے ہر ایک کو چھٹاحصہ دیاجائے اور باقی ماندہ چھٹے حصے کا حق دارعصبہ ہونے کی بناپرباپ کو قراردیاجائے۔ اس صورت میں دوحیثیتوں سے ترکے کا مستحق ہوگا ایک توذوی الفروض کی حیثیت سے اور دوسراعصبہ ہونے کی حیثیت سے۔ اگر میت کا ولدبیٹا ہوتوحکم نص کے مطابق والدین کے لیے دوسدی اور باقی ماندہ ترکہ بیٹے کا ہوگا۔ اس لیے کہ عصبہ ہونے کی حیثیت سے وہ باپ کے مقابلہ میں میت سے زیادہ قریب ہے۔- قول باری ہے (فان لم یکن لہ ولد وورثہ ابواہ فلامہ الثلث، اگر میت صاحب اولادنہ ہو اور والدین ہی اس کے وارث ہوں تو ماں کو تیسراحصہ دیاجائے گا) عموم لفظہ سے پہلے ماں باپ دونوں کے لیے میراث ثابت کردی گئی، اور پھر ماں کا حصہ الگ سے بیان کردیا گیا، اور اس کی مقدار بھی متعین کردی گئی ہے فرمایا گیا (فلامہ الثلث) یہاں باپ کا حصہ بیان نہیں کیا گیا، لیکن ظاہرلفظ کا تقاضایہ ہے کہ باپ کو ودتہائی مل جائے کیونکہ اس کے سوا اور کوئی وارث موجود نہیں۔ اور فقرے کے شروع میں ماں باپ دونوں کے لیے میراث ثابت کردی گئی تھی اگر صرف (وورثہ ابواہ) ہوتا اور آگے ماں کے حصہ کی تفصیل نہ ہوتی تو ظاہر لفظ کا یہ تقاضا ہوتا کہ ماں باپ دونوں کے درمیان مساوات رکھی جائے۔ اب جبکہ ماں کے حصے کی تفصیل پر اقتصار کیا گیا تو اس سے یہ معلوم ہوگیا کہ باپ کے لیے دوتہائی ہے۔- قول باری ہے (فان کان لہ اخوۃ فلامہ السدس، اگر اس کے بھائی بھائی ہوں تو ماں کا چھٹاحصہ ہوگا) حضرت علی (رض) ، حضرت ابن مسعو (رض) د، حضرت عمر (رض) ، حضرت عثمان (رض) ، حضرت زیدبن ثابت (رض) اور تمام اہل علم کا قول ہے کہ اگر دوبھائی اور والدین ہوں تو بھی ماں کو چھٹاحصہ ملے گا اور باقی ماندہ ترکہ باپ کو ملے گا۔ ان حضرات نے اس صورت میں ماں کا حصہ تہائی سے گھٹاکر ایک سدس کردیا ہے جس طرح کہ تین بھائیوں کی صورت میں مان کا حصہ گھٹ کر سدس رہ جاتا ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) کا قول ہے کہ دوبھائیوں کی صورت میں ماں کو تہائی حسہ ملے گا اور اس کا حصہ صرف اسی صورت میں گھٹ سکتا ہے، جب تین بھائی بہن ہوں۔ معمرنے طاؤس سے انہوں نے اپنے والد سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس سے روایت کی ہے کہ مرنے والااگر اپنے پیچھے والدین اور تین بھائی بہن چھوڑجائے تو ماں کو چھٹاحصہ ملے گا اور بھائی بہنوں کو وہی چھٹاحصہ مل جائے گا جو انہوں نے ماں کے حصے سے گھٹادیا تھا اور باقی ماندہ ترکہ باپ کو مل جائے گا۔ حضرت ابن عباس (رض) سے ایک اور روایت کے مطابق اگر بھائی بہن ماں کی طرف سے ہوں جنہیں اخیافی کہا جاتا ہے تو اس صورت میں انہیں چھٹاحسہ ملے گا۔ لیکن اگر وہ حقیقی یاعلاتی (باپ میں شریک) بھائی بہن ہوں تو انہیں کچھ نہیں ملے گا اور ماں کو چھٹاحصہ دینے کے بعد باقی ماندہ ترکہ باپ کو مل جائے گا۔ پہلے قول کی دلیل یہ ہے کہ ، اخوۃ، کا اسم کبھی دوپر بھی واقع ہوتا ہے۔ جیسا کہ ارشادباری ہے (ان تتوبا الی اللہ فقدصغت قلوبکما، (اے دونوں بیویو ) اگر تم اللہ کے آگے توبہ کرلو، تو تمھارے دل (اسی طرف) مائل ہورہے ہیں) حالانکہ یہاں مراد، دودل ہیں لیکن اس کے اس کے لیے جمع کا اسم استعمال ہوا ہے، اسی طرح ارشاد باری ہے (وھل اتاک نباالخصم اذتسوروالمحراب، بھلاآپ کو ان اہل مقدمہ کی خبرپہنچی ہے۔ جب وہ دیوارپھاندگئے) پھر فرمایا (خصمن بغی بعضنا علی بعض، ہم دواہل مقدمہ ہیں کہ ایک نے دوسرے پر زیادتی کی ہے۔ ) یہاں جمع کے لفظ کادوپر اطلاق کیا گیا ہے۔- قول باری ہے۔ (وان کانوا اخوۃ رجالاونساء فللذکرمثل حظ الانثیین، اب اگر ایک بھائی اور ایک بہن ہو تو بھی آیت کا حکم ان کے حق میں جاری ہوگا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے۔ آپ نے فرمایا (اثنان فمافوقھماجھاعۃ، دو اوردو سے زائد افراد جماعت کہلاتے ہیں نیز وکاعددجمع کے معنی میں ایک سے قریب ہونے کے مقابلے میں تین سے زیادہ قریب ہے اس لیے کہ دو کے اندرجمع کا مفہوم بھی موجودہوتا ہے۔ مثلا دوافرادہوں یاتین آپ دونوں صورتوں میں، فاماوقعدا، اور، قامواوقاعدوا، کہہ سکتے ہیں (یعنی یہاں تثنیہ کا صیغہ بھی استعمال ہیں اور جمع کا بھی) لیکن ایک فرد کی صورت میں یہ کہنادرست نہیں ہوگا۔ اب جب اثنان یعنی دوکالفظ جمع کے معنی میں ایک سے قریب ہونے کے مقابلے میں تین سے زیادہ قریب ہے تو پھر اس لفظ کو ایک کی بجائے تین کے عدد کے ساتھ ملانا واجب ہوگیا۔- عبدالرحمن بن ابی الزنادنے اپنے والد سے، انہوں نے خارجہ بن زید سے اور انہوں نے اپنے والد سے روایت کی ہے کہ دوبھائیوں کی موجودگی میں ماں کا حصہ گھٹادیا کرتے تھے۔ یعنی تہائی کے مقابلہ میں چھٹاحصہ دیتے تھے۔ لوگوں نے ان سے پوچھا : ابوسعید، اللہ تعالیٰ نے تو فرمایا ہے (فان کا لہ اخوۃ) اور آپ دوبھائیوں کی وجہ سے ماں کا حصہ گھٹادیتے ہیں۔ اس پر زیدنے فرمایا : عرب کے لوگ دوبھائیوں پر بھی، اخوۃ، کے لفظ کا اطلاق کرتے ہیں۔ اب جبکہ حضرت زیدبن ثابت (رض) یہ نقل کرتے ہیں کہ عرب کے لوگ دوبھائیوں پر بھی، اخم ۃ، کے لفظ کا اطلاق کرتے ہیں۔ تو اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ یہ لفظ دو اورتین دونوں کے لیے اسم ہے اور یہ اسم دونوں کو شامل ہے۔- ایک اور پہلو بھی ہے وہ یہ کہ نص تنزیل یعنی قول باری (وان کانتا اثنتین فلھما الثلثان مماترک) سے ثابت ہوگیا ہے کہ دوتہائی ترکہ استحقاق میں ، دو بہنوں کا حکم تین بہنوں جیسا ہے، اس طرح تہائی ترکہ کے استحقاق میں دواخیافی بہنوں نے کا حکم تین بہنوں جیسا ہے ایک بہن جیسا نہیں ہے۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ ماں کا تہائی سے کھٹاکرسدس تک پہنچانے کے لحاظ سے دوبھائیوں کا حکم تین بھائیوں جیسا ہوجائے اس لیے کہ ان دونوں صورتوں میں ہر ایک کا حکم جمع سے متعلق ہے اس بناپردو اورتین دونوں کا حکم یکساں ہوگیا۔- قتادہ سے مروی ہے کہ بھائی بہن ماں کا حصہ گھٹادیتے ہیں جبکہ باپ کے ہوتے ہوئے خودوارث نہیں ہوتے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ان بھائی بہنوں کے اخراجات اور شادی بیاہ کی ذمہ داری باپ پر ہوتی ہے ماں پر نہیں ہوتی۔ لیکن یہ علت صرف اس صورت تک محدود ہے جبکہ بھائی بہن حقیقی یاعلاتی ہوں۔ اخیافی ہونے کی صورت میں ان کا معاملہ باپ کے ہاتھ میں نہیں ہوتاکیون کہ وہ ان کا باپ نہیں ہوتا، تاہم اس صورت میں بھی وہ ماں کا حصہ گھٹادیتے ہیں جس طرح حقیقی بھائی بہن ماں کا حصہ کم ہوجانے کا سبب بنتے ہیں۔- صحابہ کرام کے درمیان اس صورت کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں کہ اگر تین بھائی بہن ہوں اور ان کے ساتھ والدین بھی ہوں تو ماں کو چھٹاحصہ ملے گا اور باقی ماندہ ترکہ باپ کے حصے میں آئے گا۔ البتہ حضرت ابن عباس (رض) سے ایک روایت ہے اور عبدالرزاق نے بھی معمر سے روایت کی ہے، انہوں نے طاؤس کے بیٹے سے، انہوں نے اپنے والد سے، انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے کہ درج بالاصورت میں ماں کو چھٹاحصہ ملے گا اور بھائی بہنوں کو وہ چھٹاحصہ مل جائے گا جس سے انہوں نے ماں کو محروم کردیا تھا اور پھر باقی ماندہ ترکہ باپ کو مل جائے گا۔ حضرت ابن عباس (رض) غیروارث کی موجودگی کی بناپر کسی وارث کے حصے میں کمی کرنے کے قائل نہیں تھے۔ اس لیے جب ماں بھائی بہنوں کی وجہ سے صرف چھٹے حصے کی حق دارنبی تو حضرت ابن عباس (رض) نے اس کے باقی چھٹے حصے کا حق داربھائی بہنوں کو بنادیا۔- ان کا یہ قول نہ صرف شاذ ہے یعنی وہ اس میں تنہا ہیں بلکہ خلاف قرآن بھی ہے اس لیے کہ قول باری ہے (وورتہ ابواہ فلامہ الثلث) اور (وورثہ ابواہ) پر عطف کرکے فرمایا (فان کان لہ اخوۃ فلامہ الس اس) اس طرح عبارت کی ترتیب یوں ہوئی، وورثہ ابواہ ولہ اخوۃ، اس کے والدین وارث ہورہے ہوں اور اس کے بھای بہن بھی ہوں یہ بات اس صورت میں بھائی بہنوں کو ترکہ میں سے کوئی حسہ پانے سے مانع ہے۔- قول باری ہے (من بعد وصیۃ یوصی بھا او دین۔ وصیت پوری کرنے کے بعد جو مرنے والے نے کی ہو یا قرض کی ادائیگی کے بعد) دین یعنی قرض اگر لفظاموخ رہے لیکن معنی وصیت سے پہلے اس کی ابتداء کی گئی ہے۔ اس لیے کہ حرف، او، ترتیب کو واجب نہیں کرتاوہ تو صرف دومذکورہ باتوں میں ایک کے لیے ہوتا ہے گویا کہ یوں کہا گیا کہ، ان دونوں باتوں میں سے ایک کے بعد۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے وصیت کا ذکردین سے پہلے کیا ہے جبکہ اصل میں یہ اس کے بعد ہے یعنی وصیت کا ذکر لفظامقدم، لیکن معنی موخ رہے۔- قول باری ہے (ولکم نصف ماترک ازواجکم ان لم یکن لھن ولدفان کان لھن ولدفلکم الربع مماترکن، تمہارے لیے اس ترک کا نصف ہے جو تمہارے لیے اس ترکے کا نصف ہے جو تمھاری بیویاں چھوڑ جائیں بشرطیکہ وہ صاحب اولادنہ ہوں۔ اگر وہ صاحب اولادہوں تو تمھارے لیے ان کے چھوڑے ہوئے ترکے کا چوتھائی ہے۔ ) یہ وہ نص ہے جس کی تاویل میں اسی طرح کا اتفاق ہے۔ جس طرح اتنزیل میں۔ اس مسئلے میں مذکر اورمونث اولاد ، دونوں کا حکم یکساں ہے۔ بیٹایابیٹی شوہر کا حصہ نصف سے گھٹاکرچوتھائی اور بیوی کا حصہ چوتھائی سے گھٹاکرآٹھویں حصے تک پہنچادیتے ہیں بشرطیکہ اولاد میراث کی اہل ہو۔ اسی طرح اس میں بھی کوئی اختلاف نہیں ہے کہ بیٹے کی اولاد اس کی عدم موجودگی میں میاں یا بیوی کے حصوں کو کم کرنے میں بیٹے کی طرح ہے۔- قول باری ہے (آباؤکم وابناؤکم لاتدرون ایھم اقرب لکم نفعا فریضۃ من اللہ تم نہیں جانتے کہ تمہارے ماں باپ اور تمھاری اولاد میں سے کون بلحاظ نفع تم سے قریب تر ہے۔ یہ حصے اللہ نے مقرر کردیئے ہیں) ایک قول ہے کہ اس کے معنی یہ ہیں، تم نہیں جانتے کہ ان میں سے کون دینی اور دنیاوی نفع کے لحاظ سے تم سے قریب تر ہے۔ یہ بات اللہ کو معلوم ہے۔ اس لیے اس کے بیان کردہ حکم کی روشنی میں ترکہ تقسیم کردوکیون کہ مصالح کا علم صرف اس کو ہی ہے۔ ایک قول یہ کہ تمہارے ماں باپ اور تمھاری اولادنفع رسانی میں تقریبا یکساں درجے پر ہیں کہ تمہیں پتہ نہیں چل سکتا کہ بلحاظ نفع رسانی تم سے کون زیادہ قریب ہے۔ اس لیے کہ تم بچپن میں اپنے والدین سے فوائد حاصل کرتے رہے اور اب بڑھاپے میں اپنی اولاد سے فوائد حاصل کروگے اس لیے اللہ تعالیٰ نے تمہارے اموال میں والدین اور اولاد کے لیے حصے مقرر کردیئے کیونکہ اسے تمام لوگوں کے مفادات اور مصالح کا علم ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ ، تم میں سے کسی کو یہ معلوم نہیں کہ اس کی وفات پہلے ہوجائے گی اور اس کی اولاد اس کے مال سے فائدہ حاصل کرے گی یا اولاد کی وفات پہلے ہوجائے گی اور ماں باپ اس کے مال سے مستفیدہوں گے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے علم اور اپنی حکمت کی بنیادپرتمھاری میراث میں یہ حصے مقررکیئے ہیں۔- سلف کا اس بارے میں اختلاف ہے کہ آیا ایساشخص جو خود تو وارث نہیں بن سکتا کسی دوسرے وارث کے حصے کو گھٹاسکتا ہے یا نہیں ؟ مثلا ایک آزادمسلمان اپنے پیچھے آزاد اور مسلمان والدین اور دوکافریاغلام یاقاتل بھائی چھوڑجائے۔ حضرت علی (رض) حضرت عمر (رض) اور زیدبن ثابت (رض) کا قول ہے کہ اس صورت میں ماں کو تہائی حصہ ملے گا اور باقی ماندہ دوتہائی ترکہ باپ کو مل جائے گا اسی طرح اگر کوئی مسلمان عورت اپنے پیچھے شوہر اور ایک کافریاغلام یاقاتل بیٹا چھوڑجائے یا کوئی مرد مرجائے اور اپنے پیچھے بیوی اور اسی قسم کا ایک بیٹا چھوڑجائے تو ان صورتوں میں بیٹاشوہریابیوی کے حصوں کو گھٹا نہیں سکتا۔ امام ابوحنیفہ امام ابویوسف، امام محمد، امام مالک امام شافعی اور سفیان ثوری کا یہی قول ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کا قول ہے کہ ایسابیٹا شوہریابیوی کے حصوں کو گھٹانے کا سبب بن جائے گا اگر وہ خودوارث نہیں ہوگا۔ اوزاعی اور حسن بن صالح کا قول ہے کہ غلام اور کافراولاد نہ توخودوارث ہوگی اور نہ ہی حصہ گھٹائے گی البتہ وہ وارث نہیں ہوگا۔ لیکن گھٹادے گا۔- ابوبکرجصاص کہتے ہیں کہ اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں کہ کافرباپ اپنے بیٹے کو دادا کی میراث سے محجوب یعنی محروم نہیں کرسکتا بلکہ اسے مردہ فرض کرلیاجاتا ہے۔ اس لیے ماں، شوہر اوربیوی کے محجوب ہونے کا بھی یہی حکم ہونا چاہیے۔ جو لوگ حجت یعنی گھٹانے یا محروم رکھنے کے قائل ہیں انہوں نے قول باری (ولایویہ لکل واحد منھماالسدس مماترک ان کان لہ ولد) کے ظاہر سے استدلال کیا ہے کیونکہ یہاں مسلمان اور کافر کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا گیا ہے۔ جواب میں ان سے کہاجائے گا کہ آپ نے ماں کا حصہ توگھٹادیا لیکن باپ کا نہیں گھٹایا، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اولاد کی بناپردونوں کو محجوب قراردیا تھا۔ اب اگر باپ کا محجوب قرارنہ دیاجانادرست ہے ؟ اور آپ نے قول باری (ان کان لہ ولد) کو اس ولدپرمحمول کیا جومیراث کا اہل بن سکتا ہو ؟ توپھرماں کی صورت میں بھی اس کا یہی حکم ہونا چاہیے۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١١) میراث میں مرد و عورت کے کیا کیا حصے ہیں اب اللہ تعالیٰ ان کو بیان فرماتے ہیں کہ تمہارے مرنے کے بعد تمہاری اولاد میں میراث کی اس طرح تقسیم ہے کہ لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر ہے۔- اور اگر دو یا دو سے زیادہ اولاد میں صرف لڑکیاں ہی ہوں تو ان کو مال کا دو تہائی ملے گا اور اگر ایک ہی لڑکی چھوڑی تو ترکہ کا آدھا ملے گا اور اگر میت کے لڑکا ہو یا لڑکی کوئی اولاد ہو تو ترکہ میں والدین کا چھٹا حصہ مقرر ہے اور اگر کوئی اولاد ہی نہ ہو تو ایک تہائی ماں کا اور بقیہ ترکہ باپ کا ہے۔- اور اگر میت کے ایک سے زائد بھائی یا بہن ہوں عینی کی طرف سے شریک ہوں یا علاتی، تو اس کی ماں کو چھٹا حصہ اور باقی باپ کو ملے گا۔- اور واضح رہے یہ تمام حصے میت کا قرض ادا کردینے اور تہائی مال کے اندر اندر جو اس نے وصیت کر رکھی ہے، اس کے نفاذ کے بعد نکالے جائیں گے۔- تم اپنے اصول وفروغ کے بارے میں یہ نہیں جان سکتے کہ کون تم کو دینی یا دنیاوی زیادہ نفع پہنچا سکتا ہے اور میراث کی تقسیم اللہ کی جانب سے فرض کردی گئی ہے، اللہ تعالیٰ تقسیم میراث کو جاننے والا بعد ہر ایک کے حصے متعین کردینے میں بڑی حکمت والا ہے۔- شان نزول : (آیت) ” یوصیکم اللہ “۔ (الخ)- صحاح ستہ نے حضرت جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت نقل کی ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور حضرت ابوبکر صدیق (رض) دونوں پیادہ (پیدل) بنی سلمہ میں میری عیادت کے لیے تشریف لائے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تشریف لاکر مجھے ایسی حالت میں پایا کہ میں شدت ہوش میں نہیں تھا آپ نے پانی منگوا کر وضو فرمایا اور مجھ پر اس پانی کا چھینٹا دیا، جس سے مجھے افاقہ ہوا، میں نے عرض کیا کہ میرے حال کے متعلق آپ مجھے کیا حکم دیتے ہیں، اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔- اور امام احمد ابوداؤد (رح) ترمذی (رح) اور حاکم (رح) جابر (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ سعد بن ربیع کے گھر میں سے ان کی اہلیہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ دونوں سعد بن ربیع کی دو لڑکیاں ہیں، ان کے والد آپ کے ساتھ غزوہ احد میں شہید ہوگئے اور ان کا چچا ان کا مال لے گیا اور ان کے لیے کچھ نہیں چھوڑا اور اب مال کے بغیر انکی شادی بھی نہیں ہوسکتی آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اس کے بارے میں ضرور کوئی فیصلہ فرمائیں گے، چناچہ میراث کی آیت نازل ہوئی، حافظ ابن حجر فرماتے ہیں اس روایت سے ان حضرات نے استدلال کیا ہے جو اس کے قائل ہیں کہ میراث کی آیت سعد بن ربیع کی لڑکیوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے اور حضرت جابر (رض) کے واقعہ میں نازل نہیں ہوئی، بالخصوص اس وقت تک حضرت جابر (رض) کی پیدائش بھی نہیں ہوئی تھی۔- باقی اس کا جواب یہ ہے کہ یہ آیت دونوں واقعات کے بارے میں نازل ہوئی اور یہ بھی احتمال ہے کہ اس آیت میراث کا ابتدائی حصہ سعد (رض) کی دونوں لڑکیوں کے بارے میں نازل ہوا ہے اور (آیت) ” وان کان رجل یورث کلالۃ “۔ والا آخری حصہ حضرت جابر (رض) کے واقعہ میں نازل ہوا ہو اور حضرت جابر (رض) کا (آیت) ” یوصیکم اللہ “۔ کے تذکرہ سے یہی مطلب ہو کیوں کہ یہ حصہ اسی حصہ سے متصل ہے۔- ایک تیسرا سبب اور مروی ہے، ابن جریر (رح) نے سدی سے روایت نقل کی ہے کہ زمانہ جاہلیت والے لڑکیوں اور کمزور لڑکوں کو میراث نہیں دیتے تھے اور صرف وہی شخص میراث حاصل کرسکتا تھا، جس میں لڑائی کی طاقت ہو، چناچہ جب حضرت حسان بن ثابت (رض) کے بھائی عبدالرحمن کا انتقال ہوا، انہوں نے ام کمہ نامی ایک بیوی اور پانچ لڑکیاں چھوڑدیں، ورثاء ان کا سارا مال لینے کے لیے آئے، یہ معاملہ دیکھ کر ام کمہ شکایت لے کر رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئیں، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی (آیت) ” فان کن نساء “ (الخ) اور پھر ام کمہ کے بارے میں فرمایا (آیت) ” ولھن الربع مما ترکتم “ (الخ)- نیز سعد بن ربیع کا واقعہ ایک اور طریقہ پر بھی مروی ہے، چناچہ قاضی اسماعیل نے احکام القرآن میں عبد الملک بن محمد بن حزم سے نقل کیا ہے کہ عمرۃ بنت حزم سعد بن ربیع کے نکاح میں تھیں۔- حضرت سعد (رض) غزوہ احد میں شہید ہوگئے اور حضرت سعد (رض) کی ان سے ایک لڑکی تھی، یہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پاس اپنی لڑکی کی میراث طلب کرنے کے لیے آئیں ان ہی کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔ (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح )

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

سورة النساء کا دوسرا رکوع بڑا مختصر ہے اور اس میں صرف چار آیات ہیں ‘ لیکن معنوی طور پر ان میں ایک قیامت مضمر ہے۔ یہ قرآن حکیم کا اعجاز ہے کہ چار آیتوں کے اندر اسلام کا پورا قانون وراثت بیان کردیا گیا ہے جس پر پوری پوری جلدیں لکھی گئی ہیں۔ گویا جامعیت کی انتہا ہے۔- آیت ١١ (یُوْصِیْکُمُ اللّٰہُ فِیْ اَوْلاَدِکُمْ ق) (لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِج ) (فَاِنْ کُنَّ نِسَآءً فَوْقَ اثْنَتَیْنِ فَلَہُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَکَ ج) (وَاِنْ کَانَتْ وَاحِدَۃً فَلَہَا النِّصْفُ ط) ۔- ظاہر ہے اگر ایک ہی بیٹا ہے تو وہ پورے ترکے کا وارث ہوجائے گا۔ لہٰذا جب بیٹی کا حصہ بیٹے سے آدھا ہے تو اگر ایک ہی بیٹی ہے تو اسے آدھی وراثت ملے گی ‘ آدھی دوسرے لوگوں کو جائے گی۔ وہ ایک علیحدہ معاملہ ہے۔- (وَلِاَبَوَیْہِ لِکُلِّ وَاحِدٍ مِّنْہُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَکَ اِنْ کَانَ لَہٗ وَلَدٌ ج) ۔- اگر کوئی شخص فوت ہوجائے اور اس کے والدین یا دونوں میں سے کوئی ایک زندہ ہو تو اس کی وراثت میں سے ان کا بھی معین حصہ ہے۔ اگر وفات پانے والا شخص صاحب اولاد ہے تو اس کے والدین میں سے ہر ایک کے لیے وراثت میں چھٹا حصہ ہے۔ یعنی میت کے ترکے میں سے ایک تہائی والدین کو چلا جائے گا اور دو تہائی اولاد میں تقسیم ہوگا۔ ّ - (فَاِنْ لَّمْ یَکُنْ لَّہٗ وَلَدٌ وَّوَرِثَہٗ اَبَوٰہُ فَلاُِمِّہِ الثُّلُثُج ) ۔- اگر کوئی شخص لاولد فوت ہوجائے تو اس کے ترکے میں سے اس کی ماں کو ایک تہائی اور باپ کو دو تہائی ملے گا۔ یعنی باپ کا حصہ ماں سے دو گنا ہوجائے گا۔- (فَاِنْ کَانَ لَہٗ اِخْوَۃٌ فَلاُِمِّہِ السُّدُسُ ) - اگر مرنے والا بےاولاد ہو لیکن اس کے بہن بھائی ہوں تو اس صورت میں ماں کا حصہ مزید کم ہو کر ایک تہائی کے بجائے چھٹا حصہ رہ جائے گا اور باقی باپ کو ملے گا ‘ لیکن بہن بھائیوں کو کچھ نہ ملے گا۔ وہ باپ کی طرف سے وراثت کے حق دار ہوں گے۔ لیکن ساتھ ہی فرما دیا :- (مِنْم بَعْدِ وَصِیَّۃٍ یُّوْصِیْ بِہَآ اَوْ دَیْنٍ ط) ۔- وراثت کی تقسیم سے پہلے دو کام کرلینے ضروری ہیں۔ ایک یہ کہ اگر اس شخص کے ذمے کوئی قرض ہے تو وہ ادا کیا جائے۔ اور دوسرے یہ کہ اگر اس نے کوئی وصیت کی ہے تو اس کو پورا کیا جائے۔ پھر وراثت تقسیم ہوگی۔- (اٰبَآؤُکُمْ وَاَبْنَآؤُکُمْج لاَ تَدْرُوْنَ اَیُّہُمْ اَقْرَبُ لَکُمْ نَفْعًا ط) ( فَرِیْضَۃً مِّنَ اللّٰہِ ط) - تم اپنی عقلوں کو چھوڑو اور اللہ کی طرف سے مقرر کردہ حصوں کے مطابق وراثت تقسیم کرو۔ کوئی آدمی یہ سمجھے کہ میرے بوڑھے والدین ہیں ‘ میری وراثت میں خواہ مخواہ ان کے لیے حصہ کیوں رکھ دیا گیا ہے ؟ یہ تو کھاپی ‘ چکے ‘ زندگی گزار چکے ‘ وراثت تو اب میری اولاد ہی کو ملنی چاہیے ‘ تو یہ سوچ بالکل غلط ہے۔ تمہیں بس اللہ کا حکم ماننا ہے۔- (اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلِیْمًا حَکِیْمًا ) ۔- اس کا کوئی حکم علم اور حکمت سے خالی نہیں ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :15 میراث کے معاملہ میں یہ اولین اصولی ہدایت ہے کہ مرد کا حصہ عورت سے دوگنا ہے ۔ چونکہ شریعت نے خاندانی زندگی میں مرد پر زیادہ معاشی ذمہ داریوں کا بوجھ ڈالا ہے اور عورت کو بہت سی معاشی ذمہ داریوں کے بار سے سبکدوش رکھا ہے ، لہٰذا انصاف کا تقاضا یہی تھا کہ میراث میں عورت کا حصہ مرد کی بہ نسبت کم رکھا جاتا ۔ سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :16 یہی حکم دو لڑکیوں کا بھی ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ اگر کسی شخص نے کوئی لڑکا نہ چھوڑا ہو اور اس کی اولاد میں صرف لڑکیاں ہی لڑکیاں ہوں تو خواہ دو لڑکیاں ہوں یا دو سے زائد ، بہرحال اس کے کل ترکہ 2 3 حصہ ان لڑکیوں میں تقسیم ہو گا ، باقی1 3 دوسرے وارثوں میں ۔ لیکن اگر میت کا صرف ایک لڑکا ہو تو اس پر اجماع ہے کہ دوسرے وارثوں کی غیر موجودگی میں وہ کل مال کا وارث ہوگا ، اور دوسرے وارث موجود ہوں تو ان کا حصہ دینے کے بعد باقی سب مال اسے ملے گا ۔ سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :17 یعنی میت کے صاحب اولاد ہونے کی صورت میں بہرحال میت کے والدین میں سے ہر ایک 1 6 کا حق دار ہوگا خواہ میت کی وارث صرف بیٹیاں ہوں ، یا صرف بیٹے ہوں ، یا بیٹے اور بیٹیاں ہوں ، یا ایک بیٹا ہو ، یا ایک بیٹی ۔ رہے باقی 2 3 تو ان میں دوسرے وارث شریک ہوں گے ۔ سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :18 ماں باپ کے سوا کوئی اور وارث نہ ہو تو باقی 2 3 باپ کو ملے گا ۔ ورنہ2 3 میں باپ اور دوسرے وارث شریک ہوں گے ۔ سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :19 بھائی بہن ہونے کی صورت میں ماں کا حصہ 1 3 کے بجائے 1 6 کر دیا گیا ہے ۔ اس طرح ماں کے حصہ میں سے جو1 6 لیا گیا ہے وہ باپ کے حصہ میں ڈالا جائے گا کیونکہ اس صورت میں باپ کی ذمہ داریاں بڑھ جاتی ہیں ۔ یہ واضح رہے کہ میت کے والدین اگر زندہ ہوں تو اس کے بہن بھائیوں کو حصہ نہیں پہنچتا ۔ سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :20 وصیت کا ذکر قرض پر مقدم اس لیے کیا گیا ہے کہ قرض کا ہونا ہر مرنے والے کے حق میں ضروری نہیں ہے ، اور وصیت کرنا اس کے لیے ضروری ہے ۔ لیکن حکم کے اعتبار سے امت کا اس پر اجماع ہے کہ قرض وصیت پر مقدم ہے ۔ یعنی اگر میت کے ذمہ قرض ہو تو سب سے پہلے میت کے ترکہ میں سے وہ ادا کیا جائے گا ، پھر وصیت پوری کی جائے گی ، اور اس کے بعد وراثت تقسیم ہو گی ۔ وصیت کے متعلق سورہ بقرہ حاشیہ نمبر ١۸٦ میں ہم بتا چکے ہیں کہ آدمی کو اپنے کل مال کے 1 3 حصہ کی حد تک وصیت کرنے کا اختیار ہے ، اور یہ وصیت کا قاعدہ اس لیے مقرر کیا گیا ہے کہ قانون وراثت کی رو سے جن عزیزوں کو میراث میں سے حصہ نہیں پہنچتا ان میں سے جس کو یا جس جس کو آدمی مدد کا مستحق پاتا ہو اس کے لیے اپنے اختیار تمیزی سے حصہ مقرر کر دے ۔ مثلاً کوئی یتیم پوتا یا پوتی موجود ہے ، یا کسی بیٹے کی بیوہ مصیبت کے دن کاٹ رہی ہے ، یا کوئی بھائی یا بہن یا بھاوج یا بھتیجا یا بھانجا یا اور کوئی عزیز ایسا ہے جو سہارے کا محتاج نظر آتا ہے ، تو اس کے حق میں وصیت کے ذریعہ سے حصہ مقرر کیا جا سکتا ہے ۔ اور اگر رشتہ داروں میں کوئی ایسا نہیں ہے تو دوسرے مستحقین کے لیے یا کسی رفاہ عام کے کام میں صرف کرنے کے لیے وصیت کی جا سکتی ہے ۔ خلاصہ یہ ہے کہ آدمی کی کل ملکیت میں سے 2 3 یا اس سے کچھ زائد کے متعلق شریعت نے میراث کا ضابطہ بنا دیا ہے جس میں سے شریعت کے نامزد کردہ وارثوں کو مقررہ حصہ ملے گا ۔ اور 1 3 یا اس سے کچھ کم کو خود اس کی صوابدید پر چھوڑا گیا ہے کہ اپنے مخصوص خاندانی حالات کے لحاظ سے ( جو ظاہر ہے کہ ہر آدمی کے معاملہ میں مختلف ہوں گے ) جس طرح مناسب سمجھے تقسیم کرنے کی وصیت کردے ۔ پھر اگر کوئی شخص اپنی وصیت میں ظلم کرے ، یا بالفاظ دیگر اپنے اختیار تمیزی کو غلط طور پر اس طرح استعمال کرے جس سے کسی کے جائز حقوق متاثر ہوتے ہوں تو اس کے لیے یہ چارہ کار رکھ دیا گیا ہے کہ خاندان کے لوگ باہمی رضامندی سے اس کی اصلاح کرلیں یا قاضی شرعی سے مداخلت کی درخواست کی جائے اور وہ وصیت کو درست کردے ۔ مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو میرا رسالہ” یتیم پوتے کی وراثت“ ۔ سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :21 یہ جواب ہے ان سب نادانوں کو جو میراث کے اس خدائی قانون کو نہیں سمجھتے اور اپنی ناقص عقل سے اس کسر کو پورا کرنا چاہتے ہیں جو ان کے نزدیک اللہ کے بنائے ہوئے قانون میں رہ گئی ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

10: آیات 11، 12 میں مختلف رشتہ داروں کے لیے میراث کے حصے بیان فرمائے گئے ہیں۔ جن رشتہ داروں کے حصے ان آیات میں مقرر فرما دئیے گئے ہیں ان کو ’’ ذوی الفروض‘‘ کہا جاتا ہے۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وضاحت فرمائی ہے کہ ان حصوں کی تقسیم کے بعد جو مال بچ جائے، وہ مرنے والے کے ان قریب ترین مذکر افراد میں تقسیم ہوگا جن کے حصے ان آیتوں میں متعین نہیں کیے گئے، جن کو ’’ عصبات‘‘ کہا جاتا ہے۔ مثلا بیٹے اور اگرچہ بیٹیاں براہ راستہ عصبات میں شامل نہیں ہیں، لیکن بیٹوں کے ساتھ مل کر بیٹیاں بھی عصبات میں شامل ہوجاتی ہیں۔ اس صورت میں یہ قاعدہ اس آیت نے مقرر فرمایا ہے کہ ایک بیٹے کو دو بیٹیوں کے برابر حصہ ملے گا۔ یہی حکم اس صورت میں بھی ہے جب مرنے والے کی اولاد نہ ہو اور بہن بھائی ہوں تو بھائی کو بہن سے دگنا حصہ دیا جائے گا۔ 11: یہ قاعدہ ان آیات میں بار بار دہرایا گیا ہے کہ میراث کی تقسیم ہمیشہ میت کے قرضوں کی ادائیگی اور اس کی وصیت پر عمل کرنے کے بعد ہوگی، یعنی اگر مرنے والے کے ذمے کچھ قرض ہو تو اس کے ترکے سے سب سے پہلے اس کے قرضے ادا کیے جائیں گے۔ اس کے بعد اگر اس نے کوئی وصیت کی ہو کہ فلاں شخص کو جو وارث نہیں ہے، میرے ترکے سے اتنا دیا جائے تو ایک تہائی ترکے کی حد تک اس پر عمل کیا جائے گا اس کے بعد میراث وارثوں میں تقسیم ہوگی۔ 12: یہ تنبیہ اس بنا پر فرمائی گئی ہے کہ کوئی شخص یہ سوچ سکتا تھا کہ فلاں وارث کو زیادہ حصہ ملتا تو اچھا ہوتا، یا فلاں کو کم ملنا مناسب تھا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمادیا کہ تمہیں مصلحت کا ٹھیک ٹھیک علم نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جس کا جو حصہ مقرر فرما دیا ہے، وہی مناسب ہے۔