[١٦] یتیم کا مال کھانا کبیرہ گناہ ہے :۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ سات ہلاک کرنے والے گناہوں سے بچو۔ صحابہ نے پوچھا وہ کون سے ہیں ؟ فرمایا اللہ کے ساتھ شرک کرنا۔ جادو۔ جس جان کو قتل کرنا اللہ نے حرام کیا ہے اسے ناحق قتل کرنا۔ سود کھانا۔ یتیم کا مال کھانا۔ لڑائی میں پیٹھ پھیر جانا۔ اور پاکدامن بھولی بھالی مومن عورت پر تہمت لگانا۔ (بخاری۔ کتاب الوصایا۔ باب ( اِنَّ الَّذِيْنَ يَاْكُلُوْنَ اَمْوَالَ الْيَتٰمٰى ظُلْمًا اِنَّمَا يَاْكُلُوْنَ فِيْ بُطُوْنِھِمْ نَارًا ۭ وَسَيَصْلَوْنَ سَعِيْرًا 10 ) 4 ۔ النسآء :10) مسلم، کتاب الایمان۔ باب بیان الکبائر وأکبرھا)- نیز آپ نے معراج کا واقعہ بیان کرنے کے دوران فرمایا کہ میں نے چند لوگوں کو دیکھا جن کے لب اونٹوں جیسے تھے اور ایک فرشتہ ان کے لب کھول کر منہ میں آگ کے انگارے ڈالتا تو وہ ان کے نیچے سے نکل جاتے اور وہ (درد کے مارے) چیختے چلاتے۔ پھر فرشتہ اور انگارے ان کے منہ میں ڈال دیتا اور انہیں مسلسل یہ عذاب ہو رہا تھا۔ میں نے جبریل سے پوچھا کہ یہ کون لوگ ہیں جبریل نے جواب دیا یہ وہ لوگ ہیں جو یتیموں کا مال ناحق کھایا کرتے تھے۔
اس آیت میں یتیموں کے مال کی حفاظت اور اس سے اجتناب کی مزید تاکید کی گئی ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” سات تباہ کن چیزوں سے اجتناب کرو۔ “ صحابہ نے عرض کیا : ” یا رسول اللہ وہ کیا ہیں ؟ “ فرمایا : ” اللہ کے ساتھ شرک کرنا، جادو، اس جان کو ناحق قتل کرنا جسے اللہ نے حرام قرار دیا ہے، سود کھانا، یتیم کا مال کھانا، جنگ کے دن پیٹھ پھیرنا اور پاک دامن، بھولی بھالی عورتوں پر تہمت لگانا۔ “ [ بخاری، الحدود، باب رمی المحصنات : ٦٨٥٧، عن أبی ہریرہ ]
یتیم کا مال ظلماً کھانا پیٹ میں انگارے بھرتا ہے :- چوتھی آیت میں یتمیوں کے مال میں ناجائز تصرف کرنے والوں کے لئے وعید شدید کا بیان ہے، کہ جو شخص ناجائز طور پر یتیم کا مال کھاتا ہے وہ اپنے پٹ میں جہنم کی آگ بھر رہا ہے۔- اس آیت نے یتیم کے مال کو جہنم کی آگ قرار دیا ہے، بہت سے مفسرین نے اس کو تشبیہ اور کنایہ پر محمول کیا ہے، یعنی یتیموں کا مال ناحق کھانا ایسا ہے جیسے کوئی پیٹ میں آگ بھرے، کیونکہ اس کا انجام بالآخر قیامت میں ایسا ہی ہونے والا ہے، مگر اہل تحقیق کا قول یہ ہے کہ آیت میں کوئی مجاز اور کتابہ نہیں ہے، بلکہ جو مال یتیم کا ناجائز طریقہ سے کھایا جائے وہ حقیقت میں آگ ہی ہے، اگرچہ اس وقت اس کی صورت آگ کی معلوم نہ ہوتی ہو، جیسے کوئی شخص دیا سلائی کو کہے کہ یہ آگ ہے، یا سنکھیا کو کہے کہ قاتل ہے، تو ظاہر ہے کہ دیاسلائی کو ہاتھ میں لینے سے ہاتھ نہیں جلتا اور سنکھئے کو ہاتھ میں لینے سے بلکہ منہ میں رکھنے سے بھی کوئی آدمی نہیں مرتا، البتہ ذرا سی رگڑ کھانے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ جس نے دیا سلائی کو آگ کہا تھا وہ صحیح کہا تھا اسی طرح حلق کے نیچے اترنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ سنکھیا کو قاتل کہنے والا سچا تھا، قرآن کریم کے عام اطلاقات سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے کہ انسان جو عمل نیک یا بد کر رہا ہے یہی عمل جنت کے درخت اور پھل پھول ہیں یہ جہنم کے انگارے ہیں، اگرچہ ان کی صورت یہاں اور ہے، مگر قیامت کے روز اپنی شکلوں میں متشکل ہو کر سامنے آئیں گی، قرآن کریم کا ارشاد ہے : ووجدواما عملوا حاضراً یعنی قیامت کے روز وہ اپنے کئے ہوئے کو موجود پائیں گے، یعنی جو عذاب وثواب ان کو نظر آئے گا وہ حقیقت میں ان کا اپنا عمل ہوگا۔- بعض روایات میں ہے کہ یتیم کا مال ناحق کھانے والا قیامت کے روز اس حالت میں اٹھایا جائے گا کہ پیٹ کے اندر سے آگ کی لپٹیں اس کے منہ، ناک اور کانوں آنکھوں سے نکل رہی ہوں گی۔- اور رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ایک قوم قیامت کے روز اس طرح اٹھائی جائے گی کہ ان کے منہ آگ سے بھڑک رہے ہوں گے، صحابہ کرام نے عرض کیا یا رسول اللہ یہ کون لوگ ہوں گے، آپ نے فرمایا کہ کیا تم نے قرآن میں نہیں پڑھا ان الذین یاکلون اموال الیتمی ظلماً (ابن کثیر ٦٥٤ ج ١)- آیت کے مضمون کا خلاصہ یہ ہوا کہ یتیم کا مال جو ناحق کھایا جائے وہ درحقیقت جہنم کی آگ ہوگی گو اس وقت اس کا آگ ہونا محسوس نہ ہو، اسی لئے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس معاملہ میں شدید احتیاط کے لئے واضح ہدایات دی ہیں، حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے :- ” میں تم کو خاص طور پر دو ضعیفوں کے مال سے بچنے کی تنبیہ کرتا ہوں، ایک عورت، اور دوسرے یتیم۔ “- سورة نساء کے اول رکوع میں شروع سے آخر تک عموماً ہی کے احکام ہیں، یتامی کے اموال کی نگہداشت رکھنے، ان کے مال کو اپنا مال نہ بنا لینے، ان کے وراثت میں ملے ہوئے اموال سے ان کو حصہ دینے کا حکم فرمایا اور بڑا ہوجانے کے ڈر سے ان کا مال اڑا دینے میں جلدی کرنا، یتیم لڑکیوں سے نکاح کر کے مہر کم کردینا، یا ان کے مال پر قبضہ کرلینا وغیرہ ان سب امور کی ممانت فرمائی۔- آخر میں فرمایا کہ ناحق یتیم کا مال کھانا پیٹ میں آگ کے انگارے بھرنا ہے، کیونکہ اس کی پاداش میں موت کے بعد اس طرح کے لوگوں کے پیٹوں میں آگ بھری جائے گی، لفظ یاکلون استعمال فرمایا ہے اور یتیم کا مال کھانے پر وعید سنائی گئی ہے، لیکن یتیم کے مال کا ہر استعمال کھانے پینے میں ہو یا برتنے میں، سب حرام اور باعث عتاب و عذاب ہے، کیونکہ محاورے میں کسی کا مال ناحق کھا لینا ہر استعمال کو شامل ہوتا ہے۔- جب کوئی شخص وفات پا جاتا ہے تو اس کے مال کے ہر ہر حصہ اور ہر چھوٹی بڑی چیز کے ساتھ ہر وارث کا حق متعلق ہوجاتا ہے، اس کے نابالغ بچے یتیم ہوتے ہیں، ان بچوں کے ساتھ عموماً ہر گھر میں ظلم و زیادتی کا برتاؤ ہوتا ہے اور ہر وہ شخص جو ان بچوں کے باپ کی وفات کے بعد مال پر قابض ہوتا ہے خواہ ان بچوں کا چچا ہو یا بڑا بھائی ہو یا والدہ ہو یا اور کوئی ولی یا وصی ہو، اکثر ان امر کے مرتکب ہوجاتے ہیں جن کی ممانعت اس رکوع میں کی گئی ہے، اول تو سالہا سال مال کی تقسیم کرتے ہی نہیں، ان بچوں کی روٹی کپڑے پر تھوڑا بہت خرچ کرتے رہتے ہیں، پھر بدعات، رسومات اور فضولیات میں اسی مال مشترک سے خرچ کئے چلے جاتے ہیں۔ اپنی ذات پر بھی خرچ کرتے ہیں اور سرکاری کاغذات میں نام بدلوا کر اپنے بچوں کا نام لکھواتے ہیں، یہ وہ باتیں ہیں جن سے کوئی ہی گھر خالی رہتا ہوگا۔- مدرسوں اور یتیم خانوں میں جو چندہ یتیموں کے لئے آتا ہے اس کو یتمیوں پر خرچ نہ کرنا بھی ایک صورت یتیم کا مال ہضم کرنے کی ہے۔- مسئلہ :۔ میت کے بدن کے کپڑے بھی ترکہ میں شامل ہوتے ہیں، ان کو حساب میں لگائے بغیر یونہی صدقہ کردیتے ہیں، بعض علاقوں میں تانبے پیتل کے برتن مال کو تقسیم کئے بغیر فقیروں کو دیدیتے ہیں، حالانکہ ان سب میں نابالغوں اور غیر حاضر وارثوں کا بھی حق ہوتا ہے، پہلے مال بانٹ لیں، جس میں سے مرنے والے کی اولاد، بیوی، والدین، بہنیں، جس جس کو شرعاً حصہ پہنچتا ہو اس کو دیدیں، اس کے بعد اپنی خوشی سے جو شخص چاہے مرنے والے کی طرف سے خیرات کریں، یا مل کر کریں تو صرف بالغین کریں، نابالغ کی اجازت کا بھی اعتبار نہیں اور جو وارث غیر حاضر ہو اس کے حصہ میں اس کی اجازت کے بغیر بھی تصرف درست نہیں۔- مسئلہ :۔ میت کو قبرستان لے جاتے وقت جو چادر جنازہ کے اوپر ڈالی جاتی ہے وہ کفن میں شامل نہیں ہے، اس کو میت کے مال سے خریدنا جائز نہیں، کیونکہ وہ مال مشترک ہے کوئی شخص اپنی طرف سے خرچ کر دے تو جائز ہے، بعض علاقوں میں نماز جنازہ پڑھا نیوالے امام کے لئے کفن ہی کے کپڑے میں سے مصلی تیار کیا جاتا ہے اور پھر یہ مصلی امام کو دے دیا جاتا ہے یہ خرچ بھی کفن کی ضرورت سے فاضل ہے، ورثہ کے مشترک مال میں سے اس کا خریدنا جائز نہیں۔- مسئلہ :۔ بعض جگہ میت کے غسل کے لئے نئے برتن خریدے جاتے ہیں، پھر ان کو توڑ دیا جاتا ہے، اول تو نئے خریدنے کی ضرورت نہیں، کیونکہ گھر کے موجودہ برتنوں سے غسل دیا جاسکتا ہے اور اگر خریدنے کی ضرورت پڑجائے تو توڑنا جائز نہیں، اول تو اس میں مال ضائع کرنا ہے اور پھر ان سے یتمیوں کا اور غائب وارثوں کا حق وابستہ ہے۔- مسئلہ :۔ ترکہ کی تقسیم سے پہلے اس میں سے مہمانوں کی خاطر تواضح اور صدقہ و خیرات کچھ جائز نہیں، اس طرح کے صدقہ خیرات کرنے سے مردے کو کوئی ثواب نہیں پہنچتا۔ بلکہ ثواب سمجھ کردینا اور بھی زیادہ سخت گناہ ہے، اس لئے کہ مورث کے مرنے کے بعد اب یہ سب مال تمام وارثوں کا حق ہے اور ان میں یتیم بھی ہوتے ہیں، اس مشترک مال میں سے دینا ایسا ہی جیسا کہ کسی کا مال چرا کر میت کے حق میں صدقہ کردیا جائے، پہلے مال تقسیم کردیا جائے، اس کے بعد اگر وہ وارث اپنے مال میں سے اپنی مرضی سے میت کے حق میں صدقہ خیرات کریں تو ان کو اختیار ہے۔- تقسیم سے پہلے بھی وارثوں سے اجازت لے کر مشترک ترکہ میں سے صدقہ خیرات نہ کریں، اس لئے کہ جو ان میں یتیم ہیں ان کی اجازت تو معتبر ہی نہیں اور جو بالغین ہیں وہ بھی ضروری نہیں کہ خوش دلی سے اجازت دیں، ہوسکتا ہے وہ لحاظ کی وجہ سے اجازت دینے پر مجبور ہوں اور لوگوں کے طعنوں کے خوف سے کہ اپنے مردہ کے حق میں دو پیسے تک خرچ نہ کئے، اس عار سے بچنے کے لئے بادل ناخواستہ بامی بھر لے ........ حالانکہ شریعت میں صرف وہ مال حلال ہے جب کہ دینے والا طیب خاطر سے دے رہا ہو، جس کی تفصیل پہلے گذر چکی ہے۔- یہاں ہم ایک بزرگ کا واقعہ نقل کرتے ہیں، جس سے مسئلہ اور زیادہ واضح ہوجائے گا یہ بزرگ ایک مسلمان کی عیادت کے لئے تشریف لے گئے، تھوڑی دیر مریض کے پاس بیٹھے تھے کہ اس کی روح پرواز کرگئی، اس موقع پر جو چراغ جل رہا تھا انہوں نے فوراً اسے بجھا دیا اور اپنے پاس سے پیسے دے کر تیل منگایا اور روشنی کی، لوگوں نے اس کا سبب دریافت کیا تو فرمایا جب تک یہ شخص زندہ تھا یہ چراغ اس کی ملکیت تھی اور اس کی روشنی استعمال کرنا درست تھا، اب یہ اس دنیا سے رخصت ہوگیا تو اس کو ہر چیز میں وارثوں کا حق ہوگیا، لہٰذا سب وارثوں کی اجازت ہی سے ہم یہ چراغ استعمال کرسکتے ہیں اور وہ سب یہاں موجو نہیں ہیں، لہٰذا اپنے پیسوں سے تیل منگوا کر روشنی کی۔
اِنَّ الَّذِيْنَ يَاْكُلُوْنَ اَمْوَالَ الْيَتٰمٰى ظُلْمًا اِنَّمَا يَاْكُلُوْنَ فِيْ بُطُوْنِھِمْ نَارًا ٠ ۭ وَسَيَصْلَوْنَ سَعِيْرًا ١٠ ۧ- أكل - الأَكْل : تناول المطعم، وعلی طریق التشبيه قيل : أكلت النار الحطب، والأُكْل لما يؤكل، بضم الکاف وسکونه، قال تعالی: أُكُلُها دائِمٌ [ الرعد 35] - ( ا ک ل ) الاکل - کے معنی کھانا تناول کرنے کے ہیں اور مجازا اکلت النار الحطب کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے یعنی آگ نے ایندھن کو جلا ڈالا۔ اور جو چیز بھی کھائی جائے اسے اکل بضم کاف و سکونا ) کہا جاتا ہے ارشاد ہے أُكُلُهَا دَائِمٌ ( سورة الرعد 35) اسکے پھل ہمیشہ قائم رہنے والے ہیں ۔- ميل - المَيْلُ : العدول عن الوسط إلى أَحَد الجانبین، والمَالُ سُمِّي بذلک لکونه مائِلًا أبدا وزَائلا،- ( م ی ل ) المیل - اس کے معنی وسط سے ایک جانب مائل ہوجانے کے ہیں اور المال کو مال اس لئے کہا جاتا ہے ۔ کہ وہ ہمیشہ مائل اور زائل ہوتا رہتا ہے ۔ - ظلم - وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه،- قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ:- الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی،- وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] - والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس،- وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری 42] - والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه،- وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] ،- ( ظ ل م ) ۔- الظلم - اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر - بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے - (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی سب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا - :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ - (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے - ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔- ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے - ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں - بطن - أصل البَطْن الجارحة، وجمعه بُطُون، قال تعالی: وَإِذْ أَنْتُمْ أَجِنَّةٌ فِي بُطُونِ أُمَّهاتِكُمْ [ النجم 32] ، وقد بَطَنْتُهُ : أصبت بطنه، والبَطْن : خلاف الظّهر في كلّ شيء، ويقال للجهة السفلی: بَطْنٌ ، وللجهة العلیا : ظهر، وبه شبّه بطن الأمر وبطن الوادي، والبطن من العرب اعتبارا بأنّهم کشخص واحد، وأنّ كلّ قبیلة منهم کعضو بطن وفخذ وكاهل، وعلی هذا الاعتبار قال الشاعر : النّاس جسم وإمام الهدى ... رأس وأنت العین في الرأس ويقال لكلّ غامض : بطن، ولكلّ ظاهر : ظهر، ومنه : بُطْنَان القدر وظهرانها، ويقال لما تدرکه الحاسة : ظاهر، ولما يخفی عنها : باطن . قال عزّ وجلّ : وَذَرُوا ظاهِرَ الْإِثْمِ وَباطِنَهُ [ الأنعام 120] ، ما ظَهَرَ مِنْها وَما بَطَنَ [ الأنعام 151] ، والبَطِين : العظیم البطن، والبَطِنُ : الكثير الأكل، والمِبْطَان : الذي يكثر الأكل حتی يعظم بطنه، والبِطْنَة : كثرة الأكل، وقیل : ( البطنة تذهب الفطنة) وقد بَطِنَ الرجل بَطَناً : إذا أشر من الشبع ومن کثرة الأكل، وقد بَطِنَ الرجل : عظم بطنه، ومُبَطَّن : خمیص البطن، وبَطَنَ الإنسان : أصيب بطنه، ومنه : رجل مَبْطُون : علیل البطن، والبِطانَة : خلاف الظهارة، وبَطَّنْتُ ثوبي بآخر : جعلته تحته .- ( ب ط ن )- البطن اصل میں بطن کے معنی پیٹ کے ہیں اس کی جمع بطون آتی ہے قرآں میں ہے ؛ وَإِذْ أَنْتُمْ أَجِنَّةٌ فِي بُطُونِ أُمَّهَاتِكُمْ ( سورة النجم 32) اور جب تم اپنی ماؤں کے پیٹ میں بچے تھے ۔ بطنتۃ میں نے اس کے پیٹ پر مارا ۔ البطن ہر چیز میں یہ ظھر کی ضد ہے اور ہر چیز کی نیچے کی جہت کو بطن اور اویر کی جہت کو ظہر کہا جاتا ہے اسی سے تشبیہ کہا جاتا ہے ؛۔ بطن الامر ( کسی معاملہ کا اندرون ) بطن الوادی ( وادی کا نشیبی حصہ ) اور بطن بمعنی قبیلہ بھی آتا ہے اس اعتبار سے کہ تمام عرب کو بمنزلہ ایک شخص کے فرض کیا جائے ہیں اور ہر قبیلہ بمنزلہ بطن مخذ اور کاہل ( کندھا) وغیرہ اعضاء کے تصور کیا جائے ۔ اسی بناء پر شاعر نے کہا ہے ع ( طویل ) (57) الناس جسم اومامھم الھدیٰ راس وانت العین فی الراس ( کہ لوگ بمنزلہ جسم ہیں اور امام ہدی بمنزلہ سر ہے مگر تم سر میں آنکھ ہو ۔ اور ہر پیچیدہ معاملہ کو بطن اور جلی اور یہاں کو ظہر کہا جاتا ہے ۔ اسی سے بطنان القدر وظھرانھا کا محاورہ ہے ۔ یعنی دیگ کی اندرونی اور بیرونی جانب ۔ ہر اس چیز کو جس کا حاسہ بصر سے ادراک ہو سکے اسے ظاہر اور جس کا حاسہ بصر سے ادراک نہ ہوسکے اسے باطن کہا جاتا ہے قرآن میں ہے :۔ وَذَرُوا ظاهِرَ الْإِثْمِ وَباطِنَهُ [ الأنعام 120] اور ظاہری اور پوشیدہ ( ہر طرح کا ) گناہ ترک کردو ۔ ما ظَهَرَ مِنْها وَما بَطَنَ [ الأنعام 151] ظاہری ہوں یا پوشیدہ ۔ البطین کلاں شکم ۔ البطن بسیار خور المبطان جس کا بسیار خوری سے پیٹ بڑھ گیا ہو ۔ البطنۃ بسیارخوری ۔ مثل مشہور ہے ۔ البطنۃ نذھب الفطنۃ بسیار خوری ذہانت ختم کردیتی ہے ۔ بطن الرجل بطنا شکم پری اور بسیار خوری سے اتراجانا ۔ بطن ( ک ) الرجل بڑے پیٹ والا ہونا ۔ مبطن پچکے ہوئے پیٹ والا ۔ بطن الرجل مرض شکم میں مبتلا ہونا اس سے صیغہ صفت مفعولی مبطون مریض شکم آتا ہے ۔ البطانۃ کے معنی کپڑے کا استریا اس کے اندورنی حصہ کے ہیں اور اس کے ضد ظہارۃ ہے ۔ جس کے معنی کپڑے کا اوپر کا حصہ یا ابرہ کے ہیں اور بطنت ثوبی باٰ خر کے معنی ہیں میں نے ایک کپڑے کو دوسرے کے نیچے لگایا ۔- نار - والنَّارُ تقال للهيب الذي يبدو للحاسّة، قال : أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة 71] ، - ( ن و ر ) نار - اس شعلہ کو کہتے ہیں جو آنکھوں کے سامنے ظاہر ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة 71] بھلا دیکھو کہ جو آگ تم در خت سے نکالتے ہو ۔ - صلا - أصل الصَّلْيُ الإيقادُ بالنار، ويقال : صَلِيَ بالنار وبکذا، أي : بلي بها، واصْطَلَى بها، وصَلَيْتُ الشاةَ : شویتها، وهي مَصْلِيَّةٌ. قال تعالی: اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس 64] - والصَّلاةُ ،- قال کثير من أهل اللّغة : هي الدّعاء، والتّبريك والتّمجید يقال : صَلَّيْتُ عليه، أي : دعوت له وزكّيت، وقال عليه السلام : «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة 103] - وصَلَاةُ اللهِ للمسلمین هو في التّحقیق :- تزكيته إيّاهم . وقال : أُولئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَواتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ [ البقرة 157] ، - ومن الملائكة هي الدّعاء والاستغفار،- كما هي من النّاس «3» . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب 56] والصَّلَاةُ التي هي العبادة المخصوصة،- أصلها : الدّعاء، وسمّيت هذه العبادة بها کتسمية الشیء باسم بعض ما يتضمّنه، والصَّلَاةُ من العبادات التي لم تنفکّ شریعة منها، وإن اختلفت صورها بحسب شرع فشرع . ولذلک قال : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء 103]- ( ص ل ی ) الصلیٰ- ( س) کے اصل معنی آگ جلانے ہے ہیں صلی بالنار اس نے آگ کی تکلیف برداشت کی یا وہ آگ میں جلا صلی بکذا اسے فلاں چیز سے پالا پڑا ۔ صلیت الشاۃ میں نے بکری کو آگ پر بھون لیا اور بھونی ہوئی بکری کو مصلیۃ کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس 64] آج اس میں داخل ہوجاؤ ۔ - الصلوۃ - بہت سے اہل لغت کا خیال ہے کہ صلاۃ کے معنی دعا دینے ۔ تحسین وتبریک اور تعظیم کرنے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے صلیت علیہ میں نے اسے دعادی نشوونمادی اور بڑھایا اور حدیث میں ہے (2) کہ «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، - جب کسی کو کھانے پر بلا یا جائے تو اسے چاہیے کہ قبول کرلے اگر روزہ دار ہے تو وہ انکے لئے دعاکرکے واپس چلا آئے اور قرآن میں ہے وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة 103] اور ان کے حق میں دعائے خیر کرو کہ تمہاری دعا ان کے لئے موجب تسکین ہے ۔- اور انسانوں کی طرح فرشتوں کی طرف سے بھی صلاۃ کے معنی دعا اور استغفار ہی آتے ہیں - چناچہ فرمایا : إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب 56] بیشک خدا اور اس کے فرشتے پیغمبر پر درود بھیجتے ہیں ۔ اور الصلوۃ جو کہ ایک عبادت مخصوصہ کا نام ہے اس کی اصل بھی دعاہی ہے اور نماز چونکہ دعا پر مشتمل ہوتی ہے اسلئے اسے صلوۃ کہاجاتا ہے ۔ اور یہ تسمیۃ الشئی باسم الجزء کے قبیل سے ہے یعنی کسی چیز کو اس کے ضمنی مفہوم کے نام سے موسوم کرنا اور صلاۃ ( نماز) ان عبادت سے ہے جن کا وجود شریعت میں ملتا ہے گو اس کی صورتیں مختلف رہی ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء 103] بیشک نماز مومنوں مقرر اوقات میں ادا کرنا فرض ہے ۔- سعر - السِّعْرُ : التهاب النار، وقد سَعَرْتُهَا، وسَعَّرْتُهَا، وأَسْعَرْتُهَا، والْمِسْعَرُ : الخشب الذي يُسْعَرُ به، واسْتَعَرَ الحرب، واللّصوص، نحو : اشتعل، وناقة مَسْعُورَةٌ ، نحو : موقدة، ومهيّجة . السُّعَارُ :- حرّ النار، وسَعُرَ الرّجل : أصابه حرّ ، قال تعالی: وَسَيَصْلَوْنَ سَعِيراً- [ النساء 10] ، وقال تعالی: وَإِذَا الْجَحِيمُ سُعِّرَتْ [ التکوير 12] ، وقرئ بالتخفیف «2» ، وقوله : عَذابَ السَّعِيرِ [ الملک 5] ، أي : حمیم، فهو فعیل في معنی مفعول، وقال تعالی: إِنَّ الْمُجْرِمِينَ فِي ضَلالٍ وَسُعُرٍ [ القمر 47] ، والسِّعْرُ في السّوق، تشبيها بِاسْتِعَارِ النار .- ( س ع ر ) السعر - کے معنی آگ بھڑکنے کے ہیں ۔ اور سعرت النار وسعر تھا کے معنی آگ بھڑکانے کے ۔ مجازا لڑائی وغیرہ بھڑکانے کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے : ۔ استعر الحرب لڑائی بھڑک اٹھی ۔ استعر اللصوص ڈاکو بھڑک اٹھے ۔ یہ اشتعل کے ہم معنی ہے اور ناقۃ مسعورۃ کے معنی دیوانی اونٹنی کے ہیں جیسے : ۔ موقدۃ ومھیجۃ کا لفظ اس معنی میں بولا جاتا ہے ۔ المسعر ۔ آگ بھڑکانے کی لکڑی ( کہرنی ) لڑائی بھڑکانے والا ۔ السعار آگ کی تپش کو کہتے ہیں اور سعر الرجل کے معنی آگ یا گرم ہوا سے جھلس جانے کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَسَيَصْلَوْنَ سَعِيراً [ النساء 10] اور دوزخ میں ڈالے جائیں گے ۔ وَإِذَا الْجَحِيمُ سُعِّرَتْ [ التکوير 12] اور جب دوزخ ( کی آگ ) بھڑکائی جائے گی ۔ عَذابَ السَّعِيرِ [ الملک 5] دہکتی آگ کا عذاب تیار کر رکھا ہے ۔ تو یہاں سعیر بمعنی مسعور ہے ۔ نیز قران میں ہے : ۔ إِنَّ الْمُجْرِمِينَ فِي ضَلالٍ وَسُعُرٍ [ القمر 47] بیشک گنہگار لوگ گمراہی اور دیوانگی میں ( مبتلا ہیں ) السعر کے معنی مروجہ نرخ کے ہیں اور یہ استعار ہ النار ( آگ کا بھڑکنا ) کے ساتھ تشبیہ کے طور پر بولا گیا ہے ۔
اسلام یتیم کی اصلاح اور خیرکاطالب ہے - قول باری ہے (ان الذین یاکلون اموالیتامی ظلما انما یاکلون فی بطونھم ناراوسیصلون سعیرا، جو لوگ ازراہ ظلم یتیموں کا مال ہضم کرجاتے ہیں۔ وہ دراصل اپنے پیٹ آگ سے بھرتے ہیں۔ ایسے لوگ جلدہی دہکتی ہوئی آگ میں پڑیں گے) حضرت ابن عباس (رض) سعیدبن جبیر اور مجاہد سے مروی ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو جن لوگوں کے زیرسایہ یتیم پرورش پا رہے تھے، انہوں نے ان یتیموں کا کھاناپینا الگ کردیاجس کے نتیجے میں کھانا خراب ہوجاتا لیکن وہ اسے ہاتھ نہیں لگاتے اس پر یہ آیت نازل ہوئی (وان تخالطوھمفاخوانکم واللہ یعلم المفسدمن المصلح، اور اگر تم انہیں اپنے ساتھ ملالوتویہ تمہارے بھائی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے کہ کس کی نیت میں فساد ہے اور اصلاح کا خواستگارکون ہے۔ ) اللہ تعالیٰ نے اس آیت کے ذریعے اصلاح اور خیرطلبی کی بنیادپرا نہیں اپنے ساتھ ملالینے کی اجازت دے دی۔ ابوبکرجصاص کہتے ہیں کہ یہاں اللہ تعالیٰ نے خاص کر اکل یعنی خوروفی اشیاء کا ذکر کیا ہے جبکہ یتیموں کے تمام اموال کا جن میں غیر اشیائے خوردنی بھی شامل ہیں۔ اتلاف اسی طرح ممنوع ہے جس طرح خوردنی اشیاء کا یہاں خصوصیت کے ساتھ اکل کا ذکر اس لیے ہوا کہ کھانے پینے کا عمل ہی وہ سب سے بڑامقصد ہے۔ جس کی خاطر لوگ مال ودولت کے پیچھے پڑے رہتے ہیں۔- ہم نے اس نکتے کی وضاحت سابقہ سطور میں کردی ہے۔ قول باری (انمایاکلون فی بطونھم نارا) کے متعلق مفسرسدی سے مروی ہے کہ قیامت کے دن ایسے شخص کے منہ کان، ناک اورآ نکھوں سے آگ کے شعلے نکلیں گے جو شخص بھی دیکھے گا وہ فورا پہچان لے گا کہ یہ یتیم کا مال ہضم کرنے والا شخص ہے۔ ایک قول ہے کہ یہ بار بطورمثل بیان کی گئی ہے اس لیے کہ ایسے لوگ اس گناہ کی وجہ سے جہنم میں پہنچ جائیں گے اور پھر ان کے پیٹ آگ سے بھرجائیں گے۔- بعض برخود، غلط، جاہل قسم کے، اہل حدیث، اس کے قائل ہیں کہ قول باری (ان الذین یاکلون اموال الیتامی ظلما، منسوخ ہوگیا ہے اور اس کاناسخ یہ قول باری ہے (وان تخالطوھم فاخوانکم، ان میں ایک نے، التاسخ والمنسوخ، کے بیان کے سلسلے میں یہ بات اس روایت کی بنیادپرثابت کی ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو لوگوں نے یتیموں کا کھاناپیناالگ کرویاحتی کہ قول باری (وان تخالطوھم فاخوانکم) نازل ہوا۔ قائل کا یہ قول، نسخ کے معنی، اس کے جواز اور عدم جواز کے متعلق اس کی جہالت پر دلالت کرتا ہے۔ اہل اسلام کے درمیان اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ ازراہ ظلم یتیم کا مال کھانا ممنوع ہے اور آیت میں مذکورہ وعید ایسے شخص کے لیے ثابت ہے البتہ اس میں اختلاف ہے کہ آیایہ وعیدآخرت میں اسے ضروربالضرورلاحق ہوگی یابخشش کی گنجائش ہوگی۔ اس جیسی صورت میں کوئی عقلمندانسان نسخ کے جو ازکاقائل نہیں ہوسکتا ۔ اس شخص کو اس بات کا پتہ ہی نہ چل سکا کہ ظلم کی اباحت کسی حالت میں بھی جائز نہیں ہوتی، اس لیے اس کی ممانعت کا منسوخ ہوجانا بھی درست نہیں ہوسکتا۔ صحابہ کرام میں سے جن حضرات نے اپنے اپنے زیرکفالت یتیموں کا کھانا پینا الگ کردیاتھاتو اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ انہیں یہ خوف پیدا ہوگیا تھا کہ کہیں بیخبر ی میں ان کا مال استحقاق کے بغیر کھانہ لیں اور پھر ان پر ظالم ہونے کا دھبہ لگ جائے اور آیت میں مذکورہ وعیدکانشانہ بن جائیں۔ اس لیے انہوں نے احتیاطی تدبیر کے طورپریہ قدم اٹھایا تھا۔ پھر جب آیت (فان تخالطوھم فاخوالکم) نازل ہوئی تواصلاح اور خیرخواہی کے ارادے کی شرط کے ساتھ انہیں اپنے ساتھ ملا لینے کے متعلق ان کا خوف زائل ہوگیا۔ اس طرزعمل میں ازراہ ظلم یتیم کا مال ہضم کرنے کی کوئی اباحت موجود نہیں کہ اس کی بناپریہ آیت قول باری (ان الذین یاکلون اموال الیتامی ظلما، کے لیے ناسخ بن جائے۔ واللہ اعلم۔- باب الفرائض - اسلام میں ہر فرد کے حقوق متعین ہیں - ابوبکرجصاص کہتے ہیں کہ اہل جاہلیت دو باتوں کی بنیادپر ایک دوسرے کے وارث ہوتے تھے، اول نسب دوم سبب، نسب کی بنیادپروراثت کے استحقاق کی وجہ سے وہ نابالغوں اور عورتوں کو وارث قرار نہیں دیتے تھے، صرف ان لوگوں کو وراثت کا حق دارسمجھتے تھے جو گھوڑوں پر سوارہوکرلڑائیوں میں حصہ لے سکیں اور مال غنیمت سمیٹ سکیں۔ حضرت ابن عباس (رض) اور سعید بن جبیرنیزدوسرے حضرات سے یہی مروی ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی (ویستفتنونک فی النساء قل اللہ یفتیکم فیھن، لوگ آپ سے عورتوں کے متعلق فتوی پوچھتے ہیں آپ کہہ دیجئے اللہ تمہیں ان کے متعلق فتوی دیتا ہے) تاقول باری (والمستضعفین من الولدان، اور ان بچوں کے متعلق جو بیچارے کوئی زور نہیں رکھتے۔ نیزیہ آیت نازل فرمائی (یوصیکم اللہ فی اولاد کم للذکرمثل حظ الانثیین، اللہ تعالیٰ تمہیں تمہاری اولاد کے بارے میں وصیت کرتا ہے کہ مرد کا حصہ دوعورتوں کے حصوں کے برابرہو) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے بعد بھی لوگ شادی بیاہ، طلاق اور میراث کے سلسلے میں زمانہ جاہلیت کے طور طریقوں پر قائم رہے۔ حتی کہ وہ وقت بھی آگیا کہ وہ یہ طورطریقے چھوڑکرشریعت کے بتائے ہوئے اصولوں اور طریقوں کی طرف منتقل ہوگئے۔ ابن جریج کہتے ہیں کہ میں نے عطاء بن ابی رباح سے دریافت کیا کہ آیا آپ کو یہ معلوم ہے کہ طلاق یا نکاح یا میراث کے سلسلے میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں کو ان ہی طریقوں پرچلنے دیا تھا جن پر آپ نے انہیں پایا تھا یعنی زمانہ جاہلیت کے طورطریقے، عطاء نے جواب میں کہا کہ ہمیں یہی اطلاع ملی ہے۔- حمادبن زید نے ابن عون سے، انہوں نے ابن سیرین سے روایت کی ہے کہ مہاجرین اور انصار اپنے نسب کی بیادپرجس کا زمانہ جاہلیت میں اعتبار کیا جاتا تھا ایک دوسرے کے وارث ہوتے تھے۔ اس لیے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں اس طریقے پر باقی رہنے دیا تھا۔ البتہ ربوا، یعنی سودکامعاملہ اس سے خارج تھا۔- اسلام آنے کے بعد جن سودی رقموں پر قبضہ نہیں ہوا تھا۔ ان کے سلسلے میں یہ طریقہ اختیار کیا گیا کہ راس المال قرض خواہ کو واپس کردیا گیا اور سود کی رقم ختم کردی گئی، حمادبن زیدنے ایوب سے، انہوں نے سعیدبن جبیر سے روایت کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مبعوث فرمایا اور لوگ زمانہ جاہلیت کے طور طریقوں پرچلتے رہے حتی کہ وہ وقت آگیا جب انہیں بہت سی باتوں کے کرنے کا حکم ملا اور بہت سی باتوں سے روک دیا گیا۔ ورنہ اس سے پہلے وہ زمانہ جاہلیت کے طورپر طریقوں پرچلتے رہے۔ اسی مفہوم کی وہ روایت ہے جو حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ، جو چیز اللہ نے حلال کردی وہ حلال ہے اور جو چیز اس نے حرام کردی وہ حرام ہے۔ اور جس چیز کے متعلق خاموشی اختیار کی گئی وہ قابل گرفت نہیں ہے۔ اس طرح لوگوں کو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے بعد بھی ایسی باتوں پر بحالہ قائم رہنے دیا گیا جو عقلی طورپر ممنوع نہیں تھیں۔- عرب کے لوگ حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہماالسلام کی بعض شرائع کی پابندی کرتے تھے۔ اگرچہ انہوں نے ان میں اپنی طرف سے بہت سی نئی باتیں پیدا کرلی تھیں جو عقل کے نزدیک ممنوع تھیں مثلا شرک بت پرستی لڑکیوں کو زندہ درگورکرنا اور بہت سی دوسری ایسی باتیں جن کی قباحت کی عقل انسانی بھی گواہی دیتی تھی۔ دوسری طرف ان میں اعلی اخلاق کی بہت سی صفات پائی جاتی تھیں۔ نیز آپس کے لین دین اور میل ملاپ کی بہت سی ایسی صورتیں تھیں جو عقل ا نسائی کے نزدیک ممنوع نہیں تھیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنانبی بناکر مبعوث فرمایا اور آپ نے انہیں توحید باری تعالیٰ کی دعوت دی اور وہ باتیں ترک کرنے کے لیے کہاجوعقلی طورپر ممنوع تھیں۔ مثلا بت پرستی لڑکیوں کو زندہ درگور کردینا ، نیز ، سائبہ واپسی اونٹنی جس کے دس مادہ بچے ہوں اس پر نہ تو سوارہوتے تھے اور نہ ہی اس کادودھ اس کے۔ بچے اور مہمان کے سوا کسی اور کو پینے دیتے تھے، اسے گھاس پانی وغیرہ سے بھی روکا نہیں پرچھوڑدیاجاتا اس کا نام وصیلہ تھا) اور، حام، (نراونٹ جس کا پوتا سواری دینے کے قابل ہوجاتا اسے آزادچھوڑدیتے تھے نہ اس پر سوارہوتے اور نہ ہی اس کے بال کترتے تھے) اور اسی طرح کے دوسرے جانوروں کو تقرب کی نیت سے بتوں کے نام پرچھوڑدینا وغیرہ۔ دوسری طرف آپ نے خریدوفروخت کے عقودآپ کے لین۔ شادی بیاہ طلاق اور میراث کے سلسلے میں انہیں ان طریقوں پر رہنے دیاجن پر وہ زمانہ جاہلیت سے چلتے آرہے تھے اور جو عقلی طورپر قابل ملا مت نہیں تھے۔ ان باتوں کی انہیں اجازت تھی اس لیے کہ عقلی طورپران کی ممانعوت تھی اور نہ ہی ان کی تحریم کی آوازان کے کانوں میں پڑی تھی جوان کے خلاف حجت بن جاتی۔ ان کی میراث کے معاملات بھی اسی ضمن میں آتے تھے اور زمانہ جاہلیت کی ڈگرپرچل رہے تھے۔ یعنی جنگ کے قابل مردوں کو میراث کا حق دارسمجھاجاتا تھا اور بچوں نیز عورتوں کو اس سے محروم رکھاجاتا تھا۔ حتی کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے میراث کی آیتیں نازل کی گئیں ۔ نسب کی بنیادپروراثت کی یہ صورت تھی۔- سبب کی بنیادپر ایک دوسرے کے وارث ہونے کی دوصورتیں تھیں۔ اول ، حلف اور معاہدہ دوم، تبنی یعنی کسی کو اپنا متبنی بنالینا۔ پھر اسلام کادورآ گیا۔ لوگوں کو کچھ عرصے تک ان کی سابقہ حالت پر رہنے دیا گیا پھر اس کی ممانعت کردی گئی۔ بعض حضرات کا یہ قول ہے کہ یہ لوگ نص قرآنی کی رو سے حلف اور معاہدہ کی بنیادپر ایک دوسرے کے وارث ہوتے تھے پھرا سے منسوخ کردیا گیا۔ شیبان نے قتادہ سے قول باری (والذین عاقدت ایمانکم فاتوھم نصیبھم، اور وہ لوگ جن سے تمہارے عہد و پیمان ہوں ان کا حصہ انہیں دو ) کے متعلق روایت کی ہے کہ زمانہ جاہلیت میں یہ دستور تھا کہ ایک شخص دوسرے شخص سے عہد و پیمان باندھتے ہوئے کہتا کہ ، میراخون تیراخون ہے، میری قبر تیری قبر کے ساتھ ہے۔ میں تیراوارث اور تومیراوارث، تو جرم کرے گا توجرمانہ میں بھروں گا اور میں جرم کروں گا توجرمانہ توبھرے گا۔ قتادہ کہتے کہ ایسے آدمی کو زمانہ اسلام میں کل مال کا چھٹاحصہ دیاجاتا تھا، اس کے بعد اہل میراث اپنے اپنے حصے لیتے تھے، بعد میں اسے منسوخ کردیا گیا، اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا (واولی الارحام بعضہم اولی ببعض فی کتاب اللہ) اللہ کی کتاب میں قرابت دار ایک دوسرے کی میراث کے زیادہ حق دار ہیں۔- حسن عطیہ نے اپنے والد سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس سے قول باری (ولکل جعلناموالی مماترک الوالدان والاقربون والذین عاقدت ایمانکم فاتوھم نصیبھم، اور ہم نے ہراس ترکے کے حقدارمقرر کردیئے ہیں جو والدین اور رشتہ دارچھوڑیں۔ اب رہے وہ لوگ جن سے تمہارے عہد و پیمان ہوں تو ان کا حصہ انہیں دو ) کے متعلق روایت کی ہے کہ زمانہ جاہلیت میں ایک شخص دوسرے شخص سے حلف یا معاہدہ کرتا اور اس کاتابع بن جاتا۔ جب وہ شخص مرجاتا تو اس کی میراث اس کے رشتہ داروں اوراقرباء کو مل جاتی اور یہ شخص خالی ہاتھ رہ جاتا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی (والذین عاقدت ایمانکم فاتوھم نصیبھم) اس کے بعدا سے بھی اس شخص کی میراث میں سے دیاجانے لگا۔ عطاء نے سعید بن جبیر سے درج بالاآیت کے متعلق روایت کی ہے کہ زمانہ جاہلیت نیز زمانہء اسلام کوئی شخص کسی سے دوستی کرنا چاہتا اور پھر اس سے دوستی کا معاہدہ کرلیتا اور کہتا کہ میں تیراوارث نبوں گا اور تومیراوارث، پھر ان میں سے جو بھی پہلے وفات پاجاتا تو زندہ رہ جانے والے کو معاہدے کی شرط کے مطابق اس کے نز کے میں سے حصہمل جاتا، جب آیت میراث نازل ہوئی اور ذوی الضروض، کے حصص بیان کردیئے گے، لیکن دوستی کے معاہدے کے تحت ملنے کا کوئی ذکر نہیں آیاتو ایک شخص حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضرہوکرعرض گذارہوا کہ، حضور میراث کی تقسیم کے متعلق اس آیت کا نزول ہوگیا، لیکن اس میں اہل عقدکا کوئی ذکر نہیں ہے میں نے ایک شخص سے دوستی کا معاہد ہ کیا تھا۔ اور اب اس کی وفات ہوگئی ہے۔ اس پر درج بالاآیت نازل ہوئی۔ سلف میں سے ان حضرات نے یہ بتادیا کہ حلیف یعنی دوستی کا معاہدہ کرنے والے طریفین میں سے ہر ایک کا حکم زمانہ اسلام میں ازروئے سمع ثابت رہانہ کہ لوگوں کو زمانہء جاہلیت کے طریق کارپرباقی رکھنے کے ذریعے۔ ان میں سے بعض کا قول ہے کہ یہ بات شریعت کے واسطے سے حکم سن لینے کی بناپرثابت نہیں رہی بلکہ یہ اس واسطے سے ثابت رہی کہ لوگوں کو زمانہء جاہلیت کے طریق کارپرباقی رہنے دیاگیا حتی کہ آیت میراث نازل ہوگئی اور پھر یہ طریق کارختم کردیا گیا۔- ہمیں جعفربن محمد واسطی نے روایت بیان کی ، انہیں جعفربن محمد نے ، انہیں ابوعبید نے، انہیں عبدالرحمن نے سفیان سے، انہوں نے منصور سے، انہوں نے مجاہد سے قول باری (والذین عاقدت ایمانکم فاتوھم نصیبھم) کے متعلق نقل کیا کہ اس سے مراد وہ لوگ میں جو زمانہء جاہلیت میں ایک دوسرے کے حلیف تھے ان کے متعلق حکم دیا گیا کہ باہمی مشاورت دیت اور جرمانے کی ادائیگی نیزساتھ دینے اور مدد کرنے میں انہیں ان کا حصہ دیاجائے۔ لیکن میراث میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ جعفربن محمد نے کہا کہ ہمیں ابوعبید نے روایت بیان کی انہیں معاذنے ابن عون سے، انہوں نے عیسیٰ بن الحارث سے، انہوں نے عبداللہ بن الزبیر (رض) سے قول باری (واولوالارحام بعضھم اولی ببعض، اور قرابت دار، ایک دوسرے کی میراث کے زیادہ حق دار ہیں) کے متعلق نقل کیا کہ یہ آیت عصبات، کے متعلق نازل ہوئی (عصبات ایسے رشتہ داروں کو کہاجاتا ہے جن کے حصے مقرر نہیں ہوتے بلکہ وہ، ذوی الضروض، کے بعدترکے کے باقیماندہ حصے کے حق دارہوتے ہیں۔ ایک شخص دوسرے شخص سے دوستی کا معاہدہ کرکے کہتا کہ تومیراوارث، اور میں تیرا۔ اس پر درج بالاآیت نازل ہوئی۔ جعفربن محمد نے کہا کہ ہمیں ابوعبید نے روایت بیان کی، انہیں عبداللہ بن صالح نے معاویہ بن ابراہیم سے، انہوں نے علی بن ابی طلحہ سے، انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے قول باری (والذین عاقدت ایمانکم فاتوھم نصیبھم) کے متعلق نقل کیا کہ ایک شخص دوسرے سے کہتا کہ تومیراوارث ہوگا اور میں تیرا۔ اس پر آیت (واولوالارحام بعضھم اولی ببعض فی کتاب اللہ من المؤمنین والمھا جرین الاان تفعلوا الی اولیاء کم معروفا، اللہ کی کتاب میں مومنین اور مہاجرین میں سے قرابت دار ایک دوسرے کی میراث کے زیادہ حق دار ہیں۔ البتہ تم اپنے حلیفوں کے ساتھ نیکی کرسکتے ہو) نازل ہوئی حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ آیت کا مفہوم یہ ہے کہ الایہ کہ تم ان لوگوں کے حلیفوں کے لیے وصیت کرجاؤجن کے ساتھ انہوں نے دوستی کے معاہدے کیئے تھے۔ غرض ان حضرات نے یہ بتادیا کہ اس سلسلے میں زمانہ جاہلیت کا طریق کا رقول باری (واولوا الارحام بعضھم اولی ببعض) کے ذریعے منسوخ کردیا گیا اور قول باری (فاتوھم نصیبھم) کا مطلب یہ ہے کہ باہمی مشورت اور امدادیاوصیت میں ان کا حصہ انہیں دیاجائے، میراث میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہے جہاں تک آیت کا تعلق ہے تو اس قریب ترین مفہوم یہ ہے کہ حلف اور معاہد ہ کی بناپر ایک دوسرے کی میراث کے حق کو ثابت رکھاجائے اس لیے کہ قول باری (والذین عاقدت ایمانکم واتوھم نصیبھم) ان کے لیے مستقل اور ثابت حصے کا مقتضی ہے جبکہ دیت اور جرمانہ کی ادائیگی نیز مشاورت اور وصیت مستقل اور ثابت حصے کا مفہوم ادا نہیں کرتی ہیں۔ اس کی مثال یہ ارشاد آلہی ہے (للرجال نصیب مماترک الوالدان والاقربون ولنساء نصیب مماترک الوالدان والاقربون، اس سے ظاہری طورپر جو مفہوم ذہن میں آتا ہے وہ یہی ہے کہ میراث میں حصے کا اثبات ہورہا ہے ٹھیک اسی طرح قول باری (والذین عاقدت ایمانکم فاتوھم نصیبھم) کے ظاہرکاتقاضا کہ ان کے لیے اس حصے کا اثبات کردیاجائے جس کے وہ معاہدہ اور حلف کی بناپرمستحق ہوئے ہیں۔ رہ گئی باہمی مشاورت تو اس میں تمام لوگ یکساں ہیں۔ اس لیے یہ حصہ نہیں بن سکتی۔ اسی طرح عقل یعنی دیت اور جرمانے کی ادائیگی تو اس کا وجوب حلیفوں پر ہوتا ہے۔ اس لیے یہ بھی دوستی کا معاہدہ کرنے والے کے لیے حصہ نہیں بن سکتی، جہاں تک وصیت کا تعلق ہے تو وہ واجب نہیں ہوتی اور نہ ہی اس کا استحقاق ہوتا ہے اس لیے یہ بھی اس کے لیے حصہ نہیں بن سکتی اس بناپر آیت کی ان تاویلات کے مقابلے میں جو دوسرے حضرات نے کی ہے وہ تاویل خطاب کے مفہوم سے زیادہ قریب اور مطابق نظر آتی ہے جس میں دوستی کے معاہدے کی بناپر مقررحصہ مراد لیاگیا ہے۔- ہمارے نزدیک یہ حکم منسوخ نہیں ہوا البتہ ایسا کوئی وارث پیدا ہوگیا جو اس حلیف سے زیادہ حق دارٹھہرامثلاایک شخص کا بھائی موجودہواب اس کے بیٹے کا وجوداگرچہ بھائی کو میراث سے محروم کردے گا۔ لیکن اسے اہل میراث سے خارج نہیں کرے گا۔ صرف یہ ہوگا کہ بیٹا بھائی کے مقابلے میں زیادہ حق دارہوگا۔ اسی طرح، اولوالارحام، یعنی قرابت دارحلیف کے مقابلے میں میراث کے زیادہ حق دار ہیں، اب اگر کسی شخص کی وفات پر اس کانہ کوئی قرابت دارموجودہو اور نہ عصبہ تو اس صورت میں اس کی میراث اس شخص کو مل جائے گی جس کے ساتھ اس نے دوستی کا معاہدہ کیا ہوگا۔ اسی طرح ہمارے اصحاب نے اس شخص کے لیے اپنے پورے مال کی وصیت جائزقراردے دی جس کا کوئی وارث نہ ہو۔- اسلام ایک حقیقت پسنددین ہے - کسی کو متبنیٰ یعنی منہ بولا بیٹابنالینے او اس کے حقیقی باپ کی طرف نسبت کی بجائے اپنی طرف منسوب کرلینے کی بناپر وراثت کی صورت یہ تھی کہ زمانہ جاہلیت میں ایک شخص کسی دوسرے کے بیٹے کو اپنا بیٹابنالیتا اور پھر وہ بچہ اپنے باپ کی طرف منسوب ہونے کی بجائے اس شخص کی طرف منسوب ہوتا اور جب وہ شخص مرجاتا تو اس کی میراث اسیمل جاتی۔ جب اسلام کادورآیاتویہ صورت حال اسی طرح چلتی رہی اور یہ حکم علی حالہ باقی رہا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت زید بن حارثہ (رض) کو اپنابیٹا بنالیاتھایہاں تک انہیں زیدبن محمد ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) کے نام سے پکاراجاتا تھا۔ پھر یہ آیت نازل ہوئی (ماکان محمد ابااحدمن رجالکم، محمد ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں) نیزارشاد ہوا (فلما قضی زید منھاوطرازوجناکھالکیلا یکون علی المؤمنین حرج فی ازواج ادعیاء ھم، جب زید نے اپنی بیوی سے حاجت پوری کرلی توہم نے تمہارے ساتھ اس کا نکاح کرادیا، تاکہ بعد میں مسلمانوں کے لیے اپنے منہ بولے بیٹوں کی بیویوں کے بارے میں کوئی تنگی پیدانہ ہو) نیزارشاد ہوا (ادعوھم لاباء ھم ھواقسط عنداللہ فان لم تعلموا اباء ھم فاخوانکم فی الدین وموالیکم، انہیں ان کے باپوں کی طرف منسوب کرو کہ یہی اللہ کے نزدیک راستی کی بات ہے اور اگر تمہیں ان کے باپوں کے متعلق علم نہ ہو تو آخروہ تمہارے دینی بھائی اور دوست ق وہیں ہی) حضرت ابوحذیفہ بن عتبہ نے سالم کو اپنا بولابیٹا بنالیا چناچہ سالم کو سالم بن ابی حذیفہ کہہ کر پکاراجانے لگاحتی کہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی (ادعوھم لاباء ھم) زہری نے عردہ سے اور انہوں نے حضرت عائشہ (رض) سے اس کی روایت کی ہے اس طرح اللہ تعالیٰ نے کسی کو اپنا منہ بولابیٹا بنالینے کی بناپرا سے اپنی طرف منسوب کرنے نیزا سے اپنی میراث قراردینے کے حکم کو منسوخ کردیا۔ ہمیں جعفربن محمد واسطی نے روایت بیان کی انہیں جعفربن محمد بن الیمان نے، انہیں ابوعبید نے، انہیں عبداللہ بن صالح نے لیث سے، انہوں نے عقیل سے، انہوں نے ابن شہاب زہری سے، انہیں سعیدبنالمسیب نے قول باری (والذین عقدت ایمانکم فاتوھم نصیبھم) کے متعلق کہا کہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت ان لوگوں کے متعلق نازل فرمائی جو دوسروں کو اپنے منہ بولے بیٹے بنالیتے ہیں اور پھر اپنی میراث کا انہیں وارث قراردیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت کے ذریعے انہیں حکم دیا کہ ایسے منہ بولے بیٹوں کو وصیت کے ذریعے حصہ دو اور میراث کو رشتہ داروں اور عصبات کی طرف لوٹادو۔ اللہ تعالیٰ نے منہ بولے بیٹوں کو وارث قراردینے سے انکار کردیا۔ البتہ ان کے لیے وصیت کے ذریعے حصہ مقرر کردیا اور یہ حصہ اس میراث کے قائم مقائم بن گیا جس کے متعلق انہوں نے اپنے منہ بولے بیٹوں سے معاہدہ کیا تھا اور اب اللہ تعالیٰ نے ان کے اس طرزعمل کی نفی کردی تھی۔- ابوبکرجصاص کہتے ہیں کہ اس بات کی گنجائش ہے کہ قول باری (والذین عقدت ایمانکم فاتوھم نصیبھم) دونوں باتوں یعنی دوستی کے معاہدے اور منہ بولا بیٹابنالینے کے معانی پر مشتمل ہو اس لیے کہ ان دونوں میں سے ہر ایک کا انعقاد کسی عقد اورایجاب وقبول کے ذریعے ہوتا ہے ہم نے یہاں جو کچھ ذکرکیا ہے وہ زمانہء جاہلیت میں میراث کے بارے میں ان لوگوں کے طرزعمل سے تعلق رکھتا ہے۔ جب اسلام کادورآیاتوان میں بعض صورتوں کو اس وقت تک باقی رکھا گیا جب تک کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے شرعی احکام کی طرف منتقلی کا حکم نہیں آیا۔ اور بعض کے اثبات کے لیے نص واردہوئی اور پھر معاملہ اسی طریقے پرچلتارہاحتی کہ اسے چھوڑکرشرعی حکم کی طرف منتقلی کے لیے دوسری نص واردہوگئی۔- اسلام میں میراث کا انعقاددوباتوں کے ذریعے ہوتا ہے ایک تو نسب ہے اور دوسرا سبب جو نسب نہ ہو نسب کی بناپراستحقاق کے متعلق اللہ تعالیٰ کی کتاب میں اکثر صورتوں کا ذکرآگیا ہے اور بعض کا ذکر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی احادیث میں واردہوا ہے۔ بعض صورتوں میں امت کا اجماع ہوگیا ہے۔ اور بعض کا ثبوت کسی دلالت کی بناپر ہوا ہے۔ رہ گیا کسی سبب یا وجہ کی بناپر میراث کا استحقاق تو اسلام میں اس کی ایک صورت دوستی کا معاہدہ اور حلف ہے۔ دوسری صورت منہ بولے بیٹے کی ہے ہم نے اس کے متعلق حکم بھی بیان کردیا ہے اور اس کے نسخ کی روایت بھی نقل کردی ہے، ہمارے نزدیک اگرچہ یہ نسخ نہیں ہے بلکہ ایک وارث کو دوسرے وارث کے مقابلے میں زیادہ حق دارقراردینے کی ایک صورت ہے۔- ایک سبب جس کی بناپر اللہ تعالیٰ نے میراث کے استحقاق کو واجب قراردیا تھا۔ وہ ہجرت ہے۔ ہمیں محمد بن جعفر واسطی نے روایت بیان کی، انہیں جعفر بن محمد بن الیمان نے، انہیں ابوعبید نے، انہیں حجاج نے ، ابن جریج اور عثمان بن عطاء خراسانی سے، ان دونوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے قول باری (ان الذین امنواوھاجرواوجاھدواباموالھم وانفسھم فی سبیل اللہ والذین آو واونصروا الئک بعضھم اولیاء بعض والذین امنواولم یھاجروامالکم من ولایتھم من شیء حتی یھاجروا، بیشک جو لوگ ایمان لائے اور انہوںے ہجرت کی اور اپنے مال اور اپنی جان سے اللہ کی راہ میں جہاد بھی کیا اور جن لوگوں نے انہیں پناہ دی اور ان کی مدد کی یہ لوگ ایک دوسرے کے وارث ہیں اور جو لوگ ایمان تو لائے لیکن ہجرت نہیں کی، تمھارا ان سے میراث کا کوئی تعلق نہیں جب تک کہ وہ ہجرت نہ کریں) کے متعلق روایت کی ہے کہ ہجرت کرکے آجانے والے مسلمان کسی اعرابی یعنی ہجرت نہ کرنے والے سے نہ تودوستی کا معاہد ہ کرتے اور نہ ہی اس کے وارث ہوتے، حالانکہ ہجرت نہ کرنے والا مسلمان ہوتا۔ اس طرح کوئی اعرابی کسی مہاجرکاوارث نہ ہوتا۔ پھر یہ آیت قول باری (واولوا الارحام بعضھم اولی ببعض) کی بناپر منسوخ ہوگئی۔ بعض حضرات کا قول ہے کہ اسے منسوخ کرنے والی یہ آیت ہے (ولکل جعلنا موالی مماترک الوالدان والاقربون، ہم نے ہر شخص کے ترکے کے وارث بنائے ہیں جو ماں باپ اور رشتہ دارچھوڑجائیں) حضرات انصارومہاجرین اس عقدمواخات کی بناپر بھی ایک دوسرے کے وارث ہوتے تھے جو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے درمیان قائم کردیا تھا۔ ہشام بن عروہ نے اپنے والدعروہ سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت زبیربن العوام (رض) اور حضرت کعب بن مالک (رض) کے درمیان مواخات قائم کردی۔ حضرت کعب (رض) جنگ احد کے دن زخمی ہوگئے۔ حضرت زبیرا نہیں میدان جنگ سے سواری پر بیٹھاکرخودلگام پکڑے ہوئے لے آئے۔ اگر حضرت کعب (رض) مال دولت کا انبارچھوڑکروفات پاجاتے تو بھی زبیران کے وارث ہوتے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل نازل فرمائی (واولوا الارحام بعضھم اولی ببعض فی کتاب اللہ ان اللہ بکل شیء علیم، اور قرابت وار اللہ کی کتاب میں ایک دوسرے کے زیادہ حق دار ہیں۔ بیشک اللہ تعالیٰ کو ہرچیز کا علم ہے۔- ابن جریج نے سعید جبیر سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جن انصارومہاجرین کے درمیان مواخات قائم کردی تھی وہ ایک دوسرے کے وارث ہوتے، ان کے بھائی وارث نہ ہوتے لیکن جب آیت (ولکل جعلنا موالی مماترک الوالدان الاقربون) نازل ہوئی تو یہ حکم منسوخ ہوگیا، پھر یہ آیت (والذین عاقدت ایمانکم فاتوھم نصیبھم) نازل ہوئی یعنی ان کی مددکرو اورا نہیں سہارادو۔ حضرت ابن عباس (رض) نے اس روایت میں یہ بتایا کہ درج بالاقول باری سے مراد عقدمواخات ہے جو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے درمیان قائم کردیا تھا۔ معمر نے قتادہ سے قول باری (مالکم من ولایتھم من شیء، تمہارے لیے ان کی وراثت میں سے کچھ بھی نہیں ہے) کی تفسیر میں روایت کی ہے کہ مسلمان اسلام اور ہجرت کی بنیادپر ایک دوسرے کے وارث ہوتے تھے۔ اگر ایک شخص مسلمان ہوجاتالیکن ہجرت نہیں کرتاتو وہ اپنے بھائی کا وارث قرارنہ پاتا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے اس ارشاد (واولوا الارحام بعضھم اولی ببعض فی کتاب اللہ من المؤمنین والمھاجرین) کے ذریعے اسے منسوخ کردیا۔ جعفربن سلیمان نے حسن سے روایت کی ہے کہ ایک مسلمان اعرابی کسی مہاجر کی وراثت کا حق دار نہیں ہوتا تھا خواہ وہ اس کا قرابت دارہی کیوں نہ ہوتا تا کہ اس طریقے سے اسے ہجرت پر آمادہ کیا سکے۔ لیکن جب مسلمانوں کی تعداد بڑھ گئی تو اللہ تعالیٰ نے درج بالاآیت نازل فرمائی۔ اس آیت نے پہلی آیت کو منسوخ کردیا۔ قول باری ہے (الاان تفعھم الی اولیاء کم معروفا، الایہ کہ تم اپنے دوستوں سے کچھ سلوک کرنا چاہوتو وہ جائز ہے) اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اس بات کی رخصت دے دی کہ وہ اپنے تہائی مال یا اس سے کم میں سے اپنے یہودی یاعیسائی یامجوسی رشتہ داروں کے لیے وصیت کرسکتے ہیں۔ قول باری ہے (کان ذلک فی الکتاب مسطورا، یہ بات کتاب میں مرقوم ہے یعنی لکھی ہوئی ہے۔ آغاز اسلام میں جن اسباب کی بناپر لوگ ایک دوسرے کے وارث ہوتے تھے۔ وہ یہ تھے۔ کسی کو منہ بولابیٹابنالینا، ہجرت مواخات اور دوستی کا معاہدہ، پھر اول الذکرتینوں اسباب کی بناپر میراث کا حکم منسوخ ہوگیا۔ جہاں تک دوستی کے معاہدے کا تعلق ہے تو اس کے متعلق ہم یہ بیان کر آئے ہیں کہ قرابت داری کو اس کے مقابلے میں زیادہ حقدارقراردیا گیا۔ لیکن اگر قرابت داری نہ ہوتویہ حکم منسوخ نہیں ہوتا اور اس میں گنجائش ہوتی ہے کہ حلیف مرنے والے کا سارامال یا اس کا ایک حصہ وراثت کی بناپرحاصل کرلے۔- اسلام میں جن اسباب کی بناپر ایک دوسرے کی وراثت کا استحقاق ثابت ہوتا ہے ان میں سے چندیہ ہیں۔ ولاء العتاقۃ، زوجیت اور، ولاء الموالاۃ، غلام کو آزاد کرنے کی بناپر آقا کو اس پر ثابت ہونے والے حق کو، ولاء العتا قۃ، اور کسی اجنبی کے ساتھ باہمی امدا اور سرپرستی کے معاہدے کی بناء پر قائم ہونے والے تعلق کو، ولاء الموالاۃ، کہتے ہیں۔ ہمارے نزدیک آخرالذکرکاحکم اسی وقت ثابت ہوتا ہے۔ جب کہ ذی رحم یاعصبہ وارث نہ ہورہاہو۔- اسلام میں جن بنیادوں پر توراث کا سلسلہ چلتا ہے، ان کی دوقسمیں کی جاسکتی ہیں۔ اول نسب، دوم سبب پھر سبب کی مختلف صورتیں ہیں جو درج ذیل ہیں۔ دوستی کا معاہدہ ، منہ بولابیٹا بنالینا، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جانب سے انصارومہاجرین کے درمیان قائم ہوا ہے، عقرمواخات، ہجرت، زوحیت، ولاء عتاقہ اور ولاء موالات، ان میں سے اول الذکر میں چار اسباب ایسے ہیں جو ذوی الارحام اور عصبات کی وجود کی بناپر منسوخ ہوگئے۔ آخرالذکرتین اسباب بحالہ باقی ہیں اور ان کی بنیادپر ایک شخص وراثت کا حقدارہوجاتا ہے، لیکن اس کا حق اس ترتیب سے ثابت ہوتا ہے۔ جس کی شرط کے ساتھ یہ مشروط ہوتا ہے۔ نسب کی بنیادپروراثت کے استحقاق کی تین صورتیں ہیں۔ اول۔ ذوی الفروض یعنی ایسے ورثاء جن کے حصے شریعت نے مقرر کردیئے ہیں۔ دوم عصبات یعنی ایسے ورثاء جن کے حصے مقرر نہیں لیکن وہ ذوی الفروض کو ان کے حصے دینے کے بعد باقی ماندہ ترکہ کے حق دارہوتے ہیں اور ذوی الفروض کی عدم موجودگی میں پورے ترکہ کے مستحق قرارپاتے ہیں۔ سوم ذوی الارحام ایسے قرابت دارجودرج بالا دونوں گروہوں کی عدم موجودگی میں ترکہ کے وارث ہوتے ہیں ۔ ہم ان پر آگے چل کرمزید روشنی ڈالیں گے۔ جن آیات سے ذوی الفروض عصبات اور ذوی الارحام کی میراث کا وجوب ثابت ہوتا ہے وہ یہ ہیں۔ (للرجال نصیب مماترک الوالدان والاقربون وللنساء نصیب مماترک الوالدان والاقربون) نیز (ومایتلی علیکم فی الکتاب فی یتامی النساء التی لاتؤتونھن ماکتب لھن وترغبون ان تنکحوھن والمستضعفین من الوالدان حضرت ابن عباس (رض) اور دوسرے مفسرین سلف کی روایات کے بموجب ان دونوں آیتوں کے ذریعے اس طرز عمل کو منسوخ کردیاگیا جس کے مطابق صرف وہی مرد وراثت کے مستحق ہوتے تھے۔ جو جنگوں میں حصہ لینے کے قابل ہوتے چھوٹے بچے اور عورتیں بالکلیہ وراثت سے محروم رہتیں۔
(وَسَیَصْلَوْنَ سَعِیْرًا ) ۔- اندرکی آگ تو وہ خود اپنے پیٹوں میں ڈال رہے ہیں اور وہ خود بھی سموچے دوزخ کی بھڑکتی آگ میں ڈال دیے جائیں گے۔ گویا ایک آگ ان کے اندر ہوگی اور ایک وسیع و عریض آگ ان کے باہر ہوگی۔ یہ دس آیتیں بڑی جامع ہیں ‘ جن میں اس معاشرے کے پسماندہ طبقات میں سے ایک ایک کا خیال کر کے نہایت باریک بینی اور حکمت کے ساتھ احکام دیے گئے ہیں۔
سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :14 حدیث میں آیا ہے کہ جنگ احد کے بعد حضرت سعد بن ربیع رضی اللہ عنہ کی بیوی اپنی دو بچیوں کو لیے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور انہوں نے عرض کیا کہ ” یا رسول اللہ یہ سعد رضی اللہ عنہ کی بچیاں ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ احد میں شہید ہوئے ہیں ۔ ان کے چچا نے پوری جائداد پر قبضہ کر لیا ہے اور ان کے لیے ایک حبہ تک نہیں چھوڑا ہے ۔ اب بھلا ان بچیوں سے کون نکاح کرے گا“ ۔ اس پر یہ آیات نازل ہوئیں ۔