9۔ 1 بعض کے نزدیک اس کے مخطب اوصیاء ہیں (جن کو وصیت کی جاتی ہے) ان کو نصیحت کی جا رہی ہے کہ ان کے زیر کفالت جو یتیم ہیں انکے ساتھ وہ ایسا سلوک کریں جو اپنے بچوں کے ساتھ اپنے مرنے کے بعد کیا جانا پسند کرتے ہیں۔ بعض کے نزدیک اس کے مخاطب عام لوگ ہیں کہ وہ یتیموں اور دیگر چھوٹے بچوں کے ساتھ اچھا سلوک کریں۔ ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ مرنے والے کو اچھی باتیں سمجھائیں تاکہ وہ نہ حقوق اللہ میں کوتاہی کرسکے نہ حقوق بنی آدم میں، اور وصیت میں وہ ان دونوں باتوں کو ملحوظ رکھے۔ اگر وہ خوب صاحب حیثیت ہے تو ایک تہائی مال کی وصیت ایسے لوگوں کے حق میں ضرور کرے جو اس کے قریبی رشتہ داروں میں غریب اور مستحق امداد ہیں یا پھر کسی دینی مقصد اور ادارے پر خرچ کرنے کی وصیت کرے تاکہ یہ مال اس کے لیے زاد آخرت بن جائے اور اگر وہ صاحب حیثیت نہیں ہے تو اسے تہائی مال میں وصیت کرنے سے روکا جائے تاکہ اس کے اہل خانہ بعد میں مفلسی اور احتیاج سے دو چار نہ ہوں۔ اسی طرح کوئی اپنے ورثا کو محروم کرنا چاہے تو اس سے اس کو منع کیا جائے اور یہ خیال کیا جائے کہ اگر ان کے بچے فقر و فاقہ سے دو چار ہوجائیں تو اس کے تصور سے ان پر کیا گزرے گی۔ اس تفصیل سے مذکورہ سارے ہی مخاطبین اس کا مصداق ہیں۔ (تفسیر قرطبی وفتح القدیر)
[١٥] یعنی اگر تم اس حال میں مرجاؤ کہ پیچھے چھوٹی چھوٹی اولاد چھوڑ جاؤ تو تمہیں یہ ضرور خیال آئے گا کہ میرے بعد ان بچوں سے بہتر سلوک ہو۔ ایسے ہی جو یتیم اس وقت تمہارے زیر کفالت ہیں، اللہ سے ڈرتے ہوئے ان سے بھی ایسا ہی سلوک کرو۔ اور کوئی ایسی بات نہ کرو جس سے یتیموں کا دل شکستہ ہو۔ جو بات کرو ان کے حق میں بھلائی کی ہونی چاہیے۔ اس دور میں یتیموں اور بیواؤں سے جس طرح کا سلوک کیا جاتا تھا مندرجہ ذیل حدیث سے اس پر کافی روشنی پڑتی ہے :- میراث میں بیوی بچوں کا حصہ :۔ سیدنا جابر (رض) کہتے ہیں سعد (رض) بن ربیع کی بیوی اپنی دو بیٹیوں کے ہمراہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئی اور کہنے لگی۔ یہ سعد بن ربیع (رض) کی بچیاں ہیں ان کا باپ جنگ احد میں شہید ہوگیا ہے بچیوں کے چچا (سعد بن ربیع کے بھائی) نے سعد کے سارے ترکہ پر قبضہ کرلیا ہے اور ان کے لیے کچھ نہیں چھوڑا۔ اور مال کے بغیر ان کا نکاح بھی نہیں ہوسکتا۔ آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ خود اس معاملہ میں فیصلہ فرمائے گا۔ پھر میراث کی آیات نازل ہوئیں تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سعد کے بھائی کو بلایا اور فرمایا کہ ترکہ میں سے دو تہائی تو سعد کی بچیوں کو دو اور آٹھواں حصہ ان کی والدہ کو۔ باقی جو بچے (یعنی ٢٤ حصوں میں سے صرف ٥ حصے) وہ تمہارا ہے (ترمذی، ابو اب الفرائض)
وَلْيَخْشَ الَّذِيْنَ ۔۔ : یہ حکم میت کی وصیت سن کر نافذ کرنے والوں کو ہے اور ان لوگوں کو بھی جو یتیموں کے سرپرست اور وصی مقرر ہوں۔ ان سب کو ہدایت کی جا رہی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہوئے میت کی اولاد اور یتیموں کے مفاد کا اسی طرح خیال رکھیں جس طرح وہ چاہتے ہیں کہ ان کے مرنے کے بعد ان کی چھوٹی اور بےبس اولاد کے مفاد کا خیال رکھا جائے، لہٰذا انھیں یتیموں سے بہتر سلوک کرنا چاہیے اور ان کی عمدہ سے عمدہ تعلیم و تربیت کرنی چاہیے۔ یتیموں کے اولیاء سے اس آیت کا تعلق زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے، کیونکہ بعد میں یتامیٰ کی حق تلفی کرنے والوں کے متعلق جو وعید آرہی ہے اولیاء کی اس کے ساتھ زیادہ مناسبت پائی جاتی ہے۔ ویسے عام مسلمانوں کو بھی یتیموں کے ساتھ خاص احسان اور سلوک کرنے کا حکم ہے۔
اللہ سے ڈرتے ہوئے میراث تقسیم کریں :- تیسری آیت میں عام مسلمانوں کو خطاب عام ہے کہ اس کا پورا اہتمام کریں کہ مرنے والے کا ترکہ اس کی اولاد کو پورا پورا پہنچ جائے اور ہر ایسے طریقہ سے پرہیز کریں جس میں اولاد کے حصہ پر کوئی ناگوارا اثر پڑتا ہو، اس کے عموم میں یہ بھی داخل ہے کہ آپ کسی مسلمان کو کوئی ایسی وصیت یا تصرف کرتے ہوئے دیکھیں جس سے اس کی اولاد اور دوسرے وارثوں کو نقصان پہنچ جانے کا خطرہ ہے تو آپ پر لازم ہے کہ اس کو ایسی وصیت یا ایسے تصرف سے روکیں، جیسا کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت سعد بن ابی وقاص کو اپنا پورا مال یا آدھا مال صدقہ کرنے سے روک دیا اور صرف ایک تہائی مال کو صدقہ کرنے کی اجازت دیدی، (مشکوة باب الوصایا، ص ٥٦٢) کیونکہ پورا مال یا آدھا مال صدقہ کردیا جاتا تو وارثوں کا حصہ ختم یا کم ہوجاتا۔- نیز اس کے عموم میں یہ بھی داخل ہے کہ یتیم بچوں کے اولیاء ان کے مال کی حفاظت اور پھر بالغ ہونے کے بعد ان کو پورا پورا دینے کا بڑا اہتمام کریں، اس میں ادنی کوتاہی کو راہ نہ دیں اور دوسروں کے یتیم بچوں کے حالات کو اپنے بچوں اور اپنی محبت کے ساتھ موازنہ کر کے دیکھیں اور اگر وہ چاہتے ہیں کہ ان کے بعد ان کی اولاد کے ساتھ لوگ اچھا معاملہ کریں اور وہ پریشان نہ ہوں کوئی ان پر ظلم نہ کرے تو ان کو چاہئے کہ دوسرے کی اولاد یتامی کے ساتھ یہی معاملہ کریں۔
وَلْيَخْشَ الَّذِيْنَ لَوْ تَرَكُوْا مِنْ خَلْفِھِمْ ذُرِّيَّۃً ضِعٰفًا خَافُوْا عَلَيْھِمْ ٠ ۠ فَلْيَتَّقُوا اللہَ وَلْيَقُوْلُوْا قَوْلًا سَدِيْدًا ٩- خشی - الخَشْيَة : خوف يشوبه تعظیم، وأكثر ما يكون ذلک عن علم بما يخشی منه، ولذلک خصّ العلماء بها في قوله : إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر 28]- ( خ ش ی ) الخشیۃ - ۔ اس خوف کو کہتے ہیں جو کسی کی عظمت کی وجہ سے دل پر طاری ہوجائے ، یہ بات عام طور پر اس چیز کا علم ہونے سے ہوتی ہے جس سے انسان ڈرتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آیت کریمہ ؛۔ - إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر 28] اور خدا سے تو اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں ۔ میں خشیت الہی کے ساتھ علماء کو خاص کیا ہے ۔ - لو - لَوْ : قيل : هو لامتناع الشیء لامتناع غيره، ويتضمّن معنی الشرط نحو : قوله تعالی: قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ [ الإسراء 100] .- ( لو ) لو ( حرف ) بعض نے کہا ہے کہ یہ امتناع الشئی لا متناع غیر ہ کے لئے آتا ہے ( یعنی ایک چیز کا دوسری کے امتناع کے سبب ناممکن ہونا اور معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ [ الإسراء 100] کہہ دو کہ اگر میرے پروردگار کی رحمت کے خزانے تمہارے ہاتھ میں ہوتے ۔ - خلف ( پیچھے )- خَلْفُ : ضدّ القُدَّام، قال تعالی: يَعْلَمُ ما بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَما خَلْفَهُمْ [ البقرة 255] ، وقال تعالی: لَهُ مُعَقِّباتٌ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ [ الرعد 11]- ( خ ل ف ) خلف ( پیچھے )- یہ قدام کی ضد ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ يَعْلَمُ ما بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَما خَلْفَهُمْ [ البقرة 255] جو کچھ ان کے روبرو ہو راہا ہے اور جو کچھ ان کے پیچھے ہوچکا ہے اسے سب معلوم ہے ۔ لَهُ مُعَقِّباتٌ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ [ الرعد 11] اس کے آگے پیچھے خدا کے جو کیدار ہیں ۔- ذر - الذّرّيّة، قال تعالی: وَمِنْ ذُرِّيَّتِي [ البقرة 124]- ( ذ ر ر) الذریۃ ۔- نسل اولاد ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَمِنْ ذُرِّيَّتِي [ البقرة 124] اور میری اولاد میں سے بھی - ضعف - والضَّعْفُ قد يكون في النّفس، وفي البدن، وفي الحال، وقیل :- الضَّعْفُ والضُّعْفُ لغتان . قال تعالی: وَعَلِمَ أَنَّ فِيكُمْ ضَعْفاً [ الأنفال 66]- ( ض ع ف ) الضعف - اور الضعف رائے کی کمزوری پر بھی بولا جاتا ہے اور بدن اور حالت کی کمزوری پر بھی اور اس میں ضعف اور ضعف ( ولغت ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَعَلِمَ أَنَّ فِيكُمْ ضَعْفاً [ الأنفال 66] اور معلوم کرلیا کہ ابھی تم میں کس قدر کمزور ی ہے ۔ - خوف - الخَوْف : توقّع مکروه عن أمارة مظنونة، أو معلومة، كما أنّ الرّجاء والطمع توقّع محبوب عن أمارة مظنونة، أو معلومة، ويضادّ الخوف الأمن، ويستعمل ذلک في الأمور الدنیوية والأخروية .- قال تعالی: وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء 57] ، وحقیقته : وإن وقع لکم خوف من ذلک لمعرفتکم . والخوف من اللہ لا يراد به ما يخطر بالبال من الرّعب، کاستشعار الخوف من الأسد، بل إنما يراد به الكفّ عن المعاصي واختیار الطّاعات، ولذلک قيل : لا يعدّ خائفا من لم يكن للذنوب تارکا . والتَّخویفُ من اللہ تعالی: هو الحثّ علی التّحرّز، وعلی ذلک قوله تعالی: ذلِكَ يُخَوِّفُ اللَّهُ بِهِ عِبادَهُ [ الزمر 16] ،- ( خ و ف ) الخوف ( س )- کے معنی ہیں قرآن دشواہد سے کسی آنے والے کا خطرہ کا اندیشہ کرنا ۔ جیسا کہ کا لفظ قرائن دشواہد کی بنا پر کسی فائدہ کی توقع پر بولا جاتا ہے ۔ خوف کی ضد امن آتی ہے ۔ اور یہ امور دنیوی اور آخروی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے : قرآن میں ہے : ۔ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء 57] اور اس کی رحمت کے امید وار رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے خوف رکھتے ہیں ۔ اس کے اصل معنی یہ ہیں کہ اگر حالات سے واقفیت کی بنا پر تمہیں اندیشہ ہو کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرنے ) کے یہ معنی نہیں ہوتے کہ جس طرح انسان شیر کے دیکھنے سے ڈر محسوس کرتا ہے ۔ اسی قسم کا رعب اللہ تعالیٰ کے تصور سے انسان کے قلب پر طاری ہوجائے بلکہ خوف الہیٰ کے معنی یہ ہیں کہ انسان گناہوں سے بچتا رہے ۔ اور طاعات کو اختیار کرے ۔ اسی بنا پر کہا گیا ہے کہ جو شخص گناہ ترک نہیں کرتا وہ خائف یعنی اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والا نہیں ہوسکتا ۔ الخویف ( تفعیل ) ڈرانا ) اللہ تعالیٰ کے لوگوں کو ڈرانے کے معنی یہ ہیں کہ وہ لوگوں کو برے کاموں سے بچتے رہنے کی ترغیب دیتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ ذلِكَ يُخَوِّفُ اللَّهُ بِهِ عِبادَهُ [ الزمر 16] بھی اسی معنی پر محمول ہے اور باری تعالےٰ نے شیطان سے ڈرنے اور اس کی تخویف کی پرواہ کرنے سے منع فرمایا ہے ۔ - تقوي - والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] - التقویٰ- اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز ست بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔- سد - السَّدُّ والسُّدُّ قيل هما واحد، وقیل : السُّدُّ : ما کان خلقة، والسَّدُّ : ما کان صنعة «1» ، وأصل السَّدِّ مصدر سَدَدْتُهُ ، قال تعالی: بَيْنَنا وَبَيْنَهُمْ سَدًّا، [ الكهف 94] ، وشبّه به الموانع، نحو : وَجَعَلْنا مِنْ بَيْنِ أَيْدِيهِمْ سَدًّا وَمِنْ خَلْفِهِمْ سَدًّا [يس 9] ، وقرئ سدا «2» السُّدَّةُ : کا لظُّلَّة علی الباب تقية من المطر، وقد يعبّر بها عن الباب، كما قيل :- ( الفقیر الذي لا يفتح له سُدَدُ السّلطان) «3» ، والسَّدَادُ والسَّدَدُ : الاستقامة، والسِّدَادُ : ما يُسَدُّ به الثّلمة والثّغر، واستعیر لما يسدّ به الفقر .- ( س د د ) السد :- ( دیوار ، آڑ ) بعض نے کہا ہے سد اور سد کے ایک ہی معنی ہیں اور بعض دونوں میں فرق کرتے ہیں کہ سد ( بضمہ سین ) اس آڑ کو کہا جاتا ہے جو قدرتی ہو اور سد ( بفتحہ سین ) مصنوعی اور بنائی ہوئی روک کو کہتے ہیں ۔ اصل میں یہ سددتہ ( ن ) کا مصدر ہے جس کے معنی رخنہ کو بند کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ بَيْنَنا وَبَيْنَهُمْ سَدًّا، [ الكهف 94] کہ ( آپ ) ہمارے اور ان کے درمیان ایک دیوار کھینچ دیں ۔ اور تشبیہ کے طور پر ہر قسم کے موانع کو سد کہہ دیا جاتا ہے ۔ جیسا کہ قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا مِنْ بَيْنِ أَيْدِيهِمْ سَدًّا وَمِنْ خَلْفِهِمْ سَدًّا [يس 9] اور ہم نے ان کے آگے بھی دیوار بنا دی اور ان کے پیچھے بھی ایک قراءت میں سدا بھی ہے ۔ السدۃ برآمدہ جو دروازے کے سامنے بنایا جائے تاکہ بارش سے بچاؤ ہوجائے ۔ کبھی دروازے کو بھی سدۃ کہہ دیتے ہیں جیسا کہ مشہور ہے : ۔ ( الفقیر الذي لا يفتح له سُدَدُ السّلطان) یعنی وہ فقیر جن کے لئے بادشاہ کے دروازے نہ کھولے جائیں ۔ السداد والسدد کے معنی استقامت کے ہیں اور السداد اسے کہتے ہیں جس سے رخنہ اور شگاف کو بھرا جائے ۔ اور استعارہ کے طور پر ہر اس چیز کو سداد کہا جاتا ہے جس سے فقر کو روکا جائے ۔- سدیدا - ۔ سدید بروزن فعیل صفتتت مشبہ کا صیغہ ہے۔ سدیسد سددا وسدادادرست ہونا۔ ھو یسدفی تولہ وہ ٹھکانہ کی بات کہتا ہے۔ قلت لہ سدادا من القول میں نے اسے ٹھیک اور سیدھی بات کہی ( سدید کامیر استوار و درست منتہی الادب)
معاشرتی معاملات کی بنیاد وسیع ترقومی مفاد کے اصولوں پر ہونی چاہیئے - قول باری ہے (ولیخش الذین لوترکوامن خلفھم ذریۃ ضعافاخافوا علیھم فلیتقوا اللہ ولیقولواقولا سدیدا، لوگوں کو اس بات کا خیال کرکے ڈرنا چاہیے کہ اگر خوداپنے پیچھے بےبس اولاد چھوڑتے تومرتے وقت انہیں اپنے بچوں کے حق میں کیسے کچھ اندیشے لاحق ہوتے۔ پس چاہیے کہ وہ خدا کا خوف کریں اور راستی کی بات کریں) اس آیت کی تاویل میں سلف کے اندراختلاف رائے ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) سے ایک روایت کی بناپرنیز سعید بن جبیر، حسن، مجاہد، قتادہ، ضحاک، سدی کے قول کے مطابق اس سے مراد وہ شخص ہے جس کی موت کا وقت قریب آجائے، اس کے پاس موجودلوگوں میں سے کوئی اس سے کہے، انہیں یعنی رشتہ داروں کو بھی کچھ دے جاؤ، ان کے ساتھ صلہ رحمی اور نیکی کرو، اگر یہ لوگ خودوصیت کرنے والے ہوتے تو اپنی اولاد کے لیے سب کچھ بچالینا زیادہ پسند کرتے۔ حبیب بن اوس کہتے ہیں میں نے مقسم سے اس تفسیر کے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے کہا کہ یہ تفسیر اس طرح نہیں ہے بلکہ اس سے مراد وہ شخص ہے جس کی موت کا وقت آجائے۔ اس کے پاس موجودلوگوں میں سے کوئی اسے یہ مشورہ دے کہ، اللہ کا خوف کرو اوراپنامال اپنے پاس رہنے دور کسی اور کونہ دو ، اگر مشورہ دینے والے خود اس کے رشتہ دارہوتے توا نہیں یہ بات زیادہ پسند ہوتی۔ کہ وہ ان کے متعلق وصیت کرجائے پہلے گروہ نے آیت کی یہ تاویل کی کہ اس قریب المرگ انسان کے پاس موجودلوگوں کوا سے وصیت پر ابھارنے سے روک دیاگیا ہے جبکہ مقسم نے اس کی یہ تاویل کی ہے کہ آیت میں ترک وصیت کا مشورہ دینے والے کو اس قسم کے مشورے سے روک دیا گیا ہے۔ ایک اور روایت میں حسن کا قول ہے کہ اس سے مراد وہ شخص ہے جو قریب الموت شخص - اپنے مال کی تہائی سے زائد وصیت کا مشورہ دیتا ہے۔- حضرت ابن عباس (رض) سے ایک اور روایت کے مطابق یتیم کے مال کی سرپرستی اور حفاظت کے سلسلے میں آپ نے فرمایا کہ سرپرستوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کے مال میں وہی کچھ کریں اور اس کے متعلق وہی کچھ کہیں جو وہ اپنی موت کے بعد پیچھے رہ جانے والے یتیموں اور بے بس اولاد کے مال میں کرنا اور کہنا پسند کرتے ہوں۔ یہاں یہ کہنا درست ہوگا کہ آیت کی سلف سے جتنی تاویلات مروی ہیں وہ سب مراد ہیں۔ البتہ ایک تاویل جس کی رو سے وصیت کا مشورہ اپنے سے روکا گیا ہے اس وقت درست ہوگی جب مشورہ دینے والے کا ارادہ ورثاء کو نقصان پہنچانے یا ان لوگوں کو محروم رکھنے کا ہو جن کے بارے میں مرنے والاوصیت کرنا چاہتا تھا یعنی مشورہ دینے والے کی یہ حرکت ایسی ہو کہ اگر وہ خود ان کی جگہ ہوتاتو اسے پسندنہ کرتا۔ وہ اس طرح کہ مرض موت میں مبتلا شخص کا مال بہت کم مقدار میں ہو اور اس کے ورثاء اس کے ورثاء اس کے بےبس اور کمزوراولاد ہو۔ اب یہ مشیر اسے مال کی پوری ایک تہائی کی وصیت کا مشورہ دے، حالانکہ اگر وہ خود اس کی جگہ ہوتاتو اپنے بےبس ، ورثاء کے خیال سے کبھی ایسا کرنے پر رضامند نہ ہوتا۔ یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ اگر کسی شخص کے کمزور اوربے بس ورثاء ہوں اور اس کا مال بھی کوئی زیادہ نہ ہو تو اس کے لیے یہی مستحب ہے کہ کسی قسم کی وصیت نہ کرے اور سارامال اپنے ورثاء کے لیے چھوڑجائے اور اگر اسے وصیت کرنا ہی ہوتوتہائی سے کم کی وصیت کرجائے۔ حضرت سعد (رض) نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جب یہ عرض کیا تھا کہ میں اپنا مال وصیت میں دے دینا چاہتاہوں تو آپ انہیں روکتے رہے۔ حتی کہ وہ تہال مال پر آگئے اس پر آپ نے فرمایا (الثلث والثلث کثیر، انک ان تدع ورثتک اغنیاء خیرمن ان تدعھم عالۃ یتکفقون الناس، تہائی ٹھیک ہے اور تہائی بھی بہت بھی بہت زیادہ ہے تم اگر اپنے ورثاء کو مالدارچھوڑجاؤتویہ اس سے بہت رہے کہ انہیں تنگدستی میں مبتلا کر جاؤ کہ پھر وہ اپنے گذارے کے لیے لوگوں کے سامنے ہاتھ پھلاتے پھریں۔- حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ واضح فرمادیا کہ ورثاء اگر غریب ہوں تو ایسی صورت میں ان کی خوشحالی کو مدنظررکھتے ہوئے وصیت نہ کرنا وصیت کرنے سے افضل ہے ۔ حسن بن زیادنے امام ابوحنیفہ سے نقل کیا ہے کہ جو شخص مالدارہو اس کیلئیے افضل صورت یہی ہے کہ رضائے الہی کی خاطر اپنے تہائی مال کی وصیت کرجائے اور جو شخص مال دارنہ ہو اس کے لیے افضل یہی ہے کہ کوئی وصیت نہ کرے بلکہ سارامال انے ورثا کیلیے چھوڑجائے۔ آیت کی تاویل میں حسن سے منقول روایت کے مطابق وصیت سے نہی کا حکم اس شخص کے لیے ہے جو مرنے والے کو تہائی سے زائد کی وصیت کرجانے کا مشورہ دے اس لیے کہ اسے ایسا کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے (الثلث کثیر، تہائی بھی بہت زیادہ ہے) نیز آپ نے حضرت سعد (رض) کو تہائی سے زائدمال کی وصیت سے منع کردیا تھا۔- مقسم نے آیت کی تاویل کے سلسلے میں جو کہا ہے آیت سے وہ مرادلینا بھی جائز ہے وہ اس طرح کہ مرنے والے کے پاس موجود کوئی شخص اسے وصیت نہ کرنے کا مشورہ دے۔ اگر یہ مشیر اس کے رشتہ داروں میں سے ہوتا تو وہ اپنے بارے میں اسکی وصیت کے عمل کو ضرورپسند کرتا۔ اس طرح وہ اسے ایسا مشورہ دینے کا مرتکب ٹھہراج سے وہ اپنی ذات کے لیے پسند نہیں کرتا۔- حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بھی اس معنی میں روایت موجود ہے۔ ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت کی، انہیں ابراہیم بن ہاشم نے، انہیں ھلابہ نے، انہیں ہمام نے ، انہیں قتادہ نے حضرت انس (رض) سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (لایؤمن العبدحتی یحب الخید مایحب لنفسہ من الخیر، کوئی بندہ اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ اپنے بھائی کے لیے وہی بھلائی نہ چاہے جو وہ اپنی ذات کے لیے چاہتا ہے) ہمیں عبدالباقی نے روایت بیان کی۔ انہیں حسن بن العباس رازی نے، انہیں سہل بن عثمان نے، انہیں زیادبن عبداللہ نے لیث سے، انہوں نے ظاحہ سے، انہوں نے خیثمہ سے، انہوں نے حضرت عبداللہ عمر (رض) سے انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہ آپ نے فرمایا (من سرہ ان یزحزح عن النارویدخل الجنۃ فلتاتہ میتہ وھویشھد ان لاالہ الا اللہ وان محمدا رسول اللہ ویحب ان یاتی الی الناس مایحب ان یاتی الیہ، جس شخص کو یہ بات خوش کردے کہ اسے جہنم سے دورکردیاجائے اور جنت میں داخل ہوجائے توا سے چاہیے کہ اس کی موت ایسی حالت میں آئے کہ وہ اللہ کی واحدانیت اور اس کی معبودیت نیز حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کی گواہی دیتاہو اور اسے اپنی ذات کے لیے جس چیز کا حصول پسند ہو لوگوں کے لیے بھی اس کا حصول اسے پسندہو)- ابوبکرجصاص کہتے ہیں کہ قول باری (ولیخش الذین لوترکوامن خلفھم ذریۃ ضعافا خافواعلیھم فلیتقوا اللہ والیقولو اقولا سدیدا) کے یہ معنی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس سے منع کردیا ہے کہ کوئی شخص کسی شخص کو ای سے کام کا مشورہ دے یا ایسا قدم اٹھا نے کا حکم کرے جو وہ اپنی ذات، اپنے اہل وعیال اور اپنے ورثاء کے لیے اٹھا ناپسند نہ کرتا ہو۔ اس کی بجائے مرنے والے کا پاس موجودلوگوں کو سیدھی اور درست بات کرنے کا حکم دیا ہے۔ یعنی حق وانصاف کی بات جس میں کوئی ہیرپھیریا خرابی نہ ہو کہ اس سے کسی وارث کو نقصان پہنچتا ہویا کسی رشتہ دار کی محرومی لازم آتی ہو۔
(٩۔ ١٠) اور ان لوگوں کو جو قریب المرض مریض کے پاس ہوتے ہیں اور تہائی مال سے زیادہ وصیت کرنے کا حکم دیتے ہیں، ان کو ان یتیم بچوں کے بارے میں ڈرنا چاہیے کیوں کہ اگر وہ اپنے چھوٹے بچوں کو چھوڑ کر مرجائیں تو ان کو اپنی اولاد کی فکر ہو، اسی طرح ان لوگوں کو مرنے والے کی اولاد کی فکر ہونی چاہیے۔- اور یہ لوگ مریض کے پاس آتے تھے اور اس سے کہتے تھے کہ اپنا مال فلاں کو دے دو اور فلاں کو دے دو اس طریقہ سے اس کا سارا مال خوامخواہ تقسیم کرا دیتے تھے اور اس کے چھوٹے بچوں کے لیے کچھ نہیں رہتا تھا، اللہ تعالیٰ نے اس چیز کی ممانعت فرما دی لہٰذا یہ لوگ جو تہائی مال سے زیادہ مرنے والے کو وصیت کا حکم کرتے ہیں، ان کو اللہ تعالیٰ سے ڈرنا چاہیے اور بیمار سے انصاف کی بات کرنی چاہیے اور جو بلااستحقاق (بلاضرورت شرعی) یتیم کا مال کھاتے ہیں ان کا حال یہ ہوگا کہ وہ قیامت کے دن اپنے پیٹوں میں دوزخ کے انگارے بھریں گے اور اس کی جلتی آگ کا ایندھن ہوں گے یہ آیت حنظلہ بن شمرو کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح )
آیت ٩ (وَلْیَخْشَ الَّذِیْنَ لَوْ تَرَکُوْا مِنْ خَلْفِہِمْ ذُرِّیَّۃً ضِعٰفًا خَافُوْا عَلَیْہِمْ ) (فَلْیَتَّقُوا اللّٰہَ ) - انہیں یہ خیال کرنا چاہیے کہ یہ یتیم جو اس وقت آگئے ہیں یہ بھی کسی کے بچے ہیں ‘ جن کے سر پر باپ کا سایہ نہیں رہا۔ لہٰذا وہ ان کے سر پر شفقت کا ہاتھ رکھیں۔
9: یعنی جس طرح تمہیں اپنے بچوں کی فکر ہوتی ہے کہ ہمارے مرنے کے بعد ان کا کیا ہوگا اسی طرح دوسروں کے بچوں کی بھی فکر کرو اور یتیموں کے مال میں خرد برد کرنے سے ڈرو۔