Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

8۔ 1 اسے بعض علماء نے آیت میراث سے منسوخ قرار دیا ہے لیکن صیح تر بات یہ ہے یہ منسوخ نہیں، بلکہ ایک بہت ہی اہم اخلاقی ہدایت ہے۔ کہ امداد کے مستحق رشتے داروں میں سے جو لوگ وراثت میں حصے دار نہ ہوں، انہیں بھی تقسیم کے وقت کچھ دے دو ۔ نیز ان سے بات بھی پیار اور محبت سے کرو۔ دولت کو آتے ہوئے دیکھ کر قارون اور فرعون نہ بنو۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٤] ترکہ کی تقسیم کے وقت اگر کچھ محتاج، یتیم اور فقیر قسم کے لوگ یا دور کے رشتہ دار آجائیں تو ازراہ احسان انہیں بھی کچھ نہ کچھ دے دیا کرو۔ تنگ دلی یا تنگ ظرفی سے کام نہ لو اور اگر ایسا نہ کرسکو تو کم از کم انہیں نرمی سے جواب دے دو ۔ مثلاً یہ کہہ دو کہ یہ مال یتیموں کا ہے۔ یا یہ کہ میت نے ایسی کوئی وصیت نہیں کی تھی۔ وغیرہ، وغیرہ۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

یعنی وارثوں کو چاہیے کہ متروکہ مال میں سے کچھ حصہ بطور صدقہ و خیرات ان رشتے داروں، یتیموں اور مسکینوں کو بھی دیں جو خاندان میں موجود ہوں اور تقسیم کے وقت موقع پر پہنچ جائیں اور اگر وہ لوگ زیادہ حرص کریں تو ” ان سے اچھی بات کہو۔ “ یعنی معذرت کرو کہ یہ وارثوں کا مال ہے، تمہارا حق نہیں ہے۔ بعض اہل علم کہتے ہیں کہ یہ حکم ” فرائض “ یعنی وارثوں کے حصے مقرر ہونے سے پہلے تھا۔ اب اللہ تعالیٰ نے ہر صاحب حق کو اس کا حق دے دیا ہے، اس لیے اب یہ بخشش نہیں ہے، اب صدقہ و خیرات میت کی وصیت ہی سے ہوسکتا ہے، لیکن بخاری میں ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ یہ آیت محکم ہے، منسوخ نہیں اور وارثوں کو حکم ہے کہ تقسیم ترکہ کے وقت رشتہ داروں سے صلہ رحمی کریں۔ [ بخاری، التفسیر، باب و إذا حضر القسمۃ ۔۔ : ٢٧٥٩ ]

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

اب قرآنی نظام کی خوبی و خوش اسلوبی کو دیکھئے کہ ایک طرف تو خود قرآن ہی کا بتایا ہوا عادلانہ ضابطہ یہ ہے کہ اقرب کے مقابل ہمیں ابعد کو محروم کیا جائے۔ دوسری طرف محروم ہونے والے ابعد کی حسرت اور دل شکنی بھی گوارا نہیں کی جاتی، اس کے لئے ایک مستقل آیت میں یہ ہدایت کی گئی :- واذا حضرالقسمة الوالقربی والیتمی والمسکین فارزقوھم منہ و قولوالھم قولاً معروفاً ” یعنی جو دور کے رشتہ دار اور یتیم مسکین میراث میں حصہ پانے سے محرم ہو رہے ہوں، اگر وہ تقسیم میراث کے وقت آموجود ہوں تو میراث پانے والوں کا اخلاقی فرض ہے کہ اس مال میں سے با اختیار خود کچھ حصہ ان کو بھی دیدیں جو ان کے لئے ایک قسم کا صدقہ اور موجب ثواب ہے، اور ایسے وقت میں جب کہ ایک مال بغیر کسی سعی و عمل کے محض اللہ تعالیٰ کے دین سے انہیں مل رہا ہو تو صدقہ خیرات فی سبیل اللہ کا خود بھی داعیہ دل میں ہونا چاہئے “ جیسا کہ اس کی ایک نظیر دوسری آیت میں مذکور ہے، کلوا من ثمرہ اذا اثمر واتواحقہ یوم حصادہ ” یعنی اپنے باغ کا پھل کھاؤ جب کہ وہ پھل دینے لگے اور جس روز پھل کاٹو تو اس کا حق نکال کر فقراء و مساکین کو دیدو۔ “ (یہ آیت سورة انعام ٢٤١ میں آ رہی ہے)- خلاصہ یہ ہے کہ میراث کی تقسیم کے قوت اگر کچھ دور کے رشتہ دار یتیم، مسکین وغیرہ جمع ہوجائیں جن کا کوئی حصہ ضابطہ شرعی سے اس میراث میں نہیں ہے تو ان کے جمع ہوجانے سے تم تنگدل نہ ہو، بلکہ جو مال اللہ تعالیٰ نے تمہیں بلا محنت عطا فرمایا ہے اس میں سے بطور شکرانہ کچھ عطا کردو اور غنیمت جانو کہ خرچ کا ایک اچھا موقع مل رہا ہے اس موقع پر ان لوگوں کو کچھ نہ کچھ دیدینے سے ان دور کے رشتہ داروں کی دل شکنی اور حسرت کا ازالہ ہوجائے گا، اس میں مرنے والے کا محروم الارث پوتا بھی آ گیا، اس کے چچاؤں اور پھوپھیوں کو چاہئے کہ اس کو اپنے اپنے حصہ سے بخوشی کچھ دیدیں۔- آخر آیت میں فرمایا وقولوالھم قولاً معروفاً ، اگر یہ لوگ اس طرح تھوڑا سا دینے پر بھی راضی نہ ہوں بلکہ دوسروں کے برابر حصہ کا مطالبہ کرنے لگیں تو چونکہ ان کا یہ مطالبہ قانون شرع کے خلاف اور غیر منصفانہ ہے، اس لئے ان کا مطالبہ پورا کرنے کی تو گنجائش نہیں، لیکن اس پر بھی ان کو کوئی ایسی بات نہیں کہی جائے جس سے ان کی دل شکنی ہو، بلکہ معقول طور پر ان کو سمجھایا جائے کہ شرعی قاعدہ سے میراث میں تمہارا کوئی حصہ نہیں ہے، ہم نے جو کچھ دیا ہے وہ محض تبرعاً دیا ہے اور ایک بات یہ معلم کرلینا ضروری ہے کہ ان لوگوں کو تبرعاً جو دیا جائے گا مجموعی مال میں سے نہیں، بلکہ بالغین ورثاء میں سے جو حاضر ہوں وہ اپنے حصہ میں سے دیں، نابالغ اور غائب کے حصہ میں سے دینا درست نہیں۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَاِذَا حَضَرَ الْقِسْمَۃَ اُولُوا الْقُرْبٰي وَالْيَتٰمٰى وَالْمَسٰكِيْنُ فَارْزُقُوْھُمْ مِّنْہُ وَقُوْلُوْا لَھُمْ قَوْلًا مَّعْرُوْفًا۝ ٨- إذا - إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو :إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له - ( اذ ا ) اذ ا - ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔- اذا کی مختلف صورتیں ہیں :۔- (1) یہ ظرف زمان ہے۔ ( زجاج، ریاشی)- (2) یہ ظرف مکان ہے۔ ( مبرد، سیبوبہ)- (3) اکثر و بیشتر اذا شرط ہوتا ہے۔- مفسرین نے تینوں معنوں میں اس کا استعمال کیا ہے۔- (1) ظرف زمان : اور جب تو وہاں ( کی نعمتیں) دیکھے گا۔ تو تجھ کو وہاں بڑی نعمت اور شاہی سازو سامان نظر آئے گا۔ ( تفسیر حقانی) - (2) ظرف مکان : اور جدھر بھی تم وہاں دیکھو گے تمہیں نعمتیں ہی نعمتیں اور وسیع مملکت نظر آئے گی۔ ( تفسیر ضیاء القرآن)- (3) اذا شرطیہ۔ اور اگر تو اس جگہ کو دیکھے توتجھے بڑی نعمت اور بڑی سلطنت دکھائی دے۔ ( تفسیر ماجدی)- حضر - الحَضَر : خلاف البدو، والحَضَارة والحِضَارَة : السکون بالحضر، کالبداوة والبداوة، ثمّ جعل ذلک اسما لشهادة مکان أو إنسان أو غيره، فقال تعالی: كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ البقرة 180] ، نحو : حَتَّى إِذا جاءَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ الأنعام 61] ، وَإِذا حَضَرَ الْقِسْمَةَ [ النساء 8]- ( ح ض ر ) الحضر - یہ البدو کی ضد ہے اور الحضارۃ حاد کو فتحہ اور کسرہ دونوں کے ساتھ آتا ہے جیسا کہ بداوۃ وبداوۃ اس کے اصل شہر میں اقامت کے ہیں ۔ پھر کسی جگہ پر یا انسان وگیرہ کے پاس موجود ہونے پر حضارۃ کا لفظ بولاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ البقرة 180] تم پر فرض کیا جاتا ہے کہ جب تم میں سے کسی کو موت کا وقت آجائے ۔ وَإِذا حَضَرَ الْقِسْمَةَ [ النساء 8] اور جب تم میراث کی تقسیم کے وقت ۔۔۔ آمو جود ہوں ۔ - - قسم تقسیم کرنا - الْقَسْمُ : إفراز النّصيب، يقال : قَسَمْتُ كذا قَسْماً وقِسْمَةً ، وقِسْمَةُ المیراث، وقِسْمَةُ الغنیمة :- تفریقهما علی أربابهما، قال : لِكُلِّ بابٍ مِنْهُمْ جُزْءٌ مَقْسُومٌ [ الحجر 44] ، وَنَبِّئْهُمْ أَنَّ الْماءَ قِسْمَةٌ بَيْنَهُمْ [ القمر 28] - ( ق س م ) القسم والقسمہ ( ض ) کے معنی کسی چیز کے حصے کرنے اور بانٹ دینے کے ہیں مثلا قسمۃ المیراث تر کہ کو دا وارثوں کے در میان تقسیم کرنا قسمۃ الغنیمۃ مال غنیمت تقسیم کرنا قسمہ الغنیمۃ مال غنیمت تقسیم کرنا چناچہ قرآن میں ہے : ۔ لِكُلِّ بابٍ مِنْهُمْ جُزْءٌ مَقْسُومٌ [ الحجر 44] ہر ایک دروازے کے لئے ان میں سے جماعتیں تقسیم کردی گئیں ہیں ۔ وَنَبِّئْهُمْ أَنَّ الْماءَ قِسْمَةٌ بَيْنَهُمْ [ القمر 28] جاتی ہیں پھر مطلق کے معنی استعمال ہونے لگا ہے ۔- قربی - وفي النّسبة نحو : وَإِذا حَضَرَ الْقِسْمَةَ أُولُوا الْقُرْبى[ النساء 8] ، وقال : الْوالِدانِ وَالْأَقْرَبُونَ [ النساء 7] ، وقال : وَلَوْ كانَ ذا قُرْبى [ فاطر 18] ، وَلِذِي الْقُرْبى [ الأنفال 41] ، وَالْجارِ ذِي الْقُرْبى [ النساء 36] ، يَتِيماً ذا مَقْرَبَةٍ [ البلد 15]- اور مجھ کو معلوم نہیں کہ جس چیز کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے وہ عنقریب آنے والی ہے یا اس کا وقت دور ہے ۔ اور قرب نسبی کے متعلق فرمایا : وَإِذا حَضَرَ الْقِسْمَةَ أُولُوا الْقُرْبى[ النساء 8] اور جب میراث کی تقسیم کے وقت ( غیر وارث ) رشتے دار آجائیں ۔ الْوالِدانِ وَالْأَقْرَبُونَ [ النساء 7] ماں باپ اور رشتے دار ۔ وَلَوْ كانَ ذا قُرْبى [ فاطر 18] گوہ وہ تمہاری رشتے دار ہو ۔ وَلِذِي الْقُرْبى [ الأنفال 41] اور اہل قرابت کا ۔ وَالْجارِ ذِي الْقُرْبى [ النساء 36] اور رشتے در ہمسایوں يَتِيماً ذا مَقْرَبَةٍ [ البلد 15] یتیم رشتے دار کو اور قرب بمعنی کے اعتبار سے کسی کے قریب ہونا - يتم - اليُتْمُ : انقطاع الصَّبيِّ عن أبيه قبل بلوغه، وفي سائر الحیوانات من قِبَلِ أمّه . قال تعالی: أَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيماً فَآوی[ الضحی 6] ، وَيَتِيماً وَأَسِيراً [ الإنسان 8] وجمعه : يَتَامَى. قال تعالی: وَآتُوا الْيَتامی أَمْوالَهُمْ [ النساء 2] ، إِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوالَ الْيَتامی [ النساء 10] ، وَيَسْئَلُونَكَ عَنِ الْيَتامی [ البقرة 220] وكلُّ منفردٍ يَتِيمٌ ، يقال : دُرَّةٌ يَتِيمَةٌ ، تنبيها علی أنّه انقطع مادّتها التي خرجت منها، وقیل : بَيْتٌ يَتِيمٌ تشبيها بالدّرّة اليَتِيمَةِ.- ( ی ت م ) الیتم - کے معنی نا بالغ بچہ کے تحت شفقت پدری سے محروم ہوجانے کے ہیں ۔ انسان کے علاوہ دیگر حیوانات میں یتم کا اعتبار ماں کیطرف سے ہوتا ہے اور جانور کے چھوٹے بچے کے بن ماں کے رہ جانے کو یتم کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : أَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيماً فَآوی[ الضحی 6] بھلا اس نے تمہیں یتیم پاکر جگہ نہیں دی ۔ وَيَتِيماً وَأَسِيراً [ الإنسان 8] یتیموں اور قیدیوں کو یتیم کی جمع یتامیٰ ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : وَآتُوا الْيَتامی أَمْوالَهُمْ [ النساء 2] اور یتیموں کا مال ( جو تمہاری تحویل میں ہو ) ان کے حوالے کردو ۔ إِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوالَ الْيَتامی [ النساء 10] جو لوگ یتیموں کا مال ( ناجائز طور پر ) کھاتے ہیں ۔ وَيَسْئَلُونَكَ عَنِ الْيَتامی [ البقرة 220] اور تم سے یتیموں کے بارے میں دریاقت کرتے ہیں ۔ مجازا ہر یکتا اور بےملي چیز کو عربی میں یتیم کہاجاتا ہے ۔ جیسا کہ گوہر یکتا درۃ یتیمۃ کہہ دیتے ہیں ۔ اور اس میں اس کے مادہ کے منقطع ہونے پر تنبیہ کرنا مقصود ہوتا ہے اور درۃ کے ساتھ تشبیہ دے کر یکتا مکان کو بھی یتیم کہہ دیا جاتا ہے ۔- مِسْكِينُ- قيل : هو الذي لا شيء له، وهو أبلغ من الفقیر، وقوله تعالی: أَمَّا السَّفِينَةُ فَكانَتْ لِمَساكِينَ [ الكهف 79] ، فإنه جعلهم مساکين بعد ذهاب السّفينة، أو لأنّ سفینتهم غير معتدّ بها في جنب ما کان لهم من المسکنة، وقوله : ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ [ البقرة 61] ، فالمیم في ذلک زائدة في أصحّ القولین .- المسکین - المسکین بعض نے اس کی تفسیر ( یعنی جس کے پاس کچھ بھی نہ ہو ) کے ساتھ کی ہے اور یہ فقر سے ابلغ ہے ( یعنی بنسبت فقر کے زیادہ تا دار ہوتا ہے ) لیکن آیت : أَمَّا السَّفِينَةُ فَكانَتْ لِمَساكِينَ [ الكهف 79] اور کشتی غریب لوگوں کی تھی ۔ میں باوجود کشتی کا مالک ہونے کے انہیں مسکن قرار دینا مایؤؤل کے لحاظ سے ہے یعنی کشتی کے چلے جانے کے بعد کی حالت کے لحاظ سے انہیں مسکن کہا گیا ہے ۔ یا اس لئے کہ ان کی احتیاط اور مسکنت کے مقابلہ میں کشتی کی کچھ بھی حیثیت نہ تھی ۔ اور آیت : ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ [ البقرة 61] اور اخر کا ر ذلت روسوائی اور محتاجی ( اور بےنوائی ) ان سے چمٹا دی گئی ۔ میں اصح قول کے لحاظ سے مسکنتہ کی میم زائد ہے ( اور یہ سکون سے ہے ۔ )

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

تقسیم میراث کے موقع پر رشتہ داروں ، یتیموں اور مسکینوں کے لیے فراخ دلی کا مظاہرہ کیا جائے۔- قول باری ہے (واذاحضرالقسمۃ اولوالقربی والیتامی والمساکین فارزقوھم منہ، اور جب ترکہ کی تقسیم کی موقع پر رشتہ دار، یتیم اور مساکین بھی آجائیں توا نہیں بھی اس میں سے کوئی حصہ دو ) سعیدبن المسیب، ابومالک اور ابوصالح کا قول ہے کہ یہ حکم آیت میراث کی وجہ سے منسوخ ہوچکا ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) ، عطاء حسن، شعبی، ابراہیم ، مجاہد، اور زھری کا قول ہے کہ یہ محکم ہے یعنی منسوخ نہیں ہوئی۔ عطیہ نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ میراث کی تقسیم کے وقت، یہ بات آیت میراث کے نزول سے پہلے کی تھی پھر اللہ تعالیٰ نے آیت میراث میں فرائض نازل فرماکرہرحق دارکواس کا حق دے دیا اور مرنے والا اگر کسی کو کچھ دینے کے لیے کہ جائے توا سے صدقہ قراردیاگیا ہے۔- حضرت ابن عباس سے منقول یہ روایت ظاہر کرتی ہے کہ میراث تقسیم کرتے وقت زیر بحث آیت میں مذکورہ حکم واجب تھا پھر آیت میراث کی بناپر منسوخ ہوگیا، البتہ میت کی وصیت کی صورت میں آیت میں درج شدہ افراد کیلئے ترکہ، میں حصہ بحال رکھاگیا ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) سے عکرمہ کی روایت کے مطابق آیت منسوخ نہیں ہے بلکہ یہ میراث کی تقسیم کے متعلق ہے کہ تقسیم کے وقت مذکورہ بالا افراد کو بھی کچھ حصہ دے دیاجائے۔ اگر ترکہ میں اتنی گنجائش نہ ہوتوان سے معذرت کرلی جائے۔ قول باری (وقولوالھم قولا معروفا، اور ان سے بھلی بات کہوکایہی مفہوم ہے۔ حجاج نے ابواسحق سے روایت کی ہے کہ حضرت ابوموسیٰ اشعری (رض) اور عبدالرحمن بن ابی بکر تقسیم میراث کے وقت ایسے لوگوں میں سے جو موجود ہوتا، اسے ضرور کچھ دیتے۔ قتادہ نے حسن سے روایت کی ہے کہ حضرت ابوموسیٰ (رض) نے فرمایا کہ یہ آیت محکم ہے۔ اشعث نے ابن سیرین سے انہوں نے حمیدبن عبدالرحمن سے روایت کی ہے کہ میرے والد کو کسی میراث کا سرپرست مقرر کیا گیا۔ انہوں نے بکری ذبح کرکے کھاناتیار کرنے کا حکم دیا۔ پھر جب اس میراث کی تقسیم عمل میں آئی تو سب کو وہ کھاناکھلایاپھرمذکورہ بالاآیت کی تلاوت فرمائی۔ احمد بن سیرین نے عبیدہ سے بھی اسی قسم کی روایت نقل کی ہے۔ اس روایت میں ان کا یہ قول بھی درج ہے کہ اگر یہ آیت نہ ہوتی تو اس موقع پر ذبح کی جانے والی بکری میرے مال سے خرید ی جاتی، وہ بکری اس یتیم کے مال میں سے تھی جس کے یہ سرپرست اور ولی مقرر ہوئے تھے۔- ہشیم نے ابوبشر سے اور انہوں نے سعید بن جبیر سے اس آیت کے متعلق روایت کی ہے کہ لوگ اس آیت کے بارے میں میں کوتاہ فہمی کا ثبوت دیتے ہیں۔ دراصل اس کے دوحصے ہیں۔ ایک حصے کی زبان تو یہ کہتی ہے کہ وارث ہے اور دوسرے کی زبان کہتی ہے کہ وارث نہیں ہے پہلے حصے انہیں حصہ دینے اور کچھ عطاء کرنے کا حکم ہے اور دوسرے حصے میں انہیں بھلی بات کہہ کرمعذر ت کرلینے کا حکم دیاگیا ہے۔ وہ ان سے یوں کہے کہ ایسے لوگوں کا مال ہے جو یہاں موجود نہیں ہیں یا یہ یتیموں کا مال ہے جو ابھی نابالغ ہیں، تمہارا اگرچہ اس میں حق ہے۔ لیکن ہمیں اس میں سے تمہیں کچھ دینے کا اختیار نہیں ہے۔ قول معروف کا یہی مفہوم ہے۔ سعید نے مزید کہا کہ یہ آیت محکم ہے۔ منسوخ نہیں ہے ۔ اس طرح سعید بن جبیرنے قول باری (فارزقوھم) کو اس پر محمول کیا کہ میراث میں ان کے حصے انہیں دے دیئے جائیں گے اور دوسروں کو، قول معروف، کے ذریعے رخصت کردیاجائے گا، اس طرح سعید بن جبیر کے نزدیک اس آیت سے معلوم ہونے والی بات یہ ہے۔ کہ اگر تقسیم میراث کے وقت بعض ورثاء آجائیں اور بعض غائب ہوں یا ابھی نابالغ ہوں تو اس صورت میں موجود ورثاء کو ان کے حصے دے دیئے جائیں اور غیرموجودیانابالغ وارث کا حصہ روک لیا جائے۔- اگریہ تاویل درست ہے تو پھر یہ ان لوگوں کے لیئے حجت ہے جو ودیعت کے متعلق اس کے قائل ہیں۔ اگر ودیعت دو شخصوں کے درمیان مشترک ہو اور ان میں سے ایک غائب ہوجائے تو موجودشخص اپناحصہ لے سکتا ہے اور غائب کا حصہ ودیعت رکھنے والا اپنے پاس روک لے گا۔ امام ابویوسف اور امام محمد کا یہی قول ہے۔ جبکہ امام ابوحنیفہ فرماتے ہیں کہ اگر یہ دونوں شخص اس ودیعت میں شریک ہوں تو جب تک دونوں شریک موجودنہ ہوں اس وقت تک یہ ودیعت کسی ایک کو واپس نہیں کی جائے گا۔ عطاء نے سعیدبن جبیر سے (وقولوالھم قولامعروفا) کی تفسیر کے سلسلے میں روایت کی ہے کہ اگر ورثاء نابالغ ہوں تو ان کے سرپرست غیروارث رشتہداروں، یتیموں اور مسکینوں سے خوشنماوعدے کے طورپر یہ کہیں کہ یہ ابھی نابالغ ہیں۔ جب بالغ ہوجائیں گے توہم ان سے کہیں گے کہ تم اپنے ان رشتہ داروں، یتیموں اور مسکینوں کا حق پہچانو اور ان کے متعلق اپنے رب کی وصیت پوری کرو۔- درج بالابیان کی روشنی میں یہ بات واضح ہوگئی کہ اس مسئلے میں سلف کے اختلاف کو ہم چار صورتوں میں تقسیم کرسکتے ہیں۔- اول سعیدبن المسیب، ابومالک اور ابوصالح کا قول ہے کہ یہ آیت میراث کے حکم بناپر منسوخ ہوگئی ہے۔- دوم حضرت ابن عباس (رض) کا قول بردایت عکرمہ نیزعطاء، حسن، شعبی، ابراہیم اور مجاہد کا قول ہے کہ یہ منسوخ نہیں ہوئی بلکہ یہ محکم ہے، اور اس کا حکم بحالہ باقی ہے۔ اور یہ میراث کے متعلق ہے۔- سوم حضرت ابن عباس (رض) سے منقول ایک اور روایت کے مطابق آیت کالعلق مرنے والے کی اس وصیت کے ساتھ ہے جو وہ ان لوگوں کے متعلق کرجاتا ہے جن کا آیت میں ذکر ہے، لیکن اب یہ میراث کی بناپر منسوخ ہوچکی ہے۔ زیدبن اسلم سے بھی اسی قسم کی روایت ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ وصیت کرتے وقت وصیت کرنے والے کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ انہوں نے اس قول باری (ولخش الذین لوترکوامن خلفھم ذریۃ ضعافا، ان لوگوں کو یہ سوچ کر ڈرنا چاہیے کہ اگر اپنے پیچھے بےبس اولاد چھوڑجاتے) زیدبن اسلم نے اس کا یہ مفہوم بیان کیا کہ وصیت کرنے والے کے پاس موجودلوگوں میں سے کوئی اسے یہ کہے کہ ، بندۃ خدا، اللہ سے ڈر، ان آئے ہوئے رشتہ داروں کے ساتھ بھی، صلہ رحمی، کر اورا نہیں بھی کچھ دے دلادے ۔- چہارم سعید بن جبیرکاقول بروایت ابوبشر کہ قول باری (فارزقوھم منہ) کا تعلق نفس میراث سے ہے اور (وقولوالھم قولا معروفا) کا تعلق غیراہل میراث سے ہے۔ جو لوگ اس آیت کے منسوخ ہوجانے کے قائل ہیں ان کے نزدیک آیت میراث نازل ہونے سے قبل اس کا حکم واجب تھا۔ پھر جب آیت میراث نازل ہوگئی اور ہر وارث کو اس کا حصہ دے دیا گیا تو یہ آیت خودبخود منسوخ ہوگئی۔- جولوگ اس کے محکم اور ثابت ہونے کے قائل ہیں ان کے نزدیک یہ مندوب ومستحب کے معنی پر محمول ہے۔ وجوب یا فرض کے معنی پر نہیں اس لیے کہ اگر یہ حکم واجب ہوتاتو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام کے عہد میں بےشمارترکے تقسیم ہوئے جس کی بناپر اس کا وجوب اور مذکورہ افرادکاترکے میں استحقاق اسی طرح منقول ہوتاجس طرح کہ میراث کے دیگرحصے منقول ہوئے اس لیے کہ اس حکم کی لوگوں کو عام حاجت تھی۔ اب جبکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کا وجوب ثابت نہیں ہے، نہ ہی صحابہ کرام سے اس سلسلے میں کوئی روایت ہے، تو اس سے یہ دلالت حاصل ہوئی کہ اب اس حکم کو مستحب کے معنی پر محمول کیا جائے گا، ایجاب کے معنی پر نہیں اس بارے میں عبدالرحمن، عبیدہ اور حضرت ابوموسیٰ اشعری (رض) سے جو قول منقول ہے تو اس میں اس تاویل کی گنجائش ہے کہ ورثاء بالغ تھے۔ ان کی اجازت سے ترکہ میں سے بکری ذبح کی گئی تھی۔ روایت میں جو یہ مذکور ہے کہ عبیدہ نے کچھ یتیموں کی میراث تقسیم کرتے وقت ایک بکری ذبح کی تھی، تو اس روایت کی یہ تاویل کی جائے گی کہ مذکورہ یتیم اس وقت بالغ ہوچکے تھے۔ اس لیے کہ اگر اس وقت یہ نابا (رح) لغ ہوتے تو ان کی میراث کی تقسیم کا عمل درست نہ ہوتا۔- اس حکم کے مندوب ومستحب ہونے پر عطاء کی وہ روایت دلالت کرتی ہے جو انہوں نے سعیدبن جبیر سے کی ہے کہ وصی رشتہ دار اورغیر رشتہ دارحاضرین سے کہے گا کہ یہ ورثاء ابھی نابالغ ہیں۔ اس لیے یہ تم لوگوں کو ابھی کچھ نہیں دے سکتے۔ یا اسی قسم کے فقرات کے ذریعے ان سے معذرت کرلی جائے گی۔ اگر یہ لوگ وجوب کے طورپر اس حصے کے حق دارہوتے توا نہیں یہ حصہ دے دینا واجب ہوتا خواہ ورثاء بالغ ہوتے یانابالغ۔- ایک اور جہت سے دیکھئے اللہ تعالیٰ نے ورثا کے درمیان میراث تقسیم کرکے ان میں سے ہر ایک کے حصے کی وضاحت کردی لیکن ان لوگوں کے لیے اس میں کوئی حصہ مقرر نہیں کیا اب ظاہر ہے کہ جو چیز کسی کی ملکیت ہوا سے کسی اور کی ملکیت کی طرف منتقل کرنا صرف ان ہی صورتوں میں جائز ہوگاجن کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے اس لیے کہ ارشاد باری ہے (ولاتاکلوا اموالکم بینکم بالباطل الا ان تکون تجارۃ عن تراض منکم، اور تم اپنے اموال آپس میں ناجائز طریقے سے مت کھاؤالایہ کہ باہمی رضامندی سے تجارت کی صورت ہو) نیز حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے (وماء کم واموالکم علیکم حرام، تمھاراخون اور تمھارامال تم پر حرام ہے) نیز فرمایا (لایحل مالی امرئی مسلم الابطیبۃ من نفسہ، کسی مسلمان کا مال کسی دوسرے کے لیے صرف اسی صورت میں حلال ہوسکتا ہے جب وہ خوش ولی کے ساتھ اسے دے دے۔- خلاصہ کلام۔- قرآن وحدیث کے ان دلائل سے یہ بات ضروری ہوجاتی ہے کہ تقسیم میراث کے وقت آیت میں مذکورموجودلوگوں کو کچھ دینا مستحب ہے، واجب نہیں ہے، قول باری (وقولوالھم قولامعروفا، کے متعلق حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ یہ اس صورت میں ہے کہ جبکہ مال میں گنجائش نہ ہوتا ان سے معذرت کرلی جائے سعید بن جبیر سے منقول ہے کہ میراث ورثاء میں تقسیم کردی جائے گی۔ قول باری (فارزقوھم منہ) کا یہی مفہوم ہے اور غیروارث افراد سے کہا جائے گا کہ یہ ان لوگوں کا مال ہے جو یہاں موجود نہیں ہیں یا یہ یتیموں کا مال ہے جو ابھی نابالغ ہیں۔ اس مال میں اگرچہ آپ لوگوں کا بھی حصہ بنتا ہے لیکن ہمیں اس میں سے آپ کو کچھ دینے کا اختیار نہیں ہے۔ غرض سعیدبن جبیر کے نزدیک یہ بھی معذرت کی ایک صورت ہے۔- بعض اہل علم کا قول ہے کہ جب تقسیم کے وقت ان لوگوں کو کچھ دیاجائے تو نہ احسان جتلایا جائے نہ ڈانٹ ڈپٹ کی جائے اور نہ ہی سخت الفاظ استعمال کیے جائیں اس لیے کہ قول باری ہے (قول معروف ومغفرۃ خیرمن صدقۃ یتبعھا اذی، بھلی بات کہنا اور درگزر کردینا اس خیرات سے بہت رہے جس کے پیچھے ایذاد ہی آجائے) نیز فرمان الہی ہے (فاما الیتیم فلاتقھر واماالسائل فلاتنھر، یتیم پر سختی نہ کر اور سائل کو مت جھڑک۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٨ (وَاِذَا حَضَرَ الْقِسْمَۃَ اُولُوا الْقُرْبٰی وَالْیَتٰمٰی وَالْمَسٰکِیْنُ ) - جب وراثت کی تقسیم ہو رہی ہو تو اب اگر وہاں کچھ قرابت دار ‘ کچھ یتیم اور کچھ محتاج بھی آجائیں۔- (فَارْزُقُوْہُمْ مِّنْہُ وَقُوْلُوْا لَہُمْ قَوْلاً مَّعْرُوْفًا ) ۔- وہ دیکھ رہے ہیں کہ اس وقت وراثت تقسیم ہو رہی ہے اور وہ بالکل محتاج ہیں ‘ تو ان کے احساس محرومیت کا جو بھی مداوا ہوسکتا ہے کرو ‘ اور ان سے بڑے اچھے انداز میں بات کرو۔ انہیں جھڑکو نہیں کہ ہماری وراثت تقسیم ہو رہی ہے اور یہاں تم کون آگئے ہو ؟

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :13 خطاب میت کے وارثوں سے ہے اور انہیں ہدایت فرمائی جارہی ہے کہ میراث کی تقسیم کے موقع پر جو دور نزدیک کے رشتہ دار اور کنبہ کے غریب و مسکین لوگ اور یتیم بچے آجائیں ان کے ساتھ تنگ دلی نہ برتو ۔ میراث میں ازروئے شرع ان کا حصہ نہیں ہے تو نہ سہی ، وسعت قلب سے کام لے کر ترکہ میں سے ان کو بھی کچھ نہ کچھ دے دو ، اور ان کے ساتھ وہ دل شکن باتیں نہ کرو جو ایسے مواقع پر بالعموم چھوٹے دل کے کم ظرف لوگ کیا کرتے ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

8: جب میراث تقسیم ہورہی ہو تو بعض ایسے لوگ بھی موجود ہوتے ہیں جو شرعی اعتبار سے وارث نہیں ہیں قرآن کریم نے یہ ہدایت دی ہے کہ ان کو بھی کچھ دے دینا بہتر ہے، مگر ایک تو یہ یاد رکھنا چاہئے کہ اس ہدایت پر عمل کرنا مستحب ہے، یعنی پسندیدہ ہے واجب نہیں ہے، دوسرے اس پر عمل کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ بالغ ورثاء ایسے لوگوں کو اپنے حصہ میں سے دیں، نابالغ ورثاء کے حصے میں سے کسی اور کو دینا جائز نہیں ہے۔