7۔ 1 اسلام سے قبل ایک یہ ظلم بھی روا رکھا جاتا تھا کہ عورتوں اور چھوٹے بچوں کو وراثت سے حصہ نہیں دیا جاتا تھا اور صرف بڑے لڑکے جو لڑنے کے قابل ہوتے، سارے مال کے وارث قرار پاتے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ مردوں کی طرح عورتوں اور بچے بچیاں اپنے والدین اوراقارب کے مال میں حصہ دار ہونگے انہیں محروم نہیں کیا جائے گا۔ تاہم یہ الگ بات ہے کہ لڑکی کا حصہ لڑکے کے حصے سے نصف ہے (جیسا کہ 3 آیات کے بعد مذکور ہے) یہ عورت پر ظلم نہیں ہے، نہ اس کا استخفاف ہے بلکہ اسلام کا یہ قانون میراث عدل وانصاف کے تقاضوں کے عین مطابق ہے۔ کیونکہ عورت کو اسلام نے معاش کی ذمہ داری سے فارغ رکھا ہے اور مرد کو اس کا کفیل بنایا ہے۔ علاوہ ازیں عورت کے پاس مہر کی صورت میں مال آتا ہے جو ایک مرد ہی اسے ادا کرتا ہے۔ اس لحاظ سے عورت کے مقابلے میں مرد پر کئی گنا زیادہ مالی ذمہ داریاں ہیں۔ اس لئے اگر عورت کا حصہ نصف کے بجائے مرد کے برابر ہوتا تو یہ مرد پر ظلم ہوتا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے کسی پر بھی ظلم نہیں کیا ہے کیونکہ وہ عادل بھی ہے اور حکیم بھی۔
[١٣] عورتوں اور بچوں کا میراث میں حصہ :۔ عرب میں عورتوں کو میراث میں شامل کرنے کا دستور نہ تھا بلکہ عورت خود ورثہ شمار ہوتی تھی۔ اس آیت کی رو سے اللہ تعالیٰ نے عورت کو اس ذلت کے مقام سے نکال کر وراثت میں حصہ دار بنادیا۔ نیز اس آیت سے مندرجہ ذیل احکام مستنبط ہوتے ہیں ( : ١) میراث میں عورتوں کا حصہ (٢) ورثہ خواہ تھوڑا ہو یا زیادہ جائیداد خواہ منقولہ ہو یا غیر منقولہ بہرحال وہ تقسیم ہوگا۔ (٣) قریبی رشتہ داروں کی موجودگی میں دور کے رشتہ دار محروم ہوں گے (٤) ان قریبی رشتہ داروں کا حصہ بھی مقرر ہے جس کی تفصیل اسی سورة کی آیت نمبر ١١ اور نمبر ١٢ میں آرہی ہے (٥) عورتوں کے علاوہ چھوٹے لڑکوں کو بھی وراثت سے محروم رکھا جاتا تھا اور ورثہ کے مالک صرف وہ بیٹے سمجھے جاتے تھے جو دشمنوں سے لڑنے اور انتقام لینے کے اہل ہوں۔ اس آیت کی رو سے چھوٹے لڑکوں کو بھی برابر کا حق دلایا گیا اور حقیقتاً یہی بچے یتیم ہوتے تھے۔
لِلرِّجَالِ نَصِيْبٌ۔ : اس آیت میں ایک اصولی حکم دیا ہے کہ ماں باپ اور رشتے داروں کی چھوڑی ہوئی جائداد میں، چاہے وہ کسی نوعیت کی ہو، جس طرح مردوں کا حق ہے اسی طرح عورتوں اور چھوٹے بچوں، حتیٰ کہ جنین کا بھی حق ہے۔ اس سے عرب کے جاہلی دستور کی تردید مقصود ہے۔ جس کے مطابق عورتوں اور بچوں کو میت کے متروکہ مال اور جائداد سے محروم کردیا جاتا اور صرف بالغ لڑکے ہی جائداد پر قبضہ کرلیتے تھے۔ اس آیت کی شان نزول اور مردوں اور عورتوں کے حصوں کی تعیین بعد کی آیات میں آرہی ہے۔ (ابن کثیر)
ربط آیات :- سورة نساء میں اول ہی عام انسانی حقوق خصوصاً عائلی زندگی سے متعلق حقوق کا بیان چل رہا ہے، اس سے پہلی آیت میں یتمیوں کے حقوق کا بیان تھا، مذکورہ چار آیتوں میں بھی عورتوں اور یتیموں کے خاص حقوق متعلقہ وراثت کا بیان ہے۔- پہلی آیت میں جاہلیت کی اس رسم کو باطل کیا گیا ہے کہ اس زمانہ میں عورتوں کو میراث کا مستحق ہی نہیں مانا جاتا تھا، اس آیت نے ان کو اپنے شرعی حصہ کا مستحق قرار دے کر ان کے حق میں کمی کرنے اور نقصان پہنچانے کی سخت ممانعت کی، پھر چونکہ مستحقین میراث کا ذکر آیا تھا اور ایسے موقع پر تقسیم کے وقت غیر مستحقین فقراء اور یتیم بچے بھی حاضر ہوجایا کرتے ہیں تو دوسری آیت میں ان کے ساتھ حسن سلوک اور مراعات کا حکم ارشاد فرمایا، لیکن یہ حکم وجوبی نہیں، بلکہ استحبابی ہے۔- اس کے بعد تیسری اور چوتھی آیت میں بھی احکام یتامی کے سلسلہ میں اسی مضمون کی تاکید ہے۔- خلاصہ تفسیر - مردوں کے لئے بھی (خواہ وہ چھوٹے ہوں یا بڑے) حصہ (مقرر) ہے اس چیز میں سے جس کو (ان مردوں کے) ماں باپ اور ( دوسرے) بہت نزدیک کے قرابت دار (اپنے مرنے کے وقت) چھوڑ جاویں اور (اسی طرح) عورتوں کے لئے بھی (خواہ چھوٹی ہوں یا بڑی) حصہ (مقرر) ہے اس چیز میں سے جس کو (ان عورتوں کے) ماں باپ اور (یا دسرے) بہت نزدیک کے قرابت دار (اپنے مرنے کے وقت) چھوڑ جاویں خواہ وہ (چھوڑی ہوئی) چیز قلیل ہو یا کثیر ہو (سب میں سے ملے گا اور) حصہ (بھی ایسا جو) قطعی طور پر مقرر ہے اور جب (وارثوں میں ترکہ کے) تقسیم ہونے کے وقت (یہ لوگ) موجود ہوں (یعنی دور کے) رشتہ دار (جن کا میراث میں حق نہیں) اور یتیم اور غریب لوگ (اس توقع سے کہ شاید ہم کو بھی کچھ مل جاوے، رشتہ دار تو ممکن ہے کہ گمان استحقاق سے اور دوسرے لوگ بامید خیر خیرات کے) تو ان کو بھی اس (ترکہ) میں (جس قدر بالغوں کا ہے اس میں) سے کچھ دے دو اور ان کے ساتھ خوبی (اور نرمی) سے بات کرو (وہ بات رشتہ داروں سے تو یہ ہے کہ سمجھا دو کہ تمہارا حصہ شرع سے اس میں نہیں ہے، ہم معذور ہیں اور دوسروں سے یہ کہ دے کر احسان نہ جتلاؤ) اور (یتامی کے معاملہ میں) ایسے لوگوں کو ڈرنا چاہئے کہ اگر اپنے بعد چھوٹے چھوٹے بچے چھوڑ (کرمر) جاویں تو ان (بچوں) کی ان (لوگوں) کو فکر ہو (کہ دیکھئے ان کو کوئی ایذ نہ دے، تو ایسا ہی دوسرے کے بچوں کے لئے بھی خیال رکھنا چاہئے، کہ ہم ان کو آزار نہ دیں) سو (اس بات کو سوچ کر) ان لوگوں کو چاہئے کہ (یتامی کے معاملہ میں) اللہ تعالیٰ (کے حکم کی مخالفت) سے ڈریں (یعنی فعلاً آزار و ضرر نہ پہنچائیں) اور (قولاً بھی ان سے) موقع کی بات کہیں (اس میں تسلی اور دل جوئی کی بات بھی آگئی، اور تعلیم و تادیب کی بات بھی آگئی، غرض ان کے مال اور جان دونوں کی اصلاح رہے) بلاشبہ جو لوگ یتیموں کا مال بلا استحقاق کھاتے (برتتے) ہیں اور کچھ نہیں اپنے شکم میں (دوزخ کی) آگ (کے انگارے) بھر رہے ہیں (یعنی انجام اس کھانے کا یہ ہونے والا ہے) اور (اس انجام کے مرتب ہونے میں کچھ زیادہ دیر نہیں، کیونکہ) عنقریب (ہی دوزخ کی) جلتی (آگ) میں داخل ہوں گے (وہاں یہ انجام نظر آئے گا۔ )- معارف و مسائل - والدین اور دیگر اقرباء کے اموال میں حق میراث :۔- اسلام سے پہلے عرب اور عجم کی قوموں میں انسان کی صنف ضعیف، یتیم بچے اور صنف نازل عورتیں ہمیشہ طرح طرح کے ظلم و ستم کا شکار رہے ہیں، اول تو ان کا کوئی حق ہی تسلیم نہیں کیا جاتا تھا اور اگر کوئی حق مان بھی لیا گیا تو مردوں سے اس کا وصول کرنا اور اس کا محفوظ رکھنا کسی کی قدرت میں نہ تھا۔- اسلام نے سب سے پہلے ان کو حقوق دلائے پھر ان حقوق کی حفاظت کا مکمل انتظام کیا، قانون وراثت میں بھی عام اقوام دنیا نے معاشرہ کے ان دونوں ضعیف اجزاء کو ان کے فطری اور واجبی حقوق سے محروم کیا ہوا تھا۔- عرب نے تو اصول ہی یہ بنا لیا تھا کہ وراثت کا مستحق صرف وہ ہے جو گھوڑے پر سوار ہو، اور دشمنوں کا مقابلہ کر کے اس کا مال غنیمت جمع کرے (روح المعانی ص ٠١٢ ج ٤) - ظاہر ہے کہ یہ دونوں صنف ضعیف بچے اور عورتیں اس اصول پر نہیں آسکتیں، اس لئے ان کے اصول وراثت کی رو سے صرف جوان بالغ لڑکا ہی وارث ہوسکتا تھا، لڑکی مطلقاً وارث نہ سمجھی جاتی تھی، خواہ بالغ ہو یا نابالغ اور لڑکا بھی اگر نابالغ ہوتا تو وہ بھی مستحق وراثت نہ تھا۔- رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عہد مبارک میں ایک واقہ پیش آیا کہ اوس بن ثابت کا انتقال ہوا اور دو لڑکیاں ایک لڑکا نابالغ اور ایک بیوی وارث چھوڑے، مگر عرب کے قدیم دستور کے مطابق ان کے دو چچا زاد بھائیوں نے آ کر مرحم کے پورے مال پر قبضہ کرلیا اور اولاد اور بیوی میں سے کسی کو کچھ نہ دیا، کیونکہ ان کے نزدیک عورت تو مطلقاً مستحق وراثت نہ سمجھی جاتی تھی خواہ بالغ ہو یا نابالغ اس لئے بیوی اور دونوں لڑکیاں تو یوں محروم ہوگئیں اور لڑکا بوجہ نابالغ ہونے کے محروم کردیا گیا، لہٰذا پورے مال کے وارث دو چچا زاد بھائی ہوگئے۔ اوس بن ثابت (رض) کی بیوہ نے یہ بھی چاہا کہ یہ چچا زاد بھائی جو پورے ترکہ پر قبضہ کر رہے ہیں تو ان دونوں لڑکیوں سے شادی بھی کرلیں تاکہ ان کی فکر سے فراغت ہو، مگر انہوں نے یہ بھی قبول نہ کیا، تب اوس بن ثابت کی بیوہ نے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض حال کیا اور اپنی اور اپنے بچوں کی بےکسی اور محرومی کی شکایت کی، اس وقت تک چونکہ قرآن حکیم میں آیت میراث نازل نہ ہوئی تھی، اس لئے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جواب دینے میں توقف فرمایا، آپ کو اطمینان تھا وحی الہی کے ذریعہ اس ظالمانہ قانون کو ضرور بدلا جائے گا، چناچہ اسی وقت یہاں نازل ہوئی۔- للرجال نصیب مماترک الوالدن والاقربون للنسآء نصیب مما ترک الوالدن والاقربون مما قل منہ اوکثرنصیباً مفروضا - اور اس کے بعد دوسری آیت وراثت نازل ہوئی جس میں حصوں کی تفصیلات ہیں، اور اس سورت کا دوسرا رکوع ان تفصیلات پر مشتمل ہے، حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے احکام قرآنی کے مطابق کل ترکہ کا آٹھواں حصہ بیوی کو دے کر بایں طور پر سب مال مرحوم کے لڑکے اور لڑکیوں کو اس طرح تقسیم کردیا کہ اس کا آدھا لڑکے کو اور آدھے میں دونوں لڑکیاں برابر کی شریک رہیں اور چچا زاد بھائی بمقابلہ اولاد کے چونکہ اقرب نہ تھے اس لئے ان کو محروم کیا گیا۔ (روح المعانی)- استحقاق میراث کا ضابطہ :۔- اس آیت نے وراثت کے چند احکام کے ضمن میں قانون راثت کا ضابطہ بیان فرما دیا ہے۔- مما ترک الوالدن والاقربون، ان دو لفظوں نے وراثت کے دو بنیادی اصول بتلا دیئے، ایک رشتہ ولادت، جو اولاد اور ماں باپ کے درمیان ہے اور جس کو لفظ والدان سے بیان کیا گیا ہے دوسرے عام رشتہ داری جو لفظ قاقربون کا مفہوم ہے، اور صحیح یہ ہے کہ لفظ ” اقربون “ ہر قسم کی قرابت اور رشتہ داری کو حاوی ہے، خواہ وہ رشتہ باہمی ولادت کا ہو جیسے اولاد اور ماں باپ میں، یا دوسری طرح کا جیسے عام خاندانی رشتوں میں یا وہ رشتے جو ازدواجی تعلق سے پیدا ہوئے ہیں، لفظ ” اقربون “ سب پر حاوی ہے، لیکن والدین کو ان کی اہمیت کی وجہ سے بطور خاص جدا کردیا گیا، پھر اس لفظ نے یہ بھی بتلا دیا کہ مطلق رشتہ داری وراثت کے لئے کافی نہیں، بلکہ رشتہ میں اقرب ہونا شرط ہے، کیونکہ اگر اقربیت کو معیاری شرط نہ بنایا جائے تو ہر مرنے والے کی وراثت پوری دنیا کی تمام انسانی آبادی پر تقسیم کرنا ضروری ہوجائے گا، کیونکہ سب ایک ماں باپ آدم و حوا علہما السلام کی اولاد ہیں، دور قریب کا کچھ نہ کچھ رشتہ سب میں موجود ہے، اور یہ اول تو امکان سے باہر ہے، دوسرے اگر کسی طرح کوشش کر کے اس کا انتظام کر بھی لیا جائے تو متروکہ مال جزء لایتجزی بن کر ہی تقسیم ہو سکے گا جو کسی کے کام نہ آئے گا، اس لئے ضروری ہوا کہ جب وراثت کا مدار رشتہ داری پر ہو تو اصول یہ بنایا جائے کہ اگر نزدیک و دور کے مختلف رشتہ دار جمع ہوں تو قریبی رشتہ دار کو بعید پر ترجیح دے کر اقرب کے ہوتے ہوئے ابعد کو حصہ نہ دیا جائے، ہاں اگر کچھ رشتہ دار ایسے ہوں جو بیک وقت سب کے سب اقرب قرار دیئے جائیں، اگرچہ وجوہ اقربیت ان میں مختلف ہوں تو پھر یہ سب مستحق وراثت ہوں گے جیسے اولاد کے ساتھ ماں باپ یا بیوی وغیرہ کہ یہ سب اقرب ہیں اگرچہ اقربیت کی وجوہ مختلف ہیں۔- نیز ایک اور بات اسی لفظ ” اقربون “ نے یہ بتلائی کہ جس طرح مردوں کو مستحق وراثت سمجھا جاتا ہے اسی طرح عورتوں اور بچوں کو بھی اس حق سے محروم نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ رشتہ اولاد کا یا ماں باپ کا ہو، یا دوسری قسم کے رشتے ہر ایک میں رشتہ داری کی حیثیت لڑکے اور لڑکی میں یکساں ہے، جس طرح لڑکا ماں باپ سے پیدا ہوا ہے، اسی طرح لڑکی بھی انہی سے پیدا ہوئی ہے جب حق وراثت کا مدار رشتہ پر ہوا تو چھوٹے بچے یا لڑکی کو محروم کرنے کے کوئی معنی نہیں رہتے۔- پھر قرآن کریم کے اسلوب کو دیکھئے کہ للرجال والنساء کو جمع کر کے مختصر لفظوں میں ان کے حق کا بیان ہوسکتا تھا، اس کو اختیار نہیں کیا، بلکہ مردوں کے حق کو جس تفصیل سے بیان کیا ہے اسی تفصیل و تشریح کے ساتھ عورتوں کا حق جداگانہ بیان فرمایا، تاکہ دونوں کے حقوق کا مستقل اور اہم ہونا واضح ہوجائے۔- نیز اسی لفظ ” اقربون “ سے ایک بات یہ بھی معلوم ہوئی کہ مال وراثت کی تقسیم ضرورت کے معیار سے نہیں بلکہ قرابت کے معیار سے ہے، اس لئے یہ ضروری نہیں کہ رشتہ داروں میں جو زیادہ غریب اور حاجت مند ہو اس کو زیادہ وراثت کا مستحق سمجھا جائے، بلکہ جو میت کے ساتھ رشتہ میں قریب تر ہوگا وہ بہ نسبت بعید کے زیادہ مستحق ہوگا، اگرچہ ضرورت اور حاجت بعید کو زیادہ ہو، اگر اقربیت کے ضابطہ کو چھوڑ کر بعض رشتہ داروں کے محتاج یا نافع ہونے کو معیار بنا لیا جائے تو نہ اس کا ضابطہ بن سکتا ہے اور نہ یہ ایک طے شدہ مستحکم قانون کی شکل اختیار کرسکتا ہے، کیونکہ اقربیت کے علاوہ دوسرا معیار لامحالہ وقتی اجتہادی ہوگا، کیونکہ فقر و حاجت کوئی دائمی چیز نہیں، اس لئے کہ حالات بھی بدلتے رہتے ہیں درجات بھی ایسی صورت میں استحقاق کے بہت سے دعویدار نکل آیا کریں گے اور فیصلہ کرنے والوں کو ان کا فیصلہ مشکل ہوگا۔- یتیم پوتے کی وراثت کا مسئلہ :۔ - اگر اس قرآنی اصول کو سمجھ لیا جائے تو یتیم پوتے کی وراثت کا مسئلہ جو آج کل بلاوجہ ایک نزاعی مسئلہ بنادیا گیا ہے، وہ خود بخود ایک قطعی فیصلہ کے ساتھ حل ہوجاتا ہے کہ اگر یتیم پوتا بہ نسبت بیٹے کے ضرورت مند زیادہ ہو، لیکن ” اقربون “ کے قانون کی رو سے وہ مستحق وراثت نہیں ہو سکتا، کیونکہ وہ بیٹے کی موجودگی میں اقرب نہیں، البتہ اس کی ضرورت رفع کرنے کے لئے دوسرے انتظامات کئے گئے ہیں جس میں سے ایک ایسا ہی انتظام اگلی آیت میں آ رہا ہے۔- اس مسئلہ میں موجودہ دور کے مغرب زدہ مجددین کے علاوہ کسی نے بھی اختلاف نہیں کیا، ساری امت آج تک قرآن و حدیث کی تصریحات سے یہی سمجھتی آئی ہے کہ بیٹے کے ہوتے ہوئے پوتے کو میراث نہ ملے گی، خواہ اس کا باپ موجود ہو یا مر گیا ہو۔ - متوفی کی ملکیت میں جو کچھ ہو سب میں وراثت کا حق ہے :۔- اس آیت میں مما قل منہ اوکثر فرما کر ایک دوسری جاہلانہ رسم کی اصلاح فرمائی گئی ہے، وہ یہ کہ بعض قوموں میں بعض اقسام مال کو بعض خاص وارثوں کے لئے مخصوص کرلیا جاتا تھا، مثلاً گھوڑا اور تلوار وغیرہ اسلحہ یہ سب صرف نوجوان مردوں کا حق تھا، دوسرے وارثوں کو ان سے محرم کردیا جاتا تھا، قرآن کریم کی اس ہدایت نے بتلا دیا کہ میت کی ملکیت میں جو چیز بھی تھی، خواہ بڑی ہو یا چھوٹی ہر چیز میں ہر وارث کا حق ہے، کسی وارث کو کوئی خاص چیز بغیر تقسیم کے خود رکھ لینا جائز نہیں۔- میراث کے مقررہ حصے اللہ کی جانب سے طے شدہ ہیں :۔- آخر آیت میں جو ارشاد فرمایا نصیباً مفروضاً ، اس سے یہ بھی بتلا دیا کہ مختلف وارثوں کے جو مختلف حصے قرآن نے مقرر فرمائے ہیں، یہ خدا کی طرف سے مقرر کردہ حصے ہیں، ان میں کسی کو اپنی رائے اور قیاس سے کمی بیشی یا تغیر و تبدل کا کوئی حق نہیں۔- وراثت ایک جبری ملک ہے اس میں مالک ہونے والے کی رضامندی شرط نہیں :۔- اور اسی لفظ مفروضاً ، سے ایک اور مسئلہ یہ بھی معلوم ہوا کہ وراثت کے ذریعہ جو ملکیت وارثوں کی طرف منتقل ہوتی ہے ملکیت جبری ہے نہ اس میں وارث کا قبول کرنا شرط ہے، نہ اس کا اس پر راضی ہونا ضروری ہے بلکہ اگر وہ زبان سے بصراحت یوں بھی کہے کہ میں اپنا حصہ نہیں لیتا تب بھی وہ شرعاً اپنے حصے کا مالک ہوچکا یہ دوسری بات ہے کہ وہ مالک بن کر شرعی قاعدہ کے مطابق کسی دوسرے کو ہبہ کر دے یا بیچ ڈالے یا تقسیم کر دے۔- محروم الارث رشتہ داروں کی دلداری ضروری ہے :۔- میت کے رشتہ داروں میں کچھ ایسے لوگ بھی ہوں گے جن کو ضابطہ شرعی کے ماتحت اس کی میراث میں سے حصہ نہیں ملے گا، لیکن یہ ظاہر ہے کہ فرائض کی تفصیلات کا علم ہر شخص کو نہیں ہوتا، عام طور پر ہر رشتہ دار خواہش مند ہوتا ہے کہ اس کو بھی میراث میں سے حصہ ملے، اس لئے وہ رشتہ دار جو شرعی ضابطہ میراث کے تحت محروم قرار دیئے گئے ہیں، تقسیم میراث کے وقت ان کا دل افسردہ اور رنجیدہ ہوسکتا ہے خصوصاً جب کہ تقسیم میراث کے وقت وہ موجود بھی ہوں اور بالخصوص جبکہ ان میں کچھ یتیم اور مسکین حاجت مند بھی ہوں ایسی حالت میں جب کہ دوسرے رشتہ دار اپنا اپنا حصہ لے جا رہے ہوں اور یہ کھڑے دیکھ رہے ہیں ان کی حسرت وایاس اور دل شکنی کا اندازہ کچھ وہی لوگ کرسکتے ہیں جن پر کبھی یہ کیفیت گزری ہو۔
لِلرِّجَالِ نَصِيْبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدٰنِ وَالْاَقْرَبُوْنَ ٠ ۠ وَلِلنِّسَاۗءِ نَصِيْبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدٰنِ وَالْاَقْرَبُوْنَ مِمَّا قَلَّ مِنْہُ اَوْ كَثُرَ ٠ ۭ نَصِيْبًا مَّفْرُوْضًا ٧- رِّجْلُ- : العضو المخصوص بأكثر الحیوان، قال تعالی: وَامْسَحُوا بِرُؤُسِكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ [ المائدة 6] ، واشتقّ من الرِّجْلِ رَجِلٌ ورَاجِلٌ للماشي بالرِّجْل، ورَاجِلٌ بيّن الرُّجْلَةِ «1» ، فجمع الرَّاجِلُ رَجَّالَةٌ ورَجْلٌ ، نحو : ركب، ورِجَالٌ نحو : رکاب لجمع الرّاكب . ويقال : رَجُلٌ رَاجِلٌ ، أي : قويّ علی المشي، جمعه رِجَالٌ ، نحو قوله تعالی: فَرِجالًا أَوْ رُكْباناً [ البقرة 239] ، الرجل ۔ پاؤں ۔ اس کی جمع ارجل آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَامْسَحُوا بِرُؤُسِكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ [ المائدة 6] اپنے سروں کا مسح کرلیا کرو اور اپنے پاؤں بھی ٹخنوں تک دھو لیا کرو ۔ راجل ورجل پا پیادہ چلنے والا یہ بھی الرجل بمعنی پاؤں سے مشتق ہے اور راجل کی جمع رجالۃ اور رجل آتی ہے جیسے رکب جو کہ راکب کی جمع ہے اور راجل کی جمع رجال بھی آجاتی ہے جیسے راکب ورکاب ۔ اور رجل راجل اسے کہتے ہیں جو چلنے پر قدرت رکھتا ہو اس کی جمع رجال آجاتی ہے قرآن میں ہے : ۔ فَرِجالًا أَوْ رُكْباناً [ البقرة 239] تو پاؤں پیدل یا سوار ۔- نَّصِيبُ :- الحَظُّ المَنْصُوبُ. أي : المُعَيَّنُ. قال تعالی: أَمْ لَهُمْ نَصِيبٌ مِنَ الْمُلْكِ [ النساء 53]- ( ن ص ب ) نصیب - و النصیب کے معنی معین حصہ کے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ أَمْ لَهُمْ نَصِيبٌ مِنَ الْمُلْكِ [ النساء 53] کیا ان کے پاس بادشاہی کا کچھ حصہ ہے ۔ - ترك - تَرْكُ الشیء : رفضه قصدا واختیارا، أو قهرا واضطرارا، فمن الأول : وَتَرَكْنا بَعْضَهُمْ يَوْمَئِذٍ يَمُوجُ فِي بَعْضٍ [ الكهف 99] ، وقوله : وَاتْرُكِ الْبَحْرَ رَهْواً [ الدخان 24] ، ومن الثاني : كَمْ تَرَكُوا مِنْ جَنَّاتٍ [ الدخان 25] - ( ت ر ک) ترک - الشیئء کے معنی کسی چیز کو چھوڑ دینا کے ہیں خواہ وہ چھوڑنا ارادہ اختیار سے ہو اور خواہ مجبورا چناچہ ارادۃ اور اختیار کے ساتھ چھوڑنے کے متعلق فرمایا : ۔ وَتَرَكْنا بَعْضَهُمْ يَوْمَئِذٍ يَمُوجُ فِي بَعْضٍ [ الكهف 99] اس روز ہم ان کو چھوڑ دیں گے کہ ور وئے زمین پر پھل کر ( ایک دوسری میں گھسن جائیں وَاتْرُكِ الْبَحْرَ رَهْواً [ الدخان 24] اور دریا سے ( کہ ) خشک ( ہورہا ہوگا ) پاور ہوجاؤ ۔ اور بحالت مجبوری چھوڑ نے کے متعلق فرمایا : كَمْ تَرَكُوا مِنْ جَنَّاتٍ [ الدخان 25] وہ لوگ بہت سے جب باغ چھوڑ گئے ۔- قرب - الْقُرْبُ والبعد يتقابلان . يقال : قَرُبْتُ منه أَقْرُبُ وقَرَّبْتُهُ أُقَرِّبُهُ قُرْباً وقُرْبَاناً ، ويستعمل ذلک في المکان، وفي الزمان، وفي النّسبة، وفي الحظوة، والرّعاية، والقدرة . فمن الأوّل نحو : وَلا تَقْرَبا هذِهِ الشَّجَرَةَ [ البقرة 35] ، - ( ق ر ب ) القرب - القرب والبعد یہ دونوں ایک دوسرے کے مقابلہ میں استعمال ہوتے ہیں ۔ محاورہ ہے : قربت منہ اقرب وقربتہ اقربہ قربا قربانا کسی کے قریب جانا اور مکان زمان ، نسبی تعلق مرتبہ حفاظت اور قدرت سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے جنانچہ فرب مکانی کے متعلق فرمایا : وَلا تَقْرَبا هذِهِ الشَّجَرَةَ [ البقرة 35] لیکن اس درخت کے پاس نہ جانا نہیں تو ظالموں میں داخل ہوجاؤ گے ۔ - نِّسَاءُ- والنِّسْوَان والنِّسْوَة جمعُ المرأةِ من غير لفظها، کالقومِ في جمعِ المَرْءِ ، قال تعالی: لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ إلى قوله : وَلا نِساءٌ مِنْ نِساءٍ [ الحجرات 11] ما بال النِّسْوَةِ اللَّاتِي قَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ [يوسف 50]- النساء - والنسوان والنسوۃ یہ تینوں امراءۃ کی جمع من غیر لفظہ ہیں ۔ جیسے مرء کی جمع قوم آجاتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ إلى قوله : وَلا نِساءٌ مِنْ نِساءٍ [ الحجرات 11] اور نہ عورتیں عورتوں سے تمسخر کریں ما بال النِّسْوَةِ اللَّاتِي قَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ [يوسف 50] کہ ان عورتوں کا کیا حال ہے جنہوں نے اپنے ہاتھ کا ٹ لئے تھے ۔- قل - القِلَّةُ والکثرة يستعملان في الأعداد، كما أنّ العظم والصّغر يستعملان في الأجسام، ثم يستعار کلّ واحد من الکثرة والعظم، ومن القلّة والصّغر للآخر . وقوله تعالی: ثُمَّ لا يُجاوِرُونَكَ فِيها إِلَّا قَلِيلًا[ الأحزاب 60] - ( ق ل ل ) القلۃ - والکثرۃ بلحاظ اصل وضع کے صفات عدد سے ہیں جیسا کہ عظم اور صغر صفات اجسام سے ہیں بعد کثرت وقلت اور عظم وصغڑ میں سے ہر ایک دوسرے کی جگہ بطور استعارہ استعمال ہونے لگا ہے اور آیت کریمہ ؛ثُمَّ لا يُجاوِرُونَكَ فِيها إِلَّا قَلِيلًا[ الأحزاب 60] پھر وہاں تمہارے پڑوس میں نہیں رہ سکیں گے مگر تھوڑے دن ۔ میں قلیلا سے عرصہ قلیل مراد ہے ۔ - كثر - الْكِثْرَةَ والقلّة يستعملان في الكمّيّة المنفصلة كالأعداد قال تعالی: وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة 64] - ( ک ث ر )- کثرت اور قلت کمیت منفصل یعنی اعداد میں استعمال ہوتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة 64] اس سے ان میں سے اکثر کی سر کشی اور کفر اور بڑ ھیگا ۔- فرض - الفَرْضُ : قطع الشیء الصّلب والتأثير فيه، کفرض الحدید، وفرض الزّند والقوس، والمِفْرَاضُ والمِفْرَضُ : ما يقطع به الحدید، وفُرْضَةُ الماء : مقسمه . قال تعالی: لَأَتَّخِذَنَّ مِنْ عِبادِكَ نَصِيباً مَفْرُوضاً [ النساء 118] ، أي : معلوما، فَرْضٌ. وكلّ موضع ورد ( فرض اللہ عليه) ففي الإيجاب الذي أدخله اللہ فيه، وما ورد من : ( فرض اللہ له) فهو في أن لا يحظره علی نفسه . نحو . ما کان عَلَى النَّبِيِّ مِنْ حَرَجٍ فِيما فَرَضَ اللَّهُ لَهُ [ الأحزاب 38]- ( ف ر ض ) الفرض ( ض ) کے معنی سخت چیز کو کاٹنے اور اس میں نشان ڈالنے کے ہیں مثلا فرض الحدید لوہے کو کاٹنا فرض القوس کمان کا چلہ فرض الزند چقماق کا ٹکڑا اور فر ضۃ الماء کے معنی در یا کا دہانہ کے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ لَأَتَّخِذَنَّ مِنْ عِبادِكَ نَصِيباً مَفْرُوضاً [ النساء 118] میں تیرے بندوں سے ( غیر خدا کی نذر ( لو ا کر مال کا یاک مقرر حصہ لے لیا کروں گا ۔ ۔ اور فرض بمعنی ایجاب ( واجب کرنا ) آتا ہے مگر واجب کے معنی کسی چیز کے لحاظ وقوع اور ثبات کے ۔ اور ہر وہ مقام جہاں قرآن میں فرض علٰی ( علی ) کے ساتھ ) آیا ہے ۔ اس کے معنی کسی چیز کے واجب اور ضروری قرا ردینے کے ہیں اور جہاں ۔ فرض اللہ لہ لام کے ساتھ ) آیا ہے تو اس کے معنی کسی چیز سے بندش کود ور کرنے اور اسے مباح کردینے کے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ ما کان عَلَى النَّبِيِّ مِنْ حَرَجٍ فِيما فَرَضَ اللَّهُ لَهُ [ الأحزاب 38] پیغمبر پر اس کام میں کچھ تنگی نہیں جو خدا نے ان کے لئے مقرر کردیا ۔
وراثت میں مردوں اور عورتوں کے حقوق - قول باری ہے (للرجال نصیب مماترک الوالدان والاقربون وللنساء نصیب مماترک الوالدان والاقربون مماقل منہ اوکثرنصیبا مفروضا۔ مردوں کے لیے اس مال میں حصہ ہے جو ماں باپ اور رشتہ داروں نے چھوڑاہو اورعورتوں کے لیے بھی اس مال میں حصہ ہے جو ماں باپ اور رشتہ داروں نے چھوڑاہو، خواہ تھوڑاہویابہت اور یہ حصہ اللہ کی طرف سے مقرر ہے) ۔- ابوبکرجصاص کہتے ہیں کہ یہ جملہ عموم اور اجمال دونوں پر مشتمل ہے۔ عموم اس لیے کہ اس میں مردوں اور عورتوں دونوں کا ذک رہے۔ نیز قول باری ہے (مماترک الوالدان والاقربون) والدین اور رشتہ داروں سے مردوں اور عورتوں کی میراث کے ایجاب پر یہ عموم ہے اس لحاظ سے یہ جملہ ذوی الارحام کی میراث کے اثبات پر بھی دلالت کررہا ہے۔ اس لیے کہ پھوپھیوں خالاؤں ماموؤں اور نواسے نواسیوں کو رشتہ داروں میں شمارکرناکسی کے لیے ممتنع نہیں ہے۔ اس لیے ظاہر آیت کی بناپران کی میراث کا اثبات واجب ہوگیا۔ لیکن چو کہ قول باری (نصیبا) مجمل ہے اور آیت میں اس کی مقدارکاذکر نہیں ہے۔ اس لیے وقت تک اس کے حکم پر عمل ممتنع ہوگیا۔ جب تک کسی اور آیت کے ذریعے اس کے اجمال کی تفصیل اور بیان کا دردو نہیں ہوجاتا تاہم ظاہر آیت سے ذوی الارحام کی میراث کے اثبات کے لیے استدلال کی گنجائش ہے۔ اس کی مثال یہ قول یہ باری ہے (خذمن اموالھم صدقۃ، ان کے اموال سے صدقہ وصول کریں نیز (انفقوامن طیبات ماکسبتم، ان پاکیزہ چیزوں میں سے خرچ کروجوتم نے کمائے ہیں) نیز (واتواحقہ یوم حصادہ، اور فصل کی کٹائی کے دن اللہ کا حق اداکرو) اس فقرے کو ماقبل پر عطف کیا گیا ہے جس میں کھیتوں کی پیدادار اورپھولں کا ذکر ہے یہ الفاظ عموم اور مجمل دونوں پر مشتمل ہیں۔ عموم کے لفظ کے تحت واقع اصناف اموال کے متعلق جن میں اللہ کا حق واجب ہے جب ہمارے درمیان آراء کا اختلاف ہوجائے گا تو اس صورت میں اس کے عموم سے استدلال کرنے کی راہ میں لفظ کا اجمال کوئی رکاوٹ نہیں بنے گا اگرچہ واجب مقدار کے بارے میں ہمارے درمیان اختلاف آراء کی صورت میں مجمل لفظ سے استدلال درست نہیں ہوگا۔ ٹھیک اسی طرح آیت زیربحث میں بھی جب میراث کے مستحق وارثین کے متعلق ہمارے درمیان اختلاف رائے ہوجائے تو اس صورت میں قول باری (للرجال نصیب مماترک الوالدن والاقربون) کے عموم سے استزلال کی گنجائش ہوگی، لیکن جب ان میں سے ہر ایک کے حصے کے متعلق اختلاف ہوگاتو پھر اس صورت میں ہم کسی اور آیت سے اس اجمال کے بیان کے ذریعے استدلال کریں گے۔- اگریہ کہاجائے کہ قول باری ہے (نصیبامفروضا) اور چونکہ ذوی الارحام کے لیے حصے مقرر نہیں ہیں۔ تو اس سے ہمیں معلوم ہوگیا کہ وہ اس آیت کے حکم میں داخل ہی نہیں ہیں اور نہ ہی مراد ہیں۔ اس کے جواب میں کہاجائے گا کہ آپ کی مذکورہ بالادلیل انہیں آیت کے حکم سے اور آیت میں مراد ہونے سے خارج نہیں کرسکتی ، اس لیے کہ ان کی میراث کو واجب کرنے والوں کے نزدیک ان کے لیے آیت سے جو چیزواجب ہوتی ہے وہ ان میں سے ہر ایک کے لیے ایک مقررحصہ ہے اور یہ حصہ اس طرح معلوم ہے جیسا کہ ذوی الفروض کے حصص معلوم ہیں اس لحاظ سے ذوی الفروض اور ذوی الارحام میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تو صرف یہ بیان فرمادیا ہے کہ مردوں اور عورتوں میں سے ہر ایک کے لیے ایک مقررحصہ ہے۔ لیکن آیت میں اس کی مقداربیان نہیں ہوئی ہے۔ اس بناپر آیت اس بات کا ارشارہ دے رہی ہے کہ آئندہ آیتوں میں اس کا بیان اور اس کی مقدار کا ذکرآنے والا ہے۔ پھر جس طرح والدین اولاد اور دیگر ذوالفروض کے حصوں کے سلسلے بیان اور تفصیل کا دردوہوگیا، جس کی صورت یہ ہے کہ ان میں سے بعض کا ذکر نص قرآنی میں ہے، بعض کا احادیث رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں، اور بعض کا اثبات اجماع امت کی بناپر اوربعض کا قیاس کی بناپ رہے، ٹھیک اسی طرح ذوالارحام کے حصوں کا بیان بھی واردہوا ہے۔ جس کی صورت یہ ہے کہ بعض کا ذکر سنت رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں ہے، بعض کا اثبات دلیل کتاب اللہ سے ہوا، اور اور بعض کا اتفاق امت کی بناپر ہوا ہے۔ اس لیے کہ آیت نے ذوی الارحام کے لیے حصے واجب کردیئے تھے اس لیے ان کے متعلق آیت کے عموم کو ساقط کردینا جائز نہیں تھا بلکہ انہیں وارث قراردینا واجب تھا۔ پھر جب یہ میراث کے مستحق قرارپائے تو ان کے لیے مقررحصوں سے ہی واجب ہوگا۔ جیسا کہ ان کی میراث کے قائلین کا مسلک ہے۔ یہ حضرات اگرچہ بعض کے حصوں کے متعلق اختلاف رائے رکھتے ہیں لیکن بعض کے بارے میں ان میں اتفاق رائے بھی پایاجاتا ہے۔ نیز جن حصص کے متعلق ان کے درمیان اختلاف رائے ہے ان میں بھی کوئی قول کتاب اللہ کی دلیل سے خالی نہیں ہے، جس کے ذریعے کوئی نہ کوئی حکم ثابت ہوجاتا ہے۔- پس منظ رہے وہ یہ کہ زمانہ جاہلیت میں لوگ صرف مردوں کو وارث قراردیتے تھے اور عورتوں کو وراثت سے محروم رکھتے تھے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ ان دو کے علاوہ دوسرے مفسرین کا قول ہے کہ عرب کے لوگ صرف اس شخص کو وارث بناتے تھے جو جنگ کے موقعہ پر نیزہ بازی کے جو ہر دکھا سکتا اور جس میں اپنی ناموس یعنی عورتوں اور مال مویشی کے دفاع اور حافاظت کی صلاحیت ہوتی اس پر اللہ تعالیٰ نے ان کے اس اصول کے ابطال کے لیے یہ آیت نازل کی۔ اس بناپر اس آیت کے عموم کا اس پس منظر کے سوادوسری صورتوں میں اعتبارکرنادرست نہیں ہے۔ اس کے جواب میں کہاجائے گا کہ معترض کی یہ بات کئی وجوہ سے غلط ہے۔- ان میں سے ایک یہ ہے کہ جس پس منظر اور سبب کا معترض نے ذکرکیا ہے وہ اولاد اور ذوی الفروض رشتہ داروں تک محدود نہیں ہے۔ جن کا حکم اللہ تعالیٰ نے دوسری آیتوں میں بیان فرمایا ہے بلکہ اصل سبب یہ ہے کہ زمانہ جاہلیت میں لوگ مردوں کو وراثت کا حق دیتے تھے عورتوں کو محروم رکھتے تھے۔ اس بناپریہ ممکن ہے کہ وہ ذوی الارحام مردوں کو وارثت بناتے ہوں۔ اور ذوی الارحام عورتوں کو محروم رکھتے ہوں۔ اس لیے معترض کی ذکرکر دہ وجہ اس بات کی دلیل نہیں ہے۔ آیت کے نزول کا پس منظر اورسبب اولاد کی نیزان رشتہ داروں کی توریث ہے جنہیں اللہ تعالیٰ نے آیت میراث میں ذوی الفروض قراردیا ہے۔- ایک اور پہلو سے غور کیجئے، اگر آیت کا نرول کسی خاص سبب کی بناپرہوتا تو یہ لفظ کے عموم کی تخصیص کو واجب نہ کرتابل کہ ہمارے نزدیک عموم کا اعتبار کیا جاتا اور اس کا حکم تسلیم کیا جاتا سبب کا اعتبار نہیں کیا جاتا اس لیے کسی سبب کی بناء پر آیت کے نزول اور بلاسبدب ازخودنزول کی حیثیت یکساں ہے۔ نیز اللہ تعالیٰ نے اولاد کے ساتھ دوسرے رشتہ داروں کا بھی ذکر فرمایا ہے۔ قول باری ہے (مماترک الوالدان والاقربون) اس سے ہمیں یہ بات معلوم ہوئی کہ اس آیت میں دوسرے تمام رشتہ داروں کو نظراندازکرکے صرف اولاد کی میراث مراد نہیں ہے اس آیت سے دادا کے ساتھ بھائیوں اور بہنوں کو وارث قراردینے کے سلسلے میں استدلال کیا جاتا ہے۔ جس طرح ذوالارحام کو وارث قراردینے میں ہم اس سے استدلال کرتے ہیں۔- فرض اور واجب میں لطیف فرق - قول باری (نصبیبامفروضا) کا مطلب ۔ واللہ اعلم۔ معلوم ومقررحصہ ہے۔ کہاگیا ہے کہ فرض کے اصل معنی نشان اور علامت کے طورپر جوئے کے تیروں میں سوراخ کردینے کے ہیں تاکہ اس کی وجہ سے وہ دوسرے تیروں سے الگ رہیں۔ الفرضۃ، اس علامت کو کہتے ہیں جو گھاٹ یاچشمے پر پانی کے حصے میں لگادی جاتی ہے۔ تاکہ اس کے ذریعے ہر حقدارپانی میں اپنا حصہ معلوم کرلے۔ فرض کے یہ لغوی معنی ہیں پھر شریعت میں معلوم اور مقررمقداروں یا ثابت اور لازم امورپر اس لفظ کا اطلاق ہونے لگا۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ اس کے اصل معنی ثبوت کے ہیں۔ اس بناپرکمان کے سرے پرجوشگاف ہوتا ہے ۔ اسے فرض کہاجاتا ہے اس لیے کہ یہ شگاف باقی رہتا ہے۔- شریعت میں فرض ان ہی دومعنوں میں بٹا ہوا ہے۔ جب اس لفظ سے وجوب مراد لیا جائے گا، تو اس صورت میں مفروض یعنی فرض شدہ امرایجاب کے سب سے اونچے درجے پر ہوگا۔ شریعت میں فرض اور واجب کے معنوں میں بہت وجوہ کی بناء پر اہل علم کے درمیان اختلاف ہے، اگرچہ ہر مفروض اس لحاط سے واجب ہوتا ہے کہ فرض اس کا مقتضی تھا کہ اس کا کوئی فرض کرنے والا نیز کوئی موجوب موجود ہو۔ واجب کی یہ حیثیت نہیں ہے کیونکہ یہ بعض دفعہ خودبخود واجب ہوجاتا ہے اور اس کا موجب موجود نہیں ہوتا۔- آپ نہیں دیکھتے کہ یہ کہنا تو درست ہوتا ہے کہ فرمانبرداروں کا ثواب اللہ پر اس کی حکمت کی رو سے واجب ہے، لیکن یہ کہنا درست نہیں ہے کہ اللہ پر یہ فرض ہے۔ کیونکہ فرض کسی فارض افرض کرنے والے) کا مقتضی ہے۔ اس کے برعکس اللہ کی حکمت کی رو سے یہ واجب ہوتا ہے، لیکن یہ کسی موجوب (واجب کرنے والے کا مقتضی نہیں ہوتا۔ لغت میں وجوب کے معنی سقوط یعنی گرجانے کے ہیں۔ جب سورج غائب ہوجائے تو کہاجاتا ہے۔۔ وجبت الشمس، اسی طرح جب دیوارگرجائے توکہاجاتا ہے، وجب الحائط، کسی چیز کے گرنے کی آواز پر کہاجاتا ہے۔ سمعت وجبۃ، (میں نے گرنے کی آوازسنی) ارشادباری ہے (فاذاجبت جنوبھا، جب ان ذبح شدہ قربانی کے جانوروں کے پہلوگرجائیں) یعنی زمین سے لگ جائیں ۔ درج بالاتشربجات کے لحاظ سے لغت میں فرض اپنی اثرانگیزی میں واجب سے بڑھ کرہوتا ہے شریعت میں بھی ان دونوں کے حکموں کی یہی حیثیت ہے۔ اس لیے کہ تیر کے سرے پر پڑا ہواشگاف اثر اورلشان کے لحاظ سے ثابت اور باقی رہتا ہے جبکہ وجوب کی یہ کیفیت نہیں ہوتی۔
(٧۔ ٨) زمانہ جاہلیت میں لوگ لڑکیوں اور عورتوں کو میراث میں سے کچھ نہیں دیتے تھے، اس لیے اللہ تعالیٰ مردوں اور عورتوں کے اصول (حصوں) کو بیان فرماتے ہیں کہ میراث خواہ کم ہو یا زیادہ ان کے لیے ایک متعین حصہ میراث میں مقرر ہے اور ان کی لڑکیوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے، ان کا چچا تھا جس نے انہیں میراث میں سے کچھ نہیں دیا تھا اور تقسیم میراث کے وقت جب میت کے ایسے رشتہ دار جن کا میراث میں کوئی حصہ نہ ہو اور اگر کوئی مسلمان یتیم اور مسلمان فقرا بھی اس وقت آجائیں تو ان کو بھی تقسیم سے قبل بطور استجاب (نیکی) کچھ دے دیا کرو اور اگر نابالغوں کا مال ہو تو ان لوگوں کو تسلی دے کر نرمی کے ساتھ ٹال دیا کرو۔- شان نزول : (آیت) ” للرجال نصیب “۔ (الخ)- ابو الشیخ (رح) اور ابن حبان (رح) نے ” کتاب الفرائض “ میں بواسطہ کلبی (رح) ، ابوصالح (رح) ، ابن عباس (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ دور جاہلیت میں لوگ نابالغ لڑکوں اور لڑکیوں کو میراث میں سے کچھ نہیں دیتے تھے، انصار میں سے اوس بن ثابت نامی ایک شخص کا انتقال ہوا اور اس نے دو چھوٹے لڑکے اور دو چھوٹی لڑکیاں چھوڑیں، اس کے دو چچا زاد بھائی خالد اور عرفطہ آئے اور فرمایا میں کیا جواب دوں، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ مردوں کے لیے بھی حصہ ہے۔
آیت ٧ ( لِلرِّجَالِ نَصِیْبٌ مِّمَّا تَرَکَ الْوَالِدٰنِ وَالْاَقْرَبُوْنَ ) (وَلِلنِّسَآءِ نَصِیْبٌ مِّمَّا تَرَکَ الْوَالِدٰنِ وَالْاَقْرَبُوْنَ ) - یہاں اب پہلی مرتبہ عورتوں کو وراثت کا حق دیا جا رہا ہے ‘ ورنہ قبل از اسلام عرب معاشرے میں عورت کا کوئی حق وراثت نہیں تھا۔ َ - ( مِمَّا قَلَّ مِنْہُ اَوْ کَثُرَ ط) - اللہ تعالیٰ کا قانون اس پر ہر صورت میں پوری طرح نافذ ہونا چاہیے۔- ( نَصِیْبًا مَّفْرُوْضًا ) - آگے آپ دیکھیں گے کہ اس قانون وراثت کی کس طرح بار بار تاکید آرہی ہے۔ ساتھ ہی آپ یہ بھی دیکھتے رہیں کہ ہمارے معاشرے کے اندر اللہ تعالیٰ کے اس حکم کی کس طرح دھجیاں بکھرتی ہیں۔ خاص طور پر ہمارے شمالی علاقے میں ویسے تو نماز روزہ کا بہت اہتمام ہوتا ہے ‘ لیکن وہاں کے لوگ بیٹیوں کو وراثت میں حصہ دینے کو کسی صورت تیار نہیں ہوتے ‘ بلکہ اپنے رواج کی پیروی کرتے ہیں۔ شریعت کی کچھ چیزیں بہت اہم ہیں اور قرآن میں ان کا حکم انتہائی تاکید کے ساتھ آتا ہے۔
سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :12 اس آیت میں واضح طور پر پانچ قانونی حکم دیے گئے ہیں: ایک یہ کہ میراث صرف مردوں ہی کا حصہ نہیں ہے بلکہ عورتیں بھی اس کی حق دار ہیں ۔ دوسرے یہ کہ میراث بہرحال تقسیم ہونی چاہیے خواہ وہ کتنی ہی کم ہو ، حتٰی کہ اگر مرنے والے نے ایک گز کپڑا چھوڑا ہے اور دس وارث ہیں تو اسے بھی دس حصوں میں تقسیم ہونا چاہیے ۔ یہ اور بات ہے کہ ایک وارث دوسرے وارثوں سے ان کا حصہ خرید لے ۔ تیسرے اس آیت سے یہ بات بھی مترشح ہوتی ہے کہ وارث کا قانون ہر قسم کے اموال و املاک پر جاری ہوگا ۔ خواہ وہ منقولہ ہوں یا غیر منقولہ ، زرعی ہوں یا صنعتی یا کسی اور صنف مال میں شمار ہوتے ہوں ۔ چوتھے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ میراث کا حق اس وقت پیدا ہوتا ہے جب مورث کوئی مال چھوڑ مرا ہو ۔ پانچویں اس سے یہ قاعدہ بھی نکلتا ہے کہ قریب تر رشتہ دار کی موجودگی میں بعید تر رشتہ دار میراث نہ پائے گا ۔
7: جاہلیت کے زمانے میں عورتوں کو میراث میں کوئی حصہ نہیں دیاجاتا تھا، آنحضرتﷺ کے سامنے ایسے واقعات پیش آئے کہ ایک شخص کا انتقال ہوا اور وہ بیوی اور نابالغ بچے چھوڑ کرگیا اور اس کے سارے ترکے پر اس کے بھائیوں نے قبضہ کرلیا، بیوی کو تو عورت ہونے کی وجہ سے میراث سے محروم رکھا گیا اور بچوں کو نابالغ ہونے کی وجہ سے کچھ نہ دیا گیا، اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی جس میں واضح کردیا گیا کہ عورتوں کو میراث سے محروم نہیں رکھا جاسکتا، اللہ تعالیٰ نے آگے ١١ سے شروع ہونے والے رکوع میں تمام رشتہ دار مردوں اور عورتوں کے حصے مقرر فرمادئے ہیں۔