Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

نافرمانوں کا حشر اور جو شخص اللہ تعالیٰ کی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کرے اور اس کی مقرر کی ہوئی حدوں سے آگے نکل جائے اسے وہ جہنم میں ڈال دے گا جس میں ہمیشہ رہے گا ایسوں کے لئے اہانت کرنے والا عذاب ہے ، یعنی یہ فرائض اور یہ مقدار جسے اللہ تعالیٰ نے مقرر کیا ہے اور میت کے وارثوں کو ان کی قرابت کی نزدیگی اور ان کی حاجت کے مطابق جتنا جسے دلوایا ہے یہ سب اللہ ذوالکرم کی حدود ہیں تم ان حدوں کو نہ توڑو نہ اس سے آگے بڑھو ۔ جو شخص اللہ عزوجل کے ان احکام کو مان لے ، کوئی حیلہ حوالہ کر کے کسی وارث کو کم بیش دلوانے کی کوشش نہ کرے حکم الہ اور فریضہ الہ جوں کا توں بجا لائے اللہ کا وعدہ ہے کہ وہ اسے ہمیشہ لینے والی نہروں کی جنت میں داخل کرے گا ، یہ کامیاب نصیب ور اور مقصد کو پہنچنے والا اور مراد کو پانے والا ہو گا ، اور جو اللہ کے کسی حکم کو بدل دے کسی وارث کے ورثے کو کم و بیش کر دے رضائے الٰہی کو پیش نظر نہ رکھے بلکہ اس کے حکم کو رد کر دے اور اس کے خلاف عمل کرے وہ اللہ کی تقسیم کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتا اور اس کے حکم کو عدل نہیں سمجھتا تو ایسا شخص ہمیشہ رہنے والی رسوائی اور اہانت والے درد ناک اور ہیبت ناک عذابوں میں مبتلا رہے گا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ایک شخص ستر سال تک نیکی کے عمل کرتا رہتا ہے پھر وصیت کے وقت ظلم و ستم کرتا ہے اس کا خاتمہ برے عمل پر ہوتا ہے اور وہ جہنمی بن جاتا ہے اور ایک شخص برائی کا عمل ستر سال تک کرتا رہتا ہے پھر اپنی وصیت میں عدل کرتا ہے اور خاتمہ اس کا بہتر ہو جاتا ہے تو جنت میں داخل جاتا ہے ، پھر اس حدیث کے راوی حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں اس آیت کو پڑھو آیت ( تِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ ۭ وَمَنْ يُّطِعِ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ يُدْخِلْهُ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْھَا ۭ وَذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ 13؀ وَمَنْ يَّعْصِ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ وَيَتَعَدَّ حُدُوْدَهٗ يُدْخِلْهُ نَارًا خَالِدًا فِيْھَا ۠ وَلَهٗ عَذَابٌ مُّهِيْنٌ 14؀ۧ ) 4 ۔ النسآء:13-14 ) سے عذاب ( مہین ) تک ۔ سنن ابی داؤد کے باب الاضرار فی الوصیتہ میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ایک مرد یا عورت اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں ساٹھ سال تک لگے رہے ہیں پھر موت کے وقت وصیت میں کوئی کمی بیشی کر جاتے ہیں تو ان کے لئے جہنم واجب ہو جاتی ہے پھر حضرت ابو ہریرہ نے آیت ( من بعد وصیتہ ) سے آخر آیت تک پڑھی ترمذی اور ابن ماجہ میں بھی یہ حدیث ہے ، امام ترمذی اسے غریب کہتے ہیں ، مسند احمد میں یہ حدیث تمام و کمال کے ساتھ موجود ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

تِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ ۔۔ : اللہ تعالیٰ نے وراثت کو حدود اللہ قرار دیا اور اس حکم کی اطاعت پر جنت اور فوز عظیم کا وعدہ فرمایا ہے اور نافرمانی اور حدود اللہ کی پامالی کی صورت میں ہمیشہ کی آگ اور عذاب مہین کی سزا سنائی ہے افسوس کہ بڑے بڑے بظاہر متقی لوگ بھی بہنوں کو ان کا حصہ نہیں دیتے اکثر لوگ کوشش کرتے ہیں کہ جائداد بیٹوں کو دے دیں اور بیٹیوں کو محروم کردیں اسی طرح اگر کوئی وارث کمزور ہو تو اسے بھی وراثت سے حصہ نہیں دیتے ان سب کو اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش ہونے اور اس کے رسوا کن عذاب اور ہمیشہ کی آگ سے ڈرنا چاہیے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - ربط آیات :- میراث کے مذکورہ احکام بیان کرنے کے بعد ان دو آیتوں میں ان احکام کو ماننے اور ان پر عمل کرنے کی فضیلت اور نافرمانی کرنے کی بری عاقبت کا بیان ہے، جس سے احکام مذکورہ کی اہمیت مقصود ہے۔- یہ سب احکام مذکورہ (متعلقہ میراث یا مع احکام یتامی کے) خداوندی ضابطے ہیں اور جو شخص اللہ اور رسول کی پوری اطاعت کرے گا (یعنی ان ضابطوں کی پابندی کرے گا) اللہ تعالیٰ اس کو ایسی بہشتوں میں (فوراً ) داخل کردیں گے جن کے (محلات کے) نیچے نہریں جاری ہوں گی، ہمیشہ ہمیشہ ان میں رہیں گے اور یہ بڑی کامیابی ہے اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول کا کہنا نہ مانے گا اور بالکل ہی اس کے ضابطوں سے نکل جاوے گا، (یعنی پابندی کو ضرروی بھی نہ سمجھے گا اور یہ حالت کفر کی ہے) اس کو (دوزخ کی) آگ میں داخل کریں گے، اس طور سے کہ وہ اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہے گا اور اس کو ایسی سزا ہوگی جس میں ذلت بھی ہے۔ “- معارف و مسائل - قرآن کریم کا یہ اسلوب ہے کہ احکام و عقائد کے بیان کے بعد تتمہ کے طور پر ماننے والوں کے لئے ترغیب اور ان کی فضیلت کا ذکر ہوتا ہے اور نہ ماننے والوں کے لئے ترہیب و سزا اور ان کی مذمت مذکور ہوتی ہے۔- یہاں بھی چونکہ احکام کا ذکر تھا اس لئے آخر کی ان دو آیتوں میں اطاعت کرنیوالوں اور نافرمانوں کے نتائج کا ذکر کردیا گیا۔- تکملہ احکام میراث - مسلمان کافر کا وارث نہیں بن سکتا :۔ - اگرچہ میراث کی تقسیم نسبی قرابت پر رکھی گئی ہے، لیکن اس میں سے بعض چیزیں مستثنیٰ ہیں، اول یہ کہ مورث اور وارث دو مختلف دین والے نہ ہوں لہٰذا مسلمان کسی کافر کا اور کافر کسی مسلمان کا وارث نہیں ہوگا خواہ ان میں آپس میں کوئی بھی نسبی رشتہ ہو، حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :- ” یعنی مسلمان کافر کا اور کافر مسلمان کا وارث نہیں بن سکتا۔ “- یہ حکم اس صورت سے متعلق ہے جب کہ پیدائش کے بعد ہی سے کوئی شخص مسلم یا کافر ہو، لیکن اگر کوئی شخص پہلے مسلمان تھا، پھر العیاذ باللہ اسلام سے پھر گیا اور مرتد ہوگیا، اگر ایسا شخص مر جائے یا مقتول ہوجائے تو اس کا وہ مال جو اسلام کے زمانہ میں کسب کیا تھا، اس کے مسلمان وارثوں کو ملے گا اور جو ارتداد کے بعد کمایا ہو وہ بیت المال میں جمع کردیا جائے گا۔- لیکن اگر عورت مرتد ہوگئی تو اس کا کل مال خواہ زمانہ اسلام میں حاصل ہوا ہو یا زمانہ ارتداد میں، اس کے مسلمان وارثوں کو ملے گا لیکن خود مرتد مرد ہو یا عورت اس کو نہ کسی مسلمان سے میراث ملے گی نہ کسی مرتد سے۔- قاتل کی میراث :۔- اگر کوئی شخص ایسے آدمی کو قتل کر دے جس کے مال میں اس کو میراث پہنچتی ہو تو یہ قاتل اس شخص کی میراث سے محروم ہوگا۔ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے :- القاتل لایرث (مشکوة، ص ٣٦٢) ” یعنی قاتل وارث نہیں ہوگا۔ “ البتہ قتل خطا کی بعض صورتیں اس سے مستثنی ہیں (تفصیل فقہ کی کتابوں میں ہے۔ )- پیٹ میں جو بچہ ہے اس کی میراث :۔- اگر کسی شخص نے اپنی کچھ اولاد چھوڑی اور بیوی کے پیٹ میں بھی بچہ ہے۔ تو یہ بچہ بھی وارثوں کی فہرست میں آئے گا، لیکن چونکہ یہ پتہ چلانا دشوار ہے کہ پیٹ میں لڑکا ہے یا لڑکیاں یا ایک سے زیادہ بچے ہیں اس لئے بچہ پیدا ہونے تک تقسیم میراث ملتوی رکھنا مناسب ہوگا اور اگر تقسیم کرنا ضروری ہی ہو تو سردست ایک لڑکا یا ایک لڑکی فرض کر کے دونوں کے اعتبار سے دو صورتیں فرض کی جائیں، ان دونوں صورتوں میں سے جس صورت میں ورثاء کو کم ملتا ہو وہ ان میں تقسیم کردیا جائے اور باقی اس حمل کے لئے رکھا جائے۔- معتدہ کی میراث :۔- جس شخص نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی اور طلاق رجعی ہے، پھر طلاق سے رجوع اور عدت ختم ہونے سے پہلے وفات پا گیا، تو یہ عورت میراث میں حصہ پاوے گی، اس لئے کہ نکاح باقی ہے۔- اور اگر کسی شخص نے مرض الوفات میں بیوی کو طلاق دی، اگرچہ طلاق بائن یا مغلظہ ہی ہو اور عدت ختم ہونے سے پہلے پہلے مرے گا، تب بھی وہ عورت اس کی وارث ہوگی اور عورت کو وارث بنانے کی وجہ سے دو عدتوں میں سے جو سب سے زیادہ دراز ہو اسی کو اختیار کیا جائے گا، جس کی مختصر تشریح یہ ہے کہ :- عدت طلاق تین حیض ہے اور عدت وفات چار مہینہ دس دن ہے، ان دونوں میں عدت زیادہ دنوں کی ہو اسی کو عدت قرار دیا جائے گا، تاکہ جہاں تک ممکن ہو عورت کا حصہ مل سکے۔- اور اگر کسی شخص نے مرض الوفات سے پہلے بائن یا مغلظہ طلاق دی اور اس کے چند دن بعد عورت کی عدت میں وہ فوت ہوگیا، تو اس صورت میں اس کو میراث میں سے حصہ نہیں ملے گا، البتہ اگر طلاق رجعی دی ہے تو وہ وارث ہوگی۔- مسئلہ :۔ اگر کسی عورت نے شوہر کے مرض وفات میں خود سے خلع کرلیا تو وارث نہیں ہوگی، اگرچہ اس کا شوہر اس کی عدت کے دوران مر جائے۔- عصبات کی میراث :۔ - فرائض کے مقررہ حصے بارہ ورثاء کے لئے طے شدہ ہیں اور ان وارثوں کو اصحاب الفروض کہا جاتا ہے، جن کی تفصیل کسی قدر اوپر گذر چکی، اگر اصحاب الفروض میں سے کوئی نہ ہو، یا اصحاب الفروض کے حصے دیدینے کے بعد کچھ مال بچ جائے تو وہ عصبہ کو دے دیا جائے گا، اور بعض مرتبہ ایک ہی شخص کو دونوں حیثیتوں سے مال مل جاتا ہے، بعض صورتوں میں میت کی اولاد اور میت کا والد بھی عصبہ ہوجاتے ہیں، دادا کی اولاد یعنی چچا اور باپ کی اولاد یعنی بھائی بھی عصبہ رہ جاتے ہیں۔- عصبات کی کئی قسمیں ہیں جن کی تفصیلات فرائض کی کتابوں میں موجود ہیں، یہاں ایک مثال لکھی جاتی ہے، مثلاً زید فوت ہوگیا اور اس نے اپنے پیچھے چار وارث چھوڑے، بیوی لڑکی، ماں اور چچا، تو اس کے مال کے کل چوبس حصے کئے جائیں گے، جن میں سے آدھا یعنی بارہ حصے لڑکی کو ٨ ١ کے حساب سے تین حصے بیوی کو ٦ ١ کے حساب سے چار حصے ماں کو اور بقیہ پانچ حصے جو بچے وہ عصبہ ہونے کی حیثیت سے چچا کو ملیں گے۔- مسئلہ :۔ عصباب اگر نہ ہوں تو اصحاب فرائض سے جو مال بچے وہ ان کے حصوں کے مطابق انہی کو دے دیا جاتا ہے اور وہ اس کو علم فرائض کی اصطلاح میں رد کہتے ہیں۔ البتہ شوہر اور بیوی پر رد نہیں ہوتا، کسی حال میں ان کو مقررہ حصے سے زیادہ نہیں دیا جاتا۔ - مسئلہ :۔ اگر اصحاب فروض میں سے کوئی نہ ہو اور عصبات میں بھی کوئی نہ ہو تو ذوی الارحام کو میراث پہنچ جاتی ہے، ذوی الارحام کی فہرست طویل ہے، نو اسے، نواسیاں، بہنوں کی اولاد، پھوپھیاں، ماموں، خالہ، یہ لوگ ذوی الارحام کی فہرست طویل ہے، نواسے، نواسیاں، بہنوں کی اولاد، پھوپھیاں، ماموں، خالہ، یہ لوگ ذوی الارحام کی فہرست میں آتے ہیں اور اس مسئلہ میں تفصیل ہے، جس کا یہ محل نہیں، یہاں نہیں، یہاں اسی پر اکتفاء کیا جاتا ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

تِلْكَ حُدُوْدُ اللہِ۝ ٠ ۭ وَمَنْ يُّطِعِ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ يُدْخِلْہُ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْھَا۝ ٠ ۭ وَذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ۝ ١٣- حدَّ- الحدّ : الحاجز بين الشيئين الذي يمنع اختلاط أحدهما بالآخر، يقال : حَدَدْتُ كذا :- جعلت له حدّا يميّز، وحَدُّ الدار : ما تتمیز به عن غيرها، وحَدُّ الشیء : الوصف المحیط بمعناه المميّز له عن غيره، وحَدُّ الزنا والخمر سمّي به لکونه مانعا لمتعاطيه من معاودة مثله، ومانعا لغیره أن يسلک مسلکه، قال اللہ تعالی: وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ وَمَنْ يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ- [ الطلاق 1] ، وقال تعالی: تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ فَلا تَعْتَدُوها [ البقرة 229] ، وقال : الْأَعْرابُ أَشَدُّ كُفْراً وَنِفاقاً وَأَجْدَرُ أَلَّا يَعْلَمُوا حُدُودَ ما أَنْزَلَ اللَّهُ [ التوبة 97] ، أي : أحكامه، وقیل : حقائق معانيه، و جمیع حدود اللہ علی أربعة أوجه :- إمّا شيء لا يجوز أن يتعدّى بالزیادة عليه ولا القصور عنه، كأعداد رکعات صلاة الفرض .- وإمّا شيء تجوز الزیادة عليه ولا تجوز النقصان عنه - وإمّا شيء يجوز النقصان عنه ولا تجوز الزیادة عليه .- وإمّا شيء يجوز کلاهماوقوله تعالی: إِنَّ الَّذِينَ يُحَادُّونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المجادلة 5] ، أي : يمانعون، فذلک إمّا اعتبارا بالممانعة وإمّا باستعمال الحدید . - ( ح د د ) الحد - جو دو چیزوں کے درمیان ایسی روک جو ان کو با ہم ملنے سے روک دے حدرت کذا میں نے فلاں چیز کے لئے ھڈ ممیز مقرر کردی ۔ حدالداد مکان کی حد جس کی وجہ سے وہ دوسرے مکان سے ممیز ہوتا ہے ۔ حد الشیء کسی چیز کا وہ وصف جو دوسروں سے اسے ممتاز کردے اور زنا و شراب کی سزا کو بھی حد اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ اس کا دوبارہ ارتکاب کرنے سے انسان کو روکتی ہے ۔ اور دوسروں کو بھی اس قسم کے جرائم کا ارتکاب کرنے سے روک دیتی ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ وَمَنْ يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ [ الطلاق 1] اور یہ خدا کی حدیں ہیں ۔ جو خدا کی حدود سے تجاوز کرے گا ۔ تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ فَلا تَعْتَدُوها [ البقرة 229] یہ خدا کی مقرر کی ہوئی حدیں ہیں ان سے تجاوز مت کرو ۔ اور آیت کریمہ ؛ الْأَعْرابُ أَشَدُّ كُفْراً وَنِفاقاً وَأَجْدَرُ أَلَّا يَعْلَمُوا حُدُودَ ما أَنْزَلَ اللَّهُ [ التوبة 97] دیہاتی لوگ سخت کافر اور سخت منافق ہیں اور اس قابل ہیں کہ یہ جو احکام ( شریعت ) خدا نے نازل فرمائے ہیں ان سے واقف ( ہی ) نہ ہوں ۔ میں بعض نے حدود کے معنی احکام کئے ہیں اور بعض نے کہا ہے کہ حقائق و معانی مراد ہیں ۔ جملہ حدود الہی چار قسم پر ہیں - ۔ ( ا) ایسے حکم جن میں نقص و زیادہ دونوں جائز ہوتے ہیں جیسے فرض نمازوں میں تعداد رکعات کو جو شارع (علیہ السلام) نے مقرر کردی ہیں ان میں کمی بیشی قطعا جائز نہیں ہے (2) وہ احکام جن میں اضافہ تو جائز ہو لیکن کمی جائز نہ ہو (3) وہ احکام جو اس دوسری صورت کے برعکس ہیں یعنی ان کمی تو جائز ہے لیکن ان پر اضافہ جائز نہیں ہے ۔ (4) اور آیت کریمہ : إِنَّ الَّذِينَ يُحَادُّونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المجادلة 5] جو لوگ خدا اور اسکے رسول کی مخالفت کرتے ہیں ۔ یحادون کے معنی اللہ رسول کی مخالفت کے ہیں اور اس مخالف کو یحدون کہنا یا تو روکنے کے اعتبار سے ہے اور یا الحدید کے استعمال یعنی جنگ کی وجہ سے - طوع - الطَّوْعُ : الانقیادُ ، ويضادّه الكره قال عزّ وجلّ : ائْتِيا طَوْعاً أَوْ كَرْهاً [ فصلت 11] ، وَلَهُ أَسْلَمَ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً [ آل عمران 83] ، والطَّاعَةُ مثله لکن أكثر ما تقال في الائتمار لما أمر، والارتسام فيما رسم . قال تعالی: وَيَقُولُونَ طاعَةٌ [ النساء 81] ، طاعَةٌ وَقَوْلٌ مَعْرُوفٌ [ محمد 21] ، أي : أَطِيعُوا، وقد طَاعَ له يَطُوعُ ، وأَطَاعَهُ يُطِيعُهُ - قال تعالی: وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ [ التغابن 12] ، مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطاعَ اللَّهَ [ النساء 80] ، وَلا تُطِعِ الْكافِرِينَ [ الأحزاب 48] ، وقوله في صفة جبریل عليه السلام : مُطاعٍ ثَمَّ أَمِينٍ [ التکوير 21] ، والتَّطَوُّعُ في الأصل : تكلُّفُ الطَّاعَةِ ، وهو في التّعارف التّبرّع بما لا يلزم کالتّنفّل، قال : فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْراً فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ [ البقرة 184] ، وقرئ :( ومن يَطَّوَّعْ خيراً )- ( ط و ع ) الطوع - کے معنی ( بطیب خاطر ) تابعدار ہوجانا کے ہیں اس کے بالمقابل کرھ ہے جس کے منعی ہیں کسی کام کو ناگواری اور دل کی کراہت سے سر انجام دینا ۔ قرآن میں ہے : ۔ ائْتِيا طَوْعاً أَوْ كَرْهاً [ فصلت 11] آسمان و زمین سے فرمایا دونوں آؤ دل کی خوشی سے یا ناگواري سے وَلَهُ أَسْلَمَ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً [ آل عمران 83] حالانکہ سب اہل آسمان و زمین بطبیب خاطر یا دل کے جبر سے خدا کے فرمانبردار ہیں ۔ یہی معنی الطاعۃ کے ہیں لیکن عام طور طاعۃ - کا لفظ کسی حکم کے بجا لانے پر آجاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَيَقُولُونَ طاعَةٌ [ النساء 81] اور یہ لوگ منہ سے تو کہتے ہیں کہ ہم دل سے آپ کے فرمانبردار ہیں ۔ طاعَةٌ وَقَوْلٌ مَعْرُوفٌ [ محمد 21]( خوب بات ) فرمانبردار ی اور پسندیدہ بات کہنا ہے ۔ کسی کی فرمانبرداری کرنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ [ التغابن 12] اور اس کے رسول کی فر مانبردار ی کرو ۔ مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطاعَ اللَّهَ [ النساء 80] جو شخص رسول کی فرمانبردار ی کرے گا بیشک اس نے خدا کی فرمانبرداری کی ۔ وَلا تُطِعِ الْكافِرِينَ [ الأحزاب 48] اور کافروں کا کہا نہ مانو ۔ اور حضرت جبریل (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : ۔ مُطاعٍ ثَمَّ أَمِينٍ [ التکوير 21] سردار اور امانتدار ہے ۔ التوطوع ( تفعل اس کے اصل معنی تو تکلیف اٹھاکر حکم بجالا نا کے ہیں ۔ مگر عرف میں نوافل کے بجا لانے کو تطوع کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْراً فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ [ البقرة 184] اور جو کوئی شوق سے نیکی کرے تو اس کے حق میں زیادہ اچھا ہے ۔ ایک قرات میں ومن یطوع خیرا ہے - رسل - أصل الرِّسْلِ : الانبعاث علی التّؤدة وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ومن الأنبیاء قوله : وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ [ آل عمران 144]- ( ر س ل ) الرسل - الرسل ۔ اصل میں اس کے معنی آہستہ اور نرمی کے ساتھ چل پڑنے کے ہیں۔ اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھیجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ اور کبھی اس سے مراد انبیا (علیہ السلام) ہوتے ہیں جیسے فرماٰیا وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ [ آل عمران 144] اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سے بڑھ کر اور کیا کہ ایک رسول ہے اور بس - دخل - الدّخول : نقیض الخروج، ويستعمل ذلک في المکان، والزمان، والأعمال، يقال : دخل مکان کذا، قال تعالی: ادْخُلُوا هذِهِ الْقَرْيَةَ [ البقرة 58]- ( دخ ل ) الدخول - ( ن ) یہ خروج کی ضد ہے ۔ اور مکان وزمان اور اعمال سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے کہا جاتا ہے ( فلاں جگہ میں داخل ہوا ۔ قرآن میں ہے : ادْخُلُوا هذِهِ الْقَرْيَةَ [ البقرة 58] کہ اس گاؤں میں داخل ہوجاؤ ۔- جَنَّةُ :- كلّ بستان ذي شجر يستر بأشجاره الأرض، قال عزّ وجل : لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ 15]- الجنۃ - ہر وہ باغ جس کی زمین درختوں کیوجہ سے نظر نہ آئے جنت کہلاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛ لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ 15]( اہل ) سبا کے لئے ان کے مقام بود باش میں ایک نشانی تھی ( یعنی دو باغ ایک دائیں طرف اور ایک ) بائیں طرف ۔ - حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ جنات جمع لانے کی وجہ یہ ہے کہ بہشت سات ہیں ۔ (1) جنۃ الفردوس (2) جنۃ عدن (3) جنۃ النعیم (4) دار الخلد (5) جنۃ المآوٰی (6) دار السلام (7) علیین ۔- جَرْي - : المرّ السریع، وأصله كمرّ الماء، ولما يجري بجريه . يقال : جَرَى يَجْرِي جِرْيَة وجَرَيَاناً. قال عزّ وجل : وَهذِهِ الْأَنْهارُ تَجْرِي مِنْ تَحْتِي [ الزخرف 51] وقال تعالی: جَنَّاتُ عَدْنٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهِمُ الْأَنْهارُ [ الكهف 31] ، وقال : وَلِتَجْرِيَ الْفُلْكُ [ الروم 46] ، وقال تعالی: فِيها عَيْنٌ جارِيَةٌ [ الغاشية 12] جریۃ وجریا وجریا نا کے معنی تیزی سے چلنے کے ہیں ۔ اصل میں یہ لفظ پانی اور پانی کی طرح چلنے والی چیزوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَهذِهِ الْأَنْهارُ تَجْرِي مِنْ تَحْتِي [ الزخرف 51] اور یہ نہریں جو میرے ( محلوں کے ) نیچے بہ رہی ہیں ۔ میری نہیں ہیں ۔ جَنَّاتُ عَدْنٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهِمُ الْأَنْهارُ [ الكهف 31] باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہیں ۔ وَلِتَجْرِيَ الْفُلْكُ [ الروم 46] اور تاکہ کشتیاں چلیں فِيها عَيْنٌ جارِيَةٌ [ الغاشية 12] اس میں چشمے بہ رہے ہوں گے - نهار - والنهارُ : الوقت الذي ينتشر فيه الضّوء، وهو في الشرع : ما بين طلوع الفجر إلى وقت غروب الشمس، وفي الأصل ما بين طلوع الشمس إلى غروبها . قال تعالی: وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ خِلْفَةً [ الفرقان 62]- ( ن ھ ر ) النھر - النھار ( ن ) شرعا طلوع فجر سے لے کر غروب آفتاب کے وقت گو نھار کہاجاتا ہے ۔ لیکن لغوی لحاظ سے اس کی حد طلوع شمس سے لیکر غروب آفتاب تک ہے ۔ قرآن میں ہے : وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ خِلْفَةً [ الفرقان 62] اور وہی تو ہے جس نے رات اور دن کو ایک دوسرے کے پیچھے آنے جانے والا بیانا ۔- خلد - الخُلُود : هو تبرّي الشیء من اعتراض الفساد، وبقاؤه علی الحالة التي هو عليها، والخُلُودُ في الجنّة : بقاء الأشياء علی الحالة التي عليها من غير اعتراض الفساد عليها، قال تعالی: أُولئِكَ أَصْحابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيها خالِدُونَ [ البقرة 82] ،- ( خ ل د ) الخلودُ ( ن )- کے معنی کسی چیز کے فساد کے عارضہ سے پاک ہونے اور اپنی اصلی حالت پر قائم - رہنے کے ہیں ۔ اور جب کسی چیز میں دراز تک تغیر و فساد پیدا نہ ہو۔ قرآن میں ہے : ۔ لَعَلَّكُمْ تَخْلُدُونَ [ الشعراء 129] شاید تم ہمیشہ رہو گے ۔ جنت میں خلود کے معنی یہ ہیں کہ اس میں تمام چیزیں اپنی اپنی اصلی حالت پر قائم رہیں گی اور ان میں تغیر پیدا نہیں ہوگا ۔ قرآن میں ہے : ۔ أُولئِكَ أَصْحابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيها خالِدُونَ [ البقرة 82] یہی صاحب جنت میں ہمشہ اسمیں رہیں گے ۔- فوز - الْفَوْزُ : الظّفر بالخیر مع حصول السّلامة . قال تعالی: ذلِكَ الْفَوْزُ الْكَبِيرُ [ البروج 11] ، فازَ فَوْزاً عَظِيماً [ الأحزاب 71] ، - ( ف و ز ) الفوز - کے معنی سلامتی کے ساتھ خیر حاصل کرلینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ ذلِكَ الْفَوْزُ الْكَبِيرُ [ البروج 11] یہی بڑی کامیابی ہے ۔ فازَ فَوْزاً عَظِيماً [ الأحزاب 71] تو بیشک بڑی مراد پایئکا ۔ یہی صریح کامیابی ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

(سابقہ آیت کی بقیہ تفسیر) - اے ابن آدم دوچیزیں ایسی ہیں جن میں سے کسی ایک پر بھی تجھے اختیار حاصل نہیں۔ ایک تو یہ کہ میں نے اس وقت تیرے مال تیرے لیے ایک حصہ رہنے دیا۔ جب میں نے تجھے پاک صاف کرنے کے لیے حلق میں تیری سانس کی آمدورفت کی جگہ کو اپنی گرفت میں کرلیا یعنی تیری روح قبض کرلی اور دوسری یہ کہ تیری وفات کے بعد میروں بندوں کی تیرے لیے دعائیں تجھ تک پہنچتی رہتی ہیں۔ )- اس روایت میں یہ بات بتائی گئی ہے کہ انسان کی وفات کے وقت اس کے مال کا ایک حصہ اس کا ہوتا ہے۔ سارامال اس کا نہیں ہوتا۔ یعنی وہ مال کے ایک حصے (تہائی) کا مالک ہوتا ہے جس میں وہ صدقہ یاوصیت کرسکتا ہے۔ سارے مال کا نہیں کرسکتا۔- ہمیں محمد بن احمد بن شیبہ نے روایت بیان کی، انہیں محمد بن صالح بن النطاح نے، انہیں عثمان نے کہ میں نے طلحہ بن عمرو سے سنا کہ انہیں عطاء نے حضرت ابوہر (رض) پرہ سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (ان اللہ اعطاکم ثلث اموالکم فی اخواعمارکم زیادۃ فی اعمالم، اللہ تعالیٰ نے آخری عمر میں تمہیں تمہارے تہائی مال کا مالک بنادیا ہے۔ اور یہ تمہارے اعمال میں ایک زائد چیزکا اضافہ ہے۔ )- ابوبکرجصاص کہتے ہیں کہ وہ روایات جو وصیت کو تہائی مال تک محدودرکھنے کی موجب ہیں ہمارے تردیک تواترکادرجہ رکھتی ہیں اور یہ تواترموجب علم ہے کیونکہاہل اسلام نے ان روایات کو قبول کیا ہے۔ اور یہ آیت وصیت میں اللہ تعالیٰ کے حکم کی مراد کو بیان کریت ہیں کہ وصیت تہائی مال تک محدود ہے۔- قول باری (من بعد وصیۃ یوصی بھا اؤدین) کی اس بات پر دلالت ہورہی ہے۔ کہ جس شخص کے ذمے کسی کا قرض نہ ہو اور اس نے وصیت بھی نہ کی ہوتوا س کا سارامال اس کے ورثاء کو مل جائے گا نیز یہ کہ اگر اس پر زندگی میں حج فرض ہوچکاہویاز کو اۃ عائد ہوچکی ہو تو ورثاء پر ان کی ادائیگی واجب نہیں ہوگی ہاں اگر وہ ان کی ادائیگی کی وصیت کرجائے تو ورثاء کے لیے تہائی مال کے اندرایساکرناضروری ہوگا۔ کفارات اور نذورکا بھی یہی حکم ہے۔- اگریہ کہاجائے کہ حج ایک دین ہے۔ اسی طرح مال میں عائدہونے والاہرفرض دین ہوتا ہے اس لیے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قبیلہ خثعم کی اس خاتون کو جس نے آپ سے اپنے باپ پر فرض ہونے والے حج کو اس کی طرف سے ادا کرنے کے متعلق پوچھا تھا۔ فرمایا تھا (أرأیتلوکان علی ابیک دین فقضیۃ اکان یجزئی، تمھارا کیا خیال ہے کہ اگر تمھارے باپ پر قرض ہوتا اور تم اسے اداکردیتیں۔- توآیا اس کی طرف سے ادانہ ہوجاتا) ۔- اس پر خاتون نے اثبات میں جواب دیا۔ اس پر آپ نے فرمایا ندین اللہ احق بالقضاء ، تو پھر اللہ کا دین اداکرنازیادہ ضروری ہے) اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس حج کو دین اللہ، کا نام دیا اور اس اسم یعنی دین کو ایک قید یعنی اللہ کے ساتھ مقید کرکے بیان فرمایا اس لیے اس مقید اسم میں اطلاق یعنی مطلق دین شامل نہیں ہوگا۔- جبکہ قول باری (من بعدوصیۃ یوصیبھا اؤدین) کا تقاضایہ ہے کہ ترکے کی تقسیم کی ابتداء اس چیز سے کی جائے جو علی الاطلاقدین کہلاتی ہے اس لیے اس کے تحت وہ دین نہیں آئے جسے صرف مقیدصورت میں دین کا نام دیاجاتا ہے۔- اس کی وجہ یہ ہے کہ لغت اور شرع میں بہت سے اسماء مطلق ہوتے ہیں اور بہت سے مقیدجس کی بناپر مطلق کو ان ہی چیزوں پر محمول کیا جاتا ہے جن پر ایک اسم علی الاطلاق واقع ہوتا ہے ہماری اس وضاحت کی بناپرجب آیت ان قرضوں کو شامل نہیں جو حق اللہ ہیں تو قول باری (من بعد وصیۃ یوصی بھا آؤدین) کا اقتضاء یہ ہے کہ جب مرنے والے نے کوئی وصیت نہیں کی اور اس کے ذمے کسی کا قرض بھی نہیں ہے۔ تو اس صورت میں اس کے ورثاء اس کے تمام ترکے کے مستحق ہوں گے۔- حضرت سعد (رض) کی گذشتہ روایت بھی اس پر دلالت کررہی ہے۔ اس لیے کہ انہوں نے پوچھا تھا کہ آیامیں اپنے سارے مال کا صدقہ کرسکتا ہوں ؟ ایک دوسری روایت کے الفاظ ہیں آیامیں اپنے سارے مال کی وصیت کرسکتا ہوں ؟ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جواب میں فرمایا تھا کہ تہائی مال بھی بہت زیادہ ہے۔ اس ارشاد میں آپ نے حج، زکواۃ اور اس طرح کے دوسرے حقوق اللہ کو مستثنیٰ نہیں کیا تھا۔ نیز تہائی مال سے زائد کے صدقے اور وصیت سے منع فرمادیا تھا۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ اگر مرنے والا اللہ کے ان حقوق کی ادائیگی کی وصیت کرجائے گا تو وہ بھی تہائی مال کے اندرجاری ہوگی۔- اس پر حضرت ابوہریر (رض) ہ کی گذشتہ روایت بھی دلالت کرتی ہے جس میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ، اللہ تعالیٰ نے آخری عمر میں تمہارے اموال میں سے تہائی حصہ تمہیں عطا کردیا اور یہ بات تمہارے اعمال میں ایک اور چیزکا اضافہ ہے اسی طرح اس پر حضرت ابن عمر (رض) کی گذشتہ روایت بھی دلالت کررہی ہے جس میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ تعالیٰ سے نقل کرتے ہوئے فرمایا کہ اے انسان میں نے جس وقت حلق میں تیرے سانس کی آمدورفت کی جگہ کو اپنی گرفت میں کرلیا اس وقت تیرے لیے تیرے مال میں سے ایک حصہ مقرر کردیا۔ یہ تمام روایات اس پر دلالت کرتی ہیں کہ مرنے والے کا اگرچہ فرض شدہ زکواۃ حج اور دوسری فرضی عبادات کے متعلق وصیت کرنا واجب ہے۔ لیکن اس وصیت کا جواز صرف تہائی مال کے اند رہے۔ - وارث کے لیے وصیت کرجانے کا بیان - ہمیں محمد بن ب کرنے روایت بیان کی، انہیں ابوداؤد ن، انہیں عبدالوہاب بن نجدہ نے انہیں ابن عیاش نے شرجیل بن مسلم سے انہوں نے کہا کہ میں نے حضرت ابوامامہ (رض) کو یہ کہتے ہوئے سنا تھا کہ میں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ۔- (ان اللہ قداعطی کل ذی حق حقہ فلاوصیۃ لوارث، اللہ تعالیٰ نے ہر حق دارکواس کا حق عطاکردیا ہے اس لیے وارث کیلیے کوئی وصیت نہ کی جائے۔ ) عمروبن خارجہ (رض) نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے آپ نے فرمایا (لاوصیۃ لوارث الاان تجزھا الورثۃ۔ ) کسی وارث کے لیے کوئی وصیت نہیں ہے الایہ کہ دوسرے ورثاء بھی اس وصیت کی اجازت دے دیں۔- اہل سیرنے حجۃ الوداع کے موقعہ پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا جوخطبہ نقل کیا ہے اس میں ہے کہ (لاوصیۃ لوارث، وارث کے لیے کوئی وصیت نہیں) جس طرح وصیت کو تہائی مال تک محدودرکھنے کے وجوب کی روایت بکثرت نقل ہوکرخبرمستفیض بن گئی ہے اسی طرح وارث کے لیے قسم کی وصیت نہ کرنے کی روایت نے بھی خبرمستفیض کی شکل اختیار کرلی ہے۔- ان دونوں روایتوں میں خبرمستفیض ہونے اور ان پر فقہاء کے عمل کرنے نیزا نہیں قبول کرلینے کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں ہے۔ اس لیے ہمارے نزدیک ان کی حیثیت خبرمتواتر کی سی ہے جو علم کا موجب ہوتا ہے اور جس سے شک وشبہ کا ازالہ ہوجاتا ہے۔- عمروبن خارجہ (رض) کی روایت میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد (الاان تجیزھا الودثۃ، الایہ کہ دوسرے ورثا بھی اس کی اجازت دے دیں) اس پر دلالت کرتا ہے کہ اگر دوسرے ورثاء تہائی سے زائد کی اس وصیت کی اجازت دے دیں تو یہ جائزہوجائے گی اس صورت میں اس وصیت کی حیثیت وارث کی طرف سے ہبہ کی نہیں ہوگی بلکہ وصیت کرنے والے کی طرف سے وصیت کی ہوگی۔ اس لیے کہ وارث کی طرف سے ہبہ موروث یعنی مرنے والے کی طرف سے اجازت کی صورت نہیں ہوتی۔- ہمیں عبدالباقی نے روایت بیان کی، انہیں عبداللہ بن عبدالصمدنے، انہیں محمد بن عمردنے ، انہیں یونس بن راشد نے عطاء خراسانی سے، انہوں نے عکرمہ سے اور انہوں نے ابن عباس (رض) سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (لاوصیۃ لوارث الاان تشاء الورثۃ، کسی وارث کے لیے کوئی وصیت نہیں البتہ اگر دوسرے ورثاء ایساچا ہیں۔ )- ابوبکرجصاص کہتے ہیں کہ اس شخص کے متعلق فقہاء میں اختلاف رائے ہے جس نے تہائی سے زائد کی وصیت کی ہو اور اس کی زندگی میں اس کے دوسرے ورثاء اس پر رضامندہوگئے ہوں یا اس نے اپنے بعض ورثاء کے لیے وصیت کی ہو اور اس کی زندگی میں باقی ورثاء نے اس کی اجازت دیدی ہو امام ابوحنیفہ، امام یوسف، امام محمد، زفر، حسن بن زیاد، حسن بن صالح، عبیداللہ بن الحسن اور امام شافعی کا قول ہے کہ یہ بات اس وقت تک جائز نہیں ہوگی جب تک دوسرے ورثاء اس شخص کی موت کے بعد بھی اس کی اجازت نہ دے دیں۔- قاضی ابن ابی لیلیٰ ، اور عثمان البتی کا قول ہے کہ دوسرے ورثاء کے لیے مورث کی موت کے بعد اپنے قول سے رجوع کرلینے کا اختیار نہیں ہوگا اور وصیت درست رہے گی، ابن القاسم نے امام مالک سے ان کا قول نقل کیا ہے کہ جب مرنے والا اس سلسلے میں اپنے ورثاء سے اجازت حاصل کرے تو ہر وارث اس مرنے والے سے جدا ہوجائے گا جس طرح کہ بیٹا اپنے باپ سے بھائی اور چچاز ادبھائی اس سے جدا ہوجاتے ہیں جو درحقیقت اس کے عیال میں نہیں ہوتے، اس لیے ان ورثاء کو اپنے قول سے رجوع کرنے کا اختیار نہیں ہوگا۔ لیکن مرنے والے کی بیوی، اس کی وہ بیٹیاں جو ابھی اس سے جدا نہیں ہوئی یعنی ابھی تک ان کی شادیاں نہ ہوئی ہوں اور ہر وہ فرد جو اس کے عیال میں ہو خواہ وہ بالغ ہوچکاہو، ایسے ورثاء کو اپنے قول سے رجوع کرلینے کا اختیارہوگا۔ لیث بن سعد کا بھی اس بارے میں وہی قول ہے جو امام مالک کا ہے۔- ابوبکرجصاص کہتے ہیں کہ اگر دوسرے ورثاء اس شخص کی وفات کے بعد بھی اس وصیت کی اجازت دے دیں تو تمام فقہاء کے نزدیک یہ وصیت جائز ہوجائے گی نیز ابوبکرجصاص کی یہ بھی رائے ہے کہ جب دوسرے ورثاء کو میت کی زندگی میں اس وصیت کے نسخ کرنے کا اختیار نہیں تھا تو ن کی اجازت بھی قابل عمل نہیں ہوگی کیونکہ میت کی وفات سے پہلے ورثاء کسی چیز کے بھی اس دار نہیں بنے تھے۔ واللہ اعلم۔- کوئی وارث نہ ہونے کی صورت میں سارے مال کی وصیت کا بیان - امام ابوحنیفہ، امام ابویوسف، امام محمد، زفر، اور حسن بن زیادکاقول ہے کہ اگر میت کا کوئی وارث نہ ہو اور اس نے سارے مال کی وصیت کردی ہوتوایسی وصیت جائز ہے۔ شریک بن عبداللہ کا بھی یہی قول ہے۔ امام مالک، اوزاعی اور حسن بن صالح کا قول ہے کہ ایسی صورت میں بھی صرف تہائی مال کی وصیت جائز ہوگی۔ ابوبکرجصاص کہتے ہیں کہ ہم نے قول باری (والذین عاقدت ایمانکم فاتوھم نصیبھم) کی دلالت کا ذکرسابقہ ابواب میں کردیا ہے۔ اور یہ بھی بیان کردیا ہے۔ کہ زمانہ جاہلیت میں لوگ حلف اور معاہدہ کی بناپر ایک دوسرے کے وارث ہوتے تھے۔ معاہدے کی یہ صورت میں ہوتی تھی کہ ایک شخص کسی دوسرے کے ساتھ یہ معاہدہ کرتا کہ اگر اس کی وفات ہوجائے گی تو یہ دوسراشخص اس کی میراث کے مقررشدہ حصے کا وارث ہوگا۔ یہ حصہ تہائی یا اس سے بھی زائد ہوتا تھا۔ ابتدائے اسلام میں اس صورت پر عملدرآمدہوتارہا اور یہ طریقہ باقی رہا۔- اللہ تعالیٰ نے اپنے قول (والذین عاقدت ایمانکم فاتوھم نصیبھم) کے ذریعے اسے فرض کردیا تھا۔ اس کے بعد یہ آیتیں نازل فرمائیں (للرجال نصیب مماترک الوالدن لاقربون) اور (یوصیکم اللہ فی اؤلاد کم للذکرمثل حظ الانثیین) اور (واؤلوا الارحام بعضھم اؤلی ببعض فی کتاب اللہ)- اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں ذوی الارحارم کو حلیفوں سے بڑھ کر حق دارقراردیا لیکن حلیفوں کی میراث کو بالکلیہ باطل نہیں ٹھہرایا بلکہ ذوالانساب یعنی رشتہ داروں کو ان کے مقابلے میں اولی قراردیاجس طرح کہ بیٹے کو بھائی کے مقابلے میں اولی ٹھہرایا۔ اس لیے اگر کسی انسان کے رشتہ دارنہ ہوتے تو اس کے لیے یہ بات جائز ہوتی کہ معاہدے کی بناپر ایک دوسرے کی وراثت کے اصول کے مطابق اپنامال اپنے حلیف کودے دیتا۔- نیز اللہ تعالیٰ نے اپنے قول (من بعدوصیۃ یوصی بھا اؤدین) کے ذریعے وصیت کے بعد میراث میں ذوالفروض کے حصے مقررکیئے اور فرمایا (للرجال نصیب مماترک الوالدان والاقربونہ اور ہم نے بیان کردیا ہے کہ اگر وصیت کو تہائی مال تک محدود کردینے اوراقربا میں سے مردوں اور عورتوں کے لیے حصہ واجب کردینے پر اجماع اور سنت کی دلالت نہ ہوتی تو پہلی آیت پورے مال کی وصیت کے جواز کی مقتضی ہوتی۔- جب ایسے افرادموجود نہ ہوں جن کی وجہ سے مال کے ایک حصے میں وصیت کرنے کی تخصیص واجب ہوئی تو اس صورت میں پورے مال کی وصیت کے جواز کے سلسلے میں لفظ پر اس کے مقتضی اور ظاہر کے لحاظ سے عمل کرنا واجب ہوگا۔- اس پر حضرت سعد کی گذشتہ روایت دلالت کرتی ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تھا (انک ان تدع ورثتک اغنیاء خیرمن ان تدعھم عالۃ یتکففون الناس، اپنے ورثاء کو فراخی کی حالت میں چھوڑجانا اس سے کہیں بہت رہے کہ انہیں معاش کے دلیے لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے کے لیے چھوڑجاؤ) آپ نے یہ بتادیا کہ تہائی مال سے زائد میں وصیت کی ممانعت ورثا کے حق کی خاط رہے۔- اس پر شعبی وغیرہ کی وہ روایت بھی دلالت کرتی ہے۔ جو انہوں نے عمروبن شرجیل سے کی ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعو (رض) دنے فرمایا۔ ہمدان سے تعلق رکھنے والو پورے عرب میں کوئی قبیلہ ایسا نہیں ہے جو اس بات کا تم سے بڑھ کرسزاوارہو کہ اس کے کسی فرد کا انتقال ہوجائے اور اس کے کسی وارث کے بارے میں کچھ معلوم نہ ہو۔ جب یہ صورتحال ہے تو وہ مرنے سے پہلے اپنامال جہاں چاہے دے سکتا ہے۔ اس بارے میں حضرت ابن مسعو (رض) د کی مخالفت میں کسی صحابی کا کوئی قول منقول نہیں ہے۔ اس پر ایک اور پہلو سے غورکیاجائے کہ جب ایسے لاوارث شخص کا انتقال ہوجائے گا۔ تو اہل اسلام اس کے مال کے یاتومیراث کی بناپرحق دارہوں گے یا اس بناپر کہ اس مال کا کوئی مالک نہیں ہے اب امام کی مرضی ہے کہ اسے جہاں چاہے صرف کردے چونکہ اس مال کے استحقاق میں ایک مسلمان کے ساتھ اس کا باپ اور بیٹا نیز قریبی رشتہ دار کے ساتھ دورکارشتہ دار بھی شریک ہوتا ہے۔- اس لیے ہمیں یہ بات معلوم ہوگئی کہ میراث کی بناپر اس مال کا استحقاق نہیں ہوتا کیونکہ ایک شخص کی میراث کے استحقا میں اس کا باپ اور دادادونوں پدری نسبت کی بناپراکٹھے نہیں ہوسکتے نیز اگر یہ مال میراث کے تحت آتاتوان میں سے کسی ایک کو بھی اس سے محروم رکھنا جائز نہ ہوتا اس لیے کہ میراث کا تصورہی یہی ہے کہ بعض ورثاء کو نظرانداز کرکے اسے بعض کے ساتھ مخصوص نہ کردیاجائے۔ نیز اگر یہ میراث کے ضمن میں آتاتو یہ ضروری ہوتا کہ اگر میت کا تعلق ہمدان سے ہوتا اور اس کے کسی وارث کے متعلق کوئی علم نہ ہوتاتو اس کے قبیلے والے اس کی میراث کے حق دارہوتے کیونکہ دوسروں کے مقابلے میں یہ لوگ اس کے زیادہ قریب ہوتے۔ اب جبکہ اس کے مال کا استحقاق بیت المال کو حاصل ہوگیا اور امام المسلمین کو ہراس شخص پرا سے صرف کرنے کا اختیارمل گیا جسے وہ اس کا اہل سمجھتے تو اس سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ مسلمانوں کو اس کا یہ مال میراث کی بناپر نہیں ملا اور جب انہیں میراث کی بناپر یہ مال نہیں ملابل کہ امام المسلمین کوا سے اپنی صوابدید کے مطابق اس وجہ سے صرف کرنے کا اختیارمل گیا کہ اس کا کوئی مالک نہیں ہے تو پھر اس کا اصل مالک اپنی صوابد ید کے مطابق اسے صرف کرنے کا زیادہ حق دا رہے۔- ایک اور جہت سے دیکھئے، جب مسلمانوں کو یہ مال میراث کی بناپر نہیں ملاتو اس کی مشابہت اس تہائی مال کے ساتھ ہوگی جس کی مرنے والاوصیت کرجاتا ہے اس تہائی مال میں کسی کی میراث نہیں ہوتی اور اسے یہ اختیارہوتا ہے کہ جس پرچا ہے صرف کرے۔ اسی طرح وارث نہ ہونے کی صورت میں باقی ماندہ دوتہائی مال کا بھی حکم ہونا چاہیے کہ مالک اسے جس پرچا ہے صرف کرڈالے۔- اس پر وہ حدیث بھی دلالت کرتی ہے جس کی ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی ہے۔ انہیں بشربن موسیٰ نے انہیں حمیدی نے، انہیں سفیان نے، انہیں ایوب نے کہ میں نے نافع کو عبداللہ بن عمر (رض) سے یہ نقل کرتے ہوئے سنا ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا (ماحق امرئی مسلم لہ مال یوصی فیہ تمرعلیہ اللیلتان الاو وصیۃ عندہ کتتبہ کسی مسلمان کو جس کے پاس مال ہو اور اس نے اس مال میں وصیت کی ہو، یہ بات زیب نہیں دیتی کہ اس پر دوراتیں گذرجائیں اور اس کی وصیت اس کے پاس لکھی ہوئی موجودہو۔- حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس حدیث میں مال کے ایک حصے کی وصیت اور پورے مال کی وصیت کے جواز کی مقتضی ہے لیکن وارث ہونے کی صورت میں اس کے ایک حصے یعنی تہائی تک وصیت کو محدود رکھنے کے وجوب پر دلالت قائم ہوچکی ہے۔ اس لیے وارث کی عدم موجودگی میں پورے مال کی وصیت کے جواز کے سلسلے میں لفظ کو اس کے ظاہر اورمقتضیٰ پر رکھاجائے گا۔ واللہ اعلم۔- وصیت میں ضرررسانی کا بیان - قول باری ہے (غیر مضار، وصیۃ من اللہ، بشرطیکہ وہ ضرررساں نہ ہو، یہ حکم ہے اللہ کی طرف سے) ابوبکرجصاص کہتے ہیں کہ وصیت میں ضرررسانی کی کئی صورتیں ہیں اول یہ کہ وصیت میں کسی اجنبی کے لیے اپنے پورے یا بعض مال اقرارکرے۔ یا اپنے ذمے کسی کے قرض کا اقرار کرے جس کی کوئی حقیقت نہ ہو اور مقصد یہ ہو کہ میراث کو اس کے وارث اور حق دار سے روک دے۔- دوم یہ کہ اپنی بیماری میں کسی دوسرے کے ذمے اپنے قرض کی وصولی کا اقرار کرلے تاکہ قرض کی یہ رقم اس کے وارث کونہ مل سکے۔ سوم یہ کہ اپنی بیماری میں اپناسارامال کسی غیر کے ہاتھ فروخت کر کے اس کی قیمت کی وصولی کا اقرار کرلے، چہارم یہ کہ بیماری کے دوران اپنا مال ہبہ کردے یاتہائی سے زائد مال صدقہ کردے۔ اور اس طریقے سے ورثاء کو نقصان پہنچادے ایک صورت یہ بھی ہے کہ اپنے اختیار سے تجاوز کرتے ہوئے جائز وصیت سے زائدمال کی وصیت کرجائے جبکہ جائز وصیت تہائی مال کے اندرہوتی ہے۔- یہ تمام وجوہ وصیت میں ضرررسانی کی صورتیں ہیں۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ بات حضرت سعد (رض) سے اپنے ارشاد کے ضمن میں بیان کردی ہے کہ (الثلث، والثلث کثیر، انک لان تدع ورثتک اغنیاء خیر من ان تدعھم عالۃ یتکففون الناس۔- ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی، انہیں احمد بن الحسن المصری نے، انہیں عبدالصمدبن حسان نے، انہیںں سفیان ثوری نے، داؤدبن ابی ہندنے عکرمہ سے، انہوں نے ابن عباس (رض) سے کہ، وصیت میں ضررسانی کبیرہ گناہوں میں سے ہے۔- پھر آپ نے یہ آیت تلاوت کی (تلک حدود اللہ ومن یطع اللہ ورسولہ، یہ اللہ کے حدود ہیں اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا) فرمایا، وصیت کے معاملے میں۔ (ومن یعص اللہ ورسولہ، اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا) فرمایا : وصیت کے معاملے میں ہمیں عبدالباقی نے روایت بیان کی ، انہیں قاسم بن زکریا اور محمد بن لیث نے، ان دونوں کو حمید بن زنجویہ نے، انہیں عبداللہ بن یوسف نے ، انہیں المغیرہ نے داؤدبن ابی ہند سے، انہوں نے عکرمہ سے اور انہوں نے ابن عباس (رض) سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (الاضرارفی الوصیۃ من الکبائر، وصیت میں ضرررسانی کبیرہ گناہوں میں سے ہے)- ہمیں عبدالباقی نے روایت بیان کی ، انہیں طاہر بن عبدالرحمن بن اسحاق قاضی نے، انہیں یحییٰ بن معین نے، انہیں عبدالرزاق نے، انہیں معمرنے اشعث سے، انہوں نے شہربن حوشب سے ، انہوں نے حضڑت ابوہریر (رض) ہ سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (ان الرجرل لیعمل بعمل اھل الجنۃ سبعین سنۃ فاذا اوصی حاف فی وصیتہ فیختم لہ بشرعملہ فید خل النار، وان الرجل لیعمل بعمل اھل النار سبعین سنۃ فیعدل فی وصیتہ فیحتم لہ بخیرعملہ فید خل الجنۃ،۔- ایک شخص ستربرسوں تک جنتیوں والے اعمال کرتا ہے لیکن جب وصیت کرتا ہے تو اس میں جانب داری سے کام لیتا ہے جس کی وجہ سے بدترین عمل پر اس کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔ اور وہ جہنم میں داخل ہوجاتا ہے۔ اور ایک شخص ستربرسوں تک جنہمیوں والے اعمال کرتا ہے لیکن اپنی وصیت میں عدل وانصاف سے کام لیتا ہے جس کی وجہ سے اس کا خاتمہ بہترین عمل پر ہوتا ہے۔ اور وہ جنت میں داخل ہوجاتا ہے۔- ابوبکرجصاص کہتے ہیں کہ کتاب اللہ کی درج ذیل آیات کی حضرت ابن عباس (رض) نے جو تاویل کی ہے وہ اس کی عین مصداق ہے۔- (تلک حدود اللہ ومن یطع اللہ ورسولہ) اور (ومن یعص اللہ ورسولہ) حضرت ابن عباس (رض) نے دونوں آیتوں کی تاویل میں فرمایا، وصیت کے معاملے میں۔- نسب کے باوجود میراث سے محروم رہنے والوں کا بیان - ابوبکرجصاص کہتے ہیں کہ اہل اسلام کے درمیان ان میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ قول باری (یوصیکم اللہ فی اولادکم) اور اس پر معطوف تقسیم میراث کا تعلق آیت میں مذکور افراد میں سے بعض کے ساتھ مخصوص ہے اور بعض کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ پھر ان بعض میں سے کچھ توای سے ہیں جن کے حکم پر سب کا اتفاق ہے اور کچھ مختلف فیہ ہیں۔- متفق علیہ افراد کی تفصیل یہ ہے کہ کافر مسلمان کا وارث نہیں ہوسکتا، اسی طرح غلام کسی کا وارث نہیں بن سکتا۔ نیز قتل عمد کا مرتکب بھی وراثت کے حق سے محروم ہوجاتا ہے۔ ہم نے سورة بقرہ میں ان سب کی میراث اور اس سے متعلقہ اتفاقی اور اختلافی مسائل کو پوری شرح وبسط کے ساتھ بیان کردیا ہے۔ آیا مسلمان کافرکاوارث ہوسکتا ہے۔ ؟ اس مسئلے میں اختلاف ہے۔ اسی طرح مرتد کی میراث بھی ایک اختلافی مسئلہ ہے۔- پہلے مسئلے مین ائمہ صحابہ کا اس پر اتفاق ہے کہ مسلمان اور کافر ایک دوسرے کے وارث نہیں ہوسکتے اکثرتابعین اور فقہائے امصارکایہی قول ہے۔ شعبہ نے عمروبن ابی حکیم سے، انہوں نے ابن باباہ سے انہوں نے یحییٰ بن یعمر سے، انہوں نے ابوالاسودالدؤلی سے روایت کی ہے کہ حضرت معاذبن جبل (رض) یمن میں تھے ان کے سامنے مسئلہ پیش ہوا کہ ایک یہودی مرگیا ہے اور اس کا مسلمان بھائی رہ گیا ہے۔ حضرت معاذ (رض) نے اس موقعہ پر فرمایا کہ میں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے کہ (الاسلام یزید ولا ینقص۔ اسلام بڑھتا ہے گھٹتا نہیں۔ )- ابن شہاب نے داؤدبن ابی ہند سے روایت کی ہے کہ مسروق نے ایک دفعہ کہا کہ اسلام میں اس فیصلے سے بڑھ کر تعجب انگیز کوئی فیصلہ نہیں ہواجوحضرت معاویہ (رض) نے کیا تھا۔ آپ مسلمان کو یہودی اور نصرانی کا وارث قرارتو دیتے تھے لیکن کسی یہودی یا نصرانی کو مسلمان کا وارث نہیں تسلیم کرتے تھے۔- اہل شام نے بھی یہی مسلک اختیار کرلیا تھا۔ داؤدکہتے ہیں کہ جب حضرت عمربن عبدالعزیز شام تشریف لائے تو آپ نے اس مسئلے میں لوگوں کو پہلے مسلک کی طرف لوٹادیاہشیم نے مجالد سے اور انہوں نے شعبی سے روایت کی ہے کہ حضرت معاویہ (رض) نے اس مسئلے کے متعلق اپنے گورنرزیادکولکھا۔- زیادنے قاضی شریح کو پیغام بھیج کر اس کی روشنی میں فیصلے کرنے کا حکم دیا ہے۔ قاضی صاحب اس سے پہلے مسلمان کو کافرکاوارث قرار نہیں دیتے تھے۔ لیکن زیاد کے حکم کی روشنی میں اس کے مطابق فیصلے کرنے لگے۔ البتہ جب وہ اس قسم کا کوئی فیصلہ سناتے تو ساتھ یہ ضرورکہہ دیتے کہ یہ امیرالمؤمنین (حضرت معاو (رض) یہ) کا فیصلہ ہے۔- زہری نے علی بن الحسین سے ، انہوں نے عمروبن عثمان سے، انہوں نے حضرت اسامہ بن زید (رض) سے روایت کی ہے۔ کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے (لایتوارث اھل ملتین شتیٰ ، دومختلف ملتوں کو ماننے والے ایک دوسرے کے وارث نہیں ہوسکتے) ۔- ایک روایت میں ہے (لایرث المسلم الکافرولاالکافرالمسلم، مسلمان کافرکا اور کافر مسلمان کا وارث نہیں بن سکتا۔- عمروبن شعیب نے اپنے والد سے، انہوں نے اپنے والد سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (لایتوارث اھل ملتین، دومذاہب کو ماننے والے ایک دوسرے کے وارث نہیں ہوسکتے) یہ روایت مسلمان سے کافر کی اور کافر سے مسلمان کی توریث کی نفی کرتی ہیں۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کے خلاف کوئی بات مروی نہیں ہے۔ اس لیے مسلمان اور کافر کے درمیان توارث کو ساقط کرنے میں ان کے حکم کو ثابت اور محکم تسلیم کیا جائے گا۔- رہ گئی حضرت معاذ (رض) کی روایت تو اس میں یہ مسئلہ مرادہی نہیں ہے۔ بلکہ اس میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد (الایمان یزید ولا ینقص) کا مفہوم ومطلب بیان ہوا ہے۔ جسے تاویل کہتے ہیں اور ظاہر ہے کہ تاویل کسی نص اور توقیف کو ختم نہیں کرسکتی۔ بلکہ تاویل کو اس معنی کی طرف لوٹایاجاتا ہے ۔ جو منصوص علیہ ہو اور اسے اس کے موافق مفہوم پر محمول کیا جاتا، مخالف مفہوم پر محمول نہیں کیا جاتا۔- حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے درج بالاارشاد میں یہ احتمال ہے کہ آپ یہ بیان فرمانا چاہتے ہیں۔ جو شخص مسلمان ہوجائے گا اسے اس کے اسلام پر رہتے دیاجائے گا اور جو شخص اسلام سے باہرہوجائے گا اسے پھر اسلام کی طرف لوٹادیاجائے گا۔ جب اس روایت میں یہ بھی احتمال ہے اور حضرت معا (رض) ذ کے اختیار کردہ مفہوم کا بھی احتمال ہے توپھرضروری ہے کہ اسے حضرت اسامہ (رض) کی روایت کے مفہوم پر محمول کیا جائے جس میں مسلمان اور کافر کے درمیان توارث کی ممانعت کردی گئی ہے۔- کیونکہ کسی نص کو تاویل اور احتمال کی بناپرد کردینا جائز نہیں ہے۔ خود احتمال میں حجت اور دلیل بننے کی صلاحیت نہیں ہے کیونکہ یہ ایک مشکوک بات ہوتی ہے اور اسے اپنے حکم کے اثبات کے لیے کسی اور دلالت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس لیے احتمال پر استدلال کی بنیاد رکھنا غلط اور ساقط مسروق کا یہ قول کہ، اسلام میں کوئی فیصلہ ایسا نہیں کیا گیا جو حضرت معاویہ (رض) کے اس فیصلے سے زیادہ تعجب انگیزہوجس میں مسلمان کو کافرکاوارث قراردیا گیا خود اس مسلک کے بطلان پر دلالت کررہا ہے۔ کیونکہ مسروق نے یہ بتایا ہے کہ یہ فیصلہ اسلام میں ایک نیافیصلہ ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت معاویہ (رض) کے اس فیصلے سے پہلے مسلمان کافرکاوارث نہیں بنتا تھا۔- اس طرح یہ بات ثابت ہوگئی کہ حضرت معاو (رض) یہ کے فیصلے سے پہلے مسلمان کافرکاوارث نہیں ہوتا تھا۔ دوسری طرف حضرت معاویہ (رض) کے لیے صحابہ کرام کی مخالفت جائز نہیں تھی بلکہ صحابہ کرام کی موجودگی میں ان کا قول ساقط ہے۔ اس کی تائید داؤدبن ابی ہند کے اس قول سے بھی ہوتی ہے کہ حضرت عمربن عبدالعزیز نے شام کے لوگوں کو پہلے مسلک کی طرف لوٹادیا تھا۔ واللہ اعلم۔- مرتدکی میراث - مرتد کی میراث کے بارے میں جو اس نے حالت اسلام کی کمائی کے نتیجے میں چھوڑدی ہوسلف میں اختلاف رائے ہے۔ حضرت علی (رض) ، عبداللہ (رض) ، حضرت زیدبن ثابت (رض) ، حسن بصری ، سعدبن المسیب ، ابراہیم نخعی، جابربن زید، عمربن عبدالعزیز، حمادبن الحکم، امام ابوحنیفہ ، امام ابویوسف، امام محمد، زفر، ابن شبرمہ ، ثوری، اوزاعی اور شریک کا قول ہے کہ اس مرتد کی موت یا ارتداد کی بناپرقتل ہوجانے کی صورت میں اس کے مسلمان ورثاء اس کی میراث کے حق دارہوں گے۔- ربیعہ بن عبدالعزیز، ابن ابی لیلیٰ ، امام مالک اور امام شافعی کا قول ہے کہ اس کی میراث بیت المال میں جائے گی۔ قتادہ اور سعیدبن ابی عروبہ کا قول ہے کہ اس نے اسلام چھوڑ کر جو دین اختیار کیا ہے اگر اس کے ورثاء کا دین بھی وہی ہو تو اس کی میراث ان ورثاء کو مل جائے گی مسلمان ورثاء کو نہیں ملے گی۔ قتادہ نے اس قول کی روایت حضرت عمربن عبدالعزیز سے بھی کی ہے۔- لیکن ان سے صحیح روایت یہ ہے کہ اس کی میراث اس کے مسلمان ورثاء کو مل جائے گی۔ پھر حالت ارتداد میں اس شخص کی کمائی ہوئی میراث کے متعلق بھی اختلاف رائے ہے کہ اس کی موت یا قتل ہوجانے کی صورت میں اس کی یہ میراث کسے ملے گی۔ امام ابوحنیفہ اور سفیان ثوری کا قول ہے کہ مرتدہوجانے کے بعد اس کی ساری کمائی کوفی شمارکیاجائے گا۔- ابن شبرمہ امام ابویوسف امام اور اوزاعی سے ایک روایت کے مطابق ارتداد کے بعد اس کی ساری کمائی ہوئی میراث بھی اس کے مسلمان ورثاء ہی کو مل جائے گی۔- ابوبکرجصاص کہتے ہیں کہ ظاہرقول باری (یوصیکم اللہ فی اولاد کم) مرتد سے مسلمان کے وارث ہونے کا مقتضی ہے۔ اس لیے کہ آیت میں مسلمان میت اور مرتد میت کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا گیا ہے۔- اگر یہ کہاجائے کہ حضرت اسامہ بن زید (رض) کی روایت (لایرث المسلم الکافر) آیت کے عموم کی اس طرح تخصیص کرتی ہے جس طرح اس نے مسلمان سے کافر کی وراثت کی تخصیص کردی ہ۔ یہ روایت اگرچہ آحاد میں شمارہوتی ہے لیکن چونکہ اسے سندقبولیت حاصل ہوئی ہے اور مسلمان سے کافر کی وراثت کی ممانعت میں لوگوں نے اس پر عمل کیا ہے اس لیے اس کی حیثیت ایک طرح سے خبرمتواتر کی ہوگئی ہے۔- پھر آیت میراث متفقہ طورپر بعض مذکورین کے ساتھ خاص ہے جیسا پہلے گذرچکا ہے۔ اس لیے اس جیسی صورت کی تخصیص کے سلسلے میں اخبارآحادبھی قابل قبول ہیں۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ حضرت اسامہ (رض) کی روایت کے بعض طرق میں یہ الفاظ آتے ہیں (لایتوارث اھل ملتین) لایرث المسلم الکافر) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ بتادیا کہ اس سے مراد دومختلف ملتوں یعنی مذاہب والوں کے درمیان توارث کا اسقاط ہے۔- اورظاہر ہے کہ ارتدادخود کوئی مستقل مذہب وملت نہیں ہے۔ اس لیے کہ اگر ایک شخص اسلام چھوڑکرنصرانیت یایہودیت اختیارکرلیتا ہے توا سے اس حالت پر رہنے دیاجائے گا بل کہ یاتوتوبہ کرکے پھر داخل اسلام ہوجائے گایا اس کی گردن اڑادی جائے گی، اس لیے اس پر یہودیت یانصرانیت کو ماننے والوں کے احکام جاری نہیں ہوں گی اور اسے یہودی یانصرافی تسلیم نہیں کیا جائے گا۔- آپ نہیں دیکھتے کہ اگرچہ وہ اہل کتاب کے مذہب کی طرف منتقل ہوگیا ہے لیکن اس کاذبیحہ کھاناحلال نہیں ہوگا اور عورت ہونے کی صورت میں اس کے ساتھ نکاح بھی جائز نہیں ہوگا۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی ۔ کہ ارتداد خود کوئی مستقل ملت نہیں ہے۔ اور حضرت اسامہ (رض) کی روایت دومختلف مذاہب والوں کے درمیان توارث کی ممانعت تک محدود ہے۔- یہ بات ان کی ایک اور مفصل روایت میں بیان کی گئی ہے۔ جسے ہشیم نے زہری سے نقل کیا ہے : انہیں علی بن الحسین نے عمروبن عثمان سے اور انہوں نے حضرت اسامہ (رض) سے بیان کیا ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (لایتوارث اھل ملتین شتیٰ ، لایرث المسلم الکافرولاالکافرالمسلم) اس سے یہ دلالت حاصل ہوئی کہ یہاں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مرادیہ ہے کہ دومختلف مذاہب والوں کے درمیان توارث کی ممانعت ہے نیزحضرت امام ابوحنیفہ کے نزدیک یہ ایک اصولی بات ہے کہ مرتد کی ملکیت ارتداد کے ساتھ ہی زائل ہوجاتی ہے۔ اگر وہ مرجائے یا قتل ہوجائے تو یہ ملکیت اس کے ورثاء کو منتقل ہوجائے گی۔- اسی بناء پر آپ مرتد کے اپنے اس مال میں تصرف کو جائز قرار نہیں دیتے جو اس نے حالت اسلام میں کمائے ہوں جبکہ امام صاحب کا اصول یہ ہے توزیربحث مسئلے میں آپ نے کسی مسلمان کو کسی کافرکاوارث قرار نہیں دیا اس لیے کہ ایسے کافر یعنی مرتد کی ملکیت اپنے مال سے اسی وقت زائل ہوگئی تھی۔ جب اس نے اسلام کا دامن چھوڑا تھا بلکہ آپ نے ایک مسلمان کو اس شخص کا وارث قراردیاجو کبھی مسلمان تھا۔- اگریہ اعتراض کیا جائے کہ درج بالا وضاحت کی روشنی میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ آپ نے مرتد کی زندگی میں ہی اس کی وراثت ورثاء کے حوالے کردی اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ کسی زندہ کی توریث میں کوئی امتناع نہیں ہے۔- ارشاد باری ہے (واورثکم ارضھم ودیارھم واموالھم، اور اللہ نے تمہیں ان کی سرزمین، ان کے مکانات اور ان کے اموال کا وارث بنادیا) حالانکہ وہ لوگ جن کی طرف آیت میں اشارہ ہے اس آیت کے نزول کے وقت زندہ تھے اس میں ایک پہلو اور بھی ہے وہ یہ کہ ہم نے مرتد کی موت کے بعد اس کا مال اس کے ورثاء کو منتقل کیا اس لیے اس میں زندہ کی توریث والی کوئی بات نہیں پائی گئی۔- معترض کو الزامی جواب کے طورپریہ کہا جاسکتا ہے کہ جب آپ نے ایسے شخص کا مال بیت المال کے حوالے کردیاتوگویا آپ نے اس کے کفر کی حالت میں مسلمانوں کی جماعت کو اس کا وارث بنادیا اور جب وہ مرتدہوکردارالحرب بھاگ جائے تو آپ نے اس کی زندگی میں ہی انہیں اس کا وارث قراردے دیا۔ - ایک پہلو اور بھی ہے کہ جب مسلمان صرف اسلام کی بناء پر ای سے شخص کے مال کے مستحق قرارپاتے ہیں تو پھر اس کے رشتہ دارورثاء میں اسلام اور رشتہ داری کی دوصفات یکجا ہوگئیں۔ اس بناء پر یہ ضروری ہوگیا کہ اس کے مسلمان رشتہ دار اس کے مال کے زیادہ حق دارقراردیئے جائیں کیونکہ یہ لوگ دواسباب کی بناء پر حق داربن رہے ہیں جبکہ عام مسلمان صرف ایک سبب کی بناء پر یہ حق پاسکتے ہیں۔- یہ دواسباب جو اس کے مسلمان ورثاء میں جمع ہوگئے ہیں اسلالم اور قرابتداری ہیں۔ اس لحاظ سے اس کی حیثیت دوسرے تمام مسلمان وفات شدہ افراد کے مشابہ ہوجائے گی۔ جب اس کے مال پر مسلمانوں کا استحقاق ہوگیا توپھروہ مسلمان جس میں اسلام کے ساتھ قرب نسب بھی موجود ہو اس مسلمان کے مقابلے میں اس کے مال کا زیادہ حق دارہوگا جس میں قرب نسب موجودنہ ہو۔- اگر اس پر یہ اعتراض اٹھایاجائے کہ آپ کی بیان کردہ علت ذمی کے مال سے مسلمان کی توریث کو واجب کردیتی ہے تو اس کے جواب میں کہاجائے گا کہ یہ بات واجب نہیں ہوتی اس لیے کہ ذمی کی موت کے بعد اس کے مال کا استحقاق اسلام کی بنیاد پر نہیں ہوتا اس لیے کہ سب لوگ اس پر مفتق ہیں کہ اس کے ذمی ورثاء مسلمانوں کے مقابلے میں اس کی میراث کے زیادہ حق دار ہیں جبکہ تمام فقہاء امصارکا اس پر اتفاق ہے کہ مرتد کے مال کا استحقاق اسلام کی بناپرہوتا ہے۔- یہ اور بات ہے کہ کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ مسلانوں کی جماعت اس کے مال کی وارث ہوگی جبکہ کچھ لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ اس کے مسلمان ورثاء اس کے مال کے حق دارہوں گے جب اسلام کی بنیادپر اس کے مال کا استحقاق ثابت ہوگیا تو اس کی مشابہت مسلمان میت کے مال کے ساتھ ہوگئی جبکہ اسلام کی بنیادپر اس مسلمان کے مال میں دوسرے مسلمانوں کا استحقاق پیدا ہوگیا توای سے مسلمان جن میں قرب نسب بھی پایاگیا وہ دوسرے مسلمانوں کے مقابلے میں اس کے مال کے زیادہ حق دارقرارپائے۔- اگریہ کہاجائے کہ کوئی ذحی اگر مال چھوڑکرمرجائے لیکن اس کا کوئی وارث نہ ہو جس کا تعلق اس کے مذہب سے ہو، البتہ اس کے مسلمان قرابت دارموجود ہوں تو اس کا یہ مال مسلمانوں کو مل جائے گا اور اس کے مسلمان قرابت دار اس مال کے بڑھ کر حق دار نہیں ہوں گے۔ حالانکہ ان میں اسلام اور قرابت داری دونوں اسباب موجود ہیں۔ اس کی کیا وجہ ہے ؟ جواب میں کہا جائے گا کہ دراصل ذمی کے مال کا استحقاق اسلام کی وجہ سے نہیں ہوتا اور اس کی دلیل یہ ہے کہ اگر اس کے ذمی رشتہ دار موجود ہوتے تو مسلمانوں کو اس کے مال کا استحقاق حاصل نہ ہوتا۔- اسلام کی بنیاد پر اگر اس کے مال کا استحقاق ہوتاتو اس کے ذمی رشتہ دار مسلمانوں سے بڑھ کر اس کے مال کے حق دارنہ ہوتے بلکہ مسلمان زیادہ حق دارہوتے جس طرح کہ مسلمانوں کی اپنی میراث کی صورت میں ہوتا ہے۔- یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ذمی کا مال وارث نہ ہونے کی صورت میں اگرچہ بیت المال کے حوالے ہوجاتا ہے۔ لیکن اسلام کی بناپر اس کا استحقاق نہیں ہوتا بلکہ اس کی حیثیت ایسے مال کی ہوتی ہے جس کا کوئی مالک نہیں ہوتا اور امام المسلمین کو یہ دارالا سلام میں اسی طرح مل جاتا ہے جس طرح لقطہ ہاتھ آجاتا ہے اور اس کے کسی حق دار کے متعلق کچھ معلوم نہیں ہوتا اور پھرا سے اللہ کی خوشنودی کی خاطر نیکی کی راہوں میں صرف کردیاجاتا ہے۔- اگریہ کہاجائے کہ امام ابوحنیفہ کا مسلک یہ ہے کہ مرتدنے ارتداد کی حالت میں جو کچھ کمایا ہے وہ سب کچھ فئی کی صورت میں بیت المال کے حوالے ہوجائے گا اس قول کی بناء پر مسئلے کے متعلق آپ کی بیان کردہ علت کا نقض لازم آئے گا اور اصل مسئلے پر اس کی دلالت معترض کے حق میں جائے گی۔ اس کے جواب میں یہ کہاجائے گا کہ یہ بات لازم نہیں آتی اور نہ ہی معترض کے قول پر اس کی کوئی دلالت ہے۔ وہ اس لیے کہ مرتدنے ارتداد کی حالت میں جو کچھ کمایا ہے اس کی حیثیت حربی کے مال کی طرح ہے۔ اور مرتددرست طریقے سے اس مال کا مالک بھی نہیں ہوتا ہے۔- جب ہم اس مال کو مرتد کی موت کے بعد یا موت سے قبل بیت المال کے حوالے کردیں گے تو یہ اسی طرح مال غنیمت شمارہوگاجس طرح جنگ کی صورت میں ہمارے ہاتھ لگنے والا غنیمت کا مال شمارہوتا ہے۔ اس لیے بیت المال کا اس مال پر استحقاق اسلام کی بناپر نہیں ہوگا اس لیے کہ غنیمت حاصل کرنے والے کو اموال غنیمت کا استحقاق اسلام کی وجہ سے نہیں ہوتا۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ ذمی جب جنگ میں حصہ لیتا ہے تو وہ مال غنیمت سے تھوڑابہت مال حاصل کرنے کا مستحق ہوجاتا ہے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ حربی کا مال اور ارتداد کی حالت میں مرتد کا کمایا ہوامال دونوں پر اسلام کی وجہ سے بیت المال کا استحقاق نہیں ہوتا۔ اس لیے اس مال میں اسلام اور قرب نسب کا اعتبار نہیں کیا گیا جس طرح کہ مرتد کے اس مال کیا گیا تھا جو اس نے اسلام کی حالت میں کمایا تھا اس لیے کہ اس مال پر مرتدہونے تک اس کی ملکیت درست تھی پھر ارتداد کی وجہ سے اس کی ملکیت زائل ہوگئی ۔- اب جو شخص اس کا مستحق ہوگا اس کا استحقاق میراث کی بناپرہوگا۔ اور میراث میں اسلام اور قرب نسب کا اعتبار کیا جاتا ہے بشرطیکہ وہ کسی مسلمان کی ملکیت ہویہاں تک کہ اس کی یہ ملکیت ارتداد کی وجہ سے زائل ہوجائے جو موت کی طرح زوال ملکیت کا موجب ہے اس لیے اس پر ارتداد کی حالت میں کمائے ہوئے مال کا حکم لازم نہیں ہوا، نیز یہ بھی جائز نہیں کہ اس کا یہ مال حالت اسلام میں کمائے ہوئے مال کی اصل بن جائے اس لیے کہ ارتداد کی بناپر ملکیت زائل ہونے تک اس مال پر اس کی ملکیت درست تھی جبکہ ارتداد کی حالت میں کمائے ہوئے مال کی حیثیت حربی کے مال کی طرح ہے اور اس پر اس کی ملکیت درست نہیں ہوتی۔- اس کی وجہ یہ ہے کہ اس نے یہ مال اس حالت میں کمایا تھا جبکہ وہ مباح الدم تھا یعنی شرعی لحاظ سے اس کی گردن اتاردینا مباح تھا اس لیے جب بھی یہ مال مسلمانوں کے ہاتھ آئے گا وہ مال غنیمت شمارہوگا۔- جس طرح کہ کوئی حربی امان لیے بغیر داراسلام میں داخل ہوجائے اور پھرا سے اس کے مال سمیت پکڑ لیں تو اس کا مال غنیمت شمارہوگا اس طرح مرتد کے اسی مال کا حکم ہے جو اس نے ارتداد کی حالت میں کمایا تھا۔۔- اگر کوئی شخص حضرت براء بن عازب (رض) کی روایت سے استدلال کرے جس میں آپ نے فرمایا کہ میرے ماموں ابوبردہ (رض) کا گذر میرے پاس سے ہوا، ان کے ہاتھ میں جھنڈا تھا میں نے پوچھا کہ کدھر کا ارادہ ہے ؟ جواب میں انہوں نے فرمایا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے ایک شخص کی گردن اڑادینے کے لیے بھیجا ہے جس نے اپنے باپ کی بیوی سے نکاح کررکھا ہے۔- نیزیہ بھی حکم دیا ہے کہ اس کا سارامال بھی ضبط کرلوں ، یہ اس بات کی دلیل ہے کہ مرتدکامال فئی ہوتا ہے، تو اس کے جواب میں کہاجائے گا کہ یہ قدم اس لیے اٹھایا گیا تھا کہ وہ شخص اپنے باپ کی بیوی کو اپنے لیے حلال قراردے کرمجارب بن چکا تھا۔ یعنی وہ اللہ اور اس کے رسول سے برسرپیکار ہوگیا تھا اس لیے اس کا مال مال غنیمت بن گیا تھا کیونکہ جھنڈاجنگ وپیکار کے لیے بلند کیا جاتا ہے۔- معاویہ بن ابی قرہ نے اپنے والد سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے معاویہ کے داداکو ایک ایسے شخص کی گردن اڑانے اور اس کے مال خمس یعنی پانچواں حصہ وصول کرنے کے لیے بھیجا تھا جس نے اپنے باپ کی بیوی کے ساتھ شب باشی کی تھی یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس شخص کا مال جنگ کی بناپرمال غنیمت قراردیا گیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس مال کا پانچواں حصہ آپ کے لیے وصول کیا گیا تھا۔- اگریہ کہاجائے کہ مرتد کے مال کو مال غنیمت قراردینے سے آپ کو انکار نہیں ہے تو جواب میں کہاجائے گا کہ بات ایسی نہیں ہے بلکہ اس میں تفصیل ہے۔ مرتدنے حالت ارتداد میں جو کچھ کمایا ہوگا اس کی حیثیت مال غنیمت کی ہوگی لیکن حالت اسلام میں کمائے ہوئے مال پر یہ حکم لگانا جائز نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی مال کو مال غنیمت قراردینے کی سبیل یہ ہے کہ غنیمت بننے سے پہلے اس پر اس کے مالک کی ملکیت درست نہ ہو جس طرح کہ حربی کے مال کی کیفیت ہوتی ہے۔- لیکن ارتداد سے قبل مرتد کے مال پر اس کی ملکیت درست ہوتی ہے۔ اس لیے اسے مال غنیمت بنالینا اسی طرح جائز نہیں جس طرح تمام مسلمانوں کے اموال کو مال غنیمت بنالینا درست نہیں۔ اس لیے کہ ان اموال پر ان کی ملکیتیں درست ہوتی ہیں۔- مرتد کے مال سے اس کی ملکیت کا ارتداد کی بناپرزائل ہوجانا ایساہی ہے جیسا کہ موت کی وجہ سے ایک شخص کی اپنے مال سے ملکیت زائل ہوجاتی ہے۔ جس وقت ارتداد کی سزا کے طور پر قتل ہوجائے یامرجائے یادارالحرب فرارہوجانے کی بناپرمال سے اس کا حق منقطع ہوجائے گا تو اس کے ورثاء اس کے حق داربن جائیں گے۔ تمام مسلمان حق دار نہیں بنیں گے۔ اس لیے کہ اگر تمام مسلمان اسلام کی وجہ سے اس کے مال کے حق داربنیں گے غنیمت کی بناپر نہیں تو پھر اس کے ورثاء کا حق زیادہ ہوگا کیونکہ ورثاء میں اسلام اور قرابت داری دونوں باتیں پائی جائیں گی۔- اگر غنیمت کی بناپر مسلمانوں کو اس کے مال کا استحقاق حاصل ہوگا تو یہ بات درست نہیں ہوگی اس لیے کہ ہم نے یہ بیان کردیا ہے کہ غنیمت کی شرط یہ ہے کہ جس شخص کے مال کو بطور غنیمت حاصل کیا جارہا ہے، بنیادی طورپر اس مال پر اس کی ملکیت درست نہ ہو۔- میراث کی تقسیم سے قبل اگر کوئی وارث مسلمان ہوجاتا ہے تو آیا میراث میں اسے بھی حصہ ملے گا کہ نہیں ، اس بارے میں سلف کے درمیان اختلاف رائے ہے۔ حضرت علی (رض) کا قول ہے اگر کوئی مسلمان انتقال کرجائے اور ابھی اس کی میراث تقسیم نہیں ہوئی کہ اس کا ایک کافربیٹا مسلمان ہوجائے یا وہ غلام ہو اور اسے آزادی مل جائے توا سے باپ کے ترکہ میں سے کچھ نہیں ملے گا۔- عطاء سعیدبن المسیب، سلمان بن یسار، زھری، ابوالزناد، امام ابوحنیفہ، ابویوسف، محمد، زفر، امام مالک ، اور زاعی، اور امام شافعی کا یہی قول ہے، حضرت عمر (رض) اور حضرت عثمان (رض) کا قول ہے کہ وہ میراث میں دوسرے ورثاء کے ساتھ شریک ہوگا۔- حسن ابوالشعثاکا بھی یہی مسلک ہے۔ ان حضرات نے اس میراث کو زمانہ جاہلیت کی ان میراثوں کے مشابہ قراردیا ہے۔ جن پر تقسیم سے پہلے اسلام کا زمانہ آگیا تھا اور اسلامی قانون کے مطابق ان کی تقسیم عمل میں آئی تھی اور مورث کی موت کے وقت کی حالت کا اعتبار نہیں کیا گیا تھا۔- پہلی رائے کے قائلین کے نزدیک یہ بات اس طرح نہیں ہے اس لیے کہ شریعت میں مواریث کے حکم کی مختلف صورتیں متعین ہوچکی ہیں۔- مثلا قول باری ہے (ولکم نصف ماترک ازواجکم) نیز (ان امرؤھلک لیس لہ ولد ولہ اخت فلھا نصف ماترک) اللہ تعالیٰ نے بھائی کی موت بہن کے لیے میراث واجب کردی موت آجانے کے ساتھ ہی بہن کے لیے نصف ترکہ نیز شوہر کے لیے نصف ترکہ مقرر کردیا اور اس میں تقسیم ترکہ کی کوئی شرط نہیں لگائی۔ تقسیم تو اس مال میں واجب ہوتی ہے جس کا وہ مالک ہوتایا ہوتی ہے۔ اس لیے میراچ کیا ستحقاق میں تقسیم ترکہ کو کوئی دخل نہیں ہے اس لیے کہ تقسیم ملکیت کے تابع ہے۔- جب یہ بات ہے تو پھر یہ ضروری ہے کہ بیٹے کے مسلمان ہوجانے پر نصف ترکے سے بہن کی ملکیت زائل نہ ہو جس طرح کہ تقسیم کے بعد نصف ترکے سے اس کی ملکیت زائل نہیں ہوتی۔ رہ گئی زمانہ جاہلیت کی مواریث کی بات تو یہ مواریث شریعت کے حکم کے تحت سرے سے نہیں آئیں۔ پھر جب اسلام کا عمل دخل آگیا توا نہیں شریعت کے حکم پر محمول کرلیا گیا۔ کیونکہ شریعت کے ورود سے قبل کی باتیں برقرار نہیں رہیں اس لیے جن مواریث کی تقسیم عمل میں آگئی تھی ان میں لوگوں کو درگذرکردیا گیا اور جن کی تقسیم ابھی عمل میں نہیں آئی تھی انہیں شریعت کے حکم پر محمول کرلیا گیا۔- جس طرح قبضے میں لی ہوئی سودی رقمیں نظر انداز کردی گئیں اور تحریم ربوا کے ورود کے بعد قبضے میں نہ لی ہوئی سودی رقموں پر شریعت کا حکم جاری کیا گیا۔ یعنی یہ رقمیں منسوخ کردی گئیں اور صرف راس المال یعنی اصل زر کی واپس واجب کردی گئی۔ اسلام کے تحت مواریث کا حکم محکم ہوکرقرارپکڑچکا ہے اور اب اس پر نسخ ک اورود جائز نہیں رہا۔ اس لیے میراث تقسیم ہوجانے یا نہ ہونے کا کوئی اعتبار نہیں رہا۔ جس طرح کہ اگر زمانہ اسلام میں سود کی حرمت کے نزول اور اس کے حکم کے استقرار کے بعد سودی سودے کرلیے جاتے تو ان سودوں کے بطلان کے حکم میں سودی رقمیں قبضے میں لینے یا نہ لینے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔- ایک اور پہلو سے دیکھاجائے تو یہ واضح ہوگا کہ اہل اسلام کے درمیان ہمیں اس بارے میں کسی اختلاف کا کوئی علم نہیں کہ اگر کوئی شخص کسی میراث کا وارث بن جائے اور پھر تقسیم میراث سے پہلے اس کی وفات ہوجائے تو اس کا حصہ اس کے ورثاء کو چلاجائے گا۔ اسی طرح اگر وہ مرتدہوجائے تو میراث میں جس حصے کا وہ حق داربن گیا ہے وہ باطل نہیں ہوگا۔- نیز اس کی حیثیت اس شخص جیسی نہیں ہوگی جو مورث کی موت کے وقت مرتد تھا۔ اس طرح جو وارث مورث کی موت کے بعد تقسیم ترکہ سے قبل مسلمان ہوگیا ہو یا اسے آزاد کردیا گیا ہوا سے ترکہ میں کوئی حصہ نہیں مل سکتا۔ واللہ اعلم۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٣) یہ اللہ تعالیٰ کے احکام اور اس کے فرائض ہیں اب جو شخص ان ضابطوں کی پابندی کرے گا اس کے لیے اللہ کے ہاں جنت میں ایسے باغات ہیں، جہاں درختوں اور مکانات کے نیچے سے دودھ شہد پانی اور شراب طہور کی نہریں ہوں گی وہ جنت میں ہمیشہ رہیں گے نہ موت آئے گی اور نہ اس سے نکالے جائیں گے یہ بہت بڑی کامیابی ہوگی۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani