[٢٦] احکام کے مطابق تقسیم نہ کرنے والے :۔ اگرچہ یہاں میراث کے احکام بیان ہو رہے ہیں مگر حکم عام ہے۔ خواہ احکام یتامیٰ کے حقوق کے متعلق ہوں یا عورتوں سے تعلق رکھتے ہوں۔ وصیت سے تعلق رکھتے ہوں یا کوئی دوسرے ضابطے ہوں۔ جو بھی اللہ تعالیٰ نے حدود مقرر کردی ہیں اگر ان سے کوئی تجاوز کرے گا وہ ہمیشہ کے لیے جہنم کے عذاب میں مبتلا رہے گا اور ربط مضمون کے لحاظ سے مطلب یہ ہوگا کہ جو شخص اس قانون وراثت کو توڑے، عورتوں کو ورثہ سے محروم رکھے یا صرف بڑے بیٹے کو مستحق وراثت قرار دے یا عورت مرد کو برابر کا حصہ دار قرار دے یا جائیداد کو سرے سے تقسیم ہی نہ کرے اور اسے مشترکہ خاندانی جائیداد قرار دے دے تو ایسے سب لوگ حدود اللہ سے تجاوز کرنے والے اور اسی عذاب الیم کے مستحق ہیں۔- یتیم پوتے کی وراثت کا مسئلہ :۔ اللہ تعالیٰ نے اس سورة میں یتیموں سے خیر خواہی، ان سے انصاف اور ان کے حقوق کی نگہداشت کی بڑی تفصیل سے تاکید فرمائی۔ لیکن یہ ذکر نہیں فرمایا۔ کہ یتیم پوتا بھی وراثت کا حقدار ہوتا ہے۔ اس مسئلہ کی اہمیت یہ ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خود عبدالمطلب کی وفات کے وقت ان کے یتیم پوتے تھے لیکن آپ کو وراثت سے حصہ نہیں ملا۔ نہ ہی اللہ نے اس کا کہیں ذکر فرمایا۔ حالانکہ اگر یتیم پوتے کو وراثت میں حصہ دلانا اللہ کو منظور ہوتا تو اللہ تعالیٰ اس کے متعلق بھی قرآن میں کوئی واضح حکم نازل فرما دیتے۔ اور ایسے حکم کا نازل نہ ہونا ہی اس بات کی قوی دلیل ہے۔ کہ یتیم پوتا اپنے چچا یا چچاؤں اور پھوپھیوں وغیرہ کی موجودگی میں وراثت کا حق دار نہیں ہوتا۔ بلکہ وہ اپنے مرنے والے باپ کی وراثت کا ہی حقدار ہوتا ہے۔- وراثت صرف اسے ملتی ہے جو میت کی وفات کے وقت موجود ہو :۔ اب یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارے بعض متجددین کے واویلا کی بنا پر ہماری حکومت پاکستان نے قانون وراثت میں یتیم پوتے کو بھی حصہ دار قرار دیا ہے۔ اور یہ بات عقلی اور نقلی دونوں طرح سے غلط ہے۔ عقلی لحاظ سے اس طرح کہ کسی درخت کے پھل کو اس درخت کے ذریعہ زمین سے غذا اسی وقت تک ملتی ہے جب تک وہ درخت پر لگا رہے۔ اور جب درخت سے گرجائے تو اسے غذا نہیں مل سکتی۔ اور نقلی لحاظ سے اس طرح کہ تقسیم وراثت کے دو اصول ہیں۔ اور یہ دونوں کتاب اللہ سے مستنبط ہیں۔ پہلا یہ کہ وراثت میں حصہ صرف اس کو ملے گا۔ جو میت کی وفات کے وقت زندہ موجود ہو۔ اور جو میت کی زندگی میں مرچکا اس کا کوئی حصہ نہیں۔ - الاقرب فالاقرب کا اصول :۔ دوسرا الاقرب فالاقرب کا اصول ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ قریبی رشتہ دار کی موجودگی میں دور کے رشتہ دار وراثت سے محروم ہوجاتے ہیں۔ اور قریبی سے مراد یہ ہے جس میں کوئی درمیانی واسطہ نہ ہو۔ جیسے میت کی صلبی اولاد۔ اس لحاظ سے بھی یتیم پوتا اپنے چچاؤں اور پھوپھیوں کی موجودگی میں وراثت کا حقدار قرار نہیں پاتا۔- یتیم پوتے کو وراثت میں حقدار ثابت کرنے والے اس معاملہ کو ایک شاذ قسم کی اور جذباتی قسم کی مثال سے سمجھانے کی کوشش فرماتے ہیں۔ مثلاً زید کے دو بیٹے ہیں۔ ایک بکر دوسرا عمر۔ زید کی وفات کے وقت بکر تو زندہ ہوتا ہے مگر عمر مرچکا ہوتا ہے۔ البتہ عمر کا ایک لڑکا خالد زندہ ہوتا ہے۔ اور سوال یہ اٹھایا جاتا ہے کہ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ بکر کو تو سارا ترکہ مل جائے اور عمر کے بیٹے خالد کو کچھ نہ ملے۔ حالانکہ وہ یتیم ہے اور مال کا زیادہ محتاج ہے۔ کیا اس کا جرم یہی ہے کہ اس کا باپ مرچکا ہے ؟ پھر ان حضرات نے یتیم پوتے کو حقدار بنانے کے لیے قائم مقامی کا اصول وضع کیا۔ یعنی خالد اپنے باپ عمر کا قائمقام بن کر اپنے دادا کے ترکہ سے آدھا ورثہ لینے کا حقدار ہے۔- قائم مقامی کا اصول :۔ غور فرمائیے کہ اسلام کے پورے قانون وراثت میں آپ کو کہیں یہ قائم مقامی کا اصول نظر آیا ہے۔ دراصل اس اصول کے موجد پرویز صاحب کے استاد محترم حافظ اسلم جیراج پوری ہیں۔ پھر اسی نظریہ کی پرویز صاحب نے آبیاری فرمائی۔ اس سے پہلے آپ کو یہ اصول پوری اسلامی شریعت میں اور اسلامی تاریخ میں کہیں نظر نہ آئے گا۔ وجہ یہ ہے کہ حق وراثت تو مرنے کے ساتھ ہی ختم ہوجاتا ہے۔ پھر جب حق وراثت ہی ختم ہوچکا تو قائم مقامی کس بات کی ؟- پھر اس اصول کو تسلیم کرنے کے مفاسد بیشمار ہیں۔ مثلاً میت کی بیوی اس سے پہلے فوت ہوچکی ہے۔ اب اس نظریہ قائم مقامی کی رو سے بیوی کے اقربین جائز طور پر ترکہ سے حصہ طلب کرنے کا حق رکھتے ہیں۔ اسی طرح میت اگر عورت ہے جس کا خاوند پہلے ہی فوت ہوچکا ہے تو خاوند کے رشتہ دار قائم مقام ہونے کی حیثیت سے ترکہ سے حصہ طلب کرسکتے ہیں۔ علاوہ ازیں ورثہ کے حقدار صرف بیٹے ہی نہیں بیٹیاں بھی ہوتی ہیں۔ اور کسی بھی فوت شدہ بیٹی کی اولاد (یعنی بھانجے بھانجیاں بھی اس قائم مقامی کے اصول کے تحت ورثہ کا مطالبہ کرنے کا حق رکھتے ہیں۔ اور یہ سلسلہ آگے چلتا ہی جاتا ہے۔ پھر اسے آخر کس قاعدہ کے تحت صرف یتیم پوتے تک ہی محدود رکھا جاسکتا ہے ؟- اس اصول کا دوسرا مفسدہ یہ ہے کہ مثلاً زید کے دونوں بیٹے بکر اور عمر فوت ہوچکے ہیں۔ بکر کی اولاد صرف ایک بیٹا ہے مگر عمر کے پانچ بیٹے ہیں۔ اور میت کا اقرب ہونے کے لحاظ سے سب ایک درجہ پر ہیں۔ اور سارے ہی ایک جیسے قائم مقام ہیں۔ تو کیا ورثہ ان میں برابر تقسیم کردیا جائے گا ؟ یا بکر کے بیٹے کو ٢ ١ اور عمر کے بیٹوں کو صرف دسواں دسواں حصہ ملے گا ؟ ان میں سے کون سی تقسیم درست ہوگی اور کیوں ؟- قائم مقامی کے اصول کے حق میں ان لوگوں کی دلیل یہ ہے کہ اگر دادا باپ کے فوت ہونے کی صورت میں باپ کا قائم مقام بن کر ترکہ سے حصہ پاسکتا ہے تو پوتا اپنے فوت شدہ باپ کا قائم مقام بن کر دادا سے کیوں حصہ نہیں پاسکتا ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ تقسیم بھی قائم مقامی کے اصول کے تحت نہیں ہوتی۔ بلکہ الاقرب فالاقرب کے اصول کے تحت ہی ہوتی ہے۔ بالائی یا آبائی جانب میں باپ کے بعد صرف دادا ہی اقرب ہوسکتا ہے جب کہ ابنائی جانب میں میت کے اقرب اس کے بیٹے ہوتے ہیں نہ کہ پوتے۔ ہاں اگر صلبی اولاد کوئی بھی زندہ نہ ہو تو پھر پوتے بھی وارث ہوسکتے ہیں۔- ان حضرات کا اصل ہدف یتیم کی خیر خواہی نہیں بلکہ سنت میں کیڑے نکالنا اور اس کی مخالفت ہے۔ اور وہ بھی کسی قرآن کی آیت سے نہیں بلکہ اپنی وضع کردہ اصول قائم مقامی کی بنا پر جس میں بنیادی غلطی یہ ہے کہ مرے ہوئے رشتہ داروں کو زندہ تصور کرکے قائم مقامی کا حق قائم کیا جاتا ہے۔ ورنہ کتاب و سنت میں یتیم سے ہمدردی کی بہت سی صورتیں موجود ہیں۔ مثلاً مرنے والا خود اس کے لیے ایک تہائی ورثہ وصیت کرنے کا حق رکھتا ہے۔ اس لیے کہ یتیم پوتا وارث نہیں اور وصیت ہوتی ہی غیر وارث کے لیے ہے۔ وارث کے لیے وصیت نہیں ہوسکتی اور اگر مرنے والا وصیت نہیں کرسکا۔ یا اس کے حق میں وصیت نہیں کرنا چاہتا تھا کہ بقیہ وارث اسے خود اپنی رضا سے اس میں شریک بنا سکتے ہیں۔ حتیٰ کہ اگر مناسب سمجھیں تو اسے اپنی مرضی سے سارے کا سارا ترکہ بھی دے سکتے ہیں اور ان باتوں کا انہیں بھی ایسا ہی حق ہے جیسا مرنے والے کو وصیت کرنے کا حق ہے۔ پھر اگر مرنے والا دادا کو بھی اس سے کوئی ہمدردی نہ ہو اور نہ ہی دوسرے وارثوں کو ہو۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسا پوتا ہمدردی کا حقدار ہی نہیں تھا۔ ممکن ہے اپنے مرنے والے باپ سے اسے اتنا مال و دولت مل گیا ہو کہ دوسرے اسے دینے کی ضرورت ہی نہ سمجھیں۔ اس صورت میں آپ کی ہمدردی اس کے کس کام آسکتی ہے ؟
وَمَنْ يَّعْصِ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ وَيَتَعَدَّ حُدُوْدَہٗ يُدْخِلْہُ نَارًا خَالِدًا فِيْھَا ٠ ۠ وَلَہٗ عَذَابٌ مُّہِيْنٌ ١٤ ۧ- عصا - العَصَا أصله من الواو، لقولهم في تثنیته : عَصَوَانِ ، ويقال في جمعه : عِصِيٌّ. وعَصَوْتُهُ :- ضربته بالعَصَا، وعَصَيْتُ بالسّيف . قال تعالی: وَأَلْقِ عَصاكَ [ النمل 10] ، فَأَلْقى عَصاهُ- [ الأعراف 107] ، قالَ هِيَ عَصايَ [ طه 18] ، فَأَلْقَوْا حِبالَهُمْ وَعِصِيَّهُمْ [ الشعراء 44] . ويقال : ألقی فلانٌ عَصَاهُ : إذا نزل، تصوّرا بحال من عاد من سفره، قال الشاعر : فألقت عَصَاهَا واستقرّت بها النّوى وعَصَى عِصْيَاناً : إذا خرج عن الطاعة، وأصله أن يتمنّع بِعَصَاهُ. قال تعالی: وَعَصى آدَمُ رَبَّهُ [ طه 121] ، وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ النساء 14] ، آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُيونس 91] . ويقال فيمن فارق الجماعة : فلان شقّ العَصَا - ( ع ص ی ) العصا : ( لاٹھی ) یہ اصل میں ناقص وادی ہے کیونکہ اس کا تثنیہ عصوان جمع عصی آتی عصوتہ میں نے اسے لاٹھی سے مارا عصیت بالسیف تلوار کو لاٹھی کی طرح دونوں ہاتھ سے پکڑ کت مارا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَلْقِ عَصاكَ [ النمل 10] اپنی لاٹھی دال دو ۔ فَأَلْقى عَصاهُ [ الأعراف 107] موسٰی نے اپنی لاٹھی ( زمین پر ) ڈال دی ۔ قالَ هِيَ عَصايَ [ طه 18] انہوں نے کہا یہ میری لاٹھی ہے ۔ فَأَلْقَوْا حِبالَهُمْ وَعِصِيَّهُمْ [ الشعراء 44] تو انہوں نے اپنی رسیاں اور لاٹھیاں ڈالیں ۔ القی فلان عصاہ کسی جگہ پڑاؤ ڈالنا کیونکہ جو شخص سفر سے واپس آتا ہے وہ اپنی لاٹھی ڈال دیتا ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ( 313 ) والقت عصاھا واستقربھا النوی ( فراق نے اپنی لاٹھی ڈال دی اور جم کر بیٹھ گیا ) عصی عصیانا کے معنی اطاعت سے نکل جانے کے ہیں دراصل اس کے معنی ہیں اس نے لاٹھی ( عصا ) سے اپنا بچاؤ کیا ۔ قرآن میں ہے : وَعَصى آدَمُ رَبَّهُ [ طه 121] اور آدم نے اپنے پروردگار کے حکم کے خلاف کیا تو ( وہ اپنے مطلوب سے ) بےراہ ہوگئے ۔ وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ النساء 14] اور جو خدا اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا ۔ آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس 91] ( جواب ملا کہ ) اب ( ایمان لاتا ہے ) حالانکہ تو پہلے نافرمانی کرتا رہا ۔ اور اس شخص کے متعلق جو جماعت سے علیدہ گی اختیار کر سے کہا جاتا ہے فلان شق لعصا ۔- هان - الْهَوَانُ علی وجهين :- أحدهما : تذلّل الإنسان في نفسه لما لا يلحق به غضاضة، فيمدح به نحو قوله : وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان 63] ونحو ما روي عن النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم :«المؤمن هَيِّنٌ ليّن»- الثاني : أن يكون من جهة متسلّط مستخفّ به - فيذمّ به . وعلی الثاني قوله تعالی: الْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذابَ الْهُونِ [ الأنعام 93] ، فَأَخَذَتْهُمْ صاعِقَةُ الْعَذابِ الْهُونِ [ فصلت 17] ، وَلِلْكافِرِينَ عَذابٌ مُهِينٌ [ البقرة 90] ، وَلَهُمْ عَذابٌ مُهِينٌ [ آل عمران 178] ، فَأُولئِكَ لَهُمْ عَذابٌ مُهِينٌ [ الحج 57] ، وَمَنْ يُهِنِ اللَّهُ فَما لَهُ مِنْ مُكْرِمٍ [ الحج 18] ويقال : هانَ الأمْرُ علی فلان : سهل . قال اللہ تعالی: هُوَ عَلَيَّ هَيِّنٌ [ مریم 21] ، وَهُوَ أَهْوَنُ عَلَيْهِ [ الروم 27] ، وَتَحْسَبُونَهُ هَيِّناً [ النور 15] والْهَاوُونَ : فاعول من الهون، ولا يقال هارون، لأنه ليس في کلامهم فاعل .- ( ھ و ن ) الھوان - اس کا استعمال دو طرح پر ہوتا ہے انسان کا کسی ایسے موقعہ پر نر می کا اظہار کرتا جس میں اس کی سبکی نہ ہو قابل ستائش ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان 63] اور خدا کے بندے تو وہ ہیں جو زمین پر متواضع ہوکر چلتے ہیں ۔ اور آنحضرت سے مروی ہے کہ مومن متواضع اور نرم مزاج ہوتا ہے - دوم ھان بمعنی ذلت - اور رسوائی کے آتا ہے یعنی دوسرا انسان اس پر متسلط ہو کت اسے سبکسار کرے تو یہ قابل مذمت ہے چناچہ اس معنی میں فرمایا : ۔ الْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذابَ الْهُونِ [ الأنعام 93] سو آج تم کو ذلت کا عذاب ہے ۔ فَأَخَذَتْهُمْ صاعِقَةُ الْعَذابِ الْهُونِ [ فصلت 17] تو کڑک نے ان کو آپکڑا اور وہ ذلت کا عذاب تھا وَلِلْكافِرِينَ عَذابٌ مُهِينٌ [ البقرة 90] اور کافروں کے لئے ذلیل کرنے والا عذاب ہے ۔ وَلَهُمْ عَذابٌ مُهِينٌ [ آل عمران 178] اور آخر کار ان کو ذلیل کرنے والا عذاب ہوگا ۔ فَأُولئِكَ لَهُمْ عَذابٌ مُهِينٌ [ الحج 57] انکے لئے ذلیل کرنے والا عذاب ہوگا ۔ وَمَنْ يُهِنِ اللَّهُ فَما لَهُ مِنْ مُكْرِمٍ [ الحج 18] اور جس کو خدا ذلیل کرے اس کو کوئی عزت دینے والا نہیں ۔ علی کے ساتھ کے معنی کسی معاملہ کے آسان ہو نیکے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ هُوَ عَلَيَّ هَيِّنٌ [ مریم 21] کہ بی مجھے آسان ہے ۔ وَهُوَ أَهْوَنُ عَلَيْهِ [ الروم 27] اور یہ اس پر بہت آسان ہے ۔ وَتَحْسَبُونَهُ هَيِّناً [ النور 15] اور تم اسے ایک ہل کہ بات سمجھتے ہو ۔ ھاودن کمزور یہ ھون سے ہے اور چونکہ فاعل کا وزن کلام عرب میں نہیں پایا اسلئے ھاون کی بجائے ہارون بروزن فا عول کہا جاتا ہے ۔
(١٤) اور جو خیانت اور ظلم کرکے احکام خداوندی کی نافرمانی اور اس کے حدود سے تجاوز کرے گا تو جب تک اللہ تعالیٰ چاہے اس کو جہنم میں رکھے گا اور وہاں عذاب کے ساتھ ساتھ ذلت بھی ہوگی ،
سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :25 یہ ایک بڑی خوفناک آیت ہے جس میں ان لوگوں کو ہمیشگی کے عذاب کی دھمکی دی گئی ۔ جو اللہ تعالیٰ کے مقرر کئے ہوئے قانون وراثت کو تبدیل کریں ، یا ان دوسری قانونی حدوں کو توڑیں جو خدا نے اپنی کتاب میں واضح طور پر مقرر کردی ہیں ۔ لیکن سخت افسوس ہے کہ اس قدر سخت وعید کے ہوتے ہوئے بھی مسلمانوں نے بالکل یہودیوں کی جسارت کے ساتھ خدا کے قانون کو بدلا اور اس کی حدوں کو توڑا ۔ اس قانون وراثت کے معاملہ میں جو نافرمانیاں کی گئی ہیں وہ خدا کے خلاف کھلی بغاوت کی حد تک پہنچتی ہیں ۔ کہیں عورتوں کو میراث سے مستقل طور محروم کیا گیا ۔ کہیں صرف بڑے بیٹے کو میراث کا مستحق ٹھیرایا گیا ، کہیں سرے سے تقسیم میراث ہی کے طریقے کو چھوڑ کر مشترک خاندانی جائیداد کا طریقہ اختیار کرلیا گیا ۔ کہیں عورتوں اور مردوں کا حصہ برابر کردیا گیا ۔ اور اب ان پرانی بغاوتوں کے ساتھ تازہ ترین بغاوت یہ ہے کہ بعض مسلمان ریاستیں اہل مغرب کی تقلید میں وفات ٹیکس ( ) اپنے ہاں رائج کر رہی ہیں جس کے معنی یہ ہیں کہ میت کے وارثوں میں ایک وارث حکومت بھی ہے جس کا حصہ رکھنا اللہ میاں بھول گئے تھے حالانکہ اسلامی اصول پر اگر میت کا ترکہ کسی صورت میں حکومت کو پہنچتا ہے تو وہ صرف یہ ہے کہ کسی مرنے والے کا کوئی قریب و بعید رشتہ دار موجود نہ ہو اور اس کا چھوڑا ہوا مال تمام اشیاء متروکہ کی طرح داخل بیت المال ہوجائے ۔ یا پھر حکومت اس صورت میں کوئی حصہ پاسکتی ہے جبکہ مرنے والا اپنی وصیت میں اس کے لئے کوئی حصہ مقرر کردے ۔