سیاہ کار عورت اور اس کی سزا ابتدائے اسلام میں یہ حکم تھا کہ جب عادل گواہوں کی سچی گواہی سے کسی عورت کی سیاہ کاری ثابت ہو جائے تو اسے گھر سے باہر نہ نکلنے دیا جائے گھر میں ہی قید کر دیا جائے اور جنم قید یعنی موت سے پہلے اسے چھوڑا نہ جائے ، اس فیصلہ کے بعد یہ اور بات ہے کہ اللہ ان کے لئے کوئی اور راستہ پیدا کر دے ، پھر جب دوسری صورت کی سزا تجویز ہوئی تو وہ منسوخ ہو گئی اور یہ حکم بھی منسوخ ہوا ، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں جب تک سورۃ نور کی آیت نہیں اتری تھی زنا کار عورت کے لئے یہی حکم رہا پھر اس آیت میں شادی شدہ کو رجم کرنے یعنی پتھر مار مار کر مار ڈالنے اور بےشادی شدہ کو کوڑے مارنے کا حکم اترا ، حضرت عکرمہ ، حضرت سعید بن جبیر ، حضرت حسن ، حضرت عطاء خرسانی ٫ حضرت ابو صالح ، حضرت قتادہ ، حضرت زید بن اسلم اور حضرت ضحاک کا بھی یہی قول ہے کہ یہ آیت منسوخ ہے اور اس پر سب کا اتفاق ہے ، حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جب وحی اترتی تو آپ پر اس کا بڑا اثر ہوتا اور تکلیف محسوس ہوتی اور چہرے کا رنگ بدل جاتا پس اللہ تعالیٰ نے ایک دن اپنے نبی پر وحی نازل فرمائی کیفیت وحی سے نکلے تو آپ نے فرمایا مجھ سے حکم الٰہی لو اللہ تعالیٰ نے سیاہ کار عورتوں کے لئے راستہ نکال دیا ہے اگر شادی شدہ عورت یا شادی شدہ مرد سے اس جرم کا ارتکاب ہو تو ایک سو کوڑے اور پتھروں سے مار ڈالنا اور غیر شادی شدہ ہوں تو ایک سو کوڑے اور ایک سال کی جلا وطنی ( مسلم وغیرہ ) ترمذی وغیرہ میں بھی یہ حدیث الفاظ کچھ تبدیلی کے ساتھ سے مروی ہے ، امام ترمذی اسے حسن صحیح کہتے ہیں ، اسی طرح ابو داؤد میں بھی ، ابن مردویہ کی غریبف حدیث میں کنوارے اور بیاہے ہوئے کے حکم کے ساتھ ہی یہ بھی ہے کہ دونوں اگر بوڑھے ہوں تو انہیں رجم کر دیا جائے لیکن یہ حدیث غریب ہے ، طبرانی میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سورۃ نساء کے اترنے کے بعد اب روک رکھنے کا یعنی عورتوں کو گھروں میں قاید رکھنے کا حکم نہیں رہا ، امام احمد کا مذہب اس حدیث کے مطابق یہی ہے کہ زانی شادی شدہ کو کوڑے بھی لگائے جائیں گے اور رجم بھی کیا جائے گا اور جمہور کہتے ہیں کوڑے نہیں لگیں گے صرف رجم کیا جائے گا اس لئے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ماعز رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اور غامدیہ عورت کو رجم کیا لیکن کوڑے نہیں مارے ، اسی طرح دو یہودیوں کو بھی آپ نے رجم کا حکم دیا اور رجم سے پہلے بھی انہیں کوڑے نہیں لگوائے ، پھر جمہور کے اس قول کے مطابق معلوم ہوا کہ انہیں کوڑے لگانے کا حکم منسوخ ہے واللہ اعلم ۔ پھر فرمایا اس بےحیائی کے کام کو دو مرد اگر آپس میں کریں انہیں ایذاء پہنچاؤ یعنی برا بھلا کہہ کر شرم و غیرہ دلا کر جوتیاں لگا کر ، یہ حکم بھی اسی طرح پر رہا یہاں تک کہ اسے بھی اللہ تعالیٰ نے کوڑے اور رجم سے منسوخ فرمایا ، حضرت عکرمہ عطاء حسن عبداللہ بن کثیر فرماتے ہیں اس سے مراد بھی مرد و عورت ہیں ، سدی فرماتے ہیں مراد وہ نوجوان مرد ہیں جو شادی شدہ نہ ہوں حضرت مجاہد فرماتے ہیں لواطت کے بارے میں یہ آیت ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جسے تم لوطی فعل کرتے دیکھو تو فاعل مفعول دونوں کو قتل کر ڈالو ، ہاں اگر یہ دونوں باز آجائیں اپنی بدکاری سے توبہ کریں اپنے اعمال کی اصلاح کرلیں اور ٹھیک ٹھاک ہو جائیں تو اب انکے ساتھ درشت کلامی اور سختی سے پیش نہ آؤ ، اس لئے کہ گناہ سے توبہ کر لینے والا مثل گناہ نہ کرنے والے کے ہے ۔ اللہ تعالیٰ توبہ قبول کرنے والا اور درگزر کرنے والا ہے ، بخاری و مسلم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اگر کسی کی لونڈی بدکاری کرے تو اس کا مالک اسے حد لگا دے اور ڈانٹ ڈپٹ نہ کرے ، یعنی حد لگ جانے کے بعد پھر اسے عار نہ دلایا کرے کیونکہ حد کفارہ ہے ۔
15۔ 1 یہ بدکار عورتوں کی بدکاری کی سزا ہے جو ابتدائے اسلام میں، جب کہ زنا کی سزا متعین نہیں ہوئی تھی، عارضی طور پر مقرر کی گئی تھی ہاں یہ بھی یاد رہے کہ عربی زبان میں ایک سے دس تک کی گنتی میں یہ مسلمہ اصول ہے کہ عدد مذکر ہوگا تو معدود مؤنث اور عدد مؤنث ہوگا تو معدود مذکر۔ یہاں اربعہ (یعنی چار عدد) مؤنث ہے، اس لئے معدود جو یہاں ذکر نہیں کیا گیا اور محذوف ہے یقینا مذکر آئے گا اور وہ ہے رجال یعنی اربعۃ رجال جس سے یہ بات واضح طور پر معلوم ہوتی ہے کہ اثبات زنا کے لئے چار مرد گواہوں کا ہونا ضروری ہے۔ گویا جس طرح زنا کی سزا سخت مقرر کی گئی ہے اسکے اثبات کے لئے گواہوں کی کڑی شرط عائد کردی گئی ہے یعنی چار مسلمان مرد عینی گواہ، اس کے بغیر شرعی سزا کا اثبات ممکن نہیں ہوگا۔ 15۔ 2 اس راست سے مراد زنا کی وہ سزا ہے جو بعد میں مقرر کی گئی یعنی شادی شدہ زناکار مرد و عورت کے لئے رجم اور غیر شادی شدہ بدکار مرد عورت کے لئے سو سو کوڑے کی سزا (جس کی تفصیل سورة نور اور احادیث صحیحہ میں موجود ہے۔
[٢٧] ابتدا زنا کی سزا :۔ احکام وراثت کے بعد اب دوسری معاشرتی برائیوں کا ذکر کیا جا رہا ہے جن میں سرفہرست زنا اور فحاشی ہے۔ زنا کے لیے گواہیوں کا نصاب چار مردوں کی گواہی ہے اور یہ سب عاقل، بالغ اور قابل اعتماد ہونے چاہئیں۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ دو مرد اور چار عورتیں گواہی دے دیں۔ کیونکہ عورت کی گواہی صرف مالی معاملات میں قابل قبول ہے، حدود میں نہیں۔ ایسے چار مسلمان، عاقل، بالغ اور قابل اعتماد اور معتبر آدمیوں کا اس طرح گواہی دینا کہ انہوں نے فلاں عورت کو بچشم خود دیکھا ہے بظاہر بہت مشکل نظر آتا ہے۔ ان کڑی سزاؤں کے ساتھ چار گواہوں کا نصاب مقرر کرنے میں غالباً حکمت الہی یہ ہے کہ اگر کوئی ایک آدھ شخص کسی کو زنا کرتے دیکھ بھی لے تو اس برائی کو ظاہر کرنے یا پھیلانے کی ہرگز کوشش نہ کرے۔ زنا کے گواہ دراصل خود مجرم کی حیثیت سے عدالت کے کٹہرے میں کھڑے ہوتے ہیں اور اگر خدانخواستہ زنا کے گواہوں میں سے کسی ایک کی گواہی بھی نامکمل رہے یا مشکوک ہوجائے تو زانی بچ جائے گا اور گواہوں پر قذف کی حد پڑجائے گی۔ اس لیے زنا کی گواہی کے لیے جانا اور گواہی دینا بذات خود بڑا خطرناک کام ہے۔
وَالّٰتِيْ يَاْتِيْنَ الْفَاحِشَةَ ۔۔ : اوپر کی آیات میں عورتوں کے ساتھ احسان اور ان کے مہر ادا کرنے اور مردوں کے ساتھ ان کو وراثت میں شریک قرار دے کر ان کے حقوق کی حفاظت کا بیان تھا، اب یہاں سے عورتوں کی تادیب اور ان پر سختی کا بیان ہے، تاکہ عورت اپنے آپ کو بالکل ہی آزاد نہ سمجھے۔ (قرطبی) پہلی آیت میں زنا کار عورتوں کی سزا بیان کی کہ زنا شہادت سے ثابت ہوجائے تو انھیں تاعمر گھر میں محبوس رکھا جائے، یہاں تک کہ وہ مرجائیں، یا اللہ تعالیٰ ان کے بارے میں کوئی دوسری سزا نازل فرما دے۔ اسلام میں زنا کار عورتوں کے لیے یہ پہلی سزا ہے جو بعد میں حد زنا نازل ہونے سے منسوخ ہوگئی۔ سورة نور میں جو سو کوڑوں کی سزا نازل ہوئی ہے، یہاں ” سبیلا “ سے اسی طرف اشارہ ہے۔ دوسری آیت میں زانی مرد اور زنا کار عورت کے متعلق یہ حکم دیا گیا کہ ان کو اذیت دی جائے اور ذلیل کیا جائے، حتیٰ کہ تائب ہوجائیں، یہ سزا پہلی سزا کے ساتھ ہی ہے، بعد میں یہ دونوں سزائیں منسوخ ہوگئیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” مجھ سے (احکام دین) لو، اللہ تعالیٰ نے ان عورتوں کے لیے سبیل پیدا فرما دی ہے کہ کنوارا کنواری کے ساتھ (زنا کرے) تو اس کے لیے سو کوڑے اور ایک سال کی جلا وطنی اور شادی شدہ شادی شدہ کے ساتھ (زنا کرے) تو ان کے لیے سو کوڑے اور سنگسار ہے۔ “ [ مسلم، الحدود، - باب حد الزنی : ١٦٩٢، عن عبادۃ بن الصامت (رض) ] مزید تفصیل کے لیے دیکھیے سورة نور (٢) ۔- اَرْبَعَةً مِّنْكُمْ : چونکہ زنا کی سزا نہایت سخت ہے، اس لیے اس پر گواہی بھی زیادہ مضبوط رکھی۔ عربی زبان کا قاعدہ ہے کہ جو چیز شمار کی جا رہی ہے، وہ مذکر ہو تو عدد مؤنث ہوتا ہے، اس لیے ” اربعہ “ کی وجہ سے ترجمہ ” چار مرد “ کیا ہے۔ - وَالَّذٰنِ يَاْتِيٰنِھَا : بعض علماء نے اس سے مراد قوم لوط کا عمل کرنے والے دو مرد لیے ہیں اگرچہ ” الذان “ کے لفظ میں، جو تثنیہ مذکر کے لیے آتا ہے اس کی گنجائش ہے، مگر یہ مطلب نہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے منقول ہے، نہ کسی صحابی سے، بلکہ طبری اور ابن ابی حاتم نے اپنی حسن سند کے ساتھ علی بن ابی طلحہ سے، انھوں نے ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ عورت جب زنا کرتی تو گھر میں بیٹھی رہتی یہاں تک کہ فوت ہوجاتی اور ابن عباس نے (وَالَّذٰنِ يَاْتِيٰنِھَا مِنْكُمْ فَاٰذُوْھُمَا ۚ ) کے متعلق فرمایا کہ مرد جب زنا کرتا تو اسے تعزیہ اور جوتے مارنے کے ساتھ ایذاء دی جاتی تو اللہ تعالیٰ نے اس کے بعد یہ آیات نازل فرمائیں : (اَلزَّانِيَةُ وَالزَّانِيْ فَاجْلِدُوْا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ ۠) [ النور : ٢ ] یعنی زنا کرنے والی عورت اور زنا کرنے والے مرد کو سو کوڑے مارو۔ پھر اگر وہ شادی شدہ ہوں تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت کے مطابق انھیں رجم کردیا جائے گا یہ ہے وہ ” سبیل “ جو اللہ نے فرمایا ” اَوْ يَجْعَلَ اللّٰهُ لَھُنَّ سَبِيْلًا ‘ (یہاں تک کہ انھیں موت اٹھائے جائے یا اللہ ان کے لیے کوئی راستہ بنا دے) اسی طرح طبری نے صحیح سند کے ساتھ مجاہد سے نقل کیا ہے کہ ” وَالَّذٰنِ يَاْتِيٰنِھَا مِنْكُمْ “ سے مراد زنا کرنے والے مرد عورت ہیں۔ علاوہ ازیں ” يَاْتِيٰنِھَا “ میں ” ہا “ کی ضمیر پچھلی آیت میں مذکور الفاحشہ کی طرف جا رہی ہے جس سے اس مقام پر مراد زنا ہے۔ اس فاحشہ سے مراد قوم لوط کا عمل ہو ہی نہیں سکتا۔ رہا ” اللذان “ تثنیہ مذکر کا لفظ تو دو افراد اگر مذکر و مؤنث ہوں تو ان کے لیے تثنیہ مذکر کی ضمیر عام استعمال ہوتی ہے اس میں کوئی قباحت نہیں۔
خلاصہ تفسیر - ربط آیات :۔ ماقبل کی آیات میں ان بےاعتدالیوں کی اصلاح کی گئی ہے جو زمانہ جاہلیت میں یتیموں کے حق میں مواریث کے سلسلہ میں ہوتی تھیں، یہ لوگ عورتوں پر بھی ظلم و ستم ڈھاتے تھے، اور ان کے معاملہ میں رسوم قبیحہ میں مبتلا تھے، جن عورتوں سے نکاح جائز نہیں ہے ان سے نکاح کرلیتے تھے۔- اگلی آیات میں ان معاملات کی اصطلاح فرماتے ہیں اور اگر کسی عورت سے کوئی ایسا قصور سر زد ہوجائے جو شرعاً قصور ہو اس پر تادیب کی اجازت دیتے ہیں اور اصلاح و تادیب کا یہ مضمون بھی اگلے دو تین رکوع تک چلا گیا ہے۔- اور جو عورتیں بےحیائی کا کام (یعنی زنا) کریں تمہاری (منکوحہ) بیبیوں میں سے سو تم لوگ ان عورتوں (کے اس فعل) پر چار آدمی اپنوں میں سے (یعنی مسلمان، آزاد، عاقل، بالغ، مذکر) گواہ کرلو (تاکہ ان کی گواہی پر حکام سزائے آئندہ جاری کریں) سو اگر وہ گواہی دیدیں تو (ان کی سزا یہ ہے کہ) تم ان کو (بحکم حاکم) گھروں کے اندر (سیاستہ) مقید رکھو یہاں تک کہ (یا تو) موت ان کا خاتمہ کر دے (اور) یا اللہ تعالیٰ ان کے لئے کوئی اور راہ (یعنی حکم ثانی) تجویز فرما دیں (بعد میں جو حکم ثانی اس سلسلہ میں تجویز ہوا اس کا ذکر معارف و مسائل میں آ رہا ہے) اور (سزائے زنا میں کھ زن منکوحہ کی تخصیص نہیں، بلکہ) جونسے دو شخص بھی وہ بےحیائی کا کام (یعنی زنا) کریں تم میں سے (یعنی بالغ عاقل مسلمانوں میں سے) تو ان دونوں کو اذیت پہنچاؤ پھر (بعد اذیت پہنچانے کے) اگر وہ دونوں (گزشتہ سے) توبہ کرلیں توبہ کرلیں اور (آئندہ کے لئے اپنی) اصلاح کرلیں، (یعنی پھر ایسا فعل ان سے سرزد نہ ہو) تو ان دونوں سے کچھ تعرض نہ کرو (کیونکہ) بلاشبہ اللہ تعالیٰ توبہ قبول کرنے والے ہیں، رحمت والے ہیں (اس لئے اپنی رحمت سے اللہ تعالیٰ نے ان کی خطا معاف کردی، پھر تم کو بھی ان کے در پے آزار نہ ہونا چاہئے۔ )- معارف و مسائل - ان آیات میں ایسے مردوں اور عورتوں کے بارے میں سزا تجویز کی گئی ہے جن سے فاحشہ یعنی زنا کا صدور ہوجائے، پہلی آیت میں فرمایا کہ جن عورتوں سے ایسی حرکت سر زد ہوجائے تو اس کے ثبوت کے لئے چار گواہ مرد طلب کئے جائیں، یعنی جن حکام کے پاس یہ معاملہ پیش کیا جائے ثبوت زنا کے لئے وہ چار گواہ طلب کریں، جو شہادت کی اہلیت رکھتے ہوں اور گواہی بھی مردوں کی ضروری ہے، اس سلسلے میں عورتوں کی گواہی معتبر نہیں۔- زنا کے گواہی میں شریعت نے دو طرح سے سختی کی ہے، چونکہ یہ معاملہ بہت اہم ہے جس سے عزت اور عفت مجروح ہوتی ہے اور خاندانوں کے ننگ و عار کا مسئلہ سامنے آجاتا ہے۔ اولاً تو یہ شرط لگائی کہ مرد ہی گواہ ہوں، عورتوں کی گواہی کا اعتبار نہیں کیا گیا، ثانیاً چار مردوں کا ہونا ضرری قرار دیا، ظاہر ہے کہ یہ شرط بہت سخت ہے، جس کا وجود میں آنا شا ذو نادر ہی ہوسکتا ہے یہ سختی اس لئے اختیار کی گئی کہ عورت کا شوہر یا اس کی والدہ یا بیوی بہن ذاتی پرخاش کی وجہ سے خواہ مخواہ الزام نہ لگائیں، یا دوسرے بدخواہ لوگ دشمنی کی وجہ سے الزام اور تہمت لگانے کی جرأت نہ کرسکیں، کیونکہ اگر چار افراد سے کم لوگ زنا کی گواہی دیں تو ان کی گواہی نامعتبر ہے، ایسی صورت میں مدعی اور گواہ سب جھوٹے قرار دیئے جاتے ہیں اور ایک مسلمان پر الزام لگانے کی وجہ سے ان پر ” حد قذف “ جاری کردی جاتی ہے۔ سورة نور میں واضح طور پر ارشاد فرمایا : لولاجآء علیہ باربعة شھدآء فاذ لم یاتوا بالشھدآء فاولئک عنداللہ ھم الکذبون (٤٢: ٣١) جس کا حاصل یہ ہے کہ جو لوگ چار گواہ نہ لا سکیں وہ جھوٹے ہیں۔- بعض اکابر نے چار گواہوں کی ضرورت کی حکمت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ اس معاملہ میں چونکہ دو افراد ملوث ہوتے ہیں، مرد اور عورت، تو گویا کو یہ ایک ہی معاملہ تقدیراً دو معاملوں کے حکم میں ہے اور ہر ایک معاملہ دو گواہوں کا تقاضا کرتا ہے، لہٰذا اس کے لئے چار گواہ ضرری ہوں گے۔- آیت کے آخر میں فرمایا کہ اگر وہ دونوں توبہ کرلیں اور اپنی اصلاح کرلیں تو ان سے تعرض مت کرو اور، اس کا مطلب یہ ہے کہ سزا دینے کے بعد اگر انہوں نے توبہ کرلی تو پھر انہیں ملامت مت کرو اور مزید سزا مت دو ، یہ مطلب نہیں کہ تب سے سزا بھی معاف ہوگئی اس لئے کہ یہ توبہ سزا کے بعد مذکور ہے، جیسا کہ فاء کی تفریع سے ظاہر ہے، ہاں اگر توبہ نہ کی ہو تو سزا کے بعد بھی ملامت کرسکتے ہیں۔- قرآن کریم کی ان دو آیتوں میں زنا کے لئے کوئی متعین حد بیان نہیں کی گئی، بلکہ صرف اتنا کہا گیا کہ ان کو تکلیف پہنچاؤ اور زنا کار عورتوں کو گھروں میں بند کردو۔ - تکلیف پہنچانے کا بھی کوئی خاص طریقہ نہیں بتلایا گیا اور حکام کے صواب دید پر اس کو چھوڑ دیا گیا، ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ یہاں ایذاء دینے کے معنی یہ ہیں کہ ان کو زبان سے عار دلائی جائے اور شرمندہ کیا جائے اور ہاتھ سے بھی جوتے وغیرہ کے ذریعہ ان کی مرمت کی جائے، حضرت ابن عباس کا یہ قول بھی بطور تمثیل کے معلوم ہوتا ہے، اصل بات وہی ہے کہ یہ معاملہ حکام کی رائے پر چھوڑدیا گیا ہے۔- نزول کے اعتبار سے قرآن کریم کی ان دو آیتوں کی ترتیب یہ ہے شروع میں تو ان کو ایذاء دینے کا حکم نازل ہوا اور اس کے بعد خاص طور سے عورتوں کے لئے یہ حکم بیان کیا گیا کہ ان کو گھروں میں محبوس رکھا جائے یہاں تک کہ وہ عورت مر جائے، اس کی زندگی ہی میں آنیوالا حکم آجائے گا تو بطور حد کے اسی کو نافذ کردیا جائے گا۔- چنانچہ بعد میں ” وہ سبیل “ بیان کردی گئی، جس کا اللہ جل شانہ نے اس آیت میں وعدہ فرمایا تھا، حضرت ابن عباس (رض) ” سبیل “ کی تفسیر فرماتے ہیں ” یعنی الرجم للثیب والجلد للکبر “ کہ شادی شدہ کے حق میں زنا کی حد اس کو سنگسار کردینا ہے اور غیر شادی شدہ کے لئے اس کو کوڑے مارنا (بخاری، کتاب التفسیر، ص ٧٥٦)- مرفوع احادیث میں بھی اس ” سبیل “ کا بیان رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے وضاحت کے ساتھ ثابت ہے اور شادی شدہ، غیر شادی شدہ ہر ایک کے لئے الگ الگ حکم بیان کیا گیا ہے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ماعزبن مالک (رض) اور قبیلہ ازد کی ایک عورت پر زنا کی حد جاری فرمائی تھی اور یہ دونوں چونکہ شادی شدہ تھے اس لئے ان کو سنگسار کردیا گیا تھا نیز ایک یہودی کو بھی زنا کی وجہ سے رجم کیا گیا تھا اور اس کے حق میں فیصلہ توراة کے حکم پر کیا گیا تھا۔- غیر شادی شدہ کا حکم خود قرآن کریم کی سورة نور میں مذکور ہے :- ” زنا کار عورت اور زنا کار مرد میں سے ہر ایک کو سو کوڑے مارو۔ “ (٤٢: ٣١)- شروع میں رجم کے حکم کے لئے قرآن کریم کی آیت بھی نازل کی گئی تھی، لیکن بعد میں اس کی تلاوت منسوخ کردی گئی، البتہ حکم باقی رکھا گیا۔- حضرت عمر (رض) کا ارشاد ہے :- ” اللہ تعالیٰ نے محمد (علیہ السلام) کو نبی برحق بنا کر بھیجا اور ان پر کتاب بھی نازل کردی جو کچھ وحی اللہ تعالیٰ نے نازل فرمائی، اس میں رجم کی آیت بھی تھی، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے رجم کیا اور ہم نے بھی ان کے بعد رجم کیا، رجم کا حکم اس شخص کے لئے ثابت ہے جو زنا کرے اور وہ شادی شدہ ہو، خواہ مرد ہو یا عورت “- خلاصہ :۔ یہ کہ ان آیات میں جو حبس فی البیوت اور ایذاء کا حکم ہے وہ شرعی حد نازل ہونے پر منسوخ ہوگیا، اور اب حد زنا سو کوڑے یا رجم پر عمل کرنا لازم ہوگا، مزید تفصیل انشاء اللہ سورة نور کی تفسیر میں بیان ہوگی۔
وَالّٰتِيْ يَاْتِيْنَ الْفَاحِشَۃَ مِنْ نِّسَاۗىِٕكُمْ فَاسْتَشْہِدُوْا عَلَيْہِنَّ اَرْبَعَۃً مِّنْكُمْ ٠ ۚ فَاِنْ شَہِدُوْا فَاَمْسِكُوْھُنَّ فِي الْبُيُوْتِ حَتّٰى يَتَوَفّٰىھُنَّ الْمَوْتُ اَوْ يَجْعَلَ اللہُ لَھُنَّ سَبِيْلًا ١٥- أتى- الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه : أَتِيّ وأَتَاوِيّ وبه شبّه الغریب فقیل : أتاويّ والإتيان يقال للمجیء بالذات وبالأمر وبالتدبیر، ويقال في الخیر وفي الشر وفي الأعيان والأعراض، نحو قوله تعالی: إِنْ أَتاكُمْ عَذابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام 40]- ( ا ت ی ) الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے اور اس سے بطور تشبیہ مسافر کو اتاوی کہہ دیتے ہیں ۔ الغرض اتیان کے معنی " آنا " ہیں خواہ کوئی بذاتہ آئے یا اس کا حکم پہنچے یا اس کا نظم ونسق وہاں جاری ہو یہ لفظ خیرو شر اور اعیان و اعراض سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام : 40] اگر تم پر خدا کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو۔- فحش - الفُحْشُ والفَحْشَاءُ والفَاحِشَةُ : ما عظم قبحه من الأفعال والأقوال، وقال : إِنَّ اللَّهَ لا يَأْمُرُ بِالْفَحْشاءِ [ الأعراف 28] - ( ف ح ش ) الفحش - والفحشاء والفاحشۃ اس قول یا فعل کو کہتے ہیں جو قباحت میں حد سے بڑھا ہوا ہو ۔ قرآن میں ہے :- إِنَّ اللَّهَ لا يَأْمُرُ بِالْفَحْشاءِ [ الأعراف 28] کہ خدا بےحیائی کے کام کرنے کا حکم ہر گز نہیں دیتا ۔ - نِّسَاءُ- والنِّسْوَان والنِّسْوَة جمعُ المرأةِ من غير لفظها، کالقومِ في جمعِ المَرْءِ ، قال تعالی: لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ إلى قوله : وَلا نِساءٌ مِنْ نِساءٍ [ الحجرات 11] ما بال النِّسْوَةِ اللَّاتِي قَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ [يوسف 50]- النساء - والنسوان والنسوۃ یہ تینوں امراءۃ کی جمع من غیر لفظہ ہیں ۔ جیسے مرء کی جمع قوم آجاتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ إلى قوله : وَلا نِساءٌ مِنْ نِساءٍ [ الحجرات 11] اور نہ عورتیں عورتوں سے تمسخر کریں ما بال النِّسْوَةِ اللَّاتِي قَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ [يوسف 50] کہ ان عورتوں کا کیا حال ہے جنہوں نے اپنے ہاتھ کا ٹ لئے تھے ۔- شهد - وشَهِدْتُ يقال علی ضربین :- أحدهما - جار مجری العلم، وبلفظه تقام الشّهادة، ويقال : أَشْهَدُ بکذا، ولا يرضی من الشّاهد أن يقول : أعلم، بل يحتاج أن يقول :- أشهد . والثاني يجري مجری القسم،- فيقول : أشهد بالله أنّ زيدا منطلق، فيكون قسما، ومنهم من يقول : إن قال : أشهد، ولم يقل : بالله يكون قسما، - ( ش ھ د ) المشھود والشھادۃ - شھدت کا لفظ دو طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔- ( 1) علم کی جگہ آتا ہے اور اسی سے شہادت ادا ہوتی ہے مگر اشھد بکذا کی بجائے اگر اعلم کہا جائے تو شہادت قبول ہوگی بلکہ اشھد ہی کہنا ضروری ہے ۔ ( 2) قسم کی جگہ پر آتا ہے چناچہ اشھد باللہ ان زید ا منطلق میں اشھد بمعنی اقسم ہے - مسك - إمساک الشیء : التعلّق به وحفظه . قال تعالی: فَإِمْساكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسانٍ [ البقرة 229] ، وقال : وَيُمْسِكُ السَّماءَ أَنْ تَقَعَ عَلَى الْأَرْضِ [ الحج 65] ، أي : يحفظها، - ( م س ک )- امسک الشئی کے منعی کسی چیز سے چمٹ جانا اور اس کی حفاطت کرنا کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ فَإِمْساكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسانٍ [ البقرة 229] پھر ( عورت کو ) یا تو بطریق شاہتہو نکاح میں رہنے دینا یا بھلائی کے ساتھ چھور دینا ہے ۔ وَيُمْسِكُ السَّماءَ أَنْ تَقَعَ عَلَى الْأَرْضِ [ الحج 65] اور وہ آسمان کو تھا مے رہتا ہے کہ زمین پر نہ گر پڑے - بيت - أصل البیت : مأوى الإنسان باللیل، قال عزّ وجلّ : فَتِلْكَ بُيُوتُهُمْ خاوِيَةً بِما ظَلَمُوا [ النمل 52] ، - ( ب ی ت ) البیت - اصل میں بیت کے معنی انسان کے رات کے ٹھکانہ کے ہیں ۔ کیونکہ بات کا لفظ رات کو کسی جگہ اقامت کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ فَتِلْكَ بُيُوتُهُمْ خاوِيَةً بِما ظَلَمُوا [ النمل 52] یہ ان کے گھر ان کے ظلم کے سبب خالی پڑے ہیں ۔ - حَتَّى- حَتَّى حرف يجرّ به تارة كإلى، لکن يدخل الحدّ المذکور بعده في حکم ما قبله، ويعطف به تارة، ويستأنف به تارة، نحو : أكلت السمکة حتی رأسها، ورأسها، ورأسها، قال تعالی: لَيَسْجُنُنَّهُ حَتَّى حِينٍ [يوسف 35] ، وحَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ [ القدر 5] .- ويدخل علی الفعل المضارع فينصب ويرفع،- وفي كلّ واحد وجهان :- فأحد وجهي النصب : إلى أن .- والثاني : كي .- وأحد وجهي الرفع أن يكون الفعل قبله ماضیا، نحو : مشیت حتی أدخل البصرة، أي :- مشیت فدخلت البصرة .- والثاني : يكون ما بعده حالا، نحو : مرض حتی لا يرجونه، وقد قرئ : حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ [ البقرة 214] ، بالنصب والرفع «1» ، وحمل في كلّ واحدة من القراء تین علی الوجهين . وقیل : إنّ ما بعد «حتی» يقتضي أن يكون بخلاف ما قبله، نحو قوله تعالی: وَلا جُنُباً إِلَّا عابِرِي سَبِيلٍ حَتَّى تَغْتَسِلُوا [ النساء 43] ، وقد يجيء ولا يكون کذلک نحو ما روي :- «إنّ اللہ تعالیٰ لا يملّ حتی تملّوا» «2» لم يقصد أن يثبت ملالا لله تعالیٰ بعد ملالهم - حتی ٰ ( حرف ) کبھی تو الیٰ کی طرح یہ حرف جر کے طور پر استعمال ہوتا ہے لیکن اس کے مابعد غایت ماقبل کے حکم میں داخل ہوتا ہے اور کبھی عاطفہ ہوتا ہے اور کبھی استیناف کا فائدہ دیتا ہے ۔ جیسے اکلت السملۃ حتی ٰ راسھا ( عاطفہ ) راسھا ( جارہ ) راسھا ( مستانفہ قرآن میں ہے ليَسْجُنُنَّهُ حَتَّى حِينٍ [يوسف 35] کچھ عرصہ کے لئے نہیں قید ہی کردیں ۔ وحَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ [ القدر 5] طلوع صبح تک ۔۔۔۔ جب یہ فعل مضارع پر داخل ہو تو اس پر رفع اور نصب دونوں جائز ہوتے ہیں اور ان میں ہر ایک کی دو وجہ ہوسکتی ہیں نصب کی صورت میں حتی بمعنی (1) الی آن یا (2) گی ہوتا ہے اور مضارع کے مرفوع ہونے ایک صورت تو یہ ہے کہ حتی سے پہلے فعل ماضی آجائے جیسے ؛۔ مشیت حتی ادخل ۔ البصرۃ ( یعنی میں چلا حتی کہ بصرہ میں داخل ہوا ) دوسری صورت یہ ہے کہ حتیٰ کا مابعد حال واقع ہو جیسے مرض حتی لایرجون و دو بیمار ہوا اس حال میں کہ سب اس سے ناامید ہوگئے ) اور آیت کریمۃ ؛۔ حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ [ البقرة 214] یہاں تک کہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پکار اٹھے ۔ میں یقول پر رفع اور نصب دونوں منقول ہیں اور ان ہر دو قرآت میں دونوں معنی بیان کئے گئے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ حتیٰ کا مابعد اس کے ماقبل کے خلاف ہوتا ہے ۔ جیسا ک قرآن میں ہے : وَلا جُنُباً إِلَّا عابِرِي سَبِيلٍ حَتَّى تَغْتَسِلُوا [ النساء 43] ۔ اور جنابت کی حالت میں بھی نماز کے پاس نہ جاؤ ) جب تک کہ غسل ( نہ ) کرو ۔ ہاں اگر بحالت سفر رستے چلے جارہے ہو اور غسل نہ کرسکو تو تیمم سے نماز پڑھ لو ۔ مگر کبھی اس طرح نہیں بھی ہوتا جیسے مروی ہے ۔ اللہ تعالیٰ لاتمل حتی تملو ا ۔ پس اس حدیث کے یہ معنی نہیں ہیں کہ تمہارے تھک جانے کے بعد ذات باری تعالیٰ بھی تھک جاتی ہے ۔ بلکہ معنی یہ ہیں کہ ذات باری تعالیٰ کو کبھی ملال لاحق نہیں ہوتا ۔- وفی( موت)- وقد عبّر عن الموت والنوم بالتَّوَفِّي، قال تعالی: اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ حِينَ مَوْتِها[ الزمر 42] أَوْ نَتَوَفَّيَنَّكَ [يونس 46] - ( و ف ی) الوافی - اور کبھی توفی کے معنی موت اور نیند کے بھی آتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ حِينَ مَوْتِها[ الزمر 42] خدا لوگوں کی مرنے کے وقت ان کی روحیں قبض کرلیتا ہے أَوْ نَتَوَفَّيَنَّكَ [يونس 46] یا تمہاری مدت حیات پوری کردیں - موت - أنواع الموت بحسب أنواع الحیاة :- فالأوّل : ما هو بإزاء القوَّة النامية الموجودة في الإنسان والحیوانات والنّبات - . نحو قوله تعالی:- يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم 19] ، وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق 11] .- الثاني : زوال القوّة الحاسَّة . قال : يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا - [ مریم 23] ، أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم 66] .- الثالث : زوال القوَّة العاقلة، وهي الجهالة .- نحو : أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] ، وإيّاه قصد بقوله : إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل 80] .- الرابع : الحزن المکدِّر للحیاة،- وإيّاه قصد بقوله : وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَ- بِمَيِّتٍ [إبراهيم 17] .- الخامس : المنامُ ،- فقیل : النّوم مَوْتٌ خفیف، والموت نوم ثقیل، وعلی هذا النحو سمّاهما اللہ تعالیٰ توفِّيا . فقال : وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام 60] - ( م و ت ) الموت - یہ حیات کی ضد ہے - لہذا حیات کی طرح موت کی بھی کئی قسمیں ہیں - ۔ اول قوت نامیہ - ( جو کہ انسان حیوانات اور نباتات ( سب میں پائی جاتی ہے ) کے زوال کو موت کہتے ہیں جیسے فرمایا : ۔ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم 19] زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق 11] اور اس پانی سے ہم نے شہر مردہ یعنی زمین افتادہ کو زندہ کیا ۔- دوم حس و شعور کے زائل ہوجانے کو موت کہتے ہیں - ۔ چناچہ فرمایا ۔ يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا[ مریم 23] کاش میں اس سے پہلے مر چکتی ۔ أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم 66] کہ جب میں مرجاؤں گا تو کیا زندہ کر کے نکالا جاؤں گا ۔ - سوم ۔ قوت عاقلہ کا زائل ہوجانا اور اسی کا نام جہالت ہے - چناچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل 80] کچھ شک نہیں کہ تم مردوں کو بات نہیں سنا سکتے ۔- چہارم ۔ غم جو زندگی کے چشمہ صافی کو مکدر کردیتا ہے - چنانچہ آیت کریمہ : ۔ وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَبِمَيِّتٍ [إبراهيم 17] اور ہر طرف سے اسے موت آرہی ہوگی ۔ مگر وہ مرنے میں نہیں آئے گا ۔ میں موت سے یہی مینم مراد ہیں ۔- پنجم ۔ موت بمعنی نیند ہوتا ہے - اسی لئے کسی نے کہا ہے کہ النوم موت خفیف والموت نوم ثقیل کہ نیند کا نام ہے اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو توفی سے تعبیر فرمایا ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام 60] اور وہی تو ہے جو ارت کو تمہاری روحیں قبض کرلیتا ہے - سبل - السَّبِيلُ : الطّريق الذي فيه سهولة، وجمعه سُبُلٌ ، قال : وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل 15] - ( س ب ل ) السبیل - ۔ اصل میں اس رستہ کو کہتے ہیں جس میں سہولت سے چلا جاسکے ، اس کی جمع سبل آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل 15] دریا اور راستے ۔
زناکاروں کی حدکابیان - قول باری ہے (واللاتی یاتین الفاحشۃ من نساء کم فاشتشھدواعلیھن اربعۃ منکم ، تمہاری عورتوں میں سے جو بدکاری کی مرتکب ہوں ان پر اپنے میں سے چار آدمیوں کی گواہی لو) تاآخر آیت۔ ابوبکرجصاص کہتے ہیں کہ سلف میں اس بارے میں کوئی اختلاف رائے نہیں ہے کہ مذکورہ بالا آیت میں زناکار عورت کی جو سزابیان کی گئی ہے یعنی تاحکم ثانی اسے قید میں رکھاجائے یہ ابتدائی حکم تھا جو آغاز اسلام کے وقت دیا گیا تھا۔ اور اب یہ حکم منسوخ ہوچکا ہے۔- ہمیں جعفربن محمد الواسطی نے روایت بیان کی، انہیں جعفر بن محمد بن الیمان لے، انہیں ابوعبید نے، انہیں حجاج نے ابن جریج اور عثمان بن عطاء الخراسانی سے ان دونوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے کہ قول باری (واللاتی یاتین الفاحشۃ من نساء کم) تاقول باری (سبیلا) نیز مطلقہ عورتوں کے متعلق قول باری) (ولاتخرجوھن من بیوتھن ولایخرجن الاان یاتین بفاحشۃ مبینۃ، دونوں سورة نور کے نزول سے پہلے کوڑے لگانے کے حکم پر مشتمل تھے۔- لیکن انہیں آیت (الزانیۃ والزانی فاجلدواکل واحد منھما مائۃ، جلدۃ، زناکار عورت اور زناکارمردان میں سے ہر ایک کو سوکوڑے لگاؤ) نے منسوخ کردیا اور آیت میں جس سبیل کا ذک رہے وہ زناکارعورتوں کے لیے کوڑوں اور سنگساری کی سزائیں ہیں۔- اب آئندہ کوئی عورت بدکاری کی مرتکب پائی جائے گی توحدزنا کی شرائط پوری ہوجانے پرا سے باہرلے جاکرسنگسار کردیاجائے گا۔- جعفربن محمد بن الیمان کہتے ہیں کہ ہمیں ابوعبید نے روایت بیان کی، انہیں عبداللہ بن صالح نے معاویہ صالح سے، انہوں نے علی بن ابی طلحہ سے، انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے اس آیت اور قول باری (والذان یاتیانھا منکم فاذوھما، اور تم میں سے جو اس فعل کا ارتکاب کریں ان دونوں کو تکلیف دو ) کے متعلق نقل کیا کہ عورت اگر زنا کا ارتکاب کرتی توا سے گھر میں بند کردیاجاتاحتی کہ وہیں پڑے پڑے وہ مرجاتی اور اگر مرد اس فعل قبیح کا ارتکاب کرتاتو اس کی جوتوں سے مرمت کی جاتی، سخت سست کہاجاتا اور تذلیل کی جاتی اور اس طرح اسے ایذاپہنچائی جاتی پھر یہ آیت (الزانیۃ والزانی فاجلدواکل واحد منھما مائۃ جلدۃ۔- حضرت ابن عباس (رض) نے مزید فرمایا کہ اگر یہ دونوں محصن ہوں تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت کی بناپر اس سنگساری کی حدجاری کی جائے گی۔ یہی وہ سبیل ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس آیت (حتی یتوفاھن الموت اویجعل اللہ لھن سبیلا، یہاں تک کہ انہیں موت آجائے یا اللہ ان کے لیے کوئی راستہ نکال دے) میں عورتوں کے لیے مقررکیا ہے۔- ابوبکرجصاص کہتے ہیں کہ آغاز اسلام میں زناکار عورت کا حکم یہی تھا جو اس مذکورہ بالاقول باری نے واجب کردیاتھا یعنی اسے قید کی سزادی جاتی یہاں تک کہ وہ مرجاتی یا اللہ تعالیٰ اس کے لیے کوئی اور راستہ نکال دیتا۔ اس وقت عورت کو اس کے سوا اور کوئی سزانہ دی جاتی۔ آیت میں باکرہ اور ثیبہ کے درمیان کوئی فرق نہیں رکھا گیا اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ یہ حکم باکرہ اور ثیبہ دونوں قسموں کی عورتوں کے لیے عام تھا۔- قول باری (واللذان یاتیانھامنکم فاذوھما) کے متعلق حسن اور عطاء سے مروی ہے کہ اس سے مراد مرد اور عورت ہیں۔ سدی کا قول ہے کہ کنوارامرد اورکنواری عورت یعنی بن بیاہاجوڑامراد ہے۔- مجاہد سے مروی ہے کہ اس سے مراددوزانی مرد ہیں۔ اس آخری تاویل کے متعلق کہا گیا ہے کہ یہ درست نہیں ہے اس لیے کہ پھر یہاں لفظ کو تثنیہ کی صورت میں لانے کے کوئی معنی نہیں ہوں گے وجہ یہ ہے کہ وعدہ اور وعید کا بیان ہمیشہ جمع کے صیغے سے ہوتا ہے یا پھر ان کا ذکرواحد کے لفظ سے ہوتا ہے کیونکہ واحد کا لفظ جنس ک معنی پر دلالت کرتا ہے جو سب کو شامل ہوتا ہے۔- حسن کا قول درست معلوم ہوتا ہے۔ سدی کی تاویل میں بھی احتمال موجود ہے دونوں آیتوں کا مجموعی طورپراقتضاء یہ ہے کہ عورت کے لیے زنا کی حد میں ایذادینا اور قید میں ڈال دینا دونوں باتیں شامل تھیں حتی کہ اسے موت آجاتی اور زانی مرد کی حدسخت سست کہنا اور جوتوں سے مرمت کرنا تھی کیونکہ پہلی آیت میں قید میں ڈال دینا عورت کے لیے خاص تھا اور دوسری آیت میں ایذاء دینے کے سلسلے میں مرد کے ساتھ وہ بھی مذکور تھی اس لیے عورت کے حق میں دونوں ہاتیں جمع ہوگئیں اور مرد کے لیے صرف ایذاء وہی کا ذکرہوا۔- یہ بھی احتمال ہے کہ یہ دونوں آیتیں ایک ساتھ نازل ہوئی ہوں اور عورت کے لیے حبس کی سزا کا الگ سے ذکرہوا ہے لیکن ایذاپہنچانے کی سزا میں عورت اور مرد دونوں کو اکٹھا کردیا گیا۔ عورت کا الگ سے جوذکرکیاگیا ہے اس کا فائدہ یہ ہے کہ قید کی سزاصرف اس کے لیے تجویز کی گئی ہے یہاں تک کہ اسے موت آجائے۔ اس حکم میں مرد اس کے ساتھ شامل نہیں ہے۔ ایذاء پہنچا نے کی سزا میں مرد کے ساتھ اسے اس لیے اکٹھا کردیا گیا ہے کہ اس سزا میں دونوں شریک ہیں۔- یہ بھی احتمال ہے کہ عورت کے حق میں حبس کی سزاپہلے مقرر کی گئی پھرا س کی سزا میں اضافہ کرکے مرد پر بھی ایذاء پہنچانے کی سزاواجب کردی گئی اس طرح عورت کے لیے دوسزائیں جمع ہوگئیں اور ایذاء پہنچانے کی سزاصرف مرد کے لیے رہ گئی اگر بات اس طرح ہو تو پھر موت تک گھر میں بندرکھنایا کوئی اور راستہ پیدا کردینا عورت کے لیے حدزناء تھی لیکن جب اس کے ساتھ ایذاپہنچانا بھی لاحق کرد گیا تو یہ حکم منسوخ ہوگیا اس لیے کہ نص کے حکم کے استقرار کے بعد اس میں اضافہ نسخ کو واجب کردیتا ہے۔ کیونکہ اس وقت حبس ہی عورت کے لیے حدزنا تھی لیکن جب اس میں اضافے کا حکم بھی واردہوگیا تو حبس اس کی حداکا ایک حصہ بن گیا۔- یہ بات اس چیز کو واجب کردیتی ہے کہ گھر میں بند رکھنا ایک منسوخ سزاشمارہو۔ یہ بھی درست ہے کہ ایذا پہنچاناابتداہی سے دونوں کی سزا ہو پھر عورت کی حد میں تاموت حبس یا کسی اور صورت کا اضافہ کردیا گیا جو اللہ تعالیٰ اس کے لیے پیداکردیتایہ بات عورت کے حق میں ایذاء پہنچانے کی سزا کو منسوخ کردیتی ہے اس لیے کہ حبس کے حکم کے نزول کے بعد مذکورہ ہالاسزا عورت کے لیے حدزناکے ایک جز کے طورپر باقی رہ گئی۔ غرض مذکورہ بالاتمام وجوہات کا یہاں احتمال موجود ہے۔- اگریہ کہاجائے کہ آیایہ بھی احتمال ہوسکتا ہے۔ کہ حبس کے حکم کو ساقط کرکے اسے منسوخ کردیا گیا ہو اور بعد میں تکلیف یا ایذادینے کا حکم نازل کرکے اس پر ہی اقتصار کرلیا گیا ہو۔ تو اس کے جواب میں کہا جائے گا حبس کے حکم کو اس طریقے سے منسوخ کرنا درست نہیں ہے۔ کہ وہ بالکلیہ اٹھا لیاجائے کیونکہ ایذاد ینے کے حکم میں کوئی ایسا پہلو نہیں ہے جو حبس کی نفی کا باعث بن رہا ہوکیون کہ یہ دونوں سزائیں اکٹھی ہوسکتی ہیں ۔- البتہ اسے اس طریقے سے منسوخ مانا جاسکتا ہے کہ یہ حدزنا کا ایک جزبن جائے جبکہ پہلے یہ زنا کی پوری حدشمارہوتا تھا۔ اور یہ صورت درحقیقت نسخ کی ایک شکل ہے۔- ان دونوں آیتوں کی ترتیب کے متعلق بھی دواقوال ہیں اول وہ ہے جس کی حسن سے روایت کی گئی ہے کہ قول باری (واللذان یاتیانھا منکم فاذوھما) کا نزول قول باری (واللاتی یاتین الفاحشۃ عن نساء کم) سے پہلے ہوا۔ پھر یہ حکم دیا گیا کہ تلاوت میں اسے اس کے بعد رکھا جائے اس طرح تکلیف یا ایذاء دینا مرد اور عورت دونوں کے لیے سزا کے طورپرمقرر کیا گیا اور پھر اس کے ساتھ حبس کی سزا عورت کے لیے مقررکردی گئی ۔- لیکن یہ تاویل ایک وجہ سے بہت بعید معلوم ہوتی ہے اس لیے کہ آیت (واللذان یاتیا نھا منکم فاذوھما) میں حرف، الھاء، جو ضمیر تانیث ہے اس کے لیے کسی مرجع کا ہونا ضروری ہے جس کا خطاب کے اندراسم ظاہر کی صورت میں یا ایسے معہود کی شکل میں پہلے ذکر چکا ہوجومخاطب کے ہاں معلوم ومتعین ہو۔ مذکورہ بالاقول باری میں دلالت حال سے بھی یہ بات معلوم نہیں ہوتی کہ اس ضمیر سے مراد الفاحشۃ، ہے۔- اس سے یہ بات ضروری ہوجاتی ہے کہ یہ ضمیرلفظ، الفاحشۃ، کی طرف راجع ہوجائے جس کا ذکر آیت کے شروع میں ہوچکا ہے اس لیے کہ ایسا کیئے بغیر معنی مراد واضح کرنے اور کسی مفہوم کو واجب کرنے کے لحاظ سے سلسلہ کلام بےمعنی ہوکررہ جائے گا اس کی حیثیت قول باری (ماترک علی ظھرھا من دابۃ، پھر زمین کی پشت پر کسی چلنے والے کونہ چھوڑتا)- نیزقول باری (انا انزلنہ فی لیلۃ القدر، بیشک ہم نے اسے قدر کی رات میں نازل کیا) کی طرح نہیں ہے کیونکہ دوسری آیت میں اگرچہ ضمیرمذکرکامرجع مذکور نہیں لیکن انزال کے ذکر سے یہ بات خود بخود سمجھ میں آجاتی ہے کہ یہ قرآن ہے۔- اسی طرح پہلی آیت میں ضمیرمؤنث سے زمین کا مفہوم سمجھ میں آجاتا ہے۔ اس لیے دلالت حال اور مخاطب کے علم پر اکتفا کرتے ہوئے مرجع کا ذکرضروری نہیں سمجھا گیا۔- بہرحال زیربحث آیتوں میں ظاہر خطاب کا تقاضا ہے کہ ان دونوں آیتوں کے معانی کی ترتیب الفاظ کی ترتیب کے نہج پر ہو۔ اب یاتویہ کہاجائے کہ یہ دونوں آیتیں ایک ساتھ نازل ہوئیں یا یہ کہ اذیت کی سزاکاحکم حبس کی سزا کے حکم کے بعد نازل ہوا اگر اذیت کی سزا میں بھی عورتیں مراد ہوں جو حبس کی سزا میں مراد ہیں۔- ان دونوں آیتوں کی ترتیب کے متعلق دوسراقول سدی سے منقول ہے کہ قول باری (واللذان یاتیانھا منکم) کا حکم کنوارے مرد اور کنواری عورت یعنی بن بیا ہے جوڑے کے ساتھ مخصوص ہے۔ اور پہلی آیت کا حکم ثیبہ عورتوں کے لیے ہے تاہم یہ قول کسی دلالت کے بغیر لفظ کی تخصیص کا موجب ہے۔- اور کسی کے لیے اس تاویل کے اختیار کرنے کی گنجائش نہیں ہے جبکہ دونوں الفاظ کو ان کے مقتضیٰ کی حقیقت کی صورت میں استعمال کرنا ممکن بھی ہے۔ ا ن دونوں آیتوں کے حکم اور ان کی ترتیب کے سلسلے میں احتمال کی وجوہات میں سے جو وجہ بھی اختیار کی جائے امت کا بہرحال اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ زناء کے مرتکبین کے متعلق یہ دونوں احکام منسوخ ہوچکے ہیں۔- آیت زیربحث میں مذکورسبیل کے معنی کے متعلق سلف میں اختلاف رائے ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ عورتوں کے لیے اللہ نے جو سبیل مقرر کی ہے وہ غیر محصن کے لیے کوڑوں اور محصن کے لیے رجم کی سزا ہے۔ قتادہ سے بھی اسی قسم کی روایت منقول ہے۔ مجاہد سے ایک روایت کے مطابق قول باری (اؤیجعل اللہ لھن سبیلا) کے معنی یہ ہیں، یا ان عورتوں اوضع حمل ہوجائے۔- لیکن یہ ایک بےمعنی سی بات ہے اس لیے کہ حکم کی نوعیت یہ ہے کہ اس میں حاملہ اور غیر حاملہ دونوں قسم کی عورتوں کے لیے عموم ہے۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ آیت میں سبیل کا ذکر سب عورتوں کے لیے تسلیم کیا جائے۔- ان دونوں حکموں کے ناسخ کے متعلق بھی اختلاف رائے ہے۔ کچھ حضرات کا یہ قول ہے کہ ان کانسخ قول باری (الزانیۃ والزانی فاجلدواکل واحد منھمامائۃ جلدۃ) کے ذریعے عمل میں آیا۔
(١٥) جو آزاد عورتیں زنا کا ارتکاب کردیں، ان پر چار آزاد آدمیوں کو گواہ کرلو اور مرنے تک ان کو جیل میں ڈالے رکھو یا اللہ تعالیٰ رجم کا حکم نازل فرما دے، چناچہ پھر رجم کے حکم سے شادی کا یہ حکم منسوخ ہوگیا۔
اب اسلامی معاشرے کی تطہیر کے لیے احکام دیے جا رہے ہیں۔ مسلمان جب تک مکہ میں تھے تو وہاں کفار کا غلبہ تھا۔ اب مدینہ میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو وہ حیثیت دی ہے کہ اپنے معاملات کو سنوارنا شروع کریں۔ چناچہ ایک ایک کر کے ان معاشرتی معاملات اور سماجی مسائل کو زیر بحث لایا جا رہا ہے۔ اسلامی معاشرے میں عفت و عصمت کو بنیادی اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ لہٰذا اگر معاشرے میں جنسی بےراہ روی موجود ہے تو اس کی روک تھام کیسے ہو ؟ اس کے لیے ابتدائی احکام یہاں آ رہے ہیں۔ اس ضمن میں تکمیلی احکام سورة النور میں آئیں گے۔ معاشرتی معاملات کے ضمن میں احکام پہلے سورة النساء ‘ پھر سورة الاحزاب ‘ پھر سورة النور اور پھر سورة المائدۃ میں بتدریج آئے ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کی حکمت کا تقاضا ہے کہ سورة الاحزاب اور سورة النور کو مصحف میں کافی آگے رکھا گیا ہے اور یہاں پر سورة النساء کے بعد سورة المائدۃ آگئی ہے۔- آیت ١٥ (وَالّٰتِیْ یَاْتِیْنَ الْفَاحِشَۃَ مِنْ نِّسَآءِکُمْ ) (فَاسْتَشْہِدُوْا عَلَیْہِنَّ اَرْبَعَۃً مِّنْکُمْ ج) (فَاِنْ شَہِدُوْا فَاَمْسِکُوْہُنَّ فِی الْبُیُوْتِ ) - (حَتّٰی یَتَوَفّٰٹہُنَّ الْمَوْتُ ) - اسی حالت میں ان کی زندگی کا خاتمہ ہوجائے۔- (اَوْیَجْعَلَ اللّٰہُ لَہُنَّ سَبِیْلاً ) - بدکاری کے متعلق یہ ابتدائی حکم تھا۔ بعد میں سورة النور میں حکم آگیا کہ بدکاری کرنے والے مرد و عورت دونوں کو سو سو کوڑے لگائے جائیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہاں ایسی لڑکیوں یا عورتوں کا تذکرہ ہے جو مسلمانوں میں سے تھیں مگر ان کا بدکاری کا معاملہ کسی غیر مسلم مرد سے ہوگیا جو اسلامی معاشرے کے دباؤ میں نہیں ہے۔ ایسی عورتوں کے متعلق یہ ہدایت فرمائی گئی کہ انہیں تاحکم ثانی گھروں کے اندر محبوس رکھا جائے۔
14:: عورت بدکاری کا ارتکاب کرے تو شروع میں یہ حکم دیا گیا تھا کہ اسے عمر بھر گھر میں مقید رکھا جائے ؛ لیکن ساتھ ہی یہ اشارہ دے دیا گیا تھا کہ بعد میں ان کے لئے کوئی سزا مقرر کی جائے گی، یا اللہ ان کے لئے کوئی اور راستہ پیدا کردے، کا یہی مطلب ہے۔ چنانچہ سورۂ نور میں مرد اور عورت دونوں کے لئے زنا کی سزا سوکوڑے مقرر کردی گئی اور آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ اب اللہ تعالیٰ نے عورتوں کے لئے راستہ پیدا کردیا ہے اور وہ یہ کہ غیر شادی شدہ مرد یا عورت کو سوکوڑے لگائے جائیں گے اور شادی شدہ کو سنگسار کیا جائے گا۔