16۔ 1 بعض نے اس میں اغلام بازی مراد لی ہے یعنی عمل لواطت۔ دو مردوں کا ہی آپس میں بدفعلی کرنا اور بعض نے اسے باکرہ مرد و عورت مراد لیئے ہیں اور اس سے قبل کی آیت کو انہوں نے محصنات یعنی شادی کے ساتھ کیا ہے اور بعض نے اس تثنیہ کے صیغے سے مراد لیا ہیں۔ قطع نظر اس سے کہ وہ باکرہ ہوں یا شادی شدہ (ابن جریر طبری) نے دوسرے مفہوم یعنی باکرہ (مرد و عورت) کو ترجیح دی ہے اور پہلی آیت میں بیان کردہ سزا کو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بتلائی ہوئی سزا سزائے رجم سے اور اس آیت میں بیان کردہ سزا کو سورة نور میں بیان کردہ سو کوڑے کی سزا سے منسوخ قرار دی ہے۔ (تفسیر طبری) 16۔ 2 یعنی زبان سے زجر و توبیخ اور ملامت یا ہاتھ سے کچھ زدوکوب کرلینا۔ اب یہ منسوخ ہے، جیسا کہ گزرا۔
[٢٨] اس آیت میں (والذان) کا لفظ استعمال ہوا ہے یعنی خواہ یہ زنا کرنے والے مرد اور عورت ہوں یا دونوں مرد ہوں اور لواطت کے مرتکب ہوں۔ اس لفظ میں دونوں صورتوں کی گنجائش ہے تو ایسے مردوں یا ایسے مرد اور عورت کی ابتدائی سزا یہ تھی کہ انہیں مار پیٹ کی جائے اور برا بھلا کہا جائے اور ذلیل کیا جائے۔ گویا زانی مرد اور عورت دونوں کے لیے تو یہ سزا تھی اور عورت کے لیے یہ سزا اضافی تھی کہ اسے تازیست گھر میں بند رکھا جائے۔ اور جس دوسری سزا کے تجویز کرنے کے متعلق اللہ تعالیٰ نے اشارہ فرمایا تھا اس سلسلے میں درج ذیل حدیث ملاحظہ فرمائیے :- سزائے رجم :۔ سیدنا عبادہ بن صامت (رض) سے روایت ہے کہ ایک روز آپ پر وحی نازل ہوئی اور جب وحی کی کیفیت ختم ہوئی تو آپ نے فرمایا : مجھ سے (اللہ کا حکم) سیکھ لو۔ اللہ نے ایسی عورتوں کے لیے سزا تجویز کردی۔ شادی شدہ مرد اور شادی شدہ عورت اگر زنا کریں تو انہیں سو کوڑے مارے جائیں۔ پھر رجم کیا جائے اور اگر کنوارہ مرد اور کنواری عورت زنا کریں تو ان کے لیے سو کوڑے اور ایک سال کی جلاوطنی ہے۔ (مسلم، کتاب الحدود۔ باب حد الزنا)- پھر اس حکم کے بعد زانی مرد اور عورت کے لیے سورة نور میں سزا تجویز فرمائی۔ یہ بحث تفصیل سے سورة نور میں ہی آئے گی۔- مندرجہ بالا آیات میں بعض لوگوں نے والٰتی سے مراد مرد اور عورت نہیں بلکہ دونوں عورتیں ہی لی ہیں، جو آپس میں چپٹی بازی کر کے (جسے عربی میں سحق کہتے ہیں) کام چلا لیتی ہیں۔ ایسی دونوں عورتوں کے لیے سزا حبس دوام ہے۔ یعنی گھر میں ہی ایسی عورتوں کی کڑی نگہداشت رکھی جائے۔ اور یہ حد نہیں بلکہ تعزیر ہے لیکن یہ مراد کچھ درست معلوم نہیں ہوتی۔ کیونکہ بعد میں اللہ تعالیٰ نے جو سزا تجویز فرمائی وہ مرد اور عورت کے لیے سزا تھی۔ خواہ وہ کنوارے ہوں یا شادی شدہ، ہر ایک کے لیے علیحدہ سزا مقرر ہوئی، جیسا کہ مندرجہ بالا عبادہ بن صامت (رض) کی حدیث سے واضح ہے جسے مسلم نے روایت کیا ہے۔ البتہ یہ ممکن ہے کہ اگر عورتیں ہی آپس میں چپٹی بازی کریں تو انہیں ان کے ولی ایسی سزا دے سکتے ہیں۔- اسی طرح والَّذَانِ سے مراد اغلام یا لواطت لی گئی ہے یعنی ایسی بدفعلی جو دو مرد آپس میں کرتے ہیں۔ اور ان پر بھی حد نہیں بلکہ تعزیر ہے اور وہ تعزیر یہ ہے کہ انہیں جوتے مارے جائیں۔ لواطت کی حد کے بارے میں ترمذی، ابو اب الحدود میں ابن عباس (رض) سے ایک روایت مرفوعاً مروی ہے کہ فاعل اور مفعول دونوں کو قتل کردیا جائے لیکن یہ حدیث ضعیف ہے۔ پھر ائمہ ایسے جوڑے کے رجم کے قائل ہیں۔ اور بعض کہتے ہیں کہ ان کی سزا زانی جیسی ہے۔ اگر شادی شدہ ہے تو رجم ورنہ کوڑے پڑیں گے۔- زنا ہو یا اغلام یا چپٹی بازی ہو یا محض تہمت ہو۔ ان سب میں چار مردوں کی شہادت ضروری ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ان میں سے ہر ایک دعویٰ میں دو دو افراد ملوث ہوتے ہیں خواہ ایک مرد اور ایک عورت ہو یا دونوں عورتیں ہوں یا دونوں مرد ہوں۔ - [٢٩] یعنی اگر وہ مار پیٹ کے دوران یا اس کے بعد اپنے کیے پر فی الواقع نادم ہوں اور آئندہ کے لیے اپنی اصلاح کرلیں تو ایسے لوگوں پر مزید ملامت کرنا درست نہیں۔
غیر فطری طریقہ سے قضاء شہوت کا حکم :- میرے نزدیک ” الذان یاتیانھا “ کا مصداق وہ لوگ ہیں جو غیر فطری طریقہ پر قضاء شہوت کرتے ہیں، یعنی مرد استلذاز بالمثل کے مرتکب ہوتے ہیں۔ “- قاضی صاحب کے علاوہ دیگر حضرات نے بھی اسی قول کو لیا ہے، الفاظ قرآن مجید میں چونکہ لفظ الذان یاتیانھا موصول اور صلہ دونوں مذکر کے الفاظ ہیں، اس لئے ان حضرات کا یہ قول بعید نہیں ہے، گو جن حضرات نے زانی اور زانیہ مراد لیا ہے، انہوں نے بطور تغلیب مذکر کا یہ صیغہ زانیہ کے لئے بھی شامل رکھا ہے، تاہم موقع کی مناسبت سے استلذاذ بالمثل کی حرمت و شدت اور اس کی جزاء و تعزیز کا ذکر اس جگہ بےجا نہ ہوگا۔- احادیث و آثار سے اس سلسلہ میں جو کچھ ثابت ہوتا ہے اس میں سے بطور نمونہ کچھ نقل کیا جاتا ہے :- ” حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق میں سے سات قسم کے لوگوں پر سات آسمانوں کے اوپر سے لعنت بھیجی ہے اور ان سات میں سے ایک پر تین تین دفعہ لعنت بھیجی ہے اور باقی پر ایک دفعہ، فرمایا ملعون ہے وہ شخص جو قوم لوط والا عمل کرتا ہے ملعون ہے وہ شخص جو قوم لوط والا عمل کرتا ہے، ملعون ہے وہ شخص جو قوم لوط والا عمل کرتا ہے۔ “- ” حضرت ابوہریرة (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ چار آدمی صبح کے وقت اللہ جل شانہ کے غضب میں ہوتے ہیں اور شام کو بھی اللہ جل شانہ، ان سے ناراض ہوتے ہیں، میں نے پوچھا کہ وہ کون لوگ ہیں ؟ آپ نے فرمایا وہ مرد جو عورتوں کی طرح بنتے ہیں اور وہ عورتیں جو مردوں کی طرح بنتی ہیں اور وہ شخص جو چوپایہ کے ساتھ غیر فطری حرکت کرتا ہے اور وہ مرد جو مرد سے قضاء شہوت کرتا ہے۔ “- ” حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے، فرمایا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا جس کو تم قوم لوط کی طرح غیر فطری حرکت کرتا ہوا دیکھ لو تو فاعل اور مفعول دونوں کو مار ڈالو۔ “- حافظ زکی الدین نے ترغیب ترہیب میں لکھا ہے کہ چار خلفاء حضرت ابوبکر صدیق، حضرت علی، حضرت عبداللہ بن الزبیر اور ہشام بن عبدالملک نے اپنے زمانوں میں غیر فطری حرکت والوں کو آگ میں جلا ڈالا تھا۔- اس سلسلہ میں انہوں نے محمد بن المنکدر کی روایت سے ایک واقعہ بھی لکھا ہے کہ خالد بن ولید (رض) نے حضرت ابوبکر صدیق (رض) کو خط لکھا کہ یہاں عرب کے علاقہ میں ایک مرد ہے جس کے ساتھ عورت والا کام کیا جاتا ہے۔- حضرت ابوبکر (رض) نے اس سلسلہ میں صحابہ کرام کو جمع کیا اور ان میں حضرت علی بھی تشریف لائے، حضرت علی (رض) نے فرمایا کہ یہ ایک ایسا گناہ ہے جس کا ارتکاب سوائے ایک قوم کے کسی نے نہیں کیا اور اللہ جل شانہ نے اس قوم کے ساتھ جو معاملہ کیا وہ آپ سب کو معلوم ہے میری رائے ہے کہ اسے آگ میں جلا دیا جائے دوسرے صحابہ کرام نے بھی اس پر اتفاق کرلیا اور حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے اسے آگ میں جلا دینے کا حکم دیدیا۔- مذکورہ روایات میں قوم لوط کے عمل کا حوالہ بار بار آیا ہے، حضرت لوط (علیہ السلام) جس قوم کی طرف مبعوث کئے گئے تھے وہ قوم کفر و شرک کے علاوہ اس بدترین اور غیر فطری حرکت کی بھی عادی تھی اور جب حضرت لوط (علیہ السلام) کی دعوت و تبلیغ کا ان پر اثر نہ ہوا تو اللہ جل شانہ کے حکم سے فرشتوں نے اس قوم کی بستیوں کو زمین سے اٹھا لیا اور اوندھا کر کے زمین پر پھینک دیا جس کا ذکر سورة اعراف میں آئے گا، انشاء اللہ۔- مندرجہ بالا روایات استلذاد بالجنس سے متعلق تھیں، روایات میں عورتوں کے ساتھ غیر فطری فعل کرنے پر بھی شدید ترین وعیدیں آئی ہیں۔- ” حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ جل شانہ، اس مرد کی طرف رحمت کی نگاہ سے نہیں دیکھتے جو مرد یا عورت کے ساتھ غیر فطری فعل کرے۔ “- ” خزیمہ بن ثابت (رض) فرماتے ہیں، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ اللہ جل شانہ حق بیان کرنے میں شرم نہیں کرتے، یہ الفاظ آپ نے تین دفعہ ارشاد فرمائے، (پھر فرمایا) عورتوں کے پاس غیر فطری طریقہ سے مت آیا کرو۔ “- ” حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے وہ شخص ملعون ہے جو غیر فطری طریقہ سے بیوی کے ساتھ جماع کرتا ہے۔ “- ” حضرت ابوہریرہ ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو مرد حیض کی حالت میں بیوی کے ساتھ جماع کرتا ہے یا غیر فطری طریقہ سے اس کے ساتھ جماع کرتا ہے، یا کسی کاہن کے پاس جاتا ہے اور غیب سے متعلق اس کی خبر کی تصدیق کرتا ہے، تو ایسے لوگ اس دین سے منکر ہوگئے جو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل ہوا۔ “- اس قبیح فعل کے لئے کسی معین حد کے مقرر کرنے میں تو فقہاء کا اختلاف ہے جس کی تفصیل کتب فقہ میں موجود ہے، تاہم اس کے لئے شدید سے شدید سزائیں منقول ہیں، مثلاً آگ میں جلا دینا، دیوار گرا کر کچل دینا، اونچی جگہ سے پھینک کر سنگسار کردینا، تلوار سے قتل کردینا وغیرہ۔
وَالَّذٰنِ يَاْتِيٰنِھَا مِنْكُمْ فَاٰذُوْھُمَا ٠ ۚ فَاِنْ تَابَا وَاَصْلَحَا فَاَعْرِضُوْا عَنْہُمَا ٠ ۭ اِنَّ اللہَ كَانَ تَوَّابًا رَّحِـيْمًا ١٦- أذي - الأذى: ما يصل إلى الحیوان من الضرر إمّا في نفسه أو جسمه أو تبعاته دنیویاً کان أو أخرویاً ، قال تعالی: لا تُبْطِلُوا صَدَقاتِكُمْ بِالْمَنِّ وَالْأَذى [ البقرة 264] - ( ا ذ ی ) الاذیٰ ۔- ہرا س ضرر کو کہتے ہیں جو کسی جاندار کو پہنچتا ہے وہ ضرر جسمانی ہو یا نفسانی یا اس کے متعلقات سے ہو اور پھر وہ ضرر دینوی ہو یا اخروی چناچہ قرآن میں ہے : ۔ لَا تُبْطِلُوا صَدَقَاتِكُمْ بِالْمَنِّ وَالْأَذَى ( سورة البقرة 264) اپنے صدقات ( و خیرات ) کو احسان جتا کر اور ایذا دے کر برباد نہ کرو ۔ - توب - التَّوْبُ : ترک الذنب علی أجمل الوجوه وهو أبلغ وجوه الاعتذار،- فإنّ الاعتذار علی ثلاثة أوجه : إمّا أن يقول المعتذر : لم أفعل، أو يقول :- فعلت لأجل کذا، أو فعلت وأسأت وقد أقلعت، ولا رابع لذلک، وهذا الأخير هو التوبة، والتَّوْبَةُ في الشرع :- ترک الذنب لقبحه والندم علی ما فرط منه، والعزیمة علی ترک المعاودة، وتدارک ما أمكنه أن يتدارک من الأعمال بالأعمال بالإعادة، فمتی اجتمعت هذه الأربع فقد کملت شرائط التوبة . وتاب إلى الله، فذکر «إلى الله» يقتضي الإنابة، نحو : فَتُوبُوا إِلى بارِئِكُمْ [ البقرة 54] - ( ت و ب ) التوب - ( ن) کے معنی گناہ کے باحسن وجود ترک کرنے کے ہیں اور یہ معذرت کی سب سے بہتر صورت ہے - کیونکہ اعتذار کی تین ہی صورتیں ہیں - ۔ پہلی صورت - یہ ہے کہ عذر کنندہ اپنے جرم کا سرے سے انکار کردے اور کہہ دے لم افعلہ کہ میں نے کیا ہی نہیں ۔ - دوسری صورت - یہ ہے کہ اس کے لئے وجہ جواز تلاش کرے اور بہانے تراشے لگ جائے ۔ - تیسری صورت - یہ ہے کہ اعتراف جرم کے ساتھ آئندہ نہ کرنے کا یقین بھی دلائے افرض اعتزار کی یہ تین ہی صورتیں ہیں اور کوئی چوتھی صورت نہیں ہے اور اس آخری صورت کو تو بہ کہا جاتا ہ مگر - شرعا توبہ - جب کہیں گے کہ گناہ کو گناہ سمجھ کر چھوڑ دے اور اپنی کوتاہی پر نادم ہو اور دوبارہ نہ کرنے کا پختہ عزم کرے ۔ اگر ان گناہوں کی تلافی ممکن ہو تو حتی الامکان تلافی کی کوشش کرے پس تو بہ کی یہ چار شرطیں ہیں جن کے پائے جانے سے توبہ مکمل ہوتی ہے ۔ تاب الی اللہ ان باتوں کا تصور کرنا جو انابت الی اللہ کی مقتضی ہوں ۔ قرآن میں ہے ؛۔ وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعاً [ النور 31] سب خدا کے آگے تو بہ کرو ۔- صلح - والصُّلْحُ يختصّ بإزالة النّفار بين الناس، يقال منه : اصْطَلَحُوا وتَصَالَحُوا، قال : أَنْ يُصْلِحا بَيْنَهُما صُلْحاً وَالصُّلْحُ خَيْرٌ [ النساء 128] - ( ص ل ح ) الصلاح - اور الصلح کا لفظ خاص کر لوگوں سے باہمی نفرت کو دورکر کے ( امن و سلامتی پیدا کرنے پر بولا جاتا ہے ) چناچہ اصطلحوا وتصالحوا کے معنی باہم امن و سلامتی سے رہنے کے ہیں قرآن میں ہے : أَنْ يُصْلِحا بَيْنَهُما صُلْحاً وَالصُّلْحُ خَيْرٌ [ النساء 128] کہ آپس میں کسی قرار داد پر صلح کرلیں اور صلح ہی بہتر ہے ۔- اعرض - وإذا قيل : أَعْرَضَ عنّي، فمعناه : ولّى مُبدیا عَرْضَهُ. قال : ثُمَّ أَعْرَضَ عَنْها [ السجدة 22] ، فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَعِظْهُمْ- ( ع ر ض ) العرض - اعرض عنی اس نے مجھ سے روگردانی کی اعراض کیا ۔ قرآن میں ہے : ثُمَّ أَعْرَضَ عَنْها [ السجدة 22] تو وہ ان سے منہ پھیرے ۔ فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَعِظْهُمْ [ النساء 63] تم ان سے اعراض بر تو اور نصیحت کرتے رہو ۔ - تَّوَّاب - والتَّوَّاب : العبد الکثير التوبة، وذلک بترکه كلّ وقت بعض الذنوب علی الترتیب حتی يصير تارکا لجمیعه، وقد يقال ذلک لله تعالیٰ لکثرة قبوله توبة العباد «2» حالا بعد حال . وقوله : وَمَنْ تابَ وَعَمِلَ صالِحاً فَإِنَّهُ يَتُوبُ إِلَى اللَّهِ مَتاباً [ الفرقان 71] ، أي : التوبة التامة، وهو الجمع بين ترک القبیح وتحري الجمیل . عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَإِلَيْهِ مَتابِ- [ الرعد 30] ، إِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ [ البقرة 54] .- التواب یہ بھی اللہ تعالیٰ اور بندے دونوں پر بولا جاتا ہے ۔ جب بندے کی صعنت ہو تو اس کے معنی کثرت سے توبہ کرنے والا کے ہوتے ہیں ۔ یعنی وہ شخص جو یکے بعد دیگرے گناہ چھوڑتے چھوڑتے بالکل گناہ کو ترک کردے اور جب ثواب کا لفظ اللہ تعالیٰ کی صفت ہو تو ا س کے معنی ہوں گے وہ ذات جو کثرت سے بار بار بندوں کی تو بہ قبول فرماتی ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ إِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ [ البقرة 54] بیشک وہ بار بار توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ وَمَنْ تابَ وَعَمِلَ صالِحاً فَإِنَّهُ يَتُوبُ إِلَى اللَّهِ مَتاباً [ الفرقان 71] کے معنی یہ ہیں کہ گناہ ترک کرکے عمل صالح کا نام ہی مکمل توبہ ہے ۔ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَإِلَيْهِ مَتابِ [ الرعد 30] میں اس پر بھروسہ رکھتا ہوں اور اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں ۔- رحم - والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین .- ( ر ح م ) الرحم ۔- الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، - اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] لوگو تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے )
قول باری (فاللذان یاتیانھامنکم فاذوھما) کنوارے جوڑے کے متعلق تھا۔ اب مذکورہ بالاآیت کے ذریعے یہ حکم منسوخ کرکے ان کے لیے کوڑوں کی سزامقررکردی گئی۔ تاہم ثیبہ عورتوں کے لیے حبس کا حکم رہاجورجم کے حکم کی بناپر منسوخ ہوگیا۔- بعض دوسرے حضرات کا قول ہے کہ ان دونوں حکموں کی ناسخ حضرت عبادہ بن الصامت کی وہ حدیث ہے جس کی ہمیں جعفربن محمد نے روایت کی ہے، انہیں جعفر بن محمد بن الیمان نے انہیں ابوعبیدنے، انہیں ابوالنصرنے شعبہ سے، انہوں نے قتادہ سے، انہوں نے حسن سے، انہوں نے حطان بن عبداللہ الرقاشی سے انہوں نے حضرت عبادہ بن الصامت (رض) سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا (خذواعنی قد جعل اللہ لھن سبیلا البکربالیکروالثیب بالبکروالثیب بالثیب البکرتجلدوتتقی فالثیب تجلدوترجم۔- لوگو مجھ سے یہ معلوم کرلو کہ اللہ نے ان عورتوں کے لیے راہ پیداکردی ہے ، کنوارا کسی کنواری کے ساتھ منہ کالاکرے اور بیاہا کسی بیاہی کے ساتھ فعل قبیح کا مرتکب ہوتوکنواری عورت کو کوڑے لگاکر جلاوطن کردیا جائے گا اور بیاہی عورت کو کوڑے لگاکرسنگسار کردیاجائے گا۔
(١٦) اور اگر نوجوان کنوارے مرد اور لڑکیوں کی یہ سزا سو کوڑوں کے حکم نزول سے منسوخ ہوگئی۔
آیت ١٦ (وَالَّذٰنِ یَاْتِیٰنِہَا مِنْکُمْ فَاٰذُوْہُمَا ج) ۔- اگر بدکاری کا ارتکاب کرنے والے مرد و عورت دونوں مسلمانوں میں سے ہی ہوں تو دونوں کو اذیت دی جائے۔ یعنی ان کی توہین و تذلیل کی جائے اور مارا پیٹا جائے۔ ّ - ( فَاِنْ تَابَا وَاَصْلَحَا فَاَعْرِضُوْا عَنْہُمَا ط) (اِنَّ اللّٰہَ کَانَ تَوَّابًا رَّحِیْمًا ) - واضح رہے کہ یہ بالکل ابتدائی احکام ہیں۔ اسی لیے ان کی وضاحت میں تفسیروں میں بہت سے اقوال مل جائیں گے۔ اس لیے کہ جب حدود نافذ ہوگئیں تو یہ عبوری اور عارضی احکام منسوخ قرار پائے۔ جیسے کہ سورة النساء میں قانون وراثت نازل ہونے کے بعد سورة البقرۃ میں وارد شدہ وصیت کا حکم ساقط ہوگیا ۔
سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :26 ان دونوں آیتوں میں زنا کی سزا بیان کی گئی ہے ۔ پہلی آیت صرف زانیہ عورتوں کے متعلق ہے اور ان کی سزا یہ ارشاد ہوئی ہے کہ انہیں تاحکم ثانی قید رکھا جائے ۔ دوسری آیت زانی مرد اور زانیہ عورت دونوں کے بارے میں ہے کہ دونوں کو اذیت دی جائے ، یعنی مارا پیٹا جائے ، سخت سست کہا جائے اور ان کی تذلیل کی جائے ۔ زنا کے متعلق یہ ابتدائی حکم تھا ۔ بعد میں سورہ نور کی وہ آیت نازل ہوئی جس میں مرد اور عورت دونوں کے لیے ایک ہی حکم دیا گیا کہ انہیں سو ١۰۰سو١۰۰ کوڑے لگائے جائیں ۔ اہل عرب چونکہ اس وقت تک کسی باقاعدہ حکومت کے ماتحت رہنے اور عدالت و قانون کے نظام کی اطاعت کرنے کے عادی نہ تھے ، اس لیے یہ بات حکمت کے خلاف ہوتی اگر اسلامی حکومت قائم ہوتے ہی ایک قانون تعزیرات بنا کر دفعتًہ ان پر نافذ کر دیا جاتا ۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو رفتہ رفتہ تعزیری قوانین کا خوگر بنانے کے لیے پہلے زنا کے متعلق یہ سزائیں تجویز فرمائیں ، پھر بتدریج زنا ، قذف اور سرقہ کی حدیں مقرر کیں ، اور بالآخر اسی بنا پر تعزیرات کا وہ مفصل قانون بنا جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین کی حکومت میں نافذ تھا ۔ مفسر سدی کو ان دونوں آیتوں کے ظاہری فرق سے یہ غلط فہمی ہوئی ہے کہ پہلی آیت منکوحہ عورتوں کے لیے ہے اور دوسری آیت غیر شادی شدہ مرد وعورت کے لیے ۔ لیکن یہ ایک کمزور تفسیر ہے جس کی تائید میں کوئی وزنی دلیل نہیں ۔ اور اس سے زیادہ کمزور بات وہ ہے کہ جو ابو مسلم اصفہانی نے لکھی ہے کہ پہلی آیت عورت اور عورت کے ناجائز تعلق کے بارے میں ہے اور دوسری آیت مرد اور مرد کے ناجائز تعلق کے بارے میں ۔ تعجب ہے ابو مسلم جیسے ذی علم شخص کی نظر اس حقیقت کی طرف کیوں نہ گئی کہ قرآن انسانی زندگی کے لیے قانون و اخلاق کی شاہراہ بناتا ہے اور انہی مسائل سے بحث کرتا ہے جو شاہراہ پر پیش آتے ہیں ۔ رہیں گلیاں اور پگڈنڈیاں ، تو ان کی طرف توجہ کرنا اور ان پر پیش آنے والے ضمنی مسائل سے بحث کرنا کلام شاہانہ کے لیے ہرگز موزوں نہیں ہے ۔ ایسی چیزوں کو اس نے اجتہاد کے لیے چھوڑ دیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ عہد نبوت کے بعد جب یہ سوال پیدا ہوا کہ مرد اور مرد کے ناجائز تعلق پر کیا سزا دی جائے تو صحابہ کرام میں سے کسی نے بھی یہ نہ سمجھا کہ سورہ نساء کی اس آیت میں اس کا حکم موجود ہے ۔
15: یہ مردوں کے خلاف فطرت ہم جنسی کے عمل کی طرف اشارہ ہے اس کی کوئی متعین سزا مقرر کرنے کے بجائے صرف یہ ہدایت دی گئی ہے کہ ایسے مردوں کو اذیت دی جائے جس کے مختلف طریقے فقہائے کرام نے تجویز کئے ہیں مگر ان میں سے کوئی لازمی نہیں، صحیح یہ ہے کہ اس کو حاکم کی صوابدید پر چھوڑدیا گیا ہے۔