عالم نزع سے پہلے توبہ؟ مطلب یہ ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ اپنے ان بندوں کی توبہ قبول فرماتا ہے جو ناواقفیت کی وجہ سے کوئی برا کام کر بیٹھیں پھر توبہ کرلیں گو یہ توبہ فرشتہ موت کو دیکھ لینے کے بعد عالم نزع سے پہلے ہو ، حضرت مجاہد وغیرہ فرماتے ہیں جو بھی قصداً یا غلطی سے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرے وہ جاہل ہے جب تک کہ اس سے باز نہ آ جائے ۔ ابو العالیہ فرماتے ہیں صحابہ کرام فرمایا کرتے تھے کہ بندہ جو گناہ کرے وہ جہالت ہے ، حضرت قتادہ بھی صحابہ کے مجمع سے اس طرح کی روایت کرتے ہیں عطاء اور حضرت ابن عباس سے بھی اسی طرح مروی ہے ۔ توبہ جلدی کر لینے کی تفسیر میں منقول ہے کہ ملک الموت کو دیکھ لینے سے پہلے ، عالم سکرات کے قریب مراد ہے ، اپنی صحت میں توبہ کر لینی چاہئے ، غر غرے کے وقت سے پہلے کی توبہ قبول ہے ، حضرت عکرمہ فرماتے ہیں ساری دنیا قریب ہی ہے ، اس کے متعلق حدیثیں سنئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی توبہ قبول فرماتا ہے جب تک سانسوں کا ٹوٹنا شروع نہ ہو ، ( ترمذی ) جو بھی مومن بندہ اپنی موت سے مہینہ بھر پہلے توبہ کر لے اس کی توبہ اللہ تعالیٰ قبول فرما لیتا ہے یہاں تک کہ اس کے بعد بھی بلکہ موت سے ایک دن پہلے تک بھی بلکہ ایک سانس پہلے بھی جو بھی اخلاص اور سچائی کے ساتھ اپنے رب کی طرف جھکے اللہ تعالیٰ اسے قبول فرماتا ہے ، حضرت عبداللہ بن عمرو فرماتے ہیں جو اپنی موت سے ایک سال پہلے توبہ کرے اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرماتا ہے اور جو مہینہ بھر پہلے توبہ کرے اللہ تعالیٰ اس کی توبہ بھی قبول فرماتا ہے اور جو ہفتہ بھر پہلے توبہ کرے اللہ تعالیٰ اس کی توبہ بھی قبول فرماتا ہے اور جو ایک دن پہلے توبہ کرے اللہ تعالیٰ اس کی توبہ بھی قبول فرماتا ہے ، یہ سن کر حضرت ایوب نے یہ آیت پڑھی تو آپ نے فرمایا وہی کہتا ہوں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے ، مسند احمد میں ہے کہ چار صحابی جمع ہوئے ان میں سے ایک نے کہا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے جو شخص اپنی موت سے ایک دن پہلے بھی توبہ کر لے اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرماتا ہے ، دوسرے نے پوچھا کیا سچ مچ تم نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسے ہی سنا ہے؟ اس نے کہا ہاں تو دوسرے نے کہا تم نے یہ سنا ہے؟ اس نے کہا ہاں ، اس نے کہا میں نے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے یہاں تک سنا ہے کہ جب تک اس کے نرخرے میں روح نہ آ جائے توبہ کے دروازے اس کے لئے بھی کھلے رہتے ہیں ، ابن مردویہ میں مروی ہے کہ جب تک جان نکلتے ہوئے گلے سے نکلنے والی آواز شروع نہ ہو تب تک توبہ قبول ہے ، کئی ایک مرسل احادیث میں بھی یہ مضمون ہے ، حضرت ابو قلابہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جب ابلیس پر لعنت نازل فرمائی تو اس نے مہلت طلب کی اور کہا تیری عزت اور تیرے جلال کی قسم کہ ابن آدم کے جسم میں جب تک روح رہے گی میں اس کے دل سے نہ نکلوں گا ، اللہ تعالیٰ عزوجل نے فرمایا مجھے اپنی عزت اور اپنے جلال کی قسم کہ میں بھی جب تک اس میں روح رہے گی اس کی توبہ قبول کروں گا ، ایک مرفوع حدیث میں بھی اس کے قریب قریب مروی ہے پس ان تمام احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جب تک بندہ زندہ ہے اور اسے اپنی حیاتی کی امید ہے تب تک وہ اللہ تعالیٰ کی طرف جھکے توبہ کرے تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرماتا ہے اور اس پر رجوع کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس علیم و حکیم ہے ، ہاں جب زندگی سے مایوس ہو جائے فرشتوں کو دیکھ لے اور روح بدن سے نکل کر حلق تک پہنچ جائے سینے میں گھٹن لگے حلق میں اٹکے سانسوں سے غرغرہ شروع ہو تو اس کی توبہ قبول نہیں ہوتی ۔ اسی لئے اس کے بعد فرمایا کہ مرتے دم تک جو گناہوں پر اڑا رہے اور موت دیکھ کر کہنے لگے کہ اب میں توبہ کرتا ہوں تو ایسے شخص کی توبہ قبول نہیں ہوتی ، جیسے اور جگہ ہے آیت ( فَلَمَّا رَاَوْا بَاْسَنَا قَالُوْٓا اٰمَنَّا بِاللّٰهِ وَحْدَهٗ وَكَفَرْنَا بِمَا كُنَّا بِهٖ مُشْرِكِيْنَ ) 40 ۔ غافر:84 ) ( دو آیتوں تک ) مطلب یہ ہے کہ ہمارے عذابوں کا معائنہ کر لینے کے بعد ایمان کا اقرار کرنا کوئی نفع نہیں دیتا اور جگہ ہے آیت ( يَوْمَ يَاْتِيْ بَعْضُ اٰيٰتِ رَبِّكَ لَا يَنْفَعُ نَفْسًا اِيْمَانُهَا لَمْ تَكُنْ اٰمَنَتْ مِنْ قَبْلُ اَوْ كَسَبَتْ فِيْٓ اِيْمَانِهَا خَيْرًا ۭ قُلِ انْتَظِرُوْٓا اِنَّا مُنْتَظِرُوْنَ ) 6 ۔ الانعام:158 ) مطلب یہ ہے کہ جب مخلوق سورج کو مغرب کی طرف سے چڑھتے ہوئے دیکھ لے گی اس وقت جو ایمان لائے یا نیک عمل کرے اسے نہ اس کا عمل نفع دے گا نہ اس کا ایمان ۔ پھر فرماتا ہے کہ کفر و شرک پر مرنے والے کو بھی ندامت و توبہ کوئی فائدہ نہ دے گی نہ ہی اس فدیہ اور بدلہ قبول کیا جائے گا چاہے زمین بھر کر سونا دینا چاہئے حضرت ابن عباس وغیرہ فرماتے ہیں یہ آیت اہل شرک کے بارے میں نازل ہوئی ہے ، مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ اپنے بندیکی توبہ قبول کرتا ہے اور اسے بخش دیتا ہے جب تک پردہ نہ پڑ جائے پوچھا گیا پردہ پڑنے سے کیا مطلب ہے؟ فرمایا شرک کی حالت میں جان نکل جانا ۔ ایسے لوگوں کے لئے اللہ تعالیٰ نے سخت درد ناک المناک ہمیشہ رہنے والے عذاب تیار کر رکھے ہیں ۔
[٣٠] توبہ کس کی قبول ہے اور کس کی نہیں :۔ گویا اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے توبہ کی قبولیت کے لیے دو باتوں کی قید لگا دی۔ ایک تو یہ کہ وہ گناہ از راہ نادانی، جہالت یا نادانستہ طور پر سرزد ہوا ہو۔ اور دوسرے یہ کہ اس قصور وار کو بعد میں جلد ہی اپنی غلطی کا احساس ہوجائے اور وہ اللہ کے حضور توبہ کرے اور اگر اس کے برعکس معاملہ ہو یعنی گناہ بھی دانستہ طور پر اور اللہ کے احکام پر دلیر ہو کر کیا گیا ہو یا گناہ تو نادانستہ واقع ہوا ہو مگر توبہ میں عمداً تاخیر کرتا جائے تو ایسی صورتوں میں توبہ کے قبول ہونے کا کوئی امکان نہیں۔
اِنَّمَا التَّوْبَةُ عَلَي اللّٰهِ : یہاں ” علی اللہ “ کے معنی یہ ہیں کہ ایسے لوگوں کی توبہ قبول کرنا اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے اپنے ذمہ لے لیا ہے، ورنہ اللہ تعالیٰ پر کوئی چیز لازم نہیں ہے۔ (قرطبی) یہاں ایک سوال ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ صرف ان لوگوں کی توبہ قبول کرتا ہے جو جہالۃ سے گناہ کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر کوئی جہالۃ سے گناہ نہ کرے بلکہ دیدہ دانستہ علم رکھتے ہوئے گناہ کرے تو اس کی توبہ قبول ہی نہیں۔ جواب اس کا یہ ہے ” بجھالۃ “ یعنی اگر کبھی نادانی اور جذبات سے مغلوب ہو کر گناہ کا ارتکاب کر بھی لیتے ہیں تو ” من قریب “ یعنی جلد ہی توبہ کرلیتے ہیں، کہ یہاں ” بجہالۃ “ کی قید احتراز کے لیے نہیں ہے، بلکہ بیان واقعہ کے لیے ہے، یعنی ہر گناہ ہوتا ہی جہالت اور نادانی کی وجہ سے ہے۔ گناہ کرنے والا اس کے انجام سے بیخبر ہو کر ہی گناہ کی جرأت کرتا ہے اگر اس کا انجام پوری طرح اس کی آنکھوں کے سامنے ہو تو وہ کبھی گناہ کا ارتکاب نہ کرسکتے، ” من قریب “ کا مفہوم یہ ہے کہ موت کے آثار مشاہدہ کرنے سے پہلے پہلے تائب ہوجاتے ہیں۔ ان دو شرطوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ ان کی توبہ قبول فرما لیتا ہے۔ (قرطبی۔ ابن کثیر)
ربط آیات :- ماقبل کی آیت میں توبہ کا ذکر آیا تھا، اب ان دو آیتوں میں قبول کی شرائط اور اس کے قبول ہونے اور نہ ہونے کی صورتیں بتلاتے ہیں۔- خلاصہ تفسیر - توبہ جس کا قبول کرنا (حسب وعدہ) اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے وہ تو انہی کی ہے، جو حماقت سے کوئی گناہ (صغیرہ ہو یا کبیرہ ہو) کر بیٹھے ہیں، پھر قریب ہی وقت میں (یعنی قبل حضور موت جس کے معنی آگے آتے ہیں) توبہ کرلیتے ہیں، سو ایسوں پر تو اللہ تعالیٰ (قبول توبہ کے ساتھ) توجہ فرماتے ہیں (یعنی توبہ قبول کرلیتے ہیں) اور اللہ تعالیٰ خوب جانتے ہیں (کہ کس نے دل سے توبہ کی) حکمت والے ہیں (کہ دل سے توبہ نہ کرنے والے فضیحت نہیں کرتے) اور ایسے لوگوں کی توبہ (قبول) نہیں جو (برابر) گناہ کرتے رہتے ہیں، یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کے سامنے موت ہی کھڑی ہوتی (حضور موت کا مطلب یہ ہے کہ اس کو دوسرے عالم کی چیزیں نظر آنے لگیں) تو کہنے لگا کہ میں اب توبہ کرتا ہوں (پس نہ تو ایسوں کی توبہ قبول) اور نہ ان لوگوں کی (توبہ یعنی ایمان لانا ایسے وقت کا مقبول ہے) جن کو حالت کفر پر موت آجاتی ہے، ان (کافر) لوگوں کے لئے ہم نے ایک درد ناک سزا (یعنی عقوبت دوزخ) تیار کر رکھی ہے۔ “- معارف ومسائل - کیا قصدو اختیار سے کیا ہوا گناہ معاف نہیں ہوتا :۔- یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ قرآن مجید میں لفظ بجھالة کا وارد ہوا ہے اس سے بظاہر مفہوم ہوتا ہے کہ انجانی اور نادانی سے گناہ کرے تو اس کی توبہ قبول ہوگی، جان بوجھ کر کرے تو توبہ قبول نہیں ہوگی، لیکن صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم نے جو تفسیر اس آیت کی بیان فرمائی ہے، وہ یہ ہے کہ ” جہالتہ “ سے اسی جگہ پر مراد نہیں ہے کہ اس کو گناہ کے گناہ ہونے کی خبر نہ ہو، یا گناہ کا قصد و ارادہ نہ ہو، بلکہ مراد یہ ہے کہ اس کو گناہ کے انجام بد اور اخروی عذاب سے غفلت اس گناہ پر اقدام کا سبب ہوگئی، اگرچہ گناہ کو گناہ جانتا ہو اور اس کا قصد و ارادہ بھی کیا ہو۔ - دوسرے الفاظ میں جہالت کا لفظ اس جگہ حماقت و بیوقوفی کے معنی میں ہے، جیسا کہ خلاصہ تفسیر میں مذکور ہوا ہے، اس کی نظیر سورة یوسف میں ہے، حضرت یوسف (علیہ السلام) نے اپنے بھائیوں سے فرمایا تھا : ھل عملتم مافعلتم بیوسف واخیہ اذ انتم جھلون (٢١: ٩٨) اس میں بھائیوں کو جاہل کہا گیا ہے، حالانکہ انہوں نے جو کام کیا وہ کسی خطا یا نسیان سے نہیں بلکہ قصد و ارادہ سے جان بوجھ کر کیا تھا، مگر اس فعل کے انجام سے غفلت کے سبب ان کو جاہل کہا گیا ہے۔- ابو العالیہ اور قتادہ نے نقل کیا ہے کہ صحابہ کرام (رض) اس پر متفق تھے کہ کل ذنب اصابہ عبد فھو جھالہ عمداً کانا وغیرہ ” یعنی بندہ جو گناہ کرتا ہے خواہ بلاقصد ہو یا بالقصد بہرحال جہالت ہے۔ “- امام تفسیر مجاہد نے فرمایا : کل عامل بمعصیتہ اللہ فھو جاھل حین عملھا ” یعنی جو شخص کسی کام میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کر رہا ہے وہ یہ کام کرتے ہوئے جاہل ہی ہے۔ “ اگرچہ صورت میں بڑا عالم اور باخبر ہو (ابن کثیر)- اور ابوحیان نے تفسیر بحر محیط میں فرمایا کہ یہ ایسا ہی ہے جیسے حدیث میں ارشاد ہے : لایرنی الزنی وھو مومن، ” یعنی زنا کرنے والا مومن ہونے کی حالت میں زنا نہیں کرتا۔ “ مراد یہ ہے کہ جس وقت وہ اس فعل بد میں مبتلا ہوا ہے اس وقت وہ ایمانی تقاضہ سے دور جا پڑا۔- اسی لئے حضرت عکرمہ نے فرمایا کہ : امور الدنیا کلھا جھالة ” یعنی دنیا کے وہ سارے کام جو اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری اور اطاعت سے خارج ہوں سب کے سب جہالت ہیں۔ “ اور وجہ ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرنے والا تھوڑی دیر کی لذت کو ہمیشہ باقی رہنے والی لذت پر ترجیح دے رہا ہے اور جو اس تھوڑی دیر کی لذت کے بدلہ میں ہمیشہ ہمیشہ کا عذاب شدید خریدے وہ عاقل نہیں کہا جاسکتا، اس کو ہر شخص جاہل ہی کہے گا، اگرچہ وہ اپنے فعل بد کو جانتا ہو اور اس کا قصد و ارادہ بھی کر رہا ہو۔ - خلاصہ یہ ہے کہ انسان کوئی گناہ قصداً کرے یا خطاءً دونوں حالت میں گناہ جہالت ہی سے ہوتا ہے، اسی لئے صحابہ وتابعین اور تمام امت کا اس پر اجماع ہے کہ جو شخص قصداً کسی گناہ کا مرتکب ہو اس کی بھی توبہ قبول ہو سکتی ہے۔ (بحر محیط)- آیت مذکورہ میں ایک بات قابل غور یہ ہے کہ اس میں قبول توبہ کے لئے یہ شرط بتلائی ہے کہ قریب زمانہ میں ہی توبہ کرلے، توبہ کرنے میں دیر نہ کرے، اس میں قریب کا کیا مطلب ہے، اور کتنا زمانہ قریب میں داخل ہے ؟ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کی تفسیر ایک حدیث میں خود اس طرح بیان فرمائی ہے :- ان اللہ یقبل توبة العبد مالم یغرغر۔ حدیث کے معنی یہ ہیں کہ ” اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی توبہ اس وقت تک قبول فرماتے ہیں جب تک اس پر موت اور نزع روح کا غرغرہ طاری نہ ہوجائے۔ “- اور محدث ابن مردویہ نے حضرت عبداللہ بن عمر سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو بندہ مومن موت سے ایک مہینہ پہلے اپنے گناہ سے توبہ کرے، یا ایک دن یا ایک گھڑی پہلے توبہ کرے، تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرمائیں گے، بشرطیکہ اخلاص کے ساتھ سچی توبہ کی گئی ہو (ابن کثیر)- خلاصہ یہ کہ من قریب کی تفسیر جو خود رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمائی، اس سے معلوم ہوا کہ انسان کی پوری عمر کا زمانہ قریب ہی میں داخل ہے، موت سے پہلے پہلے جو توبہ کرلی جاوے قبول ہوگی۔ البتہ غزغرہ موت کے وقت کی توبہ مقبول نہیں۔- اس کی توضیح جو حضرت حکیم الامت تھانوی نے تفسیر بیان القرآن میں بیان فرمائی ہے کہ موت کے قریب دو حالتیں پیش آتی ہیں، ایک تو ایاس و ناامیدی کی جب کہ انسان ہر دوا و تدبیر سے عاجز ہو کر یہ سمجھ لے کہ اب موت آنے والی ہے، اس کو حالت یاس بالیاء سے تعبیر کیا گیا ہے، دوسری حالت اس کے بعد کی ہے، جبکہ نزع روح شروع ہوجائے اور غرغرہ کا وقت آجائے، اس حالت کو باس بالباء کہا جاتا ہے، پہلی حالت یعنی حالت یاس تک تو من قریب کے مفہم میں داخل ہے اور توبہ اس وقت کی قبول ہوتی ہے، مگر دوسری حالت یعنی حالت باس کی توبہ مقبول نہیں، جب کہ فرشتے اور عالم آخرت کی چیزیں انسان کے سامنے آجائیں، کیونکہ وہ من قریب کے مفہوم میں داخل نہیں۔- اس آیت میں من قریب کا لفظ بڑھا کر اس کی طرف اشارہ کردیا گیا کہ انسان کی ساری عمر ہی ایک قلیل زمانہ ہے اور موت جس کو وہ بعید سمجھ رہا ہے اس کے بالکل قریب ہے۔- قریب کی یہ تفسیر جو رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کی گئی ہے، دوسری آیت میں خود قرآن نے بھی اس کی طرف اشارہ فرما دیا ہے، جس میں یہ بتلایا ہے کہ موت کے وقت کی توبہ مقبول نہیں۔- خلاصہ مضمون آیت کا یہ ہوگیا کہ جو شخص کسی گناہ کا ارتکاب کرتا ہے خواہ جان بوجھ کر قصد و ارادہ سے کرے یا خطاء و ناواقفیت کی بناء پر کرے، وہ بہرحال جہالت ہی ہوتا ہے، ہر ایسے گناہ سے انسان کی توبہ قبول کرنا اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ لے لیا ہے بشرطیکہ موت سے پہلے پہلے سچی توبہ کرلے۔- اپنے ذمہ لے لینے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کا وعدہ فرما لیا ہے جس کا پورا ہونا یقینی ہے ورنہ اللہ تعالیٰ کے ذمہ کوئی فرض واجب یا کسی کا حق لازم نہیں ہوتا، پہلی آیت میں تو اس توبہ کا ذکر تھا جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک قابل قبول ہے، دوسری آیت میں اس توبہ کا بیان ہے جو قابل قبول نہیں۔- اس میں بیان فرمایا کہ ان لوگوں کی توبہ قابل قبول نہیں جو عمر بھر جرأت کے ساتھ گناہ کرتے رہے اور جب موت سر پر آپہنچی اور نزع روح شروع ہوگیا، موت کے فرشتے سامنے آگئے، اس وقت کہنے لگے کہ ہم اب توبہ کرتے ہیں، انہوں نے فرصت عمر گنوا کر توبہ کا وقت کھو دیا، اس لئے ان کی توبہ مقبول نہیں ہوگی، جیسے فرعون اور آل فرعون نے غرق ہونے کے وقت پکارا کہ ہم رب موسیٰ و ہارون پر ایمان لاتے ہیں تو ان کو جواب ملا کہ کیا اب ایمان لاتے ہو جب ایمان لانے کا وقت گزر چکا ؟- اور یہی مضمون آیت کے آخری جملہ میں ارشاد فرمایا ہے ان لوگوں کی توبہ بھی قابل قبول نہیں جن کو حالت کفر پر موت آگئی اور عین نزع روح کے وقت ایمان کا اقرار کیا، یہ اقرار و ایمان بےوقت اور بےسود ہے، ان کے لئے عذاب تیار کرلیا گیا ہے۔- توبہ کی تعریف اور حقیقت :۔- دونوں آیتوں کی لفظی تفسیر کے بعد ضرویر بات یہ باقی رہتی ہے کہ توبہ کی تعریف کیا ہے ؟ اور اس کی کیا حقیقت اور کیا درجہ ہے ؟ - امام غزالی نے احیاء العلوم میں فرمایا کہ گناہوں پر اقدام کے تین درجے ہیں :- پہلا یہ کہ کسی گناہ کا کبھی ارتکاب نہ ہو، یہ تو فرشتوں کی خصوصیت یا انبیاء (علیہم السلام) کی دوسرا درجہ یہ ہے کہ گناہوں پر اقدام کرے اور پھر ان پر اصرار جاری رہے، کبھی ان پر ندامت اور ان کے ترک کا خیال نہ آئے یہ درجہ شیاطین کا ہے، تیسرا مقام نبی آدم کا ہے کہ گناہ سر زد ہو تو فوراً اس پر ندامت ہو، اور آئندہ اس کے ترک کا پختہ عزم ہو۔ - اس سے معلوم ہوا کہ گناہ سر زد ہونے کے بعد توبہ نہ کرنا یہ خالص شیاطین کا کام ہے اس لئے باجماع امت توبہ فرض ہے، قرآن مجید کا ارشاد ہے :- ” یعنی ایمان والو اللہ تعالیٰ سے توبہ کرو سچی توبہ، تو کچھ عجب نہیں کہ اللہ تعالیٰ تمہارے گناہوں کا کفارہ کردیں اور تمہیں ایسی جنتوں میں داخل کردیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں۔ “- کریم الکرما اور رحیم الرحماء کی بارگاہ رحمت کی شان دیکھئے کہ انسان ساری عمر اس کی نافرمانی میں مبتلا رہے، مگر موت سے پہلے سچے دل سے توبہ کرلے تو صرف یہی نہیں کہ اس کا قصور معاف کردیا جائے بلکہ اس کو اپنے محبوب بندوں میں داخل کر کے جنت کا وارث بنادیا جاتا ہے۔- حدیث میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے :- ” یعنی گناہ سے توبہ کرنے والا اللہ کا محبوب ہے اور جس نے گناہ سے توبہ کرلی وہ ایسا ہوگیا کہ گویا اس نے گناہ کیا ہی نہ تھا۔ “- بعض روایات میں ہے کہ جب بندہ کسی گناہ سے توبہ کرے اور وہ اللہ کے نزدیک مقبول ہوجائے، تو صرف یہی نہیں کہ اس پر مواخذہ نہ ہو، بلکہ اس کو فرشتوں کے لکھے ہوئے نامہ اعمال سے مٹا دیا جاتا ہے، تاکہ اس کی رسوائی بھی نہ ہو۔ - البتہ یہ ضروری ہے کہ توبہ سچی اور توبتہ النصوح ہو، جس کے تین رکن ہیں، اول اپنے کئے پر ندامت اور شرمساری، حدیث میں ارشاد ہے، انما التوبة الندم ” یعنی توبہ نام ہی ندامت کا ہے “ دسرا رکن توبہ کا یہ ہے کہ جس گناہ کا ارتکاب کیا ہے اس کو فوراً چھوڑ دے اور آئندہ کو بھی اس سے باز رہنے کا پختہ عزم و ارادہ کرے۔- تیسرا رکن یہ ہے کہ تلافی منافات کی فکر کرے، یعنی جو گناہ سر زد ہوچکا ہے اس کا جتنا تدارک اس کے قبضہ میں ہے اس کو پورا کرے، مثلاً نماز روزہ فوت ہوا ہے تو اس کو قضا کرے فوت شدہ نمازوں اور روزوں کی صحیح تعداد یاد نہ ہو، تو غور و فکر سے کام لے کر تخمینہ متعین کرے پھر ان کی قضاء کرنے کا پورا اہتمام کرے، بیک وقت نہیں کرسکتا تو ہر نماز کے ساتھ ایک ایک نماز قضاء عمری کی پڑھ لیا کرے، ایسے ہی متفرق اوقات میں روزوں کی قضاء کا اہتمام کرے، فرض زکواة ادا نہیں کی تو گزشتہ زمانہ کی زکوة بھی یک مشت یا تدریجاً ادا کرے، کسی انسان کا حق لے لیا ہے تو اس کو واپس کرے، کسی کو تکلیف پہنچائی ہے تو اس سے معافی طلب کرے، لیکن اگر اپنے کئے پر ندامت نہ ہو، یا ندامت تو ہو مگر آئندہ کے لئے اس گناہ کو ترک نہ کرے، تو یہ توبہ نہیں ہے، گوہزار مرتبہ زبان سے توبہ توبہ کہا کرے۔- توبہ برلب سبحہ برکف دل پر از ذوق گناہ - معصیت راخندہ می آیدز استغفار ما - جب کسی انسان نے مذکورہ بالا تفصیل کے مطابق توبہ کرلی تو وہ ہر طرح کا گناہ کر چکنے کے باوجود اللہ کا محبوب بندہ بن گیا - اور اگر پھر بتقاضائے بشریت کبھی اس سے گناہ کا ارتکاب ہوگیا، تو پھر فوراً توبہ کی تجدید کرے، بارگاہ غفور کریم سے ہر دفع توبہ قبول کرنے کی امید رکھے۔- ایں درگہ مادرگہ نومید نیست - صد بار اگر توبہ شکستی باز آ
اِنَّمَا التَّوْبَۃُ عَلَي اللہِ لِلَّذِيْنَ يَعْمَلُوْنَ السُّوْۗءَ بِجَہَالَۃٍ ثُمَّ يَتُوْبُوْنَ مِنْ قَرِيْبٍ فَاُولٰۗىِٕكَ يَتُوْبُ اللہُ عَلَيْھِمْ ٠ ۭ وَكَانَ اللہُ عَلِــيْمًا حَكِـيْمًا ١٧- توب - التَّوْبُ : ترک الذنب علی أجمل الوجوه وهو أبلغ وجوه الاعتذار،- فإنّ الاعتذار علی ثلاثة أوجه : إمّا أن يقول المعتذر : لم أفعل، أو يقول :- فعلت لأجل کذا، أو فعلت وأسأت وقد أقلعت، ولا رابع لذلک، وهذا الأخير هو التوبة، والتَّوْبَةُ في الشرع :- ترک الذنب لقبحه والندم علی ما فرط منه، والعزیمة علی ترک المعاودة، وتدارک ما أمكنه أن يتدارک من الأعمال بالأعمال بالإعادة، فمتی اجتمعت هذه الأربع فقد کملت شرائط التوبة . وتاب إلى الله، فذکر «إلى الله» يقتضي الإنابة، نحو : فَتُوبُوا إِلى بارِئِكُمْ [ البقرة 54] - ( ت و ب ) التوب - ( ن) کے معنی گناہ کے باحسن وجود ترک کرنے کے ہیں اور یہ معذرت کی سب سے بہتر صورت ہے - کیونکہ اعتذار کی تین ہی صورتیں ہیں - ۔ پہلی صورت - یہ ہے کہ عذر کنندہ اپنے جرم کا سرے سے انکار کردے اور کہہ دے لم افعلہ کہ میں نے کیا ہی نہیں ۔ - دوسری صورت - یہ ہے کہ اس کے لئے وجہ جواز تلاش کرے اور بہانے تراشے لگ جائے ۔ - تیسری صورت - یہ ہے کہ اعتراف جرم کے ساتھ آئندہ نہ کرنے کا یقین بھی دلائے افرض اعتزار کی یہ تین ہی صورتیں ہیں اور کوئی چوتھی صورت نہیں ہے اور اس آخری صورت کو تو بہ کہا جاتا ہ مگر - شرعا توبہ - جب کہیں گے کہ گناہ کو گناہ سمجھ کر چھوڑ دے اور اپنی کوتاہی پر نادم ہو اور دوبارہ نہ کرنے کا پختہ عزم کرے ۔ اگر ان گناہوں کی تلافی ممکن ہو تو حتی الامکان تلافی کی کوشش کرے پس تو بہ کی یہ چار شرطیں ہیں جن کے پائے جانے سے توبہ مکمل ہوتی ہے ۔ تاب الی اللہ ان باتوں کا تصور کرنا جو انابت الی اللہ کی مقتضی ہوں ۔ قرآن میں ہے ؛۔ وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعاً [ النور 31] سب خدا کے آگے تو بہ کرو ۔- عمل - العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ- [ البقرة 277] - ( ع م ل ) العمل - ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے - ويقال : سَاءَنِي كذا، وسُؤْتَنِي، وأَسَأْتَ إلى فلان، قال : سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک 27] ، وقال : لِيَسُوؤُا وُجُوهَكُمْ [ الإسراء 7] - ساء - اور ساءنی کذا وسؤتنی کہاجاتا ہے ۔ اور اسات الی ٰ فلان ( بصلہ الی ٰ ) بولتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک 27] تو کافروں کے منہ برے ہوجائیں گے ۔ لِيَسُوؤُا وُجُوهَكُمْ [ الإسراء 7] تاکہ تمہارے چہروں کو بگاڑیں ۔ - جهل - الجهل علی ثلاثة أضرب :- الأول : وهو خلوّ النفس من العلم، هذا هو الأصل، وقد جعل ذلک بعض المتکلمین معنی مقتضیا للأفعال الخارجة عن النظام، كما جعل العلم معنی مقتضیا للأفعال الجارية علی النظام .- والثاني : اعتقاد الشیء بخلاف ما هو عليه .- والثالث : فعل الشیء بخلاف ما حقّه أن يفعل، سواء اعتقد فيه اعتقادا صحیحا أو فاسدا، كمن يترک الصلاة متعمدا، وعلی ذلک قوله تعالی: قالُوا : أَتَتَّخِذُنا هُزُواً ؟ قالَ : أَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجاهِلِينَ [ البقرة 67]- ( ج ھ ل ) الجھل - ۔ ( جہالت ) نادانی جہالت تین قسم پر ہے - ۔ ( 1) انسان کے ذہن کا علم سے خالی ہونا اور یہی اس کے اصل معنی ہیں اور بعض متکلمین نے کہا ہے کہ انسان کے وہ افعال جو نظام طبعی کے خلاف جاری ہوتے ہیں ان کا مقتضی بھی یہی معنی جہالت ہے ۔- ( 2) کسی چیز کے خلاف واقع یقین و اعتقاد قائم کرلینا ۔ - ( 3) کسی کام کو جس طرح سر انجام دینا چاہئے اس کے خلاف سر انجام دنیا ہم ان سے کہ متعلق اعتقاد صحیح ہو یا غلط مثلا کوئی شخص دیا ۔ دانستہ نماز ترک کردے چناچہ اسی معنی کے اعتبار سے آیت : أَتَتَّخِذُنا هُزُواً ؟ قالَ : أَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجاهِلِينَ [ البقرة 67] میں ھزوا کو جہالت قرار دیا گیا ہے ۔- قرب - الْقُرْبُ والبعد يتقابلان . يقال : قَرُبْتُ منه أَقْرُبُ وقَرَّبْتُهُ أُقَرِّبُهُ قُرْباً وقُرْبَاناً ، ويستعمل ذلک في المکان، وفي الزمان، وفي النّسبة، وفي الحظوة، والرّعاية، والقدرة . فمن الأوّل نحو : وَلا تَقْرَبا هذِهِ الشَّجَرَةَ [ البقرة 35] ، - ( ق ر ب ) القرب - القرب والبعد یہ دونوں ایک دوسرے کے مقابلہ میں استعمال ہوتے ہیں ۔ محاورہ ہے : قربت منہ اقرب وقربتہ اقربہ قربا قربانا کسی کے قریب جانا اور مکان زمان ، نسبی تعلق مرتبہ حفاظت اور قدرت سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے جنانچہ فرب مکانی کے متعلق فرمایا : وَلا تَقْرَبا هذِهِ الشَّجَرَةَ [ البقرة 35] لیکن اس درخت کے پاس نہ جانا نہیں تو ظالموں میں داخل ہوجاؤ گے ۔ - علم - العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته، وذلک ضربان :- أحدهما : إدراک ذات الشیء .- والثاني : الحکم علی الشیء بوجود شيء هو موجود له،- أو نفي شيء هو منفيّ عنه .- فالأوّل : هو المتعدّي إلى مفعول واحد نحو :- لا تَعْلَمُونَهُمُ اللَّهُ يَعْلَمُهُمْ [ الأنفال 60] .- والثاني : المتعدّي إلى مفعولین، نحو قوله :- فَإِنْ عَلِمْتُمُوهُنَّ مُؤْمِناتٍ [ الممتحنة 10] ، وقوله : يَوْمَ يَجْمَعُ اللَّهُ الرُّسُلَ إلى قوله :- لا عِلْمَ لَنا «3» فإشارة إلى أنّ عقولهم طاشت .- والعِلْمُ من وجه ضربان : نظريّ وعمليّ.- فالنّظريّ : ما إذا علم فقد کمل، نحو : العلم بموجودات العالَم .- والعمليّ : ما لا يتمّ إلا بأن يعمل کالعلم بالعبادات .- ومن وجه آخر ضربان : عقليّ وسمعيّ ،- وأَعْلَمْتُهُ وعَلَّمْتُهُ في الأصل واحد، إلّا أنّ الإعلام اختصّ بما کان بإخبار سریع، والتَّعْلِيمُ اختصّ بما يكون بتکرير وتكثير حتی يحصل منه أثر في نفس المُتَعَلِّمِ. قال بعضهم : التَّعْلِيمُ : تنبيه النّفس لتصوّر المعاني، والتَّعَلُّمُ : تنبّه النّفس لتصوّر ذلك، وربّما استعمل في معنی الإِعْلَامِ إذا کان فيه تكرير، نحو : أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ [ الحجرات 16] ،- ( ع ل م ) العلم - کسی چیش کی حقیقت کا اور راک کرنا اور یہ قسم پر ہے اول یہ کہ کسی چیز کی ذات کا ادراک کرلینا دوم ایک چیز پر کسی صفت کے ساتھ حکم لگانا جو ( فی الواقع ) اس کے لئے ثابت ہو یا ایک چیز کی دوسری چیز سے نفی کرنا جو ( فی الواقع ) اس سے منفی ہو ۔ پہلی صورت میں یہ لفظ متعدی بیک مفعول ہوتا ہے جیسا کہ قرآن میں ہے : ۔ لا تَعْلَمُونَهُمُ اللَّهُ يَعْلَمُهُمْ [ الأنفال 60] جن کو تم نہیں جانتے اور خدا جانتا ہے ۔ اور دوسری صورت میں دو مفعول کی طرف متعدی ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ فَإِنْ عَلِمْتُمُوهُنَّ مُؤْمِناتٍ [ الممتحنة 10] اگر تم کا معلوم ہو کہ مومن ہیں ۔ اور آیت يَوْمَ يَجْمَعُ اللَّهُ الرُّسُلَاسے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ان کے ہوش و حواس قائم نہیں رہیں گے ۔- ایک دوسری حیثیت سے علم کی دوقسمیں ہیں - ( 1) نظری اور ( 2 ) عملی ۔ نظری وہ ہے جو حاصل ہونے کے ساتھ ہی مکمل ہوجائے جیسے وہ عالم جس کا تعلق موجودات عالم سے ہے اور علم عمل وہ ہے جو عمل کے بغیر تکمیل نہ پائے جسیے عبادات کا علم ایک اور حیثیت سے بھی علم کی دو قسمیں ہیں ۔ ( 1) عقلی یعنی وہ علم جو صرف عقل سے حاصل ہو سکے ( 2 ) سمعی یعنی وہ علم جو محض عقل سے حاصل نہ ہو بلکہ بذریعہ نقل وسماعت کے حاصل کیا جائے دراصل اعلمتہ وعلمتہ کے ایک معنی ہیں مگر اعلام جلدی سے بتادینے کے ساتھ مختص ہے اور تعلیم کے معنی با ر بار کثرت کے ساتھ خبر دینے کے ہیں ۔ حتٰی کہ متعلم کے ذہن میں اس کا اثر پیدا ہوجائے ۔ بعض نے کہا ہے کہ تعلیم کے معنی تصور کیلئے نفس کو متوجہ کرنا کے ہیں اور تعلم کے معنی ایسے تصور کی طرف متوجہ ہونا کے اور کبھی تعلیم کا لفظ اعلام کی جگہ آتا ہے جب کہ اس میں تاکید کے معنی مقصود ہوں جیسے فرمایا ۔ أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ [ الحجرات 16] کیا تم خدا کو اپنی دینداری جتلاتے ہو ۔ اور حسب ذیل آیات میں تعلیم کا لفظ استعمال ہوا ہے جیسے فرمایا ۔ الرَّحْمنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ [ الرحمن 1- 2] خدا جو نہایت مہربان اس نے قرآن کی تعلیم فرمائی ۔ قلم کے ذریعہ ( لکھنا ) سکھایا ؛
یہی بات درست ہے اس لیے حدیث کے ابتدائی الفاظ سے ضروری ہوجاتا ہے کہ اسے آیت میں مذکورسبیل کا بیان تسلیم کرلیاجائے۔- اوریہ بات تو معلوم ہی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس ارشاد اور حبس واذیت کے مابین کسی اور حکم کا واسطہ نہیں ہے اور یہ کہ سورة نور میں کوڑوں کی سزا کے حکم پر مشتمل آیت اس وقت تک نازل نہیں ہوئی تھی۔ اس لیے کہ اگر اس وقت تک اس کا نزول ہوچکا ہوتا ہے تو آیت زیربحث میں مذکورسبیل کے بیان کے سلسلے میں مذکورہ بالاحدیث پرا سے مقدم تسلیم کرلیاجاتا۔- نیز حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس ارشاد (خذواعنی ، قدجعل اللہ لھن سبیلا، کے کوئی معنی نہ ہوتے۔ اس لیے یہ بات ثابت ہوگئی کہ حبس اور اذیت کے حکم کو منسوخ کرنے والی وہ حدیث ہے جس کے راوی حضرت عبادہ بن الصامت (رض) ہیں اور یہ کہ کوڑوں کے حکم پر مشتمل آیت اس کے بعد نازل ہوئی۔- اس میں سنت کے ذریعے قرآن کے نسخ کے جواز کی دلیل بھی موجود ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کی نص سے حبس اور اذیت کی جو سزاواجب کردی تھی وہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مذکورہ بالاقول ہے منسوخ ہوگئی ۔- اگریہ کہاجائے کہ قول باری (واللذانیاتیانھامنکم) نیززیربحث دونوں آیتوں میں مذکورحبس اور اذیت کا تعلق بن بیا ہے جوڑے کے ساتھ تھا بیا ہے جوڑے کے ساتھ نہیں تھا تو اس کے جواب میں کہاجائے گا کہ سلف کے درمیان اس بارے میں کوئی اختاف رائے نہیں تھا تو اس کے جواب میں کہاجائے گا کہ سلف کے درمیان اس بارے میں کوئی اختلاف رائے نہیں ہے کہ گھر میں تاموت بندرکھنے کا حکم بیاہی عورت کے لیے تھا۔ صرف سدی کا یہ قول تھا کہ اذیت پہنچانے کی سزابن بیا ہے جوڑے کے ساتھ مخصوص ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آیت حبس میں مذکورہ سبیل کے متعلق جو فرمایا ہے۔ وہ لامحالہ ثیبہ یعنی بیاہی عورت کے بارے میں ہے۔- اس لیے یہ ضروری ہوگیا کہ یہ حکم حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد (الثیب بالثیب الجلد والرجم ) کی پر منسوخ قراردیاجائے۔ اس طرح حبس کی سزاکاحکم بہرصورت غیر قران یعنی احادیث کی بناء منسوخ ہونے سے بچ نہ سکا۔ ان احادیث میں محصن کوسنگسار کردینے کا وجوب ہے۔- ان میں سے ایک حضرت عباد (رض) ہ کی روایت کردہ حدیث ہے جس کا سابقہ سطور میں ذکر کیا ہے اسی طرح حضرت عبداللہ اور حضرت عائشہ کی روایت کردہ حدیثیں ہیں۔- اس سلسلے کی ایک اور حدیث ہے جس کی روایت حضرت عثمان (رض) نے کی ہے۔ جب آپ باغیوں کے گھیرے میں تھے تو آپ نے صحابہ کرام کو اس پر گواہ بنایا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد ہے (لایحل دام امرئی مسلم الاباحدی ثلاث، کفر بعد ایمان ، وزنا بعد احصان وقتل نفس بغیرنفس ، کسی مسلمان کا خون بہانا اس وقت تک حلال نہیں جب تک اس میں ان تین باتوں میں سے ایک بات نہ پائی جائے، مسلمان ہوجانے کے بعد کفر اختیار کرلیاہو صفت احصان کے حصول کے بعد ارتکاب زناکرلیاہو، کسی کی ناحق جان لی ہو۔ )- اسی سلسلے میں ماغر اورغامدی عورت کا واقعہ بھی قابل بیان ہے ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دونوں کوسنگسار کرنے کا حکم دیا تھا امت نے ان آثارو واقعات کو اس کثرت سے نقل کیا ہے کہ اب اس کے متعلق کسی قسم کے شک وشبہ کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی۔- اگریہ کہا جائے کہ خوارج کا پوراٹولہ رجم کا انکاری ہے۔ اگر رجم کا حکم کثرت سے مروی ہوکر موجب علم ہوتاتو خوارج کا گروہ اس سے بیخبر نہ رہتا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ان آثار کے تحت دی گئی خبر کے علم کا ذریعہ ان کسے ناقلین سے سماع اور ان کے ذریعے اس کی معرفت ہے جبکہ خوارج کو فقہاء اسلام اور راویان آثار کی مجالست کی توفیق ہی نہیں ہوئی بلکہ یہ گروہ ان حضرات سے الگ تھلگ رہ کر ان کی روایت کردہ احادیث وآثارکوقبول کرنے سے انکار کرتارہاجس کی بناپررجم کے حکم کے متعلق انہیں شک پیدا ہوگیا اور وہ اس کے اثبات کے قائل نہ ہوسکے۔- اگریہ کہاجائے کہ ان میں سے بہت سوں کو کثرت روایت کی بناپر اس حکم کی معرفت حاصل ہوگئی تھی لیکن صرف اپنے اس عقیدے کا بھرم رکھنے کے لیے کہ جو راوی اپناہم مسلک نہ ہو اس کی روایت مسترد و، اس کا انکارکربیٹھے تھے تو یہ بات بعید ازقیاس نہیں ہوگی، انہوں نے چونکہ اپنے اعتقاد ومسلک کے دائرے سے باہرآکرآثاروآحادیث کا سماع نہیں کیا اس لیے انہیں اس حکم کا علم نہ ہوسکا۔- یایہ بھی ممکن ہے کہ ان میں سے جن لوگوں کو اس حکم کا علم تھا ان کی تعداد اتنی تھوڑی تھی کہ ان کے لیے اسے چھپاجانے اور اس سے انکار کردینے کی گنجائش پیدا ہوگئی تھی۔ ان لوگوں کو چونکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مبارک صحبت میسر نہیں ہوئی تھی کہ پھر انہیں اس حکم کا علم چشم دید کے طورپر ہوجاتایا انہیں ان لوگوں سے باربار سننے کا موقعہ ملتا جو اس حکم کے چشم دید گواہ تھے۔ چونکہ انہیں ان میں سے کوئی بات حاصل نہ ہوسکی اس لیے وہ اس حکم کو جان نہ سکے۔- آپ نہیں دیکھتے کہ مویشیوں کی زکواۃ کو نصاب کثرت روایت کے طریقے سے منقول ہوا ہے جو علم کا موجب ہے لیکن اس کے باجود اس کا علم دو میں سے ایک شخص کو ہوتا ہے ایک توفقیہ کو جس نے اسے سنا ہو اور اسے اس کا علم راویوں کے واسطے سے حاصل ہواہو اور دوسرادہ شخص جوان مویشیوں کا مالک ہو اورا سے ان کی زکواۃ نکالنے کے عمل سے باربار سابقہ پڑتا ہو جس کی وجہ سے وہ نصاف زکواہ سے باخبرہوگیا ہوتا کہ اس پر واجب ہونے والی کو اۃ کی وہ درست طریقے سے ادائیگی کرسکے۔- اس جیسے انسان کو جب کثرت سے باربار اس مسئلے کے متعلق سننے کا موقعہ ملتا ہے۔ توا سے اس کا علم حاصل ہوجاتا ہے اور اگر وہ اسے اکادکاطریقے سے سنتا ہے تو اسے اس کا علم حاصل نہیں ہوتا خوارج کی طرف سے رجم کی سزاکوتسلیم نہ کرنے اور ایک عورت کی پھوپھی یاخالہ کے زیرعقد ہوتے ہوئے اس سے نکاح کی حرمت کے قائل نہ ہونے اور اسی قسم کے درسرے مسائل میں جن کے ناقلین عادل رواۃ ہیں، خارجی اور باغی وسرکش قسم کے لوگ نہیں ہیں، ان کے انکار کے رولیے کی یہی وجہ ہے۔- زیربحث دونوں آیتوں میں بہت سے احکام موجود ہیں جن میں سے چند یہ ہیں۔ زناکے بارے میں چارگواہوں کی گواہی ہونی چاہیئے۔ زنا کی سزا کے طورپر عورت کو گھر میں بندکردیاجائے اور عورت و مرد دونوں کو ایذادی جائے اگر اس فعل قبیح کے مرتکب مرد اور عورت توبہ کرلیں توا نہیں سخت سست کہنے ذلیل کرنے اور ایذاپہنچانے کا عمل بندکردیاجائے۔- کیونکہ قول باری ہے (فان تاباواحلحافاعرضواعنھما، اگر یہ دونوں توبہ کرکے اپنی اصلاح کرلیں تو ان کاپیچھا چھوڑدو) تاہم یہ تو بہ ایذاپہنچانے کے عمل کے اسقاط میں مؤثر تھی۔ حبس کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں تھا۔ حبس کا معاملہ آیت میں ذکرہونے والی سبیل کے بیان پر موقوف تھا۔- حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کی وضاحت فرمادی کہ یہ کوڑے اور سنگساری کی سزاکانام ہے اور پھر آیت میں مذکورہ تمام احکام منسوخ ہوگئے البتہ چارگواہوں کی گواہی کا حکم باقی رہاکیون کہ زنا کی ان دونوں سزاؤں کو منسوخ کرنے والی سزا یعنی کوڑے اور رجم میں گواہوں کی تعداد کا اعتبارا بھی تک باقی ہے۔- اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں فرمایا ہے (والذین یرمون المحصنات ثم لم یاتواباربعۃ شھداء فاجلدوھم ثمانین جلدۃ، جو لوگ پاک دامن عورتوں پر زنا کی تہمت لگاتے ہیں اور پھر وہ چارگواہ پیش نہیں کرسکتے توا نہیں اسی کوڑے لگاؤ) ۔- نیز فرمایا (لولاجاءؤ اعلیہ یاربعۃ شھداء فاذلم یاتوابالشھداء فاو لئک عنداللہ ھم الاذبون، انہوں نے اس پرچارگواہ کیوں پیش نہیں کیئے۔ اب جب یہ چارگواہ نہ لاسکے تو اللہ کے نزدیک یہ جھوٹے ہیں) اس طرح نہ گواہوں کی تعدادکا اعتبار منسوخ ہو اورنہ ہی گواہی منسوخ ہوئی۔ یہ بات اس فعل قبیح کے مرتکب جوڑے پر حدزناجاری کرنے کی غرض سے گواہوں کو بلاکرا نہیں یہ منظر دکھادینے کے جواز کی موجب ہے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے اس فعل قبیح پر گواہی قائم کرنے کا حکم دیا ہے۔ اور گواہی اس وقت تک قائم نہیں ہوسکتی جب تک نظربھرکریہ منظر دیکھ نہ لیا جائے یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ زناکارجوڑے پر حدزناجاری کرنے کی غرض سے نظر بھرکردیکھنے والے کی گواہی ساقط نہیں ہوتی۔- حضرت ابوبکر (رض) نے حضرت مغیر (رض) ہ کے واقعہ میں شبل بن معبد، نافع بن الحارث اور زیاد کے ساتھ یہی طرزعمل اپنا یا تھا اور یہ بات ظاہر آیت کے موافق ہے۔
(١٧۔ ١٨) اللہ کی جانب سے توبہ تو ان ہی کی قبول ہے جو سزا سے واقف نہ ہونے کے سبب کوئی جرم کرلیتے ہیں اور پھر موت سے پہلے توبہ کرلیتے ہیں تو اللہ تعالیٰ نزع کی حالت سے قبل توبہ قبول فرمانے والے ہیں البتہ اس کے بعد توبہ قبول نہیں کرتے اور ایسے لوگوں کی جو موت کے سر پر آنے کے وقت توبہ کریں، قبول نہیں فرماتا، ان کفار کے لیے تو درد ناک عذاب ہے یہ آیت طعمہ اور اس کے ساتھیوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو مرتد ہوگئے تھے۔
آیت ١٧ (اِنَّمَا التَّوْبَۃُ عَلَی اللّٰہِ لِلَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ السُّوْءَ بِجَہَالَۃٍ ) (ثُمَّ یَتُوْبُوْنَ مِنْ قَرِیْبٍ ) - ایک صاحب ایمان پر کبھی ایسا وقت بھی آسکتا ہے کہ خارجی اثرات اتنے شدید ہوجائیں یا نفس کے اندر کا ہیجان اسے جذبات سے مغلوب کر دے اور وہ کوئی گناہ کا کام کر گزرے۔ لیکن اس کے بعد اسے جیسے ہی ہوش آئے گا اس پر شدید ندامت طاری ہوجائے گی اور وہ اللہ کے حضور توبہ کرے گا۔ ایسے شخص کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ اس کی توبہ قبول کرنا اللہ کے ذمے ہے۔