مظلوم کو فریاد کا حق ہے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ کسی مسلمان کو دوسرے کو بد دعا دینا جائز نہیں ، ہاں جس پر ظلم کیا گیا ہو اسے اپنے ظالم کو بد دعا دینا جائز ہے اور وہ بھی اگر صبر و ضبط کر لے تو افضل یہی ہے ۔ ابو داؤد میں ہے حضرت عائشہ صدیقہ کی کوئی چیز چور چرا لے گئے تو آپ ان پر بد دعا کرنے لگیں ۔ حضور رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر فرمایا کیوں اس کا بوجھ ہلکا کر رہی ہو؟ حضرت حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں اس پر بد دعا نہ کرنی چاہئے بلکہ یہ دعا کرنی چاہئے دعا ( اللھم اعنی علیہ واستخرج حقی منہ ) یا اللہ اس چور پر تو میری مدد کر اور اس سے میرا حق دلوا دے ، آپ سے ایک اور روایت میں مروی ہے کہ اگرچہ مظلوم کے ظالم کو کوسنے کی رخصت ہے مگر یہ خیال رہے کہ حد سے نہ بڑھ جائے ۔ عبدالکریم بن مالک جزری رحمتہ اللہ علیہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں گالی دینے والے کو یعنی برا کہنے والے کو برا تو کہہ سکتے ہیں لیکن بہتان باندھنے والے پر بہتان نہیں باندھ سکتے ۔ ایک اور آیت میں ہے ( وَلَمَنِ انْتَصَرَ بَعْدَ ظُلْمِهٖ فَاُولٰۗىِٕكَ مَا عَلَيْهِمْ مِّنْ سَبِيْلٍ ) 42 ۔ الشوری:41 ) جو مظلوم اپنے ظالم سے اس کے ظلم کا انتقام لے ، اس پر کوئی مؤاخذہ نہیں ۔ ابو داؤد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں دو گالیاں دینے والوں کا وبال اس پر ہے ، جس نے گالیاں دینا شروع کیا ۔ ہاں اگر مظلوم حد سے بڑھ جائے تو اور بات ہے ۔ حضرت مجاہد رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں جو شخص کسی کے ہاں مہمان بن کر جائے اور میزبان اس کا حق مہمانی ادا نہ کرے تو اسے جائز ہے کہ لوگوں کے سامنے اپنے میزبان کی شکایت کرے ، جب تک کہ وہ حق ضیافت ادا نہ کرے ۔ ابو داؤد ، ابن ماجہ وغیرہ میں ہے صحابہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی کہ آپ ہمیں ادھر ادھر بھیجتے ہیں ۔ بعض مرتبہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ وہاں کے لوگ ہماری مہمانداری نہیں کرتے آپ نے فرمایا اگر وہ میزبانی کریں تو درست ، ورنہ تم ان سے لوازمات میزبانی خود لے لیا کرو ۔ مسند احمد کی روایت میں فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ جو مسلمان کسی اہل قبلہ کے ہاں مہمان بن کر جائے اور ساری رات گذر جائے لیکن وہ لوگ اس کی مہمانداری نہ کریں تو ہر مسلمان پر اس مہمان کی نصرت ضروری ہے تاکہ میزبان کے مال سے اس کی کھیتی سے بقدر مہمانی دلائیں ۔ مسند کی اور حدیث میں ہے ضیافت کی رات ہر مسلمان پر واجب ہے ، اگر کوئی مسافر صبح تک محروم رہ جائے تو یہ اس میزبان کے ذمہ قرض ہے ، خواہ ادا کرے خواہ باقی رکھے ان احادیث کی وجہ سے امام احمد رحمتہ اللہ علیہ وغیرہ کا مذہب ہے کہ ضیافت واجب ہے ، ابو داؤد شریف وغیرہ میں ہے ایک شخص سرکار رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہو کر عرض کرتا ہے کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے میرا پڑوسی بہت ایذاء پہنچاتا ہے ، آپ نے فرمایا ایک کام کرو ، اپنا کل مال اسباب گھر سے نکال کر باہر رکھ دو ۔ اس نے ایسا ہی کیا راستے پر اسباب ڈال کر وہیں بیٹھ گیا ، اب جو گذرتا وہ پوچھتا کیا بات ہے؟ یہ کہتا میرا پڑوسی مجھے ستاتا ہے میں تنگ آ گیا ہوں ، راہ گزر اسے برا بھلا کہتا ، کوئی کہتا رب کی مار اس پڑوسی پر ۔ کوئی کہتا اللہ غارت کرے اس پڑوسی کو ، جب پڑوسی کو اپنی اس طرح کی رسوائی کا حال معلوم ہوا تو اس کے پاس آیا ، منتیں کر کے کہا اپنے گھر چلو اللہ کی قسم اب مرتے دم تک تم کو کسی طرح نہ ستاؤں گا ۔ پھر ارشاد ہے کہ اے لوگو تم کسی نیکی کو ظاہر کرو یا پوشیدہ رکھو تم پر کسی نے ظلم کیا ہو اور تم اس سے درگزر کرو تو اللہ کے پاس تمہارے لئے بڑا ثواب ، پورا اجر اور اعلیٰ درجے ہیں ۔ خود وہ بھی معاف کرنے والا ہے اور بندوں کی بھی یہ عادت اسے پسند ہے ، وہ انتقام کی قدرت کے باوجود معاف فرماتا رہتا ہے ۔ ایک روایت میں ہے کہ عرش کو اٹھانے والے فرشتے اللہ کی تسبیح کرتے رہتے ہیں ۔ بعض تو کہتے ہیں دعا ( سبحانک علی حلمک بعد علمک ) یا اللہ تیری ذات پاک ہے کہ تو باوجود جاننے کے پھر بھی برد باری اور چشم پوشی کرتا ہے ۔ بعض کہتے ہیں دعا ( سبحانک علی عفوک بعد قدرتک اے قدرت کے باوجود درگذر کرنے والے اللہ تمام پاکیاں تیری ذات کے لئے مختص ہیں ۔ صحیح حدیث شریف میں ہے صدقے اور خیرات سے کسی کا مال گھٹتا نہیں ، عفو و درگذر کرنے اور معاف کر دینے سے اللہ تعالیٰ اور عزت بڑھاتا ہے اور جو شخص اللہ کے حکم سے تواضع ، فروتنی اور عاجزی اختیار کرے اللہ اس کا مرتبہ اور توقیر مزید بڑھا دیتا ہے ۔
148۔ 1 شریعت نے تاکید کی ہے کہ کسی کے اندر برائی دیکھو تو اس کا چرچا نہ کرو بلکہ تنہائی میں اس کو سمجھاؤ۔ اسی طرح کھلے عام اور علی الاعلان برائی کرنا بھی سخت ناپسندیدہ ہے۔ ایک تو برائی کا ارتکاب ویسے ہی ممنوع ہے، چاہے پردے کے اندر ہی کیوں نہ ہو۔ دوسرا اسے سرعام کیا جائے یہ مزید ایک جرم ہے البتہ اس سے الگ ہے کہ ظالم کے ظلم کو تم لوگوں کے سامنے بیان کرسکتے ہو۔ جس سے ایک فائدہ یہ متوقع ہے کہ شائد وہ ظلم سے باز آجائے اور اس کی تلافی کی سعی کرے۔ دوسرا فائدہ یہ ہے لوگ اس سے بچ کر رہیں۔ حدیث میں آتا ہے کہ ایک شخص نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور کہا کہ مجھے میرا پڑوسی ایذا دیتا ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے فرمایا تم اپنا سامان نکال کر باہر راستے میں رکھ دو ، اس نے ایسا ہی کیا۔ چناچہ جو بھی گزرتا اس سے پوچھتا، وہ پڑوسی کے ظالمانہ رویے کی وضاحت کرتا تو سن کر ہر راہ گیر اس پر لعنت ملامت کرتا۔ پڑوسی نے یہ صورتحال دیکھ کر معذرت کرلی اور آئندہ کے لیے ایذاء نہ پہنچانے کا فیصلہ کرلیا اور اس سے اپنا سامان اندر رکھنے کی التجا کی۔ (سنن ابی داؤد کتاب الادب)
[١٩٧] مظلوم کس کس سے شکوہ کرسکتا ہے ؟ یعنی مظلوم کو یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ اللہ کے حضور ظالم کے لیے بددعا کرے یا حاکم کے سامنے ظالم کا ظلم بیان کر کے اس سے استغاثہ چاہے یا دوسرے لوگوں سے بیان کرے تاکہ وہ اس ظالم کا ہاتھ روکیں، یا کم از کم خود ظالم کے اس قسم کے ظلم سے بچ جائیں۔ یا مثلاً اگر کسی نے اسے گالی دی ہے تو وہ بھی ویسی ہی گالی دے دے۔ مگر زیادتی نہ کرے۔ اور ظالم کوئی بھی ہوسکتا ہے خواہ وہ مسلم ہو یا منافق، یہودی ہو یا کافر ہو۔ مظلوم کے علاوہ کسی کو یہ حق نہیں کہ کسی دوسرے کی بری بات لوگوں سے بیان کرتا پھرے اور اسی کا نام غیبت یا گلہ ہے جو گناہ کبیرہ ہے۔ جس کا مقصد محض کسی شخص کو دوسروں کی نظروں میں ذلیل بنانا ہوتا ہے اور جس شخص کی غیبت کی جائے اس کو جب معلوم ہو تو اس کے جذبات کا بھڑک اٹھنا ایک فطری بات ہے۔- مکہ میں مسلمانوں پر مظالم کی نوعیت اور تھی اور مدینہ میں اور تھی۔ مدینہ میں یہود اور منافقین مسلسل مسلمانوں کو دکھ پہنچاتے رہتے تھے، کبھی استہزاء سے، کبھی سازشوں اور مکر و فریب کی چالوں سے کبھی کج بحثیوں اور بیجا قسم کے اعتراضات اور بیہودہ قسم کی گفتگو سے۔ اور ایسے حالات میں مسلمانوں کے جذبات کا بھڑک اٹھنا معمولی بات تھی۔ ایسے ہی حالات میں مسلمانوں کو یہ ہدایت دی جا رہی ہے تاکہ کوئی بھی بات بتنگڑ بن کر کسی بڑے فتنہ کا باعث نہ بن جائے لہذا وہ اپنے جذبات کو کنٹرول میں رکھیں۔
لَا يُحِبُّ اللّٰهُ الْجَــهْرَ بالسُّوْۗءِ ۔۔ : یعنی اگر کسی شخص میں کوئی دینی یا دنیوی عیب پایا جاتا ہے تو اسے سرعام ذلیل کرنا جائز نہیں اور نہ ہر شخص کو بتانا جائز ہے، کیونکہ یہ غیبت ہے اور غیبت قطعی حرام ہے، البتہ جب کوئی شخص ظلم پر اتر آئے تو مظلوم کو حق حاصل ہے کہ وہ اس کی زیادتی کے خلاف آواز بلند کرے، خصوصاً جہاں آواز بلند کرنے سے اس پر ظلم رک سکتا ہو، یا اس کا مداوا ہوسکتا ہو۔ اسی طرح لوگوں کو اس کے ظلم سے بچانے کے لیے اس کا عیب بیان کرنا بھی جائز ہے۔ حدیث کے راویوں پر جرح بھی اسی ضمن میں آتی ہے، کیونکہ ضعیف روایت بیان کرنا امت پر ظلم ہے۔ کوئی شخص باوجود وسعت کے دوسرے کا حق نہ دیتا ہو تو اس کو طعن و ملامت کرنا بھی جائز ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” غنی آدمی کا حق ادا کرنے میں دیر کرنا، یا ٹال مٹول کرنا اس کی سزا اور اس کی عزت کو حلال کردیتا ہے۔ “ [ بخاری، الاستقراض، باب لصاحب الحق مقال، قبل ح : ٢٤٠١ ] اسی طرح جو زیادتی میں پہل کرے اسے جواب دینا جائز ہے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” آپس میں گالی گلوچ کرنے والے، وہ دونوں جو کچھ بھی کہیں، سب گناہ پہل کرنے والے پر ہے، جب تک مظلوم زیادتی نہ کرے۔ “ [ مسلم، البر والصلۃ، باب النھی عن السباب : ٢٥٨٧ ] اس آیت کے تحت مفسرین نے لکھا ہے کہ ظالم کے حق میں بددعا کرنا جائز ہے۔ مزید دیکھیے سورة شوریٰ (٤١) کوئی شخص زبردستی اس کے منہ سے برا کلمہ نکلوائے تو وہ بھی اس کے تحت جائز ہے۔ (ابن کثیر، شوکانی) ایک شخص نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ہمسائے کی زیادتیوں کی شکایت کی، آپ نے اسے اپنا سامان گھر کے باہر راستے میں نکال کر رکھ دینے کا مشورہ دیا، اب جو گزرتا پوچھتا تو وہ ہمسائے کا ظلم بتاتا۔ ہمسائے نے یہ دیکھ کر معذرت کرلی اور آئندہ ایذا نہ پہنچانے کا وعدہ کیا اور سامان اندر رکھنے کی درخواست کی۔ [ أبو داوٗد، الأدب، باب فی حق الجوار : ٥١٥٣ ]- 3 گزشتہ آیات میں منافقین کے عیوب کا بیان تھا، یہاں بات مکمل کرنے کے لیے فرمایا کہ یہ چونکہ ظالم ہیں، اس لیے ان کے عیب ظاہر کرنا جائز ہے۔ (کبیر) تاہم حتی الوسع نام لے کر بیان نہ کرے۔ (موضح) (وَكَان اللّٰهُ سَمِيْعًا عَلِـــيْمًا) یعنی اگر مظلوم زیادتی کرے گا تو اللہ تعالیٰ کو وہ بھی معلوم ہے۔
خلاصہ تفسیر - اللہ تعالیٰ بری بات زبان پر لانے کو (کسی کے لئے) پسند نہیں کرتے بجز مظلوم کے (کہ اپنے مظالم کی نسبت کچھ حکایت شکایت کرنے لگے تو وہ گناہ نہیں) اور اللہ تعالیٰ (مظلوم کی بات) خوب سنتے ہیں (اور ظالم کے ظلم کی حالت) خوب جانتے ہیں (اس میں اشارہ ہے کہ مظلوم کو بھی خلاف واقعہ کہنے کی اجازت نہیں اور ہرچند کہ ایسی شکایت جائز تو ہے لیکن) اگر نیک کام علانیہ کردیا اس کو خفیہ کرو (جس میں معاف کرنا بھی آ گیا) یا (بالخصوص) کسی (کی) برائی کو معاف کردو تو (زیادہ افضل ہے کیونکہ) اللہ تعالیٰ (بھی) بڑے معاف کرنے والے ہیں، (باوجودیکہ) پوری قدرت والے ہیں کہ (اپنے مجرموں سے ہر طرح انتقام لے سکتے ہیں، مگر پھر بھی اکثر معاف ہی کردیتے ہیں، پس اگر تم ایسا کرو تو اول تو تخلق باخلاق الٓہیہ یعنی اللہ تعالیٰ کے اخلاق کا اتباع ہے، پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہارے ساتھ بھی ایسا ہی معاملہ کرنے کی امید ہوگی) جو لوگ کفر کرتے ہیں اللہ تعالیٰ کے ساتھ (جیسا ان کے عقیدہ اور قول سے جو آگے آتا ہے صاف طور پر لازم آتا ہے) اور (کفر کرتے ہیں) اس کے رسولوں کے ساتھ (یعنی بعض کے ساتھ تو صراحتاً کیونکہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کے منکر تھے اور کل کے ساتھ لزوماً جیسا آگے آتا ہے) اور یوں چاہتے ہیں کہ اللہ کے اور اس کے رسولوں کے درمیان میں (باعتبار ایمان لانے کے) فرق رکھیں اور (اپنے اس عقیدہ کو زبان سے بھی) کہتے ہیں کہ ہم (پیغمبروں میں سے) بعضوں پر تو ایمان لاتے ہیں اور بعضوں کے منکر ہیں (اس قول اور اس عقیدہ سے اللہ تعالیٰ کے ساتھ بھی، کفر لازم آ گیا اور سب رسولوں کے ساتھ بھی، کیونکہ اللہ تعالیٰ اور ہر رسول نے سب رسولوں کو رسول کہا ہے، جب بعض کا انکار ہوا تو اللہ تعالیٰ کی اور بقیہ رسولوں کی تکذیب ہوگئی، جو کہ ضد ہے تصدیق اور ایمان کی) اور یوں چاہتے ہیں کہ بین بین ایک راہ تجویز کریں (کہ نہ سب پر ایمان رہے جیسے مسلمان سب پر ایمان رکھتے ہیں اور نہ سب کا انکار ہے جیسا کہ مشرکین کرتے تھے سو) ایسے لوگ یقیناً کافر ہیں (کیونکہ کفر بالبعض بھی کفر ہے اور ایمان اور کفر کے درمیان کوئی واسطہ نہیں، جب ایمان بالجمیع نہ ہوا تو کفر ہی ہوا) اور کافروں کے لئے ہم نے اہانت آمیز سزا تیار کر رکھی ہے، (وہی ان کے لئے بھی ہوگی) اور جو لوگ اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہیں اور اس کے سبب رسولوں پر بھی اور ان میں سے کسی میں (ایمان لانے کے اعتبار سے) فرق نہیں کرتے، ان لوگوں کو اللہ تعالیٰ ضرور ان کا ثواب دیں گے اور (چونکہ اللہ تعالیٰ بڑے مغفرت والے ہیں (اس لئے ایمان لانے سے پہلے جتنے گناہ ہوچکے ہیں، سب بخش دیں گے اور چونکہ وہ) بڑے رحمت والے ہیں (اس لئے ایمان کی برکت سے ان کے حسنات کو مضاعف کر کے خوب ثواب دیں گے)
لَايُحِبُّ اللہُ الْجَــہْرَ بِالسُّوْۗءِ مِنَ الْقَوْلِ اِلَّا مَنْ ظُلِمَ ٠ۭ وَكَانَ اللہُ سَمِيْعًا عَلِـــيْمًا ١٤٨- حب - والمحبَّة :- إرادة ما تراه أو تظنّه خيرا، وهي علی ثلاثة أوجه :- محبّة للّذة، کمحبّة الرجل المرأة، ومنه :- وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلى حُبِّهِ مِسْكِيناً [ الإنسان 8] .- ومحبّة للنفع، کمحبة شيء ينتفع به، ومنه :- وَأُخْرى تُحِبُّونَها نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف 13] .- ومحبّة للفضل، کمحبّة أهل العلم بعضهم لبعض لأجل العلم .- ( ح ب ب ) الحب والحبۃ - المحبۃ - کے معنی کسی چیز کو اچھا سمجھ کر اس کا ارادہ کرنے اور چاہنے کے ہیں - اور محبت تین قسم پر ہے :- ۔ ( 1) محض لذت اندوزی کے لئے - جیسے مرد کسی عورت سے محبت کرتا ہے ۔ چناچہ آیت : ۔ وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلى حُبِّهِ مِسْكِيناً [ الإنسان 8] میں اسی نوع کی محبت کی طرف اشارہ ہے - ۔ ( 2 ) محبت نفع اندوزی کی خاطر - جیسا کہ انسان کسی نفع بخش اور مفید شے سے محبت کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : وَأُخْرى تُحِبُّونَها نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف 13 اور ایک چیز کو تم بہت چاہتے ہو یعنی تمہیں خدا کی طرف سے مدد نصیب ہوگی اور فتح حاصل ہوگی - ۔ ( 3 ) کبھی یہ محبت یہ محض فضل وشرف کی وجہ سے ہوتی ہے - جیسا کہ اہل علم وفضل آپس میں ایک دوسرے سے محض علم کی خاطر محبت کرتے ہیں ۔ - جهر - جَهْر يقال لظهور الشیء بإفراط حاسة البصر أو حاسة السمع .- أمّا البصر فنحو : رأيته جِهَارا، قال اللہ تعالی: لَنْ نُؤْمِنَ لَكَ حَتَّى نَرَى اللَّهَ جَهْرَةً [ البقرة 55] ، أَرِنَا اللَّهَ جَهْرَةً [ النساء 153] - ( ج ھ ر ) الجھر - ( ف) اس کے اصل معنی کسی چیز کا حاسہ سمع یا بصر میں افراط کے سبب پوری طرح ظاہر اور نمایاں ہونے کے ہیں چناچہ حاسہ بصر یعنی نظروں کے سامنے کسی چیز کے ظاہر ہونے کے متعلق کہا جاتا ہے رایتہ جھرا کہ میں نے اسے کھلم کھلا دیکھا قرآن میں ہے :۔ لَنْ نُؤْمِنَ لَكَ حَتَّى نَرَى اللَّهَ جَهْرَةً [ البقرة 55] کہ جب تک ہم خدا کو سامنے نمایاں طور پر نہ دیکھ لیں تم پر ایمان نہیں لائیں گے ۔ - أَرِنَا اللَّهَ جَهْرَةً [ النساء 153] ہمیں نمایاں اور ظاہر طور پر خدا دکھا دو ۔- ويقال : سَاءَنِي كذا، وسُؤْتَنِي، وأَسَأْتَ إلى فلان، قال : سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک 27] ، وقال : لِيَسُوؤُا وُجُوهَكُمْ [ الإسراء 7] - ساء - اور ساءنی کذا وسؤتنی کہاجاتا ہے ۔ اور اسات الی ٰ فلان ( بصلہ الی ٰ ) بولتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک 27] تو کافروں کے منہ برے ہوجائیں گے ۔ لِيَسُوؤُا وُجُوهَكُمْ [ الإسراء 7] تاکہ تمہارے چہروں کو بگاڑیں ۔ - قول - القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] - والقَوْلُ يستعمل علی أوجه :- أظهرها أن يكون للمرکّب من الحروف المبرز بالنّطق، مفردا کان أو جملة، فالمفرد کقولک : زيد، وخرج . والمرکّب، زيد منطلق، وهل خرج عمرو، ونحو ذلك، وقد يستعمل الجزء الواحد من الأنواع الثلاثة أعني : الاسم والفعل والأداة قَوْلًا، كما قد تسمّى القصیدة والخطبة ونحوهما قَوْلًا .- الثاني :- يقال للمتصوّر في النّفس قبل الإبراز باللفظ : قَوْلٌ ، فيقال : في نفسي قول لم أظهره . قال تعالی: وَيَقُولُونَ فِي أَنْفُسِهِمْ لَوْلا يُعَذِّبُنَا اللَّهُ [ المجادلة 8] . فجعل ما في اعتقادهم قولا .- الثالث :- للاعتقاد نحو فلان يقول بقول أبي حنیفة .- الرابع :- في الإلهام نحو : قُلْنا يا ذَا الْقَرْنَيْنِ إِمَّا أَنْ تُعَذِّبَ [ الكهف 86] فإنّ ذلک لم يكن بخطاب ورد عليه فيما روي وذكر، بل کان ذلک إلهاما فسماه قولا . - ( ق و ل ) القول - اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ - قول کا لفظ کئی معنوں میں استعمال ہوتا ہے - ۔ ( 1) عام طور پر حروف کے اس مجموعہ پر قول کا لفظ بولاجاتا ہے - جو بذریعہ نطق کت زبان سے ظاہر ہوتے ہیں خواہ وہ الفاظ مفرد ہوں جملہ کی صورت میں منفرد جیسے زید خرج اور مرکب جیسے زید منطق وھل خرج عمر و نحو ذالک کبھی انواع ثلاثہ یعنی اسم فعل اور حرف میں ہر ایک کو قول کہا جاتا ہے جس طرح کہ تصیدہ اور خطبہ وغیرہ ہما کو قول کہہ دیتے ہیں ۔- ( 2 ) جو بات ابھی ذہن میں ہو اور زبان تک نہ لائی گئی ہو - اسے بھی قول کہتے ہیں اس بناء پر قرآن میں آیت کریمہ : ۔ وَيَقُولُونَ فِي أَنْفُسِهِمْ لَوْلا يُعَذِّبُنَا اللَّهُ [ المجادلة 8] اور اپنے دل میں اگتے ہیں ( اگر یہ واقعی پیغمبر ہیں تو ) جو کچھ ہم کہتے ہیں خدا ہمیں اس کی سزا کیوں نہیں دیتا ۔ یعنی دل میں خیال کرنے کو قول سے تعبیر کیا ہے - ۔ ( 3 ) رائے خیال اور عقیدہ پر بھی قول کا لفظ بولاجاتا ہے - ۔ جیسے فلان یقول بقول ابی حنیفه ( فلان ابوحنیفہ کی رائے کا قائل ہے ) - ( 4 ) الہام کرنا یعنی کسی کے دل میں کوئی بات ڈال دینا - جیسے فرمایا ؛ قُلْنا يا ذَا الْقَرْنَيْنِ إِمَّا أَنْ تُعَذِّبَ [ الكهف 86] ہم نے کہا ذولقرنین تم ان کو تکلیف دو ۔ یہاں قول بمعنی الہام اور القا کے ہے ۔- ظلم - وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه،- قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ:- الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی،- وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] - والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس،- وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری 42] - والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه،- وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] ،- ( ظ ل م ) ۔- الظلم - اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر - بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے - (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی سب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا - :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ - (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے - ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔- ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے - ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں - علم - العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته، وذلک ضربان :- أحدهما : إدراک ذات الشیء .- والثاني : الحکم علی الشیء بوجود شيء هو موجود له،- أو نفي شيء هو منفيّ عنه .- فالأوّل : هو المتعدّي إلى مفعول واحد نحو :- لا تَعْلَمُونَهُمُ اللَّهُ يَعْلَمُهُمْ [ الأنفال 60] .- والثاني : المتعدّي إلى مفعولین، نحو قوله :- فَإِنْ عَلِمْتُمُوهُنَّ مُؤْمِناتٍ [ الممتحنة 10] ، وقوله : يَوْمَ يَجْمَعُ اللَّهُ الرُّسُلَ إلى قوله :- لا عِلْمَ لَنا «3» فإشارة إلى أنّ عقولهم طاشت .- والعِلْمُ من وجه ضربان : نظريّ وعمليّ.- فالنّظريّ : ما إذا علم فقد کمل، نحو : العلم بموجودات العالَم .- والعمليّ : ما لا يتمّ إلا بأن يعمل کالعلم بالعبادات .- ومن وجه آخر ضربان : عقليّ وسمعيّ ،- وأَعْلَمْتُهُ وعَلَّمْتُهُ في الأصل واحد، إلّا أنّ الإعلام اختصّ بما کان بإخبار سریع، والتَّعْلِيمُ اختصّ بما يكون بتکرير وتكثير حتی يحصل منه أثر في نفس المُتَعَلِّمِ. قال بعضهم : التَّعْلِيمُ : تنبيه النّفس لتصوّر المعاني، والتَّعَلُّمُ : تنبّه النّفس لتصوّر ذلك، وربّما استعمل في معنی الإِعْلَامِ إذا کان فيه تكرير، نحو : أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ [ الحجرات 16] ،- ( ع ل م ) العلم - کسی چیش کی حقیقت کا اور راک کرنا اور یہ قسم پر ہے اول یہ کہ کسی چیز کی ذات کا ادراک کرلینا دوم ایک چیز پر کسی صفت کے ساتھ حکم لگانا جو ( فی الواقع ) اس کے لئے ثابت ہو یا ایک چیز کی دوسری چیز سے نفی کرنا جو ( فی الواقع ) اس سے منفی ہو ۔ پہلی صورت میں یہ لفظ متعدی بیک مفعول ہوتا ہے جیسا کہ قرآن میں ہے : ۔ لا تَعْلَمُونَهُمُ اللَّهُ يَعْلَمُهُمْ [ الأنفال 60] جن کو تم نہیں جانتے اور خدا جانتا ہے ۔ اور دوسری صورت میں دو مفعول کی طرف متعدی ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ فَإِنْ عَلِمْتُمُوهُنَّ مُؤْمِناتٍ [ الممتحنة 10] اگر تم کا معلوم ہو کہ مومن ہیں ۔ اور آیت يَوْمَ يَجْمَعُ اللَّهُ الرُّسُلَاسے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ان کے ہوش و حواس قائم نہیں رہیں گے ۔- ایک دوسری حیثیت سے علم کی دوقسمیں ہیں - ( 1) نظری اور ( 2 ) عملی ۔ نظری وہ ہے جو حاصل ہونے کے ساتھ ہی مکمل ہوجائے جیسے وہ عالم جس کا تعلق موجودات عالم سے ہے اور علم عمل وہ ہے جو عمل کے بغیر تکمیل نہ پائے جسیے عبادات کا علم ایک اور حیثیت سے بھی علم کی دو قسمیں ہیں ۔ ( 1) عقلی یعنی وہ علم جو صرف عقل سے حاصل ہو سکے ( 2 ) سمعی یعنی وہ علم جو محض عقل سے حاصل نہ ہو بلکہ بذریعہ نقل وسماعت کے حاصل کیا جائے دراصل اعلمتہ وعلمتہ کے ایک معنی ہیں مگر اعلام جلدی سے بتادینے کے ساتھ مختص ہے اور تعلیم کے معنی با ر بار کثرت کے ساتھ خبر دینے کے ہیں ۔ حتٰی کہ متعلم کے ذہن میں اس کا اثر پیدا ہوجائے ۔ بعض نے کہا ہے کہ تعلیم کے معنی تصور کیلئے نفس کو متوجہ کرنا کے ہیں اور تعلم کے معنی ایسے تصور کی طرف متوجہ ہونا کے اور کبھی تعلیم کا لفظ اعلام کی جگہ آتا ہے جب کہ اس میں تاکید کے معنی مقصود ہوں جیسے فرمایا ۔ أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ [ الحجرات 16] کیا تم خدا کو اپنی دینداری جتلاتے ہو ۔ اور حسب ذیل آیات میں تعلیم کا لفظ استعمال ہوا ہے جیسے فرمایا ۔ الرَّحْمنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ [ الرحمن 1- 2] خدا جو نہایت مہربان اس نے قرآن کی تعلیم فرمائی ۔ قلم کے ذریعہ ( لکھنا ) سکھایا ؛
مظلوم کی آہ سے بچو - قول باری ہے لایحب اللہ الجھربالتوء من القول الامن ظلم، اللہ اس کو پسند نہیں کرتا کہ آدمی بدگوئی پر زبان کھولے، الا یہ کہ کسی پر ظلم کیا گیا ہو۔ حضرت ابن عباس (رض) اور قتادہ کا قول ہے ” الایہ کہ مظلوم اپنے ظالم کے لئے بددعا کرے “۔ مجاہد سے ایک روایت ہے ” الایہ کہ مظلوم ظالم کی طرف سے ڈھائے جانے والے ظلم کی لوگوں کو اطلاع دے “۔ حسن اور سدی کا قول ہے ” الایہ کہ مظلوم ظالم سے اپنا بدلہ لے لے “۔ فرات بن سلیمان نے ذکر کیا ہے کہ عبدالکریم سے اس قول باری کے معنی پوچھے گئے تو انہوں نے کہا ” یہ وہ شخص ہے جو تمہیں برا بھلا کہتا ہے اور جواب میں تم بھی اسے برا بھلا کہہ دیتے ہو لیکن اگر وہ تمہارے خلاف افتراپردازی کرے تو تم اس کے خلاف افترا پردازی نہ کرو۔ یہ آیت اس قول باری کی طرح ہے ولمن انتصوبعدظلمہ۔ اور وہ شخص جس پر ظلم ہوا ہو اور وہ اپنا بدلہ لے لے) ابن عیینہ نے ابن ابی نجیع سے انہوں نے ابراہیم بن ابی بکر سے اور انہوں نے مجاہد سے اس قول باری کی تفسیر میں روایت کی ہے کہ اس کا تعلق مہمانداری سے ہے۔ تم ایک شخص کے پاس جائو اور وہ تمہاری مہمانداری نہ کرے تو تمہیں اس کے متعلق اپنی زبان کھولنے کی رخصت ہے۔ مجاہد کے اس قول پر ابوبکر حبصاص تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر آیت کی یہ تاویل ہے جس کا مجاہد نے ذکر کیا ہے تو ممکن ہے کہ اس کا تعلق اس زمانے سے ہو جب مہمانداری واجب ہوتی تھی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ مروی ہے کہ الضیافۃ ثلاثہ ایام نماز ادفھوصدقۃ مہمانداری تین دنوں تک ہوتی ہے اس سے جو زائد ہو وہ صدقہ ہے) یہ بھی ممکن ہے کہ اس کا تعلق اس شخص سے ہو جس کے پاس کھانے کے لئے کچھ بھی نہ ہو اور کسی اور سے اسے مہمان بنا لینے کی درخواست کرے لیکن وہ اس کی درخواست قبول نہ کرے اور اسے اپنا مہمان نہ بنائے اس شخص کا یہ رویہ قابل مذمت ہے اور اس میں اس کے خلاف شکوہ کرنے کی اجازت ہے۔ آیت میں اس پر بھی دلالت موجود ہے کہ جو شخص کسی ایسے شخص کے متعلق برے کلمات کہے جس کی ظاہری حالت میں بھلائی اور پردہ پوشی موجود ہو۔- اسے اس طرز عمل سے روکنا اور اس پر ناپسندیدگی کا اظہار کرنا واجب ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آیت کے ذریعے یہ خبردی ہے کہ اسے یہ بات ناپسند ہے اور جو بات اللہ کو ناپسند ہوتی ہے اللہ اس کا ارادہ نہیں کرتا۔ اس لئے ہم پر بھی واجب ہے کہ ہم اس بات کو ناپسند کریں اور اس سے روکیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے الامن ظلم۔ اس لئے جب تک کسی کا ظلم ہمارے سامنے ظاہر نہ ہوجائے اس وقت تک ہم پر یہ فرض ہے کہ اس کے متعلق برے کلمات کو ناپسند کریں اور اس سے روکیں۔ قول باری ہے فبظلم من الذین ھادواحرمنا علیھم طیبات احلت لھم۔ غرض ان یہودی بن جانے والوں کے اسی ظالمانہ رویہ کی بنا پر ہم نے بہت سی وہ پاک چیزیں ان پر حرام کردیں جو پہلے ان کے لئے حلال تھیں) ۔ قتادہ کا قول ہے کہ ان کے ظلم اور بغاوت کی انہیں یہ سزا دی گئی ہے کہ ان پر بہت سی چیزیں حرام کردی گئی ہیں اس میں یہ دلیل موجود ہے کہ شرعی تحریم کے ذریعے ان کی ابتلاء اور آزمائش میں اور زیادہ سختی اور شدت پید ا کردی گئی تھی یہ سب کچھ ان کے ظلم کی سزا کے طور پر تھی اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں یہ خبر دی کہ اس نے ان کے ظلم نیز اللہ کے راستے سے لوگوں کو روکنے کی سزا کے طور پر ان پر بہت سی پاک چیزیں حرام کردیں۔ اس کی تفصیل اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں بیان کی ہے کہ (وعلی الذین ھادوا حرمنا علیھم کل ذی ظفر ومن البقروالغنم حرمنا علیھم شحومھما الا ماحملت ظھورھما اوالحوایا اوما ختلط بعضم ذلک جزیناھم ببعیھم۔ )- جن لوگوں نے یہودیت اختیار کی ان پر ہم نے سب ناخن والے جانور حرام کردیئے تھے اور گائے اور بکری کی چربی بھی بجز اس کے جو ان کی پیٹھ یا ان کی آنتوں سے لگی ہو یا ہڈی سے لگی رہ جائے۔ یہ ہم نے ان کی سرکشی کی سزا انہیں دی تھی۔
(١٤٨) البتہ جس کو اس کی اجازت دی گئی جو مظلوم ہو، وہ مظلوم کی پکار کو سننے والا اور ظالم کی سزا کا جاننے والا ہے، یہ آیت حضرت ابوبکر صدیق (رض) کے بارے میں نازل ہوئی ہے، انہوں نے ایک شخص کی زبان درازی پر اسے برا کہا تھا۔- شان نزول : (آیت) ” لا یحب اللہ الجہر “۔ (الخ)- ہناد بن سری نے کتاب الزہد میں مجاہد سے روایت کیا ہے کہ یہ آیت یعنی اللہ تعالیٰ بری بات زبان پر لانے کو پسند نہیں کرتے، ماسوائے مظلوم کے، ایک شخص نے دوسرے شخص کو اپنے ہاں مہمان رکھا لیکن صحیح طور پر اس کی مہمان نوازی کا حق ادا نہ کیا، اس نے وہاں سے آنے کے بعد لوگوں سے کہنا شروع کیا کہ میں فلاں صاحب کا مہمان ہوا لیکن اس نے مہمان داری کا حق ادا نہیں کیا اس طرح اس شخص نے برائی کا اظہار کیا لیکن یہ شخص مظلوم تھا اس لیے (آیت) ” الا من ظلم “۔ سے اس کے اظہار کی اجازت دی گئی۔
آیت ١٤٨ (لاَ یُحِبُّ اللّٰہُ الْجَہْرَ بالسُّوْٓءِ مِنَ الْقَوْلِ الاَّ مَنْ ظُلِمَ ط) - جس کا دل دکھا ہے ‘ جس کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے ‘ نہ صرف یہ کہ اس کے جواب میں اس کی زبان سے نکلنے والے کلمات پر گرفت نہیں ‘ بلکہ مظلوم کی دعا کو بھی قبولیت کی سند عطا ہوتی ہے۔ کسی فارسی شاعر نے اس مضمون کو اس طرح ادا کیا ہے : - بترس از آہ مظلوماں کہ ہنگام دعا کر دن - اِجابت از درِ حق بہر استقبال می آید - کہ مظلوم کی آہوں سے ڈرو کہ اس کی زبان سے نکلنے والی فریاد ایسی دعا بن جاتی ہے جس کی قبولیت خود اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کا استقبال کرنے کے لیے عرش سے آتی ہے۔ - (وَکَان اللّٰہُ سَمِیْعًا عَلِیْمًا ) - اسے سب معلوم ہے کہ جس کے دل سے یہ آواز نکلی ہے وہ کتنا دکھی ہے۔ اس کے احساسات کتنے مجروح ہوئے ہیں۔
75: یعنی کسی کی برائی بیان کرنا عام حالات میں جائز نہیں، البتہ اگر کسی پر ظلم ہوا ہو تو وہ اس ظلم کا تذکرہ لوگوں سے کرسکتا ہے، اس تذکرے میں ظالم کی جو برائی ہوگی معاف ہے۔