Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

149۔ 1 کوئی شخص کسی کے ساتھ ظلم یا برائی کا ارتکاب کرے تو شریعت نے اس حد تک بدلہ لینے کی اجازت دی ہے۔ جس حد تک اس پر ظلم ہوا ہے۔ آپس میں گالی گلوچ کرنے والے دو شخص جو کچھ کہیں اس کا گناہ پہل کرنے والے پر ہے (بشرطیکہ) مظلوم (جسے گالی دی گئی اس نے جواب میں گالی دی) زیادتی نہ کرے بدلہ لینے کے ساتھ ساتھ معافی اور درگزر کو زیادہ پسند فرمایا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ خود باوجود قدرت کاملہ کے عفو درگزر سے کام لینے والا ہے۔ اس لیے فرمایا " جَزَاۗءُ سَـيِّئَةٍۢ بِمِثْلِهَا " 010:027 (برائی کا بدلہ اسی کی مثل برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور اصلاح کرلے تو اس کا اجر اللہ کے ذمے ہے) اور حدیث میں بھی ہے کہ معاف کردینے سے اللہ تعالی عزت میں اضافہ فرماتا ہے۔ صحیح مسلم کتاب البر والصلۃ باب استحباب العفو والتواضع۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٩٨] عفو و درگزر :۔ اس کے برعکس اے مسلمانو اگر تم کسی زیادتی کا جواب بھلائی سے دو یا ظالم کو بددعا کی بجائے دعا دو یا علانیہ یا خفیہ اس کی بھلائی کی کوئی تدبیر سوچو یا اس کا قصور معاف بھی کردو تو یہ تمہارے حق میں بہت بہتر ہے۔ کیونکہ تمہارا پروردگار ہر طرح کی قدرت رکھنے کے باوجود ظالموں حتیٰ کہ مشرکوں اور کافروں کو رزق بھی دیئے جاتا ہے اور انہیں مہلت بھی دیئے جاتا ہے اور ضمناً ان آیات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح کسی کی برائی بیان کرنا یعنی غیبت گناہ کبیرہ ہے اسی طرح کسی کے عیب پر پردہ ڈالنا یا پردہ پوشی بہت بڑی نیکی ہے اب معافی اور پردہ پوشی کے متعلق چند احادیث ملاحظہ فرمائیے :- ١۔ آپ نے فرمایا معاف کردینے سے اللہ تعالیٰ بندے کی عزت ہی بڑھاتا ہے۔ (مسلم، کتاب البر والصلۃ باب استحباب العفو والتواضع)- ٢۔ پردہ پوشی بہت بڑی نیکی ہے :۔ آپ نے فرمایا میری تمام امت کو معاف کردیا جائے گا بجز (گناہ) ظاہر کرنے والوں کے، اور وہ گناہ یہ ہے کہ آدمی رات کو کوئی (برا) کام کرے۔ پھر جب صبح ہو تو اگرچہ اللہ نے اس عمل پر پردہ ڈال دیا تھا، وہ کہے اے فلاں میں نے آج رات یہ اور یہ کام کیا تھا۔ اللہ نے تو اس کے عیب پر پردہ ڈالا تھا مگر اس نے اپنے عیب سے اللہ کے پردہ کو کھول دیا۔ (مسلم، کتاب الزہد، باب النھی عن ہتک الانسان ستر نفسہ۔۔ بخاری کتاب الادب، باب ستر المومن علی نفسہ)- ٣۔ ابن عمر (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا جس نے کسی مسلمان کی پردہ پوشی کی قیامت کے دن اللہ اس کی پردہ پوشی کرے گا۔ (بخاری، کتاب المظالم، باب لایظلم المسلم المسلم)- ٤۔ آپ نے فرمایا ( قیامت کے دن) تم میں سے کوئی شخص اپنے پروردگار سے اتنا قریب ہوجائے گا کہ اللہ تعالیٰ اس پر اپنا بازو رکھ دے گا۔ پھر فرمائے گا، تم نے فلاں فلاں کام کیے تھے وہ کہے گا ہاں۔ پھر اللہ تعالیٰ پوچھیں گے تم نے فلاں اور فلاں کام بھی کیا تھا ؟ وہ کہے گا ہاں گویا وہ ہر جرم کا اقرار کرے گا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا میں نے دنیا میں ان پر پردہ ڈال دیا تھا اور آج تجھے معاف کرتا ہوں۔ (بخاری، کتاب الادب باب ستر المومن علی نفسہ نیز کتاب المظالم، باب قول اللہ تعالیٰ الالعنۃ اللہ علی الظالمین)- ٥ سب سے آخر میں جنت میں داخل ہونے والا شخص اور اللہ تعالیٰ کی پردہ پوشی :۔ سیدنا ابوذر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میں اس شخص کو جانتا ہوں جو سب سے آخر جنت میں داخل ہوگا اور سب سے بعد دوزخ سے نکلے گا۔ وہ شخص قیامت کے دن حاضر کیا جائے گا اور حکم ہوگا کہ اس کے ہلکے گناہ پیش کرو، بھاری نہ کرو۔ چناچہ اس کے ہلکے گناہ پیش کر کے اسے کہاں جائے گا۔ کہ تو نے فلاں فلاں دن فلاں فلاں کام کیے تھے۔ وہ کہے گا ہاں اور انکار نہ کرسکے گا اور اپنے بڑے گناہوں سے ڈر رہا ہوگا کہ کہیں وہ پیش نہ کردیئے جائیں۔ اس کے لیے حکم ہوگا کہ تیری ہر برائی کے عوض تجھے ایک نیکی دی جاتی ہے۔ یہ سن کر وہ کہے گا اے میرے پروردگار میں نے تو کچھ اور بھی کام کیے تھے جنہیں میں یہاں نہیں دیکھ رہا۔ راوی کہتا ہے کہ میں نے دیکھا کہ اس بات پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اتنا ہنسے کہ آپ کی داڑھیں نظر آنے لگیں۔ (مسلم کتاب الایمان۔ باب اثبات الشفاعۃ و اخراج الموحدین من النار - ان احادیث سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ کسی شخص کو ایسا ہرگز نہ کرنا چاہیے کہ وہ اپنی سابقہ زندگی کے عیوب، جن پر اللہ نے پردہ ڈال رکھا تھا لوگوں کی سامنے ظاہر کرے اور نہ ہی توبہ اس بات کی مقتضی ہے کہ کسی کے سامنے اپنا کچا چٹھہ کھولے۔ جیسا کہ عیسائیوں میں یہ دستور ہے کہ توبہ کے وقت پادری کے سامنے گزشتہ عیوب کا اظہار و اقرار کرایا جاتا ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اِنْ تُبْدُوْا خَيْرًا اَوْ تُخْفُوْهُ اَوْ تَعْفُوْا۔۔ : اس آیت میں معاف کردینے کی ترغیب ہے، یعنی اگرچہ ظالم کا شکوہ یا اس کے حق میں بد دعا جائز ہے، تاہم عفو و درگزر سے کام لینا بہتر ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ خود پوری قدرت رکھنے کے باوجود بہت معاف کرنے والا ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” مال صدقے سے کم نہیں ہوتا اور معاف کردینے سے اللہ تعالیٰ بندے کی عزت میں اضافہ ہی کرتا ہے اور کوئی شخص اللہ کے لیے نیچا نہیں ہوتا مگر اللہ تعالیٰ اسے اونچا کردیتا ہے۔ “ [ مسلم، البر والصلۃ، باب استحباب العفو والتواضع : ٢٥٨٨ ]

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

معارف ومسائل - ان آیات میں سے پہلی آیت اور دوسری آیت دنیا سے ظلم و جور کے مٹانے کا ایک قانون ہے، مگر عام دنیا کے قوانین کی طرح نہیں جس کی حیثیت صرف آمرانہ ہوتی ہے، بلکہ ترغیب و ترہیب کے انداز کا ایک قانون ہے جس میں ایک طرف تو اس کی اجازت دے دیگئی ہے کہ جس شخص پر کوئی ظلم کرے تو مظلوم اس کے ظلم کی شکایت، یا کسی عدالت میں چارہ جوئی کرسکتا ہے، جو عین عدل و انصاف کا تقاضا اور انسداد جرائم کا ایک ذریعہ ہے لیکن اس کے ساتھ ایک قید بھی سورة نحل کی آیت میں مذکور ہے، وان عاقبتم فعاقیوا بمثل ماعوقبتم بہ ولئن صبرتم لھو خیر للصابرین (آیت نمبر ٦٢١) یعنی اگر کوئی شخص تم پر ظلم کرے تو تم بھی اس سے ظلم کا بدلہ لے سکتے ہو، مگر شرط یہ ہے کہ جتنا ظلم وتعدی اس نے کیا ہے بدلہ میں اس سے زیادتی نہ ہونے پائے، ورنہ تم ظالم ہوجاؤ گے، جس کا حاصل یہ ہے کہ ظلم کے جواب میں ظلم کی اجازت نہیں بلکہ ظلم کا بدلہ انصاف سے ہی لیا جاسکتا ہے، اسی کے ساتھ یہ بھی ہدایت ہے کہ بدلہ لینا اگرچہ جائز ہے مگر صبر کرنا اور معاف کردینا بہتر ہے۔- اور آیت مذکورہ سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ جس پر کسی نے ظلم کیا ہو اگر وہ ظلم کی شکایت، حکایت لوگوں سے کرے تو یہ غیبت حرام میں داخل نہیں، کیونکہ اس نے خود اس کو شکایت کرنے کا موقع دیا ہے، غرض قرآن حکیم نے ایک طرف تو مظلوم کو ظلم کا مساوی بدلہ لینے کی اجازت دے دی اور دوسری طرف اعلی اخلاق کی تعلیم، عفو و درگزر اور اس کے بالمقابل آخرت کا عظیم فائدہ پیش نظر کر کے مظلوم کو اس پر آمادہ کیا کہ وہ اپنے اس جائز حق میں ایثار سے کام لے ظلم کا انتقام نہ لے، ارشاد فرمایا :- ان تبدواخیراً اوتخفوہ اوتعفوا عن سوٓء فان اللہ کان عفواً قدیراً ” یعنی اگر تم کوئی نیکی ظاہر کر کے کر دیاخفیہ طور پر کرو، یا کسی کے ظلم اور برائی کو معاف کردو تو یہ بہتر ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ بہت معاف کرنے والے اور بڑی قدرت والے ہیں۔ “- اس آیت میں اصل مقصد تو ظلم کے معاف کرنے سے متعلق ہے، مگر اس کے ساتھ علانیہ اور خفیہ نیکی کا بھی ذکر فرما کر اس طرف اشارہ کردیا کہ یہ عفو و درگزر ایک بڑی نیکی ہے جو اس کو اختیار کرے گا اللہ تعالیٰ کے عفو و رحمت کا مستحق ہوجائے گا۔- آخر آیت میں فان اللہ کان عفواً قدیراً فرما کر یہ بتلا دیا کہ اللہ تعالیٰ جل شانہ، قادر مطلق ہیں جس کو جو چاہیں سزا دے سکتے ہیں، اس کے باوجود بہت معاف کرنے والے ہیں تو انسان جس کو قدرت و اختیار بھی کچھ نہیں وہ اگر انتقام لینا بھی چاہے تو بہت ممکن ہے کہ اس پر قدرت ہی نہ ہو، اس لئے اس کو تو عفو و درگزر اور بھی زیادہ مناسب ہے۔- یہ ہے رفع ظلم اور اصلاح معاشرہ کا قرآنی اصول اور مربیانہ انداز کہ ایک طرف برابر کے انتقام کا حق دے کر عدل و انصاف کا بہترین قانون بنادیا، دوسری طرف مظلوم کو اعلی اخلاق کی تعلیم دے کر عفو و درگزر پر آمادہ کیا، جس کا لازمی نتیجہ وہ ہے جس کو قرآن کریم نے دوسری جگہ ارشاد فرمایا ہے :- فاذا الذین بینک وبینہ عداوة کانہ ولی حمیم (١٤: ٤٣) یعنی جس شخص کے اور تمہارے درمیان دشمنی تھی اس طرز عمل سے وہ تمہارا مخلص دوست بن جائے گا۔ “- عدالتی فیصلہ اور ظلم کا انتقام لے لینے سے ظلم کی روک تھام ضرر ہوجاتی ہے، لیکن فریقین کے دلوں میں وہ ایک دیرپا اثر چھوڑ جاتے ہیں جو آئندہ پھر باہمی جھگڑوں کا ذریعہ بن سکتے ہیں ........ اور یہ اخلاقی درس جو قرآن کریم نے دیا اس کے نتیجہ میں گہرئی اور پرانی عداوتیں دوستیوں میں تبدیلی ہوجاتی ہیں۔- تیسری اور چوتھی اور پانچویں آیات میں قرآن حکیم نے یہ کھلا ہوا فیصلہ دیا ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کو مانے مگر اس کے رسولوں پر ایمان نہ لائے، یا بعض رسولوں کو مانے اور بعض کو نہ مانے وہ اللہ کے نزدیک مومن نہیں، بلکہ کھلا کافر ہے جس کی نجات آخرت کی کوئی راہ نہیں۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اِنْ تُبْدُوْا خَيْرًا اَوْ تُخْفُوْہُ اَوْ تَعْفُوْا عَنْ سُوْۗءٍ فَاِنَّ اللہَ كَانَ عَفُوًّا قَدِيْرًا۝ ١٤٩- بدا - بَدَا الشیء بُدُوّاً وبَدَاءً أي : ظهر ظهورا بيّنا، قال اللہ تعالی: وَبَدا لَهُمْ مِنَ اللَّهِ ما لَمْ يَكُونُوا يَحْتَسِبُونَ [ الزمر 47] - ( ب د و ) بدا - ( ن ) الشئ یدوا وبداء کے معنی نمایاں طور پر ظاہر ہوجانا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ وَبَدا لَهُمْ مِنَ اللَّهِ ما لَمْ يَكُونُوا يَحْتَسِبُونَ [ الزمر 47] اور ان کیطرف سے وہ امر ظاہر ہوجائے گا جس کا ان کو خیال بھی نہ تھا ۔ - خير - الخَيْرُ : ما يرغب فيه الكلّ ، کالعقل مثلا، والعدل، والفضل، والشیء النافع، وضدّه :- الشرّ. قيل : والخیر ضربان : خير مطلق، وهو أن يكون مرغوبا فيه بكلّ حال، وعند کلّ أحد کما وصف عليه السلام به الجنة فقال : «لا خير بخیر بعده النار، ولا شرّ بشرّ بعده الجنة» . وخیر وشرّ مقيّدان، وهو أن يكون خيرا لواحد شرّا لآخر، کالمال الذي ربما يكون خيرا لزید وشرّا لعمرو، ولذلک وصفه اللہ تعالیٰ بالأمرین فقال في موضع : إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة 180] ،- ( خ ی ر ) الخیر - ۔ وہ ہے جو سب کو مرغوب ہو مثلا عقل عدل وفضل اور تمام مفید چیزیں ۔ اشر کی ضد ہے ۔ - اور خیر دو قسم پر ہے - ( 1 ) خیر مطلق جو ہر حال میں اور ہر ایک کے نزدیک پسندیدہ ہو جیسا کہ آنحضرت نے جنت کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ خیر نہیں ہے جس کے بعد آگ ہو اور وہ شر کچھ بھی شر نہیں سے جس کے بعد جنت حاصل ہوجائے ( 2 ) دوسری قسم خیر وشر مقید کی ہے ۔ یعنی وہ چیز جو ایک کے حق میں خیر اور دوسرے کے لئے شر ہو مثلا دولت کہ بسا اوقات یہ زید کے حق میں خیر اور عمر و کے حق میں شربن جاتی ہے ۔ اس بنا پر قرآن نے اسے خیر وشر دونوں سے تعبیر کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة 180] اگر وہ کچھ مال چھوڑ جاتے ۔- خفی - خَفِيَ الشیء خُفْيَةً : استتر، قال تعالی: ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعاً وَخُفْيَةً [ الأعراف 55] ،- ( خ ف ی ) خفی ( س )- خفیتہ ۔ الشیء پوشیدہ ہونا ۔ قرآن میں ہے : ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعاً وَخُفْيَةً [ الأعراف 55] اپنے پروردگار سے عاجزی سے اور چپکے چپکے دعائیں مانگا کرو ۔- عفو - فالعَفْوُ : هو التّجافي عن الذّنب . قال تعالی: فَمَنْ عَفا وَأَصْلَحَ [ الشوری 40] وَأَنْ تَعْفُوا أَقْرَبُ لِلتَّقْوى [ البقرة 237]- ( ع ف و ) عفوت عنہ کے معنی ہیں میں نے اس سے درگزر کرتے ہوئے اس کا گناہ متادینے کا قصد کیا ز لہذا یہاں اصل میں اس کا مفعول ترک کردیا گیا ہے اور عن کا متعلق مخذوف ہی یا قصدت ازالتہ ذنبہ سار فا عنہ پس عفو کے معنی گناہ سے درگزر کرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ فَمَنْ عَفا وَأَصْلَحَ [ الشوری 40] مگر جو درگزر کرے اور معاملہ کو درست کرلے وَأَنْ تَعْفُوا أَقْرَبُ لِلتَّقْوى [ البقرة 237] اور اگر تم ہی اپنا حق چھوڑ دو تو یہ پرہیز گاری کی بات ہے ۔ - قَدِيرُ :- هو الفاعل لما يشاء علی قَدْرِ ما تقتضي الحکمة، لا زائدا عليه ولا ناقصا عنه، ولذلک لا يصحّ أن يوصف به إلا اللہ تعالی، قال : إِنَّ اللَّهَ عَلى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ [ البقرة 20] . والمُقْتَدِرُ يقاربه نحو : عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِرٍ [ القمر 55] ، لکن قد يوصف به البشر، وإذا استعمل في اللہ تعالیٰ فمعناه القَدِيرُ ، وإذا استعمل في البشر فمعناه : المتکلّف والمکتسب للقدرة، يقال : قَدَرْتُ علی كذا قُدْرَةً. قال تعالی: لا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا[ البقرة 264] .- القدیر - اسے کہتے ہیں جو اقتضائے حکمت کے مطابق جو چاہے کرسکے اور اس میں کمی بیشی نہ ہونے دے ۔ لہذا اللہ کے سوا کسی کو قدیر نہیں کہہ سکتے ۔ قرآن میں ہے : اور وہ جب چاہے ان کے جمع کرلینے پر ۔۔۔۔ قادر ہے ۔ اور یہی معنی تقریبا مقتقدر کے ہیں جیسے فرمایا : عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِرٍ [ القمر 55] ہر طرح کی قدرت رکھنے والے بادشاہ کی بار گاہ میں ۔ فَإِنَّا عَلَيْهِمْ مُقْتَدِرُونَ [ الزخرف 42] ہم ان پر قابو رکھتے ہیں ۔ لیکن مقتدر کے ساتھ کبھی انسان بھی متصف ہوجاتا ہے ۔ اور جب اللہ تعالیٰ کے متعلق مقتدر کا لفظ استعمال ہو تو یہ قدیر کے ہم معنی ہوتا ہے اور جب انسان کا وصف واقع ہو تو اس کے معنی تکلیف سے قدرت حاصل کرنے والا کے ہوتے ہیں ۔ محاورہ ہے : قدرت علی کذا قدرۃ کہ میں نے فلاں چیز پر قدرت حاصل کرلی ۔ قرآن میں ہے : ( اسی طرح ) یہ ریا کار ) لوگ اپنے اعمال کا کچھ بھی صلہ نہیں لے سکیں گے۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٤٩) اگر تم خوبی اور بھلائی کے ساتھ جواب دو اور اس کو گھٹیا نہ سمجھو یا ظلم پر درگزر کرو تو اللہ تعالیٰ مظلوم کو معاف کرنے والا اور ظالم کو اس کے ظلم کی سزا دینے والا ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٤٩ (اِنْ تُبْدُوْا خَیْرًا اَوْ تُخْفُوْہُ ) - جہاں تک تو خیر کا معاملہ ہے تم اسے بلند آواز سے کہو ‘ ظاہر کرو یا چھپاؤ برابر کی بات ہے۔ اللہ تعالیٰ کے لیے خیر تو ہر حال میں خیر ہی ہے ‘ عیاں ہو یا خفیہ۔- (اَوْ تَعْفُوْا عَنْ سُوْٓءٍ فَاِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَفُوًّا قَدِیْرًا ) - اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کو معاف کردینا یقیناً نیکی کا ایک اونچا درجہ ہے۔ اس لیے یہاں ترغیب کے انداز میں مظلوم سے بھی کہا جا رہا ہے کہ اگرچہ تمہیں چھوٹ ہے ‘ تمہاری بدگوئی کی بھی تم پر کوئی گرفت نہیں ‘ لیکن زیادتی کی تلافی کا اس سے اعلیٰ اور بلند تر درجہ بھی ہے ‘ تم اس بلند درجے کو حاصل کیوں نہیں کرتے ؟ وہ یہ کہ تم اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کو معاف کر دو ۔ اس کے ساتھ اللہ کی قدرت کا ذکر بھی ہوا ہے کہ انسان تو بسا اوقات بدلہ لینے کی طاقت نہ ہونے کے باعث معاف کرنے پر مجبور بھی ہوجاتا ہے ‘ جبکہ اللہ تعالیٰ قادر مطلق ہے ‘ قدیر ہے ‘ وہ تو جب چاہے ‘ جیسے چاہے ) ( خطاکار کو فوراً سزا دے کر حساب چکاسکتا ہے۔ لیکن اتنی قدرت کے باوجود بھی وہ معاف فرما دیتا ہے۔ - آئندہ آیات میں پھر وحدت الادیان جیسے اہم مضمون کا تذکرہ ہونے جا رہا ہے اور اس سلسلے میں یہاں تمام غلط نظریات کی جڑ کاٹی جا رہی ہے۔ اس سے پہلے بھی یہ بات زیر بحث آچکی ہے کہ فلسفۂ وحدت ادیان کا ایک حصہ صحیح ہے۔ وہ یہ کہ اصل ( ) سب ادیان کی ایک ہے۔ لیکن اگر کوئی یہ کہے کہ مختلف ادیان کی موجودہ شکلوں میں بھی یک رنگی اور ہم آہنگی ہے تو اس سے بڑی حماقت ‘ جہالت ‘ ضلالت اور گمراہی کوئی نہیں۔ - یہاں پر اب کانٹے کی بات بتائی جا رہی ہے کہ دین میں جس چیز کی وجہ سے بنیادی خرابی پیدا ہوتی ہے وہ اصل میں کیا ہے۔ وہ غلطی یا خرابی ہے اللہ اور رسولوں میں تفریق ایک تفریق تو وہ ہے جو رسولوں کے درمیان کی جاتی ہے ‘ اور دوسری تفریق اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو علیحدہ علیحدہ کردینے کی شکل میں سامنے آتی ہے ‘ اور یہ سب سے بڑی جہالت ہے۔ فتنۂ انکار حدیث اور انکار سنت اسی جہالت و گمراہی کا شاخسانہ ہے۔ یہ لوگ اپنے آپ کو اہل قرآن سمجھتے ہیں اور ان کا نظریہ ہے کہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کام قرآن پہنچا دینا تھا ‘ سو انہوں نے پہنچا دیا ‘ اب اصل معاملہ ہمارے اور اللہ کے درمیان ہے۔ اللہ کی کتاب عر بی زبان میں ہے ‘ ہم اس کو خود سمجھیں گے اور اس پر عمل کریں گے۔ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے زمانے میں مسلمانوں کو جو اس کی تشریح سمجھائی تھی اور اس زمانے کے لوگوں نے اسے قبول کیا تھا ‘ وہ اس زمانے کے لیے تھی۔ گویا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تشریح کوئی دائمی چیز نہیں ‘ دائمی شے صرف قرآن ہے۔ اس طرح انہوں نے اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جدا کردیا۔ یہاں اسی گمراہی کا ذکر آ رہا ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :177 اس آیت میں مسلمانوں کو ایک نہایت بلند درجہ کی اخلاقی تعلیم دی گئی ہے ۔ منافق اور یہودی اور بت پرست سب کے سب اس وقت ہر ممکن طریقہ سے اسلام کی راہ میں روڑے اٹکانے اور اس کی پیروی قبول کرنے والوں کو ستانے اور پریشان کر نے پر تلے ہوئے تھے ۔ کوئی بدتر سے بدتر تدبیر ایسی نہ تھی جو وہ اس نئی تحریک کے خلاف استعمال نہ کر رہے ہوں ۔ اس پر مسلمانوں کے اندر نفرت اور غصہ کے جذبات کا پیدا ہونا ایک فطری امر تھا ۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں اس قسم کے جذبات کا طوفان اٹھتے دیکھ کر فرمایا کہ بدگوئی پر زبان کھولنا تمہارے خدا کے نزدیک کوئی پسندیدہ کام نہیں ہے ۔ اس میں شک نہیں کہ تم مظلوم ہو اور اگر مظلوم ظالم کے خلاف بد گوئی پر زبان کھولے تو اسے حق پہنچتا ہے ۔ لیکن پھر بھی افضل یہی ہے کہ خفیہ ہو یا علانیہ ہر حال میں بھلائی کیے جاؤ اور برائیوں سے درگزر کرو ، کیونکہ تم کو اپنے اخلاق میں خدا کے اخلاق سے قریب تر ہونا چاہیے ۔ جس خدا کا قرب تم چاہتے ہو اس کی شان یہ ہے کہ نہایت حلیم اور بردبار ہے ، سخت سے سخت مجرموں تک کو رزق دیتا ہے اور بڑے سے بڑے قصوروں پر بھی در گزر کیے چلا جاتا ہے ۔ لہٰذا اس سے قریب تر ہونے کے لیے تم بھی عالی حوصلہ اور وسیع الظرف بنو ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

76: اشارہ یہ کیا جا رہا ہے کہ اگرچہ مظلوم کو شریعت نے یہ حق دیا ہے کہ وہ ظالم کے ظلم کی حد تک اس کی برائی کرے، لیکن اگر کوئی شخص مظلوم ہونے کے باوجود خطیہ اور علانیہ ہر حالت میں زبان سے ہمیشہ اچھی بات ہی نکالے، اور اپنا حق معاف کردے تو یہ اس کے لیے بڑے ثواب کا کام ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی صفت بھی یہی ہے کہ وہ سزا پر قدرت رکھنے کے باوجود کثرت سے لوگوں کو معاف کردیتا ہے