Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

کسی ایک بھی نبی کو نہ ماننا کفر ہے اس آیت میں بیان ہو رہا ہے کہ جو ایک نبی کو بھی نہ مانے کافر ہے ، یہودی سوائے حضرت عیسیٰ اور حضرت محمد صلوات اللہ وسلامہ علیہما کے اور تمام نبیوں کو مانتے تھے ، نصرانی افضل الرسل خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا تمام انبیاء پر ایمان رکھتے تھے ، سامری یوشع علیہ السلام کے بعد کسی کی نبوت کے قائل نہ تھے ، حضرت یوشع حضرت موسیٰ بن عمران علیہ السلام کے خلیفہ تھے ، مجوسیوں کی نسبت مشہور ہے کہ وہ اپنا نبی زردشت کو مانتے تھے لیکن جب یہ بھی ان کی شریعت کے منکر ہو گئے تو اللہ تعالیٰ نے وہ شریعت ہی ان سے اٹھا لی ۔ واللہ اعلم ۔ پس یہ لوگ ہیں جنہوں نے اللہ اور اس کے رسولوں میں تفریق کی یعنی کسی نبی کو مانا ، کسی سے انکار کر دیا ۔ کسی ربانی دلیل کی بنا پر نہیں بلکہ محض اپنی نفسانی خواہش جوش تعصب اور تقلید آبائی کی وجہ سے ، اس سے یہ بھی معلم ہوا کہ ایک نبی کو نہ ماننے والا اللہ کے نزدیک تمام نبیوں کا منکر ہے ، اس لئے کہ اگر اور انبیاء کو بوجہ نبی ہونے کے مانتا تو اس نبی کو ماننا بھی اسی وجہ سے اسپر ضروری تھا ، جب وہ ایک کو نہیں مانتا تو معلوم ہوا کہ جنہیں وہ مانتا ہے انہیں بھی کسی دنیاوی غرض اور ہواؤں کی وجہ سے مانتا ہے ، ان کا شریعت ماننا یا نہ ماننا دونوں بےمعنی ہے ، ایسے لوگ حتماً اور یقینا کافر ہیں ، کسی نبی پر ان کا شرعی ایمان نہیں بلکہ تقلیدی اور تعصبی ایمان ہے جو قابل قبول نہیں ، پس ان کفار کو اہانت اور رسوائی آمیز عذاب کئے جائیں گے ۔ کیونکہ جن پر یہ ایمان نہ لا کر ان کی توہین کرتے تھے اس کا بدلہ یہی ہے کہ ان کی توہین ہو اور انہیں ذلت والے عذاب میں ڈالا جائے گا ، ان کے ایمان نہ لانے کی وجہ خواہ غور و فکر کے بغیر نبوت کی تصدیق نہ کرنا ہو ، خواہ حق واضح ہو چکنے کے بعد دنیوی وجہ سے منہ موڑ کر نبوت سے انکار کرنا ہو ، جیسے اکثر یہودی علماء کا شیوہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں تھا کہ محض حسد کی وجہ سے آپ کی عظیم الشان نبوت کے منکر تھے اور آپ کی مخالفت اور عداوت میں آ کر مقابلے پر تل گئے ، پس اللہ نے ان پر دنیا کی ذلت بھی مسلط کر دی اور آخرت کی ذلت کی مار بھی ان کے لئے تیار کر رکھی ۔ پھر امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف ہو رہی ہے کہ یہ اللہ پر ایمان رکھ کر تمام انبیاء علیہم السلام کو اور تمام آسمانی کتابوں کو بھی الہامی کتابیں تسلیم کرتے ہیں ۔ جیسے ایک اور آیت میں ہے ( کل امن باللہ ) پھر ان کے لئے جو اجر جمیل اور ثواب عظیم اس نے تیار کر رکھا ہے اسے بھی بیان فرما دیا کہ ان کے ایمان کامل کے باعث انہیں اجر و ثواب عطا ہوں گے ۔ اگر ان سے کوئی گناہ بھی سر زد ہو گیا تو اللہ معاف فرما دے گا اور ان پر اپنی رحمت کی بارش برسائیں گے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٩٩] اللہ اور اس کے رسولوں کے درمیان تفریق کا مطلب :۔ اللہ اور اس کے رسولوں کا انکار کرنے والوں سے مراد دہریہ نیچری، یا مادہ پرست ہیں اور کچھ لوگ ایسے ہیں کہ اللہ یا خالق کائنات کے وجود کو تو مانتے ہیں لیکن رسولوں کو نہیں مانتے ادر یہ بعض فلاسفروں اور سائنس دانوں کا طبقہ ہے کیونکہ ان کے نظریہ کے مطابق خالق کے بغیر کائنات کا وجود میں آنا اور اس میں ایسا مربوط اور منظم نظام پایا جانا عقلاً محال ہے۔ اور تیسرا گروہ وہ ہے جو اللہ پر اور اس کے بعض رسولوں پر ایمان لاتا ہے اور بعض پر نہیں لاتا۔ جیسے یہود نہ سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) پر اور نہ بعض دوسرے انبیاء پر ایمان لائے اور نہ نبی آخر الزمان پر۔ اور عیسائی باقی پیغمبروں پر تو ایمان لاتے ہیں مگر نبی آخر الزمان پر ایمان نہیں لاتے۔ حالانکہ ان کی کتابوں میں ہر آنے والے نبی کی بشارات موجود ہوتی تھیں۔ اور تیسری راہ اختیار کرنے والوں سے مراد یہی تیسرا گروہ یا اہل کتاب ہیں۔ ان کا ایمان تو یہ تھا کہ اللہ اور اپنے دور کے نبی اور اس پر ایمان لانے کا دعویٰ کیا۔ اور کفر یہ تھا کہ ان کے نبی نے جو ان سے آنے والے نبی کی اطاعت کا عہد لیا تھا یا ان کتابوں میں جو بشارات موجود تھیں ان کا انکار کردیا۔ اس لحاظ سے نہ وہ اللہ پر صحیح طور پر ایمان لائے نہ اپنے نبی پر اور نہ اپنی کتاب پر۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اِنَّ الَّذِيْنَ يَكْفُرُوْنَ باللّٰهِ وَرُسُلِهٖ…. منافقین کے قبیح اعمال و اقوال بیان کرنے کے بعد اب یہاں سے اہل کتاب ( یہود و نصاریٰ ) کے خیالات و شبہات اور ان کی تردید کا بیان شروع ہو رہا ہے اور یہ سلسلہ سورت کے آخر تک چلا گیا ہے۔ (رازی) اللہ تعالیٰ کو ماننا اور رسالت و نبوت کو نہ ماننا کفر ہے۔ (قرطبی) اس لیے کہ اللہ کا ماننا یہی ہے کہ زمانے کے پیغمبرکا حکم مانے، اس کے بغیر اللہ کا ماننا غلط ہے۔ (موضح) نیز اللہ کے احکام ماننے سے انکار اس کا بندہ ہونے سے انکار ہے اور بندگی (عبادت) سے انکار کا مطلب کائنات کو بنانے والے کا انکار ہے۔ - وَيُرِيْدُوْنَ اَنْ يُّفَرِّقُوْا بَيْنَ اللّٰهِ وَرُسُلِهٖ ۔۔ : مراد اہل کتاب ہی ہیں اور بعد والے جملے انھی کی خصلتوں کی تفسیر ہیں۔ (قرطبی، رازی) یہود موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان رکھتے لیکن عیسیٰ (علیہ السلام) اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا انکار کرتے تھے اور نصاریٰ موسیٰ اور عیسیٰ (علیہ السلام) کو مانتے مگر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا انکار کرتے۔ (ابن کثیر)- وَّيُرِيْدُوْنَ اَنْ يَّتَّخِذُوْا بَيْنَ ذٰلِكَ سَبِيْلًا : یعنی سب کو ماننا ایمان ہے، کسی ایک کا انکار کفر ہے، جب کہ یہ لوگ بعض پر ایمان لا کر اور بعض سے انکار کر کے ایک تیسری راہ اختیار کرنا چاہتے ہیں اور اس کا نام یہودیت یا نصرانیت رکھتے ہیں، جیسا کہ ہمارے زمانے کے مادہ پرستوں نے مسجدوں میں نماز، بازاروں میں سود، غم و شادی اور عام رہن سہن میں غیر مسلموں کی نقالی اور عدالتوں اور حکومت کے شعبوں میں کفریہ قوانین، سب کچھ کو ملا کر اس کا نام اسلام رکھ دیا ہے اور بعض نے کہا کہ قرآن کو تو مانیں گے مگر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرمان کو نہیں مانیں گے۔ یہ منکرین حدیث بھی انھی لوگوں میں شامل ہیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

اسلامی مدار نجات ہے کسی مخالف مذہب میں نجات نہیں ہو سکتی :- قرآن حکیم کے اس واضح فیصلہ نے ان لوگوں کی بےراہی اور کج روی کو پورا طرح کھول دیا ہے، جو دوسرے اہل مذاہب کے ساتھ روا داری میں مذہب اور مذہبی عقلاء کو بطور نوتہ اور ہبہ کے پیش کرنا چاہتے ہیں، اور قرآن و سنت کے کھلے ہوئے فیصلوں کے خلاف دوسرے مذہب والوں کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کے نزدیک نجات صرف اسلام میں منحصر نہیں، یہودی اپنے مذہب پر اور عیسائی اپنے مذہب پر رہتے ہوئے بھی نجات پاسکتا ہے، حالانکہ یہ لوگ سب رسولوں کے یا کم از کم بعض رسولوں کے منکر ہیں، جن کے کافر جہنمی ہونے کا اس آیت نے اعلان کردیا ہے۔- اس میں شبہ نہیں کہ اسلام غیر مسلموں کے ساتھ عدل و انصاف اور ہمدردی و خیر خواہی اور احسان و رواداری کے معاملہ میں اپنی مثال نہیں رکھتا، لیکن احسان و سلوک اپنے حقوق اور اپنی ملکیت میں ہوا کرتے ہیں، مذہبی اصول و عقائد ہماری ملکیت نہیں جو ہم کسی کو تحفہ میں پیش کرسکیں، اسلام جس طرح غیر مسلموں کے استھزا رواداری اور حسن سلوک کی تعلیم میں نہایت سخی اور فیاض ہے، اسی طرح وہ اپنی سرحدات کی حفاظت میں نہایت محتاط اور سخت بھی ہے، وہ غیر مسلموں کے ساتھ ہمدردی خیر خواہی اور انتہائی رواداری کے ساتھ کفر اور رسوم کفر سے پوری طرح اعلان برات بھی کرتا ہے، مسلمانوں کو غیر مسلموں سے الگ ایک قوم بھی قرار دیتا ہے اور ان کے قومی شعائر کی پوری طرح حفاظت بھی کرتا ہے، وہ عبادت کی طرح مسلمانوں کی معاشرت کو بھی دوسروں سے ممتاز رکھنا چاہتا ہے جس کی بیشمار مثالیں قرآن و سنت میں موجود ہیں۔- اگر اسلام اور قرآن کا یہ عقیدہ ہوتا کہ ہر مذہب و ملت میں نجات ہو سکتی ہے تو اس کو مذہب اسلام کی تبلیغ پر اتنا زور دینے کا کوئی حق نہ تھا، اور اس کے لئے سر دھڑ کی بازی لگا دینا اصولاً غلط اور خلاف عقل ہوتا، بلکہ اس صورت میں خود رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت اور قرآن حکیم کا نزول معاذ اللہ بیکار اور فضول ہوجاتا ہے اور رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور خلفائے راشدین کا سارا جہاد بےمعنی بلکہ ملک گیری کی ہوس رہ جاتی ہے۔- اس معاملہ میں بعض لوگوں کو سورة بقرہ کی آیت نمبر ٢٦ سے شبہ ہوا ہے، جس میں ارشاد ہے :- ان الذین امنوا والذین ھادوا والنصری والصابئین من امن باللہ والیوم الاخر و عمل صالحا فلھم اجرھم عندربھم ولاخوف علیھم ولاھم یحزنون،” یعنی وہ لوگ جو ایمان لائے اور وہ لوگ جو یہودی ہوئے اور نصاری اور صابین ان میں جو بھی اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان لائے اور نیک عمل کرے تو ان کا اجر ان کے رب کے پاس محفوظ ہے، ان پر نہ کوئی خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔ “- اس آیت میں چونکہ ایمانیات کی پوری تفصیل دینے کے بجائے صرف ایمان باللہ و الیوم الآخر پر اکتفا کیا گیا ہے تو جو لوگ قرآن کو صرف ادھورے مطالعہ سے سمجھنا چاہتے ہیں، اس سے وہ یہ سمجھ بیٹھے کہ صرف اللہ تعالیٰ اور قیامت پر ایمان رکھنا نجات کے لئے کافی ہے رسولوں پر ایمان شرط نجات نہیں اور یہ نہ سمجھ سکے کہ قرآن کی اصطلاح میں ایمان باللہ رسولوں پر ایمان شرط نجات نہیں اور یہ نہ سمجھ سکے کہ قرآن کی اصطلاح میں ایمان باللہ وہی معتبر ہے جو ایمان بالرسول کے ساتھ ہو، ورنہ محض خدا کے اقرار اور توحید کا تو شیطان بھی قائل ہے، قرآن کریم نے خود اس حقیقت کو ان الفاظ میں واضح فرما دیا ہے :- فان امنوا بمثل ما امنتم بہ فقد اھتدواوان تولو فانما ھم فی شقاق فسیکفیکھم اللہ وھو السمیع العلیم (٢: ٧٣١) ” یعنی ان کا ایمان اس وقت معتبر ہوگا جبکہ وہ عام مسلمانوں کی طرح ایمان اختیار کریں، جس میں ایمان باللہ کے ساتھ ایمان بالرسول لازم ہے، ورنہ پھر سمجھ لو کہ وہی لوگ تفرقہ اور اختلاف پیدا کرنا چاہتے ہیں، سو اللہ تعالیٰ آپ کی طرف سے ان کے لئے کافی ہے اور وہ بہت سننے والا ہے۔ “- اور پیش نظر آیات میں تو اس سے بھی زیادہ وضاحت کے ساتھ بتلا دیا گیا ہے کہ جو شخص اللہ کے کسی ایک رسول کا بھی منکر ہو وہ کھلا کافر ہے اور اس کے لئے عذاب جہنم ہے، ایمان باللہ وہی معتبر ہے جو ایمان بالرسول کے ساتھ ہو، اس کے بغیر اس کو ایمان باللہ کہنا بھی صحیح نہیں ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اِنَّ الَّذِيْنَ يَكْفُرُوْنَ بِاللہِ وَرُسُلِہٖ وَيُرِيْدُوْنَ اَنْ يُّفَرِّقُوْا بَيْنَ اللہِ وَرُسُلِہٖ وَيَقُوْلُوْنَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَّنَكْفُرُ بِبَعْضٍ۝ ٠ۙ وَّيُرِيْدُوْنَ اَنْ يَّتَّخِذُوْا بَيْنَ ذٰلِكَ سَبِيْلًا۝ ١٥٠ۙ- كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔- الله - الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم 65] . - ( ا ل ہ ) اللہ - (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ - - رسل - أصل الرِّسْلِ : الانبعاث علی التّؤدة وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ومن الأنبیاء قوله : وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ [ آل عمران 144]- ( ر س ل ) الرسل - الرسل ۔ اصل میں اس کے معنی آہستہ اور نرمی کے ساتھ چل پڑنے کے ہیں۔ اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھیجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ اور کبھی اس سے مراد انبیا (علیہ السلام) ہوتے ہیں جیسے فرماٰیا وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ [ آل عمران 144] اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سے بڑھ کر اور کیا کہ ایک رسول ہے اور بس - رود - والْإِرَادَةُ منقولة من رَادَ يَرُودُ : إذا سعی في طلب شيء، والْإِرَادَةُ في الأصل : قوّة مركّبة من شهوة وحاجة وأمل، نحو : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب 17]- ( ر و د ) الرود - الا رادۃ یہ اراد یرود سے ہے جس کے معنی کسی چیز کی طلب میں کوشش کرنے کے ہیں اور ارادۃ اصل میں اس قوۃ کا نام ہے ، جس میں خواہش ضرورت اور آرزو کے جذبات ملے جلے ہوں ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب 17] یعنی اگر خدا تمہاری برائی کا فیصلہ کر ہے یا تم پر اپنا فضل وکرم کرنا چاہئے ۔ - تفریق - والتَّفْرِيقُ أصله للتّكثير، ويقال ذلک في تشتیت الشّمل والکلمة . نحو :- يُفَرِّقُونَ بِهِ بَيْنَ الْمَرْءِ وَزَوْجِهِ [ البقرة 102] ،- ( ف ر ق ) الفرق - التفریق اصل میں تکثیر کے لئے ہے اور کسی چیز کے شیر ازہ اور اتحاد کو زائل کردینے پر بولا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ يُفَرِّقُونَ بِهِ بَيْنَ الْمَرْءِ وَزَوْجِهِ [ البقرة 102] جس سے میاں بیوی میں جدائی ڈال دیں ، - بين - بَيْن موضوع للخلالة بين الشيئين ووسطهما . قال تعالی: وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف 32] ، يقال : بَانَ كذا أي : انفصل وظهر ما کان مستترا منه، ولمّا اعتبر فيه معنی الانفصال والظهور استعمل في كلّ واحد منفردا، فقیل للبئر البعیدة القعر : بَيُون، لبعد ما بين الشفیر والقعر لانفصال حبلها من يد صاحبها .- ( ب ی ن ) البین - کے معنی دو چیزوں کا درمیان اور وسط کے ہیں : ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف 32] اور ان کے درمیان کھیتی پیدا کردی تھی ۔ محاورہ ہے بان کذا کسی چیز کا الگ ہوجانا اور جو کچھ اس کے تحت پوشیدہ ہو ، اس کا ظاہر ہوجانا ۔ چونکہ اس میں ظہور اور انفصال کے معنی ملحوظ ہیں اس لئے یہ کبھی ظہور اور کبھی انفصال کے معنی میں استعمال ہوتا ہے - أیمان - يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ( ا م ن ) - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ - بعض - بَعْضُ الشیء : جزء منه، ويقال ذلک بمراعاة كلّ ، ولذلک يقابل به كلّ ، فيقال : بعضه وكلّه، وجمعه أَبْعَاض . قال عزّ وجلّ : بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ البقرة 36] - ( ب ع ض ) بعض - الشئی ہر چیز کے کچھ حصہ کو کہتے ہیں اور یہ کل کے اعتبار سے بولا جاتا ہے اسلئے کل کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے جیسے : بعضہ وکلہ اس کی جمع ابعاض آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ البقرة 36] تم ایک دوسرے کے دشمن ہو ۔ - أخذ ( افتعال، مفاعله)- والاتّخاذ افتعال منه، ويعدّى إلى مفعولین ويجري مجری الجعل نحو قوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصاری أَوْلِياءَ [ المائدة 51] ، أَمِ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِياءَ [ الشوری 9] ، فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا [ المؤمنون 110] ، أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ : اتَّخِذُونِي وَأُمِّي إِلهَيْنِ مِنْ دُونِ اللَّهِ [ المائدة 116] ، وقوله تعالی: وَلَوْ يُؤاخِذُ اللَّهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ [ النحل 61] فتخصیص لفظ المؤاخذة تنبيه علی معنی المجازاة والمقابلة لما أخذوه من النعم فلم يقابلوه بالشکر - ( اخ ذ) الاخذ - الاتخاذ ( افتعال ) ہے اور یہ دو مفعولوں کی طرف متعدی ہوکر جعل کے جاری مجری ہوتا ہے جیسے فرمایا :۔ لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ ( سورة المائدة 51) یہود اور نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ ۔ وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ ( سورة الزمر 3) جن لوگوں نے اس کے سوا اور دوست بنائے ۔ فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا ( سورة المؤمنون 110) تو تم نے اس تمسخر بنالیا ۔ أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَهَيْنِ ( سورة المائدة 116) کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری والدہ کو معبود بنا لو ۔ اور آیت کریمہ : وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ ( سورة النحل 61) میں صیغہ مفاعلہ لاکر معنی مجازات اور مقابلہ پر تنبیہ کی ہے جو انعامات خدا کی طرف سے انہیں ملے ان کے مقابلہ میں انہوں نے شکر گذاری سے کام نہیں لیا ۔- سبل - السَّبِيلُ : الطّريق الذي فيه سهولة، وجمعه سُبُلٌ ، قال : وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل 15] - ( س ب ل ) السبیل - ۔ اصل میں اس رستہ کو کہتے ہیں جس میں سہولت سے چلا جاسکے ، اس کی جمع سبل آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل 15] دریا اور راستے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٥٠۔ ١٥١) یعنی کعب اور اس کے ساتھی نبوت اور اسلام میں فرق چاہتے ہیں اور بعض کتابوں اور بعض رسولوں پر ایمان لاتے اور بعض کا انکار کرتے ہیں اور یہ چاہتے ہیں کہ کفر و ایمان کے بیچ ایک نیا مفاد پرستانہ راستہ نکال لیں، ہم نے ان یہود وغیرہ کے لیے آخرت میں سخت ترین عذاب تیار کر رکھا ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٥٠ (اِنَّ الَّذِیْنَ یَکْفُرُوْنَ باللّٰہِ وَرُسُلِہٖ وَیُرِیْدُوْنَ اَنْ یُّفَرِّقُوْا بَیْنَ اللّٰہِ وَرُسُلِہٖ ) - اکبر کے دین الٰہیکا بنیادی فلسفہ بھی یہی تھا کہ بس دین تو اللہ ہی کا ہے ‘ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نسبت ضروری نہیں ‘ کیونکہ جب دین کی نسبت رسول کے ساتھ ہوجاتی ہے تو پھر دین رسول کے ساتھ منسوب ہوجاتا ہے کہ یہ دین موسیٰ ( علیہ السلام) ہے ‘ یہ دین عیسیٰ ( علیہ السلام) ہے ‘ یہ دین محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہے۔ اگر رسولوں کا یہ تفرقی عنصر ( ) درمیان سے نکال دیا جائے تو مذاہب کے اختلافات کا خاتمہ ہوجائے گا۔ اللہ تو سب کا مشترک ( ) ہے ‘ چناچہ جو دین اسی کے ساتھ منسوب ہوگا وہ دین الٰہی ہوگا۔- (وَیَقُوْلُوْنَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَّنَکْفُرُ بِبَعْضٍ لا ) - یعنی اللہ کو مانیں گے ‘ رسولوں کا ماننا ضروری نہیں ہے۔ اللہ کی کتاب کو مانیں گے ‘ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت کا ماننا کوئی ضروری نہیں ہے ‘ وغیرہ وغیرہ۔- (وَّیُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّتَّخِذُوْا بَیْنَ ذٰلِکَ سَبِیْلاً ) - اللہ کو ایک طرف کردیں اور رسول کو ایک طرف ۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani