Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

162۔ 1 ان سے مراد عبد اللہ بن سلام وغیرہ ہیں جو یہودیوں میں سے مسلمان ہوگئے۔ 162۔ 2 ان سے مراد بھی وہ اہل ایمان ہیں جو اہل کتاب میں سے مسلمان ہوئے یا پھر مہاجرین و انصار مراد ہیں۔ یعنی شریعت کا پختہ علم رکھنے والے اور کمال ایمان سے متصف لوگ ان معاصی کے ارتکاب سے بچتے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ ناپسند فرماتا ہے۔ 162۔ 3 اس سے مراد زکوٰۃ اموال ہے یا زکوٰۃ نفوس یعنی اپنے اخلاق و کردار کی تطہر اور ان کا تزکیہ کرنا یا دونوں ہی مراد ہیں۔ 162۔ 4 یعنی اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ نیز بعث بعد الموت اور عملوں پر جزا اور سزا پر یقین رکھتے ہیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢١٣] علم میں پختہ وہ لوگ ہیں جو منزل من اللہ وحی کے متلاشی ہوں اور وہیں سے دلیل اور رہنمائی حاصل کریں۔ لکیر کے فقیر نہ ہوں۔ نہ تقلید آباء کے پابند ہوں اور نہ ایسے رسم و رواج کے جو دین میں راہ پا کر اس کا حصہ بن گئے ہوں جیسے بدعات وغیرہ۔ جیسے عبداللہ (رض) بن سلام اور ان کے ساتھی تھے۔- [٢١٤] دوہرا اجر پانے والے :۔ آپ نے فرمایا اہل کتاب میں سے جو شخص (خواہ وہ یہودی ہو یا نصرانی) اسلام لائے اس کو دوہرا اجر ملے گا۔ ایک اجر اپنے پیغمبر پر ایمان لانے کا اور دوسرا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے کا۔ (بخاری، کتاب الجہاد، باب فضل من اسلم من اہل الکتابین)- [٢١٥] اس آیت پر آ کر یہود کے اس مطالبہ کے جواب ختم ہو رہے ہیں جو انہوں نے آپ سے کیا تھا کہ اگر آپ پر قرآن ایسے یکبارگی آسمان سے اترے جیسے سیدنا موسیٰ پر تورات کی الواح نازل ہوئی تھیں، تو تب ہی ہم آپ پر ایمان لائیں گے۔ درمیان میں یہود کے تورات پر ایمان لانے کی کیفیت، ان کی بدکرداریاں اور عہد شکنیاں ذکر کرنے کے بعد فرمایا کہ اہل علم کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ اللہ کی کتاب پر پوری طرح ایمان لاتے ہیں پھر اس کے احکام کی پوری طرح پابندی کرتے ہیں۔ حیلے بہانے، اعتراضات، مطالبات اور کٹ حجتی نہیں کرتے۔ ایسے ہی لوگ اجر عظیم کے مستحق ہوتے ہیں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

لٰكِنِ الرّٰسِخُوْنَ فِي الْعِلْمِ : علم میں پختہ وہ لوگ ہیں جو اللہ کی طرف سے آنے والی وحی کے متلاشی ہوں اور اسی سے دلیل اور رہنمائی حاصل کریں، نہ لکیر کے فقیر ہوں نہ تقلید آباء کے اور ” المومنون “ سے مراد تورات پر صحیح ایمان رکھنے والے ہیں، یعنی یہ مومن اس پر ایمان لاتے ہیں جو آپ کی طرف نازل کیا گیا اور جو آپ سے پہلے نازل کیا گیا۔ “ یہ اہل کتاب کے مومنوں کو بشارت ہے جو موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر بھی ایمان لے آئے، مثلاً عبداللہ بن سلام (رض) وغیرہ۔ - وَالْمُقِيْمِيْنَ الصَّلٰوةَ : اس سے پہلے اور بعد والی تمام صفات مرفوع ہیں اور یہ منصوب ہے، اسے ” منصوب علی المدح “ یا ” علی الاختصاص “ کہا جاتا ہے۔ گویا یہ ” اَخُصُّ “ کا مفعول ہے، اس لیے ترجمہ کیا گیا ہے ” اور جو خاص کر نماز ادا کرنے والے ہیں۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

ربط آیات :- اوپر کی آیات میں ان یہود کا ذکر تھا جو اپنے کفر پر قائم تھے اور مذکورہ بالا منکرات میں مبتلا تھے، آگے ان حضرات کا بیان ہے جو اہل کتاب تھے اور جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت ہوئی اور وہ صفات جو ان کی کتابوں میں خاتم النبین (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق موجود تھیں آپ میں پوری پوری دیکھیں تو ایمان لے آئے، جیسے حضرت عبداللہ بن سلام و اسید و ثعلبہ (رض) ، ان آیات میں انہی حضرات کی تعریف و توصیف مذکور ہے۔- خلاصہ تفسیر - لیکن ان (یہود) میں جو لوگ علم (دین) میں پختہ (یعنی اس کے موافق عمل کرنے پر مضبوط) ہیں (اور اسی آمادگی نے ان پر حق کو واضح اور قبول حق کو سہل کردیا جو اگٓے اصلاً و فرعاً مذکور ہے) اور جو (ان میں) ایمان لے آنے والے ہیں کہ اس کتاب پر بھی ایمان لاتے ہیں جو آپ کے پاس بھیجی گئی اور اس کتاب پر بھی (ایمان رکھتے ہیں) جو آپ سے پہلے (نبیوں کے پاس) بھیجی گئی (جیسے توریت و انجیل) اور جو (ان میں) نماز کی پابندی کرنے والے ہیں اور جو (ان میں) زکوة دینے والے ہیں اور جو (ان میں) اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر اعتقاد رکھنے والے ہیں (سو) ایسے لوگوں کو ہم ضرور (آخرت میں) ثواب عظیم عطا فرما دیں گے۔- معارف ومسائل - آیت میں جن حضرات کے لئے اجر کامل کا وعدہ ہے وہ ان کے ایمان اور اعمال صالحہ کے ساتھ متصف ہونے کی وجہ سے ہے اور جہاں تک نفس نجات کا تعلق ہے وہ عقائد ضروریہ کی تصحیح پر موقوف ہے، بشرطیکہ خاتمہ بالایمان کی سعادت نصیب ہو۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

لٰكِنِ الرّٰسِخُوْنَ فِي الْعِلْمِ مِنْہُمْ وَالْمُؤْمِنُوْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَيْكَ وَمَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ وَالْمُقِيْمِيْنَ الصَّلٰوۃَ وَالْمُؤْتُوْنَ الزَّكٰوۃَ وَالْمُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ۝ ٠ۭ اُولٰۗىِٕكَ سَنُؤْتِيْہِمْ اَجْرًا عَظِيْمًا۝ ١٦٢ۧ- رسخ - رُسُوخُ الشیء : ثباته ثباتا متمکّنا، ورَسَخَ الغدیر : نضب ماؤه، ورَسَخَ تحت الأرض، والرَّاسِخُ في العلم : المتحقّق به الذي لا يعرضه شبهة . فَالرَّاسِخُونَ في العلم هم الموصوفون بقوله تعالی: الَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ ثُمَّ لَمْ يَرْتابُوا [ الحجرات 15] ، وکذا قوله تعالی:- لكِنِ الرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ مِنْهُمْ [ النساء 162] .- ( ر س خ ) رسوخ الشیئ ۔ کسی چیز کا محکم اور جائے گیر ہوجانا ۔ رسخ الغدیر ۔ جوہڑ کا پانی خشک ہو کر زمین میں جذب ہوگیا ۔ الراسخ فی العلم وہ محقق جسے کوئی اشکال اور شبہ پیش نہ آئے ۔ گویا یہ راسخ فی العلم لوگ وہی ہیں ۔ جو آیت :۔ الَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ ثُمَّ لَمْ يَرْتابُوا [ الحجرات 15] پس سچے مسلمان تو وہ ہیں ) جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے پھر ( کسی طرح کا ) شک وشبہ نہیں کیا میں مذکورہ صفات کیساتھ متصف ہیں اور اسیطرح سورة نساء میں فرمایا :۔ لكِنِ الرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ مِنْهُمْ [ النساء 162] لیکن ( اے پیغمبر ) ان میں سے جو علم میں بڑی پائے کا رکھتے ہیں ۔- نزل - النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ.- يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] - ( ن ز ل ) النزول ( ض )- اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا - اقامت - والْإِقَامَةُ في المکان : الثبات . وإِقَامَةُ الشیء : توفية حقّه، وقال : قُلْ يا أَهْلَ الْكِتابِ لَسْتُمْ عَلى شَيْءٍ حَتَّى تُقِيمُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة 68] أي : توفّون حقوقهما بالعلم والعمل، وکذلک قوله : وَلَوْ أَنَّهُمْ أَقامُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة 66] ولم يأمر تعالیٰ بالصلاة حيثما أمر، ولا مدح بها حيثما مدح إلّا بلفظ الإقامة، تنبيها أنّ المقصود منها توفية شرائطها لا الإتيان بهيئاتها، نحو : أَقِيمُوا الصَّلاةَ [ البقرة 43]- الاقامتہ - ( افعال ) فی المکان کے معنی کسی جگہ پر ٹھہرنے اور قیام کرنے کے ہیں اوراقامتہ الشیی ( کسی چیز کی اقامت ) کے معنی اس کا پورا پورا حق ادا کرنے کے ہوتے ہیں چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ قُلْ يا أَهْلَ الْكِتابِ لَسْتُمْ عَلى شَيْءٍ حَتَّى تُقِيمُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة 68] کہو کہ اے اہل کتاب جب تک تم توراۃ اور انجیل ۔۔۔۔۔ کو قائم نہ رکھو گے کچھ بھی راہ پر نہیں ہوسکتے یعنی جب تک کہ علم وعمل سے ان کے پورے حقوق ادا نہ کرو ۔ اسی طرح فرمایا : ۔ وَلَوْ أَنَّهُمْ أَقامُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة 66] اور اگر وہ توراۃ اور انجیل کو ۔۔۔۔۔ قائم کہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ قرآن پاک میں جہاں کہیں نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے یا نماز یوں کی تعریف کی گئی ہے ۔ وہاں اقامتہ کا صیغۃ استعمال کیا گیا ہے ۔ جس میں اس بات پر تنبیہ کرنا ہے کہ نماز سے مقصود محض اس کی ظاہری ہیبت کا ادا کرنا ہی نہیں ہے بلکہ اسے جملہ شرائط کے ساتھ ادا کرنا ہے - صلا - أصل الصَّلْيُ الإيقادُ بالنار، ويقال : صَلِيَ بالنار وبکذا، أي : بلي بها، واصْطَلَى بها، وصَلَيْتُ الشاةَ : شویتها، وهي مَصْلِيَّةٌ. قال تعالی: اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس 64] - والصَّلاةُ ،- قال کثير من أهل اللّغة : هي الدّعاء، والتّبريك والتّمجید يقال : صَلَّيْتُ عليه، أي : دعوت له وزكّيت، وقال عليه السلام : «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة 103] - وصَلَاةُ اللهِ للمسلمین هو في التّحقیق :- تزكيته إيّاهم . وقال : أُولئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَواتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ [ البقرة 157] ، - ومن الملائكة هي الدّعاء والاستغفار،- كما هي من النّاس «3» . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب 56] والصَّلَاةُ التي هي العبادة المخصوصة،- أصلها : الدّعاء، وسمّيت هذه العبادة بها کتسمية الشیء باسم بعض ما يتضمّنه، والصَّلَاةُ من العبادات التي لم تنفکّ شریعة منها، وإن اختلفت صورها بحسب شرع فشرع . ولذلک قال : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء 103]- ( ص ل ی ) الصلیٰ- ( س) کے اصل معنی آگ جلانے ہے ہیں صلی بالنار اس نے آگ کی تکلیف برداشت کی یا وہ آگ میں جلا صلی بکذا اسے فلاں چیز سے پالا پڑا ۔ صلیت الشاۃ میں نے بکری کو آگ پر بھون لیا اور بھونی ہوئی بکری کو مصلیۃ کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس 64] آج اس میں داخل ہوجاؤ ۔ - الصلوۃ - بہت سے اہل لغت کا خیال ہے کہ صلاۃ کے معنی دعا دینے ۔ تحسین وتبریک اور تعظیم کرنے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے صلیت علیہ میں نے اسے دعادی نشوونمادی اور بڑھایا اور حدیث میں ہے (2) کہ «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، - جب کسی کو کھانے پر بلا یا جائے تو اسے چاہیے کہ قبول کرلے اگر روزہ دار ہے تو وہ انکے لئے دعاکرکے واپس چلا آئے اور قرآن میں ہے وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة 103] اور ان کے حق میں دعائے خیر کرو کہ تمہاری دعا ان کے لئے موجب تسکین ہے ۔- اور انسانوں کی طرح فرشتوں کی طرف سے بھی صلاۃ کے معنی دعا اور استغفار ہی آتے ہیں - چناچہ فرمایا : إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب 56] بیشک خدا اور اس کے فرشتے پیغمبر پر درود بھیجتے ہیں ۔ اور الصلوۃ جو کہ ایک عبادت مخصوصہ کا نام ہے اس کی اصل بھی دعاہی ہے اور نماز چونکہ دعا پر مشتمل ہوتی ہے اسلئے اسے صلوۃ کہاجاتا ہے ۔ اور یہ تسمیۃ الشئی باسم الجزء کے قبیل سے ہے یعنی کسی چیز کو اس کے ضمنی مفہوم کے نام سے موسوم کرنا اور صلاۃ ( نماز) ان عبادت سے ہے جن کا وجود شریعت میں ملتا ہے گو اس کی صورتیں مختلف رہی ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء 103] بیشک نماز مومنوں مقرر اوقات میں ادا کرنا فرض ہے ۔- إِيتاء - : الإعطاء، [ وخصّ دفع الصدقة في القرآن بالإيتاء ] نحو : وَأَقامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكاةَ [ البقرة 277] ، وَإِقامَ الصَّلاةِ وَإِيتاءَ الزَّكاةِ [ الأنبیاء 73] ، ووَ لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئاً [ البقرة 229] ، ووَ لَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمالِ [ البقرة 247]- الایتاء ( افعال ) اس کے معنی اعطاء یعنی دینا اور بخشنا ہے ہیں ۔ قرآن بالخصوص صدقات کے دینے پر یہ لفظ استعمال ہوا ہے چناچہ فرمایا :۔ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ [ البقرة : 277] اور نماز پڑہیں اور زکوۃ دیں وَإِقَامَ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءَ الزَّكَاةِ [ الأنبیاء : 73] اور نماز پڑھنے اور زکوۃ دینے کا حکم بھیجا وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ ( سورة البقرة 229) اور یہ جائز نہیں ہے کہ جو مہر تم ان کو دے چکو اس میں سے کچھ واپس لے لو وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمَالِ [ البقرة : 247] اور اسے مال کی فراخی نہیں دی گئی - زكا - أصل الزَّكَاةِ : النّموّ الحاصل عن بركة اللہ تعالی، ويعتبر ذلک بالأمور الدّنيويّة والأخرويّة .- يقال : زَكَا الزّرع يَزْكُو : إذا حصل منه نموّ وبرکة . وقوله : أَيُّها أَزْكى طَعاماً [ الكهف 19] ،- إشارة إلى ما يكون حلالا لا يستوخم عقباه، ومنه الزَّكاةُ : لما يخرج الإنسان من حقّ اللہ تعالیٰ إلى الفقراء، وتسمیته بذلک لما يكون فيها من رجاء البرکة، أو لتزکية النّفس، أي : تنمیتها بالخیرات والبرکات، أو لهما جمیعا، فإنّ الخیرین موجودان فيها . وقرن اللہ تعالیٰ الزَّكَاةَ بالصّلاة في القرآن بقوله : وَأَقِيمُوا الصَّلاةَ وَآتُوا الزَّكاةَ [ البقرة 43] - ( زک و ) الزکاۃ - : اس کے اصل معنی اس نمو ( افزونی ) کے ہیں جو برکت الہیہ سے حاصل ہو اس کا تعلق دنیاوی چیزوں سے بھی ہے اور اخروی امور کے ساتھ بھی چناچہ کہا جاتا ہے زکا الزرع یزکو کھیتی کا بڑھنا اور پھلنا پھولنا اور آیت : ۔ أَيُّها أَزْكى طَعاماً [ الكهف 19] کس کا کھانا زیادہ صاف ستھرا ہے ۔ میں ازکیٰ سے ایسا کھانا مراد ہے جو حلال اور خوش انجام ہو اور اسی سے زکوۃ کا لفظ مشتق ہے یعنی وہ حصہ جو مال سے حق الہیٰ کے طور پر نکال کر فقراء کو دیا جاتا ہے اور اسے زکوۃ یا تو اسلئے کہا جاتا ہے کہ اس میں برکت کی امید ہوتی ہے اور یا اس لئے کہ اس سے نفس پاکیزہ ہوتا ہے یعنی خیرات و برکات کے ذریعہ اس میں نمو ہوتا ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس کے تسمیہ میں ان ہر دو کا لحاظ کیا گیا ہو ۔ کیونکہ یہ دونوں خوبیاں زکوۃ میں موجود ہیں قرآن میں اللہ تعالیٰ نے نما ز کے ساتھ ساتھ زکوۃٰ کا بھی حکم دیا ہے چناچہ فرمایا : وَأَقِيمُوا الصَّلاةَ وَآتُوا الزَّكاةَ [ البقرة 43] نماز قائم کرو اور زکوۃ ٰ ادا کرتے رہو ۔ - - آخرت - آخِر يقابل به الأوّل، وآخَر يقابل به الواحد، ويعبّر بالدار الآخرة عن النشأة الثانية، كما يعبّر بالدار الدنیا عن النشأة الأولی نحو : وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ [ العنکبوت 64] ، وربما ترک ذکر الدار نحو قوله تعالی: أُولئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ [هود 16] . وقد توصف الدار بالآخرة تارةً ، وتضاف إليها تارةً نحو قوله تعالی: وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأنعام 32] ، وَلَدارُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ اتَّقَوْا[يوسف 109] .- وتقدیر الإضافة : دار الحیاة الآخرة .- اخر ۔ اول کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے اور اخر ( دوسرا ) واحد کے مقابلہ میں آتا ہے اور الدارالاخرۃ سے نشاۃ ثانیہ مراد لی جاتی ہے جس طرح کہ الدار الدنیا سے نشاۃ اولیٰ چناچہ فرمایا وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوَانُ ( سورة العنْکبوت 64) ہمیشہ کی زندگی کا مقام تو آخرت کا گھر ہے لیکن کھی الدار کا لفظ حذف کر کے صرف الاخرۃ کا صیغہ استعمال کیا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ أُولَئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ ( سورة هود 16) یہ وہ لوگ ہیں جن کے لئے آخرت میں آتش جہنم کے سوا اور کچھ نہیں ۔ اور دار کا لفظ کبھی اخرۃ کا موصوف ہوتا ہے اور کبھی اس کی طر ف مضاف ہو کر آتا ہے چناچہ فرمایا ۔ وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ ( سورة الأَنعام 32) اور یقینا آخرت کا گھر بہتر ہے ۔ ان کے لئے جو خدا سے ڈرتے ہیں ۔ (6 ۔ 32) وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ أَكْبَرُ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ ( سورة النحل 41) اور آخرت کا اجر بہت بڑا ہے ۔ اگر وہ اسے جانتے ہوتے ۔- أجر - الأجر والأجرة : ما يعود من ثواب العمل دنیویاً کان أو أخرویاً ، نحو قوله تعالی: إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ [يونس 72] ، وَآتَيْناهُ أَجْرَهُ فِي الدُّنْيا وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ [ العنکبوت 27] ، وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ آمَنُوا [يوسف 57] .- والأُجرة في الثواب الدنیوي، وجمع الأجر أجور، وقوله تعالی: وَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ [ النساء 25] كناية عن المهور، والأجر والأجرة يقال فيما کان عن عقد وما يجري مجری العقد، ولا يقال إلا في النفع دون الضر، نحو قوله تعالی: لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 199] ، وقوله تعالی: فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ [ الشوری 40] . والجزاء يقال فيما کان عن عقدٍ وغیر عقد، ويقال في النافع والضار، نحو قوله تعالی: وَجَزاهُمْ بِما صَبَرُوا جَنَّةً وَحَرِيراً [ الإنسان 12] ، وقوله تعالی: فَجَزاؤُهُ جَهَنَّمُ [ النساء 93] .- يقال : أَجَر زيد عمراً يأجره أجراً : أعطاه الشیء بأجرة، وآجَرَ عمرو زيداً : أعطاه الأجرة، قال تعالی: عَلى أَنْ تَأْجُرَنِي ثَمانِيَ حِجَجٍ [ القصص 27] ، وآجر کذلک، والفرق بينهما أنّ أجرته يقال إذا اعتبر فعل أحدهما، وآجرته يقال إذا اعتبر فعلاهما «1» ، وکلاهما يرجعان إلى معنی واحدٍ ، ويقال : آجره اللہ وأجره اللہ .- والأجير : فعیل بمعنی فاعل أو مفاعل، والاستئجارُ : طلب الشیء بالأجرة، ثم يعبّر به عن تناوله بالأجرة، نحو : الاستیجاب في استعارته الإيجاب، وعلی هذا قوله تعالی:- اسْتَأْجِرْهُ إِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْأَمِينُ [ القصص 26] .- ( ا ج ر ) الاجر والاجرۃ کے معنی جزائے عمل کے ہیں خواہ وہ بدلہ دنیوی ہو یا اخروی ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ [هود : 29] میرا اجر تو خدا کے ذمے ہے ۔ وَآتَيْنَاهُ أَجْرَهُ فِي الدُّنْيَا وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ [ العنکبوت : 27] اور ان کو دنیا میں بھی ان کا صلہ عنایت کیا اور وہ آخرت میں بھی نیک لوگوں میں سے ہوں گے ۔ وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ آمَنُوا [يوسف : 57] اور جو لوگ ایمان لائے ۔ ۔۔۔ ان کے لئے آخرت کا اجر بہت بہتر ہے ۔ الاجرۃ ( مزدوری ) یہ لفظ خاص کر دنیوی بدلہ پر بولا جاتا ہے اجر کی جمع اجور ہے اور آیت کریمہ : وَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ [ النساء : 25] اور ان کے مہر بھی انہیں ادا کردو میں کنایہ عورتوں کے مہر کو اجور کہا گیا ہے پھر اجر اور اجرۃ کا لفظ ہر اس بدلہ پر بولاجاتا ہے جو کسی عہد و پیمان یا تقریبا اسی قسم کے عقد کی وجہ سے دیا جائے ۔ اور یہ ہمیشہ نفع مند بدلہ پر بولا جاتا ہے ۔ ضرر رساں اور نقصان دہ بدلہ کو اجر نہیں کہتے جیسے فرمایا لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ البقرة : 277] ان کو ان کے کاموں کا صلہ خدا کے ہاں ملے گا ۔ فَأَجْرُهُ عَلَى اللهِ ( سورة الشوری 40) تو اس کا بدلہ خدا کے ذمے ہے الجزاء ہر بدلہ کو کہتے ہیں خواہ وہ کسی عہد کی وجہ سے ہو یا بغیر عہد کے اچھا ہو یا برا دونوں پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ فرمایا ۔ وَجَزَاهُمْ بِمَا صَبَرُوا جَنَّةً وَحَرِيرًا [ الإنسان : 12] اور ان کے صبر کے بدلے ان کو بہشت کے باغات اور ریشم ( کے ملبوسات) عطا کریں گے ۔ فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ ( سورة النساء 93) اس کی سزا دوزخ ہے ۔ محاورہ میں ہے اجر ( ن ) زید عمرا یا جرہ اجرا کے معنی میں زید نے عمر کو اجرت پر کوئی چیز دی اور اجر عمر زیدا کے معنی ہوں گے عمرو نے زید کو اجرت دی قرآن میں ہے :۔ عَلَى أَنْ تَأْجُرَنِي ثَمَانِيَ حِجَجٍ [ القصص : 27] کہ تم اس کے عوض آٹھ برس میری خدمت کرو ۔ اور یہی معنی اجر ( مفاعلہ ) کے ہیں لیکن اس میں معنی مشارکت کا اعتبار ہوتا ہے اور مجرد ( اجرتہ ) میں مشارکت کے معنی ملحوظ نہیں ہوتے ہاں مال کے لحاظ سے دونوں ایک ہی ہیں ۔ محاورہ ہی ۔ اجرہ اللہ واجرہ دونوں طرح بولا جاتا ہے یعنی خدا اسے بدلہ دے ۔ الاجیرہ بروزن فعیل بمعنی فاعل یا مفاعل ہے یعنی معاوضہ یا اجرت کا پر کام کرنے والا ۔ الاستیجار کے اصل معنی کسی چیز کو اجرت پر طلب کرنا پھر یہ اجرت پر رکھ لینے کے معنی میں بولا جاتا ہے جس طرح کہ استیجاب ( استفعال ) بمعنی اجاب آجاتا ہے چناچہ آیت کریمہ : اسْتَأْجِرْهُ إِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْأَمِينُ [ القصص : 26] اسے اجرت پر ملازم رکھ لیجئے کیونکہ بہتر ملازم جو آپ رکھیں وہ ہے جو توانا اور امانت دار ہو میں ( استئجار کا لفظ ) ملازم رکھنے کے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

قول باری ہے لکن الراسخون فی العلم منھم۔ مگر ان میں سے جو لوگ پختہ علم رکھنے والے ہیں) قتادہ سے مروی ہے کہ لفظ ” شکن “ یہاں استثناء کے معنی دے رہا ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ لفظ الا اور لفظ لکن کبھی نفی کے بعد ایجاب یا ایجاب کے نفی میں ایک جیسے ہوتے ہیں ۔ الا کا اطلاق کر کے اس سے لکن مراد لیا جاتا ا ہے جس طرح یہ قول باری ہے وماکان لمومن ان یقتل مومنا الاخطا۔ اس کے معنی ہیں لیکن اگر وہ اسے خطاء قتل کر دے تو ایک غلام آزاد کرنا ہوگا۔ اس جگہ الا کو لکن کی جگہ لایا گیا تاہم لکن حرف الا سے اس چیز میں جدا ہے کہ الا کے ذریعے کل میں سے بعض کو خارج کردیا جاتا ہے اور لکن ایک کے بعد بھی ہوسکتا ہے مثلا آپ یہ کہیں ” ماجاءنی زید لکن عمرو “ (میرے پاس زید ن ہیں آیا لیکن عمر آیا) لکن کی حقیقت استدراک یعنی ماقبل کے کسی بیان کی تلافی کرنا یا غلطی کی اصلاح کرنا ہے جبکہ الا تخصیص کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ غلوفی الدین کیا ہے ؟

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٦٢) لیکن جو اہل علم توریت کا صحیح علم رکھتے ہیں جیسا کہ عبداللہ بن سلام اور ان کے ساتھی وہ قرآن کریم اور تمام کتب سماویہ پر ایمان لاتے ہیں اور ان کا اقرار کرتے ہیں، اگرچہ دوسرے یہودی اس کا اقرار نہ کریں ،- اور تمام مومن قرآن کریم اور تمام آسمانی کتب کا اقرار کرتے ہیں اور پانچوں نمازوں کو ادا کرتے اور اپنے مالوں کی زکوٰۃ دیتے ہیں، نیز تمام آسمانی کتب کا اقرار کرتے ہیں اور پانچوں نمازوں کو ادا کرتے اور اپنے مالوں کی زکوٰۃ دیتے ہیں، نیز تمام آسمانی کتب اور قرآن کریم پر ایمان کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ اور بعث بعد الموت پر بھی ایمان رکھتے ہیں اگرچہ یہود اس کا اقرار نہ کریں اور ہم ایسے اہل ایمان کو جنت میں اجر عظیم عطا فرمائیں گے ،

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٦٢ (لٰکِنِ الرّٰسِخُوْنَ فِی الْْعِلْمِ مِنْہُمْ وَالْمُؤْمِنُوْنَ ) - یعنی یہود میں سے اہل علم لوگ جیسے عبداللہ بن سلام ( علیہ السلام) اور ایسے ہی راست باز لوگ جنہوں نے تورات کے علم کی بنا پر نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تصدیق کی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لائے۔- ( یُؤْمِنُوْنَ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ وَمَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ ) (وَالْمُقِیْمِیْنَ الصَّلٰوۃَ وَالْمُؤْتُوْنَ الزَّکٰوۃَ وَالْمُؤْمِنُوْنَ باللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ ط) (اُولٰٓءِکَ سَنُؤْتِیْہِمْ اَجْرًا عَظِیْمًا ) ۔ - ان آیات میں ابھی بھی تھوڑی سی گنجائش رکھی جا رہی ہے کہ اہل کتاب میں سے کوئی ایسا عنصر اگر اب بھی موجود ہو جو حق کی طرف مائل ہو ‘ اب بھی اگر کوئی سلیم الفطرت فرد کہیں کونے کھدرے میں پڑا ہو ‘ اگر اس کان میں ہیرے کا کوئی ٹکڑا کہیں ابھی تک پڑا رہ گیا ہو ‘ تو وہ بھی نکل آئے اس سے پہلے کہ آخری دروازہ بھی بند کردیا جائے۔ تو ابھی آخری دروازہ نہ تو منافقین پر بند کیا گیا ہے اور نہ ان اہل کتاب پر ‘ بلکہ لٰکِنِ الرّٰسِخُوْنَ فِی الْْعِلْمِ فرما کر ایک دفعہ پھر صلائے عام دے دی گئی ہے کہ اہل کتاب میں سے اب بھی اگر کچھ لوگ مائل بہ حق ہیں تو وہ متوجہ ہوجائیں۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :203 یعنی ان میں سے جو لوگ کتب آسمانی کی حقیقی تعلیم سے واقف ہیں اور ہر قسم کے تعصب ، جاہلانہ ضد ، آبائی تقلید اور نفس کی بندگی سے آزاد ہو کر اس امر حق کو سچے دل سے مانتے ہیں جس کا ثبوت آسمانی کتابوں سے مِلتا ہے ، ان کی روش کافر وظالم یہودیوں کی عام روش سے بالکل مختلف ہے ۔ ان کو بیک نظر محسوس ہو جاتا ہے کہ جس دین کی تعلیم پچھلے انبیاء نے دی تھی اسی کی تعلیم قرآن دے رہا ہے ، اس لیے وہ بے لاگ حق پرستی کے ساتھ دونوں پر ایمان لے آتے ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani