Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

یتیموں کی نگہداشت اور چار شادیوں کی اجازت اللہ تعالیٰ یتیموں کے والیوں کو حکم دیتا ہے کہ جب یتیم بلوغت اور سمجھداری کو پہنچ جائیں تو ان کے جو مال تمہارے پاس ہو انہیں سونپ دو ، پورے پورے بغیر کمی اور خیانت کے ان کے حوالے کرو ، اپنے مالوں کے ساتھ ملا کر گڈمڈ کر کے کھا جانے کی نیت نہ رکھو ، حلال رزق جب اللہ رحیم تمہیں دے رہا ہے پھر حرام کی طرف کیوں منہ اٹھاؤ؟ تقدیر کی روزی مل کر ہی رہے گی اپنے حلال مال چھوڑ کر لوگوں کے مالوں کو جو تم پر حرام ہیں نہ لو ، دبلا پتلا جانور دے کر موٹا تازہ نہ لو ، بوٹی دے کر بکرے کی فکر نہ کرو ، ردی دے کر اچھے کی اور کھوٹا دے کر کھرے کی نیت نہ رکھو ، پہلے لوگ ایسا کر لیا کرتے تھے کہ یتیموں کی بکریوں کے ریوڑ میں سے عمدہ بکری لے لی اور اپنی دبلی پتلی بکری دے کر گنتی پوری کر دی ، کھوٹا درہم اس کے مال میں ڈال کر کھرا نکال لیا اور پھر سمجھ لیا کہ ہم نے تو بکری کے بدلے بکری اور درہم کے بدلے درہم لیا ہے ۔ ان کے مالوں میں اپنا مال خلط ملط کر کے پھر یہ حیلہ کر کے اب امتیاز کیا ہے؟ ان کے مال تلف نہ کرو ، یہ بڑا گناہ ہے ، ایک ضعیف حدیث میں بھی یہی معنی آخری جملے کے مروی ہیں ، ابو داؤد کی حدیث میں ایک دعا میں بھی ( حوب ) کا لفظ گناہ کے معنی میں آیا ہے ، حضرت ابو ایوب نے جب اپنی بیوی صاحبہ کو طلاق دینے کا ارادہ کیا تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایا تھا کہ اس طلاق میں گناہ ہے ، چنانچہ وہ اپنے ارادے سے باز رہے ، ایک روایت میں یہ واقعہ حضرت ابو طلحہ اور ام سلیم کا مروی ہے ۔ پھر فرماتا ہے کہ تمہاری پرورش میں کوئی یتیم لڑکی ہو اور تم اس سے نکاح کرنا چاہتے ہو لیکن چونکہ اس کا کوئی اور نہیں اس لئے تم تو ایسا نہ کرو کہ مہر اور حقوق میں کمی کر کے اسے اپنے گھر ڈال لو اس سے باز رہو اور عورتیں بہت ہیں جس سے چاہو نکاح کر لو ، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں ایک یتیم لڑکی تھی جس کے پاس مال بھی تھا اور باغ بھی جس کی پرورش میں وہ تھی اس نے صرف اس مال کے لالچ میں بغیر اس کا پورا مہر وغیرہ مقرر کرنے کے اس سے نکاح کر لیا جس پر یہ آیت اتری میرا خیال ہے کہ اس باغ اور مال میں یہ لڑکی حصہ دار تھی ، صحیح بخاری شریف میں ہے کہ حضرت ابن شہاب نے حضرت عائشہ سے اس آیت کا مطلب پوچھا تو آپ نے فرمایا بھانجے ، یہ ذکر اس یتیم لڑکی کا ہے جو اپنے ولی کے قبضہ میں ہے اس کے مال میں شریک ہے اور اسے اس کا مال و جمال اچھا لگتا ہے چاہتا ہے کہ اس سے نکاح کر لے لیکن جو مہر وغیرہ اور جگہ سے اسے ملتا ہے اتنا یہ نہیں دیتا تو اسے منع کیا جا رہا ہے کہ وہ اس اپنی نیت چھوڑ دے اور کسی دوسری عورت سے جس سے چاہے اپنا نکاح کر لے ، پھر اس کے بعد لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی کی بابت دریافت کیا اور آیت ( وَيَسْتَفْتُوْنَكَ فِي النِّسَاۗءِ ۭ قُلِ اللّٰهُ يُفْتِيْكُمْ فِيْهِنَّ ) 4 ۔ النسآء:127 ) نازل ہوئی وہاں فرمایا گیا ہے کہ جب یتیم لڑکی کم مال والی اور کم جمال والی ہوتی ہے اس وقت تو اس کے والی اس سے بےرغبتی کرتے ہیں پھر کوئی وجہ نہیں کہ مال و جمال پر مائل ہو کر اس کے پورے حقوق ادا نہ کر کے اس سے اپنا نکاح کر لیں ، ہاں عدل و انصاف سے پورا مہر وغیرہ مقرر کریں تو کوئی حرج نہیں ، ورنہ پھر عورتوں کی کمی نہیں اور کسی سے جس سے چاہیں اظہار نکاح کرلیں دو دو عورتیں اپنے نکاح میں رکھیں اگر چاہیں تین تین رکھیں اگر چاہیں چار چار ، جیسے اور جگہ یہ الفاظ ان ہی معنوں میں ہیں ، فرماتا ہے آیت ( اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ فَاطِرِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ جَاعِلِ الْمَلٰۗىِٕكَةِ رُسُلًا اُولِيْٓ اَجْنِحَةٍ مَّثْنٰى وَثُلٰثَ وَرُبٰعَ ) 35 ۔ فاطر:1 ) یعنی جن فرشتوں کو اللہ تعالیٰ اپنا قاصد بنا کر بھیجتا ہے ان میں سے بعض دو دو پروں والے ہیں بعض تین تین پروں والے بعض چار پروں والے فرشتوں میں اس سے زیادہ پر والے فرشتے بھی ہیں کیونکہ دلیل سے یہ ثابت شدہ ہے ، لیکن مرد کو ایک وقت میں چار سے زیادہ بیویوں کا جمع کرنا منع ہے جیسے کہ اس آیت میں موجود ہے اور جیسے کہ حضرت ابن عباس اور جمہور کا قول ہے ، یہاں اللہ تعالیٰ اپنے احسان اور انعام بیان فرما رہا ہے پس اگر چار سے زیادہ کی اجازت دینی منظور ہوتی تو ضرور فرما دیا جاتا ، حضرت امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں حدیث جو قرآن کی وضاحت کرنے والی ہے اس نے بتلا دیا ہے کہ سوائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی کے لئے چار سے زیادہ بیویوں کا بہ یک وقت جمع کرنا جائز نہیں اسی پر علماء کرام کا اجماع ہے ، البتہ بعض شیعہ کا قول ہے کہ نو تک جمع کرنی جائز ہیں ، بلکہ بعض شیعہ نے تو کہا ہے کہ نو سے بھی زیادہ جمع کر لینے میں بھی کوئی حرج نہیں کوئی تعداد مقرر ہے ہی نہیں ، ان کا استدلال ایک تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل سے ہے جیسا کہ صحیح حدیث میں آچکا ہے کہ آپ کی نو بیویاں تھیں اور بخاری شریف کی معلق حدیث کے بعض راویوں نے گیارہ کہا ہے ، حضرت انس سے مروی ہے کہ آپ نے پندرہ بیویوں سے عقد کیا تیرہ کی رخصتی ہوئی ایک وقت میں گیارہ بیویاں آپ کے پاس تھیں ۔ انتقال کے وقت آپ کی نو بیویاں تھیں رضی اللہ تعالیٰ عنہما اجمعین ، ہمارے علماء کرام اس کے جواب میں فرماتے ہیں کہ یہ آپ کی خصوصیت تھی امتی کو ایک وقت میں چار سے زیادہ پاس رکھنے کی اجازت نہیں ، جیسے کہ یہ حدیثیں اس امر پر دلالت کرتی ہیں ، حضرت غیلان بن سلمہ ثقفی رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب مسلمان ہوتے ہیں تو ان کے پاس ان کی دس بیویاں تھیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ ان میں سے جنہیں چاہو چار رکھ لو باقی کو چھوڑ دو چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا پھر حضرت عمر کی خلافت کے زمانے میں اپنی ان بیویوں کو بھی طلاق دے دی اور اپنے لڑکوں کو اپنا مال بانٹ دیا ، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جب یہ معلوم ہوا تو آپ نے فرمایا شاید تیرے شیطان نے بات اچک لی اور تیرے دل میں خیال جما دیا کہ تو عنقریب مرنے والا ہے اس لئے اپنی بیویوں کو تو نے الگ کر دیا کہ وہ تیرا مال نہ پائیں اور اپنا مال اپنی اولاد میں تقسیم کر دیا میں تجھے حکم دیتا ہوں کہ اپنی بیویوں سے رجوع کر لے اور اپنے اولاد سے مال واپس لے اگر تو نے ایسا نہ کیا تو تیرے بعد تیری ان مطلقہ بیویوں کو بھی تیرا وارث بناؤں گا کیونکہ تو نے انہیں اسی ڈر سے طلاق دی ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ تیری زندگی بھی اب ختم ہونے والی ہے اور اگر تو نے میری بات نہ مانی تو یاد رکھ میں حکم دوں گا کہ لوگ تیری قبر پر پتھر پھینکیں جیسے کہ ابو رغال کی قبر پر پتھر پھینکے جاتے ہیں ( مسند احمد شافعی ترمذی ابن ماجہ دار قطنی بیہقی وغیرہ ) مرفوع حدیث تک تو ان سب کتابوں میں ہے ہاں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ والا واقعہ صرف مسند احمد میں ہی ہے لیکن یہ زیادتی حسن ہے ، اگرچہ امام بخاری نے اسے ضعیف کہا ہے اور اس کی اسناد کا دوسرا طریقہ بتا کر اس طریقہ کو غیر محفوظ کہا ہے مگر اس تعلیل میں بھی اختلاف ہے واللہ اعلم اور بزرگ محدثین نے بھی اس پر کلام کیا ہے لیکن مسند احمد والی حدیث کے تمام راوی ثقہ ہیں اور شرط شیخین پر ہیں ایک اور روایت میں ہے کہ یہ دس عورتیں بھی اپنے خاوند کے ساتھ مسلمان ہوئی تھیں ملاحظہ ہو ( سنن نسائی ) ، اس حدیث سے صاف ظاہر ہو گیا کہ اگر چار سے زیادہ کا ایک وقت میں نکاح میں رکھنا جائز ہوتا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان سے یہ نہ فرماتے کہ اپنی ان دس بیویوں میں سے چار کو جنہیں تم چاہو روک لو باقی کو چھوڑ دو کیونکہ یہ سب بھی اسلام لا چکی تھیں ، یہاں یہ بات بھی خیال میں رکھنی چاہئے کہ ثقفی کے ہاں تو یہ دس عورتیں بھی موجود تھی اس پر بھی آپ نے چھ علیحدہ کرا دیں پھر بھلا کیسے ہو سکتا ہے کہ کوئی شخص نئے سرے سے چار سے زیادہ جمع کرے؟ واللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم با الصواب چار سے زائد نہیں ، وہ بھی بشرط انصاف ورنہ ایک ہی بیوی دوسری حدیث ابو داؤد ابن ماجہ وغیرہ میں ہے حضرت امیرہ اسدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں میں نے جس وقت اسلام قبول کیا میرے نکاح میں آٹھ عورتیں تھیں میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا آپ نے فرمایا ان میں سے جن چار کو چاہو رکھ لو ، اس کی سند حسن ہے اور اس کے شواہد بھی ہیں راویوں کے ناموں کا ہیر پھیر وغیرہ ایسی روایات میں نقصان دہ نہیں ہوتا تیسری حدیث مسند شافعی میں ہے حضرت نوفل بن معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے جب اسلام قبول کیا اس وقت میری پانچ بیویاں تھیں مجھ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان میں سے پسند کر کے چار کو رکھ لو اور ایک کو الگ کر دو میں نے جو سب سے زیادہ عمر کی بڑھیا اور بے اولاد بیوی ساٹھ سال کی تھیں انہیں طلاق دے دی ، پس یہ حدیثیں حضرت غیلان والی پہلی حدیث کی شواہد ہیں جیسے کہ حضرت امام بیہقی نے فرمایا ۔ پھر فرماتا ہے ہاں اگر ایک سے زیادہ بیویوں میں عدل و انصاف نہ ہو سکنے کا خوف ہو تو صرف ایک ہی پر اکتفا کرو اور اپنی کنیزوں سے استمتاع کرو جیسے اور جگہ ہے آیت ( وَلَنْ تَسْتَطِيْعُوْٓا اَنْ تَعْدِلُوْا بَيْنَ النِّسَاۗءِ وَلَوْ حَرَصْتُمْ فَلَا تَمِيْلُوْا كُلَّ الْمَيْلِ فَتَذَرُوْھَا كَالْمُعَلَّقَةِ ) 4 ۔ النسآء:129 ) یعنی گو تم چاہو لیکن تم سے نہ ہو سکے گا کہ عورتوں کے درمیان پوری طرح عدل و انصاف کو قائم رکھ سکو پس بالکل ایک ہی طرف جھک کر دوسری کو مصیبت میں نہ ڈال دو ، ہاں یاد رہے کہ لونڈیاں میں باری وغیرہ کی تقسیم واجب نہیں البتہ مستحب ہے جو کرے اس نے اچھا کیا اور جو نہ کرے اس پر حرج نہیں ۔ اس کے بعد کے جملے کے مطلب میں بعض نے تو کہا ہے کہ یہ قریب ہے ان معنی کے کہ تمہارے عیال یعنی فقیری زیادہ نہ ہو جیسے اور جگہ ہے آیت ( وان خفتم ) یعنی اگر تمہیں فقر کا ڈر ہو ، عربی شاعر کہتا ہے ۔ فما یدری الفقیر متی غناہ وما یدری الغنی متی یعیل یعنی فقیر نہیں جانتا کہ کب امیر ہو جائے گا ، اور امیر کو معلوم نہیں کہ کب فقیر بن جائے گا ، جب کوئی مسکین محتاج ہو جائے تو عرب کہتے ہیں ( عال الرج ) یعنی یہ شخص فقیر ہو گیا غرض اس معنی میں یہ لفظ مستعمل تو ہے لیکن یہاں یہ تفسیر کچھ زیادہ اچھی نہیں معلوم ہوتی ، کیونکہ اگر آزاد عورتوں کی کثرت فقیری کا باعث بن سکتی ہے تو لونڈیوں کی کثرت بھی فقیری کا سبب ہو سکتی ہے ، پس صحیح قول جمہور کا ہے کہ مرادیہ ہے کہ یہ قریب ہے اس سے کہ تم ظلم سے بچ جاؤ ، عرب میں کہا جاتا ہے ( عال فی الحکم ) جبکہ ظلم و جور کیا ہو ، ابو طالب کے مشہور قصیدے میں ہے ۔ بمیزان قسط لا یخبس شعیرۃ لہ شاہدمن نفسہ غیر عائل ضمیر بہترین ترازو ہے یعنی ایسی ترازو سے تولتا ہے جو ایک جو برابر کی بھی کمی نہیں کرتا اس کے پاس اس کا گواہ خود اس کا نفس ہے جو ظالم نہیں ہے ابن جریر میں ہے کہ جب کوفیوں نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر ایک خط کچھ الزام لکھ کر بھیجے تو ان کے جواب میں خلیفہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے لکھا کہ ( انی لست بمیزان اعول ) میں ظلم کا ترازو نہیں ہوں ، صحیح ابن حبان وغیرہ میں ایک مرفوع حدیث اس جملہ کی تفسیر میں مروی ہے کہ اس کا معنی ہے تم ظلم نہ کرو ، ابو حاتم رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں اس کا مرفوع ہونا تو خطا ہے ہاں یہ حضرت عائشہ کا قول ہے اسی طرح لا تعولوا کے یہی معنی میں یعنی تم ظلم نہ کرو حضرت عبداللہ بن عباس ، حضرت عائشہ ، حضرت مجاہد ، حضرت عکرمہ ، حضرت حسن ، حضرت ابو مالک ، حضرت ابو زرین ، حضرت نخعی ، حضرت شعبی ، حضرت ضحاک ، حضرت عطاء خراسانی ، حضرت قتادہ ، حضرت سدی اور حضرت مقاتل بن حیان وغیرہ سے بھی مروی ہیں ۔ حضرت عکرمہ رحمتہ اللہ علیہ نے بھی ابو طالب کا وہی شعر پیش کیا ہے ، امام ابن جریر نے اسے روایت کیا ہے اور خود امام صاحب بھی اسی کو پسند فرماتے ہیں ۔ پھر فرماتا ہے اپنی بیویوں کو ان کے مہر خوش دلی سے ادا کر دیا کرو جو بھی مقرر ہوئے ہوں اور جن کو تم نے منظور کیا ہو ، ہاں اگر عورت خود اپنا سارا یا تھوڑا بہت مہر اپنی خوشی سے مرد کو معاف کر دے تو اسے اختیار ہے اور اس صورت میں بیشکل مرد کو اس کا اپنے استعمال میں لانا حلال طیب ہے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی کو جائز نہیں کہ بغیر مہر واجب کے نکاح کرے نہ یہ کہ جھوٹ موٹ مہر کا نام ہی نام ہو ، ابن ابی حاتم میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول مروی ہے کہ تم میں سے جب کوئی بیمار پڑے تو اسے چاہئے کہ اپنی بیوی سے اس کے مال کے تین درہم یا کم و بیش لے ان کا شہد خرید لے اور بارش کا آسمانی پانی اس میں ملالے تو تین تین بھلائیاں مل جائیں گی آیت ( ہنیأ امریأ ) تو مال عورت اور شفاء شہد اور مبارک بارش کا پانی ۔ حضرت ابو صالح فرماتے ہیں کہ لوگ اپنی بیٹیوں کا مہر آپ لیتے تھے جس پر یہ آیت اتری اور انہیں اس سے روک دیا گیا ( ابن ابی حاتم اور ابن جریر ) اس حکم کو سن کر لوگوں نے رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ ان کا مہر کیا ہونا چاہئے؟ آپ نے فرمایا جس چیز پر بھی ان کے ولی رضامند ہو جائیں ( ابن ابی حاتم ) حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خطبے میں تین مرتبہ فرمایا کہ بیوہ عورتوں کا نکاح کر دیا کرو ، ایک شخص نے کھڑے ہو کر پوچھا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسی صورت میں ان کا مہر کیا ہوگا ؟ آپ نے فرمایا جس پر ان کے گھر والے راضی ہو جائیں ، اس کے ایک راوی ابن سلمانی ضعیف ہیں ، پھر اس میں انقطاع بھی ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

2۔ 1 یتیم جب بالغ اور باشعور ہوجائیں تو ان کا مال ان کے سپرد کردو، خبیث سے گھٹیا چیزیں اور طیب سے عمدہ چیزیں مراد ہیں یعنی ایسا نہ کرو کہ ان کے مال سے اچھی چیزیں لے لو اور محض گنتی پوری کرنے کے لئے گھٹیا چیزیں ان کے بدلے میں رکھ دو ، بدلایا گیا مال جو اگرچہ اصل میں طیب (پاک اور حلال) ہے لیکن تمہاری اس بددیانتی نے اس میں خباثت داخل کردی اور وہ اب طیب نہیں رہا، بلکہ تمہارے حق میں وہ خبیث (ناپاک اور حرام) ہوگیا۔ اسی طرح بددیانتی سے ان کا مال اپنے مال میں ملا کر کھانا بھی ممنوع ہے ورنہ اگر مقصد خیر خواہی ہو تو ان کے مال کو اپنے مال میں ملانا جائز ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٤] یتیم کی سرپرستی اور خیرخواہی :۔ معاشرتی قباحتوں میں سے سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے یتیموں کے حقوق کی طرف توجہ دلائی۔ یتیم کی پرورش کرنا بہت بڑی نیکی ہے۔ چناچہ آپ نے فرمایا میں اور یتیم کا سرپرست جنت میں اس طرح ہوں گے۔ پھر آپ نے اپنی شہادت کی اور درمیانی انگلی ذرا کھول کر اشارہ کیا۔ (بخاری۔ کتاب الادب۔ باب فضل من یعول یتیما) لیکن عرب میں یتیموں کے حقوق کئی طرح سے پامال ہو رہے تھے۔ انہی حقوق کی پامالی کا بالترتیب یہاں ذکر ہو رہا ہے۔ مثلاً جو چیزیں بطور امانت سرپرست کے پاس ہوتیں انہیں واپس کرتے وقت وہ یہ کوشش کرتا کہ اچھی چیز کے بدلے کوئی پرانی اور گھٹیا چیز دے کر خانہ پری کر دے۔ دوسری صورت یہ تھی کہ کھانے پینے کی اشیاء کو ملا جلا لیا جس میں یتیم کو کسر لگانے اور اپنا فائدہ ملحوظ رکھنے کی کوشش کی جاتی تھی۔ ان دونوں باتوں سے منع کرتے ہوئے ایک اصولی بات بتلا دی کہ جس طریقے سے بھی تم یتیم کا مال کھاؤ۔ بہرحال یہ بہت بڑا گناہ ہے۔- واضح رہے کہ پہلے یہ حکم دیا گیا تھا کہ یتیم کے کھانے پینے کی اشیاء اپنی اشیاء میں نہ ملاؤ۔ اس طرح بھی یتیم کو بعض دفعہ نقصان پہنچ جاتا تھا۔ مثلاً کھانا زیادہ پک گیا یا جتنا پکا تھا اتنا وہ کھا نہ سکا۔ اس لیے ایسی اشیائے خوردو نوش کو ملانے کی اجازت تو دے دی گئی مگر اس احتیاط کے ساتھ کہ یتیم کو کسی طرح بھی نقصان نہ پہنچے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَاٰتُوا الْيَــتٰمٰٓى اَمْوَالَھُمْ : یعنی جب یتیم بالغ ہوجائیں تو ان کے اموال ان کے سپرد کر دو اور یہ نہ کرو کہ یتیم کے مال سے اچھی چیز (طیب) لے کر اس کی جگہ ردی چیز (خبیث) رکھ دو ۔ طیب اور خبیث حلال اور حرام کے معنی میں بھی آتے ہیں، اس لیے بعض نے یہ معنی کیا ہے کہ اپنا حلال مال چھوڑ کر دوسرے کا مال مت کھاؤ جو تمہارے لیے حرام ہے۔ “ آیت میں ” الٰی “ بمعنی ” مَعَ “ ہے، یعنی ان کے اموال کو ناجائز طریقے سے کھانے کے لیے اپنے مالوں کے ساتھ مت ملاؤ، ایسا کرنا کبیرہ گناہ ہے۔ ہاں، اصلاح کی نیت سے ملانا جائز ہے۔ [ دیکھیے البقرۃ : (٢٢٠) ]

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

یتیموں کے حقوق اور ان کے اموال کی حفاظت :۔ - پہلی آیت میں مطلقاً قرابت کی حفاظت اور اس کے حقوق ادا کرنے کی تاکید عام انداز میں بیان فرمانے کے بعد دوسری آیت میں یتیموں کے اموال کی حفاظت کا حکم اور ان میں کسی قسم کی خورد برد کرنے کی ممانتع ہے، کیونکہ یتیم بچے کا نگران اور ولی عموماً اس کا کوئی رشتہ دار ہوتا ہے، اس لئے اس کا تعلق بھی حق قرابت کی ادائیگی سے ہے۔- پہلے جملہ میں ارشاد ہے : واتوالیتمی اموالھم جس کا ترجمہ یہ ہے کہ ” یتمیوں کے مال انہی کو پہنچاؤ۔ “ یتیم کے لفظی معنی اکیلے اور منفرد کے ہیں، اسی لئے جو موتی سیپ میں تنہا ایک ہو، اس کو در یتیم کہا جاتا ہے، اصطلاح شرع میں اس بچہ کو یتیم کہا جاتا ہے جس کا باپ مر گیا ہو اور جانوروں میں اس کو یتیم کہا جاتا ہے جس کی ماں مر گئی ہو، (قاموس) بالغ ہونے کے بعد شرعی اصطلاح میں اس کو یتیم نہیں کہا جائے گا، جیسا کہ حدیث شریف میں تصریح ہے لایتم بعد احتلام، یعنی ” بلوغ کے بعد یتیمی باقی نہیں رہتی (مشکوة شریف، “ ص ٤٨٢) - یتیم بچوں کی ملکیت میں اگر کچھ مال ہے جو ان کو کسی نے ہبہ کیا ہو، یا کسی کی میراث میں ان کو پہنچ گیا ہو تو یتیم کے ساتھ اس کے مال کی حفاظت بھی اس شخص کے ذمہ ہے جو یتیم کا ولی ہے، خواہ اس ولی کا تقرر اس کے مرنے والے باپ نے خود کردیا ہو، یا حکومت کی جانب سے کوئی ولی مقرر کیا گیا ہو، ساتھ ہی ولی میں یہ بھی لازم ہے کہ یتیم کے ضروری اخراجات تو اس کے مال سے پورے کرے، لیکن اس کا مال بالغ ہونے سے پہلے اس کے قبضہ میں نہ دے، کیونکہ وہ ناسمجھ بچہ ہے، کہیں ضائع کر دے گا، تو آیت کے اس جملے میں جو ارشاد فرمایا گیا کہ یتیموں کے مال ان کو پہنچا دو اس کی توضیح آگے پانچویں آیت میں آتی ہے جس میں بتلایا گیا ہے کہ ان کے مال ان کو اس وقت پہنچاؤ جب دیکھ لو کہ وہ بالغ ہوگئے اور ان کو اپنے نفع و نقصان اور بھلے برے کی تمیز پیدا ہوگئی۔- اس لئے اس آیت میں یتیموں کے اموال ان کو پہنچانے کا مطلب یہ ہوا کہ ان اموال کی حفاظت کرو، تاکہ اپنے وقت پر یہ مال ان کو پہنچائے جاسکیں، اس کے علاوہ اس جملے میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ ولی یتیم کی ذمہ داری صرف اتنی ہی نہیں ہے کہ یتیم کے مال کو خود نہ کھائے یا خود ضائع نہ کرے، بلکہ اس کے فرائض میں سے یہ بھی ہے کہ اس کی حفاظت کرکے اس قابل بنائے کہ بالغ ہونے کے بعد اس کو مل سکے۔- دوسرے جملہ میں ارشاد ہے :- ولاتتبدلوا الخبیث بالطیب، یعنی ” اچھی چیز کا بری چیز سے تبادلہ مت کرو۔ “ بعض لوگ ایسا کرتے تھے کہ یتیم کے مال کی تعداد تو محفوظ رکھتے تھے مگر اس میں جو اچھی چیز نظر آتی وہ خود لے لی اور اس کی جگہ اپنی خراب چیز رکھ دی، عمدہ بکری کے بدلہ میں لاغر بیمار بکری اس کے مال میں لگا دی، یا کھرے نقد کے بدلے میں کھوٹا رکھ دیا۔ یہ بھی چونکہ مال یتیم میں خیانت ہے اور ممکن تھا کہ کسی شخص کا نفس یہ حیلہ تراشے کہ ہم نے تو یتیم کا مال لیا نہیں بلکہ بدلا ہے، اس لئے قرآن کریم نے صراحتا اس کی ممانعت فرما دی، اس ممانعت میں جس طرح یہ داخل ہے کہ خود اپنی خراب چیز دے کر اچھی چیزلے لیں، اسی طرح یہ بھی داخل ہے کہ کسی دوسرے شخص سے تبادلہ کا ایسا معاملہ کرلیں جس میں یتیم بچے کا نقصان ہو۔ - تیسرے جملہ میں ارشاد فرمایا : ولاتاکلوا اموالھم الی اموالکم، یعنی ’ یتیموں کے مال کو اپنے مال میں ملا کر نہ کھا جاؤ۔ “ ظاہر ہے کہ اس کا مقصد تو یتیم کے مال کو ناجائز طور پر کھا جانے کی ممانعت ہے، خواہ اپنے مال میں ملا کر کھا جائے یا علیحدہ رکھ کر کھائے، لیکن عام طور پر ہوتا یہ ہے کہ یتیموں کا مال اپنے مال میں شامل رکھا، اس میں سے خود بھی کھایا یتیم کو بھی کھلا دیا، اس صورت میں جداگانہ حساب نہ ہونے کی وجہ سے ایک دیندار متبع شریعت کو بھی یہ دھوکہ ہوسکتا ہے کہ اس میں کوئی گناہ نہیں، اس لئے خاص طور سے اپنے اموال کے ساتھ ملا کر کھانے کی حرمت کا ذکر اور اس پر تنبیہ فرما دی کہ یا تو یتیم کے مال کو بالکل علیحدہ رکھو، اور علیحدہ خرچ کرو جس میں کسی زیادتی کا خطرہ ہی نہ رہے، یا پھر ملا کر رکھو تو اس حساب سے رکھو جس میں یہ یقین ہو کہ یتیم کا مال تمہارے ذاتی خرچ میں نہیں آیا، اس کی تشریح سورة بقرہ کے رکوع ٧٢ میں گذر چکی ہے، واللہ یعلم المفسد من المصلح۔- اس طرز بیان میں اس طرف بھی اشارہ فرمایا دیا کہ یتیموں کے مال میں خورد برد کرنے والے عموماً وہ لوگ ہوتے ہیں جن کے پاس اپنے مال بھی موجود ہوتے ہیں، تو اس عنوان سے ان کو عار دلائی گئی کہ اپنا حلال مال موجود ہوتے ہوئے یتیموں کا مال حرام طور پر کھا جانا بڑی شرک کی بات ہے۔- آیت میں مال یتیم کے کھانے کی ممانعت کا ذکر ہے، اس لئے کہ مال کا سب سے بڑا اہم فائدہ کھانا ہے، لیکن محاورہ میں مال کے ہر تصرف کو کھانا بولا جاتا ہے، خواہ استعمال کر کے جو یا کھا کر، قرآن کریم نے بھی اسی محاورے پر لاتاکلوا فرمایا ہے، اس میں ہر ناجائز تصرف داخل ہے، لہٰذا یتیم کے مال کو کسی بھی طریقہ سے ناجائز طور پر خرچ کرنا حرام ہوا۔- آیت کے آخری جملہ میں ارشاد فرمایا انہ کان حوباً کبیراً ، لفظ حوب، بقول ابن عباس (رض) حبشی زبان کا لفظ ہے، اس کے معنی ہیں بڑا گناہ، عربی زبان میں بھی یہ لفظ اسی معنی کے لئے بولا جاتا ہے، معنی یہ ہوئے کہ مال یتیم میں کسی قسم کا ناجائز تصرف خواہ حفاظت کی کمی سے ہو یا خراب چیز کے بدلہ میں اچھی چیز لے کر ہو، یا اپنے مال کے ساتھ ملا کر اس کا مال کھانے سے ہو، بہرحال یہ بہت بڑا گناہ ہے اور یتیم کے مال کو کھانے کی سخت وعید اس رکوع کے ختم پر آ رہی ہے :

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَاٰتُوا الْيَــتٰمٰٓى اَمْوَالَھُمْ وَلَا تَتَبَدَّلُوا الْخَبِيْثَ بِالطَّيِّبِ۝ ٠ ۠ وَلَا تَاْكُلُوْٓا اَمْوَالَھُمْ اِلٰٓى اَمْوَالِكُمْ۝ ٠ ۭ اِنَّہٗ كَانَ حُوْبًا كَبِيْرًا۝ ٢- إِيتاء - : الإعطاء، [ وخصّ دفع الصدقة في القرآن بالإيتاء ] نحو : وَأَقامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكاةَ [ البقرة 277] ، وَإِقامَ الصَّلاةِ وَإِيتاءَ الزَّكاةِ [ الأنبیاء 73] ، ووَ لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئاً [ البقرة 229] ، ووَ لَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمالِ [ البقرة 247]- الایتاء ( افعال ) اس کے معنی اعطاء یعنی دینا اور بخشنا ہے ہیں ۔ قرآن بالخصوص صدقات کے دینے پر یہ لفظ استعمال ہوا ہے چناچہ فرمایا :۔ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ [ البقرة : 277] اور نماز پڑہیں اور زکوۃ دیں وَإِقَامَ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءَ الزَّكَاةِ [ الأنبیاء : 73] اور نماز پڑھنے اور زکوۃ دینے کا حکم بھیجا وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ ( سورة البقرة 229) اور یہ جائز نہیں ہے کہ جو مہر تم ان کو دے چکو اس میں سے کچھ واپس لے لو وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمَالِ [ البقرة : 247] اور اسے مال کی فراخی نہیں دی گئی - يتم - اليُتْمُ : انقطاع الصَّبيِّ عن أبيه قبل بلوغه، وفي سائر الحیوانات من قِبَلِ أمّه . قال تعالی: أَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيماً فَآوی[ الضحی 6] ، وَيَتِيماً وَأَسِيراً [ الإنسان 8] وجمعه : يَتَامَى. قال تعالی: وَآتُوا الْيَتامی أَمْوالَهُمْ [ النساء 2] ، إِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوالَ الْيَتامی [ النساء 10] ، وَيَسْئَلُونَكَ عَنِ الْيَتامی [ البقرة 220] وكلُّ منفردٍ يَتِيمٌ ، يقال : دُرَّةٌ يَتِيمَةٌ ، تنبيها علی أنّه انقطع مادّتها التي خرجت منها، وقیل : بَيْتٌ يَتِيمٌ تشبيها بالدّرّة اليَتِيمَةِ.- ( ی ت م ) الیتم - کے معنی نا بالغ بچہ کے تحت شفقت پدری سے محروم ہوجانے کے ہیں ۔ انسان کے علاوہ دیگر حیوانات میں یتم کا اعتبار ماں کیطرف سے ہوتا ہے اور جانور کے چھوٹے بچے کے بن ماں کے رہ جانے کو یتم کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : أَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيماً فَآوی[ الضحی 6] بھلا اس نے تمہیں یتیم پاکر جگہ نہیں دی ۔ وَيَتِيماً وَأَسِيراً [ الإنسان 8] یتیموں اور قیدیوں کو یتیم کی جمع یتامیٰ ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : وَآتُوا الْيَتامی أَمْوالَهُمْ [ النساء 2] اور یتیموں کا مال ( جو تمہاری تحویل میں ہو ) ان کے حوالے کردو ۔ إِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوالَ الْيَتامی [ النساء 10] جو لوگ یتیموں کا مال ( ناجائز طور پر ) کھاتے ہیں ۔ وَيَسْئَلُونَكَ عَنِ الْيَتامی [ البقرة 220] اور تم سے یتیموں کے بارے میں دریاقت کرتے ہیں ۔ مجازا ہر یکتا اور بےمل چیز کو عربی میں یتیم کہاجاتا ہے ۔ جیسا کہ گوہر یکتا درۃ یتیمۃ کہہ دیتے ہیں ۔ اور اس میں اس کے مادہ کے منقطع ہونے پر تنبیہ کرنا مقصود ہوتا ہے اور درۃ کے ساتھ تشبیہ دے کر یکتا مکان کو بھی یتیم کہہ دیا جاتا ہے ۔- ميل - المَيْلُ : العدول عن الوسط إلى أَحَد الجانبین، والمَالُ سُمِّي بذلک لکونه مائِلًا أبدا وزَائلا،- ( م ی ل ) المیل - اس کے معنی وسط سے ایک جانب مائل ہوجانے کے ہیں اور المال کو مال اس لئے کہا جاتا ہے ۔ کہ وہ ہمیشہ مائل اور زائل ہوتا رہتا ہے ۔ - بدل - الإبدال والتَّبدیل والتَّبَدُّل والاستبدال : جعل شيء مکان آخر، وهو أعمّ من العوض، فإنّ العوض هو أن يصير لک الثاني بإعطاء الأول، والتبدیل قد يقال للتغيير مطلقا وإن لم يأت ببدله، قال تعالی: فَبَدَّلَ الَّذِينَ ظَلَمُوا قَوْلًا غَيْرَ الَّذِي قِيلَ لَهُمْ [ البقرة 59] - ( ب د ل ) الا بدال والتبدیل والتبدل الاستبدال - کے معنی ایک چیز کو دوسری کی جگہ رکھنا کے ہیں ۔ یہ عوض سے عام ہے کیونکہ عوض سے عام ہے کیونکہ عوض میں پہلی چیز کے بدلہ میں دوسری چیز لینا شرط ہوتا ہے لیکن تبدیل مطلق تغیر کو کہتے ہیں ۔ خواہ اس کی جگہ پر دوسری چیز نہ لائے قرآن میں ہے فَبَدَّلَ الَّذِينَ ظَلَمُوا قَوْلًا غَيْرَ الَّذِي قِيلَ لَهُمْ [ البقرة 59] تو جو ظالم تھے انہوں نے اس لفظ کو جس کا ان کو حکم دیا گیا تھا بدل کو اس کی جگہ اور لفظ کہنا شروع گیا ۔ - خبث - الخُبْثُ والخَبِيثُ : ما يكره رداءة وخساسة، محسوسا کان أو معقولا، وأصله الرّديء الدّخلة الجاري مجری خَبَثِ الحدید، وذلک يتناول الباطل في الاعتقاد، والکذب في المقال، والقبیح في الفعال، قال عزّ وجلّ : وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبائِثَ [ الأعراف 157] ، أي : ما لا يوافق النّفس من المحظورات، وقوله تعالی: وَمَثَلُ كَلِمَةٍ خَبِيثَةٍ كَشَجَرَةٍ خَبِيثَةٍ [إبراهيم 26] ، فإشارة إلى كلّ كلمة قبیحة من کفر وکذب ونمیمة وغیر ذلك، وقال صلّى اللہ عليه وسلم : «المؤمن أطيب من عمله، والکافر أخبث من عمله» «1» ويقال : خبیث مُخْبِث، أي : فاعل الخبث .- ( خ ب ث )- المخبث والخبیث ۔ ہر وہ چیز جو دری اور خسیں ہونے کی وجہ سے بری معلوم ہو خواہ وہ چیز محسوسات سے ہو یا معقولات ( یعنی عقائد و خیالات ) سے تعلق رکھتی ہو اصل میں خبیث روی اور ناکارہ چیز کو کہتے ہیں جو بمنزلہ لو ہے کی میل کے ہو ۔ اس اعتبار سے یہ اعتقاد باطل کذب اور فعل - قبیح سب کو شامل ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبائِثَ [ الأعراف 157] اور ناپاک چیزوں کو ان پر حرام ٹھہراتے ہیں ۔ یعنی محظورات جو طبیعت کے ناموافق ہیں ۔ آیت :۔ وَمَثَلُ كَلِمَةٍ خَبِيثَةٍ كَشَجَرَةٍ خَبِيثَةٍ [إبراهيم 26] اور ناپاک بات کی مثال ناپاک درخت کی سی ہے ۔ میں کفر ، جھوٹ ، چغلی ہر قسم کی قبیح باتیں داخل ہیں حدیث میں ہے :۔ المومن اطیب من عملہ والکافر اخبث من عملہ ۔ کہ مومن اپنے عمل سے پاک اور کافر اپنے عمل سے ناپاک ہے ۔ اور خبیث ومخبث خبث کے مرتکب کو بھی کہا جاتا ہے ۔- طيب - يقال : طَابَ الشیءُ يَطِيبُ طَيْباً ، فهو طَيِّبٌ. قال تعالی: فَانْكِحُوا ما طاب لَكُمْ [ النساء 3] ، فَإِنْ طِبْنَ لَكُمْ [ النساء 4] ، وأصل الطَّيِّبِ : ما تستلذّه الحواسّ ، وما تستلذّه النّفس، والطّعامُ الطَّيِّبُ في الشّرع : ما کان متناولا من حيث ما يجوز، ومن المکان الّذي يجوز فإنّه متی کان کذلک کان طَيِّباً عاجلا وآجلا لا يستوخم، وإلّا فإنّه۔ وإن کان طَيِّباً عاجلا۔ لم يَطِبْ آجلا، وعلی ذلک قوله : كُلُوا مِنْ طَيِّباتِ ما رَزَقْناكُمْ [ البقرة 172] - ( ط ی ب ) طاب ( ض )- الشئی یطیب طیبا فھم طیب ( کے معنی کسی چیز کے پاکیزہ اور حلال ہونے کے ہیں ) قرآن میں ہے : : فَانْكِحُوا ما طاب لَكُمْ [ النساء 3] تو ان کے سوا عورتیں تم کو پسند ہوں ان سے نکاح کرلو ۔ ، فَإِنْ طِبْنَ لَكُمْ [ النساء 4] ہاں اگر وہ اپنی خوشی سے تم کو چھوڑدیں ۔ اصل میں طیب اسے کہا جاتا ہے جس سے انسان کے حواس بھی لذت یاب ہوں اور نفس بھی اور شریعت کی رو سے الطعام الطیب اس کھانے کو کہا جائے گا جو جائز طریق سے حاصل کیا جائے اور جائز جگہ سے جائز انداز کے مطابق لیا جائے کیونکہ جو غذا اس طرح حاصل کی جائے وہ دنیا اور آخرت دونوں میں خوشگوار ثابت ہوگی ورنہ دنیا کی خوشگوار چیزیں آخرت میں نقصان وہ ثابت ہونگی اسی بنا پر قرآن طیب چیزوں کے کھانے کا حکم دیتا ہے ۔ چناچہ فرمایا ۔ كُلُوا مِنْ طَيِّباتِ ما رَزَقْناكُمْ [ البقرة 172] جو پاکیزہ چیزیں ہم نے تمہیں عطا فرمائی ہیں اور ان کو کھاؤ ۔- أكل - الأَكْل : تناول المطعم، وعلی طریق التشبيه قيل : أكلت النار الحطب، والأُكْل لما يؤكل، بضم الکاف وسکونه، قال تعالی: أُكُلُها دائِمٌ [ الرعد 35] - ( ا ک ل ) الاکل - کے معنی کھانا تناول کرنے کے ہیں اور مجازا اکلت النار الحطب کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے یعنی آگ نے ایندھن کو جلا ڈالا۔ اور جو چیز بھی کھائی جائے اسے اکل بضم کاف و سکونا ) کہا جاتا ہے ارشاد ہے أُكُلُهَا دَائِمٌ ( سورة الرعد 35) اسکے پھل ہمیشہ قائم رہنے والے ہیں ۔- حُوب - لحُوبُ : الإثم، قال عزّ وجلّ : إِنَّهُ كانَ حُوباً كَبِيراً [ النساء 2] ، والحَوْبُ المصدر منه، وروي : ( طلاق أمّ أيّوب حوب) «4» ، وتسمیته بذلک لکونه مزجورا عنه، من قولهم : حَابَ حُوباً وحَوْباً وحِيَابَةً ، والأصل فيه حوب لزجر الإبل، وفلان يَتَحَوَّبُ من کذا، أي : يتأثّم، وقولهم :- ألحق اللہ به الحَوْبَةَ «5» ، أي : المسکنة والحاجة .- وحقیقتها : هي الحاجة التي تحمل صاحبها علی ارتکاب الإثم، وقیل : بات فلان بِحَيْبَةِ سوء - ( ح و ب ) الحوب ( ن ) جرم کا ارتکاب کرنا ۔ حوب ( اسم ) گناہ ۔ قرآن میں ہے :۔ إِنَّهُ كانَ حُوباً كَبِيراً [ النساء 2] کہ یہ بڑا سخت گناہ ہے ۔ ایک روایت میں ہے (100) طلاق ام ایوب حوب کہ ام ایوب کو طلاق دینا گناہ عظیم ہے اور طلاق کو حوب کہنا اس بنا پر ہے کہ وہ ممنوع عنہ ہے اور یہ حاب حوبا وحوبا وحیابۃ سے ہے جس کے معنی ارتکاب جرم کے ہیں ۔ اصل میں حوب کا لفظ کلمہ زجر ہے جو اونٹوں کو ڈانٹنے کے لئے بولا جاتا ہے ۔ فلان یتحوب من کذا ۔ فلاں گناہ سے بچتا ہے جیسے تیا ثم عرب لوگ کہتے ہیں :( مغل ) الحق اللہ بہ الحوبۃ اللہ اسے مسکنت اور احتیاج میں مبتلا کرے اصل میں حوبۃ اس حاجت کو کہتے ہیں جو انسان کو ارتکاب جرم پر آمادہ کرلے کہاجاتا ہے ۔ بات فلان یحبیۃ سوء فلاں نے بری حالت میں رات گزاری

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

اسلام یتموں کے حقوق کی حفاظت کا علمبردار ہے - قول باری ہے (واتو الیتامی اموالھم ولا تتبدل الخبیث بالطیب۔ یتیموں کا مال ان کو واپس دوا اچھے مال کو برے مال سے نہ بدل لو) حسن سے مروی ہے کہ یتیموں کے مال کے متعلق جب یہ آیت نازل ہوئی تو لوگوں نے انھیں اپنے خاندان کے افرادبناکررکھنے سے نہ صرف گریز کرتا شروع کردیا، بلکہ یتیم لوگوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ان کی شکایت کی اس پر یہ آیت نازل ہوئی (ویسئلونک عن الیتامی قل اصلاح لھم خیروان تخالطوھم فاخوانکم۔ یتیموں کے متعلق لوگ تم سے پوچھتے ہیں کہ ان کے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے ؟ کہوجس طرزعمل میں ان کے لیے بھلائی ہو وہی اختیار کرنا بہت رہے اگر تم اپناخرچ اور رہنا سہنا مشترک رکھو، تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں، یہ تمہارے بھائی ہیں) ابوبکرجصاص کہتے ہیں کہ ان کے خیال میں یہاں راوی سے غلطی ہوگئی ہے۔ اس لیے کہ یہاں اس آیت سے یہ مراد ہے کہ یتیموں کو۔ جب وہ بالغ ہوجائیں۔ ان کا مال ان کے حوالے کردیاجائے۔ اس لیے کہ اہل علم کے درمیان اس مسئلے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ بالغ ہونے سے پہلے یتیم کو اس کا مال حوالے کردیناواجب نہیں ہوتا۔ وادی کو ایک دوسری آیت کی بناپرغلطی لگی ہے۔ اس کے متعلق ہمیں محمد بن ب کرنے روایت بیان کی، انھیں ابوداؤد نے، انھیں عثمان بن ابی شیبہ نے، انھیں جریرنے عطا سے انھوں نے سعیدبن جبیر سے، انھوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے کہ جب اللہ تعالیٰ نے آیت (ولا تقربوا مالایتیم الابالتیھی احسن، یتیم کے مال کے قریب بھی نہ جاؤ مگر صرف اسی طریقے سے جو سب سے بہترہو) نیز (ان الذین یاکلون اموال الیتا می ظلما انما یاکلون فی بطورنھم نارا۔ جو لوگ ازراہ ظلم یتیموں کا مال کھاجاتے ہیں، تو وہ اپنے پیٹوں کو آگ سے بھرلیتے ہیں) نازل فرمائی تو جس شخص کے زیرکفالت کوئی یتیم تھا، اس نے اس کا کھانا پینا علیحدہ کردیا حتی کہ اگر اس کا پس خوردہ بیچ رہتا تو اسے رکھ دیتا اور یتیم ہی کوا سے کھانا پڑتایا یہ کہ وہ خراب ہوجاتا، اس طریق کار سے بڑی وقتیں پیش آئیں اور لوگوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ان دقتوں کا ذکر کیا اس پر اللہ تعالیٰ نے آیت ویسئلونک عن الیتامی قل اصلاح لھم خیروان تخالطوھم فاخوانکم) نازل فرمائی۔ اس کے بعد سرپرستوں نے یتیموں کا کھانا پینا اپنے ساتھ ملالیا اس بارے میں یہی صحیح روایت ہے۔- رہ گیا قول باری (واتوالیتمی اموالھم) تو اس کا اس واقعے سے کوئی تعلق نہیں ہے اس لیے کہ یہ بات واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ فرمامراد یہ نہیں لیا کہ یتیموں کو ان کا مال حوالے کردو، جبلہ وہ ابھی یتیمی کی حالت میں ہوں، یعنی بالغ نہ ہوئے ہوں، ان کا مال انھیں حوالے کرنا اس وقت واجب ہوتا ہے جب وہ بالغ ہوجائیں اور سمجھ بوجھ کے آثاران میں نظرآنے لگیں ۔ ان پر یتیم کے اسم کا اس لیے اطلاق کیا گیا کہ یتیمی کا زمانہ گزارنے میں انھیں زیادہ عرصہ نہیں ہوا۔ جس طرح کہ عدت کے اختتام کے قرب کو بلوغ اجل یعنی مدت ختم کرلینے کا نام دیاگیا ہے۔ چناچہ ارشاد ہے (فاذابلغن اجلھن فامسکوھن بمعروف اوسرحوھن بمعروف جب یہ اختتام مدت کو پہنچ جائیں تو انھیں یا تو بھیلے طریقے سے اپنے عقدزوجیت میں روک لویابھلے طریقے سے انھیں جانے دو ) اس پر ترتیب آیت میں یہ قول باری دلالت کرتا ہے (فاذادفعتم الیھم اموالھم فاشھدواعلیھم جب تم ان کا مال ان کے حوالے کرنے لگوتو لوگوں کو اس پر گواہ بنالو) بلوغ سے پہلے ان پر لوگوں کو گواہ بنانا درست نہیں ہوتا ، تو اس سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ یہاں بلوغ کے بعد کا زمانہ مراد ہے۔ پھر انھیں یتیم یا تو اس لیے کہا گیا کہ یتیمی کا دور نھونے حال ہی میں گزارا ہے یا اس لیے کہ وہ اپنے اپنے باپ سے محروم ہوگئے ہیں، جبکہ ایسی صورت میں عام مشاہدہ یہی ہوتا ہے کہ ان میں اپنی ذات کے لیے تصرفات کرنے دربطریق حسن اپنے امور کی تدبیر اور دیجھ بھال میں ضعف اور کمزوری کا پہلونمایاں ہوتا ہے۔ اس وقت ان میں وہ کیفیت نہیں ہوتی جو تجربہ کار اومنجھے ہومے لوگوں میں زندگی کے معاملات سلجھانے اور سوجھ بوجھ کی پختگی کے سلسلے میں ہوتی ہے۔- یزیدبن مرمزنے روایت کی ہے کو بجدہ بن عامرنے حضرت ابن عباس (رض) کی لکھ کر پوچھا کہ یتیھی کو مدت کا انقطاع کب جاکرہوتا ہے ؟ آپ نے اسے جواب میں لکھا کہ جب اس میں سمجھ بوجھ کے آثاء نظر آنے لگیں تو اس کی یتیمی کا زمانہ نقطع ہوجاتا ہے۔- بعض روایات میں یہ الفاظ ہیں۔ ایک شخص عمر کے (رح) لحاظ سے اتنا بڑا ہوجاتا ہے کہ اس کی ڈاڑھی اس کی مٹھی میں آجاتی ہے لیکن ابھی تک اس سے یتیمی کی کیفیت ختم نہیں ہوتی۔ حضرت ابن عباس نے دراصل یہ بتایا ہے کہ بعض دفعہ ایک شخص پر یتیم کا لفظ اس کے بالغ ہوجانے کے بعد بھی اس وجہ سے منطبق ہوتا ہے کہ اس کی عقل میں ابھی پختگی نہیں ہوتی ہے اور اس میں سمجھ بوجھ کے آثار نظر نہیں آتے ہیں۔ اس طرح آپ نے ایک شخص پر یتیم کے اسم کے اطلاق کے لیے اس میں رائے کی کمزوری اور عقلی کی ناپختگی کو ضروری قراردیا۔ بعض دفعہ یتیم کے اسم کا اطلاق اس شخص پر بھی ہوتا ہے جس کا باپ اسے چھوڑکر دنیا سے رخصت ہوچکا ہو۔ نیز ایسی عورت کو بھی یتیمہ کہاجاتا ہے جو اپنے شوہر کے بعد تنہارہ گئی ہو۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے (تشامرالیتیمۃ فی نفسھا۔ شوہر کے بغیر رہ جانے والی عورت سے اس کے نکاح کے بارے میں اس کی رائے معلوم کی جائے گی) اور ظلہ رہے کہ بالغ ہونے کی صورت مین نکاح کے معاملے میں اس کی رائے معلوم کی جاتی ہے۔ ایک شاعر کا شعر ہے۔- ؎ ان القبورتنکح الایامی النسوۃ الارامل الیتامی - قبروں کا ان عورتوں کے ساتھ نکاح ہوتا ہے جو شوہروں کے بعد تنہارہ جاتی ہیں۔- تاہم اتنی بات واضح ہے کہ جب کوئی شخص ادھیڑعمرکا یابوڑھا ہوجانے اس پر یتیم کے اسم کا اطلاق بنیں ہوتا۔ اگر کوئی شخص ناقص العقل اور ضعیف الرائے ہو تو اس کے بارے میں بچپن کے زمانے سے اس کے قرب کے اعتبار کے سوا اور کوئی پارہ نہیں ہوتا۔ جبکہ بڑی عمر کی عورت کو اس وجہ سے یتیمہ کہاجاتا ہے کہ وہ شوہر کے بغیرآتی ہے۔ اور بڑی عمر کے مردکوباپ کے بغیر ہونے کی وجہ سے یتیم نہیں کہا جاتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ باپ اپنے کمسن بچے کی سرپرستی کرتا اور اس کے معاملات کی دیکھ بھال کے علاوہ اسے اپنے ساتھ رکھتا ہے اس لیے باپ کے بغیر رہ جانے کی صورت میں وہ یتیم کہلاتا ہے۔ اس بناپربا (رح) لغ ہوجانے کے بعد بھی جب تک اس کی حالت کمزور اور اس کی سمجھ بوجھ ناقص ہوتی ہے اسے یتیم کا نام دیاجاتا ہے، اس کے برعکس عورت کو یتیمہ اس لیے کہاجاتا ہے کہ وہ شوہر کے بغیر ہوتی ہے جس کی پناہ اور حفاظت میں وہ زندگی گزارتی ہے، اس لیے اگر وہ بوڑھی بھی ہوجائے اس کے ساتھ یہ نام چپکارہتا ہے۔ کیونکہ اس عمر میں بھی شوہر کا وجود اس کے لیے وہی حیثیت رکھتا ہے جو بچے کے لیے باپ کا وجودرکھتا ہے کیونکہ شوہرہی اس کی حفاظت کفالت اور نگرانی کا ذمہ دارہوتا ہے۔ اس لیے جب عورت شوہر سے محروم ہوجاتی ہے، جس کی وجہ سے اسے یہ باتیں حاصل ہوتی ہیں اسے یتیمہ کہاجاتا ہے، جس طرح کہ کم سن اور نابالغ بچے کو اس لیے یتیم کہاجاتا ہے کہ وہ اس شخص (یعنی باپ سے) محروم ہوتا ہے جو اس کی حفاظت اور کفالت کا ذمہ دارہوتا ہے۔- آپ نہین دیکھتے کہ ارشاد باری ہے (الرجال قوامون علی النساء مرد عورتوں پر قوام ہیں) یعنی ان کی حفاظت اور نگہبانی کرنے اور ان کی ضروریات مہیا کرنے کے ذمہ دار ہیں۔ نیز ارشاد ہے (وان تقومواللیتمی بالقسط اور یہ کہ تم یتیموں کے بارے میں انصاف پر قائم رہو) اللہ تعالیٰ نے مرد کو عورت کاقیم، یعنی حفاظت اور نگہبانی کرنے والا نیز اس کی ضروریات مہیا کرنے والاقراردیا جس طرح کہ یتیم کے وئی کو اس کا قیم قراردیا۔ حضرت علی (رض) اور حضرت جابر سے مروی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ذمایا (لایتم بعد حلم عقل اور سمجھ بوجھ آجانے کے بعد یتیمی باقی نہیں رہتی) آپ کا قول دراصل یتیمی کی حقیقت کا بیان ہے اس بناپربلوغت کے بعد کسی کو یتیم کہنا مجازا ہوتا ہے جیسا کہ ہم بیان کر آئے ہیں۔- کمزور اورضعیف العقل پر یتیم کے اسم کی حضرت ابن عباس (رض) سے منقولی روایت کی روشنی میں ہم نے جس دلالت کا ذکر کیا ہے وہ ایک مسئلے میں ہمارے اصحاب کے قول صحت پر دال ہے مسئلہ یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی کے خاندان کے یتیموں کے لیے وصیت کرجائے اور اس خاندان کے افراد بےشمارہوں تو اس صورت میں ایسے یتیموں کے لیے یہ وصیت جاری ہوجائے گی جو فقیر اور تنگ دست ہوں گے، اس لیے کہ یتیم کا اسم اس پر دلالت کرتا ہے اس پر وہ روایت بھی دلالت کرتی جو ہمیں عبداللہ بن محمد بن اسحاق نے بیان کی انھیں حسن بن ابی الربیع نے انھیں جبدالرزاق نے، انھیں معمرنے حسن سے کہ ۔- دولت نادانوں کے حوالے نہ کی جائے - قول باری (ولاتؤتوالسفھاء اموالکم التی جعل اللہ لکم قیاما، اور اپنے وہ مال جنھیں اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے قیام زندگی کا ذریعہ بنایا ہے، نادان لوگوں کے حوالے نہ کرو) میں السفھاء، سے مراد تمھارانادان بیٹا اور تمھاری نادان بیوی ہے۔ پھر فرمایا : قول باری (قیاما) سے مرادتمھاری زندگی کے قیام کا ذریعہ ہے۔ یہ بھی ذک رہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے (اتقوا اللہ فی الضعیفین الیتیم والمواۃ ووکمزوروں، یتیم اور عورت کے یارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یتیم کو ضعیف کا نام دیا۔- آیت میں مال حوالہ کرنے کے لیے سوجھ بوجھ کے آثار کے ظہورکوشرط قرار نہیں دیا گیا۔ ظاہر آیت کا تقاضایہ ہے کہ بالغ ہونے کے بعد یتیم کا مال اس کے حوالے کردیاجائے، خواہ اس میں عقل اور سمجھ کے آثارنظرآئیں یا نہ آئیں یا البتہ قول باری (حتی اذابلغوالنکاح۔ فان انستم منھم رشدافادفعوا الیھم اموالھم۔ یہاں تک کہ وہ نکاح کی عمرکو پہنچ جائیں پھر اگرتم ان کے اندراہلیت پاؤتو ان کے مال ان کے حوالے کردو) میں اس کی شرط لگادی گئی ہے۔ امام ابوحنیفہ کے نزدیک اس پر بلوغت سے لے کر پچیس برس کی عمرتک عمل ہوگا۔ جب وہ اس عمر کی پہنچ جانے گا اور اس وقت بھی اس میں سمجھ بوجھ اور اہلیت کے آثارنظر نہیں آئیں گے تو بھی اس کا مال اس کے حوالہ کردینا واجب ہوگا اس لیے کہ قول باری ہے۔ (واتوالیتامی اموالھم۔ یتیموں کو ان کا مال حوالے کردوم اس آیت کے مقتضی اور ظاہر پرپچیس برس کی عمر کے بعد عمل ہوگا۔ اس سے پہلے اہلیت کے وجود کے بغیر مال اس کے حوالے نہیں کیا جائے گا، اس لیے کہ اہل علم کا اس پر اتفاق ہے کہ اس عمر کو پہنچنے سے پہلے اہلیت اور سمجھ بوجھ کا پایاجانا مال حوالہ کرنے کے وجوب کی شرط ہے۔ یہ توجیہ اس لحاظ سے قابل قبول ہے کہ اس کے تحت دونوں میں سے ہر آیت کے ظاہر کے مقتضی اور فائدے پر عمل ہوجاتا ہے۔- اگرہم تمام حالتوں میں اہلیت اور سمجھ بوجھ کا اعتبار کرلیں تو اس سے دوسری آیت کے حکم کا بالکلیہ اسقاط لازم آئے گا یہ دوسری آیت (واتوالیتامی اموالھم) ہے اس لیے کہ اس میں اہلیت اور سمجھ بوجھ کی شرط موجود نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آیت میں کسی قرینہ اور سمجھ بوجھ کے آثار کے وجود کے بغیر مطلقا مال کو ان کے حوالہ کردینا واجب قراردیا ہے۔ جب زوآیتیں اس طرح داردہوں کہ ایک میں حکم کا ایجاب کسی قرینہ کو متضمن ہو اور دوسری آیت کسی قرینہ کو متضمن نہ ہو اور ہمارے لیے ان دونوں کے حکموں پر عمل کرکے فائدہ اٹھا ناممکن ہو، تو اس صورت میں یہ جائز نہیں ہوگا کہ ہم ان دونوں کو صرف ایک کے فائدے تک محدودکرکے دوسری آیت کے فائدے کو ساقط کردیں۔- ہمارے بیان سے جب یتیم کو اس کا مال حوالے کرنے کا وجوب ثابت ہوگیا۔ کیونکہ قول باری ہے (واتوالتیامی اموالھم) نیز ترتیب آیت میں یہ قول بھی ہے (فاذا دفعتم الیھم اموالھم فاشھدواعلیھم) قویہ بات اس پر بھی دلالت کرگئی کہ مال پر قبضہ کرنے کے متعلق اس کا اقرار جائز ہے۔ کیونکہ قول باری (فاشھدواعلیھم) مال پر ان کے قبضہ کے اقرار کے سلسلے میں گواہ بنالینے کے جواز کو متضمن ہے۔ اس میں یتیم پر پابندی لگانے کی نفی اور اس کے تصرف کے جواز پر بھی دلالت موجود ہے۔ اس لیے کہ جس شخص پر پابندی لگی ہو، اس کا اقراردرست نہیں ہوتا اور جس پر گواہ بنانا واجب ہوتا ہے اس کا اقرار جائز ہوتا ہے۔- قول باری ولاتتبدلوا الخبیث بالطیب) کی تفسیر میں مجاہد اور ابوصالح سے مروی ہے کہ حرام کو حلال سے نہ بدلو۔ یعنی اپنے حلال رزق کا بدل جلدبازی کی بناپرحرام نہ بنالو کہ مثلا تم یتیم کا مال صرف کرنا شروع کردویہاں تک کہ وہ ختم ہوجائے یا اسے اپنی تجارت میں لگادویا اسے اپنے لیے روک کریتیم کو کوئی اور مال دے دو ۔ اس صورت میں یتیم کا جو مال تم لوگے وہ حرام اور خبیث مال ہوگا اور تم اسے اپنا حلال مال دے دوگے، جو اللہ تعالیٰ نے تمہیں بطوررزق دیا ہے بلکہ تمہیں چاہیے کہ یتیموں کو ان کے اموال اصلی صورت میں حوالے کردو۔ یہ تفسیر اس پر دلالت کرتی ہے کہ یتیم کے ولی اور سرپرست کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اس کے مال میں سے اپنی ذات کے لیے قرضہ لے اور نہ ہی اس میں اس طرح ادل بدل کرے کہ اسے اپنے لیے روک کر اس کی جگہ یتیم کو کرٹی اور مال دے دے، تاہم اس تفسیر میں یہ دلالت نہیں ہے کہ ولی کے لیے یتیم کے مال میں خریدوفروخت کے ذریعے تصرف کرنا جانز نہیں ہے اس لیے کہ ممانعت تو صرف اس کی ہے کہ وہ یتیم کے مال کو اپنے لیے روک کر اس کی جگہ کوئی اور مال اسے دے دے ۔ اس تفسیر میں یہ دلالت بھی ہے کہ ولی کے لیے یتیم کے مال میں سے اپنی ذات کے لیے کوئی چیز اس کی قیمت کے برابر قیمت دے کر خریدلینا جائز نہیں ہے۔ اس لیے کہ ولی کو اپنی ذات کے لیے یتیم کے مال میں کوئی اول بدل کرنے سے روک دیا گیا ہے اور یہ حکم استبدال کی تمام صورتوں کو شامل ہے اس سے صرف وہ صورت مستثنیٰ ہے جس کے جواز کی دلیل موجود ہو۔- امام ابوحنفیہ کے نزدیک جواز کی صورت یہ ہے کہ ولی یتیم کے مال میں سے جوچیزلے، اس کے بدلے میں اسے جوچیزدے، اس کی قیمت پہلی چیز کی قیمت سے زیادہ ہو۔ اس لیے کہ قول باری ہے ولا تقربوامال الیتیم الابالتیھی احسن۔- سعیدبن المسیب، زہری ضحاک اور سدی نے قول باری (ولاتتبدلوالخبیث بالطیب) کی تفسیر میں کہا ہے کہ جید یعنی کھرے کے بدلے کھوٹا مال اور پلے ہوئے قربہ جانور کے بدلے دبلاپتلاجانورنہ دو ۔ قول باری (ولاتاکلوا اموالھم الی اموالکم اور ان کے مال اپنے مال کے ساتھ ملا کر نہ کھاجاؤ) کی تفسیر میں مجابد اور سدی سے منقول ہے کہ یتیموں کے مال کو اپنے مال کے ساتھ ملاکرنہ کھاؤ۔ انھیں یتیموں کے مال کو اپنے مال کے ساتھ ملانے سے روک دیا گیا ہے۔ ملانے کی صورت یہ ہے کہ ولی یتیم کا مال بطورقرض لے لے اور اس طرح اس کا مال ولی کے ذمہ دین جائے اور پھر ولی اس مال اور اس کے منافع میں سے کھانے کا جواڑپیدا کرلے۔ قول باری ہے (انہ کان حوباکبیرا۔ یہ کارروائی بڑے گناہ کی بات ہے) ابن عباس (رض) ، مجاہد حسن اور قتادہ کا قول ہے، یہ بڑا گناہ ہے۔ آیت اس پر دلالت کررہی ہے کہ بالغ ہوجانے اور سمجھ بوجھ کے آثارظاہر ہونے کے بعد یتیموں کو ان کے مال واپس کرنا واجب ہوجاتا ہے، خواہ وہ اس کا مطالبہ نہ بھی کریں اس لیے کہ واپسی کا حکم مطلق ہے اس میں کوئی شرط نہیں ہے کہ یتیموں کی طرف سے اس کا مطالبہ ہونے پر انھیں واپس کیا جائے، بلکہ واپس نہ کرنے پر عذاب کی دھمکی سنائی گئی ہے۔ آیت اس پر بھی دلالت کرتی ہے کہ جس کے پاس کسی اور کا مال ہو اور وہ اسے واپس کرنا چاہے تو اس کے لیے مستحب طریقہ یہ ہے کہ واپسی پر لوگوں کو گواہ نبائے، کیونکہ قول بارے ہے (فاذادفعتم الیھم اموالھم فاشھدوا علیھم) ۔ واللہ الموفق۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٢) نیز یتیموں کے جو اموال تمہارے پاس ہیں ان کے عاقل وبالغ ہونے کے بعد وہ ان کو دے دو اور اپنے مال بچا کر ان کے مالوں کو مت کھاؤ اور نہ اپنے مالوں کے ساتھ ملاکرکھاؤ۔ بلاجواز یتیم کا مال کھانا اللہ تعالیٰ کے یہاں سزا کے اعتبار سے بہت بڑا جرم ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢ (وَاٰتُوا الْیَتٰمٰٓی اَمْوَالَہُمْ ) - معاشرے کے دبے ہوئے طبقات میں سے یتیم ایک اہم طبقہ تھا۔ دور جاہلیت میں ان کے کوئی حقوق نہیں تھے اور ان کے مال ہڑپ کرلیے جاتے تھے۔ وہ بہت کمزور تھے۔ - (وَلاَ تَتَبَدَّلُوا الْخَبِیْثَ بالطَّیِّبِ ) - ایسا ہرگز نہ ہو کہ یتیموں کے مال میں سے اچھا اچھا لے لیا اور اپنا ردّی مال اس میں شامل کردیا۔ - (وَلاَ تَاْکُلُوْآ اَمْوَالَہُمْ الآی اَمْوَالِکُمْ ط) (اِنَّہٗ کَانَ حُوْبًا کَبِیْرًا )- یتیموں کے بعض سرپرست جو تقویٰ اور خوف خدا سے تہی دامن ہوتے ہیں ‘ اوّل تو ان کا مال ہڑپ کر جاتے ہیں ‘ اور اگر ایسا نہ بھی کریں تو ان کا اچھامال خورد برد کر کے اپنا ردّی اور بےکار مال اس میں شامل کردیتے ہیں اور اس طرح تعداد پوری کردیتے ہیں۔ پھر ایسا بھی ہوتا ہے کہ ان کے مال کو اپنے مال کے ساتھ ملا لیتے ہیں تاکہ اسے بآسانی ہڑپ کرسکیں۔ ان کو ایسے سب ہتھکنڈوں سے روک دیا گیا۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :2 یعنی جب تک وہ بچے ہیں ، ان کے مال انہی کے مفاد پر خرچ کرو اور جب بڑے ہو جائیں تو جو ان کا حق ہے وہ انہیں واپس کر دو ۔ سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :3 جامع فقرہ ہے جس کا ایک مطلب یہ ہے کہ حلال کی کمائی کے بجائے حرام خوری نہ کرنے لگو ، اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ یتیموں کے اچھے مال کو اپنے برے مال سے نہ بدل لو ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

2: کسی مرنے والے کے بچے جب یتیم ہوجاتے ہیں تو ان کے باپ کی میراث میں ان کا بھی حصہ ہوتا ہے، مگر ان کی کم عمری کی وجہ سے وہ مال ان کے سپرد نہیں کیا جاتا، بلکہ ان کے سرپرست، مثلاً، چچا، بھائی وغیرہ اسے بچوں کے بالغ ہونے تک اپنے پاس امانت کے طور پر رکھتے ہیں۔ اس آیت میں ایسے سرپرستوں کو تین ہدایتیں دی گئی ہیں : ایک یہ کہ جب بچے بالغ اور سمجھ دار ہوجائیں تو ان کی امانت دیانت داری سے ان کے حوالے کردو۔ دوسرے یہ کہ بد دیانتی نہ کرو کہ ان کو ان کے باپ کی طرف سے تو میراث میں اچھی قسم کا مال ملا تھا، مگر تم وہ مال خود رکھ کر گھٹیا قسم کی چیز اس کے بدلے میں دے دو،۔ اور تیسرے ایسا نہ کرو کہ ان کے مال کو اپنے مال کے ساتھ گڈ مڈ کر کے اس کا کچھ حصہ جان بوجھ کر یا بے پروائی سے خود استعمال کر بیٹھو۔