Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

3۔ 1 اس کی تفسیر حضرت عائشہ (رض) سے اس طرح مروی ہے کہ صاحب حیثیت اور صاحب جمال یتیم لڑکی کسی ولی کے زیر پرورش ہوتی تو اس کے مال اور حسن و جمال کی وجہ سے اس سے شادی تو کرلیتا لیکن اس کو دوسری عورتوں کی طرح پورا حق مہر نہ دیتا۔ اللہ تعالیٰ نے اس ظلم سے روکا، کہ اگر تم گھر کی یتیم بچیوں کے ساتھ انصاف نہیں کرسکتے تو ان سے نکاح ہی مت کرو، تمہارے لئے دوسری عورتوں کے ساتھ نکاح کرنے کا راستہ کھلا ہے (صحیح بخاری) ایک کی بجائے دو سے، تین سے حتیٰ کے چار عورتوں تک سے تم نکاح کرسکتے ہو بشرطیکہ ان کے درمیان انصاف کے تقاضے پورے کرسکو ورنہ ایک ہی نکاح کرو یا اس کے بجائے لونڈی پر گزارا کرو۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ مسلمان مرد (اگر وہ ضرورت مند ہے) تو چار عورتیں بیک وقت اپنے نکاح میں رکھ سکتا ہے لیکن اس سے زیادہ نہیں جیسا کہ صحیح احادیث میں اس کی مذید صراحت اور تحدید کردی گئی ہے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو چار سے زائد شادیاں کیں وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خصائص میں سے ہے جس پر کسی امتی کے لیے عمل کرنا جائز نہیں۔ (ابن کثیر) 3۔ 2 یعنی ایک ہی عورت سے شادی کرنا کافی ہوسکتا ہے۔ کیونکہ ایک سے زیادہ بیویاں رکھنے کی صورت میں انصاف کا اہتمام بہت مشکل ہے جس کی طرف قلبی میلان زیادہ ہوگا، ضروریات زندگی کی فراہمی میں زیادہ توجہ بھی اسی کی طرف ہوگی۔ یوں بیویوں کے درمیان وہ انصاف کرنے میں ناکام رہے گا اور اللہ کے ہاں مجرم قرار پائے گا۔ قرآن نے اس کی حقیقت کو دوسرے مقام پر نہایت اچھے انداز میں اس طرح بیان فرمایا ہے۔ (تم ہرگز اس بات کی طاقت نہ رکھو گے) کہ بیویوں کے درمیان انصاف کرسکو، اگرچہ تم اس کا اہتمام کرو۔ (اس لئے اتنا کرو) کہ ایک ہی طرف نہ جھک جاؤ کہ دوسری بیویوں کو بیچ ادھڑ میں لٹکا رکھو، اس سے معلوم ہوا کہ ایک سے زیادہ شادی کرنا اور بیویوں کے ساتھ انصاف نہ کرنا نامناسب اور نہایت خطرناک ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٥] یتیم لڑکیوں سے ناانصافی :۔ اور زیادہ حق تلفی یتیم لڑکیوں کی ہوتی تھی۔ اب یہ تو ظاہر ہے کہ یتیم لڑکی کا ولی کوئی قریبی رشتہ دار ہی ہوسکتا ہے اور وراثت میں بھی ولی اور یتیم لڑکی کا اشتراک ممکن ہے۔ اب لڑکی کے جوان ہونے پر تین صورتیں پیش آسکتی تھیں : ایک یہ کہ لڑکی خوبصورت نہ ہو اور ولی کے دل میں اس کی الفت بھی نہ ہو اور وہ محض اس طمع سے اس سے نکاح کرلے کہ اس کا ورثہ کا مال ہاتھ سے نکل جائے گا۔ اس طرح کا نکاح کرنا بھی اس لڑکی پر ظلم ہے۔ دوسرے یہ کہ لڑکی خوبصورت بھی ہو اور صاحب جائیداد بھی ہو، اس صورت میں ولی اس سے نکاح کرلیتا مگر جتنا حق مہر اسے دوسروں سے مل سکتا تھا اسے اس سے بہت کم دیتا اور دوسرا کوئی شخص ولی کی موجودگی میں اس سے نکاح کر بھی نہیں سکتا تھا۔ جبکہ ولی خود اس کا خواہش مند ہو۔ یہ بھی یتیم لڑکیوں کے حقوق پر ڈاکہ کی ایک صورت تھی۔ یہی ناانصافیاں تھیں جن کا ذکر اللہ تعالیٰ نے یہاں بیان فرمایا ہے۔ اس آیت کے شان نزول کے بارے میں درج ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیے :- ١۔ سیدہ عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ ایک شخص ایک یتیم لڑکی کی پرورش کرتا تھا اس نے صرف اس غرض سے اس کے ساتھ نکاح کرلیا کہ وہ ایک کھجور کے درخت کی مالکہ تھی ورنہ اس کے دل میں اس لڑکی کی کوئی الفت نہ تھی۔ اس کے حق میں یہ آیت اتری۔ اس حدیث کے ایک راوی ابن جریج کہتے ہیں کہ میں سمجھتا ہوں کہ وہ لڑکی اس درخت اور دوسرے مال اسباب میں اس مرد کی حصہ دار تھی۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر)- ٢۔ سیدہ عائشہ (رض) کے بھانجے عروہ بن زبیر (رض) نے ان سے اس آیت کا مطلب پوچھا تو انہوں نے فرمایا بھانجے اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ ایک یتیم لڑکی اپنے ولی کی پرورش میں ہو اور ترکہ کی رو سے اس کی جائیداد میں حصہ دار ہو اور ولی کو اس کا مال اور جمال تو پسند آئے مگر وہ اسے اتنا مہر دینے پر آمادہ نہ ہو جتنا اسے دوسرے لوگ دیتے ہیں تو وہ اس سے نکاح نہ کرے۔ ہاں اگر اتنا ہی دے دے تو پھر نکاح کرسکتا ہے۔ ورنہ وہ ان کے علاوہ دوسری عورتوں سے جو انہیں پسند ہو نکاح کرلے۔ اور چار تک ایسی بیویوں کی اجازت دی گئی۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر)- اور تیسری صورت یہ کہ لڑکی نہ خوبصورت ہو اور نہ صاحب مال ہو اس صورت میں ولی کو اس سے نکاح کرنے میں کوئی دلچسپی نہ ہوتی تھی۔- [٦] چار تک بیویوں سے نکاح کی اجازت :۔ یتیم لڑکیوں کے سرپرستوں کو ان دونوں ناانصافیوں سے روکا گیا اور فرمایا کہ اگر تم صاحب جمال لڑکی کا اتنا مہر ادا کرسکو جتنا باہر سے مل سکتا ہے تو تم اس سے نکاح کرسکتے ہو ورنہ اور تھوڑی عورتیں ہیں ان میں سے اپنی حسب پسند چار تک بیویاں کرسکتے ہو۔ مگر اس شرط کے ساتھ کہ ان میں مساوات کا لحاظ رکھو اور اگر یہ کام نہ کرسکو تو پھر ایک بیوی پر اکتفا کرو۔ یا پھر ان کنیزوں پر جو تمہارے ملک میں ہوں۔ مندرجہ ذیل دو احادیث بھی ان احکام پر روشنی ڈالتی ہیں - ١۔ چار سے زیادہ بیویاں :۔ سیدنا عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ غیلان بن سلمہ ثقفی (رض) جب اسلام لائے تو ان کے نکاح میں دس عورتیں تھیں۔ آپ نے اسے فرمایا ان میں سے کوئی سی چار پسند کرلو (باقی چھوڑ دو ۔ ) (ابن ماجہ۔ کتاب النکاح۔ باب الرجل یسلم و عندہ أکثر من أربع نسوۃ)- ٢۔ سیدہ عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ آپ جب سفر کا ارادہ کرتے تو اپنی بیویوں کے درمیان قرعہ ڈالتے۔ جس کے نام قرعہ نکلتا اسے اپنے ہمراہ لے جاتے اور آپ ہر بیوی کی باری ایک دن اور ایک رات مقرر کرتے تھے۔ (بخاری۔ کتاب الہبہ۔ باب ھبۃ المرأۃ لغیر زوجھا) البتہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا معاملہ بالکل الگ ہے کیونکہ آپ کی ازواج مطہرات امت کی مائیں ہیں جو کسی دوسری جگہ نکاح نہیں کرسکتی تھیں۔ لہذا جتنے نکاح آپ کرچکے تھے وہ سب آپ کے لیے حلال اور جائز قرار دیئے گئے۔- اس آیت سے بعض لوگوں نے یہ سمجھا کہ اسلام میں تعدد ازواج کی کوئی حد نہیں اور قرآن میں جو دو دو تین تین، چار چار کے الفاظ آئے ہیں یہ بطور محاورہ زبان ہیں یعنی دو دو کی بھی اجازت ہے، تین تین کی بھی اور چار چار کی بھی، اور اسی طرح پانچ پانچ اور چھ چھ کی بھی فصاعداً ۔ یہ استدلال دو وجہ سے غلط ہے : ایک یہ کہ اگر اجازت عام ہی مقصود ہوتی تو صرف (مَا طَابَ لَكُمْ مِّنَ النِّسَاۗءِ مَثْنٰى وَثُلٰثَ وَرُبٰعَ ۝ۭ ) 4 ۔ النسآء :3) کہہ دینا ہی کافی تھا۔ چار تک تعین کرنے کی قطعاً ضرورت نہ تھی اور دوسرے یہ کہ سنت نے چار تک حد کی تعیین کردی تو پھر اس کے بعد کسی مسلمان کا شیوہ نہیں ہوسکتا کہ وہ کوئی دوسری بات کرے۔ جیسے کہ اوپر سیدنا عبداللہ بن عمر (رض) کی حدیث سے معلوم ہوتا ہے۔- یہ لوگ تو وہ تھے جو افراط کی طرف گئے اور کچھ لوگ تفریط کی طرف چلے گئے کہ عام اصول یہی ہے کہ صرف ایک عورت سے شادی کی جائے، ان کا استدلال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر تمہیں خدشہ ہو کہ ان میں انصاف نہ کرسکو گے تو پھر ایک ہی کافی ہے۔ پھر اسی سورة کی آیت نمبر ١٢٩ میں فرمایا کہ اگر تم چاہو بھی کہ اپنی بیویوں کے درمیان انصاف کرو تو تم ایسا نہ کرسکو گے۔ گویا آیت نمبر ٣ میں تعدد ازواج کی جو مشروط اجازت دی گئی تھی وہ اس آیت کی رو سے یکسر ختم کردی گئی۔ لہذا اصل یہی ہے کہ بیوی ایک ہی ہونی چاہیے۔- خ نظریہ یک زوجگی کی دلیل اور اس کا رد :۔ یہ استدلال اس لحاظ سے غلط ہے کہ اسی سورت کی آیت ١٢٩ میں آگے یوں مذکور ہے لہٰذا اتنا تو کرو کہ بالکل ایک ہی طرف نہ جھک جاؤ اور دوسری کو لٹکتا چھوڑ دو ۔ اور جن باتوں کی طرف عدم انصاف کا اشارہ ہے وہ یہ ہیں کہ مثلاً ایک بیوی جوان ہے دوسری بوڑھی ہے۔ یا ایک خوبصورت ہے اور دوسری بدصورت یا قبول صورت ہے۔ یا ایک کنواری ہے دوسری ثیب (شوہر دیدہ) ہے۔ یا ایک خوش مزاج ہے اور دوسری تلخ مزاج یا بدمزاج ہے۔ یا ایک ذہین و فطین ہے اور دوسری بالکل جاہل اور کند ذہن ہے۔ اب یہ تو واضح بات ہے کہ اگرچہ ان صفات میں بیوی کا اپنا عمل دخل کچھ نہیں ہوتا، تاہم یہ باتیں خاوند کے لیے میلان یا عدم میلان کا سبب ضرور بن جاتی ہیں۔ اور یہ فطری امر ہے اسی قسم کی ناانصافی کا یہاں ذکر ہے۔ اور چونکہ اس قسم کے میلان یا عدم میلان میں انسان کا اپنا کچھ اختیار نہیں ہوتا لہذا ایسے امور پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی گرفت اور مواخذہ نہیں۔ خاوند سے انصاف کا مطالبہ صرف ان باتوں میں ہے جو اس کے اختیار میں ہیں۔ جیسے نان و نفقہ، اس کی ضروریات کا خیال رکھنا اور شب بسری کے سلسلہ میں باری مقرر کرنا وغیرہ۔ کون نہیں جانتا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنی بیویوں میں سے سیدہ عائشہ (رض) سے زیادہ محبت تھی اور اس کی وجوہ یہ تھیں کہ آپ کنواری تھیں، نو عمر تھیں، ذہین و فطین تھیں اور خوش شکل تھیں۔ چناچہ آپ یہ دعا بھی فرمایا کرتے تھے کہ یا اللہ جن باتوں میں مجھے اختیار ہے ان میں سب بیویوں سے میں یکساں سلوک کرتا ہوں اور جو باتیں میرے اختیار میں نہیں تو وہ مجھے معاف فرما دے۔ - تفریط کی طرف جانے والے لوگ دراصل تہذیب مغرب سے سخت مرعوب ہیں جن کے ہاں صرف ایک ہی بیوی کی اجازت ہے آج کل اس طبقہ کی نمائندگی غلام احمد پرویز صاحب فرما رہے ہیں۔ انہوں نے اس آیت میں یتامی کا لفظ دیکھ کر تعدد ازواج کی اجازت کو ہنگامی حالات اور جنگ سے متعلق کردیا چناچہ طاہرہ کے نام خطوط کے صفحہ ٣١٥ پر فرماتے ہیں : مطلب صاف ہے کہ اگر کسی ہنگامی حالت مثلاً جنگ کے بعد جب جوان مرد بڑی تعداد میں ضائع ہوچکے ہوں اور ایسی صورت پیدا ہوجائے کہ معاشرہ میں یتیم بچے اور لاوارث جوان عورتیں شوہر کے بغیر رہ جائیں تو اس کا کیا علاج کیا جائے۔ اس ہنگامی صورت سے عہدہ برآ ہونے کے لیے اس کی اجازت دی جاتی ہے کہ ایک بیوی کے قانون میں عارضی طور پر لچک پیدا کرلی جائے۔ - پھر آگے چل کر (فَانْكِحُوْا مَا طَابَ لَكُمْ مِّنَ النِّسَاۗءِ مَثْنٰى وَثُلٰثَ وَرُبٰعَ ۚ فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَةً اَوْ مَا مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ ۭ ذٰلِكَ اَدْنٰٓى اَلَّا تَعُوْلُوْا ۝ۭ ) 4 ۔ النسآء :3) کے معنی بیان فرماتے ہیں کہ ان میں سے ان عورتوں سے جو تمہیں پسند ہوں نکاح کرلو۔ اس طرح انہیں (اور بیواؤں کی صورت میں ان کے ساتھ ان کے بچوں کو بھی) خاندان کے اندر جذب کرلو۔ یہی ان سے منصفانہ سلوک ہے۔ یہ مسئلہ اگر دو دو بیویاں کرنے سے حل ہوجائے تو دو دو کرلو اور اگر تین تین سے ہو تو تین تین اور چار چار سے ہو تو چار چار۔۔ یہ تو رہا اجتماعی فیصلہ (طاہرہ کے نام خطوط : ص ٣١٦)- اب یہاں پہلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ ہنگامی حالات اور جنگ کی قید آ کہاں سے گئی ؟ کیا ہنگامی حالات یا جنگ کے بغیر کسی معاشرہ میں یتیموں کا وجود ناممکن ہے ؟ یا قرآن کے کسی لفظ سے ہنگامی حالات یا جنگ کا اشارہ تک بھی ملتا ہے ؟- خیر اس بات کو بھی جانے دیجئے، ہم یہ تسلیم کرلیتے ہیں کہ پرویز صاحب بجا فرما رہے ہیں تو اس کے مطابق صرف جنگ احد ہی ایسی جنگ قرار دی جاسکتی ہے جو پرویز صاحب کے نظریہ کا مصداق بن سکے۔ کیونکہ اس میں ستر مسلمان شہید ہوگئے تھے۔ دوسری کسی بھی جنگ میں مسلمانوں کا اتنا زیادہ جانی نقصان نہیں ہوا۔ اس جنگ میں شریک ہونے والے مسلمانوں کی تعداد سات سو تھی اور منافقین کو بھی مسلمانوں میں شامل سمجھا جائے تو ایک ہزار تھی۔ اور یہ وہ تعداد تھی جو میدان جنگ کے لیے نکل کھڑے ہوئے تھے ورنہ سب مسلمانوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ تھی۔ اور ان میں سے ستر مسلمانوں کے شہید ہونے سے ستر عورتیں بیوہ ہوگئیں (کیونکہ پرویز صاحب کے نظریہ کے مطابق اصل صرف یک زوجگی ہے) اب ان میں ان کی یتیم اولاد یعنی جوان لڑکیاں۔۔ اس تعداد کو چار گنا کر دیجئے۔۔ یعنی تقریباً ٣٠٠ عورتوں کی شادی کا مسئلہ تھا اور بقول پرویز صاحب چونکہ یہ اجتماعی مسئلہ تھا لہذا ڈیڑھ ہزار مسلمانوں میں سے صرف تین سو مسلمانوں کے مزید ایک بیوی کرلینے سے یہ مسئلہ حل ہوسکتا تھا اور یہ کام ہو بھی حکومتی سطح پر رہا تھا۔ پھر جب سارے مسلمانوں کو دو دو بھی حصہ میں نہ آسکیں تو تین تین اور چار چار عورتوں سے نکاح کے کیا معنی ؟- اور یہ اجتماعی فیصلہ والی بات بھی عجیب قسم کی دھاندلی ہے۔ قرآن کہہ رہا ہے (فَانْكِحُوْا مَا طَابَ لَكُمْ مِّنَ النِّسَاۗءِ مَثْنٰى وَثُلٰثَ وَرُبٰعَ ۚ فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَةً اَوْ مَا مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ ۭ ذٰلِكَ اَدْنٰٓى اَلَّا تَعُوْلُوْا ۝ۭ ) 4 ۔ النسآء :3) یعنی مسلمان انفرادی طور پر جس جس عورت کو پسند کریں اس سے نکاح کرلیں اور آپ اسے اجتماعی فیصلہ قرار دے رہے ہیں۔ سو یہ ہے پرویز صاحب کی قرآنی بصیرت، جو دراصل اس مغربی تخیل کی پیداوار ہے جس میں ایک سے زائد بیویوں سے نکاح کو مذموم فعل سمجھا جاتا ہے۔ بات بالکل صاف تھی کہ اسلام نے حکم تو ایک بیوی سے نکاح کرلینے کا دیا ہے۔ البتہ اجازت چار بیویوں تک ہے۔ تعدد ازواج اجازت ہے حکم نہیں۔ اور اس اجازت کی وجہ یہ ہے کہ قرآن ہر ایک کے لیے اور ہر دور کے لیے تاقیامت دستور حیات ہے۔ لہذا کسی بھی ملک اور کسی بھی دور کے لوگ اپنے اپنے رسم و رواج یا ضروریات کے مطابق اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ مثلاً ہمارے ملک پاکستان میں عورت کی علیحدہ ملکیت کا تصور نہیں۔ مرد اگر گھر والا ہے تو عورت گھر والی ہے لہذا یہاں اگر کوئی دو بیویاں کرلے تو بیشمار پریشان کن مسائل اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ لہذا یہاں اگر کوئی دوسری یا تیسری بیوی کرتا ہے تو یقینا کسی خاص ضرورت کے تحت کرتا ہے اور ملک کی ٩٥ فیصد آبادی اس اجازت سے فائدہ نہیں اٹھاتی اور ایک ہی بیوی کو درست سمجھتی ہے۔ اس کے برعکس عرب میں آج بھی بیوی کی الگ ملکیت کا تصور موجود ہے۔ لہذا وہاں چار تک بیویاں کرنے پر بھی بیویوں کی باہمی رقابت اور خاوند کو پریشان کرنے والے مسائل بہت کم پیدا ہوتے ہیں۔ پھر وہاں طلاق کو بھی کوئی ایسا جرم نہیں سمجھا جاتا جس سے دو خاندانوں میں ایسی عداوت ٹھن جائے جیسی پاکستان میں ٹھن جاتی ہے۔ لہذا وہاں نصف سے زیادہ آبادی قرآن کی اس اجازت سے فائدہ اٹھا رہی ہے۔ لہذا شرعی لحاظ سے نہ پاکستان کے رواج کو مورد الزام ٹھہرایا جاسکتا ہے اور نہ عرب کے رواج کو۔ - ایک سے زیادہ بیویوں کو مذموم فعل سمجھنے کے اس مغربی تخیل کی بنیادیں دو ہیں : پہلی بنیاد فحاشی، بدکاری، داشتائیں رکھنے کی عام اجازت اور جنسی آوارگی ہے جسے مغرب میں مذموم فعل کی بجائے عین جائز بلکہ مستحسن فعل سمجھا جاتا ہے۔ اور دوسری بنیاد مادیت پرستی ہے۔ جس میں ہر شخص یہ تو چاہتا ہے کہ اس کا معیار زندگی بلند ہو اور اولاد کو اعلیٰ تعلیم دلائے مگر ان باتوں پر چونکہ بےپناہ اخراجات اٹھتے ہیں جو ہر انسان پورے نہیں کرسکتا، لہذا وہ اس بات کو ترجیح دیتا ہے کہ اس کے ہاں اولاد ہی نہ ہو یا کم سے کم ہو۔ اور ظاہر ہے کہ ایسا معاشرہ تو ایک بیوی بھی بمشکل برداشت کرتا ہے اور وہ بہتر یہی سمجھتا ہے کہ بیوی ایک بھی نہ ہو اور سفاح یا بدکاری سے ہی کام چلتا رہے۔ لیکن اسلام سب سے زیادہ زور ہی مرد اور عورت کی عفت پر دیتا ہے اور ہر طرح کی فحاشی کو مذموم فعل قرار دیتا ہے اور معیار زندگی کو بلند کرنے کی بجائے سادہ زندگی گزارنے کی تعلیم دیتا ہے اسی لیے اس نے اقتضاء ات اور حالات کے مطابق چار بیویوں تک کی اجازت دی ہے۔ اب بتائیے کہ اس مغربی تخیل اور اسلامی تخیل میں مطابقت کی کوئی صورت پیدا کی جاسکتی ہے ؟۔- خ نکاح ثانی کے لئے پہلی بیوی سے اجازت لینے کا قانون :۔ اسی مغربی تخیل سے اور بعض مہذب خواتین کے مطالبہ سے متاثر ہو کر صدر ایوب کے دور میں پاکستان میں مسلم عائلی قوانین کا آرڈیننس ١٩٦١ ء پاس ہوا۔ جس میں ایک شق یہ بھی تھی کہ اگر مرد شادی شدہ ہو اور دوسری شادی کرنا چاہتا ہو تو وہ سب سے پہلے اپنی پہلی بیوی سے اس دوسری شادی کی رضامندی اور اجازت تحریراً حاصل کرے، پھر ثالثی کونسل سے اجازت نامہ حاصل کرے اور اگر ثالثی کونسل بھی اجازت دے تو تب ہی وہ دوسری شادی کرسکتا ہے۔ جیسا کہ اس آرڈیننس کی شق نمبر ٢١ اور ٢٢ سے واضح ہوتا ہے۔ گویا حکومت نے نکاح ثانی پر ایسی پابندیاں لگا دیں کہ کوئی شخص کسی انتہائی مجبوری کے بغیر دوسرے نکاح کی بات سوچ بھی نہ سکے اور عملاً اس اجازت کو ختم کردیا جو اللہ تعالیٰ نے مرد کو دی تھی۔ کیونکہ کوئی عورت یہ گوارا نہیں کرسکتی کہ اس کے گھر میں اس کی سوکن آجائے۔- اب جو لوگ دوسری شادی کرنا چاہتے تھے اور پہلی بیوی کے رویہ سے نالاں تھے یا کسی اور مقصد کے لیے دوسری شادی ضروری سمجھتے تھے انہوں نے اس غیر فطری پابندی کا آسان حل یہ سوچا کہ پہلی بیوی کو طلاق دے کر رخصت کردیا جائے اور بعد میں آزادی سے دوسری شادی کرلی جائے۔ اس طرح جو قانون عورتوں کے حقوق کی محافظت کے لیے بنایا گیا تھا وہ خود انہی کی پریشانی کا موجب بن گیا۔ کیونکہ اللہ کے احکام کی ایسی غیر فطری تاویل اللہ کی آیات کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے۔ اور ایسے معاشرہ کو اس کی سزا مل کے رہتی ہے۔- خ ایک عورت چار اور چار شوہر :۔ پھر کچھ دریدہ دہن مغرب زدہ آزاد خیال عورتوں نے یہ اعتراض بھی جڑ دیا کہ یہ بھلا کہاں کا انصاف ہے کہ مرد تو چار چار عورتوں سے شادی کرلے اور عورت صرف ایک ہی مرد پر اکتفا کرے ؟ اور یہ تو ظاہر ہے کہ ایسا اعتراض کوئی ایسی حیا باختہ عورت ہی کرسکتی ہے جو یہ چاہتی ہے کہ اسے بھی بیک وقت کم از کم چار مردوں تک سے نکاح کی اجازت ہونی چاہیے تو اس کا جواب یہ ہے کہ جنسی خواہش جیسے انسانوں میں ہوتی ہے ویسے ہی حیوانوں میں بھی ہوتی ہے۔ اور مرد کو تو چار بیویوں کی اجازت ہے جبکہ ہم گوالوں کے ہاں دیکھتے ہیں کہ اگر ایک گوالے نے بیس بھینسیں رکھی ہوئی ہیں تو بھینسا صرف ایک ہی ہوتا ہے۔ کیا کبھی ایسا بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ کسی گوالے نے بھین سے تو بیس رکھے ہوں اور بھینس صرف ایک ہی ہو خود ہی غور فرما لیجئے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے اور ایسا کیوں نہیں ہوتا ؟- بات دراصل یہ ہے کہ مرد تو اپنی جوانی کے ایام میں اپنی جنسی خواہش کو پورا کرنے کے لیے ہر وقت مستعد ہوتا ہے مگر عورت کی ہرگز یہ کیفیت نہیں ہوتی۔ ہر ماہ حیض کے ایام میں اسے اس فعل سے طبعاً نفرت ہوتی ہے۔ پھر مرد تو صحبت کے کام سے دو تین منٹ میں فارغ ہوجاتا ہے اور اس سے آگے اولاد کی پیدائش میں کچھ حصہ نہیں ہوتا۔ جبکہ عورت کو حمل قرار پا جائے تو پورے ایام حمل میں، پھر اس کے بعد رضاعت کے ایام میں بھی وہ طبعاً اس فعل کی طرف راغب نہیں ہوتی۔ البتہ اپنے خاوند کی محبت اور اصرار کی وجہ سے اس کام پر آمادہ ہوجائے تو اور بات ہے اور بسا اوقات عورت انکار بھی کردیتی ہے۔ لیکن مرد اتنی مدت صبر نہیں کرسکتا۔ اب اس کے سامنے دو ہی راستے ہوتے ہیں۔ یا تو اور نکاح کرے یا پھر فحاشی کی طرف مائل ہو۔ اور اسلام نے پہلی صورت کو ہی اختیار کیا ہے۔ پھر مرد اگر چار بیویاں بھی رکھ لے تو اس سے نہ نسب میں اختلاط پیدا ہوتا ہے اور نہ ہی میراث کے مسائل میں کوئی الجھن پیش آتی ہے۔ جبکہ عورت اگر دو مردوں سے بھی اختلاط رکھے تو اس سے نسب بھی مشکوک ہوجاتا ہے۔ کیونکہ نسب کا تعلق مرد سے ہے، عورت سے نہیں۔ اور میراث کے مسائل میں بھی پیچیدگیاں پیدا ہوجاتی ہیں۔ اب ان باتوں کو درخور اعتناء نہ سمجھئے اور صرف اس بات پر غور فرمائیے کہ اگر عورت کو چار شوہروں کی اجازت دی جائے تو وہ رہے گی کس کے گھر میں ؟ اور کون اس کے نان و نفقہ اور اس کی اولاد کے اخراجات کا ذمہ دار بنے گا ؟ پھر کیا ایک شوہر یہ برداشت کرلے گا کہ اس کی بیوی علیٰ الاعلان دوسروں کے پاس بھی جاتی رہے۔ بلکہ میں تو کہتا ہوں کہ آپ شریعت کو بالائے طاق رکھئے اور چار شوہروں والی بات کا تجربہ کر کے دیکھئے کہ اس سے کس طرح ایک معاشرہ چند ہی سالوں میں تباہ و برباد ہوجاتا ہے۔ کوئی اسلام سے انکار کرتا ہے تو کرے مگر اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ شرعی احکام انسانی مصالح پر ہی مبنی ہوتے ہیں۔- اب اس مسئلہ پر ایک اور پہلو سے غور فرمائیے۔ اس حقیقت سے تو سب لوگ آشنا ہیں کہ جوانی کے ایام میں ہر شخص میں شہوانی جذبات اپنی انتہا کو پہنچے ہوئے ہوتے ہیں اور پھر نوجوان اور تندرست مرد اس قابل ہوتا ہے کہ کم از کم ایک دن میں ایک بار جماع کرے تب بھی اس کی صحت خراب نہ ہو۔ اور اگر اس جذبہ شہوانی کو طویل مدت تک دبائے رکھا جائے تو اس سے انسان کے بیمار پڑجانے کا خدشہ ہوتا ہے۔ ان حالات میں انسان کے سامنے تین ہی راستے ہوتے ہیں :- خ رہبانیت کے نتائج :۔ پہلا یہ کہ اس جذبہ کو مختلف تدبیروں سے دبا دیا جائے۔ خواہ یہ خصی ہونے سے ہو یا انتہائی قلیل خوری سے۔ جیسا کہ جوگی، سادھو یا رہبان قسم کے لوگ کرتے ہیں۔ اس طریق کے غیر فطری ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں۔ اور اس کا سب سے بڑا نقصان نسل انسانی کا انقطاع ہے اور اس کا دوسرا نقصان یہ ہے کہ فحاشی چور دروازے تلاش کرنے لگتی ہے۔ اس قسم کے لوگ تقدس کے پردوں میں زنا کاری کے مرتکب ہوتے ہیں۔ عیسائی مذہب میں اس کا رواج عام تھا۔ ایسے درویش قسم کے مرد اور عورتیں جو ساری عمر جنسی جھمیلوں سے آزاد رہ کر کلیسا کی خدمت کے لیے مامور ہوتے تھے ان میں خفیہ طور پر حرام کاری کا وسیع سلسلہ پایا جاتا تھا اور حرامی بچوں کو مختلف طریقوں سے ٹھکانے لگا دیا جاتا تھا اور ایسے بیشمار واقعات تاریخ کے صفحات پر آج بھی ثبت ہیں۔- دوسرا راستہ یہ ہے کہ شہوانی خواہشات کو بلاجھجک کھلے بندوں پورا کیا جائے۔ اہل مغرب کے ادیب قسم کے لوگوں نے نکاح کی پابندیوں کو ختم کرنے کے لیے ایک صدی سے زیادہ عرصہ اس مہم پر صرف کیا اور بالآخر وہ ایسی فحاشی کو عام کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ ان لوگوں کا طرز استدلال یہ تھا کہ انسان کی تین ضرورتیں لابدی ہیں : بھوک، نیند اور جنسی ملاپ۔ ان کو اگر پورا نہ کیا جائے تو انسان کی صحت بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ نیند تو بہرحال اپنا حق وصول کر ہی لیتی ہے۔ بھوک کا معاملہ یہ ہے کہ اگر وہ بھوک کے وقت گھر پر نہیں تو بازار سے، ہوٹل سے، عزیز و اقارب سے، جہاں بھی وہ ہو اپنی یہ ضرورت پوری کر ہی لیتا ہے اور اس کے لیے وہ محض اپنے گھر کا محتاج نہیں ہوتا۔ تو جیسی ضرورت غذائی بھوک کی ہے ویسی ہی جنسی بھوک کی بھی ہے لہذا صرف اپنی بیوی سے ہی ملاپ کا تصور غیر فطری ہے۔ نیز اگر کسی کو بیوی بھی میسر نہ آسکے تو وہ کیا کرے ؟- خ کیا جنسی آوارگی ایک لابدی ضرورت ہے :۔ اس استدلال میں غذائی بھوک اور جنسی بھوک کو ایک ہی سطح پر رکھ کر پیش کیا گیا ہے حالانکہ یہ بات اصولی طور پر غلط ہے اور اس کی وجوہ درج ذیل ہیں :- ١۔ غذائی بھوک کا اس کے سوا کوئی علاج نہیں کہ پیٹ کا تنور غذا سے پر کیا جائے لیکن جنسی بھوک کا علاج فطرت نے از خود کردیا ہے۔ جب انسان میں مادہ منویہ زیادہ ہوجائے تو بذریعہ احتلام یہ مادہ خارج ہوجاتا ہے اور یہ جنسی بھوک از خود کم ہوتی رہتی ہے۔- ٢۔ جنسی بھوک کو کم خوری اور روزہ رکھنے سے بھی کم کیا جاسکتا ہے لیکن غذائی بھوک کا شکم پروری کے سوا کوئی علاج نہیں ہوتا۔- ٣۔ غذائی بھوک از خود پیدا ہوتی ہے جبکہ جنسی بھوک کو بہت حد تک خود پیدا کیا جاتا ہے۔ آپ خود کو شہوانی خیالات اور ماحول سے محفوظ رکھ سکتے ہیں اور اگر آپ شہوانی جذبات کے ماحول میں مستغرق رہنے کے بجائے دوسرے مفید کاموں میں اپنے آپ کو مصروف رکھیں گے تو یہ جنسی بھوک بیدار ہی نہ ہوگی۔ اور اگر شہوانی خیالات اور ماحول میں مستغرق رہیں گے، فحش قسم کا لٹریچر اور ناول پڑھیں گے، سنیما اور ٹیلی ویژن پر رقص و سرود کے پروگرام دیکھیں گے، زہد شکن قسم کے گانے سنیں گے اور جنسی جذبات کو ہیجان میں رکھنے والے ماحول میں رہیں گے تو یہ جنسی بھوک اپنے عروج پر پہنچ جائے گی۔ گویا اس جنسی بھوک کو پیدا کرنا نہ کرنا، اعتدال پر رکھنا اور پروان چڑھانا بہت حد تک انسان کے اپنے اختیار میں ہوتا ہے جبکہ غذائی بھوک پر کنٹرول انسان کے اپنے اختیار میں نہیں ہوتا۔- ہمارے اس دعویٰ کی تصدیق کے لیے کیا یہ بات کافی نہیں کہ آج کے معاشرہ میں بھی آپ کو ایسے تعلیم حاصل کرنے والے نوجوان اور عفیف بچے کافی تعداد میں مل سکتے ہیں جن کی بیس پچیس برس کی عمر تک شادی نہیں ہوتی اور ان کی زندگی بےداغ ہوتی ہے۔ حالانکہ جنسی جذبات دس گیارہ سال کی عمر کے بعد بیدار ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔- خ اعتدال کا راستہ :۔ اور تیسرا راستہ دونوں کے درمیان اعتدال کا ہے جو اسلام نے اختیار کیا ہے کہ شہوانی جذبہ چونکہ فطری جذبہ ہے لہذا اسے روکنا غیر فطری بات ہے۔ تاہم اسے ایسا بےلگام بھی نہیں چھوڑا گیا جس سے معاشرتی بنیادوں کے انجر پنجر ہی ہل جائیں بلکہ اسے نکاح کی شرائط سے پابند بنادیا گیا ہے۔ اور یہ بات تو ہم پہلے واضح کرچکے ہیں کہ شہوانی ہیجان مرد میں اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ بسا اوقات ایک بیوی اس کا ساتھ نہیں دے سکتی۔ لہذا فحاشی اور بےحیائی سے اجتناب کے لیے تعدد ازواج ضروری تھا اور یہی راستہ فطری اور اسلامی ہے اور اسی راستہ کو اکثر انبیائے کرام نے اختیار کیا ہے جو مختلف ادوار میں انسانی معاشرہ کی اصلاح کے لیے مبعوث ہوتے رہے ہیں۔ اور اس سے ان لوگوں کے نظریہ کی تردید بھی ہوجاتی ہے جو یہ کہتے ہیں کہ اسلام میں اصل حکم صرف ایک عورت سے نکاح کا ہے۔ حالانکہ یہ مسئلہ معاشرہ کا ایک نہایت اہم اور بنیادی مسئلہ ہے لہذا اگر اسلام یک زوجگی کا قائل ہوتا تو اس کے متعلق نہایت واضح اور صریح حکم کا آنا لابدی تھا اس لیے کہ عرب میں تعدد ازواج کا رواج اس قدر زیادہ تھا کہ اسلام کو اس میں تحدید کرنا پڑی۔- [٦۔ ١] کنیزوں سے تمتع کی شرائط کے لیے اسی سورة کا حاشیہ نمبر ٤٠ ملاحظہ فرمائیے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تُقْسِطُوْا ۔۔ : اس آیت کی شان نزول یہ ہے کہ عروہ بن زبیر (رض) کے ایک سوال کے جواب میں ام المومنین عائشہ (رض) نے فرمایا کہ ” بعض یتیم لڑکیاں کچھ لوگوں کی پرورش میں ہوتیں، وہ ان لڑکیوں کے مال اور جمال کی وجہ سے ان سے نکاح کرلیتے، لیکن انھیں اپنے گھر کی لڑکیاں سمجھ کر پرائے گھر کی لڑکیوں جیسا نہ تو مہر دیتے اور نہ ان کے دوسرے حقوق ویسے ادا کرتے، تو اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں انھیں ایسا کرنے سے منع فرمایا کہ اگر تم یتیم لڑکیوں سے ان کے مہر اور نفقات میں انصاف نہیں کرسکتے تو ان کے علاوہ دوسری عورتوں سے، جو تمہیں پسند ہوں، نکاح کرلو۔ [ بخاری، التفسیر، باب : - ( وَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تُقْسِطُوْا ) : ٤٥٧٤ ]- مَثْنٰى وَثُلٰثَ وَرُبٰعَ ۚ: اس آیت سے ابن عباس (رض) اور جمہور علماء نے لکھا ہے کہ ایک شخص کے لیے بیک وقت چار سے زیادہ بیویاں اپنے حرم میں رکھنا جائز نہیں، یہ صرف رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا خاصہ ہے۔ امام شافعی (رض) فرماتے ہیں کہ سنت سے بصراحت یہ مسئلہ ثابت ہے۔ ابن کثیر (رض) فرماتے ہیں کہ شافعی (رض) نے جو فرمایا، اس پر علماء کا اجماع ہے۔ غیلان بن سلمہ ثقفی (رض) جب مسلمان ہوئے تو ان کے نکاح میں دس عورتیں تھیں، نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” ان میں سے چار کا انتخاب کرلو۔ “ [ أحمد : ٢؍١٤، ح : ٤٦٣٠۔ ابن ماجہ، النکاح، باب الرجل یسلم و عندہ ۔۔ : ١٩٥٣، عن ابن عمر ] مزید صحابہ کے واقعات ابن کثیر میں ملاحظہ فرمائیں۔ - قرطبی (رض) لکھتے ہیں : ” رافضی (شیعہ) اور بعض دوسرے لوگ اس آیت سے استدلال کرتے ہیں کہ شادیاں چار سے زائد بھی جائز ہیں، مگر یہ لغت اور سنت سے جہالت کا نتیجہ ہے۔ - فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تَعْدِلُوْا ۔۔ : اس سے بعض لوگوں نے ایک سے زیادہ شادیوں کے ناجائز ہونے پر استدلال کیا ہے کہ اگر تمہیں خوف ہو کہ عدل نہیں کرو گے تو ایک بیوی پر اکتفا کرو یا لونڈی پر۔ اس کے ساتھ وہ دوسری آیت بھی ملاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ( وَلَنْ تَسْتَطِيْعُوْٓا اَنْ تَعْدِلُوْا بَيْنَ النِّسَاۗءِ وَلَوْ حَرَصْتُم ) [ النساء : ١٢٩ ] ” اور تم ہرگز نہ کرسکو گے کہ عورتوں کے درمیان برابری (عدل) کرو، خواہ تم حرص بھی کرو۔ “ خلاصہ دونوں کا یہ نکالا کہ جب عدل ہو ہی نہیں سکتا تو مرد ایک سے زیادہ بیویاں نہیں رکھ سکتا۔ ان حضرات نے وہی کام کیا ہے جو ( لَا تَقْرَبُوا الصَّلٰوةَ ) والے حضرات کرتے ہیں کہ آگے ( وَاَنْتُمْ سُكٰرٰى ) [ النساء : 43 ] پڑھتے ہی نہیں۔ یہاں بھی اللہ تعالیٰ کا پورا فرمان یوں ہے : ” اور تم ہرگز نہ کرسکو گے کہ عورتوں کے درمیان برابری کرو، خواہ تم حرص بھی کرو، پس مت جھک جاؤ (ایک کی طرف) مکمل جھک جانا کہ اس (دوسری) کو لٹکائی ہوئی کی طرح چھوڑ دو ، اور اگر تم اصلاح کرو اور ڈرتے رہو تو بیشک اللہ ہمیشہ سے بیحد بخشنے والا، بیحد مہربان ہے۔ “ معلوم ہوا وہ عدل جو انسان کر ہی نہیں سکتا، یعنی دلی میلان، وہ واجب ہی نہیں۔ زیادہ بیویاں ہمارے نبی اور اصحاب کی سنت ہے۔ - ذٰلِكَ اَدْنٰٓى اَلَّا تَعُوْلُوْا : یعنی اگر کسی کو خوف ہے کہ وہ اتنا عدل بھی نہیں کرسکتا جتنا واجب ہے کہ رات رہنے اور نان و نفقہ میں بھی برابری نہیں کرسکتا، کیونکہ دلی محبت اور میلان و صحبت میں تو برابری ممکن ہی نہیں، تو ایک بیوی رکھے یا لونڈیاں، یہ زیادہ قریب ہے کہ تم انصاف سے نہ ہٹو۔ بعض لوگوں نے اس کا ترجمہ کیا ہے : ” یہ زیادہ قریب ہے کہ تمہارے عیال زیادہ نہ ہوجائیں اور تم فقیر نہ ہوجاؤ “ اور پھر اس پر برتھ کنٹرول کی بنیاد رکھ دی ہے کہ بچے کم پیدا کرو۔ حالانکہ بچے تو لونڈیوں سے بھی پیدا ہوتے ہیں اور لونڈیوں کی تعداد بھی مقرر نہیں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے زیادہ بچے پیدا کرنے کا حکم دیا، چناچہ فرمایا : ” ان عورتوں سے نکاح کرو جو بہت بچے جننے والی اور بہت محبت کرنے والی ہوں، کیونکہ میں ( قیامت کے دن) تمہاری کثرت پر فخر کروں گا۔ “ [ أبو داوٗد، النکاح، باب النھی عن تزویج من لم یلد من النساء : ٢٠٥٠، عن معقل بن یسار (رض) ]- پھر ” اَلَّا تَعُوْلُوْا “ کا معنی خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیان فرمایا : ” یہ زیادہ قریب ہے کہ تم ظلم نہ کرو، انصاف سے نہ ہٹو۔ “ [ ابن حبان : ٤٠٢٩، عن ابن عباس (رض) ]

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

ربط آیت :- ماقبل کی آیت میں یتامی کی حق تلفی کی ممانعت تھی کہ اولیاء کو ان کے اموال خرد برد کرنا حرام ہے، اس آیت میں بھی ایک دوسرے عنوان سے اس حکم کا اعادہ ہے کہ جن لوگوں کی ولایت میں یتیم لڑکیاں ہیں ان سے اس خیال سے نکاح نہ کریں کہ اپنے اختیار کی لڑکی ہے، جتنا چاہیں گے مہر مقرر کردیں گے، اور جو اموال ان کی ملک میں ہیں وہ بھی اپنے قبضہ میں آجائیں گے۔- غرض قرآن کریم کی اس آیت نے صراحتہ بتلا دیا کہ مال یتیم پر قبضہ کرنے کا ہر حیلہ اور بہانہ ناجائز ہے اور اولیاء کا فرض ہے کہ وہ دیانتداری سے ان کے حقوق کی نگہداشت کریں، چناچہ فرمایا : اور اگر تم کو اس بات کا احتمال (بھی) ہو (اور یقین ہو تو بدرجہ اولی) کہ تم یتیم لڑکیوں کے بارے میں (بابت ان کے مہر کے) انصاف (کی رعایت) نہ کرسکو گے تو (ان سے نکاح مت کرو بلکہ) اور (حلال) عورتوں سے جو تم کو (اپنی کسی مصلحت کے اعتبار سے) پسند ہوں نکاح کرلو (کیونکہ وہ مجبور نہیں، آزادی سے اپنی رضا ظاہر کرسکتی ہیں اور یہ نکاح اس قید کے ساتھ ہو کہ جو ایک عورت سے زیادہ کرنا چاہے تو ان صورتوں میں سے کوئی صورت ہو، ایک صورت یہ کہ ایک ایک مرد) دو دو عورتوں سے (نکاح کرلے) اور (دوسری صورت یہ کہ ایک ایک مرد) تین تین عورتوں سے (نکاح کرلے) اور (تیسری صورت یہ کہ ایک ایک مرد) چار چار عورتوں سے (نکاح کرلے) پس اگر تم کو (غالب) احتمال اس کا ہو کہ (کئی بیبیاں کر کے) عدل نہ رکھو گے (بلکہ کسی بی بی کے حقوق واجبہ ضائع ہوں گے) تو پھر ایک ہی بی بی پر بس کردیا (اگر دیکھو کہ ایک کے حقوق بھی ادا نہ ہوں گے تو) جو لونڈی (حسب قاعدہ شرعیہ) تمہاری ملک میں ہو وہی سہی اس امر مذکور میں (یعنی ایک بی بی کے رکھنے یا صرف لونڈی پر بس کرنے میں) زیادتی (بےانصافی) نہ ہونے کی توقع قریب تر ہے (کیونکہ ایک صورت میں تو کوئی تعداد نہیں جس میں برابری کرنا پڑے، دوسری صورت میں بی بی کے حقوق سے بھی کم حقوق ہیں، مثلاً مہر نہیں، صحبت کا حق نہیں تو اندیشہ اور کم ہے)- معارف ومسائل - یتیم لڑکیوں کی حق تلفی کا انسداد :۔- زمانہ جاہلیت میں جن لوگوں کی ولایت میں یتیم لڑکیاں ہوتی تھیں جو شکل و صورت سے اچھی سمجھی جاتیں یا ان کی ملکیت میں کوئی مال، جائیداد ہوتی تو ان کے اولیا ایسا کرتے تھے کہ خود ان سے نکاح کرتے یا اپنی اولاد سے ان کا نکاح کردیتے تھے، جو چاہا کم سے کم مہر مقرر کردیا اور جس طرح چاہا ان کو رکھا، کیونکہ وہی ان کے ولی اور نگراں ہوتے تھے، ان کا باپ موجود نہ ہوتا تھا جو ان کے حقوق کی پوری نگرانی کرسکتا اور ان کی ازدواجی زندگی کے ہر پہلو پر نظر اور فلاح و بہبود کا مکمل انتظام کر کے ان کا نکاح کردیتا۔- صحیح بخاری میں حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے روایت ہے کہ عہد رسالت میں ایک ایسا ہی واقعہ پیش آیا کہ ایک شخص کی ولایت میں ایک یتیم لڑکی تھی اور اس کا ایک باغ تھا جس میں یہ لڑکی بھی شریک تھی، اس شخص نے اس یتیم لڑکی سے خود اپنا نکاح کرلیا، اور بجائے اس کے کہ اپنے پاس سے مہر وغیرہ دیتا اس کے باغ کا حصہ بھی اپنے قبضہ میں لے لیا، اس پر یہ آیت نازل ہوئی وان خفتم الاتفسطوا فی الیتمی فانکحوا ماطاب لکم من النسآء یعنی اگر تمہیں یہ خطرہ ہو کہ یتیم لڑکیوں سے خود اپنا نکاح کرنے میں تم انصاف پر قائم نہ رہو گے، بلکہ ان کی حق تلفی ہوجائے گی، تو تمہارے لئے دوسری عورتیں بہت ہیں، ان میں جو تمہارے لئے حلال اور پسند ہیں ان سے نکاح کرلو۔ “- نکاح نابالغ کا مسئلہ :۔- اس آیت میں یتامی سے مراد یتیم لڑکیاں ہیں اور اصطلاح شرع میں یتیم اسی لڑکی یا لڑکے کو کہا جاتا ہے جو ابھی بالغ نہ ہو، اس لئے اس آیت سے یہ بھی ثابت ہوگیا کہ یتیم لڑکی کے ولی کو یہ بھی اختیار ہے کہ ہالت صغر سنی بلوغ سے پہلے ہی اس کا نکاح کر دے، البتہ لڑکی کی مصلحت اور آئندہ فلاح و بہبود پیش نظر رہے ایسا نہ ہو جیسے بہت سی برادریوں میں رائج ہے کہ بڑی لڑکی کا نکاح چھوٹے بچے سے کردیا، عمروں کا تناسب نہ دیکھا، یا لڑکے کے حالات و عادات کا جائزہ نہ لیا ویسے ہی نکاح کردیا۔ اور وہ بالغ لڑکیاں جن کے باپ مر چکے ہیں، اگرچہ بالغ ہوجانے کی بنا پر خود مختار ہیں لیکن لڑکیاں شرم و حیاء کی بناء پر عادة بالغ ہونے کے بعد بھی اپنے نکاح کے معاملہ میں خود کچھ نہیں بولتیں، اولیاء اور وارث جو کچھ کردیں اسی کو قبول کرلیتی ہیں، اس لئے ان کے اولیاء پر بھی لازم ہے کہ ان کی حق تلفی سے پرہیز کریں۔ بہرحال اس آیت میں یتیم لڑکیوں کے ازدواجی حقوق کی پوری نگہداشت کا حکم مذکور ہے، مگر عام حکومتوں کے قانون کی طرح اس کے نافذ کرنے کی ذمہ داری براہ راست حکومت پر ڈالنے کے بجائے خود عوام کو اللہ تعالیٰ کے خوف کا حوالہ دے کر حکم دیا گیا کہ اگر تمہیں اس میں بےانصافی کا خطرہ ہو تو پھر یتیم لڑکیوں سے شادی کے خیال کو چھوڑو، دوسری عورتیں تمہارے لئے بہت ہیں، ان سے نکاح کرو۔ - ساتھ ہی ذمہ داران حکومت کا یہ فریضہ ہے کہ اس کی نگرانی کریں، کسی جگہ حق تلفی ہوتی نظر آئے تو بزور قانون حقوق ادا کرائیں۔- قرآن میں تعداد ازواج اور اسلام سے پہلے اقوام عالم میں اس کا رواج :۔- ایک مرد کے لئے متعدد بیبیاں رکھنا اسلام سے پہلے بھی تقریباً دنیا کے تمام مذاہب میں جائز سمجھا جاتا تھا، عرب، ہندوستان، ایران، مصر، بابل وغیرہ ممالک کی ہر قوم میں کثرت ازواج کی رسم جاری تھی اور اس کی فطری ضرورتوں سے آج بھی کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ دور حاضر میں یورپ نے اپنے متقدمین کے خلاف تعدد ازواج کو ناجائز کرنے کی کوشش کی تو اس کا نتیجہ بےنکاحی داشتاؤں کی صورت میں برآمد ہوا، بالاخر فطری قانون غالب آیا اور اب وہاں کے اہل بصیرت حکماء خود اس کو رواج دینے کے حق میں ہیں، مسٹر ڈیون پورٹ جو ایک مشہور عیسائی فاضل ہے، تعدد ازواج کی حمایت میں انجیل کی بہت سی آیتیں نقل کرنے کے بعد لکھتا ہے :- ” ان آیتوں سے یہ پایا جاتا ہے کہ تعدد ازواج صرف پسندیدہ ہی نہیں، بلکہ خدا نے اس میں خاص برکت دی ہے۔ “- اسی طرح پادری نکسن اور جان ملٹن اور اپزک ٹیلر نے پرزور الفاظ میں اس کی تائید کی ہے، اسی طرح دیدک تعلیم غیر محدود تعدد ازدواج کو جائز رکھتی ہے اور اس سے دس دس، تیرہ تیرہ، ستائیس ستائیس بیویوں کو ایک وقت میں جمع رکھنے کی اجازت معلوم ہوتی ہے۔- کرشن جو ہندوؤں میں واجب التعظیم اوتار مانے جاتے ہیں ان کی سینکڑوں بیبیاں تھیں، جو مذہب اور قانون عفت و عصمت کو قائم رکھنا چاہتا ہو اور زنا کاری کا انسداد ضریر جانتا ہو اس کے لئے کوئی چارہ نہیں کہ تعداد ازواج کی اجازت دے، اس میں زنا کاری کا بھی انسداد ہے اور مردوں کی بہ نسبت عورتوں کی جو کثرت بہت سے علاقوں میں پائی جاتی ہے اس کا بھی علاج ہے، اگر اس کی اجازت نہ دی جائے تو داشتہ اور پیشہ ور کسی عورتوں کی افراط ہوگی یہی وجہ ہے کہ جن قوموں میں تعداد ازواج کی اجازت نہیں ان میں زنا کی کثرت ہے، یورپین اقوام کو دیکھ لیجئے ان کے یہاں تعدد ازواج پر تو پابندی ہے، مگر بطور دوستانہ جتنی بھی عورتوں سے مرد زنا کرتا ہے اس کی پوری اجازت ہے، کیا تماشہ ہے کہ نکاح ممنوع اور زنا جائز۔- غرض اسلام سے پہلے کثرت ازواج کی رسم بغیر کسی تحدید کے رائج تھی، ممالک اور مذاہب کی تاریخ سے جہاں تک معلوم ہوتا ہے کسی مذہب اور کسی قانون نے اس پر کوئی حد نہ لگائی تھی، نہ یہود و نصاری نے نہ ہندوؤں اور آریوں نے اور نہ پارسیوں نے۔- اسلام کے ابتدائی زمانے میں بھی یہ رسم بغیر تحدید کے جاری رہی، لیکن اس غیر محدود کثرت ازدواج کا نتیجہ یہ تھا کہ لوگ اول اول تو حرص میں بہت سے نکاح کرلیتے تھے، مگر پھر ان کے حقوق ادا نہ کرسکتے تھے، اور یہ عورتیں ان کے نکاح میں ایک قیدی کی حیثیت سے زندگی گزارتی تھیں۔- پھر جو عورتیں ایک شخص کے نکاح میں ہوتیں ان میں عدل و مساوات کا کہیں نام و نشان نہ تھا جس سے وبستگی ہوئی اس کو نوازا گیا، جس سے رخ پھر گیا اس کے کسی حق کی پروا نہیں۔- اسلام نے تعدد ازدواج پر ضروری پابندی لگائی اور عدل و مساوات کا قانون جاری کیا :۔- قرآن نے عام معاشرہ کے اس ظلم عظیم کو روکا تعداد ازواج پر پابندی لگائی اور چار سے زیادہ عورتوں کو نکاح میں جمع کرنا حرام قرار دیا اور جو عورتیں ایک ہی وقت میں نکاح کے اندر ہیں ان میں مساوات حقوق کا نہایت موکد حکم اور اس کی خلاف ورزی پر وعید شدید سنائی، آیت مذکورہ میں ارشاد ہوا : فانکحوا ماطاب لکم من النسآء مثنی و ثلث و ربع یعنی جو حلال عورتیں تمہیں پسند ہوں ان سے نکاح کرسکتے ہو، دو دو تین تین چار چار۔ “- آیت میں ماطاب کا لفظ آیا ہے، حسن بصری، ابن جبیر اور ابن مالک نے ماطاب کی تفسیر ماحل سے فرمائی ہے، یعنی جو عورتیں تمہارے لئے حلال ہیں۔- اور بعض حضرات نے ماطاب کے لفظی معنی کے اعتبار سے ” پسندیدہ “ کا ترجمہ کیا ہے۔ مگر ان دونوں میں کوئی تضاد نہیں، یہ مراد ہوسکتا ہے کہ جو عورتیں طبعی طور پر تمہیں پسند ہوں اور تمہارے لئے شرعاً حلال بھی ہوں۔ اس آیت میں ایک طرف تو اس کی اجازت دی گئی کہ ایک سے زائد دو ، تین، چار عورتیں نکاح میں جمع کرسکتے ہیں، دوسری طرف چار کے عدد تک پہنچا کر یہ پابندی بھی عائد کردی کہ چار سے زائد عورتیں بیک وقت نکاح میں جمع نہیں کی جا سکتیں۔- رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بیان نے اس قرآنی تخصیص اور پابندی کو اور زیادہ واضح کردیا، اس آیت کے نزول کے بعد ایک شخص غیلان بن اسلمہ ثقفی مسلمان ہوئے، اس وقت ان کے نکاح میں دس عورتیں تھیں اور وہ بھی مسلمان ہوگئی تھیں، رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم قرآنی کے مطابق ان کو حکم دیا کہ ان دس میں سے چار کو منتخب کرلیں، باقی کو طلاق دے کر آزاد کردیں، غیلان بن اسلمہ ثقفی نے حکم کے مطابق چار عورتیں رکھ کر باقی سے علیحدگی اختیار کرلی (مشکوة شریف ص ٤٧٢ بحوالہ ترمذی وابن ماجہ) مسند احمد میں اسی روایت کے تکملہ میں ایک اور واقعہ بھی مذکور ہے، اس کا ذکر کرنا بھی فائدہ سے خالی نہیں، کیونکہ اس کا تعلق بھی نسوانی حقوق سے ہے، وہ یہ کہ :۔- غیلان بن اسلمہ نے حکم شرعی کے مطابق چار عورتیں رکھ لی تھیں، مگر فاروق اعظم کے زمانہ خلافت میں انہوں نے ان کو بھی طلاق دے دی اور اپنا کل مال و سامان اپنے بیٹوں میں تقسیم کردیا، فاروق اعظم (رض) کو اس کی اطلاع ملی، تو ان کو حاضر کر کے فرمایا کہ تم نے ان عورتوں کو اپنی میراث سے محروم کرنے کے لئے یہ حرکت کی ہے جو سراسر ظلم ہے، اس لئے فوراً ان کی طلاق سے رجعت کرو اور اپنا مال بیٹوں سے واپس لو، اور اگر تم نے ایسا نہ کیا تو یاد رکھو کہ تمہیں سخت سزا دی جائے گی۔- قیس بن الحارث اسدی (رض) فرماتے ہیں کہ میں جب مسلمان ہوا تو میرے نکاح میں آٹھ عورتیں تھیں، میں نے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ذکر کیا تو آپ نے فرمایا کہ ان میں سے چار رکھ لو باقی کو طلاق دیدو۔ (ابو داؤد، ص ٤٠٣)- اور مسند امام شافعی میں نوفل بن معاویہ دیلمی کا واقعہ نقل کیا ہے کہ وہ جب مسلمان ہوئے تو ان کے نکاح میں پانچ عورتیں تھیں، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو بھی ایک عورت کو طلاق دینے کا حکم دیا، یہ واقعہ مشکوة شریف (ص ٤٧٢) میں بھی شرح السنتہ سے نقل کیا ہے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام کے اس تعامل سے آیت قرآنی کی مراد بالکل واضح ہوگئی کہ چار سے زائد عورتوں کو نکاح میں جمع کرنا حرام ہے۔- رحمتہ اللعالمین (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے تعدد ازدواج :- حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات والا صفات سراپا رحمت و برکت ہے، تبلیغ احکام اور تزکیہ نفوس اور ابلاغ قرآن آپ کا سب سے بڑا مقصد بعثت تھا، آپ نے اسلام کی تعلیمات کو قولاً و عملاً دنیا میں پھیلا دیا، یعنی آپ بتاتے بھی تھے اور کرتے بھی تھے، پھر چونکہ انسانی زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں ہے جس میں نبی کی رہبری کی ضرورت نہ ہو، نماز باجماعت سے لے کر بیویوں کے تعلقات، آل واولاد کی پرورش اور پاخانہ پیشاب اور طہارت تک کے بارے میں آپ کی قولی اور فعلی ہدایات سے کتب حدیث بھرپور ہیں، اندرون خانہ کیا کیا جواب دیا، اس طرح کے سینکڑوں مسائل ہیں جن سے ازواج مطہرات کے ذریعہ ہی امت کو رہنمائی ملی ہے، تعلیم و تبلیغ کی دینی ضرورت کے پیش نظر حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے کثرت ازواج ایک ضروری امر تھا، صرف حضرت عائشہ (رض) سے احکام و مسائل، اخلاق و آداب اور سیرت نبوی سے متعلق دو ہزار دو سو دس روایات مروی ہیں جو کتب حدیث میں پائی جاتی ہیں، حضرت ام سلمہ (رض) کی مرویات کی تعداد تین سو اٹہتر تک پہنچی ہوئی ہے، حافظ ابن قیم نے اعلام الموقعین (ص ٩ ج ١) میں لکھا ہے کہ اگر حضرت ام سلمہ (رض) کے فتاوی جمع کئے جائیں جو انہوں نے حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد دیئے ہیں تو ایک رسالہ مرتب ہوسکتا ہے۔- حضرت عائشہ (رض) کا روایت در روایت اور فقہ و فتاوی میں جو مرتبہ ہے وہ محتاج بیان نہیں، ان کے شاگردوں کی تعداد دو سو کے لگ بھگ ہے، حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد مسلسل اڑتالیس سال تک علم دین پھیلایا۔- بطور مثال دو مقدس بیویوں کا مجمل حال لکھ دیا ہے دیگر ازواج مطہرات کی روایات بھی مجموعی حیثیت سے کافی تعداد میں موجود ہیں ظاہر ہے کہ اس تعلیم و تبلیغ کا نفع صرف ازواج مطہرات سے پہنچا۔- انبیاء اسلام کے مقاصد بلند اور پورے عالم کی انفرادی و اجتماعی، خانگی اور ملکی اصلاحات کی فکروں کو دنیا کے شہوت پرست انسان کیا جانیں، وہ تو سب کو اپنے اوپر قیاس کرسکتے ہیں۔ اسی کے نتیجے میں کئی صدی سے یورپ کے ملحدین اور مستشرقین نے اپنی ہٹ دھرمی سے فخر عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے تعداد ازواج کو ایک خالص جنسی اور نفسانی خواہش کی پیداوار قرار دیا ہے اگر حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سیرت پر ایک سرسری نظر بھی ڈالی جائے تو ایک ہوش مند منصف مزاج کبھی بھی آپ کی کثرت ازواج کو اس پر محمول نہیں کرسکتا۔- آپ کی معصوم زندگی قریش مکہ کے سامنے اس طرح گذری کہ پچیس سال کی عمر میں ایک سن رسیدہ صاحب اولاد بیوہ (جس کے دو شوہر فوت ہوچکے تھے) سے عقد کر کے عمر کے پچیس سال تک انہی کے ساتھ گذارہ کیا، وہ بھی اس طرح کہ مہینہ مہینہ گھر چھوڑ کر غار حرا میں مشغول عبادت رہتے تھے، دوسرے نکاح جتنے ہوئے پچاس سالہ عمر شریف کے بعد ہوئے، یہ پچاس سالہ زندگی اور عنفوان شباب کا سارا وقت اہل مکہ کی نظروں کے سامنے تھا، کبھی کسی دشمن کو بھی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف کوئی ایسی چیز منسوب کرنے کا موقع نہیں ملا جو تقویٰ و طہارت کو مشکوک کرسکے، آپ کے دشمنوں نے آپ پر ساحر، شاعر، مجنون، کذاب، مفتری جیسے الزامات میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی، لیکن آپ کی معصوم زندگی پر کوئی ایسا حرف کہنے کی جرأت نہیں ہوئی جس کا تعلق جنسی اور نفسانی جذبات کی بےراہی روی سے ہو۔ - ان حالات میں کیا یہ بات غور طلب نہیں ہے کہ جوانی کے پچاس سال اس زہد وتقوی اور لذائذ دنیا سے یک سوئی میں گذارنے کے بعد وہ کیا داعیہ تھا جس نے آخر عمر میں آپ کو متعدد نکاحوں پر مجبور کیا، اگر دل میں ذرا سا بھی انصاف ہو تو ان متعدد نکاحوں کی وجہ اس کے سوا نہیں بتلائی جاسکتی جس کا اوپر ذکر کیا گیا ہے اور اس کثرت ازدواج کی حقیقت کو بھی سن لیجئے تاکہ کس طرح وجود میں آئی۔- پچیس سال کی عمر سے لے کر پچاس سال کی عمر شریف ہونے تک تنہا حضرت خدیجہ (رض) آپ کی زوجہ ہیں، ان کی وفات کے بعد حضرت سودہ اور حضرت عائشہ (رض) سے نکاح ہوا، مگر حضرت سودہ تو آپ کے گھر تشریف لے آئیں اور حضرت عائشہ صغر سنی کی وجہ سے اپنے والد کے گھر ہی رہیں، پھر چند سال کے بعد ٢ ھ میں مدینہ منورہ میں حضرت عائشہ کی رخصتی عمل میں آئی، اس وقت آپ کی عمر چون سال ہوچکی ہے اور دو بیویاں اس عمر میں آ کر جمع ہوئی ہیں، یہاں سے تعدد ازدواج کا معاملہ شروع ہوا، اس کے ایک سال بعد حضرت حفصہ (رض) سے نکاح ہوا، پھر کچھ ماہ بعد حضرت زینب بنت خزیمہ (رض) سے نکاح ہوا اور صرف اٹھارہ ماہ آپ کے نکاح میں رہ کر وفات پائی، ایک قول کے مطابق تین ماہ آپ کے نکاح میں زندہ رہیں، پھر ٤ ھ میں حضرت ام سلمہ (رض) سے نکاح ہوا، پھر ٥ ھ میں حضرت زینب بنت جحش (رض) سے نکاح ہوا، اس وقت آپ کی عمر شریف اٹھاون ٥٨ سال ہوچکی تھی اور اتنی بڑی عمر میں آ کر چار بیویاں جمع ہوئیں، حالانکہ امت کو جس وقت چاربیویوں کی اجازت ملی تھی اس وقت ہی آپ کم از کم چار نکاح کرسکتے تھے لیکن آپ نے ایسا نہیں کیا، ان کے بعد ٦ ھ میں حضرت جویریہ (رض) سے اور ٧ ھ میں حضرت ام حبیبہ (رض) سے اور پھر ٧ ھ میں حضرت صفیہ (رض) سے پھر اسی سال حضرت میمونہ (رض) سے نکاح ہوا۔- خلاصہ :۔ یہ کہ چون سال کی عمر تک آپ نے صرف ایک بیوی کے ساتھ گذارہ کیا، یعنی پچیس سال حضرت خدیجہ کے ساتھ اور چار پانچ سال حضرت سودہ کے ساتھ گذارے، پھر اٹھاون سال کی عمر میں چار بیویاں جمع ہوئیں اور باقی ازواج مطہرات دو تین سال کے اندر حرم نبوت میں آئیں۔- اور یہ بات خاص طور سے قابل ذکر ہے کہ ان سب بیویوں میں صرف ایک ہی عورت ایسی تھیں جن سے کنوارے پن میں نکاح ہوا، یعنی ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ (رض) ان کے علاوہ باقی سب ازواج مطہرات بیوہ تھیں، جن میں بعض کے دو دو شوہر پہلے گذر چکے تھے اور یہ تعداد بھی آخر عمر میں آ کر جمع ہوئی ہے۔- حضرات صحابہ مرد اور عورت سب آپ پر جاں نثار تھے، اگر آپ چاہتے تو سب بیویاں کنواریاں جمع کرلیتے، بلکہ ہر ایک ایک دو دو مہینے کے بعد بدلنے کا بھی موقع تھا، لیکن آپ نے ایسا نہیں کیا۔ نیز یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ سرکار دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) برحق نبی تھے، نبی صاحب ہوا وہوس نہیں ہوتا، جو کچھ کرتا ہے اذن الٰہی سے کرتا ہے، نبی ماننے کے بعد ہر اعتراض ختم ہوجاتا ہے اور اگر کوئی شخص آپ کو نبی ہی نہ مانے اور یہ الزام لگائے کہ آپ نے محض شہوت پرستی کی وجہ سے اپنے لئے کثرت ازدواج کو جائز رکھا تھا تو اس شخص سے کہا جائے گا کہ اگر ایسا ہوتا تو آپ اپنے حق میں کثرت ازدواج کے معاملہ میں اس پابندی کا اعلان کیوں فرماتے جس کا ذکر قرآن کریم کی آیت لایحل لک النسآء من بعد میں موجود ہے، اپنے حق میں اس پابندی کا اعلان اس بات کی کھلی دلیل ہے کہ آپ نے جو کچھ کیا اپنے رب کے اذن سے کیا۔- تعدد ازدواج کی وجہ سے تعلیمی اور تبلیغی فوائد جو امت کو حاصل ہوئے اور جو احکام امت تک پہنچے اس کی جزئیات اس قدر کثیر تعداد میں ہیں کہ ان کا احصاء دشوار ہے، کتب احادیث اس پر شاہد ہیں، البتہ بعض دیگر فوائد کی طرف یہاں ہم اشارہ کرتے ہیں۔- حضرت ام سلمہ (رض) کے شوہر حضرت ابوسلمہ کی وفات کے بعد آپ نے ان سے نکاح کرلیا تھا، وہ اپنے سابق شوہر کے بچوں کے ساتھ آپ کے گھر تشریف لائیں، ان کے بچوں کی آپ نے پرورش کی، اور اپنے عمل سے بتادیا کہ کس پیار و محبت سے سوتیلی اولاد کی پرورش کرنی چاہئے، آپ کی بیویوں میں صرف یہی ایک بیوی ہیں جو بچوں کے ساتھ آئیں، اگر کوئی بھی بیوی اس طرح کی نہ ہوتی تو عملی طور پر سوتیلی اولاد کی پرورش کا خانہ خالی رہ جاتا اور امت کو اس سلسلے میں کوئی ہدایت نہ ملتی، ان کے بیٹے حضرت عمر بن ابی سلمہ فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی گود میں پرورش پاتا تھا، ایک بار آپ کے ساتھ کھانا کھاتے ہوئے پیالے میں ہر جگہ ہاتھ ڈالتا تھا، آپ نے فرمایا : بسم اللہ وکل بیمینک وکل مما یلیک (اللہ کا نام لے کر کھا، داہنے ہاتھ سے کھا اور سامنے سے کھا) (بخاری، مسلم بحوالہ مشکو ة ص ٣٦٢)- حضرت جویریہ (رض) ایک جہاد میں قید ہو کر آئی تھیں، دوسرے قیدیوں کی طرح یہ بھی تقسیم میں آگئیں، اور ثابت بن قیس یا انکے چچا زاد بھائی کے حصہ میں ان کو لگا دیا گیا، لیکن انہوں نے اپنے آقا سے اس طرح معاملہ کرلیا کہ اتنا اتنا مال تم کو دیدوں گی مجھے آزاد کردو، یہ معاملہ کر کے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئیں اور مالی امداد چاہی، آپ نے فرمایا اس سے بہتر بات نہ بتادوں ؟ وہ یہ کہ میں تمہاری طرف سے مال ادا کر دوں اور تم سے نکاح کرلوں، انہوں نے بخوشی منظور کرلیا، تب آپ نے ان کی طرف سے مال اد اکر کے نکاح فرما لیا، ان کی قوم کے سینکڑوں افراد حضرات صحابہ کی ملکیت میں آ چکے تھے، کیونکہ وہ سب لوگ قیدی ہو کر آئے تھے، جب صحابہ کو پتہ چلا کو جویریہ آپ کے نکاح میں آگئی ہیں تو آحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے احترام کے پیش نظر سب نے اپنے اپنے غلام باندی آزاد کردیئے، سبحان اللہ حضرات صحابہ کرام کے ادب کی کیا شان تھی، اس جذبے کے پیش نظر کہ یہ لوگ سرکار دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سسرال والے ہوگئے، ان کو غلام بنا کر کیسے رکھیں، سب کو آزاد کردیا، حضرت عائشہ (رض) اس واقعہ کے متعلق فرماتی ہیں۔- ” آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جویریہ سے نکاح کرلینے سے بنو المصلق کے سو گھرانے آزاد ہوئے میں نے کوئی عورت ایسی نہیں دیکھی جو جویریہ سے بڑھ کر اپنی قوم کے لئے بڑی برکت والی ثابت ہوئی ہو۔ “- حضرت ام حبیبیہ (رض) نے اپنے شوہر کے ساتھ بابتداء اسلام ہی میں مکہ میں اسلام قبول کیا تھا اور پھر دونوں میاں بیوی ہجرت کر کے قافلہ کے دور سے افراد کے ساتھ حبشہ چلے گئے تھے، وہاں ان کا شوہر نصرانی ہوگیا اور چند دن کے بعد مر گیا، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نجاشی کے واسطہ سے ان کے پاس نکاح کا پیغام بھیجا، جسے انہوں نے قبول کرلیا اور وہیں حبشہ میں نجاشی ہی نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ان کا نکاح کردیا، دلچسپ بات یہ ہے کہ حضرت ام حبیبہ ابوسفیان (رض) کی صاحبزادی تھیں اور حضرت ابوسفیان اس وقت اس گروہ کے سرخیل تھے جس نے اسلام دشمن کو اپنا سب سے بڑا مقصد قرار دیا تھا اور وہ مسلمان کو اور پیغمبر خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اذیت دینے اور انہیں فنا کے گھاٹ اتار دینے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تھے جب ان کو اس نکاح کی اطلاع ہوئی تو بلا اختیار ان کی زبان سے یہ الفاظ نکلے : ھو الفعل لایجدع انفہ ، (یعنی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جوان مرد ہیں ان کی ناک نہیں کاٹی جاسکتی) مطلب یہ کہ وہ بلند ناک والے معزز ہیں ان کو ذلیل کرنا آسان نہیں، ادھر تو ہم ان کو ذلیل کرنے کی تیاریوں میں لگے ہوئے ہیں اور ادھر ہماری لڑکی ان کے نکاح میں چلی گئی۔- غرض اس نکاح نے ایک نفسیاتی جنگ کا اثر کیا اور اسلام کے مقابلہ میں کفر کے قائد کے حوصلے پست ہوگئے، اس نکاح کی وجہ سے جو سیاسی فائدہ اسلام اور مسلمانوں کو پہنچا اس کی اہمیت اور ضرورت سے انکار نہیں کیا جاسکتا اور یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ خدا کے مدبر اور حکیم رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس فائدہ کو ضرور پیش نظر رکھا ہوگا۔- یہ چند باتیں لکھی گئی ہیں ان کے علاوہ سیرت پر عبور رکھنے والے حضرات کو بہت کچھ حکمتیں آپ کے تعدد ازدواج میں مل سکتی ہیں، اس سلسے میں سیدی حکیم الامت قدس سرہ کے رسالے ” کثرت ازواج لصاحب المعراج “ کا دیکھنا بھی مفید ہوگا۔- یہ تفصیل ہم نے ملحدین و مستشرقین کے پھیلائے ہوئے پر فریب جال کو کاٹنے کے لئے لکھی ہے، کیونکہ ان کے اس دام تزدیر میں بہت سے وہ تعلیم یافتہ اور ناواقف مسلمان بھی پھنس جاتے ہیں جو سیرت نبوی اور تاریخ اسلام سے بیخبر ہیں اور اسلامیات کا علم مستشرقین ہی کے کتابوں سے حاصل کرتے ہیں۔- اگر متعدد بیویوں میں مساوات اور عدل و پر قدرت نہ ہو تو صرف ایک بیوی پر اکتفا کیا جائے :۔- چار بیویوں تک کی اجازت دے کر فرمایا فان خفتم الاتعدلوا فواحدة اوماملکت ایمانکم ” یعنی اگر تم کو اس کا خوف ہو کہ عدل نہ کرسکو گے تو ایک ہی بیوی پر بس کرو، یا جو کنیز شرعی اصول کے مطابق تمہاری ملک ہو اس سے گذارہ کرلو۔ “- اس سے معلوم ہوا کہ ایک سے زیادہ نکاح کرنا اسی صورت میں جائز اور مناسب ہے جبکہ شریعت کے مطابق سب بیویوں میں برابری کرسکے اور سب کے حقوق کا لحاظ رکھ سکے، اگر اس پر قدرت نہ ہو تو ایک ہی بیوی رکھی جائے، زمانہ جاہلیت میں یہ ظلم عام تھا کہ ایک ایک شخص کئی کئی بیویاں رکھ لیتا تھا جس کا ذکر چند احادیث کے حوالہ سے اس آیت کے ضمن میں پہلے گزرا ہے اور بیویوں کے حقوق میں مساوات اور عدل کا مطلق خیال نہ تھا جس کی طرف زیادہ میلان ہوگیا اس کو ہر حیثیت سے نوازنے اور خوش رکھنے کی فکر میں لگ گئے اور دوسری بیویوں کے حقوق نظر انداز کر ڈالتے، قرآن کریم نے صاف صاف فرما دیا کہ اگر عدل نہ کرسکو تو ایک ہی بیوی رکھو، یا کنیز سے گذارہ کرلو، یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ مملوک کنیز جس کا ذکر آیت میں ہے اس کی خاص شرائط ہیں، جو عموماً آج کل مفقود ہیں، اس لئے اس زمانے میں کسی کو مملوک شرعی کنیز کہہ کر بےنکاح رکھ لینا حرام ہے، اس کی تفصیل کا یہاں موقع نہیں۔- حاصل یہ ہے کہ اگرچہ قرآن کریم نے چار عورتیں تک نکاح میں رکھنے کی اجازت دے دی اور اس حد کے اندر جو نکاح کئے جائیں گے وہ صحیح اور جائز ہوں گے لیکن متعدد بیویاں ہونے کی صورت میں ان میں عدل و مساوات قائم رکھنا واجب ہے اور اس کے خلاف کرنا گناہ عظیم ہے، اس لئے جب ایک سے زائد نکاح کا ارادہ کرو تو پہلے اپنے حالات کا جائزہ لو، کہ سب کے حقوق عدل و مساوات کے ساتھ پورا کرنے کی قدرت بھی ہے یا نہیں، اگر یہ احتمال غالب ہو کہ عدل و مساوات قائم نہ رکھ سکو گے تو ایک سے زائد نکاح پر اقدام کرنا اپنے آپ کو ایک عظیم گناہ میں مبتلا کرنے پر اقدام ہے اس سے باز رہنا چاہئے اور اس حالت میں صرف ایک ہی بیوی پر اکتفا کرنا چاہئے۔ خلاصہ یہ ہے کہ چار سے زائد عورتوں سے کسی نے بیک وقت یعنی ایک ہی ایجاب و قبول میں نکاح کرلیا تو وہ نکاح سرے سے باطل ہے، کیونکہ چار سے زائد نکاح کا کسی کو حق نہیں اور چار کے اندر جو نکاح کئے جائیں وہ نکاح تو بہرل ہوجائیں گے، لیکن بیویوں میں عدل و مساوات قائم نہ رکھی تو سخت گناہ ہوگا اور جس کی حق تلفی ہو رہی ہو قاضی کی عدالت میں دعویٰ کر کے اپنا حق وصول کرسکے گی۔- رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سب بیویوں کے درمیان پوری مساوات و عدل کی سخت تاکید فرمائی ہے اور اس کے خلاف کرنے پر سخت وعیدیں سنائی ہیں اور خود اپنے عمل کے ذریعے بھی اس کو واضح فرمایا ہے، بلکہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو ان معاملات میں بھی مساوات فرماتے تھے جن میں مساوات لازم نہیں۔- ایک حدیث میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ جس شخص کے نکاح میں دو عورتیں ہوں اور وہ ان کے حقوق میں برابری اور انصاف نہ کرسکے تو وہ قیامت میں اس طرح اٹھایا جائے گا کہ اس کا ایک پہلو گرا ہوا ہوگا۔ (مشکوة، ص ٨٧٢)- البتہ یہ مساوات ان امور میں ضروری ہے جو انسان کے اختیار میں ہیں، مثلاً نفقہ میں برابری، شب باشی میں برابری، رہا وہ امر جو انسان کے اختیار میں نہیں، مثلاً قلب کا میلان کسی کی طرف زیادہ ہوجائے وہ اس غیر اختیاری معاملہ میں اس پر کوئی مواخذہ نہیں، بشرطیکہ اس میلان کا اثر اختیاری معاملات پر نہ پڑے، رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خود بھی اختیاری معاملات میں پوری مساوات قائم فرمانے کے ساتھ حق تعالیٰ کی بارگاہ میں عرض کیا :- ” یا اللہ یہ میری برابر والی تقسیم ہے، ان چیزوں میں جو میرے اختیار میں ہیں، اب وہ چیز جو آپ کے قبضہ میں ہے، میرے اختیار میں نہیں ہے اس پر مجھ سے مواخذہ نہ کرنا۔ “- ظاہر ہے کہ جس کام پر ایک رسول معصوم بھی قادر نہیں، اس پر کوئی دوسرا کیسے قادر ہوسکتا ہے، اس لئے قرآن کریم کی دوسری آیت میں اس غیر اختیاری معاملہ کا ذکر اس طرح فرمایا :- ” عورتوں کے درمیان تم پوری برابری ہرگز نہ کرسکو گے۔ “- جس میں بتلا دیا کہ میلان قلب اور محبت ایک غیر اختیاری معاملہ ہے، اس میں برابری کرنا انسان کے بس میں نہیں، لیکن آگے اس غیر اختیاری معاملہ کی اصلاح کے لئے بھی ارشاد فرمایا : فلا تمیلوا کل المیل، یعنی ” اگر کسی ایک بیوی سے زیادہ محبت ہو تو اس میں تو تم معذور ہو، لیکن دوسری بیوی سے کلی بےاعتنائی اور بےتوجہی اس حالت میں بھی جائز نہیں “ اس آیت کے جملے فان خفتم الاتعدلوا فواحدة میں جس عدل و مساوات کا بیان ہے، یہ وہی امور اختیاریہ کا عدل ہے کہ اس میں بےاعتدالی گناہ عظیم ہے اور جس شخص کو اس گناہ میں مبتلا ہوجانے کا خطرہ ہو اس کو یہ ہدایت کی گئی کہ ایک سے زائد نکاح نہ کرے۔- ایک شبہ اور اس کا جواب :۔- مذکورہ بالا تفصیل و تشریح کو نظر انداز کردینے کی وجہ سے بعض لوگ سورة نساء کی آیت مذکورہ اور اس آیت (٤: ٩٢١) کو ملانے سے ایک عجیب مغالطہ میں مبتلا ہوگئے، وہ یہ کہ آیت سورة نساء میں تو یہ حکم دیا گیا کہ اگر عدل و مساوات قائم نہ رکھنے کا خطرہ ہو تو پھر ایک ہی نکاح پر بس کرو اور اس دوسری آیت میں قطعی طور پر یہ واضح کردیا کہ عدل و مساوات ہو ہی نہیں سکتا، تو اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک سے زائد نکاح مطلقاً جائز نہ رہے، لیکن ان کو سوچنا چاہئے کہ اگر اللہ تعالیٰ جل شانہ کا مقصود ان تمام آیات میں ایک سے زائد نکاح کو روکنا ہی ہوتا تو بھی اس تفصیل میں جانے کی ضرورت ہی کیا تھی کہ فانکحوا ماطاب لکم من النسآء مثنی وثلاث وربع (یعنی نکاح کرو جو پسند آئیں تم کو عورتیں دو دو تین تین چار چار) کیونکہ اس صورت میں تو بےانصافی یقینی ہے، پھر خطرہ ہونے کے کوئی معنی ہی باقی نہیں رہتے۔- اس کے علاوہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام (رض) کا عملی اور قولی بیان اور مسلسل تعامل بھی اس پر شاہد ہے کہ ایک سے زائد نکاح کو کسی وقت اسلام میں نہیں روکا گیا۔ بات وہی ہے جو اوپر بیان ہوچکی ہے کہ سورة نساء کی پہلی آیت میں امور اختیاریہ کے عدل و مساوات کا ذکر ہے اور دوسری آیت میں محبت اور قلبی میلان میں عدم مساوات پر قدرت نہ ہونے کا بیان ہی اس لئے دونوں آیتوں میں نہ کوئی تعارض ہے اور نہ ان آیات میں مطلقاً تعدد ازدواج کی ممانعت کی کوئی دلیل ہے۔- آیت کے ختم پر ارشاد فرمایا ذلک ادنی الا تعولوا اس آیت میں دو کلمے ہیں، ایک کلمہ ادنی یہ لفظ دلو سے مشتق ہے، جو قرب کے معنی میں ہے، اور دوسرا لفظ لاتعولوا ہے، عال یعول، مال یمیل کے معنی میں ہے، جس کے معنی میلان کے ہیں اور یہاں ناجائز میلان اور ظلم و جور کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اس آیت میں جو کچھ تم کو بتلایا گیا ہے (یعنی عدل نہ کرسکنے کی صورت میں ایک بیوی پر اکتفا کرنا یا باندی کے ساتھ گذارہ کرلینا) یہ ایسی چیز ہے کہ اس کو اختیار کرنے اور اس پر عمل پیرا ہونے میں تم ظلم کرنے سے بچ سکو گے اور زیادتی و تعددی کے مواقع ختم ہو سکیں گے۔- یہاں ایک شبہ یہ ہے کہ جب ایک بیوی ہوگی تو ظلم کا بالکل کوئی موقع نہ ہوگا، پھر لفظ ادنی بڑھا کر یہ کیوں فرمایا کہ اس پر عمل پیرا ہونا اس بات کے قریب ہے کہ تم ظلم نہ کرو، بلکہ یہ فرمانا چاہئے کہ تم بالکل اس ظلم سے بچ جاؤ گے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ لفظ ادنی بڑھا کر اس طرف اشارہ فرمایا ہے کہ چونکہ بہت سے لوگ ایک بیوی کو بھی ظلم و ستم کا تختہ بنائے رکھتے ہیں، اس لئے ظلم کا راستہ بند کرنے کے لئے صرف یہ کافی نہیں کہ ایک سے زائد نکاح نہ کرو، وہاں یہ ضرور ہے کہ اس صورت میں ظلم کا خطرہ کم ہوجائے گا اور تم عدل کے قریب پہنچ جاؤ گے اور ظلم وجور سے مکمل رہائی اس وقت ہوگی جبکہ ایک بیوی کے حقوق پورے ادا کئے جائیں اس کے ساتھ حسن سلوک کا معاملہ ہے، اس کی خامیوں سے درگزر اور اس کی کجی پر صبر کیا جائے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تُقْسِطُوْا فِي الْيَتٰمٰى فَانْكِحُوْا مَا طَابَ لَكُمْ مِّنَ النِّسَاۗءِ مَثْنٰى وَثُلٰثَ وَرُبٰعَ۝ ٠ ۚ فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَۃً اَوْ مَا مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ۝ ٠ ۭ ذٰلِكَ اَدْنٰٓى اَلَّا تَعُوْلُوْا۝ ٣ ۭ- خفی - خَفِيَ الشیء خُفْيَةً : استتر، قال تعالی: ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعاً وَخُفْيَةً [ الأعراف 55] ،- ( خ ف ی ) خفی ( س )- خفیتہ ۔ الشیء پوشیدہ ہونا ۔ قرآن میں ہے : ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعاً وَخُفْيَةً [ الأعراف 55] اپنے پروردگار سے عاجزی سے اور چپکے چپکے دعائیں مانگا کرو ۔- قسط - الْقِسْطُ : هو النّصيب بالعدل کالنّصف والنّصفة . قال تعالی: لِيَجْزِيَ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ بِالْقِسْطِ [يونس 4] ، وَأَقِيمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ [ الرحمن 9] والقِسْطُ : هو أن يأخذ قسط غيره، وذلک جور، والْإِقْسَاطُ : أن يعطي قسط غيره، وذلک إنصاف، ولذلک قيل : قَسَطَ الرّجل : إذا جار، وأَقْسَطَ : إذا عدل . قال : أَمَّا الْقاسِطُونَ فَكانُوا لِجَهَنَّمَ حَطَباً- [ الجن 15] وقال : وَأَقْسِطُوا إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ- [ الحجرات 9] ، وتَقَسَّطْنَا بيننا، أي : اقتسمنا، والْقَسْطُ : اعوجاج في الرّجلین بخلاف الفحج، والقِسْطَاسُ : المیزان، ويعبّر به عن العدالة كما يعبّر عنها بالمیزان، قال : وَزِنُوا بِالْقِسْطاسِ الْمُسْتَقِيمِ [ الإسراء 35] .- ( ق س ط ) القسط ( اسم )- ( ق س ط ) القسط ( اسم ) نصف ومصفۃ کی طرح قسط بھی مبنی بر عدل حصہ کو کہتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لِيَجْزِيَ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ بِالْقِسْطِ [يونس 4] تاکہ ایمان والوں اور نیک کام کرنے والوں کو انصاف کے ساتھ بدلہ دے ۔ وَأَقِيمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ [ الرحمن 9] اور قسط کے معنی دوسرے کا حق مررنا بھیآتے ہیں اس لئے یہ ظلم اور جو رے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے القسط پاؤں میں ٹیڑھا پن یہ افجع کی ضد ہے جس کے نزدیک اور ایڑیوں کی جانب سے دور ہو نیکے ہیں ۔ الا قساط اس کے اصل معنی کسی کو اس کا حق دینے کے ہیں اسی چیز کا نام انصاف ہے اسی بنا پر کہا گیا ہے کہ قسط الرجل فھو قاسط ) کے معنی ظلم کرنے اوراقسط کے معنی انصاف کرنے کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ أَمَّا الْقاسِطُونَ فَكانُوا لِجَهَنَّمَ حَطَباً [ الجن 15] اور گنہگار ہوئے وہ دوزخ کا ایندھن بنے وَأَقْسِطُوا إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ [ الحجرات 9] اور انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے ۔ فقسطنا بیننا ہم نے ( کسی چیز کو آپس میں برا بر تقسیم کرلیا چناچہ القسطاس تراز دکو کہتے ہیں اور لفظ میزان کی طرح اس سے بھی عدل ونصاف کے معنی مراد لئے جاتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ وَزِنُوا بِالْقِسْطاسِ الْمُسْتَقِيمِ [ الإسراء 35] اور جب تول کر دو تو ترا زو سیدھی رکھ کر تولا کرو ۔- نكح - أصل النِّكَاحُ للعَقْدِ ، ثم استُعِيرَ للجِماع، ومُحالٌ أن يكونَ في الأصلِ للجِمَاعِ ، ثمّ استعیر للعَقْد، لأَنَّ أسماءَ الجِمَاعِ كلَّهَا كِنَايَاتٌ لاسْتِقْبَاحِهِمْ ذكرَهُ كاسْتِقْبَاحِ تَعَاطِيهِ ، ومحال أن يَسْتَعِيرَ منَ لا يَقْصِدُ فحْشاً اسمَ ما يَسْتَفْظِعُونَهُ لما يَسْتَحْسِنُونَهُ. قال تعالی: وَأَنْكِحُوا الْأَيامی - [ النور 32] ، إِذا نَكَحْتُمُ الْمُؤْمِناتِ [ الأحزاب 49] ، فَانْكِحُوهُنَّ بِإِذْنِ أَهْلِهِنَ [ النساء 25] إلى غير ذلک من الآیات .- ( ن ک ح ) اصل میں نکاح بمعنی عقد آتا ہے اور بطور استعارہ جماع کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے یہ ناممکن ہے کہ یہ اصل میں بمعنی جماع ہو اور پھر عقد میں بطور استعارہ استعمال ہوا ہو کیوں کہ عربی زبان میں جماع کے معنی میں تمام الفاظ کنائی ہیں ۔ کیونکہ نفس فعل کی طرح صراحتا اس کا تذکرہ بھی مکروہ سمجھا جاتا ہے لہذا یہ نہیں ہوسکتا کہ زبان ذکر فحش سے اس قدر گریزا ہو وہ ایک مستحن امر کے لئے قبیح لفظ استعمال کرے قرآن پاک میں ہے : ۔ وَأَنْكِحُوا الْأَيامی[ النور 32] اور اپنی قوم کی بیوہ عورتوں کے نکاح کردیا کرو ۔ إِذا نَكَحْتُمُ الْمُؤْمِناتِ [ الأحزاب 49] جب تم مومن عورتوں سے نکاح کر کے فَانْكِحُوهُنَّ بِإِذْنِ أَهْلِهِنَ [ النساء 25] تو ان لونڈیوں کے ساتھ ان کے مالکوں سے اجازت حاصل کر کے نکاح کرلو ۔ علٰی ہذا لقیاس متعد آیات ہیں جن میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے ۔- طيب - يقال : طَابَ الشیءُ يَطِيبُ طَيْباً ، فهو طَيِّبٌ. قال تعالی: فَانْكِحُوا ما طاب لَكُمْ [ النساء 3] ، فَإِنْ طِبْنَ لَكُمْ [ النساء 4] ، وأصل الطَّيِّبِ : ما تستلذّه الحواسّ ، وما تستلذّه النّفس، والطّعامُ الطَّيِّبُ في الشّرع : ما کان متناولا من حيث ما يجوز، ومن المکان الّذي يجوز فإنّه متی کان کذلک کان طَيِّباً عاجلا وآجلا لا يستوخم، وإلّا فإنّه۔ وإن کان طَيِّباً عاجلا۔ لم يَطِبْ آجلا، وعلی ذلک قوله : كُلُوا مِنْ طَيِّباتِ ما رَزَقْناكُمْ [ البقرة 172] - ( ط ی ب ) طاب ( ض )- الشئی یطیب طیبا فھم طیب ( کے معنی کسی چیز کے پاکیزہ اور حلال ہونے کے ہیں ) قرآن میں ہے : : فَانْكِحُوا ما طاب لَكُمْ [ النساء 3] تو ان کے سوا عورتیں تم کو پسند ہوں ان سے نکاح کرلو ۔ ، فَإِنْ طِبْنَ لَكُمْ [ النساء 4] ہاں اگر وہ اپنی خوشی سے تم کو چھوڑدیں ۔ اصل میں طیب اسے کہا جاتا ہے جس سے انسان کے حواس بھی لذت یاب ہوں اور نفس بھی اور شریعت کی رو سے الطعام الطیب اس کھانے کو کہا جائے گا جو جائز طریق سے حاصل کیا جائے اور جائز جگہ سے جائز انداز کے مطابق لیا جائے کیونکہ جو غذا اس طرح حاصل کی جائے وہ دنیا اور آخرت دونوں میں خوشگوار ثابت ہوگی ورنہ دنیا کی خوشگوار چیزیں آخرت میں نقصان وہ ثابت ہونگی اسی بنا پر قرآن طیب چیزوں کے کھانے کا حکم دیتا ہے ۔ چناچہ فرمایا ۔ كُلُوا مِنْ طَيِّباتِ ما رَزَقْناكُمْ [ البقرة 172] جو پاکیزہ چیزیں ہم نے تمہیں عطا فرمائی ہیں اور ان کو کھاؤ ۔- عدل - العَدَالَةُ والمُعَادَلَةُ : لفظٌ يقتضي معنی المساواة، ويستعمل باعتبار المضایفة، والعَدْلُ والعِدْلُ يتقاربان، لکن العَدْلُ يستعمل فيما يدرک بالبصیرة كالأحكام، وعلی ذلک قوله : أَوْ عَدْلُ ذلِكَ صِياماً [ المائدة 95] ، والعِدُل والعَدِيلُ فيما يدرک بالحاسّة، کالموزونات والمعدودات والمکيلات، فالعَدْلُ هو التّقسیط علی سواء، وعلی هذا روي : «بالعَدْلِ قامت السّموات والأرض» «5» تنبيها أنه لو کان رکن من الأركان الأربعة في العالم زائدا علی الآخر، أو ناقصا عنه علی مقتضی الحکمة لم يكن العالم منتظما .- والعَدْلُ ضربان :- مطلق : يقتضي العقل حسنه، ولا يكون في شيء من الأزمنة منسوخا، ولا يوصف بالاعتداء بوجه، نحو : الإحسان إلى من أحسن إليك، وكفّ الأذيّة عمّن كفّ أذاه عنك .- وعَدْلٌ يُعرَف كونه عَدْلًا بالشّرع، ويمكن أن يكون منسوخا في بعض الأزمنة، کالقصاص وأروش الجنایات، وأصل مال المرتدّ. ولذلک قال : فَمَنِ اعْتَدى عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوا عَلَيْهِ [ البقرة 194] ، وقال : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِثْلُها [ الشوری 40] ، فسمّي اعتداء وسيئة، وهذا النحو هو المعنيّ بقوله : إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسانِ- [ النحل 90] ، فإنّ العَدْلَ هو المساواة في المکافأة إن خيرا فخیر، وإن شرّا فشرّ ، والإحسان أن يقابل الخیر بأكثر منه، والشرّ بأقلّ منه، ورجلٌ عَدْلٌ: عَادِلٌ ، ورجالٌ عَدْلٌ ، يقال في الواحد والجمع، قال الشاعر : 311-- فهم رضا وهم عَدْلٌ«1» وأصله مصدر کقوله : وَأَشْهِدُوا ذَوَيْ عَدْلٍ مِنْكُمْ- [ الطلاق 2] ، أي : عَدَالَةٍ. قال تعالی: وَأُمِرْتُ لِأَعْدِلَ بَيْنَكُمُ [ الشوری 15] ، وقوله : وَلَنْ تَسْتَطِيعُوا أَنْ تَعْدِلُوا بَيْنَ النِّساءِ [ النساء 129] ، فإشارة إلى ما عليه جبلّة النّاس من المیل، فالإنسان لا يقدر علی أن يسوّي بينهنّ في المحبّة، وقوله : فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَواحِدَةً- [ النساء 3] ، فإشارة إلى العَدْلِ الذي هو القسم والنّفقة، وقال : لا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلى أَلَّا تَعْدِلُوا اعْدِلُوا[ المائدة 8] ، وقوله : أَوْ عَدْلُ ذلِكَ صِياماً [ المائدة 95] ، أي : ما يُعَادِلُ من الصّيام الطّعام، فيقال للغذاء : عَدْلٌ إذا اعتبر فيه معنی المساواة . وقولهم :«لا يقبل منه صرف ولا عَدْلٌ» «2» فالعَدْلُ قيل : هو كناية عن الفریضة، وحقیقته ما تقدّم، والصّرف : النّافلة، وهو الزّيادة علی ذلک فهما کالعَدْلِ والإحسان . ومعنی أنه لا يقبل منه أنه لا يكون له خير يقبل منه، وقوله : بِرَبِّهِمْ يَعْدِلُونَ [ الأنعام 1] ، أي : يجعلون له عَدِيلًا فصار کقوله : هُمْ بِهِ مُشْرِكُونَ [ النحل 100] ، وقیل : يَعْدِلُونَ بأفعاله عنه وينسبونها إلى غيره، وقیل : يَعْدِلُونَ بعبادتهم عنه تعالی، وقوله : بَلْ هُمْ قَوْمٌ يَعْدِلُونَ [ النمل 60] ، يصحّ أن يكون من قولهم : عَدَلَ عن الحقّ : إذا جار عُدُولًا، وأيّام مُعْتَدِلَاتٌ: طيّبات لِاعْتِدَالِهَا، وعَادَلَ بين الأمرین : إذا نظر أيّهما أرجح، وعَادَلَ الأمرَ : ارتبک فيه، فلا يميل برأيه إلى أحد طرفيه، وقولهم : ( وضع علی يدي عَدْلٍ ) فمثل مشهور «1» .- ( ع د ل ) العدالۃ والمعادلۃ - کے لفظ میں مساوات کے معنی پائے جاتے ہیں اور معنی اضافی کے اعتبار سے استعمال ہوتا ہے یعنی ایک دوسرے کے ہم وزن اور برابر ہوتا اور عدل عدل کے قریب قریب ایک ہی معنی ہیں لیکن عدل کا لفظ معنوی چیزوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے احکام شرعیہ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : ۔ أَوْ عَدْلُ ذلِكَ صِياماً [ المائدة 95] او عدل ذلک صیاما یا اس کے برابر روزے رکھنا اور عدل وعدیل کے الفاظ ان چیزوں کے لئے بولے جاتے ہیں جن کا اور اک حواس ظاہرہ سے ہوتا ہے جیسے وہ چیزیں جن کا تعلق ماپ تول یا وزن سے ہوتا ہے پس عدل کے معنی دو چیزوں کا برابر ہونا کے ہیں چناچہ اسی معنی میں مروی ہے بالعدل قامت السموت والاارض کہ عدل ہی سے آسمان و زمین قائم ہیں یعنی اگر عناصر اربعہ جن کائنات نے ترکیب پائی ہے میں سے ایک عنصر میں بھی اس کی معینہ مقدار سے کمی یا بیشی ہوجائے تو نظام کائنات قائم نہیں رہ سکتا ،- العدل دو قسم پر ہے - عدل مطلق - جو عقلا مستحن ہوتا ہے یہ نہ تو کسی زمانہ میں منسوخ ہوا ہے اور نہ ہی کسی اعتبار سے تعدی کے ساتھ متصف ہوسکتا ہے مثلا کیسی کے احسان کے بدلہ میں اس پر احسان کرنا اور جو تمہیں تکلف نہ دے اسے ایزا رسانی باز رہنا قغیرہ ۔ - دوم عدل شرعی - جسے شریعت نے عدل کہا ہے اور یہ منسوخ بھی ہوسکتا ہے جیسے قصاص جنایات کی دیت اور مال مرتد کی اصل وغیرہ چناچہ آیات : ۔ فَمَنِ اعْتَدى عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوا عَلَيْهِ [ البقرة 194] پس اگر کوئی تم پر زیادتی کرے تو جیسی زیادتی وہ تم پر کرے ۔ واپس ہی تم اس پر کرو ۔ وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِثْلُها [ الشوری 40] اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے ۔ میں زیادتی اور برائی کی سزا کا کام بھی زیادتی اور برائی ہی قرار دیا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسانِ [ النحل 90] خدا تم کو انصاف اور احسان کرنے کا حکم دیتا ہے ۔ میں عدل کے یہی معنی مراد کیونکہ کسی چیز کے برابر اس کا بدلہ دینے کا نام عدل یعنی نیکی کا بدلہ نیکی سے اور برائی کا بدلہ برائی سے اور نیکی کے مقابلہ میں زیادہ نیکی اور شر کے مقابلہ میں مسامحت سے کام لینے کا نام احسان ہے اور لفظ عدل واحد جمع دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے رجل عدل عادل ورجال عدل شاعر نے کہا ہے ( الطویل ) ( 303 ) فھم رضا وھم عدل وہ راضی رہنے والے اور عدال ہیں ۔ دراصل عدل کا لفظ مصدر ہے چناچہ آیت : ۔ وَأَشْهِدُوا ذَوَيْ عَدْلٍ مِنْكُمْ [ الطلاق 2] اور اپنے میں سے دو منصب مردوں کو گواہ بنالو میں عدل کے معنی عدالہ ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَأُمِرْتُ لِأَعْدِلَ بَيْنَكُمُ [ الشوری 15] اور مجھے حکم ہوا کہ تم میں انصاف کروں لا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلى أَلَّا تَعْدِلُوا اعْدِلُوا[ المائدة 8] اور لوگوں کی دشمنی تم کو اس بات پر امادہ نہ کرے کہ انصاف چھوڑ دو ۔ انصاف کیا کرو ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَلَنْ تَسْتَطِيعُوا أَنْ تَعْدِلُوا بَيْنَ النِّساءِ [ النساء 129] اور تم خواہ کتنا ہی چاہو عورتوں میں ہر گز برابری نہیں کرسکو گے ۔ میں انسان کے طبعی میلان کی طرف اشارہ ہے کہ تمام بیویوں سے برابر وجہ کی محبت اس کی قدرت سے باہر ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَواحِدَةً [ النساء 3] اگر اس بات کا اندیشہ ہو کہ سب عورتوں سے یکساں سلوک نہ کرسکو گے تو ایک عورت کانی ہے ۔ میں عدل سے نان ونفقہ اور ازواجی تعلقات میں برابر ی مرادی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ أَوْ عَدْلُ ذلِكَ صِياماً [ المائدة 95] اس کے برابر روزے رکھنا ۔ میں عدل سے مراد یہ ہے کہ وہ روزے طعام سے فدیہ کے برابر ہوں کیونکہ فدیہ میں مساوت کے معنی ملحوظ ہوں تو اسے بھی عدل کہہ دیا جاتا ہے اور ( 33 ) لایقبل منہ صرف ولا عدل میں بعض نے کہا ہے کہ عدل کا لفظ فریضہ سے کنایہ ہے مگر اس کے اصل معنی وہی ہیں جو ہم بیان کرچکے ہیں اور صرف کا لفظ نافلۃ سے اور یہ اصل فرض سے بڑھ کر کام کرنے کا نام ہے لہذا یہ باہم تقابل کے اعتبار سے عدل اور احسان کے ہم مثل ہیں اور لایقبل منہ کے معنی یہ ہیں کہ اسکے پاس کسی قسم کی نیکی ہوگی جو قبول کی جائے اور یہ آیت : ۔ بِرَبِّهِمْ يَعْدِلُونَ [ الأنعام 1] کے معنی یہ ہیں کہ وہ دوسروں کو خدا کی مثل اور نظیر قرار دیتے ہیں ۔ لہذا یہ آیت : ۔ هُمْ بِهِ مُشْرِكُونَ [ النحل 100] کے ہم معنی ہوگی بعض نے اس کے معنی یہ کئے ہیں کہ وہ افعال الہیہ کو دوسروں کی طرف منسوب کرتے ہیں بعض نے اللہ تعالیٰ کی عبادت سے عدول کرنا مراد لیا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ بَلْ هُمْ قَوْمٌ يَعْدِلُونَ [ النمل 60] بلکہ یہ لوگ رستے سے الگ ہورہے ہیں ۔ بھی اسی معنی پر محمول ہوسکتی ہے یعنی اس کے معنی یعدلون بہ کے ہیں ۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ عدل عن الحق سے مشتق ہو جس کے معنی حق سے ہٹ جانا کے ہیں ۔ ایام معتد لات معتدل زمانہ یعنی جب رات دن برابر ہوتے ہیں ۔ عادل بین الامرین اس نے دو چیزوں کے درمیان موازنہ کیا عادل الامر کسی معاملہ میں پھنس گیا اور کسی ایک جانب فیصلہ نہ کرسکا اور جب کسی شخص کی زندگی سے مایوسی ہوجائے تو اس کے متعلق کہا جاتا ہے : ۔ یعنی اب وہ زندہ نہیں رہ سکتا ۔- عول - عَالَهُ وغاله يتقاربان . العَوْلُ يقال فيما يهلك، والعَوْلُ فيما يثقل، يقال : ما عَالَكَ فهو عَائِلٌ لي ومنه : الْعَوْلُ ، وهو ترک النّصفة بأخذ الزیادة . قال تعالی: ذلِكَ أَدْنى أَلَّا تَعُولُوا[ النساء 3] ، ومنه : عَالَتِ الفریضة : إذا زادت في القسمة المسمّاة لأصحابها بالنّصّ ، والتَّعْوِيلُ : الاعتماد علی الغیر فيما يثقل، ومنه : العَوْلُ وهو ما يثقل من المصیبة، فيقال : ويله وعَوْلَهُ ومنه : العِيَالُ ، الواحد عَيِّلٌ لما فيه من الثّقل، وعَالَهُ : تحمّل ثقل مؤنته، ومنه قوله عليه السلام : «ابدأ بنفسک ثمّ بمن تَعُولُ» وأَعَالَ : إذا کثر عِيَالُهُ- ( ع و ل ) عالہ وغالہ کے قریب قریب ایک ہی معنی ہیں لیکن الغول کا لفظ اس چیز کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ جو انسان کو ہلاک کر ڈالے اور العول ہر اس چیز کے متعلق استعمال ہوتا ہے جو انسان کو گرانبار کر دے اور اس کے بوجھ تلے وہ دب جائے محاورہ ہے ۔ مالک فھو عائلی : کہ جو تجھ پر بار ہے وہ مجھ پر بھی گراں بار ہے اسی سے عول ہے جس کے معنی حق استحقاق سے زیادہ لے کر بےانصافی کے ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ ذلِكَ أَدْنى أَلَّا تَعُولُوا[ النساء 3] اس سے تم بےانصافی سے بچ جاؤ گے ۔ اور اسی عالت الفریضۃ کا محاورہ ہے جس کے معنی ترکہ کی تقسیم کے وقت وارثوں کے مقررہ حصے دینے کے بعد کچھ مال بچ جانیکے ہیں التعویل کے معنی کسی مشکل کام میں دوسروں پر اعتماد کرنے کے ہیں اسی سے عول ہے جس کے معنی بھاری مصیبت کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے : ۔ ویلہ وعولہ ہائے اس کی مصیبت اور اسی سے العیال یعنی وہ افراد جن کے بوجھ کے نیچے دبا ہوا ہو اس کا مفرد عیل ہے عالہ اس نے فلاں کے اخراجات کا بوجھ اٹھا یا اسی کا فرمان ہے کہ پہلے اپنی ذلت پر خرچ کرو اور پھر ان پر جن کے اخراجات تمہارے ذمہ ہیں اعال الرجل وہ آدمی کثیر العیال ہوگیا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

کم عمربچے بچیوں کا نکاح کرادینا - اسلام کسی کو بھی یتیم بچیوں کے ساتھ ناانصافی کی اجازت نہیں دیتا - قول باری ہے (وان خفتم ان لاتقسطوافی الیتامی فانکحواماطاب لکم من النساء مثنیٰ واثلث وربع ، اور اگر تم یتیموں کے ساتھ بےانصافی کرنے ڈرتے ہو تو جو عورتیں تم کو پسند آئیں ان میں سے دودو، تین تین ، چارچار سے نکاح کرلو) زہری نے عروہ سے روایت کی ہے کہ میں نے اپنی خالدحضرت عائشہ سے اس آیت کے متعلق دریافت کیا تو انھوں نے فرمایا : میرے بھانجے یہ یتیم لڑکی کے متعلق ہے جو اپنے ولی کی سرپرستی میں ہوتی تھی۔ اس کے مال اور حسن وجمال سے اسے رغبت ہوجاتی اور وہ اس سے نکاح کرنے کا ارادہ کرلیتا اور بدلے میں جو مہردیتاوہ اس لڑکی کے مرتبے سے کم ہوتا۔ اس لیے لوگوں کو ان یتیم لڑکیوں سے نکاح کرنے سے روک دیا گیا، الا یہ کہ وہ ان کے ساتھ انصاف کریں تو نکاح کرسکتے ہیں۔ انھیں یہ حکم دیا گیا کہ ان یتیم لڑکیوں کے علاوہ دوسری عورتوں سے نکاح کرسکتے ہیں۔- حضرت عائشہ نے مزید فرمایا : اس کے بعد لوگوں نے پھر یتیم لڑکیوں کے متعلق حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے استفسارکیاجس پر یہ آیت نازل ہوئی (ویستفتونک فی النساء قل یفتیکم فیھن ومایتلی علیکم فی الکتاب فی یتمی النساء التی لاتؤتو نھن اجورھن وتزغبون ان تنکحوھن۔ لوگ تم سے عورتوں کے معاملہ میں فتوی پوچھتے ہیں کہواللہ تمہیں ان کے معاملہ میں فتوی دیتا ہے اور ساتھ ہی وہ احکام بھی یاددلاتا ہے جو پہلے سے تم کو اس کتاب میں سنائے جارہے ہیں۔ یعنی وہ احکام جو یتیم لڑکیوں کے متعلق ہیں جن کے حق تم ادا نہیں کرتے اور لالچ کی بناپرتم خودان سے نکاح کرلیناچاہتے ہو) حضرت عائشہ نے مزید فرمایا : اللہ تعالیٰ نے کتاب میں جس آیت کے سنائے جانے ذکرکیا ہے وہ پہلی آیت ہے جس میں فرمایا (وان خفتم الاتقسطوافی الیتامی) اور قول باری (وترغبون ان تنکحوھن) کا مفہوم یہ ہے کہ تم اپنی زیرکفالت یتیم لڑکی سے نکاح کرنے سے بازرہتے ہو اس لیے کہ اس میں مال اور حسن وجمال کی کمی ہوتی ہے۔ اس بنا پر انھیں ایسی یتیم لڑکیوں سے نکاح کرنے سے روک دیاگیا جن کے مال اور حسن وجمال کی بناپرانھیں رغبت پیدا ہوگئی ہو، الایہ کہ وہ ان کے متعلق انصاف کارویہ اختیارکریں تو نکاح کرسکتے ہیں۔- اس حکم کی وجہ یہ تھی کہ یتیم لڑکیوں کی طرف وہ لوگ کم ہی راغب ہوتے تھے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ (وان خفتم الاتقسطوافی الیتامی) کی تفسیر میں حضرت ابن عباس (رض) سے بھی حضرت عائشہ کی طرح قول منقول ہے۔ سعید بن جبیر، ضحاک اور ربیع سی اس آیت کی ایک دوسری تاویل منقول ہے۔ اس کی روایت ہمیں عبداللہ بن محمد بن اسحاق نے کی ، انھیں حسن بن ابی الربیع جرجانی نے، انھیں عبدالرزاق نے، انھیں معمرنے ایوب سے، انھوں نے سعید بن جبیر سے کہ اگر تم یتیموں کے ساتھ بےانصافی کرنے سے ڈرتے ہو تو عورتوں کے ساتھ بھی بےانصافی کرنے سے ڈرو۔ تمہارے لیے دودو، تین تین، چار چار بیویوں تک حلال کردی گئی ہیں، ان کے بارے میں بےانصافی نہ کرو۔ مجاہد سے اس کی تفسیر میں مروی ہے کہ اگر تم یتیموں کے ساتھ بےانصفی سے ڈرتے ہو، جس کی بناپرتم ان کا مال کھانے سے پرہیز کرتے ہو، تو اسی طرح زنا سے بھی پرہیز کرو اوردودو، تین تین، چارچارتک شادیاں کرلو، اس آیت کی ایک تیسری تفسیر بھی مروی ہے یہ تفسیر شعبہ نے سماک سے اور انھوں نے عکرمہ سے بیان کی ہے کہ بعض دفعہ قریش کے کسی شخص کے نکاح میں عورتیں ہوتیں اور اس کے زیرکفالت یتیم بچے یابچیاں ہوتیں جب کسی وجہ سے اس کا مال ختم ہوجاتاتو وہ ان یتیموں کے مال پر ہاتھ صاف کرنا شروع کردیتا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔- اگرباپ یادادا کے علا وہ کوئی اور شخص کم سن بچے یابچی کا نکاح کرادے تو اس کے متعلق فقہاء کے درمیان اختلاف رائے ہے۔ امام ابوحنیفہ کا قول ہے کہ ہر وہ رشتہ دارجو میراث میں حقدارہوتا ہے اس کے لیے جائز ہے، کہ وہ اپنے قریب سے قریب رشتہ دارکانکاح کرادے۔ اگر باپ یادادا نکاح کرانے والا ہوتوان نابالغ بچوں اور بچیوں کو بالغ ہونے کے بعد نکاح توڑدینے یا باقی رکھنے کا کوئی اختیار نہیں ہوگا۔ بالغ ہونے کے بعد بھی ان کا نکاح بحالہ باقی رہے گا۔ اگر باپ یادادا کے علاوہ کسی اور رشتہ دارنے نکاح کرایا ہوتوبالغ ہونے کے بعد انھیں اختیارہوگا چاہیں تو نکاح باقی رکھیں اور چاہیں تو توڑدیں۔- امام ابویوسف اور امام محمد کا قول ہے کہ کم سن بچے بچی کا نکاح صرف عصبات ہی کر اسکتے ہیں اور ان عصبات کے سلسلے میں الاقرب فاقرب، کے اصول کے مدنظر رکھاجائے گا، یعنی جو زیادہ قریبی ہوگا، وہ زیادہ حقدارہوگا۔ اس صورت میں بالغ ہونے کے بعد ان دونوں کو کوئی اختیار نہیں ہوگا۔ امام خمدکا قول ہے کہ اگر باپ یادادا کے علاوہ کسی اور نے یہ نکاح کرایا ہو تو میاں بیوی کو بالغ ہونے کے بعد اختیارہوگا۔ ابن وہب نے امام مالک سے روایت کی ہے کہ اگر ایک شخص کو اپنے یتیم رشتہ داربچے یابچی میں نیکی سمجھ بوجھ اور خوبی نظرآئے تو اس کا نکاح کرادینا اس کے لیے جائز ہوگا۔ ابن القاسم نے امام مالک سے فقل کیا ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی کم سن بہن کا نکاح کرادیتا ہے تو یہ جائز نہیں ہوگا ۔ وصی نکاح کراسکتا ہے، خواہ ولی ناراض ہی کیوں نہ ہو، وصی، ولی سے بڑھ کرہوتا ہے۔ البتہ ثیبہ (جس کا پہلے نکاح ہوچکا ہو اور اب وہ شوہر کے بغیر ہو) کا نکاح اس کی رضامندی کے بغیر نہیں کراسکتا۔ اس کے لیے یہ مناسب نہیں ہوگا کہ ثیبہ کو اپنی ذات کے متعلق جو خیارحاصل ہے اسے ختم کردے۔ وصی کم سن بچوں اور بچیوں کا نکاح کرائے گا۔ لیکن بالغ لڑکیوں کا نکاح ان کی رضامندی کے بغیر نہیں کرائے گا۔ اس مسئلے میں لیث کا قول امام مالک کے قول کی طرح ہے حسن بن صالح کے نزدیک وصی اگر ولی بھی ہو تو نکاح کراسکتا ہے ورنہ نہیں۔ امام شافعی کا قول ہے کہ نابالغ بچوں اور بچیوں کا نکاح صرف باپ کراسکتا ہے اور باپ نہ ہونے کی صورت میں دادایہ فریضہ سرانجام دے سکتا ہے۔ نابالغ بچی پر وصی کو کوئی ولایت حاصل نہیں ہوتی۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ جریر نے مغیرہ سے روایت کی ہے۔ انھوں نے ابراہیم سے کہ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : جس شخص کی سرپرستی میں کوئی ایسی یتیم بچی ہو جو شکل وصورت کے لحاظ سے بھتدی ہو اور جس سے نکاح کرنے کی کسی کو رغبت نہ ہو تو وہ اس بچی کو اپنے پاس رکھے اگر بچی نکاح کی رغبت رکھتی ہو تو اس کا نکاح کسی اور سے کرادے۔- حضرت علی (رض) حضرت ابن مسعو (رض) د، حضرت ابن عمر (رض) حضرت زیدبن ثابت (رض) اور حضرت ام سلمہ نیز حسن، طاؤس، عطا اور دیگرتابعین سے نابالغ بچی کے نکاح کرانے کا جواز منقول ہے جو باپ اور دادا کے علاوہ کوئی اور رشتہ دارکرادے۔ حضرت ابن عباس (رض) اور حضرت عائشہ (رض) سے آیت کی یہ تفسیر منقول ہے کہ یہ یتیم بچی کے متعلق ہے۔ جیسا کہ ہم گزشتہ سطور میں ذکرکر آنے ہیں۔ یہ یتیم لڑکی اپنے ولی کی سرپرستی میں ہوتی ہے، اسے اس کے مال اور حسن وجمال کی وجہ سے اس نکاح کرلینے کی رغبت پیدا ہوتی ہے، لیکن مہر کی ادائیگی میں وہ انصاف نہیں کرتا ہے۔ اس بناپر انھیں ان سے نکاح کرنے سے منع کردیا گیا الایہ کہ وہ مہر کے معاملہ میں ان لڑکیوں کے مرتبے اور درجے کا پوراپورا پاس کریں تو پھر ان سے نکاح کرلیں ۔ جب ان دونوں کے نزدیک آیت کی یہی تاویل وتفسیہ ہے تو اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ صغیرہ کے نکاح کرانے کا جواز ان کے مسلک کا حصہ ہے۔- ہمیں سلف میں سے کسی کے متعلق یہ علم نہیں کہ اس نے اس قسم کے نکاح کی ممانعت کی ہو۔ آیت کی بھی اس تاویل پر دلالت ہورہی ہے جسے حضرت ابن عباس (رض) اور حضرت عائشہ نے اختیار کی ہے اس لیے کہ ان دونوں نے یہ ذکرکیا ہے کہ آیت اس یتیم لڑکی کے متعلق ہے جوا پنے ولی کی سرپرستی میں ہوتی ہے ولی اس کے مال وحسن وجمال کی طرف راغب ہو کر اس سے نکاح کرلیتا ہے، لیکن مہر کی ادائیگی میں اس کے ساتھ انصاف نہیں کرتا اس بناپرولی کو اس سے نکاح کرنے کو روک دیا گیا، البتہ اگر وہ مہر کے معاملے میں انصاف کارویہ اپنائے گا تو پھر نکاح کرسکتا ہے۔ اولیا میں سب سے اقرب ولی جس کی سرپرستی میں یتیم لڑکی ہوتی ہے اور جس کے لیے اس سے نکاح کرنا جائز ہوتا ہے۔ وہ لڑکی کا چچازاد بھائی ہے۔ اس لیے آیت چچازاد بھائی کے نکاح کے جواز کو متضمن ہے جو وہ اپنی سرپرستی میں پرورش پانے والی یتیم لڑکی سے کرلے۔- اگریہ کہاجائے کہ حضرت ابن عباس (رض) اور حضرت عائشہ کی تاویل کی سعید بن جبیر اور دوسرے حضرات کی تاویل کے مقابلے میں اولی کیوں قراردیا گیا جبکہ آیت میں ان تمام تاویلات کا احتمال موجود ہے، تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اس میں کوئی امتناع نہیں کہ آیت میں حضرت ابن عباس (رض) اور سعید بن جبیر دونوں کے بیان کردہ معانی مرادہوں، اس لیے کہ آیت کے الفاظ میں دونوں معانی کا احتمال موجود ہے اور ان دونوں معانی کے درمیان کوئی منافات بھی نہیں ہے۔ اس لیے آیت کو ان دونوں معانی پر محمول کیا جاسکتا ہے البتہ بات اتنی ہے کہ حضرت ابن عباس (رض) اور حضرت عائشہ (رض) دونوں کا قول ہے کہ یہ آیت یتیم لڑکی کے بارے میں ہے اور یہ چیزایسی ہے جو اپنی رانے سے کہی نہیں جاسکتی ۔ بلکہ شریعت کی طرف سے اس کے متعلق واقف ہونے کے بعد کہی جاسکتی ہے، اس لیے یہ تاویل اولی ہوگی کیونکہ ان دونوں نے آیت کے نزول کا سبب بیان کردیا ہے۔ اور وہ پس منظر بھی جس کے تناظر میں یہ آیت نازل ہوئی اس لیے یہ تاویل اولی ہوگی۔- اگریہ کہاجائے کہ اس سے مراد جد، یعنی دادالینا بھی جائز ہے تو اس کے جواب میں کیا جائے گا کہ آیت کا نزول اس یتیم لڑکی کے متعلق ہوا ہے جو اپنے ولی کی سرپرستی میں ہو اوردلی خود اس سے نکاح کرنے کا خواہشمند ہو، اب ظاہر ہے کہ دادا ایسی خواہش نہیں کرسکتا، تو اس سے یہ معلوم ہوگیا یہاں اس سے مراد چچازادبھائی یا کوئی اور ولی ہے جو اس سے بھی زیادہ دورکارشتہ دارہو۔ اگر یہ کہاجائے کہ آیت بالغ لڑکی کے بارے میں ہے کیونکہ حضرت عائشہ نے فرمایا ہے : کہ لوگوں نے اس آیت کے نزول کے بعد ان کے متعلق حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے استفسار کیا تھا جس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (ویستفتونک فی النساء قل اللہ یفتیکم فیھن وما یتلی علیکم فی الکتاب فی یتامی النساء) پہلی آیت یہ ہے (وان خفتم الاتقسطوافی الیتامی) جب اللہ تعالیٰ نے (فی یتامی النساء) فرمایا تو اس کی خود بخود اس پر دلالت ہوگئی کہ یتامی سے مراد بالغ لڑکیاں میں نابالغ نہیں کیونکہ نابالغ لڑکیوں کو نساء نہیں کہاجاتا ، اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ بات دودجہ سے غلط ہے، اول یہ کہ قول باری (وان خفتم الا تقسطوافی الیتامی) حقیقت میں ان لڑکیوں کا مقتضی ہے جو ابھی بالغ نہیں ہوئیں اس لیے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے (لایتم بعدالحلم) اور کلام کو اس کے حقیقی معنی سے ہٹاکرمجازی معنی کی طرف لے جاتا اسی وقت درست ہوتا ہے جب کوئی دلالت اور قرینہ موجود ہو۔ بالغ لڑکی کو برسبیل مجاز یتیمہ کہاجاتا ہے۔- دوسری طرف قول باری (فی یتامی النساء) کی اس معنی پر کوئی دلالت نہیں ہے جس کا معترض نے ذکر کیا ہے، اس لیے کہ یہ یتیم لڑکیاں عورتوں کی جنس سے تعلق رکھتی ہیں اس بناپرعورتوں یعنی النساء کی طرف انھیں مضاف کرنا درست ہوگیا۔ اس کے شواہد کے طورپریہ آیات پیش کی جاسکتی ہیں۔ قول باری ہے (فانکواماطاب ککم من النساء) اس مین بالغ اور نابالغ دونوں قسم کی لڑکیاں داخل ہیں۔ اسی طرح قول باری (ولاتنکحوامانکح اباؤکم من النساء جن عورتوں سے تمہارے آباء نے نکاح کرلیا ہو، ان سے تم نکاح نہ کرو) میں لفظ، النساء، میں بالغ اور نابالغ دونوں قسم کی لڑکیاں مراد ہیں۔ اسی طرح آیت (وامھات نساء کم ، اور تم پر تمھاری بیویوں کی ما میں حرام ہیں) میں بھی دونوں قسم کی عورتیں مراد ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی نابالغ لڑکی سے نکاح کرلیتا ہے تو اس کی ماں اس پر ہمیشہ کے لیے حرام ہوجاتی ہے۔- ان شواہدودلائل کے بعد یہ حقیقت واضح ہوگئی کہ، یتامی، کی النساء، کی طرف اضافت کی صورت میں ایسی کوئی دلالت نہیں پائی جاتی، جس سے یہ معلوم ہوسکے کہ یتامی سے مراد بالغ لڑکیاں میں نابالغ لڑکیوں کے سلسلے میں درست نہیں ہوسکتی، اس لیے کہ بالغ لڑکی اپنے مرتبے کے لحاظ سے عائد ہونے والے مہر سے کم مہرپر نکاح کی رضامندی کا اظہارکردے تو یہ نکاح درست ہوجائے گا، اور کسی کو اس پر اعتراض کرنے کا حق نہیں ہے۔ اس سے ہمیں یہ بات معلوم ہوگئی کہ آیت میں مراد نابالغ لڑکیاں ہیں جن کے نکاح کے سلسلے میں ان لوگوں کو تصرف کا حق ہوتا ہے جن کی سرپرستی میں یہ لڑکیاں ہوتی ہیں۔ اس پر وہ روایت بھی دلالت کرتی ہے جو ہم سے محمد بن اسحاق نے بیان کی انھیں عبداللہ بن ابی بکربن جزم اور عبداللہ بن الحارث اور ایک ایسے شخص نے جس پر میں روایت کے سلسلے میں کوئی تنقید نہیں کرتا، ان سب نے عبداللہ بن شداد سے کہ جس شخص نے حضرت ام سلمہ (رض) کا نکاح حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کرایا تھا وہ ان کا بیٹا اسلمہ تھا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سلمہ کا نکاح حضرت حمزہ کی ایک بیٹی سے کردیاجب کہ یہ دونوں ابھی نابالغ تھے اور اتفاق سے دونوں کا ایک دوسرے سے مرنے تک ملاپ نہیں ہوسکا۔- حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس موقعہ پر فرمایا تھا کہ سلمہ نے اپنی ماں کا مجھ سے جو نکاح کرادیا تھا اس کا میں نے بدلہ دے دیا۔ اس روایت کی ہماری ذکرکروہ بات پر دوطرح سے دلالت ہورہی ہے۔ اول حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سلمہ اور حضرت حمز (رض) ہ کی بیٹی کا نکاح کرادیا، حالانکہ آپ نہ ان کے باپ تھے نہ دادا۔ اس سے یہ دلالت حاصل ہوئی کہ نابالغ کا اگر باپ یادادا کے سوا کوئی اور نکاح کرادے تو یہ نکاح درست ہوتا ہے۔ دوم جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ عمل کیا اور اللہ نے اپنے قول (فاتبعوہ) کے ذریعے آپ کے اتباع کا حکم دیاجس کی بناپر آپ کا اتباع ہم پر فرض ہے تو اس سے یہ دلالت حاصل ہوگئی کہ قاضی یا عدالت کو نابالغوں کے نکاح کرانے کا حق حاصل ہے اور جب قاضی یا عدالت یہ کام سرانجام دے سکتی ہے تو تمام ایسے لوگ بھی جو ولی اور سرپرست بن سکتے ہوں یہ کام سرانجام دے سکتے ہیں اس لیے کہ کسی نے قاضی اور ولی کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا۔ اس پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد (لانکاح الابولی، ولی کے بغیر کوئی نکاح نہیں ہوتا) بھی دلالت کررہا ہے۔ آپ نے ولی کے ذریعے منعقد ہونے والے نکاح کو برقراررکھا۔ حقیقی اور چچازادبھائی بھی ولی ہوتے ہیں۔ اس ارشاد میں دلیل کا پہلویہ ہے کہ اگر لڑکی بالغ ہوتی تو یہ لوگ نکاح میں ولی کی حیثیت رکھتے۔ نکاح کرانے میں نہیں۔- عقلی طورپرہماری بات پر یہ چیز دلالت کرتی ہے کہ تمام اہل علم اس پر متفق ہیں کہ باپ اور دادا کسی وجہ مثلا کفریا غلامی کی بناپر میراث کے اہل نہیں ہوں گے تو وہ نکاح کرانے کے بھی اہل نہیں ہوں گے اس سے یہ دلالت حاصل ہوگئی کہ اس ولایت کا استحقاق میراث کی بنیادپرہوتا ہے۔ اس لیے جو شخص بھی میراث کا اہل اور مقدارہوگا اس کے لیے قرابت کے درجوں کی بنیادپرقریب ترین رشتہ دارکا کسی سے نکاح کرادینا جائز ہوگا۔ اسی نباپرامام ابوحنیفہ کا قول ہے کہ ماں اور موالات کی بناپر تعلق رکھنے والے شخص یعنی مولی الموالاۃ، کو نکاح کرادینے کا حق حاصل ہے بشرطیکہ جس کا نکاح ہورہاہو اس کا کوئی اور قریبی رشتہ دارموجود نہ ہو۔ ان دونوں کو یہ حق اس لیے حاصل ہے کہ یہ میراث کے اہل ہیں۔ - اگریہ کہاجائے کہ نکاح سے چونکہ مال کا بھی تعلق ہوتا ہے، اس لیے جس شخص کا مال میں تصرف جائز نہیں ہوتا اس کا عقید بھی جائز نہیں ہونا چاہیے۔ اس کے جواب میں کہاجانے گا کہ نکاح میں اگر مال کا ذکر اور تعین نہ بھی ہو پھر بھی اس کا ثبوت ہوجاتا ہے۔ اس لیے عقدنکاح میں مال کے اندردلایت کا عتبارکیاجائے گا آپ نہیں دیکھتے کہ جن حضرات کے نزدیک ولی کے بغیر نکاح کا جواز نہیں وہ بھی اولیاء کے لیے نکاح کرانے کے حق کے قائل ہیں، حالانکہ بالغ عورت کے مال میں ان کی کوئی دلایت نہیں ہوتی ۔ اس اعتراض سے امام مالک اور امام شافعی پر یہ لازم آتا ہے کہ وہ باپ کی طرف سے اپنی بالغ بیٹی کو بیاہ دینے کو جائزقرار نہ دیں اس لیے کہ مال میں باپ کو اپنی بالغ بیٹی پر کوئی دلایت حاصل نہیں ہوتی۔ اب جبکہ بالغ بیٹی کے مال میں دلایت کا حق حاصل نہ ہونے کے باوجودان دونوں حضرات کے لزدیک باپ کا اپنی بالغ بیٹی کا اس کی رضا مندی کے بغیرنکاح کرادینا جائز ہے تو اس سے یہ دلالت حاصل ہوگئی کہ عقدنکاح میں ولایت کے استحقاق کے لیے مال میں تصرف کے جواز کا امتبار نہیں کیا جاتا۔- خلاصہ کلام - آیت کی ولالت کی جو وضاحت ہم نے کی ہے اس سے جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ نابالغ لڑکی کا ولی اس کا نکاح اپنے ساتھ کراسکتا ہے، تو اس سے یہ دلالت بھی حاصل ہوگئی کہ بالغ کا ولی بھی اس کی رضامندی کے ساتھ اس کا نکاح اپنے ساتھ کراسکتا ہے۔ نیز اس پر بھی دلالت ہورہی ہے کہ اگر شوہر اور بیوی کی طرف سے عقدنکاح کا کام سرانجام دینے والا اگر ایک فردہومثلا وہ دونوں کا وکیل ہو تو اس کی گنجائش اور اس کا جواز ہے جس طرح کہ نابالغ لڑکی کے ولی کے لیے یہ جائز ہے کہ وہ اس کا نکاح اپنے ساتھ کرادے اس صورت مین نکاح کا ایجاب وقبول کرنے والا ایک ہی شخص ہوگا۔ نیز اس پر بھی دلالت ہورہی ہے کہ اگر کوئی شخص دونابالغ افراد کا ولی ہو تو اس کے لیے ایک کا دوسرے کے ساتھ نکاح کرادینا جائز ہوگا۔- ان وجوہ کی بناپرمذکورہ یالاآیت امام شافعی کے قول کے بطلان پر دلالتکررہی ہے کیونکہ ان کا قول ہے کہ نابالغ لڑکی کا نکاح اس کے باپ اور دادا کے سوا کوئی اور نہیں کراسکتا۔ نیز ان کا یہ قول بھی غلط ہے کہ بالغ لڑکی کے ولی کے لیے یہ جائز نہیں کہ مجلس عقد میں اس کی موجودگی کے بغیر اس سے نکاح کرلے۔ اسی طرح ان کے اس قول کے بطلان پر بھی دلالت ہورہی ہے کہ بالغ لڑکے اور لڑکی کے عنقد نکاح میں ایک شخص کا ان دونوں کی طرف سے وکیل بن جانا جائز نہیں ہے۔- ہمارے اصحاب کے نزدیک نابالغ لڑکی کے وصی کے لیے جائز نہیں کہ وہ اس کا کسی سے نکاح کرادے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے (لانکاح الابولی) اور وصی ولی نہیں ہوتا۔ آپ نہیں دیکھتے کہ ارشاد باری ہے۔- جوشخص ازراہ اللم قتل ہوجائے ہم نے اس کے ولی کو اختیاردے دیا ہے) اگر اس قتل کے بدلے میں قصاص واجب ہوجائے گا توقصاص لینے میں وصی ولی کا کردارادا نہیں کرسکے گا۔ اور نہ ہی اس بارے میں اسے ولایت کا استحقاق حاصل ہوگا۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ وصی پر ولی کے اسم کا اطلاق نہیں ہوسکتا اس لیے یہ واجب ہوگیا کہ نابالغ لڑکی کے وصی کا نکاح کرانا جائز نہ ہو اس لیے کہ وہ اس کا ولی نہیں ہے۔- نابالغ بچیوں کی ولایت کا استحقاق - اگریہ کہاجائے کہ اس اصول کی بناپربھائی یاچچا وغیرہ بھی نابالغ لڑکی کے ولی نہ بن سکیں گے۔ اس لیے کہ انھیں قصاص کی ولایت کا استحقاق نہیں ہوتا۔ تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ہم نے قصاص میں عدم ولایت کو اس کی علت قرار نہیں دیا کہ اس کی بناپر ہمارے لیے اعتراض میں بیان کردہ حکم لازم ہوجائے۔ ہم نے تو صرف یہ بیان کیا ہے کہ مال میں تصرف کے استحقاق کے لحاظ سے ولی کے اسم کا وصی پر اطلاق نہیں ہوتا اور نہ ہی یہ اسم اسے شامل ہوتا ہے جہاں تک بھائی اور چچا کا تعلق ہے تو دہ دونوں ولی ہیں اس لیے کہ یہ دونوں عصبات میں سے ہیں اور کسی کے نزدیک عصبات پر ولی کے اسم کے اطلاق میں کوئی امتناع نہیں ہے۔- قول باری ہے (وانی خفت الموالی من ورائی اور میں اپنے بعد اپنے رشتہ داروں کی طرف سے اندیشہ رکھتا ہوں) ایک قول ہے کہ حضرت زکریا (علیہ السلام) کی اس سے مراد، اپنے چچازادرشتہ دار اور عصبات ہیں اس لٹے کہ ولی کے اسم کا اطلاق عصبات پر تو ہوسکتا ہے لیکن وصی پر نہیں ہوسکتا۔ جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ فرمادیا کہ (لانکاح الابولی) تو اس سے نابالغ لڑکی کے وصی کا نکاح کرانے کا جواز مقضی ہوگیا کیونکہ وہ ولی نہیں ہوتا جبکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے (ایماامراۃ نکحت بغیراذن ولیھا فنکاحھا باطل وفی لفظ اخربغیراذن موالیھا۔ جو عورت بھی اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرے گی اس کا نکاح باطل ہوگا۔ ایک روایت میں ولیھا کی بجائے موالیھا ہے) یہ روایت دیوانی عورت اور بالغ دوشیزہ کے نکاح کے بطلان کی مقتضی ہے جب کہ وصی ان کا نکاح کرلیایا انھوں نے ولی کی اجازت کے بغیروصی کی اجازت سے ازخود نکاح کرالیاہو۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے اور اسی بناپرایسانکاح باطل ہوگا کیونکہ یہ ولی کی اجازت کے بغیر ہوا ہے۔ نیز نکاح میں ولایت کا استحقاق میراث کی اہلیت کی بناپرہوتا ہے جیسا کہ ہم سابقہ سطور میں اسے مدنل طورپرثابت کرچکے ہیں۔ اب وصی چونکہ میراث کا اہل نہیں ہوتا اس لیے اسے ولایت کا حق حاصل نہیں ہوگا۔ نیز نکاح میں ولایت کے استحاق کا سبب نسبی رشتہ داری ہے اور نکاح ایسامعاملہ ہے جس میں عمل انتقال کی گنجائش نہیں ہوتی اس بناپروصی کو اس کا استحقاق حاصل نہیں ہوگا کیونکہ اس میں وہ سبب مفقود ہے جس کی بناپروہ ولایت کا حق حاصل کرسکتا ہے۔ ایک پہلویہ بھی ہے کہ ایک شخص کی موت کے بعد اس کے مال میں تصرف نکاح میں تصرف کی طرف نہیں ہوتا کیونکہ مال میں عمل انتقال کی گنجائش ہوتی ہے لیکن نکاح میں اس کی گنجائش نہیں اس لیے کہ نکاح کا زوجین سے کسی اور کی طرف منتقل ہوجانادرست نہیں ہوتا۔ اس لیے وصی کو نکاح کے اندرولایت حاصل ہوجانا جائز نہیں ہوا۔ اسی طرح باپ کی زندگی میں وصی کی حیثیت وکیل کی طرح نہیں ہوتی اس لیے کہ وکیل اپنے موکل کے حکم سے تصرف کرتا ہے اور موکل کا حکم وکیل کے تصرف کے جواز کے لیے باقی ربتا ہے۔ لیکن اس امر کے متعلق میت کا حکم منقطع ہوجاتا ہے جس میں عمل انتقال درست نہیں ہوتا اور وہ امرنکاح ہے۔ اس بناپروکیل اور وصی دونوں کا معاملہ ایک دوسرے سے مختلف ہوگیا۔- اگریہ کہاجائے کہ تمہارے نزدیک حاکم وقت دونابالغوں کے درمیان نکاح کراسکتا ہے حالانکہ وہ نہ میراث کا اہل ہوتا ہے اور نہ ہی نسبی تعلق کی بناپرولایت کا۔ اس کے جواب میں کہاجائے گا کہ حاکم وقت اپنے تصرفات میں مسلمانوں کی جماعت کا قائم مقام ہوتا ہے۔ اور مسلمانوں کی جماعت دونوں بالغوں کی میراث کے اہل افراد میں سے ہوتی ہے اور ان کا وجودباقی رہتا ہے۔ اس لیے حاکم وقت ان کے وکیل کی طرح ہوتا ہے اور اس بناپرا سے ولایت کا استحقاق حاصل ہوتا ہے۔ نیز مسلمان بھی حاکم وقت کی میراث کے اہل افراد میں سے ہوتے ہیں اس لیے کہ اگر حاکم وقت مرجائے اور اس کے رشتہ داروں میں سے کوئی وارث موجودنہ ہو تو اس صورت میں مسلمان اس کے وارث ہوں گے۔- اس آیت میں یہ ولالت بھی موجود ہے کہ باپ اپنی نابالغ بیٹی کا نکاح کراسکتا ہے، اس لیے کہ آیت تمام اولیاء کی طرف سے نابالغ لڑکی کے نکاح کرانے کے جواز پر دلالت کرتی ہے اور یہ بات ظاہر ہے کہ باپ قریب ترین ولی ہوتا ہے۔ اس لیے وہ یہ کام کرسکتا ہے۔ اس مسئلے میں فقہاء امصار میں سے متقدمین اور متاخرین کے درمیان کسی اختلاف کا ہمیں کوئی علم نہیں ہے، البتہ بشربن الولید کی ابن شبہ مہ سے ایک روایت ہے کہ باپ نے اپنے نابالغ بچے یابچی کا نکاح کرادینا جائز نہیں ہے۔ درحقیقت یہ ایک بہرے انسان کا مسلک ہوسکتا ہے اور اس کے بطلان پر ہماری مذکورہ آیت کی دلالت کے علاوہ قول باری واللانی یئسن من المحیض من نساء کم ان ارتبتم فعدتھن ثلاثۃ اشھرواللائی لم یحضن۔ اور تمھاری مطلقہ بیویوں میں سے جو حیض آنے سے مایوس ہوچکی ہیں) اگر تمہیں شبہ ہو، تو ان کی عدت تین مہینے ہے اور اسی طرح ان کی بھی جنھیں ابھی حیض نہ آیاہو) کی بھی دلالت ہورہی ہے، اس لیے کہ اس آیت میں نابالغ لڑکی کو ج سے ابھی حیض نہیں آی اطلاق دینے کی صحت کا حکم لگایا گیا ہے اور طلاق صرف نکاح صحیح پر ہوتی ہے اس لیے یہ آیت نابالغ لڑکی کے نکاح کرانے کے جواز کو متضمن ہے۔ اس پر یہ بات بھی دلالت کرتی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عائشہ سے اس وقت نکاح کیا تھا جب ان کی عمر صرف چھ برس تھی ان کے والدماجد حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ نے ان کا نکاح کرایا تھا۔ یہ روایت دو باتوں پر مشتمل ہے۔ اول یہ کہ باپ کا اپنی نابالغ بیٹی کا نکاح کرادینا جائز ہے۔ دوم یہ کہ اس صورت میں بالغ ہونے کے بعد لڑکی کو خیارحاصل نہیں ہوتا۔ اس لیے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عائشہ کو بالغ ہوجانے کے بعد نکاح باقی رکھنے یا نہ رکھنے کا اختیار نہیں دیا تھا۔- تعدد ازواج کا مسئلہ - قول باری ہے (ماطاب لکم من النساء۔ عورتوں میں سے جو تمھیں پسند آئیں) مجاہدنے اس کے معنی یہ بیان کیے کہ ، طیب اور پاکیزہ نکاح کرو، حضرت عائشہ (رض) ، حسن اور ابومالک کا قول ہے کہ جو عورتیں تمہارے لیے حلال کی گئی ہیں ان سے نکاح کرو، فراء نحوی سے منقول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے (ماطاب) سے مصدری معنی مراد لیے ہیں گویا یوں فرمایا : پاکیزہ یعنی حلال عورتوں سے نکاح کرو۔ فراء نے مزیدکہا کہ اسی بناپر، ماطاب ، کہنا درست ہوگیا اور، من طاب، (جواچھی ہو) نہیں کہا۔- قول باری ہے (مثنیٰ وثلث وربع۔ دودو، تین تین، چارچار) اس میں دوبیویوں کی اباحت ہے اگر م دایساچا ہے۔ اسی طرح تین اور چارتک کی ، اگر وہ ایسا کرنا چاہے یعنی اسے یہ اختیا رہے کہ ان اعداد کے اندررہتے ہوئے جن عورتوں کو وہ اپنے عقدزوجیت میں لانا چاہے لاسکتا ہے، اگر اسے یہ اندیشہ ہو کہ وہ چاروں بیویوں کے درمیان انصا ف نہیں کرسکتا تو صرف تین پر اکتفا کرلے، اگر تین کے متعلق بھی اسے یہی اندیشہ ہو تو پھر دوپربس کرے، اگر دو کے ساتھ بھی یہی صورت حال ہو تو پھر صرف ایک پر کتقاکرے، ایک قول ہے کہ یہاں حرف واوحرف، او، کے معنی میں ہے۔ گویا یوں فرمایا، دودویاتین تین یاچارچار، ایک قول یہ بھی ہے کہ حرف، واو، اپنے حقیقی معنی پر محمول ہے لیکن اس کا استعمال بدل کے طورپر ہوا ہے گویا کہ یوں فرمایا، دودو، اور دودو کی بجائے تین تین، اور تین تین کی بجائے چارچار ، یہاں واوکے یہ معنی نہیں کہ تمام اعداد کو جمع کردیاجائے۔ اس قول کے قائل کا مزید کہنا یہ ہے کہ اگر حرف واؤکو، اذ، کے معنی میں لیا جائے تو پھر اس کی گنجائش اور اس کا جواز ہوسکتا ہے کہ دوبیویوں والے کے لیے تیسری بیوی اور تین بیویوں والے کے لیے چوتھی بیوی نہ ہوسکے۔ اس لیے حرف ، واو، کے ذکرنے خطاب میں داخل ہونے والے ہر فرد کے لیے چار بیویوں تک کی اباحت کا فائدہ دیا۔ نیزدوکاہندسہ تین میں اور تین کاہندسہ چار میں داخل ہے کیونکہ یہ بات ثابت نہیں ہوئی کہ ان مذکورہ اعداد میں سے مرعددوسرے عدد کے ساتھ بطورجمع مراد ہے۔ اگر ایسا ہو تو اس صورت میں کل تعداد توبن جائے گی۔ اس کی مثال یہ قول باری ہے (قل ائنکم لتکفرون بالذی خلق الارض فی یومین وتجعلون لہ اندادا، ذلک رب العالمین ، وجعل فیھا رواسی من فوقھا وبرک فیھا وقدرفیھا اقواتھا من اربعۃ ایام۔ آپ کہیں کہ تم تو اس خدا کے منکرہوجس نے زمین کو دوروز میں پیدا کیا۔ اور تم ایسے خدا کا دوسروں کو شریک ٹھہراتے ہو وہی تو سارے جہانوں کا پروردگار ہے اور اسی نے زمین کے اوپر پہاڑبنادیے اور اس زمین میں فائدے کی چیزیں رکھ دیں اور اسی میں اس نے غذائیں رکھ دیں یہ سب چاردنوں میں ہوا)- اس کا مفہوم یہ ہے کہ یہ چاردن ان دودونوں میں داخل ہیں جن کا آیت کی ابتدا میں ذکر ہوچکا ہے۔ پھر ارشادہوا (فقضاھن سبع سموت فی یومین۔ پھر دوروز میں سات آسمان بنادیے) اگر مذکورہ بالا تاویل نہ اختیار کی جاتی تو پھر دنوں کی تعدادآٹھ ہوجاتی اور اللہ کے اس قول (خلق السموت والارض فی ستۃ ایام، اس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا) سے بھی یہی بات معلوم ہوتی ہے کہ دنوں کی تعدادآٹھ نہیں ہے اور تعداد کے بارے میں جو تاویل کی ہے وہ درست ہے۔- ٹھیک اسی طرح آیت زیربحث میں مثنیٰ (دودو) ثلاث (تین تین) میں داخل ہے اور ثلاث رباع (چارچار میں داخل ہے۔ اس لیے آیت نے جتنی بیویوں کی اباحت کی ہے ان کی کل تعداد چارہوگئی، اس سے زائد نہیں۔ بیویوں کی یہ تعداد، آزاد مردوں کے لیے ہے غلاموں کے لیے نہیں۔ یہی قول ہمارے اصحاب ثوری، لیث اور امام شافعی کا ہے۔ امام مالک کے نزدیک غلام اگر چاہے توچارتک شادیاں کرسکتا ہے۔ چار کی تعدادپر مشتمل آیت احرار یعنی آزاد مردوں کے لیے ہے، غلاموں کے لیے نہیں۔ اس کی دلیل قول باری (فالکحواماطالبالکم) ہے۔ یہ حکم احرار کے ساتھ خاص ہے۔ غلاموں کا اس سے کوئی تعلق نہیں اس لیے کہ غلام عقدنکاح کا مالک نہیں ہوتا۔ فقہاء کا اس پر اتفاق ہے کہ جو غلام بھی اپنے آقا کی اجازت کے بغیرنکاح کرے گا وہ عاھر، یعنی زانی ہوگا، قول باری ہے (ضرب اللہ مثلاعبدامملوکالایقدرعلی شیء۔ اللہ تعالیٰ نے ایک مثال بیان کی ایک مملوک غلام ہے جو کسی چیز کی قدرت اور طاقت نہیں رکھتا) اب جبکہ غلام عقدنکاح کا مالک نہیں تو وہ آیت کے خطاب میں داخل ہی نہیں اس لیے ضروری ہوگیا کہ آیت کے متعلق قراردی جائے۔ نیز سب کا اس پر اتفاق ہے کہ نکاح سے متعلق مقررہ حقوق مثلاطلاق اور عدت وغیرہ میں غلامی کے اثر کی بناپرکمی آجاتی ہے۔ اب جبکہ ہویوں کی تعدادبھی نکاح کے حقوق میں سے ایک ہے، اس لیے ضروری ہے کہ آزاد کے مقابلے میں وہ بھی آدھی رہ جائے۔- چھ صحابہ کرام سے مروی ہے کہ غلام صرف بیک وقت دوبیویاں رکھ سکتا ہے، ان حضرات کے فقاء میں سے کسی سے بھی اس کے خلاف کوئی روایت مروی نہیں ہے جو ہمارے علم میں ہو سلیمان بن یسارنے عبداللہ بن عتبہ سے روایت کی ہے کہ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : غلام صرف دوعورتوں سے نکاح کرسکتا ہے۔ دوطلاقیں دے سکتا ہے اور لونڈی دوحیضوں کی عدت گزارے گی۔ اگر اسے حیض نہ آتا ہو تو اس کی عدت ڈیڑھ ماہ ہوگی۔ حسن اور ابن سیرین نے حضرت عمر اورحضرت عبدالرحمن بن عوف سے روایت کی ہے کہ غلام کے لیے بیک وقت دو سے زائد بیویاں رکھنا حلال نہیں ہے جعفربن محمد نے اپنے والد سے روایت کی ہے کہ حضرت علی (رض) نے فرمایا : غلام کے لیے دو سے زائدعورتوں سے نکاح کرنا جائز نہیں ہے، حمادنے ابراہیم نحغی سے روایت کی ہے کہ حضرت عمر (رض) اور حضرت عبداللہ بن مسعو (رض) دے فرمایا : غلام دو سے زائدشادیاں نہیں کرسکتا، شعبہ نے حکم سے انھوں نے فضل بن عباس سے روایت کی ہے کہ غلام دوشادیاں کرلے گا۔ ابن سیرین کا قول ہے کہ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : تم میں سے کون یہ جانتا ہے کہ غلام بیک وقت کتنی بیویاں رکھ سکتا ہے ایک انصاری نے عرض کیا۔ میں جانتاہوں فرمایا : پھر تباؤ ؟ اس نے کہا : دو ، اس پر حضرت عمر (رض) خاموش ہوگئے۔ اب ظاہ رہے کہ حضرت عمر (رض) جس شخص سے مشورہ کریں اور اس کی رائے قبول کرلیں وہ یقینا صحابی ہوگا۔ لیث نے الحکم سے روایت کی ہے کہ صحابہ کرام کا اس پر اتفاق ہے کہ غلام دو سے زائدبیوں نہیں رکھ سکتا۔- تعدد ازواج پر خلاصہ کلام - اس طرح ہمارا بیان کردہ مسئلہ ائمئہ صحابہ کرام کے اجماع سے ثابت ہوگیا۔ ہمیں ان حضرات کے رفقاء میں سے کسی کے متعلق یہ معلوم نہیں کہ انھوں نے یہ فرمایا ہو کہ غلام چارشادیاں کرسکتا ہے۔ اب جو شخص بھی اس کی مخالفت کرے گا اس کے خلاف صحابہ کرام کے اجماع کی حجت قائم ہوجائے گی۔ حسن ابراہیم ، ابن سیرین، عطار اورامام شافعی سے بھی ہمارے قول کے مطابق اقوال منقول ہیں۔- اگریہ کہاجائے کہ یحییٰ بن حمزہ نے ابودہب سے، انھوں نے حضرت ابوالدرداء سے روایت کی ہے کہ غلام چارشادیاں کرسکتا ہے، مجاہد، قاسم، سالم اور ربیعۃ الرای سے بھی یہی قول منقول ہے، اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ حضرت ابولدرواء کی روایت کی اسناد میں ایک راوی مجہول ہے۔ اس کا نام ابو وہب ہے۔ اگر یہ اسنادثابت بھی ہوجائے پھر بھی اس کی وجہ سے ان ائمہ کے مسلک پر اعتراض نہیں ہوسکتا جن کے اقوال کا ہم نے یہاں ذکرکیا ہے اور ان سے اس مسلک کی بکثرت روایت ہوئی ہے الحکم نے۔ جو طبقہ تابعین کے ایک جلیل القدرفقیہ ہیں۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ کرام کا یہ اجماع نقل کیا ہے کہ غلام دو سے زائد شادیاں نہیں کرسکتا۔- قول باری ہے (فان خفتم الاتعبد لوافواجدۃ۔ اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ تم بیویوں کے درمیان انصاف کارویہ اپنا نہیں سکتے، تو پھر صرف ایک بیوی رکھو) آیت کے معنی ۔ واللہ اعلم۔ یہ ہیں کہ تم اپنی بیویوں کے درمیان شب باشی کی باریاں تقسیم کرنے میں انصاف نہ کرسکو۔ اس لیے کہ ایک دوسری آیت میں ارشادباری ہے (ولن تستطیعوا ان تعدلوابین النساء ولوحرصتم فلاتمیلواکل المیل۔ بیویوں کے درمیان پوراپوراعدل کرنا تمھارے بس میں نہیں ہے تم چاہو بھی تو اس پر قادر نہیں ہوسکتے ، اس لیے ایک بیوی کی طرف پوری طرح نہ جھک جاؤ) یہاں المیل سے مراد دل کامیلان ہے۔ عدل سے مراد وہ انصاف ہے جسے وہ بروئے کارلاسکتا ہے، لیکن اسے ایک کی طرف بالفعل میلان کے اظہار کی بناپریہ اندیشہ ہو کہ وہ شاید انصاف کارویہ اختیارنہ کرسکے جب اسے اظہار میلان کے ظلم وزیاتی اور انصاف سے پہلوتہی کا اندیشہ ہو تو ایسی صورت میں اللہ کا اسے یہ حکم ہے کہ وہ صرف ایک بیوی پر اکتفا کرلے۔ عقدنکاح میں مذکورہ تعداد کی اباحت کے حکم پر (اوما ملکت ایمانکم یا وہ عورتیں جو تمھارے قبضے میں آئی ہیں) کو عطف کیا۔ یہ قول باری اپنے حقیقی معنی کا مقتضی ہے اور اس کا ظاہر عقدنکاح کے سلسلے میں چارآزاد عورتوں اور چارلونڈیوں کے درمیان اختیارکو واجب کرتا ہے۔ اور اس طرح اسے اختیار مل جاتا ہے کہ چاہے تو آزادعورت سے نکاح کرلے اور چاہے تولونڈی سے عقدنکاح کرلے۔ اس تفسیر کی وجہ یہ ہے کہ قول باری (اوماملکت ایمانکم) فی نفسہ مستقل کلام نہیں ہے بلکہ یہ ماقبل کے معنی کو متضمن ہے، اس میں مفہوم کا جو حصہ پوشیدہ ہے اس سے اس کو علیحدہ نہیں کیا جاسکتا۔ یہ پوشیدہ حصہ وہ ہے جس کا ذکر پہلے گزرچکا ہے اور جسے خطاب میں ظاہر کردیاگیا ہے۔ اب ہمارے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ ہم ایسے معنی اور مفہوم کو پوشیدہ مان لیں جس کا ذکر پہلے نہ ہواہو۔ ہم ایساصرف اس وقت کرسکتے ہیں جب اس معنی اور مفہوم کے سوا کسی اور معنی اور مفہوم کی اس پر دلالت ہورہی ہو۔ ہم قول باری (اوماملکت ایمانکم) میں وطی کا مفہوم پوشیدہ نہیں مان سکتے۔ اس صورت میں پھر معنی یہ ہوجائیں گے۔ میں تمہارے لیے ملک یمین یعنی لونڈیوں کی وطی مباح کردی ہے۔- ہمارے لیے یہ مفہوم لینا اس لیے جائز نہیں ہے کہ آیت میں وطی کا ذکر پہلے نہیں گزرا ہے ، بلکہ آیت کی ابتداء میں عقدکاذکرگزرا ہے اس لیے کہ قول باری (فانکحواماطاب لکم) کے متعلق کسی کا اختلاف نہیں ہے کہ اس سے مراد عقد ہے۔ اس نباپر یہ ضروری ہوگیا کہ قول باری (اوماملکت ایمانکم) میں جو پوشیدہ مفہوم ومعنی ہے وہ یہ ہو یا اپنی لونڈیوں سے نکاح کرلویہ نکاح عقدہی ہے اور جو پوشیدہ معنی اس کی طرف راجع ہے وہ عقد ہے وطی نہیں ۔- اگریہ کہاجائے کہ جب لفظ نکاح میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ وطی کے لیے اسم بن جائے پھر اس پر (او ماملکت ایمانکم) کو عطف کیا گیا توگویافقرہ یوں بن گیا کہ اپنی لونڈیوں سے نکاح کرو اور پھر اس کے معنی اس مقام پر وطی کے ہوگئے، اگرچہ اول خطاب میں اس کے معنی عقد کے ہیں تو اس کے جواب میں یہ کہاجائے گا کہ یہ معنی لینا جائز نہیں ہے اس لیے کہ جب اس کے پوشیدہ معنی وہ ہیں جس کا ذکراول خطاب میں گزرچکا ہے تو پھر یہاں بھی بعینہ وہی معنی ہوں گے اور یہاں بھی پوشیدہ معنی سے وہی معنی مراد لیے جائیں گے۔ اب جب کہ ذکرشدہ لفظ نکاح، سے عقدمراد ہے توگویامفہوم یہ ہوا۔ جو عورتیں تمہیں پسندآئیں ان سے عقدکرو، پھر جب ملک یمین میں اسے پوشیدہ مانا جائے گا تو یہ پوشیدہ معنی عقدہی ہوگا کیونکہ وطی کا ذکرنہ تو لفظا ہوا ہے اور نہ ہی معنوی طورپر۔ اس بناپر اس میں وطی کے مفہوم کو پوشیدہ ماننامتمنع ہوگیا۔ اگرچہ نکاح کا اسم کبھی وطی پر محمول ہوتا ہے۔ ایک اور جہت سے دیکھیں تو یہ ظاہر ہوگا کہ جب آیت میں ابتدا کے اندرنکاح کے ذکرکے سوا اور کہیں اس کا ذکر نہیں اور یہ بھی ثابت ہوگیا کہ اس سے مراد عقد ہے تواب یہ جائز نہیں کہ بعینہ یہی لفظ پوشیدہ رہ کروطی کا مفہوم اداکرے اس لیے کہ ایک ہی لفظ کا بیک وقت حقیقی اور مجازی دونوں معنی اداکرنا ممتنع ہے، اس لیے کہ حقیقت اور مجاز کی صورت یہ ہوتی ہے کہ دومعنوں میں سے ایک پر لفظ حقیقت کے طورپردلالت کرتا ہے اور دوسرے پر مجاز کے طورپر لیکن یہ جائز نہیں ہوتا کہ ایک لفظ بیک وقت دونوں معنوں پر مشتمل ہوجائے۔ اس لیے یہ واجب ہوگیا کہ (اوماملکت ایمانکم) میں پوشیدہ مفہوم عقدنکاح ہو جس کا ذکر آیت کی ابتدا میں ہوچکا ہے۔- اگر یہ کہاجائے کہ اس بات پرجوچیزدلالت کررہی ہے کہ یہاں پوشیدہ معنی وطی ہے۔ عقد نہیں وہ مخاطبین کے ملک یمین کی طرف اس کی اضافت ہے کیونکہ یہ تو معلوم ہی ہے کہ ملک یمین یعنی لونڈی سے نکاح کرنا محال ہوتا ہے، البتہ ملک یمین سے وطی کرنا جائز ہوتا ہے اس لیے ہمیں اس سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ یہاں وطی مراد ہے عقدمراد نہیں۔ اس کے جواب میں کہاجائے گا کہ جب ملک یمین کی اضافت جماعت کی طرف ہوئی تو اس سے غیر کی لونڈی سے نکاح کرنا مراد ہوا۔ جس طرح کہ یہ قول باری ہے (ومن لم یستطع منکم طولاان ینکح المحصنات المؤمنات فمماملکت ایمانکم من فتیاتکم المؤمنات اور تم میں سے جو شخص اتنی مقدرت نہ رکھتا ہو کہ خاندانی سلمان عورتوں یعنی محصنات سے نکاح کرسکے، اسے چاہیے کہ تمہاری لونڈیوں میں سے کسی سے نکاح کرلے جو تمھارے قبضے میں ہوں اور مومنہ ہوں)- آیت میں اللہ تعالیٰ نے عقدنکاح کی اضافت مسلمانوں کی لونڈیوں کی طرف کردی اور یہ خطاب غیر کے ساتھ اپنی لونڈی کا نکاح کرانے کی اباحت کے سلسلے میں مسلمانوں کے ہر فرد کی طرف متوجہ ہے۔ اسی طرح قول باری (او ماملکت ایمانکم) بھی اسی معنی پر محمول ہے۔ اس بناپر اعتراض میں جو نکۃ اٹھایا گیا ہے وہ ایسے مفہوم کو پوشیدہ ماننے کے وجوب کی دلیل نہیں ہے۔ جس کا خطاب میں کوئی ذکر نہیں ہے اس لیے یہ واجب ہوگیا کہ اس قول باری میں پوشیدہ مفہوم وہ ہو جس کا ذکرکھلے بندوں پہلے گزرچکا ہے اور وہ عقدنکاح ہے۔ ہم نے جو کچھ یہاں بیان کیا وہ اس بات کی دلیل ہے کہ آیت اسے شخص کو جوآزاد عورت سے نکاح کرنے کی استطاعت رکھتا ہو، آزادعورت یا لونڈی میں سے کسی کے ساتھ نکاح کا اختیاردینے کی متقاضی ہے۔ اس لیے کہ کسی کو ایسی دوچیزوں میں اختیار دنیا درست ہوتا ہے جن میں سے ہر ایک کو کرلینا اس کے لیے ممکن ہوتا ہے، اس لیے مذکورہ آیت آزادعورت سے نکاح کرنے کی استطاعت رکھنے کے باوجود لونڈی سے نکاح کرلینے کے جواز پر دوطرح سے دلالت کررہی ہے، اول قول باری (فانکحواماطاب لکم من النساء) کا عموم۔ کیونکہ یہ آزادعورتوں اور لونڈیوں، دونوں کو شامل ہے اس لیے کہ لفظ النساء کا اطلاق ان دونوں قسموں کی عورتوں پر ہوتا ہے۔ دوم قول باری (اوماملکت ایمانکم) کیونکہ یہ آزادعورتوں اور لونڈیوں میں سے جس کے ساتھ چاہے نکاح کرنے کے اختیار کا متقاضی ہے ہم نے سورة بقرہ میں قول باری (ولامۃ مؤمنۃ خیرمن مشرکۃ) کے اس مفہوم پر دلالت اس پر یہ قول باری (واحل لکم ماوراء ذلکم ان تبتغواباموالکم) انھیں اپنے اموال کے ذریعے سے حاصل کرنا تمہارے لیے حلال کردیا گیا ہے۔ اس میں جو عموم ہے وہ آزادعورتوں اور لونڈیوں کو شامل ہے اور کسی دلالت کے نز نہیں ہے۔- ہے (ذلک ادنی الاتعولوا بےانصافی سے بچنے کے لیے یہ زیادہ قرین صواب ہے) جسن، مجاہد، ابورزین، شعبی، ابومالک ، اسماعیل، عکرمہ اور قتادہ نے اس کی تفسیر میں یہ کہا ہے رستے سے کسی اور طرف جھک نہ جاؤ، اسماعیل بن ابی خالد نے ابومالک غفاری سے نقل کی طرف جھک نہ جاؤ، عکرمہ نے ابوطالب کا یہ شعرپڑھا۔- ذان حدق لایخس شعیرۃ ووزان قسط وزنہ غیر عائل - بائی کی تراز و میں جس کے اندر ایک جو کے برابر بھی وزن میں کمی نہیں ہوتی اور انصاف کا ایسا میزان زن میں کسی طرف جھکاذ نہیں۔- بل لغت کا قول ہے کہ عول، کے اصل معنی حد سے آگے بڑھ جانے کے ہیں، فرائض یعنی میراث میں کا مفہوم یہ ہے کہ وارثوں کے مقرررہ حصوں کی حدپارکرکے انھیں ترکے میں سے مزید کچھ دے دیا اس جھکاؤکو جو عدل اور توازن کے خلاف ہوتا ہے عول کہتے ہیں اس لیے کہ وہ عدل کی حد سے لرجاتا ہے جب کوئی جو رکا مرتکب ہو اس کے لیے کہاجاتا ہے، عال فلان، (فلاں نے جور کیا) اسی جب کوئی شخص متکبرانہ چال اختیارکرے تو کہاجاتا ہے، عال یعیل اسی طرح جب کوئی فقیرتندرست ہوئے تو اس پر بھی یہ فقرہ کہاجاتا ہے۔ ثعلب کے غلام ابوعمر نے اس لفظ کے درج بالا معانی مل کیے ہیں ۔ امام شافعی نے قول باری (ذلک ادنی الاتعولوا) کی تفسیر اس طرح کی ہے کہ ایسے افراد کی شرت نہ ہوجائے جن کانان ونفقہ تمہارے ذمہ ہو۔ آپ نے مزید فرمایا کہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ مرد پر اس کی بیوی کے نان ونفقہ کی ذمہ داری ہوتی ہے۔- لوگوں نے امام شافعی کی اس تفسیر کی تین وجوہ کی بناپرتغلیط کی ہے اول یہ کہ سلف اور ان تمام حضرات کے درمیان سے اس آیت کی تفسیر مروی ہے اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ آیت کے معنی یہ میں کہ تم انصاف سے ہٹ نہ جاؤ اور جو رکے مرتکب نہ ہوجاؤ۔ نیز یہ کہ یہ جھکاؤ اس عدل اور توازن کے خلاف ہے جسے اللہ تعالیٰ نے بیویوں کے درمیان شب باشی اور دیگر امور کی تقسیم کے سلسلے میں قائم رکھنے کا حکم دیا ہے۔ دوم لغت کے لحاظ سے یہ مفہوم غلط ہے۔ اس لیے کہ اہل لغت کا اس پر اتفاق ہے کہ کثرت عیال کی صورت میں عال یعول، کے لفظ کا اطلاق نہیں ہوتا۔ میرد اور دیگر ائمئہ لغت نے یہ بیان کیا ہے۔ ابوعبیدہ معمربن المثنی کا قول ہے کہ (ان لاتعولوا) کے معنی ان لاتجوروا کے ہیں۔ یعنی تم جو ریاظلم نہ کرو۔ اگر کوئی کسی پر جو رکرے تو محاورے کے طورپرکہاجاتا ہے۔ علت علی (تونے مجھ پر جور کیا) سوم یہ کہ آیت میں ایک آزادبیوی یا ملک یمین یعنی لونڈیوں کا ذکر ہے۔ انسان کے عیال میں لونڈیاں آزادعورتوں کی طرح ہوتی ہیں اور اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ ایک شخص جتنی چاہے لونڈیاں رکھ سکتا ہے۔ تو اس سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ آیت میں کثرت عیال مراد نہیں ہے بلکہ ظلم وجور اوربے تصافی کی نفی مراد ہے اور وہ اس طرح کہ صرف ایک آزاد عورت کو اپنی زوجیت میں رکھے۔ اس صورت میں اس کے ساتھ دوسری عورت نہیں ہوگی جس کی وجہ سے شب باشی اور دیگرامور میں بےانصافی ہوسکے۔ باقی رہ گئیں لونڈیاں تو ان کے درمیان شب باشی کے لیے باری مقرر کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ واللہ اعلم۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٣) یہ آیت ایک غطفانی شخص کے بارے میں نازل ہوئی ہے اس کے پاس اپنے یتیم بھیتجے کا بہت مال تھا، جب یہ آیت نازل ہوئی تو گناہ کے ڈر کی وجہ سے صحابہ کرام (رض) بولے ہم یتیموں کو اپنے معاملات ومعاشرت سے علیحدہ کردیتے ہیں، اس پر اللہ تعالیٰ نے اگلی آیت نازل فرمائی، یعنی جیسا کہ اموال یتیم کی حفاظت اور اس میں انصاف نہ کرنے سے ڈرتے ہو، اسی طرح تم عورتوں کے درمیان خرچ اور ان کے حقوق میں پوری طرح انصاف نہ کرسکوگے اور لوگ اس حکم کے نازل ہونے سے پہلے تک جتنی مرضی ہوتی تھی شادیاں کرلیتے تھے، حتی کہ نو اور دس تک بھی یہ تعداد پہنچ جاتی تھی چناچہ قیس بن حارث کے نکاح میں آٹھ عورتیں تھیں، اللہ تعالیٰ نے اس کی ممانعت فرما دی اور چار سے زیادہ شادیاں کرنے کو قطعی طور پر حرام کردیا۔- چناچہ ارشاد فرماتے ہیں کہ جس قدر شادیاں کرنا تمہارے لیے حلال کی گئی ہیں، اس قدر نکاح کرو خواہ ایک نکاح کرو یا دو یا تین یا آخری حد چار شادیاں کرلو، اس سے زیادہ کرنے کی ہرگز اجازت نہیں اور اگر چار عورتوں کے درمیان نفقہ (خرچہ) اور تقسیم میں عدل و انصاف نہیں کرسکتے تو پھر ایک آزاد عورت سے شادی کرو اور اگر ایک کے بھی حقوق ادا نہ کرسکو، تو جو حسب قاعدہ شرعیہ باندی تمہاری ملکیت میں ہے ، (یادر رہے کہ نزول قرآن کے وقت پوری دنیا میں غلامی کا چلن تھا، اسلام نے اس برائی کو معاشرے سے بتدریج ختم کیا، غلاموں وباندیوں کو حقوق دیے انہیں آزاد کرنے کی تلقین کی اور متعدد گناہوں یا لغزشوں کا عوض غلاموں وباندیوں کو آزاد کرنا قرار دیا، آج چونکہ یہ قبیح رواج ختم ہوچکا ہے جو عین منشائے اسلام ہے اور دنیا کی تمام اقوام نے ١٩٤٨ ء ؁ میں غلامی کی تنسیخ کردی، اب کسی فرد کو کوئی غلام، باندی رکھنے کا حق نہیں ہے، اور نہی ان آیات سے غلامی کے استمرار و دوام کا ثبوت میسر آسکتا ہے، اب افراد کی محنت کو خریدا جاسکتا ہے کسی کو غلام، باندی نہیں بنایا جاسکتا، اور نہ ہی کوئی اپنے کو غلام یا باندی قرار دے سکتا ہے۔ ) (مترجم) وہ ہی کافی ہے کیوں کہ اس میں نہ تقسیم ہے اور نہ عدت اس پر واجب ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٣ (وَاِنْ خِفْتُمْ اَلاَّ تُقْسِطُوْا فِی الْْیَتٰمٰی) (فَانْکِحُوْا مَا طَابَ لَکُمْ مِّنَ النِّسَآءِ مَثْنٰی وَثُلٰثَ وَرُبٰعَ ج) - اس آیت میں یَتَامٰیسے مراد یتیم بچیاں اور خواتین ہیں۔ یتیم لڑکے تو عمر کی ایک خاص حد کو پہنچنے کے بعد اپنی آزاد مرضی سے زندگی گزار لیتے تھے ‘ لیکن یتیم لڑکیوں کا معاملہ یہ ہوتا تھا کہ ان کے ولی اور سرپرست ان کے ساتھ نکاح بھی کرلیتے تھے۔ اس طرح یتیم لڑکیوں کے مال بھی ان کے قبضے میں آجاتے تھے ‘ اور یتیم لڑکیوں کے پیچھے ان کے حقوق کی نگہداشت کرنے والا بھی کوئی نہیں ہوتا تھا۔ اگر ماں باپ ہوتے تو ظاہر ہے کہ وہ بچی کے حقوق کے بارے میں بھی کوئی بات کرتے۔ لہٰذا ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا تھا۔ چناچہ فرمایا گیا کہ اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ تم ان کے بارے میں انصاف نہیں کرسکو گے تو پھر تم ان یتیم بچیوں سے نکاح مت کرو ‘ بلکہ دوسری عورتیں جو تمہیں پسند ہوں ان سے نکاح کرو۔ اگر ضرورت ہو تو دو دو ‘ تین تین ‘ چار چار کی حد تک نکاح کرسکتے ہو ‘ اس کی تمہیں اجازت ہے۔ لیکن تم یتیم بچیوں کے ولی بن کر ان کی شادیاں کہیں اور کرو تاکہ تم ان کے حقوق کے پاسبان بن کر کھڑے ہو سکو۔ ورنہ اگر تم نے ان کو اپنے گھروں میں ڈال لیا تو کون ہوگا جو ان کے حقوق کے بارے میں تم سے باز پرس کرسکے ؟ ۔۔ منکرین سنت اور منکرین حدیث نے اس آیت کی مختلف تعبیرات کی ہیں ‘ جو یہاں بیان نہیں کی جا سکتیں۔ اس کا صحیح مفہوم یہی ہے جو سلف سے چلا آ رہا ہے اور جو حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے مروی ہے۔ مزید برآں تعدد ازدواج کے بارے میں یہی ایک آیت قرآن مجید میں ہے۔ اس آیت کی رو سے تعدد ازدواج کو محدود کیا گیا ہے اور چار سے زائد بیویاں رکھنے کو ممنوع کردیا گیا ہے۔ ّ - (فَاِنْ خِفْتُمْ اَلاَّ تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَۃً ) - یہ جو ہم نے اجازت دی ہے کہ دو دو ‘ تین تین ‘ چار چار عورتوں سے نکاح کرلو ‘ اس کی شرط لازم یہ ہے کہ بیویوں کے درمیان عدل کرو۔ اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ اس شرط کو پورا نہیں کرسکو گے اور ان میں برابری نہ کرسکو گے تو پھر ایک ہی شادی کرو ‘ اس سے زائد نہیں۔ بیویوں کے مابین عدل و انصاف میں ہر اس چیز کا اعتبار ہوگا جو شمار میں آسکتی ہے۔ مثلاً ہر بیوی کے پاس جو وقت گزارا جائے اس میں مساوات ہونی چاہیے۔ نان نفقہ ‘ زیورات ‘ کپڑے اور دیگر مال و اسباب ‘ غرضیکہ تمام مادّی چیزیں جو دیکھی بھالی جاسکتی ہیں ان میں انصاف اور عدل لازم ہے۔ البتہ دلی میلان اور رجحان جس پر انسان کو قابو نہیں ہوتا ‘ اس میں گرفت نہیں ہے۔- (اَوْ مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ ط) ۔ - یعنی وہ عورتیں جو جنگوں میں گرفتار ہو کر آئیں اور حکومت کی طرف سے لوگوں میں تقسیم کردی جائیں۔ وہ ایک علیحدہ معاملہ ہے اور ان کی تعداد پر کوئی تحدید نہیں ہے۔- ( ذٰلِکَ اَدْنآی الاَّ تَعُوْلُوْا ) ۔- کہ بس ایک ہی بیوی کی طرف میلان ہے اور ‘ جیسا کہ آگے آئے گا ‘ دوسری معلق ہو کر رہ گئی ہیں کہ نہ وہ شوہروالیاں ہیں اور نہ آزاد ہیں کہ کہیں اور نکاح کرلیں۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :4 اس کے تین مفہوم اہل تفسیر نے بیان کیے ہیں: ( ١ ) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اس کی تفسیر میں فرماتی ہیں کہ زمانہ جاہلیت میں جو یتیم بچیاں لوگوں کی سرپرستی میں ہوتی تھیں ان کے مال اور ان کے حسن و جمال کی وجہ سے ، یا اس خیال سے کہ ان کا کوئی سردھرا تو ہے نہیں ، جس طرح ہم چاہیں گے دبا کر رکھیں گے ، وہ ان کے ساتھ خود نکاح کر لیتے تھے اور پھر ان پر ظلم کیا کرتے تھے ۔ اس پر ارشاد ہوا کہ اگر تم کو اندیشہ ہو کہ یتیم لڑکیوں کے ساتھ انصاف نہ کر سکو گے تو دوسری عورتیں دنیا میں موجود ہیں ، ان میں سے جو تمہیں پسند آئیں ان کے ساتھ نکاح کر لو ۔ اسی سورة میں انیسویں رکوع کی پہلی آیت اس تفسیر کی تائید کرتی ہے ۔ ( ۲ ) ابن عباس رضی اللہ عنہ اور ان کے شاگرد عکرمہ اس کی تفسیر یہ بیان کرتے ہیں کہ جاہلیت میں نکاح کی کوئی حد نہ تھی ۔ ایک ایک شخص دس دس بیویاں کرلیتا تھا ۔ اور جب اس کثرت ازدواج سے مصارف بڑھ جاتے تھے تو مجبور ہو کر اپنے یتیم بھتیجوں ، بھانجوں اور دوسرے بے بس عزیزوں کے حقوق پر دست درازی کرتا تھا ۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے نکاح کے لیے چار کی حد مقرر کر دی اور فرمایا کہ ظلم و بے انصافی سے بچنے کی صورت یہ ہے کہ ایک سے لے کر چار تک اتنی بیویاں کرو جن کے ساتھ تم عدل پر قائم رہ سکو ۔ ( ۳ ) سعید بن جبیر اور قتادہ اور بعض دوسرے مفسرین کہتے ہیں کہ جہاں تک یتیموں کا معاملہ ہے اہل جاہلیت بھی ان کے ساتھ بے انصافی کرنے کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتے تھے ۔ لیکن عورتوں کے معاملہ میں ان کے ذہن عدل و انصاف کے تصور سے خالی تھے ۔ جتنی چاہتے تھے شادیاں کر لیتے تھے اور پھر ان کے ساتھ ظلم و جور سے پیش آتے تھے ۔ اس پر ارشاد ہوا کہ اگر تم یتیموں کے ساتھ بے انصافی کرنے سے ڈرتے ہو تو عورتوں کے ساتھ بھی بے انصافی کرنے سے ڈرو ۔ اول تو چار سے زیادہ نکاح ہی نہ کرو ، اور اس چار کی حد میں بھی بس اتنی بیویاں رکھو جن کے ساتھ انصاف کر سکو ۔ آیت کے الفاظ ان تینوں تفسیروں کے متحمل ہیں اور عجب نہیں کہ تینوں مفہوم مراد ہوں ۔ نیز اس کا ایک مفہوم یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اگر تم یتیموں کے ساتھ ویسے انصاف نہیں کر سکتے تو ان عورتوں سے نکاح کر لو جن کے ساتھ یتیم بچے ہوں ۔ سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :5 اس بات پر فقہاء امت کا اجماع ہے کہ اس آیت کی رو سے تعدد ازواج کو محدود کیا گیا ہے اور بیک وقت چار سے زیادہ بیویاں رکھنے کو ممنوع کر دیا گیا ہے ۔ روایات سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے ۔ چنانچہ احادیث میں آیا ہے کہ طائف کا رئیس غیلا جب اسلام لایا تو اس کی نو بیویاں تھیں ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے حکم دیا کہ چار بیویاں رکھ لے اور باقی کو چھوڑ دے ۔ اسی طرح ایک دوسرے شخص ( نَوفَل بن معاویہ ) کی پانچ بیویاں تھیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان میں سے ایک کو چھوڑ دے ۔ نیز یہ آیت تعدد ازواج کے جواز کو عدل کی شرط سے مشروط کرتی ہے ۔ جو شخص عدل کی شرط پوری نہیں کرتا مگر ایک سے زیادہ بیویاں کرنے کے جواز سے فائدہ اٹھاتا ہے وہ اللہ کے ساتھ دغا بازی کرتا ہے ۔ حکومت اسلامی کی عدالتوں کو حق حاصل ہے کہ جس بیوی یا جن بیویوں کے ساتھ وہ انصاف نہ کر رہا ہو ان کی داد رسی کریں ۔ بعض لوگ اہل مغرب کی مسیحیت زدہ رائے سے مغلوب و مرعوب ہو کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ قرآن کا اصل مقصد تعدد ازواج کے طریقے کو ( جو مغربی نقطہ نظر سے فی الاصل برا طریقہ ہے ) مٹا دینا تھا ، مگر چونکہ یہ طریقہ بہت زیادہ رواج پا چکا تھا اس لیے اس پر صرف پابندیاں عائد کر کے چھوڑ دیا گیا ۔ لیکن اس قسم کی باتیں دراصل محض ذہنی غلامی کا نتیجہ ہیں ۔ تعدد ازواج کا فی نفسہ ایک برائی ہونا بجائے خود ناقابل تسلیم ہے ، کیونکہ بعض حالات میں یہ چیز ایک تمدنی اور اخلاقی ضرورت بن جاتی ہے ۔ اگر اس کی اجازت نہ ہو تو پھر وہ لوگ جو ایک عورت پر قانع نہیں ہو سکتے ، حصار نکاح سے باہر صنفی بد امنی پھیلانے لگتے ہیں جس کے نقصانات تمدن و اخلاق کے لیے اس سے بہت زیادہ ہیں جو تعدد ازواج سے پہنچ سکتے ہیں ۔ اسی لیے قرآن نے ان لوگوں کو اس کی اجازت دی ہے جو اس کی ضرورت محسوس کریں ۔ تاہم جن لوگوں کے نزدیک تعدد ازواج فی نفسہ ایک برائی ہے ان کو یہ اختیار تو ضرور حاصل ہے کہ چاہیں تو قرآن کے بر خلاف اس کی مذمت کریں اور اسے موقوف کر دینے کا مشورہ دیں ۔ لیکن یہ حق انہیں نہیں پہنچتا کہ اپنی رائے کو خوا مخواہ قرآن کی طرف منسوب کریں ۔ کیونکہ قرآن نے صریح الفاظ میں اس کو جائز ٹھیرایا ہے اور اشارةً و کنایةً بھی اس کی مذمت میں کوئی ایسا لفظ استعمال نہیں کیا ہے جس سے معلوم ہو کہ فی الواقع وہ اس کو مسدود کرنا چاہتا تھا ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو میری کتاب” سنت کی آئینی حیثیت “ ، ص ۳۰۷ تا ۳١٦ ) ۔ سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :6 لونڈیاں مراد ہیں ، یعنی وہ عورتیں جو جنگ میں گرفتار ہو کر آئیں اور حکومت کی طرف سے لوگوں میں تقسیم کر دی جائیں ۔ مطلب یہ ہے کہ اگر ایک آزاد خاندانی بیوی کا بار بھی برداشت نہ کر سکو تو پھر لونڈی سے نکاح کر لو ، جیسا کہ رکوع ٤ میں آگے آتا ہے ۔ یا یہ کہ اگر ایک سے زیادہ عورتوں کی تمہیں ضرورت ہو اور آزاد خاندانی بیویوں کے درمیان عدل رکھنا تمہارے لیے مشکل ہو تو لونڈیوں کی طرف رجوع کرو ، کیونکہ ان کی وجہ سے تم پر ذمہ داریوں کا بار نسبتًہ کم پڑے گا ۔ ( آگے حاشیہ نمبر ٤٤ میں لونڈیوں کے متعلق احکام کی مزید تفصیل ملے گی )

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

3: صحیح بخاری کی ایک حدیث میں حضرت عائشہؓ نے اس ہدایت کا پس منظر یہ بتایا ہے کہ بعض اوقات ایک یتیم لڑکی اپنے چچا کے بیٹے کی سرپرستی میں ہوتی تھی، وہ خوبصورت بھی ہوتی اور اس کے باپ کا چھوڑا ہوا مال بھی اچھا خاصا ہوتا تھا، اس صورت میں اس کا چچا زاد یہ چاہتا تھا کہ اس کے بالغ ہونے پر وہ خود اس سے نکاح کرلے، تاکہ اس کا مال اسی کے تصرف میں رہے لیکن نکاح میں وہ اس کو اتنا مہر نہیں دیتا تھا جتنا اسی جیسی لڑکی کو دینا چاہئے۔ دوسری طرف اگر لڑکی زیادہ خوبصورت نہ ہوتی تو اس کے مال کی لالچ میں اس سے نکاح تو کرلیتا تھا، لیکن نہ صرف یہ کہ اس کا مہر کم رکھتا تھا، بلکہ اس کے ساتھ ایک محبوب بیوی جیسا سلوک بھی نہیں کرتا تھا۔ اس آیت نے ایسے لوگوں کو یہ حکم دیا ہے کہ اگر تمہیں یتیم لڑکیوں کے ساتھ اس قسم کی بے انصافی کا اندیشہ ہو تو ان سے نکاح مت کرو، بلکہ عورتوں سے نکاح کرو جو اللہ نے تمہارے لئے حلال کی ہیں۔ 4: جاہلیت کے زمانے میں بیویوں کی کوئی تعداد مقرر نہیں تھی۔ ایک شخص بیک وقت دس دس بیس بیس عورتوں کو نکاح میں رکھ لیتا تھا اس آیت نے اس کی زیادہ سے زیادہ حد چار تک مقرر فرمادی، اور وہ بھی اس شرط کے ساتھ کہ اِنسان تمام بیویوں کے درمیان برابری کا سلوک کرے۔ اور اگر بے انصافی کا اندیشہ ہو تو ایک ہی بیوی پر اکتفا کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ ایسی صورت میں ایک سے زیادہ نکاح کرنے کو منع فرمادیا گیا ہے۔