Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

میدان جنگ سے قبضہ میں آنے والی عورتیں اور ۔ ۔ ۔ متعہ یعنی خاوندوں والی عورتیں بھی حرام ہیں ، ہاں کفار عورتیں جو میدان جنگ میں قید ہو کر تمہارے قبضے میں آئیں تو ایک حیض گزارنے کے بعد وہ تم پر حلال ہیں ، مسند احمد میں حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ جنگ اوطاس میں قید ہو کر ایسی عورتیں آئیں جو خاوندوں والیاں تھیں تو ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کی بابت سوال کیا تب یہ آیت اتری ہم پر ان سے ملنا حلال کیا گیا ترمذی ابن ماجہ اور صحیح مسلم وغیرہ میں بھی یہ حدیث ہے ، طبرانی کی روایت میں ہے کہ یہ واقعہ جنگ خیبر کا ہے ، سلف کی ایک جماعت اس آیت کے عموم سے استدلال کرکے فرماتی ہے کہ لونڈی کو بیچ ڈالنا ہی اس کے خاوند کی طرف سے اسے طلاق کامل کے مترادف ہے ، ابراہیم سے جب یہ مسئلہ پوچھا گیا تو حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا جب کوئی خاوند والی لونڈی بیچی جائے تو اس کے جسم کا زیادہ حقدار اس کا مالک ہے ، حضرت ابی بن کعب حضرت جابر بن عبداللہ ، حضرت ابن عباس کا بھی یہی فتویٰ ہے کہ اس کا بکنا ہی اس کی طلاق ہے ، ابن جریر میں ہے کہ لونڈی کی طلاقیں چھ ہیں ، بیچنا بھی طلاق ہے آزاد کرنا بھی ہبہ کرنا بھی برات کرنا بھی اور اس کے خاوند کا طلاق دینا بھی ( یہ پانچ صورتیں تو بیان ہوئیں چھٹی صورت نہ تفسیر ابن کثیر میں ہے نہ ابن جریر میں ۔ مترجم ) حضرت ابن المسیب فرماتے ہیں کہ خاوند والی عورتوں سے نکاح حرام ہے لیکن لونڈیاں ان کی طلاق ان کا بک جانا ہے ، حضرت معمر اور حضرت حسن بھی یہی فرماتے ہیں ان بزرگوں کا تو یہ قول ہے لیکن جمہور ان کے مخالف ہیں وہ فرماتے ہیں کہ بیچنا طلاق نہیں اس لئے کہ خریدار بیچنے والے کا نائب ہے اور بیچنے والا اس نفع کو اپنی ملکیت سے نکال کر بیچ رہا ہے ، ان کی دلیل حضرت بریرہ والی حدیث ہے جو بخاری و مسلم وغیرہ میں ہے کہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے جب انہیں خرید کر آزاد کردیا تو ان کا نکاح مغیث سے فسخ نہیں ہوا بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فسخ کرنے اور باقی رکھنے کا اختیار دیا اور حضرت بریرہ نے فسخ کرنے کو پسند کیا یہ واقعہ مشہور ہے ، پس اگر بک جانا ہی طلاق ہوتا جیسے ان بزرگوں کا قول ہے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت بریرہ کو ان کے بک جانے کے بعد اپنے نکاح کے باقی رکھنے نہ رکھنے کا اختیار نہ دینے ، اختیار دینا نکاح کے باقی رہنے کی دلیل ہے ، تو آیت میں مراد صرف وہ عورتیں ہیں جو جہاد میں قبضہ میں آئیں واللہ اعلم ۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ محصنات سے مراد پاک دامن عورتیں ہیں یعنی عفیفہ عورتیں جو تم پر حرام ہیں جب تک کہ تم نکاح اور گواہ اور مہر اور ولی سے ان کی عصمت کے مالک نہ بن جاؤ خواہ ایک ہو خواہ دو خواہ تین خواہ چار ابو العالیہ اور طاؤس یہی مطلب بیان فرماتے ہیں ۔ عمر اور عبید فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ چار سے زائد عورتیں تم پر حرام ہیں ہاں کنیزوں میں یہ گنتی نہیں ۔ پھر فرمایا کہ یہ حرمت اللہ تعالیٰ نے تم پر لکھ دی ہے یعنی چار کی پس تم اس کی کتاب کو لازم پکڑو اور اس کی حد سے آگے نہ بڑھو ، اس کی شریعت اور اس کے فرائض کے پابند رہو ، یہ بھی کہا گیا ہے کہ حرام عورتیں اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں ظاہر کردیں ۔ پھر فرماتا ہے کہ جن عورتوں کا حرام ہونا بیان کردیا گیا ان کے علاوہ اور سب حلال ہیں ، ایک مطلب یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان چار سے کم تم پر حلال ہیں ، لیکن یہ قول دور کا قول ہے اور صحیح مطلب پہلا ہی ہے اور یہی حضرت عطا کا قول ہے ، حضرت قتادہ اس کا یہ مطلب بیان کرتے ہیں کہ اس سے مراد لونڈیاں ہیں ، یہی آیت ان لوگوں کی دلیل ہے جو دو بہنوں کے جمع کرنے کی حلت کے قائل ہیں اور ان کی بھی جو کہتے ہیں کہ ایک آیت اسے حلال کرتی ہے اور دوسری حرام ۔ پھر فرمایا تم ان حلال عورتوں کو اپنے مال سے حاصل کرو چار تک تو آزاد عورتیں اور لونڈیاں بغیر تعین کے لیکن ہو بہ طریق شرع ۔ اسی لئے فرمایا زنا کاری سے بچنے کے لئے اور صرف شہوت رانی مقصود نہیں ہونا چاہئے ۔ پھر فرمایا کہ جن عورتوں سے تم فائدہ اٹھاؤ ان کے اس فائدہ کے مقابلہ میں مہر دے دیا کرو ، جیسے اور آیت میں ہے و کیف تاخذونہ وقد افضی بعضکم الی بعض یعنی تم مہر کو عورتوں سے کیسے لو گے حالانکہ ایک دوسرے سے مل چکے ہو اور فرمایا و اتوا النساء صدقاتہن نحلتہ عورتوں کے مہر بخوشی دے دیا کرو اور جگہ فرمایا ولا یحل لکم ان تاخذوا مما اتیتمو ہن شیأا الخ ، تم نے جو کچھ عورتوں کو دے دیا ہو اس میں سے واپس لینا تم پر حرام ہے ، اس آیت سے نکاح متعہ پر استدلال کیا ہے بیشک متعہ ابتداء اسلام میں مشروع تھا لیکن پھر منسوخ ہوگیا ، امام شافعی اور علمائے کرام کی ایک جماعت نے فرمایا ہے کہ دو مرتبہ متعہ مباح ہوا پھر منسوخ ہوا ۔ بعض کہتے ہیں اس سے بھی زیادہ بار مباح اور منسوخ ہوا ، اور بعض کا قول ہے کہ صرف ایک بار مباح ہوا پھر منسوخ ہوگیا پھر مباح نہیں ہوا ۔ حضرت ابن عباس اور چند دیگر صحابہ سے ضرورت کے وقت اس کی اباحت مروی ہے ، حضرت امام احمد بن حنبل سے بھی ایک روایت ایسی ہی مروی ہے ابن عباس ابی بن کعب سعید بن جیبر اور سدی سے منہن کے بعد الی اجل مسمی کی قرأت مروی ہے ، مجاہد فرماتے ہیں یہ آیت نکاح متعہ کی بابت نازل ہوئی ہے ، لیکن جمہور اس کے برخلاف ہیں اور اس کا بہترین فیصلہ بخاری و مسلم کی حضرت علی والی روایت کردیتی ہے جس میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر والے دن نکاح متعہ سے اور گھریلو گدھوں کے گوشت سے منع فرمادیا ، اس حدیث کے الفاظ کتب احکام میں مقرر ہیں ، صحیح مسلم شریف میں حضرت سیرہ بن معبد جہنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ فتح مکہ کے غزوہ میں وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے آپ نے ارشاد فرمایا اے لوگو میں نے تمہیں عورتوں سے متعہ کرنے کی رخصت دی تھی یاد رکھو بیشک اب اللہ تبارک و تعالیٰ نے اسے قیامت تک کے لئے حرام کردیا ہے جس کے پاس اس قسم کی کوئی عورت ہو تو اسے چاہئے کہ اسے چھوڑ دے اور تم نے جو کچھ انہیں دے رکھا ہو اس میں سے ان سے کچھ نہ لو ، صحیح مسلم شریف کی ایک اور روایت میں ہے کہ آپ نے حجتہ الوداع میں یہ فرمایا تھا ، یہ حدیث کئی الفاظ سے مروی ہے ، جن کی تفصیل کی جگہ احکام کی کتابیں ہیں ، پھر فرمایا کہ تقرر کے بعد بھی اگر تم بہ رضامندی کچھ طے کرلو تو کوئی حرج نہیں ، اگلے جملے کو متعہ پر محمول کرنے والے تو اس کا یہ مطلب بیان کرتے ہیں کہ جب مدت مقررہ گزرجائے پھر مدت کو بڑھا لینے اور جو دیا ہو اس کے علاوہ اور کچھ دینے میں کوئی گناہ نہیں ، سدی کہتے ہیں اگر چاہے تو پہلے کے مقرر مہر کے بعد جو دے چکا ہے وقت کے ختم ہونے سے پیشتر پھر کہدے کہ میں اتنی اتنی مدت کے لئے پھر متعہ کرتا ہوں پس اگر اس نے رحم کی پاکیزگی سے پہلے دن بڑھا لئے تو جب مدت پوری ہوجائے تو پھر اس کا کوئی دباؤ نہیں وہ عورت الگ ہوجائے گی اور حیض تک ٹھہر کر اپنے رحم کی صفائی کرلے گی ان دونوں میں میراث نہیں نہ یہ عورت اس مرد کی وارث نہ یہ مرد اس عورت کا ، اور جن حضرات نے اس جملہ کو نکاح مسنون کے مہر کی کے مصداق کہا ہے ان کے نزدیک تو مطلب صاف ہے کہ اس مہر کی ادائیگی تاکیداً بیان ہو رہی ہے جیسے فرمایا مہر بہ آسانی اور بہ خوشی دے دیا کرو ، اگر مہر کے مقرر ہوجانے کے بعد عورت اپنے پورے حق کو یا تھوڑے سے حق کو چھوڑ دے صاف کر دے اس سے دست بردار ہوجائے تو میاں بیوی میں سے کسی پر کوئی گناہ نہیں ، حضرت حضرمی فرماتے ہیں کہ لوگ اقرار دیتے ہیں پھر ممکن ہے کہ تنگی ہوجائے تو اگر عورت اپنا حق چھوڑ دے تو جائز ہے ، امام ابن جریر بھی اسی قول کو پسند کرتے ہیں ، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں مراد یہ ہے کہ مہر کی رقم پوری پوری اس کے حوالے کردے پھر اسے بسنے اور الگ ہونے کا پورا پورا اختیار دے ، پھر ارشاد ہوتا ہے کہ اللہ علیم و حکیم ہے ان کا احکام میں جو حلت و حرمت کے متعلق ہیں جو رحمتیں ہیں اور جو مصلحتیں ہیں انہیں وہی بخوبی جانتا ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

24۔ 1 قرآن کریم میں احصان چار معنوں میں مستعمل ہوا ہے۔ 1۔ شادی 2۔ آزادی 3۔ پاکدامنی۔ 4۔ اسلام اس اعتبار سے محصنات کے چار مطلب ہیں 1۔ شادی شدہ عورتیں 2۔ پاکدامن عورتیں 3۔ آزاد عورتیں اور 4۔ مسلمان عورتیں۔ یہاں پہلا معنی مراد ہے اس کے شان نزول میں آتا ہے جب بعض جنگوں میں کافروں کی عورتیں بھی مسلمانوں کی قید میں آگئیں تو مسلمانوں نے ان سے ہم بستری کرنے میں کراہت محسوس کی کیونکہ وہ شادی شدہ تھیں صحابہ کرام نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا جس میں یہ آیت نازل ہوئی (ابن کثیر) جس سے یہ معلوم ہوا کہ جنگ میں حاصل ہونے والی کافر عورتیں جب مسلمانوں کی لونڈیاں بن جائیں شادی شدہ ہونے کے باوجود ان سے مباشرت کرنا جائز ہے البتہ استبرائے رحم ضروری ہے۔ یعنی ایک حیض آنے کے بعد یا حاملہ ہیں تو وضع حمل کے بعد ان سے جنسی تعلق قائم کیا جائے۔ لونڈی کا مسئلہ : نزول قرآن کریم کے وقت غلام اور لونڈیاں کا سلسلہ عام تھا جسے قرآن نے بند نہیں کیا البتہ ان کے بارے میں ایسی حکمت عملی اختیار کی گئی کہ جس سے غلاموں اور لونڈیوں کو زیادہ سے زیادہ سہولتیں حاصل ہوں تاکہ غلامی کی حوصلہ شکنی ہو اس کے دو ذریعے تھے ایک تو بعض خاندان صدیوں سے ایسے چلے آرہے تھے کہ ان کے مرد اور عورت فروخت کردییے جاتے تھے یہی خریدے ہوئے مرد اور عورت غلام اور لونڈی کہلاتے تھے مالک کو ان سے ہر طرح کے استمتاع (فائدہ اٹھانے) کا حق حاصل ہوتا تھا دوسرا ذریعہ جنگ میں قیدیوں والا تھا کہ کافروں کے قیدی عورتوں کو مسلمانوں میں تقسیم کردیا جاتا تھا اور وہ ان کی لونڈیاں بن کر ان کے پاس رہتی تھیں قیدیوں کے لیے یہ بہترین حل تھا کیونکہ اگر انہیں معاشرے میں یونہی آزاد چھوڑ دیا جاتا تو معاشرے میں ان کے ذریعے سے فساد پیدا ہوتا۔ (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو کتاب الرق فی الاسلام، اسلام میں غلامی کی حقیقت از مولانا سعید احمد اکبر آبادی) بہرحال مسلمان شادی شدہ عورتیں تو ویسے ہی حرام ہیں تاہم کافر عورتیں بھی حرام ہی ہیں الا یہ کہ وہ مسلمانوں کی ملکیت میں آجائیں اس صورت میں استبراء رحم کے بعد وہ ان کے لیے حلال ہیں۔ 24۔ 2 یعنی مذکورہ محرکات قرآنی اور حدیثی کے علاوہ دیگر عورتوں سے نکاح کرنا جائز ہے بشرطیکہ چار چیزیں اس میں ہوں اول یہ کہ طلب کرو یعنی دونوں طرف سے ایجاب و قبول ہو دوسری یہ مہر ادا کرنا قبول کرو۔ تیسری ان کی شادی کی قید (دایمی قبضے) میں لانا مقصود ہو صرف شہوت رانی غرض نہ ہو (جیسے زنا میں یا اس متعہ میں ہوتا ہے جو شیعہ میں رائج ہے یعنی جنسی خواہش کی تسکیں کے لئے چند روز یا چند گھنٹوں کا نکاح چوتھی یہ کہ چھپی یاری نہ ہو بلکہ گواہوں کی موجودگی میں نکاح ہو یہ چاروں شرطیں اس آیت سے مستفاد ہیں اس سے جہاں شیعوں کے متعہ کا بطلان ہوتا ہے وہیں مروجہ حلالہ کا بھی ناجائز ہونا ثابت ہوتا ہے۔ کیونکہ اس کا مقصد بھی عورت کو نکاح کر کے دائمی قید میں لانا نہیں ہوتا، بلکہ عرفایہ صرف ایک رات کے لئے مقرر اور معمود ذہنی ہے۔ 24۔ 3 یہ اس امر کی تاکید ہے کہ جن عورتوں سے تم نکاح شرعی احکام کے ذریعے سے کرو تو انہیں ان کا مقرر کردہ مہر ضرور ادا کرو۔ 24۔ 4 اس میں آپس کی رضامندی سے مہر میں کمی بیشی کرنے کا اختیار ہے۔ ملحوظہ : " استمتاع " کے لفظ سے شیعہ حضرات نکاح متعہ کا اثبات کرتے ہیں حالانکہ اس سے مراد نکاح کے بعد صحبت و مباشرت کا استمتاع ہے جیسا کہ ہم نے بیان کیا ہے۔ البتہ متعہ ابتدائے اسلام میں جائز رہا ہے اور اس کا جواز اس آیت کی بنیاد پر نہیں تھا بلکہ اس رواج کی بنیاد پر تھا جو اسلام سے قبل چلا آرہا تھا۔ پھر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نہایت واضح الفاظ میں اسے قیامت تک حرام کردیا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٤٠] موجودہ دور کے مہذب معاشرہ میں فاتح قوم قیدی عورتوں سے جس طرح کھلی بےحیائی کا ارتکاب کرتی ہے، اسلامی نقطہ نظر سے یہ صریح زنا ہے اور جس طرح آج کل قیدی عورتوں کو ایک کیمپ میں رکھا جاتا ہے اور فوجیوں کو عام اجازت دی جاتی ہے کہ جس عورت سے چاہیں زنا کرتے رہیں۔ یہ صرف زنا ہی نہیں رہتا بلکہ ایک وحشیانہ فعل بھی بن جاتا ہے۔ چناچہ اسلام نے ایسی عورتوں سے تمتع پر چند در چند پابندیاں لگائی ہیں۔ اس سلسلے میں پہلے درج ذیل حدیث ملاحظہ فرمائیے :- قیدی عورتوں اور لونڈیوں سے تمتع کی شرط :۔ ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم نے حنین کے دن ایک لشکر اوطاس کی طرف روانہ کیا۔ ان کا دشمن سے مقابلہ ہوا، مسلمانوں نے فتح پائی اور بہت سے قیدی ہاتھ آئے۔ صحابہ کرام نے ان قیدی عورتوں سے صحبت کرنے کو گناہ سمجھا کہ ان کے مشرک شوہر موجود تھے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرما کر عدت کے بعد ان لونڈیوں کو ان کے لیے حلال کردیا۔ (مسلم۔ کتاب الرضاع، باب جواز وطی المسبیۃ)- اس آیت اور مندرجہ بالا حدیث سے درج ذیل باتوں کا پتہ چلتا ہے۔- ١۔ صرف اس قیدی عورت سے تمتع کیا جاسکتا ہے جو امیر لشکر دیگر اموال غنیمت کی طرح کسی مجاہد کی ملکیت میں دے دے۔ اس سے پہلے اگر کوئی شخص کسی عورت سے تمتع کرے گا تو وہ دو گناہوں کا مرتکب ہوگا۔ ایک زنا کا اور دوسرے مشترکہ اموال غنیمت کی تقسیم سے پیشتر ان میں خیانت کا۔- ٢۔ امیر لشکر کا کسی عورت کو کسی کی ملکیت میں دینے کے بعد اس سے نکاح کی ضرورت نہیں رہتی۔ ملکیت میں دے دینا ہی کافی ہوگا اور اس کا سابقہ نکاح از خود ختم ہوجائے گا۔- ٣۔ تقسیم کے بعد ایسی عورت سے فوری طور پر جماع نہیں کیا جاسکتا۔ جب تک اسے کم از کم ایک حیض نہ آ لے۔ اور یہ معلوم نہ ہوجائے کہ وہ حاملہ ہے یا نہیں۔ اور اگر وہ حاملہ ہوگی تو اس کی عدت تا وضع حمل ہے۔ اس سے بیشتر اس سے جماع نہیں کیا جاسکتا۔ اور مزید احکام یہ ہیں :- ٤۔ ایسی عورت سے صرف وہی شخص جماع کرسکتا ہے جس کی ملکیت میں وہ دی گئی ہو۔ کوئی دوسرا نہیں کرسکتا۔- ٥۔ اگر اس قیدی عورت سے اولاد پیدا ہوجائے تو پھر اسے فروخت نہیں کیا جاسکتا۔- ٦۔ اگر ایسی قیدی عورت کو اس کا مالک کسی کے نکاح میں دے دے تو پھر وہ اس سے دوسری خدمات تو لے سکتا ہے لیکن صحبت نہیں کرسکتا۔- ٧۔ جب عورت سے مالک کی اولاد پیدا ہوجائے تو مالک کے مرنے کے بعد وہ ازخود آزاد ہوجائے گی۔ شرعی اصطلاح میں ایسی عورت کو ام ولد کہتے ہیں۔- ٨۔ اگر امیر لشکر یا حکومت ایک عورت کو کسی کی ملکیت میں دے دے تو پھر وہ خود بھی اس کو واپس لینے کی مجاز نہیں ہوتی۔ الا یہ کہ اس تقسیم میں کوئی ناانصافی کی بات واقع ہو جس کا علم بعد میں ہو۔ اس طرح چند در چند شرائط عائد کر کے اسلام نے ایسی عورتوں سے تمتع کی پاکیزہ ترین صورت پیش کردی ہے جس میں سابقہ اور موجودہ دور کی فحاشی، وحشت اور بربریت کو حرام قرار دے کر اس کا خاتمہ کیا گیا ہے اور تمتع کے بعد اس کے نتائج کی پوری ذمہ داری مالک پر ڈالی گئی ہے۔ نیز رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ جس شخص کے پاس کوئی لونڈی ہو وہ اس کی تعلیم و تربیت کرے اسے ادب سکھائے پھر اسے آزاد کر کے اس سے نکاح کرلے تو اس کے لیے دوہرا اجر ہے۔ (بخاری، کتاب العتق، باب فضل من ادب جاریتہ و علمھا)- ان سب باتوں کے باوجود یہ بات ملحوظ خاطر رہے کہ لونڈیوں سے تمتع ایک رخصت ہے حکم نہیں ہے اور یہ اللہ کی رحمت ہے کہ اس نے ایسی اجازت دے دی ہے کیونکہ جہاد اور اس میں عورتوں کی گرفتاری ایسی چیز ہے جس سے مفر نہیں اور ایسا بھی عین ممکن ہے کہ جنگ کے بعد قیدیوں کے تبادلہ یا اور کوئی باعزت حل نہ نکل سکے اسی لیے اللہ نے سے کلیتاً حرام قرار نہیں دیا۔- [٤١] یعنی مذکورہ بالا عورتوں کے علاوہ باقی آزاد عورتوں میں سے جس کے ساتھ تم چاہو، درج ذیل شرائط کے ساتھ نکاح کرسکتے ہو :- ١۔ نکاح کی شرائط :۔ طلب سے مراد ایجاب و قبول ہے۔- ٢۔ یہ نکاح مستقلاً ہو۔ محض شہوت رانی کی غرض سے نہ ہو۔ اس سے نکاح متعہ کی حرمت ثابت ہوئی۔- ٣۔ حق مہر مقرر کرنا اور اس کی ادائیگی۔ الا یہ کہ بیوی اپنی مرضی سے یہ مہر یا اس کا کچھ حصہ چھوڑ دے اسی طرح مرد مقررہ مہر سے زیادہ بھی دے سکتا ہے۔- ٤۔ اعلان نکاح۔ جیسا کہ اگلی آیت میں (وَّلَا مُتَّخِذٰتِ اَخْدَانٍ 25؀ ) 4 ۔ النسآء :25) سے واضح ہے اور سنت سے اس کی صراحت مذکور ہے۔ یعنی نکاح کے کم از کم دو گواہ موجود ہونے چاہئیں۔- واضح رہے کہ شیعہ حضرات اس آیت اور بعض صحیح احادیث سے نکاح متعہ کے جواز پر استدلال کرتے ہیں۔ لہذا نکاح متعہ کے جواز یا حرمت کی تحقیق ضروری ہے۔ اس آیت سے استدلال کی صورت یہ ہے کہ بعض روایات میں وارد ہے کہ (فَـمَا اسْتَمْتَعْتُمْ بِهٖ 24؀) 4 ۔ النسآء :24) کے آگے (اِلیٰ اَجَلٍ مُّسَمًّی) کے الفاظ بھی موجود تھے جو بعد میں منسوخ ہوگئے مگر ابن عباس (رض) اس کے نسخ کے قائل نہیں۔- نکاح متعہ ایک اضطراری رخصت تھی :۔ دور نبوی میں نکاح متعہ تین مواقع پر مباح کیا گیا اور پھر ساتھ ہی اس کی حرمت کا اعلان کیا۔ یہ جنگ خیبر، فتح مکہ اور اوطاس اور جنگ تبوک ہیں۔ ان مواقع پر ابتداء نکاح متعہ کی اجازت دی جاتی تھی اور جنگ کے اختتام پر اس کی حرمت کا اعلان کردیا جاتا تھا۔ گویا یہ ایک اضطراری رخصت تھی۔ اور صرف ان مجاہدین کو دی جاتی تھی جو محاذ جنگ پر موجود ہوتے تھے اور اتنے عرصہ کے لیے ہی ہوتی تھی۔ اور اس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ جنگ بدر، احد اور جنگ خندق کے مواقع پر ایسی اجازت نہیں دی گئی اور جن حالات میں یہ اجازت دی جاتی تھی وہ درج ذیل احادیث میں ملاحظہ فرمائیے :- ١۔ ابن ابی عمرو کہتے ہیں کہ متعہ پہلے اسلام میں ایک اضطراری رخصت تھی جیسے مجبور و مضطر شخص کو مردار، خون اور خنزیر کے گوشت کی رخصت ہے پھر اللہ نے اپنے دین کو محکم کردیا اور نکاح متعہ سے منع کردیا گیا۔ (مسلم، کتاب النکاح، باب نکاح المتعہ۔۔ )- ٢۔ عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہمراہ جہاد کرتے تھے اور ہمارے پاس عورتیں نہ تھیں اور ہم نے کہا کہ کیا ہم خصی نہ ہوجائیں ؟ تو آپ نے ہمیں اس سے منع فرمایا اور اس بات کی اجازت دی کہ ایک کپڑے کے بدلے ایک معین مدت تک عورت سے نکاح کریں۔ (حوالہ ایضاً )- ٣۔ اور اس کا طریق کار یہ ہوتا تھا کہ صحابہ کی التجا پر متعہ کی اجازت کا اعلان تو آپ کسی صحابی (رض) سے کرواتے تھے مگر جنگ کے خاتمہ پر اس کی حرمت کا اعلان خود فرماتے تھے۔ چناچہ جابر بن عبداللہ (رض) اور سلمہ بن اکوع (رض) دونوں کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا منادی ہمارے پاس آیا اور پکار کر کہنے لگا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تمہیں عورتوں سے متعہ کی اجازت دی ہے۔ (حوالہ ایضاً )- ٤۔ ربیع بن سمرہ اپنے باپ کے حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا لوگو میں نے تمہیں عورتوں سے متعہ کی اجازت دی تھی اور اب اللہ تعالیٰ نے اسے قیامت کے دن تک کے لیے حرام کردیا ہے۔ سو اگر کسی کے پاس ایسی عورت ہو تو وہ اسے چھوڑ دے اور جو کچھ تم دے چکے ہو وہ واپس نہ لو۔ (حوالہ ایضاً )- متعہ کی حرمت کا یہ اعلان حجتہ الوداع ١٠ ھ میں ہوا تھا جیسا کہ اس دن سود اور جاہلیت کے خون کی بھی ابدی حرمت کا اعلان ہوا تھا۔- ٥۔ ایاس بن سلمہ بن اکوع (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اگر مرد اور عورت متعہ کی مدت مقرر نہ کریں تو تین دن رات مل کر رہیں۔ پھر اگر چاہیں تو مدت بڑھا لیں اور چاہیں تو جدا ہوجائیں۔ (بخاری کتاب النکاح، باب النھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عن نکاح المتعۃ اخیرا)- اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نکاح متعہ کی صورت ایسی نہ تھی جیسے کہ آج کل کے قحبہ خانوں میں ہوا کرتی ہے کہ ایک بار کی مجامعت کی اجرت طے کرلی جاتی ہے بلکہ اس کی کم سے کم مدت تین دن ہے زیادہ کی کوئی حد نہیں ہے۔ یہ تین دن کی مدت بھی صرف صحابہ کرام (رض) کے لئے مقرر کی گئی تھی۔ بعد میں سیدنا علی کے بیان کے مطابق اسے منسوخ کردیا گیا۔- ٦۔ ابن عباس (رض) جو متعہ کے قائل تھے وہ بھی صرف اضطراری حالت میں اس کی رخصت کے قائل تھے عام حالات میں نہیں۔ چناچہ ابن جمرہ کہتے ہیں کہ ابن عباس (رض) سے کسی نے پوچھا کہ عورتوں سے متعہ کرنا کیسا ہے ؟ انہوں نے کہا کہ اس کی رخصت ہے۔ اس پر ان کا ایک غلام (عکرمہ) کہنے لگا، متعہ اس حالت میں جائز ہے جب مردوں کو سخت ضرورت ہو یا عورتوں کی کمی ہو یا کچھ ایسا ہی اضطراری معاملہ ہو۔ ابن عباس (رض) نے کہا ہاں (بخاری۔ حوالہ ایضاً )- ہم یہاں تمام روایات تو درج نہیں کرسکتے کیونکہ اخذ نتائج کے لیے یہ بھی کافی ہیں اور وہ نتائج درج ذیل ہیں :- (١) (الیٰ اجل مسمیٰ ) کی قراءت کے راوی صرف عبداللہ بن عباس (رض) ہیں جن کی عمر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے وقت صرف ١٣ سال تھی۔ جمع و تدوین قرآن کے وقت آپ قسم اٹھا کر کہتے ہی رہے کہ یہ آیت اسی طرح نازل ہوئی ہے (اور ممکن ہے کہ جن ایام میں متعہ کا جواز تھا یہ قراءت بھی پڑھی گئی ہو۔ لیکن ایسی قراءت بھی رخصت اور نسخ کے ضمن میں آتی ہیں) مگر آپ کی اس بات کو دو وجوہ کی بنا پر پذیرائی نہ ہوسکی۔ ایک یہ کہ جمع و تدوین قرآن کے معاملہ میں خبر متواتر کو قبول کیا گیا تھا اور آپ کی یہ خبر واحد تھی۔ جس کا دوسرا کوئی راوی نہ تھا۔ اور دوسری وجہ یہ تھی کہ پہلے سے دو مکی سورتوں مومنون اور معارج میں یہ محکم آیات موجود تھیں : ( وَالَّذِيْنَ هُمْ لِفُرُوْجِهِمْ حٰفِظُوْنَ ۝ ۙ ) 23 ۔ المؤمنون :5) یعنی حفاظت فروج کے دو ہی ذریعے ہیں ایک بیوی، دوسرا لونڈی۔ ان کے علاوہ جو کچھ ہے وہ حد سے گزرنا ہے۔ اور یہ تو ظاہر ہے کہ ممتوعہ عورت نہ بیوی ہوتی ہے نہ لونڈی۔ لونڈی نہ ہونے میں تو کوئی کلام نہیں اور بیوی اس لیے نہیں ہوتی کہ بیوی کو میراث ملتی ہے۔ اور ایسی عورت کو میراث نہیں ملتی۔- (٢) سیدنا ابن عباس (رض) بھی صرف متعہ کے معاملہ میں نرم گوشہ رکھتے تھے آپ کو اصرار قطعاً نہ تھا۔ جبکہ کثیر تعداد میں صحابہ متعہ کو حرام قرار دینے میں شدت اختیار کرتے تھے اور ابن عباس (رض) کو ٹوکتے بھی تھے۔ چناچہ سیدنا علی (رض) ایسے ہی لوگوں میں سے تھے۔ (مسلم۔ حوالہ ایضاً ) سیدنا ابن عباس (رض) اپنی آخری عمر میں نابینا ہوگئے تھے اور جب یہ جواز متعہ کی بات کرتے تو سیدنا عبداللہ بن زبیر (رض) نے کہا کہ اللہ نے ان کی آنکھوں کو اندھا کرنے کے ساتھ ان کے دلوں کو بھی اندھا کردیا ہے جو متعہ کے جواز کا فتویٰ دیتے ہیں۔ اس وقت عبداللہ بن زبیر (رض) خلیفہ تھے۔ کسی نے ان سے کہا کہ تم زیادتی کر رہے ہو میری عمر کی قسم دور نبوی میں متعہ ہوتا رہا ہے۔ تو عبداللہ بن زبیر (رض) نے کہا کہ اس متعہ کو اپنے آپ پر آزماؤ۔ خدا کی قسم اگر تو ایسا کرے تو میں تمہیں پتھروں سے سنگسار کر دوں۔ (مسلم، حوالہ ایضاً )- (٣) معلوم ایسا ہوتا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا آخری ابدی حرمت کا اعلان تمام صحابہ کرام تک نہ پہنچ سکا جو کہ دور دراز علاقوں تک پہنچ چکے تھے۔ یا یہ سیدنا ابن عباس کی لچک کا اثر تھا کہ دور صدیقی اور دور فاروقی کی ابتدا تک درپردہ متعہ کے کچھ واقعات کا سراغ ملتا ہے۔ سیدنا عمر (رض) چونکہ متعہ کے شدید مخالف تھے لہذا آپ اس ٹوہ میں رہتے تھے کہ ایسا کوئی واقعہ سامنے آئے۔ چناچہ ایک دفعہ ایک شخص شام سے آیا اور اس نے ام عبداللہ ابی فتیحہ کے ہاں قیام کیا اور اسے کہا کہ میرے متعہ کے لیے کوئی عورت تلاش کرو۔ ام عبداللہ نے ایک عورت کا پتہ بتلایا تو اس آدمی نے اس سے متعہ کیا اور کچھ عرصہ اس کے ساتھ رہا۔ پھر شام کو واپس چلا گیا۔ کسی نے اس واقعہ کی سیدنا عمر (رض) کو اطلاع کردی۔ سیدنا عمر (رض) نے ام عبداللہ کو بلا کر دریافت کیا تو اس نے اس واقعہ کی تصدیق کردی۔ سیدنا عمر (رض) نے اسے کہا کہ جب وہ شخص پھر آئے تو مجھے اطلاع دینا۔ جب وہ دوبارہ آیا تو ام عبداللہ نے سیدنا عمر (رض) کو اطلاع کردی۔ آپ نے اسے بلا کر پوچھا کہ تم نے متعہ کیوں کیا تو وہ کہنے لگا کہ میں دور نبوی، دور صدیقی اور آپ کے عہد میں بھی متعہ کرتا رہا مگر کسی نے منع نہیں کیا۔ سیدنا عمر (رض) نے کہا اللہ کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے اگر میں آج سے پہلے ممانعت کا حکم نہ دے چکا ہوتا تو تمہیں سنگسار کردیتا۔ اچھا اب جدائی اختیار کرلو تاکہ نکاح اور سفاح (بدکاری) میں تمیز ہو سکے۔ - یہ واقعہ دراصل مسلم میں جابر بن عبداللہ (رض) کی اجمالی روایت کی تفصیل ہے اور اس واقعہ سے درج ذیل نتائج حاصل ہوتے ہیں :- ١۔ سیدنا عمر کا تعزیری حکم :۔ سیدنا عمر (رض) اور آپ کی پوری شوریٰ متعہ کی مخالف تھی۔ اگر ان میں بھی اختلاف ہوتا تو آپ ایسا تعزیری حکم نافذ نہ کرسکتے تھے۔- ٢۔ جو چند لوگ متعہ کے قائل تھے وہ بھی چوری چھپے یہ کام کرتے تھے۔ اگر یہ عام ہوتے تو سیدنا عمر (رض) کو ٹوہ لگانے کی ضرورت پیش نہ آتی۔- ٣۔ معاشرہ کی اکثریت متعہ کو ناجائز اور مکروہ فعل ہی سمجھتی تھی۔ اگر یہ رسم عام ہوتی تو اس شامی کو ایسی عورت کا پتہ پوچھنے کی ضرورت نہ تھی۔ اس نے یہ معاملہ ام عبداللہ سے کیوں نہ طے کرلیا جس کے ہاں وہ ٹھہرا تھا۔- اس تعزیری قانون کے بعد ابن عباس (رض) اور آپ کے شاگردوں مثلاً عطاء بن ابی رباح، طاؤس، سعید بن جبیر اور ابن جریج کے لیے اس کے بغیر چارہ نہ رہا کہ وہ متعہ کے لیے عقلی دلیل مہیا کر کے اپنے دل کا غبار نکال لیں۔ اور وہ دلیل عقلی یہ تھی جو ابن عباس (رض) کہا کرتے تھے کہ متعہ کا جائز ہونا اللہ کی طرف سے اپنے بندوں پر رحمت کی حیثیت رکھتا تھا۔ اگر عمر (رض) نے اس کی ممانعت نہ کردی ہوتی تو کبھی کسی کو زنا کرنے کی ضرورت نہ ہوتی۔ (تفسیر مظہری ٢٠٨)- پھر جب دور عثمانی میں سیدنا ابن عباس (رض) کی قراءت (الیٰ اَجَلٍ مُّسَمّیٰ ) کو خبر متواتر نہ ہونے کی وجہ سے شرف قبولیت حاصل نہ ہوسکا اور یہ الفاظ کتاب اللہ میں شامل نہ ہو سکے تو متعہ کا فائدہ بتانے کا میلان بھی ختم ہوگیا۔ اور بالآخر آپ نے اپنے اس فتویٰ رخصت سے بھی رجوع کرلیا (تفسیر حقانی ج ٢ ص ١٤٥)- [٤٢] آزاد عورت کا لونڈی کی نسبت حق مہر بھی زیادہ اور نان و نفقہ بھی زیادہ ہوتا ہے اور یہ اجازت صرف اس شخص کے لیے ہے، جو ایک تو آزاد عورت سے نکاح کے اخراجات برداشت نہ کرسکتا ہو، دوسرے اسے یہ خطرہ ہو کہ اگر اس نے نکاح نہ کیا تو جنسی بےراہ روی کا شکار ہوجائے گا۔ کیونکہ آزاد عورت سے نکاح بہرحال بہتر ہے۔ اسلئے کہ اس سے جو اولاد پیدا ہوگی اس کے ماتھے پر غلامی کا داغ نہ ہوگا۔ اور مجبوری کی صورت میں نکاح کی اجازت کی وجہ یہ بھی ہے کہ وہ بھی آخر عورت ہی کی جنس سے ہیں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَّالْمُحْصَنٰتُ مِنَ النِّسَاۗءِ ۔۔ : اوپر کی آیت میں حرام رشتوں کا ذکر تھا، وہ تو بہر صورت حرام ہیں، خواہ ان میں سے کوئی عورت کسی کی لونڈی بن کر آجائے۔ اس بنا پر علماء نے لکھا ہے کہ دو بہنوں کو جمع کرنا صرف نکاح ہی میں نہیں بلکہ ایک مالک کی لونڈیاں ہوں تب بھی اسے دونوں سے صحبت حرام ہے۔ (ابن کثیر) اب یہاں فرمایا کہ جن عورتوں کے شوہر موجود ہوں ان سے نکاح بھی حرام ہے، ہاں جنگ کی صورت میں دارالحرب سے جو عورتیں قیدی بن کر آئیں تو اموال غنیمت کی تقسیم کے بعد جن کے حصہ میں آئیں گی ان کے لیے ” استبراء “ کے بعد ان سے صحبت جائز ہے، خواہ پیچھے ان کے خاوند موجود ہی کیوں نہ ہوں۔ ” استبراء “ یہ ہے کہ وہ عورت ایک حیض سے پاک ہوجائے، یا اگر حاملہ ہے تو وضع حمل ہوجائے۔ ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے (٨ ھ میں) حنین کے دن اوطاس کی طرف ایک لشکر روانہ فرمایا، ان کا مقابلہ دشمن سے ہوا تو انھوں نے مقابلہ کیا اور فتح پائی، بہت سے قیدی ان کے ہاتھ آئے، (تقسیم کے بعد جو لونڈیاں حصے میں آئیں) صحابہ کرام (رض) نے ان قیدی عورتوں سے صحبت کو گناہ سمجھا، اس لیے کہ ان کے مشرک شوہر موجود تھے، چناچہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : ( وَّالْمُحْصَنٰتُ مِنَ النِّسَاۗءِ اِلَّا مَامَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ ۚ ) یعنی عدت کے بعد وہ تمہارے لیے حلال کردی گئی ہیں۔ [ مسلم، الرضاع، باب جواز وطی المسبیۃ۔۔ : ١٤٥٦ ] - 2 احصان کا لفظی معنی محفوظ کرنا ہے، قرآن مجید میں یہ لفظ چند معانی میں آیا ہے :1 شادی شدہ عورتوں کے معنی میں، جیسے اس آیت کے شروع میں ” المحصنت ( جہاد کے فتحہ کے ساتھ) اسم مفعول کا صیغہ ہے۔ 2 آزاد عورتوں کے معنی میں، جیسے اگلی آیت میں ہے۔ 3 پاک دامن عورتوں کے معنی میں، جیسے اس سے اگلی آیت میں اور سورة مائدہ (٥) میں ہے۔- كِتٰبَ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ ۚ : یعنی جن حرام رشتوں کا اوپر ذکر ہوا ہے، ان سے نکاح نہ کرنا اللہ تعالیٰ کا حکم ہے جس کا ماننا تم پر لازم ہے۔ (ابن کثیر) - وَاُحِلَّ لَكُمْ مَّا وَرَاۗءَ ذٰلِكُمْ : یعنی ان کے سوا دوسری عورتوں سے نکاح تمہارے لیے حلال ہے۔ اور ان کے علاوہ جو عورتیں ہیں وہ تمہارے لیے حلال کی گئی ہیں، بشرطیکہ حدیث میں ان کی حرمت نہ آئی ہو، مثلاً رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کسی عورت کے ساتھ اس کی خالہ یا پھوپھی کو بیک وقت نکاح میں رکھنے سے منع فرمایا۔ ایسی ہی چند اور صورتیں بھی ہیں مثلاً چار سے زیادہ عورتیں بیک وقت نکاح میں رکھنا، یا وہ عورت جس سے لعان کیا جائے یا حلالہ کرنا یا بنت رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور بنت عدو اللہ (ابوجہل) کو ایک نکال میں جمع کرنا یا ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرنا یا نکاح شغار یعنی وٹہ سٹہ کا نکاح جس میں یہ شرط ہو کر اگر تم رشتہ دو گے تو میں رشتہ دوں گا اس شرط کے بعد مہر مقرر ہو تم بھی نکاح حرام ہے۔ جیسا کہ سنن ابی داؤد، النکاح، باب فی الشغار میں ہے کہ عباس بن عبداللہ بن عباس نے عبد الرحمان بن حکم سے اپنی بیٹی کا نکاح کردیا اور عبد الرحمان نے اپنی بیٹی کا نکاح اس سے کردیا تو معاویہ (رض) نے مروان کی طرف خط لکھ اور اسے حکم دیا کہ ان دونوں سے درمیان علیحدگی کروا دیں اور دونوں نے مہر علی معجل مقرر کیا تھا۔ (وصححہ الالبانی) - اَنْ تَبْتَغُوْا بِاَمْوَالِكُمْ ۔۔ : موضح میں ہے کہ ان مذکورہ محارم کے سوا سب حلال ہیں، مگر چار شرطوں کے ساتھ، اول یہ کہ طلب کرو، یعنی دونوں طرف سے زبانی ایجاب و قبول ہو، دوسرے یہ کہ مال یعنی مہر دینا قبول کرو، تیسرے یہ کہ ان عورتوں کو قید (دائمی قبضہ) میں لانا غرض ہو، ( صرف) مستی نکالنے کی غرض نہ ہو ( جیسے زنا میں ہوتا ہے) یعنی وہ عورت اس مرد کی بندی ہوجائے، چھوڑے بغیر نہ چھوٹے، یعنی کسی مہینے یا برس (مدت) کا ذکر نہ آئے۔ اس سے معلوم ہوا کہ متعہ حرام ہے ( اور حلالہ بھی، کیونکہ اس میں بھی جماع کے بعد طلاق کی نیت ہوتی ہے۔ ) چوتھی یہ کہ چھپی یاری نہ ہو، مراد لوگ نکاح کے شاہد ہوں، کم سے کم دو مرد یا ایک مرد اور دو عورتیں، یہی چار شرطیں اس آیت سے سمجھ آرہی ہیں۔ اس چوتھی شرط میں یہ بھی شامل ہے کہ نکاح ولی کرکے دے کیونکہ ولی کے بغیر نکاح چھپی یاری میں داخل ہے۔ اسلام نے ولی کے بغیر نکاح کو باطل قرار دیا قرآن و حدیث کے دلائل کے لیے دیکھیے [ صحیح بخاری، کتاب النکاح، باب من قال لا نکاح الا بولی ]- فَـمَا اسْتَمْتَعْتُمْ بِهٖ : یعنی نکاح کے بعد جن عورتوں سے فائدہ اٹھاؤ، یعنی صحبت کرو ان کے پورے مہر ان کے حوالے کرو۔ اکثر پہلے اور پچھلے مفسرین نے یہی معنی کیے ہیں کہ استمتاع سے مراد نکاح شرعی (جس کی چار شرطوں کا اوپر ذکر آیا ہے) کے بعد صحبت ہے۔ رافضیوں نے اس سے متعہ کا جواز ثابت کیا ہے، مگر علمائے اہل سنت بالاجماع اس کی حرمت کے قائل ہیں۔ ہجرت کے ابتدائی برسوں میں بیشک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے (اس آیت کی رو سے نہیں بلکہ) اس رواج کی بنیاد پر جو اسلام سے پہلے چلا آ رہا تھا (جسے واضح کریں حال کہتے ہیں) بعض مواقع پر حسب ضرورت متعہ کی اجازت دی، مگر بعد میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نہایت واضح الفاظ میں اسے قیامت تک کے لیے حرام کردیا۔ سبرہ بن معبد جہنی (رض) بیان کرتے ہیں کہ وہ فتح مکہ کے موقع پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تھے، اس موقع پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” لوگو میں نے تمہیں عورتوں سے متعہ کی اجازت دی تھی مگر اب اللہ تعالیٰ نے اسے قیامت کے دن تک کے لیے حرام قرار دے دیا ہے، سو اب جن کے پاس متعہ والی عورتیں ہیں وہ انھیں چھوڑ دیں اور جو مال تم نے انھیں دیا ہے وہ ان سے واپس نہ لو۔ “ [ مسلم، النکاح، باب نکاح المتعۃ : ٣٤٢٢ ] نیز متعہ والی عورتیں نہ لونڈیاں ہیں نہ بیویاں تو ان سے متعہ کیسے جائز ہوسکتا ہے۔ ( دیکھیے المؤمنون : ٥ تا ٧)- وَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ ۔۔ : یعنی اگر خاوند اور بیوی باہمی رضا مندی سے طے شدہ مہر میں کمی بیشی کرلیں تو کچھ حرج نہیں ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

والمحصنت من النسآء - یعنی شوہروں والی عورتیں بھی حرام کی گئیں جب تک کوئی عورت کسی شخص کے نکاح میں ہو، دوسرا شخص اس سے نکاح نہیں کرسکتا، اس سے واضح طور پر معلوم ہوا کہ ایک عورت بیک وقت ایک سے زائد شوہر والی نہیں ہو سکتی ہے، اس دور کے بعض جاہل ملحد کہنے لگے ہیں کہ مردوں کو جب ایک سے زائد بیویوں کی اجازت ہے تو عورتوں کو بھی ایک سے زائد شوہروں سے متمتع ہونے کی اجازت ملنی چاہئے، یہ مطالبہ اس آیت شریفہ کے بالکل خلاف ہے، ایسی جاہلانہ باتیں کرنے والے لوگ یہ نہیں سمجھتے کہ مرد کے لئے کثرت تاریخ شاہد ہے، لیکن عورت کے لئے ایک وقت میں ایک سے زائد شوہر ہونا، اس عورت کے لئے بھی باعث مصیبت ہے اور جو دو مرد ایک عورت کے شوہر بن جائیں ان کے لئے بھی باعث ننگ و عار ہے اور اس بےشرمی ہے نیز اس میں کسی بچہ کے ثابت النسب ہونے کا بھی کوئی راستہ باقی نہیں رہتا، جب کئی مرد کسی عورت سے استمتاع کریں گے تو پیدا ہونے والی اولاد کو ان میں سے کسی ایک کا بیٹا تجویز کرنے کا کوئی طریق باقی نہ رہے گا، اس طرح کا بدترین مطالبہ وہی لوگ کرسکتے ہیں جو انسانیت کے سراپا دشمن ہوں اور جن کی غیرت و حیا کا جنازہ نکل چکا ہو ایسے لوگ اولاد اور والدین کے حقوق کی لائن سے وجود میں آنے والی رحمتوں سے پوری انسانیت کو محروم کرنے کی حمایت میں لگے ہوئے ہیں، جب نسب ثابت نہیں ہوگا تو باہمی حقوق و فرائض کی ذمہ داری کس پر عائد کی جائے گی ؟- خالص طبعی اور عقلی اعتبار سے بھی اگر دیکھا جائے تو ایک عورت کے لئے متعدد شوہر ہونے کا کوئی جواز نظر نہیں آتا۔- ١۔ ازدواج کا بنیادی مقصد تناسل ہے، اس اعتبار سے متعدد عورتیں تو ایک مرد سے حاملہ ہو سکتی ہیں لیکن ایک عورت متعدد مردوں سے حاملہ نہیں ہو سکتی وہ ایک ہی سے حاملہ ہوگی، اس لئے متعدد شوہروں کی صورت میں ایک کے علاوہ باقی شوہروں کی قوت ضائع گئی۔ شہوت رانی کے سوا ان کو کوئی فائدہ حاصل نہ ہوسکا۔- ٢۔ تجربہ اور مشاہدہ سے ثابت ہے کہ عورت مرد کے مقابلہ میں صنف نازک ہے وہ سال کے اکثر حصہ میں استمتاع کے بھی قابل نہیں رہتی، بعض حالات میں اس کے لئے ایک ہی شوہر کے حقوق پورے کرنا ممکن نہیں ہوتا، چہ جائے کہ ایک سے زیادہ شوہر ہوں۔- ٣۔ چونکہ مرد جسمانی قوت کے اعتبار سے عورت کے مقابلہ میں زیادہ صحت مند ہے، اس لئے اگر کسی مرد کی جنسی قوت معمول سے زیادہ ہو اور ایک عورت سے اس کی تشفی نہ ہو سکتی ہو تو اسے جائز طریقہ سے دوسرے اور تیسرے نکاح کا موقع ملنا چاہئے، ورنہ وہ دوسرے ناجائز طریقے اختیار کرے گا اور پورے معاشرے کو باگڑ دے گا، لیکن عورت سے ایسے بگاڑ کا اندیشہ نہیں ہے۔ - شریعت اسلامیہ میں اس مسئلہ کی اہمیت اتنی زیادہ ہے کہ نہ صرف کسی شخص کے نکاح میں ہوتے ہوئے عورت کے دوسرے نکاح کو حرام قرار دیا ہے بلکہ کسی عورت کا کوئی شوہر طلاق دیدے یا مر جائے تو اس کی عدت گزرنے تک بھی کسی دوسرے شخص سے اس عورت کا نکاح نہیں ہو سکتا۔- الاماملکت ایمانکم یہ جملہ اوالمحصنت من النسآء سے استثناء ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ شوہر والی بیوی سے کسی دوسرے شخص کو نکاح کرنا جائز نہیں ہے، الا یہ کہ کوئی عورت مملوکہ باندی ہو کر آجائے جس کی صورت یہ ہے کہ مسلمانوں نے دارالحرب کے کافروں سے جہاد کیا اور وہاں سے کچھ عورتیں قید کر کے لے آئے، ان عورتوں میں جو عورت دارالاسلام میں لائی گئی اور اس کا شوہر دارالحرب میں رہ گیا، تو اس عورت کا نکاح دارالاسلام میں آنے سے اپنے سابق شوہر سے ختم ہوگیا، اب یہ عورت اگر کتابیہ یا مسلمہ ہو تو اس سے دارالاسلام کا کوئی بھی مسلمان نکاح کرسکتا ہے اور اگر امیر المومنین اس کو باندی بنا کر کسی فوجی سپاہی کو مال غنیمت کی تقسیم میں دیدے تب بھی اس سے استمتاع جائز ہے ........ لیکن یہ نکاح و استمتاع ایک حیض آنے کے بعد ہی جائز ہے اور اگر حمل ہے تو وضع حمل ضروری ہے۔- مسئلہ :۔ اگر کوئی کافر عورت دالحرب میں مسلمان ہوجائے اور اس کا شوہر کافر ہے تو تین حیض گذرنے کے بعد وہ اس کے نکاح سے جدا ہوجائے گی۔- مسئلہ :۔ اور اگر دارالسلام میں کوئی کافر عورت مسلمان ہوجائے اور اس کا شوہر کافر ہو تو حاکم شرع اس کے شوہر پر اسلام پیش کرے اگر وہ مسلمان ہونے سے انکار کرے تو قاضی ان دونوں میں تفریق کر دے اور یہ تفریق طلاق شمار ہوگی اس کے بعد عدت گذار کر وہ عورت کسی مسلمان سے نکاح کرسکتی ہے۔- کتب اللہ علیکم، یعنی جن محرمات کا ذکر ہوا ان کی حرمت اللہ تعالیٰ کی طرف سے طے شدہ ہے، قال القرطبی ای حرمت ھذہ النسآء کتاباً من اللہ علیکم۔- واحل لکم ماورآء ذلکم، یعنی جو محرمات اب تک مذکور ہوئیں ان کے علاوہ دوسری عورتیں تمہارے لئے حلال ہیں، مثلاً چچا کی لڑکی، خالہ کی لڑکی، ماموں زاد بہن، ماموں چچا کی بیوی ان کی فات یا طلاق دینے کے بعد بشرطیکہ یہ مذکوررہ اقسام اور کسی رشتہ سے محرم نہ ہوں اور اپنے منہ بولے بیٹے کی بیوی، جب وہ طلاق دیدے یا وفات پا جائے، بیوی مر جائے تو اس کی بہن کے ساتھ ........ وغیرہ ........ بیشمار صورتیں بنتی ہیں، ان سب کو ما ورآء ذلکم کے عموم میں داخل فرمایا دیا۔- مسئلہ :۔ بیک وقت چار عورتوں سے زیادہ کو نکاح میں رکھنا جائز نہیں، اس کا تفصیلی بیان سورة نسآء کے شروع میں گذر چکا ہے، قریب کی آیت میں اس کا ذکر نہ دیکھ کر کسی کو یہ مغالطہ نہ ہوجائے کہ ماورآء ذلکم کے عموم میں بغیر کسی پابندی کے عورتوں سے نکاح جائز ہے، نیز بہت سی محرمات وہ ہیں جن کا ذکر احادیث شریفہ میں ہے اور ان کی طرف آیات میں اشارات بھی ہیں، جن کو ہم تفسیر کے ذیل میں ذکر کرتے چلے آئے ہیں۔- ان تبتغوا باموالکم یعنی محرمات کا یہ بیان تہارے لئے اس لئے کیا گیا ہے کہ اپنے مالوں کے ذریعہ حلال عورتیں تلاش کرو اور ان کو اپنے نکاح میں لاؤ۔- ابوبکر حصاص (رح) احکام القرآن میں لکھتے ہیں کہ اس سے دو باتیں معلوم ہوئیں، ایک یہ کہ نکاح مہر سے خالی نہیں ہو سکتی (حتی کہ اگر زوجین آپس میں یہ طے کرلیں کہ نکاح بغیر مہر کے ہوگا تب بھی مہر لازم ہوگا، جس کی تفصیل کتب فقہ میں مذکور ہے) دوسرے یہ بات معلوم ہوئی کہ مہر وہ چیز ہونی چاہئے جس کو مال کہا جاسکے۔- حنفیہ کا مذہب یہ ہے کہ دس درہم سے کم مہر نہیں ہونا چاہئے، ایک درہم ساڑھے تین ماشہ چاندی کا ہوتا ہے۔- محصنین غیر مسافحین یعنی اپنے مالوں کے ذریعہ حلال عورتیں طلب کرو اور یہ سمجھ لو کہ عورتوں کی تلاش عفت و عصمت کے لئے ہے جو نکاح کا اہم مقصد ہے، اور نکاح کے ذریعہ اس چیز کو حاصل کرو، مال خرچ کر کے زنا کے لئے عورتیں تلاش نہ کرو۔ - اس سے معلوم ہوگیا کہ اگرچہ زنا کار بھی مال خرچ کرتے ہیں لیکن وہ مال خرچ کرنا بھی حرام ہے اور اس مال کے ذریعہ جو عورت حاصل کی جائے اس سے استمتاع حلال نہیں ہوتا۔- لفظ غیر مسافحین بڑھا کر زنا کی ممانعت فرماتے ہوئے اس طرف بھی اشارہ فرمایا کہ زنا میں صرف شہوت رانی، سفح ماء، پانی بہانا مقصود ہوتا ہے، کیونکہ اس سے طلب اولاد اور ابقاء النسل کا ارادہ نہیں ہوتا، مسلمانوں کو پاک دامن رہنے اور تکثیر نسل انسانی کے لئے اپنی قوت کو ہر محل خرچ کرنا چاہئے، جس کا طریقہ ملک نکاح اور ملک یمین ہے۔- فما استمتعتم بہ منھن فاتوھن اجورھن فریضة، یعنی نکاح کے بعد جن عورتوں سے استمتاع کرلو تو ان کے مہر دیدو، یہ دینا تمہارے اوپر فرض کیا گیا ہے۔- اس آیت میں استمتاع سے بیویوں سے ہمبستر ہونا اور وطی کرنا مراد ہے، اگر محض نکاح ہوجائے اور رخصتی نہ ہو اور شوہر کو استمتاع کا موقع نہ ملے، بلکہ وہ اس سے پہلے ہی طلاق دیدے تو آدھا مہر واجب ہوتا ہے اور اگر استمتاع کا موقع مل جائے تو پورا مہر واجب ہوجاتا ہے، اس آیت میں خصوصی توجہ دلائی ہے کہ جب کسی عورت سے استمتاع کرلیا تو اس کا مہر دینا ہر طرح سے واجب ہوگیا، اس میں کوتاہی ہی کرنا شریعت اسلامیہ کے خلاف ہے اور انسانی غیرت کا بھی یہ تقاضا ہے کہ جب نکاح کا مقصد حاصل ہوگیا تو بیوی کے حق میں کوتاہی اور ٹال مٹول نہ ہو ........ البتہ شریعت عورت کو یہ حق بھی دیتی ہے کہ مہر اگر معجل ہے تو مہر کی وصولی تک وہ شوہر کے پاس جانے سے انکار کرسکتی ہے۔- حرمت متعہ :۔ لفظ استمتاع کا مادہ، م، ت، ع ہے، جس کے معنی کسی فائدہ کے حاصل ہونے کے ہیں، کسی شخص سے یا مال سے کوئی فائدہ حاصل کیا تو اس کو استمتاع کہتے ہیں، عربی قواعد کی رو سے کسی کلمہ کے مادہ میں س اور ت کا اضافہ کردینے سے طلب و حصول کے معنی پیدا ہوجاتے ہیں اس لغوی تحقیق کی بنیاد پر فما استعتم کا سیدھا مطلب پوری امت کے نزدیک خلفاً عن سلف وہی ہے، جو ہم نے ابھی اوپر بیان کیا ہے، لیکن ایک فرقہ کا کہنا ہے کہ اس سے اصطلاحی متعہ مراد ہے اور ان لوگوں کے نزدیک یہ آیت متعہ حلال ہونے کی دلیل ہے، حالانکہ متعہ جس کو کہتے ہیں اس کی صاف تردید قرآن کریم کی آیت بالا میں لفظ محصنین غیر مسافحین سے ہو رہی ہے، جس کی تشریح آگے آ رہی ہے۔- متعہ اصطلاحی جس کے جواز کا ایک فرقہ مدعی ہے یہ ہے کہ ایک مرد کسی عورت سے یوں کہے کہ اتنے دن کے لئے اتنے پیسے فلاں جنس کے عوض میں تم سے متعہ کرتا ہوں، متعہ اصطلاحی کا اس آیت سے کوئی تعلق نہیں ہے، محض مادہ اشتقاق کو دیکھ کر یہ فرقہ مدعی ہے کہ آیت سے حلت متعہ کا ثبوت ہو رہا ہے۔ پہلی بات یہ ہے کہ جب دوسرے معنی بھی کم از کم متحمل ہے (گو ہمارے نزدیک متعین ہے) تو ثبوت کا کیا راستہ ہے ؟- دوسری بات یہ ہے کہ قرآن مجید نے محرکات کا ذکر فرما کر یوں فرمایا ہے کہ ان کے علاوہ اپنے اصول کے ذریعے حلال عورتیں تلاش کرو، اس حال میں کہ پانی بہانے والے نہ ہوں یعنی محض شہوت رانی مقصود نہ ہو اور ساتھ ہی ساتھ محصنین کی بھی قید لگائی ہے، یعنی یہ کہ عفت کا دھیان رکھنے والے ہوں ........ متعہ چونکہ مخصوص وقت کے لئے کیا جاتا ہے، اس لئے اس میں نہ حصول اولاد مقصود ہوتا ہے، نہ گھر بار بسانا اور نہ عفت و عصمت اور اسی لیئے جس عورت سے متعہ کیا جائے اس کو فریق مخالف زوجہ وارثہ بھی قرار نہیں دیتا اور اس کو ازواج معروفہ کی گنتی میں بھی شمار نہیں کرتا ........ اور چونکہ مقصد محض قضاء شہوت ہے، اس لئے مرد و عورت عارضی طور پر نئے نئے جوڑے تلاش کرتے رہتے ہیں جب یہ صورت ہے تو متعہ عفت و عصمت کا ضامن نہیں بلکہ دشمن ہے۔- صاحب ہدایہ نے حضرت امام مالک کی طرف منسوب کیا ہے کہ ان کے نزدیک متعہ جائز ہے، لیکن یہ نسبت بالکل غلط ہے، جیسا کہ شراح ہدایہ اور دیگر اکابر نے تصریح کی ہے کہ صاحب ہدایہ سے تسامح ہوا ہے۔- البتہ بعض لوگ یہ دعوی کرتے ہیں کہ حضرت ابن عباس (رض) اخیر تک حلت متعہ کے قائل تھے، حالانکہ ایسا نہیں ہے، امام ترمذی نے باب ماجاء فی نکاح المتعہ کا باب قائم کر کے دو حدیثیں نقل کی ہیں، پہلی حدیث یہ ہے :- ” حضرت علی (رض) سے روایت ہے کہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غزوہ خیبر کے موقع پر عورتوں سے متعہ کرنے اور پالتو گدھو کا گوشت کھانے سے منع فرمایا۔ “- حضرت علی (رض) کی یہ حدیث بخاری و مسلم میں بھی ہے۔- دوسری حدیث جو امام ترمذی نے نقل کی ہے وہ یہ ہے :- ” حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے فرماتے ہیں متعہ اسلام کے عہد اول میں مشروع تھا، یہاں تک کہ آیت کریمہ الا علی ازواجہم اوماملکت ایمانہم نازل ہوئی تو وہ منسوخ ہوگیا، اس کے بعد حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ زوجہ شرعیہ اور مملوکہ شرعیہ کے علاوہ ہر طرح کی شرمگاہ سے استمتاع حرام ہے۔ “- البتہ اتنی بات ضرور ہے کہ حضرت ابن عباس کچھ عرصہ تک متعہ کو جائز سمجھتے تھے پھر حضرت علی (رض) کے سمجھانے سے (جیسا کہ صحیح مسلم ج ١ ص ٢٥٤ پر ہے) اور آیت شریفہ الا علی ازواجھم اوما ملکت ایمانھم سے متنبہ ہو کر رجوع فرما لیا، جیسا کہ ترمذی کی روایات سے معلوم ہوا۔- یہ عجیب بات ہے کہ جو فرقہ حلت متعہ کا قائل ہے باوجودیکہ اسے حضرت علی (رض) کے محب اور فرمانبردار ہونے کا دعویٰ ہے، لیکن اس مسئلہ میں وہ ان کا بھی مخالف ہے، وسیعلم الذین ظلموا ای منقلب ینقلبون (٦٢: ٧٢٢)- صاحب روح المعانی، قاضی عیاض سے نقل کرتے ہیں کہ غزوہ خیبر سے پہلے متعہ حلال تھا پھر غزوہ خیبر میں حرام کردیا گیا، اس کے بعد فتح مکہ کے دن حلال کردیا گیا، لیکن پھر تین دن کے بعد ہمیشہ کے لئے حرام کردیا گیا۔ - نیز یہ امر بھی قابل غور ہے کہ فرمان باری تعالیٰ شانہ والذین ھم لفروجھتم حافظون الا علی ازواجھم اوماملکت ایمانھم فانھم غیر ملومین، یہ ایسا واضح ارشاد ہے جس میں کسی تاویل کی گنجائش نہیں، اس سے حرمت متعہ صاف ظاہر ہے، اس کے مقابل ہمیں بعض شاذ قراءتوں کا سہارا لینا قطعاً غلط ہے۔- جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا استمتعتم سے متعہ اصطلاحی مراد ہونے کی کوئی قطعی دلیل نہیں ہے، محض ایک احتمال ہے، یہ احتمال الا علی ازواجھم اوماملکت ایمانھم کے قطعی الدلات مضمون کے ہرگز معارض نہیں ہوسکتا اور بالفرض اگر دونوں دلیلیں قوت میں برابر ہوں تو کہا جائے گا وہ دونوں دلیلیں حلت و حرمت میں متعارض ہیں، بالفرض اگر تعارض مان لیا جائے تب بھی عقل سلیم کا تقاضا ہے کہ محرم کو مبیح پر ترجیح ہونی چاہئے۔ - مسئلہ : نکاح متعہ کی طرح نکاح موقت بھی حرام اور باطل ہے، نکاح موقت یہ ہے کہ ایک مقررہ مدت کے لئے نکاح کیا جائے ........ اور ان دونوں میں فرق یہ ہے کہ متعہ میں لفظ متعہ بولا جاتا ہے اور نکاح موقت لفظ نکاح سے ہوتا ہے۔- ولا جناح علیکم فیما تراضیتم بہ من بعد الفریضة آیت کے اس جملہ کا مطلب یہ ہے کہ باہمی مہر مقرر کرنے کے بعد مہر مقررہ کوئی حتمی چیز نہیں ہوتی کہ اس میں کمی بیشی درست نہ ہو، بلکہ شوہر مقرر مہر پر اپنی طرف سے اضافہ بھی کرسکتا ہے اور بیوی اگر چاہے تو اپنی خوش دلی سے تھوڑا یا پورا مہر معاف کرسکتی ہے، الفاظ کے عموم سے معلوم ہوا کہ عورت اگر مہر معجل طے کر کے تاجیل کرلے، یعنی بعد میں لینے کو منظور کرلے تو یہ بھی درست ہے اور اس میں کوئی گناہ نہیں۔- ان اللہ کان علیماً حکیماً ، آیت کے ختم پر یہ جملہ بڑھا کر ایک تو یہ بتایا کہ اللہ تعالیٰ کو سب کچھ خبر ہے، احکام مذکورہ کی اگر کوئی شخص خلاف ورزی کرے تو اگرچہ اس کی خبر قاضی، حاکم اور کس انسان کو نہ ہو، لیکن اللہ جل شانہ کو تو سب خبر ہے، اس سے ہر حال میں ڈرتے رہنا چاہئے۔- اور یہ بھی بتلایا کہ جو احکام ارشا دفرمائے ہیں یہ سب کچھ حکمت پر مبنی ہیں، حکمت اس دقیق بات کو کہتے ہیں جو ہر شخص کی سمجھ میں نہیں آتی، حرمت و حلت کے احکام جو آیات میں مذکور ہیں ان کی علت کسی کی سمجھ میں آئے یا نہ آئے ان کو ہر حال میں ماننا لازم ہے، کیونکہ اگر ہمیں علت معلم نہیں تو صاحب حکم باری تعالیٰ شانہ کو تو معلوم ہے جو علیم اور حکیم ہے۔- اس دور کے بہت سے پڑھے لکھے جاہل احکام خداوندیہ کی علتیں تلاش کرتے ہیں، اگر کوئی علت معلوم نہیں ہوتی تو معاذ اللہ حکم ربی کو نامناسب یا دور حاضر کے تقاضوں کے خلاف کہہ کر ٹال دیتے ہیں، ان الفاظ میں ایسے لوگوں کا منہ بند کردیا گیا ہے اور بتلا دیا گیا ہے کہ تم نادان ہو، اللہ جل شانہ، دانا ہے تم ناسمجھ ہو اللہ حکیم ہے، اپنی سمجھ کو معیار حقانیت نہ بناء واللہ اعلم وعلمہ اتم واحکم

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَّالْمُحْصَنٰتُ مِنَ النِّسَاۗءِ اِلَّا مَا مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ۝ ٠ ۚ كِتٰبَ اللہِ عَلَيْكُمْ۝ ٠ ۚ وَاُحِلَّ لَكُمْ مَّا وَرَاۗءَ ذٰلِكُمْ اَنْ تَبْتَغُوْا بِاَمْوَالِكُمْ مُّحْصِنِيْنَ غَيْرَ مُسٰفِحِيْنَ۝ ٠ ۭ فَـمَا اسْتَمْتَعْتُمْ بِہٖ مِنْھُنَّ فَاٰتُوْھُنَّ اُجُوْرَھُنَّ فَرِيْضَۃً۝ ٠ ۭ وَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيْمَا تَرٰضَيْتُمْ بِہٖ مِنْۢ بَعْدِ الْفَرِيْضَۃِ۝ ٠ ۭ اِنَّ اللہَ كَانَ عَلِــيْمًا حَكِـيْمًا۝ ٢٤- محْصِنة- فالمُحْصِن يقال : إذا تصوّر حصنها من نفسها، والمُحْصَن يقال إذا تصوّر حصنها من غيرها، وقوله عزّ وجل : وَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ مُحْصَناتٍ غَيْرَ مُسافِحاتٍ [ النساء 25] ، وبعده : فَإِذا أُحْصِنَّ فَإِنْ أَتَيْنَ بِفاحِشَةٍ فَعَلَيْهِنَّ نِصْفُ ما عَلَى الْمُحْصَناتِ مِنَ الْعَذابِ [ النساء 25] ، ولهذا قيل : المحصنات : المزوّجات، تصوّرا أنّ زوجها هو الذي أحصنها، والْمُحْصَناتُ مِنَ النِّساءِ [ النساء 24] بعد قوله : حُرِّمَتْ [ النساء 23] ، بالفتح لا غير، وفي سائر المواضع بالفتح والکسر، لأنّ اللواتي حرم التزوج بهن المزوّجات دون العفیفات، وفي سائر المواضع يحتمل الوجهين .- الحصان کے معنی محصنۃ عورت کے ہیں خواہ وہ احصان پاکدامن کی وجہ سے ہو یا کسی کے ساتھ نکاح کرلینے کی وجہ سے اور یا اپنے شرف اور حریت کی وجہ سے محفوظ ہو اور عورت کو محصن ( بصیغہ فاعل بھی کہا جاتا ہے اور محصن ( بصیغہ مفعول ) بھی اول بھی کہا جاتا ہے اور محسن ( بصیغہ مفعول ) بھی اول یعنی صیغہ فاعل اس تصور کی بنا پر ہے کہ وہ خود اپنی ذات کی حفاظت کرتی ہے اور اسم مفعول دوسرے کی جانب سے حفاظت کی وجہ سے ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ مُحْصَناتٍ غَيْرَ مُسافِحاتٍ [ النساء 25] اور دستور کے مطابق ان کا مہر بھی ادا کردو ۔ بشرطیکہ عفیفہ ہوں نہ ایسی کھلم کھلا بدکاری کریں ۔۔۔۔ پھر اگر نکاح مین آکر بدکاری کا ارتکاب کر بیٹھیں تو جو سزا آزاد عورتوں ( یعنی بیبیوں ) کے لئے ہے اس کی آدھی ان کو دی جائے ۔ میں اول محصنات سے شوہر والی عورتیں مراد ہیں گو یا خا وند ان کی حفاظت کرتے ہیں اور قرآن میں جہاں کہیں بھی محصنات کا لفظ آیا ہے وہاں فتحہ اور کسرہ صادر دونوں طرح پڑھنا صحیح ہے لیکن جہاں حرمت کے بعد آیا ہے وہاں صرف فتحہ صاد کے ساتھ ہی پڑھا جائیگا کیونکہ شوہر دار عورتوں کے ساتھ ہی نکاح حرام ہے نہ کہ عفائف کے ساتھ ۔- نِّسَاءُ- والنِّسْوَان والنِّسْوَة جمعُ المرأةِ من غير لفظها، کالقومِ في جمعِ المَرْءِ ، قال تعالی: لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ إلى قوله : وَلا نِساءٌ مِنْ نِساءٍ [ الحجرات 11] ما بال النِّسْوَةِ اللَّاتِي قَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ [يوسف 50]- النساء - والنسوان والنسوۃ یہ تینوں امراءۃ کی جمع من غیر لفظہ ہیں ۔ جیسے مرء کی جمع قوم آجاتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ إلى قوله : وَلا نِساءٌ مِنْ نِساءٍ [ الحجرات 11] اور نہ عورتیں عورتوں سے تمسخر کریں ما بال النِّسْوَةِ اللَّاتِي قَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ [يوسف 50] کہ ان عورتوں کا کیا حال ہے جنہوں نے اپنے ہاتھ کا ٹ لئے تھے ۔- ملکت ايمانکم - والمِلْكَة تختصّ بمِلْك العبید، ويقال : فلان حسن الملکة . أي :- الصّنع إلى مماليكه، وخصّ ملک العبید في القرآن بالیمین، فقال : لِيَسْتَأْذِنْكُمُ الَّذِينَ مَلَكَتْ أَيْمانُكُمْ [ النور 58] ، وقوله : أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُكُمْ [ النساء 3] اور قرآن پاک میں غلاموں کے مالک کو یمین کے ساتھ مخصوص کیا گیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لِيَسْتَأْذِنْكُمُ الَّذِينَ مَلَكَتْ أَيْمانُكُمْ [ النور 58] تمہارے غلام لونڈیاں ۔۔۔۔۔۔ اجازت لیا کریں ۔ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُكُمْ [ النساء 3] یا لونڈی جس کے تم مالک ہو ۔ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُنَّ [ النور 31] اپنے لونڈی غلاموں کے سوا ) الملوکۃ یہ بمعنی ملک کے آتا ہے جیسے : ۔ یعنی ملک کا اقرار کرنے والا غلام ۔- كتب ( لکھنا)- الْكَتْبُ : ضمّ أديم إلى أديم بالخیاطة، يقال : كَتَبْتُ السّقاء، وكَتَبْتُ البغلة : جمعت بين شفريها بحلقة، وفي التّعارف ضمّ الحروف بعضها إلى بعض بالخطّ ، وقد يقال ذلک للمضموم بعضها إلى بعض باللّفظ، فالأصل في الْكِتَابَةِ : النّظم بالخطّ لکن يستعار کلّ واحد للآخر، ولهذا سمّي کلام الله۔ وإن لم يُكْتَبْ- كِتَاباً کقوله : الم ذلِكَ الْكِتابُ- [ البقرة 1- 2] ، وقوله : قالَ إِنِّي عَبْدُ اللَّهِ آتانِيَ الْكِتابَ [ مریم 30] .- ( ک ت ب ) الکتب ۔ کے اصل معنی کھال کے دو ٹکڑوں کو ملاکر سی دینے کے ہیں چناچہ کہاجاتا ہے کتبت السقاء ، ، میں نے مشکیزہ کو سی دیا کتبت البغلۃ میں نے خچری کی شرمگاہ کے دونوں کنارے بند کرکے ان پر ( لوہے ) کا حلقہ چڑھا دیا ، ، عرف میں اس کے معنی حروف کو تحریر کے ذریعہ باہم ملا دینے کے ہیں مگر کبھی ان حروف کو تلفظ کے ذریعہ باہم ملادینے پر بھی بولاجاتا ہے الغرض کتابۃ کے اصل معنی تو تحریر کے ذریعہ حروف کو باہم ملادینے کے ہیں مگر بطور استعارہ کبھی بمعنی تحریر اور کبھی بمعنی تلفظ استعمال ہوتا ہے اور بناپر کلام الہی کو کتاب کہا گیا ہے گو ( اس وقت ) قید تحریر میں نہیں لائی گئی تھی ۔ قرآن پاک میں ہے : الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة 1- 2] یہ کتاب ( قرآن مجید ) اس میں کچھ شک نہیں ۔ قالَ إِنِّي عَبْدُ اللَّهِ آتانِيَ الْكِتابَ [ مریم 30] میں خدا کا بندہ ہوں اس نے مجھے کتاب دی ہے ۔- حلَال - حَلَّ الشیء حلالًا، قال اللہ تعالی: وَكُلُوا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللَّهُ حَلالًا طَيِّباً [ المائدة 88] ، وقال تعالی: هذا حَلالٌ وَهذا حَرامٌ [ النحل 116] - ( ح ل ل ) الحل - اصل میں حل کے معنی گرہ کشائی کے ہیں ۔ حل ( ض ) اشئی حلا کا محاورہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی کسی چیز کے حلال ہونا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَكُلُوا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللَّهُ حَلالًا طَيِّباً [ المائدة 88] اور جو حلال طیب روزی خدا نے تم کو دی ہے اسے کھاؤ ۔ هذا حَلالٌ وَهذا حَرامٌ [ النحل 116] کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے - وراء - ( وَرَاءُ ) إذا قيل : وَرَاءُ زيدٍ كذا، فإنه يقال لمن خلفه . نحو قوله تعالی:- وَمِنْ وَراءِ إِسْحاقَ يَعْقُوبَ [هود 71] ،- ( و ر ی ) واریت - الورآء کے معنی خلف یعنی پچھلی جانب کے ہیں مثلا جو زہد کے پیچھے یا بعد میں آئے اس کے متعلق ورآء زید کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَمِنْ وَراءِ إِسْحاقَ يَعْقُوبَ [هود 71] اور اسحاق کے بعد یعقوب کی خوش خبری دی ۔ - وأمّا الابتغاء - فقد خصّ بالاجتهاد في الطلب، فمتی کان الطلب لشیء محمود فالابتغاء فيه محمود نحو : ابْتِغاءَ رَحْمَةٍ مِنْ رَبِّكَ [ الإسراء 28] ، وابْتِغاءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْأَعْلى [ اللیل 20] - ( ب غ ی ) البغی - الا بتغاء - یہ خاص کر کوشش کے ساتھ کسی چیز کو طلب کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ اگر اچھی چیز کی طلب ہو تو یہ کوشش بھی محمود ہوگی ( ورنہ مذموم ) چناچہ فرمایا : ۔ ابْتِغَاءَ رَحْمَةٍ مِنْ رَبِّكَ ( سورة الإسراء 28) اپنے پروردگار کی رحمت ( یعنی فراخ دستی ) کے انتظار میں ۔ وابْتِغاءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْأَعْلى [ اللیل 20] بلکہ اپنے خدا وندی اعلیٰ کی رضامندی حاصل کرنے کے لئے دیتا ہے ۔- ميل - المَيْلُ : العدول عن الوسط إلى أَحَد الجانبین، والمَالُ سُمِّي بذلک لکونه مائِلًا أبدا وزَائلا،- ( م ی ل ) المیل - اس کے معنی وسط سے ایک جانب مائل ہوجانے کے ہیں اور المال کو مال اس لئے کہا جاتا ہے ۔ کہ وہ ہمیشہ مائل اور زائل ہوتا رہتا ہے ۔ - غير - أن تکون للنّفي المجرّد من غير إثبات معنی به، نحو : مررت برجل غير قائم . أي : لا قائم، قال : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص 50] ،- ( غ ی ر ) غیر - اور محض نفی کے لئے یعنی اس سے کسی دوسرے معنی کا اثبات مقصود نہیں ہوتا جیسے مررت برجل غیر قائم یعنی میں ایسے آدمی کے پاس سے گزرا جو کھڑا نہیں تھا ۔ قرآن میں ہے : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص 50] اور اس سے زیادہ کون گمراہ ہوگا جو خدا کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنی خواہش کے پیچھے چلے - سفح - ( مسافحین) ، جمع مسافح، اسم فاعل من سافح الرباعي وزنه مفاعل بضم المیم وکسر العین - اسْتَمْتَعَ :- واسْتَمْتَعَ : طلب التّمتّع . رَبَّنَا اسْتَمْتَعَ بَعْضُنا بِبَعْضٍ [ الأنعام 128] ، فَاسْتَمْتَعُوا بِخَلاقِهِمْ- [ التوبة 69] ، فَاسْتَمْتَعْتُمْ بِخَلاقِكُمْ كَمَا اسْتَمْتَعَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ بِخَلاقِهِمْ [ التوبة 69]- اور استمتع کے منعی کیس چیز سے نفع حاصل کرنے اور فائدہ اٹھانے کے ہیں قرآن پاک میں ہے : ۔ رَبَّنَا اسْتَمْتَعَ بَعْضُنا بِبَعْضٍ [ الأنعام 128] اے ہمارے پروردگار ہم ایک دوسرے سے فائدہ اٹھاتے رہے ۔ فَاسْتَمْتَعُوا بِخَلاقِهِمْ [ التوبة 69] وہ اپنے حصے سے بہرہ یاب ہوچکے ۔ سو جس طرح تم سے پہلے لوگ اپنے حصے سے فائدہ اٹھاچکے ہیں ۔ اسی طرح تم نے اپنے حصے سے فائدہ اٹھا لیا ۔- إِيتاء - : الإعطاء، [ وخصّ دفع الصدقة في القرآن بالإيتاء ] نحو : وَأَقامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكاةَ [ البقرة 277] ، وَإِقامَ الصَّلاةِ وَإِيتاءَ الزَّكاةِ [ الأنبیاء 73] ، ووَ لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئاً [ البقرة 229] ، ووَ لَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمالِ [ البقرة 247]- الایتاء ( افعال ) اس کے معنی اعطاء یعنی دینا اور بخشنا ہے ہیں ۔ قرآن بالخصوص صدقات کے دینے پر یہ لفظ استعمال ہوا ہے چناچہ فرمایا :۔ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ [ البقرة : 277] اور نماز پڑہیں اور زکوۃ دیں وَإِقَامَ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءَ الزَّكَاةِ [ الأنبیاء : 73] اور نماز پڑھنے اور زکوۃ دینے کا حکم بھیجا وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ ( سورة البقرة 229) اور یہ جائز نہیں ہے کہ جو مہر تم ان کو دے چکو اس میں سے کچھ واپس لے لو وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمَالِ [ البقرة : 247] اور اسے مال کی فراخی نہیں دی گئی - أجر - الأجر والأجرة : ما يعود من ثواب العمل دنیویاً کان أو أخرویاً ، نحو قوله تعالی: إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ [يونس 72] ، وَآتَيْناهُ أَجْرَهُ فِي الدُّنْيا وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ [ العنکبوت 27] ، وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ آمَنُوا [يوسف 57] .- والأُجرة في الثواب الدنیوي، وجمع الأجر أجور، وقوله تعالی: وَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ [ النساء 25] كناية عن المهور، والأجر والأجرة يقال فيما کان عن عقد وما يجري مجری العقد، ولا يقال إلا في النفع دون الضر، نحو قوله تعالی: لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 199] ، وقوله تعالی: فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ [ الشوری 40] . والجزاء يقال فيما کان عن عقدٍ وغیر عقد، ويقال في النافع والضار، نحو قوله تعالی: وَجَزاهُمْ بِما صَبَرُوا جَنَّةً وَحَرِيراً [ الإنسان 12] ، وقوله تعالی: فَجَزاؤُهُ جَهَنَّمُ [ النساء 93] .- يقال : أَجَر زيد عمراً يأجره أجراً : أعطاه الشیء بأجرة، وآجَرَ عمرو زيداً : أعطاه الأجرة، قال تعالی: عَلى أَنْ تَأْجُرَنِي ثَمانِيَ حِجَجٍ [ القصص 27] ، وآجر کذلک، والفرق بينهما أنّ أجرته يقال إذا اعتبر فعل أحدهما، وآجرته يقال إذا اعتبر فعلاهما «1» ، وکلاهما يرجعان إلى معنی واحدٍ ، ويقال : آجره اللہ وأجره اللہ .- والأجير : فعیل بمعنی فاعل أو مفاعل، والاستئجارُ : طلب الشیء بالأجرة، ثم يعبّر به عن تناوله بالأجرة، نحو : الاستیجاب في استعارته الإيجاب، وعلی هذا قوله تعالی:- اسْتَأْجِرْهُ إِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْأَمِينُ [ القصص 26] .- ( ا ج ر ) الاجر والاجرۃ کے معنی جزائے عمل کے ہیں خواہ وہ بدلہ دنیوی ہو یا اخروی ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ [هود : 29] میرا اجر تو خدا کے ذمے ہے ۔ وَآتَيْنَاهُ أَجْرَهُ فِي الدُّنْيَا وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ [ العنکبوت : 27] اور ان کو دنیا میں بھی ان کا صلہ عنایت کیا اور وہ آخرت میں بھی نیک لوگوں میں سے ہوں گے ۔ وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ آمَنُوا [يوسف : 57] اور جو لوگ ایمان لائے ۔ ۔۔۔ ان کے لئے آخرت کا اجر بہت بہتر ہے ۔ الاجرۃ ( مزدوری ) یہ لفظ خاص کر دنیوی بدلہ پر بولا جاتا ہے اجر کی جمع اجور ہے اور آیت کریمہ : وَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ [ النساء : 25] اور ان کے مہر بھی انہیں ادا کردو میں کنایہ عورتوں کے مہر کو اجور کہا گیا ہے پھر اجر اور اجرۃ کا لفظ ہر اس بدلہ پر بولاجاتا ہے جو کسی عہد و پیمان یا تقریبا اسی قسم کے عقد کی وجہ سے دیا جائے ۔ اور یہ ہمیشہ نفع مند بدلہ پر بولا جاتا ہے ۔ ضرر رساں اور نقصان دہ بدلہ کو اجر نہیں کہتے جیسے فرمایا لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ البقرة : 277] ان کو ان کے کاموں کا صلہ خدا کے ہاں ملے گا ۔ فَأَجْرُهُ عَلَى اللهِ ( سورة الشوری 40) تو اس کا بدلہ خدا کے ذمے ہے الجزاء ہر بدلہ کو کہتے ہیں خواہ وہ کسی عہد کی وجہ سے ہو یا بغیر عہد کے اچھا ہو یا برا دونوں پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ فرمایا ۔ وَجَزَاهُمْ بِمَا صَبَرُوا جَنَّةً وَحَرِيرًا [ الإنسان : 12] اور ان کے صبر کے بدلے ان کو بہشت کے باغات اور ریشم ( کے ملبوسات) عطا کریں گے ۔ فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ ( سورة النساء 93) اس کی سزا دوزخ ہے ۔ محاورہ میں ہے اجر ( ن ) زید عمرا یا جرہ اجرا کے معنی میں زید نے عمر کو اجرت پر کوئی چیز دی اور اجر عمر زیدا کے معنی ہوں گے عمرو نے زید کو اجرت دی قرآن میں ہے :۔ عَلَى أَنْ تَأْجُرَنِي ثَمَانِيَ حِجَجٍ [ القصص : 27] کہ تم اس کے عوض آٹھ برس میری خدمت کرو ۔ اور یہی معنی اجر ( مفاعلہ ) کے ہیں لیکن اس میں معنی مشارکت کا اعتبار ہوتا ہے اور مجرد ( اجرتہ ) میں مشارکت کے معنی ملحوظ نہیں ہوتے ہاں مال کے لحاظ سے دونوں ایک ہی ہیں ۔ محاورہ ہی ۔ اجرہ اللہ واجرہ دونوں طرح بولا جاتا ہے یعنی خدا اسے بدلہ دے ۔ الاجیرہ بروزن فعیل بمعنی فاعل یا مفاعل ہے یعنی معاوضہ یا اجرت کا پر کام کرنے والا ۔ الاستیجار کے اصل معنی کسی چیز کو اجرت پر طلب کرنا پھر یہ اجرت پر رکھ لینے کے معنی میں بولا جاتا ہے جس طرح کہ استیجاب ( استفعال ) بمعنی اجاب آجاتا ہے چناچہ آیت کریمہ : اسْتَأْجِرْهُ إِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْأَمِينُ [ القصص : 26] اسے اجرت پر ملازم رکھ لیجئے کیونکہ بہتر ملازم جو آپ رکھیں وہ ہے جو توانا اور امانت دار ہو میں ( استئجار کا لفظ ) ملازم رکھنے کے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔- مهر - وقوله : وَقَدْ فَرَضْتُمْ لَهُنَّ فَرِيضَةً [ البقرة 237] ، أي : سمّيتم لهنّ مهرا، وأوجبتم علی أنفسکم بذلک، وعلی هذا يقال : فَرَضَ له في العطاء، وبهذا النّظر ومن هذا الغرض قيل للعطية : فَرْضٌ ، وللدّين : فَرْضٌ ، اور آیت کریمہ : وَقَدْ فَرَضْتُمْ لَهُنَّ فَرِيضَةً [ البقرة 237] لیکن مہر مقررکر چکے ہو ۔ کے معنی یہ ہیں چونکہ تم ان کے لئے مہر مقرر اور اپنے اوپر لازم کرچکے ہو اور یہی معنی فرض لہ فی العطاء کے ہیں ( یعنی کسی کے لئے عطا سے حصہ مقرر کردینا ) اسی بنا پر عطیہ اور قرض کو بھی فرض کہا جاتا ہے - جناح - وسمي الإثم المائل بالإنسان عن الحق جناحا ثم سمّي كلّ إثم جُنَاحاً ، نحو قوله تعالی: لا جُناحَ عَلَيْكُمْ في غير موضع، وجوانح الصدر :- الأضلاع المتصلة رؤوسها في وسط الزور، الواحدة : جَانِحَة، وذلک لما فيها من المیل - اسی لئے ہر وہ گناہ جو انسان کو حق سے مائل کردے اسے جناح کہا جاتا ہے ۔ پھر عام گناہ کے معنی میں یہ لفظ استعمال ہونے لگا ہے ۔ قرآن میں متعدد مواضع پر آیا ہے پسلیاں جن کے سرے سینے کے وسط میں باہم متصل ہوتے ہیں اس کا واحد جانحۃ ہے اور ان پسلیوں کو جو انح اسی لئے کہا جاتا ہے کہ ان میں میلان یعنی خم ہوتا ہے ۔- رضي - يقال : رَضِيَ يَرْضَى رِضًا، فهو مَرْضِيٌّ ومَرْضُوٌّ. ورِضَا العبد عن اللہ : أن لا يكره ما يجري به قضاؤه، ورِضَا اللہ عن العبد هو أن يراه مؤتمرا لأمره، ومنتهيا عن نهيه، قال اللہ تعالی:- رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ [ المائدة 119] ، وقال تعالی: لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح 18] ، وقال تعالی: وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلامَ دِيناً [ المائدة 3] ، وقال تعالی: أَرَضِيتُمْ بِالْحَياةِ الدُّنْيا مِنَ الْآخِرَةِ [ التوبة 38] ، وقال تعالی: يُرْضُونَكُمْ بِأَفْواهِهِمْ وَتَأْبى قُلُوبُهُمْ- [ التوبة 8] ، وقال عزّ وجلّ : وَلا يَحْزَنَّ وَيَرْضَيْنَ بِما آتَيْتَهُنَّ كُلُّهُنَ [ الأحزاب 51] ، والرِّضْوَانُ :- الرّضا الکثير، ولمّا کان أعظم الرِّضَا رضا اللہ تعالیٰ خصّ لفظ الرّضوان في القرآن بما کان من اللہ تعالی: قال عزّ وجلّ : وَرَهْبانِيَّةً ابْتَدَعُوها ما كَتَبْناها عَلَيْهِمْ إِلَّا ابْتِغاءَ رِضْوانِ اللَّهِ- [ الحدید 27] ، وقال تعالی: يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضْواناً [ الفتح 29] ، وقال : يُبَشِّرُهُمْ رَبُّهُمْ بِرَحْمَةٍ مِنْهُ وَرِضْوانٍ [ التوبة 21] ، وقوله تعالی: إِذا تَراضَوْا بَيْنَهُمْ بِالْمَعْرُوفِ- [ البقرة 232] ، أي : أظهر كلّ واحد منهم الرّضا بصاحبه ورَضِيَهُ.- ( ر ض و ) رضی - ( س ) رضا فھو مرضی و مرضو ۔ راضی ہونا ۔ واضح رہے کہ بندے کا اللہ تعالیٰ سے راضی ہونا یہ ہے کہ جو کچھ قضائے الہیٰ سے اس پر وارد ہو وہ اسے خوشی سے بر داشت کرے اور اللہ تعالیٰ کے بندے پر راضی ہونے کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ اسے اپنے اوامر کا بجا لانے والا اور منہیات سے رکنے والا پائے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ [ المائدة 119] اللہ تعالیٰ ان سے خوش اور وہ اللہ تعالیٰ سے خوش ۔ لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح 18] تو اللہ تعالیٰ ضرور ان مسلمانوں سے خوش ہوتا ہے وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلامَ دِيناً [ المائدة 3] اور ہم نے تمہارے لئے دین اسلام کو پسند فرمایا : ۔ أَرَضِيتُمْ بِالْحَياةِ الدُّنْيا مِنَ الْآخِرَةِ [ التوبة 38] کیا آخرت کے بدلے دنیا کی زندگی پر قناعت کر بیٹھے ہو ۔ يُرْضُونَكُمْ بِأَفْواهِهِمْ وَتَأْبى قُلُوبُهُمْ [ التوبة 8] اپنی زبانی باتوں سے تو تم کو رضا مند کردیتے ہیں اور ان کے دل ہیں کہ ان باتوں سے انکار کرتے ہیں ۔ وَلا يَحْزَنَّ وَيَرْضَيْنَ بِما آتَيْتَهُنَّ كُلُّهُنَ [ الأحزاب 51] اور آزردہ خاطر نہ ہوں گی اور جو کچھ ( بھی ) تم ان کو دوگے وہ ( لے کر سب ) راضی ہوجائیں گی ۔ الرضوان رضائے کثیر یعنی نہایت خوشنودی کو کہتے ہیں ۔ چونکہ سب سے بڑی رضا اللہ تعالیٰ کی رضا مندی ہے اس لئے قرآن پاک میں خاص کر رضا الہی ٰ کے لئے رضوان کا لفظ استعما ل ہوا ہے ۔ جیسا کہ فرمایا : ۔ وَرَهْبانِيَّةً ابْتَدَعُوها ما كَتَبْناها عَلَيْهِمْ إِلَّا ابْتِغاءَ رِضْوانِ اللَّهِ [ الحدید 27] اور ( لذت ) دنیا کا چھوڑ بیٹھنا جس کو انہوں نے از خود ایجاد کیا تھا ہم نے وہ طریق ان پر فرض نہیں کیا تھا مگر ( ہاں ) انہوں نے اس کو خدا ( ہی ) کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے ایجاد کیا تھا ۔ يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضْواناً [ الفتح 29] اور خدا کے فضل اور خوشنودی کی طلب گاری میں لگے رہتے ہیں ۔ يُبَشِّرُهُمْ رَبُّهُمْ بِرَحْمَةٍ مِنْهُ وَرِضْوانٍ [ التوبة 21] ان کا پروردگار ان کو اپنی مہربانی اور رضامندی کی خوشخبری دیتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔۔ : إِذا تَراضَوْا بَيْنَهُمْ بِالْمَعْرُوفِ [ البقرة 232] ، جب جائز طور پر آپس میں وہ راضی ہوجائیں ۔ میں تراضوا باب تفاعل سے ہے جس کے معنی باہم اظہار رضامندی کے ہیں ،- علم - العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته، وذلک ضربان :- أحدهما : إدراک ذات الشیء .- والثاني : الحکم علی الشیء بوجود شيء هو موجود له،- أو نفي شيء هو منفيّ عنه .- فالأوّل : هو المتعدّي إلى مفعول واحد نحو :- لا تَعْلَمُونَهُمُ اللَّهُ يَعْلَمُهُمْ [ الأنفال 60] .- والثاني : المتعدّي إلى مفعولین، نحو قوله :- فَإِنْ عَلِمْتُمُوهُنَّ مُؤْمِناتٍ [ الممتحنة 10] ، وقوله : يَوْمَ يَجْمَعُ اللَّهُ الرُّسُلَ إلى قوله :- لا عِلْمَ لَنا «3» فإشارة إلى أنّ عقولهم طاشت .- والعِلْمُ من وجه ضربان : نظريّ وعمليّ.- فالنّظريّ : ما إذا علم فقد کمل، نحو : العلم بموجودات العالَم .- والعمليّ : ما لا يتمّ إلا بأن يعمل کالعلم بالعبادات .- ومن وجه آخر ضربان : عقليّ وسمعيّ ،- وأَعْلَمْتُهُ وعَلَّمْتُهُ في الأصل واحد، إلّا أنّ الإعلام اختصّ بما کان بإخبار سریع، والتَّعْلِيمُ اختصّ بما يكون بتکرير وتكثير حتی يحصل منه أثر في نفس المُتَعَلِّمِ. قال بعضهم : التَّعْلِيمُ : تنبيه النّفس لتصوّر المعاني، والتَّعَلُّمُ : تنبّه النّفس لتصوّر ذلك، وربّما استعمل في معنی الإِعْلَامِ إذا کان فيه تكرير، نحو : أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ [ الحجرات 16] ،- ( ع ل م ) العلم - کسی چیش کی حقیقت کا اور راک کرنا اور یہ قسم پر ہے اول یہ کہ کسی چیز کی ذات کا ادراک کرلینا دوم ایک چیز پر کسی صفت کے ساتھ حکم لگانا جو ( فی الواقع ) اس کے لئے ثابت ہو یا ایک چیز کی دوسری چیز سے نفی کرنا جو ( فی الواقع ) اس سے منفی ہو ۔ پہلی صورت میں یہ لفظ متعدی بیک مفعول ہوتا ہے جیسا کہ قرآن میں ہے : ۔ لا تَعْلَمُونَهُمُ اللَّهُ يَعْلَمُهُمْ [ الأنفال 60] جن کو تم نہیں جانتے اور خدا جانتا ہے ۔ اور دوسری صورت میں دو مفعول کی طرف متعدی ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ فَإِنْ عَلِمْتُمُوهُنَّ مُؤْمِناتٍ [ الممتحنة 10] اگر تم کا معلوم ہو کہ مومن ہیں ۔ اور آیت يَوْمَ يَجْمَعُ اللَّهُ الرُّسُلَاسے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ان کے ہوش و حواس قائم نہیں رہیں گے ۔- ایک دوسری حیثیت سے علم کی دوقسمیں ہیں - ( 1) نظری اور ( 2 ) عملی ۔ نظری وہ ہے جو حاصل ہونے کے ساتھ ہی مکمل ہوجائے جیسے وہ عالم جس کا تعلق موجودات عالم سے ہے اور علم عمل وہ ہے جو عمل کے بغیر تکمیل نہ پائے جسیے عبادات کا علم ایک اور حیثیت سے بھی علم کی دو قسمیں ہیں ۔ ( 1) عقلی یعنی وہ علم جو صرف عقل سے حاصل ہو سکے ( 2 ) سمعی یعنی وہ علم جو محض عقل سے حاصل نہ ہو بلکہ بذریعہ نقل وسماعت کے حاصل کیا جائے دراصل اعلمتہ وعلمتہ کے ایک معنی ہیں مگر اعلام جلدی سے بتادینے کے ساتھ مختص ہے اور تعلیم کے معنی با ر بار کثرت کے ساتھ خبر دینے کے ہیں ۔ حتٰی کہ متعلم کے ذہن میں اس کا اثر پیدا ہوجائے ۔ بعض نے کہا ہے کہ تعلیم کے معنی تصور کیلئے نفس کو متوجہ کرنا کے ہیں اور تعلم کے معنی ایسے تصور کی طرف متوجہ ہونا کے اور کبھی تعلیم کا لفظ اعلام کی جگہ آتا ہے جب کہ اس میں تاکید کے معنی مقصود ہوں جیسے فرمایا ۔ أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ [ الحجرات 16] کیا تم خدا کو اپنی دینداری جتلاتے ہو ۔ اور حسب ذیل آیات میں تعلیم کا لفظ استعمال ہوا ہے جیسے فرمایا ۔ الرَّحْمنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ [ الرحمن 1- 2] خدا جو نہایت مہربان اس نے قرآن کی تعلیم فرمائی ۔ قلم کے ذریعہ ( لکھنا ) سکھایا ؛

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

شوہروں والی عورتوں سے نکاح کی تحریم - قول باری ہے (والمحصنات من النساء الاماملکت ایمانکم، اور جو عورتیں کسی دوسرے کے نکاح میں ہوں (وہ تم پر حرام ہیں) البتہ ایسی عورتیں اس سے مستثنیٰ ہیں جو جنگ میں ہمارے ہاتھ آئیں) اس کا عطف ان عورتوں پر ہے جن کی تحریم کا ذکرقول باری (حرمت علیکم امھاتکم) سے شروع ہوا ہے۔- سفیان نے حماد سے، انہوں نے ابراہیم نخعی سے اور انہوں نے حضرت عبداللہ بن مسعو (رض) د سے روایت کی ہے کہ (والمصنات من النساء ) سے مسلمان اور مشرک شوہروں والی عورتیں مراد ہیں۔ حضرت علی (رض) کا قول ہے کہ اس سے مشرک شوہروں والی عورتیں مراد ہیں۔- سعیدبن جبیرنے حضرت ابن عباس سے روایت کی ہے کہ اس سے مراد شوہروالی ہر وہ عورت ہے جس سے ہمبستری زناکے حکم میں ہے سوائے ان عورتوں کے جو جنگ میں گرفتار ہوئی ہوں۔- ابوبکرجصاص کہتے ہیں کہ ان حضرات کا اس پر اتفاق ہے کہ قول باری (والمحصنات من النساء) سے مراد شوہروں والی عورتیں ہیں اور جب تک ان کے شوہرموجودہوں ان سے نکاح حرام ہے۔- البتہ ان حضرات کا قول باری (الاماملکت ایمانکم) کی تفسیر میں اختلاف ہے۔ ایک روایت کے مطابق حضرت علی (رض) اور حضرت ابن عباس (رض) نے اس آیت کی تاویل میں یہ فرمایا ہے کہ یہ آیت ان شوہروں والی عورتوں کے متعلق ہے جو جنگ میں گرفتارہوگئی ہوں ان کے ساتھ ملک یمین کی بناپرہمبستری مباح ہوجاتی ہے۔- شوہروں کی گرفتاری کے بغیرتہاء ان کی گرفتاری انہیں ان کے شوہروں سے جدا کرنے کی موجب بن جاتی ہے۔ حضرت عمر (رض) ، حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) اور حضرت ابن عمر (رض) کی بھی آیت کی تاویل میں یہی رائے ہے۔- یہ حضرات فرمایا کرتے تھے کہ لونڈی کی فروخت اس کے حق میں طلاق نہیں ہوتی اور نہ ہی اس کا نکاح باطل ہوتا ہے۔ حضرت ابن مسعو (رض) د، حضرت ابی بن کعب، حضرت انس بن مالک (رض) ، حضرت جابربن عبد (رض) اللہ اور حضرت ابن عباس (رض) بروایت عکرمہ نے آیت کی یہ تاویل کی ہے کہ آیت کا حکم شوہروں والی تمام عورتوں کے لیے ہے خواہ وہ قیدی عورتیں ہوں یا غیر قیدی۔- ان حضرات کا قول ہے کہ لونڈی کی فروخت اس کے حق میں طلاق ہوتی ہے۔ ہمیں محمد بن ب کرنے روایت بیان کی ہے، انہیں ابوداؤد نے، انہیں عبداللہ بن عمربن میسرہ نے ، انہیں یزید بن زریع نے، انہیں سعید نے قتادہ سے ، انہوں نے ابوالخلیل سے ، انہوں نے ابوعلقمہ ہاشمی سے اور انہوں نے حضرت ابوسعیدخدر (رض) ی سے کہ اللہ کی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اوطاس کی طرف ایک لشکرروانہ کیا، جس کا دشمن سے آمناسامنا ہوا۔ اور جنگ کے بعد اس پر فتح حاصل ہوئی۔ مجاہدین نے مشرک شوہروں والی عورتوں کو قید ی بنالیا۔ ان عورتوں سے ہمبستری کو مسلمان گناہ کی بات سمجھتے تھے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی (والمحصنات من النساء الا ماملکت ایمانکم) یعنی یہ عورتیں عدت کی مدت گذرجانے کے بعد تمہارے لیے حلال ہیں۔ یہ کہاگیا ہے کہ اس روایت کے ایک راوی ایک جلیل القدرصاحب علم انسان تھے ان سے یعلی بن عطاء نے روایت بیان کی ہے خود یعلی بن عطاء نے حضرت ابوسعید خدر (رض) ی سے یہ روایت نقل کی ہے ۔ ابوعلقمہ نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے بہت سی روایتیں نقل کی ہیں۔- زیربحث روایت کی سندصحیح ہے اس میں آیت کے نزول کے سبب کی نشاندہی کی گئی ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ آیت جنگ میں گرفتارہونے والی عورتوں کے بارے میں ہے۔ حضرت ابن مسعود اور آپ کے ہم خیال اصحاب نے آیت کی تاویل میں شوہروں والی ایسی تمام عورتیں مراد لی ہیں جو کسی کی ملکیت میں چلی جانے کے بعد ملکیت حاصل کرنے والوں کی ہمبستری کے لیے حلال ہوجاتی ہیں اور شوہروں سے ان کی تفریق عمل میں آجاتی ہے۔- اگریہ کہاجائے کہ آپ لوگوں کا اصول تو یہ ہے کہ آپ سبب کا اعتبار نہیں کرتے بلکہ لفظ کی حالت کا اعتبار کرتے ہیں کہ اگر لفظ میں عموم ہوتوا سے اس کے عموم پر اس وقت تک محمول کیا جائے جب تک اس کی تخصیص کے لیے کوئی دلالت قائم نہ ہوجائے آپ نے اپنے اصول کو اس آیت میں کیوں جاری نہیں کیا اور ان تمام عورتوں پر کیوں نہ محمول کیا جو شوہروں والی ہوں اور ملکیت کے تحت آجائیں اس طرح اس مفہوم میں گرفتارشدہ اور غیر گرفتارشدہ سب عورتیں شامل ہوجائیں گی۔- اس کے جواب میں کہاجائے گا کہ آیت میں یہ دلالت واضح ہے کہ یہ گرفتارشدہ عورتوں کے ساتھ مخصوص ہے۔ وہ اس طرح کہ اللہ تعالیٰ نے فرمادیا (والمحصنات من النساء ا لا ماملکت ایمانکم) اگر ملکیت کا حدوث تفریق کا موجب ہوتاتو پھر اس عورت اور اس کے شوہر کے درمیان اس وقت تفریق واجب ہوجاتی جب اسے کوئی عورت یا خود اس عورت کا رضاعی بھائی خرید لیتا کیونکہ ملکیت کا حدوث ہوچکا تھا۔- اگریہ کہاجائے کہ یہ بات ان تمام عورتوں کے حق میں درست ہے جن پر دوسروں کی ملکیت واقع ہوجائے خواہ پھر اس ملکیت کا آجانا ہمبستری کی اباحت کا سبب بن جائے یا نہ بنے مثلا کوئی عورت ایسی عورت کی مالک بن جائے یا یہ کسی ایسے شخص کی ملکیت میں چلی جائے جس کے لیے اس کے ساتھ ہمبستری حلال نہ ہو۔- اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ آیت میں روے سخن ان لوگوں کی طرف ہے جنہیں ان عورتوں کی ملکیت حاصل ہوجائے اور اس بناپران کے ساتھ ہمبستری کی اباحت ہوجائے۔ آیت میں شوہروں والی عورتوں سے ہمبستری کی تحریم کے حکم سے ملک یمین کی بناپراباحت کی یہ صورت استثنا کی ایک شکل ہے۔- اس لیے جب ملک یمین کی بناپر مالک کے لیے اس سے ہمبستری مباح نہ ہوگی تو آیت کی رو سے شوہر کے ساتھ اس کا رشتہ زوجیت برقراررہنا ضروری ہوجائے گا۔ اور جب یہ بات آیت کی رو سے ضروری قرارپائے گی تو قول باری (والمحصنات من النساء الا ماملکت ایمانکم) کا حکم صرف گرفتارشدہ عورتوں کے لیے خاص ہوجائے گا۔ اور ملکیت کا حدوث شوہروں سے ان کی تفریق کا موجب نہیں بنے گا۔- بلکہ اختلاف دارین اس کا سبب بن جائے گا۔ ملکیت کا حدوث تفریق کا موجب نہیں بنتا اس پر وہ روایت دلالت کرتی ہے جسے حمادنے ابراہیم نخعی سے نقل کیا ہے، انہوں نے اسود سے اور انہوں نے حضرت عائشہ (رض) سے کہ بریرہ کو خرید کر حضرت عائشہ (رض) نے آزاد کردیا اور اس کی ولاء اپنے خاندان والوں کے لیے مخصوص کرنے کی شرط لگادی۔- پھرحضرت عائشہ نے یہ بات حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گوش گذار کردی آپ نے یہ سن کر فرمایا (الولاء لمن اعتق، ولاء اسے حاصل ہوگی جس نے آزادی دی ہے) آپ نے بریرہ سے فرمایا (یابریرۃ اختاری فالا مرالیک، بریرہ اپنے شوہر کے عقد میں رہنے یا نہ رہنے کا تمہیں اختیا رہے یہ معاملہ اب تمہارے ہاتھ میں ہے) ۔- سماک نے عبدالرحمن بن القاسم سے، انہوں نے سیاہ فام غلام تھاج سے مغیث کہتے تھے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اس کے معاملے میں یہ فیصلہ تھا کہ ولاء اسے حاصل ہوگی جس کے پیسے خرچ ہوئے ہیں اور بریرہ کو شوہر کے عقد میں رہنے یا نہ رہنے کا اختیارمل گیا۔- اگریہ کہاجائے کہ حضرت ابن عباس (رض) نے بریرہ کے بارے میں یہ روایت بیان کرنے کے بعد کہا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے۔ (بیع الامۃ طلاقھا، لونڈی کی فروخت اس کے حق میں طلاق ہوتی ہے۔ ) اس لیے مناسب یہ ہے کہ حضرت ابن عباس (رض) کا یہ قول ان کی روایت کرددہ بات کو ختم کردے اس لیے کہ یہ نہیں ہوسکتا کہ انہوں نے جس بات کی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے اس کی مخالفت میں کچھ کہیں۔- اس کے جواب میں کہاجائے گا کہ حضرت ابن عباس (رض) سے یہ مروی ہے کہ آیت کا نزول گرفتارشدہ عورتوں کے بارے میں ہے اور لونڈی کی فروخت اس کے شوہر سے اس کی تفریق کی موجب نہیں بنتی اس لیے یہ ممکن ہے کہ معترض نے حضرت ابن عباس (رض) کے جس قول کا ذکر کیا ہے یعنی لونڈی کی فروخت اس کے حق میں طلاق ہوتی ہے۔ آپ اس کے وقت قائل ہوں جب آپ کے سامنے ابھی بریرہ کا واقعہ اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے اسے اختیار ملنے کی بات نہ آئی ہو پھر جب آپ کو ان سب باتوں کا علم ہوگیا تو آپ نے اپنے قول سے رجوع کرلیاہو۔- نیز اس میں یہ بھی احتمال ہے کہ اس قول سے مراد آپ کی یہ ہو کہ جب شوہر اپنی بیوی کو لونڈی ہونے کی بناپرخرید لے تو اس صورت میں اس کی فروخت اس کے حق میں طلاق ہوتی ہے۔ اور ملکیت کے وجود کے ساتھ نکاح باقی نہیں رہتا۔- عقلی طورپر یہی بات سمجھ میں آتی ہے کہ لونڈی کی فروخت طلاق نہیں ہوتی اور نہ ہی تفریق کی موجب بنتی ہے یہ اس لیے کہ طلاق کا مالک شوہر کے سوا اور کوئی نہیں ہوتا اور طلاق اس وقت درست ہوتی ہے جب شوہر کی طرف سے دی جائے یا اس کی طرف سے کوئی ایساقدم اٹھایا جائے جو طلاق کا سبب بن جائے۔ جب شوہر کی طرف سے اس سلسلے میں کوئی ایساقدم نہیں اتھایا گیا جو سبب بن جاتا تو پھر یہ ضروری ہوگیا کہ اس کی فروخت اس کے حق میں طلاق نہ بنے۔- اس پر یہ بات بھی دلالت کرتی ہے کہ ملک یمین کا جود تھا اور یہ نکاح کی نفی نہیں کرتا تھا اس لیے خرید ار کی ملکیت کا بھی نکاح کے منافی نہ ہونا ضروری قرارپایا۔- اگریہ کہاجائے کہ جب خریدار کی ملکیت وجود میں آجائے اور اس کی طرف سے اس نکاح کے بارے میں رضامندی کا اظہارنہ ہو تو ایسی صورت میں نکاح کاٹوٹ جانا ضروری قرارپائے گا اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ بات غلط ہے۔ کیونکہ یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ ملک یمین نکاح کے منافی نہیں ہے لیکن جو وجہ معترض نے بیان کی ہے اگر اس کا اعتبار کرلیا جائے تو اس سے خرید ارکونکاح فسخ کرنے کا اختیار مل جانالازم ہوجائے گا لیکن یہ کسی کا بھی قول نہیں ہے کیونکہ حضرت ابن مسعو (رض) د آور آپ کے ہمنوا ملکیت کے حدوث کے ساتھ فسخ نکاح کے وجوب کے قائل ہیں۔ - اگرمیاں بیوی دونوں جنگ میں گرفتار ہوکر مسلمانوں کے ہاتھ آجائیں تو ان کے متعلق فقہاء میں اختلاف رائے ہے۔ امام ابوحنیفہ، امام ابویوسف، امام محمد اور زفرکاقول ہے کہ جب حربی میاں بیوی ایک ساتھ گرفتارہوجائیں تو ان کا نکاح باقی رہے گا اور اگر ان میں کوئی ایک پہلے گرفتار ہوکرداراسلام پہنچ گیا تو دونوں کے درمیان تفریق ہوجائے گی۔- سفیان ثوری کا بھی یہی قول ہے۔ اور زاعی کا قول ہے کہ اگر دونوں ایک ساتھ گرفتارہوں تو جب تک مال غنیمت کی صورت میں رہیں گے اس وقت تک وہ میاں بیوی ہیں گے۔ مال غنیمت کی تقسیم کے بعد کوئی شخص کسی سے اگر ان دونوں کو خرید لیتا ہے تو خریدار کو اختیار ہوگا چاہے توا نہیں رشتہ زوجیت کے تحت رہنے دے اور چاہے توا نہیں ایک دوسرے سے الگ کردے اور پھر عورت کو اپنی ذات کے لیے مخصوص کرلے یا ایک حیض کے ذریعے استبراء رحم کے بعد اس کا نکاح کسی اور سے کر ادے لیث بن سعد بھی یہی قول ہے۔- حسن بن صالح کا قول ہے کہ جب شوہر والی کوئی عورت گرفتار کی جائے تو ودوحیض کے ذریعے اس کا استبراء رحم کیا جائے گاکیون کہ اگر اس کا شوہراس کی عدت کے دوران آجائے گا تو وہ اس کا سب سے بڑھ کرحقدارہوگا۔ اگر بےشوہر عورت گرفتارہوکرآئی ہو تو ایک حیض کے ذریعے اس کا استبرء رحم ہوگا۔- امام مالک اور امام شافعی کا قول ہے کہ شوہر والی عورت گرفتارہوتے ہی اپنے شوہر سے بائن ہوجائے گی خواہ اس کے ساتھ اس کا شوہر ہو یا نہ ہو۔- ابوبکرجصاص کہتے ہیں کہ یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ ملکیت کا حدوث تفریق کا موجب نہیں ہے۔ اس کی دلیل فروخت شدہ اور وراثت کے تحت حاصل ہونے والی لونڈی کا مسئلہ ہے۔ اس لیے محض گرفتاری پر تفریق ہوجانا ضروری نہیں رہاکیون کہ گرفتاری ہیں حدوث ملکیت سے زائد کوئی چیز نہیں ہوئی۔- ایک اور دلیل یہ ہے کہ عورت پر غلامی کا حدوث نئے سرے سے عقدنکاح کو مانع نہیں ہوتا توبقاء نکاح کو اس کا مانع نہ ہونا بطریق اولی ہوگا۔ کیونکہ ثبوت نکاح کے لیے نکاح کا باقی رہنا نئے سرے سے نکاح کرنے سے بڑھ کرموکدہوتا ہے۔- آپ نہیں دیکھتے کہ بعض صورتیں ایسی ہوتی ہیں جو ابتدائے عقد کے لیے مانع ہوتی ہیں لیکن بقائے عقد کے لیے مانع نہیں ہوتیں مثلاشبہ کی بناپرہمبستری کی وجہ سے عورت پر عدت کالزوم نئے سرے سے عقد نکاح کے لیے مانع ہے لیکن پچھلے عقد کے بقاء کے لیے مانع نہیں ہے۔- اگران حضرات نے ابوسعیدخدر (رض) ی کی روایت سے استدلال کیا جواوطاس کے معرکہ میں ہاتھ آنے والی عورتوں کے متعلق ہے اور جس کی بناپر آیت (والمحصنات من النساء الاما ملکت ایمانکم) کا نزول ہوا اس میں شوہروں کے ساتھ اور شوہروں کے بغیر گرفتارہونے والی عورتوں کے درمیان کوئی فرق نہیں رکھا گیا۔- تو اس کے جواب میں کہاجائے گا کہ حماد نے روایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہیں حجاج نے سالم المکی کے واسطے سے محمد بن علی سے خبردی کہ جب اوطاس کا معرکہ شروع ہواتودشمن کے مرد بھاگ کر پہاڑوں پر چلے گئے اور عورتیں گرفتارہوگئیں۔ مسلمانوں کے لیے یہ عورتیں ایک مسئلہ بن گئیں کیونکہ ان کے شوہر بھی تھے۔- اللہ تعالیٰ نے ان پر یہ آیت نازل فرمائی اور یہ بتادیا کہ مردبھاگ کر پہاڑوں پر چلے گئے ہیں اور قید ہونے والی عورتیں مردوں سے علحدہ ہوگئی ہیں اور آیت کا نزول ان ہی عورتیں کے متعلق ہوا ہے، نیز غزوات نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قلمبند کرنے والوں کے بیان کے مطابق حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غزوئہ حنین میں دشمن کا ایک مرد بھی گرفتار نہیں کیا کیونکہ مردوں کی پوری تعدادیاتومیدان جنگ میں کھیت رہی تھی یاشکست کھاکربھاگ کھڑی ہوئی تھی۔ صرف عورتیں گرفتارہوئی تھیں ۔ جب جنگ بندی ہوگئی تو ان کے بچے کھچے مرد حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آکردرخواست گزار ہوئے کہ ان کی عورتوں کو رہا کرکے ان پر احسان کردیاجائے۔- یہ سن کر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا تھا کہ جو عورتیں میرے اور بنوعبدالمطلب کے حصے میں آئی ہیں وہ تمہیں واپس کی جاتی ہیں پھر آپ نے لوگوں سے فرمایا کہ جو شخص ملکیت میں آئی ہوئی عورت واپس کردے گا توٹھیک ہے لیکن جو شخص ایسا کرنا نہیں چاہے گا اسے ایک عورت کی رہائی کے بدلے میں پانچ حصے دیئے جائیں گے۔ چناچہ مسلمانوں نے اپنی اپنی قیدی عورتیں رہاکر دیں اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ ان قیدی عورتوں کے ساتھ ان کے شوہر نہیں تھے۔- اگریہ حضرات قول باری (والمحصنات من النساء الاماملکت ایمانکم) کے عموم سے استدلال کریں اس میں شوہروں کے ساتھ اور شوہروں کے بغیر گرفتار ہونے والی عورتوں کے درمیان کوئی فرق نہیں رکھا گیا۔- تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ہم سب کا اس پر اتفاق ہے کہ حکم کا عموم ملکیت کی بناپر تفریق کے ایجاب کے متعلق وارد نہیں ہوا کیونکہ اگر بات اس طرح ہوتی تو لونڈی کی خریداری یا اسے ہبہ کرنے یا میراث میں ہاتھ آجانے کی صورت میں تفریق کا حدوث واجب ہوجاتا اسی طرح نئی پیداشدہ ملکیت کی دوسری صورتوں کا بھی یہی حکم ہوتا۔- لیکن جب ایسا نہیں ہوا توہ میں اس سے یہ معلوم ہوگیا کہ حدوث ملکیت سے تفریق کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ اور یہ بات آیت میں اللہ کی مراد کی نشاندہی کرتی ہے ۔ کیونکہ گرفتارشدہ عورت کی اس کے شوہر سے تفریق واجب کرنے والے مفہوم کے اندر اللہ کی مراد دو میں سے ایک بات ہوسکتی ہے یا تو اس سے اختلاف دارین مراد ہے یاحدوث ملکیت۔ لیکن سنت کی دلیل نیز ہمارے ساتھ فریق مخالف کا اتفاق دونوں باتیں ملکیت کے حدوث کی بناپرتفریق کے ایجاب کی نفی کرتی ہیں۔ اس بات نے یہ فیصلہ کردیا کہ آیت میں اختلاف دارین مراد ہے اور سے کوئی تعلق نہیں ۔- ہم نے اس حکم میں اختلاف دارین کو سبب قراردیا ہے اس پر یہ بات دلالت کرتی ہے۔ اگر میاں بیوی دونوں مسلمان ہوکریاذمی بن کردارالحرب سے دارالاسلام چلے آئیں تو ان میں علیحدگی واقع نہیں ہوگی کیونکہ اس صورت میں اختلاف دارین کا مفہوم نہیں پایا گیا۔- یہ اس بات کی دلیل ہے کہ گرفتارشدہ عورت اور اس کے شوہر کے درمیان تفریق کا موجب اختلاف دارین ہے جبکہ عورت کو تنہاگرفتارکرلیاجائے اس پر یہ بات بھی ولالت کرتی ہے کہ حربی عورت جب مسلمان یاذمی بن کردارالاسلام میں آجائے اور اس کے بعد اس کا شوہر بھی اس کے پاس نہ آجائے تو ایسی صورت میں بالاتفاق تفریق واقع ہوجائے گی۔- اللہ تعالیٰ نے دارلحرب سے ہجرت کرکے دارالاسلام میں آجانے والی عورتوں کے متعلق یہی حکم دیا ہے چناچہ ارشاد باری ہے (ولاجناح علیکم ان تنکحوھن اذا اتیتموھن اجورھن، اور تم پر ان عورتوں سے نکاح کرلینے میں اپنے کوئی گناہ نہیں ہے جب تم ان کے مہرا نہیں اداکردو) پھر ارشاد ہوا (ولاتمسکوابعصم الکوافر، اور تم کافرعورتوں کے تعلقات کو مت باقی رکھو) ۔- ابوبکرجصاص کہتے ہیں کہ قول باری (الا ماملکت ایمانکم) ملک یمین کی بناپرہمبستری کی اباحت کا مقتضی ہے کیونکہ ملک کا وجود پایا گیا۔ تاہم نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایک حدیث مروی ہے جسے ہمیں محمد بن ب کرنے بیان کیا، انہیں ابوداؤدنے ، انہیں عمروبن عون نے، انہیں شریک نے قیس بن وہب سے، انہوں نے ابوالوداک سے انہوں نے حضرت ابوسعیدخدری (رض) سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اوطاس کے معرکے میں گرفتارہونے والی عورتوں کے بارے میں فرمایا کہ (لاطاحامل حتی تضع ولا غیرذات حمل حتی تحیض حیضۃ، کسی حاملہ سے وضع حمل تک اور کسی غیرحاملہ سے ایک حیض گذرجانے تک ہمبستری نہ کی جائے۔ )- ہمیں محمد بنب کرنے روایت بیان کی انہیں ابوداؤدنے، انہیں سدیدبن منصورنے ، انہیں ابومعاویہ نے محمد بن اسحاق سے، انہیں یزید بن ابی حبیب نے ابومرزوق سے، انہیں حنش الصنعانی نے حضرت رویفع (رض) بن ثابت انصاری سے کہ حضرت رویفع (رض) نے ایک دن ہمیں دوران خطبہ یہ فرمایا کہ تم لوگوں سے میں وہی باتیں کہوں گا جو میں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنی ہیں۔- آپ نے معرکہ حنین کے دن ارشاد فرمایا تھا (لایحل مری یومن باللہ والیوم الاخران یسقی ماء ہ زرع غیرہ حتی یستبرئھا بحیضۃ، کسی شخص کے لیے جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے یہ حلال نہیں ہے کہ وہ اپنے پانی سے کسی دوسرے کی کھیتی سیراب کرے جب تک کہ ایک حیض کے ذریعے اس کا استبراء رحم نہ کرلے) ۔- ابوداؤدنے اس رائے کا اظہار کیا کہ، یہاں استبراء رحم کے ذکر میں ابومعاویہ کو وہم ہوگیا ہے تاہم ابوسعید خدر (رض) ی سے جو روایت منقول ہے اس میں اس کا ذکردرست ہے۔- ہمیں محمد بن ب کرنے روایت بیان کی ، انہیں ابوداؤدنے ، انہیں النفیلی نے، انہیں مسکین نے، انہیں شعبہ نے یزید بن خمیر سے ، انہوں نے عبدالرحمن بن جبیربن نفیرنے اپنے والد سے، انہوں نے حضرت ابوالدرداء سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک غزوہ میں ایک عورت کو دیکھاجس کے وضع حمل کا وقت قریب آگیا تھا آپ نے اسے دیکھ کر فرمایا ٠ لعل صاحبھا الم بھا۔ شاید اس کے مالک نے اس سے ہمبستری کی ہے) صحابہ کرام نے اثبات میں جواب دیاج سے سن کر آپ نے فرمایا (لقد ھمت ان العنہ لعنۃ تد خل معد فی قبراکیف یورثہ وھولایحل لہ وکیف یستخدمہ وھولایحل لہ، میرا ارادہ ہوگیا تھا کہ میں اسے ایسی لعنت کروں جو قبرتک اس کے ساتھ جائے، یہ شخص اس پیدا ہونے والے بچے کو کس طرح اپنا بیٹابناکردوسرے ورثاء کے ساتھ اسے وارث قراردے گا جبکہ یہ بات اس کے لیے حلال نہ ہوگی کیونکہ یہ اس کے نطفے سے نہیں ہوگا۔- نیزیہ شخص اس پیدا ہونے والے بچے کو غلاموں کی طرح اپنی خدمت پر کی سے لگائے گا جب کہ یہ بات اس کے لیے حلال نہیں ہوگی کیونکہ اس کا نطفہ اس میں شامل ہوگیا ہے۔ )- یہ روایت کسی لونڈی کی ملکیت حاصل کرنے والے شخص کو اس کے ساتھ ہمبستری سے روک رہی ہے جب تک کہ وہ اس کا استبراء رحم کرلے اگر غیرحاملہ ہوا ور جب تک وضع حمل نہ ہواگرحاملہ ہو۔- گرفتارشدہ عورت کے استبراء رحم کے متعلق فقہاء امصار کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے، البتہ حسن بن صالح کا قول ہے کہ اگر اس عورت کا شوہردارالحرب میں موجودہوتو اس پر دوحیض کی عدت گزارنالازم ہے۔- ہم نے حضرت ابوسعیدخدر (رض) ی کی جس روایت کا ذکرکیا ہے اس سے ایک حیض کے ذریعے استبراء رحم کا ثبوت ملتا ہے۔ اس استبراء کو عدت نہیں کہہ سکتے کیونکہ اگر یہ عدت ہوتی تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان گرفتارشدہ عورتوں میں سے جو شوہروں والی ہوتیں اور جو بے شوہرہوتیں دو میں فرق ضرور کرتے۔- اس لیے کہ عدت کا وجوب فراش یعنی ہمبستری کی وجہ سے ہوتا ہے جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فراش اور غیرفراش والی عورتوں کے درمیان فرق نہیں کیا تو اس سے یہ دلالت حاصل ہوئی کہ ایک حیض کے ذریعے یہ استبراء عدت نہیں کہلاسکتا۔- اگر کوئی یہ کہے کہ حضرت ابوسعیدخدر (رض) ی کی مذکورہ روایت کے الفاظ یہ ہیں (اذانقضت عدتھن، جب ان کی عدت گذرجائے) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس استبراء کو عدت کا نام دیاتو اس کے جواب میں یہ کہا جائے گا کہ یہ ہوسکتا ہے کہ یہ الفاظ راوی کے کلام کا جزء ہوں جس نے استبراء کے معنی بیان کرتے ہوئے اسے عدت کا نام دیا۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ عدت کی بنیاداستبراء رحم ہوتی ہے اس لیے مجازاعدت کے اسم کو استبراء پر محمول کرلیا گیا۔- ابوبکرجصاص کہتے ہیں کہ قول باری (والمحصنات من النساء الاماملکت ایمانکم) کے ایک اور معنی بیان کیئے گئے ہیں۔ زمعہ نے زہری سے اور انہوں نے سعیدبن المسیب سے روایت کی ہے کہ اس سے مراد شوہروالی عورتوں ہیں۔ سعیدنے اپنے قول کو اس بات کی طرف راجع کردیا کہ اللہ تعالیٰ نے زناکوحرام قراردیا ہے۔- معمرنے طاوس کے ایک بیٹے سے اور اس نے اپنے والد سے مذکورہ بالاآیت کے متعلق روایت کی ہے کہ طاؤس نے کہا : تمہاری بیوی وہ عورت ہے جس کی ملکیت تمہیں حاصل ہوچکی ہو۔- اللہ تعالیٰ نے زنا کو حرام قراردیا ہے اور تمھارے لیے اس عورت کے سوا کسی سے ہمبستری حلال نہیں ہے جس کی ملکیت تمہیں حاصل ہوچکی ہو۔ ابن ابی نجیع نے مجاہد سے زیربحث آیت کی تاویل میں نقل کیا ہے کہ اس میں زنا سے روکاگیا ہے۔- عطاء بن السائب سے منقول ہیے کہ، ہر شوہروالی عورت (محصنہ) تم پر حرام ہے سوائے اس عورت کے جس کی ملکیت نکاح کی بناپرتمھیں حاصل ہوجائے۔- ابوبکرجصاص کہتے ہیں کہ مذکورہ بالاحضرات کے نزدیک آیت کے معنی یہ ہوئے کہ شوہروں والی عورتیں اپنے شوہروں کے سواسب پر حرام ہیں ۔ چونکہ آیت کے الفاظ میں ان معنوں کا احتمال موجود ہے۔ اس لیے یہ کہنا ممتنع نہیں ہے کہ آیت میں اللہ تعالیٰ کی مراد بھی یہی ہو۔- لیکن اس سے ان معانی کو اختیار کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے جو صحابہ کرام نے آیت کی تاویل کے سلسلے میں اختیار کیا ہے۔ یعنی ایسی گرفتارشدہ عورتوں کے ساتھ وطی کی اباحت جن کے شوہردارالحرب میں موجود ہوں ۔ اس طرح آیت کی تاویل کو دونوں معنوں پر محمول کیا جائے گا لیکن زیادہ ظاہر بات یہ ہے کہ ملک یمین کا اطلاق لونڈی پر ہوتا ہے بیویوں پر نہیں ہوتا اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے لونڈیوں اور بیویوں کے درمیان فرق رکھا ہے۔- چنانچہ ارشاد باری ہے (والذین لفروجھم حافظون الاعلی ازواجھم اؤماملکت ایمانھم، مومن وہ ہیں جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں مگر اپنی بیویوں یا ان عورتوں سے جن کی ملکیت انہیں حاصل ہو) ۔- اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ملک یمین کو بیویوں سے علیحدہ قراردیا اور جب ملک یمین کا لفظ علی الاطلاق مذکورہ ہوتویہ ملکیت میں آئی ہوئی لونڈیوں پر محمول ہوتا ہے، بیویوں پر نہیں۔ حقیقت کے لحاظ سے بھی بات یہی ہے۔ کیونکہ شوہرکو اپنی بیوی کی کوئی ملکیت حاصل نہیں ہوتی۔ اسے تو صرف اس کے ساتھ ہمبستری کی اجازت ہوتی ہے اور وہ اس کے بضع سے لطف اندوز ہوسکتا ہے جو عورت کی ملکیت ہوتی ہے، مرد کی نہیں ۔- آپ دیکھ سکتے ہیں کہ اگر کسی عورت کے ساتھ شبہ کی بناپرہمبسترہ ہوجائے تو مہرپر عورت کا حق ہوگا مرد کا حق ن ہیں ہوگا۔ یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ بیویوں کی کوئی چیز اس کی ملکیت میں نہیں ہوتی ۔ اس لیے قول باری (الاماملکت ایمانکم) کو اس عورت پر محمول کرنا واجب ہے۔ جسکی ملکیت اسے حقیقتاحاصل ہوچی ہو اوریہ عورت وہ ہے جو تم پر فرض کیا گیا ہے) عبیدہ سے مروی ہے کہ بیک وقت چار بیویاں رکھنے کا قانون، قول باری (کتاب اللہ علیکم) میں لفظ کتاب منصوب ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اہل علم کے قول کے مطابق اس کے معنی یہ ہیں۔ کتب اللہ علیکم ذلک، (اللہ نے تم پر یہ فرض کردیا ہے) ۔- اس کے معنی کے بارے میں ایک قول یہ ہے کہ، حرم ذلک کتابا من اللہ علیکم، (تم پر یہ حرام کردیاگیا ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تم پر لکھ دیاگیا ہے) اس معنی میں اس حکم کے وجوب کی تاکید ہے اور ہمیں اس کی فرضیت کے متعلق خبردی گئی ہے اس لیے کتاب کے معنی فرض کے ہیں۔- قول باری ہے (واحل لکم ماوراء ذلکم) عبیدہ سلمانی اور سدی سے مروی ہے کہپانچ سے کم عورتیں تمہارے لیے حلال کردی گئی ہیں کہ تم انہیں اپنے اموال کے ذریعے نکاح کی بنا پر حاصل کرلو، عطاء کا قول ہے کہ تمہاری قریبی رشتہ دار عورتوں میں سے محرم خواتین کے سوا سب تم پر حلال کردی گئی ہیں۔- قتادہ کا قول ہے کہ قول باری (ماوراء ذالکم) سے وہ عورتیں مراد ہیں جن کی ملکیت تمہیں حاصل ہوگئی ہو، ایک قول یہ کہ محرم عورتوں اور چار سے زائد عورتوں کے ماسوا بشرطیکہ تم انہیں اپنے اموال کے ذریعے نکاح کی بنا پر یا ملک یمین کی بنا پر حاصل کرو، ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ ان عورتوں کے ماسوا جنہیں آیت میں محرمات قرار دیا گیا ہے نیز سنت نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں جن کی ممانعت ہے یہ حکم باقی ماندہ عورتوں کے سلسلے میں عام ہے۔- مہرکابیان - ارشاد باری ہے (واحل لکم ماوراء ذالکم ان تبتغوا باموالکم، ان عورتوں کے ماسواتمہارے لیے دوسری تمام عورتیں حلال کردی گئی ہیں بشرطیکہ تم اپنے اموال کے ذریعے انہیں حاصل کرو) اللہ تعالیٰ نے محرمات کے ماسوا دوسری عورتوں کی اباحت کو بضع کے بدل کی شرط کے ساتھ مشروط کردیا ہے اور بضع یعنی نسوانی اعضائے جنس کا بدل مال ہے اس کی دو باتوں پر دلالت ہورہی ہے۔- اول یہ کہ بضع کے بدلے کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایسی چیز ہو جس کا استحقاق مال حوالے کرنے کی صورت میں ہو، دوم یہ کہ مہر وہ چیز ہے جو اموال کہلاتی ہے کیونکہ محرمات کے ماسوا دوسری عورتوں کی اباحت کے سلسلے میں آیت کے اندر ہر شخص کو خطاب کرکے کہا گیا ہے کہ وہ ایسی چیز کے ذریعے بضع حاصل کرے جو اموال کہلاتی ہو جیسا کہ یہ قول باری ہے (حرمت علیکم امھاتکم وبناتکم) اس میں ماؤں اور بیٹیوں کی تحریم کے سلسلے میں ہر شخص کو خطاب ہے۔ آیت زیر بحث میں یہ دلیل موجود ہے کہ ایسی معمولی چیز کا مہرقرار دیاجاناجائز نہیں ہے جس پر اموال کا اطلاق نہ ہوسکتا ہو۔- مہر کی مقدار میں فقہاء کے درمیان اختلاف رائے ہے ، حضرت علی سے منقول ہے کہ مہر دس درہم سے کم نہیں ہوتا، شعبی، ابراہیم، نخعی ، اور دوسرے تابعین نیز امام ابوحنیفہ ، امام ابویوسف، امام محمد، زفر اور حسن بن زیاد کا یہی قول ہے۔- حضرت ابوسعید خدری، حسن، سعید بن المسیب ، اور عطاء بن ابی رباح، کا قول ہے کہ قلیل وکثیر مہر پر نکاح جائز ہوجاتا ہے حضرت عبدالرحمن بن عورف نے سونے کی ایک ڈلی پر نکاح کیا تھا۔- ایک راوی کا کہنا ہے کہ میں نے اس ڈلی کو، ساڑھے تین درہم میں فروخت کیا تھا، کچھ لوگوں کا قول ہے کہ سونے کی ڈلی دس یاپانچ درہم کی ہوتی ہے امام مالک کا قول ہے کہ مہر کی کم ازکم مقدار چوتھائی دینار کی ہے، ابن ابی لیلی، لیث، سفیان ، ثوری ، حسن بن صالح اور امام شافعی کا قول ہے کہ قلیل اور کثیر مال پر نکاح ہوجاتا ہے خواہ وہ ایک درہم ہی کیوں نہ ہو۔- ابوبکرجصاص کہتے ہیں کہ قول باری (واحل لکم ماوراء ذالکم ان تبتغوا باموالکم) اس پر دلالت کررہا ہے کہ جو چیز اموال نہ کہلاتی ہو وہ مہر نہیں ہوسکتی اور یہ کہ مہر کے لیے شرط ہے کہ اسے اموال کا نام دیا جاسکتا ہو آیت کا مقتضی اور اس کا ظاہری یہی ہے۔- اس لیے جس شخص کے پاس ایک یادودرہم ہوں اس کے متعلق یہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ اموال والا ہے ، اس لیے آیت کے ظاہر کے مقتضی کی رو سے ایک یادودرہم کا مہر قرار پانا درست نہیں ہے۔- اگریہ کہاجائے کہ جس شخص کے پاس دس درہم ہوں اس کے متعلق بھی تو یہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ اموال والا ہے اور آپ نے دس درہموں کو مہرقرار دے دیا، تو اس کے جواب میں یہ کہاجائے گا کہ بلاشبہ ظاہر آیت کا مقتضی یہی ہے کہ دس درہم کی رقم مہر نہیں ہے لیکن ہم نے اجماع کی بنا پر اسے جائز قرار دیا ہے ، کیونکہ اجماع کی بنا پر آیت کی تخصیص جائز ہوتی ہے۔- نیز حرام بن عثمان نے حضرت جابر کے دو بیٹوں سے اور انہوں نے اپنے والد حضرت جابر سے روایت کی ہے حضور نے فرمایا، (لامھر اقل من عشرۃ دراھم، دس درہم سے کم کوئی مہر نہیں ہوتا، حضرت علی کا بھی قول ہے کہ دس درہم سے کم کوئی مہر نہیں ہوتا۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اجتہاد اور رائے کے حوالے سے اس قسم کی مقادیر کی جو خالص حقوق اللہ میں شمار ہوتی ہیں معرفت حاصل نہیں ہوسکتی ان کی معرفت کا ذریعہ توقیف یعنی شرع کی جانب سے رہنمائی یا اتفاق امت ہے ، حضرت علی کا مہر کی مقدار دس درہم مقرر کرنا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ آپ نے یہ بات توقیف کی بنا پر کہی ہے۔- اس کی نظیر وہ روایت ہے جو حیض کی کم سے کم اور زیادہ سے زیادہ مدت کے متعلق حضرت انس سے مروی ہے یہ بالترتیب تین دن اور دس دن ہے اسی طرح حضرت عثمان بن ابی العاص ثقفی سے نفاص کی زیادہ سے زیادہ مدت کے متعلق روایت ہے کہ یہ چالیس دن ہے۔- ظاہر ہے ان حضرات نے یہ مدتیں توقیف کی بنیاد پر بیان کی ہیں کیونکہ یہ باتیں اجتہاد اور رائے کی بنا پر نہیں کہی جاسکتیں اسی طرح حضرت علی سے مروی ہے کہ نمازی جب آخری قعدہ میں تشہد کی مقدار بیٹھ جائے گا، تو اس کی نماز پوری ہوجائے گی ، حضرت علی نے فرض کی ادائیگی کے لیے تشہد کی جو یہ مقدار مقرر کی ہے وہ اس پر دلالت کرتی ہے کہ آپ نے یہ بات توقیف کی بنیاد پر کہی ہے۔- ہمارے بعض اصحاب نے دس درہم کی مقدار کے لیے یہ استدلال کیا ہے کہ بضع یعنی اندام نہانی ایک ایسا عضو ہے جسے مال کے بدلے ہی اپنے لیے مباح کیا جاسکت ا ہے اس لیے یہ حد سرقہ میں قطع ید کے مشابہ ہوگیا، جب ہاتھ ایک ایساعضو ہے جسے مال کے بغیر مباح نہیں کیا جاسکت ا اور مال کی مقدار جس کی چوری کے بدلے ہاتھ کاٹ ڈالنا مباح ہوجاتا ہے اسے فقہاء کے اصول کے مطابق دس درہم ہے اس لیے مہر کا بھی اسی پر اعتبار کیا جائے گا۔- نیز جب سب کا اس پر اتفاق ہے کہ بضع کو اپنے لیے بدل کے بغیر مباح کرلیناجائز نہیں ہے اور بدل کی مقدار کے بارے میں اختلاف رائے ہے اس لیے بضع کے سلسلے میں ممانعت کا باقی رہنا واجب ہے یعنی اسے اس صورت کے سوا جس میں اس کے جواز کی دلیل قائم ہوجائے کسی اور صورت میں مباح نہیں کیا جاسکتا۔- جواز کی دلیل دس درہم ہے جس پر سب کا اتفاق ہے اور اس سے کم کی مقدار میں اختلاف ہے اس لیے کم کی صورت میں بضع کی ممانعت بحالہ باقی رہے گی۔- نیز جب بدل کے بغیر بضع کو مباح کرلیناجائز نہیں توپھریہ ضروری ہے کہ مہر مثل کی بدل قرار دیاجائے یہی بدل صحیح معنی میں بضع کی قیمت بن سکتا ہے نیز یہ بھی ضروری ہے کہ دلالت کے بغیر اس میں کمی نہ کی جائے۔- آپ دیکھ سکتے ہیں اگر کسی نے کسی عورت سے مہر مقرر کیے بغیر نکاح کرلیا تو بیوی کے لیے واجب ہونے والابدل اس کا مہر مثل ہوگا اسمیں اس بات کی دلیل موجود ہے کہ عقد نکاح مہر مثل کو واجب کردیتا ہے اس بنا پر کہ ی بات کسی طرح جائز نہیں کہ نکاح نے جس چیز کو واجب کردیا ہے اس کا کوئی حصہ دلالت کے بغیرساقط کردیاجائے۔- اب اجماع کی دلالت تو یہ ہے کہ دس درہم سے زائد مقدار کو ساقط کرنا جائز ہے اور اس سے کم کی مقدار کے متعلق اختلاف رائے ہے اس لیے ضروری ہے کہ مہر مثل واجب رہے جسے عقد نکاح نے واجب کردیاکیون کہ مہر مثل کے اسقاط پر کوئی دلیل قائم نہیں ہوتی۔- اگریہ سوال اٹھایاجائے کہ جب اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے (وان ظلمتوھن من قبل ان تمسوھن۔۔ تا۔۔۔ مافرضتم، اگر تم نے انہیں ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دے دی ہو اور ان کے لیے مہر بھی مقرر کیا ہوتومقرر کردہ مہر کا نصف انہیں ادا کرو) تو اس کا تقاضا یہ ہے کہ خواہ مہر تھوڑا ہو یا زیادہ اسکے نصف کی ادائیگی واجب ہے ، تو اس کے جواب میں کہاجائے گا، کہ ہماری مذکورہ بالاوضاحتوں سے جب اس بات کا ثبوت ہوگی ا کہ مہر دس درہم سے کم نہیں ہوتا، تواب دس درہم کے ایک حصے کو مہر کا نام دینااسی طرح ہے جس طرح ان اشیاء میں جن کے حصے اور ٹکڑے نہیں ہوسکتے۔ بعض کو اس نام سے پکارنا گویا کل کو پکارنا ہوتا ہے ، مثلا طلاق ، نکاح، وغیرہ اب چونکہ عقد میں دس کے حصے نہیں ہوسکتے تو اس کے لیے بعض کے لیے جو نام استعمال کیا گیا گویاوہی اس کے کل کے لیے بھی استعمال ہوا۔ اس لیے اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو تعلق زن وشوہونے سے پہلے ہی طلاق دے دے گا تو اس سے دس کا آدھا بطور مہر ادا کرنا ضروری ہوگا، کیونکہ دس درہم ہی حقیقت میں فرض یعنی مقررہ مہر تھا۔- آپ دیکھیے اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو آدھی طلاق دیتا ہے تو وہ اسے ایک پوری طلاق کے تحت مطلقہ بنادیتا ہے اسی طرح اگر اس نے اپنی بیوی کے آدھے حصے کو طلاق دے دی ہوتوگویا اس نے اس کے پورے جسم کو طلاق دے دی۔ اسی طرح اگر کسی نے قتل عمد میں نصف قتل معاف کردیاتوا سے پورے قتل کو معاف کرنے والاسمجھاجائے گا۔- ٹھیک اسی طرح پانچ درہم کو فرض یا مہر کا نام دیناگویادس درہم کو یہ نام دینا ہے کیونکہ یہ دلالت قائم ہوچکی ہے کہ عقد نکاح میں دس کے ٹکڑے نہیں ہوسکتے اس لیے جب ہم طلاق کے بعد پانچ درہم واجب کریں گے تو یہ فرض یعنی مقررہ مہر کا نصف کہلائے گا۔- نیز ہم مفروض یعنی مقررہ مہر کا نصف واجب کرتے ہیں اس لیے ہمارا یہ طرز عمل آی تکے حکم کے خلاف نہیں جاتا اور ہم کسی اور دلالت کی بنا پر پانچ درہم تک اضافے کو بھی واجب کرتے ہیں ہمارا مسلک ایت کے خلاف اسوقت ہوتا اگر ہم نصف فرض یعنی مہر کا نصف واجب نہ کرتے اب جبکہ ہم نے نصف فرض واجب کردیا اور اس پر کسی اور دلالت کی بنا پر اضافے کو بھی واجب کردیاتو اس میں آیت کی کسی طرح مخالفت نہیں ہوئی۔- جن لوگوں کا یہ قول ہے کہ مہر دس درہم سے کم کا بھی ہوسکتا ہے ان کا استدلال عامر بن ربیعہ کی روایت پر ہے کہ ایک عورت حضور کی خدمت میں پیش کی گئی اس نے ایک جوڑے جوتے کے مہر پر کسی سے نکاح کرلیا تھا، حضور نے اس سے پوچھا توجوتے کے ایک جوڑے کے بدلے اپنی جان اور اپنامال حوالے کرنے پر رضامند ہوگئی، اس نے اثبات میں جواب دیا، حضور نے اس نکاح کو جائز قرار دیا۔- اسی طرح ابوالزبیر کی روایت سے بھی ان حضرات نے استدلال کیا ہے جو انہوں نے حضرت جابر سے اور انہوں نے حضور کی آپ کا ارشاد ہے (من اعطی امرۃ فی نکاح کف دقیق اوسویق اوطعاما فقداستحل، جس شخص نے نکاح میں عورت کو ایک مٹھی آٹایاستویاطعام دے دیاتو اس نے اسے اپنے لیے حلال کرلیا) ۔- اسی طرح حجاج بن ارطاۃ کی روایت سے ان حضرات نے استدلال کیا ہے جو انہوں نے عبدالملک بن المغیرہ الطائفی سے روایت کی ہے انہوں نے عبدالرحمن بن السلمانی سے کہ حضور نے ایک دن دوران خطبہ ارشاد فرمایا (انکحوالایامی منکم، تمہارے خاندانوں میں جو عورتین بیوہ ہیں ان کا نکاح کرادو) ۔- صحابہ نے عرض کیا ، ان کے نکاح کا ذریعہ یعنی مہر کیا ہوگا، آپ نے فرمایا (ماتراضی بہ الاھلون، جس پر طرفین کے کنبے والے رضامند ہوجائیں اس روایت سے بھی ان کا استدلال ہے کہ آپ نے فرمایا، (من استحل بدرھمین فقد استحل، جس شخص نے دودرہم کا مہر دے کر کسی کو اپنے لیے حلال کرلیا اس نے فی الواقع حلال کرلیا، نیز یہ روایت بھی کہ حضرت عبدالرحمن بن عوف نے سونے کی ایک ڈلی پر نکاح کرلیا تھا، اور اس کی اطلاع حضور کو دی تھی ، تو آپ نے فرمایا تھا، اولم ولوبشاۃ، ولیمہ ضرور کروخواہ ایک ہی بکری ہی ذبح کرلو) آپ نے سونے کی ایک ڈلی پر مہر نکاح کے متعلق کسی ناپسندیدگی کا اظہار نہیں فرمایا۔- ایک اور روایت بھ ہے جس کے راوی ابوحازم ہیں انہوں نے حضرت سہل بن سعد سے ایک عورت کا واقعہ بیان کیا کہ وہ حضور کی خدمت میں آکرعرض کرنے لگی کہ ، میں اپنی ذات آپ کو ہبہ کرتی ہوں، آپ نے فرمایا، کہ مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے پاس ہی موجود ایک شخص نے عرض کیا، آپ اس کے ساتھ میرانکاح کرادیجئے۔- آپ نے اس سے پوچھا تمہارے پاس اسے مہر میں دینے کے لیے کچھ ہے ، اس نے عرض کیا میرے پاس تو بس میرایہ تہمد ہے آپ نے فرمایا اگر تم اسے اپناازار دے دوگے تو تم تہمد کے بغیر بیٹھ رہو گے۔- پھر آپ نے اس سے فرمایا، مہر کے لیے کوئی چیز تلاش کرو خواہ وہ لوہے کی انگوٹھی کیوں نہ ہو، اس طرح آپ نے مہر کے لیے لوہے کی ایک انگوٹھی کی اجازت دے دی، اور لوہے کی انگوٹھی ظاہر ہے دس درہم کی نہیں ہوتی۔- نعلین کے مہر پر نکاح کی اجازت کا جواب یہ ہے کہ یہ دس یا اس سے زائد درہم کے ہوسکتے ہیں ، اس لیے اختلافتی نکتے پر اس کی کوئی دلالت نہیں ہوسکتی ، کیونکہ اس شخص نے جوتے کے ایک جوڑے پر نکاح کیا تھا، اور پھر حضورکواس کی اطلاع دی تھی۔- یہ بھی ممکن ہے کہ جوتے کے دیے ہوئے جوڑے کی قیمت دس درہم یا اس سے زائد ہو، لفظ کے عموم میں اس بات کی دلالت موجود نہیں کہ جوتوں کا جوڑا چاہے جس قسم کا بھی ہو اس پر نکاح کی اباحت ہوجاتی ہے اس لیے مخالف کے قول پر اس کی دلالت نہیں ہوسکتی، نیز حضور نے نکاح کے جواز کی اسے اطلاع دی اور نکاح کا جواز اس پر دلالت نہیں کرتا کہ جوتوں کا جوڑا ہی مہر ہوسکتا ہے اس کے سوادوسری کوئی چیز مہر نہیں بن سکتی ، کیونکہ اگر وہ مہر کے بغیر بھی نکاح کرلیتا پھر بھی نکاح جائز ہوجاتا۔- نکاح کے جواز سے اس پر بھی دلالت نہیں ہوئی کہ عورت کے لیے کوئی مہر نہیں ٹھیک اسی طرح دس درہم سے کم قیمت والے جوتے کے ایک جوڑے پر نکاح کے جواز میں یہ دلالت موجود نہیں کہ ان کے سوا اور کوئی چیز واجب نہیں ہوتی، رہ گیا حضور کا یہ ارشاد کہ ، جس نے دودرہم یا ایک مٹھی آٹے کے مہر پر کسی عورت کو اپنے لیے حلال کرلیا توفی الواقع اس نے حلال کرلیاتو اس میں ملک بضع کی خبر دی گئی ہے۔- اس میں یہ دلالت موجود نہیں ہے کہ اس کے سوا اور کوئی چیز واجب نہیں ہوتی ، اسی طرح حضرت عبدالرحمن بن عوف کی یہ روایت کہ انہوں نے سونے کی ایک ڈلی پر نکاح کرلیا تھا، جس کی قیمت ایک روایت کے مطابق پانچ یادس درہم تھی، رہ گیا آپ کا یہ قول کہ علائق یعنی لوازم یا ذرائع وہ ہیں جن پر طرفین کے کنبے والے رضامند ہوجائیں تو یہ اس چیز پر محمول ہوگا، جو شریعت کے لحاظ سے جائز قرار دی جاسکتی ہو۔- آپ نہیں دیکھتے کہ اگر طرفین کے خاندان والے شراب یاخنزیر پر رضامند ہوجائیں یا ایک جانب سے یہ شرط لگادی جائے کہ یہ نکاح اس وقت ہوگا جبکہ دوسری جانب والے اپنی بہن یابیٹی کا نکاح مہر کے بغیر ہمارے ساتھ کردیں تو ان تمام صورتوں میں ان کی باہمی رضامندی جائز متصور نہیں ہوگی۔- یہی بات مہر کے تعین میں باہمی رضامندی کے اندر بھی چلے گی یعنی اس مہر کے تعین پر باہمی رضامندی کی درست قرار دیاجائے گا جس کا حکم شریعت میں ثابت ہوچکا ہو اور وہ دس درہم کا تعین ہے ، حضرت سہل بن سعد کی روایت کی تاویل یہ ہے کہ حضور نے اس شخص کو اس عورت کے لیے فوری طور پر کوئی چیز پیش کرنے کا حکم دیا تھا۔- ان ہی معنوں پر آپ کے کلام کو محمول کیا جائے گا، اس لیے کہ اگر آپ کا ارادہ مہر کے تعین کا ہوتا جس کے ذریعے عقد نکاح درست ہوجاتا تو آپ اس سے یہ سوال کرنے کی بجائے کہ فوری طور پر وہ کیا پیش کرسکتا ہے اس کے ذمہ مہر کی وہ مقدار لازم کردینے پر اکتفا کرلیتے جس کے ذریعہ عقد نکاح کی صحت عمل میں آجاتی۔- اس لیے آپ کا یہ قول اس پر دلالت کررہا ہے کہ آپ نے اس سے وہ چیز مراد نہیں لی جس کا مہر بنادرست ہوسکتا ہویہی وجہ ہے کہ جب آپ کو اس کے پاس کوئی چیز نہیں ملی تو آپ نے فرمایا میں اس کے ساتھ تمہار انکاح قرآن کے ان اجزاء پر کردیتا ہوں جو تمہیں یاد ہیں حالانکہ قرآن کے جو اجزاء سے یاد تھے انہیں مہر نہیں کیا جاسکتا اس لیے آپ کے اس قول سے ہمارے ذکر کردہ نکتے کی صحت پر دلالت ہوتی ہے۔- اگر کوئی شخص کسی عورت سے اس شرط پر نکاح کرلیتا ہے کہ وہ اس کی ایک سال تک خدمت کرے گا تو اس نکاح کے حکم کے متعلق فقہاء میں اختلاف رائے ہے۔- امام ابوحنیفہ اور امام ابویوسف کا قول ہے کہ ایک سال تک خدمت کی شرط پر اگر کسی نے نکاح کرلیا توآزاد مرد ہونے کی صورت میں عورت کو مہر مثل ملے گا، اور غلام ہونے کی صورت میں وہ ایک سال تک اس کی خدمت کرے گا۔- امام محمد کا قول ہے کہ اگر وہ شخص آزاد ہوگاتو عورت کو اس کی خدمت کی قیمت ادا کی جائے گی، امام مالک کا قول ہے کہ اگر کوئی شخص کسی عورت سے اس شرط پر نکاح کرتا ہے کہ وہ اپنی ذات کو ایک سال یا اس سے زائد یا اس سے کم عرصے کے لیے اجارے پر عورت کے حوالے کردے گا اور یہی اس کا مہر ہوگاتوتعلق زن وشو نہ ہونے کی صورت میں اس نکاح فسخ ہوجائے گا بصورت دیگر اس کا نکاح ثابت ہوجائے گا۔- اوزاعی کا قول ہے کہ اگر کسی شخص نے کسی عورت سے اس شرط پر نکاح کرلیا کہ وہ اسے حج کرائے گا، پھر تعلق زن وشوہونے سے قبل ہی اسے طلاق دے بیٹھا تو وہ اس عورت کو حج کے سلسلے میں سواری ، لباس اور اخراجات کا نصف بطور تاوان ادا کرے گا۔- حسن بن صالح اور امام شافعی کا قول ہے کہ ایک سال کی خدمت کے عوض نکاح جائز ہے بشرطیکہ ایک سال کے وقت کا تعین کردیاجائے امام ابوحنیفہ ، امام ابویوسف ، اور امام ماھمد کا قول ہے کہ اگر کوئی شخص کسی ورت سے اس شرط پر نکاح کرلے کہ وہ اسے قرآن کی ایک سورت سکھادے گا تویہ مہر نہیں ہوگا اور عورت کو مہر مثل ملے گا۔- امام مالک اور لیث بن سعد کا بھی یہی قول ہے ، امام شافعی کا قول ہے کہ یہی اس کا مہر ہوگا لیکن اگر اس نے تعلق زن وشو ہونے سے قبل اسے طلاق دے دی توسورت کی تعلیم کی تکمیل کی صورت میں تعلیم کی نصف اجرت اس عورت سے وصول کرے گا۔ امام شافعی سے المزنی نے اس قول کی روایت کی ہے لیکن ربیع کی روایت کے مطابق مہر مثل کا نصف اس عورت سے وصول کرے گا۔- ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ قول باری (واحل لکم ماوراء ذالکم ان تبتغوا باموالکم) اس بات کا مقتضی ہے کہ بضع نسوانی اعضائے جنس کا بدل ایسی چیز ہو جس کا استحقاق مال حوالے کرنے کی صورت میں ہو۔- اس لیے قول باری ) (ان تبتغوا باموالکم ) میں دومعنوں کا احتمال ہے ، اول بضع کے بدل کے طور پر مال کی تملیک ، دوم ، مال کے منافع ہوں گے جن کی وجہ سے وہ مال کو عورت کے حوالے کرنے کے قابل سمجھا جائے گا، کیونکہ قول باری (ان تبتغوا باموالکم ) ان دونوں معنوں پر مشتمل اور ان دونوں معنوں کا مقتضی ہے۔- مہر کا حکم یہ ہے کہ وہ مال ہو اس پر یہ قول باری دلالت کرتا ہے (واتوالنساء صدقتھن نحلہ، فان طبن لکم عن شی منہ نفسا فکلوہ ھنیاء مریا، اور عورتوں کے مہر خوش دلی کے ساتھ فرض جانتے ہوئے ادا کرو، البتہ اگر وہ خود اپنی خوشی سے مہر کا کا کوئی حصہ تمہیں معاف کردیں توا سے تم مزے سے کھاسکتے ہو) ۔- یہ دلالت اس طرح ہے کہ قول باری (واتوالنساء صدقاتھن نحلہ) امر کا صیگہ ہے جس کا ظاہر ایجاب کا مقتضی ہے اور اسکے مفہوم کی اس پر دلالت ہورہی ہے کہ مہر مال کی صورت میں ہونا چاہیے یہ دلالت دو وجہ سے ہورہی ہے۔- اول : قول باری (واتو) کے معنی ، اعطوا کے ہیں، اور اعطاء یعنی عطا کرنا اعیان یعنی نقود و اسباب میں ہوتا ہے منافع میں نہیں ہوتا، کیونکہ منافع میں اعطاء کے حقیقی معنی پیدا نہیں ہوسکتے۔- دوم : قول باری (فان طبن لکم عن شئی منہ نفسا فکلوہ ھنیاء مریا) اور یہ صورت منافع میں پیدا نہیں ہوسکتی، یہ صورت صرف اشیائے خوردنی میں یا ایسی چیز میں پیدا ہوسکتی ہے کہ جسے اعطاء کے بعد خوردنی اشیاء میں تبدیل کیا جاسکتا ہو اس لیے آیت کی دلالت اس بات پر ہورہی ہے کہ منافع کو مہر قرار نہیں دیا جاسکتا۔- اگریہ کہاجائے کہ اس وضاحت کی روشنی میں غلام کی خدمت کو بھی مہر قرار د نہیں دیا جاسکتا۔ تو اس کے جواب میں کہاجائے گا کہ ظاہر آیت کا اقتضاء آیت کا اقتضاء یہی ہے ، اور اگر اس کے لیے دلالت قائم نہ ہوجاتی تو یہ ہرگز جائز نہ ہوتی۔- مہر کے سلسلے میں زیربحث مسئلے پر یہ بات بھی دلالت کرتی ہے کہ حضور نے نکاح شغائر سے منع فرمایا ہے ، جس کی صورت یہ ہے کہ کوئی شخص کسی شخص سے اپنی بہن ، بیٹی ، یا لونڈی کا نکاح کردے اور طرفین کے ان دونوں نکاحوں میں کوئی مہر مقررنہ کیا جائے۔- یہ چیز اس بات کی اصل اور بنیاد ہے کہ مہر صرف وہی چیز ہوسکتی ہے جس کا استحقاق مال حوالے کرنے کی صورت میں ہو، جب حضور نے اس چیز کو باطل قرار دیا کہ منافع بضع کو مہر بنادیاجائے کیونکہ یہ مال نہیں ہے تو اس کی اس مفہوم پر دلالت ہوگئی کہ بضع کے بدل کے طور پر ہر ایسی چیز کی شرط جس کا استحقاق مال حوالے کرنے کی صورت میں نہ ہو، مہر قرار نہیں دیا جاسکتی۔- ہمارے اصحاب کا بھی اس سلسلے میں یہ قول ہے کہ اگر قتل عمد میں خون معاف کرنے یافلاں بیوی کو طلاق دینے کی شرط پر کوئی شخص کسی عورت سے نکاح کرلیتا ہے تو یہ بھی اسی طرح مہر نہیں بن سکتی جس طرح منافع بضع مہر نہیں بن سکتے ، امام شافعی نے نکاح شغار کے سلسلے میں یہ کہا ہے کہ اگر طرفین میں سے کسی ایک نکاح کا بھی مہر مقرر کردیاجائے تو نکاح جائز ہوجائے گا، اور دونوں عورتوں میں سے ہر ایک کو مہر مثل ملے گا۔- امام شافعی نے جس صورت میں نکاح کو جائز قرار دیا ہے اس میں بضع کو مہر قرار نہیں دیادوسری طرف حضور نے نکاح شغار سے منع فرمادیا ہے۔- اس صورت حال کی دو باتوں پر دلالت ہوتی ہے اول یہ کہ اگر نکاح شغار دولونڈیوں کی صورت میں ہو توپھر منافع بضع ہی مہر قرار دیاجائے گا، کیونکہ آقا مہر کا حق دار ہوتا ہے حالانکہ حضور نے منافع بضع کو نکاح کا بدل بننے کی ممانعت فرماکر اسے باطل قرار دیا ہے۔- دوم اگر نکاح شغار دوآزاد عورتوں کی صورت میں ہورہا ہو اورطرفین میں سے ایک دوسرے سے یوں کہے ، میں اپنی بہن کا نکاح تیرے ساتھ اس شرط پر کررہاہوں کہ تو اپنی بیٹی کا میرے ساتھ نکاح کردیگا، تو یہ عقد ان دونوں عورتوں میں سے کسی کے لیے مہر کے ذکر سے یکسر خالی ہوگا، اس لیے کہ اس عقد میں منافع کی شرط ایک ایسے فرد کے لیے لگائی گئی ہے جو منکوحہ کے علاوہ کوئی اور ہے اور وہ ولی ہے۔- اس طرح ان دونوں صورتوں میں سے ایک کے اندر شغار کا نکاح منکوحہ کے لیے بدل کے ذکر سے خالی ہوگا، اور دوسری صورت کے اندر بضع کا بدل کسی اور بضع کے منافع کی شکل میں مقرر ہوگا، حالانکہ حضور نے اسے بدل بننے سے روک دیا ہے۔ اس طرح یہ بات بھی اس قاعدے کی اصل اور بنیاد بن جائے گی، کہ بضع کے بدل کی شرط یہ ہے کہ اس کا استحقاق مال کی حوالگی کی صورت میں پایاجائے۔ اگر یہ کہاجائے کہ لونڈی کے بضع کے منافع مال کے اندر ایک حق کی صورت میں ہوتے ہیں تو یہ بات غلام سے خدمت لینے کی شرط پر نکاح کرانے کی صورت کے مشابہ کیوں نہیں قرار دی گئی۔- تو اس کے جواب میں کہاجائے گا کہ مشابہ قرار دینے کی وجہ یہ ہے کہ غلام کی خدمت کی صورت میں مال کی حوالگی کا استحقاق پیدا ہوجاتا ہے اور یہ مال غلام کی گردن یعنی اس کی ذات ہے جو حوالے ہوجاتی ہے جس طرح کہ غلام کو اجارے پر لینے والے شخص کو یہ استحقاق پیدا ہوجاتا ہے کہ خدمت کے لیے غلام اس کے حوالے کردیاجائے ۔- اس کے برعکس لونڈی کے شوہر یہ استحقاق نہیں ہوتا کہ عقد نکاح کی بنا پر لونڈی اس کے حوالے کردی جائے کیونکہ آقا کو یہ اختیار ہوتا ہے کہ وہ لونڈی کو اپنے شوہر کے ساتھ رات گذارنے کی اجازت نہ دے، جبکہ قول باری (ان تبتغوا باموالکم، کا اقتضاء یہ ہے کہ عقد نکاح کی بنا پر بضع کے بدل کے طور پر مال کی حوالگی کا اس پر استحقاق ہوجائے۔- قرآن کی ایک سورت کی تعلیم پر نکاح کرادینے کے مسئلے میں یہ تعلیم دو وجہ سے مہر قرار نہیں دی جاسکتی، اول جیسا کہ ہم ذکر کر آئے ہیں کہ اس کے ذریعے مال کی حوالگی کا استحقاق نہیں ہوتا۔ جس طرح کسی آزاد انسان کی خدمت کو مہر مقرر کرنے کی صورت میں مال کی حوالگی کا استحقاق نہیں ہوتا۔ دوم یہ کہ قرآن کی تعلیم فرض کفایہ ہے اس لیے جو شخص بھی کسی کو قرآن کی تعلیم دے گا وہ اپنا ایک فرض ادا کرے گا۔- حضرت عبداللہ بن عمر نے حضور سے روایت کی ہ یکہ آپ نے فرمایا، بلغواعنی ولوایہ، میری طرف سے لوگوں کو پہنچاؤ خواہ وہ ایک آیت ہی کیوں نہ ہو، اس لیے یہ کیسے جائز ہوسکتا ہے کہ تعلیم قرآن کو بضع کا بدل قرار دے دیاجائے، اگر یہ بات جائز ہوتی تو تعلیم اسلام پر بھی نکاح جائز ہوجاتا۔- حالانکہ یہ باطل ہے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان پر جس کام کا کرنا واجب قرار دیا ہے ، جب وہ یہ کام کرے گا، تو وہ اپنافرض ادا کرے گا، اس پر وہ کوئی دنیاوی چیز لینے کا مستحق قرار نہیں پائے گا، اگر یہ بات جائز ہوجائے توحکام کے لیے فیصلوں کی بنا پر رشوت خوری جائز ہوجائے، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اسے حرام کی خبیث کمائی قرار دیا ہے۔- اگر کوئی شخص اس سلسلے میں حضرت سہل بن سعد کی حدیث سے استدلال کرتا ہے جس میں اس عورت کا واقعہ بیان کیا گیا ہے ، جس نے اپنی ذات حضور کے لیے ہبہ کردی تھی پھر ایک شخص نے عرض کیا تھا کہ اس کا نکاح میرے ساتھ کردیجئے، آپ نے اس شخص سے دریافت فرمایا تھا کہ کیا تمہیں قرآن کی کوئی سورت یاد ہے ؟ اس نے جواب میں عرض کیا تھا کہ ہاں، فلاں سورت یاد ہے، یہ سن کر آپ نے فرمایا تھا کہ قرآن کے اس حصے پر جو تمہارے پاس ہے میں نے تمہارا اس عورت سے نکاح کرادیا۔- اس طرح اگر استدلال میں وہ حدیث پیش کی جائے جس کی ہمیں محمد بن بکر نے روایت کی ہے انہیں ابوداؤد نے ، انہیں احمد بن حفص بن عبداللہ نے ، انہیں ان کے والد نے انہیں ابراہیم بن طہمان نے حجاج باہلی سے ، انہوں نے عسل سے انہوں نے عطاء بن ابی رباح سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ سے ۔- یہ روایت بھی عورت کے واقعہ کے متعلق حضرت سہل بن سعد کی روایت سے ملتی جلتی ہے اس میں یہ ذکر ہے کہ حضور نے اس شخص سے دریافت کیا کہ تمہیں قرآن کی کون سی سورت یاد ہے ؟ اس نے جواب دیا، مجھے سورة بقرہ یا اس سے متصل سورت یاد ہے ، اس پر آپ نے فرمایا، جاؤ اس عورت کو بیس آیتیں پڑھادو یہ تمہاری بیوی ہوگئی۔- اگر اس استدلال میں یہ روایتیں پیش کی جائیں تو جواب میں کہاجائے گا، کہ حضور سے مروی حدیث کے الفاظ (قدزوجتکھا بمامعک من القرآن) کے معنی ، لمامعک من القرآن، کے ہیں، یعنی میں نے اس عورت کا تم سے نکاح قرآن کے اس حصے کی بنا پر کرادیا جو تمہارے پاس ہے ، جس طرح کہ قول باری (ذالکم بماکنتم تفرحون فی الارض بغیرالحق وبماکنتم تمرحون، یہ اس وجہ سے ہے کہ تم زمین میں ناحق خوش ہوتے اور اتراتے تھے) ۔- یہاں (بماکنتم) کے معنی، لماکنتم، کے ہیں ، یعنی اس وجہ سے کہ تم خوش ہوتے اور اتراتے تھے ، نیز قرآن کا اس کے پاس ہونا اس کے بدل بن جانے کا موجب نیہں ہے اس روایت میں تعلم کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ اس سے ی بات ہمیں معلوم ہوئی کہ آپ اس قول سے یہ مراد تھی کہ عظمت قرآن کی بنا پر نیز اس بنا پر کہ قرآن کا ایک حصہ تمہارے سینے میں ہے میں نے اس عورت سے تمہارا نکاح کرادیا۔- اس کا وہی مفہوم ہے جو اس روایت کا ہے جس کے راوی عبداللہ بن عبداللہ بن ابی طلحہ ہیں ، جنہوں نے حضرت انس سے روایت کی ہے کہ ابوطلحۃ نے ام سلیم کو پیغام نکاح دیا۔ ام سلیم نے کہا کہ میں اس شخص یعنی حضور پر ایمان لے آئی ہوں، اور یہ گواہی دیتی ہوں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں ، اگر تم اس معاملے میں میرے نقش قدم پر چلو گے تو میں تم سے نکاح کرلوں گی۔- ابوطلحۃ نے جواب دیا کہ میں بھی اس معاملے میں تمہارے اختیار کردہ طریقے پر ہوں۔ اس پر ام سلیم نے ابوطلحۃ سے ، اسلام کی خاطر نکاح کیا تھا، ورنہ اسلام حقیقت میں کسی کے لیے مہر نہیں بن سکتا۔- یہ تو رہی پہلی روایت کی تاویل، رہ گئی ، ابراہیم بن طہمان کی رویات و اس کی سند ضیعف ہے اس واقعہ کو امام مالک نے ابوحازم سے اور انہوں نے سہل بن سعد سے نقل کیا ہے اس میں یہ ذکر نہیں ہے کہ آپ نے فرمایا، اس عورت کو پڑھادو۔- امام مالک کی یہ روایت ابراہیم بن طہمان کی روایت کے معارض بھی نہیں ہے اگر یہ روایت درست بھی مان لی جائے تو اس میں یہ دلالت موجود نہیں ہے کہ آپ نے تعلیم قرآن کو مہر قرار دیا، کیونکہ اس بات کا امکان موجود ہے کہ آپ نے اسے عورت کو قرآن پڑھانے کا حکم دیا، ہو اورمہراس کے ذمے باقی ہو، آپ نے یہ تو نہیں فرمایا کہ قرآن کی تعلیم اس عورت کے لیے مہر ہے۔- اگریہ کہاجائے کہ ارشاد باری ہے (انی ارید ان انکحک احدابنتی ھاتین علی ان تاجرنی ثمانی حجج، میں اپنی ان دو بیٹیوں میں سے ایک کا تمہارے ساتھ اس شرط پر نکاح کردیناچاہتوں کہ تم آٹھ برسوں تک میرے ہاں کام کرو گے ، اس میں آزاد فرد یعنی حضرت موسیٰ کے منافع کو بضع کا بدل بنادیا گیا۔- تو اس کے جواب میں کہاجائے گا کہ منافع کو عورت کے لیے مشروط نہیں کیا گیا، بلکہ انہیں حضرت شعیب کے لیے مشروط کیا گیا تھا، اور باپ کے لیے مشروط کی ہوئی چیز مہر نہیں ہوتی، اس لیے زیر بحث مسئلہ میں اس سے استدلال غلط ہے۔- نیزاگریہ درست بھی ہوجائے کہ منافع کو حضرت موسیٰ کی بیوی کے لیے مشروط کیا گیا تھا اور حضرت شعیب نے ان کی نسبت اپنی طرف اس لیے کرلی تھی ، کہ عقد نکاح کے متولی اور کارپردازوہی تھے یا اس لیے کہ ولد کے مال کی نسبت والد کی طرف ہوتی ہے ، جیسا کہ حضور کا ارشاد ہے ، انت ومالک لابیک، تو اورتیرامال سب تیرے باپ کا ہے۔ تو یہ کہاجائے گا کہ نکاح شغار کی نہی کے سبب اب یہ حکم منسوخ ہوچکا ہے۔- قول باری (ان تبتغوا باموالکم) اس پر دلالت کرتا ہے کہ لونڈی کو آزاد کردینا اس کے لیے مہر نہیں بن سکتا، کیونکہ آیت کا اقتضاء یہ ہے کہ بضع کا بدل ایسی چیز ہو جس کی بنا پر لونڈی کو مال کرنے کا استحقاق پیدا ہوجائے اور آزادی دینے کی صورت میں کسی مال کی حوالگی عمل میں نہیں آتی بلکہ اس میں صرف ملکیت کا اسقاط ہوتا ہے اور یہ نہیں ہوتا کہ اس کی وجہ سے مال لونڈی حوالے کردینے کا استحقاق ہوجائے۔- آپ دیکھ سکتے ہیں کہ رق، یعنی غلامی، جس کا آقا مالک ہوتا ہے لونڈی کی طرف منتقل نہیں بلکہ عتق کے ذریعے صرف آقا کی ملکیت کا خاتم ہوجاتا ہے اس لیے جب آزادی ملنے کی بنا پر لونڈی کو کوئی مال ہاتھ نہیں آتا یا کوئی مال اس کے حوالے کرنے کا حق اسے حاصل نہیں ہوتا توعتق مہر نہیں بن سکتا۔- حضور سے یہ جو مروی ہے کہ آپ نے حضرت صفیہ کو آزاد کردیا تھا اور اس آزادی کو ان کے لیے مہر مقرر دیا تھا، تو اس کی وجہ یہ تھی کہ آپ کے لیے مہر کے بغیر نکاح کرنا جائز تھا یہ صرف آپ کی خصوصیت تھی ، امت کے لیے یہ حکم نہیں تھا۔- چنانچہ ارشاد باری ہے (وامرۃ مومنۃ ان وھبت نفسھا للنبی ان ارادالنبی ان یستنکحھا خالصہ لک من دون المومنین، اگر ایک مومن خاتون اپنی ذات نبی کریم کے لیے ہبہ کردے اگر (نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) اسے اپنے نکاح میں لیناچا ہیں یہ حکم خالص آپ کے لیے ہے ، اہل ایمان کے لیے نہیں) ۔- اس طرح حضور کی یہ خصوصیت تھی کہ آپ کسی بدل کے بغیر بضع کے مالک ہوسکتے تھے جس طرح کہ بیک وقت نوازدواج مطہرات کو اپنے عقد میں رکھنا آپ کی خصوصیت تھی، امت کے لیے اس کا جواز نہیں تھا۔- قول باری (واتوالنساء صدقاتھن نحلہ، فان طبن لکم عن شی منہ نفسا فکلوہ ھنیامریا۔ اس پر کئی وجوہ سے دلالت کرتا ہے کہ عتق مہر نہیں ہوسکتا ایک وجہ تو یہ ہے کہ قول باری (واتوھن ) یہ امر کا صیغہ ہے جو ایجاب کا مقتضی ہے اور آزادی عطا کرنے میں ایجاب کا مفہوم موجود نہیں ہے۔- دوسری وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ، (فان طبن لکم عن شئی منہ نفسا) اور عتق کے اندریہ نہیں ہوسکتا کہ اگر لونڈی خوش دلی کے ساتھ اس میں سے کچھ واپس کردے تو اس بنا پر اسے فسخ قرار دیاجائے۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ ارشاد باری ہے (فکلوہ ھنیا مریا) کھالینے کا مفہوم عتق کے اندر محال ہے۔- قول باری ہے (محصنین غیرمسافحین، بشرطیکہ حصار نکاح میں انہیں محفوظ کرونہ یہ کہ آزاد شہوت رانی کرنے لگو) ابوبکرجصاص کہتے ہیں کہ اس قول باری میں دواحتمالات ہیں اول یہ کہ عقد نکاح کی بنا پر نکاح کرنے والوں کے محص یعنی عفیفبن جانے کا حکم جاری کرکے نکاح کرلینے پر ان کی حالت یعنی صفت احصان وعفت سے متصف ہونے کی انہیں خبر دی گئی ہے ۔- دوم یہ کہ قول باری (واحل لکم ماوراء ذالکم ) میں مذکورہ اباحت کو احصان کی شرط کے ساتھ مشروط کردیا گیا ہے ، اگر اللہ تعالیٰ کے ہاں پہلی صورت مراد ہے تو نکاح کی اباحت کو مطلق یعنی غیر مقید رکھنے میں ایسا عموم ہوگا جس کا ان تمام صورتوں میں اعتبار کرنا درست ہوگا، جو اس کے تحت آتی ہیں۔- البتہ وہ صورتیں اس عموم سے خارج ہوں گی جن کے لیے شرعی دلیل موجود ہوگی اگر دوسری وجہ مراد ہے تو نکاح کی اباحت کو مطلق رکھنا دراصل مجمل ہوگا، کیونکہ اس اطلاق کو اس شرط کے ساتھ مشروط کردیا گیا ہے کہ نکاح کے ذریعے احصان یعنی عفت وپاک دامنی کی صفت پیدا ہوجائے۔- اب لفظ احصان کود مجمل ہے جس کے بیان اور تفصیل کی ضرورت ہے ، اس لیے اس لفظ سے دوسری وجہ پر استدلال درست نہیں ہوگا، بلکہ بہتر یہ ہوگا کہ آیت کو پہلی وجہ پر محمول کرتے ہوئے یہ مفہوم لیاجائے کہ اس کے ذریعے نکاح کرلینے کی بنا پر صفت احصان کے حصول کی خبر دی گئی ہے کیونکہ اس طرح اس پر عمل پیرا ہوناممکن ہوگا۔- اس کی وجہ یہ ہے کہ جب کوئی ایسالفظ وارد ہوجائے جس میں ایسے عموم کا احتمال موجود ہو، جس کے ظاہر پر ہمارے لیے عمل پیرا ہونا ممکن ہو، اور ساتھ ہی ساتھ اس لفظ میں یہ احتمال بھی پایاجاتاہو کہ یہ مجمل ہو اور اس کا حکم شریعت کی طرف سے بیان اور تفصیل پر موقوف ہو تو اس صورت میں اس لفظ کو اجمال کی بجائے عموم کے معنوں پر محمول کرنا واجب ہوتا ہے کیونکہ اس صورت میں لفظ کے ورود کے ساتھ ہی اس کے حکم پر عمل پیرا ہوجا ناممکن ہوتا ہے۔- اس بنا پر ہمارے لیے اس سی عموم کی طرف رجوع کرنا ضروری ہوجاتا ہے اور لفظ کو اس وجہ پر محمول کرنا درست نہیں ہوتاجس سے اس کے حکم پر عمل ساقط ہوجائے اور جب تک کسی دوسرے لفظ کے ذریعے اس کا مفہوم بیان نہ ہوجائے اس وقت تک اس کے حکم پر عمل کرنا ممکن نہ ہوسکے یہاں تلاوت کے تسلسل و ترتیب اور آیت کے مفہوم میں ایسی بات موجود ہے جو اس چیز کی موجود ہے کہ احصان کا ذکر کرکے دراصل یہ خبر دی گئی کہ ایک شخص نکاح کے ذریعے محصن یعنی عفیف بن جاتا ہے۔- وہ اس طرح کہ ارشاد باری ہے (محصنین غیرمسافحین) اور سفاح زنا کو کہتے ہیں اللہ تعالیٰ نے یہ خبر دی ہے کہ آیت میں مذکورہ احصان کی زنا کی ضد ہے اور اس کے معنی عفت پاک دامنی کے ہیں۔- جب اس جگہ احصان سے مراد عفت لی جائے تو اس صورت میں یہ لفظ ایسے معنوں پر محمول ہوگا جس میں کوئی اجمال نہیں، اس لیے کہ پھر عبارت کا مفہوم یہ ہوگا اور تمہارے لیے ان کے ماسوا دوسری تمام عورتیں حلال کردی گئی ہیں کہ تم اپنے اموال کے ذریعے عفت حاصل کرونہ کہ زنا، اس صورت میں لفظ کے معنی ظاہر اور اس کی مراد واضح ہوگی۔- اوریہ چیز دو باتوں کی موجب ہوگی اول اباحت کے لفظ کے اطلاق اور اس کے عموم کی اور دوم اس اطلاع کی کہ جب لوگ نکاح کریں گے توزنا کے مرتکب نہیں ہوں گے بلکہ عفت کی صفت سے متصف ہوں گے احصان ایک مشترک لفظ ہے ، دوسرے مشترک الفاظ کی طرح جب اس کا اطلاق ہوگاتو اس میں عموم نہیں ہوگا، کیونکہ یہ ایک ایسا اسم ہے جو مختلف معانی پر محمول ہوتا ہے۔- اس کے معانی منع یعنی بچانے اور محفوظ کردینے کے ہیں اسی سے قلعہ کو حصن کا نام دیا گیا ہے کیونکہ قلعہ اپنے اندر آجانے والوں کو ان کے دشنوں سے محفوظ کردیتا ہے ، اسی طرح زرہ کو حصینہ کہاجاتا ہے یعنی مضبوط، اسی طرح اصیل گھوڑے کو حصان کہاجاتا ہے کیونکہ وہ اپنے سوار کو ہلاکت سے بچائے رکھتا ہے ، پاک دامن عورت کو حصان کہتے ہیں کیونکہ وہ اپنی شرمگاہ کو فساد سے بچاتی رہتی ہے، حضرت حسان نے حضرت عائشہ کی تعریف میں یہ شعر کہے،- حصان رزان ماتون بریبۃ، وتصبح غرثی من لحوم الغوافل،۔- آپ عفت ماب اور مجمسمہ وقار ہیں، ہر قسم کی تہمت سے آپ کا دامن پاک ہے ، اور بے خبر عورتوں کی غیبت کی بھی آپ کو عادت نہیں۔- قول باری ہے ، ان الذین یرمون المحصنات الغافلات، جو لوگ پاک دامن اور بے خبرعورتوں پر تہمت لگاتے ہیں یعنی عفائف پاک دامن عورتیں ، شرعی لحاظ سے احصان کا اسم مختلف معانی کے لیے استعمال ہوتا ہے جو اس کے لغوی معانی کے ماسوا ہیں، اس کا اطلاق اسلام کے معنوں پر ہوتا ہے۔- قول باری ہے (فاذا احصن) ایک روایت کے مطابق اس کے معنی ہیں، جب یہ عورتیں مسلمان ہوچکیں، اس کے معنی تزوج یعنی نکاح کرانے کے بھی ہیں، چناچہ درج بالاقل باری کی تفسیر میں ایک روایت یہ بھی ہے کہ جب یہ نکاح کرلیں۔- قول باری (والمحصنات من النساء الاماملکت ایمانکم) میں اس کے معنی شوہروں والی عورتیں ہیں۔ قول باری (والذین یرمون المحصنات) میں اس کا اطلاق عفت اور پاک دامنی کے معنوں پر ہوا ہے زنا کی سزا رجم کے سلسلے میں جس احصان کا اعتبار کیا جاتا ہے اس کا اطلاق نکاح صحیح کی بنا پر ہمبستری پر ہوتا ہے۔- تاہم شرعی لحاظ سے احصان کے ساتھ دواحکام متعلق ہیں، ایک تواحصان کی صفت سے متصف انسان پر زنا کی تہمت لگانے والے پر حد قذف کے وجوب کا حکم جو اس قول باری سے ماخوذ ہے ، (والذین یرمون المحصنات) ۔- اس پر احصان میں پاک دامنی ، آزادی، اسلام ، عقل ، اور بلوغ کا اعتبار کیا جاتا ہے ، جب تک ایک شخص میں یہ صفات نہیں پائی جائیں گی اس وقت تک اس پر تہمت زنا لگانے والے پر حد قذف جاری نہیں ہوگی، کیونکہ دیوانے ، نابالغ ، زانی، کافر اورغلام پر زنا کی تہمت عائد کرنے والے پر حدقذف جاری نہیں ہوتی۔ اس پر حد واجب کرنے کے لیے احصان کی ان وجوہ کا اعتبار کیا جاتا ہے۔- دوم۔ احصان کی صفت سے متصف انسان کو زنا کرنے کی صورت میں سنگسار کردینے کا حکم یہ احصان ان اوصاف پر مشتمل ہوتا ہے اسلام، عقل ، بلوغ ، آزادی نیز نکاح صحیح کی بنا پر تعلق زن وشوجب کہ طرفین احصان کے ان ہی صفات کے حامل ہوں ، اگر ان میں سے ایک صفت بھی معدوم ہوتوزنا کے ارتکاب پر سنگسار کردینے کا حکم اس پر عائد نہیں ہوگا۔- سفاح زنا کو کہتے ہیں حضور کا ارشاد ہے ، (انا من نکاح ولست من سفاح) قول باری (غیرمسافحین) کی تفسیر میں مجاہد اور سدی کا قول ہے کہ ، زناکار نہ ہوں، ایک قول کے مطابق سفاح کا لفظ اس محاورے سے ماخوذ ہے ، سفح الماء، اس نے پانی انڈیلا، اسی طرح کہ جاتا ہے ، سفح دمعہ، اس کے آنسو بہہ پڑے) سفح دم فلان (فلاں کا خون بہہ گیا) پہاڑ کے دامن کو سفح الجبل کہتے ہیں، اس لیے کہ پہاڑ کے اوپر سے بہنے والاساراپانی دامن میں آکرگرتا ہے۔- سافح الرجل، مرد نے منہ کالا کیا) زنا کے ارتکاب پر یہ محاورہ اس لیے استعمال کیا جاتا ہے کہ زانی اپناپانی وہاں انڈیلتا ہے جہاں اس عمل پر متعلقہ حکم یعنی نسب کا ثبوت ، وجوب عدت اور دوسرے احکام نکاح لاحق نہیں ہوسکتے، اس لیے زانی کو مسافح کا نام دیا گیا کہ اس نے یہ حرکت کرکے پانی انڈیل دینے کے سو اور کوئی اور کام نہیں کیا۔- اس لفظ کے ذریعے جو احکام معلوم ہوئے وہ یہ ہیں اس عمل کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بچے کا نسب اس سے ثابت نہیں ہوگا، اور نہ ہی یہ بچہ اس کے ساتھ ملحق ہوگا، عورت پر عدت واجب نہیں ہوگی، اس مرد کی فراش یعنی اس کے ساتھ ہمبستری کا حق حاصل نہیں ہوگا، مرد پر مہر واجب نہیں ہوگا، اور اس ہمبستری کی بنا پر نکاح کا کوئی حکم بھی لاحق نہیں ہوگا، اس لفظ کے ضمن میں مذکورہ بالاتمام معانی موجود ہیں۔ واللہ اعلم بالصواب۔- متعہ کا بیان - قول باری ہے (فمااستمتعتم بہ منھن فاتوھن اجورھن فریضہ۔ پھر جو ازدواجی زندگی کالطف تم ان سے اٹھاؤ اس کے بدلے ان کے مہر فرض کے طور پر ادا کردو) ۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ اس فقرے کا عطف قول باری (واحل لکم ماوراء ذالکم ) میں مذکور محرمات کے ماسوا دوسری عورتوں کے ساتھ نکاح کی اباحت پر ہے یعنی ماقبل کے ارشاد کے بعد یہ فرمایا گیا (فمااستعتم بہ منھن ) یعنی نکاح کی بنا پر جن کے ساتھ تمہاراتعلق زن وشو ہوجائے، (فاتوھن اجورھن) اس کے بدلے ان کے مہر پورے ادا کرو۔- اس کی نظیر یہ قول باری ہے (واتوالنساء صدقاتھن نحلہ۔ اور عورتوں کو ان کے مہر خوش دلی کے ساتھ فرض جانتے ہوئے ادا کرو) نیز ارشاد باری ہے (فلاتاخذوا منہ شیا) میں مہر میں دی ہوئی چیز میں سے کچھ بھی واپس نہ لو) ۔- استمتاع لطف اندوزی کو کہتے ہیں یہ لفظ یہاں تعلق زن وشو کے لیے بطور کنایہ استعمال ہوا ہے، قول باری ہے (اذھبتم طیباتکم فی حیوتکم الدنیا واستمتعتم بھا، تم اپنی لذت کی چیزیں سب دنیا ہی میں حاصل کرچکے اور ان کا خوب مزہ اٹھاچکے ) یعنی دنیا ہی میں زندگی کانفع عاجل تمہیں حاصل ہوگیا۔- نیز ارشاد باری ہے (فاستمتعتم بخلافکم، تم اپنے حصے سے لطف اندوز ہوئے) یعنی دنیا میں سے ملنے والے اپنے حصے سے، جب اللہ تعالیٰ نے ان عورتوں کو حرام کردیا جن کی تحریم کا ذکر اپنے اس قول (حرمت علیکم امھاتکم، میں کیا اور اس سے ماؤں اور ماؤں کے ساتھ مذکورہ خواتین سے نکاح مراد لی پھر اس پر اپنے اس قول (واحل لکم ماوراء ذالکم) کو عطف کیا تویہ عطف اس بات کا مقتضی ہوگیا کہ ان محرمات کے ماسوا دوسری عورتوں سے نکاح مباح ہے۔- پھرارشاد ہوا، (ان تبتغوا باموالکم محصنین) یعنی، واللہ اعلم، ایسا نکاح جس کے ذریعے تم محصن اور عفیف بن جاؤ، شہوت رانی کرنے والے اور زنا کار نہ بنو، پھر اس پر نکاح کے حکم کو عطف کیا جب اس میں تعلق زن وشو یعنی دخول بھی پایاجائے، اور فرمایا (فمااستمتعتم بہ منھن فاتوھن اجورھن) اس کے ذریعے شوہر پر پورا مہرواجب کردیا۔- اللہ تعالیٰ نے اپنے قول (فانکحوھن باذن اھلھن واتوھن اجورھن) ان کے ساتھ ان کے کنبے والوں کی اجازت سے نکاح کرو، اور انہیں ان کے مہرادا کرو) میں مہر کو اجر کا نام دیا۔ اس طرح آیت زیربحث میں مذکورہ اجور بھی مہر ہیں، مہر کو اجر کا نام اس لیے دیا گیا کہ یہ منافع کا بدل ہوتا ہے ، اعیان یعنی قائم بالذات کا بدل نہیں ہوتاجس طرح کہ مکان یا سواری کے منافع کے بدل کو اجرت یا اجر کا نام دیاجاتا ہے۔- اللہ تعالیٰ نے مہر کو اجر کا نام دیا ہے اس میں امام ابوحنیفہ کے اس قول کی صحت کی دلیل موجود ہے کہ اگر کوئی شخص کسی عورت کو اجارے یاکرایہ پرلے کر اس کے ساتھ منہ کالاکرے تو اس پر حد زناعائد نہیں ہوگی اس لیے کہ اللہ تعایل نے مہرکواجر کا نام دیا ہے ، اس زانی کی حیثیت اس شخص کی طرح ہوگی جو کسی عورت سے یہ کہے کہ میں تمہیں فلاں چیز مہر میں دیتاہوں۔- حضرت عمر سے بھی اس قسم کی روایت ہے اور یہ نکاح فاسد کی صورت میں ہوگی، کیونکہ یہ گواہوں کے بغیرانجام پذیر ہوئی ہے اللہ تعالیٰ نے ایک اور آیت میں ارشاد فرمایا، ہے (ولاجناح علیکم ان تنکحوھن اذا اتیتموھن اجورھن، جب تم ان عورتوں کو ان کے اجور یعنی مہر ادا کروتوان کے ساتھ نکاح کرنے میں تم پر کوئی گناہ نہیں) ۔- حضرت ابن عباس قول باری (فمااستمتعتم بہ منھن فاتوھن اجورھن) کی تاویل عورتوں سے متعہ کرنا، قرار دیتے تھے اس کے متعلق ان سے مختلف اقوال منقول ہیں، ایک روایت کے مطابق وہ اس آیت کو متعہ کی اباحت پر محمول کرتے تھے۔- یہ بھی روایت ہے کہ ابی بن کعب کی قرات میں آیت کے الفاظ یہ ہیں (فمااستمتعتم بہ منھن الی اجل مسمی فاتوھن اجورھن) حضرت ابن عباس سے یہ بھی منقول ہے کہ جب ان سے یہ کہا گیا کہ متعہ کے بارے میں اشعار کہے گئے ہیں تو انہوں نے جواب مین یہ کہاتھا کہ متعہ کی حیثیت یہ ہے کہ جس طرح کوئی شخص اضطراری حالت میں مردار ، خون، یاسور کا گوشت کھالے، اس قول میں انہوں نے ضرورت کے موقع پر متعہ کو مباح کردیا تھا۔- جابر بن زید سے مروی ہے کہ حضرت ابن عباس نے بیع صرف (سونے چاندی کی خرید و فروخت ) اور متعہ کے متعلق اپنے قول سے رجوع کرلیا تھا۔- ہمیں جعفر بن محمد واسطی نے روایت بیان کی، انہیں جعفر محمد بن الیمان نے ، انہیں ابوعبید نے ، انہیں ابن بکیر نے لیث سے ، انہوں نے بکیر بن عبداللہ بن الاشج سے ، انہوں نے شرید کے آزاد کردہ غلام عمار سے کہ میں نے حضرت ابن عباس سے متعہ کے بارے میں یہ پوچھا کہ آیا نکاح ہے یاسفاح یعنی زناء ؟- انہوں نے جواب دیا نہ یہ نکاح ہے نہ سفاح، میں نے پھر سوال کیا، توپھریہ کیا ہے ؟ انہوں نے فرمایا، بس یہ متعہ ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا میں نے پوچھا اس کی وجہ سے عورت عدت گزارے گی، انہوں نے جواب دیا، ہاں اس کی عدت ایک حیض ہے ، میں نے پوچھا کیا یہ مرد اور عورت ایک دوسرے کے وارث ہوں گے انہوں نے اس کا جواب نفی میں دیا۔- ہمیں جعفر بن محمدنے روایت بیان کی، انہیں حجاج نے ابن جریج اور عثمان بن عطاء سے انہوں نے عطاء بن خراسانی سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس سے کہ انہوں نے قول باری (فمااستعتم بہ منھن) کے متعلق فرمایا کہ قول باری (یا ایھا النبی اذاطلقتم النساء فطلقوھن لعدتھن، اے نبی ان سے کہہ دیجئے کہ جب تم عورتوں کو طلاق دینے لگوتوا نہیں ان کی عدت پر طلاق دو ) نے اسے منسوخ کردیا ہے۔- یہ بات متعہ کے متعلق اپنے قول سے رجوع کرلینے پر دلالت کرتی ہے ، سلف کی ایک جماعت سے یہ منقول ہے کہ متعہ زنا ہے ہمیں جعفر بن محمد نے روایت بیا کی ، انہیں جعفر بن محمد بن الیمان نے ، انہیں ابوعبید نے انہیں عبداللہ بن صالح نے لیث سے ، انہوں نے عقیل اور یونس سے انہوں نے ابن شہاب زہری سے ، انہوں نے عبدالملک بن مغیرہ بن نوفل سے ، انہوں نے حضرت ابن عمر سے کہ ان سے متعہ کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے جواب میں فرمایا، کہ یہ سفاح زنا ہے ہشام بن عروہ نے اپنے والد سے روایت کی ہے کہ متعہ کی صورت میں ہونے والے نکاح کی حیثیت زنا کی ہوتی تھی۔- اگریہ کہاجائے کہ متعہ کو زن اقرار دینا درست نہیں ہے اس لے کہ ناقلین آثار کا اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ بعض اوقات متعہ کو مباح قرار دیا گیا تھا، حضور نے اسے مباح قرار دیاتھاجب کہ اللہ تعالیٰ نے زنا کو کبھی مباح نہیں کیا۔- تو اس کے جواب میں کہاجائے گا کہ جب متعہ کو مباح قرار دیا گیا تھا اس وقت یہ زنا نہیں کہلایا لیکن جب اللہ تعالیٰ نے اسے حرام کردیاتو اس پر زنا کے اسم کا اطلاق درست ہوگیا، جیسا کہ حضور سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا (الزانیۃھی التی تنکح نفسھا بغیر بینۃ وایماعبدتزوج بغیراذان مولاہ فھوعاھر۔- وہ عورت زناکار ہے جس نے گواہوں کے بغیر نکاح کرالیا ہو، اور جو غلام اپنے آقا کی اجازت کے بغیر نکاح کرے گا وہ زانی ہوگا، آپ کے اس قول کا مفہوم ایسے نکاحوں کی تحریم ہے حقیقت زنا نہیں ہے ، حضور نے یہ بھی ارشاد فرمایا ہے کہ (العینان تزنیان والرجلان تزنیان فزناالعین النظرورزنا الرجلین المشی ویصدق ذالک کلہ الفرج اویکذبہ۔ آنکھیں زنا کرتی ہیں، اور ٹانگیں زنا کرتی ہیں آنکھ کا زنا غلط نظر اور ٹانگوں کا زنا چل کر جانا ہے اور شرمگاہ ان تمام باتوں کی تصدیق کردیتی ہے یا تکذیب۔ حضور نے ان تمام صورتوں پر زنا کے اسم کا اطلاق مجاز کے طور پر کیا کیون کہ یہ تمام صورتیں حرام ہیں، اسی طرح متعہ پر زنا کے اسم کا اطلاق مجاز کے طور پر ہوتا ہے اور اس سے اس کی تحریم کی تاکید ہوتی ہے۔- ہمیں جعفر بن محمد نے روایت بیان کی انہیں جعفر بن محمد بن الیمان نے ، انہیں ابوعبید نے انہیں حجاج نے شعبہ سے ، انہوں نے قتادہ سے انہوں نے کہا میں نے ابونضرہ سے سنا ہے کہ حضرت ابن عباس متعہ کی اجازت دیتے تھے ، اور حضرت عبداللہ بن زبیر اس سے روکتے تھے میں نے اس بات کا تذکرہ حضرت جابر بن عبداللہ سے کیا، انہوں نے فرمایا، یہ بات میرے سامنے پیش ہوئی ہے ہم نے حضور کے زمانے میں متعہ کیا تھا۔- متعہ کے بارے میں حضرت عمر کا فتوی - جب حضرت عمر کا دور آیا تو آپ نے فرمایا، اللہ تعالیٰ اپنے نبی کے لیے جو چاہتا ہے جس طرح چاہتا ہے حلال کردیتا ہے ، اب تم لوگ حج اور عمرہ اسی طرح پورا کرو جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے اور ان عورتوں کے ساتھ نکاح سے باز آجاؤ، اب اگر میرے پاس کوئی ایساشخص لایاگیا جس نے ایک خاص مدت کے لیے کسی عورت سے نکاح کیا ہوگاتو میں اسے سنگسار کردوں گا۔- حضرت عمر نے متعہ کی سزا کے طور پر رجم کا ذکر کیا، اور یہ ممکن ہے کہ آپ نے تہدید اور دھمکی کے طور پر ایساکہا ہوتا کہ لوگ اس سے باز آجائیں، راوی جعفر بن محمد بن الیمان، کہتے ہیں کہ ہمیں ابوعبید نے روایت بیا کی کہ انہیں حجاج نے ابن جریج سے انہوں نے کہا مجھے عطاء نے بتایا کہ انہوں نے حضرت ابن عباس کو یہ کہتے ہوئے سنا تھاک ہ اللہ تعالیٰ عمر پر رحم فرمائے متعہ تو اللہ کی طرف سے ایک رحمت تھی جو اس نے امت محمد پر کی تھی ، اگر عمر اس سے لوگوں کونہ روکتے توتھوڑے ہی لوگ زنا میں مبتلا ہوتے۔- حضرت ابن عباس کے اقوال سے جو بات حاصل ہوئی وہ یہ ہے کہ آپ بعض روایات کے مطابق متعہ کی اباحت کے قائل تھے، اور اس میں ضرورت یاعدم ضرورت کی کوئی قید نہیں تھی، دوسری صورت یہ کہ اس کی حیثیت مردار کی طرح تھی، جس کی ضرورت کے وقت حلت ہوجاتی ہے۔- ابن عباس کا رجوع - تیسری یہ کہ متعہ حرام ہے ہم نے اس روایت کی سند کا ذکر پہلے کردیا ہے اور حضرت ابن عباس کے اس قول کا بھی کہ متعہ منسوخ ہوچکا ہے۔ حضرت ابن عباس کا متعہ کی اباحت کے قول سے رجوع کرلینے پر وہ روایت دلالت کرتی ہے جس کے راوی عبداللہ بن وہب ہیں، انہیں عمرو بن الحریث نے اور انہیں بکیر بن الاشج نے کہ بنوہاشم کے آزاد کردہ غلام، ابواسحق نے کہا، ایک شخص نے حضرت ابن عباس کو بتایا کہ میں ایک سفر پر تھا کہ میرے ساتھ میری لونڈی اور کچھ دوسرے لوگ تھے۔ میں نے ان لوگوں کو لونڈی سے جنسی انتفاع کی اجازت دے دی، حضرت ابن عباس نے یہ سن کر فرمایا یہ توسفاح یعنی زنا ہے۔ یہ روایت بھی اباحت متعہ کے قول سے انکے رجوع کرلینے پر دال ہے۔- جن لوگوں نے متعہ کی اباحت پر قول باری (فمااستعتم بہ منھن فاتوھن اجورھن) سے استدلال کیا ہے نیز یہ کہ حضرت ابی بن کعب کی قرات میں (الی اجل مسمی) کے الفاظ بھی ہیں تو اس کے جواب میں کہاجائے گا، کسی بھی مسلمان کے نزدیک تلاوت میں مدت کا اثبات درست نہیں ہے اس لیے قرآن میں اجل یعنی مدت کا ثبوت نہیں ۔- اگر قرآن میں اجل کا ذکر ہو بھی جاتا تو یہ عورتوں سے متعہ پر دلالت نہ کرتا اس لیے کہ اس صورت میں یہ گنجائش ہوتی کہ لفظ اجل پر مہر داخل ہے اس صورت میں جملے کی ترتیب اس طرح ہوتی ، فمادخلتم بہ منھن بمھر الی اجل مسمی فاتوھن فھورھن عندحلول الاجل۔ ان میں سے جن عورتوں کے ساتھ ایک مقررہ مدت تک مہرادا کرنے کے بدلے تمہارے تعلق زن وشوہر ہوجائے تو اس مدت کے گذرجانے پر ان کے مہر انہیں ادا کردو) ۔- آیت کا مضمون تین وجوہ سے ا س پر دلالت کرتا ہے کہ اس سے نکاح مراد ہے ، متعہ نہیں اول یہ کہ اس کا عطف قول باری (واحل لکم ماوراء ذالکم ) کے اندر بیان کردہ اباحت نکاح پر ہے ، اور یہ لامحالہ محرمات کے ماسوا دوسری عورتوں سے نکاح کی اباحت ہے کیونکہ سب کا اس پر اتفاق ہے کہ اس سے نکاح مراد ہے۔- اس لیے یہ ضروری ہے کہ استمتاع کے ذکر کو اس عورت کے حکم کا بیان قرار دیاجائے جس کے ساتھ نکاح کی بنیاد پر تعلق زن وشو ہوچکا ہے یعنی اس کا حکم یہ ہے کہ اب وہ پورے مہر کی حق دار ہوگئی ہے۔- دوم : قول باری (محصنین) ہے احصان کی صفت صرف نکاح صحیح کی بنا پر ہوتی ہے اس لیے کہ متعہ کی بنا پر ہمبستری کرنے والامحصن نہیں بنتا، اور نہ احصان کا اسم ایسے شخص کو شامل ہوتا ہے اس سے ہمیں یہ بات معلو م ہوئی کہ مراد نکاح ہے۔- سوم : قول باری (غیرمسافحین) ہے اس میں زنا کو سفاح کا نام دیا گیا کیونکہ نکاح کے احکام اس سے منتفی ہوتے ہیں یعنی نسب ثابت نہیں ہوتا عدت واجب نہیں ہوتی اور علیحدگی واقع ہونے تک بقاء فراش نیہں ہوتا، یعنی مرد کو اس کے ساتھ ہمبستری کا حق حاصل نہیں ہوتا۔- چونکہ ان تمام باتوں کا متعہ میں وجود ہوتا ہے اس لیے وہ زنا کے معنوں میں قرار دیاجائے گا، اور عین ممکن ہے کہ جس نے متعہ کو سفاح قرار دیا ہے اس کا ذہن اسی بات کی طرف گیا ہے کیونکہ زانی کو مسافح اس لیے کہا گیا ہے کہ اس کی ہمبستری کے نتیجے میں متعلقہ احکام میں سے اس کے سو اور کوئی حکم لازم نہیں ہوا کہ اس نے اپناپانی یعنی مادہ تولید غلط طریقے سے بہادیا اور اس عمل سے نسب کا استحقاق بھی اسے حاصل نہ ہوسکا۔- اس لیے اللہ تعالیٰ نے جب وطی کی حلال صورت سے سفاح کے اسم کی نفی کرکے احصان کا اثبات کردیاتو اس سے یہ ضروری ہوگیا کہ استمتاع سے متعہ مراد نہ لیاجائے کیونکہ یہ سفاح کے معنوں میں ہے بلکہ اس سے مراد نکاح لیاجائے۔- قول باری (غیرمسافحین ) مذکورہ اباحت کی شرط ہے ، اس میں متعہ کی نہی کی دلیل موجود ہے کیونکہ ہماری بیان کردہ وجہ کی بنا پر متعہ سفاح کے معنوں میں ہے۔- ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ متعہ کی اباحت صحابہ میں سے جس صحابی سے مشہور ہے وہ حضرت ابن عباس ہیں، تاہم اس بارے میں ان سے مختلف روایتیں منقول ہیں۔- ایک روایت کے مطابق انہوں نے آیت کی تاویل متعہ کی اباحت کی صورت میں کی ہے، ہم بیان کر آئے ہیں کہ متعہ کی اباحت پر آیت کی کوئی دلالت نہیں ہے بلکہ اس کی ممانعت اور تحریم پر آیت کی دلالتیں ان وجوہ کی بنا پر ظاہر ہیں جن کا ہم نے ذکر کیا ہے پھر حضرت ابن عباس سے یہ مروی ہے کہ آپ نے اسے مردار سور کے گوشت اور خون کی طرح قرار دیا تھا، اور یہ فرمایا تھا کہ اس کی حلت صرف اس شخص کے لیے ہے جو اضطراری حالت میں مبتلا ہو۔- لیکن یہ بات محال ہے کیونکہ حرام شدہ اشیاء کو مباح کردینے والی ضرورت متعہ کے اندر نہیں پائی جاتی کیونکہ خون اور مردار کو حلال کردینے والی ضرورت وہ ہے جس کی موجودگی میں ان چیزوں کونہ کھانے پر جان جانے کا خطرہ پیدا ہوجائے جبکہ ہمیں اچھی طرح معلوم ہے کہ ترک جماع کی وجہ سے انسان کونہ اپنی جان کا خطرہ لاحق ہوتا ہے اور نہ ہی کسی عضو کے تلف ہوجانے کا۔- جب رفاہیت اورفارغ البالی کی حالت میں متعہ حلال نہیں ہے اور اس کی ضرورت بھی پیش نہیں آتی تو اس سے اس کی مخالفت کا ثبوت ہوگیا اور قائل کا یہ قول محال ہوگیا کہ ضرورت کے وقت یہ مردار اور خون کی طرح حلال ہوجاتا ہے۔- یہ ایک متناقض اور محال قول ہے اور زیادہ مناسب بات یہ ہے کہ حضرت ابن عباس سے اس روایت میں راویوں کو وہم ہوگیا ہے اس لیے کہ آپ کی فقاہت اس سے برتر تھی، اس جیسی بات آپ کی نگاہوں سے پوشیدہ رہ جاتی۔- اس لیے درست روایت وہ ہے جو آپ سے متعہ کی ممانعت اور تحریم کے اثبات میں مروی ہے نیز جس نے متعہ کی اباحت کے قول سے آپ کا رجوع نقل کیا ہے اس کی روایت بھی درست ہے۔- قول باری (والذین ھم لفروجھم حافظون الاعلی ازواجھم اوماملکت ایمانھم فانھم غیرملومین۔۔ تا۔۔۔ ھم العادون۔ اور جو لوگ اپنی شرمگاہوں کی نگہداشت رکھنے والے ہیں ہاں البتہ اپنی بیویوں اور لونڈیوں سے نہیں کہ اس صورت میں ان پر کوئی الزام نہیں ، ہاں جو کوئی اس کے علاوہ کا طلب گار ہوگاسوای سے ہی لوگ حد سے نکل جانے والے ہیں) متعہ کی تحریم کی دلیل ہے۔- اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں وطی کی اباحت کو مذکورہ دوصورتوں میں سے ایک کے اندر محدود کردیا ہے اور ان دو کے علاوہ بقیہ تمام صورتوں کی ممانعت کردی ہے چناچہ ارشاد ہے (فمن ابتغی وراء ذالک فاو لئک ھم العادون) اور ظاہر ہے متعہ ان دونوں صورتوں کے علاوہ ایک تیسری صورت ہے اس لیے یہ حرام ہے۔- اگریہ کہاجائے کہ آپ کو اس بات سے کیوں انکار ہے کہ جس عورت سے استمتاع کیا جائے وہ بیوی ہو اور متعہ ان دونوں صورتوں سے خارج نہ ہو جن کے اندر وطی کی اباحت کو محدود کردیا گیا ہے تو اس کے جواب میں کہاجائے گا، یہ بات غلط ہے اس لیے کہ عورت پر زوجہ کے اسم کا اطلاق نیز اس اسم کے تحت اس کا اندراج صرف اسی وقت ہوگاجب وہ عقد نکاح کی بنا پر اس کی منکوحہ ہوگی اور متعہ چونکہ نکاح نہیں ہوتا اسلیے وہ زوجہ نہیں کہلاسکتی۔- اگریہ کہاجائے کہ اس کی کیا دلیل ہے کہ متعہ نکاح نہیں ہوتا، تو اس کے جواب میں کہاجائے گا کہ اس کی دلیل یہ ہے کہ نکاح کے اسم کا اطلاق دو باتوں میں سے ایک پر ہوتا ہے وطی یاعقد پر ، ہم نے گذشتہ صفحات میں یہ واضح کردیا ہے کہ وطی نکاح کی حقیقت اور عقد مجاز ہے۔- جب اس اسم کا اطلاق ان ہی دومعنوں میں سے ایک تک محدود ہے اور عقد کو مجازا نکاح کہاجاتا ہے جیسا کہ ہم نے پہلے بیان کردیا ہے اور ہم نے یہ بھی دیکھا کہ اہل زبان مطلق عقد تزویج پر اطلاق کرتے ہیں کہ یہ نکاح ہے لیکن انہیں متعہ پر نکاح کا اطلاق کرتے نہ پایا۔ عرب یہ نہیں کہتے کہ فلاں شخص نے فلاں عورت سے متعہ کی شرط پر نکاح کیا ہے ، تواب ہمارے لیے متعہ پر نکاح کے اسم کا اطلاق جائز نہیں ہوگا۔ کیونکہ مجاز کا اطلاق صرف اسی صورت میں درست ہوتا ہے جب اہل عرب کو ایسا کہتے ہوئے سناگیا ہو یا شرع میں اس ک اورد ہوا ہو۔- جب ہمیں شرع اور لغت دونوں میں متعہ پر نکاح کے اسم کا اطلاق نہیں ملاتو اس سے یہ ضروری ہوگیا کہ متعہ ان دونوں صورتوں کے علاوہ قرار دیاجائے، جن کی اللہ تعالیٰ نے اباحت کردی ہے اور یہ کہ متعہ کا مرتکب حد سے تجاوز کرنے والا، اپنے نفس پر ظلم کرنے والا، اور اللہ کے حرام کردہ فعل کا ارتکاب کرنے والاقرار دیاجائے، نیز نکاح کی کچھ شرائط ہیں جو اس کے ساتھ مختص ہیں کہ جب یہ نہ پائی جائیں تو نکاح نکاح نہیں کہلائے گا۔- ان میں سے ایک شرط یہ ہے کہ وقت کا گزرناعقد نکاح پراثرانداز نہیں ہوتا، اور نہ ہی رفع نکاح کا موجب بنتا ہے ، جبکہ متعہ کے قائلین کے نزدیک وقت کے گزرنے کے ساتھ متعہ رفع نکاح کا موجب بن جاتا ہے۔- ایک شرط یہ بھی ہے کہ نکاح وہ فراش یعنی حق ہمبستری ہے جس کے ذریعے مرد کی طرف سے کسی دعوے کے بغیر پیدا ہونے والے بچے کا نسب ثابت ہوجاتا ہے بلکہ فراش نکاح پر پیدا ہونے والے بچے کے نسب کی نفی نہیں ہوسکتی، صرف لعان کی بنا پر نسب کی نفی ہوسکتی ہے جبکہ متعہ کے قائلین فراش کی بنا پر نسب کا اثبات نہیں کرتے۔- اس سے ہمیں یہ بات معلوم ہوئی کہ متعہ نہ تو نکاح ہے اور نہ ہی فراش، ایک شرط یہ بھی ہے کہ نکاح علیحدگی یا موت کی صور ت میں عدت کا موجب ہے خواہ تعلق زن وشو ہوچکاہویانہ ہواہو۔- چنانچہ ارشاد باری ہے (والذین یتوفون منکم ویذرون ازواجایتربصن بانفسھن اربعۃ اشھر وعشرا، تم میں جو لوگ وفات پاجائیں اور وہ اپنے پیچھے بیویاں چھوڑ جائیں تو یہ بیویاں اپنے آپ کو چار مہینے دس دن تک انتظار میں رکھیں) جبکہ متعہ عدت وفات کا موجب نہیں ہے ۔- (آیت ھذا کی بقیہ تفسیر اگلی آیت کے ذیل میں)

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٢٤) شوہر والی عورتیں بھی تم پر حرام ہیں مگر اس حکم میں وہ مستثنی ہیں جو شرعی طور پر تمہاری مملوک ہوجائیں اور ان کے حربی شوہر ” دار الحرب “ میں موجود ہوں وہ ایک حیض آجانے (یا وضع حمل کے بعد) مشروط طور پر حلال ہیں، اللہ تعالیٰ نے کتاب اللہ میں جن کو حرام کردیا ہے وہ تم پر حرام ہیں۔- جن رشتوں کی حرمت بیان کردی گئی ان کے علاوہ چار تک شادی کرنا حلال ہے یا یہ کہ اپنے مالوں سے باندیاں خریدو یا اپنے اموال دے کر عورتوں سے شادی کرو مگر متع کا حکم منسوخ ہوگیا (وہ اب ہرگز کسی بھی نوعیت کے ساتھ کسی کے لیے بھی جائز نہیں) اس طریقہ پر تم ان کو بیوی بنا لو، مال دے کر نکاح کے علاوہ اور کوئی مستی کی صورت مت کرو اور نکاح کے بعد جب تم ان سے متمتع ہوجاؤ تو ان کو پورا مہر دو ، اس صورت میں اللہ تعالیٰ نے تم پر پورا مہر دینا فرض کردیا ہے۔- مہرمتعین ہونے کے بعد باہم رضا مندی سے مقدار مہر میں کچھ کمی بیشی کرنے میں کسی قسم کا کوئی گناہ نہیں اور اللہ تعالیٰ نے اولا تمہارے متع کو حلال کیا اور پھر حرام کردیا یا یہ کہ متع کی طرف تمہاری اضطراری حالت کو جاننے کے بعد اس کے حرام کردینے میں وہ حکمت والا ہے۔- شان نزول : والمحصنت “۔ (الخ)- امام مسلم (رح) ابو داؤد (رح) ، ترمذی (رح) اور نسائی (رح) ، ابوسعید خدری (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ اوطاس کے قیدیوں میں باندیاں ہمارے ہاتھ آئیں اور ان کے خاوند موجود تھے تو ہمیں یہ بات اچھی نہیں معلوم ہوئی کہ ان کے خاوندوں کے موجود ہوتے ہوئے ہم ان سے متمتع ہوں۔- چناچہ ہم نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس بابت دریافت کیا اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی یعنی اس حکم سے وہ باندیاں مستثنی ہیں جو اللہ تعالیٰ نے مال غنیمت میں تمہیں دی ہوں اگر ان کے کافر شوہر دارالحرب میں موجود ہوں۔- سو اس حکم کے بعد ہم ان سے متمتع ہوئے اور طبرانی نے ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ یہ آیت غزوہ حنین میں نازل ہوئی کیوں کہ جب اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو غزوہ حنین میں مسلمانوں کو فتح عطا کی تو مسلمانوں کو مال غنیمت میں اہل کتاب کی ایسی عورتیں ملیں جن کے شوہر موجود تھے، چناچہ ہم میں سے جب کوئی شخص اپنی باندی کے پاس جاتا تو وہ کہتی کہ میرا شوہر ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس چیز کے بارے میں دریافت کیا گیا، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ،- شان نزول : (آیت) ” ولا جناح علیکم “۔ (الخ)- ابن جریر (رح) نے بواسطہ معمر بن سلیمان ان کے والد سے روایت نقل کی ہے، کہ حضرمی کو خیال ہوا کہ کچھ لوگ مہر (زیادہ) متعین کرلیتے ہیں پھر بعد میں تنگی ہوجاتی ہے، اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ مقرر کرنے کے بعد باہم رضامندی سے کمی بیشی میں کوئی گناہ نہیں۔ (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح )

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢٤ (وَّالْمُحْصَنٰتُ مِنَ النِّسَآءِ ) - چونکہ وہ کسی اور کے نکاح میں ہیں اس لیے آپ پر حرام ہیں۔ ایک عورت کو اگر اس کا شوہر طلاق دے دے تو آپ اس سے نکاح کرسکتے ہیں۔ چناچہ یہ حرمت ابدی نوعیت کی نہیں ہے۔ مُحْصَنٰت “ ان عورتوں کو کہا جاتا ہے جو کسی کی قید نکاح میں ہوں۔ حِصن قلعے کو کہتے ہیں اور احصان کے معنی کسی شے کو اپنی حفاظت میں لینے کے بھی اور کسی کی حفاظت میں ہونے کے بھی۔ چناچہ مُحْصَنٰت “ وہ عورتیں ہیں جو ایک خاندان کے قلعے کے اندر محفوظ ہیں اور شوہر والیاں ہیں۔ نیز یہ لفظ لونڈیوں کے مقابل آزاد خاندانی شریف زادیوں کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ - (اِلاَّ مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ ج) ۔- یعنی جنگ کے نتیجے میں تمہارے ہاں کنیزیں بن کر آجائیں۔ یہ عورتیں اگرچہ مشرکوں کی بیویاں ہیں لیکن وہ لونڈیوں کی حیثیت سے آپ کے لیے جائز ہوں گی۔- (کِتٰبَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ ج ) ۔- یہ اللہ کا قانون ہے جس کی پابندی تم پر لازم کردی گئی ہے۔- (وَاُحِلَّ لَکُمْ مَّا وَرَآءَ ذٰلِکُمْ ) - آپ نے دیکھا کہ کتنی تھوڑی سی تعداد میں محرمات ہیں ‘ جن سے نکاح حرام قرار دے دیا گیا ہے ‘ باقی کثیر تعداد حلال ہے۔ یعنی مباحات کا دائرہ بہت وسیع ہے جبکہ محرمات کا دائرہ بہت محدود ہے۔ - (اَنْ تَبْتَغُوْا بِاَمْوَالِکُمْ ) - یعنی ان کے مہر ادا کر کے ان کے ساتھ نکاح کرو۔- (مُّحْصِنِیْنَ غَیْرَ مُسٰفِحِیْنَ ط ) - یعنی نیت گھر بسانے کی ہو ‘ صرف مستی نکالنے کی نہیں۔ اس کو محض ایک کھیل اور مشغلہ نہ بنا لو۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :44 یعنی جو عورتیں جنگ میں پکڑی ہوئی آئیں اور ان کے کافر شوہر دارالحرب میں موجود ہوں وہ حرام نہیں ہیں ، کیونکہ دارالحرب سے دارالاسلام میں آنے کے بعد ان کے نکاح ٹوٹ گئے ۔ ایسی عورتوں کے ساتھ نکاح بھی کیا جاسکتا ہے اور جس کی ملک یمین میں ہوں وہ ان سے تمتع بھی کر سکتا ہے ۔ البتہ فقہاء کے درمیان اس امر میں اختلاف ہے کہ اگر میاں اور بیوی دونوں ایک ساتھ گرفتار ہوں تو ان کا کیا حکم ہے ۔ امام ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب کہتے ہیں کہ ان کا نکاح باقی رہے گا اور امام مالک و شافعی کا مسلک یہ ہے کہ ان کا نکاح بھی باقی نہ رہے گا ۔ لونڈیوں سے تمتع کے معاملہ میں بہت سی غلط فہمیاں لوگوں کے ذہن میں ہیں ۔ لہٰذا حسب ذیل مسائل کو اچھی طرح سے سمجھ لینا چاہیے: ( ١ ) جو عورتیں جنگ میں گرفتار ہوں ان کو پکڑتے ہی ہر سپاہی ان کے ساتھ مباشرت کر لینے کا مجاز نہیں ہے ۔ بلکہ اسلامی قانون یہ ہے کہ ایسی عورتیں حکومت کے حوالہ کر دی جائیں گی ۔ حکومت کو اختیار ہے کہ چاہے ان کو رہا کر دے ، چاہے ان سے فدیہ لے ، چاہے ان کا تبادلہ ان مسلمان قیدیوں سے کرے جو دشمن کے ہاتھ میں ہوں ، اور چاہے تو انہیں سپاہیوں میں تقسیم کر دے ۔ ایک سپاہی صرف اس عورت ہی سے تمتع کرنے کا مجاز ہے جو حکومت کی طرف سے باقاعدہ اس کی ملک میں دی گئی ہو ۔ ( ۲ ) جو عورت اس طرح کسی کی ملک میں دی جائے اس کے ساتھ بھی اس وقت تک مباشرت نہیں کی جاسکتی جب تک کہ اسے ایک مرتبہ ایام ماہواری نہ آجائیں اور یہ اطمینان نہ ہولے کہ وہ حاملہ نہیں ہے ۔ اس سے پہلے مباشرت کرنا حرام ہے ۔ اور اگر وہ حاملہ ہو تو وضع حمل سے پہلے بھی مباشرت ناجائز ہے ۔ ( ۳ ) جنگ میں پکڑی ہوئی عورتوں سے تمتع کے معاملہ میں یہ شرط نہیں ہے کہ وہ اہل کتاب ہی میں سے ہوں ۔ ان کا مذہب خواہ کوئی ہو ، بہرحال جب وہ تقسیم کر دی جائیں گی تو جن کے حصہ میں وہ آئیں وہ ان سے تمتع کر سکتے ہیں ۔ ( ٤ ) جو عورت جس شخص کے حصہ میں دی گئی ہو صرف وہی اس کے ساتھ تمتع کر سکتا ہے ۔ کسی دوسرے کو اسے ہاتھ لگانے کا حق نہیں ہے ۔ اس عورت سے جو اولاد ہوگی وہ اسی شخص کی جائز اولاد سمجھی جائے گی جس کی ملک میں وہ عورت ہے ۔ اس اولاد کے قانونی حقوق وہی ہوں گے جو شریعت میں صلبی اولاد کے لیے مقرر ہیں ۔ صاحب اولاد ہوجانے کے بعد وہ عورت فروخت نہ کی جا سکے گی ۔ اور مالک کے مرتے ہی وہ آپ سے آپ آزاد ہو جائے گی ۔ ( ۵ ) جو عورت اس طرح کسی شخص کی ملک میں آئی ہو اسے اگر اس کا مالک کسی دوسرے شخص کے نکاح میں دیدے تو پھر مالک کو اس سے دوسری تمام خدمات لینے کا حق تو رہتا ہے لیکن شہوانی تعلق کا حق باقی نہیں رہتا ۔ ( ٦ ) جس طرح شریعت نے بیویوں کی تعداد پر چار کی پابندی لگائی ہے اس طرح لونڈیوں کی تعداد پر نہیں لگائی ۔ لیکن اس معاملہ میں کوئی حد مقرر نہ کرنے سے شریعت کا منشا یہ نہیں تھا کہ مالدار لوگ بے شمار لونڈیاں خرید کر جمع کرلیں اور اپنے گھر کو عیاشی کا گھر بنا لیں ۔ بلکہ درحقیقت اس معاملہ میں عدم تعین کی وجہ جنگی حالات کا عدم تعین ہے ۔ ( ۷ ) ملکیت کے تمام دوسرے حقوق کی طرح وہ مالکانہ حقوق بھی قابل انتقال ہیں جو کسی شخص کو ازروئے قانون کسی اسیر جنگ پر حکومت نے عطا کیے ہوں ۔ ( ۸ ) حکومت کی طرف سے حقوق ملکیت کا باقاعدہ عطا کیا جانا ویسا ہی ایک قانونی فعل ہے جیسا نکاح ایک قانونی فعل ہے ۔ لہٰذا کوئی معقول وجہ نہیں کہ جو شخص نکاح میں کسی قسم کی کراہت محسوس نہیں کرتا وہ خواہ مخواہ لونڈی سے تمتع میں کراہت محسوس کرے ۔ ( ۹ ) اسیران جنگ میں سے کسی عورت کو کسی شخص کی ملکیت میں دے دینے کے بعد پھر حکومت اسے واپس لینے کے مجاز نہیں رہتی ۔ بالکل اسی طرح جیسے کسی عورت کا ولی اس کو کسی کے نکاح میں دے چکنے کے بعد پھر واپس لینے کا حقدار نہیں رہتا ۔ اور محض کچھ وقت کے لیے انہیں فوج میں تقسیم کرے تو یہ اسلامی قانون کی رو سے قطعاً ایک ناجائز فعل ہے ۔ اس میں اور زنا میں کوئی فرق نہیں ہے ، اور زنا اسلامی قانون میں جرم ہے ۔ تفصیلی بحث کے لیے ملاحظہ ہو ہماری کتاب”تفہیمات“ حصہ دوم ۔ اور ”رسائل و مسائل“ حصہ اول ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

20: جوکنیزیں جہاد کے دوران گرفتار کرکے دارالاسلام لائی جاتی تھیں، اور ان کے شوہر دارالحرب میں رہ جاتے تھے، ان کا نکاح ان شوہروں سے ختم ہوجاتا تھا۔ لہٰذا جب وہ دارالاسلام میں آنے کے بعد ایک حیض کی مدت پوری کرلیتیں ،اور ان کو پچھلے شوہر سے حمل نہ ہوتا توان کا نکاح دارالاسلام کے کسی مسلمان سے جائز تھا۔ مگر یہ حکم انہی باندیوں کا ہے جو شرعی طور پر باندی بنائی گئی ہوں۔ آج کل ایسی کنیزوں یا باندیوں کا کہیں وجود نہیں ہے۔ 21: مقصد یہ ہے کہ نکاح ایک دیرپا تعلق کا نام ہے جس کا مقصد صرف جنسی خواہش پوری کرنا نہیں ہے، بلکہ ایک مضبوط خاندانی نظام کا قیام ہے جس میں مرد اور عورت ایک دوسرے کے حقوق اور ذمہ داریوں کے پابند ہوتے ہیں، اور اس رشتے کو عفت وعصمت کے تحفظ اور بقائے نسل اِنسانی کا ذریعہ بناتے ہیں۔ صرف شہوت نکالنے کے لئے ایک عارضی تعلق پیدا کرلینا، خواہ وہ پیسے خرچ کرکے ہی کیوں نہ ہو، ہرگز جائز نہیں ہے۔