Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

آزاد عورتوں سے نکاح اور کنیزوں سے متعلق ہدایات ارشاد ہوتا ہے کہ جسے آزاد مسلمان عورتوں سے نکاح کرنے کی وسعت قدرت نہ ہو ، ربیعہ فرماتے ہیں طول سے مراد قصد و خواہش یعنی لونڈی سے نکاح کی خواہش ، ابن جریر نے اس قول کو وارد کرکے پھر اسے خود ہی توڑ دیا ہے ، مطلب یہ کہ ایسے حالات میں مسلمانوں کی ملکیت میں جو لونڈیاں ہیں ان سے وہ نکاح کرلیں ، تمام کاموں کی حقیقت اللہ تعالیٰ پر واضح ہے ، تم حقائق کو صرف سطحی نگاہ سے دیکھتے ہو ، تم سب آزاد اور غلام ایمانی رشتے میں ایک ہو ، لونڈی کا ولی اس کا سردار ہے اس کی اجازت کے بغیر اس کا نکاح منعقد نہیں ہوسکتا ، اسی طرح غلام بھی اپنے سردار کی رضامندی حاصل کئے بغیر اپنا نکاح نہیں کرسکتا ۔ حدیث میں ہے جو غلام بغیر اپنے آقا کی اجازت کے اپنا نکاح کرلے وہ زانی ہے ، ہاں اگر کسی لونڈی کی مالکہ کوئی عورت ہو تو اس کی اجازت سے اس لونڈی کا نکاح وہ کرائے جو عورت کا نکاح کراسکتا ہے ، کیونکہ حدیث میں ہے عورت عورت کا نکاح نہ کرائے نہ عورت اپنا نکاح کرائے ، وہ عورتیں زنا کار ہیں جو اپنا نکاح آپ کرتی ہیں ۔ پھر فرمایا عورتوں کے مہر خوش دلی سے دے دیا کرو ، گھٹا کر کم کرکے تکلیف پہنچا کر لونڈی سمجھ کر کمی کرکے نہ دو ، پھر فرماتا ہے کہ دیکھ لیا کرو یہ عورتیں بدکاری کی طرف از خود مائل نہ ہوں ، نہ ایسی ہوں اگر کوئی ان کی طرف مائل ہو تو یہ جھک جائیں ، یعنی نہ تو علانیہ زنا کار ہوں نہ خفیہ بدکردار ہوں کہ ادھر ادھر آشنائیاں کرتی پھریں اور چپ چاپ دوست آشنا بناتی پھریں ، جو ایسی بد اطوار ہوں ان سے نکاح کرنے کو اللہ تعالیٰ منع فرما رہا ہے احصن کی دوسری قرأت احصن بھی ہے ، کہا گیا ہے کہ دونوں کا معنی ایک ہی ہے ، یہاں احصان سے مراد اسلام ہے یا نکاح والی ہوجانا ہے ، ابن ابی حاتم کی ایک مرفوع حدیث میں ہے کہ ان کا احصان اسلام اور عفت ہے لیکن یہ حدیث منکر ہے اس میں ضعف بھی ہے اور ایک راوی کا نام نہیں ، ایسی حدیث حجت کے لائق نہیں ہوتی ، دوسرا قول یعنی احصان سے مراد نکاح ہے حضرت ابن عباس مجاہد عکرمہ طاؤس سعید بن جبیر حسن قتادہ وغیرہ کا یہی قول ہے ، امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ سے بھی ابو علی طبری نے اپنی کتاب ایضاح میں یہی نقل کیا ہے ، مجاہد فرماتے ہیں لونڈی کا محصن ہونا یہ ہے کہ وہ کسی آزاد کے نکاح میں چلی جائے ، اسی طرح غلام کا احصان یہ ہے کہ وہ کسی آزاد مسلمہ سے نکاح کرلے ، ابن عباس سے بھی یہ منقول ہے ، شعبی اور نخعی بھی یہی کہتے ہیں ، یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان دونوں قرآتوں کے اعتبار سے معنی بھی بدل جاتے ہیں ، احصن سے مراد تو نکاح ہے اور احصن سے مراد اسلام ہے ، امام ابن جریر اسی کو پسند فرماتے ہیں ، لیکن بظاہر مراد یہاں نکاح کرنا ہے واللہ اعلم ، اسی لئے کہ سیاق آیات کی دلالت اسی پر ہے ، ایمان کا ذکر تو لفظوں میں موجود ہے بہر دو صورت جمہور کے مذہب کے مطابق آیت کے معنی میں بھی اشکال باقی ہے اس لئے کہ جمہور کا قول ہے کہ لونڈی کو زنا کی وجہ سے پچاس کوڑے لگائے جائیں گے خواہ وہ مسلمہ ہو یا کافرہ ہو شادی شدہ یا غیر شادی شدہ ہو باوجود یہ کہ آیت کے مفہوم کا تقاضا یہ ہے کہ غیر محصنہ لونڈی پر حد ہی نہ ہو ، پس اس کے مختلف جوابات دیئے گئے ہیں ، جمہور کا قول ہے کہ بیشک جو بولا گیا مفہوم پر مقدم ہے اس لئے ہم نے ان عام احادیث کو جن میں لونڈیوں کو حد مارنے کا بیان ہے اس آیت کے مفہوم پر مقدم کیا ، صحیح مسلم کی حدیث میں ہے کہ حضرت علی نے اپنے خطبے میں فرمایا لوگو اپنی لونڈیوں پر حدیں قائم رکھو خواہ وہ محصنہ ہوں یا نہ ہوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اپنی لونڈی کے زنا پر حد مارنے کو فرمایا چونکہ وہ نفاس میں تھی اس لئے مجھے ڈر لگا کہ کہیں حد کے کوڑے لگنے سے یہ مرنہ جائے چنانچہ میں نے اس وقت اسے حد نہ لگائی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں واقعہ بیان کیا تو آپ نے فرمایا تم نے اچھا کیا جب تک وہ ٹھیک ٹھاک نہ ہوجائے حد نہ مارنا ، مسند احمد میں ہے کہ آپ نے فرمایا جب یہ نفاس سے فارغ ہو تو اسے پچاس کوڑے لگانا ۔ حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا فرماتے تھے جب تم میں سے کسی کی لونڈی زنا کرے اور زنا ظاہر ہوجائے تو اسے وہ حد مارے اور برا بھلا نہ کہے پھر اگر دوبارہ زنا کرے تو بھی حد لگائے اور ڈانٹ جھڑک نہ کرے ، پھر اگر تیسری مرتبہ زنا کرے اور ظاہر ہو تو اسے بیچ ڈالے اگرچہ ایک رسی کے ٹکڑے کے بدلے ہی ہو ، اور صحیح مسلم میں ہے کہ جب تین بار یہ فعل اس سے سرزد ہو تو چوتھی دفعہ فروخت کر ڈالے ، عبداللہ بن عیاش بن ابو ربیعہ فحرومی فرماتے ہیں کہ ہم چند قریش نوجوانوں کو حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے امارت کی لونڈیوں سے کئی ایک پر حد جاری کرنے کو فرمایا ہم نے انہیں زنا کی حد میں پچاس پچاس کوڑے لگائے دوسرا جواب ان کا ہے جو اس بات کی طرف گئے ہیں کہ لونڈی پر احصان بغیر حد نہیں وہ فرماتے ہیں کہ یہ مارنا صرف بطور ادب سکھانے اور باز رکھنے کے ہے ، ابن عباس اسی طرف گئے ہیں طاؤس سعید ابو عبید داؤد ظاہری کا مذہب بھی یہی ہے ان کی بڑی دلیل مفہوم آیت ہے اور یہ شرط ہے مفہوموں میں سے ہے اور اکثر کے نزدیک یہ محض حجت ہے اس لئے ان کے نزدیک ایک عموم پر مقدم ہوسکتا ہے اور ابو ہریرہ اور زید بن خالد کی حدیث جس میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ جب لونڈی زنا کرے اور وہ محصنہ نہ ہو یعنی اس کا نکاح نہ ہوا ہو تو کیا جائے؟ آپ نے فرمایا اگر وہ زنا کرے تو اسے حد لگاؤ پھر زنا کرے تو پھر کوڑے لگاؤ پھر بیچ ڈالو گو ایک رسی کے ٹکڑے کے قیمت پر ہی کیوں نہ بیچنا پڑے ، راوی حدیث ابن شہاب فرماتے ہیں نہیں جانتا کہ تیسری مرتبہ کے بعد یہ فرمایا یا چوتھی مرتبہ کے بعد ۔ پس اس حدیث کے مطابق وہ جواب دیتے ہیں کہ دیکھو یہاں کی حد کی مقدار اور کوڑوں کی تعداد بیان نہیں فرمائی جیسے کہ محصنہ کے بارے میں صاف فرما دیا ہے اور جیسے کہ قرآن میں مقرر طور پر فرمایا گیا کہ محصنات کی نسبت نصف حد ان پر ہے ، پس آیت و حدیث میں اس طرح تطبیق دینا واجب ہوگئی واللہ اعلم ۔ اس سے بھی زیادہ صراحت والی وہ روایت ہے جو سعید بن منصور نے بروایت ابن عباس نقل کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کسی لونڈی پر حد نہیں جب تک کہ وہ احصان والی نہ ہوجائے یعنی جب تک نکاح والی نہ ہوجائے پس جب خاوند والی بن جائے تو اس پر آدھی حد ہے بہ نسبت اس حد کے جو آزاد نکاح والیوں پر ہے ، یہ حدیث ابن خزیمہ میں بھی ہے لیکن وہ فرماتے ہیں اسے مرفوع کہنا خطا ہے یہ موقوف ہے یعنی حضرت ابن عباس کا قول ہے ، بیہقی میں بھی یہ روایت ہے اور آپ کا بھی یہی فیصلہ ہے اور کہتے ہیں کہ حضرت علی اور حضرت عمر والی حدیثیں ایک واقعہ کا فیصلہ ہیں ، اور حضرت ابو ہریرہ والی حدیث دوسرے واقعہ کا فیصلہ ہیں اور حضرت ابو ہریرہ والی حدیث کے بھی کئی جوابات ہیں ایک تو یہ کہ یہ محمول ہے اس لونڈی پر جو شادی شدہ ہو اس طرح ان دونوں احادیث میں تطبیق اور جمع ہوجاتی ہے دوسرے یہ کہ اس حدیث میں لفظ حد کسی راوی کا داخل کیا ہوا ہے اور اس کی دلیل جواب کا فقرہ ہے ، تیسرا جواب یہ ہے کہ یہ حدیث دو صحابیوں کی ہے اور وہ حدیث صرف ایک صحابی کی ہے اور ایک والی پر دو والی مقدم ہے ، اور اسی طرح یہ حدیث نسائی میں بھی مروی ہے اور مسلم کی شرط پر اس کی سند ہے کہ حضرت عباد بن تمیم اپنے چچا سے جو بدری صحابی تھے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جب لونڈی زنا کرے تو اسے کوڑے لگاؤ پھر جب زنا کرے تو کوڑے مارو پھر جب زنا کرے تو کوڑے لگاؤ پھر جب زنا کرے تو بیچ دو اگرچہ ایک رسی کے ٹکڑے کے بدلے ہی بیچنا پڑے ۔ چوتھا جواب یہ ہے کہ یہ بھی بعید نہیں کہ کسی راوی نے جلد کو حد خیال کرلیا ہو یا لفظ حد کا اطلاق کردیا ہو اور اس نے جلد کو حد خیال کرلیا ہو یا لفظ حد کا اطلاق تادیب کے طور پر سزا دینے پر کردیا ہو جیسے کہ لفظ حد کا اطلاق اس سزا پر بھی کیا گیا ہے جو بیمار زانی کو کھجور کا ایک خوشہ مارا گیا تھا جس میں ایک سو چھوٹی چھوٹی شاخیں تھیں ، اور جیسے کہ لفظ حد کا اطلاق اس شخص پر بھی کیا گیا ہے جس نے اپنی بیوی کو اس لونڈی کے ساتھ زنا کیا جسی بیوی نے اس کے لئے حلال کردیا تھا حالانکہ اسے سو کوڑوں کا لگنا تعزیر کے طور پر صرف ایک سزا ہے جیسے کہ امام احمد وغیرہ سلف کا خیال ہے ۔ حد حقیقی صرف یہ ہے کہ کنوارے کو سو کوڑے اور شادی شدہ ہوئے کو رجم واللہ اعلم ۔ ابن ماجہ وغیرہ میں حضرت ٰسعید بن جبیر کا فرمان ہے کہ لونڈی نے جب تک نکاح نہیں کیا اسے زنا پر مارا نہ جائے ، اس کی اسناد تو صحیح ہے لیکن معنی دو ہوسکتے ہیں ایک تو یہ کہ بالکل مارا ہی نہ جائے نہ حد نہ اور کچھ توتو یہ قول بالکل غریب ہے ، ممکن ہے آیت کے الفاظ پر نظر کرکے یہ فتویٰ دے دیا ہو اور حدیث نہ پہنچی ہو ، دوسرے معنی یہ ہیں کہ حد کے طور پر نہ مارا جائے اگر یہ معنی مراد لئے جائیں تو اس کے خلاف نہیں کہ اور کوئی سزا کی جائے ، پس یہ قیاس حضرت ابن عباس وغیرہ کے فتوے کے مطابق ہوجائے گا واللہ اعلم ۔ تیسرا جواب یہ ہے کہ آیت میں دلالت ہے کہ محصنہ لونڈی پر بہ نسبت آزاد عورت کے آدھی حد ہے ، لیکن محصنہ ہونے سے پہلے کتاب و سنت کے عموم میں یہ بھی شامل ہے کہ اسے بھی سو کوڑے مارے جائیں جیسے اللہ تبارک و تعالیٰ کا فرمان ہے ( اَلزَّانِيَةُ وَالزَّانِيْ فَاجْلِدُوْا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا مِائَةَ جَلْدَ ) 24 ۔ النور:2 ) یعنی زنا کار عورت زنا کار مرد کو ہر ایک کو سو سو کوڑے مارو اور جیسے حدیث میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں میری بات لے لو میری بات سمجھ لو اللہ نے ان کے لئے راستہ نکال لیا اگر دونوں جانب غیر شادی شدہ ہیں تو سو کوڑے اور ایک سال کی جلا وطنی اور اگر دونوں طرف شادی شدہ ہیں تو سو کوڑے اور پتھروں سے رجم کردینا ۔ یہ حدیث صحیح مسلم شریف کی ہے اور اسی طرح کی اور حدیثیں بھی ہیں ، حضرت داؤد بن علی ظاہری کا یہی قول ہے لیکن یہ سخت ضعیف ہے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے محصنہ لونڈیوں کو بہ نسبت آزاد کے آدھے کوڑے مارنے کا عذاب بیان فرمایا یعنی پچاس کوڑے تو پھر جب تک وہ محصنہ نہ ہوں اس سے بھی زیادہ سزا کی سزا وار وہ کیسے ہوسکتی ہیں؟ حالانکہ قاعدہ شریعت یہ ہے کہ احصان سے پہلے کم سزا ہے اور احصان کے بعد زیادہ سزا ہے پھر اس کے برعکس کیسے صحیح ہوسکتا ہے؟ دیکھئے شارع علیہ السلام سے آپ کے صحابہ غیر شادی شدہ لونڈی کے زنا کی سزا پوچھتے ہیں اور آپ انہیں جواب دیتے ہیں کہ اسے کوڑے مارو لیکن یہ نہیں فرماتے کہ ایک سو کوڑے لگاؤ پس اگر اس کا حکم وہی ہوتا جو داؤد سمجھتے ہیں تو اسے بیان کر دینا حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر واجب تھا اس لئے کہ ان کا یہ سوال تو صرف اسی وجہ سے تھا کہ لونڈی کے شادی شدہ ہوجانے کے بعد اسے کوڑے مارنے کا بیان نہیں ورنہ اس قید کے لگانے کی کیا ضرورت تھی کہ سوال میں کہتے وہ غیر شادی شدہ ہے کیونکہ پھر تو شادی شدہ اور غیر شادی شدہ میں کوئی فرق ہی نہ رہا اگر یہ آیت اتری ہوئی نہ ہوتی لیکن چونکہ ان دونوں صورتوں میں سے ایک کا علم تو انہیں ہوچکا تھا اس لئے دوسری کی بابت سوال کیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ پر درود پڑھنے کی نسبت پوچھا تو آپ نے اسے بیان فرمایا اور فرمایا سلام تو اسی طرح ہے جس طرح تم خود جانتے ہو ، اور ایک روایت میں ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کا فرمان ( يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِــيْمًا ) 33 ۔ الاحزاب:56 ) نازل ہوا اور صلوۃ و سلام آپ پر بھیجنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا تو صحابہ نے کہا کہ سلام کا طریقہ اور اس کے الفاظ تو ہمیں معلوم ہیں صلوۃ کی کیفیت بیان فرمائے ۔ پس ٹھیک اسی طرح یہ سوال ہے مفہوم آیت کا چوتھا جواب ابو ثور کا ہے جو داؤد کے جواب سے زیادہ بودا ہے ، وہ فرماتے ہیں جب لونڈیاں شادی شدہ ہوجائیں تو ان کی زنا کاری کی حد ان پر آدھی ہے اس حد کی جو شادی شدہ آزاد عورتوں کی زنا کاری کی حد تو ظاہر ہے کہ آزاد عورتوں کی حد اس صورت میں رجم ہے اور یہ بھی ظاہر ہے کہ رجم آدھا نہیں ہوسکتا تو لونڈی کو اس صورت میں رجم کرنا پڑے گا اور شادی سے پہلے اسے پچاس کوڑے لگیں گے ، کیونکہ اس حالت میں آزاد عورت پر سو کوڑے ہیں ۔ پس دراصل آیت کا مطلب سمجھنے میں اس سے خطا ہوئی اور اس میں جمہور کا بھی خلاف ہے بلکہ امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ تو فرماتے ہیں کسی مسلمان کا اس میں اختلاف ہی نہیں کہ مملوک پر زنا کی سزا میں رجم ہے ہی نہیں ، اس لئے کہ آیت کی دلالت کرنی ہے کہ ان پر محصنات کا نصف عذاب ہے اور محصنات کے لفظ میں جو الف لام ہے وہ عہد کا ہے یعنی وہ محصنات جن کا بیان آیت کے شروع میں ہے ( وَمَنْ لَّمْ يَسْتَطِعْ مِنْكُمْ طَوْلًا اَنْ يَّنْكِحَ الْمُحْصَنٰتِ الْمُؤْمِنٰتِ فَمِنْ مَّا مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ مِّنْ فَتَيٰتِكُمُ الْمُؤْمِنٰتِ ) 4 ۔ النسآء:25 ) میں گزرچکا ہے اور مراد صرف آزاد عورتیں ہیں ۔ اس وقت یہاں آزاد عورتوں کا نکاح کے مسئلہ کی بحث نہیں بحث یہ ہے کہ پھر آگے چل کر ارشاد ہوتا ہے کہ ان پر زنا کاری کی جو سزا تھی اس سے آدھی سزا ان لونڈیوں پر ہے تو معلوم ہوا کہ یہ اس سزا کا ذکر ہے جو آدھی ہوسکتی ہو اور وہ کوڑے ہیں کہ سو سے آدھے پچاس رہ جائیں گے رجم یعنی سنگسار کرنا ایسی سزا ہے جس کے حصے نہیں ہوسکتے واللہ اعلم ، پھر مسند احمد میں ہے ایک واقعہ ہے جو ابو ثور کے مذہب کی پوری تردید کرتا ہے اس میں ہے کہ صفیہ لونڈی نے ایک غلام سے زناکاری کی اور اسی زنا سے بچہ ہوا جس کا دعویٰ زانی نے کیا مقدمہ حضرت عثمان کے پاس پہنچا آپ نے حضرت علی کو اس کا تصفیہ سونپا ، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا اس میں وہی فیصلہ کروں گا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے بچہ تو اس کا سمجھا جائے گا جس کی یہ لونڈی ہے اور زانی کو پتھر مارے جائیں گے پھر ان دونوں کو پچاس پچاس کوڑے لگائے ، یہ بھی کہا گیا ہے کہ مراد مفہوم سے تنبیہہ ہے اعلیٰ کے ساتھ ادنیٰ پر یعنی جب کہ وہ شادی شدہ ہوں تو ان پر بہ نسبت آزاد عورتوں کے آدھی حد ہے پس ان پر رجم تو سرے سے کسی صورت میں ہے ہی نہیں نہ قبل از نکاح نہ بعد نکاح ، دونوں حالتوں میں صرف کوڑے ہیں جس کی دلیل حدیث ہے ، صاحب مصباح یہی فرماتے ہیں اور حضرت امام شافعی سے بھی اسی کو ذکر کرتے ہیں ، امام بیہقی اپنی کتاب سنن و آثار میں بھی اسے لائے ہیں لیکن یہ قول لفظ آیت سے بہت دور ہے اس طرح کہ آدھی حد کی دلیل صرف آیت ہے اس کے سوا کچھ نہیں پس اس کے علاوہ میں آدھا ہونا کس طرح سمجھا جائے گا ؟ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ مطلب یہ ہے کہ شادی شدہ ہونے کی حالت میں صرف امام ہی حد قائم کرسکتا ہے اس لونڈی کا مالک اس حال میں اس پر حد جاری نہیں کرسکتا امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کے مذہب میں ایک قول یہی ہے ہاں شادی سے پہلے اس کے مالک کو حد جاری کرنے کا اختیار ہے بلکہ حکم ہے لیکن دونوں صورتوں میں حد آدھی ہی آدھی رہے گی اور یہ بھی دور کی بات ہے اس لئے کہ آیت میں اس کی دلالت بھی نہیں ، اگر اگر یہ آیت نہ ہوتی تو ہم نہیں جان سکتے تھے کہ لونڈیوں کے بارے میں آدھی حد ہے اور اس صورت میں انہیں بھی عموم میں داخل کرکے پوری حد یعنی سو کوڑے اور رجم ان پر بھی جاری کرنا واجب ہوجاتا جیسے کہ عام روایتوں سے ثابت ہے ، حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ لوگو اپنے ماتحتوں پر حدیں جاری کرو شادی شدہ ہوں یا غیر شادی شدہ اور وہ عام حدیثیں جو پہلے گزرچکی ہیں جن میں خاوندوں والی اور خاوندوں کے بغیر کوئی تفصیل نہیں ، حضرت ابو ہریرہ کی روایت والی حدیث جس سے جمہور نے دلیل ] پکڑی ہے یہ ہے کہ جب تم میں سے کسی کوئی زنا کرے اور پھر اس کا زنا ظاہر ہوجائے تو اسے چاہئے کہ اس پر حد جاری کرے اور ڈانٹ ڈپٹ نہ کرے ( ملخص ) الغرض لونڈی کی زنا کاری کی حد میں کئی قول ہیں ایک تو یہ کہ جب تک اس کا نکاح نہیں ہوا اسے پچاس کوڑے مارے جائیں گے اور نکاح ہوجانے کے بعد بھی یہی حد رہے گی اور اسے جلاوطن بھی کیا جائے گا یا نہیں؟ اس میں تین قول ہیں ایک یہ کہ جلا وطنی ہوگی دوسرے یہ کہ نہ ہوگی تیسرے یہ کہ جلا وطنی میں آدھے سال کو ملحوظ رکھا جائے گا یعنی چھ مہینے کا دیس نکالا دیا جائے گا پورے سال کا نہیں ، پورا سال آزاد عورتوں کے لئے ہے ، یہ تینوں قول امام شافعی کے مذہب میں ہیں ، لیکن امام ابو حنیفہ کے نزدیک جلا وطنی تعزیر کے طور پر ہے وہ حد میں سے نہیں امام کی رائے پر موقوف ہے اگر چاہے جلا وطنی دے یا نہ دے مرد و عورت سب اسی حکم میں داخل ہیں ہاں امام مالک کے مذہب میں ہے کہ جلا وطنی صرف مردوں کے لئے ہے عورتوں پر نہیں اس لئے کہ جلا وطنی صرف اس کی حفاظت کے لئے ہے اور اگر عورت کو جلا وطن کیا گیا تو حفاظت میں سے نکل جائے گی اور مردوں یا عورتوں کے بارے میں دیس نکالے کی حدیث صرف حضرت عبادہ اور حضرت ابو ہریرہ سے ہی مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس زانی کے بارے میں جس کی شادی نہیں ہوئی تھی حد مارنے اور ایک سال دیس نکالا دینے کا حکم فرمایا تھا ( بخاری ) اس سے معنی مراد یہی ہے کہ اس کی حفاظت رہے اور عورت کو وطن سے نکالے جانے میں یہ حفاظت بالکل ہی نہیں ہوسکتی واللہ اعلم ۔ دوسرا قول یہ ہے کہ لونڈی کو اس کی زنا کاری پر شادی کے بعد پچاس کوڑے مارے جائیں گے اور ادب دکھانے کے طور پر اسے کچھ مار پیٹ کی جائے گی لیکن اس کی کوئی مقرر گنتی نہیں پہلے گزرچکا ہے کہ شادی سے پہلے اسے مارا نہ جائے گا جیسے حضرت سعید بن مسیب کا قول ہے لیکن اگر اس سے یہ مراد لی جائے کہ سرے سے کچھ مارنا ہی نہ چاہئے تو یہ محض تاویل ہی ہوگی ورنہ قول ثانی میں اسے داخل کیا جاسکتا ہے جو یہ ہے کہ شادی سے پہلے سو کوڑے اور شادی کے بعد پچاس جیسے کے داؤد کا قول ہے اور یہ تمام اقوال سے بودا قول ہے اور یہ کہ شادی سے پہلے پچاس کوڑے اور شادی کے بعد رجم جیسے کہ ابو ثور کا قول ہے لیکن یہ قول بھی بودا ہے ۔ واللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم بالصواب ۔ پھر فرمان ہے کہ لونڈیوں سے نکاح کرنا ان شرائط کی موجودگی میں جو بیان ہوئیں ان کے لئے جنہیں زنا میں واقع ہونے کا خطرہ ہو اور تجرد اس پر بہت شاق گزر رہا ہو اور اس کی وجہ سے سخت تکلیف میں ہو تو بیشک اسے پاکدامن لونڈیوں سے نکاح کرلینا جائز ہے گو اس حالت میں بھی اپنے نفس کو روکے رکھنا اور ان سے نکاح نہ کرنا بہت بہتر ہے اس لئے کہ اس سے جو اولاد ہوگی وہ اس کے مالک کے لونڈی غلام ہوگی ہاں اگر خاوند غریب ہو تو اس کی یہ اولاد اس کے آقا کی ملکیت امام شافعی کے قول قدیم کے مطابق نہ ہوگی ۔ پھر فرمایا اگر تم صبر کرو تو تمہارے لئے افضل ہے اور اللہ غفور و رحیم ہے ، جمہور علماء نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ لونڈی سے نکاح جائز ہے لیکن یہ اس وقت جب آزاد عورتوں سے نکاح کرنے کی طاقت نہ ہو اور نہ ہی رکے رہنے کی طاقت ہو ، بلکہ زنا واقع ہوجانے کا خوف ہو ۔ کیونکہ اس میں ایک خرابی تو یہ ہے کہ اولاد غلامی میں جاتی ہے دوسرے ایک طرح ہے کہ آزاد عورت کو چھوڑ کر لونڈیوں کی طرف متوجہ ہونا ۔ ہاں جمہور کے مخالف امام ابو حنیفہ اور ان کے ساتھی کہتے ہیں یہ دونوں باتیں شرط نہیں بلکہ جس کے نکاح میں کوئی آزاد عورت نہ ہو اسے لونڈی سے نکاح جائز ہے وہ لونڈی خواہ مومنہ ہو خواہ اہل کتاب میں سے ہو ۔ چاہے اسے آزاد عورت سے نکاح کرنے کی طاقت بھی ہو اور اسے بدکاری کا خوف بھی نہ ہو ، اس کی بڑی دلیل یہ آیت والمحصنات من الذین اوتوا الکتاب من قبلکم یعنی آزاد عورتیں ان میں سے جو تم سے پہلے کتاب اللہ دئے گئے ۔ پس وہ کہتے ہیں یہ آیت عام ہے جس میں آزاد اور غیر آزاد سب ہی شامل ہیں اور محصنات سے مراد پاکدامن باعصمت عورتیں ہیں لیکن اس کی ظاہری دلالت بھی اسی مسئلہ پر ہے جو جمہور کا مذہب ہے ۔ واللہ اعلم ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

25۔ 1 اس سے معلوم ہوا کہ لونڈیوں کا مالک ہی لونڈیوں کا ولی ہے لونڈی کا کسی جگہ نکاح اس کی اجازت کے بغیر نہیں کیا جاسکتا۔ اسی طرح غلام بھی اپنے مالک کی اجازت کے بغیر کسی جگہ نکاح نہیں کرسکتا۔ 25۔ 2 یعنی لونڈیوں کو (100) کے بجائے نصف یعنی (50) کوڑوں کی سزا دی جائے گی۔ گویا ان کے لئے سزائے رجم نہیں ہے، کیونکہ وہ نصف نہیں ہوسکتی اور غیرشادی شدہ کو تعزیری سزا ہوگی۔ 25۔ 3 یعنی لونڈیوں سے شادی کی اجازت ایسے لوگوں کے لئے ہے جو جوانی کے جذبات پر کنٹرول رکھنے کی طاقت نہ رکھتے ہوں اور بدکاری میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہو اگر ایسا اندیشہ نہ ہو تو اس وقت تک صبر کرنا بہتر ہے جب تک کسی آزاد خاندانی عورت سے شادی کے قابل نہ ہوجائے

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٤٣] محصنات کا ترجمہ آزاد عورتیں بھی ہے اور شادی شدہ عورتیں بھی۔ اور مذکورہ آیت میں ترجمہ لامحالہ آزاد غیر شادی شدہ عورتیں ہی ہوسکتا ہے۔ جن سے نکاح کی اجازت دی جا رہی ہے۔ اور دوسری بار جو اسی آیت میں محصنات (نِصْفُ مَا عَلَي الْمُحْصَنٰتِ مِنَ الْعَذَابِ 25؀ ) 4 ۔ النسآء :25) کا ذکر آیا ہے تو اس کا معنیٰ بھی لامحالہ آزاد غیر شادی شدہ عورتیں ہی لینا پڑے گا۔ اور چونکہ آزاد غیر شادی شدہ زانیہ کی سزا سو کوڑے ہے لہذا جو منکوحہ لونڈی زنا کرے اس کی سزا غیر شادی شدہ آزاد عورت سے نصف یعنی ٥٠ کوڑے ہوئے۔ اسی طرح غلام کی سزا بھی ٥٠ کوڑے ہے اور اگر وہ غیر شادی شدہ ہوں تو ان کی سزا تعزیر ہے حد نہیں۔- نصف رجم اور منکرین حدیث کا چکمہ :۔ یہ آیت جہاں اس بات کی دلیل مہیا کرتی ہے کہ سورة نور میں بیان شدہ سزا صرف کنوارے مرد و عورت کی ہی ہوسکتی ہے وہاں منکرین حدیث کے ایک اعتراض کا جواب بھی مہیا کرتی ہے۔ ایسے لوگوں کا اعتراض یہ ہے کہ شادی شدہ عورت کی سزائے زنا حدیث کے مطابق رجم ہے۔ اور شادی شدہ لونڈی کی سزائے زنا قرآن کے مطابق شادی شدہ عورت کی سزا کا نصف ہے اور یہ نصف رجم بنتی ہے اور چونکہ نصف رجم ممکن نہیں لہذا حدیث میں وارد شدہ سزا درست نہیں ہوسکتی۔ اور اس سے آگے یہ کہ حدیث بذات خود قابل اعتماد چیز نہیں لہذا درست بات یہی ہے کہ عورت اور مرد چاہے کنوارے ہوں یا شادی شدہ بلا امتیاز سب کی سزا سو کوڑے ہے جیسا کہ قرآن میں مذکور ہے۔ - ایک اعتراض کا جواب :۔ اس اعتراض کا جواب دینے سے پہلے یہ لغوی وضاحت ضروری ہے کہ احصان (زنا سے بچاؤ) دو طرح سے ہوتا ہے۔ ایک تو آزادی سے کہ آزاد عورت خاندان کی حفاظت میں ہوتی ہے اور اگر لونڈی آزاد ہوجائے تو اسے بھی ایسا احصان میسر آجاتا ہے۔ دوسرا احصان نکاح سے ہوتا ہے کہ خاوند بھی زنا سے حفاظت کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ اس طرح محصنات کا ترجمہ آزاد عورتیں بھی ہوسکتا ہے اور شادی شدہ عورتیں بھی، اور جب دونوں قسم کے احصان جمع ہوجائیں تو آزاد شادی شدہ عورتیں بھی ہوتا ہے۔ اب اعتراض کا جواب یہ ہے جیسا کہ پہلے لکھا جا چکا ہے کہ اس آیت نمبر ٢٤ کے ابتدا میں جو محصنات کا لفظ آیا ہے اس کا معنیٰ تو صریحاً آزاد غیر شادی شدہ عورت کی سزا (١٠٠ کوڑے) کا نصف ٥٠ کوڑے ہے اور یہی منکوحہ لونڈی کی زنا کی سزا ہے۔ اور منکرین حدیث فریب یہ دیتے ہیں کہ محصنات کا ترجمہ آزاد بیاہی عورت کر کے اس پر یہ اعتراض وارد کردیتے ہیں اور یہ بات آیت کے ربط کے بھی خلاف ہے جو یہ ہے کہ اگر کوئی شخص آزاد عورت سے نکاح کی طاقت نہیں رکھتا تو کسی مومنہ لونڈی سے نکاح کرلے۔ یہاں محصنات کا ترجمہ آزاد شادی شدہ عورت ہو ہی نہیں سکتا۔- [٤٤] یعنی ایک آزاد مرد اگر آزاد عورت سے شادی کے اخراجات کا متحمل نہ ہو اور اسے یہ بھی خدشہ ہو کہ اگر نکاح نہ کرے تو جنسی آوارگی کا شکار ہوجائے گا تو اس صورت میں اسے مومنہ لونڈی سے نکاح کرلینے کی اجازت دی گئی اور ساتھ ہی فرمایا کہ پھر بھی اگر تم صبر کرو تو تمہارے حق میں بہتر ہے۔ اس بہتری کی صورت اور حکمت تو اللہ ہی جانتا ہے بظاہر تو یہی بہتری نظر آتی ہے کہ اولاد آزاد پیدا ہوگی اور اس صبر کا جو طریقہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیان فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ سیدنا عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ ہم کچھ نوجوان رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں رہا کرتے اور ہمیں شادی کرنے کا مقدور نہ تھا۔ تو آپ نے فرمایا اے نوجوانو تم میں سے جو شخص خانہ داری کی استطاعت رکھتا ہے اسے چاہیے کہ شادی کرلے۔ کیونکہ نکاح سے نگاہ نیچی اور شرمگاہ بچی رہتی ہے۔ اور جو یہ طاقت نہ رکھتا ہو وہ روزے رکھا کرے جو اس کی شہوت کو توڑ دیں گے۔ (بخاری۔ کتاب النکاح، باب من لم یستطع الباءۃ فلیصم)

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَمَنْ لَّمْ يَسْتَطِعْ ۔۔ : یعنی اگر کسی شخص کی مالی حالت اس امر کی اجازت نہیں دیتی کہ آزاد مسلمان عورتوں سے نکاح کرے تو کسی دوسرے مسلمان کی لونڈی سے نکاح کرلے، بشرطیکہ وہ لونڈی مسلمان ہو۔ یہاں کسی شخص کو اپنی لونڈی سے نکاح کرنے کی اجازت کا بیان نہیں، کیونکہ اس کا لونڈی ہونا ہی مالک کے لیے اس سے صحبت کے جواز کا باعث ہے۔ اس کے علاوہ کوئی اس سے صحبت نہیں کرسکتا اور اس کی اولاد جائز اولاد سمجھی جائے گی، ہاں اگر نکاح ہی کرنا چاہتا ہے تو پھر اسے آزاد کر دے اور آزاد کر کے نکاح کرلے۔ (فتح القدیر) - بَعْضُكُمْ مِّنْۢ بَعْضٍ ۚ: یعنی تم سب آدم (علیہ السلام) کی اولاد ہو اور تمہاری ملت بھی ایک ہے، پھر محض لونڈی ہونے کی وجہ سے اس سے نکاح میں تردد نہ کرو۔ (شوکانی) - فَانْكِحُوْھُنَّ بِاِذْنِ اَھْلِهِنَّ : یعنی جیسے آزاد مسلمان عورت سے نکاح کے لیے ولی (سرپرست) کی اجازت ضروری ہے، اسی طرح لونڈی سے نکاح کے لیے بھی اس کے مالک کی اجازت ضروری ہے۔ اسی طرح غلام بھی اپنے مالک کی اجازت کے بغیر نکاح نہیں کرسکتا۔ - وَاٰتُوْھُنَّ اُجُوْرَھُنَّ : ان الفاظ سے بعض نے سمجھا ہے کہ مہر لونڈی کا حق ہے، لیکن اکثر علمائے سلف کے نزدیک یہ مہر لونڈی کے مالک کا ہوگا، لونڈی کی طرف مہر کی اضافت مجازی ہے۔ (فتح القدیر) - وَّلَا مُتَّخِذٰتِ اَخْدَانٍ ۚ : اخدان خدن کی جمع ہے ” خفیہ آشنا “ چھپی یاری سے منع فرمایا تو نکاح میں گواہ لازم ہوئے۔ - نِصْفُ مَا عَلَي الْمُحْصَنٰتِ مِنَ الْعَذَابِ ۭ : ” المحصنات “ میں الف لام عہدکا ہے اس سے مخصوص محصنات یعنی کنواری آزاد عورتیں مراد ہیں کیونکہ ان کی سزا سو کوڑے ہے جس کا نصف ہوسکتا ہے شادی شدہ آزاد عورتوں کی سزا رجم ہے اس کا نہ نصف ہوسکتا ہے نہ یہاں ” المحصنات “ سے وہ مراد ہیں یعنی لونڈی اگر شادی شدہ ہونے کے بعد زنا کریں تو انھیں کنواری آزاد عورتوں کی سزا سے نصف سزا دی جائے گی جو پچاس کوڑے ہے۔ جن لوگوں نے اس آیت کو رجم کے انکار کی دلیل بنایا ہے کہ چونکہ رجم کا نصف ہو نہیں سکتا ہے اس لیے رجم شریعت میں ہے ہی نہیں انھوں نے اپنی کم علمی سے الف لام کا مفہوم سمجھا ہی نہیں نہ المحصنات کی صحیح مراد سمجھی ہے۔ عبداللہ بن عیاش مخزومی فرماتے ہیں کہ عمر (رض) نے مجھے اور قریش کے چند نوجوانوں کو حکم دیا تو ہم نے حکومتی لونڈیوں میں سے کچھ لونڈیوں کو زنا کرنے کی وجہ سے پچاس پچاس کوڑے لگائے۔ [ المؤطا، الحدود، باب ما جاء فی حد الزنا : ١٦ ] - ذٰلِكَ لِمَنْ خَشِيَ : یعنی مذکورہ شرطوں کے ساتھ لونڈی سے نکاح صرف اسی صورت میں جائز ہے جب بدکاری میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہو۔ (قرطبی) - وَاَنْ تَصْبِرُوْا خَيْرٌ لَّكُمْ : اس سے اکثر علمائے سلف نے استدلال کیا ہے کہ لونڈی سے نکاح نہ کرنا ہی بہتر ہے، کیونکہ ایسی منکوحہ لونڈی کی اولاد بھی اس کے مالک کی غلام ہوتی ہے۔ (ابن کثیر)

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

ربط آیات :- اوپر سے چونکہ نکاح کے احکام چلے آ رہے ہیں اس لئے اسی کے ذیل میں اب شرعی لونڈیوں کے ساتھ نکاح کرنے کا ذکر شروع ہوا اور پھر انہی کے متعلق حد کا حکم بھی بیان کردیا گیا کہ باندی اور غلام کی حد آزاد عورت و مرد سے مختلف ہوتی ہے۔- خلاصہ تفسیر - اور جو شخص تم میں پوری قدرت اور گنجائش نہ رکھتا ہو آزاد مسلمان عورتوں سے نکاح کرنے کی تو وہ اپنے آپس (والوں) کی مسلمان لونڈیوں سے جو کہ تم لوگوں کی (شرعاً ) مملوکہ میں نکاح کرلے (کیونکہ اکثر لونڈیوں کا مہر وغیرہ کم ہوتا ہے اور ان کو غریب کے ساتھ بیاہ دینے میں عار بھی نہیں کرتے) اور (لونڈی سے نکاح کرنے میں عار نہ کرے، کیونکہ دین کی رو سے تو ممکن ہے کہ وہ تم سے بھی افضل ہو، وجہ یہ کہ مدار افضلیت دین کا ایمان ہے اور) تمہارے ایمان کی پوری حالت اللہ ہی کو معلوم ہے (کہ اس میں کون اعلی ہے کون ادنی ہے کیونکہ وہ متعلق قلب کے ہے، جس کی پوری اطلاع اللہ ہی کو ہے اور دنیا کی رو سے زیادہ وجہ عار کی تفاوت نسب ہے، اس میں جو انساب کا اصل مبداء ہے یعنی حضرت آدم و حواء (علیہما السلام) اس میں مشارکت کے اعتبار سے) تم سب آپس میں ایک دوسرے کے برابر ہو (پھر عار کی کیا وجہ) سو (جب عدم عار کی وجہ معلوم ہوگئی تو ضرورت مذکورہ کے وقت) ان سے نکاح کرلیا کرو (مگر شرط یہ بھی ہے کہ) ان کے مالکوں کی اجازت سے (ہو) اور ان (کے ان مالکوں) کو ان کے مہر قاعدہ (شرعیہ) کے موافق دے دیا کرو (اور یہ مہر دینا) اس طور پر (ہو) کہ وہ منکوحہ بنائی جاویں نہ تو علانیہ بدکاری کرنے والی ہوں اور نہ خفیہ آشنائی کرنے والی ہوں (ینی وہ مہر بمقابلہ نکاح ہو بطور اجرت زنا کے دینے سے وہ حلال نہ ہوگی) پھر جب وہ لونڈیاں منکوحہ بنا لی جاویں، پھر اگر وہ بڑی بےحیائی کا کام (یعنی زنا) کریں تو (بعد ثبوت بشرطیکہ مسلمان ہوں) ان پر اس سزا سے نصف سزا (جاری) ہوگی جو کہ (غیر منکوحہ) آزاد عورتوں پر ہوتی ہے، (جیسا کہ نکاح کے قبل بھی لونڈیوں کی یہی سزا تھی اور اسی طرح غلاموں کی بھی) یہ (لونڈیوں سے نکاح کرنا) اس شخص کے لئے (مناسب) ہے جو تم میں (بوجہ غلبہ شہوت اور آزاد منکوحہ میسر نہ ہونے کے) زنا (میں مبتلا ہوجانے) کا اندیشہ رکھتا ہو (اور جس کو یہ اندیشہ نہ ہو اس کے لئے مناسب نہیں) اور (اگر اس اندیشہ کی حالت میں بھی اپنے نفس پر قادر ہو تو) تمہارا ضبط کرنا زیادہ بہتر ہے (بہ نسبت نکاح کنیز کے) اور (یوں) اللہ تعالیٰ بڑے بخشنے والے ہیں (اگر صورت کراہت میں بھی نکاح کرلیا، ہم مواخذہ نہیں کرینگے اور) بڑی رحمت والے ہیں (کہ حرمت کا حکم نہیں فرمایا۔ )- معارف ومسائل - طول قدرت اور غناء کو کہتے ہیں آیت کا مطلب یہ ہے کہ جس کو آزاد عورتوں سے نکاح کرنے کی قدرت نہ ہو یا اس کا سامان میسر نہ ہو تو مومن باندیوں سے نکاح کرسکتا ہے اس سے پتہ چلا کہ جہاں تک ممکن ہو آزاد عورت ہی سے نکاح کرنا چاہئے، باندی سے نکاح نہ کرے اور اگر باندی سے نکاح کرنا پڑ ہی جائے تو مومن باندی تلاش کرے۔- حضرت امام ابوحنیفہ کا یہی مذہب ہے کہ آزاد عورت سے نکاح کی قدرت ہوتے ہوئے باندی سے نکاح کرلینا یا کتابیہ باندی سے نکاح کرلینا مکرہ ہے۔- اور حضرت امام شافعی اور دیگر ائمہ کے نزدیک آزاد عورت سے نکاح کی قدرت ہوتے ہوئے باندی سے نکاح کرنا حرام ہے اور کتابیہ باندی سے نکاح کرنا مطلقاً جائز نہیں ہے۔- بہرحال باندی کے نکاح سے بچنا آزاد مرد کے لئے ہر حال میں بہتر ہے اور اگر مجبوراً کرنا ہو تو مومن باندی سے نکاح کریں وجہ اس کی یہ ہے کہ باندی سے جو اولاد پیدا ہو وہ اس شخص کی غلام ہوتی ہے جو باندی کا مالک ہے اور غیر مومن باندی سے جو اولاد ہوگی اندیشہ ہے کہ وہ ماں کے ڈھنگ پر غیر دین اختیار کریں اولاد کو غلامی سے بچانے اور مومن بنانے کے لئے یہ ضروری ہے کہ بچوں کی ماں آزاد ہو اور اگر باندی ہو تو کم از کم مؤ منہ ضرور ہو، تاکہ بچہ کا ایمان محفوظ رہے، اسی لئے علماء کرام نے فرمایا ہے کہ کتابی عورت جو آزاد ہو اس سے اگرچہ نکاح کرنا درست ہے، لیکن بچنا بہتر ہے اور اس دور میں تو اس کی اہمیت بہت زیادہ ہے، کیونکہ یہود و نصاری کی عورتیں عموماً مسلمانوں سے اس لئے نکاح کرتی ہیں کہ خود شوہر کو اور شوہر کی اولاد کو اپنے دین پر لا سکیں۔- پھر فرمایا واللہ اعلم بایمانکم بعضکم من بعض یعنی اللہ تعالیٰ کو تمہارے ایمان کا خوب علم ہے، ایمان وجہ فضیلت ہے، بعض مرتبہ غلام اور باندی ایمانی مرتبہ میں آزاد مرد و عورت سے بڑھے ہوئے ہوتے ہیں، اس لئے مومن باندی سے نکاح کرنے کو قابل نفرت نہ جانیں، بلکہ اس کے ایمان کی قدر کریں۔- آخر میں فرمایا بعضکم من بعضٍ ، یعنی آزاد اور غلام سب ایک ہی جنس بنی آدم سے تعلق رکھتے ہیں، اور سب ایک ہی نفس سے پیدا ہوئے ہیں، فضیلت کا مدار ایمان اور تقوی پر ہے، قال فی المظھری فھاتان الجملتان لتانیس الناس بنکاح الاماء ومنعھم عن الاستنکاف منھن ” یعنی ان دونوں جملوں کا مطلب یہ ہے کہ لوگ باندیوں کے نکاح سے مانوس ہوں اور اس نکاح کو قابل نفرت نہ سمجھیں۔ “- فاتکحھن باذن اھلھن واتوھن اجورھن بالمعروف یعنی باندیوں سے نکاح ان کے مالکوں کی اجازت سے کرو، اگر وہ اجازت نہ دیں تو باندیوں کا نکاح صحیح نہ ہوگا، اس لئے کہ باندی کو خود اپنے نفس پر ولایت حال نہیں ہوتی، یہی حکم غلام کا بھی ہے کہ وہ اپنے آقا کی اجازت کے بغیر نکاح کرسکتا۔- پھر فرمایا کہ باندیوں سے نکاح کرو اس حال میں کہ وہ پاک دامن ہیں نہ وہ مسافحات ہو (یعنی علانیہ زنا کرنے والی) اور خفیہ طریقہ پر آشنا رکھنے والی ہو، گو اس جگہ پر باندیوں کے بارے میں فرمایا ہے کہ نکاح کے لیے پاک دامن باندیوں کو تلاش کرو، لیکن آزاد عورت جو زانیہ ہو اس سے نکاح سے بچنا بھی افضل اور بہتر ہے۔- جیسا کہ آیت سے معلوم ہوا کہ اگر حر کے ساتھ نکاح کی قدرت نہ ہو تو باندی کے ساتھ نکاح کرو، اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ متعہ جائز نہیں، اس لئے کہ اگر متعہ جائز ہوتا تو حرہ کے ساتھ نکاح کے عدم استطاعت کی صورت میں کسی شخص کے لئے آسان ترین صورت متعہ کرنے کی تھی کہ اس میں جنسی خواہش بھی پوری ہوجاتی اور مالی بوجھ بھی نکاح کے مقابلہ میں بہت کم ہوتا۔- نیز آیت میں محصنت غیر مسٰفحت کے ساتھ باندیوں کی صفت بیان کی گئی ہے اور متعہ کی صورت میں سفاح ہی سفاح ہوتا ہے کہ ایک عورت قلیل مدت میں متعدد اشخاص کے استعمال میں آتی ہے اور چونکہ بچہ کسی کی طرف منسوب نہیں کیا جاسکتا، اس لئے تناسل کا بھی فائدہ حاصل نہیں ہوتا اور سب کی قوت صرف شہوت رانی میں ضائع چلی جاتی ہے۔- پھر فرمایا فاذا احصن فان اتین بفاحشة فعلیھن نصف ماعلی المحصنت من العذاب، یعنی جب باندیاں نکاح میں آگئیں، اور ان کے پاک دامن رہنے کا انتظام ہوگیا تو اب اگر زنا کر بیٹھیں تو ان کو اس سزا سے آدھی سز ملے گی جو آزاد عورتوں کے لئے مقرر ہے، اس سے غیر شادی شدہ آزاد عورتیں مراد ہیں، غیر شادی شدہ آزاد مرد و عورت سے اگر زنا کا صدور ہوجائے تو اس کو سو کوڑے لگائے جائیں گے، جس کا ذکر سورة نور کی دوسری آیت میں ہے اور جو کوئی شادی شدہ مرد و عورت زنا کرلے تو اس کی سزا رجم ہے یعنی پتھروں سے مار مار کر قتل کردیا جائے گا چونکہ اس میں تنصیف نہیں ہو سکتی، اس لئے چاروں اماموں کا مذہب یہی ہے کہ غلام یا باندی خواہ شادی شدہ ہوں خواہ کنوارے ہوں اگر ان سے زنا سرزد ہوجائے تو ان کی سزا پچاس کوڑے ہیں، باندیوں کا حکم تو آیت شریفہ میں مذکور ہے، اور بطور دلالتہ النص غلام کا مسئلہ بھی اسی سے سمجھ میں آ رہا ہے۔- ذلک لمن خشی العنت منکم یعنی باندیوں سے نکاح کرنے کی اجازت اس شخص کے لئے ہے جس کو زنا میں پڑجانے کا اندیشہ ہو۔ - وان تصبروا خیر لکم یعنی باوجود اندیشہ زنا کے بھی اگر صبر کرلو اور اپنے نفسوں کو پاک دامن رکھ سکو تو یہ تمہارے لئے اس بات سے بہتر ہے کہ باندیوں سے نکاح کرو۔ - آیت کے ختم پر فرمایا واللہ غفور رحیم، یعنی باندیوں سے نکاح کرنا مکروہ ہے، اگر اس کراہت پر عمل کرلو گے تب بھی اللہ تعالیٰ معاف فرما دیں گے اور وہ رحم والا بھی ہے کیونکہ اس نے باندیوں سے نکاح کی اجازت دیدی، اور اس کو ممنوع قرار نہیں دیا۔- فائدہ :۔ آیت بالا کی تفسیر میں جو غلام وباندی کا ذکر آیا ہے ان سے شرعی غلام و باندی مراد ہیں جو کافر مرد و عورت جہاد کے موقع پر قید کر لئے جاتے تھے اور امیر المومنین ان کو مجاہدین میں تقسیم کردیتا تھا، یہ قیدی غلام باندی بن جاتے تھے، پھر ان کی نسل بھی غلام رہتی تھی (باستثناء بعض صورتوں کے) جن کا تفصیلی ذکر فقہ کی کتابوں میں ہے جب سے مسلمانوں نے شرعی طو پر جہاد کرنا چھوڑ دیا ہے اور اپنے جہاد اور صلح و جنگ کا مدار دشمنان دین کے اشاروں پر رکھ دیا اور غیر شرعی اصولوں کے پابند ہوگئے ہیں اس وقت سے غلام اور باندی سے بھی محروم ہوگئے، موجودہ نوکر چاکر اور گھروں میں کام کرنے والی نوکرانیاں غلام باندی نہیں ہیں۔ اس لئے کہ یہ آزاد ہیں۔- بعض علاقوں میں بچوں کو بیچ دیتے ہیں اور غلام بنا لیتے ہیں، یہ سراسر حرام ہے اور ایسا کرنے سے یہ غلام باندی نہیں بن جاتے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَمَنْ لَّمْ يَسْتَطِعْ مِنْكُمْ طَوْلًا اَنْ يَّنْكِحَ الْمُحْصَنٰتِ الْمُؤْمِنٰتِ فَمِنْ مَّا مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ مِّنْ فَتَيٰتِكُمُ الْمُؤْمِنٰتِ۝ ٠ۭ وَاللہُ اَعْلَمُ بِـاِيْمَانِكُمْ۝ ٠ۭ بَعْضُكُمْ مِّنْۢ بَعْضٍ۝ ٠ۚ فَانْكِحُوْھُنَّ بِـاِذْنِ اَھْلِہِنَّ وَاٰتُوْھُنَّ اُجُوْرَھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ مُحْصَنٰتٍ غَيْرَ مُسٰفِحٰتٍ وَّلَا مُتَّخِذٰتِ اَخْدَانٍ۝ ٠ۚ فَاِذَآ اُحْصِنَّ فَاِنْ اَتَيْنَ بِفَاحِشَۃٍ فَعَلَيْہِنَّ نِصْفُ مَا عَلَي الْمُحْصَنٰتِ مِنَ الْعَذَابِ۝ ٠ۭ ذٰلِكَ لِمَنْ خَشِيَ الْعَنَتَ مِنْكُمْ۝ ٠ۭ وَاَنْ تَصْبِرُوْا خَيْرٌ لَّكُمْ۝ ٠ۭ وَاللہُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۝ ٢٥ۧ- الاستطاعۃ - . وَالاسْتِطَاعَةُ : استفالة من الطَّوْعِ ، وذلک وجود ما يصير به الفعل متأتّيا، الاسْتِطَاعَةُ أخصّ من القدرة . قال تعالی: لا يَسْتَطِيعُونَ نَصْرَ أَنْفُسِهِمْ [ الأنبیاء 43] - ( ط و ع ) الطوع - الاستطاعۃ ( استفعال )- یہ طوع سے استفعال کے وزن پر ہے اور اس کے معنی ہیں کسی کام کو سر انجام دینے کے لئے جن اسباب کی ضرورت ہوتی ہے ان سب کا موجہ ہونا ۔ اور استطاعت قدرت سے اخص ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ لا يَسْتَطِيعُونَ نَصْرَ أَنْفُسِهِمْ [ الأنبیاء 43] وہ نہ تو آپ اپنی مدد کرسکتے ہیں ۔ - طول - الطُّولُ والقِصَرُ من الأسماء المتضایفة كما تقدّم، ويستعمل في الأعيان والأعراض کالزّمان وغیره قال تعالی: فَطالَ عَلَيْهِمُ الْأَمَدُ [ الحدید 16] ، سَبْحاً طَوِيلًا[ المزمل 7] ، ويقال : طَوِيلٌ وطُوَالٌ ، و عریض وعُرَاضٌ ، وللجمع : طِوَالٌ ، وقیل : طِيَالٌ ، وباعتبار الطُّولِ قيل للحبل المرخيِّ علی الدّابة : طِوَلٌ «3» ، وطَوِّلْ فرسَكَ ، أي : أَرْخِ طِوَلَهُ ، وقیل : طِوَالُ الدّهرِ لمدّته الطَّوِيلَةِ ، وَتَطَاوَلَ فلانٌ: إذا أظهر الطُّولَ ، أو الطَّوْلَ. قال تعالی: فَتَطاوَلَ عَلَيْهِمُ الْعُمُرُ [ القصص 45] ، وَالطَّوْلُ خُصَّ به الفضلُ والمنُّ ، قال : شَدِيدِ الْعِقابِ ذِي الطَّوْلِ [ غافر 3] ، وقوله تعالی: اسْتَأْذَنَكَ أُولُوا الطَّوْلِ مِنْهُمْ [ التوبة 86] ، وَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ مِنْكُمْ طَوْلًا[ النساء 25] ، كناية عمّا يصرف إلى المهر والنّفقة . وطَالُوتُ اسمٌ عَلَمٌ وهو أعجميٌّ.- ( ط و ل ) الطول - یہ اسمائے اضافیہ سے ہے ۔ اور اس کے معنی دراز اور لمبا ہونا کے ہیں یہ القصر کے مقابلہ میں آتا ہے اور اعیان واعرراض مثلا زمانہ وغیرہ سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے قرآن میں ہے : ۔ فَطالَ عَلَيْهِمُ الْأَمَدُ [ الحدید 16] پھر ان پر لمبا عرصہ گزر گیا ۔ سَبْحاً طَوِيلًا[ المزمل 7] بہت لمبے شغل ( ہوتے ہیں ) طول طول جیسے عریض و عریض دراز لمبا اس کی جمع طوال آتی ہے اور بعض نے طیال بھی کہا ہے اور لمبا ہونے کی مناسبت سے جانور کی پچھاڑی کی رسی کو طول کہا جاتا ہے طول کہا جاتا ہے طول فرسک اپنے گھوڑے کی پچھاڑی باندھ دے ۔ طوال الدھر عرصہ دارز ۔ تطاول فلان درازی یا وسعت کو ظاہر کرنا ۔ قرآن میں ہے ۔ فَتَطاوَلَ عَلَيْهِمُ الْعُمُرُ [ القصص 45] پھر ان پر لمبا عرسہ گزر گیا ۔ اور طول کا لفظ خاص کر فضل و احسان کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛ شَدِيدِ الْعِقابِ ذِي الطَّوْلِ [ غافر 3] سخت عذاب دینے والا اور صاحب کرم ہے ۔ اور آیت کریمہ : اسْتَأْذَنَكَ أُولُوا الطَّوْلِ مِنْهُمْ [ التوبة 86] تو جو ان میں دولتمند ہیں وہ تم سے اجازت طلب کرتے ہیں میں اولوالطول سے خوش حال طبقہ مراد ہے اور آیت کریمہ : وَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ مِنْكُمْ طَوْلًا[ النساء 25] اور جو شخص تم میں سے مقدر نہ رکھے ۔ میں طولا کنایہ ہے اس مال سے - ( جو عورت کو ) مہر میں یا نان ونفقہ کے طور پر دینا پڑتا ہے ۔- طالوت - یہ اسم عجمی ہے اور بنی اسرائیل کے ایک با اقبال بادشاہ کا نام تھا ۔- نكح - أصل النِّكَاحُ للعَقْدِ ، ثم استُعِيرَ للجِماع، ومُحالٌ أن يكونَ في الأصلِ للجِمَاعِ ، ثمّ استعیر للعَقْد، لأَنَّ أسماءَ الجِمَاعِ كلَّهَا كِنَايَاتٌ لاسْتِقْبَاحِهِمْ ذكرَهُ كاسْتِقْبَاحِ تَعَاطِيهِ ، ومحال أن يَسْتَعِيرَ منَ لا يَقْصِدُ فحْشاً اسمَ ما يَسْتَفْظِعُونَهُ لما يَسْتَحْسِنُونَهُ. قال تعالی: وَأَنْكِحُوا الْأَيامی - [ النور 32] ، إِذا نَكَحْتُمُ الْمُؤْمِناتِ [ الأحزاب 49] ، فَانْكِحُوهُنَّ بِإِذْنِ أَهْلِهِنَ [ النساء 25] إلى غير ذلک من الآیات .- ( ن ک ح ) اصل میں نکاح بمعنی عقد آتا ہے اور بطور استعارہ جماع کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے یہ ناممکن ہے کہ یہ اصل میں بمعنی جماع ہو اور پھر عقد میں بطور استعارہ استعمال ہوا ہو کیوں کہ عربی زبان میں جماع کے معنی میں تمام الفاظ کنائی ہیں ۔ کیونکہ نفس فعل کی طرح صراحتا اس کا تذکرہ بھی مکروہ سمجھا جاتا ہے لہذا یہ نہیں ہوسکتا کہ زبان ذکر فحش سے اس قدر گریزا ہو وہ ایک مستحن امر کے لئے قبیح لفظ استعمال کرے قرآن پاک میں ہے : ۔ وَأَنْكِحُوا الْأَيامی[ النور 32] اور اپنی قوم کی بیوہ عورتوں کے نکاح کردیا کرو ۔ إِذا نَكَحْتُمُ الْمُؤْمِناتِ [ الأحزاب 49] جب تم مومن عورتوں سے نکاح کر کے فَانْكِحُوهُنَّ بِإِذْنِ أَهْلِهِنَ [ النساء 25] تو ان لونڈیوں کے ساتھ ان کے مالکوں سے اجازت حاصل کر کے نکاح کرلو ۔ علٰی ہذا لقیاس متعد آیات ہیں جن میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے ۔- محْصِنة- فالمُحْصِن يقال : إذا تصوّر حصنها من نفسها، والمُحْصَن يقال إذا تصوّر حصنها من غيرها، وقوله عزّ وجل : وَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ مُحْصَناتٍ غَيْرَ مُسافِحاتٍ [ النساء 25] ، وبعده : فَإِذا أُحْصِنَّ فَإِنْ أَتَيْنَ بِفاحِشَةٍ فَعَلَيْهِنَّ نِصْفُ ما عَلَى الْمُحْصَناتِ مِنَ الْعَذابِ [ النساء 25] ، ولهذا قيل : المحصنات : المزوّجات، تصوّرا أنّ زوجها هو الذي أحصنها، والْمُحْصَناتُ مِنَ النِّساءِ [ النساء 24] بعد قوله : حُرِّمَتْ [ النساء 23] ، بالفتح لا غير، وفي سائر المواضع بالفتح والکسر، لأنّ اللواتي حرم التزوج بهن المزوّجات دون العفیفات، وفي سائر المواضع يحتمل الوجهين .- الحصان کے معنی محصنۃ عورت کے ہیں خواہ وہ احصان پاکدامن کی وجہ سے ہو یا کسی کے ساتھ نکاح کرلینے کی وجہ سے اور یا اپنے شرف اور حریت کی وجہ سے محفوظ ہو اور عورت کو محصن ( بصیغہ فاعل بھی کہا جاتا ہے اور محصن ( بصیغہ مفعول ) بھی اول بھی کہا جاتا ہے اور محسن ( بصیغہ مفعول ) بھی اول یعنی صیغہ فاعل اس تصور کی بنا پر ہے کہ وہ خود اپنی ذات کی حفاظت کرتی ہے اور اسم مفعول دوسرے کی جانب سے حفاظت کی وجہ سے ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ مُحْصَناتٍ غَيْرَ مُسافِحاتٍ [ النساء 25] اور دستور کے مطابق ان کا مہر بھی ادا کردو ۔ بشرطیکہ عفیفہ ہوں نہ ایسی کھلم کھلا بدکاری کریں ۔۔۔۔ پھر اگر نکاح مین آکر بدکاری کا ارتکاب کر بیٹھیں تو جو سزا آزاد عورتوں ( یعنی بیبیوں ) کے لئے ہے اس کی آدھی ان کو دی جائے ۔ میں اول محصنات سے شوہر والی عورتیں مراد ہیں گو یا خا وند ان کی حفاظت کرتے ہیں اور قرآن میں جہاں کہیں بھی محصنات کا لفظ آیا ہے وہاں فتحہ اور کسرہ صادر دونوں طرح پڑھنا صحیح ہے لیکن جہاں حرمت کے بعد آیا ہے وہاں صرف فتحہ صاد کے ساتھ ہی پڑھا جائیگا کیونکہ شوہر دار عورتوں کے ساتھ ہی نکاح حرام ہے نہ کہ عفائف کے ساتھ ۔- أیمان - يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ( ا م ن ) - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ - ملکت ايمانکم - والمِلْكَة تختصّ بمِلْك العبید، ويقال : فلان حسن الملکة . أي :- الصّنع إلى مماليكه، وخصّ ملک العبید في القرآن بالیمین، فقال : لِيَسْتَأْذِنْكُمُ الَّذِينَ مَلَكَتْ أَيْمانُكُمْ [ النور 58] ، وقوله : أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُكُمْ [ النساء 3] اور قرآن پاک میں غلاموں کے مالک کو یمین کے ساتھ مخصوص کیا گیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لِيَسْتَأْذِنْكُمُ الَّذِينَ مَلَكَتْ أَيْمانُكُمْ [ النور 58] تمہارے غلام لونڈیاں ۔۔۔۔۔۔ اجازت لیا کریں ۔ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُكُمْ [ النساء 3] یا لونڈی جس کے تم مالک ہو ۔ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُنَّ [ النور 31] اپنے لونڈی غلاموں کے سوا ) الملوکۃ یہ بمعنی ملک کے آتا ہے جیسے : ۔ یعنی ملک کا اقرار کرنے والا غلام ۔- فتی - الفَتَى الطّريُّ من الشّباب، والأنثی فَتَاةٌ ، والمصدر فَتَاءٌ ، ويكنّى بهما عن العبد والأمة .- قال تعالی: تُراوِدُ فَتاها عَنْ نَفْسِهِ [يوسف 30]- ( ف ت ی ) الفتیٰ- کے معنی نوجوان کے ہیں اس کی مونث فتاۃ اور مصدر فتاء ہے بعدہ کنایہ کے طور پر یہ دونوں لفظ ( فتی اور فتاۃ ) غلام اور لونڈی کے معنی میں استعمال ہونے لگے ہیں ۔ قرآن میں ہے :- تُراوِدُ فَتاها عَنْ نَفْسِهِ [يوسف 30] اپنے ٖغلام کو اپنی طرف مائل کرنا چاہتی تھی ۔ جس طرح نوجوان آدمی کو فتی کہا جاتا ہے - بعض - بَعْضُ الشیء : جزء منه، ويقال ذلک بمراعاة كلّ ، ولذلک يقابل به كلّ ، فيقال : بعضه وكلّه، وجمعه أَبْعَاض . قال عزّ وجلّ : بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ البقرة 36] - ( ب ع ض ) بعض - الشئی ہر چیز کے کچھ حصہ کو کہتے ہیں اور یہ کل کے اعتبار سے بولا جاتا ہے اسلئے کل کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے جیسے : بعضہ وکلہ اس کی جمع ابعاض آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ البقرة 36] تم ایک دوسرے کے دشمن ہو ۔ - أهل - أهل الرجل : من يجمعه وإياهم نسب أو دين، أو ما يجري مجراهما من صناعة وبیت وبلد، وأهل الرجل في الأصل : من يجمعه وإياهم مسکن واحد، ثم تجوّز به فقیل : أهل الرجل لمن يجمعه وإياهم نسب، وتعورف في أسرة النبيّ عليه الصلاة والسلام مطلقا إذا قيل :- أهل البیت لقوله عزّ وجلّ : إِنَّما يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ [ الأحزاب 33] - ( ا ھ ل ) اھل الرجل - ۔ ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جو اس کے ہم نسب یا ہم دین ہوں اور یا کسی صنعت یامکان میں شریک ہوں یا ایک شہر میں رہتے ہوں اصل میں اھل الرجل تو وہ ہیں جو کسی کے ساتھ ایک مسکن میں رہتے ہوں پھر مجازا آدمی کے قریبی رشتہ داروں پر اہل بیت الرجل کا لفظ بولا جانے لگا ہے اور عرف میں اہل البیت کا لفظ خاص کر آنحضرت کے خاندان پر بولا جانے لگا ہے کیونکہ قرآن میں ہے :۔ إِنَّمَا يُرِيدُ اللهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ ( سورة الأحزاب 33) اسے پیغمبر گے اہل بیت خدا چاہتا ہے کہ تم سے ناپاکی ( کا میل کچیل ) دور کردے ۔- معْرُوفُ :- اسمٌ لكلّ فعل يُعْرَفُ بالعقل أو الشّرع حسنه، والمنکر : ما ينكر بهما . قال : يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ [ آل عمران 104] ، وقال تعالی: وَأْمُرْ بِالْمَعْرُوفِ وَانْهَ عَنِ الْمُنْكَرِ [ لقمان 17] ، وَقُلْنَ قَوْلًا مَعْرُوفاً [ الأحزاب 32] ، ولهذا قيل للاقتصاد في الجود : مَعْرُوفٌ ، لمّا کان ذلک مستحسنا في العقول وبالشّرع . نحو : وَمَنْ كانَ فَقِيراً فَلْيَأْكُلْ بِالْمَعْرُوفِ [ النساء 6] - المعروف ہر اس قول یا فعل کا نام ہے جس کی خوبی عقل یا شریعت سے ثابت ہو اور منکر ہر اس بات کو کہاجائے گا جو عقل و شریعت کی رو سے بری سمجھی جائے ۔ قرآن پاک میں ہے : يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ [ آل عمران 104] اچھے کام کرنے کو کہتے ہیں اور بری باتوں سے منع کرتے ۔ وَقُلْنَ قَوْلًا مَعْرُوفاً [ الأحزاب 32] اور دستور کے مطابق ان سے بات کیا کرو ۔ یہی وجہ ہے کہ جود ( سخاوت ) میں اعتدال اختیار کرنے کو بھی معروف کہاجاتا ہے کیونکہ اعتدال عقل و شریعت کے اعتبار سے قابل ستائش ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : وَمَنْ كانَ فَقِيراً فَلْيَأْكُلْ بِالْمَعْرُوفِ [ النساء 6] اور جو بےمقدور ہو وہ مناسب طور پر یعنی بقدر خدمت کچھ لے لے ۔ - سفح - ( مسافحین) ، جمع مسافح، اسم فاعل من سافح الرباعي وزنه مفاعل بضم المیم وکسر العین - أخذ ( افتعال، مفاعله)- والاتّخاذ افتعال منه، ويعدّى إلى مفعولین ويجري مجری الجعل نحو قوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصاری أَوْلِياءَ [ المائدة 51] ، أَمِ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِياءَ [ الشوری 9] ، فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا [ المؤمنون 110] ، أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ : اتَّخِذُونِي وَأُمِّي إِلهَيْنِ مِنْ دُونِ اللَّهِ [ المائدة 116] ، وقوله تعالی: وَلَوْ يُؤاخِذُ اللَّهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ [ النحل 61] فتخصیص لفظ المؤاخذة تنبيه علی معنی المجازاة والمقابلة لما أخذوه من النعم فلم يقابلوه بالشکر - ( اخ ذ) الاخذ - الاتخاذ ( افتعال ) ہے اور یہ دو مفعولوں کی طرف متعدی ہوکر جعل کے جاری مجری ہوتا ہے جیسے فرمایا :۔ لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ ( سورة المائدة 51) یہود اور نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ ۔ وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ ( سورة الزمر 3) جن لوگوں نے اس کے سوا اور دوست بنائے ۔ فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا ( سورة المؤمنون 110) تو تم نے اس تمسخر بنالیا ۔ أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَهَيْنِ ( سورة المائدة 116) کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری والدہ کو معبود بنا لو ۔ اور آیت کریمہ : وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ ( سورة النحل 61) میں صیغہ مفاعلہ لاکر معنی مجازات اور مقابلہ پر تنبیہ کی ہے جو انعامات خدا کی طرف سے انہیں ملے ان کے مقابلہ میں انہوں نے شکر گذاری سے کام نہیں لیا ۔- خدن - قال اللہ تعالی: وَلا مُتَّخِذاتِ أَخْدانٍ [ النساء 25] ، جمع خِدْن، أي المصاحب، وأكثر ذلک يستعمل فيمن يصاحب بشهوة، يقال : خِدْنُ المرأة وخَدِينُهَا، وقول الشاعر :- خدین العلی فاستعارة، کقولهم : يعشق العلی، ويشبّب بالنّدى وينسب بالمکارم .- ( خ دن ) الخدن ۔ کے معنی مصاحب اور رفیق کے ہیں ۔ مگر عام طورپر اس مصاحب پر بولا جاتا ہے جو جنسی خواہش پوری کرنے کے لئے کسی کے ساتھ رہتا ہو اسی لئے خدن المرءۃ وخدینھا کا محاورہ ہے جس کے معنی عورت کے آشنا کے ہیں الخدن کی جمع اخدان آتی ہے قرآن میں ہے :َ وَلا مُتَّخِذاتِ أَخْدانٍ [ النساء 25] اور نہ وہ درپردہ آشنا رکھنے والی ہوں اور شاعر کے قول (131) ، ، خدین العلیٰ ِ ، ، وہ بلندیوں کا ساتھی ہے ۔ میں بلندیوں کے لئے خدین کا لفظ بطور استعارہ استعمال ہوا ہے جیسا کہ یعشق العلیٰ ( وہ بلندیوں پر عاشق ہے ) یشب بالندی ٰ ( وہ سخاوت کے ساتھ تشبیب کرتا ہے ) ینسب بالکارم ( اس کا نسب مکارم سے ملتا ہے ) اور وغیرہ ہا استعارات ہیں ۔- إذا - إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو :إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له - ( اذ ا ) اذ ا - ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔- اذا کی مختلف صورتیں ہیں :۔- (1) یہ ظرف زمان ہے۔ ( زجاج، ریاشی)- (2) یہ ظرف مکان ہے۔ ( مبرد، سیبوبہ)- (3) اکثر و بیشتر اذا شرط ہوتا ہے۔- مفسرین نے تینوں معنوں میں اس کا استعمال کیا ہے۔- (1) ظرف زمان : اور جب تو وہاں ( کی نعمتیں) دیکھے گا۔ تو تجھ کو وہاں بڑی نعمت اور شاہی سازو سامان نظر آئے گا۔ ( تفسیر حقانی) - (2) ظرف مکان : اور جدھر بھی تم وہاں دیکھو گے تمہیں نعمتیں ہی نعمتیں اور وسیع مملکت نظر آئے گی۔ ( تفسیر ضیاء القرآن)- (3) اذا شرطیہ۔ اور اگر تو اس جگہ کو دیکھے توتجھے بڑی نعمت اور بڑی سلطنت دکھائی دے۔ ( تفسیر ماجدی)- حصن - وتَحَصَّنَ : إذا اتخذ الحصن مسکنا، ثم يتجوّز به في كلّ تحرّز،- وقوله تعالی: إِلَّا قَلِيلًا مِمَّا تُحْصِنُونَ [يوسف 48] ، أي : تحرزون في المواضع الحصینة الجارية مجری الحصن - ( ح ص ن ) الحصن - تحصن کے اصل معنی تو قلعہ کو مسکن بنا لینا کے ہیں مگر مجا زا ہر قسم کا بجاؤ حاصل کرنے پر لفظ بولا جاتا ہے ۔ اسی سے درع حصینۃ ( زرہ محکم ) اور فرس حصان ( اسپ نرو نجیب کا محاورہ ہے ۔ کیونکہ زرہ بدن کے لئے اور گھوڑا اپنے سوار کے لئے ایک طرح سے بمنزلہ قلعہ کسے ہوتا ہے ۔- اور آیت کریمہ : ۔ إِلَّا قَلِيلًا مِمَّا تُحْصِنُونَ [يوسف 48] صرف وہی تھوڑا سا رہ جائیگا جو تم احتیاط سے رکھ چھوڑو گے ۔ میں تحصنون سے مراد یہ ہے کہ جو کچھ قلعے جیسی محفوظ جگہوں میں حفا ظت سے رکھ چھوڑو ۔- فحش - الفُحْشُ والفَحْشَاءُ والفَاحِشَةُ : ما عظم قبحه من الأفعال والأقوال، وقال : إِنَّ اللَّهَ لا يَأْمُرُ بِالْفَحْشاءِ [ الأعراف 28] - ( ف ح ش ) الفحش - والفحشاء والفاحشۃ اس قول یا فعل کو کہتے ہیں جو قباحت میں حد سے بڑھا ہوا ہو ۔ قرآن میں ہے :- إِنَّ اللَّهَ لا يَأْمُرُ بِالْفَحْشاءِ [ الأعراف 28] کہ خدا بےحیائی کے کام کرنے کا حکم ہر گز نہیں دیتا ۔ - خشی - الخَشْيَة : خوف يشوبه تعظیم، وأكثر ما يكون ذلک عن علم بما يخشی منه، ولذلک خصّ العلماء بها في قوله : إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر 28]- ( خ ش ی ) الخشیۃ - ۔ اس خوف کو کہتے ہیں جو کسی کی عظمت کی وجہ سے دل پر طاری ہوجائے ، یہ بات عام طور پر اس چیز کا علم ہونے سے ہوتی ہے جس سے انسان ڈرتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آیت کریمہ ؛۔ - إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر 28] اور خدا سے تو اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں ۔ میں خشیت الہی کے ساتھ علماء کو خاص کیا ہے ۔ - عنت - الْمُعَانَتَةُ کالمعاندة لکن المُعَانَتَةُ أبلغ، لأنها معاندة فيها خوف وهلاك، ولهذا يقال : عَنَتَ فلان : إذا وقع في أمر يخاف منه التّلف، يَعْنُتُ عَنَتاً. قال تعالی: لِمَنْ خَشِيَ الْعَنَتَ مِنْكُمْ- [ النساء 25] ، وَدُّوا ما عَنِتُّمْ [ آل عمران 118] ، عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ [ التوبة 128] ، وَعَنَتِ الْوُجُوهُ لِلْحَيِّ الْقَيُّومِ أي : ذلّت وخضعت، ويقال : أَعْنَتَهُ غيرُهُ. وَلَوْ شاءَ اللَّهُ لَأَعْنَتَكُمْ [ البقرة 220] ، ويقال للعظم المجبور إذا أصابه ألم فهاضه : قد أَعْنَتَهُ.- ( ع ن ت ) المعانتۃ - : یہ معاندۃ کے ہم معنی ہے معنیباہم عنا داوردشمنی سے کام لینا لیکن معانتۃ اس سے بلیغ تر ہے کیونکہ معانتۃ ایسے عناد کو کہتے ہیں جس میں خوف اور ہلاکت کا پہلو بھی ہو ۔ چناچہ عنت فلان ۔ ینعت عنتا اس وقت کہتے ہیں جب کوئی شخص ایسے معاملہ میں پھنس جائے جس میں تلف ہوجانیکا اندیشہ ہو ۔ قرآن پاک میں ہے لِمَنْ خَشِيَ الْعَنَتَ مِنْكُمْ [ النساء 25] اس شخص کو ہے جسے ہلاکت میں پڑنے کا اندیشہ ہو ۔ وَدُّوا ما عَنِتُّمْ [ آل عمران 118] اور چاہتے ہیں کہ ( جس طرح ہو ) تمہیں تکلیف پہنچے ۔ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ [ التوبة 128] تمہاری تکلیف ان کو گراں معلوم ہوتی ہے : اور آیت کریمہ : وَعَنَتِ الْوُجُوهُ لِلْحَيِّ الْقَيُّومِ «1»اور سب ( کے ) چہرے اس زندہ وقائم کے روبرو جھک جائیں گے ۔ میں عنت کے معنی ذلیل اور عاجز ہوجانے کے ہیں اور اعنتہ کے معنی تکلیف میں مبتلا کرنے کے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : وَلَوْ شاءَ اللَّهُ لَأَعْنَتَكُمْ [ البقرة 220] اور اگر خدا چاہتا تو تم کو تکلیف میں ڈال دیتا ۔ اور جس ہڈی کو جوڑا گیا ہو اگر اسے کوئی صدمہ پہنچے اور وہ دوبارہ ٹو ٹ جائے تو ایسے موقع پر بھی اعتتہ کا لفظ استعمال ہوتا ہے ۔- صبر - الصَّبْرُ : الإمساک في ضيق، والصَّبْرُ : حبس النّفس علی ما يقتضيه العقل والشرع، أو عمّا يقتضیان حبسها عنه، وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب 35] ، وسمّي الصّوم صبرا لکونه کالنّوع له، وقال عليه السلام :«صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر»- ( ص ب ر ) الصبر - کے معنی ہیں کسی کو تنگی کی حالت میں روک رکھنا ۔ لہذا الصبر کے معنی ہوئے عقل و شریعت دونوں یا ان میں سے کسی ایک کے تقاضا کے مطابق اپنے آپ کو روک رکھنا ۔ وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب 35] صبر کرنے والے مرو اور صبر کرنے والی عورتیں اور روزہ کو صبر کہا گیا ہے کیونکہ یہ بھی ضبط نفس کی ایک قسم ہے چناچہ آنحضرت نے فرمایا «صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر»- ماه رمضان اور ہر ماہ میں تین روزے سینہ سے بغض کو نکال ڈالتے ہیں - غفر - الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، ومنه قيل : اغْفِرْ ثوبک في الوعاء، واصبغ ثوبک فإنّه أَغْفَرُ للوسخ «1» ، والغُفْرَانُ والْمَغْفِرَةُ من اللہ هو أن يصون العبد من أن يمسّه العذاب . قال تعالی: غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة 285]- ( غ ف ر ) الغفر - ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اسی سے محاورہ ہے اغفر ثوبک فی ولوعاء اپنے کپڑوں کو صندوق وغیرہ میں ڈال کر چھپادو ۔ اصبغ ثوبک فانہ اغفر لو سخ کپڑے کو رنگ لو کیونکہ وہ میل کچیل کو زیادہ چھپانے والا ہے اللہ کی طرف سے مغفرۃ یا غفران کے معنی ہوتے ہیں بندے کو عذاب سے بچالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة 285] اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں ۔ - رحم - والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین .- ( ر ح م ) الرحم ۔- الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، - اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] لوگو تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے )

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

(سابقہ آیت کی بقیہ تفسیر)- اسی طرح قول باری ہے (ولکم نصف ماترک ازواجکم، اور تمہاری بیویوں کے چھوڑے ہوئے ترکہ میں تمہارے لیے نصف ہے جبکہ قائلین متعہ کے نزدیک ایسے مرد اور عورت کے مابین کوئی توارث نہیں ہوتا۔- یہ ہیں نکاح کے وہ احکام جو اس کے ساتھ مختص ہیں البتہ غلامی اور کفر نکاح کی صورت میں توارث کے درمیان حائل ہوجاتا ہے جبکہ متعہ کے اندر جانبین میں ایک کی غلامی یا کفر دوسرے کی میراث سے مانع نہیں ہوتا، اونہ ہی کوئی ایساسبب ہوتا ہے جو علیحدگی کا موجب بن سکتا ہو اورنہ ہی نسب کے ثبوت کی راہ میں کوئی رکاوٹ ہوتی ہے حالا کہ مرد فراش کی اہلیت رکھتا ہے اور فراش کی بنا پر اس سے نسب کا الحاق ہوسکتا ہے تو ان تمام باتوں سے یہ چیز ثابت ہوگئی کہ متعہ نکاح نہیں ہوتا۔- جب یہ نکاح یا ملک یمین کے دائرے سے خارج ہوگیا تومن جانب اللہ تحریم کی بنا پر یہ حرام ہوگا، جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے اپنے اس قول میں فرمایا ہے (فمن ابتغی وراء ذالک فاولئک ھم العادون) ۔- اگریہ کہاجائے کہ مدت جو علیحدگی کی موجب ہوتی ہے اس کا گذرجانا بھی توطلاق ہے تو اس کے جواب میں کہاجائے گا کہ طلاق یاتوصریح لفظ یاکنایہ کی بنا پر واقع ہوتی ہے اور متعہ کی صورت میں ان میں سے کوئی صورت پیش نہیں آئی توپھریہ طلاق کیسے ہوسکتی ہے۔- اس کے باوجود متعہ کے قائل کے اصول کے مطابق اگر حیض کے دوران مدت گزرجائے تو عورت بائن قرار نہ دی جائے کیونکہ قائلین متعہ حائضہ کی طلاق کو جائز نہیں سمجھتے اس لیے اگر مدت گزرنے کے ساتھ واقع ہونے والی علیحدگی طلاق بن جاتی توپھریہ ضروری ہوجاتا کہ حیض کی حالت میں طلاق کا وقوع نہ ہو۔- لیکن جب ان لوگوں نے مدت گزرنے کے ساتھ واقع ہونے والی علیحدگی کو حیض کی حالت میں واقع کردیا تو یہ اس کی دلیل بن گئی کہ یہ طلاق نہیں اور اگر عورت طلاق کے بغیر بائن ہوگئی جبکہ شوہر کی طرف سے کوئی ایسی حرکت نہیں ہوئی جو علیحدگی کی موجب ہو تو اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ متعہ نکاح نہیں۔- اگریہ کہاجائے کہ ہم نے نسب، عدت اور میراث کی نفی کا ذکر کیا ہے لیکن ان احکام کامنتفی ہوجانامتعہ کو نکاح بننے سے مانع نہیں ہے کیونکہ نابالغ کے ساتھ نسب کا الحاق نہیں ہوتا لیکن اس کا نکاح درست ہوتا ہے اسی طرح غلام وارث نہیں ہوتا اور مسلمان کافر کا وارث نہیں بنتا لیکن ان احکام کی انتفاء اس کے نکاح کو نکاح کے دائرے سے خارج نہیں کرتا۔- تو اس کے جواب میں کہاجائے گا کہ نابالغ کے نکاح کے ساتھ نسب کے ثبوت کا تعلق ہوجاتا ہے جب اس میں فراش جنسی ملاپ کی اہلیت پیدا ہوجاتی ہے جبکہ تم اس کے ساتھ عورت کے بطن سے پیدا ہونے والے بچے کے نسب کا الحاق نہیں کرتے حالانکہ وہ ہمبستری بھی پائی جاتی ہے جس کی بنا پر نکاح کی صورت میں اس کے ساتھ نسب کا الحاق جائز ہوتا ہے۔- غلام اور کافر توغلامی اور کفر کی بنا پروارث نہیں قرار پائے اور یہی دو باتیں مرد اور عورت کے درمیان توارث کے لیے مانع ہیں لیکن متعہ میں یہ دونوں باتیں موجود نہیں ہوتیں، اس لیے کہ طرفین میں سے ہر ایک کے اندر دوسرے سے وارث ہونے کی اہلیت ہوتی ہے۔- اب جبکہ ان دونوں میں میراث کو منقطع کرنے والی کوئی بات نہیں ہوتی اور پھر متعہ کی صورت میں وارثت نہیں پائی جاتی تو اس سے ہمیں یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ متعہ نکاح نہیں ہے کیونکہ اگر یہ نکاح ہوتاتوسبب کی موجودگی اور مانع کی غیرموجودگی کی بنا پر یہ میراث کا موجب بن جاتا نیز اس کے متعلق حضرت ابن عباس نے یہ فرمایا دیا تھا کہ نہ یہ نکاح ہے اور نہ سفاح۔- جب حضرت ابن عباس نے اس سے اسم نکاح کی نفی کردی تو ضروری ہوگیا کہ یہ نکاح نہ کہلائے گاکیون کہ حضرت ابن عباس سے شرع اور لغت کے لحاظ سے اسماء کے احکام مخفی نہیں تھے۔ جب صحابہ میں سے تنہاحضرت ابن عباس ہی متعہ کے قائل تھے اور وہی خود اسے نکاح نہیں تسلیم کرتے بلکہ اس سے نکاح کے اسم کی نفی کرتے ہیں تو اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ متعہ نکاح نہیں ہوتا۔- سنت کی جہت سے متعہ کو حرام قرار دینے والی وہ روایت جسے ہمیں عبدالباقی نے بیان کیا، انہیں معاذ بن المثنی نے ، انہیں القعنبی نے ، انہیں مالک نے ابن شہاب سے انہوں نے محمد بن علی کے دو بیٹوں عبداللہ اور حسن سے ان دونوں نے اپنے والد سے انہوں نے حضرت علی سے کہ حضور نے عورتوں سے متعہ کرنے اور پالتوگدھوں کا گوشت کھانے سے منع فرمادیا تھا۔- اس روایت میں امام مالک کے سوادوسرے راوی کے الفاظ یہ ہیں کہ حضرت علی حضرت ابن عباس سے فرمایا تھا کہ تم تو ایک دل پھینک انسان ہومتعہ کی رخصت تو اسلام کے ابتدائی زمانے میں تھی حضور نے غزوہ خیبر کے دنوں میں اس سے اور پالتوگدھوں کے گوشت سے منع فرمادیا تھا۔- یہی روایت کئی طرق سے زہری سے بھی مروی ہے اسے سفیان بن عیینہ اور عبیداللہ بن عمر اور کچھ دوسرے حضرات نے روایت کی ہے، عکرمہ بن عمار نے سعید المقبری سے ، انہوں نے حضرت ابوہریرہ سے روایت کی ہے کہ حضور نے غزوہ تبوک میں فرمایا، ان اللہ حرم المتعۃ باالطلاق والنکاح والعدۃ والمیراث۔- اللہ تعالیٰ نے طلاق ، نکاح ، عدت اور میراث کے احکامات بھیج کرمتعہ کو حرام کردیا ہے ) ۔ عبدالواحد بن زیاد نے ابوعمیس سے روایت کی ہے ، انہیں ایاس بن سلمہ بن الاکوع نے اپنے والد حضرت سلمہ بن الاکوع سے کہ حضور نے جنگ اوطاس کے سال متعہ کی اجازت دے دی تھی پھر اس سے منع فرمادیا۔- ہمیں عبدالباقی بن القانع نے روایت بیان کی، انہیں اسماعیل بن الفضل بلخی نے ، انہیں محمد بن جعفر بن موسیٰ نے انہیں محمد بن الحسن نے ، انہیں امام ابوحنیفہ نے نافع سے ، انہوں نے حضرت ابن عمر سے کہ حضور نے غزوہ خیبر کے دن عورتوں کے ساتھ متعہ کرنے سے منع فرما دیا تھا۔ حالانکہ ہم شہوت رانی نہیں کرتے تھے۔- ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ حضرت ابن عمر (رض) کا یہ قول ” وماکنا مسافحین “ (ہم لوگ شہوت رانی نہیں کرتے تھے) کئی احتمالات رکھتا ہے۔ اول یہ کہ جس وقت متعہ کی اباحت ہوئی۔ اس وقت بھی لوگ شہورت رانی نہیں کرتی تھے۔ یعنی اگر اس کی اباحت نہ بھی ہوتی تو پھر بھی لوگ شہوت رانی نہ کرتے اس کے ذریعے ان لوگوں کے قول کی تردید ہوگئی کہ اس کی اباحت ضرروت کے تحت ہوئی تھی جس طرح مردار اور خون کی اباحت تھی اور پھر اس سے روک دیا گیا۔ - دوم یہ کہ متعہ کی نہیں آنے کے بعد لوگ ایسا ہرگز نہ کرتے کہ ان کا شمار شہورت رانی کرنے والوں میں ہوجاتا۔ اس میں یہ بھی احتمال ہے کہ لوگ اباحت کی حالت میں بھی متعہ کے ذریعے جنسی آسودگی حاصل کرنے کی روادار نہیں تھے۔ - ہمیں محمد بن بکر نے رویات بیان کی، انہیں ابوداؤد نے، انہیں مسددنے، نہیں عبدالوارث نے اسماعیل بن امیہ سے ، انہوں نے زہری سے کہ انہوں نے کہا :” ہم لوگ حضرت عمر بن عبدالعزیز کے پاس بیٹھے ہوئے تھے اور عورتوں کے ساتتھ متعہ کرنے کے مسئلے پر گفتگو ہو رہی تھی۔ - ایک شخص جس کا نام ربیع بن سبرہ تھا کہنے لگا ” میں اپںے والد کے متعلق یہ گواہی دیتا ہوں کہ انہوں نے یہ روایت بیان کی کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حجۃ الوداع کے موقع پر متعہ سے لوگوں کو روک دیا تھا۔ “- عبدالعزیز بن الربیع بن سبرہ نے اپنے والد کے واسطے سے اپنے دادا سے روایت یک یہ ہے کہ نہیں کا حکم فتح مکہ کے سال دیا گیا تھا۔ اسماعیل بن عیاش نے عبدالعزیز بن عمر بن عبد العزیز سے، انہوں نے ربیع بن سبرہ سے ، انہوں نے اپنے والد سے اسی طرح کی روایت کی ہے اور یہ بھی ذکر یکا ہے کہ یہ واقعہ فتح مکہ کے سال پیش آیا تھا۔ - انس بن عیاض اللیثی نے عبدالعزیز بن عمرو سے ، انہوں نے ربیع بن سبرہ سے، انہوں نے اپنے والد سے اس قسم کی روایت کی ہے اور یہ کہا ہے کہ نہی کا حکم حجۃ الوداع کے موقع پر دیا گیا تھا۔ - متعہ کی تحریم میں راویوں کا اختلاف نہیں ہے، البتہ تحریم کی تاریخ میں اختلاف ہے، اس لیے تاریخ کا معاملہ ساقط ہوگیا اور یوں سمجھ لیا گیا کہ تحریم تاریخ کے بغیر وارد ہوئی ہے اور راویوں کے اتفاق کی بنا پر تحریم ثابت ہوگئی ہے۔ - امام ابوحنیفہ نے زہری انہوں نے محمد بن عبداللہ سے ، انہوں نے سبرہ جہنی سے روایت کی ہے کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فتح مکہ کے دن عورتوں سے متعہ کرنے سے منع فرمادیا۔ - ہمیں عبدالباقی بن قانع نے رویت بیان کی، انہیں ابن ناجیہ نے ، انہیں محمد مسلم زازی نے، انہیں عمرو بن ابی سلمہ نے، انہیں صدقہ نے عبیداللہ بن علی سے، انہوں نے اسماعیل بن امیہ سے ، انہوں نے محمد بن المنکدر سے ، انہوں نے حضرت جابر بن عبداللہ (رض) سے، ان کا کہنا ہے کہ ہمارے ساتھ وہ عورتیں بھی چل پڑیں جن سے ہم نے متعہ کیا تھا، اس موقع پر حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ” یہ عورتیں قیامت تک کے لیئے حرام ہیں “۔- اگر یہ کہا جائے کہ یہ متضاد روایتیں ہیں اس لیے کہ سبرہ جہنی کی روایت میں ہے کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حجۃ الوداع میں لوگوں کے لیے متعہ مباح کردیا تھا اور بعض کا قول ہے کہ فتح مکہ کے ساتل ایسا ہوا تھا، جبکہ حضرت علی اور حضرت ابن (رض) کی روایت میں ہے کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خیبر کی جنگ میں اس کی تحریم کردی تھی، حالانکہ خیبر کی جنگ فتح مکہ سے پہلے ہوئی تھی۔ - ایک قول ہے کہ یہ تحریم حجۃ الوداع کے موقع پر ہوئی تھی اب یہ فتح مکہ کے سال یا حجۃ الوداع کے موقعہ پر کس طرح مباح ہوسکتی تھی جبکہ اس کی تحریم اس سے قبل ہی غزوئہ خیبر کے سال ہوچکی تھی۔ اس اعتراض کا جواب دو طرح سے دیاجاتا ہے۔ - اول یہ کہ سبرہ کی روایت کی ترایخ مختلف فیہ ہے۔ بعض کا قول ہے یہ فتح مکہ کا سال تھا، بعض کا کہنا ہے کہ یہ حجۃ الوداع کا موقعہ تھا۔ ان دونوں روایتوں میں یہ کہا گیا ہے کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سفر میں متعہ کو مباح کردیا تھا پھر اسے حرام کردیا۔ - جب تاریخ کے متعلق راویوں میں اختلاف ہوگیا تو یہ ساقط ہوگئی اور روایت تاریخ کے بغیر وارد سمجھ لی گئی۔ اس لیے یہ حضرت علی اور حضرت ابن عمر (رض) کی روایت کے متضاد نہیں رہی جس کی تاریخ کے متعلق دونوں حضرات کا اتفاق ہے کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خیبر کی جنگ کے موقعہ پر اسے حرام کردیا تھا۔ - دوم یہ ممکن ہے کہ آپ نے جنگ خیبر کے موقع پرا سے حرام کردیا ہو پھر حجۃ الوداع یا فتح مکہ کے موقع پر اس کی اباحت کا حکم دے دیا ہو اور پھر تحریم کا حکم نافذ کردیا ہو۔ اس طرح حضرت علی اور حضرت ابن عمر (رض) کی روایت میں مذکورہ تحریم سبرہ جہنی کی روایت کی بنا پر منسوخ ہو کئی ہو اور پھر یہ اباحت سرہ ہی کی روایت کی بنا پر منسوخ ہوگئی ہو اس لیے کہ ایسا ہونا ممتنع نہیں ہے۔ - اگر یہ کہا جائے کہ اسماعیل بن ابی خالد نے قیس بن ابی حاتم سے اور انہوں نے حضرت ابن مسعود (رض) سے رویت کی ہے کہ ” ہم حضور اکرم صلی الل علیہ وسلم کی معیت میں غزوہ پر نکلے تھے، ہمارے ساتھ بیویاں نہیں تھیں۔ ہم نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فوطے نکولانی یعنی نامرد بن جانے کی اجازت چاہی لیکن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں اس سے روک دیا اور ایک کپڑ کے کے بدلے محدود مدت تک کے لیے نکاح کی اجازت دے دی پھر فرمایا (لا تحرموا طیبات ما احل اللہ لکم) ۔ - ان پاکیزہ چیزوں کو حرام نہ کروں جنہیں اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے حلال کردیا ہے) اس سوال کے جواب میں کہاجائے گا کہ یہی تو وہ متعہ ہے جسے حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان تمام روایت میں حرام قرار دیا ہے جن کا ہم نے ذکر کیا۔ - ہم اس سے انکا ر نہیں کرتے کہ ایک وقت متعہ کی اباحت تھی پھر اس یک حرمت ہوگئی۔ حضرت ابن مسعود (رض) کی روایت میں تاریخ کا ذکر نہیں ہے اس لیے ممانعت پر مشتمل روایات اس روایت کے بےاثر کردیں گی کیونکہ ان روایات میں اباحت کے بعد ممانعت کا ذکر ہے۔ - اگر ان روایات اور حضرت ابن مسعود (رض) کی روایت کو مساوی مان لیں پھر بھی ممانعت کی روایات اولی ہوں گی جیسا کہ ہم کئی جگہوں پر اس کی وضاحت کرتے ہئے ہیں۔ متعہ کی اباحت کا حکم دیتے ہوئے حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مذکورہ بالا آیت کی تلاوت فرمائی تھی تو اس میں احتمال ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے فوطے نکلوا کرنا مرد بن جانی اور مباح نکاح کو حرام کرلینے کی نہی مراد لی ہو اور یہ بھی احتمال ہے کہ اس سے متعہ مراد ہو اور یہ زمانہ متعہ کی اباحت کا زمانہ ہو۔ - حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) سے مروی ہے کہ طلاق ، عدت اور میراث کے احکام کی بنا پر متعہ کی اباحت کا حکم منسوخ ہوگیا ۔ یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ حضرت ابن مسعود (رض) کو اس کا علم تھا کہ یہ ایک وقت مباح تھا۔ اب اگر اس کی اباحت بحالہ باقی رہتی تو اس کی روایت بڑے وسیع پیمانے پر تواتر کی شکل ہوتی کیونکہ عام طور اس روایت کی ضرورت موجود تھی اور تمام لوگوں لوگوں کو اس کا اسی طرح علم تھا جس طرح شروع میں تھا اور پھر سا یک تحریم پر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کا اجماع نہ ہوتا۔ - جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کو اس کی اباحت سے انکار ہے بلکہ وہ اس کی ممانعت کے قائل ہیں حالانکہ ان سب کو ابتدا سے اس کی اباحت کا علم تھا تو ہمارے لیے یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ اباحت کے بعد پھر ممانعت ہوگئی تھی۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ جب نکاح کی اباحت قائم رہی تو اس کی اباحت کے متعلق ان حضرات کے درمیان کوئی اختلاف رائے پیدا نہیں ہوا۔ اور یہ تو واضح ہے کہ اگر متعہ کی اباحت ہوتی تو اس سے ان کو اتنا ہی سابقہ پڑتا جتنا کہ نکاح سے پڑا تھا اور اس صورت میں یہ ضروری ہوتا کہ متعہ کی اباحت کے باقی رہ جانے کے متعلق اس کثرت سے روایات ہوتیں کی اصول رویات کے مطابق یہ حد استفاضہ کو پہنچ جاتیں۔- متعہ کے بارے میں ابن عباس (رض) کا رجوع۔- جبکہ ہمیں حضرت ابن عباس (رض) کے سوا اور کسی صحابی کے متعلق یہ علم نہیں کہ انہوں نے متعہ کی اباحت کی کھلم کھلا بات کی ہو اور اس کی تحریم کے متعلق صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم سے تواتر کیساتھ تقل ہونے والی روایتوں سے آکاہ ہونے کے بعد حضرت ابن عباس (رض) نے بھی اپنے قول سے رجوع کرلیا تھا۔ - یہی بات بیع صرف یعنی سونے چاندی کی خرید و فروخت کے متعلق بھی پیدا ہوئی تھی کہ آپ ایک درہم کے دلے دو درہم کی نقد خرید و فروخت کی اباحت کے قائل تھے لیکن جب آپ کو یقین ہو کیا کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایسی بیع کو حرام قرار دیا ہے اور اس کی تحریم کے متعلق آپ کے پاس ہر طرف سے متواتر وایتیں پھنچیں تو آپ نے اپنے قول سے رجوع کر کے جمہور صحابہ کا قول اختیار کرلیا۔ ٹھیک یہی صورت متعہ کے متعلق بھی پیش آئی تھی۔ - صحابہ کرام رضو ان اللہ علیہم کو متعہ کی اباحت کے منسوخ ہوجانے کی خبر تھی اس پر حضرت عمر (رض) کا وہ قول دلالت کرتا جو آپ نے اپنے ایک خطبے کے دوران فرمایا تھا کہ ” حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں دو قسم کے متعہ جائز تھے لیکن اب میں ان سے روکتا ہوں اور ان کے مرتکب کو سزا دیتا ہوں۔ “- ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں۔” اگر تمہاری طرف سے اس طرف قدم اٹھتے تو میں سنگسار کردیتا “۔ آپ کی اس بات کی کسی نے تردید نہیں کی خاص طور پر جبکہ سامعین کو حضرت عمر (رض) کی زبانی حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عہد میں اس کی اباحت کی اطلاع بھی دے دی گئی تھی۔- صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کی رف سے اس قول کی تردیدنہ ہونے کی دو میں سے ایک وجہ ہوسکتی ہے یا تو یہ کہ انہیں اس کی اباحت کا علم تھا لیکن حضرت عمر (رض) کی وجہ سے ممانعت کے اس قول میں وہ سب ان کے ساتھ ہوگئے تھے۔ - صحابہ کرام کے بارے میں اس کا تصور بھی بعید ہے کیونکہ یہ رویہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ایک حکم کی کھلم کھلا خلاف وزری کا موجب ہے جبکہ اللہ تعلایٰ نے ان حضرات کی شان میں یہ فرمایا ہے کہ زمین میں پیدا ہونے والی تمام امتوں میں ان کی جماعت سب سے بہتر ہے، یہ نیکی کا حکم کرتے اور برائی سے روکتے ہیں اس لیے حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ایک کی مخا الفت پر ان حضرات کا اکٹھا ہونا امر محال ہے اور بعید از قیاس بات ہے اور اس لیے بھی کہ یہ رویہ طرز عمل کفر تک پہنچانے والا ہے اور اسلام سے اپنا ناطہ توڑ لینے کا موجب ہے کیونکہ جس شخص کو اس بات کا علم ہو کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے متعہ کی اباحت کا حکم دیا تھا پھر وہ اس کے منسوخ ہوجانے کے متعلق کچھ جانے بغیر اس کی ممانعت کا حکم جاری کر دے تو ایسا شخص ملت سے ہی خارج ہے۔ - اسی بنا پر ہمیں یہ معلوم ہوگیا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو اباحت کے بعد اس کی ممانعت کے بارے میں علم ہوچکا تھا اس لیے انہوں نے حضرت عمر (رض) کے قول کی تردید نہیں کی۔ اگر حضرت عمر (رض) کی کہی ہوئی بات غلط ہوتی اور صحابہ کرام کے نزدیک اس کا نسخ ثابت نہ ہوتا تو وہ حضرت عمر (رض) کی تردید کیئے بغیر انہیں جانے نہ دیتے۔ - یہی وہ بات ہے جو متعہ کے نسخ پر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اجماع کی دلیل طے طور پر ہمارے سامنے آئی ہے کیونکہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مباح کی ہوئی چیز کو نسخ کے علم کے بغیر حرام قرار دے کر اس کی ممانعت کردینا سرے سے جائز ہی نہیں ہے۔ - حرمت متعہ پر عقلی دلیل - عقلی طور پر اس کی تحریم پر یہ چیز دلالت کرتی ہے کہ ہم یہ جانتے ہیں کہ عقد نکاح سے اگرچہ منافع بضع مباح ہوجاتے ہیں لیکن عقد نکاح کی بنا پر منافع کے استحقاق کی وہی حیثیت ہے جو اعیان یعنی اشیاء کی ملکیت میں عقود کی ہے۔ نیز یہ کہ عقد نکاح اجارے کے عقود سے مختلف ہے جن میں اعیان کے منافع پیش نظر ہوتے ہیں۔- آپ دیکھ سکتے ہیں کہ عقد نکاح اس وقت درست ہوتا ہے جب اس میں کسی خاص مدت کی شرط نہ ہو اس کے برعکس اجارے کے عقود اس وقت درست ہوتے ہیں جب ان کی مدت معلوم ہو یا کام کی نوعیت معلوم ہو۔ اب جبکہ منافع بضع کے عقد کا حکم بیوع کے عقود یا اعیان پر ہونے والے ان جیسے عقود کے مشابہ قرار پیا تو اس حکم کا وقت کی شرط کے ساتھ نافذ العمل ہونا درست نہیں ہوگا۔- جس طرح مملوکہ اشیاء میں تملیک کا عمل خاص وقت تک کے لیے نہیں ہوتا۔ اس لیے جب منافع بضع کے عقد میں توقیت پائی جائے گی اور ایک خاص وقت کی شرط لگادی جائے گی تو یہ عقد ، عقدنکاح نہیں بن سکے گا اور پھر اس کے ذریعے بضع کو اپنے لیے مباح کرلینا درست نہیں ہوگا۔ جس طرح ملکیت کی توقیت کی شرط کے ساتھ عقد بیع درست نہیں ہوتا۔ - ہبہ کی تمام صورتوں اور صدقات کی شکلوں کا بھی یہی حکم ہے کہ ان میں سے کسی عقد کے ذریعے ایک خاص وقت تک کے لیے ملکیت حاصل نہیں ہوتی۔ اب منافع بضع چونکہ اعیان مملوکہ جیسی کیفیت کے حامل ہیں اس لیے ان میں بھی توقیت درست نہیں ہوتی۔ - متعہ کی اباحت کے قائلین اپنے حق میں یہ استدلال پیش کرسکتے ہیں کہ کم از کم اس پر تو سب کا اتفاق ہے کہ متعہ ایک زمانے میں مباح تھا پھر اس کی ممانعت کے متعلق اختلاف رائے ہوگیا۔ اس لیے ہم تو متفق علیہ امر پر جمے رہیں گے اور اختلاف کی وجہ سے اس سے دست بردار نہیں ہوں گے۔- انہیں یہ جواب دیا چائے گا کہ جن روایات کی بنا پر متعہ کی اباحت کا ثبوت ملتا ہے ان ہی روایات میں اس کی ممانعت کی بات بھی موجود ہے کیونکہ جس روایت میں متعہ کی اباحت کا ذکر ہے اسی روایت میں اس کی ممانعت بھی مذکورہ ہے۔ اس لیے جس بنا پر اس اس کی اباحت ثاب ہوتی ہے اسی بنا پر اس کی ممانعت کا بھی ثبوت ملتا ہے۔ اگر ممانعت ثاتب نہیں ہوستی تو اباحت بھی ثابت نہیں ہوسکتی کیونکہ جس جہت سے اباحت کا ثبوت ہے اسی جہت سے ممانعت کا بھی قوبت ہے۔ - نیز یہ کہنا کہ کسی بات پر اگر ہمارا اتفقا ہوجائے تو اس کے متعلق اختلاف رائے پیدا ہوجانے پر ہم اس اختلاف کی وجہ سے اجماع کا دامن نہیں چھوڑیں گے۔ ایک فاسد قول ہے اس لیے کہ جس نکتے میں اختلاف ہے اس پر اجماع نہیں ہے۔ جب سرے سے اجماع ہی نہیں ہوا تو اس صورت میں قائل کے دعوے کی صحت کو ثابت کرنے کے لیے کسی دلالت کا قیام ضروری ہوگیا۔ - اس میں ایک پہلو یہ بھي ہے کہ کسی چیز کا ایک وقت میں مباح ہونا اس کی اباحت کی بقاء کا موجب نہیں ہے جبکہ وہ چیز ایسی ہو جس میں نسخ کا درود ممکن ہو اور ہم نے کتاب و سنت اور اجماع سلف سے اباحت کے بعد اس کی ممانعت پر دلیل قائم کردی ہے۔ - ابوبکر جصاص کہتی ہیں کہ متعہ اور اس کی تحریم کے حکم کے متعلق ہم نے جو کچھ بیان کردیا ہے اس کے ذریعے ہر اس شخص تک اس مسئلے کی حقیقت کا ابلاغ ہوگیا ہے جو اپنے نفس کا خیر خواہ ہو۔ اس مسئلے کے متلعق صدر اول میں کوئی اختلاف رائے نہیں جیسا کہ ہم بیان کر آئے ہیں اس کے باوجود فقہاء امصار کا اس کی تحریم پر مکمل اتفاق ہے اور کسی قسم کا اخلاف رائے نہیں ہے۔ - فقہاء کا اس مسئلے میں اختلاف رائے ہے کہ ایک شخص چند دنوں کے لیے کسی عورت سے نکاح کرلیتا ہے۔ امام ابوحنیفہ، امام شافعی، امام مالک، امام ابویوسف ، امام محمد سفیان ثوری اور اوزاعی رحمہم اللہ تعالیٰ علیہ کا قول ہے کہ اگر کوئی شخص دس دنوں کے لیے کسی عورت سے نکاح کرلیتا ہے تو اس کا یہ عقد باطل ہوگا۔ اور دونوں کا سرے سے نکاح ہی نہیں ہوگا۔ زفر (رح) کا کقول ہے کہ نکاح جائز اور شرط باطل ہوگی۔ اوزاعی کا قول ہے کہ جب مرد کسی عورت یس نکاح کرلے لیکن اس کی نیت شروع ہی سے طالق دینے کی ہو تو اگر چھ ظاہری طور پر اس عقد میں کوئی شرط نہیں ہے پھر بھی ایسے نکاح میں خیر کا پہلو نہیں ہے اس لیے یہ متعہ ہے۔ - ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ ان حضرات اور امام زفر کے مابین اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ عقد نکاح متعہ کے لفظ کے ذریعے درست نہیں ہوتا اور اگر کوئی شخص کسی عورت سے یہ کہے کہ ” میں تجھ سے دس روز کے لیے متعہ کرتا ہوں “ تو یہ نکاح نہیں ہوگا۔ - اختلاف صرف اس صورت میں ہیجب کہ وہ اس عورت سے چند دنوں کے لیے لفظ نکاح کے ذریعے عقد کرلے مثلا یوں کہے ” میں دس دنوں کے لیے تجھے عقد زوجیت میں لیتا یعنی نکاح کرتا ہوں۔ “ زفر (رح) نے اسے ناکح قرار دیا ہے اور دس روز کی شرط کو باطل ٹھہرایا ہے اس لیے کہ نکاح کو فاسد شرطیں باطل نہیں کرتیں مثلا یوں کہے ” میں تجھ سے اس شرط پر نکاح کرتا ہوں کہ دس دنوں کے بعد تجھے طلاق دے دوں گا “ اس صورت میں نکاح درست ہوگا اور شرط باطل ہوگی۔ - ان حضرات اور امام زفر (رح) کے مابین صرف اس بارے میں اختلاف ہے کہ آید درج بالا صورت نکاح ہے یا متعہ۔ جمہور کی نزدیک یہ متعہ ہے نکاح نہیں ہے۔ جمہور کے سا قول کی ایک مدت تک کے لیے نکاح متعہ ہوتا ہے۔ اگرچہ لفظ میں متعہ کا ذکر نہ بھی موجود ہو۔ - صحت کی دلیل وہ رویات ہے جو ہمیں عبدالباقی بن قانع نے بیان کی ، انہیں اسحاق بن حسن بن میمون نے ، انہیں ابو نعیم نے ، انہیں عبدالعزیز بن عمر بن عبد العزیز نے ربیع بن سبرہ جہنی سے کہ انہیں ان کے والد سبرہ نے بتایا تھأ کہ لوچ حجۃ الوداع کے موقع پر حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہمراہ اپنے اپنے گھروں سے چل پڑے اور عسفان میں پڑاؤ کیا۔ - رویت کے اگلے حصے میں حضرت سبرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں کو طواف کر کے احرام کھول دینے کا حکم دیا البتہ جو لوگ اپنے ساتھ قربانی کے جانور لے گئے تھے انہیں اس کی اجازت نہیں ملی۔ ہم لوگ جب احرام کھول چکے تو حصو اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ان عورتوں سے استمتاع کرلو۔ - ہمارے نزدیک استمتاع نکاح کرنے کو کہتے ہیں۔ ہم نے یہ تجویز عورتوں کے سامنے پیس کی انہوں نے اس شرط پر اسے منظور کیا کہ ہم کے لیے مدت مقرر کردیں۔ ہم اس بات کا ذکر جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلے سے کیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ایسا ہی کرلو۔ اس کے بعد میں اور میرا چچا زاد بھائی ہم دونوں اس مقصد کے لیے نکل پڑے، میں اس کے مقابلے میں زیادہ جوانتھأ، میرے پاس ایک یمنی چادر تھی اور اس کے پاس بھی ایک یمنی چادر تھی۔ جب ہم ایک عورت کے پاس یئے تو اسے میری جوانی اور میرے چچازاد بھائی کی چادر پسند آگئی۔ - کہنے لگی : ” ایک چادر تو دوسری چادر کی طرح ہے لیکن یہ زیادہ جوان ہے۔ “ اشارہ میری طرف تھا۔ چناچہ میرے اور اس عورت کے درمیان دس دنوں کی مدت طے ہوگئی۔ میں نے اس کے ساتھ ایک رات گذاری۔ صبح کے وقت جب میں مسجد میں گیا تو حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مقام ابراہیم اور رکن کے درمیان ایستادہ پایا۔ آپ اس وقت فرما رہے تھے : ” لوگو میں نے تمہیں ان عورتوں سے استمتاع کی اجزت دے دی تھی لیکن سنو، اللہ تعالیٰ نے قیامت تک کے لیے اسے حرام کردیا ہے۔ اس لیے طے شدہ شرطوں کے مطابق ان سے استمتاع کا اگر کوئی حصہ باقی رہ بھی گیا ہے تو بھی انہیں چھوڑ دو اور علیحدگی اختیار کرلو اور جو کجھ تم انہیں دے چکے ہو اس میں سی کوئی چیز واپس نہ لو۔ “- اس رویت مین حضرت سبرہ (رض) نے بتایا کہ استمتاع نکاح کو کہتے ہیں اور یہ کہ حضور اکرم صلی الل عیہ وسلم نے اس میں مدت مقرر کنے کی رخصت دے دی تھی اور اس اباحت کے بعد پھر اس سے منع فرمادیا تھا۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ ایک خصا مدت کے لیے نکاح کرنا متعہ کہلاتا ہے۔ - اس پر اسماعیل بن ابی خالد کی وہ رویت بھی دلالت کرتی ہے جو انہوں نے قیس بن بی حاتم سے اور انہوں نے حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) سے نقل کی ہے کہ ہم حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیمعیت میں غزوہ پر نکلے تھے۔ ہمارے ساتھ بیویاں نہیں تھیں۔ ہم نے جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا فوطے نکلوا کرنا مرد بن جائیں تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے منع فرمادیا اور ایک مدت تک کے لیے ایک کپڑے کے بدلے نکاح کرلینے کی اجازت دے دی۔ آپ نے اس وقت یہ آیت بھی تلاوت فرمائی تھی (لاتحرموا طیبات ما احل لکم) حضرت ابن مسعود (رض) نے یہ بھی بتایا کہ متعہ ایک محدود مدت تک کے لیے نکاح کا نام تھا۔ - اس بر حضرت جابررضی اللہ عنہ کی یہ روایت بھی دلالت کرتی ہے جو انہوں نے حضرت عمر (رض) سے نقل کی ہے۔ اس روایت کی سند متعہ کے بات میں بیان ہوچکی ہے۔ اس رویات کے مطابق حضرت عمر (رض) نے فرمایا تھا کہ ” اللہ تعالیٰ اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے جو چاہتاحلال کردیتا تھا اب تم لوگ حج اور عمرے کی اسی طرح تکمیل کرو جس طرح اللہ نے حکم دیا ہے اور ان عورتوں سے نکاح کرنے سے پرہیز کرو، سنو میرے پاس اگر کوئی ایسا شخص لایا گیا جس نے ایک محدود مدت کے لیے کسی عورت سے نکاح کرلیا ہ۔ گا تو میں اسے سنگسار کردوں گا۔ “- حضرت عمر (رض) نے یہ بتایا کہ ایک محدود مدت کے لیے نکاح متعہ ہوتا ہے۔ جب ایسے نکاح کے لیے متعہ کا اسم ثابت ہوگیا اور حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے متعہ سے روک دیا ہے تو اس میں محدود مدت کے لیے نکاح بھی شامل ہوگیا۔ کیونکہ ایسا نکاح اس اسم کے تحت داخل ہے۔ - نزی جب متعہ نفع قلیل کے لیے اسم ہے جیسا کہ ارشاد باری ہے (انما ہذہ الحیوۃ الدنیا متاع، یہ دنیاوی زندگی نفع قلیل کے سو اکچھ نہیں) یعنی یہ دنیاوی زندگی نفع قلیل کا نام ہے۔ نیز طلاق کے بعد شوہر پر واجب ہونے والی چیز کو اپنے قول (فمتعوہن) سے متعہ کا نام دیا۔ ایک جگہ اور ارشاد ہے (وللمطلقات متاع بالمعروف) طلاق پانے والی عورتوں کے لیے دستور کے مطابق متاع ہے) ۔ اسے متاع یعنی نفع قلیل اس لیے کہا کہ یہ مہر سے کم ہوتا ہے۔ - اس سے ہمیں یہ بات معلوم ہوئی کہ جس چیز پر متعہ یا متاع کے اسم کا اطلاق ہوا ہے اس میں اس کے ذریعے تقلیل مراد لی گئی ہے اور یہ کہ عقد جس چیز کا مقتضی اور موجب ہے یہ متعہ اسکے مقابلہ میں بہت معمولی ہے طلاق کے بعد جو چیز دی جاتی ہے اور جس کا نفس عقد نکاح موجب نہیں ہوتا۔ اس کا نام متعہ یا متاع اسے لیے رکھا گیا کہ یہ اس مہر کے مقابلے میں بہت کم ہوتی ہے جس کا عقد نکاح کے ساتھ عورت کو حق حاصل ہوجاتا ہے۔- حضرت ابن مسعود (رض) نے یہ بھی بتایا کہ متعہ ایک محدود مدت تک کے لیے نکاح کا نام تھا۔ - اس بر حضرت جابررضی اللہ عنہ کی یہ روایت بھی دلالت کرتی ہے جو انہوں نے حضرت عمر (رض) سے نقل کی ہے۔ اس روایت کی سند متعہ کے بات میں بیان ہوچکی ہے۔ اس رویات کے مطابق حضرت عمر (رض) نے فرمایا تھا کہ ” اللہ تعالیٰ اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے جو چاہتاحلال کردیتا تھا اب تم لوگ حج اور عمرے کی اسی طرح تکمیل کرو جس طرح اللہ نے حکم دیا ہے اور ان عورتوں سے نکاح کرنے سے پرہیز کرو، سنو میرے پاس اگر کوئی ایسا شخص لایا گیا جس نے ایک محدود مدت کے لیے کسی عورت سے نکاح کرلیا ہ۔ گا تو میں اسے سنگسار کردوں گا۔ “- حضرت عمر (رض) نے یہ بتایا کہ ایک محدود مدت کے لیے نکاح متعہ ہوتا ہے۔ جب ایسے نکاح کے لیے متعہ کا اسم ثابت ہوگیا اور حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے متعہ سے روک دیا ہے تو اس میں محدود مدت کے لیے نکاح بھی شامل ہوگیا۔ کیونکہ ایسا نکاح اس اسم کے تحت داخل ہے۔ - نزی جب متعہ نفع قلیل کے لیے اسم ہے جیسا کہ ارشاد باری ہے (انما ہذہ الحیوۃ الدنیا متاع، یہ دنیاوی زندگی نفع قلیل کے سو اکچھ نہیں) یعنی یہ دنیاوی زندگی نفع قلیل کا نام ہے۔ نیز طلاق کے بعد شوہر پر واجب ہونے والی چیز کو اپنے قول (فمتعوہن) سے متعہ کا نام دیا۔ ایک جگہ اور ارشاد ہے (وللمطلقات متاع بالمعروف) طلاق پانے والی عورتوں کے لیے دستور کے مطابق متاع ہے) ۔ اسے متاع یعنی نفع قلیل اس لیے کہا کہ یہ مہر سے کم ہوتا ہے۔ - اس سے ہمیں یہ بات معلوم ہوئی کہ جس چیز پر متعہ یا متاع کے اسم کا اطلاق ہوا ہے اس میں اس کے ذریعے تقلیل مراد لی گئی ہے اور یہ کہ عقد جس چیز کا مقتضی اور موجب ہے یہ متعہ اسکے مقابلہ میں بہت معمولی ہے طلاق کے بعد جو چیز دی جاتی ہے اور جس کا نفس عقد نکاح موجب نہیں ہوتا۔ اس کا نام متعہ یا متاع اسے لیے رکھا گیا کہ یہ اس مہر کے مقابلے میں بہت کم ہوتی ہے جس کا عقد نکاح کے ساتھ عورت کو حق حاصل ہوجاتا ہے۔ - نکاح موقت کو اس لیے متعہ کا نام دیا گیا کہ عقد نکاح کا مقتضی یہ ہوتا ہے کہ یہ اس وقت تک باقی رہے جب تک موت یا علیحدگی کا موجب بننے والا کوئی واقعہ پیش نہ آجائے اس سے مقابلے میں نکاح موقت یعنی متعہ میں مدت بھی مختصر ہوتی ہے اور انتفاع بھی قلیل ہوتا ہے۔ - اس لیے یہ ضروری ہوگیا کہ اگر نکاح میں توقیت کی شرط لگا دی جائے تو خواہ الفاظ میں متعہ کا ذکر ہو یا نکاح کا دونوں صورتوں پر متعہ کے اطلاق کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں ہونا چاہیئے۔ اس لیے کہ ان دونوں صورتوں کو متعہ کا مفعوم ان وجوہات کی بنا پر شامل ہے جن کا ہم نے پہلے ذکر کردیا ہے۔ - اس میں ایک اور پہلو بھی ہے کہ دس دن کی مدت کے لیے عقد نکاح کرنے والا انسان اس عقد کو یا تو شرط کے مطابق موقتا قرار دے گا یا شرط باطل کر کے سا کی توقیت ختم کر دے گا اور اسے مؤبد قرار دے گا۔ اگر پہلی صورت ہو تو یہ متعہ ہوگی اور اس میں سب کا اتفاق ہوگا لیکن دوسری صورت میں اس کا اسے مؤبد قارر دینا اس لیے درست نہیں ہوگا کہ وقت گذر جانے کے بعد عقد باقی نہیں رہے گا اور اس صورت میں بضع کو اپنے لیے عقد کے بغیر مباح کرلینا جائز نہیں ہوگا۔ - آپ دیکھ سکتے ہیں کہ اگر کوئی شخص غلے کا ایک ڈھیر اس شرط پر خریدتا ہے کہ اس کی مقدار دس قفیز (غلہ ناپننے کا یک پیمانہ ہے) یا وہ شخص اس ڈھیر کے مالک سے یوں کہے :” میں تم سے غلے کے اس ڈھیر میں سے دس قفیر خریدتا ہوں۔ “ تو ان دونوں صورتوں میں یہ عقد بیع صرف دس قفیز پر واقع ہوگا اس سے زائد غلہ اس میں داخل نہیں ہوگا۔ - اسی طرح اگر کسی نے دس دنوں کے لیے عقد نکاح کرلیا تو دس دنوں کے بعد ان دونوں کے درمیان عقد نکاح باقی نہیں رہے گا سا لیے اس مدت کے بعد سابقہ عقد کی بناء پر بضع کو اپنے لیے مباح قرار دینے کا اقدام اس کے لیے جائز نہیں ہوگا وہ اسے موقت بھی قرار نہیں دے سکتا کیونکہ اس صورت میں وہ صریحا متعہ ہوگا اس لیے درج بالا دوسری صورت میں بھی عقد کا افساد لازم ہوگیا۔ - تاہم یہ صورت نکاح کرنے والے کے نکاح کی اس صورت کی طرح نہیں ہے جس میں وہ یہ کہے کہ ” میں تجھ سے اس شرط پر نکاح کرتا ہوں کہ دس دنوں کے بعد تجھے طلاق دے دوں گا، اس صورت میں نکاح درست ہوجائے گا اور شرط باطل ہوجائے گی اس کی وجہ یہ ہے کہ زیر بحث صورت میں نکاح کا عقد ہمیشہ باقی رکھنے کے لیے کیا گیا ہے۔ لیکن اس نے طلاق کے ذریعے اس عقد کو ختم کرنے کی شرط لگا دی ہے۔ - آپ نہیں دیکھتے کہ اگر وہ اسے طلاق نہ دے تو نکاح باقی رہے گا اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ عقد نکاح کا وقوع ہمیشہ باقی رہنے کے لیے ہوا ہے صرف طلاق کے ساتھ اسے ختم کردینے کی شرط لگائی گئی ہے یہ شرط فاسد ہے اور یہ بات معلوم ہے کہ شرطیں نکاح کو فاسد نہیں کرسکتیں اس لیے شرط باطل ہوجائے گی اور عقد درست ہوجائے گا۔ - لیکن دس دنوں کے لیے نکاح کی یہ صورت نہیں ہے کہ کیونکہ ان کے بعد کے ایام میں عقد باقی نہیں رہے گا آپ نہیں دیکھتے کہ اگر کوئی شخص دن دن کے لیے کوئی گھر کرایے پر لیتا ہے تو اسے کا یہ عقد اجارہ دس دنوں کے لیے ہوگا اور بعد کے ایام میں عقد کا کوئی وجود نہیں ہوگا۔ - اگر دس دن گزجانے کے بعد وہ گھر خالی نہیں کرے گا تو وہ غاصب قرار پائے گا اور عقد اجارہ سے ہٹ کر سکونت پذیر شمار ہوگا۔ اس پر زائد دنوں کا کوئی کرایہ بھی عائد نہیں ہوگا۔ - اگر مالک مکان کرایہ دار سے یہ کہے کہ ۔” میں تمہیں مکان اس شرط پر کرایہ پر یدتا ہوں کہ دس دنوں کے بعد میں اس عقد کو فسخ کر دوں گا تو یہ اجارہ ہمیشہ کے لیے فاسد ہوجائے گا اور دس یا اس سے زائد دن سکونت پذیر رہنے کی بنا پر کرایہ دار پر وہ کرایہ لازم ہوگا جو اس جیسے مکان کا ہوسکتا ہے۔ نکاح کی بھی یہی صورت ہے کہ اگر دس دنوں کے لیے کیا گیا ہو تو ان دنوں کے گزر جانے کے بعد کسی عقد کا وجود باقی نہیں رہے گا۔ - مشروط نکاح کے لیے کیا حکم ہے - اگر یہ کہا جائے کہ ایک شخص کسی عورت سے یہ کہے کہ ” میں تجھ سے اس شرط پر نکاح کرتا ہوں کہ تجھے دس دن کے بعد طلاق ہوجائے گی۔ “ تو ایسی صورت میں یہ نکاح موقت ہوگا کیونکہ دس دن گزر جانے کے بعد یہ باطل ہوجائے گا تو اس کے جواب میں یہ کہا جائے گا کہ درج بالا صورت نکاح موقت کی صورت نہیں ہے بلکہ یہ نکاح مؤبد کی صورت ہے۔ اس نے تو اسے طلاق کے ذریعہ ختم کیا ہے۔ - عقد کے ساتھ طلاق کے ذکر اور مدت گذر جانے کے بعد طلاق دینے کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے کیونکہ نکاح تو بنیادی طور پر مؤبد ہوا تھا شوہر نے آنے والے زمانے میں اس پر طلاق واقع کردی اس لیے عقد کی یہ صورت توقیت نکاح کی موجب نہیں بنتی ہے۔ - قول باری (فاتوہن اجورہن فریضۃ) اس کے معنی ہیں مہر ادا کردو۔ اللہ تعالیٰ نے مہر کو اجر کا نام دیا کیونکہ بضع کے منافع کا بدل ہے۔ اس سے مہر مراد ہے۔ اس پر یہ بات بھی دلالت کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس مہر کا ان لوگوں کے لیے ذکر کیا ہے جو نکاح کے ذریعے محصن بن جانے والے ہوں۔ - چنانچہ ارشاد ہے (واحل لکم ما وراء ذلک ان تبتغوا بالموالکم محصنین غیر مسافحین) یا جس طرح یہ ارشاد ہے (فانکحوہن باذن اہلہن و اتوہن اجورہن بالمعروف محصنات غیر مسافحات)- اللہ تعالیٰ نے نکاح کے ذکرکے بعد احصان کا ذکر فرمایا اور مہر کو اجر کا نام دیا اور فریضۃ) کا لفظ مہر کے وجوب کی تاکید اور اس کی ادائیگی کے متعلق وہم و گمان کا اسقاط ہے کیونکہ فرق وہ ہوتا ہے جو ایجاب کے سبب سے اونچے مقام پر ہو۔ واللہ اعلم بالصواب۔ - مہر میں اضافہ کردینا - اللہ تعالیٰ نے مہر کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا (ولا جناح علیکم فیما تراضیتم بہ من بعد الفریضۃ ۔ البتہ مہر کی قرار داد ہوجانے کے بعد آپس کی رضامندی سے تمہارے درمیان اگر کوئی سمجھوتہ ہوجائے تو اس میں کوئی حرج نہیں) ۔- یہاں ” الفریضۃ “ مہر مقرر ہوجانے اور اس کی مقدار متعین ہوجانے کے معنوں میں ہے۔ جس طرح میراث اور زکوۃ میں مقررہ حصوں اور نصابوں کو فرائض کا نام دیا جاتا ہے۔ ہم نے گذشتہ ابواب میں اس کی وضاحت کردی۔- مذکورہ بالاآیت کی تفسیر میں حسن سے مروی ہے کہ اس سے مراد مہر کی مقدار مقرر ہونے کے بعد باہمی رضامندی سے اس میں کمی یا اس کی ادائیگی میں تاخیر یا پوری مقدار کا ہبہ ہے اس آیت میں مقدار میں اضافے پر دلالت موجود ہے کیونکہ قول باری ہے (فیما تراضیتم بہ من بعد الفریضۃ) آیت کیا لفاظ میں اضافے ، کمی ، تاخیر اور ابراء (بری الذمہ کردینے کے معنوں کے لیے عموم ہے بلکہ دوسرے معانی کی بہ نسبت اضافے کے معنوں کے ساتھ یہ زیادہ خاص ہے۔ - کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آیت کے عموم کو طرفین کی باہمی رضامندی کے ساتھ معلق کردیا ہے اور یہ بات ظاہر ہے کہ مقدار میں کمی، ادائیگی میں تاخیر اور بری الذمہ قرار دینے کے سلسلے میں مرد کی رضامندی کی ضرورت نہیں ہوتی جبکہ اضافے کی تجویز میاں بیوی دونوں کیلیے قابل قبول ہونے کے بغیر درست نہیں ہوتی۔ اس لیے اس عموم کو صرف تاخیر، کمی اور ابراء کے معنوں تک محدود کردینا درست نہیں ہے کیونکہ الفاظ کا عموم ان تمام معانی کا متقاضی ہے اس لیے کسی دلالت کے بغیر اس کی تخصیص نہیں ہوسکتی۔ - نیز درج بالاتین امور کیا ندر اسے منحصر کردینے کی صورت میں میاں بیوی دونوں کی رضامندی کے ذکر اور ان دونوں کی طرف اس کی نسبت کا فائدہ ساقط ہوجائے گا جبکہ لفظ کے حکم کو ساقط کرنا اور اسے اسطرح منحصر کردینا جس سے اس کا وجود اور عدم برابر ہوجائے کسی طرح درست نہیں ہوتا۔ - مہر میں اضافے پر اختلاف ائمہ - مہر میں اضافے کے متعلق فقہاء کی درمیان اخلاف رائے ہے امام ابوحنیفہ، امام ابویوسف اور امام محمدرحمہم اللہ کا قول ہے کہ نکاح کے بعد مہر میں اضافہ جائز ہے۔ اور أکر شوہر کی موت واقع ہوجائے یا ہمبستری ہوجائے تو یہ اضافہ برقرار رہے گا لیکن اگر دخول یعنی ہمبستری سے قبل ہی طلاق ہوجائے تو یہ اضافہ باطل ہوجائے گا اور اسے عقد نکاح میں مقرر شدہ مقدار کا نصف ملے گا۔ - زفر بن الہذیل اور امام شافعی رحمہما اللہ کا قول ہے کہ اضافے کی حیثیت نئے سرے سے کئے ہوئے ہبہ کی ہوگی جب عورت اس پر قبضہ کرلے گی تو ان دونوں حضرات کے قول کے مطابق یہ اضافہ درست ہوجائے کا اور اگر قبضہ نہیں کرے گی تو یہ باطل ہوجائے گا۔ - امام مالک بن انس کا قول ہے ہے کہ اضافہ درست ہوتا ہے اگر دخول سے پہلے ہی مرد طلاق دیدے گا تو اضافی مہر کا نصف حصہ اسے لوٹ آئے گا۔ اس اضافے کی حیثیت اس مال کی ہوتی ہے جو مرد نے بیوی کو ہبہ کر دیاہو اس کا وجود مرد کی ذت کیساتھ ہوتا ہے اور اس کی ذمہ داری بھی اس پر ہوتی ہے اس لیے اس پر عورت کیقابض ہوجانے سے قبل اگر مرد کی وفت ہوجائے تو اسے اسے میں سے کچھ نہیں ملے گا۔ کیونکہ یہ ایک عطیہ تھا جس پر قبضہ نہیں ہوسکا تھا۔ - ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ ہم نے مہر میں اضافے کے جواز پر ییت کی دلالت کی وجہ بیان کردی ہے۔ اس کے جواز پر یہ بات بھی دلالت کرتی ہے کہ عقد نکاح پر ان دونوں کی ملکیت ہوتی یعنی دونوں اس میں تصرف کے مالک ہوتے ہیں اس کی دلیل یہ ہے کہ مرد کے لیے عورت سے بضع کے عوض خلع کرلینا جائز ہے۔ اس صورت میں وہ عورت سے بضع کا بدل وصول کرے گا اس طرح یہ دونوں بضع میں تصرف کے مالک قرار پائیں گے جب عقد نکاح ان کی ملکیت میں داخل ہوتا ہے تو پھر یہ ضروری ہے کہ اس میں اضافہ بھی جائز ہوجائے جس عقد نکاح کی ابتدا میں اس حیثیت سے اضافہ جائز تھأ کہ یہ دونوں عقد کے مالک تھے کیونکہ ملکیت تصرف کا دوسرا نام ہے اور عقد میں ان دونوں کا تصرف جائز ہے۔ - اضافے کے جواز پر یہ بات بھی دلالت کرتی ہے کہ اگر عورت زائد مہر پر قبضہ کرلے تو سب کے نزدیک یہ اضافہ جائز ہوجائے گا۔ عورت کے قبضے میں اسے دینے کے بعد اس کی حیثیت یا تو نئے سرے سے کیئے جانے والے ہبہ کی ہوگی جیسا کہ زفر اور امام شافعی رحمہما اللہ کا قول ہے یا مہر میں اضافے کی ہوگی جو عقد نکاح کو بعد میں لاحق ہوگیا تھا۔ - جیسا کہ ہم نے بیان کیا ہے اسے نئے سرے سے یکا جانے والا ہبہ قرار دینا ردست نہیں ہے اس لیے کہہ میاں بیوی دونوں نے اس حیثیت سے اسے قبول نہیں کیا تھا کہ یہ ہبہ ہیبل کہ انہوں ننے اسے اپنے اوپر اس حیثیت سے واجب کرلیا تھا کہ یہ بضع کا بدل ہے۔ جو بعد میں عقد نکاح کو لاحق ہو کیا تھا۔ - اس صورت میں ہمارے لییان دونوں پر ایسا عقد لازم کردینا درست نہیں ہوگا جسے انہوں نے اپنے اوپر خودلازم نہیں کیا تھا کیونکہ قول باری ہے (واوفوا بالعقود، عقود و پورا کرو) نیز حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد مبارک ہے (المسلمون عند شروطہم، مسلمان اپنی شرطوں کی پاسداری کرتے ہیں) اس لیے جب میاں بیوی اپنے درمیان ایک عقد طے کر لین تو ہمارے لیے ان پر اسن کے سوا کوئی اور عقد لازم کردینا درست نہیں ہوگا۔ کیو کہ ان پر کوئی اور عقد لازم کرنے سے وہ عقد پورا نہیں ہوسکے گا جو انہوں نے خود کیا تھا۔ - نیز حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد (المسلمون عند شروطہم) شرط پوری کرنے کا م مقتضی ہے اور اصل شرط کو ساقط کر کے ن پر کسی اور چیز کو لازم کردینا شرط پوری کرنے کے مترادف نہیں ہے اس طرح آیت اور سنت دونوں کی اس پر دلالت ہو رہی ہے کہ ہمارے مخالف کا قول باطل ہے۔ اس بطلان کی دو وجوہ ہیں۔ اول یہ کہ آیت اور سنت دونوں کا عموم عقد اور شرط کی ایجاب کا مقتضی ہے۔ - دوم یہ کہ آیت اور سنت دونوں میاں بیوی کے درمیان طے شدہ عقد کے سوا ان پر کسی اور عقد یا شرط کو لازم کردینے کے امتناع کو متضمن ہیں۔ جب زائد مہر پر عورت کے قبضے کے اور میاں بیوی پر عقد ہبہ لازم کردینا باطل ہوگیا اور تملیک درست ہوگئی تو یہ اس بات کی دلیل بن گئی کہ مہر میں اضافے کی جہت سے عورت اس کی مالک ہوئی تھی۔ - اس اضافے کو ہبہ قرار دینا درست نہیں ہے۔ اس پر یہ بات دلالت کرتی ہے کہ اس اضافے کو مہر پر اضافہ قرار دینے کی صورت میں قبضے کی بنا پر عورت کو اس کے تاوان کا ذمہ دار ٹھہرایا جائے گا۔ کو ین کہ یہ بضع کا بدل ہے لیکن اسے ہبہ قرار دینے یک صورت میں عورت پر اس کے تاوان کی ذمہ داری عائد نہیں ہوگی۔ اسی طرح پہلی صورت میں دخول سے قبل طلاق ہوجانے پر اس اضافے کا سقوط ہوجائے گا اور دوسری صورت میں اس پر طلاق کسی طرح اثر انداز نہیں ہوگی۔ - جب اس اضافے کے سلسلے میں میاں بیوی عقد کی کوئی ایسی صورت اپنا لیں جو تاوان کی موجب بنتی ہو تو ہمارے لیے ان پر ایسا عقد لازم کردینا درست نہیں ہوگا جس میں تاوان نہ ہو۔ آپ نیہں دیکھتے کہ اگر طرفین بیع کا کوئی عقد کرلیں تو ان پر ہبہ کا عقد لازم کرنا درست نہیں ہوگا اسی طرح اگر اقالہ یعنی عقد بیع ختم کرنا طے کرلیں تو ان پر کوئی نیاعقد بیع لازم نہیں آئے گا۔ - اس میں اس بات کی دلیل موجود ہے کہ مہر میں اضافے کے عقد کی صورت میں عقد ہبہ کا اثبات درست نہیں ہے جب یہ ہبہ نہیں بن سکتا اور دوسری طرف تملیک بھی درست ہوچکی ہے تواب یہی کہا جائے گا یہ اضافہ بضع کے بدل کے طور پر مقررہ مہر کے ساتھ عقد نکاح کو لاحق ہو کیا تھا۔ - امام مالک کے قول کے مطابق یہ اضافہ ہبہ ہے اور اگر دخول سے پہلے طلاق مل جائے تو اس اضافے کا نصف مرد کو واپس ہوجائے گا۔ بظاہر امام مالک کا قول بےربط معلوم ہوتا ہے کیونکہ یہ اضافہ اگر ہبہ ہے تو اس کا نہ عقد نکاح کے ساتھ کوئی تعلق ہے اور نہ مہر کے ساتھ اور نہ ہی اس کے کسی حصے کی واپسی میں طلاق کسی طرح اثر انداز ہوسکتی ہے اور اگر مہر میں اضافہ ہے تو موت کی بنا پر اس کا بطلان درست نہیں ہے۔- ہمارے اصحاب کا قول یہ ہے کہ اگر دخول سے پہلے اسے طلاق مل جائے تو اضافہ باطل ہوجائے گا اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ اضافی مقدرا عقد نکاح میں موجود نہیں تھی بلکہ بعد میں اس کے ساتھ ملحق کردی گئی تھی اس لیے یہ ضروری تھا کہ اس اضافی مقدار کی بقاء عقد نکاح یا تعلق زن و شوہر یعنی دخول پر موقوف رہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ بیع میں اضافہ عقد کی بقا کی شرط پر اس کیساتھ ملحق کردیا جاتا ہے اور جب عقد بیع باطل ہوجاتا ہے یہ ہی حکم مہر میں اضافے کا بھی ہے۔ - اگر یہاں یہ نقطہ اٹھایاجائے کہ عقد میں موجود مقررہ مہر کا بعض حصہ بھی تو طلاق قبل الدخول کی صورت میں باطل ہوجاتا ہے۔ تو مہر میں اضافے کی صورت حال بھی ایسی کیوں نہیں ہوسکتی کیونکہ جب یہ اضافہ درست ہے اور عقد کے ساتھ ملحق بھی کردیا گیا ہے تو اس کی حیثیت یہ ہوگئی ہے کہ گویا عقد میں یہ پہلے سے موجود تھا اس لیے مقررہ مہر اور اس اضافہ مہر کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔ - اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ہمارے نزدیک بھی عقد میں مقرر شدہ سارا مہر طلاق قبل الدخول کی صورت میں باطل ہوجاتا ہے کیو کہ اس شکل میں اس عقد کا ہی بطلان ہوجاتا ہے جس میں اس مہر کا تعین ہوا تھا جس طرح قبضہ میں لینے سے پہلے فروخت شدہ چیز کی ہلاکت سے عقد بیع باطل ہوجاتا ہے۔ - باقی رہا نصف مہر کا وجوب تو وہ نکاح ٹوٹ جانے پر عورت کو پہنچنے والے نقصان کی تلافی کے طور پر متعہ یعنی کچھ نہ کچھ دینے کی صورت میں ہوتا ہے ۔ ابراہیم نخعی (رح) سے مروی ہے کہ جس شخص نے دخول سے پہلے بیوی کو طلاق دے دی ہو لیکن مہر مقرر ہوچکا ہو تو مقرر شدہ مہر کا نصف اس عورت کا متعہ ہے۔ - ابوالحسن کرخی بھی یہی فرمایا کرتے تھے۔ اسی بنیاد پر ان دو گواہوں کے متعلق فقہاء کا قول ہے جن ہوں نے کسی کے خلاف کے یہ گواہی دی ہو کہ اس نے دخول سے پہلے اپنی بیوی کو طلاق دے دی ہے۔ لیکن شوہر اس بات کو تسلیم کرنے انکار کرتا ہو پھر یہ دونوں گواہ اپنی گواہی سے رجوع کرلیں تو یہ شوہر کو نصف مہر کا تاوان ادا کریں گے جو اس نے اپنی بیوی کو دی ہوگی۔- اس کی وجہ یہ ہے کہ دخول سے پہلے طلاق واقع ہوجانے کی بناء پر سارا مہر ساقط ہوگیا تھا لیکن مقررہ مہر کا نصف جو اس پر لازم آیا تھا وہ گویا نئے سرے سے ایک دین تھا جو ان گواہوں نے اپنی گواہی کے ذریعے شوہر کے ذمے لگادیا تھا۔ اس بنا پر دخول سے پہلے طلاق واقع ہوجانے کی صورت میں مقررہ مہر اور اس پر اضافے کے سقوط کا حکم یکساں ہے اور اس لحاظ سیان دونوں میں کوئی فرق نہیں۔ - اگر یہ کہا جائے کہ درج بالا تاویل سے قول باری (وان طلقتموہن من قبل ان تمسوہن و قد فرضتم لہن فریضۃ فنصف ما فرضتم) اور تم انہیں ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دے دو اور تم نے ان کے لیے مہر بھی مقرر کردیا ہو تو تمہارے مقرر کردہ مہر کا نصف انہیں ملے گا) کی مخالفت لازم آتی ہے اس لیے کہ آب کا کہنا ہے کہ سارا مہر ساقط ہوجاتا ہے اور آدھے کا وجوب نئے سرے سے ہوتا ہے۔ - اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ آیت میں اس بات کی نفی نہیں ہے کہ طلاق کے بعد واجب ہونے والا نصف نئے سرے سے مہر بن جائے۔ آیت میں تو صرف مقرر شدہ مہر کے نصف کا وجوب ہے اور یہ کسی وصف یا شرط کے ساتھ مشروط نہیں ہے ہم بھی نصف کے وجوب کے قائل ہیں اسی لیے ہمارے اس تاویل سے آیت کی مخالفت نہیں ہوتی کہ مقدار مقرر کرنے کا نئے سرے سے وجوب اس پر محمول ہے کہ وہ مطلقہ کے لیے متعہ کا حکم رکھتا ہے۔ - دخول سے قبل طلاق کی بناپر سارا اضافی مہر ساقط ہوجاتا ہے ۔ اس بر یہ بات دلالت کرتی ہے کہ عقد نکاح اگر مہر کے تعین سے خالی ہو تو وہ مہر مثل کا موجب ہوتا ہے کیونکہ بدل کے بغیر بضع پر تصرف جائز نہیں ہوتا پھر دخول سے قبل طلاق کا ورود اسے ساقط کردیتا ہے کیونکہ عقد میں اس کا ذکر اور تعین نہیں ہوا تھا۔ - اسی طرح مہر میں اضافے کا چونکہ عقد میں ذکر اور تعین نہیں ہوا تھا اس لیے دخول سے پہلے طلاق کی بنا پر اس کا سقوط بھی واجب ہوگیا اگرچہ عقد کے ساتھ ملحق ہونے کی بنا بر یہ واجب ہوچکا تھا۔ واللہ اعلم - آیت 24 کی تفسیر ختم ہوئی۔- ۔۔۔۔۔- آیت 25:- لونڈیوں کے نکاح کا بیان - قول باری ہے (و من لم یستطع منکم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ الی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فتیاتکم المؤمنات) اور جو شخص تم میں سے اتنی مقدرت نہ رکھتا ہو کہ خاندانی مسلمان عورتیں (محصنات) سے نکاح کرسکے اسے چاہیئے کہ تمہاری ان لونڈیوں میں سے کسی کے ساتھ نکاح کرلے جو تمہارے قبضہ میں ہوں اور مومنہ ہوں)- ابوبکر جصاص (رح) کہتے ہیں کہ اس آیت کا مقتضیٰ یہ ہے کہ آزاد مسلمان عورتوں سے نکاح کی عدم استطاعت کی صورت میں مسلمان لونڈیوں سے نکاح کی اباحت ہے اس لیے کہ اس میں کسی کا اختلاف نہیں ہے کہ یہاں محصنات سے مراد آزاد عورتیں ہیں۔ اور اس میں غیر آزاد عورتوں سے نکاح کی ممانعت نہیں ہے اس لیے کہ اباحت کے ذکر کے ساتھ اس حالت کی تخصیص اس کے سوا دوسری حالتوں کی ممانعت پر دلالت نہیں کرتی۔ - جس طرح کہ قول باری ہے (لاتقتلوا اولادکم خشیۃ املاق ) محتاجی کے خوف سے اپنی اولاد کو قتل نہ کرو) اس میں ہرگز یہ دلالت موجود نہیں ہے کہ اس حالت کے زائل ہوجانے پر اولاد کا قتل مباح ہوجاتا ہے۔ اسی طرح قول باری تعالیٰ ہے (لاتأکلو الربوا اضعافا مضاعفۃ، )( یہ بڑھتا اور چڑھتا سود کھانا چھوڑ دو ) یہ اس پر دلالت نہیں کرتا کہ سود اگر بڑھتا اور چڑھتا نہ ہو اس کا کھانا مباح ہے۔ - نیز قول باری ہے (ومن یدع مع اللہ الہا آخر لابرہان لہ ) اور جو شخص اللہ کے ساتھ کسی دوسرے الہ کو پکارے جس کی اس کے پاس کوئی دلیل نہ ہو) اس کی اس پر ہرگز دلالت نہیں ہے کہ ہم میں سے کسی کے لیے اس قول کی صحت پر کہ اللہ کے ساتھ کوئی اور الٰہ بھی ہے کسی دلیل اور برہان کے قیام کا جواز ہے۔ - اصول فقہ میں ہم نے اس امر کی وضاحت کردی ہے اس لیے قول باری (و من لم یستطع منکم طولا) تا آخر آیت میں صرف ان لوگوں کے لیے لونڈیوں سے نکاح کی اباحت نہیں ہے جن کی یہ حالت ہو یعنی ان میں آزاد عورتوں سے نکاح کرنے کی استطاعت نہ ہو۔ آیت میں ان لوگوں کے متلعق حکم پر اباحت یا ممانعت کی صورت میں کوئی دلالت نہیں ہے۔ جنہیں آزاد عورتوں سے نکاح کی استطاعت حاصل ہو۔ - لفظ ” طول “ کی تشریح - طَول کے مفہوم کے متعلق سلف کے درمیان اختلاف رائے ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) سعید بن جبیر (رض) ، قتادہ (رض) ، اور سدّی سے قول مروی ہے کہ غِنٰی یعنی فراخی اور مقدرت کو طول کہتے ہیں عطاء ، جابر بن زید ور ابراہیم (رح) نخعی سے مروی قول کے مطابق جب کوئی شخص کسی لونڈی کی محبت میں گرفتار ہوجائے تو خوش حال ہونے کے باوجود اس لونڈی سے اسے نکاح کرلینے کی اجازت ہے جبکہ یہ خطرہ بی ہو کہ محبت میں اندھا ہو کر کہیں اس ساتھ منہ کالانہ کر بیٹھے۔ - گویا ان حضرات کے نزدیک اس صورت میں طول کے معنی یہ ہیں کہ لونڈی کی طرف قلبی میلان اور دلی محبت کے ہوتے ہوئے وہ آزاد عورت سے نکاح کر کے اپنا دل اس کی طرف نہ پھیرے ۔ چناچہ اس خاص صورت میں ان حضرات نے لونڈی سے نکاح کی اسے اجازت دے دی ہے۔ طَول میں غِنی اور مقدرت کے معنوں کے ساتھ ساتھ فضل کے معنوں کا بھی احتمال ہے۔ - ارشاد باری تعالیٰ (شدید العقاب ذی الطول) سخت سزا دینے والا اور صاحب فضل) ایک قول کے مطابق اس کے معنی فضل والا، اور دوسرے قول کے مطابق قدرت والا، ہیں فضل اور غنی معنی کے لحاظ سے متقارب الفاظ ہیں۔ اس لیے آیت یمں مذکورہ لفظ طول میں غِنی اور مقدرت نیز فضل اور وسعت کے معانی کا احتمال ہے۔ اگر اس لفظ کو غنی کے معنیں میں لیا جائے گا تو اس میں دو احتمال ہوں گے۔ - اوّل : عقد میں آزاد یعنی خاندانی عورت ہونے کی صورت میں اسے غنی حاصل حو جاتا ہے۔ - دوم : مالی لحاظ سے فراخی اور آزاد سے نکاح کی مقدرت اور اگر اسے فضل کے معنی میں لیا جائے تو اس میں ارادئہ غنی کا احتمال ہوگا کیونکہ فضل اس بات کو واجب کردیتا ہے۔ اس میں دوسرا احتمال یہ ہوگا کہ آزاد عورت سے نکاح کرنے کے لیے اس کے دل کی کشادگی اور لونڈی کی طرف سے منہ پھیرلینا مراد ہے، اگر ایک طرف اس کے دل میں اس بات کے لیے گنجائش نہ ہو اور دوسری طرف گناہ میں مبتلا ہوجانے کا اندیشہ ہو تو اس صورت میں مالداری اور فراخی کے باوجود لونڈی سے نکاح کرلینے کی اجازت ہے۔ جیسا کہ عطاء ، جابر بن زید اور ابراہیم نخعی (رح) سے مروی ہے۔ آیت میں ان تمام وجوہ کا احتمال موجود ہے۔ - اس سلسلے میں سلف سے اختلاف رائے منقول ہے، حضرت ابن عباس (رض) ، حضرت جابر (رض) (رض) ، سعید بن جبیر (رض) ، شعبی اور مکحول سے مروی ہے کہ لونڈی سے نکاح نہیں کرے البتہ اکر آزاد عورت ینی حُرہ سے نکاح کی مقدرت نہ رکھتا ہو تو پھر نکاح کرسکتا ہے۔ - مسروق اور شعبی سے منقول ہے کہ لونڈی کے ساتھ نکاح کی حیثیت وہی ہے جو مردار، خون اور سور کے گوشت کی ہے کہ صرف اضطراری حالت میں ان کے استعمال کی اجازت ہے، حضرت علی (رض) ، ابوجعفر (رض) ، مجاہد، سعید بن المسیب، سعید بن جبیر ( ایک روایت کے مطابق ( ابراہیم نخعی (رح) ، حسن (ایک رویت کے مطابق) اور زہری سے منقول ہے کہ ایک انسان خوشحال ہونے کے باوجود لونڈی سے نکاح کرسکتا ہے۔ - عطاء اور جابر بن زید سیمروی ہے کہ اگر کسی شخص کو کسی لونڈی سے اتنی دل بستگی ہو کہ نکاح نہ ہونے کی صورت میں اسے زنا کے ارتکاب کا خطرہ پیدا ہوجائے تو ایسی کیفیت میں وہ نکاح کرلے۔ عطاء سے یہ بھی مروی ہے کہ حرّہ عقد میں ہوتے ہوئے بھی وہ لونڈی سے نکاح کرسکتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) سے مروی ہے کہ حرّہ عقد میں ہوتے ہئوے لونڈی سے کوئی نکاح نہیں کرسکتا۔ البتہ مملوک یعنی غلام کو ایسا کرنے کی اجازت ہے۔ - حضرت عمر (رض) ، حضرت علی (رض) سعید بنالمسیب اور مکحول نیز دوسرے تابعین سے منقول ہے کہ آزاد عورت اگر عقد میں ہو تو لونڈی سے نکاح نہیں کرسکتا۔ ابراہیم کا قول ہے کہ اگر حرّہ کے بطن سے کوئی بیٹا ہو تو اس صورت میں لونڈی سے نکاح کرسکتا ہے۔ ابراہیم کا یہ بھی قول ہے کہ ایک ایک عقد میں ایک آزاد عورت اور لونڈی سے نکاح کرلیا تو دونوں سے اس کا یہ نکاح باطل ہوجائے گا۔ - حضرت ابن عباس (رض) اور مسروق کا قول ہے کہ جب کوئی شخص کسی حرّہ سے نکاح کرے گا تو اس کا یہ نکاح عقد میں موجود لونڈی کے لیے طلاق متصور ہوگا ابراہیم نخعی (رح) سے ایک روایت کے مطابق لونڈی اور اس کے شوہر کے درمیان علیحدگی کرادی جائے گی اِلّا یہ کہ اس کے بطن سے شوہر کے ہاں کوئی بچہ پیدا ہوچکا ہو۔ - شعبی کا قول ہے کہ جس وقت اس میں آزاد عورت کے ساتھ نکاح کی استطاعت پیدا ہوجائے گی لونڈی کے ساتھ اس کا نکاح باطل ہوجائے گا۔ امام مالک نے یحییٰ بن سعید سے ، انہوں نے سعید بن المسیب سے روایت کی ہے کہ عقد میں حرّہ کے ہوتے ہوئے لونڈی سے نکاح نہیں کرے گا البتہ اگر حرّہ جا ہے تو وہ ایسا کرسکتا ہے ۔ پھر آزاد عورت کے لیے دو دنوں اور لونڈی کے لیے ایک دن کی باری مقرر کرے گا۔- ابوبکر جصاص اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ امام مالک حرّہ پر لونڈی کو عقد میں لے آنا جائز نہیں سمجھتے تھے۔ حرّہ کی رضامندی کے بغیر وہ ایسا کر نہیں سکتا ہے۔ عقد نکاح میں بیک وقت کتنی لونڈیاں رکھ سکتا ہے۔ اس کے متعلق بھی اختلاف ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ ایک سے زائد لونڈی سے نکاح نہیں کرسکتا۔ - ابراہیم، مجاہد اور زہری سے منقول ہے کہ وہ بیک وقت چار لونڈیاں نکاح میں رکھ سکتا ہے۔ لونڈی سے نکاح کے متعلق سلف کے درمیان اختلاف آراء کی یہ صورتیں ہیں جن کا ہم نے ذکر کردیا ہے۔ - فقہاء امصار کے درمیان بھی اس معاملے میں اختلاف رائے ہے۔ امام ابوحنیفہ، امام ابویوسف، امام محمد اور حسن بن زیاد کا قول ہے کہ اگر اس کے عقد میں حرّہ نہ ہو تو وہ لونڈی سے نکاح کرسکتا ہے خواہ اسے حرّہ سے نکاح کی استطاعت کیوں نہ ہو لیکن اگر اس کے عقد میں پہلے سے آزاد خاتون موجود ہو تو لونڈی سے نکاح نہیں کرسکتا۔ - سفیان ثوری (رح) کا قول ہے کہ اگر اسے لونڈی کے متعلق زنا کے ارتکاب کا خدشہ ہو تو خوشحال ہونے کے باوجود اس کے ساتھ نکاح کرلینے میں کوئی حرج نہیں ہے، امام مالک، لیث بن سعد ، اوزاعی اور امام شافعی (رح) کا قول ہے کہ طول سے مراد مال ہے۔ - جب کسی کو آزاد خاتون سے نکاح کرنے کا طول حاصل ہو یعنی مالدار ہو تو وہ لونڈی سے نکاح نہ کرے اگر مال نہ ہو تو بھی لونڈی سے نکاح نہیں کرے گا جب تک اسے اپنے بند تقوی کے ٹوٹ جانے کا اندیشہ پیدا نہ ہوجائے۔ ہمارے اصحاب اور سفیان ثوری نیز اوزاعی اور امام شافعی (رح) کا اس پر اتفاق ہے کہ اگر کسی کے عقد میں آزاد عورت ہو تو اس کے لیے کسی لونڈی سے نکاح کرنا جائز نہیں ہے۔- ان حضرات کے نزدیک اس صورت میں آزاد عورت کی اجازت یا عدم اجازت سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ابن وہب نے امام مالک سے نقل کیا ہے کہ اگر ایک شخص عقد میں آزاد عورت کے ہوتے ہوئے کسی لونڈی سے نکاح کرلے تو اس میں کوئی حرج نہیں ۔ اس صورت میں آزاد عورت کو اختیار دیا جائے گا۔ - ابن القاسم نے امام مالک (رح) سے نقل کرتے ہوئے کہا ہے کہ آزاد عورت پر لونڈی سے نکاح کی صورت میں ان دونوں کے درمیاں علیحدگی کرادی جائے گی۔ پھر اس قول سے رجوع کر کے کہا کہ آزاد بیوی کو اختیار دیا جائے گا کہ اگر چاہے تو اس کے ساتھ رہے اور چاہے تو اس سے جدا ہوجائے۔ - ابن القاسم کہتے ہیں کہ ” امام مالک سے ایک شخص کے متعلق دریافت کیا گیا جو آزاد عورت سے نکاح کرنے کی استطاعت رکھنے کے باوجود لونڈی سے نکاح کرلیتا ہے ۔ آب سے اس کے جواب یمں فرمایا :” میرا خیال ہے کہ ان دونوں کے درمیان علیحدگی کرادی جائے گی “ اس پر سوال کیا گیا ” اس شخص کو اپنے بند تقویٰ کے ٹوٹ جانے کا خطرہ محسوس ہوتا ہے ۔ ” تو فرمایا ” اسے کوڑے لگائے جائیں گے “۔ لیکن آپ نے اس کے بعد میں تخفیف کردی۔ “- ابن القاسم نے مزید کہا :۔ امام مالک (رح) کا قول ہے کہ اگر کوئی غلام کسی لونڈی سے نکاح کرلیتا ہے جبکہ آزاد عورت اس کے عقد میں پہلے سے موجود ہو تو اس صورت میں آزاد عورت کو کوئی اختیار نہیں دیا جائے گا کیونکہ لونڈی بھی اس کی عورتوں میں شمار ہوتی ہے۔ - عثمان البتی کا قول ہے کہ اگر کوئی شخص آزاد بیوی کے ہوتے ہوئے کسی لونڈی سے نکاح کرلیتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ - آزاد عورت کے ساتھ نکاح کرنے کی قدرت رکھنے کے باوجود لونڈی سے نکاح کے جواز کی دلیل، بشرطیکہ آزاد عورت اس کے عقد میں نہ ہو، یہ قول باری ہے (فانکحو ماطاب لکم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ الی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایمانکم) تو جو عورتیں تمہیں پسند آئیں ان میں سے دو ، دو ، تین ، تین ، چار، چار سے نکاح کرلو لیکن اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ ان کے ساتھ دل نہ کرسکو گے تو پھر ایک ہی بیوی کردیا ان عورتوں کو زوجیت میں لاؤ جو تمہارے قبضے میں آئی ہیں) ۔- اس آیت میں آزاد عورت سے نکاح کرنے کی قدرت رکھنے کے باوجود لونڈی سے نکاح کرلینے کے جواز پر دو جوہ کی بنا پر دلالت موجود ہے۔ اوّل آیت میں علی الاطلاق تمام عورتوں سے نکاح کی اباحت ہے۔ آزاد عورت یا لونڈی کی کوئی تخصیص نہیں ہے۔ البتہ اس نکاح کا چار تک محدود رہنا ضروری ہے۔ - دوم خطاب کے تسلسل میں اللہ تعالیٰ کا یہ قول (اوماملکت ایمانکم) اور یہ بات واضح ہے کہ یہ قول افادئہ حکم میں خود مکتفی نہیں ہے بلکہ کسی ضمیر یعنی پوشیدہ لفظ کی اسے ضرورت ہے یہ پوشیدہ وہ ہے جس کا ذکر اس خطاب میں لفظًا گزر جکا ہے یعنی عقد نکاح۔ - اس طرح کلام کی عبارت یوں ہوگی ” فاعقد وانکاحا علی ما طاب لکم من النساء ، او علی ماملک ایمانکم “ ( ان عورتوں سے عقد نکاح کرلو جو تمہیں پسند آئیں یا ان سے جو تمہارے قبضے میں آئی ہیں) کلام کی عبارت میں لفظ وطی کو پوشیدہ ماننا دررست نہیں ہے کیونکہ اس کا پہلے ذکر نہیں گذرا ہے۔ - اس لیے آیت کی دلالت سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ مرد کو اختیار ہے کہ جا ہے تو آزاد عورت سے نکاح کرلے اور چاہے تو لونڈی کو عقد زوجیت میں لے آئے۔- اگر یہ کہا جائے کہ قول باری (فانکحوا ماطاب لکم من النساء) میں مذکورہ اباحت ایک شرط کے ساتھ مشروط ہے اور وہ شرط یہ ہے کہ ان عورتوں سے نکاح کیا جائے جو ہمیں پسند آئیں۔- یہ اس پر دلالت کرتا ہے کہ جو از عقد کے لیے پسند کی عورتیں ہونا ضروری ہے جب یہ بابت ثابت ہوگئی تو اس صورت میں آیت کی حیثیت اس مجمل فقرے جسی ہوگی جسے وضاحت اور بیان کی ضرورت ہے۔ - اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ قول باری (ماطاب لکم) میں دو احتمال ہیں۔- اوّل یہ کہ اس کے معنی یہ ہوں ” مااستطبتموہ “ (جیسی تمہاری پسند ہو) اس صورت میں آیت سے تخییر کا حکم ثابت ہو کا یعنی مرد کو اس معاملے میں اپنی پسد کی عورتوں سے نکاح کرنے کا اختیار مل جائے گا جس طرح کوئی شخص کسی سے یہ کہے ” اجلس ما طاب لکم فی ہذہ الدار “ یا ” کل ماطاب لک من ہذا الطعام “ (اس گھر میں جب تک تمہیں پسند آئے بیٹھو یا اس طعام میں سے جو تمہیں پسند آئے کھاؤ) اس کلام میں مخاطب کو اپنی پسند کے مطابق کام کرنے کا ختیار دیا گیا ہے۔ - دوم یہ کہ جو تمہارے لیے حلال ہو اگر آیت میں پہلے صورت مراد ہو تو اس کا مقتضی یہ ہوگا کہ مرد کو جس عورت سے چاہے نکاح کرنے کا اختیار ہے۔ اس میں آزاد عورتوں اور لونڈیوں کے متعلق عموم ہوگا۔ اگر دوسری صورت مراد ہو تو اس فقرے کے فورا بعد اس کا بیان قوری باری (مثنی وثلاث ورباع۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ الی او ماملکت ایمانکم) کی صورت میں وارد ہوا ہے جس کے ذریعے آیت اجمال کے درجے سے نکل کر عموم کے درجے میں پہنچ گئی ہے اور صورت حال جو بھی ہو عموم پر عمل واجب ہوتا ہے۔ - اگر بالفرض آیت میں اجمال اور عموم دونوں کا احتمال ہوتا تو پھر بھی اسے عموم کے معنی پر محمول اولی ہوتا کیونکہ اس صورت میں اس پر عمل کرنا ممکن ہوتا ہوتا۔ ہمارے لیے جب لفظ کے حکم پر ایک صورت میں عمل کرنا ممکن ہو تو ہم پر ایسا کرنا لازم ہوجاتا ہے۔ - زیر بحث مسئلہ پر قول باری (و احل لکم ما وراء ذلک ان تبتغوا باموالکم) بھی دلالت کرتا ہے کیونکہ اس میں آزاد عورتوں اور لونڈیوں کے متعلق عموم ہے اس پر یہ آیت بھی دلالت کرتی ہے۔ (الیوم احل لکم الطیبات ، وطعام الذین ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ الی اوتوا الکتاب من قبلکم)- آج تمہارے لیے ساری پاک چیزیں حلال کردی گئی ہیں اہل کتاب کا کھانا تمہارے لیے حلال ہے اور تمہارا کھانا ان کے لیے اور محفوظ عورتیں بھی تمہارے لیے حلال ہیں خواہ وہ اہل ایمان کے گروہ سے ہوں یا ا ن قوموں میں سے جن کو تم سے پہلے کتاب دی گئی تھی۔ )- احصان کے اسم کا اطلاق اسلام اور عقد پر ہوتا ہے اس پر قول باری (فاذا احصن) دلالت کرتا ہے۔ بعض سلف سے اس کے یہ معنی منقول ہیں ” جب وہ مسلمان ہوجائیں “ بعض کا قول ہے۔” جب وہ نکاح کرلیں “ یہ بات تو واضح ہے کہ اس مقام پر اس لفظ سے نکاح کرنا مراد نہیں ہے۔ جس سے یہ ثابت ہوا کہ اس سے مراد عفاف اور پاکس دامنی ہے اور یہ چیز آزاد عورتوں اور لونڈیوں دونوں کے لیے عموم کا حکم رکھتی ہے۔ نیز قول باری (والمحصنات من الذین اوتوا الکتاب من قبلکم) میں بھی کتابیہ لونڈیوں سے نکاح کے متعلق عموم ہے۔ اس پر قول باری (وانکو الایامی منکم والصالحین من عبادکم و إمائکم ) اور تم اپنے بےنکاحوں کا نکاح کرو اور تمہارے غلام اور لونڈیوں میں جو اس کے (یعنی نکاح کے) لائق ہوں ان کا بھی) ۔- اس میں جو عموم ہے وہ لونڈیوں سے نکاح کے جواز کا اسی طرح موجب ہے جس طرح یہ آزاد عورتوں سے نکاح کے جواز کا مقتضی ہے۔ اس پر قول باری (ولامۃ مؤمنۃ خیر من مشرکۃ ولو اعجبتکم، اور ایک مومن لونڈی ایک مشرک عورت سے بہتر ہے اگرچہ وہ تمہیں بھلی کیوں نہ لگے) بھی دلالت کر رہا ہے۔ - یہ خطاب صرف ایسے شخص کو ممکن ہے جو آزاد مشرک عورت سے نکاح کرنے کی استطاعت رکھتا ہو۔ جس شخص کو آزاد مشرک عورت سے نکاح کی استطاعت ہوگی اسے آزاد مسلمان عورت سے نکاح کی استطاعت رکھتے ہوئے بھی لونڈی سے نکاح کرلینا جائز ہے جس طرح آزاد مشرکت عورت سے نکاح کی استطاعت رکھتے ہوئے لونڈی سے نکا جائز ہے۔ - عقلی طور پر بھی اس کے جواز پر یہ بات دلالت کرتی ہے کہ ایک عورت سے نکاح کی استطاعت کسی دوسری عورت سے نکاح کو حرام نہیں کرتی۔ جس طرح ایک عورت کی بیٹی کے ساتھ نکاح کی استطاعت اس کی ماں سے نکاح کو حرام نہیں کرتی یا کسی عورت سے نکاح کی مقدرت اس کی بہن سے نکاح کو حرام نہیں کرتی۔ اس بنا پر یہ ضروری ہے کہ آزاد عورت سے نکاح کی استطاعت لونڈی سے نکاح کی راہ میں حائل نہ ہو بلکہ اس بارے میں لونڈی کا معاملہ دو بہنوں اور ماں بیٹی کے معاملے سے بھی زیادہ آسان ہے۔ - اس کی دلیل یہ ہے کہ تمام فقہاء امصار کے نزدیک ایک شخص کے عقد میں بیک وقت لونڈی اور آزاد عورت کا اکٹھا ہوجانا جائز ہے جبکہ دو بہنوں اور ماں بیٹی کی صورت میں یہ ممتنع ہے۔ اس لیے جب کسی عورت کی بیٹی سے نکاح کا امکان اس کی ماں سے نکاح کے لیے مانع نہیں بنتا جبکہ ان دونوں کو بیک وقت عقد میں رکھنے کا حکم آزاد عورت اور لونڈی کو بیک وقت عقد میں رکھنے کے حکم سے زیادہ شدید اور زیادہ سخت ہے تو اس سے یہ واجب ہوگیا کہ آزاد عورت سے نکاح کے امکان کا لونڈی سے نکاح کی ممانعت پر کوئی اثر نہ ہو۔ - جن لوگوں کو اس سے اختلاف ہے ان کا استدلال قول باری (و من لم یستطع منکم طول ان ینکح المحصنات المؤمنات فمما ملکت ایمانکم من فتیاتکم المؤمنات) تا قول باری (ذلک لمن خشی العنت منکم و ان تصبروا خیر لکم) سے ہے۔ - کیونکہ اس میں لونڈیوں کے ساتھ نکاح کی اباحت کو دو شرطوں کے ساتھ مشروط کردیا گیا ہے۔ آزاد عورت سینکاح کی عدم استطاعت اور بند تقویٰ ٹوٹ جانے کا خطرہ اس لیے ان دونوں شرطوں کے وجود کے بغیر لونڈیوں کے ساتھ نکاح کی اباحت درست نہیں ہوگی۔ - یہ آیت آپ کی تلاوت کردہ تمام آیات پر فیصلہ کن حیثیت رکھتی ہے۔ کیونکہ اس میں نکاح کے سلسلے میں لونڈی کا حکم بیان ہوا ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اس آیت میں آزاد عورت کے ساتھ نکاح کی استطاعت کی موجودگی میں لونڈی کے ساتھ نکاح کی ممانعت نہیں ہے۔ آیت میں تو صرف عدم استطاعت کی صورت میں لونڈی کے ساتھ نکاح کی اباحت کا ذکر ہے۔ - ہم نے جو آیات حوالے کے طور پر تلاوت کی ہیں ان میں تمام صورتوں میں لونڈیوں کے ساتھ نکاح کی اباحت کا ذکر ہے۔ اس لیے ان دونوں قسموں کی آیتوں میں سے کسی قسم کے اندر کوئی ایسی بات موجود نہیں ہے جو دوسری قسم کی آیتوں کے حکم کی تخصیص کرنے والی ہو اس لیے کہ ان کا ورود اباحت کے حکم کے سلسلے میں ہوا ہے۔ - ان میں سے کسی ایک کے اندر بھی ممانعت کا تذکرہ نہیں ہے۔ اس لیے یہ کہنا درست نہیں ہوگا کہ یہ آیت دوسری آیات کی تخصیص کر رہی ہے کیونکہ ان کا ورود ایک ہی حکم کے سلسلے میں ہوا ہے۔ - اگر یہ کہا جائے کہ یہ قول باری (فمن لم یجد فصیام شہرین متتابعین من قبل ان یتماسا فمن لم یستطع فاطعام ستین مسکینا) پھر جس کو یہ میسر نہ ہو تو قبل اس کے کہ دونوں باہم اختلاط کریں اس کے ذمے دو متواتر مہینوں کے روزے ہیں پھر جس سے یہ بھی نہ ہوسکے تو اس کے ذمے ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا ہے) ۔ - پورے سلسلہ کلام کا مقتضیٰ یہ ہے کہ ماقبل کے وجود کے ساتھ اس کا جواز ممتنع ہے اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اس کی وجہ یہ ہوئی کہ کفارئہ ظہار کے سلسلے میں ابتدائی طور پر ایک مملوک کو آزاد کرنا فرض قرار دیا کیا تھا اس کے سوا کوئی چیز نہیں تھی۔ - لیکن مملوک موجود نہ ہونے کی صورت میں جب اللہ تعالیٰ نے اس فرض کو روزں کی طرف منتقل کردیا تو اس کا اقتضاء یہ ہوگیا کہ مملوک کی عدم موجودگی میں روزوں کے سوا اور کوئی چیز کفارہ نہ بنے پھر جب فرمایا (فمن لم یستطع فاطعام ستین مسکینا) تو کفارے کا حکم آیت میں مذکورہ باتوں میں اسی ترتیب سے منحصر ہوگیا جس کی آیت مقتضی ہے۔ - اب معترض کے پاس کوئی ایسی آیت نہیں ہے جو لونڈیوں سے نکاح کی ممانعت کرتی ہوتا کہ یہ کہا جسکے کہ جب لونڈیوں کی اباحت کا ذکر شرط اور حالت کے ساتھ مشروط ہے تو اس شرط یا حالت کی عدم موجودگی ان کی ممانت کی موجب ہے، اس کے برعکس صورت حال یہ ہے کہ نکاح کی اباحت کے سلسلے میں وارد ہونے والی تمام آیتیں آزاد عورتوں اور لونڈیوں کے درمیان کوئی فرق نہیں کرتی ہیں۔- اس لیے قول باری (ومن لم یستطع منکم طول ان ینکح المحصنات المؤمنات ) میں آزاد عورتوں کے ساتھ نکاح کی استطاعت کی صورت میں لونڈیوں کی ممانعت پر کوئی دلالت نہیں ہے۔ اسماعیل بن اسحاق نے اس آیت اور اس کی تفسیر میں سلف کے اختلاف آراء کا ذکر کرنے کے بعد ہمارے اصحاب کے اس مسلک کا تذکرہ کیا کہ ہمارے ہاں آزاد عورت سے نکاح کی قدرت ہوتے ہوئے لونڈی سے نکاح جائز ہے پھر اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ” اس قول کا فاسد اور غلط ہونا حد سے تجاوز کر گیا ہے۔ اس میں تاویل کا کوئی احتمال نہیں ہے کیونکہ یہ کتاب اللہ کی رو سے ممنوع ہے اس کے جواز کی صرف وہی صورت ہے جس کی اباحت کا کتاب اللہ میں ذکر ہوا ہے۔ “- ابوبکر جصاص اسماعیل بن اسحاق کے اس تبصرے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اسماعیل کا یہ کہنا کہ ” اس میں تاویل کا احتمال نہیں ہے۔ “ اجماع کے خلاف ہے کیونکہ اس کے متعلق صحابہ کرام کے درمیان اختلاف رائے ہے۔ ہم نے ان کے اقوال بھی نقل کردیئے ہیں۔ اگر طوالت کا خوف نہ ہوتا تو ہم ان اقوال کی روایات کی اسناد کا بھی ذکر کردیتے۔ - اگر اس میں تاویل کا احتمال نہ ہوتا تو اس بارے میں سلف کی آراء مختلف نہ ہوتیں کیونکہ کسی کے لیے یہ جائز نہیں ہوتا کہ وہ کسی آیت کی تاویل ایسے معنوں میں کرے جن کا آیت میں سرے سے احتمال نہ ہو۔ سلف میں اس کے متعلق اختلاف رائے ظاہر ہوچکا تھا لیکن کسی نے کسی کی تردید نہیں کی اگر اس قول میں احتمالات نہ ہوتے اور تاویل کی گنجائش نہ ہوتی تو اس صورت میں ا س قول کے قائلین ضرور ان لوگوں کی تردید کرتے جو اس کے قائل نہ تھے۔ - جب سلف کے درمیان یہ قول شائع و ذائع تھا اور اس کے قائلین کی تردید بھی نہیں ہورہی تھی تو ان کے اس اجتماعی رویے کی بنا پر اس میں اجتہاد کی گنجائش اور آیت میں اس تاویل کا احتمال پیدا ہوگیا جس مختلف صورتیں ان حضرات سے منقول ہیں ہمارے اس بیان سے یہ بات وضاح ہو کئی کہ اسماعیل کا یہ کہنا غلط ہے کہ اس میں تاویل کا احتمال نہیں ہے۔ - رہ گئی اسماعیل کی یہ بات کہ ” یہ کتاب اللہ کی رو سے ممنوع اور صرف اسی جہت اور صورت میں اس کی اباحت ہے جس کا ذکر کتاب اللہ میں ہوا ہے “ تو اس سے ان کی مراد یہ ہوسکتی ہے کہ اس کی ممانعت نص قرآنی کی بناپر ہے یا دلیل کی بنا پر اگر وہ نص قرآنی کا دعوی کریں تو ان سے اس کی تلاوت اور اس کے اظہار کا مطالبہ کیا جائے گا جو ظاہر ہے کہ ان کے بس کی بات نہیں اور اگر وہ دلیل کا دعوی کریں توا سے پیش کرنے کا ان سے مطالبہ کیا جائے گا۔ - ان کے پاس ایسی کسی دلیل کا وجود نہیں ہے۔ اس طرح ان کے کلام سے صرف یہی بات معلوم ہوئی کہ وہ جس چیز کا دعوی کر رہے ہیں اس کی صحت کا تیقن صرف ان کی اپنی ذات تک محدود ہے۔ نیز اس تبصرے کے ذریعے انہوں نے فریق مخالف کے قول پر صرف تعجب کا اظہار کیا ہے۔ اس کے قول کی تردید نہیں کر سے ہیں البتہ وہ یہ دعوی کرسکتے ہیں کہ اس شرط اور حالت کے ساتھ لونڈیوں سے نکاح کی اباحت باقی ماندہ تمام حالتوں میں اس کی ممانعت کی دلیل ہے اگر اسماعیل نے اسی طرح استدلال کیا ہے تو پھر اس دلیل کی اثبات کے لیے ایک اور دلیل کی ضرورت پیش آئے گی۔ - ہمیں نہیں معلوم کہ امام شافعی (رح) سے پہلے کسی نے یہ استدلال کیا ہو۔ اگر مذکورہ بالا بات دلیل ہوتی تو اس مسئلے میں صحابہ کرام (رض) اس سے استدلال کرنے میں سب سے بازی لے جاتے نیز اس طرح کے اور دوسرے مسائل جن کے متعلق نئے احکام معلوم کرنے میں ان حضرات کے درمیان آراء کا اختلاف کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے جبکہ ان مسائل میں بہت سے ایسے تھے جن میں اس طرح کے استدلال کی بڑی گنجائش تھی۔ - ان حضرات نے مسائل کے احکام معلوم کرنے کے لیے قیاس اجتہاد نیز دلائل کی تمام قسموں سے استدلال کیا تھا لیکن مذکورہ بالاقسم کے استدلال کو انہوں نے قبول نہیں کیا تھا۔ جو اس بات کی دلیل ہے کہ ان کے نزدیک یہ طرز استدلال کسی بات کے حق میں دلیل کا کام نہیں دے سکتا۔ - اسی طرح اسماعیل کو اپنے قول کی تائید میں نہ کوئی دلیل مل سکی اور نہ ہی کوئی شبہ پیدا ہوسکا۔ داؤد اصفحانی نے نقل کیا ہے کہ اسماعیل سے جب نص کا مفہوم پوچھا گیا تھا تو انہوں نے جواب میں کہا تھا کہ ” جس بات پر سب متفق ہوجائیں وہ نص ہے۔ “ ان سے سوال کیا گیا :” اسکے معنی یہ ہیں کہ کتاب لالہ میں جہاں کہیں اختلاف رائے پیدا ہوجائے وہ نص نہیں ہے۔ “- اسماعیل نے جواب میں کہا :” قرآن سارے کا سارا نص ہے ۔ “ ان سے سوال کیا گیا :” جب قرآن سارے کا سارا نص ہے تو پھر اصحاب رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں اختلاف رائے کیوں پیدا ہوا “ ؟ اس مکالمے کے ناقل داؤد کہتے ہیں :” سائل نے اسماعیل سے یہ سوال پوچھ کر ان پر ایک طرح سے ظلم کیا۔ اس جیسے شخص سے ایسے مسئلوں کے متلعق سوال نہیں پوچھنا چاہیے کیونکہ ان کا مبلغ علم کے اس مقام سے فروتر ہے۔ “ - ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ اگر اسماعیل سے داؤد کی یہ رویت درست ہے تو ان کی یہ بات آزاد عورت سے نکاح کی استطاعت رکھتے ہوئے لونڈی سے نکاح کی اباحت کے قائلین کے قول کی ان کی طرف سے کی گئی تردید سے مناسبت نہیں رکھتی کیونکہ داؤد نے ان سے یہ نقل کیا کہ ایک مرتبہ تو انہوں نے یہ کہا کہ جس پر سب کا اتفاق ہوجائے وہ نص ہے اور ایک مرتبہ کہا کہ قرآن سارے کا سارا نص ہے۔ - جبکہ قرآن میں کوئی ایسا حکم نہیں ہے جو ہمارے اس قول کے خلاف جاتا ہو اور نہ ہی اس قول کیخلاف امت کا اتفاق عمل میں آیا ہے۔ داؤد نے اسماعیل سے اس مکالمے کی جو روایت کی ہے اس میں ضعف کا پہلو موجود ہے۔ داؤد اپنی روایت اور نقل میں غیر ثقہ سمجھا جاتا ہے۔ اور اس کی دیانتداری بھی مشکوک ہے۔ خاص طور پر اسماعیل سے اس کی نقل کردہ باتوں کی تصدیق نہیں کی جاتی اور انہیں درست تسلیم نہیں کیا جاتا ہے۔ کیونکہ اسماعیل نے اسے بغداد سے نکلوا دیا تھا اور اس پر بڑے الزامات عائد کیئے تھے۔ میرا گما اس طرف جاتا ہے کہ اسماعیل کو زیر بحث مسئلے میں ہمارے قول پر اس وجہ سے تعجب ہوا ہے کہ ان کے خیال میں اس جیسے مسئلے میں مذکورہ صورت اپنے ماسوا تمام صورتوں کی ممانعت کی خود دلیل ہوتی ہے۔ - ہم نے گذشتہ سطور میں واضح کردیا ہے کہ یہ کوئی دلیل نہیں ہوتی اس بارے میں ہم نے اصول فقہ کے اندر پوری شرح و بسط کے ساتھ گفتگو کی ہے۔ - ہمارے قول کی صحت پر ایک یہ بات بھی دلالت کرتی ہے کہ بند تقویٰ ٹوٹ جانے کے خوف اور عدم استطاعت کو ضرورت کا نام نہیں دیا جاسکتا اس لیے کہ ضرورت اس کیفیت کا نام ہے جس کے تحت جان کو خطرہ در پیش ہو اور ظاہر ہے کہ جماع نہ کرنے کی صورت میں جان کو کوئی خطرہ درپیش نہیں ہوتا جبکہ لونڈی کے ساتھ نکاح کی اباحت بھی موجود ہو۔ - اس لیے جب ضرورت کی غیر موجودگی میں لونڈی کے ساتھ نکاح جائز ہوگیا تو استطاعت کی موجودگی یا عدم استطاعت کی صورت میں اس حکم کے اندر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ کیونکہ عدم استطاعت کی موجودگی یا عدم استطاعت کی صورت میں اس حکم کے اندر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ کیونکہ عدم استطاعت نکاح کی ضرورت نہیں بن سکتی۔ کیونکہ نکاح کی ضرورت صرف اسی صورت میں پیش آسکتی ہے جس اسے اس کام پر اس طریقے سے مجبور کیا جائے جو اس کی جان یا بعض اعضاء کے تلف ہوجانے کا موجب بن جائے۔ - آیت میں لونڈیوں کے ساتھ نکاح کی اباحت کا ذکر ضرورت کی شرط کے ساتھ مشروط نہیں ہے اس پر سلسلہ خطاب میں یہ قول باری دلالت کرتا ہے (و ان تصبروا خیر لکم، لیکن اگر تم صبر کرلو تو یہ تمہارے لیے بہتر ہے۔ ) ۔ - جس یک صورت یہ ہے کہ اگر کوئی شخص اضطراری حالت میں شراب پینے یا مردار یا خنزیر کا گوشت کھانے پر مجبور ہوجائے تو اس کیفیت میں اس کا بھوک پیاس پر صبر کرلینا اس کے لیے بہتر نہیں ہوگا کیونکہ اگر بھوک پیاس برداشت کرتے ہوئے اس کی جان جلی جائے تو وہ گنہگار قرار پائے گا۔- ایک اور پہلو سے غور کیجئے نکاح فرض نہیں ہے اس میں ضرورت کا اعتبار کیا جائے اس کی اصل ترغیب و تہذیب ہے کہ اس سے انسان میں شائستگی پیدا ہوجائے جس کی بنا پر وہ زنا کے گناہ سے اپنا دامن بچاتا رہے جب صورت حال یہ ہو اور عدم ضرورت میں اس کا جواز موجود ہو تو پھر یہ بھی ضروری ہے کہ استطاعت کی موجودگی میں اس کا اس طرح جواز ہو جس طرح استطاعت کی عدم موجودگی میں اس کا جواز ہوتا ہے۔ - سلسلہ آیات میں قول باری (بعضکم من بعض ، تم سب ایک ہی گروہ کے لوگ ہو) کی تفسیر کے بارے میں ایک قول ہے کہ ” تم سب آدم سے ہو “ اور ایک قول یہ ہے کہ ” تم سب اہل ایمان ہو “ یہ مفہوم اس پر دلالت کرتا ہے کہ نکاح کے معاملے میں سب برابر ہیں اور یہ بات نکاح کے معاملے میں آزاد عورت اور لونڈی کے درمیان برابری کے وجوب پر دلالت کرتے ہے۔ - اس سے صرف وہ صورت خارج ہے جہاں برتری اور فضیلت پر کوئی دلالت قائم ہوجائے۔- جو لوگ اس بات کے قائل ہیں کہ آزاد عورت سے نکاح عقد میں پہلے سے موجود لونڈی کی طلاق ہے تو ان کا یہ قول بہت کمزور اور کھوکھلا ہے جس کی عقلی طور پر کوئی گنجائش نہیں ہے اس لیے کہ اگر حقیقت میں صورت حال یہی ہو تو اس سے یہ لازم آتا ہے کہ آزاد عورت کے ساتھ نکاح کی استطاعت کا وجود لونڈی کے نکاح کو فسخ کر دے جیسا کہ شعبی (رح) کا قول ہے جس طرح تیمم کرنے والے کو اگر پانی مل جائے تو اس کا تیمم ختم ہوجاتا ہے۔ خواہ وضو کرے یا نہ کرے۔ - امام ابویوسف (رح) سے یہ مروی ہے کہ انہوں نے قول باری (ومن لم یستطع من طولا) سے یہ مفہوم لیا ہے کہ کوئی آزاد عورت اس کے عقد میں نہ ہو، اگر کوئی آزاد عورت اس کیعقد میں ہو تو طول یعنی استطاعت کا وجود ہوجائے گا۔ آیت میں اس تاویل کی گنجائش موجود ہے اس لیے کہ جش شخص کے عقد میں آزاد عورت نہیں ہوگی اسے استطاعت حاصل نہیں ہو کی کیونکہ اس صورت میں اس تک اس کی رسائی نہیں ہوگی اور نہ ہی اس سے ہمبستری کی اسے قدرت حاصل ہوگی۔ - گویا امام ابویوسف (رح) کے نزدیک طول کے وجود کا مفہوم یہ ہے کہ آزاد عورت سے ہمبستری کا وہ مالک ہو۔ ان کی یہ تاویل ان حضرات کی تاویل کے مقابلے میں ییت کے مفہوم کے زیادہ مناسب ہے جن کا قول ہے کہ طول سے مراد آزاد عورت سے نکاح کرنے کی قدرت ہے۔ - اس لیے کہ مال پر قدرت کسی شخص کے لیے نکاح کے بعد ہی ہمبستری پر مالکلانہ حق کی موجب ہوتی ہے۔ - اس لیے ہمبستری پر مالکنہ تصرف کی حالت میں طول کا وجود مال کے وجود کے مقابلے میں اخص ہوگا کیونکہ مال کا وجود اس کے لیے صرف نکاح تک رسائی کا ذریعہ بن سکتا ہے اس پر یہ یات بھی دلالت کرتی ہے کہ ہمیں ایسی صورتیں ملتی ہیں جن میں بیوی سے ہمبستری کی ملکیت کسی دوسری عورت سے نکاح کی ممانعت میں مؤثر ہوتی ہے۔ جبکہ ہم نے یہ خصوصیت مال کے وجود میں نہیں پائی۔ اس لیے لونڈی سے نکاح کی ممانعت میں مال کے وجود کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ - اس بناء پر یہ آیت کی جو تاویل امام ابویوسف (رح) نے کی ہے کہ طول سے مراد آزاد عورت کے ساتھ ہمبستری کا مالک ہونا ہے۔ اس تاویل کی بہ نسبت زیادہ صحیح ہے جس کے مطابق طول سے مراد مال کی ملکیت ہے۔- اگر یہ کہا جائے کہ ظہار کی صورت میں کفارہ ادا کرنے کے لیے مملوک کی قیمت خرید کی موجودگی ملکیت میں مملوک کی موجودگی متصور ہوتی ہے۔ اس بنا پر آزاد عورت کے مہر کی موجودگی اس سے نکاح کی موجودگی کیوں متصور نہیں ہوتی ؟- (آیت ھذا کی بقیہ تفسیراگلی آیت میں)

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٢٥) اور جس میں آزاد مسلمان سے شادی کرنے کی پوری قدرت نہ ہو تو پھر ان مسلمان باندیوں سے جو کہ شرعی طریقہ پر مسلمانوں کے قبضہ میں ہیں، ان سے شادی کرو، تمہارے ایمان کی پوری حالت سے اللہ تعالیٰ ہی واقف ہے، تم سب آدم (علیہ السلام) کی اولاد ہو سب کا دین ایک ہے۔- لہذا ان باندیوں سے ان کے مالکوں کی اجازت کے ساتھ قاعدہ کے مطابق مہر دے کر شادی کرلیاکرو، اگر وہ پاک دامن ہوں نہ علانیہ طور پر کسی بدکاری میں مبتلا ہوں اور نہ خفیہ طریقہ پر ان کا کوئی آشنا ہو، شادی کے بعد اگر یہ باندیاں کسی بڑی بےحیائی کا ارتکاب کریں تو آزاد غیر منکوحہ کی جو سزا ہے ان کو اس کی آدھی ملے گی یعنی پچاس کوڑے لگائے جائیں گے۔- اور ان باندیوں سے شادی کرنا اس کے لیے مناسب ہے جو بوجہ غلبہ شہوت اور آزاد عورت میسر نہ ہونے کی وجہ سے گناہ میں مبتلا ہونے کا خدشہ رکھتا ہو اور اگر ان سے اپنے نفسوں کو قابو میں رکھو تو پھر تمہاری اولاد بغیر کسی شبہ کے آزاد ہوگی اور اگر کسی غلطی کا ارتکاب ہوجائے تو ہم مغفرت فرمانے والے ہیں اور مہربان بھی ہیں کہ ضرورت کے وقت باندیوں سے شادی کی اجازت دی۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢٥ (وَمَنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ مِنْکُمْ طَوْلاً اَنْ یَّنْکِحَ الْمُحْصَنٰتِ الْمُؤْمِنٰتِ ) (فَمِنْ مَّا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ مِّنْ فَتَیٰتِکُمُ الْمُؤْمِنٰتِ ط) - یہاں محصَنٰت “ دوسرے معنی میں آیا ہے ‘ یعنی شریف زادیاں ‘ آزاد مسلمان عورتیں۔ اور ظاہر ہے آزاد مسلمان عورتوں کا تو مہر ادا کرنا پڑے گا۔ اس حوالے سے اگر کوئی بےچارہ مفلس ہے ‘ ایک خاندانی عورت کا مہر ادا نہیں کرسکتا تو وہ کیا کرے ؟ ایسے لوگوں کو ہدایت کی جا رہی ہے کہ وہ معاشرے میں موجود مسلمان لونڈیوں سے نکاح کرلیں۔ - (وَاللّٰہُ اَعْلَمُ بِاِیْمَانِکُمْ ط) ۔- یہ اللہ بہتر جانتا ہے کہ کون مؤمن ہے اور کون نہیں ہے۔ مراد یہ ہے کہ جو بھی قانونی اعتبار سے مسلمان ہے دنیا میں وہ مؤمن سمجھا جائے گا۔ - (بَعْضُکُمْ مِّنْم بَعْضٍ ج) (فَانْکِحُوْہُنَّ بِاِذْنِ اَہْلِہِنَّ ) - کسی لونڈی کا مالک اس سے جنسی تعلق قائم کرسکتا ہے۔ لیکن جب ایک شخص اس کی اجازت سے اس کی لونڈی سے نکاح کرلے تو اب لونڈی کے مالک کا یہ تعلق منقطع ہوجائے گا۔ اب وہ لونڈی اس اعتبار سے اس کے کام میں نہیں آسکتی ‘ بلکہ اب وہ ایک مسلمان کی منکوحہ ہوجائے گی۔ اسی لیے اس نکاح کے لیے بِاِذْنِ اَہْلِہِنَّکی ہدایت فرمائی گئی ہے۔ واضح رہے کہ اس وقت کے معاشرے میں بالفعل یہ شکلیں موجود تھیں۔ یہ نہیں کہا جا رہا کہ یہ شکلیں پیدا کرو۔ غلام اور لونڈیوں کا معاملہ اس وقت کے بین الاقوامی حالات اور اسیران جنگ کے مسئلے کے ایک حل کے طور پر پہلے سے موجود تھا۔ ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ جس معاشرے میں قرآن نے اصلاح کا عمل شروع کیا اس میں فی الواقع کیا صورت حال تھی اور اس میں کس کس اعتبار سے تدریجاً بہتری پیدا کی گئی۔ - (وَاٰتُوْہُنَّ اُجُوْرَہُنَّ بالْمَعْرُوْفِ ) ( مُحْصَنٰتٍ غَیْرَ مُسٰفِحٰتٍ ) - ان سے نکاح کا تعلق ہوگا ‘ جس میں نیت گھر میں بسانے کی ہونی چاہیے ‘ محض مستی نکالنے کی اور شہوت رانی کی نیت نہ ہو۔ یہ حصار نکاح میں محفوظ ہو کر رہیں ‘ آزاد شہوت رانی نہ کرتی ‘ پھریں۔ ّ - (وَّلاَ مُتَّخِذٰتِ اَخْدَانٍ ج) - کسی کی لونڈی سے کسی کا نکاح ہو تو کھلم کھلا ہو۔ معلوم ہو کہ فلاں کی لونڈی اب فلاں کے نکاح میں ہے۔ جیسے حضرت سمیہ (رض) سے حضرت یاسر (رض) نے نکاح کیا تھا۔ حضرت سمیہ (رض) ‘ ابوجہل کے چچا کی لونڈی تھیں ‘ جو ایک شریف انسان تھا۔ حضرت یاسر (رض) جب یمن سے آکر مکہ میں آباد ہوئے تو انہوں نے ابوجہل کے چچا سے اجازت لے کر ان کی لونڈی سمیہ (رض) سے شادی کرلی۔ ان سے حضرت عمار (رض) پیدا ہوئے۔ یہ تین افراد کا ایک کنبہ تھا۔ یاسر ‘ عمار بن یاسر اور عمار کی والدہ سمیہ (رض) ۔ ابوجہل کا شریف النفس چچا جب فوت ہوگیا تو ابوجہل کو اس کنبے پر اختیار حاصل ہوگیا اور اس نے اس خاندان کو بدترین ایذائیں دی۔ - (فَاِذَآ اُحْصِنَّ فَاِنْ اَتَیْنَ بِفَاحِشَۃٍ ) (فَعَلَیْہِنَّ نِصْفُ مَا عَلَی الْمُحْصَنٰتِ مِنَ الْعَذَابِ ط) - لونڈیاں اگر قید نکاح میں آنے کے بعد بدچلنی کی مرتکب ہوں تو بدکاری کی جو سزا آزاد عورتوں کو دی جائے گی انہیں اس کی نصف سزا دی جائے گی۔ واضح رہے کہ یہ ابتدائی احکامات ہیں۔ ابھی تک نہ تو سو کوڑوں کی سزا کا حکم آیا تھا اور نہ رجم کا۔ چناچہ اٰذُوْھُمَا “ کے حکم کی تعمیل میں بدکاری کی جو سزا بھی آزاد خاندانی عورتوں کو دی جاتی تھی ایک منکوحہ لونڈی کو اس سے نصف سزا دینے کا حکم دیا گیا۔ اس لیے کہ ایک شریف خاندان کی عورت جسے ہر طرح کا تحفظ حاصل ہو اس کا معاملہ اور ہے اور ایک بےچاری غریب لونڈی کا معاملہ اور ہے۔ ّ - (ذٰلِکَ لِمَنْ خَشِیَ الْعَنَتَ مِنْکُمْ ط) ۔- مسلمان لونڈیوں سے نکاح کرلینے کی اجازت تم میں سے ان لوگوں کے لیے ہے جو اپنی شہوت اور جنسی جذبے کو روک نہ سکتے ہوں اور انہیں فتنے میں مبتلا ہوجانے اور گناہ میں ملوث ہوجانے کا اندیشہ ہو۔ ّ - (وَاَنْ تَصْبِرُوْا خَیْرٌ لَّکُمْ ط) ۔- چونکہ عام طور پر اس معاشرے میں جو باندیاں تھیں وہ بلند کردار نہیں تھیں ‘ لہٰذا فرمایا کہ بہتر یہ ہے کہ تم ان سے نکاح کرنے سے بچو اور تعفف اختیار کرو۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :45 یعنی معاشرت میں لوگوں کے درمیان جو فرق مراتب ہے وہ محض ایک اعتباری چیز ہے ، ورنہ دراصل سب مسلمان یکساں ہیں ، اور اگر کوئی حقیقی وجہِ امتیاز ان کے درمیان ہے تو وہ ایمان ہے جو محض اونچے گھرانوں ہی کا حصہ نہیں ہے ۔ ہو سکتا ہے کہ ایک لونڈی ایمان و اخلاق میں ایک خاندانی عورت سے بہتر ہو ۔ سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :46 سرسری نگاہ میں یہاں ایک پیچیدگی واقع ہوتی ہے جس سے خوارج اور ان دوسرے لوگوں نے فائدہ اٹھایا ہے جو رجم کے منکر ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ ”اگر آزاد شادی شدہ عورت کے لیے شریعت اسلام میں زنا کی سزا رجم ہے تو اس کی نصف سزا کیا ہوسکتی ہے جو لونڈی کو دی جائے؟ لہٰذا یہ آیت اس بات پر دلیل قاطع ہے کہ اسلام میں رجم کی سزا ہے ہی نہیں ۔ “ لیکن ان لوگوں نے قرآن کے الفاظ پر غور نہیں کیا ۔ اس رکوع میں لفظ مُحْصَنٰتُ ( محفوظ عورتیں ) دو مختلف معنوں میں استعمال کیا گیا ہے ۔ ایک ”شادی شدہ عورتیں“ جن کو شوہر کی حفاظت حاصل ہو ۔ دوسرے”خاندانی عورتیں“ جن کو خاندان کی حفاظت حاصل ہو ، اگرچہ وہ شادی شدہ نہ ہوں ۔ آیت زیر بحث میں ”محصَنات“ کا لفظ لونڈی کے بالمقابل خاندانی عورتوں کے لیے دوسرے معنی میں استعمال ہوا ہے نہ کہ پہلے معنی میں ، جیسا کہ آیت کے مضمون سے صاف ظاہر ہے ۔ بخلاف اس کے لونڈیوں کے لیے مُحصنات کا لفظ پہلے معنی میں استعمال ہوا ہے اور صاف الفاظ میں فرمایا ہے کہ جب انہیں نکاح کی حفاظت حاصل ہو جائے ( فَاِذَآ اُحْصِنَّ ) تب ان کے لیے زنا کے ارتکاب پر وہ سزا ہے جو مذکور ہوئی ۔ اب اگر غائر نگاہ سے دیکھا جائے تو یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ خاندانی عورت کو دو حفاظتیں حاصل ہوتی ہیں ۔ ایک خاندان کی حفاظت جس کی بنا پر وہ شادی کے بغیر بھی مُحْصَنہ ہوتی ہے ۔ دوسری شوہر کی حفاظت جس کی وجہ سے اس کے لیے خاندان کی حفاظت پر ایک اور حفاظت کا اضافہ ہو جاتا ہے ۔ بخلاف اس کے لونڈی جب تک لونڈی ہے مُحصَنہ نہیں ہے ، کیونکہ اس کو کسی خاندان کی حفاظت حاصل نہیں ہے ۔ البتہ نکاح ہونے پر اس کو صرف شوہر کی حفاظت حاصل ہوتی ہے اور وہ بھی ادھوری ، کیونکہ شوہر کی حفاظت میں آنے کے بعد بھی نہ تو وہ ان لوگوں کی بندگی سے آزاد ہوتی ہے جن کی ملک میں وہ تھی ، اور نہ اسے معاشرت میں وہ مرتبہ حاصل ہوتا ہے جو خاندانی عورت کو نصیب ہوا کرتا ہے ۔ لہٰذا اسے جو سزا دی جائے گی وہ غیر شادی شدہ خاندانی عورتوں کی سزا سے آدھی ہوگی نہ کہ شادی شدہ خاندانی عورتوں کی سزا سے ۔ نیز یہیں سے یہ بات بھی معلوم ہوگئی کہ سورہ نور کی دوسری آیت میں زنا کی جس سزا کا ذکر ہے وہ صرف غیر شادی شدہ خاندانی عورتوں کے لیے ہے جن کے مقابلہ میں یہاں شادی شدہ لونڈی کی سزا نصف بیان کی گئی ہے ۔ رہیں شادی شدہ خاندانی عورتیں ، تو وہ غیر شادی شدہ محصَنات سے زیادہ سخت سزا کی مستحق ہیں کیونکہ وہ دوہری حفاظت کو توڑتی ہیں ۔ اگر چہ قرآن ان کے لیے سزاے رجم کی تصریح نہیں کرتا ، لیکن نہایت لطیف طریقہ سے اس کی طرف اشارہ کرتا ہے جو بلید الذہن لوگوں سے مخفی رہ جائے تو رہ جائے ، نبی کے ذہن رسا سے مخفی نہیں رہ سکتا تھا ۔ سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :47 یعنی خاندانی عورت سے نکاح کرنے کی استطاعت نہ ہو تو کسی لونڈی سے اس کے مالکوں کی اجازت لے کر نکاح کر لینے کی سہولت ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

22: چونکہ آزاد عورتوں کا مہر عام طور پر زیادہ ہوتا تھا اور باندیوں کا مہر کم، اس لئے ایک طرف تو حکم یہ دیا گیا ہے کہ باندیوں سے نکاح اسی وقت کیا جائے جب آزاد عورتوں سے نکاح کی استطاعت نہ ہو، دوسری طرف یہ ہدایت دی گئی ہے کہ جب کسی باندی سے نکاح کی نوبت آجائے توپھرمحض اس کے باندی ہونے کی وجہ سے اس کو حقیر سمجھنا درست نہیں، کیونکہ فضیلت کا اصل دارومدار تقوی پر ہے، اور اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتے ہیں کہ کس کی ایمانی حالت زیادہ مضبوط ہے ورنہ اولاد آدم ہونے کے لحاظ سے سب ایک دوسرے کے برابر ہیں۔ 23: آزاد عورتیں اگر غیر شادی شدہ ہوں تو ان کے لیے زنا کی سزا سو کوڑے ہیں، جس کا ذکر سورۃ نور کی دوسری آیت میں آیا ہے۔ زیر نظر آیت میں باندیوں کے لیے اس کی آدھی سزا یعنی پچاس کوڑے مقرر فرمائی گئی ہے۔