Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

41۔ 1 ہر امت میں سے اس کا پیغمبر اللہ کی بارگاہ میں گواہی دے گا کہ یا اللہ ہم نے تو تیرا پیغام اپنی قوم کو پہنچا دیا تھا، اب انہوں نے نہیں مانا تو ہمارا کیا قصور ؟ پھر ان سب پر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گواہی دیں گے کہ یا اللہ سچے ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ گواہی اس قرآن کی وجہ سے دیں گے جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل ہوا اور جس میں گزشتہ انبیاء اور ان کی قوموں کی سرگزشت بھی حسب ضرورت بیان کی گئی ہے۔ یہ ایک سخت مقام ہوگا، اس کا تصور ہی لرزہ براندام کردینے والا ہے، حدیث میں آتا ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت عبد اللہ بن مسعود (رض) سے قرآن سننے کی خواہش ظاہر فرمائی وہ سناتے ہوئے جب اس آیت پر پہنچے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بس اب کافی ہے، حضرت ابن مسعود فرماتے ہیں کہ میں دیکھا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دونوں آنکھوں سے آنسو رواں تھے، بعض لوگ کہتے ہیں کہ گواہی وہی دے سکتا ہے، جو سب کچھ آنکوں سے دیکھے۔ اس لئے وہ شہید (گواہ) کے معنی حاضر ناظر کے کرتے ہیں اور یوں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حاضر ناظر باور کراتے ہیں۔ لیکن نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حاضر ناظر سمجھنا، یہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ کی صفت میں شریک کرنا ہے، جو شرک ہے، کیونکہ حاضر ناظر صرف اللہ تعالیٰ کی صفت ہے۔ شہید کے لفظ سے ان کا استدلال اپنے اندر کوئی قوت نہیں رکھتا۔ اس لیے کہ شہادت یقینی علم کی بنیاد پر بھی ہوتی ہے اور قرآن میں بیان کردہ حقائق و واقعات سے زیادہ یقینی علم کس کا ہوسکتا ہے ؟ اسی یقینی علم کی بنیاد پر خود امت محمدیہ کو بھی قرآن نے (شہدآء علی الناس) (تمام کائنات کے لوگوں پر گواہ) کہا ہے۔ اگر گواہی کے لیے حاضر و ناظر ہونا ضروری ہے تو پھر امت محمدیہ کے ہر فرد کو حاضر و ناظر ماننا پڑیگا۔ بہرحال نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں یہ عقیدہ مشرکانہ اور بےبنیاد ہے۔ اعاذنا اللہ منہ۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٧] سابقہ امتوں پر آپ کی گواہی :۔ اس آیت میں میدان حشر کی کیفیت اور اللہ تعالیٰ کی عدالت کا ذکر ہو رہا ہے۔ اس وقت ہر امت میں سے ایک گواہ لایا جائے گا جو اس امت کا نبی ہوگا اور وہ یہ گواہی دے گا کہ یا اللہ میں نے تیرا پیغام اور تیرے احکام امت کو من و عن پہنچا دیئے تھے اور فلاں فلاں لوگوں نے تو انہیں تسلیم کرلیا تھا اور فلاں فلاں نے نافرمانی اور کفر کیا تھا لیکن اس امت کے نافرمان لوگ صاف مکر جائیں گے اور کہہ دیں گے کہ ہمارے پاس تو کوئی ڈرانے والا آیا ہی نہ تھا۔ بالفاظ دیگر یہ نافرمان لوگ اللہ تعالیٰ کے دربار میں بھی جھوٹ بولنے سے باز نہیں آئیں گے اور اپنے نبی کی شہادت کو جھٹلا کر اسے مشکوک بنا دینے کی کوشش کریں گے، اس وقت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو لایا جائے گا تو آپ ان انبیاء کی شہادت کی تصدیق کریں گے۔ اس وقت بھی نافرمان لوگ اپنی ہٹ دھرمی سے باز نہ آئیں گے اور کہیں گے کہ یہ تو اس وقت موجود ہی نہ تھے یہ کیسے انبیاء کی تصدیق کرسکتے ہیں ؟ اس وقت آپ فرمائیں گے کہ میں تو منزل من اللہ وحی کی رو سے دنیا میں بھی سابقہ انبیاء کی تصدیق کرتا رہا پھر آج کیسے تصدیق نہ کروں گا۔- سیدنا عبداللہ بن مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے فرمایا کہ مجھے کچھ قرآن سناؤ میں نے عرض کی بھلا میں آپ کو کیا سناؤں ؟ آپ ہی پر تو قرآن اترا ہے۔ آپ نے فرمایا ٹھیک ہے مگر مجھے دوسرے سے سننا اچھا لگتا ہے۔ ابن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ پھر میں نے سورة نساء پڑھنا شروع کی اور جب اس آیت پر پہنچا (فَكَيْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ اُمَّةٍۢ بِشَهِيْدٍ وَّجِئْنَا بِكَ عَلٰي هٰٓؤُلَاۗءِ شَهِيْدًا 41؀ڲ) 4 ۔ النسآء :41) تو آپ نے فرمایا : بس کرو میں نے دیکھا تو اس وقت آپ کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ (بخاری، کتاب التفسیر)- اس ایت سے آپ کی تمام انبیاء پر فضیلت ثابت ہوتی ہے۔ کیونکہ سابقہ تمام انبیاء پر شہادت دینے کا شرف آپ کو حاصل ہوگا۔ اور سیدنا عبداللہ بن مسعود (رض) جب سورة نساء پڑھتے پڑھتے اس آیت پر پہنچے، تو فرمایا کہ تشکر و امتنان اور مسرت و انبساط کی وجہ سے آپ کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے تھے یعنی ایک طرف تو اللہ کی عطا کردہ فضیلت پر انتہائی خوشی کی وجہ سے، دوسرے اللہ کی اس عطا پر انتہائی شکر گزاری کے طور پر آپ کے آنسو بہہ رہے تھے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اوپر کی آیتوں میں قیامت کے ظلم کی نفی اور کئی گنا اجر کا وعدہ فرمایا، اب یہاں بیان فرمایا جا رہا ہے کہ اچھا یا برا بدلہ پیغمبروں یا ان لوگوں کی گواہی سے ملے گا جن کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ نے اپنا پیغام اپنی مخلوق تک پہنچایا ہے، تفصیل کے لیے دیکھیے سورة بقرہ (١٤٣) اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی امت پر اور پہلی امتوں پر دین پہنچانے کی گواہی دیں گے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

فکیف اذا جئنا من کل امة سے میدان آخرت کے استحضار کی طرف توجہ دلائی گئی ہے اور کفار قریش کی توبیخ بھی مقصود ہے۔- ان لوگوں کا کیا حال ہوگا جب میدان حشر میں ہر ہر امت کا نبی اپنی امت کے نیک و بد اعمال پر بطور گواہ پیش ہوگا اور آپ بھی اپنی امت پر گواہ بن کر حاضر ہوں گے اور بطور خاص ان کفار و مشرکین کے متعلق خدائی عدالت میں گواہی دیں گے کہ انہوں نے کھلے کھلے معجزات دیکھ کر بھی تکذیب کی اور آپ کی وحدانیت اور میری رسالت پر ایمان نہ لائے۔- بخاری شریف میں روایت ہے حضو راقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عبداللہ بن مسعود سے فرمایا کہ مجھے قرآن سناؤ، حضرت عبداللہ نے عرض کیا آپ مجھ سے سننا چاہتے ہیں ؟ حالانکہ قرآن آپ ہی پر نازل ہوا ہے آپ نے فرمایا ہاں پڑھو، میں نے سورة نساء کی تلاوت شروع کردی اور جب فکیف اذا جئنا من کل امة بشھید پر پہنچا تو آپ نے فرمایا کہ اب بس کرو اور جب میں نے آپ کی طرف نظر اٹھا کر دیکھا تو آپ کی مبارک آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔- علامہ قسطلانی لکھتے ہیں کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس آیت سے آخرت کا منظر مستحضر ہوگیا اور اپنی امت کے کوتاہ عمل اور بےعمل لوگوں کی بابت خیال آیا اس لئے آنسو مبارک جاری ہوگئے۔- فائدہ :۔ بعض حضرات نے فرمایا کہ ھولاء کا اشارہ زمانہ رسالت میں موجود کفار و منافقین کی طرف ہے اور بعض فرماتے ہیں کہ قیامت تک کی پوری امت کی طرف اشارہ ہے اس لئے کہ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہا آپ کی امت کے اعمال آپ پر پیش ہوتے رہتے ہیں۔- بہرحال اس سے معلوم ہوا کہ گزشتہ امتوں کے انبیاء اپنی اپنی امت پر بطور گواہ پیش ہوں گے، اور آپ بھی اپنی امت کے اعمال کی گواہی دیں گے ........ قرآن کریم کے اس اسلوب سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے بعد کوئی نبی آنے والا نہیں ہے جو اپنی کسی امت کے متعلق گواہی دے، ورنہ قرآن کریم میں اس کا اور اس کی شہادت کا بھی ذکر ہوتا۔ اس اعتبار سے یہ آیت ختم نبوت کی دلیل بھی ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

فَكَيْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ اُمَّۃٍؚبِشَہِيْدٍ وَّجِئْنَا بِكَ عَلٰي ہٰٓؤُلَاۗءِ شَہِيْدًا۝ ٤١ۭ۬- كيف - كَيْفَ : لفظ يسأل به عمّا يصحّ أن يقال فيه : شبيه وغیر شبيه، كالأبيض والأسود، والصحیح والسّقيم، ولهذا لا يصحّ أن يقال في اللہ عزّ وجلّ : كيف، وقد يعبّر بِكَيْفَ عن المسئول عنه كالأسود والأبيض، فإنّا نسمّيه كيف، وكلّ ما أخبر اللہ تعالیٰ بلفظة كَيْفَ عن نفسه فهو استخبار علی طریق التنبيه للمخاطب، أو توبیخا نحو : كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّهِ [ البقرة 28] ، كَيْفَ يَهْدِي اللَّهُ [ آل عمران 86] ، كَيْفَ يَكُونُ لِلْمُشْرِكِينَ عَهْدٌ [ التوبة 7] ، انْظُرْ كَيْفَ ضَرَبُوا لَكَ الْأَمْثالَ [ الإسراء 48] ، فَانْظُرُوا كَيْفَ بَدَأَ الْخَلْقَ [ العنکبوت 20] ، أَوَلَمْ يَرَوْا كَيْفَ يُبْدِئُ اللَّهُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ [ العنکبوت 19] .- ( ک ی ف ) کیف ( اسم استفہام ) اس چیز کی حالت در یافت کرنے کے لئے آتا ہے جس پر کہ شیبہ اور غیر شیبہ کا لفظ بولا جاسکتا ہو جیسے ابیض ( سفید اسود ( سیاہی ) صحیح ( تندرست ) سقیم ( بیمار ) وغیرہ ۔ لہذا اللہ تعالیٰ کے متعلق اس کا استعمال جائز نہیں ہے اور کبھی اس چیز پر بھی کیف کا اطلاق کردیتے ہیں جس کے متعلق سوال کر نا ہو مثلا کہا جاتا ہے کہ اسود اور ابیض مقولہ کیف سے ہیں اور جہاں کہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے متعلق کیف کا لفظ استعمال کیا ہے تو وہ تنبیہ یا قو بیخ کے طور پر مخاطب سے استخبار کے لئے لایا گیا ہے جیسے فرمایا : ۔ كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّهِ [ البقرة 28] کافرو تم خدا سے کیونکر منکر ہوسکتے ہو ۔ كَيْفَ يَهْدِي اللَّهُ [ آل عمران 86] خدا ایسے لوگوں کو کیونکر ہدایت دے ۔ كَيْفَ يَكُونُ لِلْمُشْرِكِينَ عَهْدٌ [ التوبة 7] بھلا مشرکوں کے لئے کیونکر قائم رہ سکتا ہے ۔ انْظُرْ كَيْفَ ضَرَبُوا لَكَ الْأَمْثالَ [ الإسراء 48] دیکھو انہوں نے کس کس طرح کی تمہارے بارے میں باتیں بنائیں ۔ فَانْظُرُوا كَيْفَ بَدَأَ الْخَلْقَ [ العنکبوت 20] اور دیکھو کہ اس نے کس طرح خلقت کو پہلی مر تبہ پیدا کیا ۔ أَوَلَمْ يَرَوْا كَيْفَ يُبْدِئُ اللَّهُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ [ العنکبوت 19] کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ خدا کسی طرح خلقت کو پہلی بار پیدا کرتا پھر کس طرح اس کو بار بار پیدا کرتا رہتا ہے ۔- إذا - إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو :إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له - ( اذ ا ) اذ ا - ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔- اذا کی مختلف صورتیں ہیں :۔- (1) یہ ظرف زمان ہے۔ ( زجاج، ریاشی)- (2) یہ ظرف مکان ہے۔ ( مبرد، سیبوبہ)- (3) اکثر و بیشتر اذا شرط ہوتا ہے۔- مفسرین نے تینوں معنوں میں اس کا استعمال کیا ہے۔- (1) ظرف زمان : اور جب تو وہاں ( کی نعمتیں) دیکھے گا۔ تو تجھ کو وہاں بڑی نعمت اور شاہی سازو سامان نظر آئے گا۔ ( تفسیر حقانی) - (2) ظرف مکان : اور جدھر بھی تم وہاں دیکھو گے تمہیں نعمتیں ہی نعمتیں اور وسیع مملکت نظر آئے گی۔ ( تفسیر ضیاء القرآن)- (3) اذا شرطیہ۔ اور اگر تو اس جگہ کو دیکھے توتجھے بڑی نعمت اور بڑی سلطنت دکھائی دے۔ ( تفسیر ماجدی)- الأُمّة :- كل جماعة يجمعهم أمر ما إمّا دين واحد، أو زمان واحد، أو مکان واحد سواء کان ذلک الأمر الجامع تسخیرا أو اختیارا، وجمعها : أمم، وقوله تعالی: وَما مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا طائِرٍ يَطِيرُ بِجَناحَيْهِ إِلَّا أُمَمٌ أَمْثالُكُمْ [ الأنعام 38] - الامۃ - ہر وہ جماعت جن کے مابین رشتہ دینی ہو یا وہ جغرافیائی اور عصری وحدت میں منسلک ہوں پھر وہ رشتہ اور تعلق اختیاری اس کی جمع امم آتی ہے اور آیت کریمہ :۔ وَمَا مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا طَائِرٍ يَطِيرُ بِجَنَاحَيْهِ إِلَّا أُمَمٌ أَمْثَالُكُمْ ( سورة الأَنعام 38) اور زمین پر جو چلنے پھر نے والے ( حیوان ) دو پروں سے اڑنے والے پرند ہیں وہ بھی تمہاری طرح جماعتیں ہیں - شَّهِيدُ- وأمّا الشَّهِيدُ فقد يقال لِلشَّاهِدِ ، والْمُشَاهِدِ للشیء، وقوله : مَعَها سائِقٌ وَشَهِيدٌ [ ق 21] ، أي : من شهد له وعليه، وکذا قوله : فَكَيْفَ إِذا جِئْنا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنا بِكَ عَلى هؤُلاءِ شَهِيداً [ النساء 41] - شھید یہ کبھی بمعنی شاہد یعنی گواہ آتا ہے چناچہ آیت مَعَها سائِقٌ وَشَهِيدٌ [ ق 21] اسکے ساتھ ( ایک) چلانے والا اور ( ایک ، گواہ ہوگا ۔ میں شہید بمعنی گواہ ہی ہے جو اس کے لئے یا اس پر گواہی دیگا ۔ اسی طرح آیت کریمہ : فَكَيْفَ إِذا جِئْنا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنا بِكَ عَلى هؤُلاءِ شَهِيداً [ النساء 41] بھلا اس دن کیا حال ہوگا جب ہم ہر امت میں سے احوال بتانے والے کو بلائیں گے اور تم کو لوگوں کا حال بتانے کو گواہ طلب کریں گے ۔ میں بھی شہید بمعنی شاہد ہی ہے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٤١) کفار اس وقت کیا کریں گے جب کہ ہر قوم پر ان کا نبی احکام خداوندی پہنچانے کی گواہی دے گا اور یہ معنی بھی بیان کیے گئے ہیں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی امت کی گواہی دیں گے اور تصدیق کریں گے کیوں کہ دیگر انبیاء کرام کی قومیں جب ان کو جھٹلایں گی تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کی تصدیق کرنے کے ساتھ ساتھ ان انبیاء کی نبوت کی بھی تصدیق کرے گی۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٤١ (فَکَیْفَ اِذَا جِءْنَا مِنْ کُلِّ اُمَّۃٍم بِشَہِیْدٍ ) - یعنی اس نبی اور رسول کو گواہ بنا کر کھڑا کریں گے جس نے اس امت کو دعوت پہنچائی ہوگی۔ - (وَّجِءْنَا بِکَ عَلٰی ہٰٓؤُلَآءِ شَہِیْدًا ۔ ) ۔- یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ‘ کو کھڑے ہو کر کہنا ہوگا کہ اے اللہ میں نے ان تک تیرا پیغام پہنچا دیا تھا۔ ہماری عدالتی اصطلاح میں اسے استغاثہ کا گواہ ( ) کہا جاتا ہے۔ گویا عدالت خداوندی میں نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) استغاثہ کے گواہ کی حیثیت سے پیش ہو کر کہیں گے کہ اے اللہ ‘ تیرا پیغام جو مجھ تک پہنچا تھا میں نے انہیں پہنچادیا تھا ‘ اب یہ خود ذمہ دار اور جواب دہ ہیں۔ چناچہ اپنی ہی قوم کے خلاف گواہی آگئی نا ؟ یہاں الفاظ نوٹ کر لیجیے : عَلٰی ہٰٓؤُلَآءِ شَہِیْدًا اور عَلٰی ہمیشہ مخالفت کے لیے آتا ہے۔ ہم تو ہاتھ پر ہاتھ دھرے شفاعت کی امید میں ہیں اور یہاں ہمارے خلاف مقدمہ قائم ہونے چلا ہے۔ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دربار خداوندی میں ہمارے خلاف گواہی دیں گے کہ اے اللہ میں نے تیرا دین ان کے سپرد کیا تھا ‘ اب اسے دنیا میں پھیلانا ان کا کام تھا ‘ لیکن انہوں نے خود دین کو چھوڑ دیا۔ سورة الفرقان میں الفاظ آئے ہیں : (وَقَال الرَّسُوْلُ یٰرَبِّ اِنَّ قَوْمِی اتَّخَذُوْا ھٰذَا الْقُرْاٰنَ مَھْجُوْرًا ) اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہیں گے کہ پروردگار ‘ میری قوم نے اس قرآن کو ترک کردیا تھا “۔ سورة النساء کی آیت زیر مطالعہ کے بارے میں ایک واقعہ بھی ہے۔ ایک مرتبہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) سے ارشاد فرمایا کہ مجھے قرآن سناؤ انہوں نے عرض کیا حضور آپ کو سناؤں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر تو نازل ہوا ہے۔ فرمایا : ہاں ‘ لیکن مجھے کسی دوسرے سے سن کر کچھ اور حظ حاصل ہوتا ہے۔ حضرت عبداللہ (رض) نے سورة النساء پڑھنی شروع کی۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ‘ بھی سن رہے تھے ‘ باقی اور صحابہ (رض) ‘ بھی ہوں گے اور حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) ‘ گردن جھکائے پڑھتے جا رہے تھے۔ جب اس آیت پر پہنچے (فَکَیْفَ اِذَا جِءْنَا مِنْ کُلِّ اُمَّۃٍم بِشَہِیْدٍ وَّجِءْنَا بِکَ عَلٰی ہٰٓؤُلَآءِ شَہِیْدًا ۔ ) تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : حَسْبُکَ ‘ حَسْبُکَ (بس کرو ‘ بس کرو ) عبداللہ بن مسعود (رض) نے سر اٹھا کر دیکھا تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔ اس وجہ سے کہ مجھے اپنی قوم کے خلاف گواہی دینی ہوگی۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :64 یعنی ہر دور کا پیغمبر اپنے دور کے لوگوں پر اللہ کی عدالت میں گواہی دے گا کہ زندگی کا وہ سیدھا راستہ اور فکر و عمل کا وہ صحیح طریق ، جس کی تعلیم آپ نے مجھے دی تھی ، اسے میں نے ان لوگوں تک پہنچا دیا تھا ۔ پھر یہی شہادت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دور کے لوگوں پر دیں گے ، اور قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت سے قیامت تک ہے ۔ ( آل عمران ، حاشیہ نمبر ٦۹ )

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

31: تمام انبیاء کرام قیامت کے روز اپنی اپنی امتوں کے اچھے برے اعمال پر گواہی دیں گے اور آنحضرتﷺ کو اپنی امت کے لوگوں پر گواہ بناکر پیش کیا جائے گا۔