Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٧٤] پھر جب اللہ تعالیٰ کے روبرو ایسے نافرمان لوگوں پر شہادتیں مکمل ہوجائیں گی اور شہادتوں کی بنا پر ان کا جرم ثابت ہوجائے گا تو اس وقت یہ آرزو کریں گے کہ کاش زمین پھٹ جائے اور ہم اس میں سما جائیں تاکہ اپنی نافرمانیوں کے برے نتائج اور عذاب سے نجات حاصل کرسکیں۔ لیکن یہ کسی صورت ممکن نہ ہوگا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

يَوْمَىِٕذٍ يَّوَدُّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا ۔۔ : اس سے مقصود کفار کو وعید سنانا ہے جو اس موقع پر آرزو کریں گے کہ کاش ہم انسان نہ ہوتے بلکہ زمین میں مل کر خاک ہوجاتے۔ دیکھیے سورة نبا کی آخری آیت۔ (ابن کثیر)- وَلَا يَكْتُمُوْنَ اللّٰهَ حَدِيْثًا : کفار کے متعلق قرآن میں یہ بھی ہے کہ وہ اپنے شرک سے انکار کردیں گے کہ ہم نے شرک کیا ہی نہیں۔ (انعام : ٢٣ ) مگر یہ آیت اس کے خلاف نہیں ہے کیونکہ وہ پہلے واقعی شرک کرنے سے انکار کریں گے مگر جب ان کے ہاتھ پاؤں ان کے خلاف گواہی دیں گے۔ (حم السجدۃ : ٢١ تا ٢٣) تو پھر وہ اللہ تعالیٰ سے کوئی چیز چھپا نہ سکیں گے۔ ابن عباس (رض) نے فرمایا : ” قیامت کا دن بہت لمبا دن ہے، کسی موقع پر وہ انکار کریں گے اور دوسرے موقع پر اپنے شرک اور بد اعمالی پر افسوس کریں گے۔ “ (رازی۔ ابن کثیر)

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

یومئذ یود الذین کفروا میں میدان آخرت میں کافروں کی بدحالی کا ذکر ہے، کہ یہ لوگ قیامت کے دن تمنا کریں گے کہ کاش ہم زمین کا پیوند بن گئے ہوتے، کاش زمین پھٹ جاتی اور ہم اس میں دھنس کر مٹی بن جاتے اور اس وقت کی پوچھ گچھ اور عذاب و حساب سے نجات پا جاتے۔- میدان حشر میں جب کفار دیکھیں گے کہ تمام جانور ایک دوسرے کے مظالم کا بدلہ لینے دینے کے بعد مٹی بنا دیئے گئے تو ان کو حسرت ہوگی اور تمنا کریں گے کہ کاش ہم بھی مٹی ہوجاتے، جیسا کہ سورة نباء میں فرمایا : ویقول الکفر یلیتنی کنت ترباً ط - آخر میں فرمایا ولایکتمون اللہ حدیثاً یعنی یہ کفار اپنے عقائد و اعمال سے متعلق کچھ بھی پوشیدہ نہ رکھ سکیں گے ان کے اپنے ہاتھ پیر اقرار کریں گے، انبیاء گواہی دیں گے اور اعمالناموں میں بھی سب کچھ موجود ہوگا۔- حضرت ابن عباس (رض) سے پوچھا گیا کہ قرآن کریم میں ایک جگہ یہ ارشاد ہے کہ کفار کچھ بھی نہ چھپائیں گے اور دوسری جگہ یہ ہے کہ وہ قسم کھا کر کہیں گے۔ واللہ ربنا ماکنا مشرکین (٦: ٣٢) کہ ہم نے شرک نہیں کیا۔ بظاہر ان دو آیتوں میں تعارض ہے ؟ تو آپ نے جواب دیا کہ : ہوگا یوں کہ جب شروع میں کفار یہ دیکھیں گے کہ مسلمانوں کے سوا جنت میں کوئی جاتا ہی نہیں تو وہ یہ طے کرلیں گے کہ ہمیں اپنے شرک اور اعمال بد کا انکار ہی کردینا چاہئے، ہوسکتا ہے اس طرح ہم نجات پاجائیں، لیکن اس انکار کے بعد خود ان کے اعضاء ان کے خلاف گواہی دیں گے اور چھپانے کا جو مقصد انہوں نے بنایا تھا اس میں بالکل ناکام ہوجائیں گے اس وقت سب اقرار کرلیں گے، اس لئے فرمایا : ولایکتمون اللہ حدیثاً کچھ بھی نہیں چھپا سکیں گے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

يَوْمَىِٕذٍ يَّوَدُّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَعَصَوُا الرَّسُوْلَ لَوْ تُـسَوّٰى بِہِمُ الْاَرْضُ۝ ٠ۭ وَلَا يَكْتُمُوْنَ اللہَ حَدِيْثًا۝ ٤٢ۧ- يَوْمَئِذٍ- ويركّب يَوْمٌ مع «إذ» ، فيقال : يَوْمَئِذٍ نحو قوله عزّ وجلّ : فَذلِكَ يَوْمَئِذٍ يَوْمٌ عَسِيرٌ [ المدثر 9] وربّما يعرب ويبنی، وإذا بني فللإضافة إلى إذ .- اور کبھی یوم کے بعد اذ بڑھا دیاجاتا ہے اور ( اضافت کے ساتھ ) یومئذ پڑھا جاتا ہے اور یہ کسی معین زمانہ کی طرف اشارہ کے لئے آتا ہے اس صورت میں یہ معرب بھی ہوسکتا ہے اور اذ کی طرف مضاف ہونے کی وجہ سے مبنی بھی ۔ جیسے فرمایا : وَأَلْقَوْا إِلَى اللَّهِ يَوْمَئِذٍ السَّلَمَ [ النحل 87] اور اس روز خدا کے سامنے سرنگوں ہوجائیں گے ۔ فَذلِكَ يَوْمَئِذٍ يَوْمٌ عَسِيرٌ [ المدثر 9] وہ دن بڑی مشکل کا دن ہوگا ۔ اور آیت کریمہ : وَذَكِّرْهُمْ بِأَيَّامِ اللَّهِ [إبراهيم 5] اور ان کو خدا کے دن یا ددلاؤ۔ میں ایام کی لفظ جلالت کی طرف اضافت تشریفی ہے اور ا یام سے وہ زمانہ مراد ہے جب کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر اپنے فضلو انعام کے سمندر بہا دیئے تھے ۔- ودد - الودّ : محبّة الشیء، وتمنّي كونه، ويستعمل في كلّ واحد من المعنيين علی أن التّمنّي يتضمّن معنی الودّ ، لأنّ التّمنّي هو تشهّي حصول ما تَوَدُّهُ ، وقوله تعالی: وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَوَدَّةً وَرَحْمَةً [ الروم 21]- ( و د د ) الود ۔- کے معنی کسی چیز سے محبت اور اس کے ہونے کی تمنا کرنا کے ہیں یہ لفظ ان دونوں معنوں میں الگ الگ بھی استعمال ہوتا ہے ۔ اس لئے کہ کسی چیز کی تمنا اس کی محبت کے معنی کو متضمعن ہوتی ہے ۔ کیونکہ تمنا کے معنی کسی محبوب چیز کی آرزو کرنا کے ہوتے ہیں ۔ اور آیت : ۔ وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَوَدَّةً وَرَحْمَةً [ الروم 21] اور تم میں محبت اور مہربانی پیدا کردی ۔- كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔- عصا - العَصَا أصله من الواو، لقولهم في تثنیته : عَصَوَانِ ، ويقال في جمعه : عِصِيٌّ. وعَصَوْتُهُ :- ضربته بالعَصَا، وعَصَيْتُ بالسّيف . قال تعالی: وَأَلْقِ عَصاكَ [ النمل 10] ، فَأَلْقى عَصاهُ- [ الأعراف 107] ، قالَ هِيَ عَصايَ [ طه 18] ، فَأَلْقَوْا حِبالَهُمْ وَعِصِيَّهُمْ [ الشعراء 44] . ويقال : ألقی فلانٌ عَصَاهُ : إذا نزل، تصوّرا بحال من عاد من سفره، قال الشاعر : فألقت عَصَاهَا واستقرّت بها النّوى وعَصَى عِصْيَاناً : إذا خرج عن الطاعة، وأصله أن يتمنّع بِعَصَاهُ. قال تعالی: وَعَصى آدَمُ رَبَّهُ [ طه 121] ، وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ النساء 14] ، آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُيونس 91] . ويقال فيمن فارق الجماعة : فلان شقّ العَصَا - ( ع ص ی ) العصا : ( لاٹھی ) یہ اصل میں ناقص وادی ہے کیونکہ اس کا تثنیہ عصوان جمع عصی آتی عصوتہ میں نے اسے لاٹھی سے مارا عصیت بالسیف تلوار کو لاٹھی کی طرح دونوں ہاتھ سے پکڑ کت مارا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَلْقِ عَصاكَ [ النمل 10] اپنی لاٹھی دال دو ۔ فَأَلْقى عَصاهُ [ الأعراف 107] موسٰی نے اپنی لاٹھی ( زمین پر ) ڈال دی ۔ قالَ هِيَ عَصايَ [ طه 18] انہوں نے کہا یہ میری لاٹھی ہے ۔ فَأَلْقَوْا حِبالَهُمْ وَعِصِيَّهُمْ [ الشعراء 44] تو انہوں نے اپنی رسیاں اور لاٹھیاں ڈالیں ۔ القی فلان عصاہ کسی جگہ پڑاؤ ڈالنا کیونکہ جو شخص سفر سے واپس آتا ہے وہ اپنی لاٹھی ڈال دیتا ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ( 313 ) والقت عصاھا واستقربھا النوی ( فراق نے اپنی لاٹھی ڈال دی اور جم کر بیٹھ گیا ) عصی عصیانا کے معنی اطاعت سے نکل جانے کے ہیں دراصل اس کے معنی ہیں اس نے لاٹھی ( عصا ) سے اپنا بچاؤ کیا ۔ قرآن میں ہے : وَعَصى آدَمُ رَبَّهُ [ طه 121] اور آدم نے اپنے پروردگار کے حکم کے خلاف کیا تو ( وہ اپنے مطلوب سے ) بےراہ ہوگئے ۔ وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ النساء 14] اور جو خدا اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا ۔ آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس 91] ( جواب ملا کہ ) اب ( ایمان لاتا ہے ) حالانکہ تو پہلے نافرمانی کرتا رہا ۔ اور اس شخص کے متعلق جو جماعت سے علیدہ گی اختیار کر سے کہا جاتا ہے فلان شق لعصا ۔- رسل - أصل الرِّسْلِ : الانبعاث علی التّؤدة وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ومن الأنبیاء قوله : وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ [ آل عمران 144]- ( ر س ل ) الرسل - الرسل ۔ اصل میں اس کے معنی آہستہ اور نرمی کے ساتھ چل پڑنے کے ہیں۔ اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھیجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ اور کبھی اس سے مراد انبیا (علیہ السلام) ہوتے ہیں جیسے فرماٰیا وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ [ آل عمران 144] اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سے بڑھ کر اور کیا کہ ایک رسول ہے اور بس - لو - لَوْ : قيل : هو لامتناع الشیء لامتناع غيره، ويتضمّن معنی الشرط نحو : قوله تعالی: قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ [ الإسراء 100] .- ( لو ) لو ( حرف ) بعض نے کہا ہے کہ یہ امتناع الشئی لا متناع غیر ہ کے لئے آتا ہے ( یعنی ایک چیز کا دوسری کے امتناع کے سبب ناممکن ہونا اور معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ [ الإسراء 100] کہہ دو کہ اگر میرے پروردگار کی رحمت کے خزانے تمہارے ہاتھ میں ہوتے ۔ - سوا ( مساوات برابر)- الْمُسَاوَاةُ : المعادلة المعتبرة بالذّرع والوزن، والکيل،- وتَسْوِيَةُ الشیء : جعله سواء، إمّا في الرّفعة، أو في الضّعة، وقوله : الَّذِي خَلَقَكَ فَسَوَّاكَ [ الانفطار 7] ، أي : جعل خلقتک علی ما اقتضت الحکمة، وقوله :- وَنَفْسٍ وَما سَوَّاها [ الشمس 7] ، فإشارة إلى القوی التي جعلها مقوّمة للنّفس، فنسب الفعل إليها، وکذا قوله : فَإِذا سَوَّيْتُهُ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي [ الحجر 29] ، - ( س و ی ) المسا واۃ - کے معنی وزن کیل یا مسا حت کے لحاظ سے دو چیزوں کے ایک دوسرے کے برابر ہونے کے ہیں - التسویۃ کے معنی کسی چیز کو ہموار کرنے ہیں اور آیت : ۔ الَّذِي خَلَقَكَ فَسَوَّاكَ [ الانفطار 7] دو ہی تو ہے ) جس نے تجھے بنایا اور تیرے اعضاء کو ٹھیک کیا ۔ میں سواک سے مراد یہ ہے کہ انسان کی خلقت کو اپنی حکمت کے اقتضاء کے مطابق بنایا اور آیت : ۔ وَنَفْسٍ وَما سَوَّاها [ الشمس 7] اور انسان کی اور اس کی جس نے اس کے قوی کو برابر بنایا ۔ اسی طرح آیت کریمہ : ۔ فَإِذا سَوَّيْتُهُ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي [ الحجر 29] جب اس کو ( صورت انسانیہ میں ) درست کرلوں اور اس میں ( اپنی بےبہا چیز یعنی ) روح پھونک دوں ۔ - كتم - الْكِتْمَانُ : ستر الحدیث، يقال : كَتَمْتُهُ كَتْماً وكِتْمَاناً. قال تعالی: وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ كَتَمَ شَهادَةً عِنْدَهُ مِنَ اللَّهِ [ البقرة 140] ، - ( ک ت م ) کتمہ ( ن ) کتما وکتما نا کے معنی کوئی بات چھپانا کے ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ كَتَمَ شَهادَةً عِنْدَهُ مِنَ اللَّهِ [ البقرة 140] اور اس سے بڑھ کر ظالم کون جو خدا کی شہادت کو جو اس کے پاس کتاب اللہ میں موجود ہے چھپائے - حدیث - وكلّ کلام يبلغ الإنسان من جهة السمع أو الوحي في يقظته أو منامه يقال له : حدیث، قال عزّ وجلّ : وَإِذْ أَسَرَّ النَّبِيُّ إِلى بَعْضِ أَزْواجِهِ حَدِيثاً [ التحریم 3] ، وقال تعالی: هَلْ أَتاكَ حَدِيثُ الْغاشِيَةِ [ الغاشية 1] ، وقال عزّ وجلّ : وَعَلَّمْتَنِي مِنْ تَأْوِيلِ الْأَحادِيثِ- [يوسف 101] ، أي : ما يحدّث به الإنسان في نومه،- حدیث - ہر وہ بات جو انسان تک سماع یا وحی کے ذریعہ پہنچے اسے حدیث کہا جاتا ہے عام اس سے کہ وہ وحی خواب میں ہو یا بحالت بیداری قرآن میں ہے ؛وَإِذْ أَسَرَّ النَّبِيُّ إِلى بَعْضِ أَزْواجِهِ حَدِيثاً [ التحریم 3] اور ( یاد کرو ) جب پیغمبر نے اپنی ایک بی بی سے ایک بھید کی بات کہی ۔- أَتاكَ حَدِيثُ الْغاشِيَةِ [ الغاشية 1] بھلا ترکو ڈھانپ لینے والی ( یعنی قیامت کا ) حال معلوم ہوا ہے ۔ اور آیت کریمہ :۔ وَعَلَّمْتَنِي مِنْ تَأْوِيلِ الْأَحادِيثِ [يوسف 101] اور خوابوں کی تعبیر کا علم بخشا۔ میں احادیث سے رویا مراد ہیں

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

قول باری ہے (یومئذ یود الذین کفروا وعصوالرسول لوتسوی بھم الارض ولایکتمون اللہ حدیثا) اس وقت وہ سب لوگ جنہوں نے رسول کی بات نہ مانی اور اس کی نافرمانی کرتے رہے تمناکریں گے کہ کاش زمین پھٹ جائے اور وہ اسمیں سماجائیں وہاں یہ اپنی کوئی بات اللہ سے چھپا نہیں سکیں گے ) ۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بتادیا کہ وہاں یہ لوگ اپنا کوئی حال اور اپنا کوئی عمل اللہ سے چھپا نہیں سکیں گے کیونکہ انہیں معلوم ہوگا کہ اللہ کو ان کے تمام اعمال کی اطلاع ہے اور وہ ان کی تمام پوشیدہ باتوں سے آگاہ ہے اس لیے وہ اپنے ان اعمال کا اعتراف کرلیں گے اور انہیں پوشیدہ نہیں رکھیں گے ایک قول ہے کہ یہ کہنا بھی درست ہے کہ یہ لوگ وہاں اپنی پوشیدہ باتوں پر پردہ نہیں ڈال سکیں گے جس طرح انہوں نے دنیا میں ان پر پردہ ڈال رکھا ہے۔- اگریہ کہاجائے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے متعلق بتایا ہے وہ یہ کہیں گے ہمیں اللہ اپنے رب کی قسم، ہم مشرک نہیں تھے، تو اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ آخرت کے کئی مراحل ہیں ایک مرحلہ تو وہ ہے جہاں آپ ان کے ہمس یعنی دھیمی آواز کے سوا کچھ نہیں سنیں گے ایک اور مرحلہ وہ ہے جہاں ان لوگوں کو کذب بیانی کا موقعہ مل جائے گا اور وہ کہیں گے ہم توبرے کام نہیں کرتے تھے اللہ ہمارے رب کی قسم ہم تو شرک نہیں کرتے تھے ۔- نیز ایک مرحلہ وہ ہے جہاں یہ لوگ اپنی غلطی کا اعتراف کرلیں گے اور اللہ سے درخواست کریں گے انہیں دوبارہ دنیا میں بھیج دیاجائے حسن سے یہ تفسیر مروی ہے حضڑت ابن عباس کا قول ہے کہ قول باری (ولایکتمون اللہ حدیثا) اس تمنا میں داخل ہے جس کا ذکر آیت کی ابتداء میں ہوچکا ہے جب ان نافرمانوں کے اعضاء وجوارح زبان گویائی حاصل کرکے ان کا پول کھول دیں گے تو ان کی یہ تمنا ہوگی۔- ایک قول کے مطابق آیت کا مفہوم یہ ہے کہ ان کے کتمان کو کوئی اہمیت نہیں دی جائے گی کیونکہ اللہ پر سب کچھ عیاں ہے اور اس کی نظروں س کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے گویا عبارت کی ترتیب یوں ہے، انھم غیر قادرین ھنالک علی الکتمان لان اللہ یظھرہ، یہ لوگ وہاں کتمان پر قادر نہیں ہوں گے کیونکہ اللہ تعالیٰ اسے ظاہر کردے گا) ۔ ایک قول یہ ہے کہ انہوں نے کتمان کا ارادہ نہیں کیا کیون کہ انہوں نے یہ بات اپنے توہم کے مطابق کی ہے اور یہ بات انہیں اس سے خارج نہیں کرتی کہ انہوں نے کتمان کیا تھا (واللہ اعلم) ۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٤٢) اور قیامت کے دن کفار اس بات کی تمنا کریں گے، کہ کاش ہم بھی جانوروں کی طرح خاک ہوجائیں اور ہمارا حساب کتاب بالکل نہ ہو۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٤٢ (یَوْمَءِذٍ یَّوَدُّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَعَصَوُا الرَّسُوْلَ لَوْ تُسَوّٰی بِہِمُ الْاَرْضُ ط) ۔- یعنی کسی طرح زمین پھٹ جائے اور ہم اس میں دفن ہوجائیں ‘ ہمیں نسیاً منسیّا کردیا جائے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani