بتدریج حرمت شراب اور پس منظر اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے ایمان دار بندوں کو نشے کی حالت میں نماز پڑھنے سے روک رہا ہے کیونکہ اس وقت نمازی کو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے اور ساتھ ہی محل نماز یعنی مسجد میں آنے سے روکا جا رہا ہے اور ساتھ جنبی شخص جسے نہانے کی حاجت کو محل نماز یعنی مسجد میں آنے سے روکا جا رہا ہے ۔ ہاں ایسا شخص کسی کام کی وجہ سے مسجد کے ایک دروازے سے داخل ہو کر دوسرے دروازے سے نکل جائے تو جائز ہے نشے کی حالت میں نماز کی قریب نہ جانے کا حکم شراب کی حرمت سے پہلے تھا جیسے اس حدیث سے ظاہر ہے جو ہم نے سورہ بقرہ کی ( يَسْــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الْخَــمْرِ وَالْمَيْسِرِ ۭ قُلْ فِيْهِمَآ اِثْمٌ كَبِيْرٌ وَّمَنَافِعُ لِلنَّاسِ ۡ وَاِثْـمُهُمَآ اَكْبَرُ مِنْ نَّفْعِهِمَا ۭ وَيَسْــَٔـلُوْنَكَ مَاذَا يُنْفِقُوْنَ ڛ قُلِ الْعَفْوَ ۭ كَذٰلِكَ يُـبَيِّنُ اللّٰهُ لَكُمُ الْاٰيٰتِ لَعَلَّكُمْ تَتَفَكَّرُوْنَ ) 2 ۔ البقرۃ:219 ) کی تفسیر میں بیان کی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب وہ آیت حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سامنے تلاوت کی تو آپ نے دعا مانگی کہ اے اللہ شراب کے بارے میں اور صاف صاف بیان نازل فرما پھر نشے کی حالت میں نماز کے قریب نہ جانے کی یہ آیت اتری اس پر نمازوں کے وقت اس کا پینا لوگوں نے چھوڑ دیا اسے سن کر بھی جناب فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہی دعا مانگی تو ( يٰٓاَيُّھَاالَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْاَنْصَابُ وَالْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ 90 اِنَّمَا يُرِيْدُ الشَّيْطٰنُ اَنْ يُّوْقِعَ بَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاۗءَ فِي الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ وَيَصُدَّكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِ وَعَنِ الصَّلٰوةِ ۚ فَهَلْ اَنْتُمْ مُّنْتَهُوْنَ 91 ) 5 ۔ المائدہ:90-91 ) تک نازل ہوئی جس میں شراب سے بچنے کا حکم صاف موجود ہے اسے سن کر فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا ہم باز آئے ۔ اسی روایت کی ایک سند میں ہے کہ جب سورۃ نساء کی یہ آیت نازل ہوئی اور نشے کے وقت نماز پڑھنے کی ممانعت ہوئی اس قوت یہ دستور تھا کہ جب نماز کھڑی ہوتی تو ایک شخص آواز لگاتا کہ کوئی نشہ والا نماز کے قریب نہ آئے ، ابن ماجہ شریف میں ہے حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں میرے بارے میں چار آیتیں نازل ہوئی ہیں ، ایک انصاری نے بہت سے لوگوں کی دعوت کی ہم سب نے خوب کھایا پیا پھر شرابیں پیں اور مخمور ہوگئے پھر آپس میں فخر جتانے لگے ایک شخص نے اونٹ کے جبڑے کی ہڈی اٹھا کر حضرت سعد کو ماری جس سے ناک پر زخم آیا اور اس کا نشان باقی رہ گیا اس وقت تک شراب کو اسلام نے حرام نہیں کیا تھا پس یہ آیت نازل ہوئی یہ حدیث صحیح مسلم شریف میں بھی پوری مروی ہے ابن ابی حاتم کی روایت میں ہے کہ عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے دعوت کی سب نے کھانا کھایا پھر شراب پی اور مست ہوگئے اتنے میں نماز کا وقت آ گیا ایک شخص کو امام بنایا اس نے نماز میں سورۃ ( آیت قل یاایھا الکافرون ) میں اس طرح پڑھا ( آیت ما اعبد ما تعبدون ونحن نعبد ما تعبدون ) اس پر یہ آیت اتری اور نشے کی حالت میں نماز کا پڑھنا منع کیا گیا ۔ یہ حدیث ترمذی میں بھی ہے اور حسن ہے ۔ ابن جریر کی روایت میں ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہا حضرت عبدالرحمن اور تیسرے ایک اور صاحب نے شراب پی اور حضرت عبدالرحمن نماز میں امام بنائے گئے اور قرآن کی قرأت خلط ملط کر دی اس پر یہ آیت اتری ۔ ابو داؤد اور نسائی میں بھی یہ روایت ہے ابن جریر کی ایک اور روایت میں ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے امامت کی اور جس طرح پڑھنا چاہیے تھانہ پڑھ سکے اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور ایک روایت میں مروی ہے کہ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے امامت کرائی اور اس طرح پڑھا ( آیت قل ایھا الکافرون اعبدما تعبدما تعبدون وانتم عابدون ما اعبدو انا عابد ما عبدتم ما عبدتم لکم دینکم ولی دین ، ) پس یہ آیت نازل ہوئی اور اس حالت میں نماز پڑھنا حرام کر دیا گیا حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتے ہیں کہ شراب کی حرمت سے پہلے لوگ نشہ کی حالت میں نماز کے لئے کھڑے ہوتے تھے پس اس آیت سے انہیں ایسا کرنے سے روک دیا گیا ( ابن جریر ) حضرت قتادہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں اس کے نازل ہونے کے بعد لوگ اس سے رک گئے پھر شراب کی مطلق حرمت نازل ہونے کے بعد لوگ اس سے بالکل تائب ہوگئے پھر شراب کی مطلق حرمت نازل ہوئی حضرت ضحاک رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں اس سے شراب کا نشہ مراد نہیں بلکہ نیند کا خمار مراد ہے ، امام ابن جریر رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ٹھیک یہی ہے کہ مراد اس سے شراب کا نشہ ہے اور یہاں خطاب ان سے کیا گیا ہے جو نشہ میں ہیں لیکن اتنے نشہ میں بھی نہیں کہ احکام شرع ان پر جاری ہی نہ ہو سکیں کیونکہ نشے کی ایسی حالت والا شخص مجنون کے حکم میں ہے ، بہت سے اصولی حضرات کا قول ہے کہ خطاب ان لوگوں سے ہے جو کلام کو سمجھ سکیں ایسے نشہ والوں کی طرف نہیں جو سمجھتے ہی نہیں کہ ان سے کیا کہا جا رہا ہے اس لئے کہ خطاب کا تکلیف کی سمجھنا شرط ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ گو الفاظ یہ ہیں کہ نشہ کی حالت میں نماز نہ پڑھو لیکن مراد یہ ہے کہ نشے کی چیز کھاؤ پیو بھی نہیں اس لئے کہ دن رات میں پانچ وقت نماز فرض ہے تو کیسے ممکن ہے کہ ایک شرابی ان پانچویں وقت نمازیں ٹھیک وقت پر ادا کر سکے حالانکہ شراب برابر پی رہا ہے واللہ اعلم پس یہ حکم بھی اسی طرح ہو گا جس طرح یہ حکم ہے کہ ایمان والو اللہ سے ڈرتے رہو جتنا اس سے ڈرنے کا حق ہے اور نہ مرنا تم مگر اس حالت میں کہ تم مسلمان ہو ۔ تو اس سے مراد یہ ہے کہ ایسی تیاری ہر وقت رکھو اور ایسے پاکیزہ اعمال ہر وقت کرتے رہو کہ جب تمہیں موت آئے تو اسلام پر دم نکلے یہ جو اس آیت میں ارشاد ہوا ہے کہ یہاں تک کہ تم معلوم کر سکو جو تم کہہ رہے ہو یہ نشہ کی حد سے یعنی نشہ کی حالت میں اس شخص کو سمجھا جائے گا نہ ہی اسے عاجزی اور خشوع خضوع حاصل ہو سکتا ہے ، مسند احمد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں جب تم میں سے اگر کوئی نماز میں اونگھنے لگے تو اسے چاہیے کہ وہ نماز چھوڑ کر سو جائے جب تک کہ وہ جاننے لگے کہ وہ کیا کہہ رہا ہے ، بخاری اور نسائی میں بھی یہ حدیث ہے اور اس کے بعض طرق میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ ممکن ہے کہ وہ اپنے لئے استغفار کرے لیکن اس کی زبان سے اس کے خلاف نکلے ۔ آداب مسجد اور مسائل تیمم پھر فرمان ہے کہ جنبی نماز کے قریب نہ جائے جب تک غسل نہ کرلے ہاں بطور گزر جانے کے مسجد میں گزرنا جائز ہے ، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ایسی ناپاکی کی حالت میں مسجد میں جانا ناجائز ہے ہاں مسجد کے ایک طرف سے نکل جانے میں کوئی حرج نہیں مسجد میں بیٹھے نہیں اور بھی بہت سے صحابہ اور تابعین کا یہی قول ہے حضرت یزید بن ابو حبیب فرماتے ہیں بعض انصار جو مسجد کے گرد رہتے تھے اور جنبی ہوتے تھے گھر میں پانی نہیں ہوتا تھا اور گھر کے دروازے مسجد سے متصل تھے انہیں اجازت مل گئی کہ مسجد سے اسی حالت میں گزر سکتے ہیں ۔ بخاری شریف کی ایک حدیث سے بھی یہ بات صاف طور پر ثابت ہوتی ہے کہ لوگوں کے گھروں کے دروازے مسجد میں تھے چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے آخری مرض الموت میں فرمایا تھا کہ مسجد میں جن جن لوگوں کے دروازے پڑتے ہیں سب کو بند کر دو حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا دروازہ رہنے دو ۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ آپ کے بعد آپ کے جانشین حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہوں گے تو انہیں ہر وقت اور بکثرت مسجد میں آنے جانے کی ضرورت رہے گی تاکہ مسلمانوں کے اہم امور کا فیصلہ کر سکیں اس لئے آپ نے سب کے دروازے بند کرنے اور صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا دروازہ کھلا رکھنے کی ہدایت فرمائی ، بعض سنن کی اس حدیث میں بجائے حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نام ہے وہ بالکل غلط ہے صحیح یہی ہے جو صحیح میں ہے اس آیت سے اکثر ائمہ نے دلیل پکڑی ہے کہ جنبی شخص کو مسجد میں ٹھہرانا حرم ہے ہاں گزر جانا جائز ہے ، اسی طرح حیض و نفاس والی عورتوں کو بھی بعض کہتے ہیں ان دونوں کے گزرنا بھی جائز نہیں ممکن ہے مسجد میں آلودگی ہو اور بعض کہتے اگر اس بات کا خوف نہ ہو انکا گزرنا بھی جائز ہے ۔ صحیح مسلم شریف کی حدیث میں ہے کہ آنحضرت نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے فرمایا کہ مسجد سے مجھے بوریا اٹھا دو تو ام المومنین نے عرض کیا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حیض سے ہوں آپ نے فرمایا تیرا حیض تیرے ہاتھ میں نہیں اس سے ثابت ہوتا ہے کہ حائضہ مسجد میں آ جا سکتی ہے اور نفاس والی کے لئے بھی یہی حکم ہے ۔ یہ دونوں بطور راستہ چلنے کے جا آ سکتی ہیں ۔ ابو داؤد میں فرمان رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے کہ میں حائض اور جنبی کے لئے مسجد کو حلال نہیں کرتا ۔ امام ابو مسلم خطابی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں اس حدیث کو ایک جماعت نے ضعیف کہا ہے کیونکہ افلت اس کا راوی مجہول ہے ۔ لیکن ابن ماجہ میں یہ روایت ہے اس میں افلت کی وجہ معدوم ذہلی ہیں ۔ پہلی حدیث بروایت حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور دوسری بروایت حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا ہے لیکن ٹھیک نام حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا ہی ہے ۔ ایک اور حدیث ترمذی میں ہے جس میں ہے کہ اے علی اس مسجد میں جنبی ہونا میرے اور تیرے سوا کسی کو حلال نہیں یہ حدیث بالکل ضعیف ہیں واللہ اعلم ۔ اس آیت کی تفسیر میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ جنبی شخص بغیر غسل کئے نماز نہیں پڑھ سکتا لیکن اگر وہ مسافر ہو اور پانی نہ ملے تو پانی کے ملنے تک پڑھ سکتا ہے ۔ ابن عباس سعید بن جبیر اور ضحاک سے بھی یہی مروی ہے ، حضرت مجاہد حسن حکم زید اور عبدالرحمن سے بھی اس کے مثل مروی ہے ، عبداللہ بن کثیر رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ہم سنا کرتے تھے کہ یہ آیت سفر کے حکم میں ہے ، اس حدیث سے بھی مسئلہ کی شہادت ہو سکتی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بہتر ہے ( سنن اور احمد ) امام ابن جریر رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ان دونوں قولوں میں اولیٰ قول ان ہی لوگوں کا ہے جو کہتے ہیں اس سے مراد صرف گزر جانا ہے کیونکہ جس مسافر کو جنب کی حالت میں پانی نہ ملے اس کا حکم تو آگے صاف بیان ہوا ہے پس اگر یہی مطلب یہاں بھی لیا جائے تو پھر دوسرے جملہ میں اسے لوٹانے کی ضرورت باقی نہیں رہتی پس معنی آیت کے اب یہ ہوئے کہ ایمان والو نماز کے لئے مسجد میں نہ جاؤ جب کہ تم نشے میں ہو جب تک تم اپنی بات کو آپ نہ سمجھنے لگو اسی طرح جنب کی حالت میں بھی مسجد میں نہ جاؤ جب تک نہا نہ لو ہاں صرف گزر جانا جائز ہے عابر کے معنی آنے جانے یعنی گزر جانے والے ہیں اس کا مصدر عبراً اور عبورًا آتا ہے جب کوئی نہر سے گزرے تو عرب کہتے ہیں عبرفلان النھر فلاں شخص نے نہر سے عبور کر لیا اسی طرح قوی اونٹنی کو جو سفر کاٹتی ہو عبرالاسفار کہتے ہیں ۔ امام ابن جیریر جس قول کی تائید کرتے ہیں یہی قول جمہور کا ہے اور آیت سے ظاہر بھی یہی ہے یعنی اللہ تعالیٰ اس ناقص حالت نماز سے منع فرما رہا ہے جو مقصود نماز کے خلاف ہے اسی طرح نماز کی جگہ میں بھی ایسی حالت میں آنے کو روکتا ہے جو اس جگہ کی عظمت اور پاکیزگی کے خلاف ہے واللہ اعلم ۔ پھر جو فرمایا کہ یہاں تک کہ تم غسل کر لو امام ابو حنیفہ ، امام مالک اور شافعی اسی دلیل کی روشنی میں کہتے ہیں کہ جنبی کو مسجد میں ٹھہرنا حرام ہے جب تک غسل نہ کر لے یا اگر پانی نہ ملے یا پانی ہو لیکن اس کے استعمال کی قدرت نہ ہو تو تیمم کر لے ۔ حضرت امام احمدرحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں جب جنبی نے وضو کر لیا تو اسے مسجد میں ٹھہرنا جائز ہے چنانچہ مسند احمد اور سنن سعید بن منصور میں مروی ہے ۔ حضرت عطا بن یسار رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کو دیکھا کہ وہ جنبی ہوتے اور وضو کر کے مسجد میں بیٹھے رہتے واللہ اعلم ۔ پھر تیمم کی اجازت کا فتویٰ دیا ہے کیونکہ آیت میں عموم ہے حضرت مجاہد رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ایک انصاری بیمار تھے نہ تو کھڑے ہو کر وضو کر سکتے تھے نہ ان کا کوئی خادم تھا جو انہیں پانی دے انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس کا ذکر کیا اس پر یہ حکم اترا یہ روایت مرسل ہے ، دوسری حالت میں تیمم کے جواز کی وجہ سفر ہے خواہ لمبا سفر اور خواہ چھوٹا ۔ غائط نرم زمین کو یہاں سے کنایہ کیا گیا ہے پاخانہ پیشاب سے لا مستم کی دوسری قرأت لمستم ہے اس کی تفسیر میں دو قول ہیں ایک یہ کہ مراد جماع ہے جیسے اور آیت میں ہے ( ثُمَّ طَلَّقْتُمُوْهُنَّ مِنْ قَبْلِ اَنْ تَمَسُّوْهُنَّ فَمَا لَكُمْ عَلَيْهِنَّ مِنْ عِدَّةٍ تَعْتَدُّوْنَهَا ۚ فَمَتِّعُوْهُنَّ وَسَرِّحُوْهُنَّ سَرَاحًا جَمِيْلًا ) 33 ۔ الاحزاب:49 ) یعنی اگر تم اپنی بیویوں کو ایمان والی عورتوں سے نکاح کرو پھر مجامعت سے پہلے انہیں طلاق دے دو تو ان کے ذمہ عدت نہیں ، یہاں بھی لفظ ( آیت من قبل ان تمسوھن ) ہے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ اولا مستم النساء سے مراد مجامعت ہے ۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہا حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت مجاہد رضی اللہ تعالیٰ عنہا حضرت طاؤس رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت عبید بن عمیر حضرت سعید بن جبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت شعبی رحمتہ اللہ علیہ حضرت قتادہ رحمتہ اللہ علیہ حضرت مقاتل رحمتہ اللہ علیہ بن حیان سے بھی یہی مروی ہے ۔ سعید بن جبیر رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ایک مرتبہ اس لفظ پر مذاکرہ ہوا تو چند موالی نے کہا یہ جماع نہیں اور چند عرب نے کہا جماع ہے ، میں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اس کا ذکر کیا آپ نے پوچھا تم کن کے ساتھ تھے میں نے کہا موالی کے فرمایا موالی مغلوب ہوگئے لمس اور مس اور مباشرت کا معنی جماع ہے ، اللہ تعالیٰ نے یہاں کنایہ کیا ہے ، بعض اور حضرات نے اس سے مراد مطلق چھونا لیا ہے ۔ خواہ جسم کے کسی حصہ کو عورت کے کسی حصہ سے ملایا جائے تو وضو کرنا پڑے گا ۔ لمس سے مراد چھونا ہے ۔ اور اس سے بھی وضو کرنا پڑے گا ۔ فرماتے ہیں مباشرت سے ہاتھ لگانے سے بوسہ لینے سے وضو کرنا پڑے گا ۔ لمس سے مراد چھونا ہے ، ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی عورت کا بوسہ لینے سے وضو کرنے کے قائل تھے اور اسے لمس میں داخل جانتے تھے عبیدہ ، ابو عثمان ثابت ابراہیم زید بھی کہتے ہیں کہ لمس سے مراد جماع کے علاوہ ہے حضرت عبداللہ بن عمر فرماتے ہیں کہ انسان کا اپنی بیوی کا بوسہ لینا اور اسے ہاتھ لگانا ملامست ہے اس سے وضو کرنا پڑے گا ( موطامالک ) دار قطنی میں خود عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی اسی طرح مروی ہے لیکن دوسری روایت آپ سے اس کے خلاف بھی پائی جاتی ہے آپ باوضو تھے آپ نے اپنی بیوی کا بوسہ لیا پھر وضو نہ کیا اور نماز ادا کی ۔ پس دونوں روایتوں کو صحیح ماننے کے بعد یہ فیصلہ کرنا پڑے گا کہ آپ وضو کو مستحب جانتے تھے واللہ اعلم ۔ مطلق چھونے سے وضو کے قائل امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ اور ان کے ساتھی امام مالک رحمتہ اللہ علیہ ہیں اور مشہور امام احمد بن حنبل سے بھی یہی روایت ہے ۔ اس قول کے قائل کہتے ہیں کہ یہاں دو قرأت یں ہیں لا مستم اور لمستم اور لمس کا اطلاق ہاتھ لگانے پر بھی قرآن کریم میں آیا ہے چنانچہ ارشاد ہے ( وَلَوْ نَزَّلْنَا عَلَيْكَ كِتٰبًا فِيْ قِرْطَاسٍ فَلَمَسُوْهُ بِاَيْدِيْهِمْ لَقَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اِنْ هٰذَآ اِلَّا سِحْـرٌ مُّبِيْنٌ ) 6 ۔ الانعام:7 ) ظاہر ہے کہ یہاں ہاتھ لگانا ہی مراد ہے اسی طرح حضرت ماعز بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو رسول اللہ کا یہ فرمانا کہ شاید تم نے بوسہ لیا ہو گا ہاتھ لگایا ہو گا وہاں بھی لفظ لمست ہے ۔ اور صرف ہاتھ لگانے کے معنی میں ہی اور حدیث میں ہے ( حدیث والیدز ناھا اللمس ہاتھ کا زنا چھونا اور ہاتھ لگانا ہے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتی ہیں بہت کم دن ایسے گزرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے پاس آ کر بوسہ نہ لیتے ہوں یا ہاتھ نہ لگاتے ہوں ۔ بخاری ومسلم کی حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیع ملامست سے منع فرمایا یہ بھی ہاتھ لگانے کے بیع ہے پس یہ لفظ جس طرح جماع پر بولا جاتا ہے ہاتھ سے چھونے پر بھی بولا جاتا ہے شاعر کہتا ہے ولمست کفی کفہ اطلب الغنی میرا ہاتھ اس کے ہاتھ سے ملا میں تونگری چاہتا تھا ۔ ایک اور روایت میں ہے کہ ایک شخص سرکار محمد میں حاضر ہو کر عرض کرتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس شخص کے بارے میں کیا فیصلہ ہے جو ایک جنبیہ عورت کے ساتھ تمام وہ کام کرتا ہے جو میاں بیوی میں ہوتے ہیں سوائے جماع کے تو ( وَاَقِمِ الصَّلٰوةَ طَرَفَيِ النَّهَارِ وَزُلَفًا مِّنَ الَّيْلِ ) 11 ۔ ہود:114 ) نازل ہوتی ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں وضو کر کے نماز ادا کر لے اس پر حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پوچھتے ہیں کیا یہ اسی کے لئے خاص ہے یا سب مسلمانوں کے لئے کام ہے آپ جواب دیتے ہیں تمام ایمان والوں کے لئے ہے ، امام ترمذی رحمتہ اللہ علیہ اسے زائدہ کی حدیث سے یہ کہتے ہیں کہ اسے وضو کا حکم اسی لئے دیا کہ اس نے عورت کو چھوا تھا جماع نہیں کیا تھا ۔ اس کا جواب یہ دیا جاتا ہے کہ اولاً تو یہ منقطع ہے ابن ابی لیلی اور معاذ کے درمیان ملاقات کا ثبوت نہیں دوسرے یہ کہ ہو سکتا ہے اسے وضو کا حکم فرض نماز کی ادائیگی کے لئے دیا ہو جیسے کہ حضرت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہا والی حدیث ہے کہ جو بندہ کوئی گناہ کرے پھر وضو کر کے دو رکعت نماز ادا کرے تو اللہ تعالیٰ اس کے گناہ معاف فرما دیتا ہے یہ پوری حدیث سورۃ آل عمران میں ( ذَكَرُوا اللّٰهَ فَاسْتَغْفَرُوْا لِذُنُوْبِھِمْ ۠ وَ مَنْ يَّغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّا اللّٰهُ ) 3 ۔ آل عمران:135 ) کی تفسیر میں گزر چکی ہے ، امام ابن جریر رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ان دونوں قولوں میں سے اولیٰ قول ان کا ہے جو کہتے ہیں کہ مراد اس سے جماع نہ کہ اور ۔ کیونکہ صحیح مرفوع حدیث میں آ چکا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی کسی بیوی صاحبہ کا بوسہ لیا اور بغیر وضو کئے نماز پڑھی ، حضرت مائی عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں آنحضرت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وضو کرتے بوسہ لیتے پھر بغیر وضو کیے نماز پڑھتے ۔ حضرت حبیب رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں مائی عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی کسی بیوی کا بوسہ لیتے نماز کو جاتے میں نے کہا وہ آپ ہی ہوں گی تو آپ مسکرا دیں ، اس کی سند میں کلام ہے لیکن دوسری سندوں سے بغیر وضو کیے ثابت ہے کہ اوپر کے راوی یعنی حضرت صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے سننے والے حضرت عروہ بن زبیر رحمتہ اللہ علیہ ہیں اور روایت میں ہے کہ وضو کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرا بوسہ لیا اور پھر وضو کیے بغیر نماز ادا کی ، حضرت ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بوسہ لیتے حالانکہ آپ روزے سے ہوتے پھر نہ تو روزہ جاتا نہ نیا وضو کرتے ( ابن جریر ) حضرت زینت بنت خزیمہ فرماتی ہیں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بوسہ لینے کے بعد وضو نہ کرتے اور نماز پڑھتے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں اگر پانی نہ پاؤ تو پاک مٹی سے تیمم کر لو ، اس سے اکثر فقہا نے استدلال کیا ہے کہ پانی نہ پانے والے کے لئے تیمم کی اجازت پانی کی تلاش کے بعد ہے ۔ کتب فروع میں تلاش کی کیفیت بھی لکھی ہے بخاری و مسلم میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک شخص کو دیکھا کہ الگ تھلگ ہے اور لوگوں کے ساتھ اس نے نماز جماعت کے ساتھ نہیں پڑھی تو آپ نے اس سے پوچھا تو نے لوگوں کے ساتھ نماز کیوں نہ پڑھی؟ کیا تو مسلمان نہیں؟ اس نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہوں تو مسلمان لیکن جنبی ہو گیا اور پانی نہ ملا آپ نے فرمایا پھر اس صورت میں تجھے مٹی کافی تھی ۔ تیمم کے لفظی معنی قصد کرنے کے ہیں ۔ عرب کہتے ہیں تیممک اللہ بحفظہ یعنی اللہ اپنی حفاظت کے ساتھ تیرا قصد کرے ، امراء القیس کے شعر میں بھی یہ لفظ اسی معنی میں آیا ہے ، صعید کے معنی میں کہا گیا ہے کہ ہر وہ چیز جو زمین میں سے اوپر کو چڑھے پس اس میں مٹی ریت درخت پتھر گھاس بھی داخل ہو جائیں گے ۔ امام مالک رحمتہ اللہ علیہ کا قول یہی ہے اور کہا گیا ہے کہ جو چیز مٹی کی جنس سے ہو جیسے ریت ہڑتال اور چونا یہ مذہب ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ کا ہے اور یہ بھی کہا گیا کہ صرف مٹی ہے مگر یہ قول ہے حضرت امام شافعی اور امام احمد بن حنبل اور ان کے تمام ساتھیوں کا ہے اس کی دلیل ایک تو قرآن کریم کے یہ الفاظ ہیں ( فَتُصْبِحَ صَعِيْدًا زَلَقًا ) 18 ۔ الکہف:40 ) یعنی ہو جائے وہ مٹی پھسلتی دوسری دلیل صحیح مسلم شریف کی یہ حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہمیں تمام لوگوں پر تین فضیلتیں دی گئی ہیں ہماری صفیں مثل فرشتوں کی صفوں کے ترتیب دی گئیں ہمارے لئے تمام زمین مسجد بنائی گئی اور زمین کی مٹی ہمارے لئے پاک اور پاک کرنے والی بنائی گئی جبکہ ہم پانی نہ پائیں اور ایک سند سے بجائے تربت کے ترابت کا لفظ مروی ہے ۔ پس اس حدیث میں احسان کے جتاتے وقت مٹی کی تخصیص کی گئی ، اگر کوئی اور چیز بھی وضو کے قائم مقام کام آنے والی ہوتی تو اس کا ذکر بھی ساتھ ہی کر دیتے ۔ یہاں یہ لفظ طیب اسی کے معنی میں آیا ہے ۔ مراد حلال ہے اور کہا گیا ہے کہ مراد پاک ہے جیسے حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں پاک مٹی مسلمانوں کا وضو ہے گو دس سال تک پانی نہ پائے پھر جب پانی ملے تو اسے اپنے جسم سے بہائے یہ اس کے لئے بہتر ہے ، امام ترمذی رحمتہ اللہ علیہ اسے حسن صحیح کہتے ہیں حافظ ابو الحسن قطان رحمتہ اللہ علیہ بھی اسے صحیح کہتے ہیں ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتے ہیں سب سے زیادہ پاک مٹی کھیت کی زمین کی مٹی ہے بلکہ تفسیر ابن مردویہ میں تو اسے مرفوعاً وارد کیا ہے پھر فرمان ہے کہ اسے اپنے چہرے پر اور ہاتھ پر ملنا کافی ہے اور اس پر اجماع ہے ، لیکن کیفیت تیمم میں ائمہ کا اختلاف ہے ۔ جدید مذہب شافعی یہ ہے کہ دو دفعہ کر کے منہ اور دونوں ہاتھوں کا کہنیوں تک مسح کرنا واجب ہے اس لئے کہ یدین کا اطلاق بغلوں تک اور کہنیوں تک ہوتا ہے جیسے آیت وضو میں اور اسی لفظ کا اطلاق ہوتا ہے اور مراد صرف ہتھیلیاں ہی ہوتی ہیں جیسے کہ چور کی حد کے بارے میں فرمایا ( وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوْٓا اَيْدِيَهُمَا جَزَاۗءًۢ بِمَا كَسَـبَا نَكَالًا مِّنَ اللّٰهِ ۭ وَاللّٰهُ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ ) 5 ۔ المائدہ:38 ) کہتے ہیں یہاں تیمم کے حکم میں ہاتھ کا ذکر مطلق ہے اور وضو کے حکم سے مشروط ہے اس لئے اس مطلق کو اس مشروط پر محمول کیا جائے گا کیونکہ طہوریت جامع موجود ہے اور بعض لوگ اس کی دلیل میں دار قطنی والی روایت پیش کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تیمم کی دو ضربیں ہیں ایک مرتبہ ہاتھ مار کر منہ پر ملنا اور ایک مرتبہ ہاتھ مار کر دونوں کہنیوں تک ملنا ، لیکن یہ حدیث صحیح نہیں اس لئے کہ اس کی اسناد میں ضعف ہے حدیث ثابت نہیں ۔ ابو داؤد کی ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ہاتھ ایک دیوار پر مارے اور منہ پر ملے پھر دوبارہ ہاتھ مار کر اپنی دونوں بازوؤں پر ملے ۔ لیکن اس کی اسناد میں محمد بن ثابت عبدی ضعیف ہیں انہیں بعض حافظان حدیث نے ضعیف کہا ہے ، اور یہی حدیث بعض ثقہ راویوں نے بھی روایت کی ہے لیکن وہ مرفوع نہیں کرتے بلکہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فعل بتاتے ہیں امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ کی دلیل یہ حدیث بھی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پیشاب کر رہے ہیں میں نے آپ کو سلام کیا لیکن آپ نے جواب نہ دیا فارغ ہو کر آپ ایک دیوار کے پاس گئے اور اپنے دونوں ہاتھ اس پر مار کر منہ پر ملے پھر میرے سلام کا جواب دیا ( ابن جریر ) یہ تو تھا امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ کا جدید مذہب ۔ آپ کا خیال یہ ہے کہ ضربیں تو تیمم میں دو ہیں لیکن دوسری ضرب میں ہاتھوں کو پہنچوں تک ملنا چاہیے ، تیسرا قول یہ ہے کہ صرف ایک ہی ضرب یعنی ایک ہی مرتبہ دونوں ہاتھوں کا مٹی پر مار لینا کافی ان گرد آلود ہاتھوں کو منہ پر پھیر لے اور دونوں پر پہنچے تک مسند احمد میں ہے کہ ایک شخص امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس آیا کہ میں جنبی ہو گیا اور مجھے پانی نہ ملا تو مجھے کیا کرنا چاہیے آپ نے فرمایا نماز نہ پڑھنی چاہیے دربار میں حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہا بھی موجود تھے فرمانے لگے امیر المومنین کیا آپ کو یاد نہیں کہ میں اور آپ ایک لشکر میں تھے اور ہم جنبی ہوگئے تھے اور ہمیں پانی نہ ملا تو آپ نے تو نماز نہ پڑھی اور میں نے مٹی میں لوٹ پوٹ کر نماز ادا کر لی جب میں واپس پلٹے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں پہنچے تو میں نے اس واقعہ کا بیان حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کیا تو آپ نے فرمایا مجھے اتنا کافی تھا پھر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ہاتھ زمین پر مارے اور ان میں پھونک ماردی اور اپنے منہ کو ملا اور ہتھیلیوں کو ملا ۔ مسند احمد میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تیمم میں ایک ہی مرتبہ ہاتھ مارنا جو چہرے کے لئے دونوں ہاتھوں کی ہتھیلیوں کے لئے ہے ، مسند احمد میں ہے حضرت شقیق رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور حضرت ابو موسی رض اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس بیٹھا ہوا تھا حضرت ابو لیلیٰ رحمتہ اللہ علیہ نے حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا کہ اگر کوئی شخص پانی نہ پائے تو نماز نہ پڑھے اس پر حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کیا تمہیں یاد نہیں جبکہ مجھے اور آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اونٹوں کے بارے میں بھیجا تھا وہاں میں جنبی ہو گیا اور مٹی میں لوٹ پوٹ لیا واپس آ کر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ واقعہ بیان کیا تو آپ ہنس دئیے اور فرمایا اپنے چہرے پر ایک بار ہاتھ پھیر لئے اور ضرب ایک ہی رہی ، تو حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس پر قناعت نہیں کی یہ سن کر حضرت ابو موسی نے فرمایا پھر تم اس آیت کا کیا کرو گے جو سورہ نساء میں ہے کہ پانی نہ پاؤ تو پاک مٹی کا قصد کرو اس کا جواب حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نہ دے سکے اور فرمانے لگے سنو ہم نے لوگوں کو تیمم کی رخصت دیدی تو بہت ممکن ہے کہ پانی جب انہیں ٹھنڈا معلوم ہوگا تو وہ تیمم کرنے لگیں گے سورۃ مائدہ میں فرمان ہے ( فَامْسَحُوْا بِوُجُوْهِكُمْ وَاَيْدِيْكُمْ مِّنْهُ ) 5 ۔ المائدہ:6 ) اسے اپنے چہرے اور ہاتھ پر ملو ۔ اس سے حضرت امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ نے دلیل پکڑی ہے کہ تیمم کا پاک مٹی سے ہونا اور اس کا بھی غبار آلود ہونا جس سے ہاتھوں پر غبار لگے اور وہ منہ اور ہاتھ پر ملا جائے ضروری ہے جیسے کہ حضرت ابو جہم رض اللہ تعالیٰ عنہا والی حدیث میں گزرا ہے ۔ کہ انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو استنجا کرتے ہوئے دیکھا اور سلام کیا اس میں یہ بھی ہے کہ فارغ ہو کر ایک دیوار کے پاس گئے اور اپنی لکڑی سے کھرچ کر پھر ہاتھ مار کر تیمم کیا ۔ پھر فرمان ہے کہ اللہ تعالیٰ تم پر تمہارے دین میں تنگی اور سختی کرنا نہیں چاہتا بلکہ وہ تمہیں پاک صاف کرنا چاہتا ہے اسی لئے پانی نہ پانے کے وقت مٹی کے ساتھ تیمم کر لینے کو مباح قرار دے کر تم پر اپنی نعمت کا اتمام فرمایا تاکہ تم شکر کرو ۔ پس یہ امت اس نعمت کے ساتھ مخصوص ہے جیسے کہ بخاری و مسلم میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں مجھے پانچ چیزیں ایسی دی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی کو نہیں دی گئیں ، مہینے بھر کی راہ تک میری مدد رعب سے کی گئی ہے ، میرے لئے ساری زمین مسجد اور پاک کرنے والی بنائی گئی ہے میرے جس امتی کو جہاں نماز کا وقت آ جائے وہ وہیں پڑھ لے اس کی مسجد اور اس کا وضو وہیں اس کے پاس موجود ہے ، میرے لئے غنیمت کے مال حلال کیے گئے جو مجھ سے پہلے کسی کے لئے حلال نہ تھے ، مجھے شفاعت دی گئی تمام انبیاء صرف اپنی قوم کی طرف بھیجے جاتے رہے لیکن میں تمام دنیا کی طرف بھیجا گیا اور صحیح مسلم کے حوالے سے وہ حدیث بھی پہلے گزر چکی ہے کہ تمام لوگوں پر ہمیں تین فضیلتیں عنایت کی گئی ہماری صفیں فرشتوں کی صفوں کی طرح بنائی گئیں ہمارے لئے زمین مسجد بنائی گئی اور اپنے ہاتھ پر مسح کر ۔ پانی نہ ملنے کے وقت اللہ معاف کرنے والا اور بخشنے والا ہے اس کی عفو و در گزر شان ہے کہ اس نے تمہارے لئے پانی نہ ملنے کے وقت تیمم کو مشروع کر کے نماز ادا کرنے کی اجازت مرحمت فرمائی اگر یہ رخصت نہ ہوتی تو تم ایک گونہ مشکل میں پڑ جاتے کیونکہ اس آیت کریمہ میں نماز کوناقص حالت میں ادا کرنا منع کیا گیا ہے مثلاً نشے کی حالات میں ہو یا جنابت کی حالت میں ہو یا بےوضو ہو تو جب تک اپنی باتیں خود سمجھنے جتنا ہوش اور باقاعدہ غسل اور شرعی طریق پر وضو نہ ہو نماز نہیں پڑھ سکتے لیکن بیماری کی حالت میں اور پانی نہ ملنے کی صورت میں غسل اور وضو کے قائم مقام تیمم کر دیا ، پس اللہ تعالیٰ اس احسان پر ہم اس کے شکر گزار ہیں الحمدا للہ ۔ تیمم کی رخصت نازل ہونے کا واقعہ بھی سن لیجئے ہم اس واقعہ کو سورۃ نساء کی اس آیت کی تفسیر میں اسی لئے بیان کرتے ہیں کہ سورۃ مائدہ میں جو تیمم کی آیت ہے وہ نازل ہوئی یہ اس کے بعد کی ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ یہ واضح ہے کہ یہ آیت شراب کی حرمت سے پہلے نازل ہوئی تھی اور شراب جنگ احد کے کچھ عرصہ کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بنو نصیر کے یہودیوں کا محاصرہ کئے ہوئے تھے حرام ہوئی اور سورۃ مائدہ قرآن میں نازل ہونے والی آخری سورتوں میں سے ہے بالخصوص اس سورت کا ابتدائی حصہ لہذا مناسب یہی ہے کہ تیمم کا شان نزول یہیں بیان کیا جائے ۔ اللہ نیک توفیق دے اسی کا بھروسہ ہے ۔ مسند احمد میں ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے ایک ہار مل گیا لیکن نماز کا وقت اس کی تلاش میں فوت ہو گیا اور ان کے ساتھ پانی نہ تھا ۔ انہوں نے بےوضو نماز ادا کی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس پہنچ کر اس کی شکایت کی اس پر تیمم کا حکم نازل ہوا ، حضرت اسید بن حضیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہنے لگے اے ام المومنین عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا آپ کو جزائے خیر دے اللہ کی قسم جو تکلیف آپ کو پہنچتی ہے اس کا انجام ہم مسلمانوں کے لئے خیر ہی خیر ہوتا ہے ۔ بخاری میں ہے حضرت صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں ہم اپنے کسی سفر میں تھے بیداء میں یا ذات الجیش میں میرا ہار ٹوٹ کر کہیں گر پڑا جس کے ڈھونڈنے کے لئے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مع قافلہ ٹھہر گئے اب نہ تو ہمارے پاس پانی تھا نہ وہاں میدان میں کہیں پانی تھا لوگ میرے والد حضرت ابو بکر صدیق صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس میری شکایتیں کرنے لگے کہ دیکھو ہم ان کی وجہ سے کیسی مصیبت میں پڑ گئے چنانچہ میرے والد صاحب میرے پاس آئے اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میری ران پر اپنا سر مبارک رکھ کر سو گئے تھے آتے ہی مجھے کہنے لگے تو نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اور لوگوں کو روک دیا اب نہ تو ان کے پاس پانی ہے نہ یہاں اور کہیں پانی نظر آتا ہے الغرض مجھے خوب ڈانٹا ڈپٹا اور اللہ جانے کیا کیا کہا اور میرے پہلو میں اپنے ہاتھ سے کچو کے بھی مارتے رہے لیکن میں نے ذرا سی بھی جنبش نہ کی کہ ایسا نہ ہو کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آرام میں خلل واقع ہو ساری رات گزر گئی صبح کو لوگ جاگے لیکن پانی نہ تھا اللہ نے تیمم کی آیت نازل فرمائی اور سب نے تیمم کیا حضرت اسید بن حضیر رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہنے لگے اے ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے گھرانے والو یہ کچھ تمہاری پہلی ہی برکت نہیں ، اب جب ہم نے اس اونٹ کو اٹھایا جس پر یہ سوار تھی تو اس کے نیچے سے ہی ہار مل گیا ۔ مسند احمد میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی اہلیہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ہمراہ ذات الجیش سے گزرے ۔ ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا یمنی خر مہروں کا ہار ٹوٹ کر کہیں گر پڑا تھا اور گم ہو گیا تھا اس کی تلاش میں یہاں ٹھہر گئے ساری رات آپ کے ہم سفر مسلمانوں نے اور آپ نے یہیں گزاری صبح اٹھے تو پانی بالکل نہی تھا پس اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی پر پاک مٹی سے تیمم کرکے پاکی حاصل کرنے کی رخصت کی آیت اتاریاور مسلمانوں نے حضور کے ساتھ کھڑے ہوکر زمین پر اپنے ہاتھ مارے اور جو مٹی ان سے لت پت ہوئی اسے جھاڑے بغیر اپنے چہرے پر اور اپنے ہاتھوں پر مونڈھوں تک اور ہاتھوں کے نیچے سے بغل تک مل لی ۔ ابن جریر کی روایت میں ہے کہ اس سے پہلے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا پر سخت غصہ ہو کر گئے تھے لیکن تیمم کی رخصت کے حکم کو سن کر خوشی خوشی اپنی صاحبزادی صاحبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس آئے اور کہنے لگے تم بڑی مبارک ہو مسلمانوں کو اتنی بڑی رخصت ملی پھر مسلمانوں نے زمین پر ایک ضرب سے چہرے ملے اور دوسری ضرب سے کہنیوں اور بغلوں تک ہاتھ لے گئے ابن مردویہ میں روایت ہے حضرت اسلع بن شریک رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتے ہیں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اونٹنی کو چلا رہا تھا ۔ جس پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سوار تھے جاڑوں کا موسم تھا رات کا وقت تھا سخت سردی پڑ رہی تھی اور میں جنبی ہو گیا ادھر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کوچ کا ارادہ کیا تو میں نے اپنی اس حالت میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اونٹنی کو چلانا پسند نہ کیا ساتھ ہی یہ بھی خیال آیا کہ اگر سرد پانی سے نہاؤں گا تو مرجاؤں گا یا بیمار پڑ جاؤں گا تو میں نے چپکے سے ایک انصاری کو کہا کہ آپ اونٹنی کی نکیل تھام لیجئے چنانچہ وہ چلاتے رہے اور میں نے آگ سلگا کر پانی گرم کر کے غسل کیا پھر دوڑ بھاگ کر قافلہ میں پہنچ گیا آپ نے مجھے فرمایا اسلع کیا بات ہے؟ اونٹنی کی چال کیسے بگڑی ہوئی ہے؟ میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اسے نہیں چلا رہا تھا بلکہ فلاں انصاری صاحب چلا رہے تھے آپ نے فرمایا یہ کیوں؟ تو میں نے سارا واقعہ کہہ سنایا اس پر اللہ عزوجل نے ( يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقْرَبُوا الصَّلٰوةَ وَاَنْتُمْ سُكٰرٰى حَتّٰى تَعْلَمُوْا مَا تَقُوْلُوْنَ وَلَا جُنُبًا اِلَّا عَابِرِيْ سَبِيْلٍ حَتّٰى تَغْتَسِلُوْا ۭ وَاِنْ كُنْتُمْ مَّرْضٰٓى اَوْ عَلٰي سَفَرٍ اَوْ جَاۗءَ اَحَدٌ مِّنْكُمْ مِّنَ الْغَاۗىِٕطِ اَوْ لٰمَسْتُمُ النِّسَاۗءَ فَلَمْ تَجِدُوْا مَاۗءً فَتَيَمَّمُوْا صَعِيْدًا طَيِّبًا فَامْسَحُوْا بِوُجُوْهِكُمْ وَاَيْدِيْكُمْ ۭ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَفُوًّا غَفُوْرًا ) 4 ۔ النسآء:43 ) تک نازل فرمائی یہ روایت دوسری سند سے بھی مروی ہے ۔
43۔ 1 یہ حکم اس وقت دیا گیا کہ ابھی شراب کی حرمت نازل نہیں ہوئی تھی۔ چناچہ ایک دعوت میں شراب نوشی کے بعد جب نماز لئے کھڑے ہوئے تو نشے میں قرآن کے الفاظ بھی امام صاحب غلط پڑھ گئے (تفصیل کے لئے دیکھئے ترمذی، تفسیر سورة النساء) جس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ نشے کی حالت میں نماز مت پڑھا کرو۔ گویا اسوقت صرف نماز کے وقت کے قریب شراب نوشی سے منع کیا گیا۔ بالکل ممانعت اور حرمت کا حکم اس کے بعد نازل ہوا۔ (یہ شراب کی بابت دوسرا حکم ہے جو مشروطہ ہے) 43۔ 2 یعنی ناپاکی کی حالت میں بھی نماز مت پڑھو۔ کیونکہ نماز کے لئے طہارت بہت ضروری ہے۔ 43۔ 3 اس کا مطلب یہ نہیں کہ مسافری کی حالت میں اگر پانی نہ ملے تو جنابت کی حالت میں ہی نماز پڑھ لو (جیسا کہ بعض نے کہا ہے) بلکہ جمہور علماء کے نزدیک اس کا مفہوم یہ ہے کہ جنابت کی حالت میں تم مسجد کے اندر مت بیٹھو، البتہ مسجد کے اندر سے گزرنے کی ضرورت پڑے تو گزر سکتے ہو بعض صحابہ کے مکان اس طرح تھے کہ انہیں ہر صورت میں مسجد نبوی کے اندر سے گزر کر جانا پڑتا تھا۔ یہ رخصت ان ہی کے پیش نظر دی گئی ہے (ابن کثیر) ورنہ مسافر کا حکم آگے آرہا ہے۔ 43۔ 4 (1) بیمار سے مراد وہ بیمار جسے وضو کرنے سے نقصان یا بیماری میں اضافے کا اندیشہ ہو، (2) مسافر عام ہے لمبا سفر کیا ہو یا مختصر۔ اگر پانی دستیاب نہ ہو تو تیمم کرنے کی اجازت ہے۔ پانی نہ ملنے کی صورت میں یہ اجازت مقیم کو بھی حاصل ہے۔ لیکن بیمار اور مسافر کو چونکہ اس قسم کی ضرورت عام طرر پر پیش آتی تھی اس لیے بطور خاص ان کے لیے اجازت بیان کردی گئی ہے (3) قضائے حاجت سے آنے والا (4) اور بیوی سے مباشرت کرنے والا ان کو بھی پانی نہ ملنے کی صورت میں تیمم کرکے نماز پڑھنے کی اجازت ہے تیمم کا طریقہ یہ ہے کہ ایک ہی مرتبہ ہاتھ زمین پر مار کر کلائی تک دونوں ہاتھ ایک دوسرے پر پھیرلے۔ (کہنیوں تک ضروری نہیں) اور منہ پر بھی پھیر لے قال فی التیمم : (ضربۃ للوجہ والکفین) (مسند احمد۔ عمار (رض) جلد 4 حفحہ 263) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تیمم کے بارے میں فرمایا کہ یہ دونوں ہتھیلیوں اور چہرے کے لیے ایک ہی مرتبہ مارنا ہے (صعیدا طیبا) سے مراد پاک مٹی ہے۔ زمین سے نکلنے والی ہر چیز نہیں جیسا کہ بعض کا خیال ہے حدیث میں اس کی مذید وضاحت کردی گئی ہے (جعلت ترب تھا لنا طھورا اذا لم نجد الماء) (صحیح مسلم۔ کتاب المساجد) جب ہمیں پانی نہ ملے تو زمین کی مٹی ہمارے لیے پاکیزگی کا ذریعہ بنادی گئی ہے۔
[٧٥] حرمت شراب کے احکام میں تدریج :۔ یہ آیت حرمت شراب کے تدریجی احکام کی دوسری کڑی ہے۔ اس سلسلہ میں پہلی آیت جو نازل ہوئی وہ سورة بقرہ کی آیت نمبر ٢١٩ ہے جس میں فقط یہ بتایا گیا کہ شراب اور جوئے میں گو کچھ فائدے بھی ہیں تاہم ان کے نقصانات ان کے فوائد سے زیادہ ہیں۔ چند محتاط صحابہ کرام نے اسی وقت سے شراب چھوڑ دی تھی۔ پھر اس کے بعد یہ آیت نازل ہوئی۔ جس کے شان نزول کے متعلق درج ذیل حدیث ملاحظہ فرمائیے :- سیدنا علی (رض) بن ابی طالب سے روایت ہے کہ عبدالرحمن (رض) بن عوف نے ہمارے لیے کھانا بنایا، دعوت دی اور ہمیں شراب پلائی۔ شراب نے ہمیں مدہوش کردیا، اتنے میں نماز کا وقت آگیا۔ انہوں نے مجھے امام بنایا۔ میں نے پڑھا ( قُلْ یَایُّھَا الْکٰفِرُوْنَ لاَ اَعْبُدُ مَا تَعْبُدُوْنَ وَنَحْنُ نَعْبُدُ مَا تَعْبُدُوْن) تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ (ترمذی۔ ابو اب التفسیر)- پھر اس کے بعد سورة مائدہ کی آیت نمبر ٩٠ تا ٩١ کی رو سے شراب کو ہمیشہ کے لیے حرام قرار دے دیا گیا۔ اس میں لفظ خمر (شراب) کے بجائے سکر (نشہ) کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ جس سے از خود یہ معلوم ہوگیا کہ شراب کی طرح ہر نشہ آور چیز حرام ہوتی ہے جیسا کہ احادیث میں اس کی تصریح بھی موجود ہے۔ دوسرے یہ معلوم ہوا کہ چونکہ نشہ کی حالت بھی نیند کی غشی کی طرح ایک طرح کی غشی ہی ہوتی ہے لہذا انسان کو یہ معلوم رہنا مشکل ہے کہ آیا اس کا وضو بھی بحال ہے یا ٹوٹ چکا ہے۔ غالباً اسی نسبت سے اس آیت میں آگے طہارت کے احکام بیان ہو رہے ہیں۔- [٧٦] تیمم اور غسل جنابت :۔ نماز کے لیے طہارت فرض ہے لہذا عام حالت میں تو وضو کرنے سے یہ طہارت حاصل ہوجاتی ہے لیکن جنبی آدمی کے لیے نماز سے پہلے غسل فرض ہے۔ خواہ یہ جنابت احتلام کی وجہ سے ہو یا صحبت کی وجہ سے۔ اس آیت میں بتایا یہ جا رہا ہے کہ اگر کسی کو وضو کے لیے یا جنبی کو غسل کے لیے پانی میسر نہ آئے یا کوئی ایسا بیمار ہو جسے پانی کے استعمال سے نقصان پہنچتا ہو تو ان صورتوں میں وہ تیمم کرسکتا ہے۔ اس آیت کے شان نزول، طریق تیمم اور طریق غسل سے متعلق درج ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیے :- ١۔ سیدہ عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ ایک دفعہ میں (غزوہ بنی مصطلق میں) اپنی بہن اسمائ کا ہار عاریتاً لے گئی ہار کہیں گرگیا ۔ آپ نے کئی آدمیوں کو ہار ڈھونڈنے کے لیے بھیجا۔ نماز کا وقت آگیا۔ وہاں پانی نہ تھا اور لوگ باوضو نہ تھے اس وقت اللہ تعالیٰ نے تیمم کی آیت نازل فرمائی۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر)- ٢۔ سیدنا عمران (رض) فرماتے ہیں کہ کسی سفر میں آپ نے ایک جگہ پڑاؤ کیا۔ وضو کے لیے پانی منگایا۔ آپ نے وضو کیا اور نماز کے لیے اذان کہی گئی۔ پھر آپ نے لوگوں کو نماز پڑھائی۔ جب آپ نے نماز سے سلام پھیرا تو ایک شخص کو علیحدہ بیٹھے دیکھا۔ آپ نے اسے پوچھا اے فلاں تجھے کس چیز نے لوگوں کے ساتھ نماز ادا کرنے سے روکے رکھا ؟ وہ کہنے لگا میں جنبی ہوگیا ہوں اور پانی موجود نہیں۔ آپ نے اسے فرمایا تمہیں مٹی سے تیمم کرلینا چاہیے تھا وہ تجھے کافی ہوجاتا۔ اور ایک روایت میں ہے کہ پھر آپ نے اسے مٹی سے تیمم کرنے کا حکم دیا۔ (بخاری، کتاب التیمم، باب الصعید الطیب وضوء المسلم۔ نیز کتاب بدء الخلق۔ باب علامات النبوۃ فی الاسلام) نیز دیکھئے سورة مائدہ (٥) کی آیت نمبر ٦ کا حاشیہ۔- ٣۔ تیمم کا طریقہ :۔ سیدنا عمار بن یاسر (رض) فرماتے ہیں کہ آپ نے مجھے کسی مہم پر بھیجا (اس دوران) میں جنبی ہوگیا، مجھے پانی نہ ملا تو میں نے مٹی میں اس طرح لوٹ لگائی جس طرح چوپایہ لوٹ لگاتا ہے۔ میں نے آپ سے اس کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا تمہیں اس طرح کرنا کافی تھا پھر آپ نے اپنی دونوں ہتھیلیوں کو ایک بار مٹی پر مارا پھر انہیں اپنے منہ کے قریب کیا اور ان پر پھونک ماری (زائد مٹی اڑا دی) پھر آپ نے بائیں ہتھیلی سے داہنے ہاتھ کی پشت پر اور داہنی ہتھیلی سے بائیں ہاتھ کی پشت پر مسح کیا۔ پھر دونوں ہتھیلیوں سے اپنے چہرے کا مسح کیا۔ (بخاری، کتاب التیمم۔ باب التیمم ضربہ۔ باب التیمم للوجہ والکفین۔۔ مسلم۔ فی باب التیمم)- ٤۔ سیدہ عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ جب آپ غسل جنابت کرنا چاہتے تو (برتن میں ہاتھ ڈالنے سے) پہلے اپنے دونوں ہاتھ دھوتے پھر نماز کے وضو کی طرح وضو کرتے پھر انگلیاں پانی میں ڈال کر بالوں کی جڑوں کا خلال کرتے۔ پھر دونوں ہاتھوں میں تین چلو لے کر اپنے سر پر ڈالتے پھر اپنے سارے بدن پر پانی بہاتے (بخاری، کتاب الغسل۔ باب الوضو قبل الغسل)- ٥۔ سعید بن عبدالرحمن بن ابزی اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص سیدنا عمر (رض) کے پاس آیا اور کہنے لگا اگر مجھے جنابت لاحق ہوجائے اور پانی نہ ملے تو کیا کروں ؟ عمار بن یاسر (رض) نے سیدنا عمر (رض) سے کہا، کیا آپ کو یاد نہیں جب ہم دونوں ایک سفر میں جنبی ہوگئے تھے اور آپ (رض) نے نماز نہ پڑھی اور میں مٹی میں لوٹا اور نماز پڑھ لی۔ پھر میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ واقعہ بیان کیا تو آپ نے فرمایا تجھے اتنا ہی کافی تھا، پھر آپ نے اپنی دونوں ہتھیلیاں زمین پر ماریں اور ان کو پھونک دیا۔ پھر منہ اور دونوں پہنچوں پر مسح کیا۔ (بخاری کتاب التیمم، باب ھل ینفخ فی یدیہ)- ٦۔ سیدنا عمرو بن عاص (رض) ایک ٹھنڈی رات میں جنبی ہوگئے تو تیمم کرلیا اور یہ آیت پڑھی : (وَلاَ تَقْتُلُوْا اَنْفُسَکُمْ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِکُمْ رَحِیْمًا) پھر آپ سے یہ ذکر کیا گیا تو آپ نے انہیں کچھ ملامت نہیں کی (بخاری، کتاب التیمم باب اذا خاف الجنب علی نفسہ المرض والموت)- اس آیت سے معلوم ہوا کہ تیمم کی مندرجہ ذیل چار صورتوں میں رخصت ہے :- ١۔ انسان سفر میں ہو اور اسے پانی نہ مل رہا ہو۔ سفر کی قید محض اس لیے ہے کہ عموماً سفر میں پانی ملنا مشکل ہوجاتا ہے۔ ورنہ اگر حضر میں بھی پانی نہ مل رہا ہو تو بھی تیمم کی رخصت ہے۔- ٢۔ وضو کرنے والا بیمار ہو تو وضو کرنے سے یا نہانے سے اسے اپنی جان کا یہ مرض بڑھنے کا خطرہ ہو۔ - ٣۔ حدث اصغر یعنی پاخانہ، پیشاب اور ہوا یا مذی خارج ہونے پر وضو کرنا واجب ہے اگر وضو کے لیے پانی نہ ملے تو تیمم کی رخصت ہے۔- ٤۔ حدث اکبر یعنی احتلام یا جماع کے بعد غسل کرنا واجب ہے لیکن اگر پانی نہیں ملتا تو تیمم کی رخصت ہے۔ بعض مفسرین نے اس آیت میں الصلٰوۃ سے مراد نماز کے علاوہ مسجد بھی لی ہے۔ اور عابری سبیل کا مفہوم یہ بتایا ہے کہ اگر جنبی شخص کو مسجد میں سے گزرنے کے بغیر کوئی راستہ ہی نہ ہو تو وہ مسجد سے گزر سکتا ہے۔ مگر نماز کے لیے یا کسی دوسرے کام کے لیے مسجد میں رک نہیں سکتا۔ اسی طرح اگر کوئی شخص مسجد میں سویا ہوا تھا اور اسے احتلام ہوگیا تو بیدار ہونے پر وہ مسجد میں رکے نہیں بلکہ وہاں سے نکل جائے۔- واضح رہے کہ سیدنا عمر (رض) سفر میں جنبی ہوجانے پر تیمم کو اچھا نہیں سمجھتے تھے اور یہ ان کی کچھ سیاسی مصلحت تھی کہ لوگ اس رعایت سے ناجائز فائدہ نہ اٹھائیں ورنہ وہ اس سنت کا انکار نہیں کرتے تھے۔ جیسا کہ اوپر درج شدہ حدیث نمبر ٥ سے واضح ہے۔ تاہم بہت سے صحابہ نے سیدنا عمر (رض) کی اس مصلحت سے اتفاق نہیں کیا۔ اور حدیث نمبر ٦ سے تو واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ دین میں سختی کی بجائے نرمی ہے۔ سیدنا عمر و بن عاص (رض) کے پاس سوائے شدید سردی کے اور کوئی عذر نہ تھا اور انہیں خطرہ تھا کہ اگر نہا لیا تو بیمار پڑجائیں گے۔ لہذا آپ نے جنبی ہونے پر نہانے کی بجائے تیمم کرلیا۔ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نکیر نہیں فرمائی۔- خ دین میں تنگی نہیں :۔ اس سلسلہ میں وہ واقعہ بھی مدنظر رکھنا چاہیے جسے ابو داؤد نے تیمم کے باب میں سیدنا جابر (رض) سے روایت کیا ہے۔ سیدنا جابر (رض) کہتے ہیں کہ ہم ایک سفر پر نکلے۔ اثنائے سفر ہمارے ایک ساتھی کو سر پر ایک پتھر لگا جس سے اس کا سر زخمی ہوگیا۔ اسی دوران اسے احتلام ہوگیا تو وہ اپنے ساتھیوں سے پوچھنے لگا کیا تمہارے خیال میں تیمم کی رخصت سے فائدہ اٹھا سکتا ہوں ؟ انہوں نے جواب دیا کہ تم کیسے فائدہ اٹھا سکتے ہو جبکہ پانی موجود ہے۔ چناچہ اس نے غسل کیا جس سے اس کی موت واقع ہوگئی۔ پھر جب ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاں آئے تو آپ سے اس واقعہ کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا اللہ انہیں غارت کرے ان لوگوں نے اسے مار ڈالا۔ جب انہیں یہ مسئلہ معلوم نہ تھا تو انہوں نے کیوں نہ پوچھ لیا ؟ جہالت کی درماندگی کا علاج تو پوچھ لینا ہی ہوتا ہے۔ اسے اتنا ہی کافی تھا کہ وہ اپنے زخم پر پٹی باندھ لیتا اور اس پر مسح کرلیتا اور باقی جسم کو دھو لیتا۔ - اور وضو کے متعلق احادیث سورة مائدہ کی آیت نمبر ٦ کے تحت درج کی جائیں گی۔
لَا تَقْرَبُوا الصَّلٰوةَ وَاَنْتُمْ سُكٰرٰى : شراب کی مذمت اور قباحت کے سلسلے میں سب سے پہلے سورة بقرہ کی آیت (٢١٩) نازل ہوئی، جس میں شراب اور جوئے کے گناہ کو ان کے نفع سے بڑا قرار دیا، اس پر بہت سے مسلمانوں نے شراب چھوڑ دی، تاہم بعض بدستور پیتے رہے کہ ہم اس سے نفع اٹھاتے ہیں۔ علی (رض) بیان کرتے ہیں کہ عبد الرحمن بن عوف (رض) نے ہمارے لیے کھانا پکایا، پھر ہمیں بلایا اور ہمیں شراب پلائی، شراب نے ہمیں مدہوش کردیا، اتنے میں نماز کا وقت آگیا اور انھوں نے مجھے امام بنادیا، میں نے پڑھا : ” قُلْ یَا اَیُّہَا الْکَافِرُوْنَ لاَ اَعْبُدُ مَا تَعْبُدُوْنَ وَ نَحْنُ نَعْبُدُ مَا تَعْبُدُوْنَ “ ” کہہ دے اے کافرو میں اس کی عبادت نہیں کرتا جس کی تم کرتے ہو اور ہم اس کی عبادت کرتے ہیں جس کی تم عبادت کرتے ہو۔ “ (ظاہر ہے اس سے آیت کے معنی کچھ سے کچھ ہوگئے) تو اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : ( لَا تَقْرَبُوا الصَّلٰوةَ وَاَنْتُمْ سُكٰرٰى ) [ ترمذی، تفسیر القرآن، باب و من سورة النساء : ٣٠٢٦ ] اس پر لوگوں نے نماز کے اوقات میں شراب ترک کردی، یہاں تک کہ سورة مائدہ کی آیات (٩٠، ٩١) نازل ہوئیں، جس سے شراب قطعی طور پر حرام کردی گئی۔ ( ابن کثیر) بعض علماء نے یہاں ” وَاَنْتُمْ سُكٰرٰى“ (جمع سکران) سے نیند کا غلبہ مراد لیا ہے اور اس کے مناسب صحیح بخاری کی وہ حدیث ذکر کی ہے جس میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نیند کی حالت میں نماز سے منع فرمایا کہ معلوم نہیں کیا پڑھے اور کیا نہ پڑھے، مگر صحیح یہ ہے کہ اس سے شراب کا نشہ مراد ہے اور یہی قول جمہور صحابہ و تابعین کا ہے، نیز تمام مفسرین اس پر متفق ہیں کہ یہ آیت شراب نوشی سے متعلق نازل ہوئی۔ - اِلَّا عَابِرِيْ سَبِيْلٍ : بعض مفسرین نے اس سے مراد سفر لیا ہے مگر سفر کا ذکر آگے آ رہا ہے (اَوْ عَلٰي سَفَرٍ ) اس تفسیر کی بنا پر سفر کے ذکر میں تکرار لازم آتا ہے، اس لیے پر اکثر سلف نے اس کا مفہوم یہ بیان کیا ہے کہ ” الصلاۃ “ سے مراد نماز کی جگہ یعنی مسجد ہے مطلب یہ ہے کہ جنابت کی حالت میں ” اَلصَّلاَۃُ “ یعنی نماز کی جگہوں (مسجدوں) میں نہ جاؤ۔ ہاں، اگر مسجد سے گزرنا پڑے تو مجبوری کی صورت میں گزر سکتے ہو ( ٹھہر نہیں سکتے) ۔ ابن جریر (رض) نے اسے راجح قرار دیا ہے، پس یہاں مضاف محذوف ہے، یعنی ” لَا تَقْرَبُوْا مَوَاضِعَ الصَّلاَۃِ “ (طبری) اور یہی جمہور علماء کا مسلک ہے کہ جنبی یا حائضہ کے لیے مسجد سے گزرنا جائز ہے، ٹھہرنا جائز نہیں، کیونکہ بہت سے صحابہ کے گھروں کے دروازے مسجد کی طرف کھلتے تھے، ان کے لیے غسل کر کے گزرنا مشکل تھا تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ مگر آخر میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابوبکر صدیق (رض) کے دریچے کے سوا مسجد میں کھلنے والے تمام دریچے بند کروا دیے۔ [ بخاری، الصلاۃ، باب الخوخۃ ۔۔ : ٤٦٧، عن ابن عباس (رض) ] بعض لوگوں نے علی (رض) کا دروازہ کھلا رکھنے کی روایت بھی بیان کی ہے، مگر اہل علم نے اسے ضعیف کہا ہے۔ ( ابن کثیر) خلاصہ یہ کہ مراد اس سے یہ ہے کہ جنبی مسجد سے گزر سکتا ہے، ٹھہر نہیں سکتا۔ گویا آیت کے دو حصے ہیں، پہلے حصے : ( لَا تَقْرَبُوا الصَّلٰوةَ وَاَنْتُمْ سُكٰرٰى ) اس میں ” الصلاۃ “ سے مراد نماز ہی ہے کہ نشہ کی حالت میں نماز کے قریب نہ جاؤ اور دوسرے حصے : ( وَلَا جُنُبًا اِلَّا عَابِرِيْ سَبِيْلٍ حَتّٰى تَغْتَسِلُوْا ۭ ) میں ” لَا تَقْرَبُوا الصَّلٰوةَ “ سے مراد نماز کی جگہ ہے، یعنی اس جنبی ہونے کی حالت میں مسجد کے قریب نہ جاؤ، الا یہ کہ راستہ عبور کر کے گزر جانے والے ہو۔ (طنطاوی)- وَاِنْ كُنْتُمْ مَّرْضٰٓى اَوْ عَلٰي سَفَرٍ ۔۔ : سفر سے مراد مطلق سفر ہے، اکثر علماء کے نزدیک تیمم کے جواز کے لیے اتنے سفر کی کوئی شرط نہیں جس میں نماز قصر پڑھی جاسکتی ہے۔ ” یا تم میں سے کوئی قضائے حاجت سے آیا ہو “ کے تحت ہر وہ چیز آجاتی ہے جس سے وضو ٹوٹ جاتا ہے۔ عورتوں کو چھونے یا مباشرت سے مراد (راجح مسلک کی بنا پر) جماع ہے، ورنہ صرف چھونے سے وضو نہیں ٹوٹتا، چناچہ عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ میں گھر میں لیٹی ہوتی، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نفل نماز پڑھتے تو سجدہ کے وقت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے ہاتھ سے میرے پاؤں سامنے سے ہٹا دیتے۔ [ بخاری، الصلوۃ، باب التطوع خلف المرأۃ : ٥١٣، ٥١٤۔ مسلم : ٤٨٦ ] ” اَوْ عَلٰي سَفَرٍ “ کا مقصد ہے کہ سفر میں پینے کے لیے تو پانی ہے مگر وضو یا غسل کے لیے نہیں۔ بیماری کا مطلب یہ ہے کہ پانی کے استعمال سے بیمار ہونے یا بیماری بڑھنے کا خطرہ ہے۔ عمرو بن عاص (رض) کو ایک سرد رات میں احتلام ہوگیا انھوں نے تیمم کرلیا اور یہ آیت پڑھی ( ۣوَلَا تَقْتُلُوْٓا اَنْفُسَكُمْ ۭاِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيْما ) (اپنے آپ کو قتل نہ کرو بیشک اللہ تم پر ہمیشہ سے بیحد مہربان ہے) نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کا ذکر کیا گیا تو آپ نے کوئی ڈانٹ ڈپٹ نہیں کی۔ [ صحیح بخاری، باب اذا خاف الجنب علی نفسہ المرض او خاف العطس تیمم ]- فَلَمْ تَجِدُوْا مَاۗءً : پانی نہ پانے میں یہ صورت بھی شامل ہے کہ پانی میسر ہی نہ ہو اور یہ بھی کہ بیماری یا عذر کی بنا پر پانی استعمال نہ کیا جاسکے۔ - فَتَيَمَّمُوْا صَعِيْدًا طَيِّبًا ۔۔ : تیمم کا معنی ہیقصد کرنا۔ ” صعیدًا طیبا “ سے مراد پاک مٹی ہے، خواہ کپڑے، کاغذ یا کسی جگہ کی گرد سے حاصل ہوجائے۔ اس کی تائید صحیح مسلم کی اس حدیث سے ہوتی ہے کہ جس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ” ہمیں تین باتوں میں لوگوں پر فضیلت دی گئی ہے، جن میں سے ایک یہ ہے : ( وَ جُعِلَتْ تُرْبَتُہَا لَنَا طَہُوْرًا اِذَا لَمْ نَجِدِ الْمَاءَ ) ” جب ہمیں پانی نہ ملے تو زمین کی مٹی ہمارے لیے پاک کرنے والی بنادی گئی ہے۔ “ [ مسلم، المساجد، باب المساجد ومواضع الصلٰوۃ : ٥٢٢ ] تیمم خواہ وضو کے لیے ہو یا غسل کے لیے، دونوں کا ایک ہی طریقہ ہے، صرف نیت مختلف ہوگی۔ عمار بن یاسر (رض) سے روایت ہے کہ ایک جہادی سفر میں انھیں احتلام ہوگیا تو انھوں نے زمین پر لوٹ پوٹ ہو کر نماز پڑھ لی، جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس حاضر ہوئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” تمہیں اتنا ہی کافی تھا۔ “ چناچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے ہاتھوں کو زمین پر مارا، پھر ان میں پھونک مار کر انھیں اپنے چہرے اور دونوں ہتھیلیوں پر مل لیا۔ [ بخاری، التیمم، باب المتیمم ھل ینفخ فیھما ؟ : ٣٣٨ ]- اس سے معلوم ہوا کہ خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بتایا ہوا تیمم کا طریقہ یہی ہے کہ صرف ایک دفعہ زمین پر ہاتھ مار کر اس میں پھونک مار کر چہرے اور ہتھیلیوں پر مل لیا جائے۔ بعض احادیث میں دو دفعہ زمین پر ہاتھ مارنے کا اور کہنیوں تک ملنے کا ذکر ہے، مگر وہ احادیث یا تو صحابہ کا اجتہاد ہیں یا کمزور ہیں، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے صحیح ترین حدیث وہی ہے جو عمار بن یاسر (رض) سے آئی ہے۔
شان نزول :- ترمذی میں حضرت علی (رض) کا یہ واقعہ مذکور ہے کہ شراب کی حرمت سے پہلے ایک دفعہ حضرت عبدالرحمن بن عوف نے بعض صحابہ کرام کی دعوت کر رکھ تھی جس میں مے نوشی کا بھی انتظام تھا، جب یہ سب حضرات کھا پی چکے تو مغرب کی نماز کا وقت ہوگیا اور حضرت علی (رض) کو امام بنادیا گیا، ان سے نماز میں قل یایھا الکفرون کی تلاوت میں بوجہ نشہ کے سخت غلطی ہوگئی اس پر یہ آیت نازل ہوئی جس میں تنبیہ کردی گئی کہ نشہ کی حالت میں نماز نہ پڑھی جائے۔- خلاصہ تفسیر - اے ایمان والو تم نماز کے پاس بھی ایسی حالت میں مت جاؤ (یعنی ایسی حالت میں نماز مت پڑھو کہ تم نشہ میں ہو یہاں تک کہ تم سمجھنے لگو کہ منہ سے کیا کہتے ہو (اس وقت تک نماز مت پڑھو، مطلب یہ ہے کہ ادائے نماز تو اپنے اوقات میں فرض ہے اور یہ حالت ادائے نماز کے منافی ہے پس اوقات صلوة میں نشہ کا استعمال مت کرو، کبھی تمہارے منہ سے نماز میں کوئی کلمہ خلاف نہ نکل جائے) اور حالت جنابت میں بھی (یعنی جبکہ غسل فرض ہو) باستثناء تمہارے مسافر ہونے کی حالت کے (کہ اس کا حکم عنقریب آتا ہے، نماز کے پاس مت جاؤ) یہاں تک کہ غسل کرلو (یعنی غسل جنابت شرائط صحبت نماز سے ہے اور یہ حکم یعنی جنابت کے بعد بدون غسل نماز نہ پڑھنا حالت عدم عذر میں ہے اور اگر تم (کچھ عذر رکھتے ہو مثلاً ) بیمار ہو (اور پانی کا استعمال مضر ہو جیسا کہ آگے آتا ہے) یا حالت سفر میں ہو (جو اوپر مستثنی ہوا ہے کہ اس کا حکم بھی آوے گا، یعنی اور پانی نہیں ملتا، جیسا آگے آتا ہے تو ان دونوں عذروں سے تیمم کی اجازت آتی ہے اور جواز تیمم کچھ انہی مذکور عذروں یعنی سفر و مرض کے ساتھ خاص نہیں بلکہ خواہ تم کو خاص یہ عذر ہوں) یا (یہ کہ عذر خاص نہ ہوں یعنی نہ تم مریض ہو نہ مسافر، بلکہ ویسے ہی کسی کا وضو یا غسل ٹوٹ جاوے اس طرح سے کہ مثلاً ) تم میں سے کوئی شخص (پیشاب یا پاخانہ کے) استنجے سے (فارغ ہو کر) آیا ہو (جس سے وضو ٹوٹ جاتا ہے) یا تم نے بیبیوں سے قربت کی ہو (جس سے غسل ٹوٹ گیا ہو اور) پھر (ان ساری صورتوں میں خواہ مرض و سفر کے عذر کی صورت ہو یا نہ مرض ہو نہ سفر ویسے وضو اور غسل کی ضرورت ہو) تم کو پانی (کے استعمال کا موقع) نہ ملے (خواہ تو اس وجہ سے کہ مرض میں اس سے ضرر ہوتا ہو خواہ اس لئے کہ وہاں پانی ہی موجود نہیں خواہ سفر ہو یا نہ ہو) تو (ان سب حالتوں میں) تم پاک زمین سے تمیم کرلیا کرو (یعنی اس زمین پر دو بار ہاتھ مار کر) اپنے چہروں اور ہاتھوں پر (ہاتھ) پھیرلیا کرو بلاشبہ اللہ تعالیٰ بڑے معاف کرنے والے بڑے بخشنے والے ہیں (اور جس کی ایسی عادت ہوتی ہے وہ آسان حکم دیا کرتا ہے، اس لئے اللہ تعالیٰ نے ایسے ایسے آسان حکم دے دیے کہ تم کو تکلیف و تنگی نہ ہو۔ )- معارف و مسائل - شراب کی حرمت کے تدریجی احکام :۔- شریعت اسلامیہ کو حق تعالیٰ نے ایک خاص امتیاز یہ دیا ہے کہ اس کے احکام کو سہل اور آسان کردیا ہے، اسی سلسلے کی ایک کڑی یہ ہے کہ شراب نوشی عرب کی پرانی عادت تھی اور پوری قوم اس عادت میں مبتلا تھی، بحز مخصوص حضرات کے جن کی طبیعت ہی کو اللہ تعالیٰ نے ایسا سلیم بنادیا تھا کہ وہ اس خبیث چیز کے پاس کبھی نہیں گئے، جیسے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہ نبوت سے پہلے آپ نے کبھی شراب کو ہاتھ نہیں لگایا اور یہ بھی سب جانتے ہیں کہ عادت کسی چیز کی بھی ہو اس کا چھوڑنا انسان پر بڑا مشکل ہوتا ہے، خصوصاً شراب اور نشہ کی عادت تو انسان کی طبیعت پر ایسا قبضہ کرلیتی ہے کہ اس سے نکلنا آدمی اپنے لئے موت سمجھنے لگتا ہے۔- اللہ تعالیٰ کے نزدیک شراب نوشی اور نشہ کرنا حرام تھا اور اسلام لانے کے بعد مسلمانوں کو اس سے بچانا مقصود و مطلوب تھا، مگر کیا اس کو حرام کردیا جاتا تو لوگوں پر اس حکم کی تعمیل سخت مشکل ہوجاتی، اسلئے ابتداء اس پر جزوی پابندی عائد کی گئی اور اس کے خراب اثرات پر تنبیہ کر کے ذہنوں کو اس کے چھوڑنے پر آمادہ کیا گیا، چناچہ ابتداء اس آیت میں صرف یہ حکم ہوا کہ نشہ کی حالت میں نماز کے پاس نہ جاؤ، جس کا حاصل یہ تھا کہ نماز کے وقت نماز کا ادا کرنا تو فرض ہے، اوقات نماز میں شراب استعمال نہ کی جائے، جس سے مسلمانوں نے یہ محسوس کرلیا کہ یہ ایسی خراب چیز ہے جو انسان کے لئے نماز سے مانع ہے، بہت سے حضرات نے تو اسی وقت سے اس کے چھوڑنے کا اہتمام کرلیا اور دوسرے حضرات بھی اس کی خرابی اور برائی کو سوچنے لگے آخر کار سورة مائدہ کی آیت میں شراب کے ناپاک اور حرام ہونے کا قطعی حکم آ گیا اور ہر حال میں شراب پینا حرام ہوگیا۔- مسئلہ :۔ جس طرح نشہ کی حالت میں نماز حرام ہے، بعض مفسرین نے فرمایا کہ جب نیند کا غلبہ ایسا ہو کہ آدمی اپنی زبان پر قابو نہ رکھے تو اس حالت میں بھی نماز پڑھنا درست نہیں جیسا کہ ایک حدیث میں ارشاد ہے۔- ” اگر تم میں سے کسی کو نماز میں اونگھ آنے لگے تو اسے کچھ دیر کے لئے سو جانا چاہئے تاکہ نیند کا اثر چلا جائے ورنہ نیند کی حالت میں وہ سمجھ نہیں سکے گا اور بجائے دعاء استغفار کے اپنے آپ کو گالی دینے لگ جائے گا۔ “- تیمیم کا حکم ایک انعام ہے جو اس امت کی خصوصیت ہے :۔- اللہ تعالیٰ کا کتنا بڑا احسان ہے کہ وضو طہارت کے لئے ایسی چیز کو پانی کے قائم مقام کردیا جو اپنی سے زیاد سہل الحصول ہے اور ظاہر ہے کہ زمین اور مٹی ہر جگہ موجود ہے، حدیث میں ہے کہ یہ سہولت صرف امت محمدیہ کو عطا کی گئی ہے، تمیم کے ضروری مسائل فقہ کی کتابوں اور اردو کے رسالوں میں بکثرت چھپے ہوئے ہیں ان کو دیکھ لیا جائے۔
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقْرَبُوا الصَّلٰوۃَ وَاَنْتُمْ سُكٰرٰى حَتّٰى تَعْلَمُوْا مَا تَقُوْلُوْنَ وَلَا جُنُبًا اِلَّا عَابِرِيْ سَبِيْلٍ حَتّٰى تَغْتَسِلُوْا ٠ۭ وَاِنْ كُنْتُمْ مَّرْضٰٓى اَوْ عَلٰي سَفَرٍ اَوْ جَاۗءَ اَحَدٌ مِّنْكُمْ مِّنَ الْغَاۗىِٕطِ اَوْ لٰمَسْتُمُ النِّسَاۗءَ فَلَمْ تَجِدُوْا مَاۗءً فَتَيَمَّمُوْا صَعِيْدًا طَيِّبًا فَامْسَحُوْا بِوُجُوْہِكُمْ وَاَيْدِيْكُمْ ٠ۭ اِنَّ اللہَ كَانَ عَفُوًّا غَفُوْرًا ٤٣- أیمان - يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ( ا م ن ) - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ - قرب - الْقُرْبُ والبعد يتقابلان . يقال : قَرُبْتُ منه أَقْرُبُ وقَرَّبْتُهُ أُقَرِّبُهُ قُرْباً وقُرْبَاناً ، ويستعمل ذلک في المکان، وفي الزمان، وفي النّسبة، وفي الحظوة، والرّعاية، والقدرة . فمن الأوّل نحو : وَلا تَقْرَبا هذِهِ الشَّجَرَةَ [ البقرة 35] وَلا تَقْرَبُوا الزِّنى [ الإسراء 32] ، فَلا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرامَ بَعْدَ عامِهِمْ هذا [ التوبة 28] . وقوله : وَلا تَقْرَبُوهُنَ [ البقرة 222] ، كناية عن الجماع کقوله : فَلا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرامَ [ التوبة 28] ، وقوله : فَقَرَّبَهُ إِلَيْهِمْ [ الذاریات 27] . وفي الزّمان نحو : اقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسابُهُمْ [ الأنبیاء 1] ، وقوله : وَإِنْ أَدْرِي أَقَرِيبٌ أَمْ بَعِيدٌ ما تُوعَدُونَ [ الأنبیاء 109] . وفي النّسبة نحو : وَإِذا حَضَرَ الْقِسْمَةَ أُولُوا الْقُرْبى[ النساء 8] ، وقال : الْوالِدانِ وَالْأَقْرَبُونَ [ النساء 7] ، وقال : وَلَوْ كانَ ذا قُرْبى [ فاطر 18] ، وَلِذِي الْقُرْبى [ الأنفال 41] ، وَالْجارِ ذِي الْقُرْبى [ النساء 36] ، يَتِيماً ذا مَقْرَبَةٍ [ البلد 15] . وفي الحظوة : لَا الْمَلائِكَةُ الْمُقَرَّبُونَ [ النساء 172] ، وقال في عيسى: وَجِيهاً فِي الدُّنْيا وَالْآخِرَةِ وَمِنَ الْمُقَرَّبِينَ [ آل عمران 45] ، عَيْناً يَشْرَبُ بِهَا الْمُقَرَّبُونَ [ المطففین 28] ، فَأَمَّا إِنْ كانَ مِنَ الْمُقَرَّبِينَ [ الواقعة 88] ، قالَ نَعَمْ وَإِنَّكُمْ لَمِنَ الْمُقَرَّبِينَ [ الأعراف 114] ، وَقَرَّبْناهُ نَجِيًّا[ مریم 52] . ويقال للحظوة : القُرْبَةُ ، کقوله : قُرُباتٍ عِنْدَ اللَّهِ وَصَلَواتِ الرَّسُولِ أَلا إِنَّها قُرْبَةٌ لَهُمْ [ التوبة 99] ، تُقَرِّبُكُمْ عِنْدَنا زُلْفى[ سبأ 37] . وفي الرّعاية نحو : إِنَّ رَحْمَتَ اللَّهِ قَرِيبٌ مِنَ الْمُحْسِنِينَ [ الأعراف 56] ، وقوله : فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ [ البقرة 186] - وفي القدرة نحو : وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ [ ق 16] . قوله وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْكُمْ [ الواقعة 85] ، يحتمل أن يكون من حيث القدرة- ( ق ر ب ) القرب - القرب والبعد یہ دونوں ایک دوسرے کے مقابلہ میں استعمال ہوتے ہیں ۔ محاورہ ہے : قربت منہ اقرب وقربتہ اقربہ قربا قربانا کسی کے قریب جانا اور مکان زمان ، نسبی تعلق مرتبہ حفاظت اور قدرت سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے جنانچہ فرب مکانی کے متعلق فرمایا : وَلا تَقْرَبا هذِهِ الشَّجَرَةَ [ البقرة 35] لیکن اس درخت کے پاس نہ جانا نہیں تو ظالموں میں داخل ہوجاؤ گے ۔ لا تَقْرَبُوا مالَ الْيَتِيمِ [ الأنعام 152] اور یتیم کے مال کے پاس بھی نہ جانا ۔ وَلا تَقْرَبُوا الزِّنى [ الإسراء 32] اور زنا کے پا س بھی نہ جانا ۔ فَلا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرامَ بَعْدَ عامِهِمْ هذا [ التوبة 28] تو اس برس کے بعد وہ خانہ کعبہ کے پاس نہ جانے پائیں ۔ اور آیت کریمہ ولا تَقْرَبُوهُنَ [ البقرة 222] ان سے مقاربت نہ کرو ۔ میں جماع سے کنایہ ہے ۔ فَقَرَّبَهُ إِلَيْهِمْ [ الذاریات 27] اور ( کھانے کے لئے ) ان کے آگے رکھ دیا ۔ اور قرب زمانی کے متعلق فرمایا : اقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسابُهُمْ [ الأنبیاء 1] لوگوں کا حساب ( اعمال کا وقت نزدیک پہنچا ۔ وَإِنْ أَدْرِي أَقَرِيبٌ أَمْ بَعِيدٌ ما تُوعَدُونَ [ الأنبیاء 109] اور مجھے معلوم نہیں کہ جس چیز کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے وہ عنقریب آنے والی ہے یا اس کا وقت دور ہے ۔ اور قرب نسبی کے متعلق فرمایا : وَإِذا حَضَرَ الْقِسْمَةَ أُولُوا الْقُرْبى[ النساء 8] اور جب میراث کی تقسیم کے وقت ( غیر وارث ) رشتے دار آجائیں ۔ الْوالِدانِ وَالْأَقْرَبُونَ [ النساء 7] ماں باپ اور رشتے دار ۔ وَلَوْ كانَ ذا قُرْبى [ فاطر 18] گوہ وہ تمہاری رشتے دار ہو ۔ وَلِذِي الْقُرْبى [ الأنفال 41] اور اہل قرابت کا ۔ وَالْجارِ ذِي الْقُرْبى [ النساء 36] اور رشتے در ہمسایوں يَتِيماً ذا مَقْرَبَةٍ [ البلد 15] یتیم رشتے دار کو ۔۔۔ اور قرب بمعنی کے اعتبار سے کسی کے قریب ہونا کے متعلق فرمایا : لَا الْمَلائِكَةُ الْمُقَرَّبُونَ [ النساء 172] اور نہ مقرب فرشتے ( عار ) رکھتے ہیں ۔ اور عیسیٰ (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : وَجِيهاً فِي الدُّنْيا وَالْآخِرَةِ وَمِنَ الْمُقَرَّبِينَ [ آل عمران 45]( اور جو ) دنیا اور آخرت میں آبرو اور ( خدا کے ) خاصوں میں سے ہوگا ۔ عَيْناً يَشْرَبُ بِهَا الْمُقَرَّبُونَ [ المطففین 28] وہ ایک چشمہ ہے جس میں سے ( خدا کے ) مقرب پئیں گے ۔ فَأَمَّا إِنْ كانَ مِنَ الْمُقَرَّبِينَ [ الواقعة 88] پھر اگر وہ خدا کے مقربوں میں سے ہے : قالَ نَعَمْ وَإِنَّكُمْ لَمِنَ الْمُقَرَّبِينَ [ الأعراف 114]( فرعون نے ) کہا ہاں ( ضرور ) اور اس کے علاوہ تم مقربوں میں داخل کرلئے جاؤ گے ۔ وَقَرَّبْناهُ نَجِيًّا[ مریم 52] اور باتیں کرنے کے لئے نزدیک بلایا ۔ اور القربۃ کے معنی قرب حاصل کرنے کا ( ذریعہ ) کے بھی آتے ہیں جیسے فرمایا : قُرُباتٍ عِنْدَ اللَّهِ وَصَلَواتِ الرَّسُولِ أَلا إِنَّها قُرْبَةٌ لَهُمْ [ التوبة 99] اس کو خدا کی قربت کا ذریعہ ۔ أَلا إِنَّها قُرْبَةٌ لَهُمْ [ التوبة 99] دیکھو وہ بےشبہ ان کے لئے ( موجب ) قربت ہے۔ تُقَرِّبُكُمْ عِنْدَنا زُلْفى[ سبأ 37] کہ تم کو ہمارا مقرب بنادیں ۔ اور رعایت ونگہبانی کے متعلق فرمایا : إِنَّ رَحْمَتَ اللَّهِ قَرِيبٌ مِنَ الْمُحْسِنِينَ [ الأعراف 56] کچھ شک نہیں کہ خدا کی رحمت نیکی کرنے والوں کے قریب ہے ۔ فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ [ البقرة 186] میں تو تمہارے پاس ہوں ۔ جب کوئی پکارنے والا پکارتا ہے تو میں اسکی دعا قبول کرتا ہوں ۔ اور قرب بمعنی قدرہ فرمایا : وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ [ ق 16] اور ہم اس کی رگ جان سے بھی زیادہ قریب ہیں ۔- صلا - أصل الصَّلْيُ الإيقادُ بالنار، ويقال : صَلِيَ بالنار وبکذا، أي : بلي بها، واصْطَلَى بها، وصَلَيْتُ الشاةَ : شویتها، وهي مَصْلِيَّةٌ. قال تعالی: اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس 64] - والصَّلاةُ ،- قال کثير من أهل اللّغة : هي الدّعاء، والتّبريك والتّمجید يقال : صَلَّيْتُ عليه، أي : دعوت له وزكّيت، وقال عليه السلام : «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة 103] - وصَلَاةُ اللهِ للمسلمین هو في التّحقیق :- تزكيته إيّاهم . وقال : أُولئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَواتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ [ البقرة 157] ، - ومن الملائكة هي الدّعاء والاستغفار،- كما هي من النّاس «3» . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب 56] والصَّلَاةُ التي هي العبادة المخصوصة،- أصلها : الدّعاء، وسمّيت هذه العبادة بها کتسمية الشیء باسم بعض ما يتضمّنه، والصَّلَاةُ من العبادات التي لم تنفکّ شریعة منها، وإن اختلفت صورها بحسب شرع فشرع . ولذلک قال : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء 103]- ( ص ل ی ) الصلیٰ- ( س) کے اصل معنی آگ جلانے ہے ہیں صلی بالنار اس نے آگ کی تکلیف برداشت کی یا وہ آگ میں جلا صلی بکذا اسے فلاں چیز سے پالا پڑا ۔ صلیت الشاۃ میں نے بکری کو آگ پر بھون لیا اور بھونی ہوئی بکری کو مصلیۃ کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس 64] آج اس میں داخل ہوجاؤ ۔ - الصلوۃ - بہت سے اہل لغت کا خیال ہے کہ صلاۃ کے معنی دعا دینے ۔ تحسین وتبریک اور تعظیم کرنے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے صلیت علیہ میں نے اسے دعادی نشوونمادی اور بڑھایا اور حدیث میں ہے (2) کہ «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، - جب کسی کو کھانے پر بلا یا جائے تو اسے چاہیے کہ قبول کرلے اگر روزہ دار ہے تو وہ انکے لئے دعاکرکے واپس چلا آئے اور قرآن میں ہے وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة 103] اور ان کے حق میں دعائے خیر کرو کہ تمہاری دعا ان کے لئے موجب تسکین ہے ۔- اور انسانوں کی طرح فرشتوں کی طرف سے بھی صلاۃ کے معنی دعا اور استغفار ہی آتے ہیں - چناچہ فرمایا : إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب 56] بیشک خدا اور اس کے فرشتے پیغمبر پر درود بھیجتے ہیں ۔ اور الصلوۃ جو کہ ایک عبادت مخصوصہ کا نام ہے اس کی اصل بھی دعاہی ہے اور نماز چونکہ دعا پر مشتمل ہوتی ہے اسلئے اسے صلوۃ کہاجاتا ہے ۔ اور یہ تسمیۃ الشئی باسم الجزء کے قبیل سے ہے یعنی کسی چیز کو اس کے ضمنی مفہوم کے نام سے موسوم کرنا اور صلاۃ ( نماز) ان عبادت سے ہے جن کا وجود شریعت میں ملتا ہے گو اس کی صورتیں مختلف رہی ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء 103] بیشک نماز مومنوں مقرر اوقات میں ادا کرنا فرض ہے ۔- سكر - السُّكْرُ : حالة تعرض بيت المرء وعقله، وأكثر ما يستعمل ذلک في الشّراب، وقد يعتري من الغضب والعشق، ولذلک قال الشاعر :- 237-- سکران : سکر هوى، وسکر مدامة- «2» ومنه : سَكَرَاتُ الموت، قال تعالی: وَجاءَتْ سَكْرَةُ الْمَوْتِ [ ق 19] ، والسَّكَرُ :- اسم لما يكون منه السّكر . قال تعالی: تَتَّخِذُونَ مِنْهُ سَكَراً وَرِزْقاً حَسَناً [ النحل 67] ، والسَّكْرُ : حبس الماء، وذلک باعتبار ما يعرض من السّدّ بين المرء وعقله، والسِّكْرُ : الموضع المسدود، وقوله تعالی: إِنَّما سُكِّرَتْ أَبْصارُنا - [ الحجر 15] ، قيل : هو من السَّكْرِ ، وقیل : هو من السُّكْرِ- ( س ک ر )- الکرس ۔ اصل میں اس حالت کو کہتے ہیں جو انسان اور اس کی عقل کے درمیان حائل ہوجاتی ہے اس کا عام استعمال شراب کی مستی پر ہوتا ہے اور کبھی شدت غضب یا غلبہ یا غلبہ عشق کی کیفیت کو سکر سے تعبیر کرلیا جاتا ہے اسی لئے شاعر نے کہا ہے ( 231 ) سکران ھوی وسکر مدامۃ نشے دو ہیں ایک نشہ محبت اور دوسرا نشہ شراب اور اسی سے سکرت الموت ( موت کی بیہوشی ) ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَجاءَتْ سَكْرَةُ الْمَوْتِ [ ق 19] اور موت کی بےہوشی کھولنے کو طاری ہوگئی ۔ السکرۃ ( بفتح السین والکاف ) نشہ آور چیز ۔ قرآن میں ہے : ۔ تَتَّخِذُونَ مِنْهُ سَكَراً وَرِزْقاً حَسَناً [ النحل 67] کہ ان سے شراب بناتے ہو اور عمدہ رزق رکھا تے ہو ) اور شراب سے انسان اور اس کی عقل کے درمیان بھی چونکہ دیوار کی طرح کوئی چیز حائل ہوجاتی ہے اس اعتبار سے سکر کے معنی پانی کو بند لگانے اور روکنے کے آجاتے ہیں اور اس بند کو جو بانی روکنے - کے لئے لگایا جائے سکر کہا جاتا ہے ( یہ فعل بمعنی مفعول ہے ) اور آیت : ۔ إِنَّما سُكِّرَتْ أَبْصارُنا[ الحجر 15] کہ ہماری آنکھیں مخمور ہوگئی ہیں ۔ میں سکرت بعض کے نزدیک سک سے ہے اور بعض نے سکرا سے لیا ہے اور پھر سکر سے سکون کے معنی لے کر پر سکون رات کو لیلۃ ساکرۃ کہا جاتا ہے ۔- (بقیہ حصہ کتاب سے ملاحضہ فرمائیں)
کسی شخص کا حالت جنابت میں مسجد کے اندر سے گزرجانا - قول باری ہے (یا ایھا الذین امنوالاتقربوالصلوۃ وانتم سکاری حتی تعلموا ماتقولون ولاجنبا الاعابری سبیل حتی تغتسلوا، اے ایمان والو، جب تم نشے کی حالت میں ہو تو نماز کے قریب نہ جاؤ جب تک غسل نہ کرلو الایہ کہ راستہ سے گزرتے ہو) ۔- ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ آیت میں سکر یعنی نشہ کے مفہوم ومراد میں اختلاف رائے ہے حضرت ابن عباس ، مجاہد، ابراہیم اور قتادہ کا قول ہے کہ شراب کی وجہ سے پیدا ہونے والانشہ مراد ہے مجاہد اور حسن کا قول ہے کہ تحریم خمر کے حکم نے اسے منسوخ کردیا ہے ضحاک کا قول ہے کہ اس سے خاص کر نیند کی وجہ سے پیدا ہونے والی مدہوشی مراد ہے۔- اگریہ کہاجائے کہ نشے میں مدہوش انسان کو روکنا کی سے درست ہوسکتا ہے جبکہ عقل پر پردہ پڑجانے کی بنا پر وہ ایک بچے کی طرح ناسمجھ بن جاتا ہے تو اس کے جواب میں کہاجائے گا کہ اس میں یہ احتمال ہے کہ اس سے مراد وہ شخص ہے جس کی عقل اس حد تک نہ ماری گئی ہو کہ وہ مکلفین کے دائرے سے باہر ہوگیا ہو اوریہ بھی احتمال ہے کہ انہیں نماز کے اوقات میں نشہ کرنے سے روکا گیا ہو یہ مراد لینا بھی درست ہے کہ نہی صرف اس پر دلالت کرتی ہے کہ اگر انہوں نے نشے کی حالت میں نماز ادا کی ہوتوعقل وحواس درست ہوجانے کے بعد ان پر اس کا اعادہ ضروری ہے اور یہ بھی درست ہے کہ آیت کے نزول کے وقت اس سے درج بالا تمام معانی مراد ہوں۔ اگر کوئی یہ سوال کرے کہ جب آیت میں اس تاویل کی گنجائش ہے کہ اس سے مراد وہ نشہ باز ہوسکتا ہے جس کی عقل اس حد تک نہ ماری گئی ہو کہ وہ مکلف ہی نہ رہا ہو تو اس صورت میں اسے نماز سے روکنا کیسے درست ہوسکتا ہے جب کہ سب کا اس پر اتفاق ہے کہ اس حالت میں نماز ادا کرنے کا حکم اس پر عائد ہوتا ہے ۔- اس سوال کا جواب یہ ہے کہ حسن اور قتادہ سے مروی ہے کہ یہ حکم منسوخ ہوچکا ہے اگر نسخ تسلیم نہ کیا جائے تو اس میں یہ احتمال ہوگا کہ اسے حضور کے ہمراہ یا جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنے سے روکا گیا ہے ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ آیت کی درست تاویل یہ ہے کہ سکر سے شراب کانشہ مراد ہے اس لیے کہ سوئے ہوئے انسان نیز اس شخص کو جس کی آنکھوں میں نیند کا غلبہ ہو سکران نہیں کہاجاتا۔- لیکن جس پر شراب کانشہ طاری ہودرحقیقت اسے سکران کہاجاتا ہے اس لیے لفظ کو اس کے حقیقی معنوں پر محمول کرنا واجب ہے اور مجازی معنوں پر صرف اس وقت محمول کیا جاسکتا ہے جب اس کے لیے کوئی دلالت موجود ہو۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ سفیان نے عطاء بن ابی سائب سے انہوں نے ابوعبدالرحمن سے اور انہوں نے حضرت علی سے روایت کی ہے کہ ایک دفعہ ایک انصاری نے کچھ لوگوں کو پینے پلانے کی دعوت دی مجلس میں دورجام چلنے کے بعد جب مغرب کی نماز کا وقت ہوگیا تو حضرت عبدالرحمن بن عوف امامت کے لیے آگے بڑھے نماز میں انہوں نے سورة الکافرون کی قرات کی اور پوری طرح ہوش میں نہ ہونے کی وجہ سے آیات کو باہم گڈ مڈ کردیا۔- اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی ، لاتقربوالصلوۃ وانتم سکاری) ہمیں جعفر بن محمد الواسطی نے روایت بیان کی ہے کہ انہیں جعفر بن محمد بن الیمان المودب نے ، انہیں ابوعبید نے انہیں حجاج نے ابن جریج اور عثمان بن عطاء سے انہوں نے عطاء خراسانی سے انہوں نے حضرت ابن عباس سے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ، (یسئلونک عن الخمر والمیسر، قل فیھما اثم کبیر، و منافع للناس۔- اورسورہ نساء میں ارشاد ہے ، لاتقربوالصلوۃ وانتم سکاری، پھرا سے اس آیت نے منسوخ کردیا، (یا ایھا الذین امنوانماالخمر والمیسر والانصاب ، ،، اے ایمان والو یہ شراب اور جوا اور یہ آستانے اور پانسے یہ سب گندے شیطانی کام ہیں ان سے پرہیز کرو) ۔- ابوعبید نے کہا ہمیں عبداللہ بن صالح نے معاویہ بن صالح سے انہوں نے علی بن ابی طلحہ سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس سے قول باری (یسئلونک عن الخمر والمیسر قل فیھما اثم کبیر کے سلسلے میں روایت بیان کی ہے ۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ درج بالا آیت کے ساتھ یہ قول باری بھی ہے (لاتقربوا الصلوۃ وانتم سکاری حتی تعلموا ماتقولون) جسکے نتیجے میں صحابہ کرام کا طریق کار تھا کہ نماز کے اوقات میں شراب نوشی نہیں کرتے تھے جب عشاء کی نماز سے فارغ ہوجاتے توپھرپی لیتے ۔ ابوعبید کہتے ہیں ہمیں عبدالرحمن بن سفیان سے انہوں نے ابواسحاق سے انہوں نے ابومیسرہ سے روایت کی ہے کہ ایک دفعہ حضرت عمر نے یہ دعا کی، اے اللہ ہمارے لیے شراب کا حکم بیان کردے، اس پر یہ آیت نازل ہوئی (لاتقربوالصلوۃ وانتم سکاری) ۔ الخ۔- آگے روایت کے الفاظ وہی ہیں جو درج بالا روایت کے ہیں ، ابوعبید نے کہا ہمیں ہشیم نے روایت بیان کی ہے انہیں مغیرہ نے ابورزین سے کہ سورة بقرہ اور سو رہ نساء کی آیات کے نزول کے بعد بھی شراب کا استعمال جاری رہا، لوگوں کا طریقہ یہ تھا کہ نماز کا وقت آنے تک پیتے پلاتے اور نماز کے اوقات شراب نوشی ترک کردیتے پھر سو رہ مائدہ کی آیت کے ذریعے شراب حرام کردی گئی ، ابوبکرجصاص کہتے ہیں کہ حضرات نے یہ بتایا کہ آیت زیر بحث میں شراب کی وجہ سے پیدا ہونے والانشہ مراد ہے ۔ حضرت ابن عباس اور ابورزین نے یہ بتایا کہ اس آیت کے نزول کے بعد لوگوں نے نماز کے اوقات میں شراب نوشی ترک کردی اور دوسرے اوقات میں اسے استعمال کرتے رہے۔- اس میں یہ دلالت موجود ہے کہ لوگوں نے قول باری (لاتقربوالصلوۃ وانتم سکاری) سے یہ بات اخذ کی تھی کہ انہیں اس حالت میں شراب نوشی سے روکا گیا ہے جبکہ شراب کی وجہ سے ان پر نشہ طاری ہوا اورادھر نماز کا وقت آجائے۔- یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ قول باری (لاتقربوالصلوۃ وانتم سکاری) صرف اوقات نماز میں شراب نوشی کی ممانعت کی خبر دے رہا ہے اور اس کا مفہوم یہ ہے کہ ایسی شراب نوشی نہ کروجس سے نماز کے وقت تک تم پر نشہ طاری رہے ، اور اسی حالت میں تم نماز ادا کرلو۔- کیونکہ مسلمانوں پر اوقات صلوہ میں نمازوں کی ادائیگی فرض تھی، اور ترک صلوہ سے انہیں روک دیا گیا تھا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے یہ حکم بھیج دیا کہ (لاتقربوالصلوۃ وانتم سکاری) ہمیں اس سے یہ معلوم ہوگیا کہ آیت سے نماز کی فرضیت منسوخ ہوئی، آیت کے الفاظ کے ضمن میں اس شراب نوشی کی ممانعت تھی جو نماز کے اوقات میں موجب سکر ہو جس طرح ہمیں جب حدث کی حالت میں نماز کی ادائیگی سے منع کردیا گیا ہے - چنانچہ ارشاد باری ہے (واذاقمتم الی الصلوۃ فاغسلوا وجوھھکم ، جب تم نما کے لیے کھڑے ہو تو اپنے چہرے دھولو) تاآخر آیت ، نیز حضور کا ارشاد ہے (لایقبل اللہ صلاۃ بغیر طھور) اللہ تعالیٰ طہارت کے بغیر کوئی نماز قبول نہیں کرتا) اور جس طرح ارشاد باری ہے (ولاجنبا الاعابری سبیل حتی تغتسلوا ) ان آیات وحدیث میں نہی کو ترک طہارت پر محمول کیا جائے گا نماز کی ادائیگی سے ممانعت پر محمول نہیں ہوگی۔- نیز کسی شخص کا جنابت یاحدث کی حالت میں ہونا نماز کی فرضیت کے سقوط کا موجب نیہں ہے بلکہ اسے صرف اس حالت میں نماز کی ادائیگی سے روکا گیا ہے لیکن اس کے باوجود اسے نماز ادا کرنے سے پہلے طہارت حاصل کرنے کا حکم دیا گیا ہے اس طرح سکر کی حالت میں نماز کی ممانعت صرف اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ ایسی شراب نوشی کی نہی ہے جو نماز سے قبل سکر کی موجب بن جائے لیکن نماز کی فرضیت اس پر قائم ہے اس حکم سے فرضیت نماز کا حکم بالکل متاثر نہیں ہوگا۔- آیت کی یہ تاویل اس مفہوم پر دلالت کرتی ہے کہ جو حضرت ابن عباس اور ابورزین سے مروی ہے ظاہر آیت اور مضمون آیت بھی اسی مفہوم کا جو ہم نے بیان کیا ہے مقتضی ہے یہ تاویل نشے کی حالت میں نماز کی ممانعت کی منافی نہیں ہے جس کی روایت ہم نے سلف سے کی ہے کیونکہ ہوسکتا ہے کہ انہیں ایسی شراب نوشی سے روک دیا گیا ہو جو نماز کے وقت شراب پینے والے کے نشہ کی حالت میں ہونے کا مقتضی ہو۔- اس صورت میں یہ ممانعت قائم رہے گی، اگر ایسا اتفاق پیش آجائے کہ کوئی شخص شراب نوشی کرتا رہے حتی کہ نماز کے وقت بھی نشہ کی حالت میں رہے توا سے نماز کی ادائیگی سے ممانعت ہوگی اور نشہ اترنے کے بعد نماز کا اعادہ اس پر فرض ہوگایا ایک صورت یہ بھی ہے کہ آیت میں نہی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہمراہ یا جماعت سے نماز پڑھنے تک محدود ہے۔- اس لیے یہ تمام معانی درست ہیں اور آیت کے الفاظ میں ان تمام کا احتمال موجود ہے، قبل باری (حتی تعلموا ماتقولون) اس پر دلالت کرتا ہے جس سکران کی نماز پر ھنے سے روک دیا گیا ہے اس سے مراد وہ سکران ہے جس کی نشہ کی وجہ سے یہ حالت ہوگئی کہ اسے پتہ نہ چل رہا ہو کہ وہ کیا کہہ رہ ا ہے لیکن جس سکران کو اپنے منہ سے ادا ہونے والے الفاظ کا پتہ ہو اسے نماز ادا کرنے کی نہی شامل نہیں ہے۔- یہ بات ہماری اس تاویل کے حق میں گواہی دے رہی ہے جو ہم نے گزشتہ سطور میں بیان کی تھی کہ نہی کا رخ صرف شراب نوشی کی طرف ہے نماز کے افعال بجالانے کی طرف نہیں ہے ، اس لیے کہ جس سکران کو اپنے منہ سے ادا ہونے والے الفاظ کا ہوش نہ ہو اسے اس حالت میں نماز کا مکلف بنانا ہی درست نہیں ہے اس کی حالت دیوانے ، سوئے ہوئے انسان اور اس بچے کی حالت کی طرح ہے جسے کسی کی سمجھ نہیں ہوتی۔- لیکن جسے اپنے منہ سے ادا ہونے والے الفاظ کی سمجھ ہو اس کی طرف نہی کا رخ ہے کیونکہ آیت میں اس صورت کے اندر نماز کی اباحت موجود ہے جب اسے اپنے منہ سے ادا ہونے والے الفاظ کا علم ہو اوریہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ آیت نے اسے شراب کی نوشی کی ممانعت کردی ہے جبکہ نشہ کی وجہ سے اس کی یہ حالت ہو کہ اسے اپنے کہے ہوئے الفاظ کا علم نہ ہو رہا ہو نماز کے افعال کی آیت نے ممانعت نہیں کی ہے کیونکہ ایسے سکران کو نماز کا مکلف بنانادرست ہی نہیں ہے جس کی سمجھ اور عقل ماری جاچکی ہو۔- یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ جس نشہ کے ساتھ ممانعت کے حکم کا تعلق ہے اس سے مراد وہ نشہ ہے جس کے تحت نشہ میں مبتلا شخص کو اپنے منہ سے نکلنے والے الفاظ کی سمجھ نہ آرہی ہو یہ بات امام ابوحنیفہ کے اس قول کی صحت پر دلالت کرتی ہے کہ حد شرب کو واجب کرنے والانشہ وہ نشہ ہے جس کے تحت نشے والاشخص ایک مرد اور عورت کے درمیان امتیاز کرنے سے عاجز ہو نیز وہ شخص جسے اپنے کہے ہوئے الفاظ کی بھی سمجھ نہ ہو اور عورت اور مرد کی پہچان نہ ہو۔- قول باری (حتی تعلموا ماتقولون) نماز میں قرات کی فرضیت پر بھی دلالت کرتا ہے کیونکہ نشہ میں مبتلا انسان کو نماز پڑھنے سے اس لیے روک دیا گیا ہے کہ وہ درست طریقے سے قرات نہیں کرسکتا اگر قرات نماز کے ارکان و فرائض میں داخل نہ ہوتی تو اس کی وجہ سے نشہ میں مبتلا انسان کو نماز پڑھنے سے روکانہ جاتا۔- اگریہ کہاجائے کہ اس میں نماز کے اندر قرات کے وجوب پر کوئی دلالت نہیں ہے اس لیے کہ قول باری (حتی تعلموا ماتقولون ) اس پر دلالت کرتا ہے کہ نشے والے انسان کوا س حالت میں نماز پڑھنے سے روکا گیا ہے کہ جب وہ اپنے منہ سے نکلے ہوئے الفاظ کو سمجھنے سے عاجز ہے قرات کا اس میں ذکر نہیں ہے صرف یہ مذکور ہے کہ اسے اپنے الفاظ کا علم نہیں ہوتا اور یہ چیز تمام اقوال اور کلام کو شامل ہے۔- سکرکی وجہ سے جس شخص کی یہ حالت ہوا سے کے لیے نماز کی نیت کا احضار درست نہیں ہوتا اور نہ ہی اس کی ارکان صلوۃ کی ادائیگی درست ہوتی ہے اس لیے نماز سے ایسے شخص کو روک دیا گیا ہے جس کی نشہ کی وجہ سے یہ حالت ہوکیون کہ اس حالت میں نہ اس کی نماز کی نیت درست ہوتی ہے نہ ارکان صلوۃ کی ادائیگی درست ہوتی ہے اور اس کے ساتھ اسے یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ آیا وہ باوضو ہے یا بےوضو۔- اس کے جواب میں کہاجائے گا معترض نے جن باتوں کا تذکرہ کیا ہے وہ سب بجا ہیں کہ جس شخص کی حالت نشہ کے عالم میں اس درجے کو پہنچ گئی ہو اس کی نماز کی ادائیگی نماز کی شرطوں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے درست نہیں ہوتی لیکن چونکہ آیت میں نماز کی دوسرے افعال و احوال کی بجائے صرف منہ سے نکلنے والے الفاظ کا خصوصیت کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے۔- اس لیے یہ اس پر دلالت کرتی ہے کہ قول سے مراد وہ قول ہے جو نماز کے اندر سرانجام پاتا ہے یعنی قرات اور یہ کہ جب نشہ کے عالم میں اس کی ایسی حالت ہو جس کے تحت قرات کا بجالانا ممکن نہ ہوتوپھرعدم قرات کی بنا پر اس کی نماز کی ادائیگی درست نہیں ہوگی نیزیہ کہ نماز میں قرات کا وجود نماز کے فرائض وارکان میں سے ہے۔- اس کی مثال یہ قول باری ہے (اقیموالصلوۃ ، نماز قائم کرو) اس سے یہ بات معلوم ہورہی ہے کہ نماز میں قیام بھی ہوتا ہے جو فرض ہے یا یہ قول باری (وارکعوا مع الراکعین، اور جھکنے والوں کے ساتھ جھکو) نماز میں رکوع کی فرضیت پر یہ قول دلالت کررہا ہے۔- قول باری (ولاجنبا الاعابری سبیل حتی تغتسلوا) کی تاویل میں اس علم کے درمیان اختلاف رائے ہے منہال بن عمر نے زر سے ، انہوں نے حضرت علی سے اس آیت کی تفسیر میں روایت کی ہے مگر یہ کہ تم سفر کی حالت میں ہو اور تمہیں پانی نہ ملے توتیمم کرکے نماز پڑھ لو۔- قتادہ نے ابومجلز سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس سے اسی قسم کی روایت کی ہے ، مجاہد سے اسی قسم کی روایت منقول ہے حضرت عبداللہ بن مسعود سے مروی ہے کہ اس سے مسجد کے اندر سے گزرنا مراد ہے ، آیت کی تاویل میں عطاء بن یسار نے حضرت ابن عباس سے اسی قسم کی روایت کی ہے ۔ سعید بن المسیب ، عطاء بن ابی رباح ، اور عمرو بن دینار نیز دیگر تابعین بھی اسی قسم کی روایت کی گئی ہے۔- جنابت کی حالت میں مسجد سے گزرجانے کے مسئلے میں سلف کے اندر اختلاف رائے ہے حضرت جابر سے مروی ہے کہ ہم میں سے کوئی شخص جنابت کی حالت میں مسجد سے ہوکرگزرجاتا تھا، عطاء بن یسار کا قول ہے کہ صحابہ کرام میں سے بہت سے ایسے تھے جو جنابت کی حالت میں ہوتے اور پھر وضو کرکے مسجد میں آکربیٹھ جاتے اور باتیں کرتے رہتے۔- سعید بن المسیب کا قول ہے کہ جنبی شخص مسجد میں بیٹھ نہیں سکتا، البتہ مسجد میں سے ہوکرگزر سکتا ہے ، حسن سے اسی قسم کی روایت ہے ، اس بارے میں حضرت عبداللہ سے جو قول مروی ہے تو اس کا درست مفہوم وہ ہے جو شریک نے عبدالکریم الجزری سے اور انہوں نے ابوعبیدہ سے قول باری (ولاجنبا الی عابری سبیل حتی تغتسلوا) کے سلسلے میں بیان کیا ہے یعنی جنبی مسجد سے ہوکر گزرے جائے گا لیکن اسے وہاں بیٹھنے کی اجازت نہیں ہے۔ اسے معمر نے عبدالکریم سے ، انہوں نے ابوعبیدہ سے اور انہوں نے حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت کی ہے ایک قول یہ ہے کہ معمر کے سوا کسی راوی نے حضرت عبداللہ سے ان کا یہ قول متصلا نقل نہیں کیا بل کہ سب نے اسے موقوفا بیان کیا ہے۔- فقہاء امصار کا بھی اسی مسئلے میں اختلاف رائے ہے ، امام ابوحنیفہ اور امام ابویوسف، امام محمد، زفر اور حسن بن زیادہ کا قول ہے کہ مسجد میں صرف وہی شخص داخل ہوگاجوطاہر ہو یعنی اسے غسل کی ضرورت لاحق نہ ہو، پھر چاہے وہ وہاں بیٹھا رہے اور چاہے وہاں سے گزر جائے۔ امام مالک اور سفیان ثوری کا بھی یہی قول ہے لیث بن سعد کا قول ہے کہ کوئی شخص مسجد میں سے ہوکر نہیں گزرے گا الایہ کہ اسکے گھر کا دروازہ مسجد کی طرف ہو، امام شافعی کا قول ہے کہ مسجد سے ہوکرگزرجائے گا لیکن وہاں بیٹھے گا نہیں۔- اس بات کی دلیل جنبی کے لیے مسجد سے ہوکرگزرجانا جائز نہیں ہے وہ روایت ہے جسے ہمیں محمد بن بکر نے بیان کی ، انہیں ابوداؤد نے ، انہیں مسدد نے ، انہیں عبدالواحد بن زیاد نے انہیں افلت بن حنیفہ نے انہیں حسرت بنت دجاجہ نے وہ کہتی ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ کو ہتے ہوئے سنا تھا کہ حضور تشریف لائے تو آپ کے بہت سے اصحاب کے گھروں کا رخ مسجد کی طرف تھا اور دروازے مسجد میں کھلتے تھے آپ نے ان دروازوں کا رخ موڑلینے کا حکم دیا۔- اس کے بعد آپ مسجد میں تشریف لائے تو دیکھا کہ اس سلسلے میں کچھ نہیں کیا گیا لوگوں کو توقع تھی کہ شاید اس سلسلے میں رخصت نازل ہوجائے ۔ حضور نے باہرنکل کر لوگوں کو مسجد سے دروازوں کے رخ موڑنے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا، (وجھوا ھذہ البیوت فانی لااحل المسجد لحائض ولاجنب) ، ان گھروں کے رخ موڑ لو کیونکہ مسجد کونہ کسی حائضہ عورت کے لیے اور نہ ہی کسی جنبی کے لیے حلال قرار دے سکتا ہوں) ۔- یہ روایت ہماری مذکورہ بات پر دوطریقوں سے دلالت کرتی ہے ایک تو یہ کہ آپ نے فرمایا (لااحل المسجد لحائض ولاجنب) اپ نے اس میں سے مسجد میں سے ہوکرگزرجانے اور مسجد کے اندر جاکربیٹھ جانے کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا بل کہ اسمیں دونوں کا حکم یکساں ہے۔- دوسری وجہ یہ ہے کہ آپ نے صحابہ کرام کو حکم دیا تھا کہ جن گھروں کے دروازے مسجد میں کھلتے ہیں ان کے دروازوں کا رخ موڑ لیے جائیں، تاکہ کوئی جنابت والاان گھروں سے نکل کر مسجد میں سے ہوتا ہوا باہر کی طرف گزرنے نہ پائے کیونکہ اگر آپ کی مراد قعود فی المسجد ہو تو اس صورتمین آپ کے قول (وجھوا ھذہ البیوت فانی لااحل المسجد لحائض ولاجنب) کے کوئی معنی نہ ہوتے اس لیے کہ مسجد میں داخل ہونے کے بعد وہاں بیٹھ جانے کا اس بات سے کوئی تعلق نہیں ہے کہ گھر کا دروازہ مسجد کی طرف کھلتا ہو۔- یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ آپ نے گھروں کا رخ موڑ لینے کا صرف اس لیے حکم دیا تھا کہ لوگ جنابت کے حالت میں مسجد سے ہوکر گزرنے پر مجبور نہ ہوجائیں کیونکہ ان کے گھروں کے ان دروازوں کے سواجومسجد میں کھلتے تھے کوئی اور دروازے نہیں تھے۔- سفیان بن حمزہ نے کثیر بن زید سے روایت کی ہے کہ انہوں نے عبدالمطلب سے کہ حضور نے حضڑت علی کے سوا کسی کو بھی جنابت کی حالت میں مسجد سے گزرنے اور وہاں بیٹھنے کی اجازت نہیں دی تھی، حضرت علی جنابت کی حالت میں مسجد میں داخل ہوکر وہاں سے گزرجاتے تھے کیونکہ ان کا گھر مسجد کے اندر تھا۔ اس روایت میں یہ بتایا گیا کہ حضور نے جنابت کی حالت میں مسجد میں سے ہوکر گزرنے کی لوگوں کو ممانعت کردی تھی ، جس طرح اس حالت میں وہاں بیٹھنے پر پابندی لگادی تھی ، حضرت علی کی جو خصوصیت بیان کی گئی ہے وہ درست ہے۔- تاہم راوی کا یہ قول ہے کہ حضرت علی کا مکان مسجد کے اندر تھا، اس کا اپناخیال ہے اس لیے کہ حضور نے پہلی حدیث میں لوگوں کو اپنے گھروں کے دروازوں کا رخ موڑ لینے کا حکم دیا تھا اور انہیں اس بنا پر کہ ان کے گھر مسجد میں ہیں، مسجد سے گزرنے کی اجازت نہیں دی تھی۔ اس لیے جنابت کی حالت میں مسجد سے گزر جانے کی بات صرف حضرت علی کی خصوصیت تھی۔- جس طرح حضرت جعفر طیار کی یہ خصوصیت تھی کہ جنت میں آپ کودوپرلگادیے گئے تھے کسی اور شہید کی یہ خصوصیت نہیں تھی یا جس طرح حضرت حنظلہ کی یہ خصوصیت تھی کہ آپ جنابت کی حالت میں شہید ہوگئے توملائ کہ نے آپ کو غسل دیا تھا۔- اسی طرح حضرت دحیہ کلبی کی خصوصیت تھی کہ حضرت جبرائیل ان کی شکل میں حضور کے پاس آتے تھے یا حضرت زبیر کی خصوصیت یہ تھی کہ جب اپ نے کھٹملوں کے کاٹنے کی شکایت کی تو حضور نے آپ کو ریشم پہننے کی اجازت دے دی تھی، اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ تمام لوگوں کو جنابت کی حالت میں مسجد میں داخل ہونے کی ممانعت ہے خواہ وہ وہاں سے گزرنے والے ہوں یا نہ گزرنے والے ۔- حضرت جابر کی یہ روایت ہے کہ ہم میں سے کوئی شخص جنابت کی حالت میں مسجد سے ہوکرگزرجایا کرتا تھا تویہ کوئی دلیل نہیں ہے کیونکہ اس سے یہ بات معلوم نہیں ہوتی کہ حضور کو اسکاعلم ہوجانے کے بعد بھی آپ نے اسے برقرار رہنے دیا تھا۔- اسی طرح عطاء بن یسار کی روایت کی صورت ہے کہ بہت سے صحابہ کرام جنابت کی حالت میں وضو کرکے مسجد میں آجاتے تھے اور وہاں بیٹھ کر باتیں کرتے رہتے تھے اور اس روایت میں بھی فریق مخالف کے لیے کوئی دلیل نہیں ہے کیونکہ اس میں اس بات کا ذکر نہیں ہے کہ حضور کو اس کا علم ہوگیا تھا اور آپ نے اسے برقرار رہنے دیا تھا، اس میں یہ بھی توگنجائش ہے کہ حضور کے زمانے میں ممانعت کا حکم ملنے سے پہلے ایسا ہوتا تھا۔- اگرحضور سے ان کا ثبوت ہو بھی جائے اور پھر اس کے بعد ان روایات پر ظاہراعمل ہو بھی جائے جو ہم نے استدلال کے طور پر بیان کی ہیں تو اس صورت میں ممانعت کی روایات اباحت کی روایت سے اولی قرار پائیں گی کیونکہ ممانعت لامحالہ اباحت پر طاری ہوئی ہے اس لیے ممانعت اباحت سے متاخر ہوئی۔- نیز جب فقہاء سے متفقہ طور پر جنابت کی حالت میں مسجد کی عظمت کے پیش نظر وہاں بیٹھنے کی ممانعت ثابت ہے تو ضروری ہے کہ مسجد کی عظمت کے پیش نظر جنابت کی حالت میں وہاں سے گزرنے کا بھی یہی حکم ہوا۔ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ مسجد میں بیٹھنے کی ممانعت کی علت اس شخص کا جنابت کی حالت میں مسجد میں ہونا ہے یہی علت گزرنے والے انسان کے اندر بھی پائی جاتی ہے اس لیے اس کے اندر بھی اس حکم کا پایاجانا ضروری ہے ۔- ان دونوں صورتوں میں اس لحاظ سے مشابہت بھی ہے کہ ایک انسان کے لیے کسی شخص کی مملوکہ جگہ میں اس کی اجازت کے بغیر بیٹھنا ممنوع ہے اور اس جگہ سے ہوکر گزرنے کا بھی وہی حکم ہے جو وہاں بیٹھنے کا ہے، اس طرح گزرجانے کی وہی حیثیت ہوئی جو بیٹھنے کی ہے اس بنا پر جب مسجد میں بیٹھنے کی ممانعت ہے تو وہاں سے گزرنے کی ممانعت بھی واجب ہے اور ان سب صورتوں میں مشترک علت جنابت کی حالت میں مسجد کے اندر ہونا ہے۔- قول باری (ولاجنبا الاعابری سبیل حتی تغتسلوا) میں ایک تاویل تو یہ ہے کہ اس سے مراد جنابت کی حالت میں مسجد میں سے گزرجانے کی اباحت ہے ایک اور تاویل حضرت علی اور حضرت ابن عباس سے مروی ہے اس سے مراد مسافر ہے جسے جنابت کی صورت پیش آجائے اور غسل کرنے کے لیے پانی نہ ملے توتیمم کرکے نماز پڑھ لے۔- یہ دوسری تاویل پہلی تاویل کی یہ نسبت اولی ہے کیونکہ قول باری (ولاتقربوا الصلوۃ فانھم سکاری) میں حالت سکر میں نماز پڑھنے کی ممانعت ہے مسجد سے ممانعت نہیں ہے ، اس لیے کہ لفظ کے حقیقی معنی اور خطاب کا مفہوم یہی ہے اگر ا سے مسجد سے ممانعت پر محمول کیا جائے گا تو اس صورت میں کلام کو اس کے حقیقی معنوں سے نکال کرمجازی معنوں کی طرف پھیر دینا لازم آئے گا اور وہ اس طرح کہ اس صورت میں لفظ صلوۃ کو موضع صلوۃ یعنی مسجد کی تعبیر کا ذریعہ بنایاجائے گا جس کا مجازی طور پر ایک چیز کو اس کے غیر کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے جس کی وجہ یہ تو ان دونوں چیزو کے درمیان مجاورت یاپڑوس کا تعلق ہوتا ہے یا ایک سبب ہوتی ہے اور دوسری مسبب ۔ مثلا قول باری پر غور کیجئے (ولولادفع اللہ الناس بعضھم ببعض لھدمت صوامع وبیع وصلوت ، اور اگر اللہ لوگوں کا زور ایک دوسرے کے ذریعے نہ گھٹاتا رہتا تو ان کی خانقاہیں اور عبادت خانے اور یہود کے عبادت خانے منہدم ہوگئے ہوتے) ۔- یہاں صلوات سے مراد موضع صلوۃ ہے جب ہمارے لیے ایک لفظ کوا سکے حقیقی پر محمول کرنا ممکن ہوتوا سے کسی دلالت کے بغیر مجازی معنوں کی طرف پھیر دینا درست نہیں ہوتا، اس میں کوئی ایسی دلالت نہیں ہے جو لفظ صلوۃ کو اس کے حقیقی معنوں سے ہٹا کرمجازی معنوں یعنی موضع الصلوۃ مسجد کی طرف پھیرنے کی موجب ہو۔- بلکہ نسق تلاوت میں ایسی بات موجود ہے جو اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ صلوۃ سے حقیقت صلوۃ ہے، اور یہ قول باری (حتی تعلموا ماتقولون ) ہے کیونکہ مسجد کے لیے کوئی قول مشروط نہیں ہے جو اس وقت مسجد میں داخل ہونے سے مانع بن جائے جب نشہ کی وجہ سے اس پر یہ قول متعذر ہوجائے جبکہ نماز کے ا اندر قرات کی شرط ہے جسے درست طریقے سے بجانہ لانے کی بناپرا سے نماز ادا کرنے سے منع کردیا گیا ہے ۔- یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ لفظ صلوۃ سے حقیقت صلوۃ مراد ہے اس بنا پر جن حضرات نے اس کی یہ تاویل کی ہے ان کی بات لفظ صلوۃ کی حقیقت اور ظاہر دونوں کے موافق ہے ، قول باری (ولاجنبا الاعابری سبیل حتی تغتسلوا) میں عابر سبیل سے مراد مسافر ہے کیونکہ مسافر کو عابر سبیل کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔- اگرمسافر پر اس لفظ کا اطلاق نہ ہوتاتوحضر ت علی اور حضرت ابن عباس کبھی اس کی یہ تاویل نہ کرتے کیونکہ یہ بات کسی کے لیے بھی جائز نہیں ہوتی کہ وہ کسی آیت کی ان معنوں میں تاویل کرے جن پر آیت کے اندر واقع اسم کا اطلاق نہ ہوتا ہو، مسافر کو عابر سبیل کہنے کی وجہ یہ ہے کہ وہ راستے پر ہوتا ہے اور راستہ طے کررہا ہوتا ہے جس طرح مسافر کو ابن سبیل کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔- اس طرح اللہ تعالیٰ نے مسافر کے لیے سفر کی حالت میں جنابت لاحق ہوجانے کی صورت میں پانی کی عدم موجودگی میں تیمم کرکے نماز پڑھ لینے کی اباحت کردی ۔ اس طرح آیت کی دو باتوں پر دلالت ہوگئی اول یہ کہ جنبی کے لیے حالت سفر میں پانی کی عدم موجودگی کی صورت میں تیمم کرکے نماز پڑھ لیناجائز ہے۔ دوم یہ کہ تیمم جنابت کی حالت کو دور نہیں کرتا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تیمم کرلینے کے باوجود اسے جنبی کے نام سے موسوم کیا ہے ، اس لیے یہ تاویل اس تاویل سے بہتر اور اولی ہے جس کے مطابق آیت کو مسجد سے گزرجانے کے معنوں پر محمول کیا گیا ہے۔- قول باری (حتی تغتسلوا) نماز کی اباحت کی غایت ہے یعنی غسل کے ساتھ نماز کی اباحت ہوجاتی ہے ، اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ اس مقام میں غایت ممانعت میں داخل ہے یہاں تک کہ جنبی غسل کے وجود کے ساتھ اس غایت کی تکمیل کرے نیز یہ کہ اس صورت میں اس کی نماز جائز نہیں ہوگی جبکہ ابھی نماز کا کچھ حصہ باقی ہو اورا سے پانی مل جائے اور اس کا استعمال بھی ممکن ہو نیز اس کے استعمال سے کسی ضرر کے لاحق ہونے کا اندیشہ بھی نہ ہو۔- یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ بعض دفعہ غایت اپنے ماقبل کے جملے میں داخل سمجھی جاتی ہے ، قول باری (ثم اتموالصیام الی اللیل) اس میں غایت اپنے ماقبل کے جملے سے خارج ہے کیونکہ رات آتے ہی روزہ دار روز سے باہر ہوجاتا ہے ، حرف، الی ، حرف ، حتی کی طرح غایت کے معنی ادا کرتا ہے۔- یہ بات اس قاعدے کی بنیاد اور اصل ہے کہ غایت کا کبھی کلام میں داخل مانا جانا درست ہوتا ہے اور کبھی خارج ماناجانا، اور پھر ان دونوں صورتوں کا حکم اس دلالت موقوف ہوتا ہے جس سے غایت کے دخول فی الکلام یاخروج عن الکلام کا پتہ چلتا ہے ہم جنابت کے احکام اس کے معنی اور مریض ومسافر کے حکم پر سو رہ مائدہ میں پہنچ کر روشنی ڈالیں گے ، انشاء اللہ۔- قول باری ہے (امنوا بمانزلنا مصدقا لمامعکم من قبل ان نطمس وجوھا، مان لواس کتاب کو جو ہم نے اب نازل کی ہے اور جو اس کتاب کی تصدیق کرتی ہے جو تمہارے پاس پہلے سے موجود تھی ، اس پر ایمان لے آؤ، قبل اس کے کہ ہم چہرے بگاڑ دیں) یہ قول باری ہے جو ہمارے اصحاب کے اس قول کی صحت پر دلالت کرتا ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے یہ کہے کہ فلاں شخص کی آمد سے قبل تجھے طلاق ہے توا سے فوری طلاق ہوجائے گی خواہ فلاں شخص کی آمد ہوجائے یا آمدنہ ہو۔- بعض فقہاء سے مروی ہے کہ اس صورت میں جب تک فلاں شخص کی آمد نہ ہوجائے اسے طلاق نہیں ہوگی کیونکہ جب ابھی فلاں شخص کی آمد نہ ہوئی تو اس صورت میں قبل قدوم فلان (فلاں شخص کی آمد سے پہلے) کے الفاظ نہیں کہے جاسکتے لیکن درست بات وہی ہے جو ہمارے اصحاب نے کہی ہے اور یہ آیت اس کی صحت پر دلالت کرتی ہے۔- اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا (یا ایھا الذین اوتوالکتاب امنوابمانزلنا مصدقا لمامعکم من قبل ان نطمس وجوھا، اب یہاں نطمس وجوہ سے پہلے ایمان لانے کا حکم دینا درست ہوگیا، طمس وجوہ کا کبھی وجود نہیں ہوتا، اس طرح ی ہایمان طمس وجوہ سے پہلے ہوگیا جبکہ ابھی وہ وجود میں بھی نہیں آیا تھا، یہ آیت اس قول باری (فتحریر رقبۃ من قبل ان یتماسا، تو ان کے ذمہ قبل اس کے دونوں باہم اختلاط کریں ایک مملوکہ کو آزاد کرنا ہے ) مملوک کو آزاد کرنے کا حکم ایک درست حکم ہے اگرچہ باہم اختلاط کا وجود نہ بھی ہو۔ اگر یہ کہاجائے کہ آیت زیر بحث میں یہود کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ وعید سنائی گئی تھی ، یہود ایمان نہیں لائے اور جو وعید انہیں سنائی گئی تھی ، وہ بھی وقوع پذیر نہیں ہوئی، اس کے جواب کہاجائے گا کہ یہود کا ایک گروہ مسلمان ہوگیا تھا جس میں حضر ت عبداللہ بن سلام ، ثعلبہ بن سعید ، زید بن سعنہ، اسد بن عبید، اور مخریق اور چنددوسرے لوگ شامل تھے جس فوری وعید کی انہیں خبر دی گئی تھی وہ اس امر کے ساتھ معلق تھی کہ اگر تمام کے تمام یہود ترک اسلام کے مرتکب ہوتے اس میں یہ بھی احتمال ہے کہ اس سے مراد وعید آخرت ہے کیونکہ آیت میں دنیا کے اندر مسلمان نہ ہونے کی صورت میں فوری طور پر سزا کا ذکر نہیں ہے۔
(٤٣) شراب کی حرمت سے پہلے یہ حکم نازل ہوا ہے کہ مسجد نبوی میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ایسی حالت میں مت آؤ بغیر غسل کے بھی جنابت کی حالت میں مسجد میں نہ آؤ کہ ماسوا تمہارے راہ گزر یا مسافر ہونے کی حالت کے یا جس نے اپنی بیوی کے ساتھ قربت کی ہو اور مذکورہ صورتوں میں اگر پانی نہ ملے تو پاک مٹی سے تیمم کرو، ایک مرتبہ مٹی پر ہاتھ مار کر اپنے چہروں پر پھیر لیاکرو، اور دوسری مرتبہ ہاتھ مار کر اپنے ہاتھوں پر پھیر لیاکرو، اللہ تعالیٰ دینی امور میں تمہیں اس طرح سہولت دیتا ہے اور اس میں جو تم سے کوتاہی ہوجائے اس کو معاف فرمانے والا ہے۔- شان نزول : (آیت) ” یایھا الذین امنوا لاتقربوا الصلوۃ “۔ (الخ)- ابوداؤد، ترمذی، نسائی اور حاکم نے حضرت علی (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ عبدالرحمن بن عوف نے ہمارا کھانا پکایا اور ہمیں کھانے کی دعوت دی اور شراب بھی پلائی جس کیوجہ سے ہمیں نشہ آگیا اور پھر نماز کا وقت آگیا۔ حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ سب سے مجھے آگے کردیا۔ میں سورة کافروں پڑھی اور (آیت) ” لا اعبد ماتبدون “ کی بجائے ” ونحن نعبد ما تعبدون، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اے ایمان والو تم نماز کے پاس بھی ایسی حالت میں مت جاؤ، فریابی ابن ابی حاتم اور ابن منذر نے حضرت علی (رض) سے روایت کیا ہے کہ یہ آیت ولا جنبا “۔ مسافر کے بارے میں نازل ہوئی ہے کہ اگر اسے جنابت کی حالت لاحق ہوجائے تو وہ تیمم کر کے نماز پڑھ لے اور ابن مردویہ نے اسلم بن شریک سے روایت کیا ہے فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اونٹنی پر کجاوہ کسا کرتا تھا ایک بہت ٹھنڈی رات میں مجھے جنابت کی حالت پیش آگئی تو مجھے خوف ہوا کہ اگر اس قدر ٹھنڈے پانی سے غسل کروں گا تو مرجاؤں گا یا سخت نماز بیمار پڑجاؤں گا، غرض کہ اس چیز کا میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ذکر کیا اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور طبرانی نے اسلع سے اس طرح روایت نقل کی ہے کہ فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا خدمت کیا کرتا تھا اور آپ کی اونٹنی پر کجاوہ کسا کرتا تھ۔- ایک دن آپ نے فرمایا اسلع کجاوہ کس دے میں نے عرض کیا یارسول اللہ مجھے تو جنابت لاحق ہوگئی ہے۔ آپ یہ سن کر خاموش ہوگئے، ایسے میں آسمان سے حضرت جبریل امین تیمم کا حکم لے کر نازل ہوئے، تب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اسلع تیمم کرلو اور آپ نے مجھے تیمم کرنا سکھلایا کہ ایک مرتبہ مٹی پر ہاتھ مار کر چہرے پر ملو اور دوسری مرتبہ ہاتھ مار کر دونوں ہاتھوں پر کہنیوں سمیت ملو چناچہ میں نے کھڑے ہو کر تیمم کیا اور پھر آپ کے لیے کجاوہ کسا۔- ابن جریر (رح) نے یزید بن ابی حبیب (رض) سے روایت کیا ہے کہ کچھ انصاری لوگوں کے مکانوں کے دروازے مسجد میں تھے، چناچہ ان کو جنابت پیش آئی اور پانی ان کے پاس نہ ہوتا تھا اور پانی کے لیے وہ اپنے مکانوں سے نکلنا چاہتے تھے مگر مسجد کے علاوہ اور کوئی راستہ ان کو نہیں ملتا تھا، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی (آیت) ” الا عابر سبیل “ کہ بجز راہ گزر کے اور ابن ابی حاتم (رح) نے مجاہد (رح) سے روایت کیا ہے کہ یہ آیت ایک انصاری شخص کے بارے میں نازل ہوئی ہے وہ سخت بیمار تھے، کھڑے ہو کر وضو کرنے کی ان میں ہمت نہیں تھی اور نہ ان کے پاس کوئی خادم تھا جو ان کو وضو کرا دیتا ، انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس چیز کا ذکر کیا اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی (آیت) ” وان کنتم مرضا “۔ اور اگر تم بیمار ہو۔ الخ۔- اور ابن جریر نے ابراہیم مخفی سے روایت نقل کی ہے کہ ایک غزوہ میں صحابہ کرام (رض) زخمی ہوگئے اور پھر ایسے میں جنابت کی حالت پیش آگئی انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس چیز کی اطلاع کی، اس پر یہ آیت نازل ہوئی ،
آیت ٤٣ (یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَقْرَبُوا الصَّلٰوۃَ وَاَنْتُمْ سُکٰرٰی) (حَتّٰی تَعْلَمُوْا مَا تَقُوْلُوْنَ ) - سورۃ البقرۃ (آیت ٢١٩) میں شراب اور جوئے کے بارے میں محض اظہار ناراضگی فرمایا گیا تھا کہ (اِثْمُھُمَا اَکْبَرُ مِنْ نَّفْعِھِمَا ط) ان کا گناہ کا پہلو نفع کے پہلو سے بڑا ہے۔ اب اگلے قدم کے طور پر شراب کے اندر جو خباثت ‘ شناعت اور برائی کا پہلو ہے اسے ایک مرتبہ اور اجاگر کیا گیا کہ نشے کی حالت میں نماز کے قریب نہ جایا کرو۔ جب تک نشہ اتر نہ جائے اور تمہیں معلوم ہو کہ تم کیا کہہ رہے ہو اس وقت تک نماز نہ پڑھا کرو۔ چونکہ شراب کی حرمت کا حکم ابھی نہیں آیا تھا لہٰذا بعض اوقات لوگ نشے کی حالت ہی میں نماز پڑھنے کھڑے ہوجاتے اور کچھ کا کچھ پڑھ جاتے۔ ایسے واقعات بھی بیان ہوئے ہیں کہ کسی نے نشے میں نماز پڑھائی اور لَا اَعْبُدُ مَا تَعْبُدُوْنَ کے بجائے اَعْبُدُ مَا تَعْبُدُوْنَپڑھ دیا۔ اس پر خاص طور پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (حَتّٰی تَعْلَمُوْا مَا تَقُوْلُوْنَ ) کے الفاظ قابل غور ہیں کہ جب تک کہ تم شعور کے ساتھ سمجھ نہ رہے ہو کہ تم کیا کہہ رہے ہو اس میں ایک اشارہ ادھر بھی ہوگیا کہ بےسمجھے نماز مت پڑھا کرو یعنی ایک تو مدہوشی کی وجہ سے سمجھ میں نہیں آ رہا اور غلط سلط پڑھ رہے ہیں تو اس سے روکا جا رہا ہے ‘ اور ایک سمجھتے ہی نہیں کہ نماز میں کیا پڑھ رہے ہیں۔ قرآن کہہ رہا ہے کہ تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ تم کہہ کیا رہے ہو۔ اب جنہیں قرآن مجید کے معنی نہیں آتے ‘ نماز کے معنی نہیں آتے ‘ انہیں کیا پتا کہ وہ نماز میں کیا کہہ رہے ہیں - (وَلاَ جُنُبًا الاَّ عَابِرِیْ سَبِیْلٍ حَتّٰی تَغْتَسِلُوْاط الاّ یہ کہ راستے سے گزرتے ہوئے۔- اگر تم نے اپنی بیویوں سے مباشرت کی ہو یا احتلام وغیرہ کی شکل ہوگئی ہو تب بھی تم نماز کے قریب مت جاؤ جب تک کہ غسل نہ کرلو۔ اِلاَّ عَابِرِیْ سَبِیْلٍ “ کے بارے میں بہت سے قول ہیں۔ بعض فقہاء اور مفسرین نے اس کا یہ مفہوم سمجھا ہے کہ حالت جنابت میں مسجد میں نہ جانا چاہیے ‘ اِلا یہ کہ کسی کام کے لیے مسجد میں سے گزرنا ہو ‘ جبکہ بعض نے اس سے مراد سفر لیا ہے۔- (وَاِنْ کُنْتُمْ مَّرْآٰی اَوْ عَلٰی سَفَرٍ ) - آدمی کو تیز بخار ہے یا کوئی اور تکلیف ہے جس میں غسل کرنا مضر ثابت ہوسکتا ہے تو تیمم کی اجازت ہے۔ اسی طرح کوئی شخص سفر میں ہے اور اسے پانی دستیاب نہیں ہے تو وہ تیمم کرلے۔- (اَوْ جَآءَ اَحَدٌ مِّنْکُمْ مِّنَ الْغَآءِطِ ) (اَوْ لٰمَسْتُمُ النِّسَآءَ ) (فَلَمْ تَجِدُوْا مَآءً ) (فَتَیَمَّمُوْا صَعِیْدًا طَیِّبًا) - یعنی وہ تمام صورتیں جن میں غسل یا وضو واجب ہے ‘ ان میں اگر بیماری غسل سے مانع ہو ‘ حالت سفر میں نہانا ممکن نہ ہو ‘ قضائے حاجت یا عورتوں سے مباشرت کے بعد پانی دستیاب نہ ہو تو پاک مٹی سے تیمم کرلیا جائے۔ - (فَامْسَحُوْا بِوُجُوْہِکُمْ وَاَیْدِیْکُمْ ط) (اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَفُوًّا غَفُوْرًا )- حضرت عائشہ (رض) سے لیلۃ القدر کی جو دعا مروی ہے اس میں یہی لفظ آیا ہے : (اَللّٰھُمَّ اِنَّکَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّیْ ) اے اللہ ‘ تو معاف فرمانے والا ہے ‘ معافی کو پسند کرتا ہے ‘ پس تو مجھے معاف فرما دے “- سورۃ النساء کی ان تینتالیس آیات میں وہی سورة البقرۃ کا انداز ہے کہ شریعت کے احکام مختلف گوشوں میں ‘ مختلف پہلوؤں سے بیان ہوئے۔ عبادات کے ضمن میں تیمم کا ذکر آگیا ‘ وراثت کا قانون پوری تفصیل سے بیان ہوگیا اور معاشرے میں جنسی بےراہ روی کی روک تھام کے لیے احکام آگئے ‘ تاکہ ایک پاکیزہ اور صالح معاشرہ وجود میں آئے جہاں ایک مستحکم خاندانی نظام ہو۔ اب یہاں ایک مختصر سا خطاب اہل کتاب کے بارے میں آ رہا ہے۔
سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :65 یہ شراب کے متعلق دوسرا حکم ہے ۔ پہلا حکم وہ تھا جو سورہ بقرہ ( آیت ۲١۹ ) میں گزرا ۔ اس میں صرف یہ ظاہر کر کے چھوڑ دیا گیا تھا کہ شراب بری چیز ہے ، اللہ کو پسند نہیں ۔ چنانچہ مسلمانوں میں سے ایک گروہ اس کے بعد ہی شراب سے پرہیز کرنے لگا تھا ۔ مگر بہت سے لوگ اسے بدستور استعمال کرتے رہے تھے حتّٰی کہ بسااوقات نشے کی حالت ہی میں نماز پڑھنے کھڑے ہو جاتے تھے اور کچھ کا کچھ پڑھ جاتے تھے ۔ غالباً ٤ہجری کی ابتدا میں یہ دوسرا حکم آیا اور نشے میں نماز پڑھنے کی ممانعت کردی گئی ۔ اس کا اثر یہ ہوا کہ لوگوں نے اپنے شراب پینے کے اوقات بدل دیے اور ایسے اوقات میں شراب پینی چھوڑ دی جن میں یہ اندیشہ ہوتا کہ کہیں نشہ ہی کی حالت میں نماز کا وقت نہ آجائے ۔ اس کے کچھ مدت بعد شراب کی قطعی حرمت کا وہ حکم آیا جو سورہ مائدہ آیت ۹۰ ۔ ۹١ میں ہے ۔ یہاں یہ بات بھی ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ آیت میں سکر یعنی نشہ کا لفظ ہے ۔ اس لیے یہ حکم صرف شراب کے لیے خاص نہ تھا بلکہ ہر نشہ آور چیز کے لیے عام تھا ۔ اور اب بھی اس کا حکم باقی ہے ۔ اگرچہ نشہ آور اشیاء کا استعمال بجائے خود حرام ہے ، لیکن نشہ کی حالت میں نماز پڑھنا دوہرا عظیم تر گناہ ہے ۔ سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :66 اسی بنا پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہدایت فرمائی ہے کہ جب کسی شخص پر نیند کا غلبہ ہو رہا ہو اور وہ نماز پڑھنے میں بار بار اونگھ جاتا ہو تو اسے نماز چھوڑ کر سو جانا چاہیے ۔ بعض لوگ اس آیت سے یہ استدلال کرتے ہیں کہ جو شخص نماز کی عربی عبارات کا مطلب نہیں سمجھتا اس کی نماز نہیں ہوتی ۔ لیکن علاوہ اس کے کہ یہ ایک بے جا تشدد ہے ، خود قرآن کے الفاط بھی اس کا ساتھ نہیں دیتے ۔ قرآن میں حتٰی تفقھوا یا حتٰی تفھمُوا ما تقولون بلکہ حتٰی تعلموا ماتقولون فرمایا ہے ۔ یعنی نماز میں آدمی کو اتنا ہوش رہنا چاہیے کہ وہ یہ جانے کہ وہ کیا چیز اپنی زبان سے ادا کر رہا ہے ۔ ایسا نہ ہو کہ وہ کھڑا تو ہو نماز پڑھنے اور شروع کر دے کوئی غزل ۔ سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :67 جنابت کے اصل معنی دوری اور بیگانگی کے ہیں ۔ اسی سے لفظ اجنبی نکلا ہے ۔ اصطلاح شرع میں جنابت سے مراد وہ نجاست ہے جو قضاء شہوت سے یا خواب میں مادہ خارج ہونے سے لاحق ہوتی ہے ، کیونکہ اس کی وجہ سے آدمی طہارت سے بیگانہ ہو جاتا ہے ۔ سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :68 فقہاء اور مفسرین میں سے ایک گروہ نے اس آیت کا مفہوم یہ سمجھا ہے کہ جنابت کی حالت میں مسجد میں نہ جانا چاہیے اِلّا یہ کہ کسی کام کے لیے مسجد میں سے گزرنا ہو ۔ اسی رائے کو عبداللہ بن مسعود ، انس بن مالک ، حسن بصری اور ابراہیم نَخعَی وغیرہ حضرات نے اختیار کیا ہے ۔ دوسرا گروہ اس سے سفر مراد لیتا ہے ۔ یعنی اگر آدمی حالت سفر میں ہو اور جنابت لاحق ہوجائے تو تیمم کیا جا سکتا ہے ۔ رہا مسجد کا معاملہ ، تو اس گروہ کی رائے میں جنبی کے لیے وضو کر کے مسجد میں بیٹھنا جائز ہے ۔ یہ رائے حضرت علی رضی اللہ عنہ ، ابن عباس رضی اللہ عنہ ، سعید بن جُبَیر اور بعض دوسرے حضرات نے اختیار فرمائی ہے ۔ اگرچہ اس امر میں قریب قریب سب کا اتفاق ہے کہ اگر آدمی حالت سفر میں ہو اور جنابت لاحق ہو جائے اور نہانا ممکن نہ ہو تو تیمم کر کے نماز پڑھ سکتا ہے ۔ لیکن پہلا گروہ اس مسئلہ کو حدیث سے اخذ کرتا ہے اور دوسرا گروہ اس روایت کی بنیاد قرآن کی مندرجہ بالا آیت پر رکھتا ہے ۔ سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :69 اس امر میں اختلاف ہے کہ لَمس یعنی چھُونے سے کیا مراد ہے ۔ حضرات علی ، ابن عباس ، ابو موسیٰ اشعری ، اُبَی ابنِ کعب ، سعید بن جُبَیر ، حَسَن بصری اور متعدد ائمہ کی رائے ہے کہ اس سے مراد مباشرت ہے اور اسی رائے کو امام ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب اور امام سُفیان ثوری نے اختیار کیا ہے ۔ بخلاف اس کے حضرت عبداللہ بن مسعود اور عبداللہ ابن عمر کی رائے ہے اور بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمر ابن خطاب کی بھی یہی رائے ہے کہ اس سے مراد چھونا یا ہاتھ لگانا ہے اور اسی رائے کو امام شافعی رحمہ اللہ نے اختیار کیا ہے ۔ بعض ائمہ نے بیچ کا مسلک بھی اختیار کیا ہے ۔ مثلاً امام مالک رحمہ اللہ کی رائے ہے کہ اگر عورت یا مرد ایک دوسرے کو جذبات شہوانی کے ساتھ ہاتھ لگائیں تو ان کا وضو ساقط ہو جائے گا اور نماز کے لیے انہیں نیا وضو کرنا ہوگا ، لیکن اگر جذبات شہوانی کے بغیر ایک کا جسم دوسرے سے مس ہو جائے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ۔ سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :70 حکم کی تفصیلی صورت یہ ہے کہ اگر آدمی بے وضو ہے یا اسے غسل کی حاجت ہے اور پانی نہیں ملتا تو تیمم کر کے نماز پڑھ سکتا ہے ۔ اگر مریض ہے اور غسل یا وضو کرنے سے اس کو نقصان کا اندیشہ ہے تو پانی موجود ہونے کے باوجود تیمم کی اجازت سے فائدہ اٹھا سکتا ہے ۔ تیمم کے معنی قصد کرنے کے ہیں ۔ مطلب یہ ہے کہ جب پانی نہ ملے یا پانی ہو اور اس کا استعمال ممکن نہ ہو تو پاک مٹی کا قصد کرو ۔ تیمم کے طریقے میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے ۔ ایک گروہ کے نزدیک اس کا طریقہ یہ ہے کہ ایک دفعہ مٹی پر ہاتھ مار کر منہ پر پھیر لیا جائے ، پھر دوسری دفعہ ہاتھ مار کر کہنیوں تک ہاتھوں پر پھیر لیا جائے ۔ امام ابو حنیفہ ، امام شافعی ، امام مالک اور اکثر فقہاء کا یہی مذہب ہے ، اور صحابہ و تابعین میں سے حضرت علی ، عبداللہ بن عمر ، حَسَن بصری ، شَعبِی اور سالم بن عبداللہ وغیرہم اس کے قائل تھے ۔ دوسرے گروہ کے نزدیک صرف ایک دفعہ ہی ہاتھ مارنا کافی ہے ۔ وہی ہاتھ منہ پر بھی پھیر لیا جائے اور اسی کو کلائی تک ہاتھوں پر بھی پھیر لیا جائے ۔ کہنیوں تک مسح کرنے کی ضرورت نہیں ۔ یہ عطاء اور مکحول اور اوزاعی اور احمد ابن حنبل رحمہم اللہ کا مذہب ہے اور عموماً حضرات اہل حدیث اسی کے قائل ہیں ۔ تیمم کے لیے ضروری نہیں کہ زمین ہی پر ہاتھ مارا جائے ۔ اس غرض کے لیے ہر گرد آلود چیز اور ہر وہ چیز جو خشک اجزاء ارضی پر مشتمل ہو کافی ہے ۔ بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ اس طرح مٹی پر ہاتھ مار کر منہ اور ہاتھوں پر پھیر لینے سے آخر طہارت کس طرح حاصل ہو سکتی ہے ۔ لیکن درحقیقت یہ آدمی میں طہارت کی حس اور نماز کا احترام قائم رکھنے کے لیے ایک اہم نفسیاتی تدبیر ہے ۔ اس سے فائدہ یہ ہے کہ آدمی خواہ کتنی ہی مدت تک پانی استعمال کرنے پر قادر نہ ہو ، بہرحال اس کے اندر طہارت کا احساس برقرار رہے گا ، پاکیزگی کے جو قوانین شریعت میں مقرر کر دیے گئے ہیں ان کی پابندی وہ برابر کرتا رہے گا ، اور اس کے ذہن سے قابل نماز ہونے کی حالت اور قابل نماز نہ ہونے کی حالت کا فرق و امتیاز کبھی محو نہ ہو سکے گا ۔
32: یہ اس وقت کی بات ہے جب شراب کی حرمت کا حکم نہیں آیا تھا ؛ لیکن اسی آیت کے ذریعے یہ اشارہ دے دیا گیا کہ وہ کوئی اچھی چیز نہیں ہے ؛ کیونکہ اس کو پینے کی حالت میں نماز پڑھنے سے روکا گیا ہے، لہذا کسی وقت اس کو بالکل حرام بھی کیا جاسکتا ہے۔