قرآن حکیم کا اعجاز تاثیر اللہ عزوجل یہود و نصاریٰ کو حکم دیتا ہے کہ میں نے اپنی زبردست کتاب اپنے بہترین نبی کے ساتھ نازل فرمائی ہے جس میں خود تمہاری اپنی کتاب کی تصدیق بھی ہے اس پر ایمان لاؤ اس سے پہلے کہ ہم تمہاری صورتیں مسخ کر دیں یعنی منہ بگاڑ کر دیں آنکھیں بجائے ادھر کے ادھر ہو جائیں ، یا یہ مطلب کہ تمہارے چہرے مٹادیں آنکھیں کان ناک سب مٹ جائیں پھر یہ مسخ چہرہ بھی الٹا ہو جائے ۔ یہ عذاب ان کے بد اعمال کا بدلہ ہے یہی وجہ ہے کہ یہ حق سے ہٹ کر باطل کی طرف ہدایت سے پھر کر ضلالت کی جانب بڑھے چلے جا رہے ہیں بایں ہمہ اللہ تعالیٰ انہیں احساس دلا رہے ہیں کہ اب بھی باز آ جاؤ اور اپنے سے پہلے ایسی حرکت کرنے والوں کی صورتوں کے مسخ ہونے کو یاد کرو کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کی طرح تمہارا منہ الٹ دوں گا تاکہ تمہیں پچھلے پیروں چلنا پڑے تمہاری آنکھیں گدی کی طرف کردوں اور اسی جیسی تفسیر بعض نے ( اِنَّا جَعَلْنَا فِيْٓ اَعْنَاقِهِمْ اَغْلٰلًا فَهِىَ اِلَى الْاَذْقَانِ فَهُمْ مُّقْمَحُوْنَ ) 36 ۔ یس:8 ) کی آیت میں بھی کی ہے غرض یہ ان کی گمراہی اور ہدایت سے دور پڑ جانے کی بری مثال بیان ہوئی ہے ، حضرت مجاہد رحمتہ اللہ علیہ سے مروی ہے کہ مطلب یہ ہے کہ ہم تمہیں سچ مچ حق کے راستے سے ہٹا دیں اور گمراہی کی طرف متوجہ کر دیں ، ہم تمہیں کافر بنا دیں اور تمہارے چہرے بندروں جیسے کر دیں ، ابو زید رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ لوٹا دینا یہ تھا کہ ارض حجاز سے بلاد شام میں پہنچا دیا ۔ یہ بھی مذکور ہے کہ اسی آیت کو سن کر حضرت کعب احبار رضی اللہ تعالیٰ عنہ مشرف با اسلام ہوئے تھے ۔ ابن جریر میں ہے کہ حضرت ابراہیم رحمتہ اللہ علیہ کے سامنے حضرت کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اسلام کا تذکرہ ہوا تو آپ نے فرمایا حضرت کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں مسلمان ہوئے یہ بیت المقدس جاتے ہوئے مدینہ میں آئے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کے پاس گئے اور فرمایا اے کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ مسلمان ہو جاؤ انہوں نے جواب دیا تم تو قرآن میں پڑھ چکے ہو کہ جنہیں توراۃ کا حامل بنایا گیا انہوں نے اسے کما حقہ قبول نہ کیا ۔ ان کی مثال اس گدھے کی سی ہے جو بوجھ لادے ہوئے ہو اور یہ بھی تم جانتے ہو کہ میں بھی ان لوگوں میں سے ہوں جو توراۃ اٹھوائے گئے اس پر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسے چھوڑ دیا یہ یہاں سے چل کر حمص پہنچے وہاں سنا کہ ایک شخص جو ان کے گھرانے میں سے تھا اس آیت کی تلاوت کر رہا ہے جب اس نے آیت ختم کی انہیں ڈر لگنے لگا کہ کہیں سچ مچ اس آیت کی وعید مجھ پر صادق نہ آ جائے اور میرا منہ مسخ کر پلٹ نہ جائے یہ جھٹ سے کہنے لگے یارب اسلمت میرے اللہ میں ایمان لایا ۔ پھر حمص سے ہی واپس اپنے وطن یمن میں آئے اور یہاں سے اپنے تمام گھر والوں کو لے کر سارے کنبے سمیت مسلمان ہوگئے ، ابن ابی حاتم میں حضرت کعب رضی اللہ عنہ کے اسلام کا واقعہ اس طرح مروی ہے کہ ان کے استاد ابو مسلم جلیلی ان کے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہونے میں دیر لگانے کی وجہ سے ہر وقت انہیں ملامت کرتے رہتے تھے پھر انہیں بھیجا کہ دیکھیں کہ آپ وہی پیغمبر ہیں جن کی خوشخبری اور اوصاف توراۃ میں ہیں؟ یہ آئے تو فرماتے ہیں جب میں مدینہ شریف پہنچا تو ایک شخص قرآن کریم کی اس آیت کی تلاوت کر رہا تھا کہ اے اہل کتاب ہماری نازل کردہ کتاب تمہارے پاس موجود کتاب کی تصدیق کرتی ہے بہتر ہے کہ اس پر اس سے پہلے ایمان لاؤ کہ ہم تمہارے منہ بگاڑ دیں اور انہیں الٹا کردیں ۔ میں چونک اٹھا اور جلدی جلدی غسل کرنے بیٹھ گیا اور اپنے چہرے پر ہاتھ پھیرتا جاتا تھا کہ کہیں مجھے ایمان لانے میں دیر نہ لگ جائے اور میرا چہرہ الٹا نہ ہو جائے ۔ پھر میں بہت جلد آ کر مسلمان ہو گیا ، اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں یا ہم ان پر لعنت کریں جیسے کہ ہفتہ والوں پر ہم نے لعنت نازل کی یعنی جن لوگوں نے ہفتہ والے دن حیلے کے لئے شکار کھیلا حالانکہ انہیں اس کام سے منع کیا گیا تھا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ بندر اور سور بنا دئیے گئے ان کا مفصل واقعہ سورۃ اعراف میں آئے گا انشا اللہ تعالیٰ ارشاد ہوتا ہے الٰہی کام پورے ہو کر ہی رہتے ہیں وہ جب کوئی حکم کر دے تو کوئی نہیں جو اس کی مخالفت یا ممانعت کر سکے ۔ پھر خبر دیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے ساتھ شرک کئے جانے کے گناہ کو نہیں بخشتا ، یعنی جو شخص اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملاقات کرے کہ وہ مشرک ہو اس پر بخشش بہت سی حدیثیں ہیں ہم یہاں بقدر آسانی ذکر کرتے ہیں ۔ گناہوں کی تین دیوان پہلی حدیث بحوالہ مسند احمد ۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک گناہوں کے تین دیوان ہیں ، ایک تو وہ جس کی اللہ تعالیٰ کچھ پرواہ نہیں کرتا دوسرا وہ جس میں اللہ تعالیٰ کچھ نہیں چھوڑتا ۔ تیسرا وہ جسے اللہ تعالیٰ ہرگز نہیں بخشتا ۔ پس جسے وہ بخشتا نہیں وہ شرک ہے اللہ عزوجل خود فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے ساتھ شریک کئے جانے کو معاف نہیں فرماتا اور جگہ ارشاد ہے جو شخص اللہ کے ساتھ شریک کر لے ، اللہ اس پر جنت کو حرام کر دیتا ہے ۔ اور جس دیوان میں اللہ کے ہاں کوئی وقعت نہیں وہ بندے کا اپنی جان پر ظلم کرنا ہے اور جس کا تعلق اس سے اور اللہ کی ذات سے ہے مثلاً کسی دن کا روزہ جسے اس نے چھوڑ دیا یا نماز چھوڑ دی تو اللہ تعالیٰ اسے بخش دے گا اور جس دیوان ( اعمالنامہ ) میں سے موجود کسی فرد کو اللہ نہیں چھوڑتا وہ بندوں کے آپس میں مظالم ہیں جن کا بدلہ اور قصاص ضروری ہے ۔ دوسری حدیث بحوالہ مسند بزار ۔ الفاظ کے ہیر پھیر کے ساتھ مطلب وہی ہے ۔ تیسری حدیث بحوالہ مسند احمد ممکن ہے اللہ تعالیٰ ہر گناہ کو بخش دے مگر وہ شخص جو کفر کی حالت میں مرا دوسرا وہ جس نے ایمان دار کو جان بوجھ کر قتل کیا ۔ چوتھی حدیث بحوالہ مسند احمد ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے میرے بندے تو جب تک میری عبادت کرتا رہے گا اور مجھ سے نیک امید رکھے گا میں بھی تیری جتنی خطائیں ہیں انہیں معاف فرماتا رہوں گا میرے بندے اگر تو ساری زمین بھر کی خطائیں بھی لے کر میرے پاس آئے گا تو میں بھی زمین کی وسعتوں جتنی مغفرت کے ساتھ تجھ سے ملوں گا بشرطیکہ تو نے میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا ہو ۔ پانچویں حدیث بحوالہ مسند احمد ۔ جو بندہ لا الہ الا اللہ کہے پھر اسی پر اس کا انتقال ہو وہ ضرور جنت میں جائے گا یہ سن کر حضرت ابو ذررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دریافت کیا کہ اگر اس نے زنا اور چوری بھی کیا ہو آپ نے فرمایا گو اس نے زناکاری اور چوری بھی کی ہو تین مرتبہ یہی سوال جواب ہوا ۔ چوتھے سوال پر آپ نے فرمایا چاہے ابو ذر کی ناک خاک آلود ہو پس حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وہاں سے اپنی چادر گھسیٹتے ہوئے یہ فرماتے ہوئے نکلے کہ چاہے ابو ذر کی ناک خاک آلود ہو اور اس کے بعد جب کبھی آپ یہ حدیث بیان فرماتے یہ جملہ ضروری کہتے ۔ یہ حدیث دوسری سند سے قدرے زیادتی کے ساتھ بھی مروی ہے ، اس میں ہے حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں میں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ مدینہ کے میدان میں چلا جا رہا تھا احد کی طرف ہماری نگاہیں تھیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ابو ذر میں کہا لبیک یارسول اللہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سنو میرے پاس احد پہاڑ کے برابر سونا ہو تو میں نہ چاہوں گا کہ تیسری شام کو اس میں سے کچھ بھی باقی رہ جائے بجز اس دینار کے جسے میں قرضہ چکا نے کے لئے رکھ لوں باقی تمام مال میں اس طرح راہ للہ اس کے بندوں کو دے ڈالوں اور آپ نے دائیں بائیں اور سامنے لپیں پھینکیں ۔ پھر کچھ دیر ہم چلتے رہے پھر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے پکارا اور فرمایا جن کے پاس یہاں زیادتی ہے وہی وہاں کمی والے ہوں گے مگر جو اس طرح اور اس طرح کرے یعنی آپ نے اپنے دائیں سامنے اور بائیں لپیں ( ہتھیلیاں ) بھر کر دیتے ہوئے اس عمل کی وضاحت کی ، پھر کچھ دیر چلنے کے بعد فرمایا ابو ذر میں ابھی آتا ہوں تم یہیں ٹھہرو آپ تشریف لے گئے اور میری نگاہوں سے اوجھل ہوگئے اور مجھے آوازیں سنائی دینے لگیں دل بےچین ہو گیا کہ کہیں تنہائی میں کوئی دشمن آ گیا ہو میں نے قصد کیا کہ وہاں پہنچوں لیکن ساتھ ہی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمان یاد آ گیا کہ میں جب تک نہ آؤں تم یہیں ٹھہرے رہنا چنانچہ میں ٹھہرا رہا یہاں تک کہ آپ تشریف لے آئے تو میں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ آوازیں کیسی آ رہی تھیں آپ نے فرمایا میرے پاس حضرت جبرائیل آئے تھے اور فرما رہے تھے کہ آپ کی امت میں سے وفات پانے والا اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرے تو وہ جنت میں جائے گا میں نے کہا گو زنا اور چوری بھی اس سے سرزد ہوئی ہو تو فرمایا ہاں گو زنا اور چوری بھی ہوئی ہو ، یہ حدیث بخاری مسلم میں بھی ہے کہ حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں رات کے وقت نکلا دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تنہا تشریف لے جا رہے ہیں تو مجھے خیال ہوا کہ شاید اس وقت آپ کسی کو ساتھ لے جانا نہیں چاہتے تو میں چاند کی چاندنی میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے ہو لیا آپ نے جب مڑ کر مجھے دیکھا تو پوچھا کون ہے میں نے کہا ابو ذر اللہ مجھے آپ پر سے قربان کر دے تو آپ نے فرمایا آؤ میرے ساتھ چلو تھوڑی دیر ہم چلتے رہے پھر آپ نے فرمایا زیادتی والے ہی قیامت کے دن کمی والے ہوں گے مگر وہ جنہیں اللہ تعالیٰ نے مال دیا پھر وہ دائیں بائیں آئے پیچھے نیک کاموں میں خرچ کرتے رہے پھر کچھ دیر چلنے کے بعد آپ نے مجھے ایک جگہ بٹھا کر جس کے ارد گرد پتھر تھے فرمایا میری واپس تک یہیں بیٹھے رہو پھر آپ آگے نکل گئے یہاں تک کہ میری نظر سے پوشیدہ ہوگئے آپ کو زیادہ دیر لگ گئی پھر میں نے دیکھا کہ آپ تشریف لا رہے ہیں اور زبان مبارک سے فرماتے آ رہے ہیں گو زنا کیا ہو یا چوری کی ہو جب میرے پاس پہنچے تو میں رک نہ سکا پوچھا کہ اے نبی اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ مجھے آپ پر قربان کرے اس میدان کے کنارے آپ کس سے باتیں کر رہے تھے میں نے سنا کوئی آپ کو جواب بھی دے رہا تھا آپ نے فرمایا وہ جبرائیل تھے یہاں میرے پاس آئے اور فرمایا اپنی امت کو خوش خبری سنا دو کہ جو میرے اور اللہ کے ساتھ اس نے کسی کو شریک نہ کیا وہ جنتی ہو گا میں نے کہا اے جبرائیل گو اس نے چوری کی ہو اور زنا کیا ہو فرمایا ہاں میں نے پھر یہی سوال کیا سوال کیا جواب دیا ہاں میں نے پھر یہی فرمایا ہاں اور اگرچہ اس نے شراب پی ہو ۔ چھٹی حدیث بحوالہ مسند عبد بن حمید ایک شخص حضور کے پاس آیا ، اور کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جنت واجب کر دینے والی چیزیں کیا ہیں؟ آپ نے فرمایا جو شخص بغیر شرک کئے مرا اس کے لئے جنت واجب ہے اور جو شرک کرتے ہوئے مرا اس کے لئے جہنم واجب ہے ، یہی حدیث اور طریق سے مروی ہے جس میں ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک نہ کرتا ہوا مرا اس کے لئے بخشش حلال ہے اگر اللہ چاہے اسے عذاب کرے اگر چاہے بخش دے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کرنے والے کو نہیں بخشتا اس کے سوا جسے چاہے بخش دے ( ابن ابی حاتم ) اور سند سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا بندے پر مغفرت ہمیشہ رہتی ہے جب تک کہ پردے نہ پڑ جائیں دریافت کیا گیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پردے پڑ جانا کیا ہے؟ فرمایا شرک ، جو شخص شرک نہ کرتا ہو اور اللہ تعالیٰ سے ملاقات کرے اس کے لئے بخشش الٰہی حلال ہو گئی اگر چاہیے عذاب کرے اگر چاہے بخش دے پھر آپ نے ( آیت ان اللہ لا یغفر الخ ، ) تلاوت فرمائی ( مسند ابو یعلیٰ ) ساتویں حدیث بحوالہ مسند احمد ، جو شخص مرے اللہ کے ساتھ شریک نہ کرتا ہو وہ جنت میں داخل ہو گا آتھویں حدیث بحوالہ مسند احمد ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک مرتبہ صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آئے اور فرمایا تمہارے رب عزوجل نے مجھے اختیار دیا کہ میری امت میں سے ستر ہزار کا بےحساب جنت میں جانا پسند کروں یا اللہ تعالیٰ کے پاس جو چیز میرے لئے میری امت کی بابت پوشیدہ محفوظ ہے اسے قبول کرلوں ، تو بعض صحابہ نے کہا کیا اللہ تعالیٰ آپ کے لئے یہ محفوظ چیز بچا کر بھی رکھے گا ؟ آپ یہ سن کر اندر تشریف لے گئے پھر تکبیر پڑھتے ہوئے باہر آئے اور فرمانے لگے میرے رب نے مجھے ہر ہزار کے ساتھ ستر ہزار کو جنت عطا کرنا مزید عطا فرمایا اور وہ پوشیدہ حصہ بھی ، حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب یہ حدیث بیان فرما چکے تو حضرت ابو رہم نے سوال کیا کہ وہ پوشیدہ محفوظ کیا ہے؟ اس پر لوگوں نے انہیں کچھ کچھ کہنا شروع کر دیا کہ کہاں تم اور کہاں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے اختیار کردہ چیز؟ حضرت ایوب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا سنو جہاں تک ہمارا گمان ہے جو گمان یقین کے قریب ہے یہ ہے کہ وہ چیز جنت میں جانا ہے ہر اس شخص کا جو سچے دل سے گواہی دے کہ اللہ ایک ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں ۔ نویں حدیث بحوالہ ابن ابی حاتم ۔ ایک شخص حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرا بھتیجا حرام سے باز نہیں آتا آپ نے فرمایا اس کی دینداری کیسی ہے ، کہا نمازی ہے اور توحید والا ہے آپ نے فرمایا جاؤ اور اس سے اس کا دین بطور سبہ کے طلب کرو اگر انکار کرے تو اس سے خرید لو ، اس نے جا کر اس سے طلب کیا تو اس نے انکار کر دیا اس نے آ کر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خبر دی تو آپ نے فرمایا میں نے اسے اپنے دین پر چمٹا ہوا پایا اس پر ( آیت ان اللہ لا یغفرالخ ) نازل ہوئی ۔ دسویں حدیث بحوالہ حافظ یعلیٰ ایک شخص رسول کے پاس آیا اور کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں کوئی حاجت یا حاجت والا نہیں چھوڑا یعنی زندگی میں سب کچھ کر چکا آپ نے فرمایا کیا تو یہ گواہی نہیں دیتا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے رسول ہیں ، تین مرتبہ اس نے کہا ہاں آپ نے فرمایا یہ ان سب پر غالب آ جائے گا ۔ گیارہویں حدیث بحوالہ مسند احمد ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ضخم بن جوش یمامی رحمتہ اللہ علیہ سے کہا کہ اے یمامی کسی شخص سے ہرگز یہ نہ کہنا کہ اللہ تعالیٰ تجھے نہیں بخشے گا یا تجھے جنت میں داخل نہ کرے گا ، یمامی رحمتہ اللہ علیہ نے کہا حضرت یہ بات تو ہم لوگ اپنے بھائیوں اور دوستوں سے بھی غصے غصے میں کہہ جاتے ہیں آپ نے فرمایا خبردار ہرگز نہ کہنا سنو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے آپ نے فرمایا بنی اسرائیل میں دو شخص تھے ایک تو عبادت میں بہت چست چالاک اور دوسرا اپنی جان پر زیادتی کرنے والا اور دونوں میں دوستانہ اور بھائی چارہ تھا عابد بسا اوقات اس دوسرے کو کسی نہ کسی گناہ میں دیکھتا رہتا تھا اے شخص باز رہ جواب دیتا تو مجھے میرے رب پر چھوڑ دے کیا تو مجھ پر نگہبان بنا کر بھیجا گیا ہے ؟ ایک مرتبہ عابد نے دیکھا کہ وہ پھر کسی گناہ کے کام کو کر رہا ہے جو گناہ اسے بہت بڑا معلوم ہوا تو کہا افسوس تجھ پر باز آ اس نے وہی جواب دیا تو عابد نے کہا اللہ کی قسم اللہ تجھے ہرگز نہ بخشے گا یا جنت نے دے گا اللہ تعالیٰ نے ان کے پاس فرشتہ بھیجا جس نے ان کی روحیں قبض کرلیں جب دونوں اللہ تعالیٰ کے ہاں جمع ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے اس گنہگار سے فرمایا جا اور میری رحمت کی بنا پر جنت میں داخل ہو جا اور اس عابد سے فرمایا کیا تجھے حقیقی علم تھا ؟ کیا تو میری چیز پر قادر تھا ؟ اسے جہنم کی طرف لے جاؤ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بیان فرمایا اس کی قسم جس کے ہاتھ میں ابو القاسم کی جان ہے اس نے ایک کلمہ زبان سے ایسا نکال دیا جس نے اس کی دنیا اور آخرت برباد کر دی ۔ بارہویں حدیث بحوالہ طبرانی جس نے اس بات کا یقین کر لیا کہ میں گناہوں کی بخشش پر قادر ہوں تو میں اسے بخش ہی دیتا ہوں اور کوئی پرواہ نہیں کرتا جب تک کہ وہ میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتے ۔ تیر ہویں حدیث بحوالہ بزار ، ابو یعلیٰ جس عمل پر اللہ تعالیٰ نے ثواب کا وعدہ کیا ہے اسے تو مالک ضرور پورا فرمائے گا اور جس پر سزا کا فرمایا ہے وہ اس کے اختیار میں ہے چاہے بخش دے یا سزا دے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ہم صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا قاتل کے بارے میں اور یتیم کا مال کھا جانے والے کے باررے میں اور پاک دامن عورتوں پر تہمت لگانے والے کے بارے میں اور جھوٹی گواہی دینے والے کے بارے میں کوئی شک و شبہ ہی نہیں کرتے تھے یہاں تک کہ ( آیت ان اللّٰہ یغفر الخ ، ) اتری اور اصحاب رسول گمراہی سے رک گئے ( ابن ابی حاتم ) ابن جریر کی یہ روایت اس طرح پر ہے کہ جن گناہوں پر جہنم کا ذکر کتاب اللہ میں ہے اسے کرنے والے کے جہنمی ہونے میں ہمیں کوئی شک ہی نہیں تھا یہاں تک کہ ہم پر یہ آیت اتری جب ہم نے اسے سنا تو ہم شہادت کے لئے رک گئے اور تمام امور اللہ تعالیٰ کی طرف سونپ دئیے ۔ بزار میں آپ ہی کی ایک روایت ہے کہ کبیرہ گناہ کرنے والوں کے لئے استغفار کرنے سے ہم رکے ہوئے تھے یہاں تک کہ ہم نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ آیت سنی اور آپ نے یہ بھی فرمایا کہ میں نے اپنی شفاعت کو اپنی امت میں سے کبیرہ گناہ کرنے والوں کے لئے موخر کر رکھا ہے ابو جعفر رازی کی روایت میں آپ کا یہ فرمان ہے کہ جب ( يٰعِبَادِيَ الَّذِيْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓي اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِ ) 39 ۔ الزمر:53 ) نازل ہوئی یعنی اے میرے وہ بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے تم میری رحمت سے مایوس نہ ہو جاؤ تو ایک شخص نے کھڑے ہو کر پوچھا حضور شرک کرنے والا بھی ؟ آپ کو اس کا یہ سوال ناپسند آیا پھر آپ نے ان ( آیت اللہ لا یغفر الخ ، ) پڑھ کر سنائی ۔ سورۃ تنزیل کی یہ آیت مشروط ہے توبہ کے ساتھ پس جو شخص جس گناہ سے توبہ کرے اللہ اس کی طرف رجوع کرتا ہے گو بار بار کرے پس مایوس نہ ہونے کی آیت میں توبہ کی شرط ضرور ہے ۔ ورنہ اس میں شرک بھی آ جائے گا اور پھر مطلب صحیح نہ ہو گا کیونکہ اس آیت میں وضاحت کے ساتھ یہاں موجود ہے کہ اللہ کے ساتھ شرک کرنے والے کی بخشش نہیں ہے ، ہاں اس کے سوا جسے چاہے یعنی اگر اس نے توبہ بھی نہ کی ہو اس مطلب کے ساتھ اس آیت میں جو امید دلانے والی ہے اور زیادہ امید کی آس پیدا ہو جاتی ہے واللّٰہ اعلم ۔ پھر فرماتا ہے اللہ کے ساتھ جو شرک کرے اس نے بڑے گناہ کا افترا باندھا ، جیسے اور آیت میں ہے شرک بہت بڑا ظلم ہے بخاری مسلم میں حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہا سب سے بڑا گناہ کیا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں تمہیں سب سے بڑا کبیرہ گناہ بتاتا ہوں وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک کرنا ہے پھر آپ نے اسی آیت کا یہ آخری حصہ تلاوت فرمایا پھر ماں باپ کی نافرمانی کرنا پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی کہ ( اَنِ اشْكُرْ لِيْ وَلِوَالِدَيْكَ ۭ اِلَيَّ الْمَصِيْرُ ) 31 ۔ لقمان:14 ) میرا شکر کر اور اپنے ماں باپ کا شکریہ کر میری طرف لوٹنا ہے ۔
47۔ 1 یعنی اگر اللہ چاہے تو تمہیں تمہارے کرتوتوں کی پاداش میں یہ سزا دے سکتا ہے۔ 47۔ 2 یہ قصہ سورة اعراف میں آئے گا، کچھ اشارہ پہلے بھی گزر چکا ہے۔ یعنی تم بھی ان کی طرح ملعون قرار پاسکتے ہو۔ 47۔ 3 یعنی جب وہ کسی بات کا حکم کر دے تو نہ کوئی اس کی مخالفت کرسکتا ہے اور نہ اسے روک ہی سکتا ہے۔
[٧٩] یعنی تمہارے جرائم اتنے شدید ہوچکے ہیں کہ تمہیں وہی سزا دی جانی چاہیے جو اصحاب سبت کو دی گئی تھی۔ یا تو تمہاری شکلیں یوں مسخ کردی جائیں کہ تمہارے چہرے پشتوں کی طرف موڑ دیئے جائیں یا پھر تمہیں بھی بندر بنادیا جائے۔ لہذا ان کے لیے بہتر یہی ہے کہ کسی ایسی ذلت کے مسلط ہونے سے پہلے ہی ایمان لے آئیں۔- لفظی اعتبار سے تو (فَنَرُدَّھَا عَلٰٓي اَدْبَارِھَآ 47) 4 ۔ النسآء :47) کا ظاہری مفہوم وہی ہے جو مذکور ہوا۔ تاہم یہ الفاظ مح اور تاً بھی استعمال ہوتے ہیں اس صورت میں اس کا معنی یہ ہوگا کہ جو اقبال اور ترقی ہم نے تمہیں دے رکھی تھی اسے الٹ کر تمہیں قعر مذلت میں دھکیل دیں گے اور جس غلامی اور اسیری کے ایام تم پہلے دیکھ چکے ہو اسی کی طرف لوٹا دیں گے اور عرب سے نکال کر پھر سے تمہیں بےسرو سامانی اور ذلت کی حالت میں ملک شام کی طرف لوٹا دیں گے گویا یہ ایک پیشین گوئی تھی جو دور نبوی اور پھر عہد فاروقی میں حرف بحرف پوری ہوگئی۔ جب یہ لوگ مدینہ سے جلاوطن کیے گئے تھے تو اپنے چولہے چکی تک اپنے سروں پر اٹھائے انہیں وہاں سے نکلنا پڑا۔- اس آیت میں دو طرح کے متبادل عذابوں کا ذکر ہے یعنی یا تو ہم تمہیں پہلی سی خستہ حالی اور غلامی و رسوائی کی حالت میں لوٹا دیں گے یا پھر ایسا عذاب بھیج دیں گے جیسا کہ داؤد (علیہ السلام) کے زمانہ میں اصحاب سبت پر آیا تھا اور انہیں بندر بنادیا گیا تھا۔ چناچہ ان دونوں میں سے پہلی صورت کا عذاب ہی ان سرکش یہود مدینہ کے مقدر ہوا۔
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ ۔۔ : یہود کی شرارتوں کو بیان کرنے کے بعد اب اس آیت میں انھیں ایمان کی دعوت دی اور ہٹ دھرمی سے احکام خداوندی بجا نہ لانے پر وعید سنائی، کیونکہ یہود عالم تھے اور علم و معرفت کے باوجود ہٹ دھرمی سے کام لے رہے تھے۔ (رازی) اس وعید کا تعلق یا تو قیامت کے دن سے ہے، یا دنیا میں چہروں کو مسخ کردینا مراد ہے اور اصحاب سبت جیسی لعنت سے مراد یہ ہے کہ جس طرح ان کو بندر اور خنزیر بنادیا تھا، تمہیں بھی ویسا ہی بنادیا جائے۔ اصحاب سبت کے قصہ کے لیے دیکھیے سورة اعراف (١٦٣) اس وقت یہودی ہوں یا نصرانی یا مسلمان سب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت ہیں، کلمہ پڑھنے والے امت اجابت، یعنی قبول کرلینے والے ہیں اور دوسرے امت دعوت، یعنی جو آپ کی دعوت کے مخاطب ہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے : ( بَیْنَ یَدَیِ السَّاعَۃِ مَسْخٌ وَ خَسْفٌ وَ قَذْفٌ ) [ ابن ماجہ، الفتن، باب الخسوف : ٤٠٥٩، عن ابن مسعود (رض) ۔ صحیح الجامع للألبانی : ٢٨٥٦ ] ” قیامت سے پہلے شکلوں کا بدل جانا، زمین میں دھنس جانا اور پتھروں کی بارش کے واقعات رونما ہوں گے۔ “ اور سہل بن سعد (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( سَیَکُوْنُ فِیْ آخِرِ الزَّمَانِ خَسْفٌ وَ قَذْفٌ وَ مَسْخٌ، قِیْلَ وَ مَتٰی ذٰلِکَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ؟ قَالَ اِذَا ظَھَرَتِ الْمَعَازِفُ وَالْقَیْنَاتُ وَاسْتُحِلَّتِ الْخَمْرُ ) [ طبرانی، صحیح الجامع للألبانی : ٣٦٦٥ ] ” آخر زمانے میں زمین میں دھنسنا، پتھروں کی بارش اور شکلوں کا بدل جانا واقع ہوگا۔ “ پوچھا گیا : ” اے اللہ کے رسول یہ کب ہوگا ؟ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” جب باجے گاجے اور گانے والیاں عام ہوجائیں گی اور شراب حلال کرلی جائے گی۔ “ اب بھی اہل کتاب اور ان کی روش پر چلنے والے مسلمانوں کو ان عذابوں سے ڈر کر توبہ کرنی چاہیے۔
خلاصہ تفسیر - اے وہ لوگو جو کتاب (توریت) دیئے گئے ہو تم اس کتاب (یعنی قرآن پر ایمان لاؤ جس کو ہم نے نازل فرمایا ہے (اور تم کو اس پر ایمان لانے سے وحشت نہ ہونی چاہئے، کیونکہ ہم نے اس کو) ایسی حالت پر (نازل فرمایا) کہ وہ سچ بتلاتی ہے اس کتاب کو جو تمہارے پاس ہے (یعنی تمہاری اصل کتاب کے لئے وہ مصدق ہے، باقی تحریف کا حصہ اس سے الگ ہے سو تم قرآن پر) اس (امر غیر یقینی کے ہونے) سے پہلے پہلے (ایمان لے آؤ) کہ ہم (تمہارے) چہروں (پر کے نقش ونگار یعنی آنکھ ناک وغیرہ) کو بالکل مٹا ڈالیں اور ان (چہروں) کو الٹی جانب (یعنی گدی) کی طرح (صفا چٹ) بنادیں یا ان (ایمان نہ لانے والوں) پر ہم ایسی (خاص طور کی) لعنت کریں جیسی لعنت ان ہفتہ والوں پر کی تھی (جو یہود میں گزر چکے ہیں، جن کا ذکر سورة بقرہ میں آ چکا ہے، یعنی ان کی طرح ان کو بھی بندر کی شکل بنادیں) اور اللہ تعالیٰ کا (جو) حکم (صادر ہوجاتا ہے وہ) پورا ہی ہو کر رہتا ہے (سو اللہ تعالیٰ تمہارے ایمان نہ لانے پر اگر اس مسخ کا حکم کر دینگے پھر یہ ضروری ہوجائے گا، لہذا تم کو ڈرنا چاہئے اور ایمان لے آنا چاہئے۔ )- معارف و مسائل - فائدہ نمبر ١ (قولہ تعالیٰ فنردھا علی ادبارھا (الٹ دیں ان کو پیٹھ کی طرف) الٹنے میں دونوں احتمال ہیں کہ چہرے کے نقش و نگار کو مٹا کر پورے چہرے کو پیٹھ کی کی جانب الٹ دیں اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ چہرے کو گدی کی طرح سپاٹ کردیں، یعنی چہرے کو گدی کی طرف نہ پھیریں بلکہ گدی کے مانند سپاٹ اور صاف کردیں (مظہری، روح المعانی)- فائدہ نمبر ٢:۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ طمس و مسخ کب ہوا ؟ بعض نے کہا کہ یہ عذاب قیامت سے قبل یہود پر ہوگا، بعض نے کہا یہ عذاب اس لئے واقع نہیں ہوا کہ ان میں سے بعض لوگ ایمان لے آئے تھے۔- حضرت حکیم الامت تھانوی رحمتہ اللہ فرماتے ہیں کہ میرے نزدیک سرے سے وہ سوال ہی واقع نہیں ہوتا، کیونکہ قرآن میں کوئی لفظ ایسا نہیں ہے جس سے معلوم ہوا کہ اگر ایمان نہ لاؤ گے تو طمس و مسخ کا عذاب ضرور واقع ہوگا، بلکہ احتمال ہے، یعنی اگر ان کے جرم کو دیکھا جائے تو وہ اس سزا کے مستحق ہیں، اور اگر عذاب نہ دیں تو یہ ان کی رحمت ہے۔
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ اٰمِنُوْا بِمَا نَزَّلْنَا مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَكُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ نَّطْمِسَ وُجُوْہًا فَنَرُدَّھَا عَلٰٓي اَدْبَارِھَآ اَوْ نَلْعَنَھُمْ كَـمَا لَعَنَّآ اَصْحٰبَ السَّبْتِ ٠ۭ وَكَانَ اَمْرُ اللہِ مَفْعُوْلًا ٤٧- نزل - النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ.- يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] - ( ن ز ل ) النزول ( ض )- اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا - صدق - والصِّدْقُ : مطابقة القول الضّمير والمخبر عنه معا، ومتی انخرم شرط من ذلک لم يكن صِدْقاً تامّا، بل إمّا أن لا يوصف بالصّدق، وإمّا أن يوصف تارة بالصّدق، وتارة بالکذب علی نظرین مختلفین، کقول کافر إذا قال من غير اعتقاد : محمّد رسول الله، فإنّ هذا يصحّ أن يقال : صِدْقٌ ، لکون المخبر عنه كذلك، ويصحّ أن يقال : كذب، لمخالفة قوله ضمیره، وبالوجه الثاني إکذاب اللہ تعالیٰ المنافقین حيث قالوا : نَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَسُولُ اللَّهِ ... الآية [ المنافقون 1]- ( ص دق) الصدق ۔- الصدق کے معنی ہیں دل زبان کی ہم آہنگی اور بات کو نفس واقعہ کے مطابق ہونا ۔ اگر ان دونوں میں سے کوئی ایک شرط نہ پائی جائے تو کامل صدق باقی نہیں رہتا ایسی صورت میں باتو وہ کلام صدق کے ساتھ متصف ہی نہیں ہوگی اور یا وہ مختلف حیثیتوں سے کبھی صدق اور کبھی کذب کے ساتھ متصف ہوگی مثلا ایک کا فر جب اپنے ضمیر کے خلاف محمد رسول اللہ کہتا ہے تو اسے نفس واقعہ کے مطابق ہونے کی حیثیت سے صدق ( سچ) بھی کہہ سکتے ہیں اور اس کے دل زبان کے ہم آہنگ نہ ہونے کی وجہ سے کذب ( جھوٹ) بھی کہہ سکتے ہیں چناچہ اس دوسری حیثیت سے اللہ نے منافقین کو ان کے اس اقرار میں کہ : نَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَسُولُ اللَّهِ ... الآية [ المنافقون 1] ہم اقرار کرتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے پیغمبر ہیں ۔ جھوٹا قرار دیا ہے کیونکہ وہ اپنے ضمیر کے خلاف یہ بات کہد رہے تھے ۔- طمس - الطَّمْسُ : إزالةُ الأثرِ بالمحو . قال تعالی: فَإِذَا النُّجُومُ طُمِسَتْ [ المرسلات 8] ، رَبَّنَا اطْمِسْ عَلى أَمْوالِهِمْ [يونس 88] ، أي : أزل صورتها، وَلَوْ نَشاءُ لَطَمَسْنا عَلى أَعْيُنِهِمْ [يس 66] ، أي : أزلنا ضوأها وصورتها كما يُطْمَسُ الأثرُ ، وقوله : مِنْ قَبْلِ أَنْ نَطْمِسَ وُجُوهاً [ النساء 47] ، منهم من قال : عنی ذلک في الدّنيا، وهو أن يصير علی وجوههم الشّعر فتصیر صورهم کصورة القردة والکلاب «3» ، ومنهم من قال : ذلك هو في الآخرة إشارة إلى ما قال : وَأَمَّا مَنْ أُوتِيَ كِتابَهُ وَراءَ ظَهْرِهِ [ الانشقاق 10] ، وهو أن تصیر عيونهم في قفاهم، وقیل : معناه يردّهم عن الهداية إلى الضّلالة کقوله : وَأَضَلَّهُ اللَّهُ عَلى عِلْمٍ وَخَتَمَ عَلى سَمْعِهِ وَقَلْبِهِ [ الجاثية 23] ، وقیل : عنی بالوجوه الأعيان والرّؤساء، ومعناه : نجعل رؤساء هم أذنابا، وذلک أعظم سبب البوار .- ( ط م س ) الطمس کے معنی کسی چیز کا نام ونشان مٹادینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَإِذَا النُّجُومُ طُمِسَتْ [ المرسلات 8] جب ستاروں کی روشنی جاتی رہے گی ۔ رَبَّنَا اطْمِسْ عَلى أَمْوالِهِمْ [يونس 88] اے پروردگار ان کے مال و دولت کو تباہ وبرباد کردے یعنی ان کا نامونشان مٹادے ۔ وَلَوْ نَشاءُ لَطَمَسْنا عَلى أَعْيُنِهِمْ [يس 66] اور اگر ہم چاہیں تو ان کی آنکھوں کو مٹا کر اندھا کردیں ۔ یعنی آنکھوں کی روشنی سلب کرلیں اور انکار نشان مٹادیں جس طرح کہ کسی کو مٹادیا جاتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ مِنْ قَبْلِ أَنْ نَطْمِسَ وُجُوهاً [ النساء 47] قبل اس کے کہ ہم ان کے چہروں کو بگاڑ کر ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ دنیا ان کے چہروں کو بگاڑنا مراد ہے مثلا ان کے چہروں پر بال اگادیں ۔ ان کی صورتیں بندروں اور کتوں جیسی کردی جائیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ آخرت میں ہوگا جس کی طرف کہ آیت : ۔ وَأَمَّا مَنْ أُوتِيَ كِتابَهُ وَراءَ ظَهْرِهِ [ الانشقاق 10] اور جس کا نامہ اعمال اس کی پیٹھ کے پیچھے سے دیا جائیگا میں اشارہ پایا جاتا ہے اور چہروں کو مٹانے کی ایک صورت یہ بھی ہوسکتی ہے کہ ان کی آنکھیں گدی پر پر لگادی جائیں اور یاہدایت سے گمراہی کی طرف لوٹا دینا مراد ہے جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا : ۔ وَأَضَلَّهُ اللَّهُ عَلى عِلْمٍ وَخَتَمَ عَلى سَمْعِهِ وَقَلْبِهِ [ الجاثية 23] اور باوجود جاننے بوجھنے کے ( گمراہ ہورہا ہے نہ تو خدا نے بھی اس کو گمراہ کردیا اور اس کے کانوں اور دل پر مہر لگادی ۔ بعض نے کہا ہے کہ وجوہ سے قوم کے اعیان اکابر مراد اور معنی یہ ہیں کہ ہم بڑے بڑے سر داروں کو رعیت اور محکوم بنادیں اس سے بڑھ کر اور کونسی ہلاکت ہوسکتی ہے ۔- وجه - أصل الوجه الجارحة . قال تعالی: فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ [ المائدة 6]- ( و ج ہ ) الوجہ - کے اصل معیج چہرہ کے ہیں ۔ جمع وجوہ جیسے فرمایا : ۔ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ [ المائدة 6] تو اپنے منہ اور ہاتھ دھو لیا کرو ۔- رد - الرَّدُّ : صرف الشیء بذاته، أو بحالة من أحواله، يقال : رَدَدْتُهُ فَارْتَدَّ ، قال تعالی: وَلا يُرَدُّ بَأْسُهُ عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِينَ [ الأنعام 147] - ( رد د ) الرد ( ن )- اس کے معنی کسی چیز کو لوٹا دینے کے ہیں خواہ ذات شے کہ لوٹا یا جائے یا اس کی حالتوں میں سے کسی حالت کو محاورہ ہے ۔ رددتہ فارتد میں نے اسے لوٹا یا پس وہ لوٹ آیا ۔ قرآن میں ہے :۔- وَلا يُرَدُّ بَأْسُهُ عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِينَ [ الأنعام 147] ( مگر بکے ) لوگوں سے اس کا عذاب تو ہمیشہ کے لئے ٹلنے والا ہی نہیں ۔ - دبر ( پيٹھ)- دُبُرُ الشّيء : خلاف القُبُل وكنّي بهما عن، العضوین المخصوصین، ويقال : دُبْرٌ ودُبُرٌ ، وجمعه أَدْبَار، قال تعالی: وَمَنْ يُوَلِّهِمْ يَوْمَئِذٍدُبُرَهُ [ الأنفال 16] ، وقال : يَضْرِبُونَ وُجُوهَهُمْ وَأَدْبارَهُمْ [ الأنفال 50] أي : قدّامهم وخلفهم، وقال : فَلا تُوَلُّوهُمُ الْأَدْبارَ [ الأنفال 15] ، وذلک نهي عن الانهزام، وقوله : وَأَدْبارَ السُّجُودِ [ ق 40] : أواخر الصلوات، وقرئ : وَإِدْبارَ النُّجُومِ ( وأَدْبَار النّجوم) فإدبار مصدر مجعول ظرفا،- ( د ب ر ) دبر ۔- بشت ، مقعد یہ قبل کی ضد ہے اور یہ دونوں لفظ بطور کنایہ جائے مخصوص کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں اور اس میں دبر ا اور دبر دولغات ہیں اس کی جمع ادبار آتی ہے قرآن میں ہے :َ وَمَنْ يُوَلِّهِمْ يَوْمَئِذٍدُبُرَهُ [ الأنفال 16] اور جو شخص جنگ کے روز ان سے پیٹھ پھیرے گا ۔ يَضْرِبُونَ وُجُوهَهُمْ وَأَدْبارَهُمْ [ الأنفال 50] ان کے مونہوں اور پیٹھوں پر ( کوڑے و ہیتھوڑے وغیرہ ) مارتے ہیں ۔ فَلا تُوَلُّوهُمُ الْأَدْبارَ [ الأنفال 15] تو ان سے پیٹھ نہ پھیرنا ۔ یعنی ہزیمت خوردہ ہوکر مت بھاگو ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ وَأَدْبارَ السُّجُودِ [ ق 40] اور نماز کے بعد ( بھی ) میں ادبار کے معنی نمازوں کے آخری حصے ( یا نمازوں کے بعد ) کے ہیں . وَإِدْبارَ النُّجُومِ«1»میں ایک قرات ادبارالنجوم بھی ہے ۔ اس صورت میں یہ مصدر بمعنی ظرف ہوگا یعنی ستاروں کے ڈوبنے کا وقت جیسا کہ مقدم الجام اور خفوق النجم میں ہے ۔ اور ادبار ( بفتح الحمزہ ) ہونے کی صورت میں جمع ہوگی ۔ - سبت - أصل السَّبْتُ : القطع، ومنه سبت السّير :- قطعه، وسَبَتَ شعره : حلقه، وأنفه : اصطلمه، وقیل : سمّي يوم السَّبْت، لأنّ اللہ تعالیٰ ابتدأ بخلق السموات والأرض يوم الأحد، فخلقها في ستّة أيّام کما ذكره، فقطع عمله يوم السّبت فسمّي بذلک، وسَبَتَ فلان : صار في السّبت وقوله : يَوْمَ سَبْتِهِمْ شُرَّعاً [ الأعراف 163] ، قيل : يوم قطعهم للعمل، وَيَوْمَ لا يَسْبِتُونَ [ الأعراف 163] ، قيل : معناه لا يقطعون العمل، وقیل : يوم لا يکونون في السّبت، وکلاهما إشارة إلى حالة واحدة، وقوله :- إِنَّما جُعِلَ السَّبْتُ [ النحل 124] ، أي : ترک العمل فيه، وَجَعَلْنا نَوْمَكُمْ سُباتاً- [ النبأ 9] ، أي : قطعا للعمل، وذلک إشارة إلى ما قال في صفة اللّيل : لِتَسْكُنُوا فِيهِ [يونس 67] .- ( س ب ت ) السبت - کے اصل معنی قطع کرنے کے ہیں اور اسی سے کہا جاتا ہے سبت السیر اس نے تسمہ گو قطع کیا سینت شعرۃ اس نے اپنے بال مونڈے سبت انفہ اس کی کاٹ ڈالی ۔ بعض نے کہا ہے کہ ہفتہ کے دن کو یوم السبت اس لئے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین کی تخلیق اتوار کے دن شروع کی تھی اور چھ دن میں تخلیق عالم فرماکر سینچر کے دن اسے ختم کردیا تھا اسی سے سبت فلان ہے جس کے معنی ہیں وہ ہفتہ کے دن میں داخل ہوا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ يَوْمَ سَبْتِهِمْ شُرَّعاً [ الأعراف 163] سنیچر کے دن ( مچھلیاں ) سینہ سیر ہوکر ان کے سامنے آجاتیں ۔ میں بعض نے یوم سبتھم سے ان کے کاروں بار کو چھوڑنے کا دن مراد لیا ہے اس اعتبار سے یوم لا یسبتون کے معنی یہ ہوں گے کہ جس روز وہ کاروبار چھوڑتے اور بعض نے اس کے معنی یہ کئے ہیں کہ روز سینچر نہ ہوتا ان ہر دو معنی کا مآل ایک ہی ہے اور آیت : ۔ إِنَّما جُعِلَ السَّبْتُ [ النحل 124] میں سبت سے مراد سینچر کے دن عمل کے ہیں اور مطلب یہ ہے کہ سنیچر کے روز کام چھوڑنے کا حکم صرف لِتَسْكُنُوا فِيهِ [يونس 67] اس لئے دیا گیا تھا اور آیت : ۔ وَجَعَلْنا نَوْمَكُمْ سُباتاً [ النبأ 9] اور نیند کو ( موجب ) راحت بنایا ۔ میں سبات کے معنی ہیں حرکت وعمل کو چھوڑ کر آرام کرنا اور یہ رات کی اس صفت کی طرف اشاریہ ہے جو کہ آیت : ۔ تاکہ تم رات میں راحت کرو لِتَسْكُنُوا فِيهِ [يونس 67] . میں مذکور ہے یعنی رات کو راحت و سکون لے لئے بنایا ہے
(٤٧) ان لوگوں میں سے تو عبداللہ بن سلام اور ان کے ساتھی ہی ایمان قبول کریں گے جن کو توریت کا علم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نعت و صفت میں بالکل موافق ہے، اس کا علم دیا گیا ہے اس سے پہلے کہ ان کے دل تبدیل ہو کر گمراہ ہوجائیں اور ہدایت کی روشنیوں سے پھرجائیں اور ان کی اور ان کی صورتیں پچھلی طرف ہوجائیں یا ان کی شکلیں ہم تبدیل کر کے ان کو بندر بنا دیں، ان کو ایمان لے آنا چاہئے، چناچہ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد عبداللہ بن سلام اور ان کے ساتھی مشرف بااسلام ہوئے۔- شان نزول : (آیت) ” یایھا الذین اوتو الکتب امنوا “۔ (الخ)- ابن اسحاق (رح) نے ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے علماء یہود عبداللہ بن صوریا اور کعب بن اسید سے گفتگو کی اور فرمایا اے گروہ یہود اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور ایمان لے آؤ اللہ کی قسم تم اچھی طرح جانتے ہو کہ میں تمہارے پاس جو چیز لے کر آیا ہوں، وہی سچ ہے وہ بولے اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم نہیں جانتے چناچہ ان لوگوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی، اے وہ لوگ جن کو کتاب دی گئی ہے تم اس کتاب قرآن پر ایمان لاؤ جس کو ہم نے نازل کیا ہے۔ (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح )
آیت ٤٧ (یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ اٰمِنُوْا بِمَا نَزَّلْنَا) - یہود کی شرارتوں پر لعنت و ملامت کے ساتھ ہی انہیں قرآن کریم پر ایمان کی دعوت بھی دی جا رہی ہے۔- (مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَکُمْ ) - (مِّنْ قَبْلِ اَنْ نَّطْمِسَ وُجُوْہًا فَنَرُدَّہَا عَلآی اَدْبَارِہَآ) یعنی چہرے اس طرح مسخ کردیے جائیں کہ بالکل سپاٹ ہوجائیں ‘ ان پر کوئی نشان باقی نہ رہے اور پھر انہیں پشت کی طرف موڑ دیا جائے کہ چہرہ پیچھے اور گدی سامنے۔ُ ّ - (اَوْ نَلْعَنَہُمْ کَمَا لَعَنَّآ اَصْحٰبَ السَّبْتِ ط) - اصحاب سبت کے واقعے کی تفصیل سورة الاعراف میں آئے گی ‘ لیکن اجمالاً یہ واقعہ سورة البقرۃ میں آچکا ہے
سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :77 تشریح کے لیے ملاحظہ ہو آل عمران حاشیہ نمبر ۲ ۔ سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :78 ملاحظہ ہو سورہ بقرہ حاشیہ نمبر ۸۲ و ۸۳ ۔
34: ’’سبت‘‘ سنیچر کے دن کو کہتے ہیں۔ تورات میں بنی اسرائیل کو اس دن روزگار کا کام کرنے سے منع کیا گیا تھا، لیکن ایک بستی کے لوگوں نے اس حکم کی نافرمانی کی جس کے نتیجے میں ان پر عذاب آیا اور ان کو مسخ کردیا گیا۔ اس واقعے کی تفصیل کے لئے دیکھئے سورۂ اعراف (۷: ۳۶۱)