Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

48۔ 1 یعنی ایسے گناہ جن سے مومن توبہ کئے بغیر مرجائیں، اللہ تعالیٰ اگر کسی کے لئے چاہے گا، تو بغیر کسی قسم کی سزا دیئے معاف فرما دے گا اور بہت سوں کو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شفاعت پر معاف فرما دے گا۔ لیکن شرک کسی صورت میں معاف نہیں ہوگا کیونکہ مشرک پر اللہ نے جنت حرام کردی ہے۔ (2) دوسرے مقام پر فرمایا (اِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيْمٌ) 031:013" شرک ظلم عظیم ہے " حدیث میں اسے سب سے بڑا گناہ قرار دیا گیا ہے۔ اکبر الکبائر الشرک باللہ۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٨٠] شرک ناقابل معافی جرم :۔ یہاں شرک کا ذکر اس لیے آیا ہے کہ یہود و نصاریٰ دونوں ہی مشرک تھے۔ اگرچہ دعویٰ توحید کا کرتے تھے اور شرک ہی سب گناہوں سے بڑا گناہ ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے حتمی طور پر وعید سنا دی ہے کہ یہ ناقابل معافی جرم ہے۔ اب شرک سے متعلق چند احادیث ملاحظہ فرمائیے :- ١۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے پوچھا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سب سے بڑا گناہ کونسا ہے ؟ آپ نے فرمایا یہ کہ تم اللہ کا شریک بناؤ۔ حالانکہ اس نے تمہیں پیدا کیا ہے۔ (بخاری، کتاب المحاربین۔ باب اثم الزناۃ۔۔ ، مسلم۔ کتاب الایمان۔ باب بیان کون الشرک اقبح الذنوب - ٢۔ سیدنا ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا میں اپنے حصہ داروں کی نسبت اپنا حصہ لینے سے بےنیاز ہوں۔ جس شخص نے ایسا عمل کیا جس میں میرے ساتھ غیر کو شریک بنایا تو میں اس صاحب عمل اور اس عمل دونوں کو چھوڑ دیتا ہوں (فرمان خداوندی ) (بخاری، کتاب الزکوۃ، باب قول اللہ تعالیٰ (لَا يَسْــَٔـلُوْنَ النَّاسَ اِلْحَافًا ٢٧٣؁ۧ) 2 ۔ البقرة :273) ۔۔ مسلم، کتاب الزہد۔ باب تحریم الربٰو)- ٣۔ آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جو شخص مجھ سے زمین بھر گناہوں کے ساتھ ملے جبکہ اس نے میرے ساتھ کسی چیز کو بھی شریک نہ بنایا ہو تو میں اتنی ہی بخشش کے ساتھ اسے ملوں گا۔ (مسلم، کتاب الذکر، باب فضل الذ کر والدعائ)- ٤۔ آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ سب سے کم عذاب والے دوزخی سے فرمائے گا۔ اگر زمین بھر کی کل اشیاء تیری ملک ہوں تو کیا تو اس عذاب سے نجات کے بدلے میں دے دے گا ؟ وہ کہے گا ہاں اللہ تعالیٰ فرمائے گا میں نے تو تجھ سے اس سے بہت آسان بات کا سوال کیا تھا اور تو اس وقت صلب آدم میں تھا کہ میرے ساتھ شرک نہ کرنا مگر تو شرک کیے بغیر نہ رہا۔ (بخاری، کتاب بدء الخلق۔ باب (وَاِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰۗىِٕكَةِ 30؀) 2 ۔ البقرة :30) ۔۔ صفۃ القیامۃ، باب طلب الکافر الفدائ)- اس آیت میں دراصل دو اعلان ہیں۔ ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ شرک کو کبھی معاف نہیں کرے گا جیسا کہ مذکورہ بالا احادیث سے بھی واضح ہے۔ اور دوسرا اعلان یہ ہے کہ شرک کے علاوہ باقی جتنے بھی گناہ ہیں وہ سب قابل معافی ہیں لہذا اے اہل کتاب اگر اب بھی تم شرک سے باز آجاؤ اور ضد اور ہٹ دھرمی چھوڑ کر اسلام قبول کرلو تو اللہ تمہارے سب گناہ معاف فرما دے گا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اِنَّ اللّٰهَ لَا يَغْفِرُ ۔۔ : یہود کو وعید اور ڈانٹ سنانے کے بعد اب اس آیت میں اشارہ فرمایا کہ یہ وعید ایمان نہ لانے اور کفر و شرک کی وجہ سے ہے، ورنہ دوسرے گناہ تو قابل معافی ہیں اور اللہ تعالیٰ کی مرضی کے تحت ہیں، جسے اللہ چاہے گا معاف فرما دے گا، جسے چاہے گا سزا دے کر چھوڑ دے گا، مگر شرک کی معافی نہیں، کیونکہ مشرک پر اللہ تعالیٰ نے جنت حرام کردی ہے۔ (دیکھیے مائدہ : ٧٢) یہود و نصاریٰ کی طرح نام کے مسلمان، جو ایسے شرک کا ارتکاب کرتے ہیں جس سے انسان ملت اسلام سے خارج ہوجاتا ہے، جو مصیبت کے وقت غیر اللہ کو پکارتے، اٹھتے بیٹھتے ان کے نام کا وظیفہ کرتے ہیں، ان کے نام کا روزہ رکھتے، ان کی قبروں کو پوجتے ان کے نام پر جانور ذبح کرتے اور ان کی منتیں مانتے ہیں، وہ بھی اس وعید کے مصداق ہیں۔ مزید دیکھیے سورة حج (٣١) ، سورة لقمان (١٣) سورة انعام (٨٨) سورة زمر (٦٥) اور سورة نساء (١١٦) ۔ - فَقَدِ افْتَرٰٓى اِثْمًا عَظِيْمًا : اس سے بڑا جھوٹ کیا ہوگا کہ اللہ تعالیٰ کا بھی کوئی شریک ہے، فرمایا : ( اِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيْمٌ ) [ لقمان : ١٣] ” بیشک شرک یقیناً بہت بڑا ظلم ہے۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - بیشک اللہ تعالیٰ اس بات کو (سزا دے کر بھی) نہ بخشیں گے کہ ان کے ساتھ کسی کو شریک قرار دیا جائے (بلکہ ہمیشہ دائمی سزا میں مبتلا رکھیں گے) اور اس کے سوا اور جتنے گناہ ہیں (خواہ صغیر ہوں یا کبیرہ) جس کے لئے منظور ہوگا (بلا سزا) وہ گناہ بخش دیں گے، (البتہ اگر وہ مشرک مسلمان ہوجائے تو پھر مشرک ہی نہ رہا اب وہ سزا دائمی بھی نہ رہے گی) اور (وجہ اس شرک کے نہ بخشنے کی یہ ہے کہ) جو شخص اللہ تعالیٰ کے ساتھ (کسی کو) شریک ٹھہراتا ہے وہ بڑے جرم کا مرتکب ہوا (جو اپنے عظیم ہونے کی وجہ سے قابل مغفرت نہیں۔ )- (اے مخاطب) کیا تو نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا (یعنی تعجب کے قابل ہیں) جو اپنے کو مقدس بتلاتے ہیں (ان کے بتلانے سے کچھ نہیں ہوتا) بلکہ اللہ تعالیٰ جس کو چاہیں مقدس بتلا دیں (یہ البتہ قابل اعتبار ہے اور اللہ تعالیٰ قرآن میں مومن کو مقدس بتلا چکے ہیں، جیسے سورة سبح اسم میں اشقی یعنی کافر کے مقابل ہمیں مومن کی نسبت فرمایا، قد افلح من تزکی پس وہی مقدس ہوگا نہ کہ کفر کرنے والے جیسے یہود ہیں) اور (ان یہود کو قیامت میں اس جھوٹے دعوے کا جس کا سبب کفر کو ایمان سمجھنا ہے، جو سزا ہوگی اس سزا میں) ان پر دھاگے کی برابر بھی ظلم نہ ہوگا (یعنی وہ سزا ان کے جرم سے زیادہ نہیں ہے، بلکہ ایسے جرم پر ایسی ہی سزا لائق ہے، ذرا) دیکھ لو (اس دعویٰ میں) یہ لوگ اللہ پر کیسی جھوٹی تہمت لگاتے ہیں (کیونکہ جب وہ باوجود کفر کے اللہ کے ہاں مقبول ہونے کے مدعی ہیں تو اس سے صاف لازم آتا ہے کہ کفر اللہ کے ہاں پسندیدہ ہے، حالانکہ یہ محض تہمت ہے، اس لئے کہ تمام شرائع میں اللہ تعالیٰ نے اس کی تصریح فرما دی ہے کہ کفر ہمارے نزدیک سخت ناپسند اور مردود ہے) اور یہی بات (کہ خدا پر تہمت لگائی جائے) صریح مجرم ہونے کے لئے کافی ہے (پھر کیا ایسی صریح بڑی بات پر ایسی سزا کچھ ظلم و زیادتی ہے۔ )- معارف ومسائل - شرک کی تعریف اور اس کی چند صورتیں :۔- قولہ تعالیٰ ان اللہ لایغفر ان یشرک بہ۔ اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات کے بارے میں جو عقائد ہیں اس طرح کا کوئی عقیدہ کسی مخلوق کے لئے رکھنا یہ شرک ہے، اس کی کچھ تفصیلات یہ ہیں :- علم میں شریک ٹھہرانا :۔- یعنی کسی بزرگ یا پیر کے ساتھ یہ اعتقاد رکھنا کہ ہمارے سب حال کی اس کو ہر وقت خبر ہے، نجومی، پنڈت سے غیب کی خبریں دریافت کرنا یا کسی بزرگ کے کلام میں فال دیکھ کر اس کو یقینی سمجھنا یا کسی کو دور سے پکارنا اور یہ سمجھنا کہ اس کہ خبر ہوگئی یا کسی کے نام کا روزہ رکھنا۔- اشراک فی التصرف :۔- یعنی کسی کو نفع یا نقصان کا مختار سمجھنا کسی سے مرادیں مانگنا، روزی اور اولاد مانگنا۔- عبادت میں شریک ٹھہرانا : کسی کو سجدہ کرنا، کسی کے نام کا جانور چھوڑنا، چڑھاوا چڑھانا، کسی کے نام کی منت ماننا، کسی کی قرب یا مکان کا طواف کرنا، خدا کے حکم کے مقابلہ میں کسی دوسرے کے قول یا رسم کو ترجیح دینا کسی کے روبرو رکوع کی طرف جھکنا کسی کے نام پر جانور ذبح کرنا، دنیا کے کاروبار کو ستاروں کی تاثیر سے سمجھنا اور کسی مہینہ کو منحوس سمجھنا وغیرہ

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اِنَّ اللہَ لَا يَغْفِرُ اَنْ يُّشْرَكَ بِہٖ وَيَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ لِمَنْ يَّشَاۗءُ۝ ٠ۚ وَمَنْ يُّشْرِكْ بِاللہِ فَقَدِ افْتَرٰٓى اِثْمًا عَظِيْمًا۝ ٤٨- شرك - وشِرْكُ الإنسان في الدّين ضربان :- أحدهما : الشِّرْكُ العظیم،- وهو : إثبات شريك لله تعالی. يقال : أَشْرَكَ فلان بالله، وذلک أعظم کفر . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء 48] ، - والثاني : الشِّرْكُ الصّغير،- وهو مراعاة غير اللہ معه في بعض الأمور، وهو الرّياء والنّفاق المشار إليه بقوله : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ- [ الأعراف 190] ،- ( ش ر ک ) الشرکۃ والمشارکۃ - دین میں شریک دو قسم پر ہے - ۔ شرک عظیم یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک ٹھہرانا اور اشراک فلان باللہ کے معنی اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانے کے ہیں اور یہ سب سے بڑا کفر ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء 48] خدا اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے ۔ - دوم شرک صغیر - کو کسی کام میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو بھی جوش کرنے کی کوشش کرنا اسی کا دوسرا نام ریا اور نفاق ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف 190] تو اس ( بچے ) میں جو وہ ان کو دیتا ہے اس کا شریک مقرر کرتے ہیں جو وہ شرک کرتے ہیں ۔ خدا کا ( رتبہ ) اس سے بلند ہے ۔- دون - يقال للقاصر عن الشیء : دون، قال بعضهم :- هو مقلوب من الدّنوّ ، والأدون : الدّنيء وقوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران 118] ،- ( د و ن ) الدون - جو کسی چیز سے قاصر اور کوتاہ ہودہ دون کہلاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ دنو کا مقلوب ہے ۔ اور الادون بمعنی دنی آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران 118] کے معنی یہ ہیں کہ ان لوگوں کو راز دار مت بناؤ جو دیانت میں تمہارے ہم مرتبہ ( یعنی مسلمان ) نہیں ہیں ۔- فری - الفَرْيُ : قطع الجلد للخرز والإصلاح، والْإِفْرَاءُ للإفساد، والِافْتِرَاءُ فيهما، وفي الإفساد أكثر، وکذلک استعمل في القرآن في الکذب والشّرک والظّلم . نحو : وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدِ افْتَرى إِثْماً عَظِيماً [ النساء 48] ، - ( ف ری ) القری ( ن )- کے معنی چمڑے کو سینے اور درست کرنے کے لئے اسے کاٹنے کے ہیں اور افراء افعال ) کے معنی اسے خراب کرنے کے لئے کاٹنے کے ۔ افتراء ( افتعال کا لفظ صلاح اور فساد دونوں کے لئے آتا ہے اس کا زیادہ تر استعمال افسادی ہی کے معنوں میں ہوتا ہے اسی لئے قرآن پاک میں جھوٹ شرک اور ظلم کے موقعوں پر استعمال کیا گیا ہے چناچہ فرمایا : ۔- وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدِ افْتَرى إِثْماً عَظِيماً [ النساء 48] جس نے خدا کا شریک مقرر کیا اس نے بڑا بہتان باندھا ۔ - إثم - الإثم والأثام : اسم للأفعال المبطئة عن الثواب وجمعه آثام، ولتضمنه لمعنی البطء قال الشاعرجماليّةٍ تغتلي بالرّادفإذا کذّب الآثمات الهجير وقوله تعالی: فِيهِما إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنافِعُ لِلنَّاسِ [ البقرة 219] أي : في تناولهما إبطاء عن الخیرات .- ( ا ث م ) الاثم والاثام ۔ وہ اعمال وافعال جو ثواب سے روکتے اور پیچھے رکھنے والے ہوں اس کی جمع آثام آتی ہے چونکہ اس لفظ میں تاخیر اور بطء ( دیرلگانا ) کا مفہوم پایا جاتا ہے اس لئے شاعر نے اونٹنی کے متعلق کہا ہے ۔ ( المتقارب ) (6) جمالیۃ تغتلی بالرادف اذا کذب الآثمات الھجیرا وہ اونٹ کی طرح مضبوط ہے جب سست رفتار اونٹنیاں دوپہر کے وقت چلنے سے عاجز ہوجاتی ہیں تو یہ ردیف کو لے کر تیز رفتاری کے ساتھ چلتی ہے اور آیت کریمہ فِيهِمَا إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ ( سورة البقرة 219) میں خمر اور میسر میں اثم کبیر کے یہ معنی ہیں کہ ان کا تناول ( اور ارتکاب ) انسان کو ہر قسم کے افعال خیر سے روک لیتا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٤٨) اگر تمہیں کفر پر موت آجائے تو تمہاری ہرگز مغفرت نہیں ہوگی، یہ آیت حضرت حمزہ (رض) رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چچا کے قاتل وحشی کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔- شان : (آیت) ” ان اللہ لایغفر ان یشرک بہ “۔ (الخ)- ابن ابی حاتم (رح) اور طبرانی (رح) نے ابو ایوب انصاری (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آکر عرض کیا کہ میرا بھتیجا حرام کاموں سے باز نہیں آتا آپ نے فرمایا اس کا دین کیا ہے اس شخص نے کہا کہ وہ توحید خداوندی کا قائل ہے اور نماز پڑھتا ہے، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس سے اس کا دین مفت مانگو اور اگر مفت دینے سے انکار کرے تو اس سے خرید لو (مفت سے مراد یہ ہے کہ اگر دین اس کے نزدیک بےقدر بےوقعت ہو تو وہ دین بمنزلہ مفت ہے اور خریدنے کا مطلب یہ ہے کہ اس کے ہاں دین کی قدر واہمیت پیسے کے مقابلے میں کتنی ہے) چناچہ اس شخص نے اپنے بھتیجے سے اس چیز کا مطالبہ کیا، اس نے انکار کردیا، اس شخص نے حضور سے آکر عرض کیا کہ میں نے اس کو دین پر پختہ پایا۔- تب یہ آیت نازل ہوئی، یعنی اللہ تعالیٰ شرک کے علاوہ اور گناہ جس کو چاہیں گے معاف کردیں گے مشرک کو معاف نہیں کریں گے (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح )

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٤٨ (اِنَّ اللّٰہَ لاَ یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَکَ بِہٖ ) (وَیَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَّشَآءُ ج) - گویا یہ بھی کھلا لائسنس نہیں ہے کہ آپ سمجھ لیں کہ باقی سب گناہ تو معاف ہو ہی جائیں گے۔ اس کی امید دلائی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ باقی تمام گناہوں کو بغیر توبہ کے بھی معاف کرسکتا ہے ‘ لیکن شرک کے معاف ہونے کا کوئی امکان نہیں۔- (وَمَنْ یُّشْرِکْ باللّٰہِ فَقَدِ افْتَرآی اِثْمًا عَظِیْمًا ) - اللہ تعالیٰ تو واحد و یکتا ہے۔ اس کی ذات وصفات میں کسی اور کو شریک کرنا بہت بڑا جھوٹ ‘ افترا اور بہتان ہے ‘ اور عظیم ترین گناہ ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :79 یہ اس لیے فرمایا کہ اہل کتاب اگرچہ انبیاء اور کتب آسمانی کی پیروی کے مدعی تھے مگر شرک میں مبتلا ہو گئے تھے ۔ سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :80 اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آدمی بس شرک نہ کرے باقی دوسرے گناہ دل کھول کر کرتا رہے ۔ بلکہ دراصل اس سے یہ بات ذہن نشین کرانی مقصود ہے کہ شرک ، جس کو ان لوگوں نے بہت معمولی چیز سمجھ رکھا تھا ، تمام گناہوں سے بڑا گناہ ہے حتٰی کہ اور گناہوں کی معافی تو ممکن ہے مگر یہ ایسا گناہ ہے کہ معاف نہیں کیا جاسکتا ۔ علماء یہود شریعت کے چھوٹے چھوٹے احکام کا تو بڑا اہتمام کرتے تھے ، بلکہ ان کا سارا وقت ان جزئیات کی ناپ تول ہی میں گزرتا تھا جو ان کے فقیہوں سے استنباط در استنباط کر کے نکالے تھے ، مگر شرک ان کی نگاہ میں ایسا ہلکا فعل تھا کہ نہ خود اس سے بچنے کی فکر کرتے تھے ، نہ اپنی قوم کو مشرکانہ خیالات اور اعمال سے بچانے کی کوشش کرتے تھے ، اور نہ مشرکین کی دوستی اور حمایت ہی میں انہیں کوئی مضائقہ نظر آتا تھا ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

35: یعنی شرک سے کم کسی گناہ کو اللہ تعالیٰ جب چاہے توبہ کے بغیر بھی محض اپنے فضل سے معاف کرسکتا ہے ؛ لیکن شرک کی معافی اس کے بغیر ممکن نہیں کہ مشرک اپنے شرک سے سچی توبہ کرکے موت سے پہلے پہلے اسلام قبول کرکے توحید پر ایمان لے آئے