Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

49۔ 1 یہود اپنے منہ میاں میٹھو بنتے تھے مثلًا ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے چہیتے ہیں وغیرہ، اللہ نے فرمایا تزکیہ کا اختیار بھی اللہ کو ہے اور اس کا علم بھی اسی کو ہے،" فتیل " کھجور کی گٹھلی کے کٹاؤ پر جو دھاگے یا سوت کی طرح نکلتا یا دکھائی دیتا ہے اس کو کہا جاتا ہے۔ یعنی اتنا سا ظلم بھی نہیں کیا جائے گا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٨١] سستی نجات کے عقیدے :۔ ان لوگوں سے مراد بھی علمائے یہود و نصاریٰ ہیں کہ جب انہیں ان کی بری کرتوتوں کو چھوڑنے اور ایمان لانے کی دعوت دی جاتی تو وہ شیخی میں آ کر کہتے (نَحْنُ اَبْنٰۗؤُا اللّٰهِ وَاَحِبَّاۗؤُهٗ 18؀) 5 ۔ المآئدہ :18) یعنی ہم تو اللہ کے بیٹے اور اس کے چہیتے ہیں۔ نیز چونکہ پیغمبروں کی اولاد ہیں لہذا پاکیزہ نفوس کے مالک ہیں۔ اور نصاریٰ نے کفارہ مسیح کا عقیدہ گھڑ لیا تھا جس کی رو سے سب عیسائیوں کے گناہ تو سیدنا عیسیٰ نے اپنی گردن پر اٹھائے اور سولی چڑھ گئے اور اس طرح ان کی سب امت پاک ہوگئی۔ اور جنت کی مستحق ٹھہری۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اپنے منہ میاں مٹھو بننے سے کچھ نہیں بنتا۔ پاکیزہ تو صرف وہ ہے جو اپنے آپ کو گناہوں سے پاک صاف رکھے اور اللہ اسے پاکیزہ قرار دے۔- یہود و نصاریٰ کی طرح مسلمانوں میں بھی یہ عقیدہ کسی نہ کسی شکل میں پایا جاتا ہے۔ کچھ لوگ اپنے آپ کو سید اور آل رسول کہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہماری پشت ہی پاک ہے یعنی ہم پشت در پشت پاک لوگ ہیں اور یہی عقیدہ یہود کا تھا کہ ہم انبیاء کی اولاد ہیں۔ پھر کچھ لوگوں نے اس دنیا میں بہشتی دروازے بنا رکھے ہیں کہ جو شخص عرس کے دن اس دروازہ کے نیچے سے گزر جائے گا وہ مرنے کے بعد سیدھا بہشت میں چلا جائے گا۔ وغیرہ ذلک من الخرافات۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

” فَتِيْلًا “ اس پتلے دھاگے کو کہتے ہیں جو کھجور کی گٹھلی کے کٹاؤ میں نظر آتا ہے۔ یہ محاورہ ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ ان پر ذرہ برابر ظلم نہیں ہوگا۔ (طبری) یہود اپنے آپ کو پاک باز اور مقدس کہتے، کبھی کہتے جنت میں ہم ہی جائیں گے : ( لَنْ يَّدْخُلَ الْجَنَّةَ اِلَّا مَنْ كَانَ ھُوْدًا اَوْ نَصٰرٰى ۭ ) [ البقرۃ : ١١١ ] ” جنت میں ہرگز داخل نہیں ہوں گے مگر جو یہودی ہوں گے یا نصاریٰ ۔ “ کبھی اپنے آپ کو اللہ کے بیٹے اور اس کے محبوب بتاتے۔ (دیکھیے المائدۃ : ١٨) اللہ تعالیٰ نے ان کی تردید فرمائی کہ کسی کو پاک باز قرار دینا تو اللہ کا کام ہے، اپنی تعریف آپ کرنا انسان کے لیے مہلک ہے، چناچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ( فَلَا تُزَكُّوْٓا اَنْفُسَكُمْ ۭ هُوَ اَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقٰى ) [ النجم : ٣٢ ] ” اپنے آپ کو پاک مت قرار دو ، وہ زیادہ جانتا ہے کون متقی ہے۔ “ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک دوسرے کی تعریف سے بھی، خصوصاً جب کوئی سامنے ہو یا مبالغہ کے ساتھ ہو منع فرمایا۔ مقداد بن اسود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں حکم دیا : ( اَنْ نَحْثِیَ فِیْ وُجُوْہِ الْمَدَّاحِیْنَ التُّرَابَ ) [ مسلم، الزھد، باب النھی عن المدح۔۔ : ٣٠٠٢ ] ” ہم زیادہ تعریف کرنے والوں کے منہ میں مٹی ڈال دیں۔ “ اور فرمایا : ( اِیَّاکُمْ وَالتَّمَادُحَ فَاِنَّہُ ذَبْحٌ ) [ ابن ماجہ، الأدب، باب المدح : ٣٧٤٣ ] ” باہمی مدح گوئی سے بچو کیونکہ یہ ذبح کرنا ہے۔ “ ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک آدمی کو دوسرے کی تعریف کرتے ہوئے سنا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( وَیْحَکَ قَطَعْتَ عُنُقَ صَاحِبِکَ ) ” تجھ پر افسوس تو نے اپنے ساتھی کی گردن کاٹ دی۔ “ پھر فرمایا : ” اگر تم میں سے کسی کو کسی کی لا محالہ تعریف کرنی ہے تو اس طرح کہا کرے کہ میں اسے اس طرح گمان کرتا ہوں، اللہ پر کسی کا تزکیہ نہ کرے (پاک قرار نہ دے۔ “ [ بخاری، الشہادات والأدب، باب ما یکرہ من التمادح : ٦٠٦١]

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

اپنی مدح سرائی اور عیوب سے پاک ہونیکا دعویٰ جائز نہیں :- قولہ تعالیٰ الم ترا الی الذین یزکون انفسھم یہود اپنے آپ کو مقدس بتلاتے تھے، جس پر اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ان کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا کہ ذرا ان لوگوں کو دیکھو جو اپنی پاکی بیان کر رہے ہیں، ان پر تعجب کرنا چاہئے۔- اس سے معلوم ہوا کہ کسی کو اپنی یا دوسروں کی پاکی بیان کرنا جائز نہیں ہے، یہ ممانعت تین وجہ سے ہے :- (١) اپنی مدح کا سبب اکثر کبر ہوتا ہے، تو حقیقت میں ممانعت کبر سے ہوئی۔- (٢) یہ کہ خاتمہ کا حال اللہ کو معلوم ہے کہ تقوی و طہارت پر ہوگا یا نہیں، اس لئے اپنے آپ کو مقدس بتلانا خلاف خوف الٰہی ہے، چناچہ ایک روایت میں حضرت زینب بنت ابی سلمہ فرماتی ہیں کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھ سے دریافت فرمایا کہ تمہارا نام کیا ہے ؟ اس وقت چونکہ میرا نام برہ تھا (جس کے معنی ہیں گناہوں سے پاک) میں نے وہی بتلایا، تو آپ نے فرمایا : لاتزکوا انفسکم، اللہ اعلم باھل البر منکم، سموھا زینب (رواہ مسلم بحوالہ مشکوة) ” یعنی تم اپنے آپ کی گناہوں سے پاکی بیان نہ کرو کیونکہ یہ علم صرف اللہ ہی کو کہ تم میں سے کون پاک ہے، پھر برہ کے بجائے آپ نے زینب نام رکھا۔ “ (مظہری)- (٣) ممانعت کی تیسری وجہ یہ ہے کہ اکثر اوقات اس دعوے سے لوگوں کو یہ وہم ہونے لگتا ہے کہ یہ آدمی اللہ کے ہاں اس لئے مقبول ہے کہ یہ تمام نقائص اور عیوب سے پاک ہے، حالانکہ یہ جھوٹ ہے، کیونکہ بہت سے عیوب بندہ میں موجود ہوتے ہیں۔ (بیان القرآن)- مسئلہ :۔ اگر مذکورہ عوارض نہ ہوں تو نعمت کے اظہار کے طور پر اپنی صفت بیان کرنے کی اجازت ہے۔ (بیان القرآن)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ يُزَكُّوْنَ اَنْفُسَھُمْ۝ ٠ۭ بَلِ اللہُ يُزَكِّيْ مَنْ يَّشَاۗءُ وَلَا يُظْلَمُوْنَ فَتِيْلًا۝ ٤٩- زكا ( تزكية)- وبِزَكَاءِ النّفس وطهارتها يصير الإنسان بحیث يستحقّ في الدّنيا الأوصاف المحمودة، وفي الآخرة الأجر والمثوبة . وهو أن يتحرّى الإنسان ما فيه تطهيره، وذلک ينسب تارة إلى العبد لکونه مکتسبا لذلک، نحو : قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاها[ الشمس 9] ، وتارة ينسب إلى اللہ تعالی، لکونه فاعلا لذلک في الحقیقة نحو : بَلِ اللَّهُ يُزَكِّي مَنْ يَشاءُ [ النساء 49] ، وتارة إلى النّبيّ لکونه واسطة في وصول ذلک إليهم، نحو : تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِها[ التوبة 103] ، يَتْلُوا عَلَيْكُمْ آياتِنا وَيُزَكِّيكُمْ [ البقرة 151] ، وتارة إلى العبادة التي هي آلة في ذلك، نحو : وَحَناناً مِنْ لَدُنَّا وَزَكاةً [ مریم 13] ، لِأَهَبَ لَكِ غُلاماً زَكِيًّا[ مریم 19] ، أي :- مُزَكًّى بالخلقة، وذلک علی طریق ما ذکرنا من الاجتباء، وهو أن يجعل بعض عباده عالما وطاهر الخلق لا بالتّعلّم والممارسة بل بتوفیق إلهيّ ، كما يكون لجلّ الأنبیاء والرّسل . ويجوز أن يكون تسمیته بالمزکّى لما يكون عليه في الاستقبال لا في الحال، والمعنی: سَيَتَزَكَّى، وَالَّذِينَ هُمْ لِلزَّكاةِ فاعِلُونَ [ المؤمنون 4] ، أي : يفعلون ما يفعلون من العبادة ليزكّيهم الله، أو لِيُزَكُّوا أنفسهم، والمعنیان واحد . ولیس قوله :- «للزّكاة» مفعولا لقوله : «فاعلون» ، بل اللام فيه للعلة والقصد .- وتَزْكِيَةُ الإنسان نفسه ضربان :- أحدهما : بالفعل، وهو محمود وإليه قصد بقوله : قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاها [ الشمس 9] ، وقوله : قَدْ أَفْلَحَ مَنْ تَزَكَّى[ الأعلی 14] .- والثاني : بالقول، كتزكية العدل غيره، وذلک مذموم أن يفعل الإنسان بنفسه، وقد نهى اللہ تعالیٰ عنه فقال : فَلا تُزَكُّوا أَنْفُسَكُمْ [ النجم 32] ، ونهيه عن ذلک تأديب لقبح مدح الإنسان نفسه عقلا وشرعا، ولهذا قيل لحكيم : ما الذي لا يحسن وإن کان حقّا ؟ فقال : مدح الرّجل نفسه .- اور تزکیہ نفس سے ہی انسان دنیا میں اوصاف حمیدہ کا مستحق ہوتا ہے اور آخرت میں اجر وثواب بھی اسی کی بدولت حاصل ہوگا اور تزکیہ نفس کا طریق یہ ہے کہ انسان ان باتوں کی کوشش میں لگ جائے جن سے طہارت نفس حاصل ہوتی ہے اور فعل تزکیہ کی نسبت تو انسان کی طرف کی جاتی ہے کیونکہ وہ اس کا اکتساب کرتا ہے جیسے فرمایا : ۔ قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاها [ الشمس 9] کہ جس نے اپنی روح کو پاک کیا ( وہ ضرور اپنی ) مراد کو پہنچا ۔ اور کبھی یہ اللہ تعالےٰ کی طرف منسوب ہوتا ہے کیونکہ فی الحقیقت وہی اس کا فاعل ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ بَلِ اللَّهُ يُزَكِّي مَنْ يَشاءُ [ النساء 49] بلکہ اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے پاک کردیتا ہے ۔ اور کبھی اس کی نسبت نبی کی طرف ہوتی ہے کیونکہ وہ لوگوں کو ان باتوں کی تعلیم دیتا ہے جن سے تزکیہ حاصل ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِها[ التوبة 103] کہ اس سے تم ان کو ( ظاہر میں بھی ) پاک اور ( باطن میں بھی ) پاکیزہ کرتے ہو ۔ يَتْلُوا عَلَيْكُمْ آياتِنا وَيُزَكِّيكُمْ [ البقرة 151] وہ پیغمبر انہیں ہماری آیات پڑھ کر سناتا ہے اور انہیں بذریعہ تعلیم ( اخلاق رذیلہ ) سے پاک کرتا ہے : ۔ اور کبھی اس کی نسبت عبادت کی طرف ہوتی ہے کیونکہ عبادت تزکیہ کے حاصل کرنے میں بمنزلہ آلہ کے ہے چناچہ یحیٰ (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : ۔ وَحَناناً مِنْ لَدُنَّا وَزَكاةً [ مریم 13] اور اپنی جناب سے رحمدلی اور پاگیزگی دی تھی ۔ لِأَهَبَ لَكِ غُلاماً زَكِيًّا [ مریم 19] تاکہ تجھے ایک پاکیزہ لڑکا بخشوں یعنی وہ فطرتا پاکیزہ ہوگا اور فطرتی پاکیزگی جیسا کہ بیان کرچکے ہیں ۔ بطریق اجتباء حاصل ہوتی ہے کہ حق تعالیٰ اپنے بعض بندوں کو عالم اور پاکیزہ اخلاق بنا دیتا ہے اور یہ پاکیزگی تعلیم وممارست سے نہیں بلکہ محض توفیق الہی سے حاصل ہوتی ہے جیسا کہ اکثر انبیاء اور رسل کے ساتھ ہوا ہے ۔ اور آیت کے یہ معنی ہوسکتے ہیں کہ وہ لڑکا آئندہ چل کر پاکیزہ اخلاق ہوگا لہذا زکیا کا تعلق زمانہ حال کے ساتھ نہیں بلکہ استقبال کے ساتھ ہے قرآن میں ہے : ۔ - وَالَّذِينَ هُمْ لِلزَّكاةِ فاعِلُونَ [ المؤمنون 4] اور وہ جو زکوۃ دیا کرتے ہیں ۔ یعنی وہ عبادت اس غرض سے کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں پاک کر دے یا وہ اپنے نفوس کو پاک کرنے کی غرض سے عبادت کرتے ہیں والما ل واحد ۔ لہذا للزکوۃ میں لام تعلیل کے لیے ہے جسے لام علت و قصد کہتے ہیں اور لام تعدیہ نہیں ہے حتیٰ کہ یہ فاعلون کا مفعول ہو ۔ انسان کے تزکیہ نفس کی دو صورتیں ہیں ایک تزکیہ بالفعل یعنی اچھے اعمال کے ذریعہ اپنے نفس کی اصلاح کرنا یہ طریق محمود ہے چناچہ آیت کریمہ : ۔ قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاها [ الشمس 9] اور آیت : ۔ قَدْ أَفْلَحَ مَنْ تَزَكَّى [ الأعلی 14] میں تزکیہ سے یہی مراد ہیں ۔ دوسرے تزکیہ بالقول ہے جیسا کہ ایک ثقہ شخص دوسرے کے اچھے ہونیکی شہادت دیتا ہے ۔ اگر انسان خود اپنے اچھا ہونے کا دعوے ٰ کرے اور خود ستائی سے کام لے تو یہ مذموم ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس قسم کے تزکیہ سے منع فرمایا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے ۔ فَلا تُزَكُّوا أَنْفُسَكُمْ [ النجم 32] اپنے آپ کو پاک نہ ٹھہراؤ ۔ اور یہ نہی تادیبی ہے کیونکہ انسان کا اپنے منہ آپ میاں مٹھو بننا نہ تو عقلا ہی درست ہے اور نہ ہی شرعا ۔ یہی وجہ ہے کہ جب ایک دانش مند سے پوچھا گیا کہ وہ کونسی بات ہے جو باوجود حق ہونے کے زیب نہیں دیتی تو اس نے جواب دیا مدح الانسان نفسہ کہ خود ستائی کرنا ۔- ظلم - وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه،- قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ:- الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی،- وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] - والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس،- وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری 42] - والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه،- وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] ،- ( ظ ل م ) ۔- الظلم - اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر - بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے - (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی سب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا - :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ - (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے - ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔- ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے - ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں - فتل - فَتَلْتُ الحبل فَتْلًا، والْفَتِيلُ : الْمَفْتُولُ ، وسمّي ما يكون في شقّ النّواة فتیلا لکونه علی هيئته .- قال تعالی: وَلا يُظْلَمُونَ فَتِيلًا [ النساء 49] ، وهو ما تَفْتِلُهُ بين أصابعک من خيط أو وسخ، ويضرب به المثل في الشیء الحقیر . وناقة فَتْلَاءُ الذّراعین : محكمة .- ( ف ت ل )- فتلت الحبل تفلا کے معنی رسی کو بل دینے کے ہیں اور بٹی ہوئی رسی کو مفتول کہا جاتا ہے ۔ اور کھجور کی گٹھلی کے شگاف میں جو بار یک سا ڈور اہوتا ہے اسے بھی فتیل کہا جاتا ہے کیونکہ وہ رسی کی شکل و صورت پر ہوتا ہے ( عربی زبان میں یہ حقیر شے کے لئے ضرب المثل ہے ) جیسے فرمایا : ۔ وَلا يُظْلَمُونَ فَتِيلًا [ النساء 49] اور ان پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کیا جائے گا ۔ فتیل اصل میں اس تاگے یا میل کو کہتے ہیں جو وہ انگلیوں میں پکڑ کر پٹی جاتی ہے اور یہ حقیر چیز کے لئے ضرب المثل ہے ۔ ناقۃ فتلاء الذراعین مضبوط بازؤں والی اونٹنی

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

قول باری ہے (الم تر الی الذین یزکون انفسھم، کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھاجوبہت اپنی پاکیزگی نفس کا دم بھرتے ہیں) حسن ، قتادہ، اور ضحاک کا قول ہے کہ اس سے مراد یہود ونصاری کا وہ قول ہے جس کے الفاظ یہ ہیں ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے پیارے ہیں۔ نیز یہ کہ جنت میں صرف وہی لوگ جائیں گے جو یہود ی انصاری ہوں گے، حضرت عبداللہ بن مسعود سے مروی ہے کہ ا س سے مراد لوگوں کا ایک دوسرے کی پاکیزگی متنفس کا ظہار ہے تاکہ اس کے ذریعے کوئی دنیاوی مفاد حاصل ہوجائے۔- ابوبکرجصاص کہتے ہیں یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ اس نقطہ نظر سے پاکیزگی نفس کا دم بھرنا ممنوع ہے اللہ تعالیٰ کا بھی ارشاد ہے ، (فلاتزکوا انفسکم) تم اپنی پاکیزگی نفس کا دم نہ بھرو) حضور سے بھی مروی ہے آپ نے فرمایا، (اذارائیتم المداحین فاحثوا فی وجوھھم التراب، جب تم تعریفیں کرنے والوں کو دیکھو تو ان کے منہ پر مٹی دے مارو) ۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٤٩۔ ٥٠) یعنی بحیر ابن عمرو اور مرحب بن زید اپنے آپ کو مقدس بتاتے ہیں حالانکہ جو شخص اس کا اہل ہوگا اللہ تعالیٰ اس کو گناہوں سے پاک کردے گا، اور کھجور کی گٹھلی میں جو لیکر ہے یا انگلی کے درمیان جو میل کی دھاری سے پڑجاتی ہے، اس کے برابر بھی ان کے گناہوں میں کمی نہیں کی جائے گی۔- محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ذرا ان کا جھوٹ تو دیکھیے کہ کہتے ہیں کہ ہم دن میں جو گناہ کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ رات کو ان کی مغفرت فرما دیتے ہیں اور جو رات کو کرتے ہیں تو دن میں ان کو معاف کردیتا ہے ان کا اللہ پر یہ غلط گمان ان کے مجرم ہونے کے لیے کافی ہے۔- شان نزول : (آیت) ” الم تر الی الذین یزکون “۔ (الخ)- ابن ابی حاتم (رح) نے ابن عباس (رض) سے روایت یا کہ کچھ یہود اپنے بچوں کو لائے کہ وہ ان کی طرف سے نمازیں پڑھیں اور قربانی دیں اور یہ سمجھتے تھے کہ ان پر چھوٹے اور بڑے گناہ میں سے کوئی گناہ نہیں۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ ان لوگوں کو بھی دیکھو جو اپنے مقدس سمجھتے ہیں اور پھر یہ خلاف دین کام بھی کرتے ہیں۔- (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح )

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٤٩ (اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ یُزَکُّوْنَ اَنْفُسَہُمْ ط) - یہاں یہود کے اسی فلسفے کی طرف اشارہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو بہت پاک باز اور اعلیٰ وارفع سمجھتے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ “۔ سورة المائدۃ میں ان کا یہ قول نقل ہوا ہے : (نَحْنُ اَبْنآؤُا اللّٰہِ وَاَحِبَّاؤُہٗ ) (آیت ١٨) یعنی ہم تو اللہ کے بیٹوں کی طرح ہیں بلکہ اس کے بہت ہی چہیتے اور لاڈلے ہیں۔ ان کے نزدیک دوسرے تمام لوگ اور ہیں ‘ جو دیکھنے میں انسان نظر آتے ہیں ‘ حقیقت میں حیوان ہیں۔ ان کو تو جس طرح چاہو لوٹ کر کھا جاؤ ‘ جس طرح سے چاہو ان کو دھوکہ دو ‘ ان کا استحاصل کرو ‘ ہم پر کوئی گرفت نہیں ہے۔ سورة آل عمران میں ہم ان کا قول پڑھ چکے ہیں : (لَیْسَ عَلَیْنَا فِی الْاُمِّیّٖنَ سَبِیْلٌ ج) (آیت ٧٥) انّ اُمیوں کے معاملے میں ہم پر کوئی گرفت نہیں ہے “۔ ہم سے ان کے بارے میں کوئی محاسبہ اور کوئی مؤاخذہ نہیں ہوگا۔ جیسے آپ نے گھوڑے کو ٹانگے میں جوت لیا یا ہرن کا شکار کر کے کھالیا تو آپ سے اس پر کون مؤاخذہ کرے گا ؟ - (بَلِ اللّٰہُ یُزَکِّیْ مَنْ یَّشَآءُ ) (وَلاَ یُظْلَمُوْنَ فَتِیْلاً ) - ان کو اگر پاکیزگی نہیں ملتی تو اس کا سبب ان کے اپنے کرتوت ہیں ‘ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تو ان پر ذرا بھی ظلم نہیں کیا جاتا۔ فَتِیل دراصل اس دھاگے کو کہتے ہیں جو کھجور کے اندر گٹھلی کے ساتھ لگا ہوا ہوتا ہے۔ نزول قرآن کے زمانے میں جو چھوٹی سے چھوٹی چیزیں لوگوں کے مشاہدے میں آتی تھیں ظاہر ہے کہ وہیں سے کسی چیز کے چھوٹا ہونے کے لیے مثال پیش کی جاسکتی تھی۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

36: یعنی پاکیزگی اور تقدس اللہ تعالیٰ انہی کو عطا فرماتا ہے جو اپنے اختیاری عمل سے ایسا چاہتے ہیں، جن کو پاکیزگی اور تقدس نہیں ملتا وہ ایسے لوگ ہوتے ہیں جو اپنے اختیاری اعمال کے ذریعے خود نا اہل بن جاتے ہیں، لہذا اگر اللہ انہیں تقدس عطا نہیں فرماتا تو اس میں ان پر کوئی ظلم نہیں ہے ؛ کیونکہ انہوں نے خود اپنے اختیار سے اپنے آپ کو نا اہل بنادیا ہے۔