منہ پر تعریف و توصیف کی ممانعت یہودونصاری کا قول تھا کہ ہم اللہ تعالیٰ کی اولاد اور اس کہ چہیتے ہیں اور کہتے تھے کہ جنت میں صرف یہود جائیں گے یا نصرانی ان کے اس قول کی تردید میں یہ ( آیت الم تر الخ ، ) نازل ہوئی اور یہ قول حضرت مجاہد رحمتہ اللہ علیہ کے خیال کے مطابق اس آیت کا شان نزول ہی ہے کہ یہ لوگ اپنے بچوں کو امام بناتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ بےگناہ ہے ، یہ بھی مروی ہے کہ ان کا خیال تھا کہ ہمارے جو بچے فوت ہوگئے ہیں وہ ہمارے لئے قربت الہ کا ذریعہ ہیں ہمارے سفارشی ہیں اور ہمیں وہ بچالیں گے پس یہ آیت اتری ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہودیوں کا اپنے بچوں کا آگے کرنے کا واقعہ بیان کر کے فرماتے ہیں وہ جھوٹے ہیں اللہ تعالیٰ کسی گنہگار کو بےگناہ کی وجہ سے چھوڑ نہیں دیتا ، یہ کہتے تھے کہ جیسے ہمارے بچے بےخطا ہیں ایسے ہیں ہم بھی بےگناہ ہیں اور کہا گیا ہے کہ یہ آیت دوسروں کو بڑھی چڑھی مدح و ثنا بیان کرنے کے رد میں اتری ہے ، صحیح مسلم شریف میں ہے کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم دیا کہ ہم مدح کرنے والوں کے منہ مٹی سے بھر دیں ، بخاری و مسلم میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک مرتبہ ایک شخص کو دوسرے کی مدح و ستائش کرتے ہوئے سن کر فرمایا افسوس تو نے اپنے ساتھی کی گردن توڑ دی پھر فرمایا اگر تم میں سے کسی کو ایسی ہی ضرورت کی وجہ سے کسی کی تعریف کرنی بھی ہو تو یوں کہے کہ فلاں شخص کے بارے میں میری رائے یہ ہے اللہ کے نزدیک پسندیدہ عمل یہی ہے کہ کسی کی منہ پر تعریف نہ کی جائے ۔ مسند احمد میں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول ہے کہ جو کہے میں مومن ہوں وہ کافر ہے اور جو کہے کہ میں عالم ہوں وہ جاہل ہے اور جو کہے میں جنتی ہوں جہنمی ہے ، ابن مردویہ میں آپ کے فرمان میں یہ بھی مروی ہے کہ مجھے تم پر سب سے زیادہ خوف اس بات کا ہے کہ کوئی شخص خود پسندی کرنے لگے اور اپنی سمجھ پر آپ فخر کرنے بیٹھ جائے ، مسند احمد میں ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بہت ہی کم حدیث بیان فرماتے اور بہت کم جمعے ایسے ہوں گے جن میں آپ نے یہ چند حدیثیں نہ سنائی ہوں کہ جس کے ساتھ اللہ کا ارادہ بھلائی کا ہوتا ہے اسے اپنے دین کی سمجھ عطافرماتا ہے اور یہ مال میٹھا اور سبز رنگ ہے جو اسے اس کے حق کے ساتھ لے گا اسے اس میں برکت دی جائے گی تم لوگ آپس میں ایک دوسرے کی مدح و ستائش سے پرہیز کرو اس لئے کہ یہ دوسرے پر چھری پھیرنا ہے یہ پچھلا جملہ ان سے ابن ماجہ میں بھی مروی ہے حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ انسان کے پاس ایک صبح کو اپنے دین میں سے کچھ بھی نہیں ہوتا ( اس کی وجہ یہ ہوتی ہے ) کہ وہ صبح کسی سے اپنا کام نکالنے کے لئے ملا ، اس کی تعریف شروع کر دی اور اس کی مدح سرائی شروع کی اور قسمیں کھا کر کہنے لگا آپ ایسے ہیں اور ایسے ہیں حلانکہ نہ وہ اس کے نقصان کا مالک ہے نہ نفع اور بسا ممکن ہے کہ ان تعریفی کلمات اور اس کا تفصیلی بیان ( فَلَا تُزَكُّوْٓا اَنْفُسَكُمْ ) 53 ۔ النجم:32 ) کی تفسیر میں آئے گا انشاء اللہ تعالیٰ پس یہاں ارشاد ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی ہے وہ جسے چاہے پاک کر دے کیونکہ تمام چیزوں کی حقیقت اور اصلیت کا عالم وہی ہے ، پھر فرمایا کہ اللہ ایک دھاگے کے وزن کے برابر بھی کسی کی نیکی نہ چھوڑے گا ، فتیل کے معنی ہیں کھجور کی گٹھلی کے درمیان کا دھاگہ اور مروی ہے کہ وہ دھاگہ جسے کوئی اپنی انگلیوں سے بٹ لے ، پھر فرماتا ہے ان کی افترا پردازی تو دیکھو کہ کس طرح اللہ عزوجل کی اولاد اور اس کے محبوب بننے کے دعویدار ہیں؟ اور کیسی باتیں کر رہے ہیں کہ ہمیں تو صرف چند دن آگ میں رہنا ہوگا کس طرح اپنے بروں کے نیک اعمال پر اعتماد کیے بیٹھے ہیں؟ حالانکہ ایک کا عمل دوسرے کو کچھ نفع نہیں دے سکتا جیسے ارشاد ہے ( تِلْكَ اُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ ۚ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَلَكُمْ مَّا كَسَبْتُمْ ۚ وَلَا تُسْـــَٔــلُوْنَ عَمَّا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ ) 2 ۔ البقرۃ:134 ) یہ ایک گروہ ہے جو گزر چکا ان کے اعمال ان کے ساتھ اور تمہارے اعمال تمہارے ساتھ پھر فرماتا ہے ان کا یہ کھلا کذب و افترا ہی ان کے لئے کافی ہے جبت کے معنی حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ وغیرہ سے جادو اور طاغوت کے معین شیطان کے مروی ہیں ، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جبت جبش کا لفظ ہے اس کے معنی شیطان کے ہیں ، شرک بت اور کاہن کے معنی بھی بتائے گئے ہیں بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد حی بن اخطب ہے ، بعض کہتے ہیں کعب بن اشرف ہے ، ایک حدیث میں ہے فال اور پرندوں کو ڈانٹنا یعنی ان کے نام یا ان کے اڑنے یا بولنے یا ان کے نام سے شگون لینا اور زمین پر لکیریں کھینچ کر معاملہ طے کرنا اور جبت ہے ، حسن کہتے ہیں جبت شیطان کی غنغناہٹ ہے ، طلاغوت کی نسبت سوال کیا گیا تو فرمایا کہ یہ کاہن لوگ ہیں جن کے پاس شیطان آتے تھے مجاہد فرماتے ہیں انسانی صورت کے یہ شیاطین ہیں جن کے پاس لوگ اپنے جھگڑے لے کر آتے ہیں اور انہیں حاکم مانتے ہیں حضرت امام مالک فرماتے ہیں اس سے مراد ہر چیز ہے جس کی عبادت اللہ کے سوا کی جائے پھر فرمایا کہ ان کی جہالت بےدینی اور خود اپنی کتاب کے ساتھ کفر کی نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ کافروں کو مسلمانوں پر ترجیح اور افضلیت دیتے ہیں ، ابن ابی حاتم میں ہے کہ حی بن اخطب اور کعب بن اشرف مکہ والوں کے پاس آئے تو اہل مکہ نے ان سے کہا تم اہل کتاب اور صاحب علم ہو بھلا بتاؤ تو تم بہتر ہیں یا محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) انہوں نے کہا تم کیا ہو؟ اور وہ کیا ہیں؟ تو اہل مکہ نے کہا ہم صلہ رحمی کرتے ہیں تیار اونٹنیاں ذبح کر کے دوسروں کو کھلاتے ہیں لسی پلاتے ہیں غلاموں کو آزاد کرتے ہیں حاجیوں کو پانی پلاتے ہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو صنبور ہیں ہمارے رشتے ناتے تڑوا دئیے ۔ ان کا ساتھ حاجیوں کے چوروں نے دیا جو قبیلہ غفار میں سے ہیں اب بتاؤ ہم اچھے یا وہ؟ تو ان دونوں نے کہا تم بہتر ہو اور تم زیادہ سیدھے راستے پر ہو اس پر یہ آیت اتری دوسری روایت میں ہے کہ انہی کے بارے میں ( آیت ان شانئک ھو الابتر ) اتری ہے ، بنو وائیل اور بنو نضیر کے چند سردار جب عرب میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف آگ لگا رہے تھے اور جنگ عظیم کی تیاری میں تھے اس قوت جب یہ قریش کے پاس آئے تو قریشیوں نے انہیں عالم و درویش جان کر ان سے پوچھا کہ بتاؤ ہمارا دین اچھا ہے یا محمد کا ؟ تو ان لوگوں نے کہا تم اچھے دین والے اور ان سے زیادہ صحیح راستے پر ہو اس پر ہی آیت اتری اور خبر دی گئی کہ یہ لعنتی گروہ ہے اور ان کا ممد و معاون دنیا اور آخرت میں کوئی نہیں اس لئے کہ صرف کفار کو اپنے ساتھ ملانے کے لئے بطور چاپلوسی اور خوشامد کے یہ کلمات اپنی معلومات کے خلاف کہہ رہے ہیں لیکن یاد رکھ لیں کہ یہ کامیاب نہیں ہو سکتے چنانچہ یہی ہوا زبردست لشکر لے کر سارے عرب کو اپنے ساتھ ملا کر تمام تر قوت و طاقت اکٹھی کر کے ان لوگوں کو مدینہ شریف پر چڑھائی کی یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مدینہ کے اردگرد خندق کھودنی پڑی لیکن بالآخر دنیا نے دیکھ لیا ان کی ساری سازشیں ناکام ہوئیں یہ خائب و خاسر رہے ، نامراد و ناکام پلٹے ، دامن مراد خالی رہا بلکہ نامرادی مایوسی اور نقصان عظیم کے ساتھ لوٹنا پڑا ۔ اللہ تعالیٰ نے مومنوں کی مدد آپ کی اور اپنی قوت و عزت سے ( کافروں کو ) اوندھے منہ گرا دیا ، فالحمد اللہ الکبیر المتعال
51۔ 1 اس آیت میں یہودیوں کے ایک اور فعل پر تعجب کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ اہل کتاب ہونے کے باوجود یہ (جبت) بت، کاہن یا ساحر (جھوٹے معبودوں) پر ایمان رکھتے اور کفار مکہ کو مسلمانوں سے زیادہ ہدایت یافتہ سمجھتے ہیں جبت کے یہ سارے مزکورہ معنی کیے گئے ہیں ایک حدیث میں آتا ہے " ان العیافۃ والطرق والطیرۃ من الجبت " پرندے اڑا کر، خط کھینچ کر، بدفالی اور بد شگونی لینا یعنی یہ سب شیطانی کام ہیں اور یہود میں یہ چیزیں عام تھیں طاغوت کے ایک معنی شیطان بھی کئے گئے ہیں ، دراصل معبودان باطل کی پرستش، شیطان ہی کی پیروی ہے۔ اس لئے شیطان بھی یقینا طاغوت میں شامل ہے۔
[٨٣] جبت اور طاغوت جبت دراصل اوہام و خرافات کے لیے ایک جامع لفظ ہے جس میں جادو، ٹونے، ٹوٹکے، جنتر منتر سیاروں کے انسانی زندگی پر اثرات، فال گیری، گنڈے، نقش اور تعویذ وغیرہ سب کچھ شامل ہے۔ اور طاغوت ہر وہ باطل قوت اور نظام ہے جس کی اطاعت کرنے پر لوگ مجبور ہوں اور اللہ کی اطاعت کے مقابلہ میں انہیں اس فرد، ادارہ یا حکومت کی اطاعت کرنے پر مجبور کیا جائے یا مجبور بنادیا جائے اور لوگ انہیں احکام الٰہیہ کے علی الرغم تسلیم کرلیں۔ یہ گاؤں کے چودھری بھی ہوسکتے ہیں، پیر و مشائخ بھی، سوشلزم یا جمہوریت کی طرح باطل نظام بھی۔ اور فرعون و نمرود کی طرح سرکش بادشاہ بھی۔- خ یہود کا مشرکوں کو مسلمانوں سے بہتر قرار دیا :۔ یعنی ان یہود و نصاریٰ کی اکثریت ایسی ہے جو اوہام و خرافات اور ٹونے ٹوٹکے کے پیچھے پڑی ہوئی ہے اور اللہ پر ایمان لانے کی بجائے طاغوت کے آگے گھٹنے ٹیک دیتے ہیں۔ اپنی ایسی گمراہ حالت کے باوجود دوسرے کافروں (مشرکین وغیرہ) سے یہ کہتے ہیں کہ ان ایمان لانے والوں (مسلمانوں) سے تو تم ہی اچھے ہو اور ان سے زیادہ ہدایت یافتہ ہو۔ یعنی خود تو سراسر ضلالت میں ڈوبے ہیں اور مشرکوں کو مسلمانوں سے زیادہ ہدایت یافتہ ہونے کے سرٹیفکیٹ بھی دے رہے ہیں۔- یاد رہے کہ مشرکین مکہ نے جب بھی مدینہ پر چڑھائی کی تو یہود ہمیشہ قولاً اور عملاً ان کا ساتھ دیتے رہے۔ ایسے ہی کسی موقع پر مشرکوں نے یہودیوں سے پوچھا کہ سچ بتانا کہ یہ مسلمان بہتر ہیں یا ہم ؟ اور ان سے پوچھا اس لیے گیا کہ عرب بھر میں یہود کی علمی ساکھ تھی۔ لیکن یہ بےایمان محض مشرکوں کو خوش کرنے کی خاطر ایسا جواب دے دیتے۔ حالانکہ حقیقت انہیں پوری طرح معلوم تھی کہ شرک اللہ کے ہاں ناقابل معافی جرم ہے اور مسلمان موحد ہونے کی بنا پر مشرکوں سے ہزار درجہ بہتر ہیں۔
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ اُوْتُوْا نَصِيْبًا مِّنَ الْكِتٰبِ ۔۔ : عمر فاروق (رض) نے فرمایا : ” جبت سے مراد جادو اور طاغوت سے مراد شیطان ہے۔ “ [ بخاری، التفسیر، باب قولہ (وَاِنْ كُنْتُمْ مَّرْضٰٓى اَوْ عَلٰي سَفَرٍ ) قبل : ٤٥٨٣، معلقًا ] جوہری نے الصحاح میں فرمایا : ” جبت “ کا لفظ بت، کاہن، جادوگر اور اس قسم کی دوسری چیزوں پر استعمال ہوتا ہے۔ “ اسی طرح ایک حدیث میں آیا ہے کہ ” پرندوں کو اڑا کر شگون لینا اور زمین پر لکیریں کھینچ کر فال گیری کرنا جبت میں شامل ہے۔ “ [ أبو داوٗد، الطب، باب فی الخط وزجر الطیر : ٣٩٠٧ ] اور طاغوت سے مراد شیطان ہے اور ہر وہ شخص جو گناہ کی دعوت دے اس پر یہ لفظ بولا جاتا ہے۔ عرب میں بتوں کے ترجمان ہوتے تھے، جو ان کی زبان سے جھوٹ نقل کرتے اور لوگوں کو گمراہ کرتے، ان کو طاغوت کہا جاتا تھا۔ مزید دیکھیے البقرۃ (٢٥٢)- 2 یہودیوں کی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مخالفت ہوئی تو انھوں نے مشرکین مکہ سے رابطہ قائم کرلیا اور ان سے کہنے لگے کہ تمہارا دین مسلمانوں کے دین سے بہتر ہے۔ یہ سب کچھ اس حسد کی وجہ سے تھا کہ نبوت اور ریاست ہمارے سوا دوسروں کو کیوں مل گئی، اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں ان کو الزام دیا۔
خلاصہ تفسیر - (اے مخاطب) کیا تو نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جن کو کتاب (الہی یعنی توراة کے علم) کا ایک حصہ ملا ہے (پھر باوجود اس کے) وہ بت اور شیطان کو مانتے ہیں (کیونکہ مشرکین کا دین بت پرستی اور شیطان کی پیروی تھا جب ایسے دین کو اچھا بتلایا تو بت اور شیطان کی تصدیق لازم آئی) اور وہ لوگ (یعنی اہل کتاب) کفار (یعنی مشرکین) کی نسبت کہتے ہیں کہ یہ لوگ بہ نسبت ان مسلمانوں کے زیادہ راہ راستے پر ہیں (یہ تو انہوں نے صراحتہ ہی کہا تھا) یہ لوگ (جنہوں نے کفر کے طریقہ کو اسلامی طریقہ سے افضل بتلایا) وہ ہیں جن کو خد تعالیٰ نے ملعون بنایا ہے (اسی معلون ہونے کا تو اثر ہے کہ ایسے بےباک ہو کر کفریات بک رہے ہیں) اور اللہ تعالیٰ جس کو ملعون بنا دے اس کا (عذاب کے وقت) کوئی حامی نہ پاؤ گے (مطلب یہ ہے کہ اس پر ان کو آخرت میں یا دنیا میں بھی سخت سزا ہوگی، چناچہ دنیا میں بعضے قتل، بعضے قید، بعضے ذلیل رعایا ہوئے اور آخرت میں جو ہونے والا ہے وہی ہوگا۔ )- ربط آیات :۔ پچھلی آیت الم ترا الی الذین اوتوا نصیباً من الکتب یشرون الضللة الخ سے یہود کی قبائح اور بری خصلتوں کا ذکر چل رہا ہے، ان آیات کا تعلق بھی انہی کے ذکر قبائح سے ہے۔- معارف مسائل - ” الجبت و الطاغوت “ سے کیا مراد ہے ؟:۔- اوپر کی آیت نمبر ١٥ میں دو لفظ ” الجبت “ اور ” الطاغوت “ کا ذکر کیا گیا ہے۔ ان سے مراد کیا ہے ؟ مفسرین کے اس بارے میں متعدد اقوال ہیں، حضرت ابن عباس، ابن جبیر اور ابوالعالیہ (رض) فرماتے ہیں کہ ” جبت “ حبشی لغت ہیں ساحر کو کہتے ہیں اور ” طاغوت “ سے مراد کاہن ہے۔- حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں کہ ” جبت “ سے مراد سحر ہے اور ” طاغوت ‘ سے مراد شیطان ہے، مالک بن انس سے منقول ہے کہ اللہ کے سوا جن چیزوں کی عبادت کی جاتی ہے ان سب کو طاغوت کہا جاتا ہے۔- امام قرطبی فرماتے ہیں کہ مالک بن انس کا قول زیادہ پسندیدہ ہے، کیونکہ اس کا ثبوت قرآن سے بھی ہوتا ہے، ارشاد ہے، ان اعبدواللہ واجنبوا الطاغوت، لیکن ان متعدد اقوال میں کوئی تعارض نہیں ہے، اس لئے سب ہی مراد لئے جاسکتے ہیں، اسطرح کہ اصل میں جبت تو بت ہی کا نام تھا، لیکن بعد میں اس کا استعمال اللہ کے سوا دوسری عبادت کی جانے والی چیزوں پر بھی ہونے لگا (روح المعانی)- مذکورہ آیات کا شان نزول :۔- حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ یہود کے سردار حیی بن اخطب اور کعب بن اشرف اپنی ایک جماعت کو جنگ احد کے بعد لے کر مکہ میں قریش کے ساتھ ملنے آئے، یہود کا سردار کعب بن اشرف، ابوسفیان کے پاس آیا اور اس نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف ان کے ساتھ تعاون کرنے کا وعدہ کیا، اہل مکہ نے کعب بن اشرف سے کہا تم ایک دھوکہ دینے والی قوم ہو اگر تم واقعی اپنے قول میں سچے ہو تو ہمارے ان دو بتوں (جبت اور طاغوت) کے سامنے سجدہ کرو۔ - چنانچہ اس نے قریش کو مطمئن کرنے کے لئے ایسا ہی کیا، اس کے بعد کعب نے قریش سے کہا کہ تیس آدمی تم میں سے اور تیس ہم میں سے سامنے آئیں، تاکہ رب کعبہ کے ساتھ اس چیز کا عہد کریں کہ ہم سب مل کر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف جنگ کریں گے۔- کعب کی اس تجویز کو قریش نے پسند کیا اور اس طرح سے انہوں نے مسلمانوں کے خلاف ایک متحدہ محاذ قائم کردیا، اس کے بعد ابوسفیان نے کعب سے کہا کہ تم اہل علم ہو تمہارے پاس اللہ کی کتاب ہے، لیکن ہم بالکل جاہل ہیں، اس لئے آپ ہمارے متعلق بتائیں کہ ہم حق پر چلنے والے ہیں یا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - کعب نے پوچھا کہ تمہارا دین کیا ہے ؟ ابوسفیان نے کہا ہم حج کے لئے اپنے اونٹوں کو ذبح کرتے ہیں اور ان کا دودھ پلاتے ہیں، مہمانوں کی ضیافت کرتے ہیں، اپنے خویش و اقرباء کے تعلقات کو قائم رکھتے ہیں اور بیت اللہ کا طواف اور عمرہ کرتے ہیں، اس کے برخلاف محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے آبائی دین کو چھوڑ دیا ہے، وہ اپنوں سے علیحدہ ہوچکا ہے، اور اس نے ہمارے قدیم دین کے خلاف اپنا ایک نیا دین پیش کیا ہے۔- ان باتوں کو سن کر کعب بن اشرف نے کہا کہ تم لوگ حق پر ہو، محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (معاذ اللہ) گمراہ ہوچکا ہے۔- اس پر اللہ تعالیٰ نے مذکورہ آیات نازل فرما کر ان کے دجل و فریب کی مذمت کی۔ روح المعانی)- نفسانی خواہشات بعض اوقات آدمی کو دین ایمان سے محروم کردیتی ہیں :۔ کعب بن اشرف یہودیوں کا ایک ممتاز عالم تھا جو خدا پر بھی عقیدہ رکھتا تھا اور اسی کی عبادت کرتا تھا، لیکن جب اس کے دل و دماغ پر نفسانی خواہشات کا بھوت سوار ہوا تو اس نے مسلمانوں کے خلاف قریش سے الحاق کرنا چاہا، قریش مکہ نے اس کے ساتھ ملنے کی یہ شرط لگائی کہ وہ ہمارے بتوں کے سامنے سجدہ کرے، اس نے اس کو بھی گوارا کرلیا، جس کی تفصیل گزر چکی ہے، اس نے اپنے مذہب کے خلاف قریش کی شرط کی تو پورا کیا لیکن اپنے مذہبی عقائد کو قائم رکھنے کے لئے ان سے علیحدگی اختیار کرنا گوارا نہ کیا، قرآن عزیز نے ایک دوسرے مقام پر اسی قسم کا واقعہ بلعم باعورا کے بارے میں بیان کیا ہے، ارشاد ہے : واتل علیھم نبا الذین اتینہ ایتنا فانسلخ منھا فاتبعہ الشیطان فکان من الغوین - مفسرین نے لکھا ہے کہ بلعم بن باعورا ایک جلیل القدر عالم اور صاحب تصرف درویش تھا، لیکن جب اس نے اپنی نسفسانی خواہشات کو پورا کرنے کے لئے موسیٰ (علیہ السلام) کے خلاف ناپاک تدبیریں کرنی شرع کیں تھیں ان کا تو کچھ نہ بگاڑ سکا، لیکن خود مردود اور گمراہ ہوگیا۔- اس سے معلوم ہوا کہ کتاب کا محض علم کچھ نافع نہیں ہوسکتا کہ صحیح معنی میں اس کا اتباع نہ ہو اور محض دنیوی طمع اور سفلی خواہشات کی پیروی سے مکمل اجتناب نہ ہو، ورنہ آدمی اپنے مذہب جیسی عزیز چیز کو بھی اپنی خواہشات کی بھینٹ چڑھانے سے نہیں بچتا آج کل بھی بعض لوگ اس قسم کے ہیں جو مادی اور سیاسی اغراض و مقاصد کے حصول کے لئے اپنے حق مسلک کو آسانی سے چھوڑ دیتے ہیں اور لا دینی عقائد و نظریات کو اسلام کا لباس پہنانے کی پوری کوشش کرتے ہیں نہ ان کو خدا کے عہد و میثاق کی کچھ پرواہ ہوتی ہے اور نہ آخرت کا خوف یہ سب کچھ صحیح اور حق مسلک کو چھوڑ کر شیطان کے اشاروں پر چلنے سے ہوتا ہے۔
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ اُوْتُوْا نَصِيْبًا مِّنَ الْكِتٰبِ يُؤْمِنُوْنَ بِالْجِبْتِ وَالطَّاغُوْتِ وَيَقُوْلُوْنَ لِلَّذِيْنَ كَفَرُوْا ہٰٓؤُلَاۗءِ اَہْدٰى مِنَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا سَبِيْلًا ٥١- الف ( ا)- الألفات التي تدخل لمعنی علی ثلاثة أنواع :- نوع في صدر الکلام .- ونوع في وسطه .- ونوع في آخره .- فالذي في صدر الکلام أضرب :- الأوّل : ألف الاستخبار، وتفسیره بالاستخبار أولی من تفسیر ه بالاستفهام، إذ کان ذلک يعمّه وغیره نحو : الإنكار والتبکيت والنفي والتسوية .- فالاستفهام نحو قوله تعالی: أَتَجْعَلُ فِيها مَنْ يُفْسِدُ فِيها [ البقرة 30] ، والتبکيت إمّا للمخاطب أو لغیره نحو : أَذْهَبْتُمْ طَيِّباتِكُمْ [ الأحقاف 20] ، أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْداً [ البقرة 80] ، آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس 91] ، أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران 144] ، أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخالِدُونَ [ الأنبیاء 34] ، أَكانَ لِلنَّاسِ عَجَباً [يونس 2] ، آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ [ الأنعام 144] .- والتسوية نحو : سَواءٌ عَلَيْنا أَجَزِعْنا أَمْ صَبَرْنا [إبراهيم 21] ، سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لا يُؤْمِنُونَ [ البقرة 6] «1» ، وهذه الألف متی دخلت علی الإثبات تجعله نفیا، نحو : أخرج ؟ هذا اللفظ ينفي الخروج، فلهذا سأل عن إثباته نحو ما تقدّم .- وإذا دخلت علی نفي تجعله إثباتا، لأنه يصير معها نفیا يحصل منهما إثبات، نحو : أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ [ الأعراف 172] «2» ، أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین 8] ، أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ [ الرعد 41] ، أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَةُ [ طه 133] أَوَلا يَرَوْنَ [ التوبة :- 126] ، أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ [ فاطر 37] .- الثاني : ألف المخبر عن نفسه نحو :- أسمع وأبصر .- الثالث : ألف الأمر، قطعا کان أو وصلا، نحو : أَنْزِلْ عَلَيْنا مائِدَةً مِنَ السَّماءِ [ المائدة 114] ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتاً فِي الْجَنَّةِ [ التحریم 11] ونحوهما .- الرابع : الألف مع لام التعریف «4» ، نحو :- العالمین .- الخامس : ألف النداء، نحو : أزيد، أي : يا زيد .- والنوع الذي في الوسط : الألف التي للتثنية، والألف في بعض الجموع في نحو : مسلمات ونحو مساکين .- والنوع الذي في آخره : ألف التأنيث في حبلی وبیضاء «5» ، وألف الضمیر في التثنية، نحو :- اذهبا .- والذي في أواخر الآیات الجارية مجری أواخر الأبيات، نحو : وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا [ الأحزاب 10] ، فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا [ الأحزاب 67] ، لکن هذه الألف لا تثبت معنی، وإنما ذلک لإصلاح اللفظ .- ا : الف با معنی کی تین قسمیں ہیں ۔ ایک وہ جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ دوسرا وہ جو وسط کلام میں واقع ہو ۔ تیسرا وہ جو آخر کلام میں آئے ۔ ( ا) وہ الف جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ اس کی چند قسمیں ہیں : ۔ (1) الف الاستخبار اسے ہمزہ استفہام کہنے کے بجائے الف استخبار کہنا زیادہ صحیح ہوگا ۔ کیونکہ اس میں عمومیت ہے جو استفہام و انکار نفی تبکیت پر زجرو تو بیخ ) تسویہ سب پر حاوی ہے۔ چناچہ معنی استفہام میں فرمایا ۔ أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ [ البقرة : 30]( انہوں نے کہا ) کیا تو اس میں ایسے شخص کو نائب بنانا چاہتا ہے جو خرابیاں کرے اور کشت و خون کرتا پھرے اور تبکیت یعنی سرزنش کبھی مخاطب کو ہوتی ہے اور کبھی غیر کو چناچہ ( قسم اول کے متعلق ) فرمایا :۔ (1) أَذْهَبْتُمْ طَيِّبَاتِكُم [ الأحقاف : 20] تم اپنی لذتیں حاصل کرچکے ۔ (2) أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْدًا [ البقرة : 80] کیا تم نے خدا سے اقرار لے رکھا ہے ؟ (3) آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس : 91] کیا اب ( ایمان لاتا ہے ) حالانکہ تو پہلے نافرمانی کرتا رہا ؟ اور غیر مخاظب کے متعلق فرمایا :۔ (4) أَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا [يونس : 2] کیا لوگوں کے لئے تعجب خیز ہے ؟ (5) أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِل [ آل عمران : 144] تو کیا اگر یہ مرجائیں یا مارے جائیں ؟ (6) أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخَالِدُونَ [ الأنبیاء : 34] بھلا اگر تم مرگئے تو کیا یہ لوگ ہمیشہ رہیں گے ؟ (7) آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ [ الأنعام : 143] بتاؤ تو ( خدا نے ) دونوں نروں کو حرام کیا ہے ۔ یا دونوں ماديؤں کو ۔ اور معنی تسویہ میں فرمایا ، سَوَاءٌ عَلَيْنَا أَجَزِعْنَا أَمْ صَبَرْنَا [إبراهيم : 21] اب ہم گهبرائیں یا صبر کریں ہمارے حق میں برابر ہے ۔ سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ ( سورة البقرة 6) تم خواہ انہیں نصیحت کردیا نہ کرو ان کے لئے برابر ہے ، وہ ایمان نہیں لانے کے ۔ اور یہ الف ( استخبار ) کلام مثبت پر داخل ہو تو اسے نفی میں تبدیل کردیتا ہے ۔ جیسے اخرج ( وہ باہر نہیں نکلا ) کہ اس میں نفی خروج کے معنی پائے جائے ہیں ۔ اس لئے کہ اگر نفی کے معنی نہ ہوتے تو اس کے اثبات کے متعلق سوال نہ ہوتا ۔ اور جب کلام منفی پر داخل ہو تو اسے مثبت بنا دیتا ہے ۔ کیونکہ کلام منفی پر داخل ہونے سے نفی کی نفی ہوئی ۔ اور اس طرح اثبات پیدا ہوجاتا ہے چناچہ فرمایا :۔ أَلَسْتُ بِرَبِّكُم [ الأعراف : 172] کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں ( یعنی ضرور ہوں ) أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ [ التین : 8] کیا اللہ سب سے بڑا حاکم نہیں ہے یعنی ضرور ہے ۔ أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ [ الرعد : 41] کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم زمین کا بندوبست کرتے ہیں ۔ أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَة [ طه : 133] کیا ان کے پاس کھلی نشانی نہیں آئی ۔ أَوَلَا يَرَوْنَ [ التوبة : 126] اور کیا یہ نہیں دیکھتے أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُم [ فاطر : 37] اور کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہیں دی ۔ (2) الف جو مضارع کے صیغہ واحد متکلم کے شروع میں آتا ہے اور میں " کے معنی رکھتا ہے جیسے اسمع و ابصر یعنی میں سنتاہوں اور میں دیکھتا ہوں (3) ہمزہ فعل امر خواہ قطعی ہو یا وصلي جیسے فرمایا :۔ أَنْزِلْ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِنَ السَّمَاءِ [ المائدة : 114] ہم پر آسمان سے خوان نازل فرما ۔ رَبِّ ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ [ التحریم : 11] اے میرے پروردگار میرے لئے بہشت میں اپنے پاس ایک گھر بنا ۔ (4) الف جو لام کے ساتھ معرفہ بنانے کے لئے آیا ہے جیسے فرمایا الْعَالَمِينَ [ الفاتحة : 2] تمام جہانوں (5) الف نداء جیسے ازید ( اے زید ) ( ب) وہ الف جو وسط کلمہ میں آتا ہے اس کی پہلی قسم الف تثنیہ ہے ( مثلا رجلان ) اور دوسری وہ جو بعض اوزان جمع میں پائی جاتی ہے مثلا مسلمات و مساکین ۔ ( ج) اب رہا وہ الف جو کلمہ کے آخر میں آتا ہے ۔ وہ یا تو تانیث کے لئے ہوتا ہے جیسے حبلیٰ اور بَيْضَاءُمیں آخری الف یا پھر تثنیہ میں ضمیر کے لئے جیسا کہ اذْهَبَا [ الفرقان : 36] میں آخر کا الف ہے ۔ وہ الف جو آیات قرآنی کے آخر میں کہیں بڑھا دیا جاتا ہے جیسے وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا [ الأحزاب : 10] فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا [ الأحزاب : 67] تو یہ کوئی معنوی اضافہ نہیں کرتا بلکہ محض لفظی اصلاح ( اور صوتی ہم آہنگی ) کے لئے آخر میں بڑھا دیا جاتا ہے ( جیسا کہ ابیات کے اواخر میں الف " اشباع پڑھاد یتے ہیں )- «لَمْ»- وَ «لَمْ» نفي للماضي وإن کان يدخل علی الفعل المستقبل، ويدخل عليه ألف الاستفهام للتّقریر . نحو : أَلَمْ نُرَبِّكَ فِينا وَلِيداً [ الشعراء 18] ، أَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيماً فَآوی [ الضحی 6]- ( لم ( حرف ) لم ۔ کے بعد اگرچہ فعل مستقبل آتا ہے لیکن معنوی اعتبار سے وہ اسے ماضی منفی بنادیتا ہے ۔ اور اس پر ہمزہ استفہام تقریر کے لئے آنا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : أَلَمْ نُرَبِّكَ فِينا وَلِيداً [ الشعراء 18] کیا ہم نے لڑکپن میں تمہاری پرورش نہیں کی تھی ۔- رأى- والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس :- والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو :- لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 6- 7] ،- والثاني : بالوهم والتّخيّل،- نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 50] .- والثالث : بالتّفكّر، - نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال 48] .- والرابع : بالعقل،- وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم 11] ،- ( ر ء ی ) رای - الرؤیتہ - کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور - قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں - ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا - جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔- ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا - جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔- (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا - جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے - ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا - جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔ - نَّصِيبُ :- الحَظُّ المَنْصُوبُ. أي : المُعَيَّنُ. قال تعالی: أَمْ لَهُمْ نَصِيبٌ مِنَ الْمُلْكِ [ النساء 53]- ( ن ص ب ) نصیب - و النصیب کے معنی معین حصہ کے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ أَمْ لَهُمْ نَصِيبٌ مِنَ الْمُلْكِ [ النساء 53] کیا ان کے پاس بادشاہی کا کچھ حصہ ہے ۔ - كتب - والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ،- ( ک ت ب ) الکتب ۔- الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو - جبت - قال اللہ تعالی: يُؤْمِنُونَ بِالْجِبْتِ وَالطَّاغُوتِ [ النساء 51] ، الجِبْتُ والجبس : الفسل الذي لا خير فيه، وقیل : التاء بدل من السین، تنبيها علی مبالغته في الفسولة، کقول الشاعر :- عمرو بن يربوع شرار النّاس أي : خس اس الناس، ويقال لكلّ ما عبد من دون اللہ : جبت، وسمي الساحر والکاهن جبتا .- ( ج ب ت ) الجبت جبت اور جبس اس دھوان کو کہتے ہیں جو کسی کام کا نہ ہو اور بعض نے کہا ہے کہ دراصل جبس کے سین کو تار سے تبدیل کرلیا گیا ہے ۔ تاکہ مبالغہ پر دلالت کرے شاعر نے کہا ہے ۔ ( رجز ) یعنی عمر وبن پر بوع تمام لوگوں سے ناکام ہے ۔ نیز ہر وہ چیز جس کی اللہ کے سوا پر ستش کی جائے وہ جبت کہلاتی ہے اور ساحر کا ہن کو بھی جبت کہا جاتا ہے قرآن میں ہے ۔ يُؤْمِنُونَ بِالْجِبْتِ وَالطَّاغُوتِ [ النساء 51] کہ بےاصل باتوں اور طاغوت پر ایمان رکھتے ہیں ۔- طَّاغُوتُ- والطَّاغُوتُ عبارةٌ عن کلِّ متعدٍّ ، وكلِّ معبود من دون الله، ويستعمل في الواحد والجمع . قال تعالی: فَمَنْ يَكْفُرْ بِالطَّاغُوتِ [ البقرة 256] ، وَالَّذِينَ اجْتَنَبُوا الطَّاغُوتَ [ الزمر 17] ، أَوْلِياؤُهُمُ الطَّاغُوتُ [ البقرة 257] ، يُرِيدُونَ أَنْ يَتَحاكَمُوا إِلَى الطَّاغُوتِ [ النساء 60] ، فعبارة عن کلّ متعدّ ، ولما تقدّم سمّي السّاحر، والکاهن، والمارد من الجنّ ، والصارف عن طریق الخیر طاغوتا، ووزنه فيما قيل : فعلوت، نحو : جبروت وملکوت، وقیل : أصله : طَغَوُوتُ ، ولکن قلب لام الفعل نحو صاعقة وصاقعة، ثم قلب الواو ألفا لتحرّكه وانفتاح ما قبله .- الطاغوت : سے مراد ہر وہ شخص ہے جو حدود شکن ہوا اور ہر وہ چیز جس کی اللہ کے سوا پرستش کی جائے اسے طاغوت کہاجاتا ہے اور یہ واحد جمع دونوں میں استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمَنْ يَكْفُرْ بِالطَّاغُوتِ [ البقرة 256] جو شخص بتوں سے اعتقاد نہ رکھے ۔ وَالَّذِينَ اجْتَنَبُوا الطَّاغُوتَ [ الزمر 17] اور جنہوں نے بتوں کی پوجا۔۔ اجتناب کیا ۔ أَوْلِياؤُهُمُ الطَّاغُوتُ [ البقرة 257] ان کے دوست شیطان ہیں ۔ اور آیت کریمہ : يُرِيدُونَ أَنْ يَتَحاكَمُوا إِلَى الطَّاغُوتِ [ النساء 60] اور چاہتے یہ ہیں کہ اپنا مقدمہ ایک سرکش کے پاس لے جاکر فیصلہ کرائیں ۔ میں طاغوت سے حدود شکن مراد ہے اور نافرمانی میں حد سے تجاوز کی بنا پر ساحر، کا ہن ، سرکش جن اور ہر وہ چیز طریق حق سے پھیرنے والی ہوا سے طاغوت کہاجاتا ہے بعض کے نزدیکی فعلوت کے وزن پر ہے جیسے جبروت ومنکوت اور بعض کے نزدیک اس کی اصل طاغوت ہے ۔ پھر صاعقۃ اور صاقعۃ کی طرح پہلے لام کلمہ میں قلب کیا گیا اور پھر واؤ کے متحرک اور ماقبل کے مفتوح ہونے کہ وجہ سے الف سے تبدیل کیا گیا ۔- كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔- هدى- الهداية دلالة بلطف،- وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه :- الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل،- والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى- [ طه 50] .- الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء،- وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا - [ الأنبیاء 73] .- الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی،- وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن 11] - الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ- بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43]. - ( ھ د ی ) الھدایتہ - کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔- انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے - ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے - اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی - ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت - کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ - ( 3 ) سوم بمعنی توفیق - خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔- ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا - مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43] میں فرمایا ۔- أیمان - يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ( ا م ن ) - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔
(٥١۔ ٥٢) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ نے مالک بن صیف اور اس کے ساتھیوں کو (جن کی تعداد تقریبا ستر ہے) نہیں دیکھا کہ یہ لوگ حی بن اخطب اور کعب بن اشرف کی باتوں کو مانتے ہیں اور اس بات کے دعویدار ہیں کہ کفار مکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیروکاروں کی نسبت کے زیادہ صحیح راستہ پر ہیں۔ (نعوذ باللہ) ان کی اس گستاخانہ روش کے سبب ان لوگوں پر جزیہ نافذ کردیا گیا اور جن پر اللہ تعالیٰ دنیا وآخرت میں عذاب نازل فرمائے تو اللہ کے مقابلے میں ان کی عذاب الہی سے کون حفاظت کرسکتا ہے۔- شان نزول : (آیت) ” الم تر الی الذین اوتوا “۔ (الخ)- احمد اور ابن ابی حاتم (رح) نے ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ جب کعب بن اشرف یہودی مکہ آیا تو قریش نے اس سے کہا کہ اس شخص کو نہیں دیکھا جو اپنی قوم میں نبوت کا دعوی کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ ہم سے بہتر ہے حالانکہ ہم حجاج ہیں سدانیہ اور سقایہ والے ہیں۔ کعب بولا کہ نہیں وہ نہیں بلکہ تم لوگ بہتر ہو۔ چناچہ ان کے بارے میں یہ آیتیں نازل ہوئیں۔- ابن اسحاق (رح) نے ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ قریش کے پاس جن قبیلوں نے جماعتیں روانہ کیں وہ غطفان اور بنی قریظہ تھے ، ، چناچہ انہوں نے حیی بن اخطب، سلام بن ابی الحقیق، ابورافع اور ربیع بن ابو الحقیق اور ابو عمارہ کو روانہ کیا اور بنی نضیر نے اپنے خطیب جو زۃ بن قیس کو روانہ کیا جب یہ لوگ قریش کے پاس پہنچے تو وہ بولے کہ یہ یہود کے علماء ہیں پہلی کتابوں کے جاننے والے ہیں، ان سے اپنے دین کے بارے میں پوچھو کہ ہمارا دین بہتر ہے یا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا، چناچہ قریش نے ان لوگوں سے دریافت کیا یہ کہنے لگے کہ تمہارا دین ان کے دین سے بہتر ہے اور تم ان سے اور ان کے متبعین سے زیادہ صحیح راستے پر قائم ہو۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں نازل فرمائیں۔ (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح )
آیت ٥١ (اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ اُوْتُوْا نَصِیْبًا مِّنَ الْکِتٰبِ ) (یُؤْمِنُوْنَ بالْجِبْتِ وَالطَّاغُوْتِ ) (وَیَقُوْلُوْنَ لِلَّذِیْنَ کَفَرُوْا ہٰٓؤُلَآءِ اَہْدٰی مِنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا سَبِیْلاً ) - یہود اپنی ضد اور ہٹ دھرمی میں اس حد تک پہنچ گئے تھے۔ انہیں خوب معلوم تھا کہ محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کے ساتھی (رض) ایمان باللہ اور ایمان بالآخرۃ میں ان سے مشابہ تھے ‘ پھر وہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر بھی ایمان رکھتے تھے اور تورات کو اللہ کی کتاب مانتے تھے۔ لیکن اہل ایمان کے ساتھ ضدمّ ضدا اور عداوت میں وہ اس حد تک آگے بڑھے کہ مشرکین مکہ سے مل کر ان کے بتوں کی تعظیم کی اور کہا کہ یہ مشرک مسلمانوں سے زیادہ ہدایت یافتہ ہیں اور ان کا دین مسلمانوں کے دین سے بہتر ہے
سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :81 جِبْت کے اصل معنی بے حقیقت ، بے اصل اور بے فائدہ چیز کے ہیں ۔ اسلام کی زبان میں جادو ، کہانت ( جوتش ) ، فال گیری ، ٹونے ٹوٹکے ، شگون اور مہورت اور تمام دوسری وہمی و خیالی باتوں کو” جبت “ سے تعبیر کیا گیا ہے ۔ چنانچہ حدیث میں آیا ہے النیاقۃ والطرق والطیر من الجبت ۔ یعنی جانوروں کی آوازوں سے فال لینا ، زمین پر جانوروں کے نشانات قدم سے شگون نکالنا اور فال گیری کے دوسرے طریقے سب ”جِبت“ کا مفہوم وہی ہے جسے ہم اردو زبان میں اوہام کہتے ہیں اور جس کے لیے انگریزی میں ( ) کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے ۔ سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :82 تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ بقرہ حاشیہ نمبر ۲۸٦ و ۲۸۸ ۔ سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :83 علماء یہود کی ہٹ دھرمی یہاں تک پہنچ گئی تھی کہ جو لوگ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے تھے ان کو وہ مشرکین عرب کی بہ نسبت زیادہ گمراہ قرار دیتے تھے اور کہتے تھے کہ ان سے تو یہ مشرکین ہی زیادہ راہ راست پر ہیں ۔ حالانکہ وہ صریح طور پر دیکھ رہے تھے کہ ایک طرف خالص توحید ہے جس میں شرک کا شائبہ تک نہیں اور دوسری طرف صریح بت پرستی ہے جس کی مذمت سے ساری بائیبل بھری پڑی ہے ۔
37: یہ مدینہ منوّرہ میں آباد بعض یہودیوں کا تذکرہ ہے۔ آنحضرتﷺ نے ان سب کے ساتھ یہ معاہدہ کیا ہوا تھا کہ وہ اور مسلمان آپس میں امن کے ساتھ رہیں گے، اور ایک دوسرے کے خلاف کسی بیرونی دُشمن کی مدد بھی نہیں کریں گے، لیکن انہوں نے اس معاہدے کی بار بار خلاف ورزی کی، اور مسلمانوں کے دُشمن کفارِ مکہ کی حمایت اور درپردہ مدد کا سلسلہ جاری رکھا۔ ان کا ایک بڑا سردار کعب بن اشرف تھا۔ جنگِ اُحد کے بعد وہ ایک اور یہودی سردار حیی بن اخطب کے ساتھ مکہ مکرمہ کے کافروں کے پاس گیا اور انہیں مسلمانوں کے خلاف تعاون کی پیشکش کی۔ کفار مکہ کے سردار ابو سفیان نے کہا کہ اگر واقعی اپنی پیشکش میں سچے ہو تو ہمارے دو بتوں کے سامنے سجدہ کرو، چنانچہ کعب بن اشرف نے ابوسفیان کا یہ مطالبہ بھی مان لیا، پھر ابوسفیان نے کعب سے پوچھا کہ ہمارا مذہب اچھا ہے یا مسلمانوں کا؟ تو اس نے یہاں تک کہہ دیا کہ تمہارا مذہب مسلمانوں کے مذہب سے زیادہ بہتر ہے، حالانکہ وہ جانتا تھا کہ مکہ کے یہ لوگ بت پرست ہیں اور کسی آسمانی کتاب پر اِیمان نہیں رکھتے، لہٰذا ان کے مذہب کو بہتر قرار دینے کا مطلب بت پرستی کی تصدیق کرنا تھا، اس آیت میں اس واقعے کی طرف اشارہ ہے۔