[٨٣۔ الف ] یعنی جب کوئی قوم علمی خیانت اور بددیانتی میں اس قدر نچلی سطح پر اتر آئے تو اس وقت ان پر اللہ کی لعنت برسنا شروع ہوجاتی ہے۔ یہودیوں کے سردار کعب بن اشرف اور حیی بن اخطب قریش مکہ کے ہاں گئے تو اس لیے تھے کہ آؤ مل کر مسلمانوں کا کچومر نکالیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ قریش مکہ تو ایک طرف، اگر سارا جہاں بھی یہ لوگ اپنے ساتھ ملا لیں تو جو لعنت اللہ کی طرف سے ان کے مقدر ہوچکی ہے اس سے وہ بچ نہیں سکتے نہ ہی انہیں کوئی ان پر مسلط ہونے والی ذلت سے بچا سکتا ہے۔
اللہ کی لعنت دنیا اور آخرت میں رسوائی کا سبب ہے :۔- لعنت نام ہے اللہ کی رحمت سے دوری کا اور انتہائی رسوائی اور ذلت کا، جس پر اللہ کی لعنت ہو وہ اللہ کا قرب حاصل نہیں کرسکتا۔ ان کے بارے میں اتنی سخت وعید آئی ہے کہ فرمایا : ملعونین اینما ثقفوا اخذوا وقتلوا ثقتیلاً ” جن پر اللہ کی لعنت ہے وہ جہاں کہیں بھی ملیں ان کی گردن اڑائی جائے “ یہ تو ان کی دنیاوی رسوائی ہے، اور آخرت کی رسوائی تو اس سے بھی سخت ہوگی۔- اللہ کی لعنت کے مستحق کون لوگ ہیں ؟:۔ - ومن یلعن اللہ فلن تجدلہ نصیراً اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ جس پر اللہ کی لعنت ہو اس کا کوئی مددگار نہیں ہوتا، اب غور طلب یہ بات ہے کہ اللہ کی لعنت کے مستحق کون لوگ ہیں ؟- ایک حدیث میں ارشاد ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سود دینے والے، سود کھانے والے اس کے لکھنے والے اور اس کی گواہی دینے والے سب پر لعنت کی ہے اور وہ سب گناہ میں برابر ہیں (رواہ مسلم بحوالہ مشکوة)- ایک دوسری حدیث میں آپ نے فرمایا : ملعون من عمل عملا قوم لوط (رواہ رزین بحوالہ مشکوة) ” یعنی جو آدمی لوط (علیہ السلام) کی قوم کے جیسا عمل کرے وہ لعنتی ہے۔ “ (یعنی مرد سے بدفعلی کرنے والا) پھر ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ سارق (چور) پر لعنت بھیجتا ہے، جو انڈے اور رسی جیسی حقیر چیز کی چوری تک سے گریز نہیں کرتا، جس کی پاداش میں اس کا ہاتھ کاٹا جاتا ہے۔ (متفق علیہ بحوالہ مشکوة)- ایک اور حدیث میں ارشاد ہے : لعن اللہ اکل الربو و مؤ کلہ والواشمة و المستوشمة والمصور (رواہ البخاری بحوالہ مشکوة)- ” اللہ کی لعنت ہے سود کھانے والے اور کھلانے والے پر اور ان عورتوں پر جو اپنے جسم کو گودنے والی (یعنی سوئی کے ناکہ سے جسم میں سوراخ کر کے سرمہ ڈالتی ہیں تاکہ زینب ہو) یا گدوانے والی ہیں، اور ایسے ہی تصویر کھینچنے والوں پر لعنت کی ہے۔ “- ایک دوسری حدیث میں آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ لعنت بھیجتے ہیں شراب پر اور اس کے پینے والے پر، پلانے والے پر، اس کے بیچنے والے، خریدنے والے، اس کے نچوڑنے والے، اس کے اٹھانے والے اور منگوانے والے سب پر (رواہ ابوداؤد، ابن ماجہ بحالہ مشکوة)- ایک اور حدیث میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ارشاد فرماتے ہیں کہ چھ آدمی ایسے ہیں جن پر میں نے لعنت بھیجی ہے اور اللہ تعالیٰ نے بھی ان پر لعنت کی ہے اور ہر نبی مستجاب الدعوات ہوتا ہے وہ چھ آدمی یہ ہیں۔- (١) اللہ کی کتاب میں زیادتی کرنے والا (٢) اور وہ شخص جو جبر و قہر سے اقتدار حاصل کر کے اس آدمی کو عزت دے جس کو اللہ نے ذلیل کیا اور جس کو اللہ نے عزت عطاء کی ہو اس کو ذلیل کرے (٣) اللہ کی تقدیر کو جھٹلانے والا (٤) اللہ کی حرام کردہ چیزوں کو حلال سمجھنے والا (٥) میری اولاد میں وہ آدمی جو محرمات کو حلال کرنے والا ہو (٦) اور میری سنت کو چھوڑنے والا ( رواہ البیہقی فی المدخل بحوالہ مشکوة)- ایک اور حدیث میں آپ نے فرمایا : لعن اللہ الناظر و المنظورالیہ۔” یعنی جو کوئی نامحرم پر بری نظر ڈالے اور اس کے اوپر نظر ڈالے (بشرطیکہ جس پر بری نظر پڑی ہے اس کے ارادہ اور اختیار کو اس میں دخل ہو) ان پر اللہ نے لعنت کی ہے۔- حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے لعن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) الرجل یلبس لبستة المرة والمرءة تلبس لبستة الرجل، ” یعنی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایسے مرد پر لعنت کی ہے جو عورت کا سا لباس پہنے اور ایسی عورت پر لعنت کی جو مرد کا سا لباس پہنے (مشکوة)- ” حضرت عائشہ سے کسی نے عرض کیا کہ ایک عورت (مردانہ) جوتا پہنتی ہے حضرت عائشہ نے فرمایا کہ اللہ کے رسول نے ایسی عورت پر لعنت کی ہے جو مردوں کے طور طریق اختیار کرے۔ “- ” حضرت ابن عباس سے روایت ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لعنت کی ان مردوں پر جو عورتوں کی طرح شکل و صورت بنا کر ہیجڑے بنیں اور لعنت کی ان عورتوں پر جو شکل و صورت میں مردانہ پن اختیار کریں اور ارشاد فرمایا ہے ان کو اپنے گھروں سے نکال کردو۔ “- بخاری شریف میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) نے فرمایا کہ :- ” یعنی اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو گودنے والیوں پر اور گودوانے والیوں پر اور جو (ابرو یعنی بھو وں کے بال) چنتی ہیں (تاکہ بھویں باریک ہوجائیں) اور خدا کی لعنت ہو ان عورتوں پر جو حسن کے لئے دانتوں کے درمیان کشادگی کرتی ہیں جو اللہ کی خلقت کو بدلنے والی ہیں۔ “- لعنت کے احکام :۔- لعنت جس قدر بری چیز ہے اسی قدر اس کے کرنے پر پابندیاں بھی عائد کی گئی ہیں، کسی مسلمان پر لعنت کرنا حرام ہے اور کافر پر بھی صرف اس صورت میں کی جاسکتی ہے جبکہ اس کا کفر پر مرنا یقینی ہو، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشادات اس کے متعلق یہ ہیں۔ “- حدیث میں ہے :- ” حضرت ابن مسعود فرماتے ہیں کہ فرمایا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کہ مومن وہ نہیں ہے جو طعنہ باز اور لعنت باز ہو اور نہ ہی بدگو۔ “- ” حضرت ابودردا فرماتے ہیں کہ میں نے حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے سنا کہ جب بندہ کسی چیز پر لعنت کرتا ہے تو وہ لعنت آسمان کی طرف چڑھتی ہے، جس پر آسمان کے دروازے بند کردیئے جاتے ہیں، پھر وہ زمین کی طرف اترتی ہے تو زمین کے دروازے بند کردیئے جاتے ہیں، (یعنی زمین اس لعنت کو قبول نہیں کرتی، پھر وہ دائیں بائیں گھومتی ہے جب کہیں اس کو راستہ نہیں ملتا تو جس پر لعنت کی گئی ہے اس کے پاس پہونچتی ہے اگر وہ واقعی لعنت کا مستحق ہے تو اس پر پڑتی ہے، ورنہ پھر اپنے کہنے والے پر پڑجاتی ہے۔ “- ” حضرت ابن عباس سے منقول ہے کہ ہوا نے ایک آدمی کی چادر اڑالی تو اس نے ہوا پر لعنت کی اس پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ تو اس پر لعنت نہ کر اس لئے کہ وہ اللہ کی جانب سے مامور ہے (یاد رکھئے) کہ جو آدمی ایسی چیز پر لعنت کرے جس کی وہ مستحق نہیں ہے تو یہ لعنت اس کو کہنے والے ہی پر لوٹتی ہے۔ “- مسئلہ :۔ کسی معین شخص کے بارے میں جب تک یہ معلوم نہ ہو کہ اس کی موت کفر پر ہوئی ہے اس پر لعنت جائز نہیں اگرچہ وہ فاسق ہی ہو، اسی اصول کی بنائ پر یزید پر لعنت کرنے سے علامہ شامی نے منع کیا ہے، لیکن معین کافر پر جس کی موت کفر پر ہونے کا یقین ہو، مثلاً ابوجہل، ابولہب پر جائز ہے (شامی، ج ٢ ص ٦٣٨)- مسئلہ :۔ کسی کا نام لئے بغیر اس طرح لعنت کرنا جائز ہے کہ ظالموں پر یا جھوٹوں پر اللہ کی لعنت ہے۔- مسئلہ :۔ لغتہً لعنت کے معنی اللہ کی رحمت سے دور ہونے کے ہوتے ہیں، شرعاً کفار کے حق میں اس کے معنی اللہ کی رحمت سے بعید ہونے کے ہیں اور مؤمنین کے حق میں ابرار (صلحاء) کے درجہ سے نیچے گرنے کے ہیں (نقلہ الشامی عن القہتانی، ج ٢ ص ٦٣٨) اس لئے کسی مسلمان کے لئے اس کے نیک عمل کم ہوجانے کی دعا بھی جائز نہیں۔
اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ لَعَنَھُمُ اللہُ ٠ۭ وَمَنْ يَّلْعَنِ اللہُ فَلَنْ تَجِدَ لَہٗ نَصِيْرًا ٥٢ۭ- لعن - اللَّعْنُ : الطّرد والإبعاد علی سبیل السّخط، وذلک من اللہ تعالیٰ في الآخرة عقوبة، وفي الدّنيا انقطاع من قبول رحمته وتوفیقه، ومن الإنسان دعاء علی غيره . قال تعالی: أَلا لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الظَّالِمِينَ [هود 18]- ( ل ع ن ) اللعن - ۔ کسی کو ناراضگی کی بنا پر اپنے سے دور کردینا اور دھتکار دینا ۔ خدا کی طرف سے کسی شخص پر لعنت سے مراد ہوتی ہے کہ وہ دنیا میں تو اللہ کی رحمت اور توفیق سے اثر پذیر ہونے محروم ہوجائے اور آخرت عقوبت کا مستحق قرار پائے اور انسان کی طرف سے کسی پر لعنت بھیجنے کے معنی بد دعا کے ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : أَلا لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الظَّالِمِينَ [هود 18] سن رکھو کہ ظالموں پر خدا کی لعنت ہے ۔ - وجد - الوجود أضرب : وجود بإحدی الحواسّ الخمس . نحو : وَجَدْتُ زيدا، ووَجَدْتُ طعمه . ووجدت صوته، ووجدت خشونته . ووجود بقوّة الشّهوة نحو : وَجَدْتُ الشّبع . ووجود بقوّة الغضب کو جود الحزن والسّخط . ووجود بالعقل، أو بواسطة العقل کمعرفة اللہ تعالی، ومعرفة النّبوّة، وما ينسب إلى اللہ تعالیٰ من الوجود فبمعنی العلم المجرّد، إذ کان اللہ منزّها عن الوصف بالجوارح والآلات . نحو : وَما وَجَدْنا لِأَكْثَرِهِمْ مِنْ عَهْدٍ وَإِنْ وَجَدْنا أَكْثَرَهُمْ لَفاسِقِينَ [ الأعراف 102] . - ( و ج د ) الو جود - ( ض) کے معنی کسی چیز کو پالینا کے ہیں اور یہ کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے حواس خمسہ میں سے کسی ایک حاسہ کے ساتھ اور اک کرنا جیسے وجدت طعمہ ( حاسہ ذوق ) وجدت سمعہ ( حاسہ سمع ) وجدت خثومتہ حاسہ لمس ) قوی باطنہ کے ساتھ کسی چیز کا ادراک کرنا ۔ جیسے وجدت الشبع ( میں نے سیری کو پایا کہ اس کا تعلق قوت شہو یہ کے ساتھ ہے ۔ وجدت الحزن وا لسخط میں نے غصہ یا غم کو پایا اس کا تعلق قوت غضبہ کے ساتھ ہے ۔ اور بذریعہ عقل کے کسی چیز کو پالیتا جیسے اللہ تعالیٰ یا نبوت کی معرفت کہ اسے بھی وجدان کہا جاتا ہے ۔ جب وجود پالینا ) کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کی جائے تو اس کے معنی محض کسی چیز کا علم حاصل کرلینا کے ہوتے ہیں کیونکہ ذات باری تعالیٰ جوارح اور آلات کے ذریعہ کسی چیز کو حاصل کرنے سے منزہ اور پاک ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَما وَجَدْنا لِأَكْثَرِهِمْ مِنْ عَهْدٍ وَإِنْ وَجَدْنا أَكْثَرَهُمْ لَفاسِقِينَ [ الأعراف 102] اور ہم نے ان میں سے اکثروں میں عہد کا نباہ نہیں دیکھا اور ان میں اکثروں کو ( دیکھا تو ) بد عہد دیکھا ۔