Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

یہودیوں کی دشمنی کی انتہا اور اس کی سزا یہاں بطور انکار کے سوال ہوتا ہے کہ کیا وہ ملک کے کسی حصہ کے مالک ہیں ؟ یعنی نہیں ہیں ، پھر ان کی بخیلی بیان کی جاتی ہے کہ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ کسی کو ذرا سا بھی نفع پہنچانے کے دوا دار نہ ہوتے خصوصاً اللہ کے اس آخری پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اتنا بھی نہ دیتے جتنا کھجور کی گٹھلی کے درمیان کا پردہ ہوتا ہے جیسے اور آیت میں ہے ( قُلْ لَّوْ اَنْتُمْ تَمْلِكُوْنَ خَزَاۗىِٕنَ رَحْمَةِ رَبِّيْٓ اِذًا لَّاَمْسَكْتُمْ خَشْيَةَ الْاِنْفَاقِ ۭ وَكَانَ الْاِنْسَانُ قَتُوْرًا ) 17 ۔ الاسراء:100 ) یعنی اگر تم میرے رب کی رحمتوں کے خزانوں کے مالک ہوتے تو تم تو خرچ ہو جانے کے خوف سے بالکل ہی روک لیتے گو ظاہر ہے کہ وہ کم نہیں ہو سکتے تھے لیکن تمہاری کنجوسی تمہیں ڈرا دیتی اسی لئے فرما دیا کہ انسان بڑا ہی بخیل ہے ، ان کے ان بخیلانہ مزاج کے بعد ان کا حسد واضح کیا جا رہا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہم نے آل ابراہیم کو جو بنی اسرائیل سے نہیں اس لئے ان سے حسد کی آگ میں جل رہے ہیں اور لوگوں کو آپ کی تصدیق سے روک رہے ہیں ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں یہاں الناس سے مراد ہم ہیں کوئی اور نہیں ، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہم نے آل ابراہیم کو جو بنی اسرائیل کے قبائل میں اولاد ابراہیم سے ہیں نبوۃ دی کتاب نازل فرمائی جینے مرنے کے آداب سکھائے بادشاہت بھی دی اس کے باوجود ان میں سے بعض تو مومن ہوئے اس انعام و اکرام کو مانا لیکن بعض نے خود بھی کفر کیا اور دوسرے لوگوں کو بھی اس سے روکاحالانکہ وہ بھی بنی اسرائیل ہی تھے تو جبکہ یہ اپنے والوں سے بھی منکر ہو چکے ہیں تو پھر اے نبی آخر الزمان آپ کا انکار ان سے کیا دور ہے؟ جب کہ آپ ان میں سے بھی نہیں ، یہ بھی مطلب ہو سکتا ہے کہ بعض اس پر یعنی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لائے اور بعض نہ لائے پس یہ کافر اپنے کفر میں بہت سخت اور نہایت پکے ہیں اور ہدایت و حق سے بہت ہی دور ہیں پھر انہیں ان کی سزا سنائی جا رہی ہے کہ جہنم کا جلنا انہیں بس ہے ، ان کے کفر و عناد کی ان کی تکذیب اور سرکشی کی یہ سزا کافی ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

53۔ 1 یہ انکاری ہے یعنی بادشاہی میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہے اگر اس میں ان کا کچھ حصہ ہوتا تو یہ یہود اتنے بخیل ہیں کہ لوگوں کو بالخصوص حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اتنا بھی نہ دیتے جس سے کھجور کی گٹھلی کا شگاف ہی پر ہوجاتا نَقَیْرًا اس نقطے کو کہتے ہیں جو کھجور کی گٹھلی کے اوپر ہوتا ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٨٤] یہود کا بخل اور تنگ نظری :۔ یہاں یہود کی ایک مشہور رذیل صفت بخل کا ذکر کیا گیا ہے کہ اگر ان کے پاس کسی ملک کی حکومت بھی ہو تو بھی وہ کسی کو پھوٹی کوڑی تک نہ دیں گے اور ان کے بخل کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ وہ اتنے تنگ نظر ہیں کہ حق بات کا اعتراف کرنا بھی ان کے لیے محال ہے۔ کیونکہ یہ مشرکین مکہ کو توحید پرستوں سے برتر قرار دے رہے ہیں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اوپر کی آیت میں یہود کی جہالت بیان کی کہ وہ بتوں کی پوجا کو اللہ واحد کی عبادت پر ترجیح دیتے ہیں، اس آیت میں ان کے بخل اور حسد کو بیان فرمایا۔ بخل تو یہ ہے کہ جو نعمت اللہ تعالیٰ نے کسی کو دی ہو دوسروں سے اسے روک لینا اور حسد یہ ہے کہ جو نعمت اللہ تعالیٰ نے دوسروں کو دی ہے اس پر جلے بھنے اور آرزو کرے کہ اس سے چھن جائے، پھر خواہ مجھے ملے یا نہ ملے۔ پس حسد اور بخل دونوں میں یہ بات قدرے مشترک ہے کہ دوسروں سے نعمت کو روکنا اور یہ گوارا نہ کرنا کہ اپنی ذات کے سوا دوسروں کو بھی فائدہ پہنچے۔ (رازی۔ قرطبی) یہود میں یہ دونوں صفتیں اتم اور اکمل طور پر پائی جاتی تھیں، قرآن نے بتایا کہ یہ مسلمانوں سے حسد کرتے ہیں اور ان کے بخل کا یہ حال ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کے ملک و سلطنت میں ان کو کچھ اختیار ہوتا تو کسی کو ” تل برابر “ بھی کچھ نہ دیتے۔ ” نَقِيْرًا “ دراصل اس نقطے کو کہتے ہیں جو گٹھلی کی پشت پر ہوتا ہے اور یہ قلت میں ضرب المثل ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - ہاں کیا ان کے پاس کوئی حصہ ہے سلطنت کا سو ایسی حالت میں تو اور لوگوں کو ذرا سی چیز بھی نہ دیتے یا دوسرے آدمیوں سے (جیسے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے) ان چیزوں پر جلتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے فضل سے عطا فرمائی ہیں سو (آپ کو ایسی چیز مل جانا کوئی نئی بات نہیں کیونکہ) ہم نے (پہلے سے) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے خاندان (والوں) کو کتاب (آسمانی) بھی دی ہے اور علم بھی دیا ہے اور ہم نے ان کو بڑی بھاری سلطنت بھی دی ہے (چنانچہ بنی اسرائیل میں بہت سے انبیاء گذرے ہیں، بعض انبیاء سلاطین بھی ہوئے جیسے حضرت یوسف (علیہ السلام) و حضرت داؤد (علیہ السلام) و حضرت سلیمان (علیہ السلام) اور حضرت داؤد (علیہ السلام) و حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا کثیر الازدواج ہونا بھی معلوم و مشہور ہے اور یہ سب اولاد ابراہیم میں ہیں، سو جبکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی اولاد ابراہیم سے ہیں، تو آپ کو اگر یہ نعمتیں و عطیات مل گئے تو تعجب کی کیا بات ہے) سو (ان انبیاء علیہم السام کے زمانہ میں بھی جو کہ خاندان ابراہیم (علیہ السلام) سے گذر چکے ہیں جو لوگ موجود تھے) ان میں سے بعضے تو اس (کتاب و حکمت) پر ایمان لائے اور بعضے ایسے تھے کہ اس سے روگرداں ہی رہے (پس اگر آپ کی رسالت و قرآن پر بھی آپ کے زمانہ کے بعضے لوگ ایمان نہ لائیں تو کوئی رنج کی بات نہیں) اور (ان کفار و معرضین اگر دنیا میں سزا کم بھی ہو یا نہ ہو تو کیا ہوا ان کے لئے آخرت میں) دوزخ کی آتش سزاں (سزا) کافی ہے،

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اَمْ لَھُمْ نَصِيْبٌ مِّنَ الْمُلْكِ فَاِذًا لَّا يُؤْتُوْنَ النَّاسَ نَقِيْرًا۝ ٥٣ۙ- أَمْ»حرف - إذا قوبل به ألف الاستفهام فمعناه : أي نحو : أزيد أم عمرو، أي : أيّهما، وإذا جرّد عن ذلک يقتضي معنی ألف الاستفهام مع بل، نحو : أَمْ زاغَتْ عَنْهُمُ الْأَبْصارُ [ ص 63] أي : بل زاغت . ( ا م حرف ) ام ۔ جب یہ ہمزہ استفہام کے بالمقابل استعمال ہو تو بمعنی اور ہوتا ہے جیسے ازید فی الدار ام عمرو ۔ یعنی ان دونوں میں سے کون ہے ؟ اور اگر ہمزہ استفہام کے بعد نہ آئے تو بمعنیٰ بل ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ أَمْ زَاغَتْ عَنْهُمُ الْأَبْصَارُ ( سورة ص 63) ( یا) ہماری آنکھیں ان ( کی طرف ) سے پھر گئی ہیں ۔- أتى- الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه : أَتِيّ وأَتَاوِيّ وبه شبّه الغریب فقیل : أتاويّ والإتيان يقال للمجیء بالذات وبالأمر وبالتدبیر، ويقال في الخیر وفي الشر وفي الأعيان والأعراض، نحو قوله تعالی: إِنْ أَتاكُمْ عَذابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام 40]- ( ا ت ی ) الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے اور اس سے بطور تشبیہ مسافر کو اتاوی کہہ دیتے ہیں ۔ الغرض اتیان کے معنی " آنا " ہیں خواہ کوئی بذاتہ آئے یا اس کا حکم پہنچے یا اس کا نظم ونسق وہاں جاری ہو یہ لفظ خیرو شر اور اعیان و اعراض سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام : 40] اگر تم پر خدا کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو۔- نقر - النَّقْرُ : قَرْعُ الشَّيْءِ المُفْضِي إِلَى النَّقْبِ ، والمِنْقَارُ : ما يُنْقَرُ به كمِنْقَارِ الطَّائرِ ، والحَدِيدَةِ التي يُنْقَرُ بها الرَّحَى، وعُبِّرَ به عن البَحْثِ ، فقیل : نَقَرْتُ عَنِ الأَمْرِ ، واستُعِيرَ للاغْتِيَابِ ، فقیل : نَقَرْتُهُ ، وقالتْ امرأةٌ لِزَوْجِهَا : مُرَّ بِي عَلَى بَنِي نَظَرِي ولا تَمُرَّ بي عَلَى بَنَاتِ نَقَرِى «1» ، أي :- علی الرجال الذین ينظُرون إليَّ لا علی النِّساء اللَّواتِي يَغْتَبْنَنِي . والنُّقْرَةُ : وَقْبَةٌ يَبْقَى فيها ماءُ السَّيْلِ ، ونُقْرَةُ القَفَا : وَقْبَتُهُ ، والنَّقِيرُ : وَقْبَةٌ في ظَهْرِ النَّوَاةِ ، ويُضْرَبُ به المَثَلُ في الشیء الطَّفِيفِ ، قال تعالی: وَلا يُظْلَمُونَ نَقِيراً- [ النساء 124] والنَّقِيرُ أيضا : خَشَبٌ يُنْقَرُ ويُنْبَذُ فيه، وهو كَرِيمُ النَّقِيرِ. أي : كَرِيمٌ إذا نُقِرَ عنه . أي : بُحِثَ ، والنَّاقُورُ : الصُّورُ ، قال تعالی: فَإِذا نُقِرَ فِي النَّاقُورِ [ المدثر 8] ونَقَرْتُ الرَّجُلَ : إذا صَوَّتَّ له بلسانِكَ ، وذلک بأن تُلْصِقَ لسانَك بنُقْرَةِ حَنَكِكَ ، ونَقَرْتُ الرَّجُلَ : إذا خَصَصْتَهُ بالدَّعْوَةِ ، كأَنَّك نَقَّرْتَ له بلسانِكَ مُشِيراً إليه، ويقال لتلک الدَّعْوَةِ : النَّقْرَى.- ( ن ق ر ) النقر ( ن ) کسی چیز کو کھٹکھٹانا حتیٰ کہ اس میں سوراخ ہوجائے المنقار کھٹکھٹا نے لا آلہ جیسے پرند کی چونچ یا چکی کو کندہ کرنے کے اوزار وغیرہ ۔ نقرت عن الامر کسی معاملہ کی چھان بین کرنا نقرتہ بطور استعارہ بمعنی غیبت کرنا جیسا کہ ایک عورت نے اپنے خاوند سے کہا : ۔ کہ مجھے مردوں کے پاس سے لے کر کر گزر نا جو نظر ڈالتے ہیں اور عورتوں کے پاس سے لے کر نہ گزر نا جو عیب لگاتی اور غیبت کرتی ہیں ۔ النقرۃ گڑھا جس میں سیلاب کا پانی باقی رہ جاتا ہے گر دن کے پچھلے حصے کے گڑھے کو نقرۃ القفا کہا جاتا ہے ۔ انقیر کھجور کی گھٹلی کے گڑھے کو کہتے ہیں ۔ اور یہ حقیر چیز کے لئے ضرب المثل ہے چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَلا يُظْلَمُونَ نَقِيراً [ النساء 124] اور تل برابر بھی حق تلفی نہ کی جائے گی ۔ اور النقیر اس لکڑی کو بھی کہتے ہیں جس میں گڑھا کر کے اس میں نبی د ڈالتے ہیں کہا جاتا ہے ھو کریم النقیر فلاں شریف الاصل ہے یعنی بعد از تفتیش ۔ الناقور کے معنی صور یعنی بگل کے ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ فَإِذا نُقِرَ فِي النَّاقُورِ [ المدثر 8] جب صور پھونکا جائے گا ۔ نقرت الرجل زبان کو تالو سے لگا کر آواز نکال کر کسی آدمی کو بلانا ۔ نقرت ت الرجل کسی شخص کو جماعت میں سے خاص کر علیحدہ بلانا گو یا زبان کے ذریعہ آواز نکال کر خاص کر اس کی طرف اشارہ کرتا ہے ۔ اور اس طور سے بلانے کو نقری کہا جاتا ہے ۔ میں نے خاص طور پر انہیں بلایا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٥٣۔ ٥٤) اگر یہود کے پاس سلطنت کا کچھ حصہ ہوتا تو یہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے صحابہ کرام کو گٹھلی کے چھلکے کے برابر بھی اس میں سے نہ دیتے بلکہ آپ کو جو اللہ تعالیٰ نے کتاب ونبوت اور حرم نبوی کو جو بہترین عورتیں عطا کی ہیں۔ اس پر یہ حسد کرتے ہیں، ہم نے حضرت داؤد (علیہ السلام) وسلیمان (علیہ السلام) کو علم وفہم اور نبوت عطا کی اور نبوت واسلام کے ذریعے عزت عطا کی اور بنی اسرائیل کی بادشاہت دی چناچہ حضرت داؤد (علیہ السلام) کی سو بیبیاں تھیں اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے ہاں سات سو باندیاں اور سو بیبیاں تھیں۔- شان نزول : (آیت) ” ام یحسدون “۔ (الخ)- ابن ابی حاتم (رح) نے بواسطہ عوفی ابن عباس (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ اہل کتاب بولے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سمجھتے ہیں کہ ان کو بڑی بادشاہت مل گئی اور ان کی نو ازواج مطہرات ہیں ان کا کام صرف شادی کرنا ہے تو اس سے افضل کون سی بادشاہت ہوگی اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ نازل فرمائی اور ابن سعد نے عمر مولی عفرہ سے اسی طرح اس سے مفصل روایت نقل کی ہے۔ (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح )

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٥٣ (اَمْ لَہُمْ نَصِیْبٌ مِّنَ الْمُلْکِ ) - انہوں نے یہ جو تقسیم کرلی ہے کہ دنیا میں یہ سب کچھ ہمارے لیے ہے ‘ باقی تمام انسان اور ہیں ‘ تو انسانوں میں یہ تقسیم اور تفریق کا اختیار انہیں کس نے دیا ہے ؟ کیا ان کا اللہ کی حکومت میں کوئی حصہ ہے ؟ زمین و آسمان کی بادشاہی تو اللہ کی ہے ‘ مالک الملک اللہ ہے۔ تو کیا ان کو اس کے پاس سے کوئی اختیار ملا ہوا ہے ؟

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :84 یعنی کیا خدا کی حکومت کا کوئی حصہ ان کے قبضہ میں ہے کہ یہ فیصلہ کرنے چلے ہیں کہ کون برسر ہدایت ہے اور کون نہیں ہے؟ اگر ایسا ہوتا تو ان کے ہاتھوں دوسروں کو ایک پھوٹی کوڑی بھی نصیب نہ ہوتی کیونکہ ان کے دل تو اتنے چھوٹے ہیں کہ ان سے حق کا اعتراف تک نہیں ہو سکتا ۔ دوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کیا ان کے پاس کسی ملک کی حکومت ہے کہ اس میں دوسرے لوگ حصہ بٹانا چاہتے ہیں اور نہ انہیں اس میں سے کچھ نہیں دینا چاہتے؟ یہاں تو محض اعتراف حق کا سوال درپیش ہے اور اس میں بھی یہ بخل سے کام لے رہے ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

38: یہودیوں کی مسلمانوں سے دشمنی اور عناد کا سبب قرآن کریم نے یہ بیان فرمایا ہے کہ انہیں یہ توقع تھی کہ جس طرح پچھلے بہت سے انبیائے کرام ( علیہ السلام) بنی اسرائیل سے آئے ہیں، نبی آخرالزماںﷺ بھی انہی کے خاندان سے ہوں گے، لیکن جب آنحضرتﷺ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی اولاد میں مبعوث فرمائے گئے تو یہ لوگ حسد میں مبتلا ہوگئے، حالانکہ نبوت وخلافت وحکومت تو اللہ تعالیٰ کا ایک فضل ہے وہ جب جس کو مناسب سمجھتا ہے اپنے اس فضل سے سرفراز فرماتا ہے، اگر کوئی شخص اس پر اعتراض کرے تو گویا وہ یہ دعوی کررہا ہے کہ کائنات کی بادشاہی اس کے پاس ہے اور اسی کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ اپنی پسند سے انبیاءؑ کو منتخب کرے، اللہ تعالیٰ اس آیت میں فرماتے ہیں کہ اگر کہیں بادشاہی واقعی ان کو مل گئی ہوتی تو یہ اتنے بخیل ہیں کہ کسی کو ذرہ برابر بھی کچھ نہ دیتے۔