Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

54۔ 1 ام یا بل کے معنی میں بھی ہوسکتا ہے۔ یعنی بلکہ یہ اس بات پر حسد کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو چھوڑ کر دوسروں میں نبی (یعنی آخری نبی) کیوں بنایا ؟ نبوت اللہ کا سب سے بڑا فضل ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٨٥] یہاں دوسرے لوگوں سے مراد مسلمان ہیں جنہیں دن بدن عروج حاصل ہو رہا تھا اور وہ خود دن بدن ذلیل سے ذلیل تر ہو رہے تھے۔- [٨٦] آل ابراہیم سے مراد سیدنا ابراہیم سے لے کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک سب پیغمبر ہیں اور کتاب اللہ کا علم و حکمت انہی انبیاء کے پاس رہا اور بہت بڑی بادشاہی بھی۔ جیسے سیدنا یوسف، سیدنا داؤد، سیدنا سلیمان وغیرہ سب بادشاہ بھی تھے اور نبی بھی۔ اور اس لفظ کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ تمام اقوام عالم پر ہمیشہ آل ابراہیم ہی کا قائدانہ اقتدار رہا ہے۔ اگرچہ آپ کے زمانہ میں یہ اقتدار یہود سے مسلمانوں کی طرف منتقل ہوگیا۔ تاہم آل ابراہیم ہی میں رہا۔ آل اسحاق سے آل اسماعیل میں آگیا یعنی جس طرح پہلے اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو حکومت اور عزت اور دنیا کی قیادت عطا فرمائی تھی اب ویسی ہی شان و شوکت، عزت اور حکومت ان سے چھین کر مسلمانوں کو عطا کی جائے گی۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

مطلب یہ ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) کے بیٹے اسحاق (علیہ السلام) کی اولاد میں مدت دراز تک نبوت اور بادشاہت رہی ہے اور داؤد و سلیمان (علیہ السلام) اور دوسرے اولوا العزم پیغمبر ہو گزرے ہیں، اب بنو اسماعیل میں سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نبوت و رسالت سے سرفراز فرما دیا گیا ہے تو یہ کیوں حسد کر رہے ہیں ؟ یہاں ” مِنْ فَضْلِهٖ ۚ“ سے مراد نبوت اور دین و دنیا کی وہ عزت ہے جو نبوت کی برکت سے حاصل ہوئی۔ ” الْكِتٰبَ “ سے مراد کتاب الٰہی اور ” وَالْحِكْمَةَ “ سے اس کا فہم اور اس پر عمل کرنا مراد ہے اور ” مُّلْكًا عَظِيْما “ سے مراد سلطنت اور غلبہ و اقتدار ہے۔ (رازی۔ ابن کثیر)

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

معاف و مسائل - یہودیوں کے حسد کرنے پر شدید مذمت :- اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جو علم و فضل اور جاہ و جلال عطا کیا تھا، اس پر یہودی جلتے تھے، اللہ تعالیٰ نے آیت نمبر ٣٥، ٤٥ میں ان کے اسی حسد و بغض کی شدید مذمت کی ہے اور ان کے حسد کو نامعقول قرار دیتے ہوئے دو وجہیں بیان کی ہیں ایک وجہ آیت نمبر ٣٥ میں بیان کی اور دوسری آیت نمبر ٤٥ میں، لیکن دونوں کا حاصل ایک ہے، یعنی تمہارا حسد کس بات پر ہے اگر اس پر ہے کہ اصل صاحب سلطنت تم ہو تمہاری ہی سلطنت ان کو مل گئی، اس کا غلط ہونا تو کھلا ہوا ہے کہ تم سلطنت سے خود محروم ہو اور تمہیں کچھ حصہ سلطنت کا مل جاتا تو تم ایک کوڑی بھی کسی کو نہ دیتے اور اگر تمہارا حسد اس پر ہے کہ گو سلطنت ہمارے پاس سے ان کے پاس نہیں گئی پھر بھی ان کو کیوں ملی، ان کو سلطنت سے کیا علاقہ ؟ تو اس کا جواب یہ دیا کہ یہ بھی انبیاء کے خاندان سے ہیں جن میں سلطنت پہلے سے ہوتی آئی ہے اس لئے کسی اجنبی جگہ سلطنت نہیں آئی، لہٰذا تمہارا حسد کرنا نامعقول ہے۔- حسد کی تعریف، حکم اور اس کی مضرتوں کا بیان :۔- علامہ نووی شارح مسلم، حسد کی تعریف اس طرح کرتے ہیں۔ الحسد تمنی زوال النعمة (مسلم ج ٢) یعنی دوسرے آدمی کی نعمت کے زوال کی خواہش کرنا حسد کہلاتا ہے۔ “ اور یہ حرام ہے۔- ” تم آپس میں بغض اور حسد نہ کرو اور نہ ہی ایک دوسرے سے پشت پھیرو بلکہ اللہ کے بندے اور بھائی بن جاؤ اور جائز نہیں کسی مسلمان کے لئے کہ وہ اپنے بھائی سے تین دن سے زیادہ ترک تعلق کرے۔- ” تم حسد سے بچو، اس لئے کہ حسد نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جس طرح آگ لکڑی کو کھا جاتی ہے۔ “- ” حضرت زبیر نے فرمایا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کہ تمہاری طرف (بھی) پہلی قوموں کا مرض چپکے سے چل پڑا ہے اور وہ حسد ہے اور بغض ایسی خصلت ہے جو مونڈ دینے والی ہے، میں یہ نہیں کہتا کہ وہ بالوں کو مونڈتی ہے، بلکہ دین کو مونڈ دیتی ہے۔ “- حسد خواہ دنیاوی کمال پر ہو یا دینی کمال پر دونوں حرام ہیں، چناچہ اللہ تعالیٰ کے قول ” ام لھم نصیب من الملک “ سے امر اول کی طرف اشارہ معلوم ہوتا ہے اور ” الکتب والحکمة “ سے امرثانی کی طرف۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اَمْ يَحْسُدُوْنَ النَّاسَ عَلٰي مَآ اٰتٰىھُمُ اللہُ مِنْ فَضْلِہٖ۝ ٠ۚ فَقَدْ اٰتَيْنَآ اٰلَ اِبْرٰہِيْمَ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَۃَ وَاٰتَيْنٰھُمْ مُّلْكًا عَظِيْمًا۝ ٥٤- حسد - الحسد : تمنّي زوال نعمة من مستحق لها، وربما کان مع ذلک سعي في إزالتها، وروي :- «المؤمن يغبط والمنافق يحسد» وقال تعالی: حَسَداً مِنْ عِنْدِ أَنْفُسِهِمْ [ البقرة 109] ، وَمِنْ شَرِّ حاسِدٍ إِذا حَسَدَ [ الفلق 5] .- ( ح س د ) الحسد ( ن ) کسی مستحق نعمت سے اس نعمت سے اس نعمت کے زائل ہونے کی تمنا کرنے کا نام حسد ہے بسا اوقات اس میں اسی مقصد کے لئے کوشش کرنا بھی شامل ہوتا ہے ایک روایت میں ہے : ۔ کہ مومن رشک کرتا ہے اور منافق حسد کرتا ہے قرآن میں ہے : ۔ حَسَداً مِنْ عِنْدِ أَنْفُسِهِمْ [ البقرة 109] اپنے دل کی جلن سے ۔ وَمِنْ شَرِّ حاسِدٍ إِذا حَسَدَ [ الفلق 5] اور حسد کرنے والے کی برانی سے جب حسد کرنے لگے ۔- نوس - النَّاس قيل : أصله أُنَاس، فحذف فاؤه لمّا أدخل عليه الألف واللام، وقیل : قلب من نسي، وأصله إنسیان علی إفعلان، وقیل : أصله من : نَاسَ يَنُوس : إذا اضطرب، قال تعالی: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] - ( ن و س ) الناس ۔- بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل اناس ہے ۔ ہمزہ کو حزف کر کے اس کے عوض الف لام لایا گیا ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نسی سے مقلوب ہے اور اس کی اصل انسیان بر وزن افعلان ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ناس ینوس سے ہے جس کے معنی مضطرب ہوتے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگنا ہوں ۔ - إِيتاء - : الإعطاء، [ وخصّ دفع الصدقة في القرآن بالإيتاء ] نحو : وَأَقامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكاةَ [ البقرة 277] ، وَإِقامَ الصَّلاةِ وَإِيتاءَ الزَّكاةِ [ الأنبیاء 73] ، ووَ لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئاً [ البقرة 229] ، ووَ لَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمالِ [ البقرة 247]- الایتاء ( افعال ) اس کے معنی اعطاء یعنی دینا اور بخشنا ہے ہیں ۔ قرآن بالخصوص صدقات کے دینے پر یہ لفظ استعمال ہوا ہے چناچہ فرمایا :۔ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ [ البقرة : 277] اور نماز پڑہیں اور زکوۃ دیں وَإِقَامَ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءَ الزَّكَاةِ [ الأنبیاء : 73] اور نماز پڑھنے اور زکوۃ دینے کا حکم بھیجا وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ ( سورة البقرة 229) اور یہ جائز نہیں ہے کہ جو مہر تم ان کو دے چکو اس میں سے کچھ واپس لے لو وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمَالِ [ البقرة : 247] اور اسے مال کی فراخی نہیں دی گئی - حکمت ( نبوۃ)- قال اللہ تعالی: وَآتَيْناهُ الْحُكْمَ صَبِيًّا [ مریم 12] ، وقال صلّى اللہ عليه وسلم : «الصمت حکم وقلیل فاعله» أي : حكمة، وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتابَ وَالْحِكْمَةَ [ آل عمران 164] ، وقال تعالی: وَاذْكُرْنَ ما يُتْلى فِي بُيُوتِكُنَّ مِنْ آياتِ اللَّهِ وَالْحِكْمَةِ [ الأحزاب 34] ، قيل : تفسیر القرآن، ويعني ما نبّه عليه القرآن من ذلک : إِنَّ اللَّهَ يَحْكُمُ ما يُرِيدُ [ المائدة 1] ، أي : ما يريده يجعله حكمة، وذلک حثّ للعباد علی الرضی بما يقضيه . قال ابن عباس رضي اللہ عنه في قوله : مِنْ آياتِ اللَّهِ وَالْحِكْمَةِ [ الأحزاب 34] ، هي علم القرآن، ناسخه، مُحْكَمه ومتشابهه .- قرآن میں ہے : ۔ وَآتَيْناهُ الْحُكْمَ صَبِيًّا [ مریم 12] اور ہم نے ان کو لڑکپن میں ہی دانائی عطا فرمائی تھی ۔ اور آنحضرت نے فرمایا کہ خاموشی بھی حکمت ہے ۔ لیکن بہت تھوڑے لوگ اسے اختیار کر ٹے ہیں ۔ یہاں ( آیت اور حدیث میں ) حکم کے معنی حکمت کہ میں قرآن میں ہے : ۔ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتابَ وَالْحِكْمَةَ [ آل عمران 164] اور ان ( لوگوں ) کو کتاب اور دانائی سکھایا کرے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَاذْكُرْنَ ما يُتْلى فِي بُيُوتِكُنَّ مِنْ آياتِ اللَّهِ وَالْحِكْمَةِ [ الأحزاب 34] اور تمہارے گھروں میں جو خدا کی آیتیں پڑھی جاتی ہیں اور حکمت کی باتیں سنائی جاتی ہیں ان کو یاد رکھو ۔ میں حکمت سے مراد تفسیر قرآن ہے یعنی جس پر کہ قرآن نے آیت إِنَّ اللَّهَ يَحْكُمُ ما يُرِيدُ [ المائدة 1] میں تنبیہ کی ہے کہ اللہ جس چیز کو چاہتا ہے حکمت بنادیتا ہے تو اس میں ترغیب ہے کہ لوگوں کو اللہ کے فیصلے پر راضی رہنا چاہیئے ۔ ابن عباس فرماتے ہیں ۔ مِنْ آياتِ اللَّهِ وَالْحِكْمَةِ [ الأحزاب 34] میں حکمت سے ناسخ منسوخ محکم اور متشابہات کا علم مراد ہے ۔- عظیم - وعَظُمَ الشیء أصله : كبر عظمه، ثم استعیر لكلّ كبير، فأجري مجراه محسوسا کان أو معقولا، عينا کان أو معنی. قال : عَذابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ [ الزمر 13] ، قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ [ ص 67] ، - ( ع ظ م ) العظم - عظم الشئی کے اصل معنی کسی چیز کی ہڈی کے بڑا ہونے کے ہیں مجازا ہر چیز کے بڑا ہونے پر بولا جاتا ہے خواہ اس کا تعلق حس سے یو یا عقل سے اور عام اس سے کہ وہ مادی چیز ہو یا مون ی قرآن میں ہے : ۔ عَذابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ [ الزمر 13] بڑے سخت دن کا عذاب ) تھا ۔ قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ [ ص 67] کہہ دو کہ وہ ایک سخت حادثہ ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

قول باری ہے (ام یحسدون الناس علی مااتاھم اللہ من فضلہ) پھر کیا یہ دوسروں سے اس لیے حسد کرتے ہں کہ اللہ نے انہیں اپنے فضل سے نوازا ہے ) حضرت ابن عباس مجاہد ضحاک سدی اور عکرمہ سے مروی ہے کہ یہاں الناس سے مراد صرف رسول اللہ کی ذات اقدس ہے ۔ قتادہ کا قول ہے کہ اس سے مراد عرب کے لوگ ہیں کچھ لوگوں کا قول ہے کہ اس سے مراد حضور اور آپ کے صحابہ ہیں یہ تاویل بہتر ہے کیونکہ خطاب کی ابتداء میں یہود کا ذکر ہے اور یہ لوگ اس سے قبل اپنی کتابوں میں حضور کی بعثت آپ کے اوصاف ، اور آپ کی نبوت کے حالات کے متعلق پڑھا کرتے تھے۔- بلکہ یہ لوگ آخری نبی کی بعثت پر عربوں کو قتل کی دھمکی دیتے تھے اس لیی کہ ان کے خیال میں عرب کے لوگ اس نبی کی پیروی پر تیار ہونے والے نہیں تھے نیزان کا یہ بھی گمان تھا کہ اس نبی کی بعثت بنی اسرائیل میں ہوگی، لیکن جب اللہ نے حضور کی بعثت بنواسماعیل میں کردی تو ان لوگوں نے ایک طرف عربوں سے حسدکرناشروع کردیا اور دوسری طرف حضور کی تکذیب پر کمربستہ ہوگئے اور جن حقائق کا انہیں اپنی کتابوں کے ذریعے علم ہوا تھا ان سے صاف مکر گئے۔- چنانچہ ارشاد باری ہے (وکانوا من قبل یستفحوان علی الذین کفروا فلما جاء ھم ماعرفواکفروبہ) ، باوجودیکہ اس کی آمد سے پہلے وہ خود کفار کے مقابلے میں فتح ونصرت کی دعائیں مانگا کرتے تھے مگر جب وہ چیز آگئی جسے وہ پہچان بھی گئے تو انہوں نے اسے ماننے سے انکار کردیا،۔ نیز ارشاد باری ہے ، (ودکثیر من اھل الکتاب لویردونکم من بعد ایمانکم کفاراحسدا من عند انفسھم، اہل کتاب میں سے اکثر لوگ یہ چاہتے ہیں کہ کسی طرح تمہیں ایمان سے پھیر کر پھر کفر کی طرف پلٹا لے جائیں۔ اپنے نفس کے حسد کی کی بنا پر تمہار لیے ان کی یہ خواہش ہے) ۔- عربوں کے ساتھ یہودیوں کی عداوت اور دشمنی حضور کی بعثت کے وقت سے ہی ظاہرہوگئی تھی ، اس دشمنی کی بنیاد پر اس حسد پر تھی کہ حضور کی بعثت عربوں میں کیوں ہوئی بنی اسرائیل میں کیوں نہیں ہوئی۔ اس تشریح کی روشنی میں آیت کو اس معنی پر محمول کرنا زیادہ واضح ہوگا کہ الناس سے مراد حضور کی ذات اقدس اورآ پ کے صحابہ کرام ہیں اور یہودیوں کو آپ سے اور آپ کے صحابہ کرام سے دوسرے الفاظ میں عربوں سے حسد تھا، حسد اس تمنا کا نام ہے جو کسی شخص سے اس کی نعمت چھن جانے کے لیے کی جائے۔- اسی بنا پر مقولہ ہے ، تم ہر شخص کو راضی کرسکتے ہو لیکن حاسد کو راضی نہیں کرسکتے کیونکہ وہ تو صرف نعمت کے زوال اور اس کے چھن جانے پر ہی راضی ہوسکتا ہے ، حسد کے مقابلے میں غبطہ مذموم نہیں ہے جس میں کسی نعمت کی تمنا کی جائے لیکن دوسرے سے اس نعمت کے چھن جانے کی کو اہش کا پہلوا نہ ہوبل کہ اس کے ہاں اس نعمت کی بقاء پر اس تمنا کرنے والے کو خوشی اور سرور محسوس ہوتا ہو۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٥٤ (اَمْ یَحْسُدُوْنَ النَّاسَ عَلٰی مَآاٰتٰٹہُمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ ج) - دراصل یہ سب اس حسد کا نتیجہ ہے جو یہ مسلمانوں سے رکھتے ہیں کہ اللہ نے ان امیین میں اپنا آخری نبی ‘ بھیج دیا اور انہیں اپنی آخری کتاب عطا فرما دی جنہیں یہ حقیر سمجھتے تھے۔ اب یہ اس حسد کی آگ میں جل رہے ہیں۔ - (فَقَدْ اٰتَیْنَآ اٰلَ اِبْرٰہِیْمَ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَاٰتَیْنٰہُمْ مُّلْکًا عَظِیْمًا) ۔- یعنی تمہیں بھی اگر تورات اور انجیل ملی تھی تو ابراہیم (علیہ السلام) کی نسل ہونے کے ناتے سے ملی تھی ‘ تو یہ جو اسماعیل ( علیہ السلام) کی نسل ہے یہ بھی تو ابراہیم (علیہ السلام) ہی کی نسل ہے۔ ہاں بنی اسرائیل کو کتاب اور حکمت علیحدہ علیحدہ ملی۔ تورات کتاب تھی اور انجیل حکمت تھی ‘ جبکہ یہاں کتاب اور حکمت اللہ تعالیٰ نے ایک ہی جگہ پر قرآن میں بتمام و کمال جمع کردی ہیں۔ مزید برآں جیسے ان کو ملک عظیم دیا تھا ‘ اب ہم ان مسلمانوں کو اس سے بڑا ملک دیں گے۔ یہ مضمون سورة النور میں آئے گا : (لَیَسْتَخْلِفَنَّھُمْ فِی الْاَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ ) (آیت ٥٥) ہم ‘ لازماً ان اہل ایمان کو دنیا میں حکومت اور خلافت عطا کریں گے جیسے ان سے پہلوں کو عطا کی تھی۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :85 یعنی یہ اپنی نااہلی کے باوجود اللہ کے جس فضل اور جس انعام کی آس خود لگائے بیٹھے تھے ، اس سے جب دوسرے لوگ سرفراز کر دیے گئے اور عرب کے امیوں میں ایک عظیم الشان نبی کے ظہور سے وہ روحانی و اخلاقی اور ذہنی و عملی زندگی پیدا ہوگئی جس کا لازمی نتیجہ عروج و سربلندی ہے ، تو اب یہ اس پر حسد کر رہے ہیں اور یہ باتیں اسی حسد کی بنا پر ان کے منہ سے نکل رہی ہیں ۔ سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :86 ”ملک عظیم“ سے مراد دنیا کی امامت و رہنمائی اور اقوام عالم پر قائدانہ اقتدار ہے جو کتاب اللہ کا علم پانے اور اس علم و حکمت کے مطابق عمل کرنے سے لازماً حاصل ہوتا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

39: یعنی اﷲ تعالیٰ اپنی حکمت کے تحت جس کو مناسب سمجھتا ہے نبوت اور خلافت وحکومت کے اعزاز سے سرفراز فرماتا ہے، چنانچہ اس نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو نبوّت وحکمت عطا فرمائی اور ان کی اولاد میں یہ سلسلہ جاری رکھا۔ چنانچہ ان میں سے بعض (مثلا حضرت داود اور سلیمان علیہما السلام) نبی ہونے کے ساتھ حکمران بھی بنے۔ اب تک ان کے ایک صاحبزادے (حضرت یعقوب علیہ السلام) کی اولاد میں نبوّت و حکومت کا سلسلہ جاری رہا ہے۔ اب اگر ان کے دوسرے صاحب زادے (حضرت اسماعیل علیہ السلام) کی اولاد میں حضرت محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم کو یہ اعزاز بخش دیا گیا ہے تو اس میں اعتراض یا حسد کی کیا بات ہے؟