Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

طاقتور اور متحد ہو کر زندہ رہو اللہ رب العزت مسلمانوں کو حکم دیتا ہے کہ وہ ہر وقت اپنے بچاؤ کے اسباب تیار رکھیں ہر وقت ہتھیار بند رہیں تاکہ دشمن ان پر با آسانی کامیاب نہ ہو جائے ۔ ضرورت کے ہتھیار تیار رکھیں اپنی تعداد بڑھاتے رہیں قوت مضبوط کرتے رہیں منظم مردانہ وار جہاد کے لئے بیک آواز اٹھ کھڑے ہوں چھوٹے چھوٹے لشکروں میں بٹ کر یا متحدہ فوج کی صورت میں جیسا موقعہ ہو آواز سنتے ہی ہوشیار رہیں کہ منافقین کی خصلت ہے کہ خود بھی اللہ تعالیٰ کی راہ سے جی چرائیں اور دوسروں کو بھی بزدل بنائیں ، جیسے عبداللہ بن ابی بن سلول سردار منافقین کا فعل تھا اللہ تعالیٰ اسے رسوا کرے اس کا کردار یہ تھا کہ اگر حکمت الہیہ سے مسلمانوں کو دشمنوں کے مقابلہ میں کامیابی نہ ہوتی دشمن ان پر چھا جاتا انہیں نقصان پہنچاتا ان کے آدمی شہید ہوتے تو یہ گھر بیٹھا خوشیاں مناتا اور اپنی دانائی پر اکڑتا اور اپنا اس جہاد میں شریک نہ ہونا اپنے حق میں اللہ تعالیٰ کا انعام قرار دیتا لیکن بےخبر یہ نہیں سمجھتا کہ جو اجر و ثواب ان مجاہدین کو ملا اس سب سے یہ بد نصیب یک لخت محروم رہا اگر یہ بھی ان میں شامل ہو یا تو غازی کا درجہ پاتا اپنے صبر کے ثواب سمیٹتا یا شہادت کے بلند مرتبے تک پہنچ جاتا ، اور اگر مسلمان مجاہدین کا اللہ کا فضل معاون ہوتا یعنی یہ دشمنوں پر غالب آ جاتے ان کی فتح ہوتی دشمنوں کو انہوں نے پامال کیا اور مال غنیمت لونڈی غلام لے کر خیر عافیت ظفر اور نصرت کے ساتھ لوٹتے تو یہ انگاروں پر لوٹتا اور ایسے لمبے لمبے سانس لے کر ہائے وائے کرتا ہے اور اس طرح پچھتاتا ہے اور ایسے کلمات زبان سے نکالتا ہے گویا یہ دین تمہارا نہیں بلکہ اس کا دین ہے اور کہتا افسوس میں ان کے ساتھ نہ ہوا ورنہ مجھے بھی حصہ ملتا اور میں بھی لونڈی ، غلام ، مال ، متاع والا بن جاتا الغرض دنیا پر ریجھا ہوا اور اسی پر مٹا ہوا ہے ۔ پس اللہ کی راہ میں نکل کھڑے ہونے والے مومنوں کو چاہیے کہ ان سے جہاد کریں جو اپنے دین کو دنیا کے بدلے فروخت کر رہے ہیں اپنے کفر اور عدم ایمان کے باعث اپنی آخرت کو برباد کر کے دنیا بناتے ہیں ۔ سنو اللہ کی راہ کا مجاہد کبھی نقصان نہیں اٹھاتا اس کے دونوں ہاتھوں میں لڈو ہیں قتل کیا گیا تو اجر موجود غالب رہا تو ثواب حاضر ۔ بخاری مسلم میں ہے کہ اللہ کی راہ کے مجاہد کا ضامن خود اللہ عزوجل ہے یا تو اس فوت کر کے جنت میں پہنچائے گا جس جگہ سے وہ چلا ہے وہیں اجر و غنیمت کے ساتھ صیح سالم واپس لائے گا فالحمد اللہ ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

71۔ 1 حِذْرَکُمْ (اپنا بچاؤ اختیار کرو) اسلحہ اور سامان جنگ اور دیگر ذرائع سے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٠٠] جنگ احد کے بعد مسلمانوں کی حالت اور احکام :۔ یہ آیت اس دور میں نازل ہوئی جب مسلمان میدان احد میں ایک دفعہ شکست سے دو چار ہوچکے تھے اور ابو سفیان نے واپسی کے وقت اپنے خطبہ میں اپنی کامیابی کا اعلان بھی کیا تھا۔ جس کا اثر یہ ہوا کہ یہودیوں، منافقوں اور مدینہ کے اردگرد پھیلے ہوئے قبائل کے حوصلے بڑھ گئے اور اسلام دشمنی میں اپنی کوششیں تیز تر کردی تھیں۔ بسا اوقات ایسی خبریں آتیں کہ اب فلاں قبیلہ جنگ کی تیاریاں کر رہا ہے اور اب فلاں قبیلہ مسلمانوں پر چڑھائی کے لیے مدینہ کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اسی دور میں مسلمانوں سے پے در پے غداریاں بھی کی گئیں۔ ان کے مبلغین کو فریب سے دعوت دی جاتی اور قتل کردیا جاتا تھا اور مدینہ کی حدود سے باہر مسلمانوں کا جان و مال محفوظ نہ تھا۔ اور مدینہ پر ہر وقت خوف و ہراس طاری رہتا تھا۔ تو ان حالات میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ہدایت فرمائی کہ ایک تو ہر وقت محتاط اور چاک و چوبند رہو اور اپنے ہتھیار اپنے پاس رکھا کرو۔ دوسرے اکا دکا سفر نہ کیا کرو بلکہ جب کسی سفر پر نکلنا ہو تو دستوں کی شکل میں یا سب اکٹھے مل کر نکلا کرو۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اوپر کی آیات میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت کا حکم فرمایا اور اس کی ترغیب کے سلسلہ میں یہ بھی بتایا کہ اس اطاعت سے انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین کی رفاقت حاصل ہوگی۔ اب اس آیت میں جہاد کا حکم فرمایا، جو سب سے مشکل اطاعت ہے اور کفار و منافقین سے پورا بچاؤ رکھنے کا حکم دیا اور فرمایا کہ حالات کے مطابق الگ الگ دستوں یا اکٹھے لشکر کی صورت نکلنے میں سے جو بہتر ہو اختیار کرو۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - اے ایمان والو (کافروں کے مقابلہ میں) اپنی تو احتیاط رکھو (یعنی ان کے داؤ گھات سے بھی ہوشیار رہو اور مقاتلہ کے وقت سامان، ہتھیار ڈھال اور تلوار سے بھی درست رہو) پھر (ان سے مقاتلہ کے لئے) متفرق طور پر یا مجتمع طور پر (جیسا موقع ہو) نکلو اور تمہارے مجمع میں (جس میں بعض منافقین بھی شامل ہو رہے ہیں) کوئی شخص ایسا ہے (مراد اس سے منافق ہے) جو (جہاد سے) ہٹا ہے (یعنی جہاد میں شریک نہیں ہوتا) پھر اگر تم کو کوئی حادثہ پہنچ گیا (جیسے شکست وغیرہ) تو (اپنے نہ جانے پر خوش ہو کر) کہتا ہے بیشک اللہ تعالیٰ نے مجھ پر بڑا فضل کیا کہ میں ان لوگوں کے ساتھ لڑائی میں حاضر نہیں ہوا نہیں تو مجھ پر بھی مصیبت آتی) اور اگر تم پر اللہ تعالیٰ کا فضل ہوجاتا ہے (یعنی فتح و غنیمت) تو ایسے طور پر (خود غرضی کے ساتھ) کہ گویا تم میں اور اس میں کچھ تعلق ہی نہیں (مال کے فوت ہونے پر تاسف کر کے) کہتا ہے ہائے کیا خوب ہوتا کہ میں بھی لوگوں کا شریک حال ہوتا (یعنی جہاد میں جاتا) تو مجھ کو بھی بڑی کامیابی ہوتی (کہ مال و دولت لاتا اور خود غرضی اور بےتعلقی اس کہنے سے ظاہر ہے ورنہ جس سے تعلق ہوتا ہے اس کی کامیابی پر بھی تو خوش ہوتے ہیں، یہ نہیں کہ اپنا افسوس کرنے بیٹھ جائے اور اس کی خوشی کا نام بھی نہ لے، اللہ تعالیٰ اس شخص کے حق میں فرماتے ہیں کہ بڑی کامیابی مفت نہیں ملتی اگر اس کا طالب ہے) تو ہاں اس شخص کو چاہئے کہ اللہ کی راہ میں (یعنی اعلاء کلمتہ اللہ کی نیت سے جو کہ موقوف ہے ایمان و اخلاق پر یعنی مسلمان و مخلص بن کر) ان (کافر) لوگوں سے لڑے جو آخرت (چھوڑ کر اس) کے بدلے دنیوی زندگی کو اختیار کئے ہوئے ہیں (یعنی اس شخص کو اگر فوز عظیم کا شوق ہے تو دل درست کرلے ہاتھ پاؤں ہلائے، مشقت جھیلے، تیغ وسنان کے سامنے سینہ سپر بنے دیکھو فوز عظیم ہاتھ آتا ہے یا نہیں، اور یوں کیا کوئی دل لگی ہے، پھر جو شخص اتنی مصیبت جھیلے سچی کامیابی اس کی ہے، کیونکہ دنیا کی کامیابی اول تو حقیر، پھر کبھی ہے کبھی نہیں، کیونکہ اگر غالب آگئے تو ہے ورنہ نہیں) اور (آخرت کی کامیابی جو کہ ایسے شخص کے لئے موعود ہے ایسی ہے کہ عظیم بھی اور پھر ہر حالت میں ہے کیونکہ اس کا قانون یہ ہے کہ) جو شخص اللہ کی راہ میں لڑے گا پھر خواہ (مغلوب ہوجائے حتی کہ) جان (ہی) سے مارا جائے یا غالب آجائے ہم (٢ ر حالت میں) اس کو (آخرت کا) اجر عظیم دیں گے (جو کہ فوز عظیم کہنے کے لائق ہے۔ )- ربط آیات :۔ اس سے قبل اللہ اور رسول کی اطاعت کا ذکر تھا، آگے ان آیات سے فرمانبرداروں کو احیاء دین اور اعلاء کلمتہ اللہ کے لئے جہاد کا حکم دیا گیا ہے۔ (قرطبی)- معارف ومسائل - فوائد مہمہ :۔ یایھا الذین امنواخذوا احذرکم الخ اس آیت کے پہلے حصہ میں جہاد کرنے کے لئے اسلحہ کی فراہمی کا حکم دیا گیا اور دوسرے حصہ میں اقدام جہاد کا اس سے ایک بات تو یہ معلوم ہوئی جس کو متعدد مقامات پر واضح کیا گیا ہے کہ ظاہری اسباب کو اختیار کرنا توکل کے منافی نہیں ہے۔- دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ یہاں اسلحہ کی فراہمی کا حکم تو دے دیا گیا، لیکن یہ وعدہ نہیں کیا گیا کہ اس کی وجہ سے تم یقیناً ضرور محفوظ ہی رہو گے، اس سے اشارہ اس بات کی طرف کردیا گیا کہ اسباب کا اختیار کرنا صرف اطمینان قلبی کے لئے ہوتا ہے، ورنہ ان میں فی نفسہ نفع و نقصان کی کوئی تاثیر نہیں ہے، جیسے ارشاد ہے :- ” یعنی اے نبی آپ کہہ دیجئے کہ ہم کو کوئی تکلیف نہیں پہنچے گی مگر وہی جو ہمارے لئے مقدر ہوچکی ہے۔ “- ١۔ اس آیت میں پہلے تو جہاد کی تیاری کا حکم دے دیا گیا، اس کے بعد اس کے لئے نکلنے کا نظم بتلایا گیا، جس کے لئے دو جملے ذکر کئے گئے یعنی فانفروا ثبات اوا نفرواجمعاً ثبات، ثبتہ کی جمع ہے، جس کے معنے چھوٹی سی جماعت کے ہیں، جس کو فوجی دستہ (سریہ) کہتے ہیں، یعنی اگر تم جہاد کے لئے نکلو تو اکیلے اور تنہا نہ نکلو، بلکہ چھوٹی چھوٹی جماعتوں کی شکل میں نکلو یا ایک کثیر (جمعاً ) لشکر کی صورت میں جاؤ کیونکہ اکیلے لڑنے کے لئے جانے میں نقصان کا قوی احتمال ہوتا ہے اور دشمن ایسے موقع سے پورا پورا فائدہ اٹھا لیتا ہے۔- یہ تعلیم تو جہاد کے موقع کے لئے مسلمانوں کو دی گئی ہے، لیکن عام حالات میں بھی شریعت کی یہی تعلیم ہے کہ اکیلے سفر نہ کیا جائے، چناچہ ایک حدیث میں تنہا مسافر کو ایک شیطان کہا گیا اور دو مسافروں کو دو شیطان اور تین کو جماعت فرمایا گیا۔- ” یعنی بہترین ساتھی چار ہیں اور بہترین فوجی دستہ چار سو کا ہے اور بہترین لشکر چار ہزار کا ہے۔ “

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا خُذُوْا حِذْرَكُمْ فَانْفِرُوْا ثُبَاتٍ اَوِ انْفِرُوْا جَمِيْعًا۝ ٧١- أیمان - يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ( ا م ن ) - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ - أخذ - الأَخْذُ : حوز الشیء وتحصیله، وذلک تارةً بالتناول نحو : مَعاذَ اللَّهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنا مَتاعَنا عِنْدَهُ [يوسف 79] ، وتارةً بالقهر نحو قوله تعالی: لا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلا نَوْمٌ [ البقرة 255] - ( اخ ذ) الاخذ - ۔ کے معنی ہیں کسی چیز کو حاصل کرلینا جمع کرلینا اور احاطہ میں لے لینا اور یہ حصول کبھی کسی چیز کو پکڑلینے کی صورت میں ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ مَعَاذَ اللهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنَا مَتَاعَنَا عِنْدَهُ ( سورة يوسف 79) خدا پناہ میں رکھے کہ جس شخص کے پاس ہم نے اپنی چیز پائی ہے اس کے سو اہم کسی اور پکڑ لیں اور کبھی غلبہ اور قہر کی صورت میں جیسے فرمایا :۔ لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ ( سورة البقرة 255) نہ اس پر اونگھ غالب آسکتی اور نہ ہ نیند ۔ محاورہ ہے ۔- حذر - الحَذَر : احتراز من مخیف، يقال : حَذِرَ حَذَراً ، وحذرته، قال عزّ وجل : يَحْذَرُ الْآخِرَةَ [ الزمر 9] ، وقرئ : وإنّا لجمیع حَذِرُون، وحاذِرُونَ 3» ، وقال تعالی: وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ- [ آل عمران 28] ، وقال عزّ وجل : خُذُوا حِذْرَكُمْ [ النساء 71] ، أي : ما فيه الحذر من السلاح وغیره، وقوله تعالی: هُمُ الْعَدُوُّ فَاحْذَرْهُمْ [ المنافقون 4] ، وقال تعالی:- إِنَّ مِنْ أَزْواجِكُمْ وَأَوْلادِكُمْ عَدُوًّا لَكُمْ فَاحْذَرُوهُمْ [ التغابن 14] ، وحَذَارِ ، أي : احذر، نحو :- مناع، أي : امنع .- ( ح ذ ر) الحذر ( س) خوف زدہ کرنے والی چیز سے دور رہنا کہا جاتا ہے حذر حذرا وحذرتہ میں اس سے دور رہا ۔ قرآن میں ہے :۔ يَحْذَرُ الْآخِرَةَ [ الزمر 9] آخرت سے ڈرتا ہو ۔ وإنّا لجمیع حَذِرُون، وحاذِرُونَاور ہم سب باسازو سامان ہیں ۔ ایک قرآت میں حذرون ہے هُمُ الْعَدُوُّ فَاحْذَرْهُمْ [ المنافقون 4] یہ تمہاری دشمن میں ان سے محتاط رہنا ۔ إِنَّ مِنْ أَزْواجِكُمْ وَأَوْلادِكُمْ عَدُوًّا لَكُمْ فَاحْذَرُوهُمْ [ التغابن 14] تمہاری عورتوں اور اولاد میں سے بعض تمہارے دشمن ( بھی ) ہیں سو ان سے بچتے رہو۔ حذر ۔ کسی امر سے محتاط رہنے کے لئے کہنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران 28] اور خدا تم کو اپنے ( غضب ) سے محتاط رہنے کی تلقین کرنا ہے الحذر بچاؤ ۔ اور آیت کریمہ :۔ خُذُوا حِذْرَكُمْ [ النساء 71] جہاد کے لئے ) ہتھیار لے لیا کرو ۔ میں حذر سے مراد اسلحۃ جنگ وغیرہ ہیں جن کے ذریعہ دشمن سے بچاؤ حاصل ہوتا ہے حذار ( اسم فعل بمعنی امر ) بچو جیسے مناع بمعنی امنع - خوف - الخَوْف : توقّع مکروه عن أمارة مظنونة، أو معلومة، كما أنّ الرّجاء والطمع توقّع محبوب عن أمارة مظنونة، أو معلومة، ويضادّ الخوف الأمن، ويستعمل ذلک في الأمور الدنیوية والأخروية . قال تعالی: وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء 57] - ( خ و ف ) الخوف ( س )- کے معنی ہیں قرآن دشواہد سے کسی آنے والے کا خطرہ کا اندیشہ کرنا ۔ جیسا کہ کا لفظ قرائن دشواہد کی بنا پر کسی فائدہ کی توقع پر بولا جاتا ہے ۔ خوف کی ضد امن آتی ہے ۔ اور یہ امور دنیوی اور آخروی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے : قرآن میں ہے : ۔ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء 57] اور اس کی رحمت کے امید وار رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے خوف رکھتے ہیں ۔ - نفر - النَّفْرُ : الانْزِعَاجُ عن الشیءِ وإلى الشیء، کالفَزَعِ إلى الشیء وعن الشیء . يقال : نَفَرَ عن الشیء نُفُوراً. قال تعالی: ما زادَهُمْ إِلَّا نُفُوراً [ فاطر 42] ، وَما يَزِيدُهُمْ إِلَّا نُفُوراً [ الإسراء 41] ونَفَرَ إلى الحربِ يَنْفُرُ ويَنْفِرُ نَفْراً ، ومنه : يَوْمُ النَّفْرِ. قال تعالی: انْفِرُوا خِفافاً وَثِقالًا - [ التوبة 41] ، إِلَّا تَنْفِرُوا يُعَذِّبْكُمْ عَذاباً أَلِيماً [ التوبة 39] ، ما لَكُمْ إِذا قِيلَ لَكُمُ انْفِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ التوبة 38] ، وَما کانَ الْمُؤْمِنُونَ لِيَنْفِرُوا كَافَّةً فَلَوْلا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طائِفَةٌ- [ التوبة 122] . - ( ن ف ر ) النفر - ( عن کے معی کسی چیز سے رو گردانی کرنے اور ( الی کے ساتھ ) کسی کی طرف دوڑنے کے ہیں جیسا کہ نزع کا لفظ الیٰ اور عن دونوں کے ساتھ استعمال ہوتا ہے محاورہ ہے نفر عن الشئی نفورا کسی چیز سے دور بھاگنا ۔ قرآن میں ہے ما زادَهُمْ إِلَّا نُفُوراً [ فاطر 42] تو اس سے ان کی نفرت ہی بڑھی ۔ وَما يَزِيدُهُمْ إِلَّا نُفُوراً [ الإسراء 41] مگر وہ اس سے اور بدک جاتے ہیں ۔ نفر الی الحرب ( ض ن ) نفر لڑائی کیلئے نکلنا اور اسی سی ذی الحجہ کی بار ھویں تاریخ کو یوم النفر کہا جاتا ہے کیوں کہ اس روز حجاج منیٰ سے مکہ معظمہ کو واپس ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے انْفِرُوا خِفافاً وَثِقالًا[ التوبة 41] تم سبکسار ہو یا گراں بار ( یعنی مال واسباب تھوڑا رکھتے ہو یا بہت گھروں سے نکل آؤ ۔ إِلَّا تَنْفِرُوا يُعَذِّبْكُمْ عَذاباً أَلِيماً [ التوبة 39] اگر نہ نکلو گے تو خدا تم کو بڑی تکلیف کا عذاب دے گا ۔ ما لَكُمْ إِذا قِيلَ لَكُمُ انْفِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ التوبة 38] تمہیں کیا ہوا کہ جب تم سے کہا جاتا ہے کہ خدا کی راہ میں جہاد کے لئے نکلو وما کان الْمُؤْمِنُونَ لِيَنْفِرُوا كَافَّةً فَلَوْلا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طائِفَةٌ [ التوبة 122] اور یہ تو ہو نہیں سکتا کہ مومن سب کے سب سب نکل آئیں تو یوں کیوں نہیں کیا کہ ہر ایک جماعت میں سے چند اشخاص نکل جاتے - ثبت - الثَّبَات ضدّ الزوال، يقال : ثَبَتَ يَثْبُتُ ثَبَاتاً ، قال اللہ تعالی: يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذا لَقِيتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوا [ الأنفال 45]- ( ث ب ت ) الثبات - یہ زوال کی ضد ہے اور ثبت ( ن ) ثباتا کے معنی ایک حالت پر جمے رہنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذا لَقِيتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوا [ الأنفال 45] مومنو جب ( کفار کی ) کسی جماعت سے تمہارا مقابلہ ہو تو ثابت قدم رہو ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

جنگ کی تیاری ہر وقت ضروری ہے - قول باری ہے (یا ایھا الذین امنواخذور حذرکم فانفروا ثبات او انفرو جمیعا) اے ایمان والو، مقابلہ کے لیے ہر وقت تیار رہو، پھر جیسا موقع ہو الگ الگ دستوں کی شکل میں نکلوایا اکٹھے ہوکر) ایک قول ہے کہ ثبات کے معنی جماعتوں کے ہیں، اس کا واحد ثبۃ ہے، ایک قول ہے ثبۃ اس ٹولی یادستے کو کہتے ہیں جو دوسری ٹولیوں اور دستوں سے الگ تھلگ ہو، اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو یہ حکم دیا کہ دشمن کے مقابلہ کے لیے الگ الگ دستوں کی شکل میں اس طرح نکلیں کہ ایک دستہ ایک سمت روانہ ہوجائے اور دوسرا دستہ دوسری سمت یا سب مل کر ایک ساتھ نکل پڑیں۔- حضرت ابن عباس ، مجاہد، ضحاک اور قتادہ سے یہی روایت ہے کہ ، قول باری (خذواحذرکم) کے معنی ہیں اپنے اپنے ہتھیار لے لو، ہتھیار کو، حذر، کے نام سے اس لیے موسوم کیا گیا کہ اس کے ذریعے خوف اور ڈر سے بچاؤ حاصل کیا جاتا ہے اس میں یہ معنی ہی محتمل ہے اپنے ہتھار لے کر، اپنے دشمنوں کو خوف زدہ کرو۔ جس طرح قول باری ہے (ولیاخذواحذرھم واسلحتھم) انہیں چاہیے کہ مقابلہ کے لیے تیار رہیں اور اپنااسلحہ لے لیں) ۔- اس آیت میں دشمنوں سے قتال کی غرض سے اسلحہ لے لینے، اور ہتھیار بند ہوجانے اور موقع کی مناسبت سے پھر الگ الگ دستوں کی شکل میں یا اکٹھے ہوکرچل پڑنے کا حکم ہے ، نفور گھبراہٹ کو کہتے ہیں ، جب کوئی شخص گھبرا جائے توکہاجاتا ہے ، نفر نفورا، فلاں شخص گھبرا گیا) ۔ اسی طرح اگر کوئی شخص کسی چیز سے گھبرا کر کسی شخص کی طرف چلاجائے تو اس وقت کہاجاتا ہے (گھبرا کر اس کی طرف چلا گیا) ۔- آیت کا مفہوم ہے ، اپنے دشمنوں سے قتال کرنے کے لیے چل پڑو، نفراس گروہ اور جماعت کو کہتے ہیں جس کی گھبراہٹ کے اندر پناہ حاصل کی جاتی ہے دشمن کے خلاف جنگ کی طرف بلانے کے لیے دی جانے والی صدا کو نفیر کہتے ہیں، فیصلے کے لیے کسی کے پاس جانے کو منافرہ کہتے ہیں کیونکہ معاملات میں اختلاف پیدا ہوجانے کی صورت میں اسی کاسہارا لیاجاتا ہے۔- ایک قول یہ ہے کہ منافرہ کی اصل یہ ہے کہ لوگ حاکم سے جاکرپوچھتے ہیں کہ مجلس اور مجمع میں ہم میں سے کون زیادہ غالب ہے اس آیت کے بارے میں بھی نسخ کی روایت کی گئی ہے ۔ ابن جریج اور عثمان بن عطاء نے حضرت ابن عباس سے قول باری (فانفروا ثبات اونفروا جمیعا) کی تفسیر کے سلسلے میں روایت کی ہے کہ گروہوں اور دستوں کی صورت میں ۔- سورت برات میں ارشاد ہے ، (انفروا خفافا وثقالا، ہلکے پھلکے اور بوجھل چل پڑو) تاآخر آیت ، نیز ارشاد ہے (الاتنفروا یعذبکم عذاباالیما) اگر نہیں نکلو گے تو اللہ تعالیٰ تمہیں دردناک عذاب دے گا) ۔- ابن عباس کا قول ہے کہ درج بالا آیات کو اس قول باری نے منسوخ کردیا (وماکان المومنون لینفروا کافۃ فلو لانفر من کل فرقۃ منھم طائفہ، اہل ایمان کو نہیں چاہیے کہ وہ سب کے سب نکل پڑیں یہ کیوں نہ ہو کہ ہر گروہ میں سے ایک حصہ نکل کھڑا ہوا کرے) اور ایک حصہ حضور کے ساتھ ٹھہرا رہے حضور کی معیت میں رہنے والے لوگ وہ ہوں گے جو دین میں سمجھ بوجھ حاصل کرتے رہیں گے ، اور جب ان کے بھائی غزوات سے واپس آئیں گے توا نہیں اللہ کا خوف دلائیں گے تاکہ وہ بھی اللہ کی کتاب میں نازل ہونے والے احکامات اور حدود کے بارے میں محتاط ہوجائیں۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٧١) ان آیات میں اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو جہاد فی سبیل اللہ کی تعلیم دیتے ہیں کہ اپنے دشمن سے پوری طرح احتیاط رکھو، علیحدہ علیحدہ مت نکلو، بلکہ اکٹھے ہو کر جماعتوں کی شکل میں نکلو یا سب کے سب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ نکلو۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

اب ذکر آ رہا ہے قتال فی سبیل اللہ کا۔ یہ دوسری چیز تھی جو منافقین پر بہت بھاری تھی۔ مادی اعتبار سے یہ بڑا سخت امتحان تھا۔ اطاعت رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) زیادہ تر ایک نفسیاتی مرحلہ تھا ‘ ایک نفسیاتی الجھن تھی ‘ لیکن اپنا مال خرچ کرنا اور اپنی جان کو خطرے میں ڈالنا ایک خالص محسوس مادی شے تھی۔- آیت ٧١ (یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا خُذُوْا حِذْرَکُمْ ) (فَانْفِرُوْا ثُبَاتٍ اَوِ انْفِرُوْا جَمِیْعًا ) - یعنی جیسا موقع ہو اس کے مطابق الگ الگ دستوں کی شکل میں یا اکٹھے فوج کی صورت میں نکلو۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) موقع کی مناسبت سے کبھی چھوٹے چھوٹے گروپ بھیجتے تھے۔ جیسے غزوۂ بدر سے قبل آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آٹھ مہمیں روانہ فرمائیں ‘ جبکہ غزوۂ بدر اور غزوۂ احد میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پوری فوج لے کر نکلے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :101 واضح رہے کہ یہ خطبہ اس زمانہ میں نازل ہوا تھا جب احد کی شکست کی وجہ سے اطراف و نواح کے قبائل کی ہمتیں بڑھ گئیں تھیں اور مسلمان ہر طرف سے خطرات میں گھر گئے تھے ۔ آئے دن خبریں آتی رہتی تھیں کہ فلاں قبیلے کے تیور بگڑ رہے ہیں ، فلاں قبیلہ دشمنی پر آمادہ ہے ، فلاں مقام پر حملہ کی تیاریاں ہو رہی ہیں ۔ مسلمانوں کے ساتھ پے در پے غداریاں کی جا رہی تھیں ۔ ان کے مبلغین کو فریب سے دعوت دی جاتی تھی اور قتل کر دیا جاتا تھا ۔ مدینہ کے حدود سے باہر ان کے لیے جان و مال کی سلامتی باقی نہ رہی تھی ۔ ان حالات میں مسلمانوں کی طرف سے ایک زبردست سعی و جہد اور سخت جاں فشانی کی ضرورت تھی تاکہ ان خطرات کے ہجوم سے اسلام کی یہ تحریک مٹ نہ جائے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani