72۔ 1 یہ منافقین کا ذکر ہے۔ پس و پیش کا مطلب، جہاد میں جانے سے گریز کرتے اور پیچھے رہ جاتے۔
[١٠١] یہ خطاب منافقوں کے لیے ہے اور جنگ کے دوران ان کے کردار کا ذکر کیا گیا ہے۔ یعنی ان میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں جو دیدہ دانستہ اور حیلوں بہانوں سے جہاد پر نکلنے میں دیر کرتے اور پیچھے رہ جانے کی کوشش کرتے ہیں۔ پھر اگر اس سفر جہاد میں مسلمانوں کو کچھ تکلیف پہنچے تو بڑے خوش ہوتے اور کہتے ہیں کہ اللہ کا شکر ہے کہ میں پیچھے رہ گیا۔ ورنہ مجھے بھی وہی دکھ اٹھانا پڑتا جو دوسرے مسلمانوں نے اٹھایا ہے۔
یہ مسلمانوں میں منافقوں کے کردار کا تذکرہ ہے، یعنی ان میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں جو دیدہ و دانستہ اور حیلوں بہانوں سے جہاد پر نکلنے میں دیر کرتے ہیں اور پیچھے رہ جانے کی کوشش کرتے ہیں، پھر اگر اس سفر جہاد میں مسلمانوں کو کچھ تکلیف پہنچے تو بڑے خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اللہ کا شکر ہے کہ میں پیچھے رہ گیا، ورنہ مجھے بھی وہ دکھ اٹھانا پڑتا جو دوسرے مسلمانوں نے اٹھایا ہے اور اگر مسلمانوں کو فتح و خوشی نصیب ہو اور غنیمت کا مال ہاتھ لگے تو حسرت سے کہتے ہیں کہ اگر ہم بھی ان میں شامل ہوتے تو ہمارا بھی کام بن جاتا۔ یہ جملہ وہ اس انداز سے ادا کرتے جیسے پہلے ان کا اور مسلمانوں کا کوئی تعلق تھا ہی نہیں۔ ان دونوں صورتوں میں انھیں محض دنیاوی تکلیف اور دنیاوی مفادات ہی کا احساس ہوتا ہے، اخروی زندگی یا رضائے الٰہی سے انھیں کبھی غرض نہیں ہوتی اور یہی ان کے منافق ہونے اور اللہ اور آخرت پر ایمان نہ رکھنے کی دلیل ہے۔
٢۔ وان منکم الخ اس آیت سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ بھی خطاب مؤمنین سے ہے، حالانکہ آگے جو صفات بیان کی گئی ہیں وہ مؤمنین کی نہیں ہو سکتیں، اس لئے علامہ قرطبی فرماتے ہیں کہ اس سے مراد منافقین ہیں، وہ چونکہ ظاہراً مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتے تھے اس لئے خطاب میں ان کو مؤمنین کی ایک جماعت کہا گیا ہے۔
وَاِنَّ مِنْكُمْ لَمَنْ لَّيُبَطِّئَنَّ ٠ۚ فَاِنْ اَصَابَتْكُمْ مُّصِيْبَۃٌ قَالَ قَدْ اَنْعَمَ اللہُ عَلَيَّ اِذْ لَمْ اَكُنْ مَّعَھُمْ شَہِيْدًا ٧٢- بطؤ - البُطْءُ : تأخر الانبعاث في السیر، يقال : بَطُؤَ وتَبَاطَأَ واستبطأ وأَبْطَأَ ، فَبَطُؤَ إذا تخصص بالبطء، وتَبَاطَأَ تحرّى وتكلّف ذلك، واستبطأ : طلبه، وأَبْطَأَ : صار ذا بطء ويقال : بَطَّأَهُ وأَبْطَأَهُ ، وقوله تعالی: وَإِنَّ مِنْكُمْ لَمَنْ لَيُبَطِّئَنَّ [ النساء 72] أي : يثبّط غيره .- وقیل : يكثر هو التثبط في نفسه، والمقصد من ذلک أنّ منکم من يتأخر ويؤخّر غيره .- ( ب ط ء ) البطوء ( ک) کے معنی چلنے میں دیر لگانے اور سستی کرنے کے ہیں اور یہ باب کرم وتفاعل واستفعال وافعال سے استعمال ہوتا ہے ۔ لیکن بطوء ( ک ) کے معنی اس وقت بولتے ہیں جب دیر لگانے کا عادی ہوجائے اور تباطاء کے معنی میں بتکلف دیر کرنا اور اسنقعال میں طلب کے معنی پائے جاتے ہیں ۔ ائطاء ( افعال ) سست رفتاری کے ساتھ متصف ہونا ۔ نیز بطاءہ وابطاہ ( متعدی ) موخر کرنا اور آیت کریمہ : وَإِنَّ مِنْكُمْ لَمَنْ لَيُبَطِّئَنَّ [ النساء 72] اور تم ہیں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو ( عمدا ) دیر لگاتے ہیں ۔ میں لیبطئن کے معنی دوسروں سے دیر لگوانا کسے ہیں اور بعض نے اس کے معنی بہت زیادہ سستی کرنا بھی لکھے ہیں حاصل یہ ہے حاصل یہ ہے کہ بعض تم میں سے خود بھی دیر لگاتے ہیں اور دوسروں سے بھی دیر لگواتے ہیں ۔- ( صاب) مُصِيبَةُ- والمُصِيبَةُ أصلها في الرّمية، ثم اختصّت بالنّائبة نحو : أَوَلَمَّا أَصابَتْكُمْ مُصِيبَةٌ قَدْ أَصَبْتُمْ مِثْلَيْها[ آل عمران 165] ، فَكَيْفَ إِذا أَصابَتْهُمْ مُصِيبَةٌالنساء 62] ، وَما أَصابَكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ [ آل عمران 166] ، وَما أَصابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِما كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ [ الشوری 30] ، وأصاب : جاء في الخیر والشّرّ. - مصیبۃ اصل میں تو اس تیر کو کہتے ہیں جو ٹھیک نشانہ پر جا کر بیٹھ جائے اس کے بعد عرف میں ہر حادثہ اور واقعہ کے ساتھ یہ لفظ مخصوص ہوگیا ہے قرآن پاک میں ہے : ۔ أَوَلَمَّا أَصابَتْكُمْ مُصِيبَةٌ قَدْ أَصَبْتُمْ مِثْلَيْها[ آل عمران 165]( بھلا یہ ) کیا بات ہے کہ ) جب ( احد کے دن کفار کے ہاتھ سے ) تم پر مصیبت واقع ہوئی حالانکہ ( جنگ بدر میں ) اس سے دو چند مصیبت تمہارے ہاتھ سے انہیں پہنچ چکی تھی ۔ فَكَيْفَ إِذا أَصابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ [ النساء 62] تو کیسی ( ندامت کی بات ہے کہ جب ان پر کوئی مصیبت واقع ہوتی ہے ۔ وَما أَصابَكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ [ آل عمران 166] اور جو مصیبت تم پر دونوں جماعتوں کے مابین مقابلہ کے دن واقع ہوئی ۔ وَما أَصابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِما كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ [ الشوری 30] اور جو مصیبت تم پر واقع ہوتی ہے سو تمہارے اپنے اعمال سے ۔ اور اصاب ( افعال ) کا لفظ خیرو شر دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ - ( قَدْ )- : حرف يختصّ بالفعل، والنّحويّون يقولون : هو للتّوقّع . وحقیقته أنه إذا دخل علی فعل ماض فإنما يدخل علی كلّ فعل متجدّد، نحو قوله : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف 90] - وإذا دخل ( قَدْ ) علی المستقبَل من الفعل فذلک الفعل يكون في حالة دون حالة .- نحو : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور 63] ، أي : قد يتسلّلون أحيانا فيما علم اللہ .- و ( قَدْ ) و ( قط) يکونان اسما للفعل بمعنی حسب، يقال : قَدْنِي كذا، وقطني كذا، وحكي : قَدِي . وحكى الفرّاء : قَدْ زيدا، وجعل ذلک مقیسا علی ما سمع من قولهم : قدني وقدک، والصحیح أنّ ذلک لا يستعمل مع الظاهر، وإنما جاء عنهم في المضمر .- ( قد ) یہ حرف تحقیق ہے اور فعل کے ساتھ مخصوص ہے علماء نحو کے نزدیک یہ حرف توقع ہے اور اصل میں جب یہ فعل ماضی پر آئے تو تجدد اور حدوث کے معنی دیتا ہے جیسے فرمایا : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف 90] خدا نے ہم پر بڑا احسان کیا ہے اگر ، ، قد فعل مستقل پر داخل ہو تو تقلیل کا فائدہ دیتا ہے یعنی کبھی وہ فعل واقع ہوتا ہے اور کبھی واقع نہیں ہوتا اور آیت کریمہ : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور 63] خدا کو یہ لوگ معلوم ہیں جو تم میں سے آنکھ بچا کر چل دیتے ہیں ۔ کی تقدیریوں ہے قد یتسللون احیانا فیما علم اللہ ( تو یہ بہت آیت بھی ماسبق کی طرح موؤل ہوگی اور قد کا تعلق تسلل کے ساتھ ہوگا ۔ قدوقط یہ دونوں اسم فعل بمعنی حسب کے آتے ہیں جیسے محاورہ ہے قد فی کذا اوقطنی کذا اور قدی ( بدون نون وقایہ ا کا محاورہ بھی حکایت کیا گیا ہے فراء نے قدنی اور قدک پر قیاس کرکے قدر زید ا بھی حکایت کیا ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ قد ( قسم فعل اسم ظاہر کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا بلکہ صرف اسم مضمر کے ساتھ آتا ہے ۔- نعم - النِّعْمَةُ : الحالةُ الحسنةُ ، وبِنَاء النِّعْمَة بِناء الحالةِ التي يكون عليها الإنسان کالجِلْسَة والرِّكْبَة، والنَّعْمَةُ : التَّنَعُّمُ ، وبِنَاؤُها بِنَاءُ المَرَّة من الفِعْلِ کا لضَّرْبَة والشَّتْمَة، والنِّعْمَةُ للجِنْسِ تقال للقلیلِ والکثيرِ. قال تعالی: وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها[ النحل 18] - ( ن ع م ) النعمۃ - اچھی حالت کو کہتے ہیں ۔ اور یہ فعلۃ کے وزن پر ہے جو کسی حالت کے معنی کو ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے جیسے : ۔ جلسۃ ورکبۃ وغیرہ ذالک ۔ اور نعمۃ کے معنی تنعم یعنی آرام و آسائش کے ہیں اور یہ فعلۃ کے وزن پر ہے جو مرۃ ہے جو مرۃ کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے : ۔ ضر بۃ وشتمۃ اور نعمۃ کا لفظ اسم جنس ہے جو قلیل وکثیر کیلئے استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها[ النحل 18] اور اگر خدا کے احسان گننے لگو تو شمار نہ کرسکو ۔
(٧٢) نیزاہل ایمان کے اندر عبداللہ بن ابی منافق جیساشخص بھی ہے، جس کو جہاد فی سبیل اللہ کے لیے نکلنا بہت مشکل ہے اور وہ تمہاری پریشانیوں کا ہر وقت منتظر رہتا ہے، اگر مسلمانوں کے لشکر کو کوئی حادثہ اور شکست وغیرہ پیش آتی ہے تو وہ کہتا ہے کہ اللہ کی طرف سے مجھ پر بڑا احسان ہوا کہ میں اس لشکر میں شریک نہیں تھا۔
آیت ٧٢ (وَاِنَّ مِنْکُمْ لَمَنْ لَّیُبَطِّءَنَّ ج) - حکم ہوگیا ہے کہ جہاد کے لیے نکلنا ہے ‘ فلاں وقت کوچ ہوگا ‘ لیکن وہ تیاری میں ڈھیل برت رہے ہیں اور پھر بہانہ بنا دیں گے کہ بس ہم تو تیاری کر ہی رہے تھے اب نکلنے ہی والے تھے۔ اور وہ منتظر رہتے ہیں کہ جنگ کا فیصلہ ہوجائے تو اس وقت ہم کہیں گے کہ ہم بس نکلنے ہی والے تھے کہ یہ فیصلہ ہم کو پہنچ گیا۔- (فَاِنْ اَصَابَتْکُمْ مُّصِیْبَۃٌ) - اگر جنگ کے لیے نکلنے والے مسلمانوں کو کوئی تکلیف پیش آجائے ‘ کوئی گزند پہنچ جائے ‘ وقتی طور پر کوئی ہزیمت ہوجائے۔
سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :102 ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ خود تو جی چراتا ہے ، دوسروں کی بھی ہمتیں پست کرتا ہے اور ان کو جہاد سے روکنے کے لیے ایسی باتیں کرتا ہے کہ وہ بھی اسی کی طرح بیٹھ رہیں ۔